Pages

Saturday 1 January 2011

Al Risala | January 2011 (الرسالہ،جنوری)

2

-ہدایت کا اصول

3

- ذلت او ر مسکنت

4

- امتِ محمدی کی حیثیت

5

- مُقری کا رول

7

- سیاسی حقیقت پسندی

8

- دعاء کیا ہے

9

- دعوت کاحوصلہ

10

- لڑ کر مر جانااسلام نہیں

11

- امن کی طاقت زیادہ

12

- سچائی کی تلاش

13

- مغرب میں بسنے والے مسلمان

14

- طبقۂ عوام، طبقۂ خواص

15

- دعوت اور اصلاح کا فرق

16

- تاریخِ بشری کے پانچ دور

20

- عظیم ترین انقلاب

21

- تعارفِ قرآن

30

- مسئلہ کا حل

33

- مال کی حقیقت

34

- امریکا: دوست یا دشمن

35

- صلاحیت کے بغیر اقدام

36

- تیسرا آپشن نہیں

37

- ذہنی ارتقاء

38

- تاریخ کا قانون

39

- سوال وجواب

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز


ہدایت کا اصول

قرآن کی سورہ الانفال میں ارشاد ہوا ہے: ولو علم اللہ فیہم خیراً لأسمعہم، ولو أسمعہم لتولّوا وہم معرضون(8: 23) یعنی اگر اللہ جانتا اُن میں کچھ بھلائی تو وہ ضرور اُن کو سنا دیتا، اور اگر وہ اب اُن کو سنادے تو وہ ضرور بھاگیں گے منہ پھیر کر:
If God had found any good in them, He would certainly have made them hear; they will turn away in aversion. (8: 23)
قرآن کی اِس آیت میں جو بات اللہ کی نسبت سے کہی گئی ہے، وہ در اصل انسان کی نسبت سے ہے۔ اِس آیت میں ہدایت ملنے یا نہ ملنے کا اصول بتایا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہدایت عملی طور پر ہر ایک کے سامنے آتی ہے، لیکن اس کی قبولیت کا تعلق ہمیشہ طلبِ حق سے ہوتا ہے۔ جو شخص پہلے سے طالب (seeker)ہو، وہ فوراً ہدایت کو پہچان لیتا ہے اور اس کو دل سے قبول کرلیتا ہے۔
لیکن جس آدمی کے اندر طلب کا گہرا جذبہ موجود نہ ہو، وہ ہدایت کو پہچاننے میںناکام رہے گا، اس کا کنفیوژن اس کے لیے ہدایت کو قبول کرنے میں مانع بن جائے گیا۔
ہدایت کا سارا معاملہ سچی طلب پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر آدمی کے اندر سچی طلب موجودنہ ہو تو ہدایت اس کے سامنے آئے گی، لیکن کسی نہ کسی عذر کی بنا پر وہ اس کو قبول کرنے سے محروم رہے گا۔
طلب اگرچہ ایک فطری چیز ہے، لیکن آدمی ایساکرتا ہے کہ وہ حق کے سوا دوسری چیزوں کو اہمیت دینے لگتا ہے، مثلاً ذاتی یا قومی مصلحتوں کو۔ یہ مزاج آدمی کے اوپر اِس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ حق کو بے آمیز صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔
یہ صورت حال اس کو کنفیوژن میں مبتلا کردیتی ہے ، اور کنفیوژن بلا شبہہ قبول حق میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے— حق کا سچا طالب وہ ہے جو اِس سے پہلے غیر ِ حق کی نفی کرچکا ہو۔ یہی انسان حق کا طالب ہے اور ایسے ہی انسان کو خدا کی طرف سے حق کی توفیق ملتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذلت او ر مسکنت

قرآن کی سورہ البقرہ میں یہود کے حوالے سے ایک قانونِ فطرت بتایاگیا ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: ضُربت علیہم الذلۃ والمسکنۃ وباؤوا بغضب من اللّٰہ(2: 61) یعنی اُن پر ذلت اور مسکنت ڈال دی گئی اور وہ غضب الٰہی کے مستحق ہوگئے۔
قرآن کی اِس آیت میں ’’ذلت اور مسکنت‘‘ کا لفظ نفسیاتی معنی میں ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب کہ آدمی بظاہر ذلیل نہ ہو، اس کے باوجود وہ اپنی داخلی نفسیات کی بنا پر اپنے آپ کو ذلیل محسوس کرے۔ وہ بظاہر محتاج نہ ہو، لیکن اِس کے باوجود وہ اپنی داخلی نفسیات کی بنا پر اپنے آپ کو محتاج محسوس کرے ۔قرآن کی مذکورہ آیت میں اُن کی اِسی نفسیاتی حالت کا ذکر ہے، نہ کہ اُن کی واقعی حالت کا۔
یہ نفسیاتی حالت اُس قوم کے اندر پیدا ہوجاتی ہے جو اپنے عقیدے اور اپنی تاریخ کی بنا پر اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھنے لگے، جس کے یہاں اعتقادی طورپرخیر الملل اور افضل الامم کا تصور پایا جاتا ہو۔ اِسی کے ساتھ وہ اپنی گزشتہ تاریخ کی بنا پر عظمتِ رفتہ (past glory) کی یادوں میں جینے والی ہو۔ جو قوم اِس نفسیات میں مبتلا ہو، اس کے اندر فرضی فخر (false pride) کا ذہن بن جاتاہے، اور یہی فرضی فخر ہے جس کی بنا پر نفسیاتی ذلت اور نفسیاتی مسکنت کا ذہن کسی قوم میں پیدا ہوجاتا ہے۔
فرضی فخر کی یہ نفسیات نمایاں طور پر دو مذہبی گروہوں میں پیدا ہوئی— ایک، یہود اور دوسرے، مسلمان۔ پہلے زمانے میں یہود اِس نفسیات میں مبتلا ہوئے تھے اور موجودہ زمانے میں مسلمان اِس نفسیات کا شکار ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمان ایک بلین سے زیادہ ہیں، 57 ملکوں میں ان کی حکومت ہے۔ مادی اعتبار سے، ان کو ہر چیز حاصل ہے۔ اِس کے باوجود ہر مسلمان من حیث القوم ذلت اور مسکنت کی نفسیات میں جی رہا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلمانوں کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ اُن کو اپنے فرضی فخر (false pride)سے کم نظر آتاہے — فرضی فخر کی یہی نفسیات موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں

امتِ محمدی کی حیثیت

انسان کی تخلیق کے بعد اُس کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ نظام قائم کیا کہ مسلسل ان کی طرف پیغمبر بھیجے (23: 44)۔ مگر اِس ہدایت رسانی کے لیے ہر قوم اور ہر نسل میں پیغمبر نہیں بھیجے گئے۔ بلکہ ایک منتخب قوم میں پیغمبر بھیجے گئے، اِس قوم کی یہ ذمہ داری قرار پائی کہ وہ اپنے پیغمبر کے ذریعہ ہدایت ِ ربانی کو حاصل کرے اور پھر پیغمبر کی نیابت میں دوسری قوموں تک اِس ہدایت کو مسلسل پہنچاتی رہے۔ پیغمبروں کی آمد کا یہ سلسلہ قائم رہا، یہاں تک کہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیغمبروں کی بعثت کا سلسلہ ختم کردیاگیا۔قرآن میں بنی اسرائیل کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ تم کو ہم نے سارے عالم پر فضیلت دی (2: 47)۔ اِس آیت میں ہدایت الٰہی کے اِسی نظام کا ذکر ہے۔ امتِ محمدی سے پہلے اللہ تعالیٰ نے امتِ یہود کو اِس عمل کے لیے منتخب فرمایا تھا۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو پیغمبر آئے، وہ یہود یا بنی اسرائیل میں آئے۔ اُس وقت یہود کی یہ ذمّے داری تھی کہ وہ اپنے پیغمبروں سے ہدایت الٰہی کو حاصل کریں اوراس کو دوسری قوموں تک پہنچاتے رہیں۔ مگر بعد کے زمانے میں یہود کے اندر بگاڑ آگیا۔ یہ بگاڑ اِس حد تک پہنچا کہ وہ پیغمبرانہ نصیحت کو سننے پر راضی نہ ہوئے، حتی کہ وہ آخری اسرائیلی پیغمبر حضرت مسیح کے قتل کے درپے ہوگئے۔ اِس کے بعد اُن سے مذکورہ فضیلت چھین لی گئی، اور یہ فضیلت امتِ محمدی کو دے دی گئی۔قرآن میں امتِ محمدی کو خیر امت (3: 110) کہاگیا ہے، اور حدیث میں اُن کے لیے فضیلت کے الفاظ آئے ہیں (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 383 )۔ اِس سے مراد یہی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے امتِ محمدی کو اُس ذمے داری کے لیے منتخب فرمایا ہے جو ذمے داری پہلے یہود کو دی گئی تھی۔ پہلے جس اعتبار سے، یہو د کی حیثیت منتخب امت کی تھی، اب اُسی اعتبار سے، امتِ محمدی کی حیثیت ایک منتخب امت کی ہے۔ امتِ محمدی کا فرضِ منصبی یہ ہے کہ وہ سارے عالم کے اوپر دعوت الی اللہ کا کام کرے اور ہر جنریشن میں اس کو جاری رکھے۔ اِس عملِ دعوت کو چھوڑنے کے بعد امتِ محمدی کی منتخب حیثیت اُسی طرح ختم ہوجائے گی جس طرح اِس سے پہلے امت یہود کی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔
واپس اوپر جائیں

مُقری کا رول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر 610 عیسوی میں قرآن کا پہلا حصہ اترا۔ اس کا پہلا لفظ یہ تھا: اقرأ،یعنی اے پیغمبر، تم مُقری بن جاؤ، مقری کے لفظی معنی ہیں پڑھ کر سنانے والا (reciter) اس آیت کے نزول کے فوراً بعد یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام مقری بن گئے۔ اُس وقت آپ مکہ میں تھے۔ آپ جہاں بھی دیکھتے کہ کچھ لوگ اکھٹا ہیں، آپ وہاں جاتے اور قرآن کے نازل شدہ حصہ کو انھیں پڑھ کر سناتے، چناں چہ روایتوں میں آتا ہے کہ: عرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن۔
پیغمبر اسلام کے اصحاب نے بھی اِسی طریقہ کو اختیار کرلیا، ہر صحابی عملاً مقری بن گیا۔ انٹریکشن (interaction) کے دوران جب بھی کوئی صحابی کچھ لوگوں کو پاتا، وہ مقری بن کر ان کو قرآن کے حصے پڑھ کر سناتا۔ مقری کا لفظ اگر چہ مکی دور میں استعمال نہیں ہوا، یہ لفظ پہلی بار اس وقت استعمال ہوا جب ہجرت سے کچھ پہلے ایک صحابی (مصعب بن عمیر) مکہ سے مدینہ بھیجے گئے، وہ وہاں یہی کرتے تھے کہ جس مقام پر وہ دیکھتے کہ کچھ اہل مدینہ اکھٹا ہیں، وہاں وہ چلے جاتے اور قرآن کا کچھ حصہ انھیں پڑھ کر سناتے۔ یہی ان کا دعوہ ورک تھا ، مدینہ میں ان کو مقری کہا جانے لگا، یعنی داعی۔یہی دعوت کا اصل کام ہے، یعنی قرآن کو پڑھ کر سنانا، رسول اور اصحاب رسول کے زمانہ میں پرنٹنگ پریس وجود میں نہیں آیا تھا، اُس وقت کسی مومن کے لیے مقری یا داعی بننے کی ایک ہی ممکن صورت تھی، یہ کہ وہ قرآن کو یاد کرے، اور حافظہ کی مدد سے قرآن کے حصے لوگوں کو پڑھ کر سنائے۔
حدیث میں دو گروہوں کا خاص طورپر ذکر کیا گیا ہے، ایک اصحاب رسول اور دوسرے اخوانِ رسول۔ غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اصحابِ رسول سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر اہلِ ایمان ہیں، انھوںنے رسول اللہ سے براہِ راست قرآن کو سنا، اور اس کو یاد کرلیا، پھر وہ حسبِ موقع لوگوں کو قرآن کے مختلف حصے پڑھ کر سناتے رہے، اس بنا پر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر صحابی مقری تھا، مہاجر صحابہ بھی اور انصار صحابہ بھی۔ دعوت الی اللہ کا بنیادی طور پر یہی معیاری ماڈل ہے۔ قرون مشہود لہا بالخیر تک یہ ماڈل عملاً قائم رہا، لیکن بعد کے زمانے میں مختلف اسباب سے یہ ہوا کہ دعوت کا تصور شعوری یا غیر شعوری طورپر ملت کے ذہن سے حذف ہوگیا، اس کے بعد بھی اگر چہ اسلام خود اپنے زور پر پھیلتا رہا، لیکن جہاں تک مدوّن عربی لٹریچر کا تعلق ہے، اس میں دعوت کا شعور یکسر مفقود نظر آتا ہے۔
حدیث کے مطابق، ظہورِ اسلام کے ایک ہزار سال بعد ایک گروہ پیدا ہوگا، اِس گروہ کا نام حدیث میں اخوانِ رسول (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) بتایا گیا ہے، یعنی دورِ آخر میں اصحاب رسول والا رول ادا کرنے والا گروہ۔ یہ وہ خوش قسمت لوگ ہوں گے جو بعد کے زمانے میں دوبارہ مقری کے رول کو دریافت کریں گے اور اس کو بھر پور طورپر انجام دیں گے۔
اس اعتبار سے تاریخ کو دو دور میں تقسیم کیا جاسکتا ہے — پرنٹنگ پریس سے پہلے کا دور، اور پرنٹنگ پریس کے بعد کا دور۔پرنٹنگ پریس سے پہلے کے دور میں مقری کا رول یہ تھا کہ قرآن کو حافظہ کی مدد سے یاد کرلینا اور اس کو پڑھ کر لوگوں کو سنانا، پرنٹنگ پریس کے وجود میں آنے کے بعد فطری طور پر مقری کا رول یہ ہوگا کہ وہ قرآن کے مطبوعہ نسخے تیار کریں اور اس کو لوگوں کے درمیان تقسیم (distribute) کریں۔ پرنٹنگ پریس کے دور سے پہلے اس رول کا نام مقری تھا، اور پرنٹنگ پریس کے ظہور میں آنے کے بعد اس رول کا نام ڈسٹری بیوٹر (distributer) ہوگا۔ یہ تقسیم اور ڈسٹری بیوشن کوئی سادہ کام نہیں، یہ ایک عظیم نوعیت کی پُرامن مہم ہے۔ قدیم زمانے میں اِس مہم کے تحت مقری کلچر وجود میں آیا تھا، اب پریس کے دور میں اس مہم کے تحت دوبارہ ایک ڈسٹری بیوشن کلچر وجود میں آئے گا۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانے میں یہ ہوگا کہ دنیا کے تمام گھروں میں اللہ تعالیٰ اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس حدیث میںادخال ِ کلمہ سے مراد ادخالِ قرآن ہے۔ آخری دنوں میں یہ عالمی واقعہ اخوانِ رسول کے ذریعہ پیش آئے گا۔ اصحاب رسول دورِ اول کے مقری بنے تھے، اخوانِ رسول دورِ آخر کے مقری ہوںگے۔ پرنٹنگ پریس سے پہلے کے زمانے میں اصحاب رسول نے قرآن کو پڑھ کر سنانے کے ذریعہ مقری کا رول ادا کیا تھا۔ آخری زمانے میں اخوان رسول، مقری کا یہی رول اِس طرح ادا کریں گے کہ وہ قرآن کے مطبوعہ نسخے ساری دنیا میں پہنچادیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی حقیقت پسندی

