Pages

Wednesday 1 October 2003

Al Risala | October 2003 (الرسالہ،اکتوبر)

1

- صد اصول


صد اصول

— 001علم کی اہمیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ۵۷۰ ء میں عرب کے شہر مکہ میں پیداہوئے۔۶۱۰ ء میں جب کہ آپ کی عمر ۴۰ سال کی ہوگئی توآپ کو خدا نے نبوت عطا فرمائی۔ خدا کی طرف سے پہلی وحی جوآپ پر آئی وہ یہ تھی: پڑھ، اپنے رب کے نام سے جس نے تم کو پیدا کیا۔ انسان کو علق سے پیدا کیا۔ پڑھ، اور تمہارا رب کریم ہے۔ اس نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا (العلق)
حقیقت یہ ہے کہ علم تمام انسانی ترقیوں کا آغاز ہے۔ انسان کو خدا نے بظاہر ایک حیوان کے روپ میں پیدا کیا ہے ۔مگر انسان کو ایک امتیازی صلاحیت دی گئی ہے اور وہ اس کا دماغ ہے۔ انسانی دماغ میں لامحدود حد تک غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے۔ اس صلاحیت کو بیدار کرنے کے لیے علم کی ضرورت ہے۔ علم کی مدد سے انسانی دماغ ترقی کرتا ہے اور بڑھتے بڑھتے اعلیٰ ترین درجہ تک پہنچ جاتا ہے۔
علم کے ذریعہ آدمی تاریخ کو جانتا ہے۔ وہ فطرت کے رازوں کو دریافت کرتا ہے۔ وہ چیزوں کی ظاہری سطح سے گزر کر ان کی حقیقت تک پہنچ جاتاہے۔ علم کی یہ اہمیت ایک انسان کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ دوسرے انسان کے لیے۔
— 002علم حاصل کرو
پیغمبر اسلام نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور ہر مسلمان عورت پر فرض ہے۔ اس حدیث سے اسلام میں علم کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ خدا کی معرفت علم کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اس لیے علم سیکھنے کو فرض قرار دیا گیا۔ علم آدمی کے شعور کو بڑھاتا ہے۔ علم سے آدمی کے ذہن کی کھڑکیاں کھلتی ہیں۔ علم سے سوچ کا دائرہ وسیع ہوتا ہے۔علم کے ذریعہ آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہری حقیقتوں کو سمجھ سکے، وہ دوسروں کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر اپنے ذہنی معیار کو بلند کرسکے۔
مذہبی اور روحانی ارتقاء کے لئے علم لازمی طورپر ضروری ہے۔ علم کے ذریعہ ذہن میں پختگی آتی ہے۔ علم کے ذریعہ فکری ارتقاء کا عمل جاری ہوتاہے۔ علم کے بغیر آدمی نہ مقدس کتابوں کو پڑھ سکتا ہے اور نہ تاریخ اور کائنات کے بارے میں زیادہ باخبر ہوسکتا۔ علم آدمی کو حیوان کی سطح سے اٹھا کر انسان کی سطح پرپہنچا دیتا ہے۔
— 003سیکھنے کا مزاج
خلیفہ ثانی عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ملنے والے سے کچھ نہ کچھ سیکھتے تھے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کے اندر سیکھنے کاعمل (learning process) ہمیشہ جاری رہتا تھا۔
ایسا کیوں کر ہوتا ہے۔ وہ اس طرح ہوتا ہے کہ آدمی جب بھی کسی سے ملے تو کھلے ذہن کے ساتھ ملے۔ وہ اس کو سکھانے سے زیادہ اس سے سیکھنے کی کوشش کرے۔ سیکھنے کے اس عمل کو مفید طورپر جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی متعصبانہ سوچ سے پاک ہو، وہ بڑائی کے جذبہ میں نہ جیتا ہو۔ اس کی نفسیات یہ ہو کہ جو کچھ مجھے ملے گا اس کو فوراً لے لوں گا۔ جب بھی میری کوئی غلطی مجھ پر واضح کی جائے گی تو میں فوراً اس کا اعتراف کرکے اپنے کو صحیح کر لوں گا۔
سیکھنے کے عمل کو مفید بنانے میں اگر سکھانے والے کا کردار اہم ہے تو اس سے بھی زیادہ اس میں سیکھنے والے کے کردار کا دخل ہے۔ سیکھنے والے میں جتنا زیادہ صحیح مزاج ہوگا اتنا ہی زیادہ وہ دوسروں سے لینے میںکامیاب رہے گا ۔دنیا میں ہر لمحہ علم اور معرفت کی بارش ہو رہی ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ آدمی کے پاس اس کو لینے کا برتن (container) موجود ہو۔
— 004علم کا خزانہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ حکمت مومن کا گمشدہ مال ہے، جہاں وہ اس کو پائے تو وہ اسی کا ہے۔ یہ حدیث علم کی آفاقیت کو بتاتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم خواہ کہیں بھی ہو یا کسی کے پاس بھی ہو وہ یکساں طورپر سارے انسانوں کا حصہ ہے۔
علم ایک مشترک خزانہ ہے۔ علم کسی کی اجارہ داری نہیں، علم ہر قسم کے تعصب سے بلند ہے۔ علم سورج کے مانند ہے جس سے روشنی لینے کا حق جتنا کسی ایک کو ہے اتنا ہی حق دوسرے کو بھی ہے۔
علم کے معاملہ میںآفاقیت کا یہ تصور بے حد ضروری ہے۔ اس تصور کے بغیر علم کی ترقی ممکن نہیں۔ علم کا خزانہ اتنا زیادہ وسیع ہے کہ خواہ اس کو کتنا ہی زیادہ استعمال کیا جائے، اس میں کوئی کمی نہیں آتی۔ علم ایک ایسا اَتھاہ سمندر ہے جو ہر طالب کی پیاس بجھاتا ہے۔ مگر اس کا اپنا ذخیرہ اس کے بعد بھی اتنا ہی زیادہ باقی رہتا ہے جتنا کہ وہ اس سے پہلے تھا۔
— 005 علم کا حصول
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم حاصل کرو، خواہ وہ چین میں ہو۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کے حصول میںکسی بھی قسم کے تعصب یا کسی بھی قسم کے عذر کو رکاوٹ نہیں بننا چاہئے۔
قدیم زمانہ میں چین کا سفر ایک مشکل سفر سمجھا جاتا تھا۔ اس لئے یہ کہنا کہ علم حاصل کرو خواہ وہ چین میںہو، یہ معنی رکھتا ہے کہ ہر مشکل کو برداشت کرکے علم سیکھو۔ کسی بھی چیز کو اس معاملہ میں رکاوٹ نہ سمجھو۔ علم کے بغیر انسان گویا خام لوہا (ore) ہے۔ یہ علم ہے جو انسان کو اسٹیل بناتا ہے۔زندگی کے سادہ پہلو کو آدمی علم کے بغیر بھی سمجھ سکتا ہے۔ لیکن زندگی کی گہرائیوں تک پہنچنا علم کے بغیر ممکن نہیں۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علم کے لیے سفر کرنا ضروری ہے۔ سفر کے بغیر علم میں کوئی بڑا اضافہ نہیں ہوسکتا۔ سفر آدمی کے ذہنی افق کو بڑھاتا ہے۔ سفر آدمی کو مقامی علم سے اٹھا کر عالمی علم تک پہنچا دیتا ہے۔
— 006علم کا تحفہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے اچھا تحفہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو تعلیم دے۔ دوسرا کوئی بھی تحفہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے مگر علم کا تحفہ ایک ایسی چیز ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہر آدمی کا پہلا مدرسہ اس کا اپنا گھر ہے۔ اس مدرسہ کے ٹیچر خود بچے کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ اس حدیث سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ماں باپ کو سب سے پہلے خود صاحب علم ہونا چاہئے کیوں کہ ماں اور باپ اگر صاحب علم نہ ہوں تو وہ نہ علم کی اہمیت کو سمجھیں گے اور نہ اپنی اولاد کو تعلیم دینے میں صحیح طورپر اپنا حصہ ادا کرسکیں گے۔دوسری بات یہ کہ گھر کسی بچے کے لیے صرف پرورش کا مقام نہیں ہے بلکہ وہ اس کی تعلیم و تربیت کا مقام بھی ہے۔ ہر گھر کو تعلیم و تربیت کاایک ادارہ ہونا چاہئے ۔اس کے بغیروہ گھر ایک ادھورا گھر ہے نہ کہ مکمل معنوں میں گھر۔
— 007علم کی برتری
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شہید کے خون کے مقابلہ میںعالم کے قلم کی روشنائی زیادہ افضل ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی عظمت تمام دوسری چیزوں سے زیادہ ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ علم کا تعلق ذہن سے ہے۔ علم سے ذہن کو تندرستی ملتی ہے، ذہنی سوچ میںاضافہ ہوتا ہے، علم سے یہ ممکن ہوتا ہے کہ ذہن معاملات کو زیادہ بہتر طورپر سمجھے اور زیادہ بہتر طورپر عمل کی منصوبہ بندی کر نے کے قابل ہوجائے۔
کوئی بھی جسمانی عمل ایک محدود عمل ہے۔ ایک مقام تک پہنچ کر جسمانی عمل کی حد آجاتی ہے مگر علم کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ جس آدمی کو علم حاصل ہو اس کی شخصیت بے پناہ حد تک وسیع ہوجائے گی۔ وہ ہر قید سے باہر آکر سوچنے کے قابل ہوجائے گا۔ وہ ایک ایسا انسان بن جائے گا جس کو کوئی زیرنہ کرسکے۔ جس طرح علم کی کوئی حد نہیں اسی طرح اس انسان کی بھی کوئی حد نہیں جو علم کی دولت کا مالک ہوجائے۔
— 008علم کا ریکارڈ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم کو کتابت کے ذریعہ محفوظ کرو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو علم تمہارے ذہن میں ہے اس کو کاغذ پر لکھ لو۔ اس طرح وہ اپنی صحیح شکل میںہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔
اس تعلیم کا ایک استعمال یہ ہے کہ علم کو کتابوں میں منتقل کیا جائے ۔ ہر علمی موضوع پر کتابیں لکھ کر تیار کی جائیں۔ علم کو دماغ سے نکال کر لائبریری کی صورت میں ذخیرہ کردیا جائے۔
اس معاملہ کی ایک صورت وہ بھی ہے جس کو ڈائری کہا جاتا ہے۔ اس طرح اس تعلیم کی ایک پیروی یہ بھی ہوگی کہ ہر آدمی اپنی ایک ڈائری رکھے۔ وہ اپنے روزانہ کے مطالعہ اور تجربہ کو مختصر طورپر اس میں تاریخ وار درج کرتا رہے اس طرح ہر آدمی کے علمی سفر کا ایک روزنامچہ تیار ہوتا رہے گا۔
یہ ڈائری آدمی کے روزانہ ذہنی سفر کا ایک ریکارڈ ہوگی،وہ اپنے احتساب کا ایک مؤثر ذریعہ ہوگی۔ آدمی اپنی ڈائری کے ذریعہ اپنی کامیابی اور ناکامی کو جان کر اپنی اصلاح کرتا رہے گا۔ اس طرح ڈائری اس کی شخصیت کے ارتقاء کا ذریعہ بن جائے گی۔
— 009علم برائے علم
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ علم کو گہوارہ مادر سے لے کر قبر تک حاصل کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ علم کسی وقتی نفع یا کسی وقتی جاب کے لیے نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک مستقل عمل ہے جو انسان کی پیدائش سے لے کر اس کی موت تک جاری رہتا ہے۔لہذا علم اپنے آپ میں مطلوب ہے۔ علم کا اصل مقصد انسانی شخصیت کی تعمیر ہے۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ وہ ہر حال میں اور ہر مقام پر جاری رہتا ہے۔ انسانی شخصیت کی تعمیر کبھی مکمل نہیں ہوتی۔ اس لئے اس کی تعلیم و تربیت کا عمل بھی کبھی ختم نہیں ہوتا۔
علم یا تعلیم کا اصل مقصد شعور کو بیدار کرنا ہے تاکہ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو سمجھے۔ وہ کبھی محدود سوچ میںمبتلا نہ ہو۔ اس کا ذہن کبھی جمود کا شکار نہ ہونے پائے۔ علم انسانی شخصیت کی غذا ہے۔ جس طرح جسم مادّی غذا کے بغیر ناکارہ ہوجاتا ہے اسی طرح انسانی شخصیت علم کے بغیر ناقص ہوجاتی ہے۔ اور ناقص شخصیت موجودہ دنیا میں کوئی بڑا کردار ادا نہیں کرسکتی۔
010 — غیر مفید علم
پیغمبر اسلام کی ایک دعا یہ تھی: اللہم إنی اعوذبک من علم لا ینفع (اے خدا، مجھ کو ایسے علم سے بچا جو بے فائدہ ہو) گویا وہی علم علم ہے جو انسانیت کے لئے مفید ہو، جوعلم انسانیت کے لیے مفید نہ ہو وہ کوئی مطلوب علم نہیں۔ ایسے علم کے حصول میں اپنا وقت لگانا جس میں کوئی حقیقی فائدہ نہ ہو، وقت کو ضائع کرنا ہے۔
— 011نمو پذیر شخصیت
قرآن میں سچے انسان کی مثال پودے سے دی گئی ہے۔ جس طرح پودا بڑھ کر درخت بنتاہے اسی طرح انسان کی شخصیت بھی بڑھتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ شاداب درخت کی طرح وہ ایک ترقی یافتہ شخصیت بن جاتی ہے۔انسان چھوٹے بچے کی شکل میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد بڑھتے بڑھتے وہ پورا آدمی بن جاتا ہے۔ یہ معاملہ جسم کی ترقی کا ہے۔ اسی طرح انسان کا ذہن بھی ترقی کرتاہے۔ یہ ترقی تفکیری عمل (thinking process) کے ذریعہ جاری ہوتی ہے۔ اگر یہ تفکیری عمل صحت مندانداز میںجاری رہے تو انسان کا ذہن بھی اسی طرح ترقی کے درجہ تک پہنچ جائے جس طرح اس کا جسم ترقی کے درجہ تک پہنچتا ہے۔
یہ تفکیری عمل فطری طور پر ہر انسان کے اندر جاری ہوتا ہے۔ انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ ان چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے جو تفکیری عمل میں رکاوٹ ڈالنے والی ہیں۔ اگر تفکیری عمل کو رکاوٹ سے بچایا جائے تو وہ ایک چشمہ کی طرح بہتا رہے گا یہاں تک کہ وہ ایک عظیم دریا بن جائے گا۔
— 012جاننے والے سے پوچھنا
قرآن میںکہا گیا ہے کہ اگر تم نہیں جانتے تو جاننے والے سے پوچھو۔ یعنی نہ جاننے والا جاننے والے سے پوچھے اور اس طرح اپنے نہ جاننے کو جاننا بنائے۔لوگ عام طورپر پوچھنے کو پسند نہیں کرتے۔وہ سمجھتے ہیں کہ پوچھنے کا مطلب گویا یہ اقرار کرنا ہے کہ تم جانتے ہو، میں نہیں جانتا۔ یہ ایک مہلک عادت ہے۔ صحت مند عادت یہ ہے کہ پوچھنے کو ویسا ہی سمجھا جائے جیسا کہ ڈکشنری یا انسائیکلوپیڈیا کا مطالعہ کرنا۔
کوئی آدمی خود سے ساری باتوں کو جان نہیں سکتا۔ اسی کمی کی تلافی کے لیے وہ کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔ اسی طرح اس کو یہ عادت ڈالنا چاہئے کہ وہ جاننے والے سے پوچھے۔ جاننے والا اس کے لیے گویا ایک زندہ کتاب ہے۔ اگر کتاب کو پڑھنے میں اسے کوئی احساس نہیں روکتا تو جاننے والے سے پوچھنے میں بھی کسی احساس کو رکاوٹ نہیں ہونا چاہئے۔ جاننے والے سے پوچھنا باہمی تعلقات کو بڑھاتا ہے۔ وہ علم میں اضافہ کرتا ہے۔وہ انسانی تعلقات میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔
— 013خدا کی نعمتوں میںغور وفکر
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا کی نعمتوں میںغور و فکر کرنا سب سے بڑی عبادت ہے۔ یہ غور وفکر بظاہر دکھائی نہیں دیتا کیوں کہ وہ ذہن میں ہوتا ہے۔ مگر خدا کی نظر میں اس سے بڑا کوئی عمل نہیں۔
اصل یہ ہے کہ دنیا کی ہرچیز میںنعمت کا پہلو موجود ہے۔ غور و فکر کرکے ان نعمتوں کو جاننا، چیزوں میںنعمت کے پہلو کو دریافت کرنا، یہی وہ چیز ہے جس کو اس حدیث میںافضل عبادت کہا گیا ہے۔
