Pages

Saturday 2 February 2008

Al Risala | February 2008 (الرسالہ،فروری)

2

-اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

6

- معرفتِ دین، احکامِ دین

10

- ارتقا کے تین درجے

14

- سب کچھ خدا کا عطیہ

16

- ففٹی ففٹی کا معاملہ

18

- جنت کی قیمت

19

- تقلید اور اجتہاد

21

- چند مثالی خواتین

25

- ماڈل کون

26

- ذاتی دفاع، قومی دفاع

27

- موت ایک رِمائنڈر

28

- شکر ایک قربانی کا عمل

29

- صحبت کا اثر

30

- ایک مشکل، دوآسانی

31

- حد سے تجاوز نہ کرنا

32

- عقل مند انسان

34

- جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

36

- قانونِ فطرت کو جانیے

39

- پیچھے کی سیٹ

41

- عظمتِ خداوندی کا اعتراف

42

- خبرنامہ اسلامی مرکز— 182


اختیارِ اَیسر— ایک سنّت

حضرت عائشہ کی ایک روایت ہے۔ یہ روایت صحیح البخاری، صحیح مسلم، ابوداؤد، الترمذی، المؤطا اور مسند احمد میں الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ آئی ہے۔ اِس روایت میں حضرت عائشہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی بیان کی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت تین ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے (کتاب المناقب: باب صفۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم؛ کتاب الأدب: باب مالا یُستحیا من الحقّ للتفقّہ فی الدّین؛ کتاب الحدود: باب إقامۃ الحدود، والإنتقام لحرمات اللہ) اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: ماخُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختار أیسرہما۔ یعنی جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرناہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے۔
یہ حدیث بے حد اہم ہے۔ اِس میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جنرل پالیسی کو بیان کیاگیا ہے، مگر عجیب بات ہے کہ محدثین نے اِس کی زیادہ تشریح نہیں کی۔ ابنِ حجر کی فتح الباری کو حدیث کا انسائکلوپیڈیا سمجھا جاتا ہے۔ ابنِ حجر نے اِس حدیث کو تین ابواب کے تحت نقل کیا ہے، لیکن انھوں نے اِس حدیث کی کوئی واضح تشریح نہیں کی۔ انھوں نے صرف یہ لکھا ہے کہ اِس ’تخییر‘ کا تعلق، اُمورِ دنیا سے ہے، مگر انھوں نے امورِدنیا کی کوئی متعین عملی مثال نہیں دی(فتح الباری، جلد 12، صفحہ 88 )۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر اصول کا ایک عملی انطباق ہوتا ہے۔ مثلاً اسپریچویلٹی کے عملی انطباق کو اپلائڈ اسپریچویلٹی (applied spirituality) کہاجاتاہے۔ اِسی طرح سائنس کے عملی انطباق کو اپلائڈ سائنس (applied science) کہاجاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت عائشہ کے بیان کردہ پرنسپل کا ایک اپلائڈ پرنسپل (applied principle) ہے، لیکن اِس اپلائڈ پرنسپل کی مثالیں کسی بھی شارحِ حدیث کے یہاں نہیں ملتیں۔ میرے علم کے مطابق، اسلام کی پوری تاریخ میں کسی بھی عالم اور مصنف نے حضرت عائشہ کے اِس بیان کردہ اصول کے عملی انطباق کو وضاحت اور تعین کے ساتھ بیان نہیں کیا۔
اسلامی لٹریچرکا یہ خلا، بلا شبہہ ایک عظیم حادثے سے کم نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں نماز کے بارے میں یہ حکم دیاگیا ہے کہ : أقیموا الصلوٰۃ ( البقرۃ: 43) یعنی نماز قائم کرو۔ یہ نماز کے بارے میں اصولی حکم ہے۔ اِس کے بعد یہ سوال تھا کہ اِس اصول کا عملی انطباق کیا ہے۔ علما نے احادیث کا مطالعہ کرکے نماز کی عملی صورت، یا اپلائڈ صلوٰۃ (applied Salah) کے بارے میں بڑی تعداد میںکتابیں لکھیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امت کو غیر مشتبہ طورپر یہ معلوم ہوگیا کہ نماز کا عملی فارم کیا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا ہوتا تو لوگ حکمِ نماز کو توجانتے، لیکن اُس کی عملی صورت سے بے خبر ہونے کی بنا پروہ نماز کی باقاعدہ ادائیگی سے محروم رہ جاتے۔
حضرت عائشہ کی مذکورہ روایت کے بارے میں بھی یہی چیز درکار تھی۔یہاں بھی ضرورت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمومی پالیسی کو بتاتے ہوئے اُس کے عملی انطباق کو بھی بتایا جاتا، یعنی یہ بتایا جاتا کہ رسول اللہ نے اپنی تیئس سالہ پیغمبرانہ زندگی میں کس طرح اِس اصول کو عملی طورپر اختیار فرمایا۔ بد قسمتی سے اِس دوسرے معاملے میں یہ کام نہ ہوسکا۔ چناں چہ اب یہ صورتِ حال ہے کہ حضرت عائشہ کی یہ قیمتی روایت، حدیث کی کتابوں میں موجود ہے، لیکن امت اُس کے عملی انطباق سے بالکل بے خبر ہے۔ خاص طورپر جدید دور میں امت کی زبوں حالی کا سب سے بڑا سبب سنتِ رسول سے لوگوں کی یہی بے خبری ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، ابدی طورپر خدا کے دین کا عملی نمونہ ہیں۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح، جہاد بھی وہی جہاد ہے جس کا نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں ملے۔ جہاد کاجو نمونہ پیغمبر اسلام کی زندگی میں موجود نہ ہو، وہ یقینی طورپر جہاد نہیںہے بلکہ وہ کوئی اور چیز ہے، خواہ اُس کو اسلامی جہاد کا نام دے دیا جائے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ، واسئلوا اللہ العافیۃ (صحیح البخاری، کتاب الجہاد) یعنی تم دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنّا نہ کرو، بلکہ خدا سے عافیت مانگو:
Don't wish confrontation with your enemy, ask always peace from God.
جیسا کہ عرض کیا گیا،حضرت عائشہ نے پیغمبر اسلام کی جنرل پالیسی کو اِن الفاظ میں بیان کیا ہے: ما خُیّر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بین أمرین، إلاّ اختارَ أیسرہما، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی دو امر میں سے ایک امر کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان امر کا انتخاب فرماتے:
Whenever the Prophet had to choose between the two, he always opted for the easier of the two.
اس قسم کی احادیث کے ساتھ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کو دیکھا جائے اور پھر اِس معاملے کی تشریح کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ کہنا بالکل صحیح ہوگا کہ اسلام میں مسلّح جہاد، یا قتال صرف ایک غیر مطلوب انتخاب (undesirable option) ہے، وہ ہر گز کوئی مطلوب انتخاب (desirable option) نہیں۔ پیغمبراسلام کی زندگی کے واقعات واضح طورپر اِس نقطۂ نظر کی تائید کرتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں توحید کے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ شرک کا مرکز بنا ہوا تھا۔ چناں چہ وہاں کے مشرک سردار آپ کے دشمن بن گیے، پھر بھی آپ کا مشن پھیلتا رہا اور لوگ آپ کے ساتھی بنتے رہے۔ اِس طرح تیرہ سال گزر گیے۔ اب مکہ کے مخالفین نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ آپ کو مارڈالیں۔
یہ 622 عیسوی کا واقعہ ہے۔ اُس وقت آپ کو دو میں سے ایک کے انتخاب کا موقع تھا۔ ایک یہ کہ مکہ کے سرداروں کے حربی چیلنج کو قبول کرتے ہوئے، اُن سے مسلّح مقابلہ کریں۔ اُس وقت تک مکہ اور اطرافِ مکہ میں کئی سو افراد آپ پر ایمان لا کر آپ کے ساتھی بن چکے تھے، اِس لحاظ سے آپ کے لیے یہ انتخاب بظاہر ایک ممکن انتخاب تھا۔
آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ مسلح ٹکراؤ سے اعراض کریں، خواہ اِس مقصد کے لیے آپ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑے، یعنی آپ پُر امن طورپر مکہ کو چھوڑ کر باہر چلے جائیں، آپ نے یہی دوسرا طریقہ اختیار کیا۔ آپ نے مسلح ٹکراؤ کا طریقہ چھوڑ دیا اور پُرامن ہجرت کا طریقہ اختیار کرکے آپ مدینہ چلے گیے۔ اگر چہ ظاہر پسندوں کی نظر میں یہ کوئی باعزت طریقہ نہ تھا۔ چناں چہ سیکولر مؤرخین نے اِس واقعے کو ہجرت کے بجائے فرار (flight) کا نام دیا ہے۔
اِسی طرح کا ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلحِ حدیبیہ کہاجاتا ہے۔ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ چھوڑ کر مدینہ آگیے تو آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ دعوتِ توحید کا کام زیادہ بڑے پیمانے پر انجام دے سکیں۔ یہ بات مکہ کے سرداروں کو پسند نہیں آئی۔ انھوںنے آپ کے خلاف باقاعدہ حملہ شروع کردیا۔ اُس وقت آپ نے مکہ کے سرداروں سے گفت و شنید (negotiation) کا سلسلہ شروع کیا۔ اِس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ آپ اور مکہ والوں کے درمیان امن کا سمجھوتہ ہوجائے۔ یہ گفتگو، حدیبیہ کے مقام پر دو ہفتے تک جاری رہی۔
اِس گفت وشنید کے دوران یہ واضح ہوا کہ فریقِ ثانی اپنی یک طرفہ شرطوں پر اصرار کررہا ہے۔ وہ لوگ اِس معاملے میں کسی بھی طرح جھکنے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آخر کار، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سردارانِ قریش کی یک طرفہ شرطوں کو مان لیا، تاکہ دونوں فریقوں کے درمیان امن قائم ہوسکے۔ اِس طرح صلحِ حدیبیہ کا واقعہ انجام پایا، جو گویا آپ کے اور فریقِ ثانی کے درمیان دس سال کا ناجنگ معاہدہ (no-war pact) تھا۔ اِس واقعے کے ذریعے پیغمبر اسلام نے امت کو یہ نمونہ دیا کہ مسلح ٹکراؤ کا انتخاب کسی بھی حال میں نہیں لینا ہے، کوئی بھی قیمت دے کر ہر حال میں امن کو قائم رکھنا ہے— اسلام میں امن کی حیثیت عموم کی ہے اور جنگ کی حیثیت صرف استثنا کی۔
(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتابیں— مطالعۂ سیرت، اور امنِ عالم، وغیرہ)
واپس اوپر جائیں