حدیث کی کتابوں میں کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو یہ ہدایت دی کہ تم کسی بھی حال میں حکمرانوں سے ٹکراؤنہ کرنا۔ اگر تم سیاسی بگاڑ دیکھو تو اُس سے اعراض کرتے ہوئے غیر سیاسی دائرے میں اپنا کام جاری رکھنا۔ یہ روایتیں احادیث کے مجموعے میں کتاب الفتن کے تحت دیکھی جاسکتی ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہدایت ایک اہم حکمت (wisdom) پر مبنی ہے، وہ یہ کہ قانونِ فطرت کے تحت اِس دنیا میں کبھی معیاری سیاسی نظام نہیں بن سکتا۔ جو نظام جب بھی بنے گا، وہ یقینی طورپر آئڈیل سے کم ہوگا۔ ایسی حالت میں پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) یہ ہے کہ لوگ سیاسی نظام کے معاملے میں معیار سے کم (less than ideal) پر راضی ہوجائیں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں مستقل سیاسی ٹکراؤ جاری رہے گا اور کبھی امن اور اعتدال کی حالت قائم نہ ہوگی، جب کہ تعمیری کام کرنے کے لیے امن اور اعتدال کی حالت لازمی طورپر ضروری ہے۔
موجودہ زمانے میں اس کی ایک مثال مصر ہے۔ اسلام پسند عرب لیڈر سیاسی بگاڑ کے نام پر شاہ فاروق بن فواد (وفات:1965 ) کے خلاف ہوگئے، حتی کہ فوج کی مدد سے انھوںنے 1952 میں شاہ کو مصر چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ اس کے بعد جنرل نجیب محمد (وفات: 1984) مصر کے صدر بنائے گئے اور دوبارہ اختلافات شروع ہوگئے، یہاں تک کہ 1952 میں ان کو عہدے سے معزول کرکے ہاؤس اریسٹ کردیاگیا ۔ اس کے بعد جمال عبد الناصر مصر کے صدر بنے، مگر اسلام پسند لیڈروں سے ان کا ٹکراؤ اور زیادہ بڑھ گیا، یہ ٹکراؤ جاری رہا، یہاں تک کہ 1970 میں 52 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس کے بعد محمد انور السادات مصر کے صدر بنے یہاں تک کہ 1981 میںان کو گولی مار دی گئی۔ اس کے بعد سے حسنی مبارک مصر کے صدر ہیں، اور حال یہ ہے کہ اسلام پسند عربوں سے ان کا سیاسی اختلاف بدستور جاری ہے — تقریباً 60 سال کی نام نہاد اسلامی سیاست نے مصر کو تباہی کے سوا کچھ اور نہیں دیا ۔
واپس اوپر جائیں

دعاء کیا ہے

دعاء کوئی سادہ چیز نہیں، دعا دراصل خدا کو انووک (invoke) کرنا ہے۔ دعاء گویا کہ خدا کی قدرت کو مخاطب کرنا ہے ۔ بلاشبہہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایک سچی دعا جب ایک عاجز انسان کی زبان سے نکلتی ہے تو بلا شبہہ وہ خدا کی غیرت کے لیے ایک چیلنج کے ہم معنی ہوتی ہے۔ جب ایک عاجز انسان حقیقی سائل بن کر اللہ کے آگے اپنا ہاتھ اٹھاتا ہے تو وہ اپنے مسئلے کو اللہ کا مسئلہ بنا دیتا ہے۔ اُس وقت گویا اللہ کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ اس کو خالی ہاتھ لوٹا دے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن اللہ حییّ کریم یستحیی إذا رفع الرجل إلیہ یدیہ أن یردہما صفرا خائبتین (الترمذی ،رقم الحدیث: 3556 )
دعاء کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی ربنا آتنا فی الدنیا حسنۃ الخ جیسی دعائیں یاد کرلے اور اس کو پڑھتا رہے۔ دوسری زیادہ موثر صورت یہ ہے کہ کسی واقعے کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر دعاء کی جائے۔ مثلاً برٹش دور میں لکھنؤ میںایک کلکٹر تھے۔ ان کا نام صدیق حسن (آئی سی ایس) تھا۔ انھوں نے اُس زمانے کے ایک ڈاکو سُکھوا کو پکڑا اور اس کو ہتھکڑی لگا کر ڈاک بنگلہ کے ایک کمرے میں بند کردیا۔یہ سخت سردی کا زمانہ تھا۔ رات کے وقت صدیق حسین صاحب راؤنڈ پر نکلے تو اُن کو دیکھ کر سکھوا ڈاکو نے کہا: جنٹ صاحب، آپ کا سکھوا سردی کھارا ہے۔ یہ سن کر صدیق حسن صاحب اپنے کمرے میں گئے اور خود اپنا کمبل لا کر سکھوا ڈاکو کو اڑھا دیا۔
اِس واقعے کو لے کر کوئی کہے کہ خدایا، سکھوا ایک مجرم تھا۔ اِسی کے ساتھ وہ ایک عاجز انسان تھا۔ کلکٹر نے سکھوا کے عاجز ہونے کی حیثیت کو اس کے مجرم ہونے کی حیثیت سے الگ کرکے دیکھا اور پھر اس کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کیا۔ تو بھی میرے ساتھ اِسی طرح کا معاملہ فرما۔ میرے قصور وار ہونے کی حیثیت کو نظر انداز کراور عاجز ہونے کی حیثیت سے میرے ساتھ رحمت کا معاملہ فرما۔ اگر کوئی بندہ اِس طرح کہے تو عین ممکن ہے کہ اللہ اس کی التجا کو قبول کرتے ہوئے اس کو معاف کردے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کاحوصلہ

21 اپریل 2010 کو ایک واقعہ ہوا۔ نئی دہلی کے تین مورتی آڈیٹوریم میں سسٹینیبل ڈیولپمینٹ(Sustainable Development) کے موضوع پر ایک سیمنار تھا۔ اس سیمنار میں ٹاپ کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ ایک بڑے لیڈر بھی اس میں موجود تھے۔ انھوںنے موضوع پر تقریر کی اور اسٹیج سے اٹھ کر باہر جانے لگے جہاں ان کی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ ہماری ٹیم کے لوگ وہاں قرآن کا انگریزی ترجمہ لے کر گئے تھے اور لوگوں کو دے رہے تھے۔
ٹیم کی ایک ممبر سعدیہ خان نے جب دیکھا کہ مذکورہ لیڈر باہر جارہے ہیں تو وہ قرآن کا نسخہ اپنے ہاتھ میں لے کر تیزی سے بڑھیں، تاکہ وہ اس کو مذکورہ ہندو لیڈر کو دے دیں، مگر مذکورہ لیڈر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چلتے ہوئے گاڑی تک پہنچ گیے۔ سعدیہ خان جب وہاں پہنچیں تو منظر یہ تھا کہ ان کے ساتھیوں نے گاڑی کا دروازہ کھولا اور مذکورہ لیڈر گاڑی کے اندر داخل ہوگئے۔ دروازہ ابھی پورا بند نہیں ہوا تھا کہ سعدیہ خان تقریباً چلا کر بولیں — ایکسکیوز می سر(Excuse me, sir)
مذکورہ لیڈر آواز سن کر ایک لمحہ کے لیے رک گئے۔ اتنے میں سعدیہ خان نے قرآن کا ایک نسخہ ان کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا—سر، یہ آپ کے لیے ہے:
This is for you, sir
سعدیہ خان کے اندر یہ غیر معمولی حوصلہ کہاں سے آیا، اس کا راز قرآن تھا۔ کوئی اور کتاب سعدیہ خان کے اندر یہ حوصلہ نہیں پیدا کرسکتی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی انسان کے لیے سب سے بڑا سرمایہ اس کا حوصلہ (courage) ہوتا ہے۔ قرآن بلا شبہہ سب سے بڑا سرمایۂ حوصلہ ہے۔ داعی وہ ہے جو قرآن کو اِس حیثیت سے دریافت کرلے— دعوت، مسلمان کا سب سے بڑا فریضہ ہے اور قرآن کتابِ دعوت ہونے کی حیثیت سے اس کے لیے حوصلے کا سب سے بڑا سر چشمہ۔
واپس اوپر جائیں

لڑ کر مر جانااسلام نہیں

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ جس چیز کی کمی ہے، وہ صبر وتحمل ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان ہر جگہ اِس کمی کی بھاری قیمت دے رہے ہیں۔ انھوںنے کہا — کوئی ہمارے گھر میں گھس آئے تو کیا اُس وقت بھی ہم صبر کریں گے۔ میںنے کہا کہ ہاں۔ پھر میں نے اُن کو ایک حدیث سنائی۔ میںنے کہا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو فتنے کے دور میں ٹکراؤ سے منع کیا۔ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا اُس وقت بھی جب کہ ایک شخص میرے گھر میں داخل ہوجائے اور مجھے قتل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اٹھائے۔ رسول اللہ نے فرمایا کہ اُس وقت تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی طرح بن جاؤ (سنن أبی داؤد، کتاب الفتن والملاحم، باب فی النہی عن السعی فی الفتنۃ)۔اِس حدیث کو سننے کے بعد مذکورہ مسلمان دوبارہ بحث کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ طریقہ صحیح نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اِس حدیث کو سننے کے بعد آپ یہ سوچیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے تو ضرور اس کے اندر کوئی حکمت (wisdom) ہوگی، اور پھر غور کرکے اُس حکمت کو دریافت کریں۔
غور کیجئے تو اس حدیث کے اندر بہت بڑی حکمت موجود ہے، وہ یہ کہ اِس قسم کی صورتِ حال پیش آنے کے بعد تم ردّ عمل کا طریقہ اختیار نہ کرو، بلکہ یہ سوچو کہ تمھارے اقدام کا نتیجہ (result) کیا ہوگا۔ اقدام سے پہلے آدمی کو ہمیشہ اپنے اقدام کے نتیجے پر غور کرنا چاہیے۔ اگر مثبت نتیجہ پیدا کرنا ممکن ہو تو اقدام کرنا چاہیے، ورنہ اقدام سے باز رہنا چاہیے۔ باز رہنے کا مطلب بے عملی نہیں ہے، بلکہ سوچ سمجھ کر عمل کرنا ہے، یعنی جب ٹکراؤ کا معکوس نتیجہ نکلنے والا ہو تو آدمی کو چاہیے کہ وہ پُرامن طریق کار کو اختیار کرتے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اسلام میں لڑکر مرجانا نہیں ہے، اسلام میں یہ ہے کہ آدمی تعمیری عمل کرکے مثبت نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

امن کی طاقت زیادہ

2 دسمبر 2009 کی شام کو ایک تعلیم یافتہ مسلمان مسٹر جے ایم بٹ (عمر 60 سال) سے ملاقات ہوئی۔ وہ الرسالہ مشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ وہ آج کل افغانستان میں پشتو کے علاقے میں رہتے ہیں۔ وہ وہاں اسلام اور امن کے موضوع پر کام کررہے ہیں۔ وہ پشتو اور فارسی زبان اچھی طرح جانتے ہیں۔ اِس لیے وہ کامیابی کے ساتھ وہاں پُر امن دعوت کا مشن پھیلا رہے ہیں۔
انھوںنے بتایا کہ ایک بار ان کی ملاقات کچھ افغانی انتہا پسندوں سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے افغانی انتہا پسندوں سے کہا کہ آپ لوگ خود کش بم باری کیوں کرتے ہیں۔ افغانی انتہاپسندوں نے کہاکہ ہمارے دشمن کے پاس جو ہتھیار ہے، اُس کا جواب ہمارے پاس نہیں، اِس لیے ہم مجبور ہو کر خود کش بم باری کرتے ہیں۔انھوںنے کہا کہ معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ آپ کے پاس جو ہتھیار ہے، اس کا جواب اُن کے پاس نہیں۔ فارسی زبان میں یہ گفتگو اِس طرح تھی:
جوابِ اسلحۂ آنہا پیشِ ما نیست،جوابِ اسلحۂ شُما پیشِ آنہا نیست
انھوں نے کہا کہ آپ تشدد کی طاقت استعمال کررہے ہیں، لیکن اسلام کے مطابق، امن کی طاقت اُس سے زیادہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ اللہ یعطی علی الرّفق، مالا یعطی علی العنف (صحیح مسلم، کتاب البرّ والصلۃ) یعنی خدا پُرامن عمل پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ متشددانہ عمل پر نہیں دیتا۔ اِس معاملے کی عملی مثال اسلام کی ابتدائی تاریخ میں موجود ہے۔ احد کا غزوہ 3 ہجری میں پیش آیا۔
اِس میں مسلمانوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اِس کے بعد 6ہجری میں آپ نے فریقِ ثانی سے امن کا معاہدہ کرلیا، جو معاہدۂ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گویا وائلنٹ ایکٹوزم کے بجائے پیس فل ایکٹوزم کو اختیار کرنا تھا۔ اِس کا نتیجہ، قرآن کے الفاظ میں، فتحِ مبین (48: 1)کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یہ متشددانہ بم پر نظریاتی بم کی برتری کی ایک مثال ہے۔
واپس اوپر جائیں