چیزوں کو نعمت کے پہلو سے دریافت کرنا ایک ایسا عمل ہے جو آدمی کو خدا سے قریب کرتا ہے، جو آدمی کو خدا سے جوڑتا ہے۔ وہ آدمی کے لیے خدا کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
— 014غور و فکر کا عمل
ابو الدرداء پیغمبر اسلام کے ایک صحابی تھے۔ ان کی وفات کے بعد ایک شخص نے ان کی زوجہ ام الدرداء سے پوچھا کہ ابو الدرداء کا سب سے بڑا عمل کیا ہوتا تھا۔ ام الدرداء نے جواب دیا کہ سوچنا اور عبرت پکڑنا۔اس سے معلوم ہوا کہ کسی انسان کا سب سے بڑا عمل یہ ہے کہ وہ اپنے آس پاس کی چیزوں پر غور کرے اور ان سے عبرت کا پہلو اخذ کرتا رہے۔ یہ گویا ذہنی ارتقاء (intellectual progress) اور روحانی ارتقاء (spiritual developement) کا عمل ہے۔ جو سنجیدہ غور وفکر کی صورت میںانسان کے اندر جاری ہوتا ہے۔ وہ موت سے پہلے کبھی ختم نہیں ہوتا۔
— 015علمی تواضع
پیغمبر اسلام کے ایک صحابی عبداللہ ابن مسعود نے فرمایا کہ جب تم کسی بات کو نہ جانو تو تم یہ کہہ دیا کرو کہ: اللہ أعلم (اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے)۔ اس اصول کو دوسرے لفظوں میں، علمی تواضع کہا جاسکتا ہے۔ اور علمی تواضع علمی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
عربی زبان کا ایک مثل ہے: لاأدری نصف العلم (میںنہیں جانتا، آدھا علم ہے)۔ یہ کہہ سکناکہ میںنہیں جانتا، کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنے نہ جاننے کو جاننا ہے۔ جب آدمی اپنے نہ جاننے سے باخبر ہوجائے تو اس کے اندر تجسس کی روح (spirit of inquiry) جاگتی ہے جو آخر کار اس کو علم تک پہنچادیتی ہے۔جب آدمی ایک بات کو نہ جانے تو اس کو اپنے نہ جاننے کا اعتراف کرنا چاہئے۔ اپنے نہ جاننے کا اعتراف بھی جاننے کی طرح ایک قدم ہے۔ اس مزاج کے بغیر کوئی آدمی علمی ترقی کی منزل تک نہیں پہنچ سکتا۔
— 016تعلیم و تربیت
پیغمبر اسلام کے ایک ساتھی کہتے ہیں کہ ایک چڑیا بھی اگر فضا میں اڑتی ہوئی دکھائی دیتی تو آپ اس سے ہم کو ایک علم کی یاد دہانی کراتے تھے (مامن طائرٍ یطیر بجناحیہ إلا و ہویذکر لنا منہ علماً)
اس حدیث سے تعلیم و تربیت کا ایک توسیعی تصوّر سامنے آتا ہے۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ تعلیم و تربیت کے عمل کا تعلق صرف اسکول اور مدرسہ سے نہیں۔ بلکہ اسکول کے احاطہ سے باہر بھی اس کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ فطرت کی دنیا میں ہر چھوٹی بڑی چیز کے اندر کوئی نہ کوئی علم چھپا ہوا ہے۔ معلّم اگر بیدار ذہن رکھتا ہو تو وہ اپنے طلبہ کے لیے اسکول کے اور مدرسہ کے باہر کی دنیا کو بھی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ اسی طرح ایک رہنما اپنے پیروؤں کے لیے ہر منظر اور ہر تجربہ سے علم اخذ کرکے ان کی ذہنی اور روحانی تربیت کا سامان کرسکتا ہے۔ ہماری دنیا پوری کی پوری ایک وسیع تعلیم گاہ ہے۔ جوآدمی علم کاسچّا طالب ہو وہ ہر لمحہ اپنے علم میںاضافہ کرتا رہے گا۔اس کا علمی سفر کبھی ختم نہ ہوگا۔
— 017علم اور سنجیدگی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص اللہ سے ڈرے، وہ عالم ہے (من یخشی اللہ فہو عالم)۔ اس حدیث سے علم کا ایک اہم پہلو معلوم ہوتا ہے اور وہ سنجیدگی اور احتیاط ہے۔علم صرف واقفیت کا نام نہیں۔ کسی شخص کو جب گہرائی کے ساتھ علم حاصل ہوتا ہے تو اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا کے بارے میں وہ محتاط بن جاتا ہے۔ یہ احتیاط اس کے اندر سنجیدگی پیدا کرتی ہے۔ جہاں علم ہو اور سنجیدگی نہ ہو تو یہ سمجھنا چاہئے کہ وہاں حقیقی معنوں میں وہ چیز نہیں جس کو علم کہا گیا ہے۔
سچا علم آدمی کو ایک نیا انسان بنا دیتا ہے۔ سچے علم والا انسان حقائق فطرت سے با خبر رہتا ہے اور جو آدمی حقائق فطرت سے با خبر ہوجائے وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ تضاد میں جئے۔ وہ غیر محتاط انداز میں کلام کرے، وہ لوگوں کے ساتھ غیر سنجیدہ معاملہ کرے۔ سچا علم آدمی کو ہر قسم کی غیر ذمّہ داری سے بچا تا ہے۔ سچا علم آدمی کو پورے معنوں میں سنجیدہ اور ذمّہ دار انسان بنا دیتا ہے۔
— 018علم میں اضافہ
قرآن میںایک دعا ان الفاظ میںبتائی گئی ہے: ربِّ زدنی علما (اے میرے رب تو میرا علم زیادہ کردے)۔ اس قرآنی دعا سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام میںعلم کے حصول کی اہمیت کتنی زیادہ ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مرد اور ہر عورت مسلسل اپنے علم میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں۔
دعا در اصل عزم کی ایک صورت ہے۔ دعا کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی پوری طرح ایک مقصد کے حصول میںلگ جائے۔ وہ اپنی حد تک سب کچھ کرتے ہوئے خدا سے یہ دعا کرے کہ وہ اس کی کوششوں کو کامیاب کرے۔ اس طرح دعا خود آدمی کے عمل کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ علم کی کوئی حد نہیں۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ کسی مقام پر رکے بغیر علم کے حصول کی کوشش میں لگا رہے۔ وہ اس معاملہ کے تمام تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے علم میں اضافہ کے لیے برابر کوشاں رہے۔ علم کی کوئی حد نہیں اس لیے حصول علم کی راہ میں جدو جہد کی بھی کوئی حد نہیں۔
— 019بے جا عذر
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی ہمیشہ دو چیزوں کے فریب میں رہتا ہے—صحت اور فرصت۔ یعنی وہ سوچتا رہتا ہے کہ جب صحت ہوگی تب کر لوںگا اور جب فرصت ہوگی تب کرلوں گا، مگر زندگی میں صحت اور فرصت کبھی آتی نہیں۔ چنانچہ وہ اسی دھوکے میں رہتا ہے اور آخر کار مرجاتا ہے۔
عقل مند آدمی وہ ہے جس کا یہ حال ہو کہ وہ کسی عذر کو عذر نہ بنائے۔ جب بھی کوئی کام سامنے آئے وہ اس کو فوراً کرڈالے۔ ابھی اور اسی وقت سے بہتر کام کرنے کا کوئی وقت نہیں:
There is no better time to start than this very minute.
— 020دل سے مسئلہ پوچھنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اپنے دل سے فتویٰ پوچھ لو(استفت قلبک) اس حدیث میں قلب سے مراد وہی چیز ہے جس کو کامن سنس کہا جاتا ہے۔
انسان کو بار بار مسئلے پیش آتے ہیں۔ ان مسئلوں میں اس کو ہر بار مفتی سے فتویٰ پوچھنے کی ضرورت نہیں۔ اگر آدمی اپنے آپ کو نفسیاتی پیچیدگی سے پاک رکھے تو اس کا کامن سنس اس کے لیے بہترین رہنما بن سکتا ہے۔ اور یہ کامن سنس ایک ایسی چیز ہے جس کو کہیں ڈھونڈھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ ہر وقت اور ہر جگہ آدمی کے ساتھ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
— 021حکمت کی بات
مشہور صحابی رسول حضرت عمر فاروق نے کہا: امیتوا الباطل بالصمت عنہ (تم باطل کو ہلاک کرو اس کے بارے میں چپ رہ کر)۔ یہ قول خاموشی کی طاقت کو بتاتا ہے۔
مشہور مثل ہے کہ تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے۔ اگر آپ باطل کی طاقت کے بعد خود بھی جوابی کارروائی کریں تو باطل کو اس سے مزید طاقت مل جائے گی۔ اس کے برعکس اگر آپ خاموشی کا طریقہ اختیار کریں تو باطل کا زور دھیرے دھیرے اپنے آپ ٹوٹ جائے گا۔ آپ کی طرف سے جوابی کارروائی نہ کرنے کا نتیجہ یہ ہوگا کہ فطرت کی طاقتیں آپ کی حمایت میں متحرک ہوجائیں گی۔ وہ آپ کے کام کو زیادہ بہتر طور پر انجام دے دیں گی۔
— 022بلند ہمتی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ بلند ہمتی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خدا پر ایمان آدمی کو سب سے بڑا بھروسہ دے دیتا ہے۔ یہ بھروسہ اس کو بلند ہمت بنا دیتا ہے۔
مگر دنیا میں باربار آدمی کو ناموافق حالات سے سابقہ پیش آتا ہے۔ یہ حالات اس کو مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں۔ اگرآدمی کو خدا کے اوپر یقین ہو جائے تو وہ آخری حد تک حوصلہ مند بن جائے گا۔ خدا پر یقین اس کو اس وقت بھی بھروسہ دے گا جب کہ بظاہر آدمی کے پاس کوئی بھروسہ نہیں ہوتا ۔
— 023باقی رہنے والا عمل
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہو۔ اس دنیا میں کوئی حقیقی کامیابی ہمیشہ دیر میں ملتی ہے۔ اس لیے سب سے بہتر عمل وہ ہے جو قابل بقا (sustainable) ہو۔اس دنیا میں نتیجہ خیزعمل وہی ہے جو شروع کرنے کے بعد برابر جاری رہے۔ جس پر آدمی اپنی پوری عمر قائم رہ سکتا ہو۔ ایسا ہی عمل فطرت کے قانون کے مطابق ہے۔ ایسا ہی عمل حقیقی معنوں میں عمل ہے۔
آدمی کو چاہئے کہ وہ عمل شروع کرنے سے پہلے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ تمام متعلق امور کا جائزہ لے۔ وہ اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل نیز وقت کے حالات، ہر چیز کا بھرپور اندازہ کرے اور پھر سوچے سمجھے نقشہ کے مطابق اپنا کام شروع کرے۔ اورجب وہ کام شروع کردے پھر وہ درمیان میں کبھی اس کو نہ چھوڑے۔ یہی دنیا میںکامیابی کا واحد طریقہ ہے۔
— 024زمانہ سے با خبر ہونا
پیغمبر اسلام کی ایک لمبی حدیثہے ۔ اس کا ایک جزء یہ ہے: عقلمند آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے زمانہ کو جاننے والا ہو۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کے علم کی تکمیل کیا ہے۔علم والا ہونے کے لیے یہ کافی نہیں کہ آدمی کتابی معلومات سے واقف ہو۔ اس نے ماضی کی روایتوںکو یاد کر رکھا ہو۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ آدمی جس زمانہ میں ہے اس زمانہ کو جانے۔ وہ ماضی شناس ہونے کے ساتھ حال شناس بھی ہو۔
زمانہ کو جاننے کی اہمیت فکری بھی ہے اور عملی بھی۔ اس کے بغیر آدمی کی سوچ ناقص رہتی ہے۔ وہ باتوں کو آفاقی انداز میں سمجھ نہیں پاتا۔ حقیقت کا گہرا تجزیہ اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ اس طرح عملی اعتبار سے وہ ایک ناقص انسان ہوتاہے۔ وہ یہ جاننے سے محروم رہتا ہے کہ وقت کے حالات میں ابدی سچائیوں کو کس طرح منطبق(apply) کرے۔ ایساآدمی اپنے عمل کی کامیاب منصوبہ بندی نہیں کرسکتا۔
025 — بامقصد زندگی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی کے اچھے اسلام پر ہونے کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ بے فائدہ باتوں کو چھوڑ دے۔ پیغمبر اسلام کا یہ قول بتاتا ہے کہ ایک بامقصد انسان کی زندگی کیسی ہونی چاہئے۔
اصل یہ ہے کہ دنیا میںکام زیادہ ہیں اور ایک شخص کی عمر بہت مختصر۔ ایسی حالت میں ضروری ہے کہ آدمی اپنی مشغولیتوں میںانتخابی (selective) انداز اختیار کرے۔ وہ صر ف ان چیزوں میں مشغول ہو جن کا تعلق براہ راست زندگی کے مقصد سے ہو۔ جو چیزیں اس کے مقصد کے لیے کار آمد نہیں ان سے وہ مکمل طورپر پرہیز کرے۔ وہ بے فائدہ کام اور فائدے والے کام میں فرق کرنا جانے۔
بے فائدہ کام سے مراد وہ کام ہے جو محض دلچسپی یا وقت گزاری کے لیے ہو، جس سے وقتی تفریح کے سوا کچھ اور حاصل نہ ہوتا ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے بے فائدہ کام میں مشغول ہونا ایک ایسا تعیش (luxury) ہے جس کا تحمل ایک بامقصد انسان نہیں کر سکتا۔
— 026 نفع بخشی
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اس دنیا کا نظام نفع بخشی کے اصول پر قائم ہے۔ یعنی جو شخص دوسروں کو نفع پہنچائے گا اس کو دوسروں سے فائدہ ملے گا۔ جتنا دینا اتنا پانا۔اس اصول کے مطابق، جب بھی کسی کو محرومی کا تجربہ ہو تو اس کو یہ مان لینا چاہئے کہ ایسا اس لیے ہوا ہے کہ وہ اپنے آپ کو نفع بخش ثابت نہ کرسکا۔ اس نے دوسروں کو محروم رکھّا تھا اس لیے دوسروں نے بھی اس کو محروم کردیا۔ اگر وہ دوسروں کو دیتا تو ضرور وہ بھی دوسروں سے پاتا۔
نفع بخشی کے اس اصول کا تعلق زندگی کے پورے معاملے سے ہے۔ اس کا تعلق خاندان سے بھی ہے اور سماج سے بھی۔ قومی زندگی سے بھی ہے اور بین اقوامی زندگی سے بھی۔ ہر انفرادی اوراجتماعی معاملے میں یہی اصول کار فرما ہے۔اس کے مطابق، شکایت اور احتجاج کا طریقہ بالکل بے معنٰی ہے۔ اس دنیا میں ہر شکایت اور ہر احتجاج خود اپنی کوتاہی کے خلاف شکایت اور احتجاج ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ پہلی فرصت میں اپنی کوتاہی کو دور کرنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوسرے کے لیے نفع بخش بنائے۔ یہی مسئلہ کا واحد حل ہے۔
— 027خاموشی میں نجات
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔ اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح بولنا ایک کام ہے اسی طرح چپ رہنا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح ایکشن لینا ایک کام ہے اسی طرح ایکشن نہ لینا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح آگے بڑھنا ایک کام ہے اسی طرح پیچھے ہٹنا بھی ایک کام ہے۔ جس طرح طاقت کی پوزیشن میںفائدہ ہے اسی طرح تواضع کی پوزیشن میںبھی فائدہ ہے۔ چپ رہنا صرف نہ بولنے کا نام نہیں۔ چپ رہنا ایک تدبیر ہے۔ چپ رہناخاموش منصوبہ بندی کا دوسرا نام ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ شور کی سیاست کے مقابلہ میں چپ کی سیاست زیادہنتیجہ خیز ہے۔
چپ رہنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ سوچتا ہے۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ دوسروں سے سیکھتا ہے۔ جب آدمی چپ رہتا ہے تو وہ اپنی اندرونی طاقتوں کوجگاتا ہے۔ یہ بلا شبہہ ضروری ہے کہ آدمی بولے۔ مگر اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ وہ چپ رہنے کی حکمت کو جانے۔ کبھی بات کو بگڑنے سے بچانے کے لیے صرف اتنا کافی ہوتا ہے کہ آدمی چپ ہو جائے۔ چپ رہنا نظر انداز کرنے کی ایک علامت ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ نظر انداز کرنا ایک انتہائی حکیمانہ عمل ہے۔