معرفتِ دین، احکامِ دین

دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ اس کے ایک حصے کو معرفت کہہ سکتے ہیں، اور اس کا دوسراحصہ وہ ہے جس کو احکام کہاجاتاہے۔ اگر چہ دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں، جس طرح ایک انسانی شخصیت کے لیے روح اور جسم دونوںیکساں طورپر ضروری ہوتے ہیں۔ لیکن معرفت اور احکام میں یہ فرق ہے کہ معرفت، دین کا اصل حصہ(real part) ہے اور اس کے مقابلے میں، احکام کا حصہ دین کا اضافی حصہ (relative part) ہے۔ دین میں مذکورہ دو حصے کا ہونا نصّ کے ذریعے ثابت ہے۔ مثلاًپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کے بارے میں فرمایا: لکلِّ اٰیۃٍ منہا ظَہْرٌ وبَطْنٌ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث:238 ) یعنی قرآن کی ہر آیت کا ایک ظَہر(outer portion) ہے اور دوسرا اس کا بَطن (inner portion) ہے۔ دوسرے لفظوں میںیہ کہ قرآن کی آیات کا ایک پہلو سطور(lines) میں ہے اور اس کا دوسرا پہلو بین السطور(between the lines) میںملتا ہے۔ اِس حدیث کو لے کر کہا جاسکتا ہے کہ دین کی معرفت نام ہے داخلی معنویت کا، اوردین کے مسائل یا احکام سے مراد دین کا خارجی ڈھانچہ ہے۔
مثال کے طور پر ایمان کو لیجیے۔ فقہی اعتبار سے ایمان یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زبان سے کہے کہ : أشہد أن لاّ إلٰہ إلاّ اللہ، وأشہد أن محمداً عبدُہ ورسولُہ۔ جس شخص نے اپنی زبان سے یہ الفاظ ادا کردیے، وہ فقہی مسئلے کے اعتبار سے مومن بن گیا، لیکن جہاں تک ایمان کی معرفت کی بات ہے، وہ اِس قسم کے تلفّظ سے الگ ایک چیز ہے۔ وہ کسی شخص کو ذہنی انقلاب (intellectual revolution)کے ذریعے حاصل ہوتاہے، نہ کہ محض ادایگیٔ الفاظ کے ذریعے۔
معرفت والا ایمان کیا ہے، اس کو قرآن کی اِس آیت سے سمجھئے: وإذا سمعوا ما أُنزل إلی الرّسول تریٰ أعینَہم تفیض من الدّمع مما عرفوا من الحق (الأنعام: 83 ) اِس آیت میں ایک ایسے گروہ کا ذکر ہے ، جو قرآن کی کچھ آیتوں کو سن کر ایمان لایا۔ انھوںنے بھی اُسی طرح اپنی زبان سے کلمۂ ایمان ادا کیا، لیکن اُن کی یہ ادایگی ایک قلبی عرفان کی بنیاد پر تھی۔ ان کا یہ عرفانِ حق اتنا گہرا تھا کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بہہ پڑا۔
ایمان کی نسبت سے اوپر جو بات کہی گئی ، وہی دین کی تمام باتوں کے لیے درست ہے۔ دین کی تمام تعلیمات کا معاملہ یہ ہے کہ اس کا ایک پہلو وہ ہوتا ہے، جو نص کے ظاہری الفاظ سے معلوم ہوتا ہے، اور اس کا دوسرا پہلو وہ ہے جو نص کے الفاظ پر گہرے غور وفکر سے معلوم ہوتا ہے۔
دین میں گہری معرفت حاصل کرنے کی شرط کیا ہے۔ اس کی واحد شرط تقویٰ ہے، یعنی خداکا خوف۔ معرفت کی یہ شرط قرآن سے ثابت ہے۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے: اتّقوا اللہ ویعلّمکم اللہ (البقرۃ:282 )۔ یعنی تم اللہ سے ڈرو اور پھر اِس ڈر کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ کی توفیق سے تم دین کے گہرے علم تک پہنچ جاؤگے۔ دین کے ظاہری احکام کو جاننے کے لیے خوفِ خدا کی ضرورت نہیں، اِس کے لیے فقہ کی کتابوں کو پڑھ لینا کافی ہے۔ لیکن دین کے معرفت والے حصے تک پہنچنا، صرف اُس شخص کے لیے ممکن ہے جو خدا سے ڈرنے والا ہو، خدا کے خوف نے جس کو مَین کٹ ٹو سائز(man cut to size) بنا دیا ہو۔
اِس معاملے میں ایک حدیث پر غور کیجیے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر، فلیقل خیراً أو لیصمت (صحیح البخاری، کتاب الادب) یعنی جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، اس کو چاہیے کہ وہ خیر کی بات بولے، ورنہ چپ رہے۔ یہ حدیث ہم کو کلامِ تقویٰ کی ایک پہچان دیتی ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ جس آدمی کے دل میں اللہ کا ڈر سمایا ہوا ہو، وہ اگر کسی کے خلاف بولے گا تو وہ صرف اُس وقت بولے گا، جب کہ اس کے پاس اپنے قول کے حق میں ناقابلِ انکار دلیل موجود ہو۔ اگر اس کے پاس ایسی دلیل نہ ہو تو وہ اِس موضوع پر بالکل خاموش رہے گا۔
اِس سے معلوم ہوا کہ ایسا کرنا کہ آدمی کسی شخص کے بارے میں ایک مخالفانہ بیان (negative remark) دے، لیکن وہ صرف ایک مجرّد بیان ہو، اس بیان کے ثبوت کے لیے کوئی واضح دلیل موجود نہ ہو، تو ایسا بیان یقینی طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ آدمی خوفِ خدا سے کانپنے والا آدمی نہیں۔ اس کا بیان ایک بے خوفی کا بیان ہے، نہ کہ خوفِ خدا والابیان۔
مجھے ذاتی طورپر اِس معاملے میں نہایت تلخ تجربے ہوئے ہیں۔ بے ریش اور باریش دونوں قسم کے لوگوں نے ایسا کیا کہ انھوںنے میرے بارے میں مخالفانہ ریمارک دیے، جب کہ اِس ریمارک کے ساتھ کوئی دلیل شامل نہ تھی۔ مثلاً کسی نے میرے بارے میں کہا کہ وہ ایک ’’متنازعہ شخصیت‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی کتابوں کو پڑھ کر ’’اَسلاف سے بے اعتمادی‘‘ پیدا ہوتی ہے۔ کسی نے کہا کہ ان کی فکر میں ’’انتہا پسندی‘‘ ہے۔ کسی نے کہا کہ وہ ’’ردّ عمل کی نفسیات‘‘ کے تحت لکھتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی تحریریں ’’بُزدلی‘‘ کا سبق دیتی ہیں۔ کسی نے کہا کہ وہ اسلام کو اس کی ٹوٹیلٹی (totality) میں پیش نہیں کرتے۔ کسی نے کہا کہ وہ جہاد فی سبیل اللہ کے ’’منکر‘‘ ہیں۔ کسی نے کہا کہ ان کی شناخت یہ ہے کہ ان کے یہاں ’’تنقیدات اور تفرّدات‘‘ کے سوا اور کچھ نہیں، وغیرہ۔
اِن تمام لوگوں کی مشترک صفت یہ ہے کہ وہ صرف مخالفانہ ریمارک دیتے ہیں، لیکن وہ اپنے ریمارک کی کوئی علمی دلیل نہیں دیتے، حتی کہ وہ اپنے اِس مخالفانہ ریمارک کے حق میں میری کسی تحریر سے کوئی اقتباس بھی پیش نہیں کرتے۔ وہ یا تو اقتباس پیش کیے بغیر اپنا بیان دیتے ہیں، یا اگر کوئی اقتباس پیش کرتے ہیں تو وہ ہمیشہ بدلی ہوئی اور ناقص صورت میں ہوتا ہے۔ وہ یہ نہیں دیکھتے کہ میں نے اپنی تحریر میں خود کیا کہا ہے، بلکہ میری تحریر کا حوالہ دے کر وہ خود اپنی بات کہنے لگتے ہیں۔
اِس قسم کی تمام باتیں بلاشبہہ خدا سے بے خوفی کا نتیجہ ہیں۔ اور جو دل خدا کے خوف سے خالی ہو، وہ یقینی طورپر معرفت سے بھی خالی ہوگا۔ یہی آج کل تقریباً تمام لوگوں کا حال ہے۔ آج کل، دین کے موضوع پر لکھنے اور بولنے والوںکا سیلاب آیا ہوا ہے، لیکن اِن لوگوں کی تحریریں اور تقریریں محض الفاظ کا ڈھیر ہوتی ہیں۔ ڈکشنری کے تمام الفاظ بولنے کے باوجود ان کی تقریروں اور تحریروں سے سننے اور پڑھنے والے کودین کی کوئی معرفت حاصل نہیںہوتی۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ یہ تمام تقریریں اور تحریریں لفظی معلومات کی بنیاد پر ہوتی ہیں، نہ کہ معرفتِ حق کی بنیاد پر۔
آج کل ہر طرف تقریروں اور تحریروں کا جنگل نظر آتا ہے، لیکن یہ تقریریں اور تحریریں سوکھی گھاس کی مانند ہوتی ہیں۔ اِن میںنہ تو معرفت کی خوش بو ہوتی ہے اور نہ حکمت کی روشنی۔ اِن میںنہ تو محبتِ الٰہی کی غذا ہوتی ہے اور نہ خوفِ خدا کی چنگاری۔ اِن تقریروں اور تحریر وں میں سطحی لوگوں کے لیے ادبی چاشنی یا قومی فخر جیسی منفی خوراک تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں نہ وضوح (clarity) ہوتا ہے اور نہ دین کی گہری بصیرت۔
یہ تقریریں اور تحریریں صرف شَبد جنجال کا نمونہ ہوتی ہیں، لیکن اُن سے روحِ انسانی میں نہ اہتزاز (thrill) پیدا ہوتا اور نہ آنکھوںمیں آنسوؤں کا سیلاب اُمڈتاہے۔ اُن کو پڑھ کر اور سن کر انسان نہ جنت کی طرف دوڑنے والا بنتا ہے اور نہ جہنم سے بھاگنے والا۔ یہ تقریریں اور تحریریں انسان کے لیے خشک صحرا میں سفر کی مانند ہوتی ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس معاملے کا تجربہ میں نے مختلف انداز سے کیا ہے۔ مثلاً ایک شخص مجھ سے ملے گا اور کسی مقرّر کی تقریر کا ذکر کرے گا۔ وہ نہایت پُر جوش طورپر ان کی تقریروں کی تعریف کرے گا۔ لیکن جب میں اُس سے پوچھوں گا کہ ان کی تقریر میں آپ کو کیا نئی اور خاص بات ملی تو وہ کچھ نہ بتاپائے گا۔ یہ تجربہ میںنے بار بار کیا ہے۔ آج کل کے تقریباً تمام مشہور مقررین کا حال یہ ہے کہ ان کی تقریروں کو سن کر لوگ خوب خوش ہوتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں، لیکن وہ اِن تقریروں سے کچھ اپنے لیے لے کر نہیں لوٹتے۔ اِن تقریروں میں الفاظ کی بھر مار تو ضرور ہوتی ہے، لیکن اُن میں سننے والے کے لیے کچھ ٹیک اوے (take away) نہیں ہوتا۔
یہی معاملہ کتابوں کا ہے۔ کسی دینی کتاب کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے سے آدمی کو سچائی کی دریافت ہو، وہ خدا کو پہچانے، وہ اس کے ذریعے سے کوئی روحانی خوراک حاصل کرے۔ مگر یہاں بھی یہی حال ہے کہ لوگ مقالات اورکتابوں کی تعریفیں کرتے ہیں، مگر جب اُن سے پوچھا جائے کہ اِس کتاب میں تم کو خود اپنے لیے کیا ملا، اِس سے تم کو خود اپنے ذہنی ارتقا کے لیے کیا سامان حاصل ہوا۔ جب اُن سے ایسا سوال کیاجائے تو اِس کے جواب میں وہ کچھ بھی نہیںکہہ پاتے ۔ اُن کے پاس کہنے کے لیے کوئی ایسی نئی بات نہیں ہوتی، جس کو انھوں نے اِس کتاب کے مطالعے کے ذریعے پایا ہو۔
واپس اوپر جائیں

ارتقا کے تین درجے

ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ مسند امام احمد کے الفاظ یہ ہیں— حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: النّاس مَعادِن، کمعادن الفِضّۃ والذّہب، خِیارُہم فی الجاہلیۃ خیارُہم فی الاسلام إذا فقہوا (مسند احمد، جلد 2 صفحہ 539 ) یعنی انسان دھات کی مانند ہیں، جیسے سونے اور چاندی کی دھات۔ جاہلیت میںجو بہتر ہیں، وہی اسلام میں بھی بہتر ہیں، جب کہ وہ اپنے اندر سمجھ پیدا کریں۔
اِس حدیث میں انسان کے فکری ارتقا کے مراحل کو بتایا گیا ہے۔ ایک درجۂ فکری وہ ہے جس پر انسان پیدا ہوتا ہے۔ دوسرا درجۂ فکری وہ ہے جو انسان خود اپنی کوششوں سے بناتا ہے۔ تیسرا درجہ معرفت کا درجہ ہے۔ معرفت کے درجے میں پہنچ کر انسان اپنے ارتقا کی آخری منزل کو پالیتا ہے، یعنی وہ درجہ جس کا دوسرا نام اسلام ہے۔
اِس اعتبار سے انسان کی مثال دھات (metal) جیسی ہے۔ لوہا زمین سے نکلتا ہے۔ ابتدائی حالت میں وہ خام لوہا (ore) ہوتا ہے۔ اِس کے بعد اُس کو پگھلا کر صاف کیا جاتا ہے۔ اب وہ ترقی پاکر اسٹیل بن جاتاہے۔ اِس کے بعد وہ مزید صنعتی مراحل سے گزرتا ہے، یہاں تک کہ وہ باقاعدہ مشین کی صورت اختیار کرلیتا ہے— یعنی پہلے مرحلے میں خام لوہا، دوسرے مرحلے میںاسٹیل، اور تیسرے اور آخری مرحلے میں مشین۔
یہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو گویا کہ وہ فطرت کی کان (mine) سے نکل کر باہر کی دنیا میںآتا ہے۔ اِس کے بعد وہ بڑا ہوتا ہے اور اپنی سوچ کو عمل میں لاتا ہے۔ وہ تعلیم و تربیت کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اِس طرح پختگی کی عمر میں پہنچ کر وہ ایک باقاعدہ انسان بن جاتا ہے۔ یہ انسانی وجود کا درمیانی مرحلہ ہے۔ اِس کے بعد اگر وہ اپنی عقل کو صحیح رخ پر استعمال کرے تو وہ معرفتِ حق کے درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جب کہ کوئی پیدا ہونے والا، کمالِ انسانیت کے مرحلے میں پہنچ کر عارف باللہ کا مقام حاصل کرلیتاہے۔ اِن تین ارتقائی مراحل کو حسب ذیل صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:
1 - پیدائشی شخصیت (born personality)
2 - تیار شدہ شخصیت (developed personality)
3 - عارفانہ شخصیت (realized personality)
پیدائشی شخصیت، خدا کی دی ہوئی شخصیت ہوتی ہے۔ پیدائشی شخصیت کے اعتبار سے ہر آدمی یکساں ہوتاہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے اگر چہ ایک انسان اور دوسرے انسان میںہمیشہ فرق ہوتا ہے، لیکن اِس فطری فرق کے باوجود تمام انسان اِمکانی استعداد (potential capacity) کے اعتبار سے یکساں حیثیت کے مالک ہوتے ہیں۔
اِسی بات کو ایک حدیث میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: المؤمن القوّی خیرٌ و أحبُّ إلی اللہ من المؤمن الضّعیف، وفی کلٍّ خیر۔ احرِص علیٰ ما ینفعک واستعن باللہ ولا تعجز۔ وإن أصابک شیٔ فلا تقُل: لَوأنّی فعلتُ کان کذا وکذا، ولٰکن قُل: قدّر اللہ وماشاء فعل۔ فإنّ ’’لَو‘‘ تفتح عملَ الشیطان (صحیح مسلم، کتاب القدر؛ ابنِ ماجہ، مقدّمہ؛ مسنداحمد، جلد 2، صفحہ 370 )۔
یعنی قوی مومن، اللہ کے نزدیک ضعیف مومن سے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہے، اور ہر ایک میں خیر ہے۔ جوچیز تمھارے لیے نافع ہو، اس کے تم حریص بنو اور اللہ سے مدد چاہو اور عاجز نہ ہو۔ اور اگر تمھارے خلاف کوئی بات پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ کاش، میں نے ایسااور ایسا کیاہوتا۔ بلکہ یہ کہو کہ یہ خدا کا تقدیری منصوبہ تھا، اسی نے جوچاہا کیا۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ کہنا شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
اِس حدیث میں مومن سے مراد انسان ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان اگر اپنے اندر ایک اعتبار سے کمی محسوس کرے تو اس کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیوں کہ دوسرے اعتبار سے اُس کے اندر کوئی اور صفت زیادہ ہوگی۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنی خداداد صلاحیت کو دریافت کرے اور حوصلہ مندانہ انداز میں اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔ جدوجہدِ حیات کے دوران اگر اس کو کوئی نقصان پہنچے تو اُس کو یقین کرنا چاہیے کہ اِس منفی تجربے میں بھی کوئی مثبت فائدہ شامل ہوگا۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے ہر منفی تجربے سے مثبت سبق لے، وہ کسی بھی حال میں پست ہمتی کا شکار نہ ہو۔
اس طرح آدمی اپنی شخصیت کی تعمیر کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنا محاسبہ کرکے اپنی کنڈیشننگ کو دور کرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے اندر ایسی شخصیت کی پرورش کرتا رہتا ہے جس کے اندر قبولِ حق کی صلاحیت موجود ہو، جس کے اندر وہ صلاحیت ہو جس کو پیغمبر کی ایک دعا میں اِس طرح بیان کیاگیا ہے: اللّہم، أرنا الحقَّ حقّا، وارْزُقنَا اتِّباعہ، وأرِنا الباطل باطلاً، وارزقنا اجتِنابَہ، وأرِنا الأشیائَ کما ہِیَ۔ یعنی اے اللہ، تو مجھے حق کو حق کے روپ میں دکھا، اور اس کی پیروی کی توفیق دے۔ اور اے اللہ، تو مجھے باطل کو باطل کے روپ میں دکھا، اور تو مجھے اُس سے بچنے کی توفیق عطا فرما۔ اور اے اللہ، تو مجھے چیزوں کو ویسا ہی دکھا جیسا کہ وہ ہیں۔
یہی وہ انسان ہے جس کو ہم نے اوپر کی تقسیم میں تیار شدہ شخصیت (developed personality) کا نام دیا ہے۔ وہی آدمی دانش مند آدمی ہے جو اپنے اندر اِس قسم کی شخصیت کی تعمیر کرے۔ جہاں تک فطری وجود کی بات ہے، ہر انسان کو فطری وجود کا عطیہ خالق کی طرف سے یکساں طورپر ملتا ہے، لیکن اُس کے بعد اپنے آپ کو ایک تیار شدہ شخصیت بنانا، یہ ہر انسان کا خود اپنا عمل ہے۔ ٹھیک اُسی طرح جیسے خام لوہا فطرت کی طرف سے عطا کیا جاتا ہے، لیکن اِس خام لوہے کو اسٹیل اور مشین میں تبدیل کرنے کا عمل انسانی کارخانے میںانجام پاتا ہے۔
اِسی خود تیاری (self-preparation)کے عمل پر اگلے ارتقائی مرحلے کا انحصار ہے۔ جولوگ خود شناس بنیں، جو لوگ اپنا بے لاگ محاسبہ کرتے رہیں، جو لوگ اپنی کمیوں کو ڈھونڈ کر اپنی ڈی کنڈیشننگ کریں، جو لوگ ہر قیمت کو ادا کرتے ہوئے اپنے ’’خام لوہے‘‘ کو ’’اسٹیل‘‘ بنانے کا کام کریں، جن لوگوں کا یہ حال ہو کہ وہ انانیت اور کبر اور لالچ اور حسد اور غصہ اور انتقام جیسے منفی جذبات کا کبھی شکار نہ بنیں، جو کہ شخصیت کی تعمیر میں ایک مہلک رکاوٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خلاصہ یہ کہ جو لوگ مسلسل طورپر اپنے اوپر تزکیہ کا عمل جاری کیے ہوئے ہوں، وہی لوگ ہیں جو خدا کی توفیق سے حق کو دریافت کرتے ہیں اور اس کو پوری آمادگی کے ساتھ قبول کرلیتے ہیں۔
تزکیہ کے لفظی معنٰی ہیں، پاک کرنا(purification) ۔ یہ ہر آدمی کی لازمی ضرورت ہے۔ یہ ہر آدمی کا مسئلہ ہے کہ وہ اپنے ماحول سے اثر قبول کرتا رہتا ہے، جس کو کنڈیشننگ (conditioning) کہاجاتا ہے۔ اپنے جذبات اور خواہشات کے تحت، اس کی کچھ عادتیں بن جاتی ہیں۔ اپنے مفادات اور مصالح کے زیر اثر، شعوری یا غیر شعوری طورپر، اس کا اپنا ایک مزاج بن جاتا ہے۔ یہ تمام چیزیں آدمی کی روحانی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔اِن رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے آدمی کو خود اپنا نگراں (guard) بننا پڑتا ہے۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنی غلطیوں کو نکالتا ہے۔ وہ ایک بے رحمانہ اصلاح (merciless deconditioning) کا عمل اپنے اوپر جاری کرتا ہے۔ یہ تزکیہ کی لازمی شرط ہے۔ اِس کے بغیر کسی کا حقیقی تزکیہ نہیں ہوسکتا— بے رحمانہ ذاتی اصلاح کے بغیر تزکیہ نہیں، اور تزکیہ کے بغیر جنت نہیں۔
جو لوگ اپنے آپ کو مذکورہ مراحل سے گزاریں اور اپنی تیاری کے نتیجے میں سچائی کو پالیں، اُنھیں کو قرآن میں النفس المطمٔنۃ (الفجر: 27 ) کہاگیا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوئے، جنھوں نے اپنے آپ کو اِس نقشے پر ڈھال کر اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو خداکی رضا مندی پائیں گے اور خدا کے فضل سے جنت کے ابدی باغوں میں بسائے جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ خدا کا عطیہ

