Pages

Saturday 2 October 2010

Al Risala | October 2010 (الرسالہ،اکتوبر)


جنوبی ہند کا سفر

جنوبی ہند میں ایک بڑا تعلیمی ادارہ ہے جو جامعہ دار السلام، عمر آباد (تمل ناڈو) کے نام سے مشہور ہے۔ وہ ابتدائی طورپر 1924 میں قائم ہوا اور اب وہ ایک بڑا تعلیمی مرکز بن چکا ہے۔ وہ انڈیا کے چند بڑے اسلامی مدارس میں سے ایک ہے۔ اِس ادارے کی دعوت پر جنوبی ہند کا سفر ہوا۔ 7جون 2010 کی صبح کو دہلی سے روانگی ہوئی، اور 11 جون 2010 کی شام کو دوبارہ دہلی کے لیے واپسی ہوئی ۔ اِس سفر میں مولانا محمد ذکوان ندوی میرے ساتھ تھے۔
اِس سفر کے لیے ہمارا رزرویشن جیٹ ائرویز سے تھا۔ دہلی کا ائر پورٹ دوبارہ تعمیر کیاگیا ہے۔ نیا ائر پورٹ ترقی یافتہ ملکوں کے معیار پر بنا ہے۔ ائر پورٹ پر بدستور لوگوں کی بھیڑ نظر آئی۔ یہاں کئی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ لوگوں نے اس کو بڑے شوق سے لیا۔ موجودہ زمانے کے نئے مظاہر میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ میڈیا میں بار بار اسلام کی نسبت سے کچھ نہ کچھ خبریں آتی رہتی ہیں۔ اِس سے لوگوں کے اندر تجسس (curiosity) پیدا ہوا ہے۔ وہ اسلام کے بارہ میں مزید جاننا چاہتے ہیں۔
ائر پورٹ کے اندر لوگ تیزی سے اِدھر اُدھر چل رہے تھے۔ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل تھا اور وہ کان پر موبائل رکھے ہوئے اپنے عزیزوں اور رشتے داروں سے بات کررہا تھا۔ میںنے سوچا کہ ہر ایک، انسان سے باخبر ہے، لیکن کوئی بھی خدا سے باخبر نہیں۔ وہ خدا جس نے اُس کو پیدا کیا ، وہ خدا جس نے دنیا میں ایسے اسباب رکھے جن کے ذریعے موبائل اور ہوائی جہاز جیسی چیزیں بنانا ممکن ہوا۔ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو مخلوق سے باخبر ہیں، لیکن اُنھیں خالق (Creator) کی کوئی خبر نہیں۔
7 جون 2010 کو ہمیں جس فلائٹ (Jet Airways Konnect-9W2255)سے مدراس (چنئی) کے لیے روانہ ہونا تھا، اس کا مقرر وقت صبح ساڑھے دس بجے تھا ۔ مگر جہاز ایک گھنٹہ لیٹ ہوکر روانہ ہوا۔ اگلے دن کے اخبار سے معلوم ہوا کہ اِس کا سبب یہ تھا کہ انڈین پرائم منسٹر من موہن سنگھ اُسی صبح دہلی سے سری نگر (کشمیر) جانے والے تھے۔ اِس بنا پر 50 فلائٹس دیر سے روانہ ہوئیں اور دہلی آنے والی فلائٹس کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ دہلی اترنے کے بجائے جے پور (راجستھان) چلی جائیں۔ اوقات میںاِس تبدیلی کی بنا پر ہزاروں مسافروں نیز ائر پورٹ کے عملہ کو سخت پریشانی ہوئی۔ یہ سب پیشگی اطلاع کے بغیر کیاگیا۔ ہندستان ٹائمز (8جون 2010 ) کی رپورٹ کے مطابق، ائر پورٹ کے ایک آفیسر نے کہا کہ ان تبدیلیوں کے بارے میں ہم کو پیشگی طورپر کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی:
There was no prior notice of the VIP movement and as a result flights running low on fuel had to be diverted. ANOTAM (Notice to airmen) should have been issued, so that flight shedules could have been changed accordingly. (p. 3)
دہلی کے انٹر نیشنل ائر پورٹ پر اِسی قسم کا واقعہ 26مئی 2010 کو ہوا تھا، جب کہ موجودہ انڈین صدر جمہوریہ مسزپرتبھا پاٹل کو اسپیشل جہاز سے چین کے سفر پر روانہ ہونا تھا۔ سیاسی عہدے داروں کی طرف سے اِس قسم کی بدنظمی کے واقعات باربار ہوتے رہتے ہیں۔ اُن کو دیکھ کر مجھے یہ حدیثِ رسول یاد آتی ہے: إذا وُسِّد الأمر إلیٰ غیر أہلہ فانتظروا الساعۃ (صحیح البخاری، کتاب العلم) یعنی جب نا اہل لوگ عہدے دار بنائے جانے لگیں، تو قیامت کا انتظا ر کرو۔
پرواز کے دوران جیٹ ائر کی فلائٹ میگزین (Jet Wings) کا شمارہ جون 2010 دیکھا۔ اِس شمارے میں زیادہ تر اشتہارات تھے۔ ایک مضمون کا عنوان یہ تھا:
The Quest for Spirituality
اِس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ ویتنام جنگ (Vietnam War) کے بعد امریکا میں مایوسی کا ایک دور آیا۔ بہت سے نوجوان ہپی (Hippie) بن گئے۔ اُنھیں میں سے شکاگو کا ایک امریکی نوجوان رچرڈ سلاون (Richard Slavin) تھا۔ ویتنام جنگ (1960-1973) کے بعدوہ روحانیت کی تلاش میں امریکا سے نکلا۔ مختلف ملکوں کا سفر کرتے ہوئے وہ انڈیا پہنچا۔ یہاں اس نے بہت سے سوامی لوگوں سے ملاقات کی۔ وہ بھکتی یوگا سے متاثر ہوا۔ اُس نے غاروں اور جنگلوں میں دھیان گیان کیا۔ اس نے اپنا نام بدل کر رادھا ناتھ سوامی (Radhanath Swami) رکھا لیا۔ اس نے اپنے تجربات پر مشتمل انگریزی زبان میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام یہ ہے:
The Journey Home-Autobiography of an American Swami
تبصرہ نگار (Maria De Luca) کے مطابق، اُس کو وہ سکون نہ مل سکا جس کی تلاش میں وہ امریکا سے نکلا تھا۔ چناں چہ آج کل مذکورہ نوجوان کمیونٹی سروس میں مشغول ہے۔ تبصرہ نگار نے لکھا ہے کہ — یہ کتاب گویا کہ مصنف کے ذاتی کنفیوژن کی ایک دیانت دارانہ یادداشت ہے:
The book is an honest memoir of his personal confusion
اِس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جنھوںنے آشرم میں یا پہاڑوں اور جنگلوں میں میڈٹیشن (meditation) کے ذریعے ذہنی سکون حاصل کرنا چاہا، مگر اُن کو ذہنی سکون نہیں ملا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذہنی سکون کا راز میڈٹیشن نہیں ہے، بلکہ مثبت فکر کی بنیاد پر ذہن کی تشکیلِ نو (re-engineering) ہے۔ مگر اربابِ خانقاہ اور اربابِ آشرم دونوں ہی اِس حقیقت سے بے خبر ہیں۔
دہلی ائر پورٹ سے جہاز ر وانہ ہوا تو فضا میں کالے بادل چھائے ہوئے تھے۔ پھر جب وہ اوپر اٹھ کر 35 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو کالے بادل جہاز کے نیچے جاچکے تھے اور فضا میں ہر طرف روشن سورج چمک رہا تھا۔ یہ گویا اِس بات کا ایک تمثیلی مظاہرہ تھا کہ اگر انسان مادی اندھیروں سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے تو وہ دیکھے گا کہ ہر طرف سچائی کی روشنی پھیلی ہوئی ہے۔
جہاز کے مسافروں میں کئی لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیاگیا۔ انھوںنے اس کو اِس شوق سے لیا جیسے کہ وہ پہلے سے اُس کے منتظر تھے۔ ان میں سے دو لوگوں کے نام یہ ہیں:
Dr. A K Shukla, Dept. of Chemistry, SPM Govt College, Allahahbad, U.P.
Dr. MS Mittri (German) Director Multinational Company, Chennai
دہلی سے مدراس کی دوری ایک ہزار سات سو کلومیٹر (1,700 km) ہے۔ یہ سفر تقریباً ڈھائی گھنٹے میں طے ہوا۔ مدراس ائر پورٹ پر اترتے ہوئے میرے ساتھی نے چاہا کہ وہ قرآن کا ترجمہ جہاز کے کیپٹن (M Laurens) کو دیں۔ وہ کیبن کے پاس پہنچے تو سب سے پہلے کو پائلٹ (co-pilot) سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام مسٹر شجاع الدین تھا۔ ہمارے ساتھی نے انگریزی ترجمہ کی دو کاپی ان کو دی اور کہا کہ ایک کاپی آپ اپنے پاس رکھئے اور ایک کاپی پائلٹ کو دے دیجئے۔ انھوں نے تعجب کے ساتھ کہاکہ: وہ تو کرسچن (مسیحی) ہیں۔ مختصر گفتگو کے بعد وہ راضی ہوئے کہ قرآن کا یہ نسخہ وہ جہاز کے کیپٹن مسٹر لارینس تک پہنچا دیں گے۔
یہی موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلمانوں کی سوچ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن ان کی اپنی کتاب ہے۔ اگر قرآن، غیر مسلموں کو دیا گیا تو وہ اس کی بے حرمتی کریں گے۔ ’’بے حرمتی‘‘ کے اِس تصور کا نتیجہ ہے کہ پرنٹنگ پریس کے پورے دور میں قرآن عملاً صرف مسلمانوں کی کتاب بنا رہا، وہ غیرمسلموں تک بہت کم پہنچ سکا۔
ائر پورٹ کے عملہ میں مدراس کے ایک صاحب انجینئر محمد آزاد جہاز سے اترتے ہی مل گئے۔ انھوں نے بسہولت ائرپورٹ کی تمام کارروائی مکمل کر دی۔ ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر نکلے تو وہاں جامعہ دار السلام کی طرف سے مولانا فیاض الدین عمری اور مولانا سید اقبال احمد عمری اپنے کئی ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے۔ مدراس سے جامعہ دار السلام 180 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ سفر بذریعہ کار طے ہوا۔ روڈ بہت اچھی تھی۔ یہ وہی روڈ ہے جس کو نیشنل ہائی وے (نمبر46)کہاجاتا ہے۔ اس ہائی وے کو ایک مسلم بلڈر نے بنایا ہے۔
ہماری کار کے ڈرائیور مسٹر مورتی (44 سال) تھے۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ وہ 30 سال سے ڈرائیونگ کا کام کررہے ہیں، مگر اُن کے ساتھ کبھی روڈ ایکسیڈنٹ کا معاملہ پیش نہیں آیا۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ ڈرائیونگ کے لیے ان کاسادہ فارمولا یہ ہے— پہلے سیفٹی پھر اسپیڈ۔ یہ فارمولا صرف کامیاب ڈرائیونگ کے لیے نہیں ہے، بلکہ اِس فارمولے کی یکساں اہمیت کامیاب قیادت کے لیے بھی ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلم قائدین نے مسلم ملت کو ہر جگہ صرف تباہی سے دوچار کیا ہے۔ اِس کا سبب یہی ہے کہ وہ مذکورہ ڈرائیور کی طرح قیادت کا کامیاب فارمولا دریافت نہ کرسکے۔
راستے میں ہم لوگ عصر کی نماز پڑھنے کے لئے میل وشارم (Melvisharam) میں کچھ دیر کے لیے ٹھہرے۔ میل وشارم، ضلع ویلور (Vellore) کا ایک خوب صورت ٹاؤن ہے۔ یہ مدراس سے 100 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں مسلم تاجروں نے کئی اچھے کالج اور ہاسپٹل قائم کئے ہیں۔ انھیں اداروں میں سے ایک عربی مدرسہ مفتاح العلوم ہے۔وہ 1976 میں قائم کیاگیا۔ یہاں حفظ کے علاوہ، عالمیت تک درسِ نظامی کی تعلیم ہوتی ہے۔ طلبا کی تعداد تقریباً 500 ہے۔ مفتی ریاض احمد قاسمی اس کے مہتمم ہیں۔ یہاں کے وسیع مہمان خانے میں اساتذہ کی ایک نشست ہوئی۔ اِس موقع پر میں نے جو گفتگو کی، اس کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
ہندستان میں پچھلی صدیوں میں افغانستان اور ایران وغیرہ کے راستے سے مسلم سلاطین آئے۔ اِن سلاطین نے صرف اپنی سلطنتیں قائم کیں اور سیاسی فتوحات کی تاریخ بنائی۔ انھوںنے یہاں حقیقی معنوںمیں کوئی دینی کام انجام نہیں دیا۔ اب ان کی یادگار صرف قلعے اور مقبرے ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہندستان میں حقیقی معنوں میں مثبت دینی کام اُن لوگوں نے انجام دیا جن کو علماء اور صوفیا کہا جاتا ہے۔ علماء نے مدرسے قائم کرکے دینی علم کو زندہ رکھا۔ صوفیا نے خانقاہوں کے ذریعے دعوت اور روحانیت اور اخلاقیات کا عمل انجام دیا۔
مدرسہ اور خانقاہ کا طریقہ دوسرے الفاظ میں، غیر سیاسی دائرے میں جدوجہد کا طریقہ ہے۔ تبلیغی جماعت ایک اعتبار سے اِسی طریقِ عمل کا ایک تسلسل ہے۔ انڈیا کی اِس انفرادی صفتکی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ موجودہ زمانے میں یہاں ملٹنسی (militancy) نہیں پھیلی، جیسا کہ اکثر مسلم ملکوں میں ہوا ہے۔ مثلاً پاکستان، افغانستان، ایران ، وغیرہ۔ میل وشارم میں عصر کی نماز پڑھنے کے بعد ہم لوگ آگے کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں ہمارے ساتھیوں نے اساتذہ اور طلبا کو دعوتی لٹریچر دیا۔
یہ پورا سفر فطرت کے ماحول میں ہوا۔ کشادہ سڑک کے دونوں طرف سرسبز درختوں کے مناظر تھے۔ یہ عام طورپر ناریل کے درخت تھے۔ درختوں کے پیچھے پہاڑی سلسلے نظر آرہے تھے۔ ہلکی بارش نے موسم کو نہایت خوشگوار بنا دیا تھا۔ سڑک کے کنارے کہیں کہیں خوب صورت گاؤں نظر آتے تھے۔
سفر کے دوران ہمارے ساتھی برابر موبائل کے ذریعے باہر کی دنیا سے ربط قائم کئے ہوئے تھے۔ایک طرف دہلی کے لوگوں سے، اور دوسری طرف عمر آباد کے لوگوں سے۔ دہلی سے عمر آباد تک ہمارے ساتھیوں کو پتہ تھا کہ اِس وقت ہم کہاں ہیں۔ یہ سفر کا ایک نیا تصور ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ شکایتوں میں جیتے ہیں، وہ بظاہر انسان کے شاکی ہوتے ہیں، لیکن حقیقۃً وہ خداوند ذوالجلال کی ناشکری کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اگر وہ سوچیں تو اِس طرح کا سفر قدیم زمانے میں کسی بادشاہ کے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔ ہم لوگ دہلی میں کار سے روانہ ہوئے۔ اس کے بعد ہم ہوائی جہاز کے ذریعے مدراس پہنچے۔ اس کے بعد ہم دوبارہ کار کے ذریعے جامعہ دار السلام جارہے ہیں۔ یہ سفر اِس طرح طے ہورہا ہے کہ ہم لوگ ایک طرف اپنے دہلی کے ساتھیوں سے اور دوسری طرف جامعہ دار السلام کے لوگوں سے پوری طرح مربوط ہیں۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کا سفر کسی بادشاہ کے لیے بھی ممکن نہ تھا۔ایسی حالت میں ہم کو سپر شکر میں جینا چاہیے، نہ کہ ناشکری میں۔
مدراس سے 180 کلومیٹر کا سفر طے کرکے ہم لوگ 7جون 2010 کی شام کو مغرب کے بعد جامعہ دارالسلام پہنچے۔ یہاں ہمارا قیام جامعہ کی لائبریری (مکتبہ عمر) کی جدید عمارت میںتھا۔ یہ ایک وسیع دو منزلہ عمارت ہے۔ اس میں کتب خانہ، ریڈنگ روم، لیکچر ہال اور کچھ کمرے بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا قیام اِسی مکتبہ کے ایک کمرے میںتھا۔
