Pages

Thursday 1 May 2003

Al Risala | May 2003 (الرسالہ،مئی)

2

- احمد آباد کا سفر

40

- سوال وجواب


احمد آباد کا سفر

احمد آباد کے ادارہ سوسائٹی فار دی پروموشن آف ریشنل تھنکنگ (SPRAT) کی دعوت پراحمد آباد کا سفر ہوا۔ ۲۵ جنوری ۲۰۰۳ کو دہلی سے روانہ ہو کر احمد آباد پہنچا اور ۲۷ جنوری ۲۰۰۳ کو احمد آباد سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ یہ سفر ریاست گجرات کی نسبت سے ایک تاریخی موقع پر ہوا۔ اس سفر کی روداد یہاں درج کی جاتی ہے۔
موجودہ زمانہ اجتماعات اور کانفرنسوں کا زمانہ ہے۔ میرے ساتھ بار بار ایساہوتا ہے کہ ایک ہی تاریخ میں ایک سے زیادہ دعوت نامے موصول ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ کس کو لوں اور کس کو چھوڑ وں۔ میرا عمومی رجحان یہ ہے کہ میںمشن کے پہلو کو ترجیح دیتا ہوں۔ احمد آباد کا پروگرام ۲۶ جنوری کو تھا اور ۲۶ جنوری ہی کو دہلی میں ایک خصوصی پروگرام تھا۔ انہی تاریخوں میں ایران کے صدر سید محمد خاتمی دہلی آئے۔ ۲۶ جنوری کی شام کو ایرانی سفارت خانہ کی طرف سے ایران کلچرل ہاؤس میں اُن کا ریسیپشن تھا۔ سفیر ایران کی طرف سے مجھے یہ دعوت ملی کہ میں اس فنکشن میں شرکت کروں۔ مگر میں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر احمدآباد کے سفر کو ترجیح دی۔
اسی طرح دو ہفتہ پہلے اسی قسم کا ایک مسئلہ سامنے آیا۔ انجمن طلبائے قدیم مدرسۃ الاصلاح کی طرف سے دہلی (ہمدرد یونیورسٹی) میں ایک تعلیمی سیمینار رکھاگیا۔ اس سیمینار کی تاریخ ۱۲ جنوری ۲۰۰۳ تھی۔ عین اُسی زمانہ میں مجھے سعودی عرب کے سفارت خانہ(نئی دہلی) کی طرف سے ایک خط مورخہ ۷ شوال ۱۴۲۳ھ ملا۔ اس پر شیخ اُسامہ حسن جوہر (القائم بالأعمال) کا دستخط تھا۔ اس سلسلہ میں مجھے سعودی سفارت خانہ سے ٹیلی فون بھی موصول ہوا۔ اس میں مجھے دعوت دی گئی تھی کہ ریاض میں ہونے والے المہرجان الوطنی للتراث والثقافۃ میں شرکت کروں جو کہ وہاں ۸ جنوری سے شروع ہو کر ایک ہفتہ تک جاری رہنے والا تھا۔ وہاں خطاب کے لیے مجھے یہ موضوع دیا گیا تھا: ہذا ہو الاسلام۔
اس موقع پر بھی میں نے یہی کیا کہ سعودی عرب کا سفر ترک کرکے انجمن طلبائے قدیم مدرسۃ الاصلاح کے سیمینار میں شرکت کی۔ مدرسۃ الاصلاح میری مادر علمی ہے۔ اس کے علاوہ اس سیمینار میں جو موضوع تھا وہ ہندستان کے موجودہ حالات کے لحاظ سے بے حد اہم تھا۔ چنانچہ میںنے اس میں شرکت کی اور موضوع پر اپنے خیالات پیش کیے۔
میرے تعارفی حلقہ میں حال میں دو موتیں واقع ہوئیں۔ ۲۰ جنوری ۲۰۰۳ کو پروفیسر ضیاء الحسن ندوی کا دہلی میں انتقال ہوگیا۔ بوقت انتقال اُن کی عمر ۵۸ سال تھی۔ اس کے بعد ۲۳ جنوری ۲۰۰۳ کو ونگ کمانڈر یوسف خان صاحب کی اہلیہ کا انتقال ہوا۔ اُن کی عمر ابھی ۵۴ سال تھی۔