عرب میںجب پٹرول کی دولت آئی تو وہاں اچانک زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب شیخ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سویزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب شیخ ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب شیخ کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب شیخ کو سویزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سویزر لینڈ کا مکان عرب شیخ کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب شیخ کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ پھر اس کو موجودہ دنیا کی صورت میں سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ فطرت اپنے تمام خزانوں کے ساتھ تاحیات اس کی خدمت گزار بن جاتی ہے۔
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب شیخ کی طرح شکر کے احساس سے سجدے میں گر پڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

ففٹی ففٹی کا معاملہ

قرآن کی سورہ نمبر 28 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: إنّک لا تہدی مَن أحببتَ، ولٰکنّ اللہ یہدی مَن یشاء، وہو أعلم بالمُہتدین(القصص: 56)۔ یعنی تم جس کو چاہو ہدایت نہیں دے سکتے، بلکہ اللہ جس کو چاہتا ہے، اُس کو ہدایت دیتا ہے۔ اور وہی خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوا کہ ہدایت کا معاملہ کسی انسان کے لیے ففٹی ففٹی کا معاملہ ہے، یعنی اُس کا پچاس فی صد تعلق ، داعی کی دعوت سے ہے۔ دعوت کی تعریف قرآن کے مطابق، یہ ہے کہ اُس کو اِس طرح پیش کیا جائے کہ وہ مدعو کے دل میں اُتر جائے (النساء: 63 )۔ اِس سے مراد یہ ہے کہ بات کو اِس طرح کہاجائے کہ وہ سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کرے۔ مثلاً ایک شخص جس کے اندر ریشنل تھنکنگ ہو، اُس کے سامنے اگر دعوت کو ٹریڈیشنل انداز میں پیش کیاجائے تو اس کا مائنڈ ایڈریس نہیںہوگا۔ اِس کا نام حکمتِ تبلیغ ہے۔ داعی کو چاہیے کہ وہ حکمتِ تبلیغ کا پورا لحاظ کرتے ہوئے دعوت کاکام کرے۔
قرآ ن کی مذکورہ آیت کے مطابق، ہدایت کا دوسرا نصف حصہ مشیتِ خداوندی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں مشیتِ خداوندی سے مراد فطرتِ خداوندی ہے۔ قرآن کا یہ اسلوب ہے کہ اس میں فطرت کے قانون کو خدا کی طرف منسوب کرکے بتایا جاتا ہے۔ آیت کے الفاظ بظاہر یہ ہیں کہ ’’بلکہ جس کو اللہ چاہے‘‘ لیکن اصل حقیقت کے اعتبار سے اِس کا مطلب یہ ہے کہ دعوت اور تبلیغ کے باوجود ہدایت صرف اُس کو ملتی ہے، جو خود بھی طالبِ ہدایت ہو۔ اگر مدعو طالبِ ہدایت نہیں ہے تو داعی کی یک طرفہ کوشش سے اُس کو ہدایت نہیں مل سکتی۔
طالبِ ہدایت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ذہن کو ہدایت کے معاملے میںاُسی طرح متحرک کرے، جس طرح وہ دُنیوی معاملات میںاپنے ذہن کو متحرک کرتاہے۔ مثلاً ایک شخص کو دولت حاصل ہوجائے تو وہ احساسِ برتری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہاں ضرورت تھی کہ وہ اپنے ذہن کواستعمال کرکے یہ سمجھے کہ دولت کا تعلق دنیا کی ضرورتوں سے ہے، دولت کا تعلق سچائی سے نہیں۔ دولت پانے کا مطلب یہ نہیں کہ اُس نے سچائی کو بھی پالیا۔ اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ دولت اور سچائی کے اِس فرق کو سمجھے گا اور احساسِ برتری میں مبتلا ہوکر اپنے آپ کو حق سے مستغنی سمجھنے کی غلطی نہیںکرے گا، اور پھر وہ سچائی کو پانے میں کامیاب ہوجائے گا۔
اِسی طرح ایک شخص جب ایک ماحول میںلمبی مدت تک رہتا ہے تو اُس کو اُس ماحول کے افکار سے متعصبانہ تعلق ہوجاتا ہے، اور ماحول کی طرف سے اُس کو جو کچھ ملا ہے، اُس کو وہ حق سمجھنے لگتا ہے۔ یہ مزاج اُس کے لیے حق کو پہچاننے میںرُکاوٹ بن جاتاہے۔ اب اگر آدمی اپنے ذہن کو زندہ رکھے تو وہ متعصابہ فکر اور حقیقی فکر کے فرق کو سمجھے گا، اور جس آدمی کے اندر ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کی صلاحیت ہو، اُس کے سامنے جب حق آتا ہے تو وہ اس کو پہچان لیتا ہے اور پھر پورے دل وجان کے ساتھ وہ اس کا ساتھی بن جاتا ہے۔
سچائی کو پانے کے دو مرحلے ہیں۔ پہلا مرحلہ تلاش کا ہے اور دوسرا مرحلہ دریافت کا۔ یہ دونوں مرحلے قرآن سے واضح طورپر معلوم ہوتے ہیں۔قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذیل میں فرمایا: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحیٰ: 7 ) یعنی خدا نے تم کو تلاشِ حق میں سرگرداں پایا، پھر تم کو اُس نے ہدایت دے دی۔ اِس آیت میں فطرت کا ایک قانون بتایا گیا ہے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی پہلے حق کا مُتلاشی (seeker) بنتا ہے، پھر اُس کو حق کی دریافت ہوتی ہے۔ متلاشی بننے کا مطلب ذہنی استعداد ہے۔ جب کسی آدمی کے اندر ذہنی استعداد پیدا ہوجائے تو وہ اِس قابل ہوجاتا ہے کہ اُس کے سامنے حق آئے تو وہ اس کو اپنی تلاش کا جواب سمجھے اور پوری آمادگی کے ساتھ اس کو فوراً مان لے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کی قیمت

جنت ابدی راحتوں کی دنیا ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو موت کے بعد اِس قابل ٹھیریں گے کہ وہ جنت کی معیاری دنیا میں جگہ پائیں۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جنھوںنے موت سے پہلے کی زندگی میں، فکری اور عملی اعتبار سے،اپنے آپ کو جنت جیسی معیاری دنیا میں رہنے کا مستحق بنایا ہوگا۔
یہ جنت کا کم تر اندازہ ہے کہ کسی اور چیز کوجنت کی قیمت سمجھ لیا جائے۔ مثلاً یہ ماننا کہ کسی بزرگ کا دامن تھامنے سے جنت مل جائے گی، اِسی طرح کسی گروہ سے وابستہ ہونا، کچھ رسمی اعمال کرلینا، کسی مقدس مقام کی زیارت کرلینا، دین کے نام سے کسی دھوم کا مظاہرہ کرنا، حمد اور نعت کے لفظی ترانے اسٹیج پر گانا،اور اَوراد ووظائف میںمشغول رہنا، دین کے نام پر شان دار بلڈنگ بنانا، جلسے اور جلوس کے ہنگامے کھڑے کرنا، اسلام کو اپنے لیے فخر کی چیز بنا لینا، وغیرہ۔ اِس قسم کی کسی چیز کا کوئی تعلق جنت سے نہیں، اِس قسم کی کوئی بھی چیز آدمی کو ہر گز جنت میں لے جانے والی نہیں۔
جنت میں صرف وہ لوگ داخل کیے جائیں گے جو جنّتی شخصیت لے کر وہاں پہنچیں۔ جنتی شخصیت کو قرآن میں تزکیہ یافتہ شخصیت (purified personality) کہاگیا ہے (طٰہٰ: 76 )۔ جنتی شخصیت وہ ہے جو جنت کے تقاضوں کی نسبت سے ایک تیار شدہ شخصیت(prepared personality) ہو۔ شخصیت کی یہ تیاری اِسی موجودہ دنیا میں ہوتی ہے۔ موجودہ دنیا میں مختلف قسم کے حالات اور تجربات کے دوران آدمی اپنے آپ کو پاکیزہ شخصیت بناتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو منفی جذبات سے بچا کر مثبت مزاج پر قائم رکھتا ہے۔ ناموافق حالات کے باوجود وہ اصول پسند بنا رہتا ہے، وہ انصاف کی روش سے کبھی نہیں ہٹتا۔ وہ اپنی خواہشوں پر کنٹرول کرتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو آزادی کے غلط استعمال سے بچاتا ہے۔ وہ کسی دباؤ کے بغیر دوسروں کا حق ادا کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ سچ بولتا ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ کیے ہوئے وعدوں کو پورا کرتا ہے۔ نہ کوئی ناکامی اُس کو مایوس کرتی ہے اورنہ کوئی کامیابی اس کو سرکش بناتی ہے۔ یہی جنّتی شخصیت ہے، اور ایسے ہی لوگ جنت کے باغوں میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تقلید اور اجتہاد

تقلید کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، اور دوسری صورت اسلامی تعلیم کے خلاف۔ یہ دونوں صورتیں قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں کے متعلق، قرآن میں واضح رہ نمائی ملتی ہے۔
تقلید کی غیر محمود صورت کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 23 میں ہے۔ سابق حاملینِ کتاب کے اندر اُن کے زوال کے زمانے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، وہ تقلید کی یہی غیر محمود صورت تھی۔ اِس کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فتقطّعوا أمرَہم بینہم زُبراً، کُلُّ حزبٍ بما لدیہم فرحون (المؤمنون: 53 ) یعنی انھوںنے اپنے دین کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کردیا، ہر گروہ اُسی پر نازاں ہے جو اُس کے پاس ہے۔ یہ تقلید کی وہ صورت ہے جب کہ تقلیدی مزاج کے تحت لوگ گروہوں میں بٹ جائیں، ہر گروہ اپنے کو برحق سمجھنے لگے۔تقلید کی اِس قسم میں تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر دو شدید برائی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک، کٹّر پن اور دوسرے، تعصّب۔
تقلید کی محمود صورت وہ ہے جو عملی ضرورت کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اِس دوسری تقلید کا اصول قرآن کی اِس آیت سے اخذ ہوتا ہے: فاسئلوا أہل الذّکر إن کنتم لا تعلمون (النّحل: 43) یعنی اپنے قلّتِ علم کی تلافی کے لیے کسی معاصر عالم کو اپنا دینی رہ نما، یا دینی مُشیر بنالینا۔
موجودہ زمانے میں تقلید کی جو صورت ہے، وہ بلاشبہہ اسلامی روح کے خلاف ہے— آج کل یہ مان لیا گیا ہے کہ عبّاسی دَور کے چار امام مجتہدِمطلق تھے۔ انھوں نے جو فقہی اسکول بنائے، وہی فقہی اسکول اسلام میں آخری طورپر درست اسکول ہیں۔ حق اِنھیں چاروں کے درمیان ہے۔ اب نجات کی صرف یہ صورت ہے کہ اِن میں سے کسی ایک کی پوری طرح تقلید کی جائے۔اِس تصور نے تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا۔ اور جب کسی نئی چیز کو عقیدے کا درجہ دے دیا جائے تو اُس سے مزید بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً گر وہ بندی، تنگ نظری اور تعصب اور کٹّرپن، وغیرہ۔ تقلید کا یہ منفی نتیجہ آج عام طورپر مسلمانوں میں دکھائی دے رہا ہے۔
تقلید کا دوسرا طریقہ انسانی سماج کی ایک فطری ضرورت ہے۔ انسانی سماج ہمیشہ عوام اور خواص میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ عوام کا حال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی پہنچ علم کے سرچشمے تک نہیں ہوتی۔ ان کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ معاملات میں کوئی ان کی رہ نمائی کرتا رہے۔ تقلید کی دوسری قسم اِسی ضرورت کی پیداوار ہے۔
یہ تقلید مبنی بر ضرورت ہوتی ہے، مگر اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اِس کی ضرورت نہیں کہ چار اماموں کو مجتہد ِ مطلق ماناجائے۔ اور ان کے پیدا کردہ اسکول کو ابدی طور پر معیاری اسکول کا درجہ دے دیا جائے۔ یہ مقصد معاصر علما کے ذریعے پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے۔ علمِ دین کے تسلسل کے نتیجے میں ہر جگہ عالمِ دین موجود ہوتے ہیں۔ اب عوام کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے قریبی ماحول میں کسی عالمِ دین کو وہ اپنا رہ نما بنا لیں اور اس کے ذریعے اپنے معاملاتِ زندگی میں ضروری رہ نمائی حاصل کرتے رہیں۔ اِس تقسیم میں کسی عالم کو نہ مقدس کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور نہ مجتہد کا۔ یہ علما وقتی طورپر عوام کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے علما آجاتے ہیں جو ہر نسل میں لوگوں کی اِس ضرورت کو پورا کرتے رہیں۔
اب اجتہاد کو لیجیے، اجتہاد کوئی پُر اسرار چیز نہیں اور نہ وہ کوئی خطرناک دائرۂ عمل ہے جس میں بعد کے لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ دائرہ آج بھی ہر صاحبِ علم کے لیے کھلا ہوا ہے، جس طرح وہ پہلے کھلا ہوا تھا۔
اجتہاد، اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، وہ اسلام کے اعتقادی تسلسل کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں اجتہاد کی اتنی زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درست اجتہاد پر بھی ثواب ہے اور نادرست اجتہاد پر بھی ثواب۔ گویا کہ اِس معاملے میں اصل اہمیت کوششِ اجتہاد کی ہے۔ یہ کوشش اسلام کے بقا اور ترقی کے لیے اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اجتہادی خطا کا رِسک لے کر بھی اُس کو جاری رہنا چاہیے (فتح الباری، جلد 13 ، صفحہ 331)۔
واپس اوپر جائیں

