Pages

Friday 1 March 2002

Al Risala | March 2002 (الرسالہ،مارچ)

2

- سوئزرلینڈ کا سفر


سوئزرلینڈ کا سفر

نیوکلیر ڈس آرمامنٹ فورم (Nuclear Disarmament Forum) ایک انٹر نیشنل ادارہ ہے۔ اس کے دفاتر روس اور جرمنی اور سوئزر لینڈ میں قائم ہیں۔ اس کے زیر اہتمام ایک انٹر نیشنل میٹنگ سوئزرلینڈ کے ایک تفریحی مقام کینڈرسٹگ (Kandersteg) میں منعقد ہوئی۔ اس میں مختلف ملکوں کے دو درجن اسکالر اور پروفیسر شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر سوئزر لینڈ کا سفر ہوا۔ ۲۵ جولائی ۲۰۰۱ کو دہلی سے روانگی ہوئی اور یکم اگست کو وہاں سے واپسی ہوئی۔ اس سفر کی مختصر روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔
اس سفر کا ایک پیشگی تجربہ ۲۰ جولائی ۲۰۰۱ کو ہوا۔ نئی دہلی میں سوئزرلینڈ کے سفارت خانہ میں ایک نوجوان ویزا لینے کے لئے آیا۔ کھڑکی کے دوسری طرف بیٹھی ہوئی خاتون نے پوچھا کہ تم کس لئے سوئزر لینڈ جانا چاہتے ہو۔ نوجوان نے نہایت اطمینان کے ساتھ انگریزی میں جواب دیا کہ ـــــاپنی گرل فرینڈ سے ملنے کے لئے:
To meet my girl friend.
کھڑکی کے پیچھے بیٹھی ہوئی خاتون نے اس کے جواب میں یہ نہیں کہا کہ گرل فرینڈ سے ملنے کے لئے ہم ویزا نہیں دیتے۔ بلکہ اس کی بات کو ایک معقول جواب کے طور پر لیتے ہوئے صرف یہ پوچھا کہ اس سوئس لڑکی سے تمہاری ملاقات کہاں ہوئی۔ نوجوان نے کہا کہ آسٹریلیا میں۔ اس کے بعد خاتون کلرک نے کہا کہ قاعدہ کے مطابق ، تم اس لڑکی کی طرف سے گارنٹی لیٹر منگواؤ پھر تم کو ویزا جاری کر دیا جائے گا۔
مغربی کلچر کے مطابق، یہ ویسا ہی ایک سادہ جملہ ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ میں اپنی بیوی سے ملنے سوئزر لینڈ جارہا ہوں۔ مغربی کلچر میں گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ کی حیثیت عملاً میاں بیوی کی مانند ہو چکی ہے اور شراب کی حیثیت وہی ہے جو ہمارے یہاں پانی کی حیثیت ہے۔ ان برائیوں میں مبتلا ہونے کے باوجود مغربی کلچر کا انسان سماجی اخلاق کے معاملہ میں موجودہ مذہبی لوگوں سے بہت زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان لوگوں نے عورت اور شراب کو ذاتی آزادی کی چیز قرار دے دیا ہے۔ لیکن جہاں تک سماجی اور کاروباری اخلاقیات کا تعلق ہے، اس کو وہ سختی کے ساتھ ڈسپلن کا معاملہ سمجھتے ہیں۔ اس تقسیم کی بنا پر انہوں نے شخصی آزادی کے باوجود اجتماعی ڈسپلن کو برقرار رکھا ہے۔
۲۴ جولائی کی رات کو ۱۰ بجے گھر سے دہلی ائر پورٹ کے لئے روانگی ہوئی۔ میری زبان سے یہ مسنون دعا نکلی: اللھم انت الصاحب فی السفر وانت الخلیفۃ فی الأھل(خدایا تو سفر میں میرا ساتھی ہے اور تو میرے بعد میرے گھر والوں کا نگہبان ہے)۔ اس قسم کی دعائیں جو حدیثوں میں موجود ہیں وہ مومن کے لئے بے حد قیمتی تحفہ ہیں۔ ان دعاؤں کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ کچھ پراسرار الفاظ کا مجموعہ ہیں جن میں طلسماتی خواص چھپے ہوئے ہیں۔ بلکہ وہ مومنانہ جذبات کا لفظی اظہار ہیں۔ یہ دعائیں بتاتی ہیں کہ زندگی کے مختلف مواقع پر اللہ کے کسی بندے کے دل میں اپنے رب کے لئے کس قسم کے احساسات جاگنے چاہئیں۔ یہ ایک سچے بندے کی طرف سے خوف اور محبت کا تحفہ ہے جس کو وہ نفسیاتی سطح پر اپنے رب کے لئے بھیجتا ہے۔
دہلی ائر پورٹ پر ڈاکٹر کپلا (ہندو خاتون) اور رین پوچے جی (بدھسٹ) پیشوا ملے۔ یہ دونوں بھی سوئزر لینڈ کی اس کانفرنس میں شرکت کے لئے جارہے تھے۔ ہم لوگ دیر تک ائر پورٹ کے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے مختلف موضوعات پر بات کرتے رہے۔
رین پوچے جی ایک مشہور بدھسٹ ہیں۔ حال میں وہ تبت کی پراوزنل گورنمنٹ یا مہاجر گورنمنٹ (Government in exile) کے لئے مہاجر تبتیوں کے اتفاق رائے سے پرائم منسٹر مقرر ہوئے ہیں۔ ان سے کئی بار میری ملاقات ہوچکی ہے۔ بدھسٹ خدا کو نہیں مانتے۔ اس کے باوجود میں نے دیکھا کہ رین پوچے جی میں تواضع (modesty) ہے۔
میں نے سوچا کہ رین پوچے جی کی اس تواضع کا راز کیا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ تواضع کا راز یہ ہے کہ آدمی اپنے سے برتر کسی حقیقت کو دریافت کرسکے۔ مومن اللہ کو ایک برتر ہستی کے طورپر دریافت کرتا ہے۔ یہ دریافت اس کو متواضع بنا دیتی ہے۔سائنس داں علم کوایک برتر حقیقت کے طورپر دریافت کرتا ہے۔ اسی طرح سے بدھسٹ لوگ انسانیت کو برتر حقیقت کے طورپر مانتے ہیں۔ غالبًا یہی چیز ان کے لئے تواضع کی نفسیات پیدا کرنے کا ذریعہ بن گئی ہے۔
۲۴ جولائی کو ائر پورٹ پر دو رکعت نمازپڑھی۔ سجدہ کی حالت میں ایک عجیب تجربہ ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ سجدہ کسی انسان کی طرف سے اپنے رب کے لئے سب مشن (submission) یا سرنڈر (surrender) کی آخری صورت ہے۔ میں نے کہا کہ خدایا، سرفگندگی کی اس کے آگے بھی کوئی صورت ہوتی تو میں تیرے لئے اس کو کرتا تا کہ میں تیری رحمتوں کو حاصل کرسکوں۔
نماز کے بعد سوچتے ہوئے ایک عجیب حقیقت سمجھ میں آئی۔ میری سمجھ میں آیا کہ سجدہ اظہار عبودیت کا آخری ماڈل (final model) ہے۔ اس دنیا میں اللہ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سے ہر ایک اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ چیونٹی، شیر، دریا، پہاڑ، درخت، انسان، غرض ہر چیز، حتی کہ گھاس بھی اپنے آخری ماڈل پر ہے۔ کوئی بڑے سے بڑا آرٹسٹ بھی کسی چیز کا کوئی اور ماڈل تیار نہ کر سکا۔ اس دنیا کی ہر چیز اتنی مکمل ہے کہ اس کے آگے تکمیل کا کوئی اور درجہ پانا انسانی عقل کے لئے ممکن نہیں۔
یہی معاملہ اسلامی عبادت کا ہے جو اللہ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم جزء سجدہ ہے جس کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ واسجد واقترب۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سجدہ انسانی عبودیت کے اظہار کا آخری ماڈل ہے، اس کے آگے کوئی اور ماڈل قابل تصور نہیں۔ اس لئے وہ موجودہ دنیا میں قربتِ الٰہی کا بھی آخری لمحہ ہے۔
دہلی سے زیورک کا سفر سوئس ائر کی فلائٹ کے ذریعہ ہوا۔ یہ ایک ڈائرکٹ فلائٹ تھی جو دہلی سے زیورک تک کا سفر ساڑھے سات گھنٹہ میں طے کرتی ہے۔
میرے پاس فرسٹ کلاس کا ٹکٹ تھا۔ جب میں اس کے فرسٹ کلاس میںپہنچا تو تھوڑی دیر کے لئے عجیب احساس ہوا۔ یہ ایک خوبصورت کیبن تھی۔ جدید طرز کی انتہائی آرام دہ سیٹ، ہر قسم کے کھانے پینے کا عمدہ سامان، بہترین سروس کے لئے ہر وقت ائر ہاسٹس موجود، وغیرہ وغیرہ۔
مگر فرسٹ کلاس کا یہ ظاہری سحر (fascination) صرف تھوڑی دیر کے لئے تھا۔ جلد ہی وہ بالکل ختم ہوگیا۔ میری طبیعت گھبرا اٹھی اور میں چاہنے لگا کہ جلد سفر ختم ہو اور میں اس خوبصورت قید خانہ سے نکل کر باہر کی کھلی دنیا میں پہنچ جاؤں۔ اپنے اس احساس پر غور کرتے ہوئے مجھے وہ آیت یاد آئی جو اہل جنت کی زبان سے قرآن میںآئی ہے۔ نتبوأ من الجنۃ حیث نشاء (الزمر ۷۴)۔ میں نے سوچا کہ خواہ کوئی جگہ بظاہر کتنی ہی زیادہ پر راحت اور پر عیش کیوں نہ ہو، اگر وہ محدود ہو تو انسان بہت جلد اس سے اکتا جائے گا۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے لامحدود وسعتوں میں جینا چاہتا ہے۔ انسان انتہائی حد تک ایک آزادی پسند مخلوق ہے۔ وہ اپنے جینے کے لئے ایک ایسی جگہ چاہتا ہے جہاں نہ صرف ہر قسم کا عیش وآرام موجود ہو بلکہ اسی کے ساتھ وہ ایسی جگہ ہو جو محدود یتوں سے پاک ہو۔ ایسی وسیع جگہ صرف جنت ہو سکتی ہے جس کے بارے میں قرآن میںارشاد ہوا ہے عرضھا السماوات والارض (آل عمران ۱۳۳)
۲۴ جولائی ۲۰۰۱ کو دہلی سے زیورک کی طرف پرواز کرتے ہوئے کچھ چیزیں پڑھیں۔ سوئس ائر کے فلائٹ میگزین میں ایک مضمون اسپورٹس(sports) پر تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ کھیل کی دنیا میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک آدمی اچانک ایک بڑی کامیابی حاصل کرتا ہے اور وہ زیرو سے ہیرو بن جاتا ہے۔ اس مضمون کا عنوان تھا:
From Zero to Hero.
اس کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہی معاملہ بہت سے لوگوں کے ساتھ برعکس صورت میں ہونے والا ہے۔ بہت سے لوگ دنیوی کمالات دکھا کر آج کی مادی دنیا میں ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ میڈیا میں ان کا چرچا ہوتا ہے۔ ان کے پاس ہر قسم کے مادی سازوسامان ہیں۔ لوگ ان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک وقت آنے والا ہے جب کہ وہ اپنی یہ شان و شوکت کھو دیں گے۔ وہ اچانک ہیرو سے زیرو بن جائیں گے۔ مگر انسان آج کے دن میں اتنا گم ہے کہ اسے کل کے دن کی کوئی خبر نہیں۔
راستہ میں کچھ اخبارات دیکھے ۔ہیرالڈ انٹر نیشنل ٹریبیون کے زیورک ایڈیشن (۲۴ جولائی) میں انڈونیشیا کے معزول صدر عبد الرحمن وحید پر ایک تفصیلی رپورٹ چھپی تھی۔ عبد الرحمن وحید کے غیر جمہوری اور آمرانہ رویہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اخبار نے یہ الفاظ لکھے تھیـــــــ یہ ستم ظریفی کی بات ہے کہ ایک شخص جو جمہوریت کا چمپئن تھا اس نے اپنی پوزیشن کو بچانے کے لئے غیر جمہوری طریقے اختیار کئے:
It is ironic that a person who was a champion of democracy tried to protect his position by undemocratic means.
ہمارا جہاز ۲۵ جولائی ۲۰۰۱ کی صبح کو ٹھیک وقت پر زیورک پہنچ گیا۔ جہاز جب ائر پورٹ کے قریب پہنچ کر نیچے اترا تو چاروں طرف سرسبز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک خوبصورت دنیا تھی جو گویا فطرت کے سبزہ زار ماحول میں بنائی گئی تھی۔ اس کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا:
It is like seeing paradise from a distance.