عمر آباد میں کاکا فیملی کا ایک کافی بڑا فارم ہاؤس ہے۔ معلوم ہوا کہ جامعہ کے ذمے داران میرے قیام کا انتظام اِسی فارم ہاؤس میں کررہے تھے۔ لیکن کاکا انیس احمد عمری نے اِس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ اِس طرح میں طلبا اور اساتذہ سے دور ہوجاؤں گا اور زیادہ ملاقاتیں اور انٹریکشن نہ ہوسکے گا۔ چناں چہ کاکا انیس احمد عمری کی مداخلت سے، میرے لیے لائبریری کی مذکورہ عمارت میں قیام کا انتظام کیاگیا۔ یہ میرے ذوق کے عین مطابق تھا۔ اِس طرح میرے لیے ممکن ہوگیا کہ جامعہ میں قیام کے دوران وہاں کے مواقع کو میں پوری طرح استعمال کرسکوں۔
ہم لوگ مغرب کی نماز سے فارغ ہوئے تھے کہ جامعہ کے ذمے داران اور اساتذہ ملاقات کے لیے آگئے—مولانا کاکا سعید احمد عمری (معتمد عمومی جامعہ)، مولاناکاکا انیس احمد عمری، مولاناڈاکٹر عبد اللہ جولم ، مولانا ابو البیان حماد عمری ، وغیرہ ۔اِن حضرات سے کافی دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ ان کے ذریعے جامعہ دارالسلام کے بارے میں کئی معلومات حاصل ہوئیں۔
میںنے کہا کہ جامعہ دارالسلام کے بانی کاکا عمر (وفات:1928 ) واقعی معنوں میں ایک صاحبِ بصیرت انسان (man of vision) تھے۔ وہ اگرچہ ایک تاجر تھے، لیکن انھوں نے جدید دور کے لیے تعلیم کی اہمیت کو سمجھا اور اس کے مطابق، جامعہ دار السلام کی بنیاد رکھی، جو اب اپنی وسعت اور اہمیت کے اعتبار سے ایک دینی یونی ورسٹی کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔
گفتگو کے دوران مولاناکاکا سعید احمد عمری نے جو باتیں بتائیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ اِس علاقے میں کوئی ہندو مسلم مسئلہ نہیں۔ یہا ںدونوں فرقوں کے لوگ باہم بھائی کی طرح رہتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فسادات جیسی کوئی چیز یہاں کبھی پیش نہیں آئی۔ انھوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں اردو اخبارات کے متعصبانہ بیان کو میں درست نہیں سمجھتا۔ کیوںکہ آزادی کے بعد ہمارے علاقے میں 18بڑے مسلم کالج قائم کئے گئے ہیں جن کو حکومت کا گرانٹ حاصل ہے۔ یہ تمام مسلم کالج نہایت کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں۔
گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ ملت کی تعمیر کاکام موثر طورپر صرف اُس وقت ہوسکتاہے جب کہ اُس کو سیاست سے الگ رکھ کر کیا جائے۔ مولاناکاکا سعید احمد عمری نے اِس سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ مولانا مناظر احسن گیلانی (وفات: 1956 ) نے یہ تصور پیش کیا تھا کہ کالجوں میں تعلیم پانے والے مسلم طلبا کے لیے شہروں میں مسلم ہاسٹل بنائے جائیں۔ یہاں ان کی رہائش کا انتظام ہو اور اِسی کے ساتھ ان کی دینی تربیت کی جائے۔ شمالی ہند میں سیاسی ذہن کی بنا پر اِس قسم کا کوئی ہاسٹل نہ بن سکا، مگر جنوبی ہند کے مسلمانوں میں چوں کہ سیاسی ذہن نہیں تھابلکہ تعمیری ذہن تھا، اِس لیے انھوں نے جنوبی ہند میں اِس طرح کے مسلم ہاسٹل بنائے۔ مثلاً حیدرآباد میںاور بنگلور میں۔ بنگلور کا ہاسٹل زیادہ بڑا ہے اور اس کا نام یہ ہے— بنگلور مسلم سنٹرل ہاسٹل۔
اِس مجلس میں جو باتیں ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ مسلم دنیا میں عام طورپر یہ مشہور ہے کہ امریکا اسلام کا دشمن نمبر ایک ہے۔ عرب لوگ کہتے ہیں کہ : أمریکا عدوّ الإسلام رقم واحد۔ میں نے کہا کہ میں 13 بار امریکا گیا ہوں، اور اپنے ذاتی علم کی بنیاد پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات بالکل بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکا نہ پرومسلم (pro-Muslim) ہے، اور نہ اینٹی مسلم (anti-Muslim)۔ وہ صرف پرو امریکا (pro-America) ہے۔ امریکا میں بلا امتیاز ہر ایک کو پوری آزادی حاصل ہے۔ چناںچہ مسلمان اِس آزادی کو استعمال کرتے ہوئے وہاں بڑے بڑے اسلامی کام کررہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں 57 مسلم ملک ہیں۔ مگر یہ کہنا غالباً درست ہوگا کہ اِس وقت اسلام کی خدمت کے جتنے مواقع امریکا میں ہیں، وہ غالباً کسی مسلم ملک میں بھی نہیں۔ کاکا سعید احمد عمری نے اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر کہا کہ میں آپ کی اِس بات سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔
مجلس میں گفتگو کے دوران ایک صاحب نے کہا امریکا کی ترقی کا راز یہ ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ذہن رکھنے والے افراد کو امریکا خرید لیتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ خرید و فروخت کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ مواقع (opportunities) کی فراہمی کی بات ہے۔ امریکا نے یہ کیا کہ اُس نے وہاں ہر قسم کے اعلیٰ مواقع فراہم کر دیے—اظہار خیال کی مکمل آزادی، مطالعے کے لیے بہترین لائبریریاں، لیاقت کا بلاامتیاز اعتراف، ترقی کے مواقع کو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر کھولنا، وغیرہ۔ اِس بنا پر تمام دنیا کے ذہین لوگ وہاں پہنچ گئے۔
7 جون 2010 کو عشاء کی نماز جامعہ دار السلام کی قدیم مسجد (1344/1925 ھ) میں ادا کی گئی۔نماز کے بعد مسجد میں یہاں کے کئی اساتذہ سے ملاقات ہوئی۔ ان میں سے ایک جامعہ کے شیخ التفسیر مولاناسیدعبد الکبیر عمری صاحب تھے۔ ان کی پیدائش 1923 میں ہوئی۔ انھوںنے جامعہ دار السلام میں تعلیم پائی، پھر وہ یہیں استاد کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ معمر ہونے کے باوجود وہ ابھی تک پوری طرح صحت مند ہیں۔
نماز کے بعد ہم لوگوں کو کاکا سعید احمد عمری کے گھر لے جایا گیا جو عمر آباد میں مسجد کے بالکل قریب واقع ہے۔ یہاں شام کا کھانا کھایا گیا۔ کھانے کی میز پر تقریباً 10 آدمی موجود تھے۔ کھانے کے بعد یہاں دیر تک نشست ہوئی جس میں مختلف موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا۔
مولانا کاکا سعید احمد عمری نے کہا کہ جامعہ کے اندر مسلکی تعصب اور تنگ نظری نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم کو آپ کا مسلک معلوم ہے۔ آپ کے مسلک سے اتفاق کی بنا پر ہی ہم نے جامعہ میں آپ کو دعوت دی ہے۔ انھوں نے کہا کہ— مجموعی اتفاق ہی کا نام اتفاق ہے۔ جزئی اختلافات تو ہر جگہ اور ہر شخص کے اندر پائے جاتے ہیں۔
مولانا فیاض الدین عمری نے کہا کہ میں اِس کی تائید کروں گا کہ جامعہ کے اندر مسلکی تشدد بالکل نہیں پایا جاتا۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں نے جامعہ کے سینئر استاد دکتورعبد اللہ جولم صاحب سے بدایۃ المجتہد پڑھی ہے۔ مولانا اگرچہ سلفی ہیں، مگر دلیل کی موجودگی میں انھوں نے ہمیشہ ائمہ کی رائے کو ترجیح دی ہے۔ اور کبھی اُن سے اختلاف کرتے ہوئے اپنی رائے کا بھی اظہار فرمایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جامعہ کے ذمے داران مسلک کے اعتبار سے اگرچہ سلفی ہیں، لیکن جامعہ کی قدیم مسجد میں وہاں کے امام ایک حنفی ہیں۔ جامعہ کے اندر لمبی مدت گزارنے کے باوجود ہم کو بہت سے اساتذہ کا مسلک معلوم نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جامعہ کا ایک امتیاز یہ ہے کہ یہاں کے ذمے داران ہمیشہ اپنے چھوٹوں سے رائے لیتے ہیں اور ان کوآگے بڑھاتے ہیں۔
گفتگو کے دوران کاکا سعید عمری صاحب نے کہا کہ عام طورپر لوگ دوستوں کو حقِ تنقید دیتے ہیں، مگر وہ اجنبی آدمی کو حق تنقید نہیں دیتے۔ اگر کوئی اجنبی آدمی ان پر تنقید کردے تو وہ بپھر اٹھتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ دوستوں کے علاوہ، اجنبی لوگوں کو بھی حقِ تنقید دے۔ وہ ایک اجنبی آدمی کی بات کو بھی اُسی طرح سنے جس طرح وہ اپنے دوستوں کی بات کو سنتا ہے۔ کاکا سعید احمد عمری نے گفتگو کے دوران کہا کہ جامعہ دار السلام کا نشانہ بنیادی طورپر صرف دو چیزیں ہیں — دعوت، اور آخرت۔ دعوت برائے آخرت اور آخرت برائے دعوت، یہی جامعہ کا اصل نشانہ ہے۔
اِس سلسلے میں طلبہ جامعہ کے سامنے کاکا سعید احمد عمری کے ایک بصیرت افروز خطاب کا ایک اقتباس یہاں نقل کیا جاتا ہے:’’اِس وقت ہم علمائِ کرام کو اپنی دعوتی ذمے داری کو محسوس کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ ہم برادران وطن کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھائیں، انھیں اپنی محبت کا موضوع بنائیں، اپنی تقریبات میں انھیں مدعو کریں اور جب بھی، جہاں بھی موقع ملے، اُسے غنیمت جان کر اسلام کا پیغام ان کی خدمت میں پیش کرنے، انھیں اسلام کا صحیح تعارف کرانے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ بدقسمتی سے ہمارے رہنماؤں نے امت کو برادرانِ وطن کے ساتھ نفرت کرنا ہی سکھایا ہے، اُن سے محبت کرنا نہیں سکھایا۔ برادرانِ وطن ہمارے لیے مدعو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب تک ہم اُن کے ساتھ محبت سے پیش نہیں آئیںگے، ذرا سوچئے، اُس وقت تک وہ ہماری باتوں پر کیسے توجہ دیں گے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اُنھیں ابدی جہنم سے بچانے کی فکر اور تڑپ ہمارے دل میں کیسے پیدا ہوگی‘‘۔ (ماہ نامہ راہِ اعتدال، عمر آباد، جون 2010، صفحہ 51 )
7جون 2010 کی شام کا کھانا اِس انداز کا تھا جس کو عام طورپر ’’پُر تکلف عشائیہ‘‘ کہاجاتا ہے۔ بعد کو میں نے یہاں کے منتظمین سے کہا کہ میںاِس قسم کے کھانے کا عادی نہیں ہوں۔ میں یہاں جب تک ہوں، میں صرف جامعہ کے مطبخ (مطعم) کا کھانا کھاؤں گا، یعنی وہ کھانا جو جامعہ کے طلبا کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ میرے کھانے کا ٹائم بھی وہی ہوگا جو جامعہ میں عام طورپر طلبا کے کھانے کا ٹائم ہوتا ہے۔ چناں چہ جب تک میں یہاں رہا، مطبخ کا کھانا کھاتا رہا۔ یہ کھانا بالکل سادہ تھا اور میرے ذوق کے عین مطابق تھا۔
مولانا اسرار الحسن عمری جو یہاں ہم لوگوں کے کھانے وغیرہ کے ذمے دار تھے، انھوں نے بتایا کہ اگلے دن صبح کو مجھے جامعہ کے دفتر میں بلایاگیا۔ نائب ناظم جامعہ مولانا ظفر الحق شاکر عمری نے مجھ سے پوچھا کہ مولانا وحید الدین خاں صاحب کے کھانے وغیرہ کا کیا انتظام ہے۔ میں نے کہا کہ مولانا نے کہا ہے کہ میں جب تک جامعہ میں ہوں، مطبخ کا کھانا کھاؤں گا۔ میرے لیے الگ سے کوئی اہتمام نہ کیا جائے۔ میری بات سن کر نائب ناظم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا کہ : فکل مشکلۃ حلّت (پھر تو ساری مشکل آسان ہوگئی)۔ کیوں کہ مہمانوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ان کے کھانے کا ہوتا ہے۔
کاکا سعید احمد عمری صاحب کے گھر سے کھانا کھا کر ہم لوگ واپس جامعہ کے کیمپس میں آگئے۔ یہاں کئی علماء کے ساتھ میں دیر تک جامعہ کی کھلی فضا میں واک (walk) کرتا رہا۔ میںنے کہا کہ قرآن کی سورہ آل عمران میں ذکر کے بارے میں ارشاد ہوا ہے: الذین یذکرون اللہ قیاماً وقعوداً وعلی جنوبہم (3:191) ۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے تجربے کے مطابق، اِس میں ایک اور ذکر کا اضافہ کیا ہے، اور وہ ہے واکنگ ذکر (walking zikr)۔ میرا معمول ہے کہ میں روزانہ واک کرتاہوں۔ مگر میری واک صرف واک نہیں ہوتی، بلکہ وہ واکنگ ذکر ہوتی ہے۔
ذکر کیا ہے۔ ذکر دراصل تفکر کا نام ہے۔ سلفِ صالحین نے ذکر کا یہی مطلب بتایا ہے۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہوعلامہ ابن قیم (وفات: 751 ھ) کی کتاب: مفتاح دار السعادۃ ومنشور ولایۃ العلم والإرادۃ۔ علامہ ابن قیم نے اِس کتاب میں تذکراور تفکر کو ہدایت کی اصل قرار دیا ہے (التفکر والتذکر أصل الہدی والفلاح، ہما قطبا السعادۃ)۔ تفکر کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مثلاً یہاں آپ جامعہ کے کیمپس میں واک کررہے ہیں۔ یہاں چاروں طرف سرسبز درخت کھڑے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ نے درخت کو دیکھا۔آپ کو یاد آیا کہ درخت اپنے اندر ایک انوکھی صفت رکھتا ہے، وہ یہ کہ وہ ایک نمو پذیر وجود (growing entity) ہے۔ درخت کے بارے میں اِس طرح سوچتے ہوئے آپ کو یاد آیا کہ ایمان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ ایمان بھی ایک نموپذیر حقیقت ہے۔ حقیقی ایمان وہی ہے جس میں مسلسل اضافہ ہوتارہے۔ اِسی لیے قرآن میں کلمۂ ایمان کو درخت سے تشبیہہ دی گئی ہے (14:24) ۔ البتہ دونوں کے درمیان ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ درخت کی نمو پذیری قانونِ فطرت کے تحت ہوتی ہے، لیکن انسان خود اپنے ارادے کے تحت غور وفکر کرتا ہے اور اِس طرح وہ خود اپنے ارادے کے تحت اپنے ایمان میںاضافہ کرتا ہے۔
واک کرنے کے بعد ہم لوگ اپنی قیام گاہ (مکتبہ عمر) پر آگئے۔ یہاں کمرے میں دوبارہ تقریباً 10 علماء اکھٹا ہوگئے۔ ان سے دیر تک دینی اور دعوتی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ اُس وقت ایک بات میں نے یہ کہی کہ جو لوگ صرف عوام کے درمیان کام کرتے ہیں، عام طورپر ان کا ذہنی ارتقانہیں ہوتا۔ لیکن جو لوگ خواص کے درمیان دعوتی کام کریں، ان کا مسلسل ذہنی ارتقا ہوتا رہے گا۔ گویا کہ عوام کے درمیان دعوتی کام یک طرفہ نوعیت کا کام ہے، یعنی ایک سننے والا ہے اور دوسرا سنانے والا۔ اِس کے برعکس، خواص کے درمیان دعوتی کام دوطرفہ عمل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس میں ایک طرف مدعو کو نئی باتیں ملتی ہیں، اور دوسری طرف داعی کو ڈسکشن اور ڈائلاگ کے دوران نئی نئی باتیں سیکھنے کا موقع ملتا ہے— پہلا طریقہ اگر یک طرفہ تعلیم (unilateral learning) پر مبنی ہے، تو دوسرا طریقہ دوطرفہ تعلّم (bilateral learning) پر مبنی۔