— 028دو مختلف صفات
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے اندر دو مختلف صفات رکھی گئی ہیں۔ ایک نفس امّارہ دوسرے نفس لوّامہ۔ یہ دونوں صفتیں پیدائشی طور پر ہر انسان کے اندر ہوتی ہیں۔ کوئی بھی انسان ان سے خالی نہیں ہے۔ نفس امّارہ سے مراد انانیت ہے اور نفس لوّامہ سے مراد ضمیرہے۔یہ دونوں صفتیں ابتدائی طورپر سوئی ہوئی حالت میںہوتی ہیں۔ اگر ان کو نہ جگایا جائے تو وہ سوئی ہوئی رہیں گی۔ اگر کسی آدمی کے خلاف ایسی بات کہی جائے جو اس کو اشتعال دلانے والی ہو تو اس کا نفس امّارہ جاگ پڑے گا اور پھر اس کا انجام و ہی ہوگا جیسے کسی سوئے ہوئی سانپ کو جگا دیا جائے۔
اس کے برعکس اگر آدمی سے نرمی کا سلوک کیا جائے تو اس کا نفس لوّامہ جاگے گا۔ پہلے اگر دوسروں کو اس سے کانٹے کا تجربہ ہوا تھا تو اب دوسروں کو اس سے پھول کا تجربہ ہوگا۔ اب دوسروں کو اس سے انسانیت کی خوشبو حاصل ہوگی۔ اب وہ دوسروں کے لیے رحمت کا نمونہ بن جائے گا۔
— 029صبر سے کامیابی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جان لو، کامیابی صبر کے ساتھ ہے۔ صبر کا الٹا عجلت پسندی ہے۔ عجلت کی کارروائی منصوبہ کے بغیر ہوتی ہے اور صبر کی کارروائی منصوبہ کے بعد ہوتی ہے۔ اور اس دنیا میں وہی کارروائی کامیاب ہوتی ہے جو منصوبہ کے ساتھ کی گئی ہو۔
— 030ٹکراؤ سے پرہیز
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مومن کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ذلیل کرے۔ پوچھا گیا کہ کوئی شخص خود اپنے آپ کو کیوں ذلیل کرے گا۔ آپ نے جواب دیا کہ وہ ایسی بَلا کا سامنا کرے جس سے نپٹنے کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو۔اس حدیث میں زندگی کا ایک حکیمانہ اصول بتایا گیا ہے۔ وہ اصول یہ ہے کہ آدمی کی کارروائی ہمیشہ نتیجہ خیز ہونا چاہئے۔ ایک ایسی طاقت جس سے مقابلہ کرنے کا سازوسامان اس کے پاس نہ ہو، اگر وہ کوئی عذر لے کر ایسی طاقت سے ٹکرا جائے تو اس کا انجام یہ ہوگا کہ وہ ذلت اور ناکامی سے دوچار ہوگا۔ایسا فعل جو یکطرفہ طورپر خود فاعل کی تباہی میںاضافہ کرنے والا ہو اس میں اپنے آپ کو الجھانا کسی بھی اعتبار سے درست نہیں۔
— 031اپنے سے کم کو دیکھو
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مادّی معاملہ میں اپنے سے اوپر کو نہ دیکھو بلکہ اپنے سے نیچے کو دیکھو۔ اس طرح تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کو حقیر نہ سمجھو گے۔
اس دنیا کا نظام خدا نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہمیشہ اونچ اور نیچ قائم رہتی ہے۔ کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی پیچھے۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ اس طرح مسابقت(competition) کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اس مسابقت کی وجہ سے ایسا ہوتاہے کہ زندگی کی ترقیاں اور سرگرمیاں ہمیشہ جاری رہتی ہیں۔اس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ ہر آدمی سے کوئی آگے ہوتا ہے اور کوئی اس سے پیچھے ۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اپنے سے نیچے والے کو دیکھے۔ اس تقابل کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو کچھ خدا نے اس کو دیا ہے وہ اس کو زیادہ نظر آئے گا۔ وہ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا رہے گا۔ اس کے برعکس اگر وہ ایسا کرے کہ صرف اپنے سے اوپر والے کو دیکھے تو اس کے اندر نفرت اور جھنجھلاہٹ کا مزاج پیدا ہوگا۔
مثبت مزاج آدمی کے ذہنی اور روحانی ارتقاء میںمدد گار ہوتا ہے۔ اس کے برعکس منفی مزاج آدمی کے ذہنی اور روحانی ارتقاء کو روک دیتا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ دوسرے کی خاطر اپنے آپ کو ذہنی ارتقاء سے محروم نہ کرلے۔
— 032گزرتا ہوا زمانہ
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ زمانہ گواہ ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے۔ گویا انسانی زندگی کی حیثیت برف جیسی ہے۔ جس طرح برف پگھل کر ہر لمحہ گھٹتا جاتا ہے اسی طرح انسان کی عمر بھی ہر لمحہ گھٹ رہی ہے۔ گھٹتے گھٹتے آخر کار وہ وقت آتا ہے جب کہ انسان اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجائے۔
گویا ہر انسان کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (count down) ہورہا ہے۔ اگر ایک شخص کے لیے یہ مقدّر ہو کہ وہ پیدا ہونے کے بعد ساٹھ سال تک زندہ رہے گا تو گویا پیدا ہونے کے ساتھ ہی اس کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگیا۔ پہلا سال پورا ہونے پر اس کی عمر انسٹھ سال رہ گئی۔ اس کے بعد اٹھاون، اس کے بعد ستاون، اس کے بعد چھپّن، اس کے بعد پچپن، اس طرح مسلسل ہر آدمی کی الٹی گنتی ہو رہی ہے۔ اس الٹی گنتی کو روکنا کسی بھی شخص کے بس میں نہیں ہے۔ایسی حالت میں ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنے ہر لمحہ کو قیمتی سمجھے کیوں کہ جو وقت کھویا گیا وہ دوبارہ واپس آنے والا نہیں ۔ جس طرح گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا۔ اسی طرح زندگی کے گزرے ہوئے لمحات بھی کسی کو دوبارہ واپس نہیں ملتے۔
— 033مایوسی نہیں
قرآن میں کہا گیا ہے کہ اے خدا کے بندو، مایوس نہ ہو، کیوں کہ خدا کی رحمت بہت وسیع ہے۔ آدمی کو جب بھی مایوسی ہوتی ہے تو اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ صرف اپنے امکانات کو دیکھتا ہے۔ اگر اس کی نظر خدائی امکانات پر ہو تو وہ کبھی مایوس نہ ہوگا۔
انسانی امکانات کی حد ہوتی ہے۔ مگر خدائی امکانات کی کوئی حد نہیں۔ انسان اگر اس حقیقت کو جان لے تو وہ کبھی مایوس نہ ہو۔ کیوں کہ جہاں بظاہر انسان کی حد آگئی ہے عین اسی مقام پر وہ ایک اور امکان کو پالے گا جس کی نہ کوئی حد ہے اور نہ اس کے لیے کوئی رکاوٹ۔حقیقت یہ ہے کہ خدا پر یقین آدمی کو امید کا ایسا خزانہ دے دیتا ہے کہ اس کے بعد وہ کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ کبھی اس احساس سے دوچار نہیںہوتا کہ آگے اس کے لیے کچھ اور باقی نہیں رہا۔ ایک امکان کا خاتمہ اس کے لیے زیادہ بڑے امکان کا آغاز بن جاتا ہے۔ خدا کا عقیدہ اور مایوسی دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
— 034اعلیٰ اخلاق
پیغمبر اسلام نے اپنے کچھ ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، کیا میںتم کو بہتر اخلاق بتاؤں۔ لوگوں نے کہا کہ ہاں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جو تم سے کٹے تم اس سے جڑو جو تمہیں محروم کرے تم اسے دو۔ جو تمہارے اوپر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔اس کو ایک لفظ میں یکطرفہ اخلاقیات کہا جاسکتا ہے۔ اس کے مطابق، اعلیٰ اخلاق یہ نہیں ہے کہ جو خود اچھا سلوک کرے اس کے ساتھ آپ بھی اچھا سلوک کریں۔ یہ برابر کا اخلا ق ہے۔ اور برابر کا اخلاق اعلیٰ اخلاق نہیں۔ اعلیٰ اخلاق وہ ہے جو خود اپنے اعلیٰ اصول پر قائم ہو۔ جو دوسروں کے عمل کے جواب میں نہ ہو بلکہ خود اپنے اصولی رویہ کے تحت ہو۔
اعلیٰ اخلاق یہ ہے کہ آدمی دوسرے کے رویہ سے بلند ہو کر یکطرفہ طورپر حسن اخلاق پر قائم رہے۔ وہ ردّ عمل کی نفسیات سے اپنے آپ کو بچائے اور کسی بھی حال میں اپنے مثبت اخلاقی رویہ کو نہ چھوڑے۔اعلیٰ انسانیت کی سب سے بڑی پہچان اعلیٰ اخلاق ہے۔ اور اعلیٰ اخلاق کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ دوسروں کی طرف سے منفی رویہ کے باوجود آدمی اپنے آپ کو مثبت رویہ پر قائم رکھے۔
— 035بے نفس انسان
قرآن میں اعلیٰ شخصیت کو بتانے کے لیے النفس المطمئنہ کا لفظ آیا ہے۔ النفس المطمئنہ کو دوسرے لفظوں میں نفسیاتی پیچیدگیوں سے خالی روح (complex-free soul) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی وہ انسان جو ہر قسم کے منفی احساسات اور سطحی جذبات سے اوپر اٹھ کر سوچ سکے۔
دنیا میں آدمی مختلف حالات کے درمیان رہتا ہے۔ یہ حالات اس کے اندر طرح طرح کے جذبات پیدا کرتے رہتے ہیں۔ مثلاً نفرت، بغض، کینہ، حسد، جلن، انتقام، تعصب، خود غرضی، غرور، خودنمائی، جاہ پسندی، بے اعترافی، وغیرہ۔ جو شخص اس قسم کے تمام جذبات سے اپنے آپ کو اوپر اٹھالے اس کو النفس المطمئنہ کہا گیا ہے۔یہ ایک شعوری عمل ہے۔ کوئی شخص خود بخود النفس المطمئنہ نہیں بن سکتا۔ اس کو شعوری طور پر اپنا نگراں بننا پڑتا ہے۔ وہ بار بار اپنی تطہیر کا کام کرتا رہتا ہے۔ اس طرح یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی شخص النفس المطمئنہ بن سکے۔
— 036برائی کو مٹانا
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم سے کوئی برائی ہو جائے تو اس کے بعد تم نیکی کرو۔ اس سے برائی کا اثر ختمہوجائے گا۔مثلاً اگر آپ نے کسی شخص کو برا کہہ دیا تو اس کے بعد اس کو اچھا کہیے۔اگر آپ نے کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کے بعد اس کو فائدہ پہنچائیے۔ اگر آپ نے کسی کے دل کو دکھایا ہے تو اس سے معافی مانگ لیجئے۔ اگر آپ نے کسی کے خلاف اکڑ دکھائی ہے تو اب اس کے سامنے جھک جائیے۔ اگر آپ نے کسی کے ساتھ بد اخلاقی کا معاملہ کیا ہے تو اس کے بعد اس کے ساتھ خوش اخلاقی کا معاملہ کیجئے۔ اگر آپ نے کسی کو حقیر سمجھ لیا ہے تو اس کے بعد اس کو عزت کا مقام دیجئے۔ اس طرح اپنے آپ برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔
— 037گناہ کیا ہے۔
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ گناہ وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹکے اور اس کو کرتے ہوئے تم ڈرو کہ لوگ اس سے باخبر نہ ہوجائیں۔ یہ گناہ کی ایک ایسی پہچان ہے جس کو ہر آدمی نہایت آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے۔ہر آدمی کے اندر ضمیر ہے۔ یہ ضمیر اتنا حسّاس ہے کہ وہ برائی کے وقت آدمی کو فوراً ٹوک دیتا ہے۔ اگر آدمی ضمیر کی آواز کو سنے تو کبھی وہ گناہ نہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی گناہ کرتاہے تو وہ اس کو چھپا کر کرتا ہے۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اسے جاننے نہ پائے۔ جب بھی آدمی کے اندر اس قسم کا جذبہ پیدا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ ایک ایسا کام کرنے جارہا ہے جو اس کو نہیںکرنا چاہئے۔
— 038پڑوسی کا حق
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا کی قسم وہ مومن نہیں ہے جس کا پڑوسی اس کی برائیوں سے امن میں نہ ہو۔ آدمی خواہ کہیں بھی ہو ہر وقت وہ کسی کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ ساتھی لوگ اس کے پڑوسی ہیں۔ ان پڑوسیوں کا یہ حق ہے کہ آپ سے انہیں کسی برائی کا تجربہ نہ ہو۔دوسرے لفظوں میںاس تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر انسان کو نو پرابلم انسان بن کر رہنا چاہئے۔ اس کو سخت احتیاط کرنا چاہئے کہ اس کی ذات سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔ تکلیف کا معیار یہ ہے کہ دوسروں کو شکایت کا موقع نہ ملے۔ اگر آپ کے پاس کے لوگ کسی بات پر آپ سے شکایت کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ دوسروں کو تکلیف پہنچارہے ہیں۔ دوسروں کی شکایت ہی پر آپ کو ایسے کام سے رک جانا چاہئے۔
— 039چھوٹوں سے شفقت بڑوں کا احترام
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص ہمارے چھوٹوں کے ساتھ شفقت نہ کرے اور جوشخص ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔ یہ حدیث بتاتی ہے کہ شریفانہ اخلاق کیا ہے اور اس کو سماج میں کس طرح قائم کیا جانا چاہئے۔
ہر سماج میں کوئی چھوٹا ہوتاہے اور کوئی بڑا۔ عمر کے لحاظ سے بھی اور دوسرے لحاظ سے بھی۔ مثلاً اسکول اور کالج میںاستاد کی حیثیت بڑے کی ہے او رطالب علم کی حیثیت چھوٹے کی۔ ایسے فرق والے سماج میںکس طرح اعتدال کے ساتھ زندگی گزاری جائے۔ اس کا سادہ اصول یہ ہے کہ—بڑے لوگ چھوٹوں کے ساتھ رحمت اور شفقت کا معاملہ کریں اور چھوٹے لوگ اپنے بڑوں کے ساتھ عزت اور احترام کا طریقہ اختیار کریں۔جس سماج میں یہ دونوں اصول پائے جائیں اس سماج کے لوگوں میں ہر ایک خوش ہوگا اور ہر ایک دوسرے کے بارے میںاچھے خیالات کا مالک ہوگا۔
— 040عہد کو پورا کرنا
قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ جب عہد کرو تو اس کو پورا کرو۔ عہد کے بارے میں خدا کے یہاں تم سے باز پرس کی جائے گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ عہد کا معاملہ صرف دو انسانوں کے درمیان کا معاملہ نہیںہے۔ اس معاملہ میں خدا بھی تیسرے فریق کی حیثیت سے شامل ہے۔
عہد یا معاہدہ کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ یا تو کسی سے عہد نہ کرے اور جب عہد کرے تو وہ اس کو ضرور پورا کرے۔ عہد نہ کرنا کوئی جرم نہیں۔ مگر عہد کرنے کے بعد اسے پورا نہ کرنا یقینی طور پر جرم ہے۔ حتیٰ کہ ایک معاہدہ کو توڑنا اتنا بڑا جرم ہے کہ وہ تمام انسانی معاہدوں کو توڑنے کے برابر ہے۔ کیوں کہ معاہدہ توڑنے کا ہر واقعہ معاہدہ کے احترام کی روایت کو توڑنا ہے۔معاہدہ کے احترام پر سماجی انصاف کا پورا نظام قائم ہے۔ اگر معاہدہ کا احترام ختم ہوجائے تو سماج میںانصاف کے ماحول کاخاتمہ ہوجائے گا۔
— 041احسان کا بدلہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا: جب کوئی شخص تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو تم اس کا بدلہ دینے کی کوشش کرو۔ اور اگر تم بدلہ نہ دے سکو تو تم اس کے لیے خدا سے دعا کرو۔