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک نہایت حسین اور معیاری دنیا بنائی جہاں انسان ابدی طورپر پر مسرت زندگی گزار سکے۔ یہ جنت ہے ۔پھر اس نے ایک اور دنیا موجودہ زمین کی صورت میں بنائی۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انتہائی انوکھا استثناء ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، اس دنیا میں جنت کے مشابہہ تمام چیزیں رکھ دی گئی ہیں (البقرہ ۲۵)۔ گویا یہ دنیا کا مل جنت کا ایک ناقص تعارف ہے۔ یہ دنیا انسان کو اس لئے دی گئی ہے تاکہ وہ اس کے اندر جنت کی ابتدائی جھلک دیکھے اور پھر اس کا شکر ادا کر کے ابدی جنت کا مستحق بنے (لئن شکرتم لازیدنکم) ابراہیم ۷۔
۲۵ جولائی کی صبح کو ہم لوگ زیورک ائر پورٹ پر تھے۔ یہ ائرپورٹ نہایت منظم اور نہایت خوبصورت ہے۔ ٹرانسپورٹ کا عمدہ انتظام ہے۔ ائر پورٹ سے نکلتے ہی بس مل جاتی ہے ۔ اسی کے ساتھ ائر پورٹ کے ٹھیک نیچے ریلوے اسٹیشن ہے۔ یہاں سے ہر مقام کے لئے آرام دہ ٹرین حاصل کی جاسکتی ہے۔
دہلی اور زیورک کے ٹائم میں ساڑھے تین گھنٹہ کا فرق ہے۔ صبح ساڑھے سات بجے ہم لوگ زیورک سے کنڈرسٹگ (Kandersteg) کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ ایک پہاڑی تفریح گاہ (hill resort) ہے۔ یہیں پر قیام کا انتظام تھا۔ ڈھائی گھنٹے کا یہ سفر ایسا تھا گویاکہ ہم ایک آفاقی پارک کے درمیان سے گزر رہے ہوں۔ راستہ کے دونوں طرف پرکشش ہریالی اور سرسبز مناظر کے درمیان جگہ جگہ خوبصورت مکانات اور برفیلی پہاڑیاں، ایسا محسوس ہوا جیسے کہ ہم کسی خواب کی دنیا میں ہیں۔ سڑک اتنی عمدہ تھی کہ ہماری گاڑی سڑک پر پھسلتی ہوئی چل رہی تھی۔ ماحول میں نہ دھواں تھا اور نہ شور۔
سوئزرلینڈ یورپ کے تقریبًا درمیان میں ہے اس کے چاروں طرف فرانس، جرمنی، اٹلی اور آسٹریا واقع ہیں۔ وہ افغانستان کی طرح ایک محصور ملک (landlocked country) ہے۔ مگر سوئزر لینڈ دو رجدید کا ایک اعلٰی ترقی یافتہ ملک ہے جہاں ہر طرف امن اور خوشحالی کا دور دورہ ہے۔ جب کہ افغانستان برعکس طورپر ایک ایسا تباہ ملک بنا ہوا ہے جہاں خود افغانیوں کے لئے اتنی کم کشش ہے کہ وہ پہلی فرصت میں بھاگ کر دوسرے ملکوں میں چلے جاتے ہیں۔
اس فرق کا راز ایک لفظ میں استحکام (stability) ہے۔ سوئزر لینڈ کے لیڈروں نے ۱۸۱۵ میں پڑوسی ملکوں سے اپنی سرحد کو متعین کرایا۔ اس کے بعد سے آج تک وہاں کامل طورپر استحکام کا ماحول قائم ہے۔ جب کہ اس مدت میں افغانستان میں بار بار لڑائی جھگڑوں کے نتیجہ میں استحکام ٹوٹتا رہا اس بنا پر وہاں امکانات کے باوجودترقی نہ ہوسکی۔
سماجی اور سیاسی استحکام کوئی اتفاقی واقعہ نہیں۔ وہ شعوری ایڈجسٹمنٹ کے ذریعہ حاصل ہونے والا ایک واقعہ ہے۔ مثال کے طورپر سوئزر لینڈ میں مختلف گروہ بستے ہیں جن میں کلچر اور زبان اور مذہب کی یکسانیت نہیں، اس کے باوجود وہاں مکمل اتحاد ہے۔ اس اتحاد کا راز اختلاف کو گوارا کرنا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانا۔ اس کے برعکس افغانستان میں تقریبًا سارے لوگ مسلمان ہیں اور سب کی زبان بھی ایک ہے۔ اس کے باوجود ان کے غیر مصالحت پسندانہ مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ وہ صدیوں سے آپس میں لڑتے رہے ہیں اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کی یہ لڑائی ابھی اور کتنے دن جاری رہے گی (17 EB/867) افغانستان میں جو کچھ ہوا یا ہورہا ہے وہ یقینی طورپر قبائلی لڑائی ہے، نہ کہ اسلامی جہاد۔
اس کانفرنس کا انعقاد کنڈراسٹگ(Kandersteg) میں کیا گیا تھا۔ یہ سوئزرلینڈ کا مشہور رزورٹ (resort) ہے۔ یہاں مختصر آبادی ہے۔ اس مختصر بستی میں ایک ہزار سے کچھ زیادہ لوگ آباد ہیں جن کی زبان عام طورپر جرمن ہے۔ یہ سوئزر لینڈ کا ایک گاؤں (village) ہے۔ مگر وہ دور جدید کی تمام بہترین سہولتوں سے آراستہ ہے۔ یہاںایک خوبصورت ریلوے اسٹیشن بھی ہے۔ یہاں سے بیٹھ کر آپ روم اور دوسرے مقامات تک جاسکتے ہیں۔ سوئزر لینڈ کی ٹرین میں سفر کرنا بذاتِ خود ایک تفریح کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب یہ ٹرین فطرت کے خوبصورت مناظر کے درمیان سے گزرتی ہے تو اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انسان جنتی سفر کا خواب دیکھ رہا ہو۔
کشمیر کو بر صغیر ہند کا سوئزرلینڈ کہا جاتا ہے۔ یہ بات امکان کے اعتبار سے بالکل درست ہے۔ مگر بدقسمتی سے کشمیر میں اس امکان کو واقعہ نہ بنایا جاسکا۔ کشمیر کے نادان لیڈروں نے اگر اپنی بے فائدہ سیاست اور جنگ جوئی سے کشمیر کے ماحول کو بگاڑ ا نہ ہوتا تو بلا شبہہ کشمیر عملی اعتبار سے بھی آج بر صغیر ہند کا سوئزر لینڈ ہوتا۔ کشمیر کے لیڈروں نے اپنی بے دانشی کی بنا پر جس ترقی کا خواب سیاست میں دیکھا تھا، اس خواب کی تعبیر زیادہ بہتر طورپر سیاحت اور تعلیم میں موجود تھی۔ مگر یہ لیڈر اپنے روایتی ذہن کی بنا پر اس نئے امکان کو سمجھ نہ سکے۔ وہ بے فائدہ طورپر سیاست کی چٹان سے سرٹکراتے رہے جب کہ عین اسی وقت سیاحت اور تعلیم جیسے تعمیری میدانوں میں ان کے لئے ہر قسم کی اعلیٰ ترقی کے دروازے کھلے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر کو خود اس کے نادان لیڈروں نے تباہ کیا ہے نہ کہ کسی مفروضہ ظالم نے۔
اس کانفرنس میں مختلف ملکوں کے لوگ تقریبًا ۲۵ کی تعداد میں شریک ہوئے۔یہ سب کے سب اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ میرا ابتدائی اندازہ یہ تھا کہ سویزر لینڈ کی اس انٹرنیشنل کانفرنس میں شاید میرا کوئی جاننے والا نہ ہوگا۔ دہلی میں ہمارے دفتر کی طرف سے کتابوں کا ایک بنڈل دیا جارہا تھا۔ میں غیر ضروری سمجھ کر اس کواپنے ساتھ لے جانے پر راضی نہ تھا۔ مگر دفتر کے اصرار پر آخر وقت میں اس کو ساتھ رکھ لیا۔
۲۵ جولائی کو شام کے کھانے پر کانفرنس کے شرکاء سے ملاقات ہوئی۔ میرے اندازے کے خلاف معلوم ہوا کہ ان میں سے بیشتر لوگ مجھ کو جانتے تھے۔ ان میں شاید ایسے لوگ کم ہوں جنہوں نے میری کتابیں پڑھی ہوں مگر یہ لوگ میرے نام سے ضرور واقف تھے۔ میں نے جاننا چاہا کہ ان لوگوں کو میرے بارے میں یہ واقفیت کیسے ہوئی۔ معلوم ہوا کہ اس میں بڑا حصہ ہمارے مخالفین کا ہے۔مخالفین نے مجھ کو ساری دنیا میں بدنام کرنے کی کوشش کی۔ اس طرح میرا نام لوگوں کے علم میں آگیا۔ گویا لوگوں کی طرف سے بدنامی کی مہم شہرت عام میں تبدیل ہوگئی۔ یہ وہی معاملہ ہے جس کو قرآن میں رفع ذکر (الانشراح) کہاگیا ہے۔
اس کانفرنس میں جو لوگ آئے ان میں سے ایک ملیشیا کے ڈاکٹر چندر مظفر تھے۔ وہ انٹر نیشنل موومنٹ فار اے جسٹ ورلڈ کے پریذیڈنٹ ہیں۔ انہوں نے گفتگو کے دوران بتایا کہ امریکہ سے ایک کتاب چھپی ہے۔ اس کتاب میں مصنف نے میرا اور میرے مشن کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ کتاب کا نام اوراس کے مصنف کا نام یہ ہے:
Alternative Visions by Fred Dalmayr
ڈاکٹر مظفر کے پاس یہ کتاب موجود تھی۔ انہوں نے متعلقہ صفحات کی فوٹو کاپی کراکر ہمیں دیا۔ ۲۵ جولائی کو شام کے کھانے پر جن لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ان میں سے ایک پروفیسر گریول لنڈاپ تھے۔ وہ ٹمناس اکیڈمی ریویو کے ایڈیٹر ہیں۔ وہ مانچسٹر سے آئے تھے۔ انہوں نے میرے حالات اور میرے موضوع کے بارے میں تفصیل سے جاننا چاہا۔ میں نے جوباتیں بتائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ میری تعلیم اگر چہ اسلامی مدرسہ میں ہوئی مگر تعلیم سے فراغت کے بعد جب میں وسیع تر دنیا میں آیا تو میں مذہب سے برگشتہ ہوگیا۔ اس کے بعد حالات نے میرے اندر وہ چیزپیدا کی جس کو روح تجسس (spirit of enquiry) کہا جاتا ہے۔ چنانچہ میں نے ازسر نو ہر موضوع کا مطالعہ شروع کیا۔ فلسفہ و نفسیات،تاریخ، سائنس، مذہب، سماجیات اورآخر میں اسلام کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد مجھ پر یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ اسلام خدا کا سچا دین ہے۔ اب میں نے اسلام کونئے یقین کے ساتھ اختیار کرلیا۔ اس کے بعد اسلام ہی میرا مستقل موضوع بن گیا۔
ایک پروفیسر صاحب نے کہا کہ آپ جو نظریہ پیش کرتے ہیں اس کی بہت سے لوگ مخالفت کرتے ہیں۔ پھر آپ اپنے مشن کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ تاریخ کا یہ تجربہ ہے کہ سچ ہمیشہ جھوٹ کے اوپر غالب آتا ہے۔ حق کو ناحق کے اوپر ہمیشہ فتح حاصل ہوتی ہے۔ اس حقیقت کو ایک جملہ میںاس طرح بیان کیا گیا ہے:
Let truth prevail
میں نے کہا کہ اپنے نظریہ کی صداقت پر میرا یقین ہی میرے لئے اس اطمینان کی کافی وجہ ہے کہ وہ غالب ہو کر رہے گا۔ اللہ کے فضل سے اس عمل کا آغاز شروع ہوگیا ہے۔ آج دنیا میں ہر جگہ بڑی تعداد میںایسے لوگ موجود ہیں جو ہم سے پورا اتفاق کرتے ہیں۔ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے اور انشاء اللہ وہ بڑھتی ہی رہے گی۔
۲۶ جولائی کی صبح ہوئی تو میرے ہوٹل کے کمرہ کے قد دیوار شیشہ کے دوسری طرف سہانے مناظر دکھائی دینے لگے۔ سر سبز پارک، اس میں کھڑے ہوئے خوبصورت سر سبز درخت، ان کے پیچھے بلند پہاڑ کے مناظر، پہاڑ کی چوٹی پر چاندی کی طرح چمکتی ہوئی برف، اور اس سے بہتے ہوئے چشمے، ان سب کے اوپر کھلا ہوا نیلا آسمان، پھر اس میں تیرتے ہوئے بادل کی ٹکڑیاں اور پھر ان سب کے درمیان ایک خوشگوار آفاقی سکون اور پھر صبح کا ابھرتا ہوا سورج۔ کچھ دیر کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے فطرت کے جنتی مناظر کو دکھانے کے لئے خدا نے ایک آسمانی ٹارچ جلا دی ہو۔ اسی کے ساتھ خوبصورت چڑیوں کے ہلکے نغمے اس آفاقی حسن میں مزید اضافہ کررہے تھے۔ ان مناظر کے پیچھے وہ محل نما ہوٹل تھا جس کے کمرہ نمبر ۳۶ میں میں مقیم تھا۔
سوچتے ہوئے خیال آیا کہ میرے سامنے شیشہ کے ایک طرف اگر دنیائے فطرت ہے تو شیشہ کے دوسری طرف دنیائے صنعت۔ وہ دنیائے صنعت، جس کا نام رائل پارک ہوٹل ہے۔ جس میں جدید صنعتی دور کی تمام آسائشیں اعلیٰ معیار پر مہیا کی گئی ہیں۔
مزید سوچتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ فطرت کی دنیا ہزاروں سال پہلے جیسی تھی ویسی وہ آج بھی ہے۔ پہاڑوں کی بلندی، درختوں اور چشموں کا حسن، چڑیوں کے نغمے، سورج کی سہانی کرنیں، غرض فطرت کی تمام چیزیں ایک ابدی شان کے ساتھ ہمیشہ سے یکساں طورپر موجود ہیں۔ مگر دنیائے صنعت ایک امکان کے روپ میں یہاں چھپی ہوئی تھی۔خدا کی دی ہوئی عقل کے ذریعہ انسان نے اس کو دریافت کرنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ بیسویں صدی کے آخر میں پہنچ کر یہ دنیائے صنعت اپنی کامل صورت میں ظاہر ہوگئی۔ مگر یہاں ایک فرق ہے۔ دنیائے فطرت میں ہر قسم کی کامل سرگرمیاں موجود تھیں مگر وہ کثافت (pollution) سے مکمل طورپر خالی تھیں۔ دنیائے صنعت جو انسان نے بنائی وہ کثافتوں کا نا قابل حل مسئلہ بھی اپنے ساتھ لائی ہے۔
مزید غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ دنیائے فطرت اور دنیائے صنعت کے بعد اب انسانی تاریخ کا تیسرا مرحلہ سامنے آنے والا ہے جس کو دنیائے جنت کہا جاسکتا ہے۔ یہ دنیائے جنت کامل بھی ہوگی اور ابدی بھی اور اسی کے ساتھ مکمل طورپر کثافت سے خالی (pollution free) بھی۔ تاریخ انسانی کے ابتدائی دو مرحلوں میں ہر ایک کو زندگی کے مواقع حاصل تھے مگر تاریخ بشری کے تیسرے مرحلہ میں صرف ان خوش قسمت لوگوں کو جگہ ملے گی جنہوں نے اس سے پہلے کے مرحلوں میں اس استحقاق کا ثبوت دیا ہو کہ وہ تکمیلی مرحلۂ حیات میں بسائے جانے کے قابل ہیں۔اس کانفرنس میں میرے سوا ایک اور مسلم اسکالر بھی آئے تھے۔
۲۶ جولائی کی صبح کو ناشتہ پر ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ قرآن میں پیغمبر کو حکم دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: وجاہدھم بہ جہادًا کبیرا(الفرقان ۵۲)۔اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کرو۔ ظاہر ہے کہ جہاد کبیر کے لئے قوت کبیر درکار ہے۔ آپ کسی سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم پنسل کے ذریعہ بڑی لڑائی کرو۔ اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ کی نظر میں قرآن خود ایک بڑی طاقت ہے۔ گویا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ بڑا جہاد کرو بڑی طاقت کے ذریعہ جیسا کہ قرآن ہے:
Do great jihad with the great power that is the Quran.
اس سے مزید یہ نکلتاہے کہ نظریہ کی طاقت تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو قرآن کے ذریعہ جہاد کبیر کا حکم دینے کا کوئی مطلب نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ نظریاتی طاقت سیاسی طاقت سے بہت زیادہ بڑی ہے:
Ideological power is greater than political power.