اِسی طرح میں نے ایک بات یہ کہی کہ قرآن میں چار قابلِ انعام گروہوں کا ذکر آیا ہے: مع الذین أنعم اللہ علیہم من النبیین ، والصدیقین، والشہداء، والصالحین (4: 69) ۔ میں نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق، اِس آیت میںانبیاء سے مراد پیغمبر ہیں، اور صدیقین سے مراد اصحابِ پیغمبر، اور شہداء سے مراد دعاۃ کا گروہ ہے۔ صالحین سے مراد وہ افراد ہیں جن کے لیے قرآن میں دوسری جگہ مقتصد (35: 32) کا لفظ آیا ہے۔پھر میںنے کہا کہ معرفت کے تمام درجات اپنی نوعیت کے اعتبار سے آج بھی پوری طرح کھلے ہوئے ہیں، حتی کہ وہ اعلیٰ درجہ بھی جس کے بارے میں حدیث میں اِس قسم کے الفاظ آئے ہیں: عبادٌ لیسوا بأنبیاء ولا شہداء یغبطہم النبیون والشہداء لمقعدہم وقربہم من اللہ یوم القیامۃ (مسند احمد، جلد5، صفحہ 341 ) ۔ انبیاء کے اِس رشک کا سبب غالباً یہ ہوگا کہ جو درجۂ معرفت انبیاء نے فرشتہ جبریل کے ذریعے حاصل کیا، اُسی نوعیت کی معرفت یہ لوگ فرشتہ جبریل کے بغیر حاصل کرلیں گے۔ معرفت کا یہ حصول بعد کے زمانے میں اہلِ ایمان کے لیے سائنسی دریافتوں کے ذریعے ممکن ہوسکے گا۔
دہلی کے مقابلے میں عمر آباد کا موسم بہت خوش گوار تھا۔ دہلی میں درجۂ حرارت 41 ڈگری تھا، جب کہ یہاں کا درجہ حرارت 31 ڈگری ہے۔ رات نہایت سکون کے ساتھ گزری۔ 8 جون 2010 کو فجر کی نماز ہم لوگوں نے جامعہ دارالسلام کے کیمپس کے اندر واقع مسجد سلطان میں پڑھی۔ یہ مسجد1993 میں بنائی گئی۔ مسجد کافی وسیع اور سادہ تھی۔ عام روایت کے خلاف اِس مسجد میں صرف ایک مینار بنایا گیا ہے۔ ایک مینار کا طریقہ مجھے پسند ہے۔ ایک مینار توحید کی علامت معلوم ہوتا ہے۔
ہم لوگ نماز سے فارغ ہو کر باہر آئے تو ہر طرف فطرت (nature) کا ماحول تھا۔ جامعہ دارالسلام اِس طرح بنایا گیا ہے کہ اس کے اندر ہر طرف سرسبز درخت دکھائی دیتے ہیں۔ جامعہ کی تعمیر دراصل ایک وادی (valley) میں ہوئی ہے۔ اس کے بیرونی حصے میں دور تک پہاڑ دکھائی دیتے ہیں۔ جامعہ کے مغرب میں جو پہاڑی سلسلہ ہے، وہ وہی ہے جس کو ’’کیلاش گری‘‘ کہا جاتا ہے۔
جامعہ میں قیام کے دوران ہر وقت علماء کا ساتھ ہوتا تھا۔ اِس واک کے دوران بھی کئی علماء ہمارے ساتھ تھے۔ میں نے کہا کہ جامعہ کا یہ خوش منظر جائے وقوع دیکھ کر مجھے یاد آتا ہے کہ میں نے بہت پہلے ماہ نامہ الرسالہ میں ایک مضمون شائع کیا تھا۔ اس کا عنوان تھا — فطرت کی آغوش میں۔
اِس مضمون میں میںنے لکھا تھاکہ میری تمناؤں میں سے ایک تمنا یہ ہے کہ فطرت کے مناظر کے درمیان ایک دینی مرکز بنایا جائے۔ یہ مرکز گویا کہ ہمارے افکار کا ایک عملی مظاہرہ ہوگا۔ یہاں جب خدا کی عظمت بیان کی جائے گی تو درخت اور پہاڑ اور آسمان اس کی عملی تصدیق کررہے ہوں گے، اور چڑیاں اپنے چہچہے کے ساتھ اس کی ہم آواز بنی ہوئی ہوںگی۔ اب جامعہ دارالسلام کو دیکھنے کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میرا خواب یہا ںواقعہ بن چکا ہے۔ کیوں کہ جامعہ کا مقصد بھی تقریباً وہی ہے جس کو میں نے نصف صدی سے بھی زیادہ مدت سے اپنا مشن بنا رکھا ہے،یعنی دعوت الی اللہ کا مشن۔ ہماری اِس واک کے دوران دوسرے علمائِ جامعہ کے علاوہ، جامعہ دار السلام کے دونوں بڑے ذمے دار بھی موجود تھے— مولانا کاکا سعید احمد عمری، اور مولانا کاکا انیس احمد عمری۔
واک کرنے کے دوران میں نے ایک بات یہ کہی کہ یہاں آکر مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جامعہ دار السلام دوسرے مدارس کے مقابلے میں ایک استثنا (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی کچھ منفرد خصوصیات ہیں۔ مثلاً یہاں کی مسجد میں اکثر اوقات طلبا امامت کرتے ہیں۔ ہر نماز ایک الگ طالب علم پڑھاتا ہے۔ ایسا اِس لیے کیا جاتا ہے، تاکہ طلبا کی حوصلہ افزائی ہو اور وہ تعلیم کے دوران تربیت بھی حاصل کرتے رہیں۔
مارننگ واک (morning walk) کے بعد ہم لوگ لائبریری کی عمارت کے باہر کھلی فضا میں بیٹھ گئے۔ موسم بہت خوش گوار تھا۔ یہاں مولانا کاکا سعید احمد عمری اور مولانا ریاض موسی مالاباری کے علاوہ جامعہ کے اساتذہ اور کئی دیگر علماء موجود تھے۔ دیرتک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ مدارس کے ذمے داران اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ اِن مدارس کے ذریعے تعلیم کا مقصد تو حاصل ہوا، لیکن افراد سازی کا مقصد بہت کم حاصل ہوسکا۔
میں نے کہا کہ اِ س کا سبب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت اس کے شاکلہ (17:84) کے مطابق بنتی ہے۔ شاکلہ سے مراد ذہنی سانچہ (mindset) ہے۔ ہمارے مدارس کا معاملہ یہ ہے کہ وہاں کا پورا ماحول قدیم شاکلہ پر مبنی ہوتا ہے، جب کہ موجودہ زمانے میں حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ ایسی حالت میں ضرورت ہے کہ طلبا کو لسانِ عصر میں مخاطب کیا جائے، ورنہ ان کا مائنڈ ایڈریس نہ ہوگا۔ یہی وہ کمی ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ تعلیم دین کے کافی پھیلاؤ کے باوجود ایسے افراد پیدا نہیں ہورہے ہیں جو جدید معیار پر اسلامی ذہن کے حامل ہوں اور جدید انسان کے سامنے موثر انداز میں اسلام کی نمائندگی کرسکیں۔
میں نے کہا کہ الرسالہ مشن دراصل اِسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے شروع کیاگیا۔ غالباً یہ کہنا درست ہوگا کہ پوری مسلم دنیا میں یہ واحدمشن ہے جو اِس فکری ضرورت کو پورا کررہا ہے۔ 1959 میں ایک مشہور ہندستانی عالم کی ایک کتاب چھپی۔ اس کا ٹائٹل یہ تھا: ردّۃ ولا أبا بکر لہا۔ میں نے اِس معاملے کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ جدید انسان کا کیس ذہنی ارتداد(intellectual apostasy) کا کیس نہیں ہے، بلکہ وہ ذہنی عدم اطمینان (intellectual dissatisfaction) کا کیس ہے۔ الرسالہ مشن کے تحت 1976 سے اِس بنیاد پر کام شروع کیا گیا ہے اور اب اللہ کے فضل سے ہر جگہ اس کے مثبت اثرات سامنے آرہے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے آپ کی کچھ کتابیں پڑھی ہیں۔مگر اس میں تعقل پسندی بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ میں نے کہا کہ آپ اِس کی کوئی مثال دیجئے، مگر وہ کوئی مثال نہ بتا سکے۔ میںنے کہا کہ جب تک آدمی کے پاس کوئی متعین مثال نہ ہو، اُس وقت تک اِس طرح کا تبصرہ کرنا آدمی کے لیے سرے سے جائز ہی نہیں۔پھر میں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ آپ جیسے لوگ دو چیزوں میں فرق نہیں کرپاتے۔ ایک ہے تعقل پسندی اور دوسری چیز ہے اسلوب جدید۔ معروف معنی میں،میں ہر گز تعقل پسند نہیں ہوں،البتہ میری تحریروں میں جدید اسلوب ہوتا ہے۔ آپ جیسے لوگ دونوںمیں فرق نہ کرنے کی وجہ سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ میں ایک تعقل پسند انسان ہوں۔ حالاں کہ مجرد تعقل پسندی ایک غیر مطلوب چیز ہے اور اسلوب جدید بلاشبہہ عین مطلوب کی حیثیت رکھتا ہے۔
میں نے کہا کہ عقل کے استعمال کی دوصورتیں ہیں— ایک یہ کہ عقل کو بذاتِ خود صحیح اور غلط کا معیار سمجھا جائے۔ دوسرے یہ کہ نقلی (traditional) طورپر ایک ثابت شدہ بات کی مزید تائید کے لیے عقل کا استعمال کیا جائے۔ عقل کا اِس طرح تائیدی استعمال خود قرآن سے ثابت ہے۔ مثال کے طورپر جدید عقل پسند انسان یہ کہتا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان ہر اعتبار سے کامل مساوات ہونا چاہیے۔ میں اِس عقلی نقطۂ نظر کو نہیں مانتا۔ اِس کے بجائے میں قرآن کے نقطۂ نظر کو مانتا ہوں جس میں عورت اور مرد کے درمیان فطری فرق کی بنا پرایک مرد کے مقابلے میں دو عورتوں کی گواہی کو معتبر قرار دیا گیا ہے (2:282) ۔ قرآن کے اِس نقطۂ نظر کی تائید کے لیے میں نے ایک سائنسی دلیل دی ہے۔ وہ یہ کہ عورت اور مرد کے دماغ میں فطری بناوٹ کے اعتبار سے ایک ناقابلِ تغیر فرق پایا جاتا ہے۔ وہ فرق یہ ہے کہ مرد پیدائشی طورپر سنگل ٹریک مائنڈ (single track mind) کا حامل ہوتا ہے، اور اس کے مقابلے میں عورت فطری طورپر ملٹی ٹریک مائنڈ (multi track mind) رکھتی ہے۔ اس کی تفصیل آپ ماہ نامہ الرسالہ (اپریل 2006، صفحہ 7 ) میں دیکھ سکتے ہیں۔
8 جون 2010 کی صبح کو جامعہ کے کُلّیہ ہال میں ایک بڑا پروگرام ہوا۔ یہ یہاں کے زمانۂ قیام کا پہلا پروگرام تھا۔ اس میں جامعہ کے شعبہ ’’تعارف اسلام‘‘ کے دُعاۃ، طلبا اور جامعہ کے اساتذہ شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کو کنڈکٹ کرنے کا کام جامعہ کے ایک نوجوان استاد مولانا عبدالعظیم مدنی نے انجام دیا۔ یہ ایک گھنٹے کا پروگرام تھا۔ اس کا عنوان یہ تھا:
دعوت الی اللہ اور اس کے تقاضے
یہاں میں نے دعوت الی اللہ کے موضوع پر کچھ باتیں کہیں ۔ اس کے بعدمیں نے اس پروگرام میں جو مزیدباتیں کہیں، اس کا خلاصہ یہ تھا کہ جامعہ سے میرا ایک فطری تعلق رہا ہے۔ جامعہ دارالسلام 1924 میں قائم ہوا، اور یہی وہ سال ہے جب کہ میری پیدائش ہوئی۔ جامعہ سے اِسی بلااعلان تعلق کی بنا پر ایسا ہوا کہ میں نے اپنے پہلے فرزند ڈاکٹر ظفر الاسلام خاں کو 1957 میں تعلیم کے لیے یہاں بھیجا۔ جامعہ کے لیے میرا پہلا سفر 1977 میں ہوا۔ یہ سفر جامعہ کی دعوت پر 16-18 اپریل 1977 کو اس کی گولڈن جُبلی (المہرجان الذہبی) میں شرکت کے لیے ہوا۔ اِس موقع پر میں نے ایک مقالہ پیش کیا تھا جو ماہ نامہ الرسالہ، جولائی 1977، میں شائع ہوا۔ اِس مقالے کا عنوان یہ تھا:
دعوت اسلامی کے جدید امکانات
بعد کو یہ مقالہ عربی زبان میں ’’امکانات جدیدۃ للدعوۃ‘‘کے نام سے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا گیا۔ یہ مقالہ 36 صفحات پر مشتمل تھا۔ اس کو قاہرہ سے المختار الإسلامی پبلشرنے پمفلٹ کی صورت میں شائع کیا تھا۔اب وہ مقالہ راقم الحروف کی کتاب ’’ظہور اسلام‘‘ میں ’’اسلامی انقلاب: تاریخِ انسانی کے لیے نیا موڑ‘‘ کے عنوان سے شامل ہے (صفحہ 145 )۔ اس سفر کی مختصر روداد اُسی زمانے میں ماہ نامہ الرسالہ، اگست 1977 میں چھپی تھی (صفحہ 52 )۔
جامعہ دار السلام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہاں آغاز ہی سے دعوت کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس کا باقاعدہ آغاز 1978 میں ہوا، جب کہ یہاں تخصص فی الدعوۃ کے تحت، دعوت کا ایک مستقل شعبہ کھلا اور اس کے لیے ایک علاحدہ عمارت بنائی گئی جو اب بھی قائم ہے۔ یہ ایک سالہ کورس ہے اور اِس میں مدارسِ عربیہ سے فارغ حضرات کو داخلہ دیا جاتا ہے۔ اِس دعوتی شعبہ کے قیام میں مولاناریاض موسی مالاباری (کیرالا)کا خاص رول ہے۔ یہاں 1997 سے ریاض موسی مالاباری صاحب کی شرکت سے دعوت کا باقاعدہ کورس شروع کیا گیا۔
صبح کے اس پہلے پروگرام کے بعددوسرا پروگرام لائبریری کے ہال میں تھا۔ یہ ایک گھنٹے کا پروگرام تھا۔ یہ پروگرام جامعہ کے اساتذہ کے لیے خاص تھا۔ اِس میں جامعہ کے تمام اساتذہ شریک تھے۔ اساتذہ کے اِس اجتماع میں گفتگو کا موضوع ’’تعلق مع اللہ‘‘ تھا۔ اِس موقع پر میں نے جو باتیں کہیں، اس کا خلاصہیہاں درج کیا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ تعلق باللہ کا مطلب ہے — ذکر اللہ، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یذکر اللہ علی کلّ أحیانہ ( صحیح البخاری)، یعنی ہر حین (occasion) کو پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) بنا کر اللہ کو یادکرنا۔ میں نے کہا کہ تعلق باللہ ایک مسلسل عمل کا نام ہے جو تدبر اور تفکر اور توسم کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ ذکر اللہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ذکرِ کثیر وردِ کثیر کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ تفکرِ کثیر کا نام ہے۔
آخر میں سامعین کی طرف سے مختلف سوالات کئے گئے۔ ایک سوال یہ تھا۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے آج اپنی صبح کی تقریر میں موثر دعوت کے لیے صبر کی اہمیت بتائی تھی اور یہ واقعہ بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بدو مدینہ آیا اور اس نے مسجد نبوی کو گندا کردیا۔ آپ نے اُس سے درگزر کا معاملہ فرمایا۔ مگر سوال یہ ہے کہ اُس بدو نے نادانی میں ایسا کیا تھا، مگر آج مسلمانوں کے خلاف اِس قسم کے واقعات عداوت کی بنیاد پر ہورہے ہیں، پھر اس سے کیسے در گزر کیا جاسکتا ہے۔ میں نے کہا اِس سوال کا جواب صبح کے اجتماع میں قاری صاحب نے اپنی تلاوت کے ذریعہ دے دیا ہے۔ انھوں نے قرآن کی یہ آیت پڑھی تھی: ادفع بالتی ہی أحسن، فإذا الذی بینک وبینہ عداوۃ کأنہ ولی حمیم (41: 34) ۔ اِس آیت کے مطابق ہم کو ’’عدو‘‘ کے ساتھ بھی وہی حسنِ سلوک کرنا ہے جو نادان کے ساتھ کیا جاتا ہے،یعنی رد عمل کا طریقہ اپنانے کے بجائے صابرانہ طریقہ اپنانا۔
ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ مسلمانوں کو صبر کی نصیحت کرتے ہیں، مسلمان تو مسلسل صبر ہی کررہے ہیں، لیکن اُنھیں صبرکا کوئی فائدہ نہیں ہورہا ہے، وہ برابر ذلت و ناکامی کا شکار ہورہے ہیں۔ میں نے کہا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ : إنّ اللہ مع الصابرین۔ یہ آیت اِس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان مطلوب صبر نہیں کررہے ہیں۔ اگر وہ مطلوب صبر کررہے ہوتے تو قرآن کے بیان کے مطابق، یقینا وہ ’’ذلت وناکامی‘‘ کا شکار نہ ہوتے۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، صبر کرنے والوں کو اللہ کی نصرت حاصل ہوتی ہے، اور اللہ کی نصرت کے بعد کسی کے لیے ذلت وناکامی کا کوئی سوا ل نہیں۔
صبر کا مطلب کیاہے۔ صبر کا مطلب نہ پسپائی ہے اور نہ بے عملی ہے۔ صبر دراصل یہ ہے کہ آدمی ٹکراؤ کو اوائڈ کرکے مثبت بنیاد پر اپنے عمل کا منصوبہ بنائے۔ صبر یہ ہے کہ آپ اپنے دل سے نفرت کو ختم کردیں، تشدد کے مزاج کو ختم کردیں، لڑنے کے مزاج کو ختم کردیں، اشتعال سے پرہیز کریں۔ اِس طرح کے مثبت اوصاف کو پیدا کرنے کے بعدجو تعمیری منصوبہ بنایاجائے، اسی کا نام صبر ہے۔
پروگرام کے بعد مولانا کا کا سعید احمد عمری نے کہا کہ آپ نے بے حد قیمتی باتیں بتائیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ تقریر کے اختتام پر اساتذہ کو ہمارے یہاں کا چھپا ہوا لٹریچر دیاگیا۔ ہال میں میز پر موجود سارا لٹریچر اُسی وقت ختم ہوگیا۔ اساتذہ نے خود سے یہ لٹریچر حاصل کیا، اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔
8 جون 2010 کے مذکورہ پروگرام کے بعد میرے کمرے میں کئی لوگ ملاقات کے لیے آئے۔ یہ بنگلور کے رہنے والے تھے۔ ان میں ایک صاحب کا نام مسٹر رمن تھا۔ انھوںنے بتایا کہ وہ ایک اسکول میں انگلش ٹیچر ہیں۔ مسٹر رمن نے بتایا کہ مجھے خدا کی توفیق سے، آپ کی کتاب (The Reality of Life) پڑھ کر سچائی کی دریافت ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ میں ایک متلاشی (seeker) تھا۔ میں نے اِس سلسلے میں مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کیا، مگر میں اپنی تلاش کا جواب پانے میں ناکام رہا۔ اب آپ کی کتابوں کے مطالعے کے بعد توحید کا تصور پوری طرح مجھ پر واضح ہوگیا ہے، اور جنت کا راستہ میرے سامنے کھل گیا ہے۔
8 جون 2010 کی سہ پہر کو تین بجے سے چار بجے تک دُعاۃ کے ساتھ ’’تبادلۂ خیال‘‘ کا پروگرام تھا۔ میںنے پروگرام کے آغاز میں تقریباً 25 منٹ تک دعوت کے مختلف پہلوؤں پر اظہارخیال کیا۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ دعوت کا عمل ایک اعتبار سے دو طرفہ ایکسچینج (exchange) کا عمل ہے۔ دعوت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ دوسروں کے سامنے ایک بات کا اعلان کردیں، بلکہ دعوت کے دوران آپ کو خود بھی سیکھنا چاہیے۔ دعوتی عمل کا فائدہ خود داعی کو ذہنی ارتقا کی صورت میں ملنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ میںآپ کو مشورہ دوں گا کہ آپ مطالعہ کتب کو اپنے ڈیلی رُٹین میں شامل کرلیں۔ اِسی کے ساتھ آپ میں سے ہر شخص ڈائری بھی ضروررکھے۔ ڈائری گویا کہ کتابِ محاسبہ ہے۔ دُعاۃ کو ایک اور مشورہ میں نے یہ دیا کہ آپ لوگ اپنا دعوتی عمل خاص طورپر اُن لوگوں کے ساتھ کریں جن سے آپ کی علمی سطح بڑھنے والی ہو— دینا وہی دینا ہے جب کہ دینے کے عمل کے دوران آدمی نے خود بھی کچھ پایا ہو۔
تقریر کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ ایک سوال یہ تھا۔ ایک صاحب نے کہا کہ میں گزشتہ ایک سال سے ماہ نامہ الرسالہ اور آپ کی دیگر کتابوں کا مطالعہ کررہا ہوں۔ مطالعے کے دوران میں نے پایا کہ آپ ذہنی ارتقاء پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ میں نے کہا کہ ذہنی ارتقا اپنی حقیقت کے اعتبار سے، عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں ’’ازدیادِ ایمان‘‘ کہا گیا ہے۔ لوگ ازدیادِ ایمان کو ایک پر اسرار چیز سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ازدیادِ ایمان ایک معلوم چیز ہے اور اس کا تعلق انسانی دماغ سے ہے۔ وہ غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوتا ہے جس کو قرآن میں تدبر و تفکر اور توسم کہا گیا ہے۔ وہ چیز جس کو قربِ الٰہی کہا جاتا ہے، اس کو حاصل کرنے کا ذریعہ یہی ذہنی ارتقا ہے۔ ذہنی ارتقا سے آدمی کو معرفت حاصل ہوتی ہے، اور معرفت انسان کو اللہ سے قریب کرنے والی ہے۔
8 جون 2010 کو عصر کی نماز کے بعد جامعہ دار السلام کی مسجد میں ایک خطاب رکھا گیا۔اِس میں جامعہ کے طلبا اور اساتذہ دونوں شریک تھے۔ اِس خطاب کا موضوع تھا: معرفتِ الٰہی۔
میں نے کہا کہ معرفت کیا ہے۔ معرفت یہ ہے کہ انسان حالتِ غیب میں اپنے رب کو پہچانے، وہ دیکھے بغیر اس کو دیکھ لے۔ معرفت دراصل یہ ہے کہ آدمی کو خدا کی موجودگی (presence of God) کا حسّیاتی تجربہ ہونے لگے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو قرآن میں واسجد واقترب کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے، اور حدیث میں اس کے لیے یہ الفاظ آئے ہیں: تعبد اللہ کأنک تراہ۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور معرفت کے حصول کی بھی ایک قیمت ہے، وہ قیمت بنیادی طورپر یہ ہے کہ آدمی پردۂ التباس (element of doubt) کو پھاڑ کر حقیقت اعلیٰ کو دیکھ سکے۔ پردہ التباس کو پھاڑنے میں وہی شخص کامیاب ہوسکتا ہے جو اپنے آپ کو ہر قسم کے ڈسٹریکشن (distraction) سے بچائے، جو اپنے آپ کو کامل یکسوئی کے ساتھ معرفت کے حصول میں لگا دے۔ ڈسٹریکشن میں ہر وہ چیز شامل ہے جو آدمی کی توجہ کو مقصد ِ اعلیٰ سے ہٹانے والی نہ ہو۔ اِس میں ہر قسم کے منفی جذبات بھی شامل ہیں۔ مثلاً نفرت، تعصب، فخر، احساسِ برتری، اور خواہش کی پیروی، وغیرہ۔
اِس سلسلے میں ایک بات میں نے یہ بتائی کہ انسان کو جو دماغ دیاگیا ہے، وہ بے پناہ صلاحیتوں کا حامل ہے، وہ کوئی عبث چیز نہیں ہے۔ وہ اِس لیے ہے کہ آدمی اپنے دماغ کو اَن فولڈ (unfold) کرے اور اس کو حقائقِ ربانی کی دریافت کے لیے استعمال کرے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کلماتِ رب (31: 27) اتنے زیادہ ہیں جن کی کوئی حد نہیں۔ اِسی کے ساتھ انسانی دماغ کے جو امکانات (potential) ہیں، وہ بھی لامحدود ہیں۔ کہاجاتا ہے کہ ایک فرد کے دماغ میں جتنے پارٹکل ہوتے ہیں، وہ پوری کائنات میں موجود پارٹکل کے برابر ہیں۔ انسان کو یہ غیر معمولی صلاحیت اِس لیے دی گئی ہے کہ وہ اس کو استعمال کرکے معرفتِ اعلیٰ کو حاصل کرے۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت میں اہلِ جنت کا سب سے زیادہ محبوبمشغلہ (شغلِ فاکہ) یہ ہوگا کہ وہ لامحدود کلماتِ رب کو ابدی طورپر دریافت کرتے رہیں۔ موجودہ دنیا دراصل اِس لیے ہے کہ آدمی اپنے آپ کو جنت کے اِس لامحدود عمل کے لیے تیار (prepare)کرے۔ جنت کی سب سے بڑی خوشی حصول معرفت کی خوشی ہے۔ حصولِ معرفت کا یہ سفر جنت میں ابدی طور پر جاری رہے گا۔ اس کے علاوہ، جنت میں جو مادی نعمتیں ملیں گی، وہ دراصل ضیافتِ ربّانی کے طورپر ملیں گی یہی وہ بات ہے جو قرآن میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: نزلاً من غفورٌ رحیم۔
خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ حصول معرفت کی نسبت سے قدیم روایتی د ور اور جدید سائنسی دور میں کیا فرق ہے۔ میںنے کہا کہ معرفت کا اصل ذریعہ تخلیقاتِ خداوندی میں تدبر اور تفکر ہے۔ یہی علمائِ راسخین کا مسلک ہے۔
امام ابن تیمیہ نے بجا طور پرلکھا ہے کہ کائنات میں پھیلی ہوئی خدائی نشانیوں پر غور وفکر کرنا ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے آدمی اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت حاصل کرتا ہے: أن التفکیر فی الآلاء والنعم یمکن للعقل أن یستنبط فیہا عظمۃَ الصانع وحکمتہ وما یلیق بہ من صفات الکمال والجلال، فیعرفہ حق معرفتہ۔ (دقائق التفسیر، الجامع لتفسیر ابن تیمیۃ، 1/49 ) یہ تدبر اور تفکر قدیم زمانے میں بھی مطلوب تھا، اور آج بھی اسی کے ذریعے کسی آدمی کو معرفتِ خداوندی مل سکتی ہے۔ اِس اعتبار سے، قدیم دور اور جدید دور میںکوئی فرق نہیں، البتہ جدید سائنسی دور میں معلومات کے اضافے کی بنا پر تدبر کا فریم ورک (frame work) بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔
پروگرام ختم ہوا تو مغرب کی نماز میں تقریباً نصف گھنٹہ باقی تھا۔ ہم لوگ کچھ دیر کے لیے کلیہ بلڈنگ کے دفتر میں بیٹھ گئے۔ یہاں جامعہ کے مختلف اساتذہ اور دیگر علماء موجود تھے۔ مولانا سید اقبال احمد عمری نے کہا کہ آج کی تقریر (معرفتِ الٰہی) میںآپ نے جنت اور کلماتِ رب کے بارے میں جو کچھ کہا، اُس سے جنت اور آخرت کی معنویت پوری طرح کھل گئی۔ میں نے کہا کہ جنت کا یہ تصور اُس سوال کاواحد جواب ہے جو تمام اہلِ علم کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ تمام فلاسفہ اور مفکرین اور سائنس داں مشترک طورپر اس مسئلے سے دوچار ہیں کہ اتنی زیادہ بامعنیٰ (meaningful) کائنات کیا ایک بے معنی انجام(meaningless end) پر ختم ہوجائے گی۔ جنت کا تصور واحد تصور ہے جو اِس سوال کا جواب فراہم کرتا ہے۔ لیکن جنت کے ماننے والوںنے جنت کی جو تصویر بنا رکھی ہے، اُس میں اُنھیں اپنے اِس سوال کا جواب نہیں ملتا۔
8 جون 2010 کو مغرب کی نماز کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے میںآگئے۔ یہاں مولانا ریاض موسی مالاباری سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ انھوںنے بتایا کہ وہ ہمارے انگریزی ترجمہ قرآن کو سامنے رکھ کر ملیالم زبان میں اس کا ترجمہ کررہے ہیں۔ اِس کے علاوہ، وہ ہماری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا ملیالم ترجمہ شائع کررہے ہیں۔ ان کی مادری زبان ملیالم ہے۔ انھوں نے میرے حالات اور مشن کو لے کر ایک تفصیلی انٹرویو لیا جس کو وہ ملیالم اخبار میں شائع کریں گے۔
آج شام کو مولانا کاکا سعید احمد عمری سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تزکیہ اور روحانیت کے مسئلے پر تفصیلی گفتگو کی۔ یہ گفتگو تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہی۔ بعد کو اِس مجلس میں دیگر علماء کے علاوہ، مولانا فیاض الدین عمری اور مولانا سید اقبال احمد عمری، وغیرہ آگئے۔ کاکا صاحب اپنے مزاج کے اعتبار سے بہت صاف دل آدمی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ اِس مجلس میں مولانا فیاض الدین عمری نے مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے پایا ہے کہ کاکا صاحب کا سب سے بڑا کنسرن (concern) یہ ہے کہ جامعہ دار السلام کے طلبا اور اساتذہ میں تزکیہ اور روحانیت پیدا ہو۔ یہ بات سن کر کاکا صاحب فوراً سنجیدہ ہوگئے اور انھوں نے کہا کہ آپ لوگ غلط بات کیوں کہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہیے کہ خود مجھے تزکیہ اور روحانیت کی ضرورت ہے۔
8 جون 2010 کو ہم نے عشاء کی نماز عمر آباد کی مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد جامعہ کے ایک سینئر استاذ اور سابق شیخ الحدیث مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی صاحب کے گھر پر کھانے کا پروگرام تھا۔ وہ جامعہ کیمپس کے باہر عمر آباد میں رہتے ہیں۔ وہ 1920 میں (اعظم گڑھ، یوپی) میں پیدا ہوئے اور بعد کو عمر آباد میں آکر بس گئے۔ وہ 1958 سے مستقل طورپر عمر آباد میں مقیم ہیں۔ گذشتہ 50سال سے وہ جامعہ میں حدیث کے استاذ ہیں اور اِسی کے ساتھ افتاء کا کام بھی کرتے رہے ہیں۔اپریل 1977 میں انھیں کی خصوصی دعوت اور تحریک پر میںنے جامعہ دارالسلام کا سفر کیا تھا۔
عمر آباد آنے سے پہلے میں نے یہ کہہ دیا تھا کہ میں کسی کے گھر دعوتی کھانا کھانے کے لیے نہیں جاؤں گا۔ میں صرف جامعہ میں کھانا کھاؤں گا۔ مگر بعض وجوہ سے استثنائی طورپر مولانا ظہیرالدین صاحب کے یہاں کھانے کے لیے جانا منظور کرلیا۔ اِس موقع پر جامعہ کے کئی علماء بھی شریک تھے۔ یہاں جو باتیں ہوئیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے ذکر کی وضاحت کی۔ میں نے کہا کہ ذکر سب سے بڑی ہستی کو یاد کرنے کے لیے ہوتاہے۔ اِس لیے ذاکر کے اندر اُسی عظیم ہستی کی نسبت سے کیفیات پیدا ہونی چاہئیں۔ جس ذکر میں ذاکر کے اندر ربانی کیفیات پیدا نہ ہوں، وہ ذکر ایسا ہی ہے جیسے پلاسٹک کا بنا ہوا گلاب کا پھول۔ بظاہر وہ پھول ہے، لیکن اس سے آدمی کو کوئی خوشبو نہیں ملتی۔ ایک حقیقی پھول آدمی کو اپنی خوشبو سے معطر کردیتا ہے۔ اِسی طرح حقیقی ذکر وہ ہے جو آدمی کو اعلیٰ ربانی کیفیات سے معمور کردے۔
9 جون2010کی صبح کو نمازِ فجر کے بعد کچھ دیر ہم لوگوں نے جامعہ کے کمپس میں واک کی۔ اِس کے بعد مولانا سید اقبال احمد عمری نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ میں کچھ دیر کے لیے ان کے گھر جاؤں اور وہاں صبح کی چاہیے پیوں۔ میںنے کہا کہ عام طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ چائے پر بلاتے ہیں اور پھر پر تکلف ناشتے کا اہتمام کرتے ہیں۔ اگرآپ یہ وعدہ کریں کہ آپ کے یہاں صرف چائے ہوگی اور دوسرا کوئی بھی آئٹم نہ ہوگا، تو میں چلنے کے لیے تیار ہوں۔ انھوں نے وعدہ کیا۔ چناں چہ میں ان کے یہاں گیا اور واقعۃً انھوں نے اپنے وعدے کو نبھایا۔