سچائی کی تلاش

ایک انگریزحقیقت کی تلاش میںتھا۔ اِس سلسلے میں اُس نے بہت سی کتابیں پڑھیں۔ ایک کتاب میں اُس نے پڑھا کہ سب سے بڑی عبادت زندہ لوگوں کی خدمت ہے۔ پھر اس کو معلوم ہوا کہ خدمت کے سب سے زیادہ مستحق حیوانات ہیں۔
چناں چہ اس انگریز نے حیوانات کی خدمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ آخر کار وہ ہندستان آگیا۔ اب یہ انگریز اور اس کی بیوی دونوں نئی دہلی میںرہتے ہیں۔ ان کے گھر کے وسیع احاطے میں دس گدھے پلے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں ان گدھوں کی خدمت کرتے ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی تلاش کرتے ہوئے اس کے گھر پہنچے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ وہ بیٹھا ہوا ایک گدھے کی ڈریسنگ (dressing) کررہا ہے۔ ہمارے ساتھی جرأت کرکے اس کے پاس گئے۔ ہمارے ساتھی ان کے پاس قرآن کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی تھی۔
مذکورہ آدمی سے ہمارے ساتھی نے کہا،کیا میں یہ قرآن آپ کو دے سکتاہوں۔ وہ انگریز کھڑا ہوگیا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے قرآن کی کاپی اپنے ہاتھ میں لے لی اور کہا کہ — میں ہمیشہ یہ جاننا چاہتا تھا کہ سچائی کا دوسرا نقطۂ نظر کیا ہے:
I always wanted to know another version of truth.
اِس قول کو جنرلائز کیا جائے تو اِس میں بیش تر انسانوں کی کہانی چھپی ہوئی ہے۔ وہ لوگ جو کسی چیز کو سچائی سمجھ کر اُسے لئے ہوئے ہیں، وہ سب غیر مطمئن زندگی گزارتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اِس احساس میں رہتے ہیں کہ سچائی شاید کچھ اور ہے، کیوں کہ موجودہ سچائی ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کررہی ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر سچائی کی طلب پیشگی طورپر موجود ہے۔ وہ اِس طلب کے تحت کسی نہ کسی چیز کو بطور سچائی لے لیتا ہے، لیکن وہ ہمیشہ بے اطمینانی کی نفسیات میں مبتلا رہتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا رہتا ہے کہ حقیقی سچائی شاید کچھ اور ہے جس کو اُسے پانا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

مغرب میں بسنے والے مسلمان

20 جون 2010 کو ایک ویڈیو کانفرنسنگ تھی۔ راقم الحروف نے دہلی سے امریکا کے ایک آڈینس کو خطاب کیا۔ یہ خطاب انگریزی زبان میں تھا۔ اس خطاب کا موضوع یہ تھا:
How to do effective dawah work in the Western World.
میں نے اپنے خطاب میں کہا کہ مغربی ملکوں میں مؤثر دعوتی کام کی پہلی شرط یہ ہے کہ مسلمان اپنے اندر داعیانہ طرز فکر پیدا کریں۔ اِس وقت مختلف مغربی ملکوں میں دس ملین سے زیادہ مسلمان جاکر آباد ہوئے ہیں۔ یہ لوگ اپنے پچھلے مائنڈ سیٹ (mindset) کے ساتھ وہاں رہتے ہیں۔ وہ مشرقی گیم کو مغربی فیلڈ میں کھیلنا چاہتے ہیں:
They are playing eastern game in the western court.
یہ طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے سراسر باطل ہے۔ مغربی ملکوں میں بسے ہوئے مسلمانوں کو یہ جاننا چاہیے کہ اُن کا یہ طریقہ اللہ تعالیٰ کے لیے قابلِ قبول نہیں۔ اُن کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں۔ وہ اُن سے نفرت کرنا یک طرفہ طورپر چھوڑ دیں۔ مزید یہ کہ یہ چھوڑنا اصولی طورپر ہو، نہ کہ منافقانہ طورپر۔ یہ مسلمان اگر ایسا کریں کہ ان کے دل میں تو نفرت ہو، لیکن وہ اسٹیج پر یا میڈیا میں مختلف بولی بولیں، تو یہ ان کے جرم میں مزید اضافے کے ہم معنی ہوگا۔
مغربی دنیا میں بسنے والے مسلمان جب مغربی قوموں کو اپنا مدعو سمجھیں گے تو اس کے بعد لازمی طورپر ان کے اندر ایک نئی شخصیت ابھرے گی۔ ان کی سوچ مثبت سوچ بنے گی، ان کا بول خیر خواہانہ بول بن جائے گا، اُن کا کردار ایک با مقصد انسان کاکردار ہوگا۔ وہ مغربی ملکوں میں حریف اور رقیب کے طورپر نہیں رہیں گے، بلکہ داعی اور مبلغ بن کر رہیں گے۔ وہ ایک مشن کے حامل بن جائیں گے، اُن کو وہ ٹارگیٹ (target) مل جائے گا جو ایک سچے مومن کا ٹارگیٹ ہے، یعنی تمام انسانوں کو خدائی سچائی سے آگاہ کرنا۔
واپس اوپر جائیں

طبقۂ عوام، طبقۂ خواص

کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ وہ تبلیغ کے میدان میں کام کررہے ہیں۔ ان کے عمل کا میدان مسلم عوام ہیں۔ گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ آپ لوگ عوام کے درمیان کام کررہے ہیں اور خواص کے طبقے کو چھوڑے ہوئے ہیں، حالاں کہ دعوت و تبلیغ کا پہلا نشانہ خواص کا طبقہ ہوتا ہے جس کو قرآن میں ملاء قوم کہا گیاہے۔ انھوںنے کہا کہ مسلم عوام میں ارتداد کا خطرہ پھیل گیا تھا، اِس لیے ہم نے مسلم عوام کو اپنے تبلیغی کام کا میدان بنایا۔
میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں ارتداد کا خطرہ خود مسلم خواص میں بھی شدت سے پیدا ہوگیا ہے۔اِس خطرے کی نشان دہی مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (وفات: 1999 ) نے اپنی کتاب ’’ردّۃ ولاأبا بکر لہا‘‘ میں کی تھی جو 1959 میں لکھنؤ سے چھپی تھی۔ اِس کتاب میں بتایا گیا تھا کہ جدید تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ایک سنگین خطرہ پیدا ہوگیا ہے جس کو انھوں نے ذہنی ارتداد کا نام دیا تھا۔
میںنے ان لوگوں کو اپنے یہاں کی چھپی ہوئی کچھ کتابیں دیں۔ میںنے ان کو مشورہ دیا کہ آپ عوام کے طبقے میں جو کام کررہے ہیں، اُس کو کرتے رہیے۔
تاہم اِسی کے ساتھ آپ یہ کیجیے کہ آپ اپنے بیگ میں ہمارے یہاں کی چھپی ہوئی کتابیں رکھیے اور جب بھی کوئی تعلیم یافتہ مسلمان ملے تو اس کو یہ کتابیں بطور ہدیہ پیش کردیجئے۔ اِس طرح آپ اپنی دونوں قسم کی تبلیغی ذمے داریوں کو ادا کرنے لگیں گے، مسلم عوام میں تقریر اور بیان کے ذریعے اور مسلم خواص میں لٹریچر کے ذریعے۔
میں نے کہا کہ یہ کتابیں آپ کے لیے ایک تبلیغی مددگار کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مسلم عوام میں براہِ راست اپنے موجودہ نظام کے ذریعے، اور مسلم خواص میں اِن کتابوں کی تقسیم کے ذریعے۔ انھوں نے اِس مشورے کی اہمیت کو مانا اور کہا کہ ہم ان شاء اللہ اِس مشورے کے مطابق عمل کریں گے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت اور اصلاح کا فرق

دعوت اور اصلاح دونوں بظاہر ایک قسم کے کام ہیں، لیکن دونوں کے درمیان ایک نوعی فرق پایا جاتا ہے — اصلاح ایک روایتی عمل ہے، اور دعوت اس کے مقابلے میں ایک تخلیقی عمل۔ روایتی عمل کسی گروہ کے موجود ذہن کی بنیاد پر چلتا ہے۔
یہ گروہ اگر ایک زوال یافتہ گروہ ہو تو پھر اس کی اصلاح کا عمل بھی اسی کے ہم سطح ہوجائے گا، یعنی وہ گروہ کے زوال یافتہ ذہن کو فیڈ(feed) کرے گا۔ اِسی بنا پر روایتی اصلاح کا کام کرنے والوں کے گرد بہت جلد ایک بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے، لیکن اس بھیڑ کے اندر کوئی حقیقی تبدیلی نہیں آتی۔ اس بھیڑ کی حیثیت ٹھیک وہی ہوتی ہے جس کو حدیث میں غُثاء (جھاگ)کہاگیا ہے، یعنی بظاہر بہت سے لوگ مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک شخص بھی نہیں۔
دعوت کا عمل، اس کے مقابلے میں ایک تخلیقی(creative) عمل ہے۔ دعوت کے عمل میں داعی وقت کے رجحانات کو پڑھتا ہے، وہ دعوت کو ایسے اسلوب (idiom) میں بیان کرتا ہے، جس سے مدعو کا ذہن ایڈریس (address) ہوسکے۔
دعوت کاعمل ایک اجتہادی عمل ہے۔ دعوت کا عمل خود داعی کی دریافت سے شروع ہوتا ہے۔ یہ دریافت داعی کو ایک نئی اسلامی شخصیت بنا دیتی ہے، پھر داعی کوشش کرتا ہے کہ وہ مدعو کو بھی دریافت کا تجربہ کرائے، وہ مدعو کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرے، وہ مدعو کے اندر چھپے ہوئے فطری شعور کو جگائے، وہ مدعو کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ حقیقت کو ایک خود دریافت کردہ حقیقت (self-discovered reality)کے طورپر پائے، نہ کہ سنی سنائی بات کے طور پر۔
دعوت اور اصلاح کے درمیان اس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اصلاح شروع سے آخر تک ایک بے روح عمل بنا رہتا ہے اور دعوت شروع سے آخر تک ایک زندہ اور تخلیقی عمل— دعوت ایک انقلابی عمل ہے، اور داعی ایک انقلابی انسان۔
واپس اوپر جائیں

تاریخِ بشری کے پانچ دور

اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیداکیا اور اس کو خصوصی اہتمام کے ساتھ سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا۔انسان کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے مسلسل پیغمبر بھیجے۔اِس سلسلۂ نبوت کے آخری پیغمبر محمد ﷺ تھے۔ اِس کے بعددعوت الی اللہ کی تاریخ مختلف اَدوار سے گزرتی رہی۔ اکیسویں صدی عیسوی میں وہ اپنے آخری دور میں پہنچ چکی ہے۔ اِس آخری دور کے خاتمہ کے بعد قیامت برپا ہوگی اور پھر تاریخ بشری کا وہ تکمیلی دور شروع ہوجائے گا جس کو جنت کا دور کہاگیا ہے۔ انسانی تاریخ کے یہ پانچ ادوار حسب ذیل ہیں:
1 - اعلان حق (proclamation of divine truth)
2 - اظہارِ دین (reprocessing of hisotry)
3 - تائید دین (supporting role)
4 - ادخالِ کلمہ (global dawah)
5 - دورِ جنت(age of eternal paradise)
دعوت کی نسبت سے تاریخ بشری کا پہلا دور آدم سے شروع ہوا، جو کہ پہلے انسان (first man) بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ اِس پہلے دورکا خاتمہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور پر ہوا۔ آپ نے 610 عیسوی میں اپنی نبوت کاآغاز کیا۔ اِس پہلے دور میں جو کام انجام پایا، وہ بنیادی طورپر یہ تھا کہ ہر نسل کے انسانوں کو وحی پر مبنی سچائی سے آگاہ کردیا جائے۔
آخری پیغمبر کے زمانے میں خدا کی کتاب (قرآن) مکمل طورپر ایک محفوظ کتاب (preserved book) بن گئی۔ بعد کے دور میں یہ محفوظ کتاب، ہدایت کے حصول کے لیے پیغمبر کا بدل بن گئی۔ اِس لیے پیغمبر آخر الزماں کے بعد کوئی پیغمبر اللہ کی طرف سے بھیجا نہیں گیا۔
اظہار دین
دوسرے دور کے کام کو قرآن میںاظہارِ دین (48: 28) کہاگیا ہے۔ یہ کام بنیادی طورپر ساتویں صدی عیسوی میں اصحابِ رسول کی طاقت ور ٹیم کے ذریعے انجام پایا۔ اصحابِ رسول جن کی تعداد تقریباً ڈیڑھ لاکھ تھی، انھوں نے ، اور اِس کے بعد تابعین کی جماعت نے اِس کام کو بخوبی طورپر انجام دیا۔ اِس کام کی خصوصی اہمیت کو اگر مذہبی اصطلاح میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ انھوں نے دورِ شرک کو ختم کرکے دورِ توحید کا آغاز کیا۔ اور اگر اِس کام کو سیکولر اصطلاح میں بیان کیاجائے تو یہ کہا جائے گا کہ انھوںنے توہم پرستی (superstition) کے دور کو ختم کیا اور سائنس کے دور کا آغاز کیا۔
صحابہ اور تابعین کے اِس عمل کا مطلب یہ نہیں تھا کہ انھوںنے اپنی زندگی میں سارے واقعے کو براہِ راست طورپر انجام دے دیا۔ ان کے رول کی اصل اہمیت یہ ہے کہ انھوںنے انسانی تاریخ میں ایک نیا پراسس (process) شروع کیا۔ یہ پراسس تقریباً ایک ہزار سال میں اپنی آخری تکمیل (culmination) تک پہنچا۔ اِس کے نتیجے میں دنیا میں دعوت کے موافق حالات پیدا ہوئے۔ مثلاً مذہبی آزادی آئی، جمہوریت کا زمانہ آیا، حقیقت پسندی، بالفاظ دیگر سائنسی طرز فکر کا رواج شروع ہوا، وغیرہ۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے درمیان ظہور میں آنے والا سائنسی انقلاب دراصل اُسی پراسس کی تکمیل ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں صحابہ اور تابعین کے ذریعے عرب میں شروع ہوااور پھر بتدریج وہ یورپ تک پہنچا۔
تائید دین
اِس تاریخی عمل کا تیسرا دور وہ ہے جس کو حدیث میں تائید ِ دین کہاگیا ہے۔ مذکورہ کام کی انجام دہی کے بعد اب ضرورت تھی کہ خدائی سچائی کو زمین پر بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچا دیا جائے۔ مگر اِس عالمی دعوت کی انجام دہی کے لیے امتحان کی اِس دنیا میں اسباب کی ضرورت تھی۔ خصوصی طورپر ایسے مواصلاتی ذرائع جن کی مدد سے پیغام رسانی کے کام کو عالمی سطح پر انجام دینا ممکن ہوجائے۔
عالمی دعوت کے لیے ایسے مواصلاتی نظام کو وجود میںلانے کا کام مسلمان انجام نہ دے سکے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے اِس مقصد کے لیے مغرب کی غیر مسلم قوموں کو استعمال کیا۔ یہ گویا کہ وہی طریقہ ہے جس کو موجودہ زمانے میں آؤٹ سورسنگ (outsourcing) کہاجاتا ہے۔ مغربی قوموں نے لمبی جدوجہد کے بعد ایک نیادور پیدا کیا۔ یہ دور مواصلاتی دور (age of communication) ہے جو عالمی پیغام رسانی کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔ اِن موافق اسباب کی فراہمی کے بعد یہ ممکن ہوگیا کہ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا کو استعمال کرکے خداکے کلام کو ساری دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچا دیا جائے۔ آؤٹ سورسنگ کے اِس طریقے کو حدیث میں پیشگی طورپر بتادیاگیا تھا۔ ایک طویل حدیث میں اِس اصول کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب: إن اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر ) یعنی اللہ بے شک اِس دین کی تائید فاجر انسان کے ذریعے بھی کرے گا۔
ادخالِ کلمہ
ادخالِ کلمہ سے مراد وہ وہ دعوتی عمل ہے جس کو حدیث میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: لا یبقیٰ علی ظہر الأرض بیتُ مدر ولا وبر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃَ الاسلام، بعزّ عزیز وذُلّ ذلیل (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 4 ) یعنی زمین کی سطح پر کوئی چھوٹا گھر یا بڑا گھر نہیں بچے گا، مگر اللہ اُس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا، عزت والے کی عزت کے ساتھ اور ذلت والے کی ذلت کے ساتھ(willingly or unwillingly) ۔
پچھلی صدیوں میں خدا کا دین مستند متن (authentic text) کے اعتبار سے پوری طرح محفوظ ہوگیا۔ اِس کے بعد دنیامیںمذہبی آزادی کا دور اپنے تمام پہلوؤں کے ساتھ قائم ہوگیا۔ اِس کے بعداگلا کام یہ ہوا کہ دنیا میں جدید مواصلات(modern communication) کا زمانہ پوری طرح آگیا۔ اِن موافق اسباب کے ظہور کے بعد اب اکیسویں صدی میں آخری طور پر جو کام انجام پانا ہے، وہ یہ کہ ادخالِ کلمہ کی پیشین گوئی پوری ہو اور جدید مواصلاتی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے خدا کا کلام تمام دنیا کے مردوں اور عورتوں تک پہنچ جائے۔
تاریخِ دعوت کے پہلے دور کا کام (اعلانِ حق) خدا کے پیغمبروں کے ذریعے انجام پایا۔ دوسرے دور کا کام (اظہاردین) بنیادی طور پر اُن لوگوں نے انجام دیا جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ تیسرے دور کا کام (تائید دین) اُن لوگوں نے انجام دیا جن کو ہم سائنس دانوں کے گروہ (scientific community)کے نام سے جانتے ہیں۔ چوتھے دور کے کام (ادخالِ کلمہ) کو اکیسویں صدی عیسوی میں انجام پانا ہے۔ جو اہلِ ایمان تاریخِ دعوت کے اِس تقاضے کو سمجھیں اور اس کو درست طورپر انجام دیں، وہ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، اللہ کے یہاں اخوانِ رسول کا درجہ پائیں گے۔ اِسی چوتھے کام کی انجام دہی پر تاریخ کا خاتمہ ہوجائے گا۔
ابدی جنت کا دور
اکیسویں صدی عیسوی میں واضح طورپر ایسے آثار پیدا ہوچکے ہیں جو تقریباً یقینی طورپر بتاتے ہیں کہ قیامت بالکل قریب آچکی ہے۔ غالباً اکیسویں صدی ہی میں وہ وقت آجائے گا، جب کہ اسرافیل کا صور پھونکا جائے اور انسانی تاریخ دورِ امتحان سے نکل کر دورِ انجام تک پہنچ جائے۔ اِس کے بعد وہ ابدی دور شروع ہوگا جب کہ امتحان میں پورا اترنے والے لوگ جنت کی معیاری دنیا میں داخل کردئے جائیں، اور امتحان میں ناکام ہونے والے لوگ جہنم کی پُرعذاب زندگی میں رہنے کے لیے مجبور کردئے جائیں، جہاں وہ ابدی طورپر حسرت ویاس میں پڑے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین انقلاب