صبح کو جب روشنی بڑھی تو پہاڑوں کے اوپر کوئی چیز نیچے اوپر حرکت کرتی ہوئی نظر آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ دو رسیوں کے ذریعہ کچھ لوگ اس عمل کی مشق کررہے ہیں جس کو کوہ پیمائی (mountaineering) کہا جاتا ہے۔
سوئزر لینڈ کے زمانہ ٔ قیام میں اس کے مختلف مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا۔ سوئزر لینڈ ایک ایسا ملک ہے جو گویا پورا کا پورا فطرت کا ایک گلدستہ ہے۔ اس وسیع گلدستہ میں جگہ جگہ خوبصورت آبادیاں ہیں جن میں اتنے کم آدمی رہتے ہیں کہ وہاں شور اور گندگی جیسی چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔ ایک جگہ میں نے دیکھا کہ ایک خوبصورت مقام پر ایک خوبصورت جھیل ہے۔ وہاں کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھیل رہے تھے اور خوشیاں منار ہے تھے۔ اس کو دیکھتے ہوئے مجھ پر ایک خاص تاثر قائم ہوا۔ مجھے مولانا شبلی نعمانی کی مشہور نظم کا وہ شعر یاد آیا جو انہوں نے بمبئی کے قریب ریاست جنجیرہ کو دیکھ کر کہا تھا:
کہاں یہ لطف یہ منظر یہ سبزہ یہ بہارستاں عطیہ تم کو یاد لکھنؤ ہوگی تو کیوں ہوگی
میں نے سوچا کہ یہ خوش باش نوجوان جو اس خوبصورت دنیا کا لطف اٹھارہے ہیں وہ بھلا آخرت کی یاد والی زندگی کیسے پسند کر سکتے ہیں جس میں آدمی کل کی مسئولیت میں اتنا زیادہ گم ہوتا ہے کہ آج کی پر بہار زندگی اس کے لیے ایک بے بہار زندگی بن جاتی ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کی چیزیں شیریں ہیں اور سرسبز ہیں (حلوۃ خضرۃ)۔ مگر اس کی یہ شیرینی اور سرسبزی آزمائش کے لئے ہے،نہ کہ حصول لذت کے لئے۔ جو لوگ دنیا کی لذتوں میں گم ہو جائیں وہ اپنے امتحان میں فیل ہوگئے اور جو لوگ ان لذتوں سے گزر کر آخرت کو پالیں وہ اللہ کی نظر میں کامیاب ٹھہریں گے۔
۲۶ جولائی کو ۱۱ بجے دن میں کانفرنس کا پہلا اجلاس ہوا۔ اظہار خیال کی زبان انگریزی تھی۔ ہر ایک نے زیر بحث موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اکثر لوگوں نے اپنی تقریر میں مغربی ملکوں کی مذمت کی۔ یہی منظر مجھے مسلمانوں کے جلسوں میں بھی نظر آتا ہے۔ یہ بات بہت عجیب ہے کہ تمام لوگ مغربی تہذیب سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ مگر عین اسی وقت تقریباً تمام لوگ مغربی ملکوں کی مذمت کرتے ہیں۔
دوپہر بعد کے اجلاس میں میری تقریر تھی۔ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ نیو کلیر ڈس آرمامنٹ(nuclear disarmament) بلا شبہہ وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کی سنگینی کی بنا پر خود نیو کلیر طاقتیں مثلاً روس اور امریکہ نیوکلیر ہتھیار کی ذخیرہ اندوزی کے خلاف ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ اس مسئلہ پر اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نیوکلیر ہتھیار بڑی طاقت ہونے کی علامت بن گئے ہیں۔ اس لئے دونوں یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے نیو کلیر ہتھیاروں کو ضائع کیا تو وہ بڑی طاقت ہونے کی حیثیت کوکھو دیں گے۔ مگر میرے نزدیک یہ ایک غیر حقیقی بات ہے۔
دونوں طاقتوں میں سے کوئی طاقت اگر اپنے نیوکلیر ہتھیاروں کو ضائع کردے تو اچانک اس کو ایک بہت بڑی حیثیت حاصل ہوجائے گی اور وہ ہے اخلاقی اعتبارسے بڑی طاقت (moral superpower) کا درجہ حاصل کرنا۔
میں نے بعض حدیثوں کی روشنی میں بتایا کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر مرد و عورت دوسرے مرد و عورت کو اپنا بہن اور بھائی سمجھے۔ ہر مذہب والا دوسرے مذہب کا احترام کرے۔ اسلام صرف اکرام مسلم نہیں بلکہ اکرام انسان کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ مزاج ہر قسم کے تشدد اور نفرت کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ موجودہ زمانہ میں اصل ضرورت یہ ہے کہ ان اعلیٰ انسانی قدروں کی ترویج کی جائے۔
موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ طبقہ میںایک عجیب و غریب صفت ہے۔ وہ ہے بے اصل نظریات کو خوبصورت الفاظ میں بیان کرنا۔ یہ صفت خود ان اہل علم کے لئے غرور (arrogance) کا ذریعہ ہے اور دوسروں کے لئے اجتماعی فساد کا ذریعہ۔ سوئزرلینڈ کی موجود ہ کانفرنس میں بھی اسی قسم کے نمونے سامنے آئے۔ ایک پروفیسر نے ایک مغربی مصنف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عام طور پر لوگ صرف اس تشدد کو جانتے ہیں جو گن اور بم کے ذریعہ سے چلایا جاتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ بڑا ایک تشدد ہے اور وہ ہے تنظیمی تشددـــــstructural violence ۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ موجودہ زمانہ میںاقتصادی تنظیمات جو غریبی اور بے روزگاری جیسے مسائل پیدا کرتی ہیں وہ تمام تشدد سے زیادہ بڑا تشدد ہیں۔
میرے نزدیک اس قسم کی باتیں صرف لفظوں کا کھیل ہیں۔ جس چیز کو تنظیمی تشدد کہا جاتا ہے وہ در اصل اجتماعی زندگی کے تحت پیدا ہونے والے چیلنج کے مظاہر ہیں۔ اسی چیلنج پر ہر قسم کی انسانی ترقیوں کا دارومدار ہے۔ اگر یہ چیلنج نہ ہو تو خود ترقی کا عمل رک جائے۔ عجیب بات ہے کہ تاریخ کے اکثر اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اسی قسم کے لفظی کھیل میں مبتلا رہے ہیں۔
ڈارون کا بقاء اصلح(survival of the fittest) کا نظریہ ، روسو کا سیاسی غلامی کا نظریہ، مارکس کا اقتصادی لوٹ کا نظریہ، سب اسی کی مثالیں ہیں۔ ان مفکرین کے خوبصورت الفاظ نے بے شمار لوگوں کو گمراہی میں مبتلا کیا۔
موجودہ زمانہ میں کچھ نام نہاد اسلامی مفکرین نے بھی اسی قسم کی لفظی شاعری کی۔ اور بہت سے مسلمانوں کو فکری گمراہی میں مبتلا کردیا۔ اسی میں سے ایک طاغوتی حکمرانی کانظریہ ہے۔ اس بے بنیاد نظریہ نے جن مسلمانوں کو متاثر کیا ان کا یہ حال ہوا کہ وہ دو برائیوں میں سے ایک برائی کو لینے پر مجبور ہو گئے۔ یا تو وہ طاغوتی حکمرانی کو ختم کرنے کے نام پر کبھی نہ ختم ہونے والی لڑائی جاری کر دیں اور پھر اپنے آپ کو تباہ کر لیں۔ یا پھر طاغوتی نظریہ کے تحت ہر چیز کو اپنے لئے حرام سمجھتے ہوئے اس سے سمجھوتہ کرلیں۔ اور اس طرح غیر ضروری طورپر منافق بن کر زندگی گزاریں۔
۲۷ جولائی کی صبح ہوئی تو باہر دور سے مرغ کی بانگ سنائی دی۔ اسی کے ساتھ بعض چڑیوں کی سریلی آوازیں آنے لگیں۔ میں نے سوچا کہ یہ چڑیاں یہاں ٹھیک وقت پر صبح صادق کی آمد کا اعلان کر رہی ہیں۔ دہلی میں روزانہ میں صبح کے وقت ان آوازوں کو سنتا تھا۔ اور سوئزر لینڈ میں بھی وہ ٹھیک اسی طرح سنائی دے رہی ہیں۔ اس پر سوچتے ہوئے میرا ذہن فطرت کے بامعنیٰ نظام کی طرف گیا۔ فطرت کا نظام حکمت اور معنویت کا ایک عجیب خزانہ ہے۔ فطرت کو یہ آداب اس کے خالق نے سکھائے ہیں۔ فطرت کا مطالعہ خالق کی معرفت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
آداب فطرت پر غور کرتے ہوئے مجھے اس نوعیت کی کچھ اور باتیں یاد آئیں، مثلاً اقبال کا یہ شعر:
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
میں نے سوچا کہ اقبال ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو علم کے بجائے شاعری کا تحفہ دیا۔ انہیں چاہئے تھا کہ مسلمانوں کو آداب فرزندی کے بجائے آداب فطرت کے رموز بتائیں۔ آداب فطرت کے رموز کا مطالعہ آدمی کے اندر سچائی کی معرفت پیدا کرتا ہے۔ جب کہ ’’آداب فرزندی‘‘ اس شعر میں محض ایک ادبی ترکیب ہے۔ حضرت اسماعیل نے اپنے والد حضرت ابراہیم کے جواب میں جو کچھ کیا وہ استثنائی نوعیت کا ایک پیغمبرانہ معاملہ تھا۔
اگر کوئی عام باپ ایک خواب دیکھے اوراس کی بنیاد پر اپنے بیٹے سے کہے کہ مجھ کو حکم ملا ہے کہ میں تم کو ذبح کروں تو بیٹے کے لئے ہر گز جائز نہ ہوگا کہ اپنی گردن باپ کی چھری کے نیچے دے دے۔ اقبال کا شعر جس ’’آداب فرزندی‘‘ کی تعلیم دیتا ہے وہ آداب سرے سے مطلوب ہی نہیں۔
۲۷جولائی کی رات کو جب کہ میں سوئزر لینڈ کے مذکورہ ہوٹل میں سویا ہوا تھا، میں نے خواب میں دیکھا کہ مشہور فلم اسٹا رامیتابھ بچن اتفاقًا کسی وجہ سے میرے گھر میں آئے ہیں۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ آپ نے بہت پیسہ کما لیا ہے اب آپ کچھ اور کام کیجئے۔ زندگی میں پیسہ ہی سب کچھ نہیں۔ پیسہ کے سوا کچھ اور برتر چیزیں ہیں جنہیں انسان کو جاننا چاہئے۔ میںنے کہا کہ آپ دوبارہ کسی دن ہمارے یہاں آئیے اور ہمارے ساتھ ہمارا سادہ کھانا کھائیے۔ پھر اطمینان کے ساتھ آپ سے باتیں ہوں گی۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ پیسہ اور شہرت جیسی چیزوں سے اوپر اٹھ کر سوچیں اور اپنی زندگی کی ازسر نو منصوبہ بندی (replanning) کریں۔
کانفرنس کے شرکاء میں جو غیر مغربی ملکوں کے لوگ تھے ان میں اکثر افراد ایسے تھے جو اچھی انگریزی بولتے تھے۔ مثلاً تھائی لینڈ کے ڈاکٹر چیتنا ناگا وجرا (Chetana Nagavajara) ۔ میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ لوگ سب کے سب امریکہ یا برطانیہ جیسے ملکوں کے پڑھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ مغربی یونیورسٹیوں کی ڈگریاں رکھتے تھے۔ وہ اچھی انگریزی زبان میں کتابیں لکھ کر شائع کر تے ہیں۔ ان وجوہ سے وہ تعلیم یافتہ طبقوں میں نمایاں ہوجاتے ہیں۔
مزید یہ کہ یہ لوگ اسی پچھلی نسل کے بیٹے اور پوتے ہیں جنہوں نے مغربی اقتدار کو سب سے بڑی برائی بتا کر اس سے نجات کے لیے ہنگامہ خیز تحریکیں چلائی تھیں۔ ایک شخص کے الفاظ میں جن مغربی زنجیروں کو ہمارے باپ دادا نے لوہے کی زنجیریں سمجھ کر کاٹا تھا اسی کو ہم نے سونے کی زنجیر سمجھ کر خود سے اپنے پیروں میں ڈال لیا۔
یہ برائی جس طرح غیر مسلم لوگوں میں ہے اسی طرح وہ مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے۔ آپ کو ہر ملک میں ایسے مسلمان ملیں گے جو اپنی ہر تقریر اور تحریر میں نہایت جوش کے ساتھ امریکہ کو اسلام دشمن بتائیں گے۔ مگر پہلا موقع ملتے ہی وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو امریکہ بھیجنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ تاکہ وہ وہاں سٹل(settle) ہو کر کامیاب مادی زندگی حاصل کرسکیں۔ یہ کیسا عجیب اسلامی جہاد تھا جس کا نتیجہ غیر اسلام کی صورت میں برآمد ہوا۔
ایک بدھسٹ پیشوا بھی اس کانفرنس میں شریک تھے۔ وہ تبت کے ان پناہ گزینوں میں سے ہیں جو تبت میں چینی غلبہ کے بعد وہاں سے نکل کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے۔ یہ تبتی لوگ ابھی تک مختلف ملکوں میں غیر شہری کی حیثیت سے زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی حیثیت ابھی تک بے جگہ افراد (displaced persons) کی ہے۔ اس صورت حال کے نتیجہ میں ان لوگوں کے اندر سخت قسم کی منفی ذہنیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس کا ایک مظاہرہ سوئزر لینڈ کی کانفرنس میں ہوا۔ مذکورہ بدھسٹ پیشوا جو اس کانفرنس میں آئے تھے ان کو میں عرصہ سے جانتا ہوں۔ بظاہر وہ ایک ملنسار اور نرم گفتار آدمی ہیں۔ مگر انہوں نے کانفرنس میں اپنا جو لمبا مقالہ پڑھا وہ تقریبًا پورا کا پورا منفی اسلوب سے بھرا ہوا تھا۔ اس میں مغربی ممالک، مغربی تہذیب اور مغربی زبان ہر چیز سے نفرت کا اظہار ہوتا تھا۔
ان لوگوں کو یہ شکایت ہے کہ چین نے جب تبت پر فوجی قبضہ کر لیا اور اس کے بعد یہ لوگ وہاں سے نکل کر ہندستان اور دوسرے ملکوں میں منتشر ہوگئے تو کسی ملک نے ان کا ساتھ دے کر چینیوں کو تبت سے نہیں نکالا۔ بلکہ اپنے مفاد کے تحت ہر ملک نے چین سے دوستی قائم کرلی۔ یہی وہ سیاسی شکایت ہے جس کے نتیجہ میں تبتیوں کے اندر مغربی ملکوں سے نفرت کا مزاج پیدا ہوگیا۔
ٹھیک یہی معاملہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا بھی ہے۔ موجودہ زمانہ کے تقریباً تمام مسلمان مغربی قوموں سے نفرت کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے خیال کے مطابق، یہی قومیں ہیں جنہوں نے موجودہ زمانہ میں انہیں سیاسی مغلوبیت سے دوچار کیاہے۔ چنانچہ موجودہ زمانہ کے تقریبًا تمام لکھنے والے اور بولنے والے مسلمان نفرت کی بولی بولتے ہیں۔ اور نفرت کی تحریریں لکھ کر چھاپتے ہیں۔
میرے نزدیک یہ منفی ذہنیت ایک قسم کی نفسیاتی خود کشی کے ہم معنیٰ ہے۔ قرآن کے مطابق، موجودہ دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں سیاسی ایام ہمیشہ کسی ایک کے حق میں نہیں رہیں گے بلکہ وہ بدلتے رہیں گے (وتلک الایام نداولھا بین الناس، آل عمران ۱۴۰)۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کی منفی سوچ کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا ذہن ہمیشہ ماضی کی یادوں میں اٹکا رہے۔ وہ مستقبل کے اعتبار سے اپنی منصوبہ بندی نہ کر سکے۔ یا پھر یہ کہ وہ دہرا سوچ کا شکار ہو جائے۔ یعنی ماضی کے بارے میں معیاری طرز فکر اور حال کے بارے میں منافقانہ طرز فکر۔ یعنی ایک طرف جو کچھ ہو رہا ہے اس کو وہ باطل سمجھے اور دوسری طرف اسی باطل سے سمجھوتہ کر کے اس کے اندر اپنے ذاتی مفادات کو محفوظ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کا ذہن فکری اعتبار سے جس نظام کو رد کر رہا ہے اسی نظام کو وہ ذاتی مفاد کی خاطر عملاً قبول کرلے۔
سوئزرلینڈ کے جس محل نما ہوٹل میں ہم کو ٹھہرایا گیا تھا وہ اپنی مخصوص تعمیر اور اپنے جائے وقوع دونوں کے اعتبار سے غیر معمولی حد تک شاندار تھا۔ اس کے تعارف نامہ میں یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے:
One of the leading hotels of the world.
مجھے ہوٹل کے جس وسیع اور مرصع کمرہ میں ٹھہرایا گیا تھا، میں اس کے باتھ روم میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ وہاں کم ازکم دس قسم کے تولیے رکھے ہوئے ہیں، ہر کام کے لئے ایک الگ تولیہ۔ یہ ایک علامت ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ چیزیں جن کو سامان تعیش کہا جاتا ہے وہ کس قدر بے معنیٰ ہیں۔ مادی سامان کے اعتبار سے چیزوں کی تین تقسیم کی گئی ہیـــــــــضرورت، راحت اور عیش:
Necessity, Comfort, Luxury
میرے تجربہ کے مطابق، کسی انسان کے لئے ضروری سامان کا حصول ہی بالکل کافی ہے۔ اگر کوئی شخص اس پر قانع ہونے کے لئے تیار نہ ہو تو اس کے لئے آخری حد راحت ہے۔ اس کے بعد تعیش صرف بیجا اسراف ہے۔ وہ کسی انسان کو زیادہ سے زیادہ فرضی تسکین دے سکتا ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں آرام و سکون۔
سوئزر لینڈ کو ایک پر امن ملک کہا جاتا ہے۔ وہ دور جدید کی بہت سی امن پسند تحریکوں کا مرکز رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ۱۹۲۰ میں اسی ملک کے شہر جنیوا میں پہلی جمعیۃ اقوام (League of Nations) قائم ہوئی۔ جس نے بعد کو ۱۹۴۵ میں اس زیادہ بڑے عالمی ادارہ کی صورت اختیار کی جس کو اقوام متحدہ (United Nations) کہا جاتا ہے۔ اس عالمی تنظیم نے تاریخ میں پہلی بار اس دور کو ختم کیا جب کہ ہر حکمراں کا یہ حق سمجھا جاتا تھا کہ وہ اپنی فوج لے کر جس ملک میںچاہے گھس جائے اور اس پر قبضہ کر کے اس کو اپنی مملکت میں شامل کرلے۔
۱۹۲۰ میں جب جمعیۃ اقوام(League of Nations) بنی اور جنیوا میں اس کا ہیڈ کوارٹر قائم ہوا اس وقت اقبال نے اپنے ایک فارسی شعر میں اس پر یہ تبصرہ کیا تھا:
چیست جمعیۃ اقوام کفن دزدے چند بہرتقسیم قبور انجمنے ساختہ ٔ اند
یہ تبصرہ یقینی طورپر ایک بے حقیقت تبصرہ تھا۔ اقبال اور ان کے جیسے دوسرے لوگوں کے اس قسم کے تبصروں سے مسلمانوں میں جدید مغربی چیزوں کے خلاف سخت قسم کامنفی ذہن پیدا ہوگیا۔ اسلام کی تعلیم یہ تھی کہ عسر میں بھی یسر کو دیکھو۔ منفی میں بھی مثبت پہلو تلاش کرو۔ مگر اقبال جیسے لوگوں نے مسلمانوں کی برعکس ذہن سازی کی۔ اسی معکوس ذہن سازی نے مسلمانوں کا یہ حال کیا ہے کہ وہ جدید دنیا میں دوسری قوموں سے الگ تھلگ ہو کر رہ گئے۔ وہ نہ خود اپنی دنیا تخلیق کرنے میں کامیاب ہوئے اور نہ وہ دوسروں کی بنائی ہوئی دنیا کا اعتراف کرسکے۔
۲۷ جولائی کے اجتماع میں روس کے ایک نمائندہ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بہتر دنیا کی تعمیر کا خواب ریولیوشن (revolution) کے بغیر پورا نہیں ہوسکتا۔ اس پر یہ سوال تھا کہ سوویت یونین میں تو ریولیوشن آیا پھر وہاں بہتر دنیا کیوں تعمیر نہیں ہوئی۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ کمیونسٹ ریولیوشن میں روحانیت کے عنصر کی کمی اس کی ناکامی کا سبب تھی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے بتایا کہ لینن نے اپنے آخری وقت میں کہا تھا کہ ہمیں مارکس کے ساتھ ایک فرانسس آف اسیسی کی ضرورت تھی۔ یہ توجیہہ نہیں بلکہ وہ ایک قسم کی خود فریبی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر روسی سوشلزم کے پاس کوئی فرانسس آف اسیسی نہ تھا تو ہندستانی سوشلزم کا وہی انجام کیوں ہوا جہاں گاندھی کی صورت میں گویا ایک فرانسس آف اسیسی موجود تھا۔
اصل یہ ہے کہ سوشلزم یا کمیونزم ایک غیر فطری نظریہ ہے اس لئے کسی بھی حال میں اس کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ فطرت کے مطابق، اقتصادیات کی مشین کو چلانے کے لئے ذاتی انٹرسٹ کا محرک ضروری ہے۔ سوشلزم یا کمیونزم میں یہ محرک ختم ہوجاتا ہے۔ اور جہاں ذاتی انٹرسٹ کا محرک نہ ہو وہاں کوئی اقتصادی نظام کا میاب نہیں ہو سکتا۔ فطرت کی اس کمی کو کسی فرانسس آف اسیسی کے ذریعہ پورا نہیں کیا جاسکتا۔
سوئزر لینڈ کی اس کانفرنس میں میرے لئے ایک خاص سبق تھا۔ یہ سبق پروفیسر چندر مظفر کی زندگی میںملتا ہے۔ وہ دونوں پاؤں سے معذور ہیں۔ چنانچہ وہ ہمیشہ وہیل چئر پر رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بچپن کی عمرمیں ان کو پولیو ہوگیا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنے پیروں سے چلنے پھرنے کے قابل نہ رہے ۔ اس حادثہ کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ وہیل چئر پر انہوں نے اپنی پوری تعلیم مکمل کی۔ اب وہ ملیشیا کے ایک بڑے ادارے کے ذمہ دار ہیں۔
چندر مظفر صاحب نے اپنی محنت اور لگن کی بدولت امتیازی لیاقت حاصل کرلی۔ وہ اچھی انگریزی لکھتے اور بولتے ہیں۔ ان کی کئی کتابیں انگریزی زبان میں شائع ہوچکی ہیں۔ میں نے سوچا کہ چندرمظفر صاحب جیسے افراد گویا خدا کی طرف سے ایک رہنما کھمبا (sign post) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ خاموش زبان میں لوگوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ خدا نے انسان کو اتنی زیادہ صلاحیت دی ہے کہ دونوں پیروں سے معذور شخص بھی ممتاز علمی مقام حاصل کرسکتا ہے، پھر جو لوگ جسمانی اعتبار سے معذور نہیں ہیں وہ کتنا زیادہ ترقی کرسکتے ہیں۔
پروفیسر چندر مظفر ملایا کی یونیورسٹی میں سنٹر آف سولائزیشنل ڈائیلاگ کے ڈائرکٹر ہیں۔ وہ انٹر نیشنل موومنٹ فار اے جسٹ ورلڈ کے پریذیڈنٹ ہیں۔ وہ آلی ران (Aliran Kesedaran Nagara) کے فاؤنڈر پریذیڈنٹ ہیں۔ انہوں نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔
پروفیسر چندر مظفر ۱۹۴۷میں ملیشیا کے ایک ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۵۱ میں ان کو پولیو ہوگیا جس کے نتیجہ میں ان کا ایک پاؤں مکمل طورپر اور دوسرا پاؤں بڑی حد تک معذور ہوگیا۔ ان کی تعلیم سنگاپور میں ہوئی۔ انہوں نے ۱۹۷۴ میں اسلام قبول کیا۔ انہوں نے اپنے بارے میں ایک عجیب بات بتائی۔ ان کا خاندان کیرالا سے ہجرت کرکے ملیشیا آیا تھا۔ جب وہ پیدا ہوئے تو ان کے باپ نے ہندو دستور کے مطابق، ان کی تاریخ پیدائش لکھ کر کیرالا کے ایک پنڈت کو بھیجی تاکہ وہ ان کی جنم پتری نکالے۔ ان کے بیان کے مطابق، پنڈت نے دو باتیں بتائیں ۔ ایک یہ کہ اس بچہ کو کوئی سخت بیماری ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ کہ وہ اپنا دھرم چھوڑ کر اسلام قبول کر لے گا۔ عجیب بات ہے کہ پنڈت کی بتائی ہوئی دونوں باتیں سچ ثابت ہوئیں۔
پروفیسر مظفر سے میں نے پوچھا کہ آپ اتنے سخت عارضہ کا شکار ہوئے کہ آپ کو مستقل طورپر وہیل چئر پر رہنا پڑا۔ ایسی حالت میں آپ نے اسکول سے ڈاکٹریٹ تک کی تعلیم کیسے حاصل کی۔ انہوں نے انگریزی میں بتاتے ہوئے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ خدا کے بارے میں میرا عقیدہ تھا جس نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں اپنی جسمانی معذوری پر قابو پاسکوں:
I would like to think that it is my faith in God which enabled me to overcome my physical handicap.
آدمی مشکل حالات میں حوصلہ کیوں کھوتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ پیش آمدہ حالات کے مقابلہ میں اپنے آپ کو کم سمجھتا ہے۔ مگر جب اس کا اعتماد خدا پر ہو جائے تو وہ اپنے لئے ایک ایسی ہستی پالیتا ہے جو حالات سے اوپر ہو، جو خود حالات کو کنٹرول کرنے والی ہو۔ اس بنا پر خدا اس کے لئے ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ہر حال میںاس کے لئے کامیابی کی ضمانت بن جائے۔
۲۷ جولائی کی شام کو کھانے کی میز پر ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام رائے من پانیکر(Raimon Panikkar) تھا۔ ان کی عمر ۸۳ سال ہوچکی ہے۔ وہ اسپین میں بارسلونا کے پاس ٹیورٹٹ(Tavertet) کے مقام پر رہتے ہیں۔ وہ صوفی اسلام سے متاثر ہیں۔ ان سے میں نے پوچھا کہ اسپین میں اسلام کے بارے میں کس قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میں نے کہا کہ کس قسم کی غلط فہمی ۔ انہوں نے کہا کہ میڈیا میں پرتشدد جہاد کی جو خبریں آتی ہیں ان کو وہ پسند نہیں کرتے۔ میں نے کہا کہ جہاد کے نام پر تشدد کی تحریکیں مسلمانوں کی قومی تحریک کا نتیجہ ہیں وہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان سب کے باوجود اسپین میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں۔ اسلامی کتابوں کے ترجمے اسپینی زبان میں شائع کئے جا رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ جو لوگ اسلام قبول کررہے ہیں ان کو اسلام کا کون سا پہلو زیادہ متاثر کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک میرا اندازہ ہے اسلام کی سادگی (simplicity)لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ اسلام کی طرف مائل کررہی ہے۔
اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے۔ یعنی ایک خدا کا تصور ۔ اس کے مقابلہ میںموجودہ مسیحی عقیدہ تثلیث پرقائم ہے۔ مسیحی عقیدہ کے مطابق، تثلیث (trinity)کا مطلب یہ نہیں کہ خدا تین ہے۔ بلکہ اس کا مطلب تین میں ایک اور ایک میں تین(three in one, one in three) ہے۔ یہ غیرریاضیاتی عقیدہ اتنا پیچیدہ اور اس قدر ناقابل فہم ہے کہ مسیحی علماء بھی اس کی تشریح کرنے سے عاجز ہیں۔
میری لڑکی ڈاکٹر فریدہ خانم نے بتایا کہ جب وہ دلی یونیورسٹی میں انگلش لٹریچر سے ایم اے کر رہی تھی تو ایک بار کسی کتاب میں تثلیث کا ذکر آیا۔ انہوں نے اپنے مسیحی استاد (پروفیسر جارج) سے پوچھا کہ تثلیث کے عقیدہ کا مطلب کیا ہے۔ عیسائی پروفیسر نے کچھ دیر سوچا، اس کے بعد کہا کہ اگر تم پوچھو تو میں نہیں جانتا اور اگر تم نہ پوچھو تو میں جانتا ہوں:
If you ask me I do not know, if you do not ask me I know.
آج جولائی ۲۰۰۱ کی ۲۸ تاریخ ہے اور صبح کا وقت۔ میں اپنے کمرہ میں اس کے قد دیوار شیشہ کے پاس کھڑا ہواہوں۔ صاف و شفاف شیشہ کے باہر فطرت کی حسین دنیا دکھائی دے رہی ہے۔ ہر طرف مکمل سناٹا ہے۔ اس سناٹے میںصرف ایک آواز سنائی دے رہی ہے اور وہ چڑیوں کا صبح کا نغمہ ہے۔
سوچتے ہوئے میرے ذہن میں آیا کہ خدا نے ایک عظیم دنیا بنائی، صرف اس لئے تاکہ کوئی اللہ کا بندہ اس کو دیکھ کر یہ کہہ سکے کہ ربنا ما خلقت ھذا باطلا (آل عمران)۔ اس نے اپنی اس دنیا میں انتہائی با معنی مناظر پیدا کئے۔ یہ مناظر گویا خاموش زبان میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ کیا کوئی دیکھنے والا ہے جو قدرت کے اس شاہکار کو دیکھے۔ اس نے چڑیو ں کے نغمے اور چشموں کی سریلی موسیقی جیسی آوازیں پیدا کیں ،اس لئے کہ کیا کوئی سننے والا ہے جو اسے سنے اور اپنی روح کو ربانی احساس سے سرشار کرے۔ اس نے وسیع کائنات کی صورت میں ایک انتہائی با معنی دنیا پیداکی جو گویا زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ کیا کوئی غور کرنے والا ہے جو اس پر غور کرے اور اس سے نصیحت لے۔
ایک تجربہ گزرا جس کے بعد میں نے سوچا کہ انسانوں میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو ایک بار اختلاف کردیں تو اس کے بعد وہ اس پر اس طرح جم جائیں کہ وہ اپنے اختلاف کو کبھی ختم نہ کریں۔ دوسرے لوگ وہ ہیں جو اختلاف کے ساتھ اعتراف کرنا بھی جانتے ہوں۔ جن کے اختلاف کی ایک حد ہو، ایک حد کے بعد وہ اپنا اختلاف ختم کردیں اور دل میں کوئی شکایت رکھے بغیر فریق ثانی کے ساتھ متحد ہوجائیں۔
سوئزرلینڈ کے اس سفر میںایک خاتون پروفیسر بیٹینا باؤمر(Bettina Baumer) تھیں۔ وہ بلجیم کے ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ اس کے بعد انہوں نے کئی زبانیں سیکھیں جن میں سنسکرت بھی شامل ہے۔ وہ کئی سال تک بنارس ہندو یونیورسٹی میں پروفیسر رہیں۔ آج کل وہ اپنی دوسری مصروفیات کے علاوہ بنارس کے ایک ہندو ادارہ کے تحت ہندو شاستروں کا جرمن ترجمہ کررہی ہیں۔
انہوں نے کئی دلچسپ باتیں بتائیں۔ مثلاً انہوں نے کہا کہ ۱۹۶۹ء میں جب امریکی خلا باز نیل آرام اسٹرانگ اپنی خلائی گاڑی میں سفر کر کے چاند پر اترا اور اس کی خبر ساری دنیا میں پھیلی تو بنارس کے پنڈتوں نے اس پر باقاعدہ بحث کی ۔ ان کے سامنے اصل سوال یہ تھا کہ چاند تو ایک دیوتا (god) ہے ۔ اس پر انسان کیسے چڑھ سکتا ہے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ اگر امریکی خلا باز واقعۃً چاند پر اترا ہے تو یہ کوئی اور چاند ہوگا نہ کہ چاند دیوتا۔ مذکورہ پروفیسر خاتون نے اس کو انگریزی میں اس طرح بتایا :
Whether this is the same moon which is in the Puranas. Finally they decided that it was not the same moon.