اِس مجلس میں اور بھی کئی علماء موجود تھے— مولانا محمد ابراہیم عمری، مولانا کاکا انیس احمد عمری، وغیرہ۔ یہاں جو باتیں ہوئی، اُن میں سے ایک یہ تھی ۔ میںنے کہا کہ آج کل تسبیح فاطمہ کا بہت رواج ہے۔ لیکن یہ لوگ تسبیح فاطمہ کو اس کی پوری شکل میں نہیں لیتے، بلکہ ادھوری شکل میں لیتے ہیں۔ جیسا کہ روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تسبیح اپنی صاحب زادی فاطمہ کو خادم کے بدل کے طور پر بتائی تھی۔ مگر آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے تسبیح فاطمہ کو اس کے پس منظر سے الگ کرلیا ہے اور وہ اس کو پراسرار فضیلت کے طور پر پڑھتے ہیں، حتی کہ اس کی بنیاد پر تسبیح کا بہت بڑا کاروبار ساری مسلم دنیا میں قائم ہے۔ مزید یہ کہ پہلے وہ اپنی صاحب زادیوں کے لیے ہر قسم کی مادّی سہولت فراہم کرتے ہیںاور پھر تبرک کے طورپر ان کو تسبیح اور مصلی بھی دے دیتے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ کی بعض باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ذکر کے فارم کا انکار کرتے ہیں، حالاں کہ ذکر کا فارم تو قرآن میں موجود ہے۔ میںنے کہا کہ یہ اعتراض محض غلط فہمی پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ذکر الفاظ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا۔ انسان کسی بھی چیز کا تصور کرنے کے لیے الفاظ کا محتاج ہے۔ اِسی طرح ذکر کے لیے بھی الفاظ ضروری ہیں۔ میں دراصل ذکر کی موجودہ شکل کو ذکر کا تصغیری فارم سمجھتا ہوں، جس میں ذکر کو اس کی اسپرٹ سے الگ کردیا گیاہے۔
ذکر کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت کا مطالعہ کیجئے: إنما المؤمنون الذین إذا ذُکر اللہ وجلت قلوبہم (8: 2) ۔ قرآن کی اِس آیت کے مطابق، ذکر وہ ہے جو اگر چہ الفاظ کی صورت میں ظاہر ہو، لیکن اپنی داخلی کیفیت کے اعتبار سے وہ ایک ہلچل کی مانند ہو، جس سے ذاکر کا قلب دہل اٹھے، جو اس کے دل ودماغ کے لیے ایک طوفانی تجربہ بن جائے، جو آدمی کے لیے خداوند ذوالجلال کی دریافت کے ہم معنی بن جائے۔
گفتگو کے دوران کاکا انیس احمد عمری سے میں نے پوچھا کہ آپ کی فیملی ایک جوائنٹ فیملی ہے۔ جوائنٹ فیملی میں طرح طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ لوگ کس طرح اِس مسئلے کو حل کرتے ہیں۔ کاکا انیس صاحب نے کہا کہ اِس کا فارمولا ہے — صبر وبرداشت سے کام لینا اور دوسروں کی کمی کو نظر انداز کرنا۔ اِس میں سب سے اہم رول گھر کے بڑے کا ہوتاہے۔ گھر کا بڑا اگر دانش مندی سے کام لے تو کوئی مسئلہ نہیں پیدا ہوتا — یہ فارمولامجھے بہت پسند آیا۔ یہ سادہ بھی ہے اور پوری طرح قابلِ عمل بھی، مگر اکثر لوگ اِس حقیقت کو نہیں جانتے۔
9 جون 2010 کا پروگرام صبح 10 بجے سے شروع ہونے والا تھا۔ اِس سے پہلے کئی علماء میرے کمرے میں آگئے۔ اُن سے دیر تک گفتگو ہوئی۔ ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ نے ایک مجلس میں کہا تھا کہ ذکر تجدید شعور کا نام ہے، تکرارِ لفظی کا نام ذکر نہیں، حالاں کہ احادیث میں بہت سی روایات ذکر کے سلسلے میں آئی ہیں۔ میں نے کہاکہ جو کچھ میں نے کہا تھا، اُس کا تعلق نفسِ ذکر سے نہیں ہے، بلکہ تصورِ ذکر سے ہے۔ ذکر کی اہمیت بلا شبہہ بہت زیادہ ہے، لیکن ذکر سے مراد تکرارِ معانی ہے، نہ کہ مجرد تکرارِ الفاظ۔ جب انسان اپنے خالق کو یاد کرتا ہے تو اس کے دل ودماغ میں ایک تموج پیدا ہوجاتا ہے۔ یہ داخلی تموج جب الفاظ کی صورت میں ڈھل جائے تو اسی کا نام ذکر ہے۔
مجلس کے دوران مولانا کاکا سعید احمد عمری میرے کمرے میں آئے۔ اس وقت وہاں کئی اساتذہ اور دُعاۃ بیٹھے ہوئے تھے، جو اُن کو دیکھ کر کھڑے ہوگئے ۔ کاکا صاحب نے ان لوگوں کو سختی کے انداز میں کھڑے ہونے سے منع کیا اور کہا کہ آپ لوگ جیسے بیٹھے ہیں، اِسی طرح بیٹھے رہیں، اٹھنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اِس کے بعد کاکا صاحب خاموشی کے ساتھ کمرے کے ایک طرف خالی جگہ دیکھ کر بیٹھ گئے — یہ منظر میں نے صرف جامعہ دار السلام میں دیکھا۔
9 جون 2010 کو ’’تزکیۂ نفس‘‘ کے موضوع پر خطاب کرنا تھا۔ اِس خطاب کا انتظام جامعہ کی لائبریری کے ہال میں کیا گیا تھا۔ اِس خطاب میں جو باتیں میںنے کہیں، ان میں سے ایک یہ تھی کہ عام طورپر تزکیۂ نفس کے موضوع کو ایک پر اسرار موضوع سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تزکیہ نفس کو تزکیۂ قلب کے ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ تزکیہ نفس سے مراد تزکیہ ذہن ہے، یعنی نفسیاتی تزکیہ ۔ تزکیہ نفس کو دوسرے لفظوں میں تعمیر ِ شخصیت کہاجاسکتا ہے، یعنی روحِ انسانی کی تطہیر (purification of soul)۔ تزکیہ نفس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنا بے رحمانہ محاسبہ کرے اور اپنی شخصیت کو تمام منفی اور نامطلوب عناصر سے پاک کرکے اپنے آپ کو ربانی انسان بنائے۔ تزکیہ نفس کوئی وقتی عمل نہیں، وہ تاحیات جاری رہنے والا ایک مسلسل عمل ہے۔
تزکیہ نفس کا کوئی تعلق مروّجہ مراقبہ (meditation) سے نہیںہے۔اس کا تعلق تمام تر تفکر اور تدبر سے ہے۔ علامہ ابن تیمیہ (وفات: 728 ھ) نے بجا طورپر لکھا ہے کہ تزکیہ نفس کا ذریعہ تذکر اور تفکر ہے: أن التذکر والتفکر سبب التزکی۔ فإنّہ إذا تذکر خاف ورجا، فتزکی (دقائق التفسیر للإمام ابن تیمیۃ، 5/92)
تزکیہ نفس در اصل یہ ہے کہ محاسبہ (introspection) کے ذریعے اپنی کنڈیشننگ کو توڑا جائے۔ اپنے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کی جائے۔ دراصل ڈی کنڈیشننگ ہی تزکیہ نفس کا پہلا دروازہ ہے۔ ہر آدمی کا کیس کنڈیشننگ کا کیس ہے۔ جب تک اِس کنڈیشننگ کو توڑا نہ جائے، کسی شخص کے اندر تزکیہ نفس کا عمل (process) شروع نہیں ہوسکتا۔
میں نے کہا کہ لوگ تزکیہ کا معروف کورس پورا کرتے ہیں، لیکن ان کے اندر مطلوب تزکیہ پیدا نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ تزکیہ کے نام پر لوگ ورد اور تسبیح اور وظیفہ اور نفلی اعمال کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اِن اعمال کے اندر کراماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں جو پر اسرار طورپر ان کا تزکیہ کردیں گے، حالاں کہ اِس طرح کے شکلی اعمال کا براہِ راست تعلق تزکیہ نفس سے نہیں ہے۔ تزکیہ حقیقۃً ایک شعوری عمل کا نتیجہ ہے، نہ کہ صرف کسی فارم کی ظاہری ادائیگی کا نتیجہ۔
خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام تھا۔ یہ ایک گھنٹے کا سوال و جواب تھا۔ یہاں جوسوالات کئے گئے، ان میں سے ایک سوال تھا کہ آپ نے اپنی تقریر میں بتایا کہ تزکیہ نفس کا تعلق کسی ظاہری فارم سے نہیں ہے، بلکہ تزکیہ ایک شعوری عمل کا نام ہے۔ اِس کی وضاحت فرمائیں۔ میںنے کہا کہ اِس سوال کا جواب ایک صحابی کے عمل سے معلوم ہوتا ہے۔حضرت ابو الدرداء انصاری کی وفات کے بعد ان کی اہلیہ ام الدرداء سے پوچھا گیا کہ ابو الدرداء کا خاص عبادتی عمل کیا تھا۔ انھوںنے جواب دیا: التفکر والاعتبار یعنی سوچنا اور چیزوں سے عبرت پکڑنا۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے اپنے بارے میں کہا کہ میں ایک صوفی ہوں، حالاں کہ تصوف، اسلام میں ایک مبتدعانہ اضافہ ہے۔ میںنے کہا کہ میں صوفی کا لفظ مروجہ معنی میں استعمال نہیں کرتا۔ صوفی سے میری مراد وہی ہے جس کے لیے قرآن میں ربانیت (3: 79) کا لفظ آیا ہے۔ربانیت کی اہمیت خود قرآن سے ثابت ہے، اور جہاں تک موجودہ تصوف کا تعلق ہے، وہ اِسی ربانیت کی ایک بگڑی ہوئی صورت ہے۔ تصوف کے بارے میں میرے نقطۂ نظر کو جاننے کے لیے آپ میری کتاب ’’فکر اسلامی ‘‘ (صفحہ 128 ) کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
9جون 2010 کو اگلا پروگرام دعاۃ سے ’’تبادلۂ خیال‘‘ کا تھا۔ یہ ایک گھنٹے کا پروگرام تھا جو تین بجے سے چار بجے تک جاری رہا۔ یہ پروگرام سوال وجواب کی صورت میں تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ اسلام کا ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق عقیدے سے ہے۔ مثلاً توحید اور آخرت، وغیرہ۔ اسی طرح کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا تعلق نظام سے ہے۔ مثلاً دیوانی اور فوج داری کے قوانین اور تعزیرات، وغیرہ۔ ایسی حالت میں سوال یہ ہے کہ ہم اسلام کی دعوت کا آغاز اسلام کے کس حصے سے کریں۔
میں نے کہا کہ اِس سوال کا جواب سیرتِ نبوی میں موجود ہے۔ آپ نے مکہ میں نبوت کا آغاز کیا تو آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کے پاس جاتے اور ان سے کہتے: أیہا الناس قولوا لا إلٰہ إلاّ اللہ، تفلحوا۔ اِسی طرح قرآن کے جو حصے مکی دور میں ناز ل ہوئے تھے،آپ ان کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے۔ چناں چہ سیرت کی کتابوں میں آپ کے بارے میں یہ آتا ہے کہ آپ لوگوں سے مل کراُن کو اسلام کی دعوت پیش کرتے اور ان کے سامنے قرآن کے کچھ حصے پڑھ کر سناتے (عرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن)۔
ایک سوال یہ تھا کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کی حیثیت کیا ہے۔ میں نے کہا کہ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار ایک ثانوی (secondary) چیز (أخری) کی حیثیت رکھتا ہے (61: 13) ۔ اسلام میں سیاسی اقتدار کو مطلوب اول کادرجہ حاصل نہیں۔
پروگرام کے بعد میںاپنے کمرے میں واپس آگیا۔ یہاں کئی علماء اکھٹا ہوگئے اور دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ اِس مجلس میں ایک بات میں نے یہ کہی کہ اسلام میں عقل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ میں نے اِس سلسلے میں حاضرین کو ایک حدیث سنائی۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: ماخلق اللہ خلقاً أکرم علیہ من العقل (المغنی عن حمل الأسفار للعراقی، رقم الحدیث:13483 )یعنی اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کیں، اُن میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت کی حامل چیز عقل ہے۔ عجیب بات ہے کہ بعد کے لوگوں نے عقل کو غیر اہم قرار دے دیا اور ساری اہمیت عشق کو دے دی، یہاں تک کہ ایک معروف مسلم شاعر نے کہا :
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب
یہ بلاشبہہ ایک فکری انحراف تھا۔ اِس غلطی کا سبب غالباً یہ تھا کہ بعد کے لوگوں نے عقل کو فلسفہ کی نسبت سے دیکھا۔ اگر وہ عقل کو سائنس کی نسبت سے دیکھتے تو وہ کبھی اِس غلطی میں مبتلا نہ ہوتے۔عقل ایک فطری صلاحیت کا نام ہے جو خدا کی ایک تخلیق ہے۔ اس کے مقابلے میں، فلسفہ خود انسان کے اپنے بنائے ہوئے ایک علم کا نام ہے، جو صحیح بھی ہوسکتا ہے اور غلط بھی۔سائنس اور فلسفہ میں یہ فرق ہے کہ فلسفہ قیاسی منطق (sylogism) پر مبنی ہے، اور سائنس مکمل طورپر قوانین فطرت پر مبنی ہے۔ سائنس میںاگر کوئی غلطی ہوتی ہے تو وہ ناقص دریافت کی بنا پر ہوتی ہے، نہ کہ خود ساختہ قیاس کی بنا پر۔
ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن کی آیت: اتخذوا أحبارہم ورہبانہم أرباباً من دون اللہ (9: 31) کا مطلب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اِس آیت کی وضاحت ایک مشہور روایت سے ہوتی ہے۔ عدی بن حاتم الطائی (وفات: 68 ھ) پہلے نصراتی تھے۔ وہ بعد کو اسلام میں داخل ہوگئے۔وہ مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ انھوںنے آپ کے سامنے یہ آیت پڑھی اور کہا کہ یہود ونصاریٰ نے اپنے احبار ورہبان کو اپنا رب نہیں بنایا، انھوں نے کبھی اپنے احبار ورہبان کی عبادت نہیں کی(إنہم لم یبعدوہم) ،آپ نے فرمایا کہ ہاں، اُن کے احبار ورہبان نے حلال کو حرام کیا اور حرام کو حلال کیا اور انھوںنے اس کو مان لیا۔ یہود ونصاری کی یہی روش ان کے احبارورہبان کی عبادت کے ہم معنی تھی (فذلک عبادتہم إیاہم)۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں رب کا لفظ آیا ہے۔ یہ اِس معاملے کی شناعت کو بتانے کے لیے ہے۔ انھوںنے جو کیا تھا، وہ یہ تھا کہ خدا اور سول کے حوالے کے بجائے ، اپنے احبار ورہبان کا حوالہ دے کر کسی چیز کو ترک کرتے یا کسی چیز کو اختیا رکرلیتے۔ حدیث میں تحلیلِ حرام اور تحریمِ حلال کا لفظ بھی اِسی معاملہ کی شناعت کو بتانے کے لیے ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کے لیے اپنے علماء ومشائخ (احبار ورہبان) کو مستقل بالذات مرجع (reference) سمجھ لیا۔
موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان عین اِسی روش پر قائم ہیں۔ موجودہ مسلمان عام طورپر یہ کہتے ہوئے سنے جاتے ہیں کہ — ہمارے اکابر کا طریقہ یہ ہے، ہمارے اسلاف کا اِس پر عمل رہا ہے، ہمارے بزرگوں نے ایسا فرمایا ہے، وغیرہ۔ یہ طریقہ عین یہودی طریقہ ہے۔ مسلمان کے لیے صرف ایک ہی مستقل بالذات حوالہ ہے، اور وہ خدا اور رسول کا حوالہ ہے۔ اِس کے سوا جو حوالے مسلمانوں میں رائج ہوگئے ہیں، وہ بلاشبہہ یہودی اتباع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اکابر کا منہج، اسلاف کا منہج اور بزرگوں کا منہج، سب اِسی کی مثالیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ منہج واتباع کی حیثیت سے ہماراسارا تعلق خدا اور رسول سے ہونا چاہیے، نہ کہ اپنے اکابر اور اپنے اسلاف سے۔