۲۴ جنوری کو ونگ کمانڈر یوسف خان صاحب کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر تعزیت کرنے والے لوگ جمع ہوئے۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ کچھ ہندو صاحبان بھی شامل تھے۔ میں نے موت کے بارہ میں اسلامی نقطۂ نظر کو بیان کیا۔
میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے: عجبت من قضاء اللہ للمؤمن ان امر المؤمن کلہ خیر ولیس ذالک الا للمؤمن ان اصابتہ سرّاء فشکر کان خیراً لہ وان اصابتہ ضرّاء فصبر کان خیراً لہ (مسند احمد ۶؍۱۵) یعنی مومن کے بارہ میں اللہ کے فیصلہ پر مجھے تعجب ہے۔ مومن کے ہر معاملہ میں خیر ہے۔ اور یہ مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں۔ اگر اُس کو خوشی پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے اور اگر اُس کو تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے پھر وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے۔
قرآن اور حدیث میں موت پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ موت پر صبر کرنا خیر کیوں ہے۔ اس قسم کا صبر در اصل خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) پر راضی ہونا ہے۔ جب ایک شخص کا قریبی عزیز مرجائے اور وہ اُس کو خدا کا فیصلہ سمجھ کر اُس پر صبر کرلے تو اُس کی قیمت اُس کو یہ ملے گی کہ بعد کو اپنے عزیز کے ساتھ اُس کو زیادہ بہتر مکان میں اکٹھا کردیا جائے۔ شرط یہ ہے کہ آدمی نے اپنے آپ کو خدا کے رجسٹر میں صابرکی حیثیت سے درج کروایا ہو۔
۲۵جنوری۲۰۰۳ کی شام کو مجھے احمدآباد پہنچنا تھا۔ اُسی دن سہ پہر کو دہلی میں ایک پروگرام تھا جو تروینی کلا کیندر میں منعقد کیاگیا تھا۔ اس سیمینار کا موضوع تھا: دین دیال اُپادھیائے، بحیثیت صحافی۔ سیمینار کے منتظمین کے اصرار پر مجھے اُس میں شرکت کرنا پڑا۔ اُنہوں نے کہا کہ وقت ہونے پر ہم آپ کو سیدھے ایر پورٹ پہنچا دیں گے۔ چنانچہ اس سیمینار میںتقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کے لیے شریک ہوا۔ یہ سیمینار آر ایس ایس کے گروپ نے منعقد کیا تھا۔
اس سیمینار کے مقررین میںسے ایک شری وید جی تھے۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کافی صاف گوئی سے کام لیا۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ آر ایس ایس کی پتریکارتا کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوچکی ہے۔ مگرآر ایس ایس کی پتریکارتا کبھی بھی دیش کی مکھیہ دھارا نہیں بنی۔ آر ایس ایس کے کسی بھی اخبار کی اشاعت ۵۰۔۶۰ ہزار سے زیادہ نہیں۔ جب کہ دوسرے اخبارات لاکھوںکی تعداد میں چھپتے ہیں اور عمومی طورپر پڑھے جاتے ہیں۔ بظاہر حالات میں آگے بھی زیادہ کی کوئی امید دکھائی نہیں دیتی۔
میںنے ایک صاحب سے کہا کہ آپ لوگ ہندوتوا کا ایجنڈا کیسے چلائیں گے۔ آج ڈیماکریسی کا زمانہ ہے۔ آج وہی ایجنڈا چل سکتا ہے جس کو زیادہ لوگوں کی تائید حاصل ہو۔ ایسی حالت میں آپ دیش میں جلسہ جلوس کی سیاست تو چلا سکتے ہیں مگر اپنے ایجنڈے کو عملًا دیش میں لاگو نہیں کرسکتے۔ اُنہوں نے میری بات کا انکار نہیںکیا۔