یہ شرافت کا تقاضا ہے کہ جب ایک انسان کے ساتھ دوسرا انسان کوئی بھلائی کا معاملہ کرے تو وہ اس کے بدلہ میںخود بھی اس کے ساتھ بھلائی کرے۔ اگر وہ آدمی اپنے حالات کے لحاظ سے اس قابل نہ ہو کہ وہ تلافی کا عمل کرسکے تب بھی اس کے لئے تلافی کا ایک کام موجود ہے۔ وہ یہ کہ وہ اپنے محسن کے حق میں خدا سے بہترین دعائیں کرے۔
— 042دوسرے کی مصیبت پر خوش نہ ہونا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مصیبت پر خوش نہ ہو ۔ہو سکتا ہے کہ خدا اس پر رحم فرمائے اور تم کو مصیبت میں ڈال دے۔ اس حدیث میں لوگوں کو ایک ایسی اخلاقی برائی سے روکا گیا ہے جو خود اپنی ہلاکت کے ہم معنٰی ہے۔کوئی انسان اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو اس کو دیکھ کر آپ کے اندر ہمدردی کا جذبہ پیدا ہونا چاہئے۔ آپ کوچاہئے کہ اس کی مدد کریں یا کم سے کم اس کے لئے دعا کریں۔ اس کے برعکس دوسرے کی مصیبت پر خوش ہونا ایک انتہائی پست بات ہے۔ وہ اخلاقی گراوٹ کی بدترین صورت ہے۔
مزید یہ کہ کوئی آدمی اگر دوسرے کی مصیبت پر خوش ہو تو اس کا یہ فعل خدا کو سخت نا پسند ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ خدا ناراض ہو کر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ پہلے شخص کی مصیبت کو اس سے لے کر دوسرے شخص کے اوپر ڈال دی جائے۔ یہ بلا شبہہ کسی انسان کی بد نصیبی کی سب سے زیادہ بری صورت ہے۔
— 043اچھا گمان رکھنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ حسن ظن بھی حسن عبادت کی ایک صورت ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا اتنا بڑا عمل ہے کہ وہ عبادت کے برابر ہے۔
کسی کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ آدمی جب کچھ لوگوں کے درمیان رہتا ہے تو بار بار ایسی باتیں پیش آتی ہیں جو بدگمانی پیدا کرنے والی ہیں۔ جس کی وجہ سے دوسرے آدمی کی ایک بری تصویر ذہن میں بن جاتی ہے۔ ایسی حالت میں خوش گمانی کا معاملہ کوئی آسان معاملہ نہیں۔وہی شخص دوسروں کے بارے میں خوش گمان رہ سکتاہے جو بدگمانی کے باوجود خوش گمانی پرقائم رہنا جانتا ہو۔ جس کے اندر یہ بلند ظرفی ہو کہ وہ کسی کے بارے میں بری خبریں سنے تب بھی وہ ایسا نہ کرے کہ اس کے خلاف بدگمان ہو کر بیٹھ جائے۔
— 044احسان ماننا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو شخص انسان کا شکر نہ کرے گا وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرے گا۔ احسان کے اعتراف کا نام شکر ہے۔یہ نفسیات اگر آدمی کے اندر موجود ہو تو اس کا اظہار بندوں کے معاملہ میں بھی ہوگا اور خدا کے معاملہ میں بھی۔ یہ ناممکن ہے کہ آدمی ایک کے اعتبار سے غیر شاکر ہو اور وہ دوسرے کے اعتبار سے شاکر بن جائے۔
احسان کا اعتراف کرنا ایک اعلیٰ انسانی صفت ہے۔ اس اعتراف کا نام شکر ہے۔ انسان کے اوپر سب سے بڑا احسان خدا کا ہے۔ اس لئے ہر انسان کو سب سے زیادہ خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ اس شکر کی پہچان یہ ہے کہ آدمی روزمرہ کی زندگی میں خود اپنے جیسے لوگوںکے احسان کا اعتراف کرتا ہو۔ جس آدمی کے اندر یہ اعتراف نہ پایا جائے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ خدا کے احسان کے معاملہ میں بھی شکر کرنے والا نہیں۔ایک اعتبار سے شکر اور دوسرے اعتبار سے نا شکری دونوں ایک دل کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔ آدمی کے اندر یا تو دونوں کے لیے شکر ہوگا یا دونوں کے لیے نہیں ہوگا۔
— 045غلطی کے بعد نادم ہونا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ہر انسان خطا کا رہے اور بہتر خطا کاروہ ہے جو غلطی کرکے نادم ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل غلطی غلطی کرنا نہیں ہے بلکہ اصل غلطی غلطی کرکے اعتراف نہ کرنا ہے۔
موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ یہاں آدمی کو ایسے حالات میں زندگی گزارنا ہوتا ہے جس میں بار بار غلطی کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ اس لیے صحیح انسان کی اصل پہچان یہ نہیں ہے کہ وہ کبھی غلطی نہ کرے بلکہ یہ ہے کہ وہ غلطی پر اصرار نہ کرے۔ غلطی کرنے کے بعد فوراً اس کا ضمیر جاگ اٹھے۔ اپنی غلطی پر اس کے اندر شدید ندامت پیدا ہوجائے۔ غلطی کرنا اس کے لیے احتساب کے جذبہ کو جگانے کا ذریعہ بن جائے۔
— 046ضمیر کی آواز
پیغمبر اسلام سے آپ کے ایک ساتھی نے نیکی اور بدی کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے جواب دیا کہ تم اپنے دل سے فتوی لے لو،یعنی اپنے دل سے پوچھ کر جان لو۔ نیکی وہ ہے جس پر تمہارا دل مطمئن ہو اور بدی وہ ہے جو تمہارے دل میں کھٹک پیدا کرے۔انسان کے اندر پیدائشی طورپر ایک صفت ہوتی ہے۔ یہ اس کا ضمیر ہے۔ ضمیر گویا سچائی کی عدالت ہے۔ ضمیر فوراً بتا دیتا ہے کہ کیاچیز حق ہے اور کیا چیز ناحق۔ کون سا رویہ درست ہے اور کون سا رویہ نادرست۔ آدمی اگر صرف یہ کرے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز کو سنے تو وہ اس کی رہنمائی کے لیے کافی ہو جائے گا۔
ضمیر ہمیشہ اپنا کام کرتا ہے۔ وہ ہر موقع پر بتاتا رہتا ہے کہ کیا ٹھیک ہے اور کیا ٹھیک نہیں۔ اگر آدمی غفلت نہ برتے تو اس کا ضمیر ہی اس کو سچائی کے راستہ پر قائم رکھنے کے لیے کافی ہو جائے گا۔
— 047امانت ادا کرو
قرآن میں جو احکام آئے ہیں ان میں سے ایک حکم یہ ہے کہ اے لوگو،امانت داروں کو ان کی امانت ادا کرو، یہ قرآنی حکم ایک جامع حکم ہے اور اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے۔
امانت کی ایک صورت یہ ہے کہ کسی کا مال آپ کے پاس بطور امانت ہو تو اس کو اس کے مالک تک ٹھیک ٹھیک پہنچانا فرض ہے۔ اسی طرح کسی تعلیم گاہ کا ایک معلّم بھی امین ہے اور طلبہ اس کی امانت میں ہیں۔ معلّم کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمّہ داری کو سمجھے اور جو انسانی نسلیں اس کی امانت میں دی گئی ہیں ان کے حقوق ادا کرنے میںوہ کوئی کمی نہ کرے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی ملک کا حاکم بنے تو وہ ملک اس کی امانت میں آگیا اور وہ اس کا امین بن گیا۔ ایسی حالت میں حاکم پرفرض ہے کہ وہ ان امیدوں کو پورا کرے جن کے تحت اس کو یہ امانت دی گئی ہے۔
— 048امن کلچر
اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ جب ایک شخص دوسرے شخص سے ملے تو دونوں ایک دوسرے کو السلام علیکم کہیں۔ یعنی تمہارے اوپر سلامتی ہو، تمہارے اوپر سلامتی ہو۔ اسلام در اصل امن کلچر ہے اور السلام علیکم کہنا اس امن کلچر کی ایک علامت ۔
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر آدمی کے دل میں دوسرے کے لیے رحمت اور شفقت کے جذبات ہوں۔ ہر آدمی دوسرے آدمی کے لیے پر امن زندگی کی تمنارکھتا ہو۔ ہر آدمی کی یہ کوشش ہو کہ اس کا سماج امن اور سلامتی کا سماج بن جائے ۔یہ اسلام کی بنیادی تعلیم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی تمام تعلیمات براہ راست یا بالواسطہ طورپر امن کے اصول پر مبنی ہیں کیوں کہ امن کے بغیر کوئی بھی تعمیری کام نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں امن نہ ہو وہاں ترقی بھی نہ ہوگی۔ امن کسی سماج کی ترقی کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ پانی زمین کو زرخیز بنانے کے لیے۔
— 049امن پسندی
پیغمبر اسلام نے اپنی ایک نصیحت میں فرمایا: تم دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو بلکہ اللہ سے عافیت مانگو۔ اس حدیث میں زندگی کا ایک بنیادی اصول بتایا گیا ہے۔ اس اصول کی اہمیت فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی۔کوئی انسان جب اجتماعی زندگی میںرہتا ہے تو ایک اور دوسرے کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے ہیںحتیٰ کہ دشمنی کی صورتیںپیدا ہوجاتی ہیں۔ مگر یہ طریقہ درست نہیں کہ کوئی شخص دشمن نظر آئے تو آپ اس سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس کے بجائے صحیح طریقہ یہ ہے کہ دشمن سے بھی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے بلکہ امن کے اصول پر چلتے ہوئے اس سے نباہ کرنے کی کوشش کی جائے۔
پر امن طریقہ ہر حال میں قابل عمل ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آدمی دشمنی کی صورت پیدا ہونے کے بعد منفی نفسیات کا شکار نہ ہو۔
— 050پر امن شہری
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ سے اور جس کی زبان سے لوگ محفوظ رہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا سچّا بندہ وہ ہے جو سماج میںبے تشدد بن کر رہے۔ دوسروں کو نہ اس کی زبان سے کوئی چوٹ پہنچے اور نہ اس کے ہاتھ سے کسی کو تکلیف کا تجربہ ہو۔یہ انسانیت کا کم سے کم معیار ہے۔ انسانیت کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مرد اور عورت اپنے سماج میں اس طرح رہیں کہ ایک سے دوسرے کو فائدہ پہنچ رہا ہو۔ اوراگر کوئی شخص دوسروں کو فائدہ نہ پہنچاسکے تو اس کو کم ازکم یہ کرنا چاہئے کہ وہ اپنے سماج میں بے مسئلہ انسان بن جائے۔ وہ دوسروں کو اپنے ضرر سے بچائے۔
کوئی آدمی جب اپنی زبان یا اپنے ہاتھ سے دوسروں کو نقصان پہنچانے لگے تو وہ اپنی انسانیت کو کھو دیتا ہے۔ وہ انسانیت کی سطح سے گر کر حیوانیت کی سطح پر آجاتا ہے۔ انسانیت کا سچا معیار یہ ہے کہ آدمی اتنا حسّاس ہو کہ وہ دوسروں کے لیے ضرر رساں بننے کا تحمّل نہ کرسکے۔
جو آدمی اس معاملہ میں حسّاس ہو وہ دوسروں کو نقصان پہنچا کر خوش نہیں ہوگا بلکہ یہ سمجھے گا کہ میں نے خود اپنے آپ کو انسانیت کی سطح سے نیچے گرا لیا ہے۔ اگر کبھی اس کی ذات سے کسی کو نقصان پہنچ جائے تو وہ فوراً شرمندہ ہوجائے گا اور نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کو اس وقت تک چین نہ آئے گا جب تک کہ وہ اپنے بھائی سے معافی نہ مانگ لے یا اپنی کوتاہی کی تلافی نہ کرلے۔
— 051نقصان سے بچو
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اسلام میں نہ نقصان اٹھانا ہے اور نہ نقصان پہنچانا۔ یہ حدیث ایک اہم اجتماعی اصول کو بتاتی ہے۔ اس اصول کا تعلق مرد سے بھی ہے اور عورت سے بھی، فرد سے بھی ہے اور جماعت سے بھی، وہ قومی زندگی کے لیے بھی ہے اور بین اقوامی زندگی کے لیے بھی۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی کو مختلف حالات کے درمیان رہنا پڑتا ہے، کبھی موافق حالات اور کبھی مخالف حالات، کبھی خوشی کے حالات اورکبھی غم کے حالات۔ ایسی حالت میں کوئی مرد یا عورت دنیا میں کیسے رہے، اس کے لیے یہ ایک جامع اصول ہے۔ وہ یہ کہ ہر آدمی ایک طرف اس طرح بے ضرربن کر رہے کہ اس کی ذات سے کسی کو کو ئی تکلیف نہ پہنچے اور دوسری طرف وہ اتنا ہوشیار رہے کہ کسی دوسرے کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ اس کو نقصان پہنچا سکے۔
— 052زیادہ بڑی طاقت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔ ان الفاظ میں قدرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔وہ یہ کہ دنیا کو بنانے والے نے اس کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاںنرمی اور عدم تشدد سے کام بنے اور سختی اور تشدد سے کا م بگڑ جائے۔ نرمی اور عدم تشدد سے مفید نتیجہ نکلے اور سختی اور تشدد کا طریقہ بے نتیجہ ہو کر رہ جائے۔
سختی اور تشدد کا طریقہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے کافی ہوسکتا ہے مگر وہ کسی تعمیری مقصد کے حصول کے لیے مفید نہیں۔ تعمیر و ترقی کا کام ایک ایسا طریقِ کار چاہتا ہے جو شروع کرنے کے بعد مسلسل جاری رہے۔ پائدار عمل کی یہ صفت صرف غیر متشددانہ طریق کار میں پائی جاتی ہے۔
— 053صلح بہتر ہے
قرآن کی ایک آیت میںلوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیاہے کہ—صلح بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی نزاعی معاملہ پیش آئے تو اس وقت بہتر یہ ہے کہ لوگ ٹکراؤ کے طریقہ کواختیار نہ کریں بلکہ مفاہمت کے طریقہ کو اختیار کریں۔زندگی میںبار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی نزاع پیش آجاتی ہے۔ ایسی حالت میں لوگوں کے لیے دو ممکن طریقہ ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ ٹکراؤ اور تشدد کے ذریعہ اس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اور دوسرا یہ کہ پر امن گفت و شنید کے ذریعہ آپس میں مصالحت کر لی جائے اور نزاع کو ابتدائی مرحلہ ہی میں ختم کر دیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مصالحت کا طریقہ ہی دونوں فریقوں کے لیے مفید ہے۔ ٹکراؤ کا طریقہ ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس میں آپس کی نفرت بڑھتی ہے۔ اور جہاں تک اصل مسئلہ کا تعلق ہے وہ بھی حل نہیںہوتا۔ اگر لوگ معاملہ کو نتیجہ کے پہلو سے دیکھیں تو وہ کبھی ٹکراؤ کا راستہ اختیار نہ کریں، کیوں کہ ٹکراؤ کا راستہ آدمی کو تباہی کے سوا اور کہیں نہیں پہنچاتا۔
— 054سماجی خدمت
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے جو سچے بندے ہیں ان کے مال میں سائل اور محروم کاحق ہوتا ہے۔ سائل سے مراد وہ شخص ہے جو بول کر سوال کرے اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو خواہ سوال نہ کرے مگر اس کی معذوری اپنے آپ ایک عملی سوا ل بن گئی ہو۔