اسلام، تاریخ کا ایک عظیم ترین انقلاب تھا، لیکن اِس حقیقت کو نہ مسلم اہلِ علم نے سمجھا اور نہ غیرمسلم اہلِ علم نے۔ مسلمانوں نے پیغمبر اسلام ﷺکو صرف اپنے قومی فخر کے طور پر دریافت کیا۔ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ صرف یہ دریافت کرسکے کہ رسول اللہ تاریخ کے سب سے زیادہ کامیاب انسان تھے:
Muhammad was the supremely successful man in history.
ساتویں صدی عیسوی میں پیش آنے والااسلامی انقلاب دراصل مبنی بر توحید انقلاب تھا۔ اِس سے پہلے کی پوری تاریخ میں انسانی زندگی کا نظام شرک پر مبنی نظام ہوا کرتا تھا۔ اسلامی انقلاب نے پہلی بار مبنی بر شرک نظام کو توڑا اور اس کی جگہ تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا جس کو توحید پر مبنی دور کہا جاسکتا ہے۔ بعد کی صدیوں میں انسانی زندگی میں جو تعمیری واقعات ہوئے، وہ اِسی انقلاب کا براہِ راست یا بالواسطہ نتیجہ تھے، خواہ وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے مذہبی ہوں یا سیکولر۔
یہ انقلاب اصلاً ایک نظری اور اعتقادی انقلاب تھا۔ اس کے اندر اعلیٰ معرفت کا سامان تھا، اس کے اندر ربانی غذائیں چھپی ہوئی تھیں، اس کے اندر وہ تمام اجزا موجود تھے جن کے ذریعے انسانی شخصیت کا مثبت ارتقا کیا جاسکے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ انسان اپنی مادّی خواہشوں کے پیچھے دوڑ پڑا۔ اس نے اِس انقلاب کے سیکولر پہلو کو لیا اور اور اس کے مذہبی اور روحانی پہلو کو چھوڑ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انسانی تاریخ شرک کے دور سے نکل کر الحاد کے راستے پر چل پڑی۔
اب وقت آگیا ہے کہ اِس غلطی کی تصحیح کی جائے۔ انسانی تاریخ کو دوبارہ الحاد کے راستے سے ہٹا کر توحید کے راستے پر لایا جائے، تاکہ انسان اُن نعمتوں کو پاسکے جو اُس کے لیے اِس دنیا میں مقدر کی گئی ہیں، یعنی خالق کی اعلیٰ معرفت، انسانی شخصیت کا ربانی ارتقاء، اعترافِ الٰہی کے اعلیٰ تجربات کو پانا، حقیقی معنوں میں ایک روحانی سائنس کو وجود میں لانا، اُس ربانی انسان کی تشکیل جو آخرت کی زندگی میں جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