میںنے اِس مجلس میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ حدیث کی کتابوں میں ایک ایسے گروہ (عصابۃ) کا ذکر ہے جو ہند میں غزوہ کرے گا۔ اس گروہ کے لیے حدیث میں جہنم کے عذاب سے نجات کی خوش خبری دی گئی ہے۔ اِس حدیث میں ’’غزوہ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں: عصابۃ تغزوا الہند (صحیح الجامع للألبانی، رقم الحدیث:4012 )۔ یہاں غزوہ سے مراد مسلح جنگ نہیں، بلکہ پُرامن دعوتی عمل ہے۔ میرے نزدیک، اِس حدیث میں ہند سے مراد غالباً جنوبی ہند ہے، کیوں کہ شمالی ہند کے برعکس، جنوبی ہند میں پرامن دعوتی عمل کے حالات پوری طرح موجود ہیں۔ پھر میں نے کہا جامعہ دار السلام کے حالات معلوم ہونے کے بعد میرا احساس ہے کہ ان شاء اللہ یہی وہ ادارہ ہے جو غالباً اِس پیشین گوئی کا مصداق ہے، واللہ أعلم بالصواب۔ موجودہ زمانے میں بے شمار مسلم ادارے قائم ہوئے، لیکن میرے علم کے مطابق، جامعہ دار السلام واحد ادارہ ہے جو دعوت کے تصور کے تحت قائم کیاگیا۔ جامعہ دار السلام میں دعوت کا تصور آغاز ہی سے موجود تھا۔ 1978 میں یہاں باقاعدہ ایک مستقل ادارہ خاص دعوتی مقصد کے لئے قائم کیا گیا، جس کا نام یہ ہے: معہد مقارنۃ الأدیان۔
مولانا ریاض موسی مالاباری غیر مسلموں کے درمیان دعوتی کام کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے بعض ساتھیوں کے ہم راہ ہندستان کے مختلف اداروں کا دورہ کیا۔ مگر کوئی ادارہ اِس کام کے لیے تیار نہیں ہوا۔ اِس کے بعد وہ 1997 میں جامعہ دار السلام آئے۔ یہاں کے ذمے داران فوراً ان کے ساتھ تعاون کرنے پر راضی ہوگئے۔ چناں چہ جامعہ کے تعاون سے ’’ادارہ تعارف اسلام‘‘ کے تحت یہاں دعوتی کام ایک منظم شکل میں جاری ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ غالباً جامعہ دار السلام کے تحت کام کرنے والے دعاۃ کا گروپ ہی ان شاء اللہ وہ عصابہ ہے جس کی پیشگی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی، واللہ أعلم بالصواب۔ خود مجھ کو یہ تجربہ ہوا کہ دعوتی کام کے لیے عملی طور پر جتنا زیادہ تعاون مجھ کو اِس ادارے کے تحت حاصل ہوا، اتنا زیادہ تعاون مجھے کسی بھی دوسرے ادارے سے کبھی حاصل نہیں ہوا۔ جامعہ دار السلام آتے ہی مجھ کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ دونوں ایک دوسرے کا فطری جز تھے جو باہم مل گئے۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ جامعہ دارالسلام 1924 میں قائم کیاگیا، اور میری پیدائش بھی عین اِسی سال ہوئی۔
آخر میں میںنے کہا کہ ’’عصابہ‘‘ کی نسبت سے جو بات میں نے کہی ہے، وہ کوئی فخر یا فضیلت یا ادّعاکی بات نہیں ہے۔ اس عصابہ کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ میں نے جو بات کہی، اس کی حیثیت صرف ایک ذمے داری کی تشخیص کی ہے۔ اِس تشخیص کا تقاضا ہے کہ آپ حضرات اب مزید یقین کے ساتھ اِس دعوتی غزوہ میں ہمہ تن سرگرمِ عمل ہوجائیں۔
9 جون 2010 کے پروگرام کے بعد عصر کی نماز مسجد میں پڑھی گئی۔ نماز سے فراغت کے بعد ہم لوگ جامعہ کے کلیہ ہال میں گئے۔ وہاں ایک خطاب کا پروگرام تھا۔ اِس کا موضوع تھا: آخرت رخی زندگی۔ یہ ایک گھنٹے کا خطاب تھا۔ میں نے کہا کہ آخرت رخی زندگی کا فارمولا حدیث کے مطابق، یہ ہے: حاسبوا أنفسکم قبل أن تحاسبوا، وزنوا أنفسکم قبل أن توزنوا (مسند الفاروق 2/618 )۔
اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں زندگی کی دو صورتیں ہیں—ایک ہے وہ زندگی جو مبنی بر حبِّ عاجلہ (75: 20) ہو، یعنی صرف آج کی بنیاد پر منصوبہ بندی۔ اور دوسری زندگی ہے مبنی بر آجلہ، یعنی حیات بعد الموت کو لے کر زندگی کا نقشہ بنانا۔ اِس کے بعد میں نے رسول اور اصحاب رسول کے مختلف واقعات سنائے جو آخرت رخی زندگی کے معاملے میں عملی ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
آخر میں ناظمِ اجتماع کی طرف سے لوگوں کو سوال وجواب کا موقع دیا گیا۔ چند منٹ تک کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ جامعہ کے اساتذہ اور دیگر علماء کے علاوہ مولانا کاکا سعید احمد عمری بھی اِس پروگرام میں موجودتھے۔ انھوںنے کہا کہ یہ خطاب اتنا زیادہ واضح اور فکر انگیز ہے کہ اِس کے بعد کسی سوال کی کوئی ضرورت نہیں۔ چناں چہ یہ پروگرام سوال وجواب کے بغیر ختم ہوگیا۔
پروگرام کے بعد ہم لوگ جامعہ کے دفتر میں بیٹھ گئے اور مغرب تک وہاں غیر رسمی انداز میں گفتگو ہوتی رہی۔ اِس مجلس میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان موجود تھے۔ انھوںنے بتایا کہ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ نے الرسالہ کے مطالعے سے کیا پایا۔ انھوںنے کہا کہ — سادگی اور اسلام کا فطری تصور۔
میں نے کہا یہ اُس کا صرف ایک پہلو ہے۔ الرسالہ کا اصل مقصد ہے لوگوں کے اندر مثبت طرزفکر (positive thinking) پیدا کرنا، یعنی منفی حالات کے باوجود ہمیشہ مثبت ذہن کے تحت سوچنا۔ الرسالہ کی کوشش یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اِس قسم کی ذہنی بیداری لائی جائے۔ میںنے کہا کہ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہی خلاصہ ایمان ہے۔ جنت میں وہی لوگ داخلہ پائیں گے جو اپنے اندر مثبت شخصیت کی تعمیر کریں۔ قرآن کے مطابق، جنت دار السلام (10:25) ہے۔ منفی ذہن کے لوگوں کو جنت میں داخلہ ملنے والا نہیں۔
اِس مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ الرسالہ میں صبر کے بارے میں بہت مضامین آتے ہیں۔ صبر کیا ہے۔ کیا صبرکا مطلب کمپرومائز (compromise) کرنا ہے۔ میںنے کہا کہ نہیں، کمپرومائز الگ چیز ہے اور صبر الگ چیز۔ کمپرومائز، مصلحت(expediency) کے تحت ہوتا ہے، جب کہ صبر حکیمانہ منصوبہ بندی کا نام ہے۔
10 جون 2010 کو صبح کی نماز کے بعد ہم لوگوں نے کچھ دیر تک جامعہ کے کیمپس میں واک کیا۔ اس کے بعد ہم لوگ کاکا حامد صاحب کی رہائش گاہ پر گئے۔ میںنے پیشگی طورپر کہہ دیا تھا کہ وہاں صرف چائے ہوگی، اس کے سوا کچھ اور نہیں۔ چناں چہ اس کے مطابق عمل کیاگیا۔ یہ ایک غیر رسمی نشست تھی۔ اس میں مولانا کاکا سعید احمد عمری کے علاوہ تقریباً پندرہ علماء شریک تھے۔
اِس مجلس میں تقریباً ایک گھنٹے تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلمان، عالم اور غیر عالم، عرب اور غیر عرب سب ایک مشترک برائی میں مبتلا ہیں اور وہ منفی سوچ (negative thinking) ہے۔
منفی سوچ ایک قاتل سوچ ہے۔ وہ آدمی کی دنیا کو بھی تباہ کرتی ہے اور آخرت کو بھی تباہ کردیتی ہے۔ منفی سوچ کا پہلا نقصان یہ ہوتا ہے کہ آدمی فیضانِ خداوندی (divine inspiration)سے محروم ہوجاتا ہے۔ اس کے اندر وہ ربانی شخصیت نہیں بنتی جس کو قرآن میں قلبِ سلیم (26:89) کہاگیا ہے۔ منفی سوچ کا دوسرا عظیم تر نقصان یہ ہے کہ ایسا آدمی آخرت کی اعلیٰ جنت میں داخلے کے لیے محروم قرار پاتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ اِس معاملے میں سخت محتاط رہے اور کسی بھی عذر کی بنا پر وہ ادنیٰ درجے میں منفی سوچ کا شکار نہ ہو۔ ہر دوسرا نقصان بلا شبہہ منفی سوچ میں مبتلا ہونے سے کم ہے۔
ایک صاحب نے کہاکہ علمائِ سلف پر علمی تنقید تو علمائِ راسخین کے درمیان جاری رہی ہے،لیکن مجھے آپ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ علماء سلف کا اعتراف ہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ یہ صرف ایک غلط فہمی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میںآپ لوگوں سے زیادہ اسلاف کا اعتراف کرتاہوں۔ آپ لوگ تو صرف فضائل بیان کرتے ہیں۔ میںنے خاص علمی اور تاریخی اعتبار سے اسلاف کے رول کی اہمیت کوواضح کیا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اِس معاملے کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو کا میں بہت زیادہ اعتراف کرتا ہوں۔ یہ پہلو ہے — علوم اسلامی کی تدوین، دینی علم کا تسلسل بعد کی نسلوں میں جاری رکھنا، مصادرِ شریعت کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھنا، وغیرہ۔ یہ سب کام بلا شبہہ ہمارے اسلاف نے انجام دیا ہے۔ یہ بلاشبہہ بہت بڑا کام ہے۔ اِس کام کی اہمیت اس موازنہ سے سمجھی جاسکتی ہے کہ اِس قسم کے علماء اور محققین دوسرے مذاہب میں پیدا نہیں ہوئے۔ چناں چہ دوسرے مذاہب اپنی اصل حالت میں محفوظ نہ رہ سکے۔ یہ ہمارے اسلاف کا کارنامہ ہے کہ دینِ اسلام آج پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہے۔
اِس معاملے کا دوسرا پہلو وہ ہے جو جدید حالات سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ جدید حالات تقریباً تین سو سال سے دنیا میں موجود ہیں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ اِس دور کے علماء نئے حالات کو سمجھ نہ سکے۔ وہ بدلے ہوئے حالات کے اعتبار سے مسلمانوں کو صحیح رہنمائی دینے میں ناکام رہے۔ مزید یہ کہ انھوں نے غلط اقدامات کرکے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو شدید نقصان میں مبتلا کردیا۔ مثال کے طورپر میں علمائِ دیوبند کے جہادِ آزادی کو ایک انحراف سمجھتا ہوں، وغیرہ۔
اِس مجلس میں اور بعض دوسری مجلسوں میں میں نے دیکھا کہ کاکا فیملی کے کئی افراد وہاں شریک تھے، لیکن ان کے اندر میں نے یہ انوکھی صفت پائی کہ جب کوئی سینئر شخص بولتا تھا تو فیملی کے تمام جونیئر ممبران خاموش رہ کر اس کی بات سنتے تھے۔ یہ قدیم روایت (tradition) کاکا فیملی میں اب بھی پوری طرح موجود ہے۔کاکا حامد صاحب کے یہاں سے فارغ ہو کر ہم لوگ کمرے میں آگئے۔ یہاں صبح کا سادہ ناشتہ کیاگیا۔ یہ ناشتہ وہی تھا جو یہاں طلبا کو روزانہ دیا جاتا ہے۔ ناشتے کے وقت ہمارے ساتھ کئی علماء اور دُعاۃ موجود تھے۔ اِن لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔
ایک صاحب نے کہا کہ الرسالہ مشن سے علماء بہت کم جڑے ہوئے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے۔ میں نے کہا کہ یہ بات درست نہیں۔علماء اپنے روایتی ذہن کی بنا پر اب تک الرسالہ مشن سے بہت کم جڑ سکے تھے، مگر اب خدا کے فضل سے انڈیا اور انڈیا کے باہر کے مختلف مدارس اور مکاتب فکر کے سنجیدہ علماء بڑی تعداد میںالرسالہ مشن سے جڑ گئے ہیں۔ اپریل 2010 میں الرسالہ مشن کی طرف سے دہلی میں جو دعوہ میٹ (Dawah Meet)ہوئی تھی، اس میں شرکت کرنے والے صرف علماء کی تعداد تقریباً 25 تھی۔میں نے کہاکہ ذاتی ملاقاتوں، ٹیلی فون اور خطوط کے ذریعے معلوم ہوتا ہے کہ علماء کے درمیان الرسالہ اور اس کے تحت تیار کردہ لٹریچر بڑے پیمانے پر مقبولیت حاصل کررہا ہے۔ خاص طورپر علماء کے درمیان الرسالہ مشن کو متعارف کرنے میں میرے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی کا بہت بڑا رول ہے۔ وہ ایک سنجیدہ اور معتدل مزاج کے آدمی ہیں۔ علماء سے ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ انھوں نے خاموش پلاننگ کے ذریعے علماء کے تقریباً تمام حلقوں تک الرسالہ مشن کے دعوتی پیغام کو پہنچا دیا ہے۔ جامعہ دارالسلام کا یہ پروگرام بھی انھیں کی بالواسطہ کوششوں کے ذریعہ ممکن ہوسکا ہے۔
10 جون 2010 کی صبح کو دس بجے سے بارہ بجے تک لائبریری کے ہال میں ایک پروگرام تھا۔ اِس پروگرام کا موضوع یہ تھا: عصری اسلوب میں سیرتِ رسول کا تعارف۔ اِس پروگرام میںعلماء اور دعاۃ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
میںنے اپنے خطاب میں جو کچھ کہا، وہ یہ تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ہی ابدی مشن ہے، اور وہ دعوت ہے۔ زمانہ کے اعتبار سے اس میں جو فرق ہوتا ہے، وہ صرف طرز خطاب اور اسلوب (idiom) کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ خودمشن کے اعتبار سے۔ پیغمبر اسلام کا مشن اول بھی دعوت ہے اور آخر بھی دعوت۔ ’حجۃ الوداع‘ کے بعد اصحابِ رسول کی بڑی تعداد عرب کے باہر مختلف ملکوں میں چلی گئی۔ وہاں انھوں نے لوگوں کو دینی معنی میں اسلامائز کیا، نہ کہ سیاسی معنی میں۔ موجودہ زمانے میں سیاسی اسلامائزیشن کا چرچا ہے، مگر رسول اور اصحاب رسول کے ماڈل سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔
میںنے کہا کہ دعوت الی اللہ کا کام ایسا نہیں ہے جس کو ایک بار کردیا جائے اور پھر اس کی ضرورت باقی نہ رہے۔ دعوت کا عمل ایک مسلسل عمل (continuous process) ہے، کیوں کہ انسان پیدا ہوتے ہیں اور کچھ دن زندہ رہنے کے بعد مرجاتے ہیں۔ اِس طرح بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک جنریشن کے بعد دوسری جنریشن آجاتی ہے۔ اِس لیے ہر جنریشن میں دعوتی کام کرنا ضروری ہے، تاکہ تمام انسانوں تک ان کے خالق کا پیغام پہنچ جائے۔
خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ ایک سوال یہ تھا کہ قرآن میں أعدّوا لہم مااستطعتم من قوۃ (8:60) آیا ہے۔ اِس میں اعدادِ قوت سے کیا مراد ہے۔ میںنے کہا کہ خود قرآن کی آیت میں اِس کا معیار بتادیاگیا ہے، اور وہ اِرہاب ہے، یعنی وہ قوت فراہم کرو جو فریق ثانی کے نزدیک قوتِ مرہبہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں جنگی ہتھیار کی حیثیت قوتِ مرہبہ کی نہیں ہے، بلکہ سائنسی علوم کو یہ حیثیت حاصل ہوگئیہے۔ میںنے مثال دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ زمانے میں امریکا اس کی ایک مثال ہے۔ امریکا کے پاس ہر قسم کے جنگی ہتھیار موجود ہیں، لیکن ان کو استعمال کرنے کے باوجود وہ ویت نام، عراق، افغانستان، وغیرہ میں مکمل طورپر ناکام ہے۔