۲۵ جنوری کی سہ پہر کو ایر پورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ ہماری گاڑی کا ڈرائیور ایک ۲۶ سالہ راجپوت نوجوان تھا۔ وہ بہار کا رہنے والا تھا۔ اُس نے بتایا کہ آٹھویں کلاس میں میں فیل ہوگیا تھا۔ اُس کے بعد میںنے تعلیم چھوڑ دی۔ اب میں پچھتا تا ہوں ۔ کیوں کہ علم کے بغیر میںکوئی بڑی ترقی نہیں کرسکتا۔ نوجوانی کی عمر میں اکثر لوگ اس قسم کی غلطیاں کرتے ہیں اور پھر زندگی بھر اُن کو اس کا نتیجہ بھگتنا پڑتا ہے۔
میںنے پوچھا کہ وہ گاؤں چھوڑ کر دہلی کیوں آگیا۔ اُس نے کہا کہ گاؤں میں تو ہر روز لڑائی جھگڑا رہتا ہے۔ یہاں شہر میں شانتی ہے۔ دن بھر کماؤ اور رات کو سوجاؤ۔ میں نے سوچا کہ یہی وہ چیز ہے جس نے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے کہ گاؤں کی آبادی کم ہوگئی ہے اور شہر کی آبادی بڑھ گئی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں ٖکی طرح اگر گاؤں میں کام کے مواقع ہوتے تو کبھی یہ مسئلہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔
دہلی ایر پورٹ پرایک تعلیم یافتہ ہندو سے گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے کہا کہ یوگا صرف جسمانی ورزش نہیں ہے۔ یوگا روحانیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہے۔میں نے کہا کہ کیسے۔ اُنہوں نے کچھ جسمانی ورزشیں بتائیں۔ مثلاً آنکھ بند کرنا، خاص طریقہ سے سانس لینا، خاص طریقہ سے بیٹھنا، وغیرہ۔ میںنے کہا کہ جو طریقے آپ نے بتائے وہ سب جسمانی عمل ہیں۔ پھر جسمانی عمل سے روحانی ترقی کیسے ہوسکتی ہے۔
اس کے بعد اُنہوں نے کچھ اور باتیں بتائیں جس کا خلاصہ یہ تھا کہ خاموش ہو کر اپنی سوچ کے عمل کو روک دیا جائے۔ میں نے کہا کہ یہ بھی کم ازکم میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ کیوں کہ مسئلہ سوچ کے عمل کو روک کر اپنے آپ کو صفر کی حالت میں لے جانا نہیں ہے بلکہ خود سوچ کے عمل کو بیدار کرنا ہے۔ کیوں کہ آپ ہمیشہ صفر کی حالت میں نہیں رہ سکتے۔ آپ بہر حال کچھ دیر کے بعد صفر سے باہر آئیں گے اور پھر سوچ کا وہی معاملہ شروع ہوجائے گا جو صفر میں جانے سے پہلے تھا۔
اُنہوں نے کہا کہ یوگا کا یہی طریقہ کم وبیش تصوف میں بھی پایا جاتا ہے۔ پھر اُس کے بارہ میں آپ کیا کہیں گے۔ میں نے کہا کہ اس معاملہ میں تصوف پر بھی میرا وہی تبصرہ ہے جو یوگا پر ہے۔
جہاز دہلی سے احمد آباد کے لیے ٹھیک وقت پر روانہ ہوا۔ راستہ میں کئی اخبارات دیکھے۔ ایک اخبار میں بتایا گیا تھا کہ دہلی پریاگ راج ایکسپریس میں ۲۴ جنوری کو ایک حادثہ ہونے سے بچ گیا۔ خبر میں بتایا گیا تھا کہ میتھاکے قریب ٹرین کاایک ڈبّہ پٹری سے اُتر گیا۔ لیکن اسٹیشن ماسٹر غلام قادری کی حاضر دماغی کے باعث یہ حادثہ ٹل گیا۔ رات کے ایک بجے جب یہ ٹرین میتھا اسٹیشن سے گذر رہی تھی تو اسٹیشن ماسٹر نے اپنی فراست سے جان لیا کہ ٹرین کے ایک درمیانی ڈبّہ میں ایک ٹیکنیکل خرابی آگئی ہے۔ اس نے فوراً ریڈ سگنل فلیش کر دیا اور واکی ٹاکی کے ذریعہ ڈرائیور کو یہ پیغام دیا کہ وہ ٹرین کو فوراً روک دے۔ ڈرائیور نے تیزی سے بریک استعمال کرکے ٹرین کو روک کر اُس کو حادثہ سے بچا لیا۔ اس ٹرین میں مرکزی وزیر مسٹر مرلی منوہر جوشی بھی سفر کر رہے تھے۔
انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کا شمارہ ۲۵ جنوری ۲۰۰۳ دیکھا۔ اس میں مسٹر خوشونت سنگھ کا ہفتہ وار کالم شامل تھا۔ اُنہوںنے گاندھی کا گجرات نہیں(Not Gandhi's Gujarat) کے عنوان کے تحت لکھا تھا کہ اکثر لوگ اس مفروضہ میں جی رہے تھے کہ گجرات گاندھی کی ریاست ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ گجرات پر گاندھی کا کوئی اثر نہیں۔ جن سیوکوں نے اجودھیا کی بابری مسجد کو ڈھایا تھا اُن میں زیادہ تعداد گجرات کے نوجوانوں کی تھی۔ پھر یہی گجرات ہے جہاں مارچ ۲۰۰۲ میں بھیانک فرقہ وارانہ فساد ہوا۔ ایک گاندھین اسکالر نگین داس سنگھوی نے لکھا ہے کہ گاندھی اگر چہ گجرات کے تھے لیکن گجرات گاندھی کا نہیں تھا:
Though Gandhi did belong to Gujarat, Gujarat no longer belonged to Gandhi and probably never did.
اس آرٹیکل کاایک حصّہ رام کرشن ڈالمیا (۱۸۹۳۔ ۱۹۷۸) کے بارہ میں تھا۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ ڈالمیا جو برلا اور ٹاٹا کے بعد ہندستان کے سب سے بڑے صنعت کار تھے، اُن کی چھ بیویاں تھیں اور اُن سے اُن کے ۱۸ بچے تھے۔ اُن کی ایک لڑکی نیلما نے اپنی سوانح عمری میں ڈالمیا کی زندگی کے بہت سے دلچسپ پہلو بتائے ہیں۔ اس سوانح عمری کا ٹائٹل یہ ہے:
Neelima Adhar, Father Dearest.
پرواز کے دوران انڈین ایر لائنز کا فلائٹ میگزین سواگت (جنوری ۲۰۰۳) دیکھا۔ اُ س کے ایک مضمون کا عنوان تھا—ایک خواب جو پورا ہوگیا:
A Dream Comes True
مضمون نگار کا نام آدیتی بشنوئی تھا۔ اس مضمون میں ساگر اسکول کا ذکر تھا جو اَلور (راجستھان) میں قائم کیا گیا ہے۔ یہ ایک انگلش میڈیم اسکول ہے۔ اُس کے بانی ڈاکٹر ودّیا ساگر نے اسکول کے مقاصد بتاتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اچھے انسان بنائیں جو اس قابل ہوں کہ وہ زندگی کی ہر صورت حال سے نپٹ سکیں، آسانی کے ساتھ اور اعتماد کے ساتھ:
Our aim is to produce good human beings capable of tackling all situations in life with ease and confidence. (p. 88)
میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے یہ صفت بے حد ضروری ہے۔ دنیا میں ہر آدمی کو مختلف حالات سے گذرنا پڑتا ہے۔ ضرورت ہے کہ آدمی کے پاس ایک ایسا ماسٹر فارمولا ہو جو ہر صورت حال میں اُس کے کام آسکے۔ یہ ماسٹر فارمولا میرے نزدیک یہ ہے—ہر حال میں مثبت روش پر قائم رہیے :
Be always positive
ڈیڑھ گھنٹہ کی پرواز کے بعد جہاز احمد آباد کے ایرپورٹ پر اُترا۔ لینