Pages

Tuesday 1 October 2002

Al Risala | October 2002 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- خصوصی شمارہ: امن کلچر


امن کلچر

امن کیا ہے
اہل علم امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ فنّی اعتبار سے یہ تعریف بالکل درست ہے۔ کسی سماج میںجب تشدد اورجنگ نہ ہو تو اس کے بعد وہاں جو صورت حال پیدا ہوگی اسی کا نام امن ہے۔ جب بھی انسانوں کے درمیان جنگ اور تشدد کی حالت نہ ہو تو اُس کے بعد امن کی حالت اپنے آپ قائم ہوجائے گی۔
تاہم کسی سماج میںامن کی حالت قائم ہونا سادہ طورپر صرف یہ نہیں ہے کہ وہاں جنگ اور تشدد کا خاتمہ ہوگیا۔ جنگ اور تشدد کا ختم ہونا اس معاملہ کا سلبی پہلو ہے۔ اس کا ایجابی پہلو یہ ہے کہ جب بھی کسی سماج کے اندر حقیقی معنوں میں امن کی حالت قائم ہوجائے تو اُس کے بعد لازماً ایسا ہوگا کہ لوگوں کے اندر مثبت سرگرمیاں جاری ہوجائیںگی۔ ہر آدمی یکسوئی کے ساتھ اپنی زندگی کی تعمیر میں لگ جائے گا۔
کسی سماج کے اندر امن کا قائم ہونا ایسا ہی ہے جیسے دریا کے سامنے سے بَند کو ہٹا دیں۔ انسانی زندگی، بہتے دریا کی مانند، خود اپنے زورپر رواں دواں ہونا چاہتی ہے۔ وہ صرف اُس وقت رُکتی ہے جب کہ اُس کے سامنے کوئی مصنوعی رکاوٹ کھڑی کردی جائے۔ رُکاوٹ نہ ہوتو خود فطرت کے زور پر زندگی کی تمام سرگرمیاں جاری ہوجائیں گی۔
جنگ و تشدد کی حیثیت زندگی کے عمل میںرُکاوٹ کی مانند ہے۔ اور امن اپنے نتیجہ کے اعتبار سے یہ ہے کہ زندگی کی دوڑ کے تمام راستے آخری حد تک کھول دیئے گئے ہوں۔
امن کا مطالعہ عام طور پرجنگ کے حوالہ سے کیا جاتا ہے۔ مگر یہ امن کا بہت محدود مفہوم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن کا تعلق پوری انسانی زندگی سے ہے۔ امن اپنے آپ میں ایک مکمل آئیڈیا لوجی ہے۔ امن شاہ کلید (master key) ہے جس سے ہر کامیابی کا دروازہ کھلتا ہے۔ امن ہر کام کی کامیابی کے لیے موافق ماحول بناتا ہے۔ امن کے ساتھ ہر کام کیا جاسکتا ہے۔ اور امن کے بغیر کسی بھی کام کو کرنا ممکن نہیں۔ یہ بات چھوٹے معاملات کے لیے بھی درست ہے اور بڑے معاملات کے لیے بھی۔
کائنات کا مذہب امن ہے
قرآن کی سورہ نمبر ۳۶ میں ارشاد ہوا ہے : لاالشمس ینبغی لہا ان تدرک القمر ولا الیل سابق النہار، وکل فی فلکٍیسبحون(یٰس ۴۰) ۔ یعنی نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ اور سب ایک ایک مدار (orbit) میںتیر رہے ہیں۔
قرآن کی اس آیت میںایک فلکیاتی واقعہ کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ دنیا کا نظام کس اصول پر قائم ہے۔و ہ امن کا اصول ہے۔ کائنات کے اندر ان گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی ہر چیز مسلسل حرکت میں ہے۔ مگر کسی چیز کا دوسری چیز سے ٹکراؤ نہیںہوتا۔ کائنات کا ہر جزء اپنے اپنے دائرہ میںاپنا عمل انجام دیتاہے۔ یہاں کا کوئی جزء کسی دوسرے جزء کے دائرہ کار میںداخل نہیں ہوتا۔ اس لیے ایک کا دوسرے سے ٹکراؤ بھی نہیں ہوتا۔
یہی امن کلچر انسان سے بھی مطلوب ہے۔ انسان کو بھی یہی کرنا ہے کہ وہ کائنات کے اس ہمہ گیر اُصول کو اپنی زندگی میںاپنا لے، وہ بھی ٹکراؤ کے راستہ کو چھوڑ کر امن کے راستہ پر چلنے لگے۔
کائنات کا کلچر امن کلچر ہے۔ اسی امن کا یہ نتیجہ ہے کہ کائنات اربوں سال سے چل رہی ہے مگر اس میںکوئی ٹکراؤ پیش نہیں آیا جواُس کے نظام میںخلل ڈال دے۔ کائنات میںاگر تشدد کلچر کا رواج ہوتا تواب تک کائنات آپس میںٹکراکر تباہ ہوچکی ہوتی۔ وہ ہمارے لیے قابل رہائش دنیا کے طورپر موجود ہی نہ ہوتی۔
جس خالق نے کائنات کو پیدا کیاہے اُسی نے انسان کو بھی پیدا کیاہے۔ خالق کو مطلوب ہے کہ اُس نے وسیع تر کائنات میں جو امن کلچر قائم کر رکھا ہے، انسان بھی اُسی امن کلچر کو اپنائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ یہ امن کلچر بقیہ کائنات میں فطرت کے زور پر قائم ہے۔ انسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس امن کلچر کو خود اپنے ارادہ اور اپنے فیصلہ کے تحت اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
قرآن ایک کتاب امن
قرآن بلا شبہہ امن کی ایک کتاب ہے، وہ جنگ اور تشدد کی کتاب نہیں۔ قرآن کے تمام بیانات براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن سے متعلق ہیں۔ قرآن کا پہلا جملہ’ بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ ہے جس کے معنٰی یہ ہیں کہ اللہ نہایت مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جس خدا نے یہ کتاب بھیجی ہے اُس کی سب سے بڑی صفت رحمت ہے۔ اور یہ کتاب خدا کی اسی صفتِ رحمت کااظہار ہے۔
قرآن کی تمام آیتیں براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن کی تعلیمات پر مشتمل ہیں۔ قرآن کی کُل آیتوں کی تعداد ۶۶۶۶ہے۔ ان میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جو قتال (جنگ) کے حکم کو بیان کرتی ہیں۔یعنی ایک فیصد سے بھی کم آیتیں۔ زیادہ متعین طورپر کُل آیتوں کے مقابلہ میں صرف اعشاریہ چھ فیصد (0.6 percent) ۔
جو لوگ قرآن کوخداکی کتاب مانتے ہیں وہ قرآن کے حقیقی مومن صرف اُس وقت قرار پائیں گے جب کہ وہ قرآن کی اس تعلیم کی پیروی کرتے ہوئے مکمل طورپر امن پسندبن جائیں۔ وہ کسی حال میں بھی تشدد کا رویہ اختیار نہ کریں۔
یہاں یہ اضافہ کرنا ضروری ہے کہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اسلام اور مسلمان کے درمیان فرق کریں۔ وہ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیم کا نام نہ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کے معیار سے جانچا جائے گا، نہ یہ کہ اسلام کو مسلمانوں کے عمل سے سمجھا جانے لگے۔ اسلام ایک نظریہ ہے۔ مسلمان اُسی وقت مسلمان ہیں جب کہ وہ اسلامی تعلیمات کی پیروی کریں۔ جو لوگ اسلامی تعلیمات کوچھوڑ دیں اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، خواہ بطور خود وہ اپنے آپ کو اسلام کاچیمپین بتاتے ہوں۔
امن اور تشدد کا فرق
امن ایک منصوبہ بند عمل ہے، اور تشدد صرف بھڑک کر جارحانہ کارروائی کرنے کا نام ہے۔ امن پسند آدمی پہلے سوچتا ہے اوراس کے بعد وہ عمل کرتا ہے۔ تشدد پسند آدمی پہلے کر ڈالتاہے، اس کے بعد وہ سوچتا ہے۔ پُرامن عمل میں پہلے بھی اُمید ہے اور آخر میں بھی اُمید۔ اور پُر تشدد عمل میں پہلے فرضی اُمید ہے اور آخر میں صرف مایوسی۔
امن پسند آدمی سچائی پر کھڑا ہوتا ہے اور پُر تشدد آدمی جھوٹ پر۔ امن کا راستہ شروع سے آخر تک ایک کھُلا ہوا راستہ ہے، اور تشدد کا راستہ رکاوٹوں سے بھرا ہوا راستہ۔ امن میں تعمیر ہی تعمیر ہے اور تشدد میں تخریب ہی تخریب۔ امن پسند انسان دوسروں کی محبت میںجیتا ہے اورتشدد پسند انسان دوسروں کی نفرت میں۔ امن پسندی کا خاتمہ کامیابی پر ہوتا ہے اور تشدد پسندی کا خاتمہ شرمندگی پر۔
امن پسندی میںکوئی کام بگڑتا نہیں اور ہر کام بن جاتا ہے۔ تشدد پسندی میںکوئی کام بنتا نہیں اورہر کام بگڑ جاتا ہے۔ امن کا طریقہ انسانیت کاطریقہ ہے اور تشدد کا طریقہ حیوانیت کاطریقہ۔ امن کا عمل قانون کے دائرہ میںہوتا ہے اور تشدد کاعمل لاقانونیت کے دائرہ میں۔
امن پسند آدمی مسائل کو نظر اندازکرکے مواقع کو استعمال کرتا ہے اور تشدد پسند آدمی مواقع کو غیراستعمال شدہ حالت میں چھوڑ کر مسائل کے خلاف بے فائدہ لڑائی لڑتا رہتا ہے۔ امن کا عمل پیارو محبت کا باغ اُگاتا ہے اور تشدد کا عمل نفرت اور دشمنی کا جنگل اُگاتا ہے۔ امن کلچر فرشتوں کا کلچر ہے اور تشدد کلچر شیطانوںکا کلچر۔
امن میں خدا کے حقوق بھی ادا ہوتے ہیں اورانسان کے حقوق بھی۔ اورتشددمیں انسان کے حقوق کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے اور خدا کے حقوق کی بھی خلاف ورزی۔ امن اگر جنت ہے تو تشدد اُس کے مقابلہ میں دوزخ۔
امن اور جنگ دونوں یکساں نہیں۔ امن کسی انسان کے لیے ایک سچا انتخاب (choice) ہے۔ اور جنگ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی سچے انتخاب کو نہ پاسکا، وہ انتخاب کے ٹیسٹ میں ناکام ہوگیا۔
دنیا میں بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو اگر چہ عملاً موجود ہیں مگر وہ امتحان کے لیے ہیں، وہ مطلوب چیز کے طورپر نہیں۔مثلاً شراب دنیا میں موجود ہے۔ مگر شراب اس لیے نہیں ہے کہ کوئی آدمی اُس کو استعمال کرے۔ بلکہ شراب اس لیے ہے کہ آدمی اُس سے بچ کر یہ ثابت کرے کہ وہ اچھے اور بُرے کی تمیز رکھتا تھا، وہ ایک محتاط انسان تھا۔ یہی معاملہ جنگ کا بھی ہے۔ جنگ کا طریقہ اگر چہ بظاہر قابل استعمال ہے مگر کسی انسان کے لیے اعلیٰ روش یہی ہے کہ وہ جنگ کے طریقہ کو استعمال نہ کرے۔
قدیم زمانہ میں جوحالات تھے اُن میں دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی گئی تھی۔ مگر یہ اجازت قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت تھی ۔ اب نئے حالات میں یہ ضرورت باقی نہیں رہی، اس لیے اب جنگ کی بھی ضرورت نہیں۔
صلح بہتر ہے
قرآن میں فطرت کے ایک قانون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: والصلح خیر (النساء ۱۲۸) یعنی صلح بہتر ہے۔ صلح کا مطلب مصالحت (reconciliation) ہے۔ صلح کا عمل ہمیشہ دو فریقوں کے درمیان ہوتا ہے۔ جب دو فریقوں کے درمیان کسی معاملہ پر نزاع ہوجائے تو ایک طریقہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں متشددانہ ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرلیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ فوراً سمجھوتہ کرکے نزاعی حالت کو ختم کردیا جائے۔
تاہم بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ یہ مصالحت دونوں فریقوں کی یکساں خواہش کے مطابق ہو۔ بیشتر حالات میں یہ مصالحت یک طرفہ بنیاد پر ہوتی ہے، یعنی ایک فریق اپنی خواہش کو پیچھے رکھ کر دوسرے فریق کی خواہش پر معاملہ ختم کر نے کے لیے راضی ہوجائے۔
اس قسم کی یک طرفہ مصالحت کو بہتر کیوں کہاگیا ۔ اُس کا سبب یہ ہے کہ نزاع کی حالت تعمیری عمل کو روک دیتی ہے۔ مصالحت پر راضی ہونے کا فائدہ آدمی کو یہ ملتا ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کا کوئی حصہ غیر ضروری ٹکراؤ میںضائع کیے بغیر اپنی تعمیری جدوجہد کو جاری رکھے۔ غیر مصالحانہ طریقہ ہر حال میں نقصان کا طریقہ ہے۔ اور مصالحانہ طریقہ ہر حال میںفائدہ کا طریقہ۔
انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ کسی فرد یا گروہ نے جب بھی کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو اُس نے یہ کامیابی مصالحانہ طریقہ اختیار کرنے کے بعد حاصل کی ہے۔ ٹکراؤ اورلڑائی کاطریقہ اختیار کرکے اس دنیا میں حقیقی کامیابی کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔ صلح کی یہ اہمیت اس لیے ہے کہ صلح میں آدمی کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ حاصل شدہ مواقع کو بھر پور طور پر اپنے حق میں استعمال کرے جب کہ ٹکراؤ کے طریقہ میں یہ ہوتا ہے کہ ساری طاقت دوسروں کی تخریب میں ضائع ہوجاتی ہے۔ تعمیر کا کوئی کام سِرے سے انجام نہیں پاتا۔ حالانکہ ترقی کاراز اپنی تعمیر و استحکام میں ہے، نہ کہ مفروضہ دشمن کوبرباد کرنے میں۔
فساد فی الارض نہیں
قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں ایک کردار کو ان الفاظ میںبیان کیا گیا ہے: واذا قیل لہم لاتفسدوا فی الأرض قالوا انما نحن مصلحون (البقرہ ۱۱)۔ یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میںفساد نہ کرو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں۔
قرآن کی اس آیت میںجس کردار کا ذکر ہے اُس سے مراد وہ لوگ ہیں جو بظاہر ایک اصلاحی مقصد کے لیے سرگرم ہوں، مگر اُن کا طریقہ درست نہ ہو۔ اُن کا طریقہ ایساہو جوعملاً فساد اور بگاڑ پیدا کرنے والا ہے۔ یہاں فساد سے مراد یہ ہے کہ اُن کے طریقہ کے نتیجے میںلوگوں میںباہمی ٹکراؤ پیدا ہو۔ لوگ ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگیں۔ لوگوں کے اندر اخلاقی احساس کمزور ہوجائے۔ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوں۔ اس قسم کی تمام چیزیں فساد فی الأرض کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کیوں کہ اس سے سماجی امن ختم ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ لڑائی اور ٹکراؤ کی نوبت آجاتی ہے۔
قرآن کی اس تعلیم سے معلوم ہوا کہ کسی عمل کے درست ہونے کے لیے صرف یہ کافی نہیں کہ بظاہر وہ ایک اچھے مقصد کے لیے شروع کیا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ لازمی طورپر یہ دیکھنا ہوگا کہ اصلاح کے نام پر کی جانے والی سرگرمیاں کس قسم کا نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر وہ لوگوں کے درمیان نفرت اور تناؤ اورلڑائی جیسی چیزیں پیدا کریں تو بظاہر اصلاح کا نام لینے کے باوجود اُن کی سرگرمیاں مفسدانہ سرگرمیاں ہی کہی جائیں گی۔ ایسے لوگ انسانیت کے مجرم قرار پائیں گے ،نہ کہ انسانیت کے مصلح اور خادم۔