ایک سوال قرآن کی اِس آیت کے بارے میں تھا: أذن للذین یقاتلون بأنہم ظُلموا (22:39)۔ میں نے کہا کہ اِس آیت سے یہ مطلب نکالا جاتا ہے کہ کسی فریق کے ساتھ ظلم کا واقعہ ہو تو اہلِ اسلام کے لیے جنگ جائز ہوجاتی ہے، مگر یہ ایک شدید غلط فہمی ہے۔ یہ مدنی آیت ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، مکی دور میں افراد کے ساتھ بار بار ظلم کیاگیا، لیکن اُس وقت یہ آیت نہیں اتری۔ یہ آیت ہجرت کے بعد مدینہ میںاتری۔ اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی اِس آیت میں ظلم سے مراد انفرادی ظلم نہیں ہے، بلکہ فوجی حملہ ہے، یعنی ایک بیرونی حکومت کا مسلم حکومت پر باقاعدہ فوج کے ذریعے حملہ آور ہونا۔
اِس معاملے میں دوسری بات یہ ہے کہ جب فوج کے ذریعے اِس قسم کا جارحانہ حملہ کیا جائے تو اُس وقت بھی صرف حکومت کو دفاعی جنگ(defensive war) کی اجازت ہوگی۔ غیر حکومتی افراد اور تنظیموں (NGOs) کو اُس وقت بھی مسلح جنگی کارروائی کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ موجودہ زمانے کے علماء، عرب اور غیر عرب دونوں نے، جو شدید ترین غلطی کی ہے، وہ یہ کہ انھوں نے ظلم کے نام پر غیرحکومتی عسکریت (non-governmental militancy) کو شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا۔ بلاشبہہ یہ ایک مہلک غلطی تھی۔مجھے اس معاملے میں کسی عرب یا غیر عرب عالم کا استثنا نظر نہیں آتا۔
ہمارے یہاں سے قرآن کا جو انگریزی ترجمہ شائع کیاگیا ہے، اس کی بابت پروگرام کے آخر میں مولانا ریاض موسی صاحب نے بتایا کہ میںنے انگریزی جاننے والے افراد کی ایک ٹیم کو یہ ترجمہ دیا۔ اور میں نے کہا کہ دوسرے انگریزی تراجم سے اِس کا تقابل کرنے کے بعد مجھ کو بتائیے کہ کون سا ترجمہ سب سے زیادہ واضح اور عصری زبان میں ہے۔ عجیب بات ہے کہ تقابل کرنے کے بعد ان لوگوں نے متفقہ طورپر کہا کہ صرف گڈ ورڈ بکس (نئی دہلی) سے شائع ہونے والا انگریزی ترجمہ اِس معیار پر پورا اترتا ہے۔ اس میں پوری طرح وضوح (clarity) ہے، اور اِسی کے ساتھ وہ اتنی آسان زبان میں ہے کہ اس کو ڈکشنری کی مدد کے بغیر پڑھا جاسکتا ہے۔ انھوںنے کہا کہ انگریزی تراجم میں سب سے زیادہ قابلِ فہم ترجمہ ڈاکٹر بشیر محی الدین (افریقہ) کا ترجمہ مانا جاتا ہے، لیکن گڈ ورڈ سے شائع ہونے والا ترجمہ اس سے بھی زیادہ واضح اور قابلِ فہم ہے۔
10 جون 2010 کو ظہر کی نماز کے بعد خطاب کا ایک پروگرام تھا۔ یہ پروگرام جامعہ کے کلیہ ہال میں کیا گیا۔ اِس میں دعاۃ اور طلبا کے علاوہ، جامعہ کے اساتذہ بھی شریک ہوئے۔ اِس پروگرام کا موضوع یہ تھا: سیرت ایک تحریک کی حیثیت سے۔ اِس موضوع پر میں نے ڈیڑھ گھنٹے کی ایک تقریر کی۔ اِس تقریر کا خلاصہ یہاں مختصر طور پر نقل کیا جاتاہے۔
میںنے کہا کہ تحریک (movement) ایک ایسا عمل ہے جو ایک شخص یا گروہ کی طرف سے دوسرے گروہ کے مقابلے میں برپا ہوتا ہے۔ اِس طرح کسی تحریک کے تقاضے دو طرفہ ہوجاتے ہیں، یعنی ایک طرف داعی کی نسبت سے اور دوسری طرف مدعوکی نسبت سے۔ آپ نماز خود اپنے فیصلے کے تحت پڑھ سکتے ہیں،لیکن تحریک کی کامیابی اِس میں ہے کہ آپ دوسروں کو بھی بخوبی طورپر جانیں اور دوسروں کی رعایت کرتے ہوئے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اِس کا اعلیٰ نمونہ پایا جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں اٹھنے والی مسلم تحریکیں اپنے مطلوب نتیجے کے اعتبار سے ناکام ہوگئیں۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اِن تحریکوں کے چلانے والے صرف اپنے آپ کو جانتے تھے، دوسروں کے بارے میں وہ پوری طرح بے خبر تھے۔
میں نے جہاں تک سیرتِ رسول کا مطالعہ کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اِس معاملے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive statusquoism) کہاجاسکتا ہے، یعنی د سروں کی مکمل رعایت کرتے ہوئے انتہائی حد تک غیر نزاعی انداز میں اپنا کام کرنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس حکیمانہ پالیسی کا اعتراف برطانی مستشرق ای ای کلیٹ (EE Kellett) نے اپنے الفاظ میں اس طرح کیا ہے — انھوں نے مشکلات کا سامنا اِس عزم کے ساتھ کیا کہ ناکامی سے کامیابی کو نچوڑیں:
He faced adversity with the determination to wring success out of failure.
سیرتِ رسول کے اِس پہلو کو میںنے کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا اور اس کی وضاحت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بہت سے واقعات بیان کیے۔
پروگرام کے بعدحاضرین کو سوال وجواب کا وقت دیاگیا، مگر کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ چناںچہ جلسے کے اختتام کا اعلان کردیاگیا۔ مولانا کاکا سعید احمد عمری نے اِس خطاب کے بارے میں کہا کہ یہ سیرتِ رسول کے موضوع پر سب سے اچھا خطاب تھا۔ کاکا صاحب نے جامعہ کے لوگوں سے کہا کہ وہ اِس پورے خطاب کو جامعہ کے ترجمان ماہ نامہ ’’راہِ اعتدال‘‘ میں شامل کریں۔
پروگرام کے خاتمہ پر ہم لوگ عصر کی نماز کے لیے مسجد میں گئے۔ مسجد کافی کشادہ، مگر نہایت سادہ تھی۔ مسجد کی دیواروں پر اُس قسم کی کوئی چیز موجود نہ تھی جو اکثر مسجدوں میں ہوتی ہے اور نمازیوں کے لیے ڈسٹریکشن کا کام کرتی ہے۔ یہ مسجد مکمل طورپر سادہ اور مکمل طورپر پر سکون تھی۔ طلبا کے اندر نہایت سنجیدگی اور ڈسپلن دکھائی دے رہا تھا۔
نماز عصر سے فراغت کے بعد ہم لوگ لائبریری میںاپنی قیام گاہ پر آگئے۔ یہاں لائبریری کے باہری ہال میں کئی دوسرے مقامات کے لوگ اکھٹا تھے۔ مثلاً وانیمباڑی (تمل ناڈو)، بنگلور، حیدرآباد،وغیرہ۔ اِن لوگوں سے دیر تک مختلف موضوعات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ایک بات میںنے وقت کے بارے میں کہی۔ کچھ لوگ ایسے تھے جو ہمارے پروگرام میں شرکت کے لئے آئے، لیکن وہ یہاں دیر میں پہنچے۔ میںنے کہا کہ یہ ایک بے شعوری کی بات ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے — یا تو وقت پر آنا، یا پھر نہ آنا۔ اِس کے سوا تیسری کوئی صورت نہیں۔
ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ آج کل مسلمانوں کا یہ حال ہوگیا ہے کہ وہ معاملے کو گہرائی کے ساتھ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ طریقہ بالکل لا حاصل ہے۔ میںنے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ: اتقوا فراسۃَ المؤمن، فإنہ ینظر بنور اللہ (الترمذی، باب تفسیر القرآن عن رسول اللہ)۔ میں نے کہا کہ اِس حدیث کے مطابق، سچا ایمان آدمی کے اندر ایک ربانی روشنی پیدا کرتا ہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مومن کی منصوبہ بندی کے مقابلے میں، دوسرے لوگ دفاعی پوزیشن میںآجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ مسلمان دوسروں کے خلاف شاکی بنے ہوئے ہوں تو اِس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ فراستِ ایمانی سے محروم ہیں۔ اِس لیے ایسا ہوا ہے کہ اُن کے مقابلے میں، دوسروں کو بالادستی حاصل ہوگئی ہے۔
بنگلور کے حلقہ الرسالہ کے تقریباً 15 لوگ ملاقات کے لیے آئے۔ میںنے اُن سے دعوت اور آخرت کے موضوع سے متعلق کچھ باتیں کہیں جس کو سن کر وہ رونے لگے۔ انھوں نے مجھ سے نصیحت کے لیے کہا۔ میں نے کہا کہ میں آپ لوگوںکو صرف ایک نصیحت کروں گا۔وہ یہ کہ آپ آج سے اِس بات کا فیصلہ کرلیں کہ آپ کو اپنے اندر ’’قلب سلیم‘‘ پیدا کرنا ہے اور اِسی حال میں آپ کو جینا اور اسی حال میں مرجانا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ ایک ایسے آدمی کی نصیحت ہے جو قبر کے کنارے کھڑے ہو کر آپ کو یہ نصیحت کررہا ہے۔
اِس موقع پر آمبور (ضلع ویلور، تمل ناڈو) کے خطیب محمد سالم صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ وہ مولانا محمد کلیم صدیقی صاحب کے تحت، اپنے علاقہ میں غیر مسلموں کے درمیان دعوتی کام کررہے ہیں۔ انھوںنے اپنی مرتب کردہ ایک کتاب مطالعہ کے لیے دی۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
نسیمِ ہدایت کے جھونکے— نو مسلموں کی کہانی خود انھیں کی زبانی (صفحات: 176 )
یہ کتاب دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب میں ماہ نامہ ارمغان (پھلـت) میں شائع شدہ غیر مسلم حضرات کے مختلف انٹرویو جمع کردئے گئے ہیں۔ اِس کتاب کا تعارف کراتے ہوئے مرتب نے بجا طورپر لکھا ہے کہ اِس کی اشاعت کا مقصد امت کے اندر یہ احساس جگانا ہے کہ پوری دنیا میں اشاعتِ اسلام کا کام اگر ہم نہیں کریں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے دوسرے بندوں کو اِس کام کے لیے کھڑا کردیں گے: وإن تتولوا یستبدل قوما غیرکم ثم لا یکونوا أمثالکم۔
جامعہ کے ایک استاد حافظ شیخ کلیم اللہ عمری مدنی ملاقات کے لیے آئے۔ انھوںنے اپنے چند کتابچے برائے مطالعہ پیش کیے۔ مثلاً محبتِ الٰہی کے ذرائع اور اخلاقیات، وغیرہ۔اِس موقع پر جامعہ کے ایک نوجوان اور سنجیدہ استاذ مولانا حافظ محمد ابراہیم عمری نے اپنی کتاب ’’انتہاپسندی اور اسلام‘‘ مطالعے کے لیے دی۔ یہ ایک اچھی کتاب ہے۔ وہ 216 صفحات پر مشتمل ہے۔
10جون 2010 کو عصر کی نماز کے بعد جامعہ کے ایک سینئر استاد مولانا ڈاکٹر سعید احمد عمری ملاقات کے لیے آئے۔ اُن سے بعض مسائل پر گفتگو ہوئی۔ ایک مسئلہ یہ تھا کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے علمی انحطاط کا سبب کیا ہے، جب کہ ماضی میں وہ علمی ترقی کے اعتبار سے ممتاز مقام پر پہنچ گئے تھے۔ میںنے کہا کہ جب ہم مسلمان یا ملتِ مسلمہ کا لفظ بولتے ہیں تو شعوری یا غیر شعوری طورپر ہم اس کو ایک تسلسل کے روپ میں دیکھنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔میں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ معاملہ سادہ طورپر مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے، بلکہ وہ مسلمانوں کی دو مختلف نسلوں کا معاملہ ہے، یعنی دورِ عروج کی مسلم نسلیں اور دورِ زوال کی مسلم نسلیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا علمی زوال ان کے اپنے نسلی زوال کا نتیجہ ہے، اور دورِ زوال میں یہ ہر قوم کے ساتھ پیش آتا ہے۔
ایک سوال یہ تھا کہ مطالعہ قرآن کا اصول کیا ہے۔ میںنے کہا کہ مطالعہ قرآن کے بہت سے اصول علماء نے لکھے ہیں، لیکن میرے اپنے تجربے کے مطابق، سب سے بڑا اصول دعاہے۔اِس سلسلے میں مجھ کو امام ابن تیمیہ کا طریقہ بہت پسند ہے۔ انھوںنے لکھا ہے کہ بعض مرتبہ ایک آیت کو سمجھنے کے لیے میں نے سو سو تفسیروں کا مطالعہ کیا ہے۔ مطالعہ کے بعد میں اللہ تعالیٰ سے آیت کے فہم کی دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں: یا معلّم إبراہیم، علّمنی۔
میںنے کہا کہ قرآن کو سمجھنے کہ لیے اللہ سے دعا کرنا گویا کہ کسی کتاب کو سمجھنے کے لیے اس کے مصنف سے کنسلٹ کرنا ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ آپ ہر لمحہ اس کے مصنف سے کنسلٹ کرسکتے ہیں۔ اِس کو سن کر ڈاکٹر سعید احمد عمری نے کہا کہ مطالعۂ قرآن کے لیے آج شاہ کلید ہاتھ آگئی۔ اِس مجلس میں دوسرے کئی علماء موجودتھے۔ مولانا کاکا سعید احمد عمری نے کہا کہ امام ابن تیمیہ کی یہ بات ہم بہت پہلے سے جانتے تھے، لیکن آج آپ کی زبان سے اس کی اثر انگیز تفصیل سن کر اس کی معنویت پوری طرح کھل گئی۔
ایک سوال یہ تھا کہ مسلم تاریخ جو بعد کو لکھی گئی ، وہ زیادہ تر مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کے ہم معنی بن گئی ہے۔ مسلم سرگرمیوں کے دوسرے پہلو مثلاً دعوت وتبلیغ کے تفصیلی واقعات اس میں شامل نہ ہوسکے۔ اب اِس کمی کی تلافی کس طرح کی جاسکتی ہے۔
میں نے کہا کہ بظاہر اب اِس کی تلافی ممکن نہیں۔ کیوں کہ تاریخ (history)ناول کی طرح محض اپنے ذہن سے نہیں لکھی جاسکتی۔ اس کے لیے ضروری معلومات (data) درکار ہے جو کہ عملاً موجود نہیں۔ میںنے کہا کہ اِس ضرورت کا احساس بہت پہلے عبد الرحمن بن خلدون (وفات:1406 ء) کو ہوا تھا۔ انھوںنے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھنے کا منصوبہ بنایا اور اس کے آغاز میں ایک مفصل مقدمہ لکھا۔ اِس کے بعد انھوں نے سات جلدوں میں ایک کتاب لکھی جس کا نام یہ ہے: العبر ودیوان المبتدأ والخبر فی تاریخ العرب والعجم والبربر۔
لیکن خود ابن خلدون اپنی اِس تاریخ کو اُن اصولوں کے مطابق، نہ تیار کرسکے جس کو انھوں نے اپنے ’’مقدمہ‘‘ میں تحریر کیا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ مقدمہ تو وہ اپنے ذہن سے لکھ سکتے تھے، لیکن ایک نئی تاریخ لکھنے کے لیے بنیادیمعلومات (data) کی ضرورت تھی اور وہ موجود نہ تھیں۔ اب اگر کوئی شخص بہت زیادہ محنت کرے تو وہ مختلف ماخذ سے اِس نوعیت کی کچھ معلومات حاصل کرسکتا ہے، لیکن وہ معلومات اتنی زیادہ نہ ہوںگی کہ پوری تاریخ از سرِ نو لکھی جاسکے۔