تعارفِ قرآن

قرآن، خدا کی کتاب ہے۔قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں خدا کی طرف سے محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب پر عربی زبان میں اترا۔ قرآن اپنی اصل عربی زبان میں اب تک محفوظ ہے۔ قرآن، پورے معنوں میں، ایک محفوظ خدائی کتاب ہے۔ قرآن کے متن(text) میں نہ کوئی کمی ہوئی ہے اور نہ کوئی اضافہ۔
قرآن کا اسلوب یہ ہے کہ اُس میں انسان کا خالق براہِ راست انسان سے خطاب کرتا ہے۔ قرآن کا پڑھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اُس کا خالق براہِ راست طورپر اس سے ہم کلام ہو کر کہہ رہا ہے کہ—اے انسان، یہ تیرا خدا ہے جو تیری قابلِ فہم زبان میں تجھ کو خطاب کررہا ہے۔ تو اس کلام کو سن اور اس کی اتباع کر۔ اِس اتباع میں تیری نجات ہے۔ اِس اتباع کے ذریعے تو اپنی زندگی کو حقیقی معنوں میں کامیاب بنا سکتا ہے۔
قرآن میں چھوٹی، بڑی 114 سورتیں ہیں۔ اُس کی آیتوں کی تعداد مجموعی طورپر 6236 ہے۔ قرآن کی ہر سورہ کے شروع میں (بہ استثنائِ سورہ التوبہ) یہ جملہ ہوتا ہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم (شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان، نہایت رحم والا ہے)۔ اِس طرح، قرآن کی ہر سورہ اور مجموعی طورپر پورا قرآن یہ بتاتا ہے کہ قرآن، خدا کی صفتِ رحمت کا اظہار ہے۔ قرآن کا نزول رحمتِ الٰہی کا نزول ہے۔ تاہم یہ رحمت بارش کی طرح نہیں ہے کہ اُس کا فائدہ اپنے آپ ہر عورت اور مرد کو مل جائے۔ قرآن کا فائدہ صرف اُس انسان کو ملے گا جو کامل سنجیدگی کے ساتھ اُس پر غور کرے، جو طالب بن کر اُس میں اپنے لیے ہدایت تلاش کرے۔
قرآن ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں اترا۔ اُس وقت کاغذ وجود میں آچکا تھا۔ یہ کاغذ بعض مخصوص درختوں کے ریشے سے لے کر دستی صنعت کے طورپر بنایا جاتا تھا۔ اُس کو پپائرس (Papyrus) کہا جاتا ہے۔ قرآن کا کوئی حصہ جب بھی اُترتا تو اُس کو اس کاغذ پر لکھ لیا جاتا تھا۔ اِس کاغذ کو عربی زبان میں قِرطاس (6: 7)کہاجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ لوگ قرآن کو اپنے حافظے میں محفوظ کرلیتے تھے۔ کیوں کہ اُس وقت قرآن ہی واحد اسلامی لٹریچر تھا۔ قرآن کو نمازوں میں پڑھا جاتا تھا اور دعوہ ورک کے تحت اس کو لوگوں کے سامنے پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔ اِس طرح قرآن بیک وقت لکھا بھی جاتا رہا اور اِسی کے ساتھ اس کو یاد بھی کیا جاتا رہا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے تک قرآن کو محفوظ کرنے کا یہی طریقہ جاری رہا۔ آپ کی وفات 632عیسوی میں ہوئی، اس کے بعد ابوبکر صدیق اسلام کے پہلے خلیفہ بنے۔ انھوں نے باقاعدہ اہتمام کے تحت، قرآن کا ایک مجلد نسخہ بنایا۔ یہ نسخہ قدیم زمانے کے کاغذ یا قرطاس پر بنایا گیا تھا۔ یہ مجلد قرآن چوکور صورت میں تھا۔ چناںچہ اس کو رَبعہ (square) کہا جاتا تھا۔ اِس طرح قرآن، خلیفۂ اول کے زمانے میں مجلد کتاب کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔ تیسرے خلیفہ عثمان بن عفّان کے زمانے میں اِس مجلد قرآن کے مزید نسخے تیار کیے گیے اور اس کو مختلف شہروں میں بھیج دیاگیا۔ یہ نسخے شہر کی جامع مسجدوں میں موجود رہتے تھے۔ لوگ اُن کو پڑھتے بھی تھے اور اُن سے مزید نسخے تیار کرتے تھے۔
کتابتِ قرآن کا یہ سلسلہ انیسویں صدی عیسوی تک جاری رہا۔ انیسویں صدی عیسوی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا اور ساتھ ہی کاغذ بھی جدید صنعتی طریقے پر بڑی تعداد میں تیار کیا جانے لگا۔ اِس طرح انیسویں صدی میں قرآن کو باقاعدہ طورپر پرنٹنگ پریس کے ذریعے چھاپنے کا آغاز ہوگیا۔ چھپائی کے طریقوں میں مسلسل ترقی ہوتی رہی۔ اِسی کے ساتھ قرآن کے مطبوعہ نسخے بھی زیادہ بہتر طورپر تیار ہونے لگے۔ اب قرآن کے مطبوعہ نسخے اتنے زیادہ عام ہوگیے ہیں کہ وہ ہر گھر میں اور ہر مسجد میں اور ہر لائبریری میں اور ہر مارکیٹ میں اِس طرح وافرمقدا رمیں موجود ہیں کہ ہر انسان قرآن کے چھپے ہوئے خوب صورت نسخے حاصل کرسکتا ہے، خواہ وہ کُرۂ ارض کے کسی بھی مقام پر ہو۔آج قرآن کا ایک مطبوعہ نسخہ اُسی نسخہ (ربعہ) کی عین نقل (true copy) ہوتا ہے جو اسلام کے ابتدائی زمانے میں خلیفہ اوّل ابو بکر صدیق نے خصوصی اہتمام کے ذریعے تیار کرایا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ قرآن خدائی تنبیہ کی ایک کتاب ہے۔ وہ اَسباق اور نصیحت کا ایک مجموعہ ہے۔ قرآن، عام طرزِ تصنیف کے مطابق تیار نہیںہوا۔ زیادہ صحیح طورپر قرآن ایک بُک آف وزڈم ہے۔ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ قرآن کو پڑھنے والا اگر قرآن کا صرف ایک صفحہ پڑھے، یا وہ اُس کا صرف ایک جملہ سُنے تب بھی اُس کو اُس میںایک مسیج مل جائے۔
قرآن ایک اعتبار سے، مُنعم کی طرف سے انعام کی یاد دہانی ہے۔ خدا نے انسان کو استثنائی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا۔ پھر اُس کو زمین جیسے سیارے پر بسایا، جہاں انسان کے لیے ہر قسم کا لائف سپورٹ سسٹم موجود ہے۔ قرآن کا مقصود یہ ہے کہ انسان، فطرت کے اِن انعامات سے استفادہ کرتے ہوئے منعم کو یاد رکھے۔ وہ انعامات کے خالق کا اعتراف کرے۔ انعامات کو استعمال کرتے ہوئے منعم کا اعتراف کرنا اور اُس کے تقاضے پورے کرنا، یہی ابدی جنت کا سرٹفکٹ ہے۔ اور انعامات کو استعمال کرتے ہوئے منعم کو فراموش کردینا، آدمی کو جہنم کا مستحق بنا دیتا ہے۔ قرآن در اصل اِسی سب سے بڑی حقیقت کی یاد دہانی ہے۔
قرآن کا اسلوبِ بیان بھی ایک منفرد اسلوبِ بیان ہے۔ قرآن کے اسلوبِ کلام کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اُس کا اسلوب ایک شاہانہ اسلوب ہے۔ قرآن کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتاہے جیسے اُس کا مصنف ایک ایسے برتر مقام پر ہے جہاں سے وہ ساری انسانیت کو دیکھ رہا ہے۔ ساری انسانیت اُس کا کنسرن ہے۔ وہ اپنے مقامِ عظمت سے پوری انسانیت کو خطاب کررہا ہے۔ البتہ اِس خطاب کے دوران اُس کا رخ کبھی ایک گروہ کی طرف مُڑ جاتا ہے اور کبھی دوسرے گروہ کی طرف۔
قرآن کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اُس کا قاری کسی بھی لمحہ اُس کے مصنف سے کنسلٹ کرسکتا ہے۔ قرآن کا مصنف خدا ہے۔ وہ ایک زندہ خدا ہے۔ وہ سارے انسانوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ وہ براہِ راست طورپر ہر انسان کی بات کو سنتا ہے اور اُس کا جواب دیتا ہے۔ اِس لیے قرآن کے قاری کے لیے ہر لمحہ یہ ممکن ہے کہ وہ خدا سے ربط قائم کرسکے۔ وہ خدا سے پوچھے اور خدا سے اپنے سوال کا جواب پالے۔
قرآن خالقِ کائنات کا تعارف ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ ایک خدا ہے جس نے اِس کائنات کو پیدا کیا۔ وہی اُس کو مسلسل طورپر سنبھالے ہوئے ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ انسان کا ماضی، حال اور مستقبل تنہا اُسی کے قبضے میں ہے۔ وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ ابدی ہے۔ اس کے قبضۂ قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔
خالق کے تعارف کے بعد قرآن میں خصوصی طورپر جو چیز بتائی گئی ہے، وہ خدا کی تخلیق کے بارے میں ہے۔قرآن کا موضوع یہ ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے انسان کو باخبر کرے۔ قرآن، آدمی کو وہ چیز بتاتا ہے جس کو وہ اپنی کوشش سے نہیں جان سکتا تھا۔ قرآن آدمی کے اِن بنیادی سوالات کا جواب دیتا ہے کہ — میں کون ہوں، میری پیدائش کا مقصد کیا ہے، اِس دنیا سے میرے تعلق کی نوعیت کیا ہے جہاں میں اپنے آپ کو پاتا ہوں، زندگی کیا ہے، اور موت کیا ۔ موت سے پہلے مجھے کیا کرنا ہے، اور موت کے بعد میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ وہ کیا روش ہے جو مجھ کو ناکام بناتی ہے، اور وہ کیا روش ہے جو مجھ کو کامیابی عطا کرتی ہے۔ اِن سوالات کا تعلق خدا کے تخلیقی پلان سے ہے، اور قرآن کا مقصد یہی ہے کہ وہ انسان کو خدا کے اِس تخلیقی پلان سے آگاہ کرے۔
اِس اعتبار سے، پیغمبر کا تعلق براہِ راست طورپر قرآن سے جُڑا ہوا ہے۔ پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی طرف سے آئی ہوئی کتاب کو پوری امانت کے ساتھ انسان تک پہنچا دیتا ہے۔پھر پیغمبر یہ کرتا ہے کہ وہ خدا کی رہ نمائی میں لوگوں کے درمیان اپنی پوری زندگی اِس طرح گزارتا ہے کہ وہ لوگوں کے لیے قرآن کا ایک عملی مظاہرہ (demonstration) بن جاتا ہے۔ قرآن اگر آئڈیالوجی کی کتاب ہے تو پیغمبر اِس آئڈیا لوجی کی ایک عملی تصویرہے۔ قرآن کو پوری طرح سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی قرآن کو پڑھنے کے ساتھ، پیغمبر کے کلام اورپیغمبر کی زندگی کا مطالعہ کرے۔
قرآن کے بیان کے مطابق، انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ مگر انسان کی زندگی کو دو مختلف دوروں میں تقسیم کردیا گیا ہے — موت سے پہلے کا دوراور موت کے بعد کا دور — موت کے پہلے کا دور عمل کا دور ہے، اور موت کے بعد کا دور اپنے عمل کا انجام پانے کا دور۔
موجودہ دنیا میں انسان اپنے آپ کو مکمل طورپر آزاد پاتا ہے۔ مگر یہ آزادی برائے انعام نہیں ہے، بلکہ وہ برائے امتحان ہے۔ موت سے پہلے کے مرحلۂ حیات میں انسان کو آزادی دے کر یہ دیکھا جارہا ہے کہ کون اپنے آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اپنی آزادی کو صحیح طورپر استعمال کرنا، گویا خود سے اپنے آپ کو خدائی ڈسپلن میں رکھنا ہے۔ ایسے لوگ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں ابدی جنتوں میں جگہ پائیں گے، اور جو لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں، وہ موت کے بعد کے مرحلۂ حیات میں جہنّم میں ڈال دیے جائیں گے۔ جنت، ابدی راحتوں کی جگہ ہے، اور جہنم، ابدی مصیبتوں کی جگہ۔
موجودہ دنیا انسان کے لیے ایک بے حد موافق دنیا ہے، یہاں کامل طورپر اُس چیز کا انتظام کیاگیا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہاجاتاہے۔ مگر قرآن کے مطابق، یہ دنیا ہمیشہ اِسی طرح رہنے والی نہیں۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خالق نے جس طرح ہر عورت اور مرد کی ایک عمر مقرر کردی ہے، اِسی طرح اِس دنیا کی بھی ایک مقرر عمر ہے۔ یہ سیارۂ زمین اور یہ شمسی نظام ہمیشہ اِسی طرح رہنے والے نہیں۔ قرآن میں واضح طورپر بتایا گیاہے کہ خدائی عمل کے مطابق، جب مقرر مدت پوری ہوگی تو اس دنیا کواور اِس کے پورے نظام کو توڑ دیا جائے گا۔ اِس کے بعد، خدا اپنی قدرت سے ایک اور دنیا بنائے گا۔ یہ دوسری دنیا ایک کامل اور ابدی دنیا ہوگی۔ اِس دوسری دنیا کے قوانین موجودہ دنیا سے مختلف ہوں گے۔
موجودہ دنیا میں انسان کو آزادی ملی ہوئی ہے، لیکن اگلی دنیا براہِ راست خدا کے کنٹرول میں ہوگی۔ اِس دوسری دنیا میںخدا عدل (justice) کو مکمل طورپر قائم کرے گا۔ اِس دوسری دنیا میں وہ تمام حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیںگی جو موجودہ دنیا میں مصلحتِ امتحان کی بنا پر چھپی ہوئی تھیں۔
جو لوگ قرآن کے ذریعے سچائی کو دریافت کریں، اُن کو قرآن عمل کا دو نکاتی پروگرام دیتا ہے — اپنی زندگی میں خدا کی ہدایت کی کامل پیروی، اور دوسرے انسانوں کو اِس معلوم خدائی ہدایت سے باخبر کرنا۔
خدائی ہدایت کی پیروی کا آغاز معرفت یا خدائی حقیقت کی دریافت سے ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب قرآن کے ذریعے سچائی کو دریافت کرتا ہے تو اُس کے اندر ایک ذہنی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ اس کی سوچ بدل جاتی ہے۔ اس کے چاہنے اور نہ چاہنے کا معیار تبدیل ہوجاتا ہے۔ اس کی زندگی اندر سے باہر تک ایک نئے ربانی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔
معرفتِ خداوندی کا یہ اظہار جن صورتوں میں ہوتاہے، اُس کو ذکر اورعبادت اور اخلاقِ حسنہ اور متقیانہ زندگی جیسے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ سچائی کی دریافت کوئی میکانیکل دریافت نہیں ہے، سچائی کی دریافت حقیقتِ حیات کی دریافت ہے۔ اور جس انسان کو زندگی کی حقیقت معلوم ہوجائے، وہ خود اپنی فطرت کے زور پر ایک نیا انسان بن جاتا ہے۔ سچائی کی دریافت کسی انسان کے لیے ایک جنم کے بعد دوسرا جنم لینا ہے۔ یہ نیا جنم ایک ایسے نمو پذیر درخت کے مانند ہے جو ہمیشہ بڑھتا رہے، جس کی ترقی کا سفر کبھی ختم نہ ہو۔
قرآن کے ذریعے جو لوگ سچائی کو دریافت کریں، ان کے عملی پروگرام کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے، یعنی خدائی سچائی سے دوسروں کو باخبر کرنا۔ یہ دعوتی عمل ایک بے حد سنجیدہ عمل ہے۔ وہ کامل ڈیڈی کیشن کا طالب ہے۔ اِسی پہلو سے اس کو جہاد بھی کہاگیا ہے۔ قرآن میں مومنینِ قرآن کو یہ حکم دیاگیا ہے کہ: وجاہدہم بہ جہاداً کبیرا (25: 52) یعنی قرآن کے ذریعے تم دوسروں سے جہادِ کبیر کرو۔
قرآن کے مطابق، جہاد کامل طورپر ایک غیر سیاسی عمل ہے۔ جہاد ایک ایسا عمل ہے جو شروع سے آخر تک کامل طور پر پُرامن طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔ دعوتی جہاد کا نشانہ انسان کے دل کو اور اس کے دماغ کو بدلنا ہے۔ اور دل ودماغ میں تبدیلی صرف پرامن تبلیغ کے ذریعے ہوتی ہے، نہ کہ کسی قسم کے جبر یا تشدد کے ذریعے۔
قرآن کی کچھ آیتوں میں قتال (جنگ) کا حکم بھی آیا ہے۔ تاہم قرآن کے مطابق، جنگ کی صرف ایک ہی جائز صورت ہے اور وہ دفاع کی صورت ہے۔ دفاع (defence) کے سوا، کسی بھی دوسرے سبب کی بنا پر جنگ کرنا جائز نہیں۔ قرآن کے مطابق، زندگی میں امن کی حیثیت ایک عموم (rule) کی ہے، اور جنگ کی حیثیت صرف ایک نادر استثنا (rare exception) کی۔
قرآن میں جنگ سے متعلق کچھ آیتیں ہیں جو پورے قرآن کے مقابلے میں اُس کا ایک فی صد سے بھی کم حصہ ہیں۔ یہ آیتیں قرآن کے ابدی حکم کو نہیں بتاتیں، بلکہ وہ صرف ایک وقتی تدبیر کو بتاتی ہیں۔ یہ آیتیں اُس وقت اتریں ، جب کہ مومنین اور غیر مومنین کے درمیان حالتِ جنگ (state of war) قائم ہوگئی تھی۔ یہ حالت جنگ مخالف گروہ کی طرف سے مسلّح حملے کی بنا پر قائم ہوئی تھی۔ پیغمبر اسلام نے ہمیشہ اِن حملوں کے مقابلے میں کسی نہ کسی تدبیر سے اعراض کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح وہ ہمیشہ اِن حملوں کو ٹالتے رہے۔ صرف چند بار ایساہوا کہ اعراض کی ہر کوشش ناکام ہوگئی اور مجبورانہ طورپر جنگ کے میدان میں مقابلے کا طریقہ اختیار کیاگیا۔
خدا نے انسان کو اِس دنیا میں کامل آزادی عطا کی ہے۔ یہی آزادی انسانی سماج میں مختلف قسم کے مسئلے پیدا کرتی ہے۔ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ کوئی اشتعال انگیز بات کرتا ہے جس سے دوسروں کو غصہ آجاتا ہے۔ کسی سے دوسرے کو نقصان پہنچتا ہے، اس کے نتیجے میں دوسرے شخص کے اندر انتقام کا جذبہ جاگتا ہے۔ کوئی شخص کسی ذاتی سبب سے دوسرے سے نفرت کرتا ہے۔ اِس بنا پر دوسرا شخص بھی اُس سے جوابی نفرت کرنے لگتا ہے۔ یہ منفی تجربات کبھی اتنا زیادہ شدید ہوجاتے ہیں کہ ایک شخص یا دوسرے شخص کے درمیان، یا ایک گروہ یا دوسرے گروہ کے درمیان دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسا ہر انسانی سماج میں ہوتاہے۔ ایسی حالت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کیا جائے اور کیا نہ کیا جائے۔
اِس صورتِ حال کے بارے میں قرآن واضح طورپر یہ ہدایت دیتا ہے کہ لوگ ردّ عمل کا شکار نہ ہوں۔ وہ منفی رویّے کا جواب منفی رویّے سے نہ دیں، بلکہ وہ اس کا جواب مثبت انداز میں دیں۔ اِس مثبت جواب کو قرآن میں صبر اور اِعراض کہا گیا ہے۔
مثلاً قرآن میں مومنینِ قرآن کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ جب اُنھیں کسی کے اوپر غصہ آتا ہے تو وہ اس کو معاف کردیتے ہیں (42: 37)۔ قرآن کی اِس ہدایت کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں ایک انسان کو دوسرے انسان سے جو تکلیف پہنچتی ہے، وہ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق ہے۔ خدا نے انسان کو آزادی دی ہے، اِس لیے اُس کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ اپنی آزادی کا غلط استعمال کر کے دوسرے شخص کو نقصان پہنچائے۔ یہ صورت حال خدا کی قائم کردہ ہے، اِس لیے وہ قیامت سے پہلے ختم ہونے والی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اِس صورتِ حال کو فطری صورتِ حال سمجھے اور رد عمل کا اظہار نہ کرے، بلکہ وہ اس کو اوائڈ کرتے ہوئے اپنی مطلوب زندگی گزارے۔ اِس صورت ِ حال کو بدلنا کسی انسان کے لیے ممکن نہیں، اس لیے اِس دنیا میں انسان کے لیے اعراض (avoidance) کے سوا کوئی اور چوائس بھی نہیں۔
اِس سماجی صورتِ حال کی آخری صورت وہ ہے جس کو دشمنی کہاجاتا ہے۔ دشمنی کی صورت ِ حال کے مقابلے کے لیے بھی قرآن اِسی مثبت رویّے کی تلقین کرتا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ: ’’اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اُس سے بہتر ہو۔ پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا‘‘ (41: 34)قرآن کی اس آیت کے مطابق،دشمنی کوئی ابدی چیز نہیں۔ ہر دشمن آپ کا امکانی دوست (potential friend) ہے۔ اِس لیے مومنینِ قرآن کو چاہیے کو وہ اِس امکان کو واقعہ بنائیں، وہ اپنے حسنِ عمل سے، دشمن کو دوستی میں تبدیل کردیں۔
سماج کا ایک ظاہرہ یہ بھی ہے کہ اُس کے اندر ہمیشہ مختلف افکار ونظریات کے لوگ رہتے ہیں، ایسے لوگ جن کا کلچر اور مذہب ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایسے سماج میں پرامن طورپر رہنے کا فارمولا کیا ہے۔ ایسے سماج کے لیے پُرامن فارمولا قرآن میں اِس طرح دیا گیا ہے — تمھارے لیے تمھارا دین ہے، اور میرے لیے میرا دین (109: 6) ۔
قرآن کی اِس آیت کے مطابق، کثیر مذہبی سماج (multi-religious society)میں پُر امن طورپر رہنے کا فارمولا یہ ہے کہ — ایک کو اپناؤ اور دوسرے کا احترام کرو:
Follow one, and respect all.
قرآن کا مطلوب انسان ربانی انسان (3: 79)ہے، یعنی وہ انسان جو اِس دنیا میں رب والا انسان بنے۔ جوخدا رخی زندگی گزارے۔ ربانی انسان بننے کے اِسی پراسس کو قرآن میں تزکیہ (2:129) کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، جنت اُنھیں افراد کے لیے ہے جو اِس دنیا میں اپنا تزکیہ کریں، جو مزکّیٰ انسان بن کر اگلی دنیا میں داخل ہوں (20: 76) ۔
تزکیہ کے معنیٰ ہیں — تطہیر (purification) ، یعنی اپنی شخصیت کو نامطلوب چیزوں سے پاک کرنا۔ شخصیت کو پاک کرنے کا یہ عمل ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ایک مومنِ قرآن کے اندر یہ عمل اس کی زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر صحیح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔پیدائشی طورپر ہر انسان مسٹر نیچر ہوتاہے، مگر دنیا کی زندگی میں روزانہ ایسے تجربات ہوتے ہیں جو اس کی فطری شخصیت کے اوپر منفی دھبے ڈالتے رہتے ہیں، غصہ اور نفرت اور حسد اور لالچ اور تعصب او رکبر اور بے اعترافی اور انتقام، یہ سب یہی منفی دھبے ہیں، جو انسان کی فطری شخصیت کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ بے لاگ محاسبہ (introspection) کے ذریعے اپنا تزکیہ کرتا رہے۔ وہ آلودہ شخصیت کو فطری شخصیت بناتا رہے۔ ہر آدمی کا ماحول اُس کو ایک کنڈیشنڈ (conditioned) انسان بنا دیتا ہے۔ اب ہر آدمی کو یہ کرنا ہے کہ وہ ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے دوبارہ اپنے آپ کو مسٹر نیچر بنائے۔ اِس مسٹر نیچر کا قرآنی نام ربّانی انسان ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جنت میں وہ لوگ جائیں گے جو موجودہ دنیا میں اپنا تزکیہ کریں (20:76) ۔ اِس تزکیہ کے بغیر کوئی عورت یا مرد جنت میں داخل ہونے والے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مسئلہ کا حل