کوئی بھی اصلاحی کام صرف اُس وقت اصلاحی کام ہے جب کہ وہ امن او ر انسانیت کے دائرہ میںکیا جائے۔ اصلاح کے نام پر کیا جانے والا ہر وہ کام غلط ہے جو سماجی امن کو درہم برہم کرے۔ جس کے نتیجہ میں جان اورمال کی تباہی ظہورمیں آئے۔ اصلاح کو اپنے نتیجہ کے اعتبار سے بھی اصلاح ہونا چاہیے۔ جو اصلاح اپنے نتیجہ کے اعتبار سے فساد ہو وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے بھی فساد ہے، خواہ اُس کو کتنا ہی زیادہ خوب صورت الفاظ میں بیان کیا گیا ہو۔
سازش کا خاتمہ
قرآن کی سورہ نمبر ۳ میں ارشاد ہوا ہے: اگر تم صبر کرو اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تو اُن کی کوئی سازش تم کو ہر گز نقصان نہ پہنچائے گی۔ (آل عمران ۱۲۰)۔ قرآن کی اس آیت میں زندگی کی ایک اہم حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ دنیا میں کسی فرد یا گروہ کے لیے اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اُس کے کچھ دشمن ہوں جو اُس کے خلاف سازش کررہے ہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اُس فرد یا گروہ کے اندر وہ صبر اور وہ محتاط روش موجود نہیں جوہر سازش کو یقینی طورپر ناکام بناسکتی ہے۔
موجودہ دنیا میں سازش کی حیثیت اگر بارش کی ہے تو صبر وتقویٰ کی حیثیت پختہ چھت کی۔ اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ بارش صرف اُن لوگوں کے لیے مسئلہ ہے جنہوں نے اپنے لیے پختہ چھت نہ بنائی ہو۔ جن کے پاس پختہ چھت ہو، اُن کے لیے بارش کا مسئلہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں۔
موجودہ دنیا کا نظام مسابقت (competition) کے اصول پر بنا ہے، اس لیے یہاں فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ ایک فریق اور دوسرے فریق کے درمیان رقابت قائم ہوجاتی ہے جو بڑھ کر سازش تک پہنچ جاتی ہے۔ جب بھی کسی کے خلاف ایسی صورت حال پیدا ہو تو اُس کو دشمن کی سازش کے بجائے فطرت کے ایک قانون کا اظہار سمجھنا چاہیے۔ سازش کو دشمن کی کارروائی سمجھنا آدمی کو تشدد کی طرف لے جاتا ہے۔ اور سازش کو فطرت کے قانون کا نتیجہ سمجھنا آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتاہے کہ وہ حسن تدبیر کے ذریعہ اپنے آپ کو اس کی زد سے بچائے، ٹھیک اُسی طرح جیسے ایک شخص بارش کے مقابلہ میں احتجاج نہیں کرتا بلکہ اس سے بچنے کے لیے گھر اور چھت کا انتظام کرتاہے۔
شدت پسندی نہیں
قرآن کی سورہ نمبر ۴ میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: لاتغلوا فی دینکم (النساء ۱۷۱) یعنی تم اپنے دین میں غلو نہ کرو۔ یہی بات حدیث میں بھی آئی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین، فانما ہلک من کان قبلکم بالغلوفی الدین۔ (النسائی ، کتاب المناسک، ابن ماجہ، کتاب المناسک، مسند احمد ۱؍۲۱۵، ۳۴۷) یعنی تم لوگ دین میں غلو سے بچو، کیوں کہ پچھلی امتیں دین میں غلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔
غلو کا مطلب شدت یا انتہا پسندی (extremism) ہے۔ غلو ہر معاملہ میں غلط ہے۔ غلو دین کی اصل روح کے خلاف ہے۔ غلو کا یہی مزاج بڑھ کر تشدد اور لڑائی تک پہنچ جاتا ہے۔ جو لوگ غلو کی نفسیات کا شکار ہوں وہ اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر اعتدال کی روش پرقانع نہیں ہوتے۔ وہ امن اور اعتدال کی روش کو معیار سے کم سمجھتے ہیں اس لیے وہ نہایت آسانی کے ساتھ تشدد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ وہ مقصد کے حصول کے نام پر لڑائی شروع کردیتے ہیں۔
غلو کی ضد اعتدال ہے۔ جب لوگوں کے اندر اعتدال کی نفسیات ہو تو وہ ہمیشہ امن کے انداز میں سوچیں گے، وہ اپنی جدوجہد کوپر امن جدو جہد کے طورپر چلائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعتدال اور امن دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں اعتدال ہوگا وہاں امن ہوگا۔ جہاں امن ہوگا وہاں اعتدال پایا جائے گا۔
اس کے برعکس غلو کی نفسیات ہمیشہ آدمی کو انتہا پسندی کی طرف لے جاتی ہے، اور انتہاپسندی نہایت آسانی کے ساتھ تشدد اور ٹکراؤ میںتبدیل ہوجاتی ہے۔ غلو اور تشدد دونوں ایک دوسرے کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دین میں غلو کو بہت زیادہ ناپسند کیا گیا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ غلو پسندی کا دوسرا نام تشدد پسندی ہے۔ اور غلو نہ کرنے کا دوسرا نام اعتدال پسندی ۔
ایک انسان کا قتل ساری دنیا کا قتل
قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں ارشاد ہوا ہے: من قتل نفساً بغیر نفسٍ اوفسادٍ فی الأرض فکأنما قتل الناس جمیعا (المائدہ ۳۲) ۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اُس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو توگویا اُس نے سارے آدمیوں کو قتل کرڈالا۔
قتل ایک انتہائی بھیانک عمل ہے۔ کسی فرد کو قتل کرنا صرف اُس وقت جائز ہے جب کہ وہ سماجی امن کے لیے ناقابلِ علاج خطرہ بن گیا ہو۔ حقیقی وجہ جواز کے بغیر کسی ایک انسان کو قتل کرنابھی سارے انسانوں کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ اس سے احترام جان کی روایت ٹوٹتی ہے۔ ایک انسان کو ناحق قتل کرنا بظاہر ایک آسان فعل دکھائی دینے لگتا ہے۔
شراب کے بارے میں حدیث میںآیا ہے کہ: مااسکرکثیرہ فقلیلہ حرام (جس چیز کی زیادہ مقدار نشہ کرے اس چیز کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے)۔ یہی معاملہ قتل کا بھی ہے۔ بہت سے انسانوں کو قتل کرنا جتنا بھیانک ہے اُتنا ہی بھیانک ایک انسان کو قتل کرنا بھی ہے۔ دونوں کے درمیان فرق صرف ڈگری کا ہے، نوعیت کے اعتبار سے دونوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔
قرآن کی اس آیت سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںامن وسلامتی کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اسلام کا تقاضا ہے کہ اگر کسی سماج میںایک شخص کو قتل کردیا جائے تو پورا کا پورا سماج اُس پر تڑپ اٹھے۔ سماج میں دوبارہ امن وسلامتی کی حالت کو قائم کرنے کے لیے اس اہتمام کے ساتھ کام کیا جائے جیسے کہ کسی نے ایک فرد کو قتل نہیں کیا ہے بلکہ اُس نے پوری انسانیت پر حملہ کردیا ہے۔
تشدد کی آگ کو بجھانا
قرآن کی سورہ نمبر ۵ میں ارشاد ہوا ہے: کلما اوقدوا ناراً للحرب أطفأہا اللہ (المائدہ ۶۴) یعنی جب بھی وہ لوگ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں تو اللہ اس آگ کو بُجھادیتا ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق کا منصوبہ موجودہ دنیا کے بارے میں کیا ہے۔ یہ منصوبہ امن کے اصول پر مبنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی ایک فریق لڑائی کی آگ بھڑکانے پر آمادہ ہو تو دوسرے فریق کو چاہئے کہ وہ پُر امن تدبیر سے اُس کو بجھادے تاکہ تشدد کی آگ پھیلنے نہ پائے۔ ایسا کبھی نہیں ہونا چاہئے کہ ایک فریق اگر بم مارے تو دوسرا فریق جوابی بم سے اُس کا مقابلہ کرے۔ خدا کی اس زمین پر جینے کا صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ ایک بم کے اوپر دوسرابم مارا جائے۔ صحیح اور مطلوب طریقہ یہ ہے کہ بم کو ناکارہ (defuse) کر دیا جائے۔
یہ خدائی اعلان بتاتا ہے کہ ایک بم کے اوپر دوسرابم مارنا شیطان کا طریقہ ہے۔ اس کے برعکس خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ بم کو غیر مؤثر بنادیا جائے، بم کواُس کے پہلے ہی مرحلہ میںناکارہ کردیا جائے تا کہ امن کاماحول بگڑنے سے بچ جائے۔
سماج میں ناخوش گوار حالات کا پیش آنا بالکل فطری ہے۔ کوئی انسانی سماج ناخوش گوارباتوں سے خالی نہیں ہوسکتا۔ ایسی حالت میں مسئلہ کا اصل حل یہ نہیں ہے کہ خود ناخوش گواری کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔ بلکہ اس مسئلہ کا اصل حل یہ ہے کہ ایک ناخوش گواری پر دوسری ناخوش گواری کا اضافہ نہ کیا جائے۔ ایک بم کے اوپر دوسرا بم نہ مارا جائے۔ اس طرح ناخوش گواری کو پھیلنے سے روک کر اُس کو ختم کردیا جائے۔ یہی اس مسئلہ کا حل ہے، اس کے سوا اس مسئلہ کا کوئی دوسرا حل ممکن نہیں۔
اصلاح کے بعد فساد
قرآن کی سورہ نمبر ۷ میں ارشاد ہوا ہے: ولاتفسدوا فی الأرض بعد اصلاحہا، ذٰلکم خیر لکم ان کنتم مؤمنین (الأعراف ۸۵) یعنی زمین میں بگاڑ پیدا نہ کرو، بعد اس کے کہ اُس کی اصلاح کی جاچکی ہو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم یقین کرنے والے ہو۔
قرآن کی اس آیت میںایک فطری حقیقت کا اعلان کیا گیا ہے۔ یہ زمین جس پر انسان آباد ہے وہ اپنیتخلیق کے اعتبار سے ایک اصلاح یافتہ زمین ہے۔ یہاں کی ہر چیز اپنے مطلوب نقشہ کے مطابق، بنائی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اس زمین پر جو کام بھی کرے، فطرت کے نقشہ کو بدلے بغیر کرے۔ اگر اُس نے فطرت کے نقشہ کو بدلا تو اُس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ قائم شدہ اصلاحی نظام ٹوٹ جائے گا اور ہر طرف بگاڑ پھیل جائے گا۔
مثلاً ہماری دنیا میں فطرت کے نظام کے تحت بے شمار سرگرمیاں جاری ہیںـــــزمین کی مسلسل گردش، سورج سے اُس کا روشن ہونا، ہواؤں کا چلنا، بارش کا ہونا، دریاؤں کا بہنا، پودوں اور درختوں کا اُگنا، وغیرہ وغیرہ۔ زمین پر اس طرح کے بے شمار کام رات دن مسلسل جاری ہیں مگر یہ سارے کام انتہائی حد تک پُر امن طور پر ہورہے ہیں۔ کہیں کوئی تشدد نہیں، کہیں ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی ٹکراؤ نہیں۔
یہی اصلاح کا نقشہ ہے۔ انسان کو چاہئے کہ وہ بھی اسی نقشہ پر چلے۔ وہ تشدد اور ٹکراؤ سے مکمل طور پر پرہیز کرے۔ وہ اپنی ہر کوشش امن کے اصول پر جاری کرے۔ جو لوگ اس کے خلاف چلیں وہ یقینی طورپر زمین کے اوپر فساد برپا کریں گے، وہ کبھی زمین کے اوپر اصلاح کا نظام قائم کرنے والے نہیں۔
اعراض، نہ کہ ٹکراؤ
قرآن کی سورہ نمبر ۷ میں حکم دیا گیا ہے کہ: وأعرض عن الجاہلین (الأعراف ۱۹۹) ۔ یعنی تم نادان لوگوں سے اعراض کرو۔
اعراض کامطلب احتراز (avoidence) ہے، اعراض کااُلٹا ٹکراؤ (confrontation) ہے۔ اعراض کا طریقہ آدمی کو پُرامن دائرہ میں محدود رکھتا ہے اور ٹکراؤ کاطریقہ اُس کو فریق ثانی کے مقابلہ میں متشددانہ کارروائی کی طرف لے جاتا ہے۔
موجودہ دنیا میں کوئی انسان یا گروہ اکیلا نہیں ہے۔ اُس کے سوا دوسرے بہت سے لوگ ہیں جو اپنے اپنے مقاصد رکھتے ہیں۔ ہر ایک کااپنا الگ ایجنڈا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں بار بار ایک دوسرے کا آمنا سامنا ہوتا ہے۔ بار بار ایک فرد اور گروہ اوردوسرے فرد اور گروہ کے درمیان کشمکش کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔
ایسی حالت میں آدمی کے لیے دو راستے ہیںـــــاعراض یا ٹکراؤ، ان دو کے سوا کوئی تیسرا راستہ نہیں۔ اب آدمی اگر ٹکراؤ کاراستہ اختیارکرے تو دونوں فریقوں کے درمیان لڑائی ہوگی۔ ساری تاریخ کا تجربہ ہے کہ لڑائی سے صرف دل کی بھڑاس نکلتی ہے۔ حقیقی معنوں میں اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہئے کہ وہ ٹکراؤ سے ہٹ جائے اوراعراض کا طریقہ اختیار کرے۔ اعراض کا طریقہ نہ صرف مزید نقصان سے بچاتا ہے بلکہ وہ آدمی کو یہ موقع دیتاہے کہ وہ اپنے ترقی کے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھ سکے۔ اعراض کا عمل بظاہر فریقِ ثانی کے مقابلہ میں ہوتاہے مگر اعراض کا مقصد خود اپنے آپ کو بے فائدہ ٹکراؤ سے بچانا ہے۔ اعراض کا مقصد یہ ہے کہ اپنے سفر کو کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رکھا جائے۔
صبر ترقی کا راز
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میںارشاد ہوا ہے کہ : واصبروا ان اللہ مع الصابرین (الأنفال ۴۶) یعنی تم صبر کرو کیوں کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام ﷺنے فرمایا: واعلم أن فی الصبر علی ما تکرہ خیرا کثیرا وان النصر مع الصبر وأن الفرج مع الکرب وان مع العسر یسرا (مسند احمد، الجزء ۱؍۳۰۷) یعنی جان لو کہ بے شک ناپسندیدہ چیز پر صبر کرنے میں تمہارے لیے بہت بھلائی ہے۔ اور کامیابی صبر کے ساتھ ہے اور کشادگی مشقت کے ساتھ ہے۔ اور مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کے سامنے مشکل حالات آئیں یا اُس کو کوئی تلخ تجربہ پیش آئے تو وہ گھبرا اُٹھتا ہے اور بعض اوقات تشدد پر اُتر آتا ہے۔ مگر اس قسم کا ردِّ عمل فطرت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کا قانون ہمیشہ اُن لوگوں کا ساتھ دیتا ہے جو حق اور انصاف پر ہوں۔ حق پرست فرد یا گروہ اگر جلد بازی نہ کرے اور صبر سے کام لے تو کامیابی اپنے آپ اُس کی طرف چلی آتی ہے۔
بیشتر حالات میں ناکامی اُن لوگوں کے حصہ میںآتی ہے جو جلد بازی سے کام لیں اور قبل از وقت پُر جوش اقدام کر بیٹھیں۔ اس کے برعکس جو لوگ صبر کا طریقہ اختیار کریں اُن کے لیے ہمیشہ ایسے اسباب پیدا ہوتے ہیں جو اُن کو کامیابی کی منزل تک پہنچا دیں۔
قرآن کے مطابق، صبر کا اُلٹا عجلت ہے (الاحقاف ۳۵)۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک شخص صبر کی روش اختیار کرتا ہے تو وہ فطرت کے نقشہ کی پیروی کررہا ہوتا ہے۔ اور جب وہ عجلت کا طریقہ اختیار کرتا ہے تو وہ فطرت کے نقشہ سے ہٹ جاتا ہے اور جو آدمی فطرت کے نقشہ سے ہٹ جائے اُس کے لیے خداکی اس دنیا میں کامیابی کا حصول ممکن نہیں۔
نزاع نہیں
قرآن کی سورہ نمبر ۲۲ میں خدانے ارشاد فرمایا ہے: فلاینازعنک فی الامر وادع الی ربک(الحج ۶۷) یعنی وہ تم سے امر میں ہر گز نزاع نہ کریں اور لوگوں کو تم اپنے رب کی طرف بُلاؤ۔
اس آیت میں نزاع نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ تم اُنہیں نزاع کا موقع نہ دو۔ یعنی جب بھی تمہارے اور فریقِ ثانی کے درمیان کوئی اختلافی بات پیش آئے تواُس کو پُر امن بات چیت کے دائرہ میں محدود رکھو۔ ایسا ہر گز نہ ہونے دو کہ اختلاف اپنی ابتدائی حد سے گذر کر عملی نزاع بن جائے۔ اور متشددانہ مقابلہ آرائی کی نوبت آجائے۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی نہ کسی بات پر دو فریقوں کے درمیان تناؤ پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ تناؤ بذات خود ایک فطری چیز ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہرمقام پر پیدا ہوگا۔ اصل قابل لحاظ بات یہ ہے کہ اس تناؤ یا اس اختلاف کو حد سے آگے نہ بڑھنے دیا جائے۔ اختلاف کا امن کے دائرہ میں رہنا اُس کا حد کے اندر رہنا ہے۔ اختلاف کا عملی ٹکراؤ یا تشدد کے دائرہ میں پہنچ جانااُس کاحد سے تجاوز کرنا ہے۔ حد کے اندر کوئی بھی اختلاف بُرا نہیں، مگر حد کے باہر چلے جانے کے بعد ہر اختلاف بُرا بن جاتا ہے۔
قرآن کی اس آیت میں با مقصد انسان کا طریق عمل بتایا گیا ہے۔ایک انسان جو ایک سنجیدہ مقصد کے لیے اُٹھا ہو، اُس کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ اُس کے اور دوسروں کے درمیان صرف وہی چیز زیر بحث آئے جو کہ اس کا اصل مقصد ہے۔ دونوں کے درمیان کسی اور چیز کا زیر بحث آنا بامقصد انسان کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ دونوں کے درمیان عدم نزاع کی یہ فضا کیسے قائم ہو۔ جواب یہ ہے کہ یہ فضا صرف اُس انسان کے یک طرفہ صبر کے ذریعہ قائم ہوسکتی ہے جو ایک مثبت مقصد اپنے ساتھ لے کر اُٹھتا ہے۔ عملی اعتبار سے اس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔ بامقصد انسان کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ یک طرفہ اعراض کے ذریعہ اپنے اور فریقِ ثانی کے درمیان معتدل ماحول قائم رکھے۔ تاکہ اُس کا سفر کسی توقف کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
جنگ صرف دفاع کے لئے
قرآن کی سورہ نمبر۲۲ میںارشاد ہوا ہے کہ : اُذِنَ للذین یُقَاتَلون بأنہم ظُلِمُوا (الحج ۳۹) یعنی اُن لوگوں کو جنگ کی اجازت دی گئی جن کے خلاف جنگ کی جارہی ہے، کیوں کہ وہ مظلوم ہیں۔
قرآن کی یہ آیت صرف ایک آیت نہیں وہ ایک بین اقوامی قانون کا بیان ہے۔ اس میں یہ بات طے کردی گئی ہے کہ جائز جنگ صرف وہ ہے جو واضح جارحیت کے مقابلہ میںدفاع کے طورپر لڑی جائے ۔ جنگ کی ہر دوسری قسم ظلم کی حیثیت رکھتی ہے اور ظالموں کے لیے خدا کی اس دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔ اس آیت کے مطابق، دفاعی جنگ کے سوا کسی اور جنگ کے حق میں کوئی وجہِ جواز نہیں۔
قرآن کے مطابق، دفاعی جنگ بھی صرف اعلان کے ساتھ لڑی جاسکتی ہے، بلا اعلان نہیں۔ مزید یہ کہ دفاعی جنگ بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت لڑسکتی ہے۔ غیر حکومتی افراد کو کسی بھی عذر کی بنا پر لڑائی چھیڑنے کی اجازت نہیں۔ ان تعلیمات کو سامنے رکھئے تو معلوم ہوگا کہ قرآن کے مقرر کیے ہوئے قانونِ جنگ کے مطابق، مجبورانہ نوعیت کی دفاعی جنگ کے سوا ہر جنگ ناجائز ہیــــــمثلاً گوریلا وار، پراکسی وار، بلا اعلان وار اور جارحانہ وار، یہ سب کی سب بلاشبہہ اسلام میں ناجائز ہیں۔
جنگ ایک حیوانی فعل ہے، جنگ کوئی انسانی فعل نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کے ابدی قانون کے مطابق، امن ایک عموم (rule) ہے، اور جنگ صرف ایک استثناء (exception) ۔ امن ہر حال میں ایک قابل اختیار چیز ہے، جب کہ جنگ صرف شدید ضرورت کے وقت اپنے بچاؤ کے لیے اختیار کی جاتی ہے، وہ بھی اُس وقت جب کہ ٹکراؤ سے اعراض کی تمام پُر امن تدبیریں ناکام ہوگئی ہوں۔
صبر کا طریقہ حمایت یافتہ طریقہ
قرآن کی سورہ نمبر ۸ میںکہاگیا ہے کہ: واصبروا ان اللہ مع الصابرین (الانفال ۴۶) یعنی تم لوگ صبر کی روش اختیار کرو، بیشک اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو صبر کی روش اختیار کریں۔
صابرانہ طریقِ کار کو دوسرے لفظوں میں پُر امن طریقِ کار کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقِ کار متشدادانہ طریقِ کار ہے۔ مذکورہ آیت فطرت کے اس قانون کو بتاتی ہے کہ موجودہ دنیا میں جو لوگ پُر امن طریقِ کار اختیار کریں اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ فطرت کے تمام اسباب اُن کی حمایت میں مستعد ہوجاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ متشددانہ طریقِ کار اختیار کریں وہ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجاتے ہیں، اور جو لوگ قوانین فطرت کی تائید سے محروم ہوجائیں اُن کے لیے خدا کی اس دنیا میں ناکامی اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں۔
صبر کے طریقہ کا مطلب کیا ہے۔ صبر کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی ناخوش گوار باتوں پر اپنی برداشت نہ کھوئے۔ تاکہ اس کی مثبت سوچ درہم برہم نہ ہونے پائے۔ وہ ممکن اور ناممکن میں فرق کرے اور ممکن کواپنا نقطۂ آغاز بنائے۔ وہ اچانک انجام کا خواہش مند نہ ہو بلکہ تدریج کا انداز اختیارکرے۔ وہ نقصان پر مایوس نہ ہو بلکہ مستقبل کے پیش نظر اپنا عمل جاری رکھے۔ جو کچھ آج ملنے والا ہے اُس کو وہ آج حاصل کرے اور جو کچھ کل ملنے والاہے اُس کے لیے وہ انتظار کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ اپنی خواہش کو فطرت کے قانون کے ماتحت رکھے، نہ کہ فطرت کے قانون کو اپنی خواہش کے ماتحت بنانے کی کوشش کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر مکمل طورپر ایک مثبت عمل ہے، صبر کوئی سلبی یا انفعالی روش نہیں۔
پر امن نظریاتی اشاعت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۵ میںاہل حق کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : وجاہد ہم بہ جہاداً کبیراً (الفرقان ۵۲) یعنی تم اُن کے اوپر جہاد کرو، بڑا جہاد، قرآن کے ذریعہ۔
جیسا کہ معلوم ہے، قرآن ایک کتاب ہے، ایک نظریاتی کتاب۔ وہ کوئی تلوار نہیں۔ ایسی حالت میں قرآن کے ذریعہ جہاد کا مطلب صرف یہی ہوسکتا ہے کہ قرآن کے افکار کو لوگوں تک پہنچاؤ۔ قرآن کے پیغام کو پُر امن انداز میں لوگوں کے درمیان عام کرو۔ قرآن کے نظریات کو مدلّل انداز میں بیان کرکے اُس کو لوگوں کے لیے قابلِ قبول بناؤ۔
اس آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتاہے کہ اسلام میںجس چیز کو جہاد کہا گیا ہے وہ پُر امن جدوجہد (peaceful struggle) ہے، اُس کا تشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ جہاد کا لفظ عربی زبان میں مبالغہ آمیز کوشش کے لیے بولا جاتا ہے، یعنی بہت زیادہ محنت کرنا۔ کسی مقصد کے حصول کے لیے اپنی آخری کوشش صرف کردینا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ پُرتشدد کوشش کے مقابلہ میں پُر امن کوشش زیادہ عظیم ہے۔ کوئی آدمی جب متشددانہ طریقِ کار اختیار کرے تو کوشش کا دائرہ محدود ہوجاتا ہے۔ لیکن جب وہ پر امن طریقِ کار اختیار کرے تو اُس کا دائرہ کار لامحدودحد تک بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ متشددانہ طریقِ کار میں صرف تلوار یا گن کار آمد ہے لیکن پُر امن طریقِ کار میں ہر چیز آدمی کے لیے ذریعہ اور وسیلہ بن جاتی ہے، حتیٰ کہ بند کمرہ میں استعمال ہونے والا ایک قلم بھی۔
دشمن کو دوست بنانا
قرآن کی سورہ نمبر ۴۱ میں ارشاد ہوا ہے: بھلائی اور بُرائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میںاور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا (حٰم السجدہ ۳۴)۔
قرآن کی اس آیت میں فطرت کا ایک راز بتایا گیا ہیـــــوہ راز یہ ہے کہ ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اس دوست انسان کو دریافت کرو۔ اور پھر یہ معجزاتی واقعہ پیش آئے گا کہ جو آدمی بظاہر تمہارا دشمن دکھائی دیتا تھا وہ تمہارا قریبی دوست بن جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دشمنی کوئی فطری چیز نہیں، وہ ایک مصنوعی رد عمل ہے۔ جب بھی کسی وجہ سے کوئی شخص بظاہر تمہارا دشمن بن جائے تو تم اُس کے ساتھ رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرتے ہوئے اُس کے ساتھ بہتر سلوک کرنے کی کوشش کرو، خواہ یہ بہتر سلوک تم کو مفروضہ دشمن کی اشتعال انگیز کارروائیوں کے باوجود یک طرفہ بنیاد پر کرنا پڑے۔
تمہارا یک طرفہ سلوک یہ کرے گا کہ وہ دشمن کے اندر پیدا ہونے والے منفی جذبات کو دبا دے گا۔ تمہارا یک طرفہ سلوک دشمن کی سوئی ہوئی انسانیت کو جگا کر اُس کو ایک نیا انسان بنادے گا۔ اور یہ نیا انسان وہی ہوگا جس کو قرآن میں قریبی دوست کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا آدمی ایک ہی مشترک فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ ہر آدمی پہلے مسٹر نیچر ہے، اُس کے بعد وہ مسٹر دشمن یا مسٹر دوست بنتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آپ ہیں وہی آپ کا مفروضہ دشمن بھی ہے۔ اور جو آپ کا مفروضہ دشمن ہے وہی خود آپ بھی ہیں۔ اس لیے آدمی کو چاہئے کہ بظاہر دشمنی کے باوجود وہ فریقِ ثانی کے اندر اپنے مشترک انسان کو تلاش کرے۔ وہ دوسروں سے بھی وہی اُمید رکھے جو امید وہ اپنے آپ سے کئے ہوئے ہے۔
خود اپنے عمل کا نتیجہ
قرآن کی سورہ نمبر ۴۲ میں کہا گیا ہے کہ: جو مصیبت بھی تمہارے اوپر پڑتی ہے وہ صرف تمہارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہے(الشوریٰ ۳۰)
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کو بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا اسباب و علل کے اصول پر قائم ہے۔ جیسے اسباب ویسا نتیجہ ۔ یہ آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ کسی آدمی پر جب بھی کوئی مصیبت پڑے تو اُس کو چاہیے کہ اُس کا سبب وہ خود اپنے اندر دریافت کرے، نہ کہ وہ اپنے سے باہر اس کا سبب تلاش کرنے لگے۔
زندگی کی یہ حقیقت جس آدمی کے ذہن میں بیٹھ جائے وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کسی کو اپنی مصیبت کا ذمہ دار بتاکر اُس کے خلاف تشددکا معاملہ کرنے لگے۔ اس کے بجائے وہ صرف یہ کرے گا کہ بے لاگ طورپر اپنی زندگی کاجائزہ لے گا۔ وہ خود اپنی غلطیوں کو دریافت کرے گا تاکہ اپنی غلطیوں کی اصلاح کرکے وہ مصیبت کا شکار ہونے سے بچ جائے۔ مصیبت کا حوالہ دے کر دوسرے کے خلاف کارروائی کرنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی مریض اپنے مرض کا ذمہ دار اپنے پڑوسی کو بتا کر اُس سے لڑنے لگے۔
ایک شہر جہاں کا ٹریفک ضابطہ دائیں چلو(keep right) کے اصول پر قائم ہو، وہاں اگر کوئی شخص بائیں چلو (keep left) کے اصول پر اپنی گاڑی دوڑانے لگے تو یقینی طورپر اُس کی گاڑی حادثہ کا شکار ہوجائے گی۔
یہ حادثہ اگر چہ بظاہر فریقِ ثانی کی گاڑی کے ٹکرانے سے پیش آیا ہوگا مگرآپ یہ کہنے کا حق نہیں رکھتے کہ فریقِ ثانی نے ٹکر مار کر آپ کو زخمی کردیا۔ اس کے برعکس صحیح طورپر آپ کو صرف یہ کہنا چاہئے کہ میں غلط رُخ پر چل رہا تھا اور فریقِ ثانی کی گاڑی صحیح رخ پر۔ اس لیے فریق ثانی کی گاڑی میری گاڑی سے ٹکرا گئی۔