چند مثالی خواتین

تاریخ میں کچھ ایسی خواتین گزری ہیں جن کو دوسروں کے لیے نمونے کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ اِن خواتین میں سے چند خواتین کا مختصر تذکرہ یہاں کیا جاتا ہے۔
ہاجرہ اُمّ ِاسماعیل
اِن خواتین میں سے ایک ہاجرہ اُمِّ اسماعیل ہیں جو پیغمبر ابراہیم کی زوجہ تھیں۔ ان کا زمانہ چار ہزار سال پہلے کا زمانہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے یہ منصوبہ بنایا کہ عرب میں صحرا کے فطری ماحول میں ایک نئی نسل بنائی جائے، جو مشرکانہ کلچر کی کنڈیشننگ سے پاک ہو۔ اِس مقصد کے لیے ایک خاتون کی قربانی درکار تھی۔ ہاجرہ امِ اسماعیل نے یہ قربانی دی۔ وہ مکہ کے غیرآباد صحرا میں اپنے بچے کو لے کر مقیم ہوگئیں۔
یہ نہایت صبر آزما عمل تھا۔ بظاہر یہ موت کے حالا ت میں زندگی تلاش کرنے کے ہم معنیٰ تھا۔ جب حضرت ابرہیم نے انھیں بتایا کہ یہ خدا کا حکم ہے، اُس وقت ہاجرہ نے غیر آباد اور بے آب وگیاہ صحرا میں کہا کہ— پھر توخدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا: إذَن لا یُضیِّعُنَا (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ تعالیٰ: واتّخذ اللہ إبراہیم خلیلاً)۔تاریخ بتاتی ہے کہ ایسا ہی پیش آیا۔ اُن کی نسل سے وہاں ایک ایسی قوم بنی جس کو ایک مغربی اسکالر نے ہیروؤں کی ایک قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔
اِس واقعے میں تمام خواتین کے لیے ایک عظیم سبق ہے، یہ کہ اگر وہ خداکے بھروسے پرآگے بڑھ کر کوئی نیک کام کریں تو اُن کو یقینی طورپر خداکی مدد حاصل ہوگی۔ نیک کام میںان کی قربانی ضرور نتیجہ خیز ثابت ہوگی، وہ کبھی رائگاں نہ جائے گی۔
آسیہ بنتِ مُزاحم
اِسی طرح کی ایک مثال آسیہ بنتِ مُزاحم کی ہے۔ اُن کا زمانہ ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ تھا۔ اُن کے زمانے میں پیغمبر موسیٰ کا ظہور ہوا۔ اُس وقت فرعون مصر کا بادشاہ تھا۔ فرعون، حضرت موسیٰ کا دشمن ہوگیا۔ لیکن فرعون کی بیوی آسیہ بنت مزاحم حضرت موسیٰ کے پیغام توحید سے متاثر ہوئیں اور اُن پر ایمان لائیں۔ اِس پر فرعون سخت برہم ہوا اور آسیہ کے قتل کا حکم دے دیا۔
آسیہ بنت مزاحم نے قتل ہونا منظور کرلیا، لیکن وہ دینِ توحید کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوئیں۔ یہ اُن کے لیے ایک عظیم قربانی کا عمل تھا۔ اُن کی اِس قربانی کی بنا پر اللہ تعالیٰ نے ان کے ایمان کو قبول کرلیا۔ اُس وقت ان کی زبان سے یہ دعا نکلی: ربّ ابْنِ لی عندک بیتاً فی الجنۃ، ونجِّنی مِن فرعون وعملہ، ونجّنی من القوم الظّالمین (التّحریم: 11 ) یعنی اے میرے رب، میرے لیے اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنادے،اور مجھ کو فرعون اور اُس کے عمل سے بچالے، اور مجھ کو ظالم قوم سے نجات دے۔
یہ دعا اسمِ اعظم کے ساتھ کی ہوئی دعا تھی جو اُسی وقت مقبول ہوگئی۔ اِس واقعے میں یہ نصیحت ہے کہ اگر کوئی عورت (یا مرد) آسیہ جیسی قربانی کا ثبوت دے تواُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ دعا کی توفیق ملتی ہے، اس کو یقینی طورپر قبولیت کا درجہ حاصل ہوتاہے۔
مریم والدہ حضرت مسیح
اِسی طرح کی ایک مثال حضرت مریم کی ہے جو پیغمبر مسیح کی والدہ تھیں۔ اُن کا زمانہ ڈھائی ہزارسال پہلے کا زمانہ تھا۔انھوںنے اپنی زندگی کو مکمل طورپر خداکے کام کے لیے اور خدا کے ذکر و دعا کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اِس کے نتیجے میں اُنھیں خدا کی طرف سے یہ خصوصی عنایت حاصل ہوئی کہ اُن کو رزقِ خداوندی (آلِ عمران: 37 )پہنچنے لگا۔
’رزقِ خداوندی‘ کیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملنے والی روحانی غذا ہے۔ یہ خدائی فیضان (divine inspiration) ہے ، جو خدا کی طرف سے اُس کے خاص بندوں کو عطا ہوتا ہے۔ ایسی عورتیں (یا ایسے مرد) اعلیٰ ربّانی کیفیات میں جینے لگتے ہیں۔ اُن کو وہ چیز عطا ہوتی ہے جس کو ربانی حکمت (divine wisdom) کہاجاتاہے۔ ایسے لوگ خدا کے خصوصی الہامات کا مہبط بن جاتے ہیں۔
خدا کی یہ خصوصی رحمت جو حضرت مریم کو حاصل ہوئی، اُس کا دروازہ ہر عورت اورہر مرد کے لیے کھلا ہوا ہے، بشرطیکہ وہ اُس اخلاص کا ثبوت دے جس کا ثبوت حضرت مریم نے دیا تھا۔
خدیجہ بنت خویلد
اِسی طرح کی ایک مثالی خاتون خدیجہ بنت خویلد (وفات: 620 ء) ہیں۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجہ تھیں۔ ان کویہ درجہ حاصل ہے کہ انھوں نے آگے بڑھ کرپیغمبر اسلام کی دعوت کو قبول کیا۔ پیغمبر اسلام کے لیے مکہ کا زمانہ بہت زیادہ تکلیف اور صعوبت کا زمانہ تھا۔ اِس پوری مدت میں انھوں نے کھلے دل کے ساتھ آپ کا ساتھ دیا۔ پیغمبر اسلام سے نکاح کے بعد ان کو بہت زیادہ مصیبتیں پیش آئیں، لیکن انھوںنے کبھی آپ سے شکایت نہیں کی۔ وہ ہرحال میں صبر اور شکر کا نمونہ بنی رہیں۔
روایات میں آتا ہے کہ ایک دن حضرت جبریل ان کے گھر آئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل کو دیکھا لیکن حضرت خدیجہ نے جبریل کو نہیںدیکھا۔ پیغمبراسلام نے حضرت خدیجہ نے کہا کہ یہ جبریل ہیں اور وہ تم کو خدا کی طرف سے سلام پہنچانے کے لیے آئے ہیں۔ وہ تم کو خوش خبری دے رہے ہیںکہ جنت میں تمھارے لیے ایک خوب صورت گھر ہے، جہاں نہ شور ہوگا اورنہ تکلیف (لا صخب فیہ ولا نصب۔ سیرت ابن ہشام، جلد 1 ، صفحہ 259 )۔
حضرت خدیجہ کو اِس دنیا میں جنت کی خوش خبری دی گئی۔ یہ واقعہ ایک استثنائی معاملے کو نہیں بتاتا، بلکہ وہ ایک نمونے کو بتار ہا ہے۔ حضرت خدیجہ کے ذریعے تاریخ میں یہ نمونہ قائم ہواکہ جوعورت (یا مرد) حضرت خدیجہ جیسے صبر اور شکر کا ثبوت دے، اُس پر خدا کے فرشتے اُتریں گے اور اِسی دنیا میں وہ اُس کو اِس بات کی بشارت دیں گے کہ اگلے مرحلۂ حیات میں تمھارے لیے جنت ہے، یعنی خوشیوں اور راحتوں کی ابدی دنیا۔
عائشہ بنت ابی بکر
اِسی طرح کا ایک مثالی نمونہ عائشہ بنت ابی بکر الصدیق (وفات: 678 ء) کا ہے۔ وہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ تھیں۔ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد تقریباً پچاس سال تک زندہ رہیں، اور پیغمبر اسلام کے بعد لمبی مدت تک لوگوں کو اسلام کا حکیمانہ پیغام پہنچاتی رہیں۔ وہ ریکارڈنگ کے زمانے سے پہلے پیغمبر اسلام کا زندہ ریکارڈ بنی رہیں۔ اُن کی اسلامی معرفت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ اصحابِ رسول اُن سے علمِ دین سیکھنے کے لیے دور دور سے آتے تھے۔
حضرت عائشہ کی زندگی تمام خواتین کے لیے ایک اعلیٰ نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ حضرت عائشہ نے انتہائی سادہ زندگی اختیار کی۔ معاشی اور مادی معاملات میںانھوںنے آخری حد تک قناعت کا طریقہ اختیار کیا۔ اِس طرح ان کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت سے کامل فائدہ اٹھائیں۔ انھوں نے اپنی زندگی پیغمبر اسلام سے علمِ دین سیکھنے میںوقف کردی۔ اِس بنا پر حضرت عائشہ کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد لمبی مدت تک تمام لوگوں کے لیے دین کی معلّم بنی رہیں۔
یہی امکان تمام خواتین کے لیے کھُلا ہوا ہے۔ اگر وہ سادہ زندگی اختیار کریں، اپنے آپ کو دین کا علم سیکھنے میں وقف کردیں تو اُنھیں بھی خدا کی نصرت حاصل ہوگی اور وہ لوگوں کے لیے اُسی طرح رحمت بن جائیں گی، جس طرح حضرت عائشہ اپنے زمانے میں بنیں۔
واپس اوپر جائیں

ماڈل کون

قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اسلام میں چار ماڈل ہیں— رسول، اصحابِ رسول، خلفائِ راشدین اور محدّثین۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ: لقد کان لکم فی رسول اللہ أسوۃ حسنۃ (الأحزاب: 21 ) اِس سے معلوم ہوا کہ دعوتی عمل کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصحابِ رسول کو قرآن میںانصارُ اللہ (الصّف: 14 ) کہاگیا ہے۔ ’انصار اللہ‘ میںمکہ کے اہلِ ایمان اور مدینہ کے اہلِ ایمان دونوں شامل ہیں۔ اِس طرح اصحابِ رسول، نصرتِ خداوندی کا ماڈل ہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ: علیکم بسنّتی، وسنّۃ الخلفاء الراشدین المہدیّین (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 126 )۔ اِس سے معلوم ہوا کہ حکم رانی کے لیے خلفائِ راشدین ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اِسی طرح حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ: العلماء وَرَثۃ الأنبیاء (البخاری، کتاب العلم) اِس حدیث کے مطابق، امت کے علما خدمتِ دین کا ماڈل ہیں۔ علما کے اِس طبقے میں سب سے پہلے محدثین کانام آتا ہے۔ محدثین کی حیثیت معیاری علما کی ہے۔ محدثین، امتِ مسلمہ کے اولین علما ہیں۔ اِس اعتبار سے محدثین بعد کے تمام علما کے لیے واحد ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ علمائِ محدثین کا طریقہ یہ تھا کہ انھوںنے اپنے آپ کو غیر سیاسی دائرے میں خدمتِ دین کے لیے وقف کردیا۔ محدثین کا زمانہ عبّاسی سلطنت کازمانہ ہے۔ اُس زمانے میں حکم رانوں کے اندر وہ تمام بگاڑ آچکے تھے، جو بعد کے حکم رانوںمیں نظر آتے ہیں۔ لیکن محدثین نے وقت کے سیاسی بگاڑ سے مکمل اعراض کرتے ہوئے اپنے آپ کو دینی خدمت کے میدان میں مشغول رکھا، انھوںنے سیاسی بگاڑ کے مسئلے سے مکمل اعراض کیا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ علمائِ حق کون ہیں، اور علمائِ سُوء کون۔ علمائِ حق وہ ہیں جو سختی سے محدثین کے ماڈل پر قائم رہیں، علمائِ سُوء وہ ہیں جو اِس ماڈل سے انحراف (deviation) کریں اور سیاسی اصلاح کے نام پر حکم رانوں سے ٹکراؤ شروع کردیں۔
واپس اوپر جائیں

ذاتی دفاع، قومی دفاع

حملے کے وقت اپنا دفاع کرنا، ایک جائز حق تسلیم کیاجاتاہے۔ لیکن حملے کی دو قسمیں ہیں، اور اِس اعتبار سے دفاع کی دو قسمیں بنتی ہیں— ذاتی دفاع (self defence) اور قومی دفاع (national defence) ۔ دونوں قسم کے حملے کی نوعیت ایک دوسرے سے مختلف ہے، اِس بنا پر دونوں کے لیے دفاع کا حکم بھی الگ ہے۔
ذاتی دفاع وہ ہے جب کہ کسی ایک شخص پردوسرے شخص کی طرف سے حملہ کیاگیا ہو، یا اس کا مال چھیننے کی کوشش کی جائے۔ ایسے موقع پر فرد کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے بچاؤ کے لیے حملہ آور سے لڑے۔ یہ ایک جائز لڑائی ہے۔ اِسی قسم کی لڑائی کے بارے میں حدیث میںآیا ہے کہ: مَن قُتل دون مالہ فہو شہید (صحیح البخاری، کتاب المظالم؛ صحیح مسلم، کتاب الایمان)
دوسری صورت وہ ہے جب کہ ایک ملک کی فوج دوسرے ملک کی سرحد میں داخل ہوجائے اور وہ اس پر حملہ کردے۔ ایسے موقع پر ملک کو بچانے کے لیے لڑنا مسلّمہ طورپر جائز ہے، اِسی قسم کی جارحیت کے خلاف لڑائی کو قومی دفاع کہاجاتا ہے۔
قومی دفاع مکمل طورپر قائم شدہ ریاست کا ایک حق ہے۔ مگر قومی دفاع صرف ریاست کی طرف سے کیاجائے گا، غیر حکومتی عوام کو یہ حق نہیں کہ وہ بطور خود تنظیمیں بنا کر حملہ آور کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔ اگر حکومتِ وقت، عوام کو پکارے تو وہ پکار کے مطابق، دفاع کی مہم میںشریک ہوسکتے ہیں، ورنہ جہاں تک ذمّے داری کا سوال ہے، صرف قائم شدہ ریاست ہی ایسے موقع پر دفاعی جنگ کی خدمت انجام دے گی۔ اسلامی فقہ میں اِسی مسئلے کو اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: الرّحیل للإمام۔
اِس فرق کو نہ جاننے کی صورت میں ایسا ہوگا کہ غیر حکومتی تنظیمیں ،یا غیر حکومتی افراددفاع کے نام پر جنگ چھیڑ دیں گے اور اس کو جائز جنگ سمجھیں گے، حالاں کہ یقینی طورپر وہ ایک ناجائز جنگ ہوگی۔ وہ ایک ایسی جنگ ہوگی جس میں قربانیوں کے باوجود لڑنے والے کو خدا کا انعام حاصل نہیںہوگا۔
واپس اوپر جائیں

موت ایک رِمائنڈر

موت مرنے والے کے لیے موت ہے، اور زندہ رہنے والے کے لیے اپنی موت کا رمائنڈر (reminder)۔ جب کوئی شخص مرتا ہے تو بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ایک بولنے والا چپ ہوگیا، لیکن اُس کا چُپ ہونا اپنے آپ میں ایک اعلان ہوتا ہے۔ یہ اعلان کہ — آنے والا وقت میرے اوپر آچکا ، اب یہی وقت تمھارے اوپر آنے والا ہے۔ تم آنے والے وقت کے لیے تیار ہوجاؤ۔
رواج ہے کہ جب کسی شخص کی عمر کا ایک سال پورا ہوتا ہے اور اس کی عمر کا اگلا سال شروع ہوتا ہے تو اُس وقت اس کی سال گرہ (birthday) منائی جاتی ہے۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اُس کو موت کی یاد کا دن سمجھا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد کی عمر کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (count down) ہورہا ہے۔ ہر سال گرہ صرف یہ بتاتی ہے کہ تمھاری مدتِ حیات کا ایک اور سال کم ہوگیا۔ موت اِسی کاؤنٹ ڈاؤن کی تکمیل ہے۔
لوگ اپنے یومِ پیدائش کو ہیپی برتھ ڈے(happy birthday) کے طورپر مناتے ہیں، لیکن حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے دیکھیے تو معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ ہر نئی سال گرہ دراصل اِس بات کی یاد دہانی ہے کہ موت یا یوم الحساب کا وقت اور زیادہ قریب آچکا، آخرت کی تیاری کا ایک اور سال کم ہوگیا۔
موت کا ایک پہلو یہ ہے کہ آدمی موجودہ دنیا سے چلا گیا۔ موت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آدمی اپنی تمناؤں کی تکمیل کے بغیر مرجائے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ موجودہ دنیا انسان کے لیے تمناؤں کی تکمیل کی دنیا نہ تھی۔ تمناؤں کی تکمیل کی دنیا صرف اگلی دنیا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو اِس اشارے کو سمجھے اور موجودہ دنیا کی زندگی کو تیاری کا مرحلہ سمجھ کر اپنے آپ کو اگلی دنیا کے قابل بنائے۔
زندگی عمل کا وقفہ ہے اور موت خدا کی عدالت میں پیشی کا وقت۔ یہ ہر انسان کے لیے بے حد سنگین معاملہ ہے۔ دانش مند وہ ہے جو اِس معاملے کو سمجھے اور اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (supreme concern) بنائے۔
واپس اوپر جائیں

شکر ایک قربانی کا عمل

شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (آل عمران: 79 ) کہاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین داری کی اصل روح شکر ہے۔ شکر کے بغیر دین داری ایسی ہی ہے جیسے پھل کااوپری چھلکا۔
لیکن شکر محض زبان سے کچھ الفاظ ادا کردینے کا نام نہیں، شکر ایک قربانی کا عمل ہے، بلکہ سب سے بڑی قربانی کا عمل۔ جو آدمی سب سے بڑی قربانی کردینے کے لیے تیار ہو، وہی اُس شکر کا تجربہ کرسکتا ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے احساسِ محرومی کا شکار ہوتاہے۔ ہر انسان کے دل میںکسی نہ کسی کے خلاف منفی جذبات موجود رہتے ہیں۔ ہر انسان مختلف اسباب سے شکایت اور نفرت کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو شکر کو کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام بنا دیتی ہے۔ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا ہے، لیکن اس کا دل حقیقی جذباتِ شکر سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
ایسی حالت میںصرف وہی انسان شکر کا عمل کرسکتاہے جس کا شعور اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ ناشکری کے اسباب کے باوجود شکر کرسکے، جو منفی خیالات کے جنگل میں رہتے ہوئے مثبت احساس میں جینے والا بن جائے۔ وہ اپنے اندر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلافِ شکر چیزوں کو نکالے، وہ اپنے اندر حقیقی جذباتِ شکر کی تخلیق کرسکے۔
شکر ایک عبادت ہے جو ہر حال میں مطلوب ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ شکر اُس وقت کرنا ہے جب کہ ہر چیز اُس کو اس طرح حاصل ہوجائے جیساکہ وہ انھیں حاصل کرنا چاہتاتھا، ملی ہوئی چیز اُس کی مرضی کے مطابق اُس کو مل جائے۔ ایسا آدمی کبھی شکر کرنے والا نہیں بن سکتا۔ خدا کا حقیقی شکر گزار وہی ہے جو شکایت کے باوجود شکر گزاری کار از دریافت کرے۔
واپس اوپر جائیں

صحبت کا اثر

شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی (وفات: 1291 ء) کی کتاب ’’گُلستاں‘‘ بہت مشہور ہے۔ اِس کتاب میں کہانی کے انداز میں اخلاقی تعلیم دی گئی ہے۔ ایک کہانی یہ ہے کہ شیخ ایک باغ میں گئے۔ وہاں ایک مقام پر انھوں نے پایا کہ وہاں کی مٹی سے خوش بو آرہی ہے۔ انھوں نے مٹی سے پوچھا کہ تمھارے اندر یہ خوش بو کہاں سے آگئی۔ مٹی نے کہا کہ — دیکھو، یہاں گلاب کا درخت اُگا ہوا ہے۔ اس کی شاخوں پر خوش بودار پھول ہیں۔ میں خوش بودار پھولوں کے پڑوس میں رہتی ہوں۔ اِن خوش بودار پھولوں نے مجھ کو بھی خوش بو دار بنا دیا:
جمالِ ہم نشیں، درمن اثر کرد وگرنہ، من ہُما خاکم کہ ہستم
یہ کہانی تمثیل کے روپ میں صحبت کے اثر کو بتارہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ زندہ انسانوںکی صحبت آدمی کے اوپر گہرا اثر ڈالتی ہے۔ اچھے لوگوں کی صحبت سے آدمی اچھا بن جاتا ہے، اور برے لوگوں کی صحبت میں آدمی بُرا بن جاتا ہے۔ اِسی لیے فارسی شاعر نے کہا ہے:
صحبتِ صالح تُرا، صالح کُند صحبتِ طالح تُرا، طالح کند
کسی بگڑے ہوئے آدمی کو درست کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اس کو اچھے لوگوں میںاٹھنے بیٹھنے کا موقع دیاجائے۔ کوئی بھی آدمی اگر لمبی مدت تک اچھے لوگوں میں بیٹھے تو ضرور وہ ان سے متاثر ہوگا۔ یہ ایک فطری قانون ہے۔ اِس قانون میں مشکل ہی سے کوئی استثنا ملے گا۔
تاہم، صحبت کو مفید بنانے کی ایک لازمی شرط ہے، اور وہ صبر ہے۔ جب بھی ایسا ہو کہ اچھے لوگوں کی صحبت میں ایک بُرا آدمی آجائے تو اچھے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس کے معاملے میں صبر وتحمل سے کام لیں۔ وہ پہلے ہی دن اس کے معاملے میں تبدیلی کی امید نہ رکھیں۔ وہ تبدیلی اور اصلاح کے معاملے میں انتظار کریں۔ وہ اِس حقیقت کو جانیں کہ یہ معاملہ اچانک تغیر کا نہیں ہے، بلکہ بتدریج تغیر کا ہے— ہر آدمی کی اصلاح ممکن ہے، بشرطیکہ مُصلح اس کاانتظار کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

ایک مشکل، دوآسانی

قرآن کی سورہ نمبر 94 میں فطرت کے ایک قانون کو اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: فإن مع العُسر یُسراً، إن مع العسرِ یُسراً (الإنشراح: 5-6 ) یعنی بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ بے شک، مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آیت کی تشریح اِن الفاظ میں کی ہے: لن یغلبَ عُسرٌ یُسرَین، لَن یغلب عُسرٌ یُسرین (ابنِ کثیر ) یعنی ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی، ایک مشکل دو آسانی پر غالب نہیں آسکتی۔
اِس تشریح کی مزید وضاحت عبد اللہ بن عباس کے ایک قول میں ملتی ہے۔ انھوںنے کہا: یقول اللہ تعالیٰ: خلقتُ عُسراً واحداً، وخلقتُ یُسرین۔ ولن یغلب عُسرٌ یُسرین (القرطبی) یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے مشکل ایک پیدا کی، اور آسانی دو پیدا کی۔ اور دوآسانی پر ایک مشکل غالب نہیں آسکتی۔یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں، یہ ایک معلوم واقعہ ہے اور فطرتِ انسانی کا مطالعہ کرکے اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔ نفسیات کے تحت انسان کا جو مطالعہ کیا گیا ہے، اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان جب کسی مشکل سے دوچار ہو،اور وہ بے حوصلہ نہ ہوجائے تو اس کے اندر ڈبل طاقت آجاتی ہے۔ ایک طاقت وہ جو نارمل صورت میں پہلے سے موجودتھی، اور دوسری طاقت وہ جو اضافہ شدہ محرک (incentive) کی وجہ سے اُس کے اندر آئی۔ اِس طرح مشکل پیش آنے کی صورت میںآدمی اضافہ شدہ محرک کی بنا پر اِس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ عزم اور زیادہ ہمت کے ساتھ مشکل کا سامنا کرسکے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ فطرت ِ انسانی کے اِس راز کو جانے، مشکل پیش آنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو معتدل حالت میں باقی رکھے۔ ایسا کرکے وہ فطرت انسانی کو یہ موقع دے گا وہ اس کے اندر مشکلات سے مقابلہ کرنے کی طاقت کو ڈبل کرسکے اور اِس طرح اس کی کامیابی کو یقینی بنا دے— مشکل، فطرت کے نظام کا ایک حصہ ہے۔ اِسی طرح یہ بھی فطرت کا ایک حصہ ہے کہ جب آدمی پر کوئی مشکل پڑے تو وہ ڈبل طاقت کے ساتھ اس کا سامنا کرنے کے قابل ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حد سے تجاوز نہ کرنا

فطرت کا ایک قانون یہ ہے کہ ہر چیز اپنے دائرے میں حرکت کرے، وہ اپنی فطری حد سے تجاوز نہ کرے۔ یہی اصول انسان سے بھی مطلوب ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ بقیہ کائنات میں یہ اصول جبری طورپر نافذ ہے اور انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنی مرضی کے تحت اس اصول کو اختیار کرے۔ گویا بقیہ دنیا فطری کنٹرول کے تحت چل رہی ہے اور انسان کو سیلف کنٹرول کا کلچر اپنانا ہے۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے ہر معاملے کی ایک حد مقرر کردی ہے، تم اُس سے تجاوز نہ کرو (وحدّ حدوداً، فلا تعتدوہا) حدود کی پابندی کا یہی اصول انسان کے ٹسٹ کا بنیادی اصول ہے۔
مثلاً انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دوسروں کا خیر خواہ بنے، وہ ان کا بد خواہ نہ بنے۔ وہ مثبت طرزِ فکر کو اپنائے اور منفی طرزِ فکر سے پوری طرح دور رہے۔ وہ غصے کو پی جائے، وہ غصے کو انتقام تک نہ جانے دے۔ وہ معاملے کے وقت انصاف پر قائم رہے، وہ بے انصافی کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ اپنے وعدے کو پورا کرے اور وعدہ خلافی سے مکمل طورپر بچے۔ وہ لوگوں کے سلوک کا اعتراف کرے، اس کی روش بے اعترافی کی روش نہ ہو۔ اس کا کردار تواضع کا کردار ہو، نہ کہ تکبر اور سرکشی کا کردار۔
اِسی طرح وہ ہمیشہ پر امن رہے، وہ تشدد کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ وہ دشمنی کا مقابلہ دوستانہ سلوک سے کرے، نہ کہ جنگ جویانہ کارروائی سے۔ وہ انسانی سماج کا بے مسئلہ ممبر(no-problem member) ہو، نہ کہ مسئلہ پیدا کرنے والا ممبر(problem-member)۔ وہ دوسروں کو دینے والا ہو، نہ کہ دوسروں سے صرف لینے والا۔
موجودہ دنیا انتخاب کی جگہ ہے۔ یہاںہر ایک کے ریکارڈ کے مطابق، اس کا انتخاب کیا جارہا ہے۔ کسی کے لیے اس کی حسن کرداری کی بنا پر ابدی جنت کا فیصلہ کیا جارہا ہے، اور کسی کے لیے اس کی بدکرداری کی بنا پر ابدی جہنم کا فیصلہ۔
واپس اوپر جائیں