اکیسویں صدی عیسوی سنگین مسائل کی صدی ہے۔ اِن میں سے دو مسئلے بہت بنیادی ہیں— ایک ہے فطرت کے توازن میں بگاڑ(natural disorder) ، اور دوسرا ہے سوشل انارکی (social anarchy)۔ اِن دونوں مسائل کا مشترک پہلو یہ ہے کہ دونوں ہی انسانوں کے پیدا کردہ (man-made) مسائل ہیں۔ اگر اِن مسائل کو حل کرنا ہے تو ا س کی صرف ایک صورت ہے ا ور وہ یہ کہ انسان اپنی روش کو بدلے۔ بصورتِ دیگر، اِن مسائل کا مہلک انجام یقینی ہے۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس کو موجودہ زمین پر بسایا۔ خالق نے اپنے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کو ایک بنیادی ہدایت دی، وہ یہ کہ خالق نے انسانی عمل کے لیے کچھ حدود مقرر کردیے ہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ ان حدود کی پابندی کرے۔ یہ بات ایک حدیثِ رسول میں ان الفاظ میں کہی گئی ہے: وحدَّ حُدوداً فلا تعتدوہا (جامع العلوم والحکم 2/150 ) یعنی اللہ نے کچھ حدیں مقرر کردی ہیں، تم ان سے تجاوز نہ کرو:
O man, God has set certain limits for you. Don't cross those limits.
یہ بات انسان کو اس کی پہلی ہی نسل میں بتا دی گئی تھی۔ خالق نے جب آدم کو پہلے انسان کی حیثیت سے پیدا کیا تو ان کو اور ان کی بیوی حوا کو جنت میں بسایا۔ اُن سے کہاگیا کہ تم جنت میں ہر قسم کا فائدہ حاصل کرنے کے لیے آزاد ہو، مگر اُس کے فلاں درخت تک مت جاؤ۔ قرآن کے مطابق، ایک عرصے کے بعد ایسا ہوا کہ آدم اپنی حد سے تجاوز کرتے ہوئے اُس درخت تک گئے اور اس کا پھل کھالیا۔ اس کے بعد دونوں جنت سے نکال کر موجودہ زمین پر آباد کردئے گیے۔ زمین پر آدم اور ان کی بیوی کو آزادی حاصل تھی، لیکن یہ صرف محدود آزادی تھی۔ آزادی کو لامحدود طورپر حاصل کرنے کی صورت میں دوبارہ یہ اندیشہ تھا کہ زمین اُن سے چھن جائے۔
خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے دوبارہ انسان کو یہ ہدایت دی کہ زمین کو تمھیں اصلاح یافتہ صورت میں دیاگیا ہے، تم اس میں فساد برپا نہ کرنا: ولا تفسدوا فی الأرض بعد اصلاحہا (7: 85)۔ اکیسویں صدی میں جو بگاڑ سامنے آیا ہے، ا س کا سبب یہی ہے کہ انسان نے اپنی حد سے تجاوز کیا اور اس کے نتیجے میں اس نے اصلاح یافتہ زمین کو فساد میں مبتلا کردیا۔
ماحولیات کا مسئلہ
موجودہ زمانے میں ماحولیات (ecology) کا جو مسئلہ پیدا ہوا ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسی ’’فساد‘‘ کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمین کو انسان کے لیے صرف عارضی قیام گاہ کے طورپر پیدا کیا ہے۔ اِس لیے یہاں جو بھی وسائل ہیں، وہ سب محدود مقدار میں ہیں۔ موجودہ زمانے میں جب جدید ٹکنالوجی آئی تو انسان نے اِن وسائل کو لامحدود طورپر استعمال کرنا شروع کردیا۔ اِس کے نتیجے میں وہ ظاہرہ پیدا ہوا جس کو زیادہ اخراجِ کاربن (excess carbon emission) کہا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں مختلف سنگین مسائل پیدا ہوئے۔ مثلاً گلوبل وارمنگ، ائر پلوشن، واٹر پلوشن، وغیرہ۔اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ انسان اپنے لائف اسٹائل کو بدلے۔ وہ فطرت کے نقشے کے مطابق، سادہ لائف اسٹائل کو اختیار کرے۔
سوشل انارکی
سوشل انارکی کیا ہے۔ وہ انسانی آزادی کا غلط استعمال ہے۔ انسان اپنی آزادی کو اگر محدود طورپر استعمال کرے تو اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی، لیکن اگر وہ اپنی آزادی کو لامحدود طورپر استعمال کرنے لگے تو اس کے بعد لازماً وہی چیز پیدا ہوگی جس کو سوشل انارکی کہا جاتا ہے۔ امریکا سے ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر بی ایف اسکنر(B F Skinner) ہیں۔ کتاب کا ٹائٹل یہ ہے:) (Freedom and Dignity۔ اِس کتاب میں مصنف نے لامحدود آزادی کے نظریے پر تنقید کرتے ہوئے بتایا ہے کہ — ہم لامحدود آزادی کا تحمل نہیں کرسکتے:
We can't afford unlimited freedom.
ایک واقعہ اِس معاملے کو بخوبی طورپر واضح کرتا ہے۔ ڈیڑھ سو سال پہلے جب امریکا کو آزادی ملی تو ایک امریکی شخص بہت خوش ہوا۔ وہ اپنے گھر سے نکل کر قریب کی ایک سڑک پر چل رہا تھا۔ خوشی میں وہ اپنے دونوں ہاتھوں کو بہت زیادہ ہلا رہا تھا۔ اِس دوران وہاں سے ایک اور امریکی شخص گزرا۔ اُس وقت یہ ہوا کہ پہلے شخص کا ہاتھ دوسرے شخص کی ناک پر لگ گیا۔ دوسرے شخص نے کہا — یہ تم نے کیا کیا، تم نے کیوں میری ناک پر مارا۔ پہلے شخص نے جواب دیا کہ امریکا آج آزاد ہے، میں آزاد ہوں کہ جو چاہوں کروں۔ دوسرے شخص نے کہا کہ — تمھاری آزادی وہاں ختم ہوجاتی ہے جہاں سے میری ناک شروع ہوتی ہے:
Your freedom ends, where my nose begins.
یہ فطرت کا ایک اصول ہے۔ یہاں انسان کو آزادی حاصل ہے، لیکن یہ آزادی ایک محدود آزادی ہے۔ انسان اگر اپنی آزادی کو لامحدو طور پر استعمال کرنے لگے تو اس کا نتیجہ لازماً اجتماعی بگاڑ کی صورت میں ظاہر ہوگا۔جدید انسان کی غلطی یہ ہے کہ اس نے آزادی کو عظیم ترین خیر (summum bonum) سمجھ لیا۔ اِس کے نتیجے میں کامل آزادی (total freedom) کا نظریہ پیداہوا۔ یہی وہ نظریہ ہے جو موجودہ سوشل انارکی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ انسان دوبارہ لامحدود آزادی سے محدود آزادی کی طرف واپس جائے۔اِس کے سوا اِس مسئلے کا دوسرا اور کوئی حل موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مال کی حقیقت

کہا جاتا ہے کہ بل گیٹس (Bill Gates) دورِ جدید کا سب سے بڑا دولت مند آدمی ہے۔ اِس وقت اس کی عمر 54 سال ہے اور وہ 34 بلین اسٹرلنگ پاؤنڈ کا مالک ہے۔ مگر وہ اپنی دولت اپنے تین بچوں کو نہیں دینا چاہتا، کیوں کہ اس کو اندیشہ ہے کہ اس کے بچے اتنی بڑی دولت پاکر بگڑ جائیں گے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا، 21 ستمبر 2010 کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس نے کہا کہ — وہ نہیں چاہتے کہ وہ اپنی دولت سے ایک خاندانی مملکت قائم کریں۔ وہ اپنی دولت کو اپنے بچوں کے لیے نہیں چھوڑیں گے:
He is not interested in using his billions to LAUNCH a dynasty and would not leave his fortune to his children. (The Times of India, New Delhi, p. 20)
جس آدمی کے پاس مال نہ ہو، وہ مال کو سب سے بڑی چیز سمجھتا ہے۔ وہ اپنا پورا وقت اور اپنی پوری توانائی مال کے حصول میں لگا دیتا ہے۔ لیکن جب وہ مال کو پالیتا ہے تو اس کے بعد وہ دریافت کرتاہے کہ مال بہت سے ناقابلِ حل مسائل لے کر آیا ہے۔ مال نے اس کو خوشی نہیں دی، البتہ اس نے اس کی زندگی میں بہت سے نئے مسائل کا اضافہ کردیا۔ مال، ملنے سے پہلے ایک خوش نما گول (goal) ہے، لیکن مال، ملنے کے بعد صرف مسائل کا مجموعہ بن جاتا ہے۔
قرآن میں مال کو انسان کے لیے قیام (4: 4) کا ذریعہ بتایا گیا ہے، یعنی مال انسان کی مادی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے ہے، مال انسان کے لیے مقصد حیات نہیں۔ مال کی اِس حقیقت کو جو انسان مال کے حصول سے پہلے جان لے، وہ ایک دانش مند انسان ہے، اور جو آدمی مال کی اِس حقیقت کو مال کے حصول کے بعد جانے ، وہ بلا شبہہ ایک غیر دانش مند انسان ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اِس معاملے میں وہ دوسروں کے تجربے سے سبق لے۔ وہ اِس کا انتظار نہ کرے کہ یہ تجربہ خود اس کے اوپر گزرے، اس کے بعد وہ اس سے سبق حاصل کرے گا۔
واپس اوپر جائیں

امریکا: دوست یا دشمن

امریکا کے عراق پر حملے سے پہلے عام طور پر مسلمانوں میں امریکا کے بارے میں اچھی رائے تھی۔ اُس وقت عرب لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے تھے کہ: أمریکا صدیق کبیر (امریکا ایک بڑا دوست ہے) لیکن بعد کے زمانے میں جب امریکا کی فوجوں نے عراق اور افغانستان پر حملہ کیا تو اس کے بعد لوگوں کی رائے بدل گئی۔ اب عرب عام طور پر یہ کہنے لگے کہ: أمریکا عدوّ الاسلام رقم واحد (امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے)۔ امریکا کے بارے میں یہ منفی رائے دنیا بھر کے تمام مسلمانوں میں پائی جاتی ہے، خواہ وہ عرب ہوں یا غیر عرب۔ یہ سوچ موجودہ دنیا میں قابلِ عمل نہیں، چناں چہ اِس سوچ نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو امریکا کے بارے میں دو عملی میں مبتلا کردیا ہے، یعنی امریکا کو برا سمجھنا اور اسی کے ساتھ امریکا سے مادی فائدہ اٹھانا۔مسلمانوں کا یہ ذہن قرآنی ذہن نہیں ہے۔ قرآن کی سورہ المائدہ میں ایک آیت آئی ہے جس کا ترجمہ یہ ہے: کسی گروہ کی دشمنی تم کو اِس پر نہ آمادہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ انصاف کرو، یہی تقویٰ سے زیادہ قریب ہے (5: 8)۔
اِس آیت کا تقاضا ہے کہ امریکا کے معاملے میں مسلمان انصاف سے کام لیں اور حقیقت پسندانہ رائے قائم کریں۔ مثلاً مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ کیوں ایسا ہے کہ امریکا نے عراق پر بم باری کی، لیکن وہی امریکا سعودی عرب کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔ امریکا ایک طرف اسرائیل کی مدد کرتا ہے اور دوسری طرف وہی امریکا پاکستان کو غیر معمولی مدد دے رہا ہے۔ جارج بش سینئر کے د ور سے پہلے امریکا میں ایک بھی مسجد نہیں تھی اور آج امریکا میں ایک ہزار سے زیادہ مسجدیں (اسلامک سنٹر) ہیں۔ امریکا میں اسلام کے نام پر جتنی سرگرمیاں ہوتی ہیں، اتنی سرگرمیاں غالباً کسی مسلم ملک میں بھی نہیں، وغیرہ۔
اس تقابل پر غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ امریکا کا کیس نہ اینٹی اسلام کیس ہے اور نہ پرومسلم کیس، بلکہ اس کا کیس پروامریکا (pro-America) کیس ہے، یعنی امریکا جو کچھ کررہا ہے، وہ اپنے قومی مفاد کے لیے کررہا ہے، نہ کہ اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کے لیے۔
واپس اوپر جائیں