یہی معاملہ زندگی کے دوسرے تمام پہلوؤں کا بھی ہے۔ آپ کو جب بھی اپنی زندگی میں کسی نقصان سے دوچار ہونا پڑے تو پیشگی طورپر یہ سمجھ لیجئے کہ جو کچھ ہوا وہ خود آپ کی غلطی کی بنا پر ہوا۔ یہی زندگی کے معاملات میں صحیح سوچ ہے۔ اگر آپ صحیح انداز میں سوچیں تو آپ اپنی اصلاح کرکے اپنے مستقبل کو بچالیں گے۔ اور اگر آپ اس کے برعکس یہ کریں کہ اپنی مصیبت کا الزام دوسروں کو دیتے رہیں تو آپ اپنے مستقبل کو بھی برباد کریں گے، اور آپ کا ماضی اور حال تو پہلے ہی برباد ہوچکا ہے۔
غصہ ایک کمزوری ہے
قرآن کی سورہ نمبر ۴۲ میں سچے انسانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: واذا ما غضبوا ہم یغفرون (الشوریٰ ۳۷) یعنی جب اُنہیں غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں۔
اس کا مطلب سادہ طورپر صرف غصہ کو معاف کرنا یا اُس کو بھلا دینا نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب غصہ کی نفسیات سے اوپر اُٹھ کر معاملہ کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غصہ دلانے کے باوجود آدمی بے غصہ ہو کر سوچے۔ وہ غصہ سے متاثر ہوئے بغیر اس کا جواب دے۔
غصہ ایک کمزوری ہے، اور غصہ نہ کرنا ایک طاقت ہے۔ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو وہ ہر صورت حال کو مینیج کرسکتاہے۔ وہ ہر معاملہ کو اپنے موافق بنا سکتا ہے۔ غصہ آدمی کی عقل کو مختل کردیتا ہے۔ ایسا آدمی صورت معاملہ کو نہ تو صحیح طورپر سمجھ سکتا ہے اور نہ صحیح طورپر اُس کا جواب دے سکتا ہے۔ کوئی آدمی غصہ ہوجائے تو فوراً وہ تشدد کی طرف جاتا ہے۔ حالاں کہ تشدد کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ اور جو آدمی اپنے غصہ کو قابو میں رکھے، وہ مسئلہ کا پُر امن حل تلاش کرے گا۔ اور پُر امن حل ہی کسی مسئلہ کا واحد یقینی حل ہے۔
انسان کے ذہن میں غیر معمولی صلاحیتیں چھپی ہوئی ہیں۔ آدمی اگر غصہ نہ ہو تو وہ اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ذہن کی بھر پور صلاحیتوں کواپنے حق میںاستعمال کرے۔ مگر آدمی جب غصہ ہو جائے تو اُس کے ذہن کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ وہ اس قابل نہیں رہتا کہ اپنی ذہنی صلاحیت کو بھر پور طورپر اپنے حق میںاستعمال کرے۔ غصہ نہ ہونا جیت ہے، اورغصہ ہونا اُس کے مقابلہ میں ہار۔
حق پر صبر کے ساتھ جمنا
قرآن کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں بتایا گیا ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو گھاٹے سے بچتے ہیں اور کامیاب زندگی حاصل کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وتواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (العصر ۳) یعنی وہ لوگ جنہوں نے ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔
جب بھی کوئی آدمی سچائی کے راستہ پر قائم ہوتا ہے یا لوگوں کو سچائی کی طرف بلاتا ہے تو ہمیشہ ایساہوتا ہے کہ بہت سے لوگ اُس کے مخالف بن جاتے ہیں۔ اُس کو لوگوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے وقت میں حق پرست آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ صبر کا طریقہ اختیار کرے، وہ پیش آنے والی مشکلات کو اپنے اوپر سہے، وہ اُن کودوسروں کے اوپر انڈیلنے کی کوشش نہ کرے۔
صبر غیر جارحانہ طریقہ کا دوسرا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق پرست آدمی کو چاہئے کہ وہ تشدد کے مقابلہ میں جوابی تشدد نہ کرے۔ وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو پُر امن طریقِ کار کا پابند بنائے۔ اسی روش کا دوسرا نام صبر ہے۔
حق اور تشدد دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ جو آدمی حق کو لینا چاہے تو اُس کو تشدد کو چھوڑنا پڑے گا۔ تشدد، خواہ کسی بھی عذر کی بنا پر استعمال کیا جائے، وہ تشدد ہے۔ ہر تشدد یکساں طورپر تباہ کُن ہے۔ کوئی خوب صورت عذر تشدد کو اُس کے تباہ کن اثرات سے بچا نہیں سکتا۔
حق کے حصول کے نام پر تشدد کرنا خود حق کی نفی ہے۔ جو لوگ حق کے نام پر تشدد کریں وہ اپنے بارے میں یہ ثابت کرتے ہیں کہ اُن کا کیس حق کا کیس نہیں۔ حق پسند آدمی کبھی تشدد پسند نہیں ہوسکتا۔ جو آدمی تشدد کو پسند کرے وہ یقینی طورپر حق پسند نہیں، خواہ وہ بطور خود اپنے آپ کو حق کا چیمپین کیوں نہ سمجھتا ہو۔
امن کی قیمت
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ کوئی چیز آدمی کو اُسی وقت ملتی ہے جب کہ وہ اُس کی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔ ضروری قیمت ادا کیے بغیر اس دنیا میں کسی کو اپنی مطلوب چیز نہیں ملتی۔ یہی معاملہ امن کا بھی ہے۔ امن کی بھی ایک قیمت ہے۔ کوئی فرد یا گروہ اُسی وقت امن کو حاصل کرسکتا ہے جب کہ وہ اس کی مطلوب قیمت ادا کرے۔ امن کی یہ قیمت نقصان کو برداشت کرنا ہے۔
یہ حقیقت قرآن کی سورہ نمبر ۲ میں اس طرح بیان کی گئی ہے: ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو جن کا حال یہ ہے کہ جب اُن کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ہم اللہ کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (البقرہ ۱۵۵۔۱۵۶)
قرآن کی اس آیت میں زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ موجودہ دنیا کانظام جس قانون کے تحت بنا ہے، اُس کے مطابق، ایسا ہونا ضروری ہے کہ لوگوں کو مختلف قسم کا نقصان اٹھانا پڑے۔ کبھی انہیں دوسروں کی طرف سے چیلینج پیش آئے، کبھی انہیں اقتصادی تنگی کا شکار ہونا پڑے، کبھی اُنہیں ملک ومال میں کمی کا تجربہ ہو، کبھی وہ کسی حادثہ کا شکار ہوجائیں، کبھی وہ کسی ایسے فائدے سے محروم ہوجائیں جس کو وہ اپنا حق سمجھتے تھے، وغیرہ۔
اس قسم کے ناخوش گوار تجربات عین فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں ہر ایک کو کبھی نہ کبھی پیش آئیں گے۔ ایسی حالت میں لوگ اگر نقصان کو برداشت نہ کریں تو اسی کے نتیجہ کا نام تشدد ہے۔ اوراگر وہ اس کو برداشت کرلیں تو اسی کے نتیجہ کا نام امن ہے۔
نقصان پیش آنے پر صبر اور برداشت کا رویہ اختیار کرنا کوئی پسپائی کی بات نہیں۔ یہ ہمت و حوصلہ کی بات ہے۔ یہ حقیقتِ واقعہ کو اختیارانہ طورپر تسلیم کرنا ہے۔ اس کا مطلب، ایک چیز کھونے کے بعد یہ یقین رکھنا ہے کہ بہت سی دوسری چیزیں اب بھی اُس کے پاس موجود ہیں جن کے سہارے وہ ازسرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کرسکتا ہے۔
صبر و برداشت کا فائدہ یہ ہے کہ چیز کو کھونے کے باوجود آدمی اپنے اعتدال کو نہیں کھوتا۔ وہ وقتی ناکامی کے باوجود اپنی اس صلاحیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ صورت حال پر معتدل انداز میں غور کرے۔ وہ معاملہ کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ازسرِ نو اپنی زندگی کا منصوبہ بنائے۔ وہ کھوئے ہوئے کو بھلا کر باقی رہنے والی چیزوں کی بنیاد پر دوبارہ اپنے کام کو منظّم کرے۔ وہ مایوسی کے بجائے تدبیر سے کام لے کر پھر سے زندگی کا سفر شروع کردے۔
موجودہ دنیا کی ایک صفت یہ ہے کہ یہاں ہر شام کے بعد دوبارہ صبح طلوع ہوتی ہے۔ دنیا امکانات ومواقع سے بھری ہوئی ہے۔ یہاںایک موقع کھونے کے بعد آدمی کو دوسرا موقع مل جاتا ہے۔ ایک زینہ سے محرومی کے بعد اُس کے لیے دوسرے زینہ کے دروازے کھُل جاتے ہیں۔ اس طرح اس دنیا میں بار بار یہ امکان موجود رہتا ہے کہ ایک نقشہ ٹوٹنے کے بعدآدمی دوسرے نقشہ کو استعمال کرکے اپنی زندگی کی نئی تعمیر کرلے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر بُری خبر کے ساتھ ایک اچھی خبر شامل رہتی ہے۔ ہر حادثہ آدمی کوخاموش زبان میں یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تم مایوس اور بد دل نہ ہو۔ بلکہ ہمت سے کام لے کر نئے مواقع کی تلاش کرو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو فطرت کا نظام پیشگی طورپر تم کو یہ خوش خبری دیتا ہے کہ تمہاری محرومی مستقل محرومی نہیںبنے گی۔ جلد ہی تم اپنے لیے ایک نئی اور زیادہ بہتر دنیا کی تعمیر کرلوگے۔ جلد ہی تمہاری شکست ایک نئی قسم کا رہنما ثابت ہوگی۔
جو لوگ نقصان کو برداشت نہ کریں وہ منفی سوچ کا شکار ہوکر اپنی زندگی کوایک بوجھ بنالیتے ہیں اور دوسروں کے لیے بھی بوجھ بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ صبراور ہمت سے کام لیں وہ ماضی کے کھنڈر پر اپنے لیے ایک نیا محل تعمیر کرلیتے ہیں۔ وہ ایک شام کے بعد دوبارہ اپنے لیے ایک نئی صبح تلاش کرلیتے ہیں جس کی روشنی میں وہ اپنا سفر رُکے بغیر جاری رکھ سکیں۔
صلح کی پیشکش کو قبول کرنا
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قریش کی جارحیت کے نتیجہ میں، قریش اورمسلمانوں کے درمیان حالتِ جنگ قائم ہوگئی تھی۔ اس موقع پر جو احکام قرآن میںدیے گئے اُن میںسے ایک حکم یہ تھا:وان جنحوا للسلم فاجنح لہا وتوکل علی اللہ انہ ہو السمیع العلیم، وان یریدوا أن یخدعوک فإنّ حسبک اللہ (الانفال۶۱۔۶۲) یعنی اگر وہ صلح کی طرف جھکیں تو تم بھی صلح کے لیے جھک جاؤ اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ بے شک وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ اور اگر وہ تم کو دھوکا دینا چاہیں گے تو اللہ تمہارے لیے کافی ہے۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں امن آخری حد تک مطلوب ہے۔ حتیٰ کہ اگر رسک(risk)لے کر امن قائم ہوتا ہو تو رسک لے کر بھی امن قائم کیا جائے گا۔ جیسا کہ قرآن کی اس آیت میںتعلیم دی گئی ہے۔ حالت جنگ کے دوران اگر فریقِ ثانی صلح کی پیش کش کرے تو بلا تاخیر اُس کو قبول کرلینا چاہیے۔ بالفرض اگر یہ اندیشہ ہو کہ صُلح کی اس پیش کش میںکوئی دھوکہ چھپا ہوا ہے تب بھی اس اعتماد پر فریقِ ثانی سے صُلح کی جائے گی کہ خدا ہمیشہ امن پسندوں کے ساتھ ہوتا ہے، نہ کہ فریب دینے والوں کے ساتھ۔
اس سے مزید یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ اس دنیا میںامن ہمیشہ وہ لوگ قائم کرتے ہیں جو اعلیٰ حوصلہ کے مالک ہوں۔ موجودہ دنیا میںہمیشہ ایک اور دوسرے فریق کے درمیان مسائل موجودرہتے ہیں۔ ہمیشہ حقوق اور بے انصافی کے مسائل پائے جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہی لوگ امن قائم کرسکتے ہیں جو ہر دوسرے تقاضہ سے بُلند ہوکر سوچیں، جوکسی بھی چیز کو عذر نہ بنائیں۔ صرف ایسے باحوصلہ لوگ ہی دنیا میں امن قائم کرتے ہیں۔ جن لوگوں کے اندر یہ حوصلہ نہ ہو وہ صرف لڑتے رہیں گے، وہ امن کی تاریخ نہیں بناسکتے۔
زیادہ بڑا رزق
قرآن کی سورہ نمبر ۲۰ میں پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بتایا گیا ہے: ولاتمدن عینیک إلیٰ ما متعنا بہ ازواجاً منہم زہرۃ الحیوۃالدنیا،لنفتنہم فیہ ورزق ربک خیر وابقیٰ (طٰہ ۱۳۱) یعنی تم ہر گز ان چیزوں کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھو جن کو ہم نے اُن کے کچھ گروہوں کو اُن کی آزمائش کے لیے اُنہیں دے رکھا ہے۔ اور تمہارے رب کا رزق زیادہ بہتر ہے اور باقی رہنے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ زندگی کی دو مختلف صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی مادی دنیا کو اپنا نشانہ بنائے۔ وہ ملک و مال میںاپنی کامیابی تلاش کرے۔ ان چیزوں میںہمیشہ ایسا ہوتاہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہی مادّی چیزیں ہیںجن میں چھین جھپٹ کا معاملہ چلتا رہتا ہے۔ اس لیے جو لوگ مادیّات میں جیتے ہوں وہ یکسرحق تلفی یا محرومی کے احساس کا شکار رہتے ہیں۔ یہ احساس بار بار حسد اور انتقام اور تشدد کے روپ میں ظاہر ہوتا ہے۔
زندگی کی دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی یافت (achievement) کے احساس میں جیتا ہو۔ ایسا آدمی اپنے آپ میں مطمئن ہوگا۔ اُس کے اندر پانے کا احساس اُس کو اس سے بچائے گا کہ وہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے یا اُن کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائے۔
یافت کا یہ احساس کن لوگوں کو حاصل ہوتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو قرآن کے الفاظ میں، رزق رب مل رہاہو۔ رزق رب سے مراد یہ ہے کہ آدمی کو یہ یقین حاصل ہوکہ اُس نے سچائی کو پالیا ہے۔ اُس نے اس حقیقت کو دریافت کیاہو کہ خالق نے اُس کو جو وجود دیا ہے وہ سونے چاندی کے تمام ذخیروں سے زیادہ قیمتی ہے۔ وہ اس طرح بیدار ذہن کے ساتھ دنیا میں رہے کہ پوری کائنات اُس کے لیے فکری اور روحانی خوراک کا دستر خوان بن جائے۔
جو آدمی دنیا سے اس طرح کا رزقِ رب پارہا ہو وہ اتنا زیادہ اوپر اُٹھ جاتا ہے کہ ملک و مال جیسی چیزیں اُس کے لیے حقیر بن جاتی ہیں۔ اُس کی یہ نفسیات اپنے آپ اُس کو امن پسند بنادیتی ہے۔ نفرت اور تشدد جیسی چیزیں اُس کو اتنا زیادہ بے معنیٰ معلوم ہونے لگتی ہیں کہ اُس کے پاس اس کا وقت نہیں رہتا کہ وہ کسی کے خلاف نفرت کرے یا کسی کے خلاف تشدد کا منصوبہ بنائیـــــجس آدمی کو زیادہ بڑی چیز مل جائے وہ کبھی چھوٹی چیز کی طرف نہیں دوڑے گا۔
امن پسندی تحفظ کا ذریعہ
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ایک پیغمبر سے اُس کی قوم نے کہا: ولولا رہطک لرجمناک (ھود ۹۱)۔ یہ رہط پیغمبر کے مومنین کا نہ تھا بلکہ پیغمبر کی قوم کا تھا جو ایمان نہ لانے کے باوجود قبائلی روایت کی بنا پر، پیغمبر کا تحفظ کرتے تھے۔ یہی حقیقت حدیث میں ان الفاظ میں آئی ہے: ما بعث اللہ نبیا الا فی منعۃ ٍ من قومہ (مسند احمد ۲؍ ۵۳۳) یعنی ہر پیغمبر کو خدا نے اپنی قوم کی منعت (محافظ قوت) کے ساتھ بھیجا ۔
قدیم زمانہ میں جب کہ جدید طرز کا حکومتی نظام موجود نہ تھا لوگ قبائل کی حمایت میں رہا کرتے تھے۔ قبائلی روایات کے مطابق، ہر قبیلہ اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں اپنے افراد کا تحفظ کرے۔ قدیم زمانہ میں یہی قبائلی روایت پیغمبروں کے لیے محافظ قوت بنی رہی۔ خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو ہاشم کے سردار ابو طالب کی طرف سے یہ منعہ حاصل تھا۔ ابو طالب اگر چہ آخر وقت تک ایمان نہیں لائے مگر وہ قبائلی روایات کی بنا پر، پیغمبر اسلام کے مخالفین کے مقابلہ میںآپ کے لیے منعہ(محافظ قوت) بنے رہے۔ (ملاحظہ ہو سیرت ابن ہشام، الجزء الاول صفحہ ۲۸۱)
موجودہ زمانہ میں قبائلی نظام ختم ہوچکا ہے۔ مگر جدید تصور ریاست کے تحت سیکولر نظام اہل ایمان اوراہل دعوت کو یہی منعہ فراہم کر رہا ہے۔ موجودہ زمانہ کی سیکولر حکومت اپنے ہر شہری کو یہ گارنٹی دیتی ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے مانے اور جس مذہب کی چاہے تبلیغ کرے، اُس کو کوئی روک نہیں سکتا، صرف ایک شرط کے ساتھ کہ اہل مذہب یا اہل دعوت کسی کے خلاف تشدد نہ کریں۔
پیغمبروں کو قدیم زمانہ میں جو منعہ ملا وہ قبائلی منعہ تھا، نہ کہ اسلامی منعہ۔ اس کے باوجود پیغمبروں نے اُس کو قبول کیا۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو منعہ ملا وہ بھی سیکولر منعہ ہے، نہ کہ اسلامی منعہ۔ پیغمبروں کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کوچاہئے تھا کہ وہ اس منعہ کو قبول کرتے ہوئے اس کے ماتحت پُر امن طورپر دعوت کا کام کریں۔ مگر ساری دنیا کے مسلم رہنماؤں نے سیکولرزم کو لادینیت قرار دے کر اُس کے خلاف لفظی اورعملی لڑائی چھیڑ دی۔ اس طرح وہ غیر ضروری طورپر سیکولرزم کے حریف بن گئے۔ سیکولر نظام کے تحت ملا ہوا قیمتی منعہ استعمال ہونے سے رہ گیا۔
انسانوں کے لئے رحمت
قرآن کی سورہ نمبر ۲۱ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: و ما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین (الأنبیاء ۱۰۷) یعنی ہم نے تم کو تو بس دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔
پیغمبر اسلام ﷺ کا آنا ساری دنیا کے انسانوں کے لیے خدا کی رحمت کا ظہور تھا۔ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے زندگی کے وہ اصول بتائے جن کو اختیار کرکے انسان ’دارالسلام‘ (یونس ۲۵) میں آباد ہوسکتا ہے، یعنی امن وسلامتی کی کالونی میں۔ آپ کے ذریعہ وہ تعلیمات اُتاری گئیں جو انسانی معاشرہ کو پُر امن معاشرہ بناسکتی ہیں۔ آپ نے تاریخ میں پہلی بار امن (peace)کے تصور پر مبنی مکمل آئیڈیالوجی پیش کی۔ آپ نے زندگی کا وہ فارمولا بتایا جو آدمی کواس قابل بناتا ہے کہ وہ نفرت اورتشدد سے بچـتے ہوئے اپنے لیے ایک صحت مند زندگی کی تعمیر کرسکے۔ آپ کے ذریعہ دنیا میں وہ انقلاب آیا جس نے اس بات کو ممکن بنایا کہ ٹکراؤ اور جنگ سے بچتے ہوئے انسان ایک پُرامن سماج بنا سکے۔
پیغمبر اسلام کو اگر چہ مجبور کن حالات میں بعض ایسی لڑائیاں لڑنی پڑیں جواتنی چھوٹی تھیں کہ اُن کو جنگ کے بجائے جھڑپ کہنا زیادہ صحیح ہے۔ پیغمبر اسلام نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا جس کو بجاطورپر غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے امن کو مکمل نظریۂ حیات کی حیثیت دی۔ آپ نے بتایا کہ تشددتخریب کا ذریعہ ہے اورامن تعمیر کا ذریعہ۔ آپ نے صبر کو سب سے بڑی عبادت بتایا جس کا مطلب مکمل طورپر امن کی روش پر قائم رہنا ہے۔ آپ نے فساد کو سب سے بڑا جرم بتایا جس کا مطلب فطرت کے پُر امن نظام کو درہم برہم کرنا ہے۔ آپ نے امن کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ ایک انسان کے قتل کوسارے انسانوں کے قتل کے برابر قرار دیا۔
ملاقات میں السلام علیکم کہنے کو رواج دینا ، اس کا مطلب یہ تھا کہ باہمی تعلقات کی بنیاد امن و سلامتی پر ہے۔ آپ نے آخرت کی کامیابی کو انسانی جدوجہد کی منزل بتایا، اس طرح آپ نے دنیوی ترقی کو نشانہ بنانے کی جڑ کاٹ دی جس کی وجہ سے ٹکراؤ اور تشدد کی تمام صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ آپ نے انسان کے لیے بہتر زندگی کا یہ فارمولا دیا ــــــلوگوں کو نفع دینے والے بنو، اور اگر تم نفع نہیںدے سکتے ہو تو لوگوں کے لیے بے ضرر(harmless) بن جاؤ۔ آپ نے بتایا کہ کسی کو اپنا دشمن نہ سمجھو۔ تم دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو، پھر تم کو معلوم ہوگا کہ ہر دشمن امکانی طورپر (potentially) تمہارا دوست تھا۔ہر دشمن انسان کے اندر ایک دوست انسان چھپا ہوا تھا۔
جہاد پُر امن عمل کانام ہے
ملّا علی قاری مشہور عالم اور فقیہہ ہیں۔ اُن کا پورا نام یہ ہے: علی بن (سلطان) محمد، نورالدین الملّا الہروی القاری۔ ملّا علی قاری ہرات میں پیدا ہوئے۔ اُن کی وفات ۱۰۱۴ھ (۱۶۰۶ء) میں مکہ میں ہوئی۔ انہوں نے مختلف اسلامی موضوعات پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں۔ (کتاب الأعلام)
ملاّ علی قاری کی ایک کتاب کانام مرقاۃ المصابیح ہے جو مشکاۃ المصابیح کی شرح میں لکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں ملاعلی قاری کتاب الجہاد کے تحت لکھتے ہیں کہ جہاد کے لفظ میں لغوی طورپر جدوجہد اور مشقت کا مفہوم ہے۔ اس کے بعد وہ لکھتے ہیں: ثم غلب فی الإسلام علی قتال الکفار۔ یعنی پھر جہاد کا لفظ اسلام میں اہل کفر سے جنگ کے لیے استعمال ہونے لگا۔
ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتاہے اور دوسرا استعمالی مفہوم۔ یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔ جہاد کالفظ جہد سے نکلا ہے۔ لغوی طورپر اس کے معنیٰ کوشش کے ہیں۔ اس میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ استعمال میں یہ لفظ مختلف قسم کی جدوجہد کے لیے لکھا یا بولا جاتا ہے۔ اُنہی میںسے ایک جنگ بھی ہے، تاہم اس کا استعمال صرف اس استثنائی جنگ کے لیے خاص ہے جو فی سبیل اللہ کی گئی ہو، ملک و مال کے لیے جو جنگ کی جائے اُس کو جہاد نہیں کہا جائے گا۔
قرآن میںاس سلسلہ میں دو مختلف لفظ استعمال کئے گئے ہیںــــــجہاد اور قتال۔ جب پُرامن جدوجہد مراد ہو تو وہاں قرآن میں جہاد کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً قرآن کے ذریعہ پُر امن دعوتی جدوجہد (الفرقان ۵۲)۔ اور جب باقاعدہ جنگ مراد ہو تو وہاں قرآن میں قتال کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً آل عمران ۱۲۱۔ تاہم بعد کے زمانہ میں جہاد کا لفظ اکثر قتال کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جانے لگا۔ جہاد کے لفظ کے اس استعمال کو اگر بالفرض درست مانا جائے تب بھی وہ جہاد کے لفظ کا ایک توسیعی استعمال ہوگا، نہ کہ اُس کا حقیقی استعمال۔
اپنے حقیقی مفہوم کے اعتبار سے جہاد ایک پُر امن عمل کا نام ہے، نہ کہ متشددانہ عمل کا نام۔ جہاد کا عمل انسان کو ذہنی اور روحانی طورپر بدلنے کے لیے ہوتا ہے، نہ کہ انسان کو قتل کرنے کے لیے۔
ہر حال میں امن
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی حد تک ایک امن پسند آدمی تھے۔ آپ کے مخالفین نے بار بار آپ کو لڑائی میں الجھانا چاہا مگر ہر بار آپ اعراض کرکے لڑائی سے بچتے رہے۔ تاہم چند بار یک طرفہ جارحیت کی بنا پر آپ کو وقتی طورپر دفاعی جنگ کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ انہی چند دفاعی جنگوں میں سے ایک بدر کا غزوہ ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ عین اُس وقت جب کہ دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے کھڑی تھیں، پیغمبر اسلام کے پاس خدا کا فرشتہ آیا۔ اُس نے کہا کہ اے محمد ، اللہ نے آپ کو سلام (سلامتی) کا پیغام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا: ہو السلام ومنہ السلام والیہ السلام۔ (البدایۃ والنہایۃ، الجزء الثالث، صفحہ ۲۶۷) یعنی اللہ سلامتی ہے اور اُس سے سلامتی ہے اوراُسی کی طرف سلامتی ہے۔
اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عین لڑائی کے وقت بھی پیغمبر اسلام ایک امن پسندانسان بنے ہوئے تھے۔ اُس ہنگامی وقت میں بھی ایسا نہ تھا کہ آپ کا ذہن نفرت اور تشدد سے بھر جائے بلکہ اُس وقت بھی آپ امن اور سلامتی کی اصطلاحوں میںسوچتے ـتھے، اُ س وقت بھی آپ کا دل اس آرزو سے تڑپ رہا تھا کہ اللہ کی مدد سے وہ دنیا میں امن اورسلامتی کا ماحول قائم کر سکیں۔ سچا انسان وہ ہے جو جنگ کے وقت بھی امن کی بات سوچے، جو لڑائی کے ہنگاموں میں بھی سلامتی کا جذبہ اپنے دل میں لیے ہوئے ہو۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ مثبت سوچ (positive thinking) کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، جنگ تمام منفی واقعات میں سب سے بڑا منفی واقعہ ہے۔ پیغمبر عین اس کے کنارے کھڑا ہوا ہے مگر اُس کی زبان سے خون اور تشدد کے بجائے امن اور سلامتی کے الفاظ نکل رہے ہیں۔ یہ بلاشبہہ اعلیٰ ترین انسانی صفت ہے۔ اعلیٰ انسان وہ ہے جو تشدد کے درمیان بھی امن کی بات سوچے، جو جنگ کے حالات میں بھی صُلح کامنصوبہ بنائے۔
اللہ کا نام سلامتی
قرآن میںاللہ کے مختلف نام (یا صفات) بتائے گئے ہیں۔ اُن میں سے ایک السلام ہے، یعنی سلامتی۔ گویا خدا خود سلامتی کا مظہر ہے، خدا خود سلامتی کا پیکر ہے۔ خدا کو امن و سلامتی اتنا زیادہ پسند ہے کہ اُس نے اپنا ایک نام السلام رکھا۔
اس آیت کی تفسیر میں الخطابی نے لکھا ہے کہ : معناہ الذی سلم الخلق من ظلمہٖ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، الجزء ۱۸، صفحہ ۴۶) یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہستی جس کے ظلم سے لوگ محفوظ رہیں۔ لوگوں کو جس سے سلامتی کا تجربہ ہو، نہ کہ تشدد کا۔
خدا کی حیثیت اعلیٰ ترین معیار کی ہے۔ جب خداکا برتاؤ انسانوں سے امن اور سلامتی پر مبنی ہو توانسانوں کو بھی دوسرے انسانوں کے ساتھ اسی برتاؤ کا معاملہ کرنا چائیے۔ ہر انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ امن وسلامتی کا برتاؤ کرنا چاہئے، نہ کہ اس کے خلاف سختی اور تشدد کا۔
طاقتور کون
ایک حدیث کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لیس الشدید بالصرعۃ، انما الشدید الذی یملک نفسہ عند الغضب (البخاری، کتاب الادب، مسلم، کتاب البرّ، مؤطا کتاب الجامع، مسند احمد)۔ یعنی طاقت ور وہ نہیں ہے جو کُشتیمیں لوگوں کو پچھاڑ دے۔ طاقتور صرف وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔
غصہ کے وقت غصہ کو روکنا سلف کنٹرول (self control) کی علامت ہے۔ اور سلف کنٹرول بلاشبہہ سب سے بڑی طاقت ہے۔ ایسے موقع پر سلف کنٹرول آدمی کو غلط کارروائیوں سے بچاتا ہے۔ اورجس آدمی کے اندر سلف کنٹرول کی طاقت نہ ہو، وہ غصہ کے وقت بپھر اُٹھے گا، یہاں تک کہ وہ متشددانہ کارروائی کرنے لگے گا۔ غصہ کو قابو میں رکھناامن پسند انسان کا طریقہ ہے اور غصہ کے وقت بے قابو ہوجانا تشدد پسند انسان کا طریقہ۔
ایک آدمی کی لڑائی دوسرے آدمی سے ہو اور وہ اُس کو لڑائی میںپچھاڑ دے تو یہ صرف اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسرے آدمی کے مقابلہ میں پہلا آدمی جسمانی اعتبار سے زیادہ طاقتور تھا۔ مگر جسمانی طاقت ایک محدود طاقت ہے۔ اس کے مقابلہ میں جس شخص کا یہ حال ہو کہ اُس کے اندرغصہ بھڑکے مگر وہ اپنے غصہ پر کنٹرول کرلے اور غصہ دلانے والے کے ساتھ معتدل اندازمیں معاملہ کرے، ایسا آدمی زیادہ بڑی طاقت کا مالک ہے۔ اُس کی یہ روش اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ عقل کی طاقت رکھتا ہے، اور عقل کی طاقت بلا شبہہ جسم کی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے۔ ایسا آدمی اپنی دانش مندانہ منصوبہ کے ذریعہ ہرجنگ کو جیت سکتا ہے، بغیر اس کے کہ اُس نے ایک انسان کا بھی خون بہایا ہو۔
سماجی امن کا فارمولا
سماجی امن کا فارمولاکیا ہے اور کسی سماج میں معتدل حالات کو کس طرح برقرار رکھا جاسکتا ہے، اس کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان الفتنۃ نائمۃ لعن اللہ مَن أیقظہا (حدیث) یعنی فتنہ سویا ہوا ہے۔ اس شخص پر اللہ کی لعنت ہے جو سوئے ہوئے فتنہ کو جگائے۔
یہ سماجی امن کا ایک فطری فارمولا ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہر آدمی کے اندر اَنا(ego) کا جذبہ موجود ہے۔ اور اَنا کا جذبہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کو چھیڑا جائے تو وہ بہت جلد بھڑک اٹھے گا اور فساد برپا کرے گا۔ مگر فطرت نے اس جذبہ کو ہر آدمی کے سینہ میںسُلا دیا ہے۔ وہ ہر انسان کے اندر موجود ہے مگر تخلیقی نظام کے تحت وہ خوابیدہ حالت میں ہے۔ ایسی حالت میںکسی سماج کو پُر امن سماج بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ لوگوں کے سینے میں سوئی ہوئی انانیت کو سویا رہنے دیا جائے۔
سماجی امن کو وہی لوگ درہم برہم کرتے ہیں جن کی انانیت کو بھڑکا دیا گیا ہو۔ اگر اَنانیت کو بھڑکانے سے بچا جائے تو سماج کا امن بھی تباہ نہ ہوگا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سماجی امن کا قیام خود آپ کے اپنے بس میں ہے، نہ کہ دوسروں کے بس میں۔ آپ اپنے مثبت رویہ سے دوسروں کی اَنا کو نہ چھیڑیے، اور پھر یقینی طورپر آپ اُن کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
خاموشی میںنجات
حدیثوں میںمختلف انداز سے خاموشی کی اہمیت بتائی گئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: من صمت نجا (الترمذی، کتاب القیامۃ، الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد) یعنی جو شخص چُپ رہا اُس نے نجات پائی۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی بولنا چھوڑ دے، وہ بالکل خاموش رہے۔ اس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ آدمی خاموش رہ کر سوچے، وہ پہلے خاموش رہ کر معاملہ کو سمجھے، اس کے بعد وہ بولے۔ یہ بلا شبہہ ایک بہترین طریقہ ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ باقاعدہ اپنی تربیت کرکے یہ عادت ڈالے کہ وہ بولنے سے زیادہ خاموش رہے۔ وہ بولے تو اُس وقت بولے جب کہ وہ سوچنے کا کام کر چکا ہو۔
یہ تربیت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ روزانہ کے معمول کی بات چیت میںوہ بالقصد اپنے آپ کواس کا عادی بنائے۔ اگر آدمی اپنی روزمرہ کی معمولی بات چیت میں یہ عادت ڈال لے تو اپنی اس عادت کی بناپر وہ اس وقت بھی ایسا ہی کرے گا جب کہ خلاف معمول کوئی بات پیش آگئی ہو۔
عام طورپر لوگ یہ کرتے ہیں کہ جب اُن کے سامنے کوئی بات آتی ہے تو فوری طورپر اُس کا جو جواب اُن کے ذہن میں آتا ہے، اُس کو اپنی زبان سے بولنا شروع کردیتے ہیں۔ یہ طریقہ درست نہیں۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے سوچنے کا عمل کیا جائے اور پھر اُس کے بعد بولنا شروع کیاجائے۔ جو لوگ ایسا کریں وہ اس انجام سے بچ جائیں گے کہ وہ اپنے بولے ہوئے الفاظ پر پچھتائیں۔ وہ اپنے کہے ہوئے بول کو لوٹانا چاہیں، حالاںکہ کسی کا کہا ہوا بول دوبارہ اُس کی طرف لوٹنے والا نہیں۔
عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ جب کوئی خلاف مزاج بات سامنے آتی ہے تو آدمی بھڑک کر ناپسندیدہ انداز میں کلام کرنے لگتا ہے۔ اس سے بچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ روز مرہ کی معمولی بات چیت میں آدمی اس کی عادت ڈالے کہ وہ پہلے سوچے اور پھر بولے۔ جب ایسا ہوگا کہ معمول کی بات چیت میںوہ بولنے سے پہلے سوچنے کا عادی ہو جائے گا تو وہ اپنی اس عادت کی بنا پر خلاف معمول بات چیت میں بھی اسی طریقہ پر کار بند رہے گا۔ عام بات چیت میں اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولنے کی عادت اُس کو اس قابل بنا دے گی کہ وہ ہنگامی مواقع پر بھی اپنے آپ پر کنٹرول رکھ کر بولے، وہ ذہنی ڈسپلن کے ساتھ بات چیت کرے۔
دنیا کے اکثر فتنے الفاظ کے فتنے ہیں۔ کچھ الفاظ نفرت اور تشدد کے جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے الفاظ امن اور انسانیت کا ماحول قائم کرتے ہیں۔ اگر آدمی صرف یہ کرے کہ وہ بولنے سـے پہلے سوچے اور اپنے جذبات کو قابو میں رکھ کر بولے تو بیشتر فتنے پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجائیں گے۔
اپنے آپ کو قابو میںرکھ کر کلام کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ یہ صفت ان لوگوں میں ہوتی ہے جو اپنے آپ پر نظر ثانی کرتے رہیں، جو اپنے قول و عمل کا حساب لیتے رہیں۔
آدمی کو چاہیے کہ جب وہ کوئی بات سُنے تو وہ فوراً اُس کا جواب نہ دے، وہ فوراً اپنا رد عمل پیش نہ کرے۔ وہ ایک لمحہ کے لیے ٹھہر کر سوچے کہ کہنے والے نے کیا بات کہی ہے اور میری طرف سے اس کا بہتر جوا ب کیا ہوسکتا ہے۔ بات کو سن کر ایک لمحہ کے لیے ٹھہرنا اس بات کی یقینی ضمانت ہے کہ وہ سنی ہوئی بات کادرست جواب دے گا، وہ پتھر کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے پتھر کا جواب پھول سے دینے میں کامیاب ہوجائے گا۔
دشمن سے ٹکراؤ نہیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدو،وسلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر)۔ یعنی دشمن سے مڈبھیڑ کی تمنا نہ کرو، تم اللہ سے امن مانگو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اگر تمہارا دشمن بن جائے تو ایسا نہ کرو کہ تم بھی اُس کے دشمن بن کر اُس سے لڑناشروع کردو۔ بلکہ فریق ثانی کی دشمنی کے باوجود تم اُس کے ساتھ اعراض کا طریقہ اختیار کرو۔ دشمنی کے حالات کے باوجود تمہارا طریقہ لڑائی سے بچنے کاہونا چاہیے، نہ کہ اپنے آپ کو لڑائی میں پھنسالینے کا۔
اللہ سے امن مانگوــــــــکا مطلب یہ ہے کہ تم ٹکراؤ کے بجائے امن کا راستہ اختیار کرو اور اپنی امن پسندانہ کوششوں کے ساتھ خدا کو بھی دعاؤں کے ذریعہ اُس میں شامل کرو۔ تمہاری دعا یہ نہیں ہونی چاہیے کہ خدایا، دشمن کو ہلاک کردے بلکہ یہ ہونی چاہیے کہ خدایا، مجھے توفیق دے کہ میں لوگوں کی دشمنی کے باوجود تشد د اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کروں بلکہ امن کے راستہ پر اپنی زندگی کا سفر طے کرتارہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ فطرت کے نقشہ کے مطابق، اس دنیا میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور تشدد کی حیثیت صرف ایک استثناء (exception) کی۔ مزید اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر بظاہر کوئی شخص یا گروہ آپ کا دشمن ہو تواُس سے نپٹنے کی صرف یہی ایک شکل نہیں ہے کہ اُس سے مڈبھیڑ کی جائے۔ زیادہ بہتر اور مؤثر شکل یہ ہے کہ امن کی تدبیر سے دشمن کے مسئلہ کا حل نکالا جائے۔ امن کی طاقت تشدد کی طاقت کے مقابلہ میں، زیادہ کارگر بھی ہے اور زیادہ مفید بھی۔
نان وائلنس کا طریقہ
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان اللہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف (مسلم، کتاب البر، ابوداؤد، کتاب الأدب، سنن ابن ماجہ، کتاب الادب، سنن الدارمی ، کتاب الرقاق، مسند احمد ۱؍۱۱۲) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتاہے جو وہ سختی پر نہیں دتیا۔ یہ دراصل فطرت کے اُس قانون کا بیان ہے جو خُدا نے موجودہ دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اسی قانون کی بنا پر ایسا ہے کہ جب کوئی شخص نرمی اور عدم تشدد کے حدود میں رہ کر کام کرے تو اُس کا کام زیادہ نتیجہ خیز بن جاتا ہے۔ اور جو شخص سختی اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے اُس کا کام آگے بڑھنے کے بجائے اور پیچھے کی طرف چلا جاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص سختی اور تشدد کا طریقہ اختیار کرے تو اُس کی کوششیں غیرضروری طورپر دو محاذوں میں بٹ جاتی ہیں۔ ایک محاذ، اپنی داخلی تعمیر کا۔ اور دوسرا محاذ، خارجی حریف سے لڑنے کا۔ اس کے برعکس جو شخص نرمی اور عدم تشدد کا طریقہ اختیار کرے، اُس کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی تمام موجود طاقتوں کو صرف ایک محاذ، داخلی تعمیر کے محاذ پر لگائے، اور اُس کے فطری نتیجہ کے طورپر زیادہ بڑ ی ترقی حاصل کرلے۔
اس حدیث میں فطرت کے اس قانون کاذکر ہے جس پر ہماری دنیا کا نظام چل رہا ہے۔ یہاں جو کچھ کسی کو ملتا ہے وہ اسی نظام کے تحت ملتاہے، اس کے بغیر نہیں۔ فطرت کا یہ نظام تمام تر امن اور عدم تشدد کے اصول پر قائم ہے۔ اس لیے یہاں جب بھی کسی کو کچھ ملے گا، امن اورعدم تشدد کے اصول پر ملے گا، اُس سے انحراف کرکے کسی کو کچھ ملنے والا نہیں۔
اختلاف کی حد
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک طرف یہ فرمایا کہ: افضل الجہاد کلمۃ عدل عند سلطان جائر، افضل الجہاد کلمۃ عدل عند امیر جائر (ابوداؤد،کتاب الملاحم، الترمذی، کتاب الفتن، النسائی، کتاب البیعۃ، ابن ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی ظالم حکمراں کے سامنے حق و عدل کی بات کہنا افضل جہاد ہے۔
دوسری طرف حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے فرمایا: من رأی من امیرہ شیاً فکرہہ فلیصبر (البخاری، کتاب الأحکام، مسلم، کتاب الامارہ، الدارمی، کتاب السیر، مسند احمد) یعنی جو شخص اپنے حاکم میںایسی چیز دیکھے جو اُس کو پسند نہ ہو تو وہ اُس پر صبر کرے۔ اسی طرح آپ نے فرمایا: تسمع وتطیع الأمیر وإن ضرب ظہرک وأخذ مالک (صحیح مسلم، کتاب الایمان) یعنی تم اپنے حاکم کی بات سُنو اور اس کی اطاعت کرو، خواہ وہ تمہاری پیٹھ پر کوڑا مارے اور تمہارا مال چھین لے۔
ان حدیثوں میں بظاہر دو قسم کے احکام ہیں۔ ایک طرف یہ حکم ہے کہ تم اپنے حاکم میں کوئی غلط بات دیکھو تو کھُلے طورپر اُس کااعلان کرو۔ دوسری طرف حدیث یہ بتاتی ہے کہ امیر کے اندر تمہیں کوئی غلط بات دکھائی دے تو اُس پر صبرکرو، اگر وہ تمہارے اوپر ظلم کرے تب بھی تم اُس کو برداشت کرو۔
یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے جس سے دو چیزوں کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ اور وہ ہے، اعلان اور اقدام کا فرق۔ یہ ایک مطلوب بات ہے کہ آدمی حکمراں کے اندر کوئی غلط بات دیکھے تو وہ نصیحت اور خیر خواہی کے انداز میںاُس کا اعلان کرے۔ مگر جہاں تک عملی اقدام کا تعلق ہے تو آدمی کو اُس سے مکمل طورپر باز رہنا چاہئے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ نصیحت اور ٹکراؤ کی سیاست میں فرق کرے۔ نصیحت کے جائز حق کو استعمال کرتے ہوئے وہ سیاسی ٹکراؤ سے مکمل طورپر بچے۔
فرق کا یہ اصول بے حد اہم ہے۔ سماج میںجب بھی تشدد کا ماحول بنتا ہے، وہ اُس وقت بنتا ہے جب کہ لوگ حکمراں کے خلاف عملی ٹکراؤ کی مہم شروع کردیں۔ وہ اصلاح سیاست کے نام پر حکمراں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا منصوبہ بنائیں۔ لیکن اگر اس قسم کی نزاعی سیاست سے بچتے ہوئے صرف قولی نصیحت پر اکتفا کیا جائے تو ہمیشہ ایسا ہوگا کہ سماج میں امن قائم رہے گا، سماج کبھی بھی تشدد کا جنگل نہیں بنے گا۔
پُر امن طریق کار زیادہ بہتر
ایک روایت میںبتایا گیا ہے کہ معاملات میںپیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین امرین الااختار أیسرہما (صحیح البخاری، کتاب الأدب) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی معاملہ میں دو میں سے ایک طریقہ کا انتخاب کرناہوتا توآپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان ترکا انتخاب کرتے تھے۔
اختیار أیسر کے اس اصول کو اگر متشددانہ طریقِ کار اور پُر امن طریقِ کار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اُس سے نپٹنے کے لیے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار نہ کیا جائے بلکہ پُر امن طریقِ کار کواختیار کیا جائے۔ کیوں کہ متشددانہ طریقِ کار یقینی طورپر مشکل ہے اور پُر امن طریقِ کار یقینی طورپر آسان۔
تاہم یہ سادہ طورپر صرف آسان اور مشکل کا معاملہ نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں پُر امن طریقہ ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے اور متشددانہ طریقہ یقینی طورپر بے نتیجہ ہے۔ وہ مسئلہ کو حل نہیںکرتا البتہ اُس میں کچھ اور اضافہ کر کے اُس کو مزید پیچیدہ بنادیتا ہے۔ حدیث میںمشکل طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول مشکل ہو۔ اس کے مقابلہ میںآسان سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول آسان اور یقینی ہو۔
لچک کا طریقہ، نہ کہ اکڑ کا طریقہ
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہیــــــــصحیح البخاری، کتاب التوحید، صحیح مسلم، کتاب المنافقین، سنن الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد۔ اس حدیث میں مومن، بالفاظ دیگر، خداپرست انسان کی مثال خامہ سے دی گئی ہے۔ خامہ نرم پودے کو کہتے ہیں۔ حدیث میں بتایا گیا ہے کہ مومن کا حال نرم پودے کی طرح ہے۔ جب بھی ہوا کا کوئی جھونکا آتا ہے تو وہ اُس کے مطابق، جھک جاتا ہے۔ اورجب جھونکا چلا جائے تو وہ دوبارہ اُٹھ جاتا ہے۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو بلا اور مصیبت سے بچا لیتا ہے ۔
اس حدیث کے مطابق، کسی طوفان کا سامنا کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ اُس کے مقابلہ میںاکڑ دکھائی جائے۔ اوردوسرا طریقہ یہ ہے کہ اُس کے مقابلہ میں لچک کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مقابلہ کا ایک طریقہ متشددانہ طریقہ ہے اور دوسرا طریقہ پُر امن طریقہ ۔ خدا کا پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ پہلے طریقہ کو چھوڑ دیا جائے اور دوسرے طریقہ کو اختیار کیا جائے۔
طوفان کے مقابلہ میں جو لوگ اکڑ کا طریقہ اختیار کریں وہ اپنے اس عمل سے ثابت کرتے ہیں کہ وہ انانیت میںمبتلا ہیں۔ اس کے مقابلہ میں امن کا طریقہ تواضع پر مبنی ہے۔ خدا کی اس دنیا میںاَنانیت کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے تباہی ہے اور تواضع کی روش اختیار کرنے والوں کے لیے کامیابی۔ یہی بات حدیث میں ان الفاظ میںکہی گئی ہے: من تواضع رفعہ اللہ۔ یعنی جس نے تواضع کی روش اختیار کی، خدا اُس کو بلندی عطا فرمائے گا۔
پُر امن شہری
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ: المؤمن من أمنہ الناس علی دمائہم واموالہم (الترمذی، کتاب الایمان، النسائی، کتاب الإیمان، ابنِ ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنے خون اور اپنے مال کے معاملہ میں مامون ہوں۔
کسی سماج میں رہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی لوگوں کے درمیان امن کے ساتھ رہے۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسروں سے لڑائی جھگڑا کرتا رہے۔ اس حدیث کے مطابق، ایمانی طریقہ یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے درمیان پُر امن شہری بن کر رہے۔ دوسروں کی جان اور مال اور عزت کے لیے وہ مسئلہ نہ بنے۔ وہ کسی حال میں دوسروں کے خلاف تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔
زندگی کا وہ طریقہ کیا ہے جس میں سماج کے افراد ایک دوسرے کی زیادتیوں سے محفوظ ہوں۔ وہ طریقہ یہ ہے کہ شکایت کے باوجود آدمی اپنی معتدل روش کو برقرار رکھے۔ دوسروں سے شکایت کو وہ اپنے سینے میں دفن کردے، وہ اپنے سینے کی آگ کو دوسروں کے اوپر انڈیلنے سے بچے۔ اسی قسم کا سماج وہ سماج ہے جہاں لوگ ایک دوسرے سے مامون رہ کر زندگی گذاریں۔ پُر امن سماج معیاری انسانی سماج ہے۔ اس کے برعکس جس سماج میںتشدد ہو وہ حیوانی سماج ہے، نہ کہ انسانی سماج۔
امن پسندی ایک اعلیٰ اخلاق ہے۔ اس کے مقابلہ میں تشدد کا مطلب یہ ہے کہ آدمی انسانی اخلاق کی سطح سے گر کر حیوانی اخلاق کی سطح پر آگیا ہو۔
انتظار بھی حل ہے
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: أفضل العبادۃ انتظار الفرج (الترمذی، کتاب الدعوات)۔ یعنی کشادگی کا انتظار کرناایک افضل عبادت ہے۔
ہر فرد اور ہر گروہ پر ہمیشہ ایسے حالات آتے ہیںجن میں وہ اپنے آپ کو تنگی میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ایسے موقع پر بیشتر لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر تنگی کو ایک مستقل حالت سمجھ لیتے ہیں اوراُس کو فوراً اپنے آپ سے دور کرنے کے لیے حالات سے لڑنا شروع کردیتے ہیں۔ اس قسم کی لڑائی ہمیشہ بے فائدہ ثابت ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ صرف یہ ہوتا ہے کہ تنگی پر کچھ اور مشکلات کا اضافہ کر لیا جائے۔
تنگی کبھی ہمیشہ کے لیے نہیں آتی، وہ صرف وقتی طورپر آتی ہے۔ ایسی حالت میں تنگی کے مسئلہ کا آسان حل صرف یہ ہے کہ انتظار کی پالیسی اختیار کی جائے۔ یعنی غیر ضروری طورپر حالات سے لڑائی نہ چھیڑی جائے بلکہ سادہ طورپر انتظار کرو اور دیکھو(wait and see) کی پالیسی اختیار کی جائے۔ اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کا ذہنی سکون برباد نہ ہوگا۔ اور جو کچھ ہونے والا ہے وہ اپنے آپ اپنے وقت پر ہو جائے گا۔
جب کوئی مسئلہ پیش آتا ہے توآدمی یہ چاہنے لگتا ہے کہ فوراً اُس کا حل نکل آئے۔ یہی اصل غلطی ہے۔ آدمی اگر پیش آئے ہوئے مسئلہ کو انتظار کے خانہ میں ڈال دے تو کوئی مسئلہ مسئلہ نہیں۔
خدائی انتباہ، نہ کہ انسانی ظلم
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو بعدکے جن حالات سے پیشگی طورپر آگاہ کیا ہے اُن میں سے ایک یہ ہے کہ بعد کے زمانہ میں مسلم امت دوسری قوموں کی زدمیں آجائے گی۔ چنانچہ فرمایا: یوشک الامم أن تداعیٰ علیکم کما تداعی الأکلۃ الی قصعتہا (ابوداؤد، کتاب الملاحم، مسند احمد) یعنی قریب ہے کہ قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو پکاریں جس طرح کھانا کھانے والے ایک دوسرے کو دسترخوان پر پکارتے ہیں۔
قرائن بتاتے ہیں کہ یہ واقعہ اٹھارویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پیش آیا۔ ابتداء ً یورپ کی نو آبادیاتی قوموں کے ذریعہ یہ واقعہ ہوا۔ اس کے بعد دوسری قومیں اس میںشریک ہوتی چلی گئیں۔ اس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ایسا کیوں ہوا۔ قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ براہ راست خدا کی سنت کے تحت پیش آیا۔ خدا کی سنت یہ ہے کہ قوموں کو جگانے کے لیے اُن پر تنبیہات نازل کی جاتی ہیں۔ یہ گویا شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) ہوتا ہے تاکہ وہ چونکیں اوراپنی اصلاح کریں۔ چنانچہ فرمایا: فلولا اذجاء ہم باسنا تضرعوا ولکن قست قلوبہم و زین لہم الشیطان ما کانوا یعملون (الأنعام ۴۳) یعنی پس جب ہماری طرف سے اُن پر سختی آئی تو کیوں نہ وہ گڑگڑائے۔بلکہ اُن کے دل سخت ہوگئے۔ اور شیطان اُن کے عمل کو ان کی نظر میں خوش نما کرکے دکھاتا رہا۔
اس آیت میںتزئین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب ہیــــایک بُرے کام کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرنا تا کہ اُس کی بُرائی چھپ جائے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے ساتھ عین یہی واقعہ پیش آیا۔ موجودہ زمانہ کے مسلم رہنماؤں نے شعوری یا غیر شعوری طورپر عین وہی کام کیا جس کو مذکورہ آیت میں تزئین کہا گیا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے ساتھ غیر قوموں کی طرف سے جو مسائل پیش آئے وہ خدائی انتباہ (warning) تھے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے ان مسائل کو ظلم اور سازش کی اصطلاحوں میںبیان کرنا شروع کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعہ اس لیے تھا کہ مسلمان اپنی کوتاہیوں کو محسوس کریں اور اپنی داخلی اصلاح میں سرگرم ہوجائیں۔ اس کے بجائے مسلم رہنماؤں کی غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کی ساری سوچ غیر اقوام کی طرف متوجہ ہوگئی۔ جس واقعہ سے احتسابِ خویش کا ذہن پیدا ہونا چاہئے تھا، اس سے احتسابِ غیر کا ذہن جاگ اُٹھا، جو بڑھتے بڑھتے تشدد تک جاپہنچا۔
خاموشی کی طاقت
حضرت عمر فاروق اسلامی تاریخ کے دوسرے خلیفہ ہیں۔ اُن کا ایک قول ان الفاظ میںنقل کیا گیا ہے: أمیتوا الباطل بالصمت عنہ۔ (تم لوگ باطل کو ہلاک کرو اُس کے بارے میں چپ رہ کر)۔
فطرت کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں حق کو زندگی ملتی ہے اور باطل کے لیے موت مقدر ہے ۔ ایسی حالت میں باطل کی ہلاکت کے لیے صرف اتنا کافی ہے کہ اُس کے بارے میں خاموشی اختیار کر لی جائے۔ باطل کے خلاف بولنا یا اُس کے خلاف ہنگامہ کرنا اُس کو زندگی دیتا ہے۔ اور باطل کو نظر انداز کرکے اُس کے بارے میں چپ رہنا اُس کی موت کا سبب بن جاتا ہے۔
باطل کے بارے میںچپ رہنے کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو نظر انداز کیا جائے۔ اُس کے خلاف کسی رد عمل کا اظہار نہ کیا جائے۔ اُس کے مقابلہ میں احتجاج اور صف آرائی کا طریقہ اختیار نہ کیاجائے۔ تاہم ایسا کرنا صرف اُن لوگوں کے لیے ممکن ہے جو فطرت کی طاقت کو جانیں اور اُس پر بھروسہ کرسکیں۔ جو لوگ فطرت کی طاقت کو نہ جانیں، وہی لوگ باطل کے خلاف ہنگامہ آرائی کرکے اُس کو زندگی دینے کا سبب بن جاتے ہیں۔
تشدد مایوسی کا نتیجہ
تشدد محرومی کے احساس کانتیجہ ہے، اورامن یافت کے احساس کا نتیجہ۔ جولوگ اس احساس میں مبتلا ہوں کہ وہ محروم ہیں، دوسروں نے اُن کی چیز اُن سے چھین لی ہے، ایسے لوگ ہمیشہ منفی نفسیات میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور اُن کا یہی احساس اکثر تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس احساس میں جیتے ہوں کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں یافت کا تجریہ کیا ہے، ایسے لوگ ذہنی سکون سے ہم کنار ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ پُر امن زندگی گذارتے ہیں۔
جو فرد یا گروہ دوسروں کے خلاف نفرت کرے، جو دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے، وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محروم سمجھ رہا ہے۔ اس کے برعکس جو فرد یا گروہ امن پسندی کی زندگی گذارے وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ اُس نے اپنی زندگی میں وہ چیز پالی ہے جو اُس کو پانا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ محرومی کا احساس کسی کو کیوں پیدا ہوتا ہے اور وہ کون لوگ ہیںجو ہمیشہ یافت کے احساس میں جیتے ہیں۔
اس دنیا میں سب سے بڑا پانا یہ ہے کہ آدمی نے خدا کو پالیا ہو اور سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ آدمی خدا کو پانے سے محروم ہو۔ خدا کو پانے کے بعد کوئی اور چیز پانے کے لیے باقی نہیں رہتی، اور جو لوگ خدا کو پانے سے محروم ہوں وہ گویا محرومی کی اس آخری حالت پر پہنچ گئے ہیں جہاں محرومی ہی محرومی ہے، اول بھی اور آخر بھی، کوئی بھی چیز اُن کی محرومی کے احساس کو ختم کرنے والی نہیں۔
پازیٹیو اسٹیٹس کوازم
جب بھی کوئی آدمی عمل کرنا چاہے تواُس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے راستہ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایسا ایک فرد کے لیے بھی ہوتا ہے اور پوری قوم کے لیے بھی۔ اب عمل کاایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے رکاوٹوں سے لڑکر اُن کو راستہ سے ہٹا دیا جائے اور اُس کے بعد اپنا مطلوب عمل شروع کیا جائے۔ اس طریقہ کو عام طورپر ریڈیکلزم (radicalism) کہا جاتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ جذباتی لوگوں کو یا انتہا پسند لوگوں کو بظاہر پسند آتا ہے، مگر وہ کسی مثبت مقصد کے لیے مفید نہیں۔ ریڈیکلزم کا طریقہ تخریب کے لیے کار آمد ہے، وہ تعمیر کے لیے کار آمد نہیں۔ ریڈیکلزم کے طریقہ میں صرف موجودہ سسٹم ہی نہیں ٹوٹتا، بلکہ اس عمل کے دوران وہ سماجی روایات ٹوٹ جاتی ہیں جو صدیوں کے درمیان بنی تھیں۔ قتل وخون اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے بے شمار لوگ طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ریڈیکلزم کا طریقہ نظریاتی طورپر بظاہر خوب صورت معلوم ہوتا ہے، مگر عملی انجام کے اعتبار سے اُس میں کوئی خوبی نہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صورت موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ صورت موجودہ (statusquo) کو وقتی طورپر قبول کرتے ہوئے اُن مواقع کواستعمال کیا جائے جو اب بھی موجود ہیں۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میںپازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive statusquoism) کہا جاسکتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ تشدد پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم سماج کے امن کو باقی رکھتے ہوئے اپناکام انجام دیتا ہے۔ ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ مسئلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کا طریقہ سماج میں کوئی مسئلہ پیدا کئے بغیر اپنا عمل انجام دیتا ہے۔ ایک اگر بگاڑ کا راستہ ہے تو دوسرا بناؤ کا راستہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میںاصلاح کاجو طریقہ اختیار کیا اُس کو ایک لفظ میں، پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً اُس زمانہ میں خانۂ کعبہ کے اندر ۳۶۰ بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ مگر قرآن کے ابتدائی دور میں اس قسم کا حکم نہیں اُترا کہ طہر الکعبۃ من الاصنام(کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔ اس کے بجائے اس ابتدائی دور میں قرآن میںجو آیت اُتری وہ یہ تھی: وثیابک فطہّر (المدثر ۴) یعنی اپنے کپڑے کو پاک کرو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے اخلاق کو اور دوسروں کے اخلاق کو درست بناؤ۔