خدا کے سچے بندے اپنی کمائی کو اس وقت تک اپنے لئے درست نہیں سمجھتے جب تک وہ اس میں سے سائل اور محروم کو اس کا حصہ نہ دے دیں۔ یہ تعلیم ہر انسان کو اپنے سماج کا خادم بنا دیتی ہے۔ وہ جس سماج سے اپنے لیے لیتا ہے، اس سماج کو دینا بھی وہ اپنا فرض سمجھتاہے۔
سائل سے مراد عام ضرورت مند ہیں۔ محروم سے مراد خاص طورپر وہ لوگ ہیں جو کسی وجہ سے معذور(disabled) ہوگئے ہوں۔ معذور لوگوں کی خدمت کرنا اسلام کے نزدیک صرف سماجی خدمت نہیں ہے ۔یہ خود اپنے آپ کو خدا کی ابدی رحمت کا مستحق بناناہے۔
— 055تمام انسان ایک
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سن لو کہ تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور سن لو کہ آدم مٹی سے تھے۔ یہ حدیث اس حقیقت کا اعلان ہے کہ تمام انسان برابر ہیں۔ ان میں کچھ ظاہری فرق ہو سکتے ہیں مگر حقیقت کے اعتبار سے ایک اور دوسرے میں کوئی فرق نہیں۔
یہ حدیث انسانی تعلقات کے ایک اہم اصول کو بتاتی ہے۔ اوروہ مساوات کا اصول ہے۔ سارے انسان جب ایک ہی مادّہ سے پیدا ہوئے ہیں اور سب ایک مرد اور ایک عورت کی اولاد ہیںتو ان میں تفریق اور امتیاز اپنے آپ ختم ہو جاتا ہے۔ اس کے مطابق، تمام مرد ایک دوسرے کے خونی بھائی (blood brothers) ہیں۔ اور تمام عورتیں ایک دوسرے کے لیے خونی بہن (blood sisters) ہیں۔یہ اصول انسان اور انسان کے درمیان امتیاز کی تمام بنیادوں کو ڈھا دیتا ہے۔
— 056مشورہ کی اہمیت
قرآن میںمعاملات پر مشورہ کی تاکید کی گئی ہے۔ پیغمبر اسلام کے بارے میں روایت میںآتا ہے کہ آپ معاملات میں ہمیشہ لوگوں سے مشورہ کرتے تھے۔مشورہ کیا ہے۔ مشورہ یہ ہے کہ کسی پیش آمدہ مسئلہ میں ہر ایک کی رائے معلوم کی جائے۔ اس طرح ہر آدمی کا علم اور تجربہ سامنے آجاتا ہے اور یہ ممکن ہوجاتاہے کہ زیادہ بہتر انداز میںمعاملہ کو حل کرنے کی تدبیر کی جائے۔ زیادہ صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ کام کا آغاز کیاجائے۔ مشورہ کے بغیر جو کام کیا جائے وہ ایک شخص کی سوچ پر مبنی ہوگا اور مشورہ کے بعد جو کام کیا جائے اس میں کئی لوگوں کی سوچ شامل ہوجائے گی۔
مشورہ در اصل اجتماعی سوچ کا دوسرا نام ہے۔ انفرادی سوچ اور اجتماعی سوچ میں جوفرق ہے وہی فرق مشورہ کے بغیر کام اور مشورہ کے ساتھ کام میں پایا جاتا ہے۔ مختلف اسباب سے ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص کا ذہن ہر پہلو کو سمجھ نہیں پاتا۔ مشورہ اسی کمی کی تلافی ہے۔ مشورہ کے ذریعہ یہ ممکن ہوجاتاہے کہ معاملات میں زیادہ درست رائے تک پہنچا جائے۔ پیشگی طورپر غلطیوں سے بچنے کی تدبیر کرلی جائے۔ مشورہ کامیاب منصوبہ بندی کا ایک اہم جزء ہے۔
— 057ترک کلام نہیں
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی سے جھگڑا ہوجائے اور ترک کلام کی نوبت آجائے تو زیادہ سے زیادہ اس کو تین دن کی معافی مل سکتی ہے۔ تین دن سے زیادہ بول چال بند رکھنا کسی حال میں جائز نہیں۔اس معاملہ میںتین دن کی رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ غصہ زیادہ سے زیادہ تین دن تک رہ سکتا ہے۔ اس کے بعد وہ انا کا سوال بن جاتا ہے ۔کسی کو غصّہ کی معافی مل سکتی ہے مگر اَنانیت کی معافی کسی کے لیے نہیں۔ غصہ ایک فطری کمزوری ہے جووقتی طورپر پیدا ہوتی ہے مگر انانیت ایک برائی ہے۔ انانیت ایک سرکشی کا معاملہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غصہ قابل معافی ہے مگر انانیت اور سرکشی قابل معافی نہیں۔ وقتی غصہ کے لئے آدمی کے پاس عذر ہوسکتا ہے مگر انانیت اور سرکشی ایک ایسا جرم ہے جس کے لیے کوئی بھی قابل قبول عذر موجود نہیں۔
— 058ماننے سے پہلے جانچنا
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جب تمہیں کسی کے بارے میںکوئی خبر ملے تو پہلے اس کی تحقیق کرو۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ تحقیق کے بغیر کسی خبر کو مان لینا ایک غیر ذمہ داری کا فعل ہے۔
عام طورپر لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ جو سنا یا جو کچھ پڑھا اس کو فوراً مان لیا۔ حالاں کہ تجربہ بتاتا ہے کہ خبر دینے والا اکثر ایسا کرتا ہے کہ وہ ساری بات کو جانے بغیر خبر نشر کردیتا ہے۔ جب کہ تحقیق کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ خبر بھی ادھوری تھی اور اس سے جو نتیجہ نکالا گیا وہ بھی ادھورا تھا۔
تحقیق کے بغیر کسی خبر کو مان لینا اکثر حالات میںنقصان کا سبب ہوتا ہے۔ اس سے بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کے بارے میں غلط رائے قائم کرلیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ایک غلط خبر لڑائی اور فساد کا سبب بن جاتی ہے۔ایسی حالت میں ذمہ داری کا تقاضا یہ ہے کہ خبر کی پوری تحقیق کی جائے، تحقیق کے بغیر کسی خبر کو درست نہ مان لیاجائے۔
— 059تمام انسان بھائی بھائی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اے خدا، میں گواہی دیتا ہوں کہ تمام بندے آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ یہ حدیث انسانی تعلق کی بنیاد کو بتاتی ہے۔ اس کے مطابق، تمام دنیا کے لوگ ایک خاندان کے مانند ہیں۔ ہر ایک کو چاہئے کہ وہ دوسرے کے ساتھ وہی سلوک کرے جو وہ اپنے گھر کے اندر اپنے بھائی سے کرتا ہے۔یہ اصول عالمی برادری کا اصول ہے۔ یہ اصول اپنے اور غیر کی تقسیم کو مٹا دیتاہے۔ اس کے بعد سب اپنے ہوجاتے ہیں۔ کوئی کسی کا غیر نہیں رہتا۔ یہ اصول تمام انسانی نسل کو ایک ایسے مضبوط رشتے میں باندھ دیتا ہے جس سے زیادہ مضبوط کوئی اور رشتہ نہیں۔
— 060تین چیزیں حرام
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایک انسان پر دوسرے انسان کی تین چیزیں حرام ہیں—اس کا خون اور اس کا مال اور اس کی آبرو۔یہ اصول ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان آزادی کی حد قائم کرتا ہے۔ ہر انسان آزاد ہے۔ مگر اس کی آزادی وہاںختم ہوجاتی ہے جہاں وہ دوسرے کی جان مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔
انسان کواس دنیا میں آزادی دی گئی ہے کیوں کہ آزادی کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مگر یہ آزادی محدود ہے نہ کہ لامحدود۔ کسی آدمی کو اسی وقت تک آزادی حاصل ہے جب تک وہ دوسرے کی جان مال اور آبرو کو نقصان نہ پہنچائے۔ جیسے ہی کوئی آدمی ان تین چیزوں میںدوسروں کے لیے خطرہبنے، اس کی آزادی ختم ہو جائے گی۔ وہ آزادی کے فطری حق سے محروم قرار دے دیا جائے گا۔
— 061ہر شخص ذمہ دار ہے
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سن لو، تم میں سے ہر شخص ایک چرواہا ہے۔ اور تم میں سے ہر شخص سے اس کے گلّہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ اس حدیث میں چرواہے اور گلّے کی مثال سے زندگی کی ایک حقیقت کو بتایا گیا ہے۔ جس طرح چرواہے کا گلّہ ہوتاہے اسی طرح ہر انسان کا اپنے حالات کے اعتبار سے ایک گلّہ ہے۔ اور اس پر فرض ہے کہ وہ اپنے اس گلّہ کی چرواہی میں اپنی ذمہ داری کو پو را کرے۔
مثلاً ایک گھر کا جو بڑا شخص ہے اس کا گلّہ اس کا خاندان ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے۔ اسی طرح ایک اسکول یا کالج کا ایک ٹیچر اپنے طلبہ کا ذمہ دار ہے۔ اس کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کے حق میںاپنی تعلیمی ذمہ داری کو بھر پور طور پر ادا کرے۔ اسی طرح ایک لیڈر اپنے پیروؤں کا ذمہ دار ہے۔ اس کا فرض ہے کہ جو لوگ اس کا ساتھ دے رہے ہیں وہ پوری طرح ان کا خیر خواہ بنے۔ اسی طرح کسی ادارے کا صدر اپنے ادارے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا ذمہ دار ہے۔اس کا فرض ہے کہ وہ ان متعلقین ادارہ کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرے۔
— 062ہر ایک کی مدد
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ لوگوں نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو ہم جانتے ہیں مگر ہم ظالم کی مدد کیسے کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم ظالم کو اس کے ظلم سے روکو۔اسلام ہر انسان کے اندر یہ اسپرٹ پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ دوسرے انسان کا خیر خواہ ہو۔ اسی خیر خواہی کی عملی صورت کا نام مدد ہے۔ مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم سے بچایا جائے۔ ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو اس کے ظلم سے روکا جائے۔ظلم سے روکنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے ساتھ ٹکراؤ شروع کردیا جائے۔ ظالم کی حقیقی مدد یہ ہے کہ اس کی اصلاح کے لیے دعا کی جائے۔ اس کو خیر خواہانہ نصیحت کی جائے۔ ایسے حالات پیدا کیے جائیں کہ اس کواپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ ظلم کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ ظالم کی مدد ظالم سے نفرت کرنا نہیں ہے بلکہ ظالم کے ساتھ خیر خواہی کرنا ہے۔ نفرت ظلم کو بڑھاتی ہے اور خیر خواہی ظلم کا خاتمہ کردیتی ہے۔
— 063نرم سلوک
پیغمبر اسلام نے اپنے ساتھیوں کو ایک مہم پر بھیجا اوران کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ تم لوگوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرنا کیوں کہ تم آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجے گئے ہو، تم دشواری پیدا کرنے والے بنا کر نہیں بھیجے گئے۔ اس حدیث کا تعلق ہر شعبہ میںکام کرنے والوں سے ہے۔ اس میں ہر ایک کے لیے نصیحت ہے۔ مثلاً ایک افسر کو اپنے ماتحتوں کے ساتھ اسی اصول پر کام کرنا ہے۔ ایک ٹیچر کو اپنے طلبہ کے ساتھ یہی معاملہ کرنا ہے۔ ایک منیجر کو اپنی کمپنی والوں کے ساتھ اسی طرح پیش آنا ہے، وغیرہ۔
ہر آدمی کو چاہئے کہ وہ اس نصیحت کو دھیان میں رکھے۔ وہ یہ سمجھے کہ وہ جہاں ہے وہاں اس کو خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہے۔ اسے لوگوں کو مشکل میں نہیں ڈالنا ہے بلکہ ان کے لیے آسانی کا راستہ تلاش کرنا ہے۔
— 064رحم کا فارمولا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم زمین والوں کے اوپر رحم کرو، آسمان والا تمہارے اوپر رحم کرے گا۔ یہ ایک سادہ اصول ہے جو ہر مرد اور عورت کے اندر خیر کے کام کا وہ جذبہ ابھارتا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔
ہر انسان خدا کی مدد کا محتاج ہے۔ ہر عورت اورمرد کو ضرورت ہے کہ وہ زندگی کے مختلف مراحل میں خدا کی مدد پاتا رہے۔ کوئی بھی شخص اس دنیا میں خدا کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا۔
اپنے آپ کو خدا کی مدد کا مستحق بنانے کی سب سے آسان صورت یہ ہے کہ آدمی جو کچھ خود اپنے لئے خدا سے چاہتا ہے وہی وہ دوسروں کو دینے لگے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کی مدد کرے تو اس کو بھی چاہئے کہ وہ دوسروں کا مدد گار بن جائے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے تو وہ بھی دوسروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کی کوتاہیوں سے درگزر کرے تو اس کو چاہئے کہ وہ بھی دوسروں کی کوتاہیوں سے در گزر کرتا رہے۔
انسان کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کرنا گویا ایک عملی دعا ہے۔ یہ عمل کی زبان میں خدا سے یہ کہنا ہے کہ خدایا، میں نے تیرے بندوں کے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ کیا، تو تو بھی میرے ساتھ نرمی اور شفقت کا معاملہ فرما۔
— 065باہمی احترام
قرآن میںپیغمبر کی زبان سے کہلایا گیا ہے کہ اے لوگو، تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ کسی سماج میںجب کئی مذہب کے لوگ رہتے ہوں تو ان کے درمیان معتدل ماحول کس طرح قائم کیا جائے۔ اس کا سادہ فارمولا یہ ہے کہ —ایک کی پیروی کرو اور ہر ایک کا احترام کرو:Follow one and respect all.۔
مشترک مذہبی سماج میں امن قائم کرنے کا یہی واحد اصول ہے۔ یہ دنیا اختلاف کی دنیا ہے۔ اس دنیا میں اختلافات کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ ایسی حالت میں قابل عمل فارمولا صرف ایک ہے اور وہ tolerance ہے۔ یعنی ہر ایک کو یہ حق دینا کہ وہ اپنی پسند کے مطابق، مذہب یا کلچر کو اختیار کرے۔ اختلاف کے موضوع پر ایک دوسرے سے پر امن ڈائیلاگ ہوسکتا ہے مگر اختلاف کو مٹانے کی کوشش صرف مزید اختلاف پیدا کرے گی، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
— 066مذہبی احترام
پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مدینہ میں کچھ یہودی قبیلے آبادتھے۔ ایک دن پیغمبر اسلام نے دیکھا کہ ایک راستے سے ایک جنازہ گزر رہا ہے۔ پیغمبر اسلام اس وقت بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازہ کو دیکھ کر آپ اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے۔ آپ کے ایک ساتھی نے کہا کہ اے خدا کے رسول، یہ تو ایک یہودی کا جنازہ تھا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا وہ انسان نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان ہر حال میںقابل احترام ہے، خواہ وہ ایک مذہب کا ہو یا دوسرے مذہب کا، وہ ایک قوم کا فرد ہو یا دوسری قوم کا۔ کسی بھی عذر کی بنا پر اس کا احترام ختم نہیں کیا جاسکتا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان ایک ہی خدا کا پیدا کیا ہوا ہے۔ اس اعتبار سے تمام انسان یکساں طور پرقابل احترام ہیں۔
— 067دشمن میں دوست
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تم کو اپنا دشمن دکھائی دے تو تم اس سے جوابی دشمنی نہ کرو بلکہ اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اس یک طرفہ سلوک کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارا دشمن تمہارا دوست بن جائے گا۔ اسلام کی یہ تعلیم بتاتی ہے کہ دشمنی کوئی ابدی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر دشمن انسان میںایک دوست انسان چھپا ہوا ہے۔ اپنے یک طرفہ حسن سلوک سے اس امکان کو واقعہ بناؤ، اپنے دشمن کو اپنے دوست میں تبدیل کرلو۔
جوابی حسن سلوک آدمی کے ضمیر کو جگاتا ہے اور جس آدمی کا ضمیر جاگ اٹھے وہ اس کے سوا کسی روش کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ دشمنی کو چھوڑ کر آپ کا دوست بن جائے۔
— 068نرمی کے بغیر
پیغمبر اسلام نے فرمایاکہ جوشخص نرمی سے محروم ہے وہ ہر بھلائی سے محروم ہے۔ یہ حدیث ایک جامع اخلاقی اصول کو بتاتی ہے اور وہ بات چیت اور تعلقات میںنرمی ہے۔
جو آدمی نرمی کا انداز اختیار کرے وہ ہر معاملے میں اور ہمیشہ کامیاب رہے گا۔ کیوں کہ کوئی شخص ایسے آدمی کا دشمن نہیں بنے گا۔ اس کے برعکس جو آدمی دوسروں سے معاملہ کرنے میںنرمی کا انداز نہ برتے اس کا ہر کام بگڑتا چلا جائے گا کیوں کہ اس سے ہر ایک کو شکایت ہوجائے گی۔ اس کو مخالفوں اور دشمنوں کے درمیان رہنا پڑے گا۔ وہ گھر کے اندر اورباہر دونوں جگہ غیر ضروری مسائل میں الجھا رہے گا۔
— 069سادگی کی عظمت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سادگی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ سادگی کو ایمان کا حصہ بتانا سادگی کی انتہائی اہمیت کو ظاہر کرتاہے۔ سادگی بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ با مقصد انسان اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ سہولت اور عیش کی چیزوں میں مشغول ہوجائے اور اس طرح اپنے وقت اور طاقت کا ایک حصہ اس میں لگادے۔سادگی کا مطلب ہے— اپنی ضرورت کو بالکل ناگزیر چیزوں تک محدود رکھنا۔ اپنے آپ کو کسی غیر ضروری چیز کا عادی نہ بنانا، اپنے آپ کو آرام والی چیزوں سے دور رکھنا۔ سادگی در اصل ایک اعلیٰ تدبیر ہے۔ سادگی کے ذریعہ یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی کو مکمل طورپر صرف اپنے مقصد میں لگائے۔ اس کی زندگی کا کوئی حصہ مقصد کے علاوہ کسی اور چیز میں ضائع نہ ہو۔
کسی انسان کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ اس کے اندر سوچنے کا عمل (thinking process) بلا روک ٹوک جاری رہے۔ سادگی اس ذہنی عمل میں بے حد مددگار ہے۔ سادگی آدمی کے ذہن کو ہر دوسری چیز سے فارغ رکھتی ہے۔
— 070صفائی کی اہمیت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ صفائی بھی ایمان کاایک شعبہ ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صاف ستھرا رہنا اور اپنے ماحول کو صاف ستھرا بنانا اسلام میںکتنا زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
اسلام اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ہے کہ آدمی اپنے قلب اور روح کو پاک کرے۔ وہ برے خیالات کو چھوڑ کر پاکیزہ خیالات میں جینے لگے۔ وہ اپنے داخلی وجود کو اسی طرح اچھے خیالات سے پاکیزہ بنائے جس طرح کوئی شخص اپنے جسم کو پانی سے دھو کر پاکیزہ بناتاہے۔
کوئی آدمی جب اپنے داخل کو صاف ستھرا بنائے گا تو فطری طورپر وہ یہ چاہے گا کہ اس کا خارج بھی صاف ستھرا رہے۔ وہ اپنے جسم اور اپنے کپڑے کی صفائی کا اہتمام کرے گا۔ وہ اپنے گھراور اپنے ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کی کوشش کرے گا۔ صفائی ایسے انسان کا مستقل مزاج بن جائے گی۔
— 071بیچ کا راستہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ سب سے بہتر طریقہ بیچ کا طریقہ ہے (خیر الامور اوسطہا) اس تعلیم کو دوسرے لفظوں میں اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ سب سے بہتر راستہ بیچ کا راستہ (middle path) ہے۔
موجودہ دنیا میں آدمی کو بہت سے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں بہتر طریقہ وہ ہے جس میں آدمی کا راستہ کسی رکاوٹ کے بغیر طے ہوتا رہے اور کسی سے ٹکراؤ بھی پیش نہ آئے ۔ اسی راستہ کو بیچ کا راستہ کہا جاتا ہے۔بیچ کا طریقہ ہمیشہ معتدل طریقہ ہوتاہے۔ معتدل طریقہ ہمیشہ قابل عمل ہوتا ہے۔ ایسے طریقہ میںآدمی اپنے آپ کو کسی بڑے خطرہ میں ڈالے بغیر آگے بڑھ سکتاہے۔ معتدل طریقہ میںکسی ایسے بڑے نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا جس کے بعد آدمی کا پورا منصوبہ بکھر جائے اور آخر کار وہ مایوسی کا شکار ہو کر بیٹھ جائے۔
— 072تواضع سے بلندی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جوشخص تواضع کا طریقہ اختیار کرے خدا اس کو بلندی عطا کرتا ہے۔ یہ خدا کا مقرر کیا ہوا ایک قانون ہے۔ اس کے مطابق، تواضع کی روش آدمی کے لیے ترقی کے راستے کھولتی ہے۔ اس کے برعکس گھمنڈ کا طریقہ آدمی کو پستی کی طرف لے جاتا ہے۔تواضع کا فائدہ دو طرفہ ہے۔ تواضع کرنے والے کواس کا یہ فائدہ ملتا ہے کہ اس کے اندر روحانیت جاگتی ہے، اس کے اندر اعلیٰ انسانی صفات پیدا ہوتی ہیں۔ وہ خدا کے فیضان کو وصول کرنے لگتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتاہے کہ چیزوں کو بے آمیز انداز میں دیکھ سکے۔
وہ شخص جس سے تواضع کا معاملہ کیاجائے وہ اپنے ضمیر کی آواز کے تحت تواضع کرنے والے کی عظمت کو ماننے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ وہ اس کے مقابلہ میں سرکشی کرنے کا جذبہ کھو دیتا ہے۔ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ اس کی اخلاقی بڑائی کو مانے۔ وہ اپنے مقابلہ میںاس کو زیادہ بڑا انسانی درجہ دے۔
تواضع صرف ایک روش ہے۔ اس میں آدمی کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔ تواضع کرکے اسے کچھ کھونا نہیں پڑتا۔ مگر کچھ نہ کھو کر وہ سب کچھ حاصل کرلیتاہے۔ تواضع کے خلاف روش اگر جھوٹی بڑائی ہے توتواضع کے مطابق روش سچی انسانیت۔
— 073فضول خرچی نہیں
قرآن میںاسراف (فضول خرچی) سے منع کیا گیا ہے۔ یعنی حقیقی ضرورت کے بغیر خرچ کرنا۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ یہ بھی اسراف ہے کہ تم ہر وہ چیز کھاؤ جس کو کھانے کی خواہش تمہارے دل میں پیدا ہو۔ (إن من السرف أن تأکل کل مااشتہیت)
آدمی اپنی کمائی کو اگر حقیقی ضرورتوں میں خرچ کرے تو یہ اس کا جائز حق ہے۔ لیکن اگر وہ خواہش اور لذت کی بنا پر خرچ کرنے لگے تو پھر اس کا حق کسی کو نہیں۔ خدا نے اگر کسی کو زیادہ مال دیا ہے تو اس لیے نہیں دیا ہے کہ وہ اس کو صرف اپنے اوپر خرچ کرتا رہے۔ مال خدا کی امانت ہے اور اس کو چاہئے کہ اس امانت کو وہ انہی مدوں میں خرچ کرے جو خدا نے اس کے لیے مقرر کی ہیں۔جو آدمی ایسا نہ کرے وہ گویا خدا کی امانت میں پورا نہیں اترا۔
— 074اجتماعی برکت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ایک شخص کا کھانا دو آدمی کے لیے کافی ہے اور دو آدمی کا کھانا تین آدمی کے لیے کافی ہے۔ اس حدیث میں مل جل کر رہنے اور اجتماعی طورپر عمل کرنے کی برکت کو بتایا گیا ہے۔
اس حدیث میں کھانے کی مثال ایک علامتی مثال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث کاتعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ لوگ اگر ایک دوسرے کے ساتھ شرکت کرکے کام کریں اور مل جل کر رہیں تو تھوڑے لوگ بھی زیادہ بڑے بڑے کام کریں گے۔ تھوڑے سرمایہ میں بھی بہت سے لوگوں کونفع حاصل ہوگا۔ کم وسائل میں بھی زیادہ فائدہ حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ہر آدمی اگر الگ الگ اپنا کام کرے تو وہ محدود طور پر صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچائے گا۔ لیکن یہی افراد اگر ایک دوسرے کو شریک کرکے کام کرنے لگیں تو مجموعی طورپر سب کو ایک دوسرے سے فائدہ پہنچے گا۔
— 075انصاف کا تقاضا
پیغمبر اسلام نے ایک بار مدینہ کے ایک شخص سے قرض لیا ۔اس کے بعد وہ ایک دن آیا اور آپ سے قرض کی ادائیگیکے لیے سخت زبان استعمال کی۔ پیغمبر اسلام کے ساتھیوں نے چاہا کہ اس کو اس گستاخی کی سزا دیں۔ مگر آپ نے انہیں روک دیا۔ آپ نے کہا کہ حق دار کو بولنے کا اختیار ہے۔
یہ دوسرے کے ساتھ رعایت کرنے کا سبق ہے۔ دوسرا آدمی اگر کسی وجہ سے غصہ میں آجائے یا سخت کلامی کرے تو سننے والے کو اس کے ساتھ رعایت کا معاملہ کرنا چاہیے۔ اگر آدمی دوسرے کی سخت کلامی کو سننے کے لیے تیار نہیںتو اس کو چاہئے کہ وہ اس سے قرض جیسا معاملہ بھی نہ کرے۔ قرض لینے کے بعد اس کو بہر حال قرض دینے والے کو یہ حق دینا ہوگا کہ وہ اپنے جذبات کا اظہار جس طرح کرنا چاہتا ہے کرے۔ اس طرح کے معاملہ میں قرض لینے والے کو تحمّل کی روش اختیار کرنا چاہئے۔ وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ برعکس طورپروہ قرض دینے والے کو تحمّل کی نصیحت کرے۔
— 076حق سے زیادہ نہ لینا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ دو آدمی اگر میرے پاس ایک زمین کا مقدمہ لے کر آئیں۔ ان میں سے ایک شخص زیادہ ہوشیاری کے ساتھ اگر اپنا مقدمہ پیش کرے اور اس کی وجہ سے زمین اس کو دے دی جائے، جب کہ حقیقت میں وہ زمین اس کی نہ ہو تو گویا کہ اس کو آگ کا ایک ٹکڑا دیا گیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز آدمی کا واقعی حق نہ ہو، اس کے معاملہ میں اگر وہ کسی تدبیر سے اپنے موافق عدالتی فیصلہ لے لے تب بھی وہ چیز اس کی نہ ہوگی۔ کوئی عدالتی فیصلہ حقیقت کو نہیں بدل سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی چیز پر ناجائز قبضہ ہر حال میںبرا ہے۔ عدالت کا کوئی فیصلہ ناجائز کوجائز نہیں بنا سکتا۔ اگر آدمی کا ضمیر یہ کہتا ہو کہ فلاں چیز میری نہیں ہے تو ایسی حالت میںاس کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ اس چیز کو حق دار کے حوالہ کردے، نہ کہ غلط تدبیر کے ذریعہ ناجائز طور پر دوسرے کی چیز پر قابض ہونے کی کوشش کرے۔ضمیر سب سے بڑی عدالت ہے۔ سب سے بڑا فیصلہ وہ ہے جو ضمیر کی عدالت سے جاری کیا جائے۔
— 077جواپنے لیے وہی دوسروں کے لیے
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ مومن وہ ہے جودوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو وہ خوداپنے لیے پسند کرتا ہے۔ یہ سماجی اخلاق کا ایک نہایت جامع اصول ہے۔ ہر آدمی یہ جانتا ہے کہ دوسروں کی طرف سے کون سارویہ اس کو پسند ہے اور کون سا رویہ نا پسند۔ ایسا ہی وہ دوسروں کے ساتھ کرنے لگے۔ وہ دوسروں کے ساتھ وہی سلوک کرے جو سلوک وہ اپنے لیے چاہتا ہے اور دوسروں کے ساتھ اس سلوک سے بچے جس کو وہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا۔
سماجی اخلاق کا یہ اصول اتنا سادہ اور فطری ہے کہ وہ ہر عورت اور ہر مرد کو معلوم ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ ہر آدمی اس معاملہ میں حسّاس ہوجائے۔ جس حسّاسیت کا مظاہرہ وہ اپنے بارے میں کرتا ہے اس حسّاسیت کا مظاہرہ وہ دوسروں کے بارے میں کرنے لگے۔ لوگ اگر اس ایک اخلاقی اصول کو پکڑ لیں تو پورا سماج خیر وامن کا سماج بن جائے۔
— 078معاشی استقلال
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ خدا جب کسی کے لیے رزق کا ایک ذریعہ بنائے تو وہ خود سے اسے نہ چھوڑے، إلاّ یہ کہ حالات کی مجبوری کی وجہ سے اسے چھوڑنا پڑے۔اسلام کی تعلیم کے مطابق، رزق کا تعلق خدا سے ہے۔ اس لیے جب کسی انسان کو رزق کا ایک ذریعہ مل جائے تو خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے وہ اس پر قائم رہے۔ اگر وہ کسی حقیقی سبب کے بغیر اس کو چھوڑے گا تو وہ خدا کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔
معاشی زندگی میںکامیابی کا راز استقامت ہے۔ اس حدیث میں اسی استقامت اور استقلال کی تعلیم دی گئی ہے۔ معاشی زندگی میںکامیابی ہمیشہ لمبی مدت تک محنت کرنے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ حال کے بجائے مستقبل پر نظر رکھے۔ اس طرح اس کے اندر استقلال پیدا ہوگا اور وہ ضرور کامیابی کے درجے تک پہنچے گا۔ یہ حدیث گویا اس بات کی تعلیم ہے کہ معاشی سرگرمیوں میںمستقبل بینی کا مزاج پیدا کرو۔ صرف حال کو دیکھ کر بے حوصلہ نہ ہوجاؤ۔
— 079رزق خدا کی طرف سے
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ زمین پر جتنے بھی جاندار ہیں ہر ایک کی روزی خدا کے ذمّے ہے۔ پیغمبراسلام نے کہا کہ خدا نے کسی مرد یا عورت کا جورزق لکھ دیاہے کوئی اس کو چھین نہیں سکتا۔ کوئی شخص نہ اس میں کمی کر سکتا ہے اور نہ زیادتی۔یہ اعلان ہر مرد اور عورت کو رزق کی گارنٹی دے رہا ہے جس کو کوئی اس سے چھیننے والا نہیں۔ جس آدمی کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے اس کو اس کے ذریعہ دو فائدے حاصل ہوں گے۔ ایک طرف اس کو یہ یقین حاصل ہوگا کہ جو کچھ اسے مل رہا ہے وہ اس کو بہرحال مل کر رہے گا۔ اس عقیدہ کی بنا پر وہ دنیا میں اس بھروسہ کے ساتھ کام کرے گا کہ میری کوششوں کا نتیجہ مجھے ضرور ملنے والا ہے۔ کوئی بھی اتنا طاقت ورنہیں کہ وہ میرے اور میرے رزق کے درمیان حائل ہوسکے۔ رزق میرا ایک ایسا حق ہے جو خود دنیا کے مالک نے میرے لیے لکھ دیا ہے۔ پھر کون ہے جو اس لکھے کو مٹا سکے۔
یہ عقیدہ آدمی کے اندر سے مایوسی کے احساس کو نکال دیتا ہے۔ وہ عین مسائل کے درمیان کھڑا ہو کر کہہ سکتاہے کہ— کوئی شخص میرے ایک جاب کو مجھ سے چھین سکتا ہے مگر کوئی شخص اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ میری قسمت کو مجھ سے چھین سکے۔
One can take away my job. But no one has the power to take away my destiny.
— 080قناعت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ وہ شخص کامیاب ہوا جس کو خدا نے ضرورت کے بقدر رزق دیا اور وہ اس رزق پر قانع رہا۔ اس سے معلوم ہوا کہ کامیابی کا راز ملے ہوئے پر قانع رہنا ہے نہ کہ نہ ملے ہوئے کے غم میںپڑے رہنا۔دنیا میںجب بھی کوئی شخص صحیح اصول کے مطابق کمانے کی کوشش کرے تو وہ ضرور اتنی معاش حاصل کرلیتا ہے جو اس کی ضرورتوں کے لیے کافی ہو۔ اگر وہ اس ملے ہوئے پر راضی ہو جائے تو اس کا فائدہ اس کو ذہنی سکون کی صورت میں ملے گا۔ لیکن سکون ہمیشہ قناعت سے ملتاہے اورقناعت کا مطلب ہے ملے ہوئے پر راضی ہوجانا۔
اس کے برعکس جو شخص ملے ہوئے کو کم سمجھے اور نہ ملے ہوئے کی طرف دوڑتا رہے وہ کبھی مطمئن نہیںہوگا۔ اس لئے کہ دنیا میںچیزوں کی کوئی حد نہیں۔ آدمی خواہ کتنی ہی زیادہ چیزوں کو اپنے پاس جمع کرلے پھر بھی کچھ چیزیں باقی رہیں گی جواس کو یہ لالچ دلائیں گی کہ مجھے یہ بھی حاصل کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ ہمیشہ اور زیادہ کی لالچ میں پڑا رہے گا۔ وہ اسی طرح بے سکونی کی زندگی جئے گا یہاں تک کہ وہ اسی حال میں مرجائے گا۔
081 — کسی سے نہ مانگنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ تم کسی سے کچھ نہ مانگو۔ کیوں کہ نیچے کے ہاتھ کے مقابلہ میں اوپر کا ہاتھ زیادہ بہتر ہے۔ یہ اعلیٰ انسانیت کی تعلیم ہے۔ اعلیٰ انسانیت یہ ہے کہ آدمی خود اپنے آپ پر انحصار کرے۔ وہ دوسرے سے کوئی چیز نہ مانگے۔
مانگنا کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اخلاقی گراوٹ کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی دوسروں سے مانگے وہ گویا آسان رزق پر جینا چاہتا ہے۔ ایسے آدمی کو مانگنے کی عادت کی یہ قیمت دینی پڑے گی کہ اس کی اپنی صلاحیت زیادہ نہ ابھر سکے۔ اس کے اندر چھپی ہوئی طاقتیں دبی رہ جائیں۔ اس کے اندر محنت کا جذبہ سرد پڑ جائے۔ وہ اس کمزوری کا شکار ہوجائے جس کو تن آسانی کہا جاتا ہے۔زندگی کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ پر بھروسہ کرے۔ وہ اپنے آپ کو محنت کاعادی بنائے۔ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے۔ وہ دوسروں کو دینے والا بنے نہ کہ دوسروں سے لینے والا۔
082 — تجارت رزق کا بڑا ذریعہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا: تسعۃ اعشار الرزق فی التجارۃ (رزق کا نوّے فیصد حصہ تجارت میںہے)۔ اس حدیث میںفطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، تجارت میں رزق کا سب بڑا حصہ رکھا گیا ہے۔
یہ حدیث ہر آدمی کے لیے امید کا خزانہ ہے۔ اگر کسی آدمی کو ملازمت نہ ملے یا وہ وراثتی حقوق کو نہ پائے یا اور دوسرے ذرائع سے وہ کچھ پانے کی امید نہ رکھتا ہو تواس کوتجارت شروع کردینا چاہئے۔ تجارت کے ذریعہ وہ اتنا زیادہ پالے گا جو وہ دوسرے کسی ذریعہ سے نہیں پاسکتا تھا۔
083 — محنت کی روزی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اللہ اپنے اس بندہ سے محبت کرتا ہے جو محنت کرکے اپنی روزیکمائے۔ یہ حدیث محنت کی روزی کی اہمیت کو بتاتی ہے۔محنت کرکے روزی کمانا کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ محنت کی روزی تمام انسانی خوبیوں کا سرچشمہ ہے۔ محنت کی روزی سب سے زیادہ جائز روزی ہے۔ محنت سے روزی کمانا آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ محنت کی روزی آدمی کے اندرسادگی کا مزاج پیدا کرتی ہے۔ محنت کی روزی دوسروں کو سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔ محنت کی روزی آدمی کو سہولت پسندی سے بچاتی ہے۔ محنت کی روزی شخصیت کی تکمیل کا اہم ذریعہ ہے۔ اگر مجبوری نہ ہو تب بھی آدمی کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے محنت کا طریقہ اختیار کرے، وہ ہر حال میں اپنے آپ کو آرام طلبی سے بچائے۔
084 — زبان پر روک
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو دہرانے لگے۔ یہ حدیث آداب کلام کے ایک اہم اصول کو بتاتی ہے۔ وہ یہ کہ آدمی کو چاہئے کہ وہ سوچے بغیر کبھی نہ بولے۔
اجتماعی زندگی میںبار بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کے خلاف بہت سی باتیں سنتے ہیں۔ یہ تجربہ ہے کہ سنی ہوئی بات جب دہرائی جاتی ہے تو اکثر وہ کچھ سے کچھ ہو جاتی ہے۔ حتیٰ کہ بات اتنی بدل سکتی ہے کہ ایک سچی بات جھوٹی بات بن جائے۔ اس لیے صرف سننے کی بنیاد پر آدمی کو اسے کبھی دہرانا نہیں چاہئے۔ اچھی خبر کو دہرانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر بری خبر ہو تو اس کو اس وقت تک نہیں دہرانا چاہئے جب تک تحقیق کرکے پوری بات معلوم نہ کر لی جائے۔
085 — غیبت کا کفارہ
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ غیبت کاایک کفارہ یہ ہے کہ تم اس کے لیے مغفرت کی دعا کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔غیبت یہ ہے کہ آدمی کی غیر موجودگی میںاس کی کسی برائی کو بیان کیا جائے۔
غیبت ایک بد خواہی کا عمل ہے۔ جب کسی آدمی سے غیبت کی غلطی ہو جائے تواس کو چاہئے کہ وہ اس آدمی کے لیے خیر خواہی کا معاملہ کرے جس کی اس نے غیبت کی ہے۔ اور خیر خواہی کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ اس کے حق میں اچھی دعائیں کرے۔ یہ غیبت کرنے والے کی طرف سے بد خواہی کے بعد خیر خواہی کا ایک معاملہ ہوگا جو اس کے گناہ کو اس سے پاک کردے گا۔
086 — جامع نصیحت
پیغمبر اسلام نے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ کیا میںتم کو ایک جامع نصیحت کروں۔ اس نے کہا کہ ہاں اے خدا کے رسول۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنی زبان کی حفاظت کرو۔
زبان کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جو کچھ بولے سوچ کر بولے۔ وہ ایسی بات نہ کہے جو دوسروں کو ستانے والی ہو۔ ایسی بات جس سے سماج میں برائی پھیلے اس سے وہ ہر حال میں اپنے آپ کو بچائے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ اکثر سماجی برائیاں زبان کی وجہ سے پھیلتی ہیں۔ زبان کو کنٹرول میںرکھنا سماجی برائیوں کا دروازہ بند کرتا ہے اور زبان پر کنٹرول نہ کرنا سماجی برائیوں کا دروازہ کھولتا ہے۔ یہ سنجیدگی کی پہچان ہے کہ آدمی اپنی زبان کو ہمیشہ محتاط انداز میں استعمال کرے۔ زبان کا غلط استعمال یہ ہے کہ آدمی دوسروں کی برائی کرے، وہ دوسروں کے ساتھ سخت کلامی کرے۔ وہ دوسروں کے عیب کو ڈھونڈ کر اسے لوگوں میں پھیلائے۔
087 — صبر و اعراض
اسلام کی ایک تعلیم صبر ہے۔ قرآن میں بار بار صبر کی تاکید کی گئی ہے۔ مزید فرمایا کہ اپنے رب کے لیے صبر کرو (ولربّک فاصبر) اسی طرح فرمایا کہ صبر کرو اور تمہارا صبر اللہ کے لیے ہے۔ جب ایک آدمی صبر کرتاہے تو بظاہر اس کا یہ صبر کسی انسان کے مقابلہ میںہوتاہے مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ خدا کے تخلیقی نقشہ سے مطابقت کرنے کے ہم معنٰی ہوتا ہے۔
خدا نے دنیا کا نظام اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر ایک کو آزادی ہو۔ ہر ایک کے لیے مسابقت کا کھلاماحول ہو۔ اس بنا پر بار بار ایسا ہوتا ہے کہ ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک کو دوسرے سے نقصان کاتجربہ ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں ناخوش گوار تجربہ پر صبر کرنا گویا خدا کے تخلیقی نقشہ پر راضی ہونا ہے۔صبر کی اسی اہمیت کی بنا پر خدا نے صبر کو خود اپنے لیے صبر کرنے کا معاملہ بتایا۔ قرآن میںیہ اعلان کیا گیا ہے کہ جو آدمی صبر کرے گا اس کو بے حساب انعام دیا جائے گا۔
088 — یکطرفہ برداشت
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جو تمہارے اوپر ظلم کرے اس کو معاف کردو۔ یہ نہایت حکمت کی تعلیم ہے۔ ظلم کا خاتمہ ظلم کو معاف کرکے ہوتا ہے۔ ظلم کے خلاف جوابی کارروائی کرنا کبھی ظلم کو ختم نہیں کرتا۔
پیغمبر اسلام کا یہ قول در اصل نتیجہ خیز عمل (result oriented action) کی تعلیم ہے۔ اگر کوئی شخص ظلم کی کارروائی کرے تو مظلوم کو سب سے پہلے یہ سوچنا چاہئے کہ اس کی کارروائی ایسی ہوجو اس کی مظلومیت کو ختم کرے نہ کہ وہ اس کی مظلومیت کو بڑھا دے۔ جب بھی کوئی مظلوم اس طرح سوچے تو وہ پائے گا کہ ظالم کو معاف کرنا سب سے بڑا انتقام ہے۔ ظالم کے ظلم کو بھلا دینا ظلم کو ختم کرنے کی سب سے زیادہ آسان تدبیرہے۔ظالم کو معاف کرنا کوئی مجبورانہ فعل نہیں، یہ ایک اعلیٰ اخلاقی اصول ہے۔ کوئی آدمی جب ظالم کو معاف کرے تواس کو آزادانہ اصول کے طور پرایسا کرنا چاہئے۔ مجبورانہ طور پر معاف کرنا بھی بے قیمت ہے اور معاف نہ کرنا بھی بے قیمت۔
089 — اعراض کا طریقہ
قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ جاہلوں اور نادانوں سے اعراض کرو۔موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کا یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ نباتات کی دنیا میں جس طرح پھول کے ساتھ کانٹے ہیں اسی طرح انسانی دنیا میں دانشوروں کے ساتھ نادان لوگ ہر جگہ کثرت سے موجود ہیں۔ جس طرح نباتات کی دنیا میں آدمی کانٹوں سے الجھے بغیر پھول کو لے لیتاہے اسی طرح انسانی دنیا میں بھی اسے نادانوں سے الجھے بغیر اپنی زندگی کا سفر جاری رکھنا ہے۔
نادانوں سے الجھ کر کوئی شخص کامیاب نہیں ہوسکتا۔ اس لیے بہترین عقلمندی یہ ہے کہ جب بھی کسی نادان سے سابقہ پڑے تو اس کو نظر انداز کرکے آدمی آگے بڑھ جائے۔ کوئی شخص ایسا نہیں کرسکتا کہ وہ دنیا سے نادانوں کے وجود کو مٹادے۔ البتہ یہ ہر ایک کے بس میں ہے کہ وہ نادانوں سے الجھے بغیر اپنی زندگی کی تعمیر جاری رکھے۔نادانوں سے اعراض میں یہ اندیشہ نہیںکہ وہ دلیر ہو جائیں گے۔ اعراض آگ کو بجھانے والا ہے، وہ آگ کو بھڑکانے والا نہیں۔
090 — صبر میں کامیابی
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جان لو کہ صبر کے ساتھ کامیابی ہے۔ اس حدیث میں صبر کی غیر معمولی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کے مطابق، صبر ہر قسم کی ترقیوں کا زینہ ہے۔ اس دنیا میں صبر کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہوسکتا۔اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ہر آدمی کے ساتھ اتار اور چڑھاؤ کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ہر آدمی کو بار بار کسی نا پسندیدہ صورت حال کا تجربہ ہوتاہے۔ ایسی حالت میں اکثرایسا ہوتا ہے کہ آدمی بے ہمّت ہوجاتا ہے۔وہ اپنے آپ کو شکست خوردہ محسوس کرنے لگتا ہے۔ مگر یہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںکامیابی کے امکانات اتنے زیادہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔ ایک ناکامی کے بعد ہمیشہ دوسری کامیابی موجود رہتی ہے۔صبر کا مقصد گویا اپنے آپ کو بے حوصلگی سے بچا کر اگلے موقع کا انتظار کرنا ہے۔ اگر آدمی پہلی ناکامی کے بعد صبر کا ثبوت دے تو بہت جلد وہ پائے گا کہ دوسری کامیابی اس کے قریب ہی اس کا انتظار کررہی تھی۔
091 — چھوٹے شر پر راضی ہونا
پیغمبر اسلام کے ایک صحابی عمیر ابن حبیب بن خماشہ نے کہا کہ جو شخص نادان کے چھوٹے شر کو برداشت نہیں کرے گا اس کو نادان کے بڑے شر کو برداشت کرنا پڑے گا ۔
موجودہ دنیا میں جس طرح سمجھ دار لوگ ہیں اسی طرح یہاںنادان لوگ بھی موجود ہیں۔ یہ نادان لوگ اپنی نادانی کی بنا پر دوسروں کو کچھ نہ کچھ تکلیف پہنچاتے رہتے ہیں۔ یہ تکلیف ابتدا میںایک چھوٹی تکلیف ہوتی ہے۔ دانش مندی کا تقاضا ہے کہ اس چھوٹی تکلیف کو برداشت کرلیا جائے۔ جو آدمی چھوٹی تکلیف پر نادان سے الجھ جائے تو نادان ضد میں آکر اس کو اور زیادہ بڑی تکلیف پہنچائے گا۔ ایسی حالت میں بہتر یہ ہے کہ چھوٹی تکلیف کو برداشت کر لیا جائے تاکہ بڑی تکلیف کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
092 — تحمل کے ذریعہ دفاع
مشہور صحابی رسول عبد اللہ ابن عباس نے فرمایا کہ جہالت کرنے والے کی جہالت کا دفاع تم تحمل کے ذریعہ کرو ۔صحابی کے اس قول کے مطابق، دفاع کا ایک مناسب طریقہ یہ بھی ہے کہ اس کے لیے جوابی دفاع کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے۔
دنیا میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کا سابقہ نادانوں سے پڑ جاتا ہے۔ ایسے نادانوں کے شر سے بچنے کا سب سے زیادہ کارگر طریقہ تحمل کا طریقہ ہے۔ تحمل کا طریقہ نادانوں کی کارروائی کو پہلے ہی مرحلہ میں روک دیتا ہے۔ اس کے برعکس اگر نادانوں کے مقابلہ میںردّ عمل کا طریقہ اختیار کیا جائے تو ان کی برائی بڑھتی رہے گی۔ یہاں تک کہ وہ قابو سے باہر ہو جائے گی۔
093 — غصہ نہیں
ایک شخص پیغمبر اسلام کے پاس آیا۔ اس نے کہا کہ اے خدا کے رسول ، مجھے کوئی ایسی نصیحت کیجئے جو میری پوری زندگی کو سدھارنے کا ذریعہ بن جائے۔ آپ نے فرمایا: تم غصہ نہ کرو۔ یہ بلا شبہہ ایک نہایت جامع نصیحت ہے۔ یہ ایک ایسا اصول ہے جس کواگر آدمی اختیار کرلے تو اس کی زندگی کے تمام معاملات درست ہوجائیں۔
اصل یہ ہے کہ انسان ہمیشہ ایک سماج کے اندر رہتا ہے۔ اس کو باربار ایسے ناپسندیدہ تجربات پیش آتے ہیں جو اس کو بھڑکادیں اور اس کے اندر غصہ پیدا کردیں۔ اور پھر جب آدمی غصہ میںآجائے تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر نفرت اور انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ وہ غصہ دلانے والے کے خلاف انتقامی کارروائی کرتا ہے اور پھر ہر انتقام دوبارہ ایک نئے انتقام کو بھڑکا تا ہے۔ اس طرح انتقام در انتقام کا سلسلہ چل پڑتاہے جو تباہی کے سوا اورکہیں نہیںپہنچاتا۔
ایسی حالت میں اپنی زندگی کے سفر کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ غصہ جیسے جذبات سے اپنے آپ کو اوپر اٹھائے۔ وہ منفی حالات کا بھی مثبت انداز میںجواب دے۔
094 — غصہ کا حل
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ جب کسی آدمی کو غصہ آئے تو اگر وہ کھڑا ہے تو بیٹھ جائے۔ اگر وہ بول رہا ہے تو چپ ہو جائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس حالت میں ہے وہ اس حالت کو بدل دے۔ حالت کی یہ تبدیلی اس کے لیے غصہ کو ختم کرنے کا سبب بن جائے گی۔
غصّہ ایک آگ ہے جو کسی ناخوشگوار بات پر آدمی کے اندر بھڑکتی ہے۔ غصہ آدمی کو تخریبی طریقہ کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ ہمیشہ نقصان میںمبتلا کرنے والا ہوتاہے۔ ایسی حالت میں عقلمندی یہ ہے کہ غصہ آتے ہی فوراً اس کو ٹھنڈا کرنے کی تدبیر کی جائے۔ تدبیر کے ذریعہ آدمی غصہ کو منٹوں میں ختم کرسکتا ہے۔ لیکن اگر غصّہ کو باقی رہنے دیا جائے تو وہ آدمی کو ایسے نقصانات پہنچاتا ہے جس کی تلافی پھر کبھی ممکن نہ ہو۔
غصّہ آنا ایک فطری بات ہے۔ غصہ آنا بذات خود برا نہیں، بری بات یہ ہے کہ آدمی اپنے غصہ پر کنٹرول نہ کرسکے۔ غصّہ پر کنٹرول نہ کرسکنا خود اپنے آپ سے شکست کھاجانا ہے اور اپنے آپ سے شکست کھانا بلا شبہہ سب سے زیادہ بری شکست ہے۔
095 — شیطان سے پناہ مانگنا
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ شیطان تمہارا دشمن ہے۔ جب بھی تم کو محسوس ہو کہ شیطان تم کو بہکارہا ہے تو تم کہو: اللہم إنی اعوذ بک من ہمزات الشیطان(اے خدا، میں شیطان کے وسوسوں کے مقابلہ میںتجھ سے پناہ مانگتا ہوں)۔
شیطان انسان کا دشمن ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان کو صحیح راستہ سے بھٹکائے۔ وہ طرح طرح کے وسوسے ڈال کر انسان کو سچائی سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ شیطان آدمی کو دکھائی نہیں دیتا۔ وہ خفیہ طورپر انسان کے اوپر حملہ کرتا ہے۔انسان اس شیطانی حملہ کے مقابلہ میںبالکل بے بس ہے۔ اس سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے، خدا سے مدد مانگنا۔خدا کا وعدہ ہے کہ جب بھی کوئی آدمی شیطان کے مقابلہ میں خدا سے پناہ مانگے گا وہ ضرور اس کو اپنی پناہ دے گا۔ یہی اس مسئلہ کا واحد حل ہے۔
096 — طاقت ور کون
پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ پہلوان وہ نہیں ہے جو لوگوں کو کُشتی میں پچھاڑ دے۔ بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصّہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھّے۔ یہ بلا شبہہ کسی شخص کے طاقت ور ہونے کا سب سے زیادہ اعلیٰ معیار ہے۔جسمانی مقابلہ میں کسی کو پچھاڑنا کوئی بڑا کارنامہ نہیں، ایسا کارنامہ تو ایک حیوان بھی کرسکتا ہے۔ کسی انسان کے طاقتور ہونے کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ جب اس کو کسی کے اوپر غصّہ آئے تو وہ اپنے آپ کو پوری طرح کنٹرول میں رکھّے۔ غصّہ کے باوجود وہ انسانیت کے دائرہ سے باہر نہ جائے، وہ غصّہ کے اوپر غالب رہے نہ کہ غصّہ اس کے اوپر غالب آجائے۔
097 — مشکل میں آسانی
قرآن میں فطرت کے جن قوانین کو بتایا گیا ہے ان میں سے ایک قانون یہ ہے کہ اس دنیا میں مشکل کے ساتھ آسانی رکھی گئی ہے (الانشراح) یعنی مشکل کے بعد نہیں بلکہ خود مشکل کے ساتھ ہی آسانی کا پہلو شامل ہے۔ یہ فطرت کا ابدی قانون ہے وہ کبھی بدلنے والا نہیں۔
اصل یہ ہے کہ اس دنیا میں مشکل کے مقابلہ میں امکانات کی مقدار بہت زیادہ ہے۔ اگر ایک مشکل پیدا ہو یا ایک بار کوئی نقصان ہوجائے تو آدمی کو مایوس نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ اس کو چاہئے کہ وہ اپنی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرے۔ جب وہ سوچے گا تو وہ جانے گا کہ عین اسی وقت اور ٹھیک اسی مقام پر اس کے لیے بہت سے نئے امکانات موجود ہیں۔ وہ ایک چانس کو کھو کر وہ دوسرا چانس پاسکتا ہے جس کواستعمال کرکے وہ دوبارہ آگے بڑھ جائے۔موجودہ دنیامیں زندگی کا بہترین فارمولا یہ ہے کہ —مسائل کو نظر انداز کرواور مواقع کو استعمال کرو۔ ناموافق حالات کو حسن تدبیر سے اپنے موافق بنانے کی کوشش کرو۔ ناکامی کو زیادہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعہ کامیابی میں تبدیل کرو۔
خداکی اس دنیا میں یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنی عقل کواستعمال کرکے اپنے مائنس کو پلس بناسکے۔ یہ امکان ہر اس شخص کے لیے موجودہے جو ہمت نہ ہارے جو ناامیدی کے حالات میںبھی پر امید بنا رہے۔
098 — آسان طریقہ کا انتخاب
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ پیغمبر کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب بھی پیغمبر اسلام کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ مشکل انتخاب کو چھوڑ دیتے اور آسان انتخاب کو لے لیتے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ کو پر تشدد طریق کار اور پر امن طریق کار کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا تو آپ پر تشدد طریقِ کار کو چھوڑ دیتے اور پر امن طریقِ کار کو اختیار کرتے۔ اس طرح جب بھی آپ کو اعراض اور ٹکراؤ کے درمیان انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ ٹکراؤ کے طریقہ کو چھوڑ دیتے اور اعراض کے طریقہ کو اختیار کرتے۔ اسی طرح جب آپ کو جنگ اورصلح کے درمیان انتخاب کا موقع ہوتا تو آپ ہمیشہ جنگ کو چھوڑ دیتے اور صلح کو قبول کرلیتے۔
یہی حکمت ہے۔ اس حکمت کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی کسی مزید بگاڑ سے بچ جائے اور اپنے معاملات کو کامیابی کے ساتھ درست کرتا چلا جائے۔ ہر معاملہ میں ہمیشہ دونوں طریقِ کار کا امکان ہوتاہے۔ مگر عقل مندی وہی ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ہمیں ملتاہے۔
099 — ناپسندیدگی میں خیر
قرآن میںایک موقع پر نصیحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ : ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناگوار سمجھو اور وہ تمہارے لیے بھلی ہو۔ اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو۔
اس آیت کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ لوگ عام طور پر چیزوں کو ظاہر کے اعتبار سے دیکھتے ہیں۔وہ ظاہری دلکشی کی بنا پر ایک چیز کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ اور جو چیز ظاہر کے اعتبار سے دلکش نہ ہو اس کو ناپسندیدہ سمجھ کر رد کر دیتے ہیں۔ مگر حقیقی انجام کے اعتبار سے یہ طریقہ درست نہیں۔
اکثر ایسا ہوتاہے کہ ایک چیز بظاہر دیکھنے میںاچھی نہیں لگتی مگر اصل حقیقت کے اعتبار سے انسان کے لیے اسی میں فائدہ چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس ایک چیز بظاہر دیکھنے میںاچھی لگتی ہے مگر اصل حقیقتکے اعتبار سے وہ برے انجام کی طرف لے جانے والی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہئے کہ وہ ظاہر کے اعتبار سے چیزوں کے بارے میں فیصلہ نہ کرے بلکہ وہ گہری حقیقتوں کے اعتبار سے چیزوں کو دیکھے اوراس کے مطابق فیصلہ کرے۔
100 — ایک دعا
پیغمبر اسلام کی ایک دعا ان الفاظ میں آئی ہے: اللہم ارنا الحق حقاً و ارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً و ارزقنا اجتنابہ وارنا الاشیاء کما ہی۔ (اے خدا مجھے حق کو حق کی صورت میں دکھا اور مجھے اس کی پیروی کی توفیق دے اور مجھے باطل کو باطل کی صورت میںدکھا اور مجھے اس سے بچنے کی توفیق دے اور مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں)۔
موجودہ دنیا میں سب سے زیادہ ضروری چیز یہ ہے کہ آدمی کے اندر موضوعی طرزفکر (objective thinking) ہو۔ اس حدیث میںاسی کے لیے دعا کی تعلیم دی گئی ہے۔ موجودہ دنیا میں آدمی ایسے حالات کے درمیان رہتا ہے کہ وہ اکثر حق کو باطل کے روپ میں دیکھنے لگتا ہے اور باطل کو حق کے روپ میں۔ اس دعا میںبندہ اپنے رب سے سوال کررہا ہے کہ وہ اس کو اس گمراہی سے بچائے۔ وہ اس کے اندر وہ نگاہ پیدا کرے جو چیزوں کو اس کی اصل روپ (as it is) میںدیکھنے لگے۔صحیح سوچ سے صحیح عمل پیدا ہوتا ہے اور صحیح عمل آدمی کو ہمیشہ کامیابی کی طرف لے جاتاہے۔
اس پیغمبرانہ دعا کے مطابق، ہر انسان اس فکری مسئلہ سے دوچار ہے کہ حق اس کو حق کی صورت میں نہ دکھائی دے اور باطل اس کو باطل کی صورت میں نہ دکھائی دے۔ یہ مسئلہ کنڈیشننگ (conditioning) کی وجہ سے پیدا ہوتاہے۔ ہر آدمی پیدائش کے بعد ایک ماحول میںپرورش پاتا ہے۔ ابتدائی عمر میں وہ ذہنی ناپختگی کی بنا پر ماحول کے اثر کو قبول کرتا رہتا ہے۔ اسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ پختگی کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہر انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے شعور کو متحرک کرکے اپنی کنڈیشننگ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو مطابق واقعہ سوچ (as it is thinking)کے درجہ تک پہنچائے۔ علم کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو باشعور بنا کر اس کو اس سلف ڈی کنڈیشننگ کے لیے تیار کرے۔ مذکورہ دعا اسی ڈی کنڈیشننگ کے عمل میں یقین کے عنصر کا اضافہ ہے۔
واپس اوپر جائیں