صلاحیت کے بغیر اقدام

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں5 ہجری میں وہ واقعہ پیش آیا جس کو غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔اُس وقت حفاظت کی غرض سے عورتوں اور بچوں کو ایک حصن (قلعہ) میں رکھا گیا تھا۔ اس کی نگرانی پر حسان بن ثابت انصاری مقرر کیے گیے تھے۔ صفیہ بنت عبد المطلب کہتی ہیں کہ میں نے دیکھا کہ قلعہ کے پاس ایک یہودی آگیا ہے اور مشتبہ انداز میں وہاں گھوم رہا ہے۔ میں نے حسان سے کہا کہ اِس یہودی سے ہمیں خطرہ محسوس ہورہا ہے، اِس کو مار کر یہاں سے بھگاؤ۔ حسان نے جواب دیا: یغفر اللہ لک یا ابنۃ عبد المطلب، واللّٰہ لقد عرفتِ ما أنا بصاحب ہذا (سیرت ابن ہشام، جلد 3، صفحہ 246) یعنی اے عبد المطلب کی بیٹی، اللہ تم کو معاف کرے، بخدا تم کو یہ معلوم ہے کہ میں اِس کام کا آدمی نہیں۔ حسان بن ثابت انصاری (وفات: 54ھ) ایک صحابیٔ رسول تھے۔ اِس اعتبار سے، ان کا مذکورہ واقعہ ایک اسلامی نمونے کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس طرح صحابہ کے دوسرے واقعات ہمارے لیے نمونہ ہیں، اُسی طرح حسان بن ثابت کا مذکورہ واقعہ بھی ایک قابل تقلید نمونہ ہے۔ وہ نمونہ یہ ہے کہ آدمی کوئی ایسی ذمے داری ہر گز قبول نہ کرے جس کے لیے وہ اپنے آپ کو اہل نہ پاتا ہو۔ اِس لیے کہ نا اہلی کے باوجود اگر وہ کسی اجتماعی ذمے داری کو قبول کرتا ہے تو وہ صرف بگاڑ میں اضافے کا باعث بنے گا۔مثال کے طورپر ایک شخص مخلص ہے، مگر وہ سیاست کا تجربہ نہیں رکھتا، تو اس کو ہر گز سیاست کے میدان میں داخل نہیں ہونا چاہیے۔ ایک شخص روایتی عالم ہے، لیکن اس نے جدیدیات کا براہِ راست مطالعہ نہیں کیا ہے تو اس کو جدید طبقے کی رہنمائی کا کام نہیں سنبھالنا چاہیے۔ ایک شخص کی تربیت درس وتدریس کے ماحول میں ہوئی ہے تو اس کو تحریکِ جہاد کا رہنما نہیں بننا چاہیے۔ ایک شخص صرف مسجد اور مدرسے کے ماحول کو جانتا ہے تو اس کو عالمی قیادت کے اسٹیج پر نہیں آنا چاہیے۔ ایسے ہر موقع پر اخلاص کا تقاضا ہے کہ آدمی یہ کہہ دے کہ: ما أنا بصاحب ہذا (میں اِس کام کا اہل نہیں)۔ نااہلی کے باوجود رہنمائی کے میدان میں داخل ہونا، بلاشبہہ ایک مجرمانہ فعل ہے۔ کسی آدمی کا مخلص ہونا، ایسے احمقانہ اقدام کے لیے ہرگز کوئی عذر نہیں بن سکتا۔
واپس اوپر جائیں

تیسرا آپشن نہیں

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ اسلام کو میں سچا مذہب مانتا ہوں ، لیکن میرے کچھ شبہات ہیں۔ مثلاً معجزہ کی عقلی توجیہہ میری سمجھ میں نہیں آتی ۔ اِسی طرح پانچ وقت کی نماز کا قرآن میں مجھے ثبوت نہیں ملتا، وغیرہ۔ گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ اپنے اِن خیالات کو دوسروں سے بیان کرتے رہتے ہیں۔
میںنے اُن سے جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے کو ابھی صرف ایک اسٹوڈنٹ سمجھئے۔ آپ یہ سمجھیں کہ آپ ایک متلاشی (seeker) ہیں اور باتوں کو گہرائی کے ساتھ جاننے کے لیے اسٹڈی کررہے ہیں۔ اِس بارے میں جب تک آپ کی رسرچ مسلمہ علمی معیار پر مکمل نہ ہوجائے، آپ ہر گز اِن باتوں کی چرچا دوسروں سے نہ کریں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کا کیس فتنہ پردازی کا کیس بن جائے گا، نہ کہ تلاشِ حق کا کیس، اور فتنہ پردازی بلا شبہہ اتنی زیادہ بری چیز ہے کہ کوئی سنجیدہ آدمی اُس کا تحمل نہیں کرسکتا۔
میں نے کہا کہ متلاشی (seeker) بننا، ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ سچائی کا متلاشی بننا اور اس کے لیے تحقیق کرنا، یہ بلاشبہہ ہر انسان کا حق ہے۔ لیکن یہ کسی کا حق نہیں کہ وہ گہرے مطالعے کے بغیر بڑی بڑی باتیں بولنے لگے ۔ حق کی تلاش اگر علمی دیانت داری ہے، تو تلاش کا حق ادا کیے بغیر اُس پر غیرذمے دارانہ کلام کرنا، علمی بددیانتی (intellectual dishonesty) کی حیثیت رکھتاہے۔
میںنے کہا کہ آپ کے لیے دو میں سے ایک کا آپشن (option) ہے— یا تو آپ خاموش رہیں، اپنی بات کو اپنے دل میں رکھیں، دوسروں سے نہ کہیں۔ یا آپ اتنا زیادہ مطالعہ اور رسرچ کریں کہ خالص علمی اور سائنسی معیار پر ایک بیان (statement) دینے کے قابل ہوجائیں۔ اِس وقت آپ جو کررہے ہیں، وہ تھرڈ آپشن (third option) ہے، اورکسی کے لیے تھرڈ آپشن لینا، دینی اعتبار سے ناجائز ہے اور علمی اعتبار سے غیرمعقول۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی ارتقاء

ذہنی ارتقا(intellectual development) بلا شبہہ کسی انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعہ ایک انسان کامل انسان بنتا ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعے ایک شخص اپنی بالقوہ (potential) صلاحیتوں کو بالفعل (actual) بنانے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعے آدمی حیوانیت کے درجے سے بلند ہو کر انسانیت کے درجے تک پہنچتا ہے۔ ذہنی ارتقا ہی کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص حقیقی معنوں میں خدا کا مطلوب بندہ بن سکے۔
ذہنی ارتقا کوئی نئی چیز نہیں، یہ عین وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں اِزدیادِ ایمان (48: 4)کا لفظ آیا ہے۔ ایمان کا آغاز حقیقت کی دریافت سے ہوتا ہے۔ حقیقت کوئی محدود چیز نہیں، وہ لامحدود حد تک وسیع ہے۔
ایمان کا مطلب یہ ہے کہ آدمی نے حقیقت کی کائناتی وسعتوں میںاپنا سفر شروع کردیا ہے۔ یہ سفر نئی نئی دریافتوں کے ساتھ مسلسل جاری رہتا ہے۔ اِس سفر کا آغاز ہے، لیکن اِس سفر کا کوئی خاتمہ نہیں۔ گویا کہ یہ ایک پراسس (process) ہے۔ ازدیادِ ایمان اور ذہنی ارتقا دونوں اِسی پراسس کے دو نام ہیں۔ یہ دونوں نام الفاظ کے اعتبار سے الگ ہیں، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے دونوں ایک ہیں۔ ایمان، ازدیاد کے بغیر ایک جامد ایمان ہے، لیکن ازدیاد کے ساتھ ایمان لامتناہی معنوں میں ایک زندہ چیز بن جاتا ہے۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے بعد فوراً ہی اس کا جسمانی ارتقا (physical development) شروع ہوجاتاہے۔ یہ ارتقائی عمل ایک بچے کو بڑا انسان بنا دیتا ہے۔ یہی معاملہ ذہنی ارتقا کا ہے۔ ذہنی ارتقا بھی پیدائش کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے، مگر دونوں میں ایک فرق ہے۔ جسمانی ارتقا کی ایک معلوم حد ہے، لیکن ذہنی ارتقا کی کوئی معلوم حد نہیں۔ حقیقت کی حد کبھی ختم نہیں ہوتی، اِسی طرح ذہنی ارتقا کی حد بھی کبھی ختم ہونے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا قانون