تشدد کا کوئی جواز نہیں
تشدد انسانی فطرت کے خلاف ہے۔ تشدد انسانیت کا قتل ہے۔ تشدد تمام جرموں میں سب سے بڑا جرم ہے۔ اس کے باوجود لوگ کیوں تشددکرتے ہیں۔ اس کی وجہ بالکل سادہ ہے۔ ایسے لوگ خود ساختہ طورپر اپنے لیے تشدد کا ایک جواز(justification) ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وہ بطور خود یہ خیال قائم کرلیتے ہیں کہ فلاں وجہ سے اُن کے لیے تشدد کرناجائز ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ تشدد کا ہر جواز جھوٹا جواز ہے۔ کوئی فرد یا گروہ جب بھی تشدد کرتا ہے، عین اُسی وقت اُس کے لیے عدم تشدد یا پُر امن طریقِ کار موجود ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں تشدد کیوں۔ جب تشدد کے بغیر عمل کرنے کا موقع موجود ہو تو تشدد کیوں کیا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ تشدد مطلق طورپر قابل ترک ہے اور امن مطلق طورپر قابل اختیار۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد نہ کرے، وہ ہر صورت حال میںپر امن طریقِ عمل پر قائم رہے۔
عداوت کے مسئلہ کا حل
بہت سے لوگ یہ خیال کرلیتے ہیں کہ فلاں قوم ہماری دشمن ہے۔ پھر اس مفروضہ کے تحت وہ اُس قوم کے خلاف متشددانہ لڑائی چھیڑ دیتے ہیں تاکہ اُس کی دشمنی کے انجام سے اپنے آپ کو بچا سکیں۔ مگریہ مفروضہ بھی غلط ہے اور اس مفروضہ کی بنیاد پر بنایا جانے والا نقشۂ کار بھی غلط۔
دشمنی ہاتھ کی انگلی کی طرح انسانی وجود کا کوئی مستقل حصہ نہیں۔ وہ انسانی وجود کا ایک اوپری حصہ ہے۔ مثبت تدبیر کے ذریعہ ہر دشمنی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ دشمنی کی مثال ایسی ہے جیسے گلاس کے اوپر لگی ہوئی مٹی۔ ایسی مٹی کونہایت آسانی کے ساتھ پانی سے دھوکر صاف کیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ گلاس میںمٹی کا لگنا مسئلہ نہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے پاس مٹی کو دھونے کے لیے صاف پانی نہ ہو۔
تالی ہمیشہ دو ہاتھ سے بجتی ہے، ایک ہاتھ سے کبھی تالی نہیں بجتی۔ اسی طرح دشمنی ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اگر کوئی شخص آپ کا دشمن بنے تو آپ خود اُس کے دشمن نہ بنیں۔ اس کے بعد دشمنی اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ دشمن کے ساتھ دشمنی نہ کرنا ہی دشمنی کے مسئلہ کا سب سے زیادہ کار گر عمل ہے۔
ہتھیار جمع کرنا بے فائدہ
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک کامیاب تاجر ہیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ میرا گھر شہر کے ایک ایسے کنارہ پر ہے جہاں سے غیر قوم کی آبادی شروع ہوجاتی ہے۔ میںنے سوچا کہ مجھے اپنی اوراپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میںنے پیسہ خرچ کرکے اپنے گھر کے ہر فرد کے لیے لائسنس بنوایا اور پھر گھر کے ہر فرد کے نام گن اور ریوالور حاصل کر لیا۔ اب میںاپنے آپ کو اور اپنے خاندان کومحفوظ سمجھتا ہوں۔ اب مجھے دنگے اور فساد کا کوئی ڈر نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ تجارت کااصول جانتے ہیں مگرآپ سماجی زندگی کے اصول کو نہیں جانتے۔ سماجی تحفظ کا ذریعہ گن اور ریوالور نہیںہے۔ سماجی تحفظ کا اصول یہ ہے کہ آپ دوسروں کے لیے بہترین پڑوسی بن کر رہیں۔ آپ دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں۔ اس کے بعد لازمی طورپر ایسا ہوگا کہ آپ دوسروں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔ اگرآپ دوسروں سے نفرت کریں تو دوسروں کی طرف سے بھی آپ کو نفرت ملے گی اور اگر آپ کے دل میں دوسروں کے لیے خیر خواہی ہو تو دوسروں کی طرف سے بھی آپ کو محبت اور خیر خواہی کا تحفہ ملے گا۔
میں نے کہا کہ اگر آپ کے گھر کے سامنے غیر قوم کی بھیڑ اکٹھا ہوجائے او رآپ اپنی بالکنی پر کھڑے ہو کر اُس کے اوپر گولی چلادیں تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ بس اتنے ہی پر معاملہ ختم ہوجائے گا۔ ہرگز نہیں۔ آپ کو جاننا چاہیے کہ انسانوں کے اوپر گولی چلانا آپ کے لیے قابل دست اندازی پولیس جرم (cognizable offence) کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ جب بھی ایسا ہوگا تو پولیس فوراً وہاں آجائے گی اورآپ ہر گز پولیس سے لڑ نہیں سکتے۔
آپ کو جاننا چاہیے کہ آپ کے پاس گن ہونا اور پولیس کے پاس گن ہونا دونوں میں بے حد بنیادی فرق ہے۔ آپ گن رکھنے کے باوجود کسی کو گولی مارنے کا قانونی حق نہیں رکھتے۔ لیکن پولیس کے پاس گن ہے تو وہ گولی مارنے کا قانونی حق بھی رکھتی ہے۔ غیر قوم کے مقابلہ میں بظاہر مقابلہ دو مساوی فریق کے درمیان نظر آتا ہے مگر جب معاملہ آپ کے اور پولیس کے درمیان کا ہوجائے تو یہ مقابلہ مکمل طورپر غیرمساوی ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں آپ کا گولی چلانا اپنے نتیجہ کے اعتبار سے،آبیل مجھے مار کی حیثیت رکھتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کا اقدام تحفظ نہیں ہے بلکہ وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے صرف ہلاکت کی حیثیت رکھتا ہے۔
ضمیر بہترین جج ہے
ایک شہر میںایک مسلمان نے اپنے لیے نیا گھر بنایا۔ گھر سے ملی ہوئی ایک زمین کو انہوں نے حصار بناکر اپنے گھر میں داخل کرلیا۔ اُن کے پڑوس میںایک ہندو ٹھیکہ دار تھا۔ اس ہند و ٹھیکہ دار کا دعویٰ تھا کہ یہ زمین اُس کی ہے۔ چنانچہ اُس نے شہر کے کٹّر ہندوؤں سے مل کر انہیں بھڑکایا۔ یہاں تک کہ ایک دن ہندوؤں کی ایک بھیڑ گھر کے سامنے سڑک پر اکٹھا ہوگئی، اور نعرے لگانے لگی۔
مذکورہ مسلمان کے پاس اُس وقت دو بندوقیں تھیں۔ مگر اُنہوں نے بندوق نہیںاُٹھائی۔ وہ تنہا اور خالی ہاتھ گھر سے نکل کر باہر آئے۔ انہوں نے نعرہ لگانے والی بھیڑ سے کچھ نہیں کہا۔ اُنہوں نے صرف یہ پوچھا کہ آپ کا لیڈر کون ہے۔ ایک صاحب جن کا نام مسٹر سونڈ تھا، آگے بڑھے اور کہا، وہ میںہوں، بتائیے کہ آپ کو کیا کہنا ہے۔ مسلمان نے بھیڑ سے کہا کہ آپ لوگ یہاںٹھہریئے اور مسٹرسونڈ کولے کر گھر کے اندر آگئے۔ اُن کو کمرہ میں لاکر اُنہیں کُرسی پر بٹھادیا۔
اس کے بعد مسلمان نے کہا کہ مسٹر سونڈ آپ لوگ کس سلسلہ میں یہاں آئے ۔ مسٹر سونڈ نے غصہ میں کہا کہ آپ نے ایک ہندو بھائی کی زمین پر قبضہ کرلیا ہے، ہم اسی کے لیے یہاں آئے ہیں۔ مسلمان نے نرمی کے ساتھ کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ زمین کاغذ پر ہوتی ہے۔ زمین کا فیصلہ کاغذ کو دیکھ کر کیا جاتا ہے۔ آپ ایسا کیجئے کہ میرے پاس جو کاغذات ہیںاُن کو لے لیجئے اور ٹھیکہ دار صاحب کے پاس جو کاغذات ہیں اُن کو بھی لے لیجئے۔ اور پھر نہایت اطمینان کے ساتھ اپنے گھر چلے جائیے۔ اس معاملہ میں میں آپ ہی کو جج بناتا ہوں۔ آپ کاغذات کو دیکھنے کے بعد جو بھی فیصلہ کردیں وہ مجھے بلا شرط منظور ہوگا۔
یہ سُن کر مسٹر سونڈ بالکل نارمل ہوگئے۔ وہ غصہ کی حالت میں اندر گئے تھے اور ہنستے ہوئے باہر نکلے۔ اُنہوں نے سڑک پرکھڑی ہوئی بھیڑ سے کہا کہ تم لوگ اپنے گھروں کو واپس جاؤ۔ میاں جی نے خود ہم کو جج بنا دیا ہے۔ اب ہم دونوں کے کاغذات دیکھ کر فیصلہ کریںگے۔ مسٹر سونڈ نے اس کے بعد گھر جاکر دونوں کے کاغذات کو دیکھا اور معاملہ کو اچھی طرح سمجھا۔ چند دن کے بعد اُنہوں نے صد فی صد مسلمان کے حق میںاپنا فیصلہ دے دیا۔
مذکورہ مسلمان اگر اپنی بندوق کو لے کر بھیڑ کے اوپر گولی چلاتے تو وہ بھیڑ کے نفس امارہ (انانیت) کو جگادیتے۔ اور پھر یقینی طورپر سارامعاملہ مسلمان کے خلاف ہوجاتا۔ مگر جب انہوں نے گن کے بجائے معقولیت کو استعمال کیا تواُس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں کا نفس لوّامہ (ضمیر) جاگ اُٹھا۔ اور جب ضمیر جاگ اُٹھے تو اُس کا فیصلہ ہمیشہ انصاف کے حق میں ہوتا ہے، ضمیر کبھی ظلم اور بے انصافی کا فیصلہ نہیںکرتا۔
فتح بھی شکست ہے
شاہ پائرس (King Pyrrhus) تیسری صدی قبل مسیح کا ایک یونانی بادشاہ تھا۔ اُس کی لڑائی رومیوں سے ہوئی۔ اس جنگ میں آخر کار شاہ پائرس کو رومیوں کے اوپر فتح حاصل ہوئی۔ مگر لڑائی کے دوران شاہ پائرس کی فوج اور اُس کے ملک کی اقتصادیات بالکل تباہ ہوچکی تھی۔ شاہ پائرس کے لیے یہ بظاہر فتح تھی مگر وہ اپنے نتیجہ کے اعتبار سے شکست کے ہم معنیٰ تھی۔ اس تاریخی واقعہ کی بنا پر ایک اصطلاح مشہور ہوئی ہے جس کو پرک وکٹری (Pyrrhic Victory) کہا جاتا ہے، یعنی بظاہر فتح مگر اپنی حقیقت کے اعتبا رسے مکمل شکست۔
جنگوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اکثر فتح پِرک فتح ہی ہوتی ہے۔ ہر فاتح کے حصہ میں دو نقصان کا پیش آنا لازمی ہے۔ ایک، جان اور مال کی تباہی۔دوسرے ،مفتوح کے دل میں فاتح کے خلاف نفرت۔ کوئی بھی فاتح ان نقصانات سے بچ نہیں سکتا۔ اگر فرق ہے تو صرف یہ کہ کوئی فاتح اس نقصان کو فوراً بھگتتا ہے ، اور کسی فاتح کے حصہ میں یہ نقصان کسی قدر دیر کے بعد آتا ہے۔
نقصان کا یہ معاملہ صرف پُرتشدد طریقِ کار کے ساتھ وابستہ ہے۔ پُر امن طریقِ کار کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ پُر امن طریقِ کار میں صرف فتح ہے، پُر امن طریقِ کار میںشکست کا کوئی سوال نہیں۔ حتیٰ کہ اگر پُر امن طریقِ کار کا نتیجہ بظاہر شکست کی صورت میں نکلے تب بھی وہ فتح ہے۔ اس لیے کہ پُر امن طریقِ کار کی صورت میں آدمی جنگ کو کھوتا ہے مگر وہ مواقع کو نہیں کھوتا۔ مواقع اور امکانات اب بھی اُس کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ وہ ان مواقع کو استعمال کرکے دوبارہ ایک نئی جدوجہد شروع کرسکتا ہے اور از سرِ نو اپنی کامیابی کی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔
شکایت کو فوراً ختم کرنا
شکایتی مزاج ایک قاتلانہ مزاج ہے۔ شکایتی مزاج آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کو مثبت سوچ سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس قسم کا مزاج بلاشبہہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اکثر تشددکے پیچھے شکایتی مزاج ہی کام کرتاہوا نظر آتاہے۔
موجودہ دنیا کا تخلیقی نظام کچھ اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازماً ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایسے موقع پر کرنے کا کام یہ ہے کہ شکایت کا خیال آتے ہی فوراً اُس کو اپنے دماغ سے نکال دیا جائے۔ شکایت جب پیدا ہوتی ہے تو پہلے وہ آدمی کے شعوری ذہن (conscious mind) میں ہوتی ہے۔ اگر اُس کو یاد رکھا جائے یا بار بار دہرایا جائے تو وہ دھیرے دھیرے آدمی کے غیرشعوری ذہن (unconscious mind) میںچلی جاتی ہے۔ اوراس طرح بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے بعد کسی طرح اُس کو نکالا نہیں جاسکتا۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ شکایت کے معاملہ میں وہ ’’گُربہ کشتن روز اول‘‘ کا معاملہ کیا جائے۔ شکایت پیدا ہوتے ہی اس کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اگر پہلے ہی مرحلہ میںاُس کو ختم نہ کیا جائے تو دھیرے دھیرے وہ آدمی کی نفسیات کا مستقل جزء بن جائے گی۔ اس کے بعد آدمی کی سوچ منفی سوچ بن جائے گی۔ وہ دوسروں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا۔اگر موقع ہو تو وہ دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے گا۔ یہاں تک کہ وہ زیر شکایت لوگوں سے عملی ٹکراؤ شروع کردے گیا، خواہ اس کا نتیجہ برعکس صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔
شکایت کو پہلے ہی مرحلہ میںختم کرنے کا فارمولا کیا ہے، وہ فارمولا قرآن کے الفاظ میں یہ ہے: وماأصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم (الشوریٰ ۳۰) یعنی جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آپ کو دوسرے کے خلاف شکایت پیداہو تو فوراً آپ کویہ کرنا چاہیے کہ شکایت کا رُخ اپنی طرف کرلیں۔ معاملہ کی کوئی ایسی توجیہہ ڈھونڈیں جس میںقصور خود آپ کا نکلتاہو۔ جب آپ کو یہ احساس ہوگا کہ کوتاہی خود آپ کی ہے، نہ کہ کسی غیر کی تو ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ آپ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں لگ جائیں گے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کے خلاف فریاد اور احتجاج میںوقت ضائع کریں گے۔
واپس اوپر جائیں