ان سے میں نے کئی سوالات کئے۔ ایک سوال یہ تھا کہ ہندوؤں میںآخری سچائی کے بارے میں دو نظرئے پائے جاتے ہیں۔ ایک دوئت واد اور دوسرا ادوئت واد۔ میں نے کہا کہ آپ نے ہندو فکر کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ یہ بتائیے کہ ہندوؤں میں کیوں ادوئت واد پھیلا اور دوئت واد زیادہ نہ پھیل سکا جس کو مادھو چاریہ نے طاقت ور انداز میں پیش کیا تھا۔ انہوں نے ایک لمحہ سوچ کر کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ انسان بھگوان سے ایک ہونا چاہتے ہیں۔
ان کا مطلب یہ تھا کہ دوئت واد کے تصور میں انسان الگ رہتا ہے اور خدا الگ۔ایک مخلوق ہوتا ہے اور دوسرا خالق۔ مگر ادوئت واد میں یہ دوئی یا علیٰحدگی نہیں۔ یہ نظریہ آدمی کو یہ تسکین دیتا ہے کہ میں خدا میں ہوں اور خدا مجھ میں۔ میںنے کہا کہ اسلام میں اس کے بجائے یہ تصور ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ خدا ہمارے وجود کا حصہ نہیں، مگر وہ ہر لمحہ ہمارے قریب ہے، وہ ہماری پکار کو سنتا ہے اور ہماری مدد کرتا ہے۔
سوئزر لینڈ کے سفر میں مختلف حلقے کے مذہبی اور غیر مذہبی لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ان ملاقاتوں کے دوران اندازہ ہوا کہ بعض بنیادی سوالات ہیں جن کے بارے میں لوگوں کے ذہن بہت زیادہ غلط فکری میں مبتلا ہیں۔ ان امور کو واضح کرنے کے لئے ایک کتاب انگریزی زبان میں تیار کرنا ضروری ہے۔ اس کتاب کے کچھ ابواب یہ ہو سکتے ہیں:
۱۔ مذہبی ہم آہنگی کا فارمولا یہ نہیں ہے کہ ’’ہر مذہب سچا ہے‘‘ بلکہ یہ ہے کہ ہر مذہب قابل احترام ہے۔
۲۔ امن برائے امن ہوتا ہے، امن برائے انصاف نہیں ہوتا۔
۳۔ مسائل سے لڑنے کا نام پالیٹکس نہیں۔ مواقع کو استعمال کرنے کا نام پالیٹکس ہے۔
ملیشیا کے بارے میں کچھ باتیں معلوم ہوئیں جو میرے جیسے آدمی کے لئے افسوسناک تھیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، وہاں کافی ترقی ہورہی تھی۔ اس کے بعد وہاں اسلام پسند طبقہ ابھرا۔ اس نے ہر جگہ حتی کہ تعلیم گاہوں میں بھی حکومت مخالف سرگرمیاں شروع کردیں۔ اس کے بعد حکومت نے یہ قانون بنا دیا کہ کالج اور یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمی غیر قانونی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ لوگ اپنی سروس کو بچانے کے لئے منافق بن گئے۔ دل میں حکومت کے مخالف اور زبان سے حکومت کے حامی۔دوسرے لوگ وہ تھے جو اپنے مزاج کے مطابق، منافقت اختیار نہیں کرسکتے تھے چنانچہ انہوں نے اپنی مخالفانہ سیاست کا سلسلہ جاری رکھا جس کو وہ بطور خود اسلامی سیاست سمجھتے تھے۔ ایسے لوگ حکومت کے عتاب کی زد میں آئے اور مایوسی کا شکار ہوکر رہ گئے۔ اس طرح کے معاملہ میں نام نہاد مسلم پریس ملیشیا کی موجودہ سیکولر حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتا ہے مگر میرے نزدیک اس کی اصل ذمہ داری نام نہاد اسلام پسندوں پر ہے۔ان لوگوں کا سب سے پہلا کام ملیشیائی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت تھا نہ کہ حکومت کو بدلنا۔ اسی غلط پالیسی کا وہ نتیجہ ہے جو پچھلے سالوں میں ملیشیا کے اندر پیش آیا۔
سوئزرلینڈ کی اس کانفرنس میں مختلف ملکوں کے پروفیسر اور اسکالر بلائے گئے تھے۔ میں واحد ’’مولوی‘‘ یااسلامک اسکالر تھا جواس کانفرنس میں بلایاگیا۔ کانفرنس کے آرگنائزرآندرے بائیکوف (Andrey Bykov) تھے جنہوں نے اپنے ذاتی خرچ سے سوئزر لینڈ کی اس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ وہ اس سلسلہ میں امریکہ گئے۔ وہاںان کی ملاقات لاس اینجلیز میںڈاکٹر مزمل حسین صدیقی (ڈائرکٹر اسلامک سوسائٹی آرنج کاؤنٹی) سے ہوئی۔ مسٹر اندرے نے ان سے کہا کہ ہم سوئزر لینڈ میںایک کانفرنس کرنے جارہے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں ایک اسلامک اسکالر کا نام بتائیے۔ چنانچہ ڈاکٹر صدیقی کی تجویز کے مطابق، انہوں نے مجھے اس کانفرنس میں بلایا۔ مسٹر آندرے کی روایت کے مطابق، ڈاکٹر صدیقی نے اس کے لئے میرا نام تجویز کرتے ہوئے ان سے کہا:
He is the best man for the purpose you are seeking for.
مسز اینا بائیکوف(Anne Bykov) ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ روسی خاتون ہیں۔ وہ بھی اس کانفرنس میں شریک تھیں۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا خطرہ ایٹمی ہتھیار ہے ایٹمی ہتھیاروں کا سب سے زیادہ ذخیرہ دو ملکوں کے پاس ہے، امریکہ اور روس۔ دونوں ملک ایٹمی ہتھیاروں کا خاتمہ(nuclear disarmament) کی بات کرتے ہیں۔ مگر عملًا ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔ اس کا سبب کیا ہے۔ میںنے کہا کہ اس کا سبب یہ ہے کہ دونوں ملک یہ چاہتے ہیں کہ یہ کام دو طرفہ بنیاد (bilateral basis) پر ہو یعنی دونوں ملک بیک وقت اپنے اپنے ہتھیاروں کو بتاہ کردیں۔
میںنے کہا کہ ایسا ہونا ممکن نہیں۔ قابل عمل بات صرف یہ ہے کہ اس کام کو یک طرفہ بنیاد(unilateral basis) پر کیا جائے۔ میں نے کہا کہ اگر مجھ کو مشورہ دینا ہو تو میں کہوں گا کہ روس یکطرفہ طورپر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کردے۔ روسی کہیں گے کہ اس طرح تو ہم اپنے ایٹمی پاور ہونے کی حیثیت کو ختم کردیںگے۔ مگر یہ ایک فرضی اندیشہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس اگر اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو یکطرفہ طورپر ختم کردے تو وہ امریکہ سے ایٹمی ہتھیار کی سیاست چلانے کا جواز چھین لے گا۔ مزید یہ کہ اس طرح روس کو مارل سپر پاور کی حیثیت حاصل ہو جائے گی جو بلا شبہہ دوسری تمام طاقتوں سے زیادہ بڑی طاقت ہے۔ مذکورہ روسی خاتون نے میرے اس نقطہ ٔ نظر سے اتفاق کیا۔
۲۵جولائی کو زیورک سے کنڈرسٹگ کا سفر کرتے ہوئے درمیان میں ہم لوگ ایک ریسٹورنٹ پر ٹھہرے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ میں ریسٹورنٹ کے ٹائلٹ میں جانے لگا تو ایک خاتون نے مجھے روکا۔ اس نے کہا کہ اس ٹوائلٹ کو ایک بار استعمال کرنے کی قیمت ایک فرانک ہے۔ پہلے آپ فرانک ادا کیجئے پھر ٹوائلٹ جائیے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو اس وقت آپ کو ادا کرنے کے لئے کوئی سکہ نہیں۔ اس نے کہا کہ سکہ نہیں تو ٹوائلٹ بھی نہیں:
No money, no toilette.
یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ اگر کوئی شخص اس ایک تجربہ کو لے کر اسی کی بنیاد پر عمومی رائے قائم کرنے لگے تو وہ کہے گا کہ سوئزر لینڈ کے لوگ بہت خود غرض اور حریص ہوتے ہیں۔ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ نہیں۔ مگر اس کے بعد بہت سے اس سے مختلف تجربے پیش آئے جن سے اندازہ ہوا کہ مذکورہ ریسٹورنٹ کا واقعہ سوئزرلینڈ کے لوگوں کے اخلاق کو سمجھنے کے لئے کوئی نمائندہ واقعہ نہیں۔ وہ صرف ایک استثنائی واقعہ ہے۔ یہاں کے لوگ عام طورپر با اخلاق اور ہمدرد نظر آئے۔تعلیم یافتہ طبقہ کی ایک خاص کمزوری وہ ہے جس کو جنرلائزیشن کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ اکثر کسی ایک واقعہ کو لے کر اس کو عمومی حیثیت دے دیتے ہیں اور سارے ملک اور ساری قوم کے بارے میں کہہ دیتے ہیں کہ وہ ایسے اور ایسے لوگ ہیں۔
یہاں ایک مسیحی پادری سے گفتگو ہوئی۔ میں نے پوچھا کہ مسلمانوں اور عیسائیوں میں کس اختلاف کوآپ زیادہ بنیادی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسیح کو ہم بھی مانتے ہیں، مسلمان بھی مانتے ہیں۔ مگر ہم مسیح کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں اور مسلمان مسیح کو خدا کا پیغمبر کہتے ہیں۔ میں نے کہا کہ خدا کا بیٹا کہنے پر آپ لوگوں کو کیوں اتنا اصرار ہے جب کہ خود انجیل سے یہ بات واضح طور پر ثابت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، انجیل میں مسیح کو ایک جگہ خدا کا بیٹا (Son of God) کہا گیا ہے مگر اسی انجیل میں دوسری جگہ مسیح کو یوسف کا بیٹا(Son of Joseph) کہاگیا ہے۔ اسی طرح بائیبل میںعام انسان کے لئے بھی خدا کے بیٹے کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسیح کو لفظی معنوں میں ابن خدا ماننے کا عقیدہ خود مقدس انجیل میں بھی ثابت شدہ نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوا کہ وہ اس سوال پر اپنے آپ کو دفاعی پوزیشن میں پاتے ہیں۔ انہوں نے انجیل سے مسیح کو خدا کا بیٹا ثابت کرنے کی کوشش نہیں کی البتہ وہ چرچ کا حوالہ دیتے رہے۔ جیسا کہ ظاہر ہے، وہ میرے سوال کے جواب کے لئے کافی نہ تھا۔
ان کو میں نے بتایا کہ میں نے کرشچینٹی اینڈ اسلام کے عنوان پر چھ صفحہ کا ایک مضمون لکھا ہے جو حسب ذیل کتاب میں شائع ہو چکا ہے:
Pilgrims to the light (2000)
ڈاکٹر چندر مظفر( ملیشیا) سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وہ ملیشیا کے اسلام پسند قائد انور ابراہیم کی اسلامی پارٹی کے ایک لیڈر ہیں۔ انور ابراہیم کی قید کے بعد ان کی بیگم آج کل ان کی پارٹی کی چئر مین ہیں اور ڈاکٹر چندر مظفر اس کے ڈپٹی چئر مین ہیں۔ وہ اردو یا عربی نہیں جانتے اس لئے ان سے گفتگو انگریزی میںہوئی۔
میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی قانون کے نفاذ کے نام سے جو تحریکیں اٹھیں وہ سب کی سب اپنے طریقِ کار کے اعتبار سے غیر اسلامی تحریکیں تھیں۔ یہ تحریکیں اس نعرے پر اٹھائی گئیں کہ اقتدار پر قبضہ کرکے پورے اسلامی قانون کا نفاذ کیا جائے۔ مختلف آیا ت اور احادیث کا حوالہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ اسلام میں تدریجی نفاذ کا طریقہ ہے نہ کہ فوری نفاذ کا طریقہ ۔
انہوں نے کہا کہ آپ جن واقعات کی مثال دے رہے ہیں وہ اس وقت کی مثال ہے جب کہ پورا قرآن نہیں اترا تھا۔ اب جب کہ پورا قرآن اتر چکا ہے اور مکمل قرآن ہمارے پاس موجود ہے تو اب ہمیں بیک وقت پورا قرآن نافذ کرنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اس لئے کہ احکام کی تعمیل کا تعلق خود احکام کی فہرست سے نہیں ہے بلکہ تعمیل کرنے والے کی اپنی عملی استطاعت سے ہے(لایکلف اللہ نفسًا الا وسعھا، البقرہ ۲۸۶)۔ معاشرہ کے اندر جیسی استطاعت ہوگی اسی کے مطابق، احکام کا نفاذ کیا جائے گا۔ اور جن احکام کے نفاذ کی استطاعت بروقت نہ ہو ان کے بارے میں تعلیم و تربیت سے آغاز کیا جائے گا، نہ کہ عملی نفاذ سے۔ انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا۔
۲۹ جولائی کی صبح کو خاموش پریر (silent prayer) کا پروگرام تھا۔ لوگ ایک کمرے میں اکٹھا ہوئے اور دو زانو ہوکر اور آنکھیں بند کرکے خاموش بیٹھ گئے۔ آدھ گھنٹہ تک وہ اسی حال میں رہے۔ ہر ایک اپنے مذہب کے مطابق، پریئر کرتارہا۔ آدھ گھنٹہ پورا ہونے پر ایک ہلکی گھنٹی بجائی گئی اس کے بعد سب لوگ اٹھے اور خاموشی کے ساتھ باہر چلے گئے۔
خاموشی کی اہمیت ہر مذہب میںتسلیم کی گئی ہے۔ ایک بار میری ملاقات ایک نوجوان سے ہوئی۔ وہ جاپان میں مقیم تھا اور خاموشی(silence) پر ریسرچ کررہا تھا۔ میںنے اس کو ایک حدیث رسول سنائی جس کے الفاظ یہ ہیں: من صمت نجا(الترمذی،احمد) جو چپ رہا اس نے نجات پائی۔ وہ نوجوان بہت خوش ہوا اور فوراً اس حدیث کو اپنی ڈائری میں لکھ لیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں روایات میں آیا ہے: کان طویل الصمت قلیل الضحک (مسند احمد)۔ آپ دیر تک چپ رہا کرتے تھے۔ چپ رہنا ذکر وفکر کی علامت ہے۔چپ رہنا کوئی سلبی فعل نہیں بلکہ وہ ایجابی فعل ہے۔ چُپ رہنا مکمل معنوں میں ایک ذہنی عمل ہے البتہ جس آدمی کا ذہن جتنا زیادہ بیدار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کا چپ رہنا با معنی ہوگا۔
۲۹ جولائی کی صبح ہوئی تو حسب معمول میں نماز فجر کے بعد ٹہلنے لگا اور باہر کی دنیا کو دیکھنے لگا۔ جلد ہی مجھے محسوس ہوا کہ اس بظاہر خوبصورت دنیا میں جو کشش مجھے پہلے دن نظر آئی تھی وہ اب پانچ دن گزارنے کے بعد محسوس نہیں ہورہی ہے۔ مجھے رسول اللہﷺکا یہ قول یاد آیا: الھم لا عیش الا عیش الآخرۃ (البخاری، مسلم، الترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد) اے اللہ آخرت کے عیش کے سوا کوئی عیش نہیں۔
میں نے سوچا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ دنیا ہمارے لئے پر مسرت جگہ نہیں بنتی۔ جب کہ مذکورہ حدیث کے مطابق، آخرت والی جنت ایک مکمل مسرت کی جگہ ہوئی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان کسی ایک چیز سے زیادہ دیر تک خوش نہیں رہ سکتا۔ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے ہر روز نیا سامان مسرت پانا چاہتا ہے۔ یہ نیا پن صرف لا محدود جنت میں ممکن ہوگا۔ موجودہ محدود دنیا میں لا محدود مسرت ممکن نہیں۔ اس لئے یہاں انسان مسلسل طورپر خوش بھی نہیں رہ سکتا۔
30جولائی کوصبح ہوئی اور سورج نکلا تو اس کو دیکھ کر ایک بات میرے ذہن میں آئی۔ میں نے سوچا کہ اس واقعہ کو ساری دنیا میں ’سورج نکلا اور سورج ڈوبا‘ کے الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے۔ مگر یہ صرف ایک ادبی اسلوب ہے۔ حقیقی اعتبار سے کہنا ہو تو یہ کہا جائے گا کہ میرا خطۂ ارضی سورج کے سامنے آیا یا میرا خطۂ ارضی سورج سے اوجھل ہوگیا۔ مگر کسی بھی زبان میں طلوع و غروب کے واقعہ کو اس طرح بیان نہیں کیا جاتا۔ اور اگر کوئی حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے طلوع و غروب کو اس انداز میں بیان کرے تو کلام کا ادبی حسن ختم ہوجائے گا۔ وہ ایک خشک اور غیر دلچسپ بیان ہو کر رہ جائے گا۔
انسانی کلام میں ہر آدمی جانتا ہے کہ اس طرح کی چیزوں میں ہمیشہ مروجہ انداز کلام کا اعتبار کیا جائے گا، نہ کہ حقیقی اعتبار سے امرِ واقعہ کا۔ مگر جب معاملہ مقدس کتاب کا ہو تو ہر آدمی اس کو لفظی اعتبار سے لے لیتا ہے، نہ کہ اسلوب کے اعتبار سے۔
مثال کے طورپر مسیحی لٹریچر میں حضرت عیسیٰ کے لئے ابن اللہ کا لفظ آیا ہے۔ یہ لفظ یقینی طور پر عبد اللہ کے معنیٰ میں ہے۔ مگر مسیحی حضرات نے اس کو ٹھیٹھ لفظی معنی میں ابن اللہ الحقیقی کے مفہوم میں لے لیا اور حضرت مسیح کے دین میں ایک زبردست گمراہی داخل کر دی۔ یہی معاملہ ہر مذہب کی مقدس کتاب میں ہوا ہے۔ یہی غلطی خود مسلمانوں نے بھی کی۔ قرآن میںقلب کا لفظ سوچنے اور غور کرنے کے حوالے سے آیا ہے۔ مثلاً لھم قلوبٌ لا یفقہون بہا(الاعراف، ۱۷۹) اس بنا پر بہت سے لوگوں نے سمجھ لیا کہ قلب فکر و تدبر کا مرکز ہے۔ مگر اس قسم کی تفسیر درست نہیں۔ قرآن میں یہ اسلوب انسانی کلام کی رعایت سے ہے۔ چونکہ تمام انسانی زبانوں میں قلب کا استعمال اسی انداز میں ہو رہا تھا اس لئے قرآن میں بھی اسی اسلوب کو اختیار کیا گیا ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ قلب دوران خون کا مرکز ہے اور دماغ فکر و تدبر کا مرکز۔
میں اپنی عادت کے مطابق، صبح کواول وقت ناشتہ کرتا ہوں۔ چنانچہ آج بھی میں صبح ۷ بجے نیچے ڈائننگ ہال میں گیا۔ ناشتہ سے واپسی میں حسب معمول میں لفٹ کو چھوڑ کر زینہ سے اوپر چڑھ رہا تھا۔ دوسری طرف سے برطانیہ کے بشپ سائمن آرہے تھے۔ میںاپنے خیالات میں گم تھا کہ انہوں نے گڈ مارننگ کہا۔ ان کی آواز پر میں اپنے خیال کی دنیا سے نکلا اور میںنے بھی گڈ مارننگ کہا۔ اس وقت میرے دماغ میں ایک خیال گونج رہا تھا جس کو میں نے ان سے ان الفاظ میں کہا:
One who lives in his own greatness, cannot experience the greatness of God. God lives where modesty is. Modesty is the only meeting point of man and God. Arrogance is not the meeting point.