عقل مند انسان

جیسا کہ معلوم ہے، آدم پہلے انسان تھے۔ ان کے دو بیٹوں، قابیل اور ہابیل کے درمیان ایک معاملے میں نزاع پیداہوئی ۔ یہاں تک کہ بڑے بیٹے قابیل نے چھوٹے بیٹے ہابیل سے کہا کہ میں تم کو مار ڈالوں گا۔ ہابیل نے کہا کہ اگر تم میرے خلاف تشدد کرو تو میں تمھارے خلاف تشدد کرنے والا نہیں(المائدۃ: 28 )۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میرے بعد تم لڑائی جھگڑے کی سیاست سے مکمل پرہیز کرنا۔ اور اگر نزاع تمھارے سر تک پہنچ جائے تو تم آدم کے دو بیٹوں میں سے بہتر بیٹے کی مانند بن جانا (فلیکن کخیر ابنَی آدم۔ أبوداؤد، کتاب الفتن)۔
اِس پیغمبرانہ نصیحت کا تعلق، صرف سیاسی ٹکراؤ سے نہیں بلکہ اُس کا تعلق عام زندگی سے ہے۔ مثلاً اگر آپ کے یہاں ایک کارکُن ہے۔ وہ بہت محنتی اور بہت دیانت دار ہے۔ ایسا کارکن ہمیشہ اپنی ذات کے معاملے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتا ہے۔ اگر آپ اس کی کسی کارکردگی کو لے کر سختی کے ساتھ گرفت کریں تو یقینا وہ غصے میںآجائے گا۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کو یہ احساس ہوگا کہ میں اتنا زیادہ وفاداری کے ساتھ کام کررہا ہوں اور یہ مجھ کو ڈانٹ رہے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ اس کے بعد آپ اس قیمتی آدمی کو کھودیں۔
اس معاملے میں دو افراد شامل ہیں، ایک، آپ اور دوسرا، آپ کا کارکن۔ اِس مسئلے کا حل یہ ہے کہ دونوں میں سے کوئی ایک عقل مند آدمی بن جائے۔ یا تو آپ کا کارکن آپ کی ڈانٹ کو نظر انداز کردے اور وہ اس کو حساسیت کے درجے تک نہ پہنچائے، یا آپ خود عقل مندی کا ثبوت دیں اور کارکن کے منفی ردّ عمل کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے ہوئے اُس کو فراموشی کے خانے میں ڈال دیں۔ اگر دونوںمیں سے کوئی ایک بھی عقل مندی کا ثبوت نہ دے سکے تو اس کے بعد اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہ کن صورت میں نکلے گا۔
اسی طرح مثال کے طورپر آپ نہایت ذہین آدمی ہیں۔ آپ کے اندر اخذ(grasp) کا غیر معمولی مادّہ ہے۔ ایسی حالت میں اگر آپ کسی کے اندر کوئی کمی دیکھیں تو فی الفور آپ اس کو نہایت شدت کے ساتھ محسوس کریں گے۔ اس کا فطری نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اُس کمی کے بارے میں نہایت شدت کے ساتھ اپنی رائے ظاہر کریں گے۔ عام تجربے کے مطابق، یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرا آدمی اُس پر برہم ہوجائے گا۔
یہ صورت حال دونوں کے لیے عقل مندی کا امتحان ہے۔ اگر دوسرا آدمی عقل مندی کا ثبوت دے اور اپنی برہمی کو ظاہر نہ ہونے دے تو یہ اُس کے لیے عقل مندی کی بات ہوگی۔ لیکن اگر دوسرا آدمی اِس عقل مندی کا ثبوت نہ دے تو ایسے موقع پر خود آپ کو عقل مند بننا ہوگا، یعنی آپ اُس کی برہمی کا منفی اثر نہ لیں اور اس کو یک سر نظر انداز کردیں۔ اگر دونوں میں سے کوئی بھی اپنے آپ کو عقل مند ثابت نہ کر سکے تو اُس کا نتیجہ یقینی طورپر تباہی کی صورت میں برآمد ہوگا۔
باہمی تعلقات کی کامیابی کے لیے یہ ایک بے حد اہم اصول ہے۔ اس اصول کا تعلق، خاندانی زندگی سے بھی ہے اور سماجی زندگی سے بھی، اور وسیع تر معنوں میں قومی زندگی سے بھی۔ اِس اصول میں ناکامی کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ خاندانی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ شوہر اور بیوی میں طلاق واقع ہوتی ہے۔ اداروں اور جماعتوں میں ٹکراؤ کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ قوموں کے درمیان جنگ پیش آتی ہے، وغیرہ۔
میرے علم کے مطابق، اِسی اصول کو اختیار نہ کرنے کی بنا پر بر صغیر ہند میںتقسیم (1947) کا واقعہ پیش آیا۔ دونوں فریقوں میں سے کوئی فریق اگر عقل مندی کا ثبوت دیتا تو یقینی طورپر تقسیم کا ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آتا۔ تاہم اِس معاملے میں زیادہ بڑی ذمّے داری مسلم قیادت کی ہے۔ کیوں کہ اِس معاملے میں مسلم قیادت کی حیثیت مطالبہ کرنے والے فریق کی تھی، اور دوسرے فریق کی حیثیت حالات کے دباؤ کے تحت مطالبے کو مان لینے والے کی۔
واپس اوپر جائیں

جس خوشی کی ہمیں تلاش ہے

ایک بار میں راجستھان کے ایک مقام پر گیا۔ یہ سفر مولانا محمد تقی امینی (وفات: 1991 ) کے ساتھ ہوا تھا۔ ہم دونوں ایک صاحب سے ملے۔ وہ آبادی سے باہر ایک فارم ہاؤس میں رہتے تھے۔ اُن کو اپنے والد سے کافی مال وراثت میں ملا تھا۔ انھوں نے اپنی پسند کی ایک خاتون سے شادی کی ، اور دونوں اس فارم ہاؤس میں رہنے لگے۔ بظاہر یہ فارم ہاؤس ایک خوب صورت دنیا کا منظر پیش کررہا تھا، لیکن اُس کے اندر جو عورت اور مرد رہ رہے تھے، وہ کامل افسردگی کی تصویر تھے۔
اِن دونوں نے اپنی پسند کی شادی کی، اور پھر اِس فارم ہاؤس کے اندر ایک پُر مسرت اِزدواجی زندگی گزارنے لگے۔ کچھ سالوں تک دونوں بہت خوش تھے۔ اُس کے بعد دونوں، فارم ہاؤس کی اِس زندگی سے اکتا گیے۔ میں اور مولانا محمد تقی امینی اُس گھر میں ایک رات اور ایک دن ٹھیرے۔ اِس مدتِ قیام میں میں نے ایک بار بھی نہیں دیکھا کہ وہ دونوں آپس میں باتیں کررہے ہوں۔ یہ فارم ہاؤس جو کبھی خوشیوں کا گہوارہ معلوم ہوتاہوگا، اب وہ افسردگی کا ایک قبرستان بنا ہوا نظر آتا تھا۔
میں نے اپنی زندگی میںاِس طرح کے بہت سے لوگ دیکھے ہیں، مسلمانوں میںبھی اور غیرمسلموں میں بھی۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے نہایت محنت سے مال کمایا، لیکن جب مال اُنھیں حاصل ہوگیا تو انھوںنے دریافت کیا کہ مال میں اُن کے لیے کوئی خوشی نہیں۔
کسی نے نہایت ذوق وشوق کے ساتھ اپنی پسند کی شادی کی، لیکن تھوڑے دنوں کے بعد انھیں معلوم ہوا کہ شادی اُن کے لیے صرف ایک خشک ذمے داری ہے، نہ کہ خوشیوں کی پُرمسرت زندگی۔ کسی نے اپنی پوری زندگی کو سیاست میں وقف کیا، تاکہ وہ سیاسی اقتدار کی کرسی پر پہنچ سکے، لیکن جب سیاسی اقتدار حاصل ہوگیا تو اُس کے لیے خوشیوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔کسی کا نشانہ یہ تھا کہ اُس کے پاس ایک کشادہ اور خوب صورت مکان ہو، لیکن مکان جب بن کر تیار ہوگیا تو اس کے چہرے سے خوشی رخصت ہوچکی تھی، وغیرہ۔
موجودہ دنیا کا سب سے زیادہ الم ناک پہلو یہ ہے کہ یہ دنیا انسان کے لیے المیہ (tragedy)کے سوا اور کچھ نہیں۔ بڑے بڑے ادیبوں نے ہر زبان میں لاکھوں کی تعداد میں ناول لکھے ہیں۔ یہ ناول گویا انسانی جذبات کی ترجمانی کی حیثیت رکھتے ہیں، تاہم یہ ایک عجیب حقیقت ہے کہ کسی بھی زبان میں کوئی طَربیہ (comedy)ناول کبھی زیادہ مقبول نہ ہوسکا۔دنیا میں جتنے بھی مقبول ناول ہیں، وہ سب کے سب المیہ (tragedy)ہیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان اِس احساس میں جی رہا ہے کہ وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا، وہ اس کو حاصل نہ ہوسکی۔ یہی وجہ ہے کہ المیہ ناول انسان کے دل کو چھوتے ہیں، طربیہ ناول انسان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتے۔
یہ انسانی زندگی کا بڑا عجیب پہلو ہے کہ ہر انسان کی عمر کا پہلا نصف حصہ خوشی کی تلاش میں گزرتا ہے، اور بقیہ نصف حصہ اِس احساس میں کہ بظاہر خوشیوں کے سامان حاصل کرنے کے باوجود میں اپنے لیے خوشیوں کی مطلوب دنیا نہ بناسکا۔
تاریخ کا یہ تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی موجودہ زندگی اِس لیے نہیں ہے کہ وہ یہاں اپنے لیے خوشیوں کی ایک دنیا بنائے۔ موجودہ زندگی صرف اس لیے ہے کہ آدمی حسنِ عمل سے اپنے آپ کو اِس قابل بنائے کہ وہ موت کے بعد کی ابدی زندگی میں خوشیوں کی مطلوب دنیا پاسکے۔ موت سے پہلے کا مرحلۂ حیات ،اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنانے کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلۂ حیات حسب استحقاق جنت میں داخلے کا مرحلہ، یعنی خوشیوں کی اُس دنیا میں داخلے کا مرحلہ،جس کو ہر آدمی کی روح تلاش کررہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

قانونِ فطرت کو جانیے

عمران احمد اصلاحی (پیدائش1974 ) اعظم گڑھ میں لال گنج کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرصے سے وہ دہلی میں رہ رہے ہیں۔13 اگست 2007 کی ملاقات میں ،میں نے اُن کے گھر کے حالات دریافت کیے۔ معلوم ہوا کہ اُن کے یہاں تین سال کا ایک بچّہ ہے۔ میںنے پوچھا کہ بچّے کی تعلیم کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ وہ کہیں گے کہ بچے کو دہلی لانا پڑے گا، کیوں کہ گاؤںمیں تعلیم کا کوئی اچھاانتظام نہیں۔
مگر میری توقّع کے خلاف، انھوںنے کہا کہ ہمارے علاقے میں بہت سے اچھے اسکول کھُل گیے ہیں۔ اِن میں انگریزی کی معیاری تعلیم ہوتی ہے۔ انگریزی کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اُن لوگوں نے ساؤتھ انڈیا سے ٹیچروں کو بلایا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہاں اسکول بس کا بھی اچھا انتظام ہے۔ اِس کے تحت،پِک اینڈ ڈراپ سروس (pick & drop service) قائم ہے۔ اِس لیے بچے کی تعلیم کے سلسلے میں اِن شاء اللہ ، کوئی مسئلہ نہیںہوگا۔
میرے لیے یہ ایک نئی خبر تھی، کیوں کہ پہلے وہاں اِس قسم کی تعلیم کا انتظام موجود نہ تھا۔ مزید پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ اِس علاقے کے بہت سے مسلمان دُبئی وغیرہ کمانے کے لیے گیے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ نہ تھے، اِس لیے انھیںزیادہ تر لیبر کلاس (labour class)کا کام ملا۔ اِسی دوران انھوں نے دیکھا کہ دوسرے مقامات کے لوگ جو جدید تعلیم لے کر وہاں آئے ہیں، اُن کووہاں اچھے اچھے کام مل رہے ہیں۔
اِس تقابل اور اِس انٹریکشن (interaction)کے ذریعے اُن کے ذہن میں ایک بھونچال آیا۔ انھوںنے سوچا کہ ہم تو تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے لیبر کلاس کا کام کررہے ہیں اور اِسی حال میں مریں گے، مگر اب ہم کو یہ کوشش کرنا ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری اگلی نسلیں تعلیم میں آگے بڑھیں، تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہیں۔
اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِن لوگوں نے اپنی کمائی کو تعلیم کے میدان میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوںنے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، اِس علاقے میں بہت سے اسکول کھول دیے۔ باہر کے تجربے سے اُن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس زمانے میں سب سے زیادہ اہمیت معیار کی ہے، اِس لیے آج صرف تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ معیاری تعلیم (standard education)کی ضرورت ہے۔ اِس انقلابی سوچ کا یہ نتیجہ ہوا کہ اِس ایریا میں بہت سے اعلیٰ معیار کے اسکول کھل گیے۔ اب یہاں گاؤں کے بچے بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔
پچھلے ساٹھ برس کے دوران تمام مسلم لیڈر، بغیر کسی استثنا کے، صرف ایک بات کہتے رہے ہیں، وہ یہ کہ انڈیا میں مسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ انڈیا میں یہ سازش کی جارہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو پَس ماندہ طبقہ بن کر رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مگر اِسی دوران انڈیا کے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوگیے، یہاں تک کہ آج انڈیا کے مسلمان تعمیر و ترقی کے معاملے میں پاکستان کے مسلمانوں سے بھی بہت آگے جاچکے ہیں۔
اوپر جس واقعے کا ذکر ہوا، وہ صرف اعظم گڑھ میں پیش نہیں آیا بلکہ وہ سارے ملک میں پیش آرہا ہے۔ آج ملک کے ہر حصے میں مسلمان تیزی سے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ فطرت کے قانون کے تحت ہوا ہے، وہ اِس طرح کہ مسلمانوں کو دوسرے طبقوں سے انٹریکشن پیش آیا۔ انھوںنے دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھا۔ وہ چیلنج اور مسابقت کے ماحول سے گزرے۔ ہر ایک نے چاہا کہ میری اولاد ترقی میںدوسروں سے پیچھے نہ رہے۔ اِس طرح مسلمانوں میں فطرت کا ایک عمل(process) جاری ہوا۔ یہی فطر ی عمل مذکورہ قسم کے واقعات کی صورت میں اپنا نتیجہ دکھا رہا ہے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ کیوںایسا ہوا کہ مسلمانوںکے نام نہاد لیڈر اس عظیم واقعے سے بے خبر رہ گیے۔ اِس کا سبب موجودہ زمانے کا میڈیا ہے۔ مسلمانوں کے یہ نام نہاد لیڈر اخباروں کو پڑھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اُن کی معلومات کا ذریعہ عام طور پرصرف اخبار کی رپورٹیں ہیں
اخبار، یا جدید میڈیا اپنے مخصوص مفادات کے تحت صرف منفی خبروں کو منتخب کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ تاریخی عوامل، یا فطرت کے قوانین موجودہ میڈیا کا موضوع نہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں کا انحصار چوں کہ اِسی میڈیا پر ہے، اِس لیے وہ مسلم سماج کے صرف کچھ منفی پہلوؤں ہی کو جان پاتے ہیں، تاریخ کے عوامل، یا فطرت کے قوانین کے زیرِ اثر جو کچھ ہورہا ہے، اُس کی انھیں مطلق خبر نہیں۔
اِسی بنا پر ایسا ہے کہ جس زمانے میں مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اور نام نہاد دانش ور، مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی داستان سنا رہے تھے، عین اُسی زمانے میں مسلمانوں کا قافلہ کامیابی کے ساتھ ترقی کی شاہ راہ پر پہنچ گیا۔ نام نہاد رہ نما اور دانش ور، مسلمانوں کو مایوسی اور دل شکستگی کی غذا دے رہے تھے، لیکن خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت نے اُن کو امید اور حوصلے کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا۔
موجودہ زمانے میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کے لیے میڈیا (اخبار اور ٹیلی ویژن) معلومات کا ذریعہ بن گیا ہے، مگر باتوں کو جاننے کے لیے یہ صرف ایک ناقص ذریعہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، میڈیا، حقیقتِ حال کی مبنی بر صداقت رپورٹنگ کا نام نہیں ہے، میڈیا ایک انڈسٹری ہے جو اپنے تجارتی مقصد کے مطابق، کچھ منتخب واقعات کو لیتا ہے اور کچھ دوسرے واقعات کو چھوڑ دیتا ہے۔
ایسی حالت میں جو لوگ میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ کسی معاملے کا درست تصور قائم نہیں کرپاتے۔ وہ اپنے ذاتی معاملات کے سوا، دوسرے تمام معاملات میں ہمیشہ یک طرفہ سوچ کا شکار رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے معاملے کو، یا کسی اور معاملے کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کی بنائی ہوئی امیج سے باہر آکر اُس کو سمجھا جائے۔ یہ کسی معاملے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر معاملات میں درست اور منصفانہ رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