پوری مسلم تاریخ کو اب از سرِ نو مرتب کرنا تو ممکن نہیں، لیکن میری یہ تمنا ہے کہ سیرتِ رسول کے موضوع پر ایک نئی کتاب تیار کروں۔ اگر ایک پوری ٹیم کے ساتھ احادیث رسول کا اور دوسرے متعلق ذخائر کا گہرا مطالعہ کیا جائے تو امید ہے کہ سیرت کے موضوع پر ایک نئی کتاب تیار کی جاسکتی ہے۔ سیرت کے موضوع پر جوکتابیں لکھی گئی ہیں، وہ غزواتی پیٹرن پر لکھی گئی ہیں، جب کہ سیرت کے موضوع پر صحیح کتاب وہ ہے جو دعوتی پیٹرن پر لکھی جائے۔ میںنے جزئی طورپر یہ کام کیا ہے، لیکن کلی طورپر اِس کام کو انجام دینا ابھی باقی ہے۔
آخر میں میں نے اپنی دو کتابیں اپنے دستخط کے ساتھ ڈاکٹر سعید احمد عمری کو بطور تحفہ پیش کیں— اللہ اکبر، پیغمبر انقلاب۔ اِس کے بعد مغرب کی نماز لائبریری ہال میں جماعت کے ساتھ پڑھی گئی۔ نماز میں تقریباً 15 علماء موجود تھے۔ اِس نماز کی امامت میرے ساتھی مولانا حافظ محمد ذکوان ندوی نے کی۔ مغرب کے بعد میری قیام گاہ پر کئی علماء آگئے۔ ان سے دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔
اِس مجلس میں میں نے جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ حدیث کی کتابوں میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باربار استغفار کرتے تھے۔ بعض روایات کے مطابق 70 بار، بعض روایات کے مطابق، 100 بار اور بعض روایتوں کے مطابق، اِس سے بھی زیادہ بار آپ استغفار فرماتے تھے۔ شارحینِ حدیث نے اِس کی تاویل میں لمبی بحثیں کی ہیں، لیکن اصل یہ ہے کہ یہ عجز کا ظاہرہ تھا۔ عجز کی دریافت بلاشبہہ کسی مومن کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ خدا کے تمام پیغمبر اِس معاملے میں کمال کے درجے پر تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ پیغمبر احساسِ نبوت میں نہیں جیتا، بلکہ وہ احساسِ عبدیت میں جیتا ہے۔ رب العالمین کے مقابلے میں کسی انسان کے پاس جو سب سے بڑا سرمایہ ہے، وہ صرف ایک ہے اور وہ عجز ہے۔اِس کے بعد ہم لوگ جامعہ کی مسجد میں گئے اور وہاں عشاء کی نماز با جماعت ادا کی۔باہر ہلکی بارش ہورہی تھی، اِس لیے عشاء کی نماز کے بعد دوبارہ ہم لوگ لائبریری میں اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔ یہاں دوبارہ کچھ طلبا اور اساتذہ اکھٹا ہوگئے۔
مولانا سید اقبال احمد عمری نے جامعہ دارالسلام کے متعدد اساتذہ سے الرسالہ مشن کے بارے میں ان کے تاثرات معلوم کیے، جو انھیں کے الفاظ میں یہاں مختصرا نقل کیے جاتے ہیں:
1 - ’’مولانا وحید الدین خاں صاحب سے میرے تعلقات بہت پرانے ہیں۔ مجھے ان کی مختلف تحریریں پڑھنے کو ملیں۔ ان تحریروں میں اسلام اور متعلقات اسلام پر ان کے جدید اندازِ تعبیر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اِس طرح مجھ کو مولانا سے ایک قلبی اور روحانی تعلق پیدا ہوگیا ۔ جامعہ کے جشن طلائی کے موقع پر جب مولانا یہاں آئے تو اپنے دلی تعلق کی وجہ سے میں نے مولانا کو دوسرے مہمانوں کے ساتھ ٹھہرانے کے بجائے اپنے خاص کمرے میں ٹھہرایا تھا۔ میں مولانا کی تحریروں کا شائق تھا۔ چناں چہ جب مولانا کی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ کا اشتہار دیکھا تو اس کے نسخے منگوائے۔ خود بھی پڑھا اور کچھ دوسرے احباب کو بھی پڑھنے کے لیے دیا۔ جہاں تک مولانا سے متاثر ہونے کا سوال ہے، یہاں خلاصہ کے طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان سے میں بہت متاثر ہوں۔ وہ اپنے طرزِ تعبیر میں منفرد ہیں۔ وہ اپنے طرز تعبیرکے موجد بھی ہیں اور متبع بھی۔ مولانا کا علم بہت گہرا ہے۔ اسلام کی تعبیر کا جو خاص ملکہ ان کو حاصل ہے، وہ منفرد اور قابلِ مطالعہ ہے۔ میں الرسالہ کا قاری ہوں۔ ابھی وہ میرے گھر آتا ہے۔ مولانا کے علمی استدلال کے انداز سے سب کو فائدہ اٹھانا چاہیے، نہ یہ کہ خواہ مخواہ اس سے علمی استفادہ کرنے سے دور رہیں‘‘۔
(حضرت مولانا ظہیر الدین اثری رحمانی، سابق شیخ الحدیث، جامعہ دارالسلام، عمر آباد)
2 - ’’مولانا وحید الدین خاں صاحب کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کو وقت کی زبان اور اسلو ب میں پیش کرنا، ایک کامیاب طریقہ ہے۔ جو لوگ مولانا کے لٹریچر سے فائدہ اٹھا رہے ہیں، یا براہِ راست ان سے استفادہ کررہے ہیں، اس کے مطابق، ہم کہہ سکتے ہیں کہ اسلام کو پیش کرنے کا یہ طریقہ زیادہ مناسب بھی ہے اور مستحسن بھی۔ میںالرسالہ دیکھتا ہوں۔ تذکیر القرآن کا جستہ جستہ مطالعہ کیا ہے۔ آئندہ اس کو بالاستیعاب مطالعہ کرنے کا ارادہ ہے۔ مولانا کے پاس وقت کی زبان اور وقت کے اسلوب میں اسلام کو پیش کرنے کا اچھا طریقہ ہے۔‘‘
(حضرت مولانا سید عبدالکبیر عمری، شیخ التفسیر، جامعہ دار السلام، عمرآباد)
3 - ’’مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابوں میںمیری سب سے پسندیدہ کتاب ’’مذہب اور جدید چیلنج‘‘ ہے۔ اِس میں مولانا نے اسلامی عقائد کو عصری دلائل کی روشنی میں پیش کیا ہے۔ دورِطالب علمی ہی سے الرسالہ میرے مطالعہ میں رہا ہے، اس کا ا سلوب مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ معمولی واقعات کے اندر ہمارے لیے کیسے اسباق موجود ہیں۔ یہ درحقیقت قرآنی اسلوب ہے جو ایک مومن کو فراستِ ایمانی کے نتیجے میں ملتا ہے۔ مولانا سے ملنے کی خواہش بہت دنوں سے تھی، مگر اس کا موقع نہیں مل سکا تھا۔ جامعہ آمد پر مولانا سے ملنے کی میری دیرینہ خواہش پوری ہوئی اور مولانا سے براہِ راست سننے اور استفادہ کرنے کا موقع ملا۔ مولانا نے بڑی محبت سے ملاقات کی اور میری قدر افزائی فرمائی۔ اِس سے مجھے اندازہ ہوا کہ مولانا کے دل میں اہلِ علم کے لیے بڑی قدرہے۔ میںنے مولانا سے چند سوالات کئے۔ مولانا نے بڑی جامعیت کے ساتھ ان کا مختصر مگر بھر پور جواب دیا۔ جو مولانا کے وسیع مطالعہ کے علاوہ ان کے ذاتی غور وفکر کی دین ہے۔ اِس کے علاوہ، مولانا نے اپنا مثبت نقطہ نظر ہرجگہ ملحوظ رکھا۔ ایسا عام طورسے نہیں ہوتا۔ دعوتِ دین کے سلسلے میں مولانا کو میں نے بڑا فکر مند پایا۔ مولانا اسلام کے پیام امن وسلامتی کو بہت زیادہ واضح کرنے کے داعی ہیں، تاکہ اسلام کے خلاف ہونے والے پروپیگنڈے کا پردہ چاک کیا جاسکے۔ مولانا کی گفتگو وتحریر میں جدید تحقیقات کے حوالے کا رنگ غالب ہے۔ وہ دینی حقائق اور جدید علمی حقائق میں ہم آہنگی ثابت کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
(مولانا ڈاکٹر شیخ سعید احمد عمری، استاد تفسیرو ادب عربی، جامعہ دار السلام، عمر آباد)
11 جون 2010 کو ہماری واپسی تھی۔ فجر کی نماز ہم لوگوں نے جامعہ کی مسجد میں پڑھی۔ یہاں کے دستور کے مطابق، نماز کے بعد تمام طلبا قرآن کی تلاوت کے لیے مسجد میں بیٹھ گئے۔ چوں کہ مجھے آج صبح کو روانہ ہونا تھا، اِس لیے تلاوت کو تھوڑی دیر تک ملتوی کرکے مجھے خطاب کے لیے کہا گیا۔ سامعین میں طلبا اور اساتذہ دونوں موجود تھے۔
میں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں، ان میں سے کچھ باتیں یہ تھیں۔ میںنے کہا کہ آپ دنیا میں کہیں بھی جائیے، ہر جگہ آپ کو مسجدیں اور مدرسے دکھائی دیں گے۔ مسجدیں عبادت کے مرکز کے طورپر، اور مدرسے تعلیم کے مرکز کے طورپر۔ یہ مسجد اور مدرسے گویا کہ اسلام کا گلوبل انفراسٹرکچر (global infrastructure)ہیں۔ اِن دینی اور تعلیمی اداروں کے ذریعے اسلام نے تاریخ میں اپنا تسلسل برقرار رکھا ہے۔پھر میںنے کہا کہ آج ہم کسی روک ٹوک کے بغیر مسجدوں میں نماز ادا کرتے ہیں اور مدارس میںہماری اگلی نسلوں کے لیے تعلیمِ دین کا نظام کامیابی کے ساتھ چل رہا ہے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ ایک نہایت عظیم بات ہے جس کے لیے ہمارا سینہ شکر سے معمور ہونا چاہیے۔ میںنے کہاکہ قرآن میں دربارِ فرعون کے رجلِ مومن کے بارے میں آیا ہے: یکتم إیمانہ (40:28) ۔
یہ ایک شخص کی بات نہیں، بلکہ ایک دور کی بات ہے۔ قدیم زمانہ کتمانِ ایمان کا زمانہ تھا، موجودہ زمانہ اظہارِ ایمان کا زمانہ ہے۔ یہ آزادی اصحابِ رسول کے ذریعے لائے ہوئے انقلاب کے نتیجے میں حاصل ہوئی ہے۔ آپ اِس پر غور کریں تو آپ کے سینے میں شکر کا دریا جاری ہوجائے گا۔ اگر آپ اِس انقلابی تبدیلی پر غور کریں تو شکایت کاکوئی شائبہ بھی آپ کے دل میں باقی نہ رہے گا۔
اِس کے بعد میںنے خصوصی طور پر طلبا کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا دینے اور لینے (give & take) کی دنیاہے۔ اِس دنیا کا اصول یہ ہے کہ— جتنا دینا، اتنا پانا۔ تعلیم سے فراغت کے بعد آپ دنیا کی مختلف سرگرمیوں میں داخل ہوںگے۔ آپ صرف ایک چیز کو اپنے سامنے رکھیے، اور وہ امتیاز (excellence) ہے۔ آپ جو کام بھی کریں، ممتاز طور پرکریں، حتی کہ اگر آپ موذن بنیں تو سب سے اچھی اذان دینے والے موذن بنیں۔ یہی اِس دنیا میں کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو حضرت علی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: قیمۃ المرء ما یحسنہ:
The value of a person lies in excellence.
نماز کے بعد ہم لوگ لائبریری کے کمرے میں واپس آگئے۔ یہاں معتمد جامعہ مولانا کاکا سعید احمد عمری اور دوسرے اساتذہ آخری ملاقات کے لیے آگئے۔ یہاں صبح کی چائے پینے کے بعد مدراس کے لیے روانگی ہوئی۔ مولانا سید اقبال احمد عمری، مولانا فیاض الدین عمری، مولانا اسرار الحسن خطیب عمری اور مسٹر عبد الغنی (گل برگہ) مدراس تک ہمارے ساتھ تھے۔ صبح کو ہم لوگ جب واپسی کے لیے عمر آباد سے روانہ ہوئے تو ہلکی بارش ہورہی تھی۔ یہ ہلکی بارش مدراس تک مسلسل جاری رہی۔ میںنے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بارش انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا عجیب وغریب عطیہ ہے۔ بارش اور پانی کے اتنے زیادہ فائدے ہیں کہ ان کو کسی ضخیم انسائیکلوپیڈیا میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں۔ بارش ہمیشہ انسان کے لیے رحمتوں اور برکتوں کا نشان رہی ہے۔ یہ صرف موجودہ صنعتی زمانے کی بات ہے کہ دنیا میں وہ سنگین مسئلہ پیدا ہوا جس کو آبی کثافت (water pollution) کہاجاتاہے۔
موجودہ زمانے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ سمجھا جاتاہے کہ سمندروں کے آبی ذخائر بہت بڑے پیمانے پر آلودگی کا شکار ہورہے ہیں۔ برفانی پہاڑوں کی صورت میں فریش واٹر کے جو منجمد ذخائر (گلیشئر) موجود تھے، وہ گلوبل وارمنگ کی بنا پر پگھل کر ختم ہورہے ہیں، وغیرہ۔
دوپہر کے وقت ہم لوگ مدراس ائر پورٹ پر پہنچے۔ ائر پورٹ کی نئی تعمیر کی جارہی ہے۔ چناں چہ یہاں تعمیرات کا کام بڑے پیمانے پر جاری تھا۔ ہم لوگ ائر پورٹ پر کچھ دیر بیٹھے۔ یہاں ائرپورٹ کے عملہ کے ایک ساتھی محمد آزاد صاحب ہم لوگوں کا ای ٹکٹ لے کر گئے اور انھوں نے ہمارا بورڈنگ پاس بنوا کر ہمیں دے دیا۔ ہم لوگ 11 جون 2010 کی دوپہر کو دو بجے جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ جیٹ ائرویز کی فلائٹ (9W 2256) تھی۔
ہوائی جہاز کا یہ طریقہ ہے کہ اُس میں مسافروں کی اِن فلائٹ ریڈنگ (inflight reading) کے لیے اخبار اور میگزین ہوتے ہیں۔ آج کے اخبار ٹائمس آف انڈیا (11جون 2010 ) میں ایک خبر میکسکو گلف (Gulf of Mexico) سے متعلق تھی۔
یہاں 20 اپریل 2010 سے تیل کے رساؤ (oil spill) کا واقعہ ہورہا ہے۔ یہاں سطح سمندر کے نیچے کثیر مقدار میں تیل پایا جاتا ہے۔ برٹش پٹرولیم کی ٹیم یہاں عرصے سے ڈرلنگ (drilling) کا کام کررہی ہے۔ یہ ڈرلنگ سطحِ آب سے ایک میل نیچے ہورہی ہے۔ کسی ٹکنکل غلطی کی بنا پر وہاں تیل باہر نکل کر بہنے لگا۔ تیل کا یہ اخراج مسلسل جاری ہے۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں پانچ ہزار بیرل(barrel) تیل روزانہ نکل کر سمندر کے پانی میں شامل ہورہا ہے۔ مسلسل کوشش کے باوجود اب تک اُس پر قابو نہ پایا جاسکا۔ اِس واقعے کی رپورٹ اخبار میں اِس عنوان کے تحت چھپی تھی — اوباما کی پرابلم چڑیا:
Obama’s Albatross
اخبار میں اِس خبر کے ساتھ سترھویں صدی عیسوی کے ایک انگلش فلاسفر فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا ایک قول نقل کیاگیا ہے جو صورتِ حال سے بہت مطابقت رکھتا ہے۔ اس نے کہا — ہم فطرت کو اپنے قابومیں نہیں لے سکتے، ہم صرف اس کا اتباع کرسکتے ہیں:
We cannot command Nature, except by obeying her.
اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان فطرت سے صرف اُس وقت تک فائدہ اٹھا سکتاہے، جب کہ وہ خود فطرت کے قوانین (law of nature)کی پابندی کرے۔ انسان خود اپنا بنایا ہوا قانون فطرت کے اوپر نافذ نہیں کرسکتا۔ موجودہ زمانے میں گلوبل وارمنگ جیسے مسائل جو پیداہوئے ہیں، وہ اِسی اصولِ فطرت سے انحراف کا نتیجہ ہیں۔
مدراس سے دہلی کی پرواز تقریباً دو گھنٹے کی تھی۔ راستے میں ہمارے ساتھی نے جہاز کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ اس کو انھوں نے شکریے کے ساتھ قبول کیا۔ 11 جون 2010 کی شام کو ہم لوگ دہلی کے ائر پورٹ پر اترے تو یہاں ہمارے ادارے کے ایک کارکن مسٹراشوک ائر پورٹ کے باہر موجود تھے۔ ہم لوگ ان کے ساتھ کار میں بیٹھ کر نظام الدین پہنچ گئے۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیا گیا)
واپس اوپر جائیں