ایک اور پہلو سامنے آیا تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کی انگریزی بہت اچھی ہے، میں انگریزی زبان میں آپ کا شاگرد ہوں:
Your English is very good. I am your disciple in English language.
اس کے بعد انہوں نے فوراً کہا:
You are far ahead in spirituality. And I am your disciple in spirituality.
۳۰ جولائی کی صبح کو ہم لوگ ہوٹل سے سوئزر لینڈ کے شہر زُگ (Zug) گئے۔ زُگ ایک قدیم شہر ہے۔ یہاں ۶۰۰ سال پرانی ایک بڑی عمارت ہے جو شاہی دور میں تعمیر ہوئی تھی۔ اس کے ہال میں کانفرنس کا آخری اجلاس ہوا۔ اس میں زُگ شہر کے کچھ اعلیٰ ذمہ دار بھی شریک تھے۔ یہاںکچھ ابتدائی تقریبات ہوئیں۔ اس کے بعد کانفرنس کی طرف سے بشپ سائمن نے ایک مختصر ڈیکلریشن پڑھ کر سنایا۔ اس کے بعد میرا تیار کیا ہوا تین صفحہ کا ڈاکو منٹ (document) پڑھ کر سنایا گیا۔ یہ گویا مختصر ڈیکلریشن کی تفصیل تھی۔
کانفرنس میں یہ طے ہوا تھا کہ اس کا آخری اجلاس سوئزر لینڈ کے تاریخی شہر زُگ میں ہوگا جہاں ایک مختصر اور متفقہ ڈکلریشن پیش کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ ایک کسی قدر تفصیلی ڈاکو منٹ جاری کیا جائے گا اور اس ڈاکو منٹ کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کرکے پوری دنیامیں پھیلایا جائے گا۔ اس تشریحی ڈاکومنٹ کو تیار کرنے کے لئے کانفرنس کے پروفیسر صاحبان کے تین گروپ بنائے گئے۔ ایک روسیوں کا، دوسرا مغربی ملکوں کا اور تیسرا ایشیائی ملکوں کا ۔ اور یہ کہا گیا کہ ان تینوں میں سے جو سب سے بہتر سمجھا جائے گا اس کی اشاعت کی جائے گی۔ تینوں گروپ نے اپنے اپنے ڈاکومنٹ تیار کئے۔
کانفرنس کے آرگنائزر اندرے بائیکاف کو ان تینوں میں سے کوئی بھی پسند نہیں آیا۔ ۲۹ جولائی کی رات کو اندرے بائیکاف میرے کمرے میںآئے۔ وہ کافی اداس معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ پروفیسر صاحبان کے گروپ نے تین ڈاکومنٹ بنائے ہیں۔مگر تینوں مجھے پسند نہیں آرہے ہیں۔ کل کے اجلاس میں ہمیں ایک منظور شدہ ڈاکو منٹ کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔ مگر میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کل کے دن میں کیا چیز پیش کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسا ڈاکومنٹ چاہتے ہیں جو روحانی انداز میں لکھا گیا ہو، جو لاکھوں لوگوں کے دلوں کو متاثر کرے۔
I want a document which can move the heart of the millions.
انہوں نے کہا کہ میں نے یہاں کے بڑے چرچ میں جاکر دعا کی ہے اور میرا دل کہتا ہے کہ آپ وہ ڈاکومنٹ تیار کرسکـتے ہیں جو کہ ہم چاہتے ہیں۔ چنانچہ رات کو کئی گھنٹہ محنت کرکے میں نے یہ ڈاکومنٹ تیار کیا اور صبح اس کو کمپیوٹر پر ٹائپ کروایا۔ اجلاس شروع ہونے سے کچھ پہلے یہ ڈاکو منٹ میں نے اندرے بیکاف کے حوالہ کردیا۔ وہ اس کو پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ میں ایسا ہی ڈاکومنٹ چاہتا تھا۔ انہوں نے پروفیسروں کے تیار کئے ہوئے بقیہ تینوں ڈاکومنٹ کو رد کر دیا اور میرے ڈاکو منٹ کو منظوری دے دی۔ جب یہ ڈاکو منٹ کانفرنس میں پڑھ کر سنایا گیا تو تمام لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔ ایک پروفیسر نے اس کو ونڈر فل بتایا۔ ایک مغربی پروفیسر نے کہا:
It is a vision of a great thinker.
میرا تیار کیا ہوا یہی ڈاکومنٹ کانفرنس کا تشریحی ڈاکومنٹ قرار پایا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس کو مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے ہر جگہ پھیلایا جائے۔ یہ ڈاکومنٹ زیر نظر شمارہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
۳۰ جولائی کو دوپہر کے کھانے کا انتظام زُگ کے مذکورہ تاریخی محل میں تھا۔ قدیم شاہی انداز میں لوگوں کو کھانا کھلایا گیا۔ کھانے کے برتن وغیرہ سب شاہی نمونہ کے تھے۔ ایک خوبصورت منقش پلیٹ کو دیکھ کر میرے سامنے بیٹھے ہوئے ایک پروفیسر صاحب نے کہا ’’میرا جی چاہتا ہے کہ میں اس پلیٹ کو اپنے گھر لے جاؤں‘‘:
I would love to take it away.
یہی منقش پلیٹ میرے سامنے بھی تھی۔ مگر میں نے اس کو غور سے دیکھا بھی نہیں تھا۔ مذکورہ پروفیسر صاحب کی بات کو سن کر میں نے اس کو دیکھا تو میرے دل نے کہا کہ اگر میزبان خود سے مجھے ایسی سو پلیٹیں دیں تب بھی میں ان کو اپنے ساتھ لے جانا پسند نہیں کروں گا۔
لوگ عام طورپر اسی قسم کی تفریحی باتیں پسندکرتے ہیں۔ میں خاموشی کے ساتھ یہ سوچتا رہا کہ انسان کو چاہئے کہ وہ دنیا کی نعمتوں کو دیکھ کر آخرت کی نعمتوں کو یاد کرے۔ مگر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ قرآن کے مطابق، دنیا میں گم ہو کر آخرت کو بھول گئے ہیں (الدھر ۲۷)
زگ کے پروگرام کے بعد ہمارا قافلہ آگے کی طرف بڑھا۔ سڑک کے دونوں طرف دورتک سارا ماحول قدرتی پارک کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ نہایت عمدہ سڑک، منظم انداز میں چلتی ہوئی سواریاں، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پورا ملک ایک چمنستان ہے۔ سوئزر لینڈ کی یہ روایت ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں بہت زیادہ پھول لگاتے ہیں۔ چنانچہ ہر گھر بجائے خود پھولوں کا ایک گلدستہ معلوم ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ سوئزر لینڈ کو جن لوگوں نے اس طرح سنوارا اور سجایا ہے وہ اپنے ملک کو صرف ایک ملک سمجھتے ہیں، نہ کہ دیوتا۔ میں نے سوچا کہ دیش بھکتی کا معیار ملک کو سنوارنا ہے نہ کہ ملک کو دیوتا سمجھ کر اس کو رسمی طورپر پوجنا۔
زُگ میں نیوکلیر ڈس آرمامنٹ فورم کی ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں ایک سائنس داں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ساری دنیا میں ایٹم بموں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے۔ خاص طور پر امریکہ اور روس کے پاس۔ بہت دنوں سے ان ذخیروں کو ناکارہ بنانے کی بات چل رہی تھی۔ اب یہ تحریک شروع ہوئی ہے کہ ان بموں سے پلوٹونیم کو نکال لیا جائے جو کہ نیو کلیر انرجی کا خاص ذریعہ ہے۔ اور ان کو تعمیری مقصد کے لئے فروخت کر دیا جائے۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ پلوٹونیم بے حد قیمتی عنصر ہے۔ وہ اتنا مہنگا ہے کہ عراق کے صدر کو چار یا پانچ ایٹم بم بنانے کے لئے جو پلوٹونیم خریدنا ہو گا اس کی قیمت اتنی زیادہ ہوگی کہ ہمارا یہ کمرہ سونے سے بھر جائے۔ زُگ کا کمرہ اتنا ہی بڑا تھا جتنا کہ نظام الدین میں میرے دفتر کا کمرہ۔
راستہ میں ہم لوگ شہر لوسرن (Lucerne)میں ٹھہرے۔ لوسرن سوئزر لینڈ کی ایک جھیل ہے۔ اسی کے اوپر شہر کا یہ نام پڑا ہے۔ یہاں ہم لوگ ۳۰ جولائی کی سہ پہر کو کچھ دیر کے لئے ٹھہرے۔ ہمارے ساتھیوں نے شہر میں جاکر شاپنگ کی۔ مجھے بچپن سے کبھی شاپنگ کا شوق نہیں ہوا۔ چنانچہ میں وہاں کی جھیل کے پاس چلاگیا۔ یہ ایک خوب صورت آبی ذخیرہ ہے۔ اس کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ پانی جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے اسے اللہ تعالیٰ نے کتنا زیادہ وافر مقدار میں زمین پر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک انتہائی استثنائی واقعہ ہے۔ کیوں کہ اب تک کی معلومات کے مطابق، وسیع کائنات میں کہیں پانی کا ایک قطرہ بھی موجود نہیں۔
لوسرن سے روانہ ہو کر ہم لوگ ۳۱ جولائی کی شام کو اپنے ہوٹل پہنچے۔ یہاں کا ماحول اتنا زیادہ فطری تھا کہ میںنے اپنے ہوٹل کے کمرہ کو کبھی مقفل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ سفر کے دوران پورا راستہ سر سبز اور سجا ہوا نظر آیا۔ ایک عجیب بات یہ تھی کہ سوئزر لینڈ کے مختلف علاقوں میں سفر کرتے ہوئے کہیں بھی پولس اور فوج یا پرائیویٹ گارڈ دکھائی نہیں دیئے۔ پورا ملک جس طرح قدرتی مناظر سے ڈھکا ہوا ہے اسی طرح یہاں کے لوگ اپنی انسانی فطرت پر قائم ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں بہتر زندگی کی تعمیر کے لیے یہ دونوں چیزیں بنیاد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مادی دنیا میں کوئی بگاڑ پیدا کئے بغیر اس کو اپنی اصل تخلیقی حالت میں محفوظ رکھنا، اور انسان کو اس کی فطری صفات پر قائم رکھنا۔
ایک صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’موجودہ زمانہ میں پوری دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے‘‘ مگر یہ بات زیادہ تر کمیونیکیشن کے اعتبار سے ہے۔ جہاں تک خود انسان کا تعلق ہے، اس کی وحدت ٹوٹ گئی ہے۔ انسان کا داخلی وجود(inner being) اور خارجی وجود(external being) ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ سوسائٹی کی اس تفریق کا اظہار موجودہ زمانہ میں اس شکل میں ہوا ہے کہ جو لوگ سیاسی اقتدار کے مالک ہیں وہ ارباب دانش نہیں۔ اور جو اربابِ دانش ہیں وہ سیاسی اقتدار میں دخل نہیں رکھتے:
In society this manifests in the fact that those in power are not necessarily people of wisdom, and those who have wisdom often have no external influence.