پیچھے کی سیٹ

انگریزی زبان کی ایک مشہور مثل ہے کہ — ٹاپ کی جگہ ہمیشہ خالی رہتی ہے:
There is always room at the top
یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اِس سے زیادہ درست اور اہم بات وہ ہے جو اِس قول کے برعکس ہے، اور وہ یہ کہ— پیچھے کی سیٹ پر ہمیشہ جگہ خالی رہتی ہے:
There is always room at the back seat.
بَیک سیٹ پر جانا، کسی آدمی کے لیے بظاہر شکست خوردگی اور پسپائی کی بات ہوتی ہے۔ لیکن بیک سیٹ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہاں سے آدمی کو ہر حال میںایک نیا آغاز مل جاتا ہے، وہ کھوئی ہوئی چیز کو دوبارہ نئی صورت میں حاصل کرنے کی پوزیشن میںہوجاتا ہے۔
مسیحیت میں بعد کے زمانے میں پوپ کا مذہبی عہدہ شروع ہوا۔ اس کی اتنی ترقی ہوئی کہ قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں پوپ عملی طورپر پورے یورپ کا پولٹکل ہیڈ بن گیا تھا۔یورپ کی نشأۃِ ثانیہ کے بعد چرچ کے خلاف طاقت ور تحریک اٹھی، یہاں تک کہ یہ ناممکن ہوگیا کہ پوپ کی سیاسی طاقت بدستور باقی رہے۔
اُس وقت مسیحی چرچ اور سیاسی لیڈروں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا، جس کو لیٹرین ٹریٹی (Lateran Treaty) کہاجاتا ہے۔ یہ معاہدہ1929میں ہوا، جب کہ اٹلی میں مسولینی (وفات: 1945) حکومت کررہا تھا۔ اِس معاہدے کے مطابق، پوپ پچھلی سیٹ پر بیٹھنے پر راضی ہوگیا۔ چناں چہ روم کے اندر ویٹکن سٹی(Vatican City) کے نام سے ایک خود مختار اسٹیٹ وجود میں آئی، جس کا رقبہ تقریباً ایک سو دس ایکڑ تھا۔
اس طرح ویٹکن کے محدود رقبے پر راضی ہونے کا یہ فائدہ مسیحی چرچ کو ملا کہ پوپ کا پُر عظمت تاریخی ٹائٹل محفوظ رہا— پوپ، دنیا کی سب سے چھوٹی اسٹیٹ کا ہیڈ ہے۔ لیکن عملاً اس کو پوری دنیا کے اندر ایک عظیم مقام ملا ہوا ہے۔ وہ اِس پوزیشن میں ہے کہ پوری دنیا میں مسیحی سرگرمیوں کو منظم کرسکے۔
اس کے برعکس اب دوسری مثال لیجیے۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں میں خلافت کا سیاسی ادارہ قائم ہوا۔ وہ ایک ہزار سال تک شوکتِ اسلام کی علامت بنا رہا۔ آخری مرحلے میں تُرکی اِس خلافت کا صدر مقام تھا۔ یہاں خلیفۃ المسلمین رہتا تھا، جو عملاً ساری مسلم دنیا کے لیے انٹرنیشنل ہیڈ کی حیثیت رکھتا تھا۔
پہلی عالمی جنگ میں ترک خلافت، جرمنی کے اتحاد میں شریک ہوئی۔ اِس جنگ میں ترک خلافت کو زبردست شکست ہوئی۔ اِسی زمانے میں نیشنل ازم کا عروج ہوا اور بین الاقوامی خلافت کا بقا عملاً ناممکن ہوگیا۔ اِس طرح یہ مسلم خلافت عملاً ٹوٹ پھوٹ گئی، یہاں تک کہ کمال اتاترک نے 1924 میں اِس ختم شدہ خلافت کے رسمی خاتمے کا اعلان کردیا۔
اِس معاملے میں مسلمانوں کے لیے بھی یہ موقع تھا کہ وہ بیک سیٹ پر چلے جائیں۔ اور پوپ کی طرح خلیفۃ المسلمین کے ٹائٹل کو محفوظ رکھیں جو ہزار سالہ تاریخی روایات کے نتیجے میں ایک پُراسرار عظمت حاصل کرچکا تھا۔ اُس زمانے کے مسلم رہ نما اگر ایک محدود رقبۂ زمین میں خلیفۃ المسلمین کا مرکز قائم کرنے پر راضی ہوجاتے تو آج مسلمانوں کے پاس بھی ایک اسلامی ویٹکن (Islamic Vatican) موجود ہوتا۔
مگر اُس زمانے کے مسلم رہ نما، مثلاً سید جمال الدین افغانی، محمد علی جوہر اور ابولکلام آزاد، وغیرہ نے انتہائی نادانی کے ساتھ غَوغائی سیاست برپا کردی۔ وہ بیک سیٹ پر جانے کے بجائے، خلافت کو دوبارہ اُس کی قدیم حیثیت کے ساتھ باقی رکھنا چاہتے تھے، مگر عملاً اِس سیاست کی کامیابی کاکوئی امکان نہ تھا۔ چناںچہ ایک ذلّت آمیز ناکامی کے سوا، مسلم رہ نماؤں کو کچھ اور نہیں ملا۔ ہزار سال کی تاریخی روایات نے خلیفۃ المسلمین کا پُرشوکت ٹائٹل بنایا تھا، پیچھے کی سیٹ پر بیٹھنے کی صورت میں یہ ٹائٹل بلاشبہہ اُسی طرح باقی رکھا جاسکتا تھا، جس طرح پوپ کا ٹائٹل باقی ہے۔ مگر مسلم رہ نماؤں کی ناقابلِ فہم نادانی کے نتیجے میں یہ امکان واقعہ نہ بن سکا۔
واپس اوپر جائیں

عظمتِ خداوندی کا اعتراف

دور ِ اول میں خلافتِ اسلامی کو غیر معمولی پھیلاؤ ہوا، اس کے باوجود بنو اُمیہ کے عہد تک خلافت کا ایک ہی مرکز (دمشق) تھا۔ عباسی انقلاب کے بعد اندلس میںعلاحدہ سلطنت قائم ہوئی، اِس طرح حکومتِ اسلامی کے دومرکز ہوگیے۔ جلد ہی بعد مراکش میںتیسرا آزاد سیاسی مرکز قائم ہوا، پھر مصر میں خود مختار حکومت قائم ہوگئی۔ اِس طرح ایک کے بعد ایک، آزاد مسلم سلطنتیں قائم ہوتی چلی گئیں۔ ایک عظیم مسلم سلطنت چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی۔اِنھیں آزاد سلطنتوں میں سے ایک سلطنت وہ تھی جس کو دولتِ سامانیہ کہاجاتاہے۔ سامانی سلطنت، ایران میںابھری اور تقریباً ڈیڑھ سوسال تک قائم رہ کر ختم ہوگئی۔
سامانی سلطنت کا ایک حاکم نصر بن احمد بن سامان (وفات: 892ء) تھا۔ کہاجاتا ہے کہ جب اس نے نیشا پور کو اپنی سلطنت میںشامل کیا تو وہاں اس نے ایک جشن منعقد کیا۔ جب وہ اپنے شاہی تخت پر بیٹھا تو اس کی فرمائش کے مطابق، تخت نشینی کی افتتاحی رسم قرآن کی تلاوت سے شروع ہوئی۔ مجلس میں ایک عالم موجود تھے۔ انھوں نے قرآن کی تلاوت کی۔ انھوں نے سورہ المومن کا ایک حصہ پڑھا، جس میںیہ آیت بھی تھی: یوم ہُم بارزون لا یخفیٰ علی اللہ منھم شیٔ۔ لِمَن الملک الیوم، للہ الواحد القہار (المؤمن : 16 )۔ یعنی جس دن کہ وہ ظاہر ہوں گے، اللہ سے ان کی کوئی چیز چھپی نہ ہوگی۔ آج بادشاہی کس کے لیے ہے، اللہ واحد وقہار کے لیے۔ مذکورہ عالم تلاوت کرتے ہوئے جب اِس آیت پر پہنچے تو سلطان نصربن احمد پر لرزہ طاری ہوگیا۔ وہ ہیبت زدہ ہوکر تخت سے اُتر پڑا۔ تاج کو اپنے سر سے اتارا اور سجدے میںگر گیا۔ اس نے کہا: اے میرے رب، بلا شبہہ بادشاہی تیری ہے، نہ کہ میری۔
اعلی دعا اور اعلیٰ ذکر ِخداوندی کا تعلق الفاظ سے نہیں ہے، بلکہ انسان کی اپنی نفسیات سے ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ: مَن تَواضع للہ رفعہ اللہ (مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 5119 )۔ اِس حدیث کا ایک مطلب یہ ہے کہ جو شخص اپنے آپ کو پوری طرح خدا کے سامنے جھکا دے، وہی وہ شخص ہے جس کو خدا اِس طرح عزت دیتا ہے کہ اُس کو اسمِ اعظم کے ساتھ ذکر اور دعا کی توفیق ملتی ہے، اور جس شخص کو اسمِ اعظم کے ساتھ ذکر اور دعا کی توفیق ملے، اس کو بلا شبہہ دنیا ہی میں خدا کی جنت حاصل ہوگئی۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 182

1 - سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 19 ستمبر 2007 کو حسب معمول ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف مقامات سے کیندریہ وِدّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
قرآن اور حدیث کی روشنی میں اِس موضوع پر اظہار خیال کیاگیا ۔ آخر میںکچھ سوالات کیے گیے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ مغربی کلچر میں فریڈم کو خیر اعلیٰ(Summum Bonum) مانا جاتا ہے، لیکن اسلام میں امن (peace) کو خیرِاعلیٰ کی حیثیت حاصل ہے۔
2 - راشٹریہ سہارا (ہندی) کے نمائندہ مسٹر کمار وجے نے 2 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ یہ انٹرویو جہادکے موضوع پر تھا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اُن کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
3 - آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) سے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو نشر کیاگیا ، اِس انٹرویو کا موضوع— نان وائلنس تھا۔ یہ انٹرویو صبح کے نشریے کے تحت، نشر کیاگیا۔
4 - اسٹار نیوز (نئی دہلی) کے نمائندے نے 4 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع تھا: خط کے ذریعے عورت کو طلاق دینے کا مسئلہ۔ اِس موضوع پر قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کا جواب دیاگیا۔
5 - سرودھرم سنسد (Parliament of religions) کے اُدگھاٹن کے طورپر 5 اکتوبر 2007 کی شام کو انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (نئی دہلی) میںایک بڑا فکشن ہوا۔ اِس میں سوامی اگنی ویش، شری شری روی شنکر، اور فادر والسن تھمپو، وغیرہ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بھی اِس میں شرکت کی اور تقریباً پندرہ منٹ کی ایک تقریر کی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں سماجی اصلاح کے لیے ایجوکیشن کی اہمیت پر زور دیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے افراد نے بھی اِس پروگرام میں شرکت کی اور انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی بروشرز بڑی تعداد میں لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ یہ پروگرام اسلامک کلچر سنٹر کے بڑے آڈی ٹوریم میں ہوا۔ پورا ہال سامعین سے بھرا ہوا تھا۔
6 - نوئڈا کے ایک ٹی وی پرگیا ویژن (Pragya Vision) کی ٹیم نے 10 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کے انٹرویو کی ویڈیو ریکارڈنگ کی۔ اس کے انٹرویور مسٹر طارق عالم خان تھے۔ انٹرویو کا موضوع— مذہب اور روحانیت تھا۔ اِس سلسلے میں اسلام اور صوفیوں کے نقطۂ نظر کو بتایا گیا۔
7 - سائی انٹر نیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 10 اکتوبر 2007 کو حسب معمول، ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف نوودے ودّیالیہ کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو دعوت دی گئی تھی کہ وہ اسلام میں بنیادی انسانی اقدار(Basic Human Values in Islam) پر ایک تقریر کریں۔ اِس کے مطابق، انھوںنے وہاں اِس موضوع پر ایک مفصل تقریر کی۔ تقریر کے آخر میں سامعین کی طرف سے سوالات کیے گیے، جن کا جواب دیاگیا۔ حاضرین نے اُس پر کافی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ آخر میں اُن کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے اسلامی پمفلٹ تقسیم کیے گیے، جس کو انھوںنے نہایت شوق سے لیا۔
8 - ٹائمس ناؤ (Times Now) کے نمائندے نے 11 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر میں بم دھماکے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران بتایا گیا کہ اِس طرح کا متشددانہ فعل ہر اعتبار سے قابلِ مذمت ہے۔ اسلام امن اور رحمت کا مذہب ہے، نہ کہ تشدد اور بے رحمی کا مذہب۔
9 - راشٹریہ سہارا، ہندی (نئی دہلی) کے نمائندہ وجے کمار نے 12 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو اجمیر کے بم دھماکہ (11 اکتوبر 2007 ) کے موضوع پر تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام میں تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلام میں معصوم لوگوں کو مارنا حرام ہے۔ جو لوگ اِس قسم کا متشددانہ فعل کررہے ہیں، وہ امن کی طاقت سے بے خبر ہیں۔ اسلام میںامن سب سے بڑی طاقت ہے، نہ کہ تشدد۔
10 - ای ٹی وی (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر قاسم ندوی نے 17 اکتوبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو روزے سے متعلق تھا۔ سوالات کے دوران قرآن اور حدیث کی روشنی میں روزے کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی۔
11 -انڈیا اسلامک کلچرل سنٹر (لودھی روڈ، نئی دہلی) میں 20 اکتوبر 2007 کی شام کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس کا انتظام سی پی ایس اور گڈ ورڈ بکس کی طرف سے کیاگیا۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔اُس کا موضوع تھا— قرآن کا پیغام:
The Message of the Quran
اِس پروگرام میں تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے ۔ کچھ ہندو حضرات بھی وہاں موجود تھے۔ تقریباً ایک گھنٹے تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ یہاں آنے والوں کو اسلامی دعوت کے مطبوعہ انگریزی بروشر دیے گیے۔ یہاں گُڈورڈبکس کی طرف سے اسلامی کتابوں کا ایک بُک اسٹال بھی لگایا گیا تھا۔ لوگوں نے یہاں سے کتابیں حاصل کیں۔
12 - 18 اکتوبر 2007کو صدر اسلامی مرکز کے نام ایک خط موصول ہوا ۔وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
الرسالہ جون 2007 کے شمارے میں شائع ایک مضمون ’’مسیحی ماڈل‘‘ کے خلاف اگست 2007کے مہینے میں یہاں سری نگر (کشمیر) کے بعض علما، واعظین اور ائمۂ مساجد کی طرف سے سخت ردّ عمل سامنے آرہا ہے اور اس سلسلے میں مقامی اخبارات میںایسے بیانات منظر عام پر آئے ہیں جن کا علم و دلیل اور زبان و ادب کی شائستگی سے کوئی تعلق نہیں۔ اِن بیانات میںکہیں بھی یہ بات نہیں ثابت کی گئی ہے کہ آپ نے کہاں غلطی کی اور آپ کس طرح (العیاذ باللہ) اہانتِ رسول کے مرتکب ٹھہرے۔ لہذا جب ان کے پاس آپ کا نقطہ نظر غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے تو ثابت ہوا کہ حق اُن لوگوں کا نہیں، آپ کا ساتھ دے رہا ہے۔ کیوں کہ آپ اپنی ہر بات کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل کی روشنی میں پیش کرتے ہیں اور زیر نظر مضمون میں بھی آپ نے اسی اسلوب کو اختیار فرمایا ہے۔الرسالہ اکتوبر 2007 کا شمارہ نظر سے گزرا۔ اِس شمارے میں ’’دین اور منہاج‘‘ کے عنوان سے ایک فکر انگیز مضمون پڑھنے کو ملا۔ یہ مضمون علمی دلائل کے اعتبا رسے بہت ہی جامع اور مدلل ہے۔ میں نے اس مضمون کی ایک ایک سطر پر غور کیا اور اب میں اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ سے اختلاف کرنا کسی عام واعظ وامام تو کُجا، بڑے سے بڑے عالمِ دین کے بھی بس کی بات نہیں ہے۔ اس بات کا کھلا ہوا ثبوت یہ ہے کہ آپ نے مولانا مودودی کے تصورِ دین پر جو جامع اور مدلل تنقید کی ہے، اس کا جواب نہ مولانا مودودی سے بن پایا اور نہ آج تک جماعت اسلامی کے علما میں سے کسی نے اس کا علمی جواب دینے کی جرأت کی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ آپ کی یہ تحریریں آج بھی جواب کے لیے منتظر ہیں۔آپ بلا شبہہ علمی اورفکری اعتبار سے پورے عالمِ اسلام میںاپنی نوعیت کے واحد عالم ِ دین ہیں۔اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے علما کی کوئی کمی نہیں ہے، مگر آپ کے اندر جو گوں نا گوں علمی وفکری، ذہنی و قلمی صلاحیتیں ہیں اور عصری ودینی علوم پر جو گہری نظراور دست رس آپ کو حاصل ہے، وہ کسی دوسرے عالمِ دین کے یہاں نہیں ملتی ہے۔ اِس لحاظ سے آپ کا علمی و فکری قد بہت اونچا اور بلند ہے اور بلاشبہہ آپ جیسے مصلح، داعی اور مفکر صدیوں کے بعد ہی پیداہوتے ہیں۔ الرسالہ اکتوبر 2007 کے اِس تازہ مضمون (دین اور منہاج) کی اِس بات نے مجھے خاص طورپر زیادہ متاثر کیا ہے کہ آپ نے اِس مضمون میںاپنے مخالفین، جن پر اگر ’’بدترین مخالفین‘‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے جائیں گے تو کم پڑ جائیں گے، ان کا کوئی تذکرہ نہیں کیا ، بلکہ نفسِ مسئلہ کی طرف اپنے فکر و نظر اور قلم و ذہن کو مرکوز رکھا ہے، جب کہ نئی دہلی سے شائع ہونے والا ایک ماہ نامہ خاص طورپر آپ ہی کی بے جا اور سطحی مخالفت میں شائع ہوتاہے اور جس میں کثرت سے ایسی تحریریں شائع ہوتی ہیں جن میںزیادہ تر آپ کی ذات کو ہدفِ ملامت بنایا جاتا ہے اور آپ کے خلاف ہر لکھی جانے والی تحریر، خواہ اس میں علم و دلیل کا فقدان ہی کیوں نہ ہو اور اسلوب تحریر کتنا ہی غیر اخلاقی وغیر شرعی کیوں نہ ہو، اس کو صرف اِس وجہ سے خوش آمدید کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں ایک طرف، آپ کے مخالفین، الرسالہ مشن سے سخت خائف ہیں اور اس کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں، وہاں دوسری طرف، اللہ تعالیٰ ’الرسالہ مشن‘ کے فروغ کے سلسلے میں غیب سے اسباب مہیا فرمارہا ہے اور وہ الرسالہ کے حلقۂ قارئین میں روز افزوں اضافہ کررہا ہے۔ اس سلسلے میں ایک تازہ اور دل چسپ مثال ملاحظہ کیجیے۔بریلوی مکتب فکر کا ایک ماہ نامہ ’’جامِ نور‘‘ دہلی سے شائع ہوتا ہے جس کے خصوصی شماروں میں آپ کے بھی کئی انٹرویو شائع ہوئے ہیں۔ حال ہی میں اس کا ایک خصوصی شمارہ ’’اجتہاد و تقلید‘‘ کے عنوان سے منظر عام پر آیا ہے اور اس شمارے میں بھی آپ کا ایک طویل انٹرویو شائع ہوا ہے۔اس کے آخر میں آپ نے اُس رسالے کے متعلق، اپنے تاثرات کا اس طرح تذکرہ فرمایا ہے: ’’ماہ نامہ جامِ نور میرے پاس آتا ہے، میں اس کو ایک اچھا رسالہ سمجھتا ہوں، میں یہی کہہ سکتاہوں کہ میری دعا ہے کہ ماہ نامہ جامِ نور ہمیشہ ترقی کرتا رہے اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بنے(ماہ نامہ جامِ نور، اپریل 2007 ، ص : 96) ۔ لیکن اِسی رسالے کے ایک اور شمارے میں ایک مستقل کالم (اظہارِ خیال) کے تحت، ایک قاری کا ایک جگہ آپ کے اور الرسالہ کے بارے میں تعصب و تنگ نظری سے بھر پور یہ ریمارک اِس طرح شائع ہوا ہے:’’میں آپ کو شہر گُل برگہ کی بات بتاؤں کہ ایک اسٹال پر’’الرسالہ‘‘ کثیر تعداد میں پہنچتا ہے اور صف بستہ منتظرین اس کو ہاتھوں ہاتھ اٹھا لے جاتے ہیں، حالاں کہ دس کی جگہ یہاں قارئین گیارہ روپیے دیتے ہیں، یہاں کی اکثر لائبریریوں میں جہاں کوئی رسالہ پہنچتا ہے ’’الرسالہ‘‘ ضرور پہنچتا ہے، جب کہ اہلِ سنت کے کسی بھی رسالے سے لائبریریاں خالی ہیں۔ لائبریریوں میں مستقل آکر پڑھنے والوں کا حال یہ ہے کہ وہ دیگر رسائل کو چھوڑ کر’’ الرسالہ‘‘ ہی ایک دوسرے سے لے کر پڑھنے کے منتظر رہتے ہیں… میں پُر امید ہو کر یہ کہوں گا کہ جولائی کے الرسالہ پر بھی تبصرہ لکھیے جو اسلامی تعلیمات کے مخالف سوچ اور فکر سے پُر ہے‘‘(جامِ نور، ستمبر 2007، ص: 28 ) یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ ایک طرف آپ نے اپنے اوپر دیے گئے اقتباس میں جامِ نور کی تعریف کی اور مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ نفع کا باعث بننے کی دعا فرمائی ہے مگر دوسری طرف اس اقتباس میں خود آپ کے خلاف اور الرسالہ کے خلاف بے بنیاد طور پر رائے زنی کی گئی ہے۔ تاہم اس اقتباس سے اتنا ضرور معلوم ہوتاہے کہ جو مسلکی تعصب اور فرقہ بندی کے چنگل سے آزاد ہیں اور دل و دماغ کے اعتبار سے بیدار بھی ہیں، الرسالہ ایک بار پڑھنے سے وہ اُنھیں فطرت کی آواز اور اسلام کی روح معلوم ہوتا ہے اور وہ اس کی طرف پلٹ جاتے ہیں اور اس کی خریداری کے لیے صف بستہ کھڑے ہو کر انتظار کرتے ہیں ، یہ خوش آئند بات نہیں توکیا ہے۔ چوں کہ الرسالہ، اسلام کی دریافت ہے اور اس میں اسلام کی دعوت کو بے لوث اور حکیمانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح کی دعوت جب تحریک اور مشن کی شکل اختیار کرلیتی ہے تو اس وقت اس دعوتِ حق کو روکنے کی طاقت کسی میں نہیں ہوتی ہے اور جو بھی دعوت الی اللہ کے راستے میں روڑے اٹکاتا اوررکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کا وجود اور اس کا نام ونشان مٹا دیتا ہے، جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے: یُریدُونَ لِیُطْفِؤا نُورَ اللہِ بِأَفوَاہِہِمْ وَاللہُ مُتِمُّ نُورِ ہٖ وَلَوکَرِہَ الْکافِرُونَ (الصّف: 8)اگرکوئی چاہے کہ سورج کو اپنی پھونکوں سے بجھادے تو یہ اس کی سراسر حماقت ہوگی۔ جس طرح سورج روشن رہے گااور روشنی دیتا رہے گا، اُسی طرح حق کی روشنی اپنا راستہ ڈھونڈ نکالے گی، خواہ اس کے مخالفین اسے بجھانے کے لیے کتنی بھی تدبیر اور ہتھکنڈے آزمائیں، مگر اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد سے اس کی تکمیل ہوکر رہے گی۔ حق کی یہ روشنی دنیا کے کونے کونے اور گوشے گوشے کو روشن کردے گی۔ تاہم یہ نصیحت صرف اس آدمی کو فائدہ پہنچانے والی ہے جو حق کے معاملے میں انتہائی سنجیدہ ہو اور حق کی تڑپ رکھتا ہو، ورنہ اندھے مخالفین کے لیے ساری تفصیلیں اور ساری شرحیں مبہم ہیں۔ (غلام نبی کشافی، سری نگر، کشمیر )
13 - ایک خط: قابلِ احترام مولانا وحیدالدین خاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ کا موقرجریدہ الرسالہ باقاعدگی سے مل رہا ہے جس کے لیے بے حد ممنون ہوں۔ نومبر 2007 کے تازہ شمارے میں ’’اسمائِ حسنیٰ اور اسمِ اعظم‘‘ کے موضوع پر آپ کا بصیرت افروز مضمون نہ صرف قابلِ تعریف اور فکر انگیزہے، بلکہ وہ اسمِ اعظم کے تعلق سے ہمیں ایک نئے زاویۂ فکر سے روشناس بھی کراتا ہے۔ آپ نے ٹھوس دلائل کے ذریعے سے اسمِ اعظم کی وضاحت جس طرح فرمائی ہے، اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر پھیلے ہوئے شکوک اور مفروضات کا ازالہ ہوجانا چاہیے۔ بہر حال آپ نے یہ بڑا نیک کام انجام دیا ہے۔ مبارک باد قبول فرمائی (سعید رحمانی، ایڈیٹر اخبارِ اُڑیسہ،کٹک، 22 اکتوبر، 2007)۔
14 - ایک خط: حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب، السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ خدا آپ پر اور آپ کے تمام اہل خانہ پر کرم کا معاملہ فرمائے، آمین۔ نومبر 2007 کا الرسالہ زیر مطالعہ ہے۔ پریشان ہوں کہ بات کیا اور کہاں سے شروع کروں کیوں کہ مجھے اپنی کم علمی کا پورا احساس ہے۔ ایک سند یافتہ عالم کے سامنے بات پیش کرنا اور بات ہے لیکن جب سامنے معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے والا اور اللہ کی طرف سے خیرِ کثیر (البقرۃ: 269 ) سے نوازا ہوا شخص ہو، تو قلم حرکت کرنے سے عاجز ہو جاتاہے۔ یوں آپ کی بیش تر تحریروں نے اکثر مجھ کو رُلایا ہے۔ تب بھی میں بہت رویا تھا جب آپ کی کتاب ’’الاسلام‘‘ کے عنوان ’’عبادت‘‘ (صفحہ 7) سے گزرا تھا۔ لیکن آج تو حد ہوگئی، کس جملے اور کون سے صفحے کی بات کروں۔ بے شک دنیا کے تمام الفاظ مل کر بھی اسمائِ حسنیٰ کی تعریف بیان نہیں کرسکتے، لیکن اس شمارے میں جیسے خدا نے لفظوں کو گویائی عطا کردی ہے۔یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس شمارے نے بہت سی روحوں کو رُلایا ہوگا اور اسمِ اعظم کو شعوری سطح پر پانے کا احساس زندہ کیا ہوگا۔ سچ کہوں تو اس شمارے کو ’’اسم اعظم اور خیرِکثیر نمبر‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ ایک خیرِ کثیر کے طالب کے لیے اِس خاص کتاب کا روزانہ مطالعہ معرفت کی سطح پر زندگی گزارنے کے لئے بے حد معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ دل چاہتا ہے کہ اس شمارے کی لاتعداد کاپیاں چھپواکر ایک ایک بندے تک پہنچا دوں (محمد وسیم اختر، بہادر گنج، بہار، 23 اکتوبر 2007 )۔
15 - 28 اکتوبر 2007کو بیروہ (کشمیر) میں حلقۂ الرسالہ کا ایک اجتماع ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے۔ اِس موقع پر جناب غلام نبی کشافی نے ’’اسوۂ حسنہ اور مسیحی ماڈل‘‘ کے عنوان سے ایک مفصل مقالہ پیش کیا۔ اِس میں قرآن اور حدیث کے واضح دلائل کے ذریعے اِس سلسلے میں اٹھنے والے شبہات کا مدلل جواب دیا گیا۔ اِس میں بتایاگیا کہ ’دین‘ اور ’منہاج‘ کے معاملے میںالرسالہ کا نقطۂ نظر وہی ہے، جو تمام علمائِ اسلام کا نقطۂ نظر ہے۔ اِس سلسلے میں محدثین اور علمائِ سلف کی تحریروں کے کئی حوالے پیش کیے گئے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ سیرتِ رسول کے موضوع پر مطبوعاتِ الرسالہ کے تحت، ایک درجن سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ایسی حالت میں علمی طریقہ صرف یہ ہوگا کہ اِن مطبوعہ کتابوں کو سامنے رکھ کر اس معاملے میں کوئی رائے قائم کی جائے، نہ کہ صرف ایک بات کو لے کر اُس کے خلاف سطحی قسم کی بے معنی دھوم مچائی جائے۔
واپس اوپر جائیں