تیرھویں صدی عیسوی میں تاتاری قبائل کوہستانی علاقے سے نکلے۔ وہ بارہ ہزار کی تعداد میں تھے۔ انھوں نے عباسی سلطنت پر حملہ کیا اور اس کا خاتمہ کردیا۔ انھوںنے سمر قند سے لے کر حلب تک زبردست تباہی برپا کی۔ مورخ ابن اثیر (وفات:1234ء) اُس وقت زندہ تھے۔ انھوںنے اِس تباہی کو براہِ راست طورپر اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ وہ اپنا تاثر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: لقد بُلی الاسلام والمسلمون فی ہذہ المدۃ بمصائب لم یبتل بہا أحدٌ من الأمم (الکامل فی التاریخ، جلد 12، صفحہ 360 ) یعنی اسلام اور مسلمان اِس زمانے میں ایسی مصیبتوں میں مبتلا ہوئے جیسی مصیبت میں کبھی کوئی قوم مبتلا نہیں ہوئی۔
مورخ ابن اثیر بعد کے حالات دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے۔ اگر وہ زندہ رہتے اور بعد کے حالات دیکھتے تو یقینا وہ کہتے کہ تاریخ کو بنانا کسی قوم کے ہاتھ میں نہیں ہے، بلکہ وہ براہِ راست خدا کے ہاتھ میں ہے۔ چناں چہ وہاں یہ واقعہ ہوا کہ نصف صدی کے اندر اسلام کی صداقت غالب آئی اور تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ اِس کے بعد یہی تاتاری تھے جس کی اگلی نسلوں نے مسلم دنیا میں ڈھائی جانے والی مسجدوں کو دوبارہ تعمیر کیا اور عظیم ترک خلافت قائم کی۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا کا نظام تبدیلی کے اصول پر قائم ہے۔ اِس دنیا کے لیے اس کے خالق نے یہ مقدر کردیا ہے کہ یہاں ہر عسر کے بعد یسر آئے، ہر ناکامی کے بعد دوبارہ کامیابی کا دروازہ کھلے۔ ہر شام کے بعد دوبارہ نئی شان کے ساتھ آفتاب نکلے۔
یہ ایک ایسا ابدی قانون ہے جس میں کبھی فرق نہیں آتا۔مزید یہ کہ اِس قانون کا تعلق صرف اہلِ اسلام سے نہیںہے، بلکہ اس کا تعلق تمام انسانوں سے ہے۔ تمام انسانوں کے لیے ان کے رب نے یہ مقدر کردیا ہے کہ اُن پر مختلف قسم کے حالات گزریں، تاکہ وہ اپنے رب کو ہمیشہ دریافت کرتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آپ نے اپنی ایک تقریر میں فرمایا تھا کہ موجودہ زمانے میں دعوت کی نسبت سے دو بڑے کام ضروری ہیں— جدید سائنسی دریافتوں کا اسلام کے ساتھ تعلق ثابت کرنا، اور عصری اسلوب میں اسلام کا تعارف۔ براہِ کرم، اِن دونوں پہلوؤں کی وضاحت فرمائیں (ابو الحکم محمد دانیال، پٹنہ، بہار)
جواب
موجودہ زمانے میں دعوتِ اسلام کی نسبت سے دو بڑے کام مطلوب ہیں۔ اِن دونوں کاموں کی انجام دہی کے بغیر موجودہ زمانے میں دین کا اظہار نہیں ہوسکتا۔ وہ دو کام یہ ہیں:
1 - جدید علمی دریافتوں کا اسلام کے ساتھ ریلیونس (relevance) بتانا۔ موجودہ زمانے میں سائنسی تحقیقات کے ذریعے جو نئی علمی حقیقتیں دریافت ہوئی ہیں، وہ اسلام کی حقانیت کو از سرِ نو مدلّل کرتی ہیں۔ ابتدائی طورپر یہ دریافتیں اسلام سے الگ معلوم ہوتی ہیں، لیکن جب اُن کو اسلامی عقائد سے وابستہ کرکے دیکھا جائے تو وہ اسلام کے حق میں ایک مسلّمہ علمی دلیل بن جاتی ہیں۔ مثال کے طورپر مشہو ر برٹش سائنس داں اسٹفن ہاکنگ(Stephen Hawking) کی دریافت کردہ سنگل اسٹرنگ تھیوری (single-string theory) عقیدۂ توحید کے لیے ایک قطعی سائنسی بنیاد فراہم کرتی ہے۔
اِسی طرح ایک اور مثال مشہور جرمن سائنس داں آئن سٹائن (وفات:1955 ) کا نظریۂ اضافیت (Theory of Relativity) ہے۔ نظریہ اضافیت بتاتا ہے کہ انسانی علم کی نسبت سے یہاں کوئی مطلق فریم ورک موجود نہیں:
No absolute frame of reference exists.
یہ سائنسی دریافت اسلام کی نسبت سے بہت اہم ہے۔ یہ دریافت اسلام کے عقیدۂ وحی کے حق میں سائنسی بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اِس دریافت کے مطابق، انسان علمِ کلّی تک نہیں پہنچ سکتا، جب کہ علمِ کلّی کا حصول انسان کے لیے بے حد ضروری ہے۔ اِس طرح یہ نظریہ یہ ثابت کرتاہے کہ انسان کو علم کلّی تک پہنچنے کے لیے وحی (رسالت) پر اعتماد کرنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اسٹفن ہاکنگ کی دریافت اگر عقیدۂ توحید کے لیے علمی بنیاد فراہم کرتی ہے، تو آئن اسٹائن کی دریافت عقیدۂ رسالت کے حق میں علمی بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ گویا کہ جدید سائنس اسلام کا جدید علمِ کلام (theology) ہے۔
2 - دوسرا اہم کام یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو اِس طرح بیان کیا جائے کہ وہ جدید دور سے ریلیونٹ (relevant) معلوم ہونے لگے۔ بظاہر اسلام کی تعلیمات الگ ہیں اور جدید دور کے تقاضے الگ۔ لیکن جب اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب (modern idiom) میں بیان کردیا جائے تو وہ پوری طرح جدید دور سے ریلیونٹ دکھائی دینے لگے گی۔ہمارے ادارے سے چھپا ہوا پورا لٹریچر اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ اگر اس کو مختلف زبانوں میں چھاپ کر دنیا میں پھیلا دیا جائے تو ان شاء اللہ یہی لٹریچر وقت کی اِس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہوجائے گا۔
سوال
بخاری کی ایک حدیث ہے کہ ’’دوزخ سال میں دو بار سانس لیتی ہے۔ ایک بار وہ اندرسانس لیتی ہے، یعنی کھینچتی ہے اور ایک بار وہ اس کو باہر چھوڑتی ہے۔ جب وہ سانس اندر لیتی ہے تو زمین پر سردی پڑتی ہے اور جب وہ باہر چھوڑتی ہے تو زمین پر گرمی پڑتی ہے‘‘۔ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں یہ حدیث سمجھ میں نہیں آتی۔ امسال (2009) سردی پڑی ہی نہیں۔ ایسی حالت میں یہ حدیث ایک معمّہ سے کم نظر نہیںآتی۔ براہِ کرم، اس حدیث کے بارے میں میری رہنمائی فرمائیں۔ (شعیب اعظم، بھوپال)
جواب
صحیح البخاری کی یہ روایت تمثیل کی زبان میں ہے۔ یہ روایت نصیحت کے لیے ہے، نہ کہ بیانِ واقعہ کے لیے۔ اصل یہ ہے کہ جہنم میں سخت سردی بھی ہے اور سخت گرمی بھی ۔ مذکورہ روایت کا مطلب یہ ہے کہ جب تم کو سخت سردی کا تجربہ ہوتو تم یاد کرو کہ جب دنیا کی سردی اتنی تکلیف دہ ہے تو جہنم کی سردی کتنی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ اِسی طرح جب تم کو دنیا کی گرمی کا تجربہ ہو تو تم سوچو کہ جب دنیا کی گرمی اتنی تکلیف دہ ہے تو جہنم کی گرمی کتنی زیادہ تکلیف دہ ہوگی۔ اِس قسم کی اور بھی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ وہ سب بطور تمثیل ہیں، نہ کہ بطور بیانِ واقعہ۔
سوال
آپ نے ’’تذکیر القرآن‘‘ (26: 204-212) میں تشریح کے تحت درج کیا ہے کہ: ’’پیغمبر کی سطح پر جب دعوت ظاہر ہوتی ہے تو وہ اپنی آخری کامل صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پیغمبر کا انکار کرنے والی قوم پر خدا کا عذاب آنا لازمی ہوجاتا ہے‘‘ (صفحہ 1048 )۔ آپ نے اپنی تشریح میں کئی جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ پیغمبروں کے ذریعہ اتمامِ حجت کے بعد مخاطب قوم جینے کا حق کھو دیتی ہے۔ اقوام کی تاریخ آپ کی تشریح کی شہادت دیتی ہے، مگر یہود کا معاملہ مستثنیٰ نظر آتا ہے۔ حالاں کہ قوم یہود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا، مگر پھر بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے جینے کا حق نہیں چھینا۔ اس کا کیا جواز ہے (رستم علی، پٹنہ،بہار)
جواب
پیغمبر کے ذریعے اتمامِ حجت کے بعد مدعو قوم پر ضرور عذاب آتا ہے، لیکن اس کی صورت ہمیشہ یکساں نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح کے ذریعے اتمامِ حجت کے بعد یہود بھی اِس قانونِ الٰہی کی گرفت میں آئے، لیکن اُن کے ساتھ عذابِ مستأصل کا معاملہ نہیں کیا گیا، بلکہ وہ معاملہ کیاگیا جس کو قرآن میںاِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ضُربت علیہم الذلّۃ والمسکنۃ (2: 61) ۔ اِس آیت میں ذلت اور مسکنت سے مراد مادّی ذلت اور مسکنت نہیں ہے، بلکہ نفسیاتی ذلت اور مسکنت ہے۔ مزید یہ کہ مسلمان اگر حدیث کی پیش گوئی کے مطابق، یہود کے طریقے کا اتباع کرنے لگیں، تو وہ بھی اِس قانونِ الٰہی کی گرفت میںآجائیں گے۔
سوال
حدیث میں آیا ہے کہ آخری زمانے میں ایک شخص اٹھے گا، جو المہدی ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا المہدی کوئی سیاسی لیڈر ہوںگے، نیزیہ کہ کیا المہدی انوکھی اور پر اسرار شخصیت کے حامل ہوں گے کہ ان کو دیکھتے ہی تمام مسلمان ان کو پہچان کر متفقہ طو ر پر اُن کے ساتھی بن جائیں گے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (شاہ عمران حسن، نئی دہلی)
جواب
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دور آخر میں امتِ محمدی کے اندر ایک شخص اٹھے گا۔ حدیث میں اس کو المہدی کہاگیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں المہدی کا رول اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: یملأ الأرضَ قسطاً وعداً کما مُلئت جوراً وظلماً (کتاب المہدی،رقم الحدیث: 2485 ) یعنی مہدی زمین کو قسط اور عدل سے بھر دے گا، جیسا کہ اِس سے پہلے وہ جوروظلم سے بھر دی گئی تھی۔
اِس حدیث میں جو بات کہیں گئی ہے، وہ سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی توسیع کے معنی میں ہے۔ یہی بات حدیث کے دونوں حصوں کے بارے میں درست ہے، یعنی ایسا نہیں ہوگا کہ مہدی سے پہلے ساری زمین پر ظلم وجور کا سیاسی اقتدار قائم ہوگا اور مہدی اس کے بجائے ساری زمین پر قسط وعدل کا اقتدار قائم کردے گا۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مہدی سے پہلے دنیا میں غلط نظریے کی عمومی اشاعت ہوجائے گی۔ مہدی اِس کے بجائے یہ کرے گا کہ وہ دنیا میں صحیح نظریے کی عمومی اشاعت کرنے میں کامیاب ہوگا۔ اِس اعتبار سے، حدیث کی تشریح اِن الفاظ میں کرنا درست ہے: یملأ الأرض قسطاً وعدلاً بکلمۃ الحق کما ملئت جوراً وظلماً بکلمۃ الباطل۔
المہدی کوئی انوکھی چیز نہیں ہوگا، وہ عام مصلحین کی طرح ایک مصلح ہوگا۔ فرق صرف یہ ہوگا کہ عام مصلحین اور مجدد ین عالمی کمیونکیشن (global communication) سے پہلے پیدا ہوئے، جب کہ المہدی کی امتیازی صفت یہ ہوگی کہ وہ عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں پیداہوگا۔ اِس بنا پر اس کی دعوتی اور فکری جدوجہد کا دائرہ عالمی بن جائے گا، جب کہ اِس سے پہلے کے مصلحین اور مجددین کا دائرہ صرف محلّی اور مقامی ہوا کرتا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ المہدی کا ظہور قانونِ فطرت کے مطابق ہوگا،اور قانونِ فطرت کے مطابق ہی اِس معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ ہجرت سے پہلے، نبوت کے دسویں سال، مکہ سے طائف گئے۔ طائف اُس زمانے کا ایک خوش حال شہر تھا۔ اُس وقت وہاں کے تمام لوگ بت پرست تھے آپ نے طائف کے تین سرداروں سے ملاقات کی اور بتایا کہ خدا نے مجھے اپنا رسول بنایا ہے۔ اِس کے بعد اِن سرداروں نے آپ کا مذاق اڑایا اور آپ کی توہین کی۔ ایک سردار نے کہا: أما وجد اللّٰہ أحداً أرسلہ غیرک (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، 2/149 ) یعنی کیا اللہ نے کسی اور کو نہیں پایا کہ وہ اُس کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجے۔
یہی اپنے زمانے میں خدا کے تمام پیغمبروں کا حال ہوا ہے۔ ہر ایک کو ان کے معاصرین نے کم سمجھا، اور اُن کا استہزاء (36: 30) کیا۔ اِس معاملے میں کسی بھی پیغمبر کا، حتی کہ پیغمبر اسلام کا بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ لوگ پیغمبروں کو ان کے بعد کے زمانے کے حوالے سے پہچانتے ہیں۔ پیغمبروں کو پہچاننے والا صرف وہ شخص ہے جو اُن کو اُن کے ابتدائی زمانہ یا ان کے معاصر زمانہ کے اعتبار سے دیکھ سکے۔
مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ انسانی تاریخ کے آخری زمانے میں مہدی اور مسیح آئیںگے، لیکن وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر مہدی اور مسیح کو ایک مستثنیٰ شخصیت مانتے ہیں۔ مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ مہدی اور مسیح جب آئیں گے تو آتے ہی اُن کی تاج پوشی کی جائے گی اور تمام مسلمان متفقہ طورپر ان کو اپنا سردار بنالیں گے۔ بطور واقعہ جو کچھ ہونے والا ہے، وہ اِس کے بالکل برعکس ہے۔ قدیم زمانے کے یہود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے، مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب پیغمبر آئے تو وہ ان کا انکار کرنے والے بن گئے (2: 89) ۔ یقینی طورپر یہی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ مہدی اور مسیح جب ظاہر ہوں گے تو موجودہ مسلمان یقینی طورپر ان کا انکار کرنے والے بن جائیں گے۔
سوال
ایک حدیث رسول کے مطابق، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان والوں کے لیے یہ دعا کی تھی کہ اے اللہ آل محمد کو بقدر کفاف روزی دے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اللہ کے رسول نے اس قسم کی دعا کیوںکی، حالاں کہ مال بھی کسب آخرت کے وسائل میں سے ہے۔ براہِ کرم، اِس کی وضاحت فرمائیں۔ (عبد الباسط عمری، دوحہ، قطر)
جواب
یہ حدیث صحیح البخاری میںاِن الفاظ میں آئی ہے: اللہم ارزق آل محمد قوتاً (کتاب الرقاق)۔ اس کے علاوہ، مذکورہ حدیث صحیح مسلم، الترمذی، النسائی اور ابن ماجہ میں حسب ذیل الفاظ میں آئی ہے: اللہم اجعل رزق آل محمد قوتاً۔ دونوں روایتوں کا مفہوم ایک ہی ہے، یعنی اے اللہ، آل محمد کا رزق بقدر قُوت یا بقدر کفاف عطا فرما۔ اِس کا مطلب ہے گزارہ (sustenance) کے بقدر روزی۔ اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کم مال والا ہونا افضل ہے اور زیادہ مال والا ہونا غیر افضل ہے۔ یہ بات دراصل عملی پہلو کے اعتبار سے کہی گئی ہے، نہ کہ اصولی اعتبار سے۔
مال کو قرآن میں قیام (4: 5) کہاگیا ہے، یعنی زندگی کے لیے مددگار(supporter) ۔ اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ زیادہ مال دے اور وہ اس کو امورِ خیر میں لگائے، وہ اس کو دعوت الی اللہ کے کام میں استعمال کرے تو بلا شبہہ ایسا مال ایک نعمت ہے۔ لیکن اگر ایسا ہو کہ زیادہ مال پاکر آدمی اس کو اپنی مادی سہولتوں میں اضافے کے لیے استعمال کرے تو ایسا مال اس کے لیے غیر مطلوب بن جائے گا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہلِ خاندان کے لیے جو دعاء فرمائی، وہ اعلیٰ معیار کی نسبت سے نہ تھی، بلکہ عملی (practical) تقاضے کی بنا پر تھی۔ کیوں کہ ننانوے فی صد سے زیادہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ مال کو عیش وعشرت میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اِس لیے آپ نے مذکورہ قسم کی دعا فرمائی۔ یہ دعاء مطلق معنی میں نہیںہے، اِس لیے حدیث میںآیا ہے کہ: نعم المال الصالح للرجل الصالح (اچھا مال اچھے آدمی کے لیے بہترین سرمایہ ہے)۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز 208 —

1 - صدر اسلامی مرکز کی نئی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے کے درمیان بڑے پیمانے پر پڑھی جارہی ہے۔ قارئین مسلسل اپنے تاثرات بھیج رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں یہاں صرف دو تاثر نقل کیے جاتے ہیں:
ک Just finished the book. I was reading carefully compared to the fiction books. Hats off to Maulana for penning such book. It's an eye opner. (Sunil Hazra, Mumbai)
ک Dear Maulana Wahiduddin Khan Sahib,
It was a priviledge meeting you today. We are always inspired by your wisdom, spirituality and grace. I am also grateful to you for giving me a copy of each of your books: The Prophet of Peace and The Quran. These books are a blessing for me.(Tara Gandhi Bhattacharjee, Gandhi Smriti, New Delhi)
2 - پنڈت دیانند سرسوتی کے یومِ پیدائش کے موقع پر 4 اکتوبر 2010 کو وید مندر (سہارن پور) میں ایک فنکشن ہوا۔ اِس کی صدارت پنڈت اوم پرکاش شرما کررہے تھے جو الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انھوں نے اپنے صدارتی خطبہ میں واضح طورپر صدر اسلامی مرکز کی خدمات کا اعتراف کیا۔ انھوں نے کہا کہ مولانا وہ انسان ہیں جو سچائی کا پیغام ساری دنیا کو پہنچارہے ہیں۔ اِس پروگرام میں اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرات بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اِس موقع پر سی پی ایس سہارن پور کی طرف حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
3 - منسٹری آف ہیومن رسورسیز اینڈ ڈیولپمنٹ (نئی دہلی) کی طرف سے5 اکتوبر 2010 کو دہرادون میں ایجوکیشن کے موضوع پر ایک کانفرنس ہوئی۔ اِس کا نفرنس میں ہندو، مسلم اور عیسائی تینوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک تھے۔ اِس موقع پر سی پی ایس سہارن پور کی ٹیم نے حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ کانفرنس میں شریک کچھ مسیحی حضرات نے قرآن کے مزید نسخے طلب کیے جو اُن کو اگلے دن بذریعہ ڈاک بھیج دئے گئے۔ ڈاکٹر وی ایس راٹھور نے سی پی ایس کی ٹیم سے کہا کہ آپ لوگ بہت اچھا کام کررہے ہیں۔ آپ ہماری ایجوکیشنل سوسائٹی (ہلدوانی) میں آئیے۔ ہم آپ کو وہاں کے خصوصی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرائیں گے۔ آپ لوگ یہاں آکر لوگوں کو قرآن کا تحفہ دیجئے۔
4 - نئی دہلی کے لودھی گارڈن میں 9 اکتوبر 2010 کی شام کو سی پی ایس کی طرف سے اسپریچول آؤٹنگ (Spiritual Outing) کے طورپر ایک تربیتی پروگرام کیاگیا۔ اِس پروگرام میں سی پی ایس دہلی کے علاوہ، کشمیر، سہارن پور، کرناٹک اور تمل ناڈو کے کچھ ساتھیوں نے شرکت کی۔گارڈن کے فطری ماحول میں صدراسلامی مرکز نے ایک تقریر کی ۔ اِس کا عنوان یہ تھا: ’’سوچنے کی باتیں‘‘۔ یہ ایک تربیتی تقریر تھی جو جنت کی دریافت اور دعوت سے متعلق تھی۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے گارڈن میںموجودغیر مسلم حضرات کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔
5 - سی پی ایس کی طرف سے مسلسل لوگوں کو دعوتی لٹریچر پہنچایا جارہا ہے۔ لوگ اس سلسلے میں اپنے تاثرات (feedback) روانہ کررہے ہیں۔ یہاں اِس طرح کے صرف تین تاثرات نقل کیے جارہے ہیں:
ک I had an opportunity to attend the International Conference on Glass Coating, ICCG8, held in Braunchweig, Germany, from 13th to18th June 2010. This is being held at an interval of every 2 years. With the grace of God I could use this conference for Dawah purpose. Dawah work started with the journey itself and continued till end of the journey. At the Mumbai Airport the dawah literatures in Marathi and English were given to persons at the airport and to my co-traveler. During the conference I carried with me the copies of The Quran (English Translation) and The Prophet of Peace and also the booklets The Reality of Life and Man Made Global Warming. I met people and after the professional discussions presented them with the above books. The people with whom I had some acquaintance before the Quran and The Prophet of Peace were given in the first meeting. I found this method of Dawah very helpful. Alhamdulillah I could reach highly qualified people during the conference such as Scientists, Directors, Lecturers, Research scholars and Professionals from various fields. This was a unique experience for me. Doing Dawah work in a new country among new people and in a new environment was a really unique experience. For some of them whom I could not give in person the books were posted before leaving Germany. All of the recipients accepted the books with appreciation. During the return journey I presented the books to my senior colleagues and to the airport officials. (Sajid Anwar, Roorki, Uttrakhand)
ک Thank you very much for sending me a copy of the Holy Quran. I pray that Allah gives you more resources and energy. (Mahamud Ahmed, Rovaniemi, Finland)
ک Thank you for sharing the 2 booklets to me. I already read the Reality of Life and found the explanation and points important enough for each one of us to understand. I will share this with my children to begin with. (Anand Mehta, Chief Executiv, ISRA Vision India Pvt Ltd)
واپس اوپر جائیں