میں نے کہا کہ یہ دانش اور بے دانش کے فرق کا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ اقتدار اور بے اقتدار کے فرق کا معاملہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ بگاڑ نے والی چیز اقتدار ہے۔ جو لوگ اقتدار سے باہر ہیں اور بظاہر دانش مندی کی بات کرتے ہیں وہ بھی اگر اقتدار کی گدی پر پہنچ جائیں تو ان کا حال بھی وہی ہوگا جو موجودہ ارباب اقتدار کا دکھائی دیتا ہے۔
ایک صاحب نے مقالہ کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس مقالہ میں انہوں نے روحانی اقدار کی اہمیت بتائی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے کہا کہ گلوبلائزیشن کا دور آنے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آزادی ختم ہوگئی اور روحانی اقدار کا نظام زیادہ سے زیادہ بے اثر ہوگیا:
With the coming of globalization, independence is being lost, and the systems of values become less and less effective.
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے علمی تجزیے اکثر کتنازیادہ غیرعملی ہوتے ہیں۔ مذکورہ عبارت میںصاحب مقالہ نے روحانی اقدار کے زوال کو گلوبلائزیشن کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ روحانی اقدار کے زوال کا سبب جدید مادیت ہے۔ جدید مادیت نے یہ کیا کہ اس نے مادی زندگی کو اتنا زیادہ پُر کشش اور پُر لذت بنادیا کہ ہر آدمی اس کی طرف دوڑ رہا ہے۔ اس دوڑ میں اخلاقی اور روحانی قدریں پس پشت چلی گئی ہیں۔ گلوبلائیزیشن خود قاتل روحانیت نہیں ہے البتہ وہ مادی دوڑ میںلوگوں کے لئے ایک معاون وسیلہ ضرور ثابت ہوا ہے۔
ایک صاحب نے اپنی تقریر میں کچھ مشہور شخصیتوں کے نام لئے ۔ اور کہا کہ یہ لوگ اس لائق تھے کہ انہوں نے اپنے نظریات کی طاقت کے ذریعہ پوری نسل کو ہلا دیا۔ اور ان کو اس قابل بنایا کہ وہ اپنی زندگی پر نظر ثانی کریں:
Mankind must be reminded how, at critical moments in history, its greatest minds— Confucius, Ibn Sina, Dante, Cervantes, Goethe, Dostoevsky, Gandhi, Saint-Exupery, Hemingway and many others—were able, through the power of their ideas, to shake whole generations and make them reconsider their lives.
جن مشہور شخصیتوں کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ انہوں نے فکری انقلاب پیدا کیا اور پوری نسل کو بدل دیا وہ میرے نزدیک درست نہیں۔ اس قسم کی شخصیتوں نے عام طورپر جو کارنامہ انجام دیا وہ صرف جزئی معنوں میں فکری انقلاب تھا۔ کلی معنوں میں فکری انقلاب پیدا کرنے والی تاریخی شخصیت صرف ایک ہے، اور وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘۔یہ کتاب کئی زبانوں میں چھپ چکی ہے۔
ایک صاحب نے ایک امریکی صحافی کی ایک کتاب کا ذکر کیا جو اب کافی مشہور ہوچکی ہے اور اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ وہ کتاب یہ ہے:
Clash of Civilizations, by Samuel P Huntington
اس کتاب کے مصنف نے بتایا ہے کہ کمیونزم کے زوال کے بعد اب مغرب کی مسیحی قوموں کا تصادم مسلم اقوام سے پیش آنے والا ہے۔ اس کے لئے زمین تیزی سے تیار ہو رہی ہے۔ مصنف نے گویا مغرب کی مسیحی قوموں کوابھارا ہے کہ وہ مستقبل قریب میںایک مسلح تصادم کے لئے تیار رہیں۔
میں نے کہا کہ مسلح تصادم کی یہ بات مجھ کو محض ایک فرضی خطرہ معلوم ہوتی ہے۔ میرے نزدیک عمومی معنوں میں ایسا کوئی مسلح تصادم پیش آنے والا نہیں۔ البتہ دونوں کے درمیان ایک اور تصادم جاری ہے، یہ پُر امن فکر ی تصادم ہے۔ یہ تصادم صدیوں سے جاری ہے اورآئندہ بھی جاری رہے گا۔ مگر یہ کوئی بُرائی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی فکر ی تصادم تھا جس نے مغرب کی نشأۃ ثانیہ کو پیدا کیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ فکری تصادم آئندہ بھی انشاء اللہ کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرے گا۔ مثلاً اس کے نتیجہ میں مادیت کا زوال اور روحانی عہد کا آغاز، بے قید آزادی کے بجائے پابند آزادی کے تصور کا رواج، وغیرہ۔
مسٹر اندرے بائیکوف(Andrey Bykov) کا ایک تفصیلی پیپرکانفرنس کے شرکاء کو پڑھنے کے لئے دیا گیا۔ اس میں بہت سی باتیں تھیں۔ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ انہوں نے مشہور مورخ آرنلڈ ٹوائن بی کے حوالہ سے کہا تھا کہ اس دنیا کے لئے فطرت کا ایک قانون یہ ہے کہ کسی سماج میںجو لوگ اقلیت میں ہوں وہ خود سماج کے داخلی میکانزم کے تحت تخلیقی اقلیت (creative minority) کی صورت اختیار کرتے چلے جائیں۔ اور جو لوگ سماج میں اکثریت کی حیثیت رکھتے ہوں، وہ دھیرے دھیرے غیر تخلیقی اکثریت(uncreative majority) کی صورت اختیار کر لیں۔
یہ بات مسٹر اندرے بائیکوف(Andre Bykov) نے نہایت درست کہی۔ اقلیت اور اکثریت کے بارے میں یہ بات بلاشبہہ ایک حقیقت ہے۔ یہ فطرت کا ایک لازمی قانون ہے۔ یہ قانون اقلیتی گروہ کے لئے بلاشبہہ ایک بشارت کی حیثیت رکھتا ہے۔
مگر اس معاملہ میں فطرت کا قانون صرف پچاس فیصد کام کرتا ہے۔ بقیہ پچاس فیصد کام اقلیت کے رہنماؤں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے موقع پر اگر اقلیت کے رہنما با شعور ہوں تو وہ یہ کریں گے کہ وہ فطرت کے اس قانون سے اقلیت کے لوگوں کو شعوری طورپر با خبر کرائیں گے۔ وہ بتائیں گے کہ اکثریت کی طرف سے تم کو جو دباؤ پیش آرہا ہے وہ ایک فطری چیلنج ہے جو عین تمہارے حق میں ہے۔
وہ تمہارے لئے ترقی کا زینہ ہے۔ اس کے برعکس اگر اقلیت کے رہنما بے شعور لوگ ہوں تو وہ اکثریت کے دباؤ کو ظلم اور سازش قرار دے کر فریاد کریں گے اور اقلیت کومنفی ذہن میں مبتلا کر دیں گے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فطرت کا قانون ،ہر رکاوٹ کے باوجود، آخر کار غالب آتا ہے۔ غیر دانش مندرہنما اپنی منفی باتوں سے صرف وقتی طورپر اقلیتی قافلہ کے سفر کو روک سکتے ہیں۔ مگر آخر کار فطرت کا قانون بالاثابت ہوتا ہے اور اقلیتی گروہ نام نہاد لیڈروں کو چھوڑ کر خود فطرت کی رہنمائی میں آگے بڑھتا ہے، یہاں تک کہ وہ کامیابی کی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
ایک صاحب نے اپنے پیپر میں یہ بات کہی کہ ہم کو ایک ایسی سوسائٹی کی ضرورت ہے جس میں مکمل ہارمنی ہو۔ جس کے اندر مختلف گروہوں کے لوگ مل جل کر رہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سوشل ہارمنی کا ماڈل ہم کو گلوبل ڈائیلاگ کے ذریعہ مقرر کرنا ہوگا۔ میں نے کہا کہ یہ بات بجائے خود درست ہے کہ سوشل ہارمنی کے بغیر مجموعی ترقی نہیں ہوسکتی۔ مگر سوشل ہارمنی کا ماڈل ہمیں ڈسکشن کے ذریعہ طے کر نا نہیں ہے، وہ بروقت ہی فطرت کے اندر موجود ہے۔ ہمیں چاہئے کہ اس کو دریافت کر کے اپنی زندگی میں اسے استعمال کریں جس طرح ہم فطرت کے فزیکل قوانین کو دریافت کرکے ان کو اپنی ٹیکنالوجی میں استعمال کررہے ہیں:
It is a fact that we need a value-based society rather than a society based on material values. But at the same time we had an acceptable model which may serve as a point of reference for all. And I think that the Nature provides us that kind of model. We need an understanding rather than a dialogue.
ایک صاحب نے اپنے مقالہ میں کہا کہ موجودہ زمانہ کواسپیشلائزیشن کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ مگر اس قسم کی تعلیم نے نئے نئے مسئلے پیدا کئے ہیں۔ موجودہ نظام تعلیم سے ایسے نوجوان تیار ہوکر نکل رہے ہیں جو جامع قسم کی معلومات نہیں رکھتے، خاص طورپر انسانیات کے بارے میں۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ کم سے کم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جانتے ہیں:
They do not receive suffciently comprehensive knowledge, particularly in the humanities. They are learning more and more about less and less.
یہ بات بجائے خود درست ہے۔ مگر یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ جدید صنعتی تمدن کو چلانے کے لئے جو افراد در کار ہیں ان میں اسی قسم کی صلاحیتیں مطلوب ہیں۔ یہ جدید تمدن کی ایک ضرورت ہے۔ اگرچہ یہ بھی صحیح ہے کہ اس قسم کے جزئی متخصص ٹیکنکل کاموں کے لئے مفید ہو سکتے ہیں مگر وہ انسانی علوم کی ترقی میں مددگار نہیں۔ اس معاملہ میں ہمارے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک میں ترقی اور دوسرے میں قناعت کا طریقہ اختیار کریں۔
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ صورت حال کنزیومرزم کی پیداوار ہے، وہ انسان کی کسی واقعی ضرورت کی پیداوار نہیں۔ مثلاً سڑک پر سفر کرنے کے لئے ماروتی جیسی کارکافی ہے۔ پھر (Ferrari) جیسی انتہائی قیمتی کار کیوں بنائی جائے۔
ایک پروفیسر صاحب نے اپنی تقریر میںاخلاقی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے سفر کرکے مختلف یوینورسٹیوں کے ذمہ داروں سے ملاقات کی۔ مگر مجھ کو کہیں سے حوصلہ بخش جواب نہیں ملا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے بتایا گیا کہ پیشہ ورانہ کورس اب اخلاقیات کی تعلیم نہیں دیتے۔ وہ صرف یہ سکھاتے ہیں کہ قانون کے تصادم سے کس طرح بچا جائے۔ اخلاقیات کو بطور مضمون کہیں پڑھایا نہیں جاتا:
I was told that professional development courses do not teach ethics now. They only teach how to avoid conflict with law. Ethics as such is not taught at all.
میں نے کہا کہ انسانی زندگی میں اخلاق کی اہمیت بلاشبہہ مسلّم ہے۔ مگر موجودہ سوسائٹی میں ہم اخلاقی قدروں کو صرف اس طرح زندہ نہیں کر سکتے کہ سیکولر تعلیم کے موجودہ نظام میں اخلاق کے موضوع پر بھی ایک کتاب شامل کردیں۔ اس قسم کی کوشش ہاتھی کی دم میں پتنگ باندھنا ہے۔ یہ معاملہ اس سے زیادہ سنگین ہے کہ تعلیمی نصاب میں جزئی ترمیم کرکے اس کو حاصل کیا جاسکے۔
ایک صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہر آدمی کو داخلی ترقی کی ضرورت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم بہت سی تاریخی مثالوں میں دیکھ سکتے ہیں کہ اس قسم کی روحانی ترقی صرف اس انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جس نے یہ جان لیا ہو کہ اس کا ہر لمحہ شاید آخری لمحہ ہو:
Every person needs inner growth. We can see from many historical examples that such a concerted spiritual growth can come to a person only once he has realised that each and every moment may be his last.
مذکورہ مقرر نے یہ بات بظاہر دنیوی معنوں میںکہی تھی مگر یہ بات مزید اضافہ کے ساتھ آخرت کے معنیٰ میں درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موت اور آخرت کا تصور روحانی ارتقاء کے لیے سب سے زیادہ مؤثر حیثیت رکھتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موت اورآخرت کا عقیدہ آدمی کو ہر لمحہ اس اندیشہ میں مبتلا رکھتا ہے کہ کب اس دنیا میں اس کا خاتمہ ہو جائے اور عمل کا موقع اس سے چھن جائے۔
ایک مقرر نے شوماخر کی کتاب ’’چھوٹا خوبصورت ہے‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک مشرقی مثل ہے کہ ایک گرتے ہوئے درخت کی آواز ہمیشہ اگتے ہوئے جنگل سے زیادہ ہوتی ہے۔ دھیمی ترقی لوگوں کو بہت زیادہ متوجہ نہیں کرتی:
This idea was expressed long ago by E. F . Schumacher in his book Small is Beautiful. A falling tree is always louder than a growing forest. Steady development does not attract great attention.
یہ بات درست ہے۔ عام طورپر لوگوں کا مزاج یہ ہوتا ہے کہ وہ ظاہر کے اعتبا رسے اپنی رائے قائم کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی کوششیں ہمیشہ زیادہ بڑا نتیجہ پیدا کرتی ہیں۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگ پُرشور واقعات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ یہ مزاج ماضی میں بھی تھا اورآج بھی یہی مزاج لوگوں میں موجود ہے۔
ایک صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ کسی سماج میںامن صرف اسی وقت ممکن ہے جب کہ لوگوں کے دلوں میں بھی امن قائم ہوچکا ہو:
Peace in society is possible only if peace reigns in the hearts of men.
یہ بات بلاشبہہ درست ہے۔ امن کے نام پر سیاسی ہنگامہ یا امن کے نام پر نظام کی توڑ پھوڑ سے کبھی امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امن قائم کرنے کی جدوجہد کا آغاز فرد سے ہوتا ہے، نہ کہ خارجی ڈھانچہ سے۔
اسی طرح ایک صاحب نے کہا کہ مادی ذرائع محدود (limited) ہیں اور ان میں محدود ترقی ہی ممکن ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہمارے روحانی ذرائع (spiritual resources) لامحدود ہیں۔ روحانیت کے میدان میں ترقی کی کوئی حد بندی نہیں۔
یہ بات بالکل درست ہے اور کہنے میں بھی بہت اچھی معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ ساری تاریخ میں بہت کم لوگ ایسے گذرے ہیں جو روحانیت کے میدان میں لامحدود ترقی کے امکانات کو حاصل کرنے کی کوشش کریں، اوراس سے بھی کم وہ لوگ ہیں جنہوں نے فی الواقع اس امکان کو اپنے حق میں واقعہ بنایا ہو۔
ایک صاحب نے اپنے مقالہ میں وائلنس پر بحث کرتے ہوئے کہا کہ صدیوں سے لوگ انگنت لڑائیوں کو جھیل رہے ہیں۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ خدا کیوں اس میں مداخلت نہیں کرتا اور لوگوں کی ہلاکت کو نہیں روکتا۔ میرے نزدیک اس کا سادہ جواب یہ ہے کہ خدا مرکز میں ہے،اور لڑائیاں بیرونی سطح پر ہورہی ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم بیرونی سطح سے مرکز کی طرف منتقل ہوں۔ ہمارا نشانہ یہ ہونا چاہیے کہ ہم با اقتدار اشخاص کی ایک جماعت بنائیں جو اس سے اوپر ہوں کہ کوئی انہیں استعمال کر سکے:
For centuries people suffering from countless wars have asked why God does not intervene and stop the killing of fellow men. The answer is, in my view, simple: God is at the centre, the wars take place at the periphery. It is time that we returned from the periphery to the centre. Our goal must be to create a community of sovereign personalities, who are above manipulation.
یہ بات صحیح نہیں۔ دنیا میں لڑائیوں کا سلسلہ اس لئے نہیں ہے کہ خدا انسانی دنیا سے دور کسی اندرونی مرکز میں ہے۔ اصل یہ ہے کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ خدا کے علم اور قدرت کے تحت ہورہا ہے۔ خدا نے امتحانی منصوبہ کے تحت لوگوں کو ایک مدت تک کے لئے آزادی دے دی ہے۔ جنگ اسی آزادی کے غلط استعمال کا نتیجہ ہے۔ موجودہ حالات کسی بااقتدار جماعت کے روکنے سے ختم نہ ہوں گے۔ وہ صرف اس وقت ختم ہوں گے جب کہ خدا کی مقرر کی ہوئی امتحانی مدت کا خاتمہ ہوجائے۔
ایک پروفیسر نے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانہ میں چرچ سخت دفاعی پوزیشن میں ہیں۔ ان کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ خود اپنے مذہب کے بارے میں لوگوں کی معلومات بہت کم ہیں۔ یہ نظریہ پھیلادیا گیا ہے کہ چرچ جن باتوں کی تبلیغ کرتے ہیں وہ آج کے حالات کے مطابق نہیں۔
اس معاملہ کی وضاحت کے لئے انہوں نے صرف ایک مثال دی، اور وہ اسقاط (abortion) تھا۔ میںنے کہا کہ یہ مثال زیادہ متعلق مثال نہیں۔ مذہب کا دورِ جدید سے متعلق یا غیر متعلق ہونا، اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ مذہب کی بنیادی تعلیمات کس حد تک زمانہ ٔ حال سے متعلق یا غیر متعلق ہیں۔ جہاں تک اسقاط جیسے معاملہ کا تعلق ہے، اس سے مذہب کی دوامی قدروقیمت کی تردید نہیں ہوتی۔ اسقاط کو درست سمجھنا ایک عملی انحراف کا مسئلہ ہے۔ مذہب کی صداقت کو جانچنے کا معیار کسی سماج کا عملی انحراف نہیں۔ اس کا معیار صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے سائنٹفک تحقیق کے ذریعہ کوئی واقعی طورپر ثابت شدہ حقیقت۔ کوئی بھی تیسری چیز مذہب کی صداقت کو مشتبہ نہیں کرتی۔
ایک صاحب نے اپنی گفتگو میںآر چ بشپ ڈاکٹر ڈسمانڈ ایم ٹوٹو (Dr. Desmond M Tutu) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہودیت اور مسیحیت اور اسلام کے درمیان جو مذہبی اختلافات ہیں، ان پر ڈائلاگ جاری رکھنا بہت اچھا ہے۔ مگران اختلافات کا مستقل حل یہ ہے کہ تینوں مذاہب باہمی رواداری (mutual tolerance) کے اصول کو اختیار کر لیں۔
میرے نزدیک یہ بات بالکل درست ہے اور مذہبی اختلافات کا یہی قابل عمل حل ہے۔ ڈائیلاگ کا طریقہ ہماری معلومات میں اضافہ کرسکتا ہے اس لیے اُس کو جاری رہنا چاہئے۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈائلاگ کے ذریعہ مذاہب کا کوئی ایک یونیورسل ورزن تیار نہیں کیا جاسکتا۔ مختلف مذاہب کے لوگوں کے درمیان جب بھی ہم آہنگی کا ماحول قائم ہوگا تو وہ باہمی عزت اور باہمی رواداری کے ذریعہ قائم ہوگا۔
ایک مقرر نے اپنی تقریر میں پروفیسر وِنڈل بری(Wendell Berry) کا حوالہ دیا۔ انہوں نے بتایا کہ پروفیسر موصوف نے مذہب اور کلچر کے اختلافات کے مسئلہ کو حل کرنے کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ علمی مباحثہ کے بجائے دل جوئی کا انداز اختیار کیا جائے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ میں نے اپنے لمبے سفر حیات میں یہ اہم بات دریافت کی ہے کہ ذہنی ڈائلاگ کے مقابلہ میں قلبی ڈائلاگ زیادہ موثر ہے:
An important conclusion of my year-long journey is that a dialouge of the heart is much more effective than a dialogue of the mind.
یہ بات بظاہر خوب صورت معلوم ہوتی ہے۔ مگر وہ زیادہ بامعنیٰ نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ ’’قلبی ڈائلاگ‘‘ سے بھیڑ اکٹھا ہوتی ہے۔ مگر بھیڑ اکٹھا کرنے سے کیا فائدہ جب کہ اصل بات ہی مبہم ہو کر رہ جائے۔ میرے نزدیک زیادہ درست بات یہ ہے کہ لوگوں کے اندر غیر ضروری حساسیت کو ختم کیا جائے۔ لوگوں کے اندر یہ مزاج بنایا جائے کہ وہ مذہبی اختلافات پر اسی طرح کھلی بحث کر سکیں جس طرح سائنس کے شعبوں میں کھلی بحث کی جاتی ہے۔ یہاں لوگ اختلاف اور اتفاق سے قطع نظر صرف یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ امرِ واقعہ کیا ہے۔ میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ سائنٹفک ڈسکشن کا یہی مزاج اہل مذاہب کے درمیان بھی پیدا کیا جائے۔
سوئزرلینڈـــــــلینڈ آف پیس
اگر آپ گاندھی کے پیس فل ایکٹوزم کو جاننا چاہتے ہیں تو ہندستان کی آزادی کی تاریخ کو پڑھئے۔ اور اگر آپ گاندھی کی peaceful living کو جاننا چاہتے ہیں تو سوئزر لینڈ کا سفر کیجئے۔ سوئزرلینڈ بیک وقت دو چیزوں کا نمونہ ہے۔ فطرت کا حسن اورپر امن زندگی۔
۲۵ جولائی ۲۰۰۱ کو جب ہم سوئس ائر سے سفر کرکے زیورک ائر پورٹ پر اترے تو اس کے نظم اور سلیقہ کے علاوہ دوسری غیر معمولی چیز یہ نظر آئی کہ وہاں پولس اور فوج کی وردی میں کوئی شخص دکھائی نہیں دیا۔
سوئزر لینڈیورپ کاایک چھوٹا اور لینڈ لاکڈ کنٹری ہے۔ وہ اٹلی، فرانس، جرمنی اور آسٹریا کے درمیان واقع ہے۔ مگر لینڈ لاکڈ ہونے کے باوجود وہ اپنی اوپن پالیسی کی بنا پر پوری دنیا سے اس طرح جڑا ہوا ہے کہ وہ سچ مچ ’گلوبل ویلیج‘ کا نمونہ بن گیا ہے۔ ۲۰۰ سال پہلے سرحدی ملکوں سے سوئزر لینڈ کے کئی جھگڑے تھے مگر سوئزر لینڈ کے لوگوں نے گیو اینڈ ٹیک کے اصول پر ہر ملک سے اچھے تعلقات قائم کر لئے۔ اس کے بعد سوئزر لینڈ نے کسی بھی سرحدی ملک سے اختلاف کا چیپٹر نہیں کھولا۔ اسی کے ساتھ سوئزر لینڈ کے اندر مختلف قومیں، مختلف زبانیں اور مختلف کلچر موجود تھے۔ مگر سوئزر لینڈ نے ہر ایک کو یکساں طورپر ترقی کرنے کی آزادی دے دی۔ مزید یہ کہ سوئزر لینڈ میں کٹر پن یا انتہا پسندانہ ذہن کبھی نہیں ابھرا۔
اس اتحاد اور ایڈجسٹمنٹ کا فائدہ سوئزر لینڈ کو یہ ملا کہ اس کے یہاں ترقی کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہا۔ چنانچہ دو سو سال سے سوئزر لینڈ اقتصادی ترقی کے راستہ پر گامزن ہے۔ تسلسل کو توڑے بغیر وہ ترقی کے راستہ پر چلا جارہا ہے۔ سوئزر لینڈ کی اقتصادی ترقی اور استحکام کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ ایک سو امریکی ڈالر ڈھائی سو سوئس فرینک کے برابر ہوتا ہے۔ جب کہ ایک سو امریکی ڈالر تقریبًا ۵ ہزار ہندستانی روپیہ کے برابر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک مغل بادشاہ نے جب کشمیر کو دیکھا تو اس نے کہا کہ جنت اگر زمین پر ہے تو وہ یہی کشمیر ہے:
اگر فردوس بر روئے زمین است ہمیں است وہمیں است و ہمین است
لیکن ایک طرف کشمیر اپنے لیڈروں کی غلط پالیسی کے نتیجہ میں تباہ ہوتارہا اور دوسری طرف اسی مدت میں سوئزر لینڈ کو اس کے دانشمند لیڈروں کی تعمیری پالیسی کے نتیجہ میں سنوارا جاتا رہا۔ یہاں تک کہ اب مذکورہ فارسی شعر کشمیر کے بجائے سوئزر لینڈ پر صادق آتا ہے۔ ہمارے ساتھ ایک معمر کشمیری خاتون بھی تھیں۔ وہ سوئزر لینڈ کو دیکھ کر رو پڑیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا کشمیر آج اس سے بھی اچھا ہوتا مگر نادانوں نے اس کو تباہ کر دیا۔
سوئزر لینڈ کے مختلف حصوں میں دور دورتک گاڑی کے ذریعہ جانے کا موقع ملا۔ کہیں بھی سڑک ٹوٹی ہوئی نہیں ملی۔ کہیں بھی سڑک کے دونوں طرف کوئی گاڑی الٹی ہوئی دکھائی نہیںدی۔ کہیں بھی فٹ پاتھ پر وہ ناقابل دید مناظر نہیں تھے جو ہندستان کے شہروں میں غالبًا بلا استثناء پائے جاتے ہیں۔ سوئزر لینڈ میں سڑکوں کا نظام اس طرح بنایا گیا ہے کہ وہاں ریڈ لائٹ پر رکنے کا مسئلہ تقریبًا نہیں کے برابر ہے۔
طویل سفروں کے درمیان کہیں بھی شور سنائی نہیں دیا، نہ مشینوں کا شور اور نہ انسانوں کا شور اور نہ گاڑیوں کا شور۔ یہاں کی ایک صفت یہ نظر آئی کہ یہاں سامان ڈھونے کے لئے ٹرک نہیں۔ تمام سامان ٹرینوں کے ذریعہ ادھر سے ادھر منتقل کیا جاتا ہے، ٹرینیں اتنی عمدہ ہیں کہ وہ نہ شور کرتی ہیں اور نہ دھواں بکھیرتی ہیں۔وہ خوبصورت کھلونے کی مانند لوہے کی سڑکوں پر خاموشی کے ساتھ دوڑتی رہتی ہیں۔
رائے من پنیکر (Raimon Panikkar) ایک عیسائی پادری ہیں۔ وہ بارسلونا کے پاس ٹیورٹٹ میں رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اسپین میں اسلام کے مطالعہ کا نیا رجحان پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اسپینی زبان میںاسلامی کتابوں کے ترجمے کئے جارے ہیں اور لوگ اسلام قبول کر رہے ہیں ۔ میں نے پوچھا کہ اسلام سے ان کی دلچسپی کا سبب کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاص وجہ اسلام کی تعلیمات کی سادگی ہے۔ اس کی وجہ سے ہر آدمی فوراً اسلام کو سمجھ لیتا ہے۔ جب کہ دوسرے مذہبوں کی تعلیمات بہت پیچیدہ ہیں۔ دوسری بات انہوں نے یہ بتائی کہ دوسرے مذاہب کے برعکس، اسلام نے خدا کو ایک گوشہ میں نہیں ڈالا جیسا کہ دوسرے مذاہب میں کیا گیا ہے۔
Islam has not reduced God to a corner.
میں نے ان سے پوچھا کہ اسلام کے بارے میں لوگوں میں کس قسم کی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ خاص طورپر جہاد کے بارے میں۔ اس کی وجہ سے عام طورپر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ میں سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں غلط فہمی کو دور کیا جائے۔ یہ کام دوطریقوں سے کیا جانا چاہئے ایک یہ کہ اسلام کو اس کی صحیح صورت میں پیش کیا جائے اور دوسرے یہ کہ مسلمان اپنی ان متشددانہ کارروائیوں کو بند کر دیں جو وہ اسلامی جہاد کے نام پر کر رہے ہیں۔
۳۰ جولائی کی شام کو دوبارہ ہم لوگ اپنے ہوٹل میں واپس آگئے۔ رات ہوٹل میں گزاری۔ ۳۱ جولائی ۲۰۰۱ کو واپسی تھی۔ صبح کو ساڑھے سات بجے کینڈ راسٹگ کے ہوٹل سے روانہ ہوئے۔ یہ روڈ کے ذریعہ ڈھائی گھنٹہ کا سفر تھا۔ پورا راستہ اس طرح طے ہوا جیسے ہم لوگ ایک بہت بڑے سجے ہوئے پارک سے گزر رہے ہیں۔ سارے راستہ میں ہمیں کہیں پولس یا فوج کی گاڑی نہیں ملی۔
سڑک کے دونوں طرف دور دور بکھرے ہوئے مکانات نظر آئے ۔ ہر مکان پھولوںاور پودوں سے گھرا ہوا دکھائی دیا۔ پورا سفر اس طرح طے ہوا جیسے کہ ہم لوگ خواب کی وادی سے گزر رہے ہوں۔ اس طرح سفر کرتے ہوئے ہم لوگ زیورک ائر پورٹ پہنچے۔ یہاں کا ائر پورٹ بھی دہلی کے ائر پورٹ سے بہت مختلف تھا۔ ایک طرف وہ نہایت خوبصورت اور منظم تھا اور دوسری طرف وہ مسافروں کے لئے بالکل کھلا ہوا تھا۔ دہلی ائر پورٹ پر کثرت سے باوردی پولس موجود رہتی ہے۔ مگر یہاں سارے ائرپورٹ میں پولس کا کوئی آدمی دکھائی نہیں دیا۔ ہم کو پہنچانے والے آزادی کے ساتھ ائر پورٹ کے اندر آئے اور انہوں نے سارے مراحل کی تکمیل کی۔ جب کہ دہلی کا حال یہ ہے کہ وہاں پہنچانے والوں کو گیٹ کے باہر ہی روک دیا جاتا ہے جہاں ان کے بیٹھنے کی بھی جگہ نہیں۔
زیورک سے دہلی کا سفر دوبارہ سوئس ائر سے ہوا، جہاز اپنے ٹھیک وقت پر روانہ ہوا۔ راستہ میں بہت سے اخبارات پڑھنے کے لئے موجود تھے۔ ٹائمس آف انڈیا (۳۱جولائی) کے پہلے صفحہ پر ایک تصویر تھی جس میںایک ہیلی کاپٹر بہار کے علاقہ میں سیلاب سے گھرے ہوئے لوگوں کے لئے کھانے کے پیکٹ گرا رہا تھا۔ تصویر کے نیچے ایک کیپشن تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قدیم زمانہ میں بنی اسرائیل کے اوپر آسمان سے من و سلویٰ اترا تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ کام انسانی کارخانہ میں بنا ہوا ہیلی کاپٹر انجام دے رہا ہے۔
جہاز تقریباً ۱۲ بجے دہلی ائر پورٹ پراتر گیا۔ ائر پورٹ کی ضروری کارروائیوں سے فارغ ہوکر باہر آئے تو رات کے ایک بج چکے تھے۔ گویا واپسی کے اس سفر کا آغازجولائی کے مہینہ کی آخری تاریخ کو ہوا تھااور سفر کا خاتمہ اگست کی پہلی تاریخ کوہوا۔
واپس اوپر جائیں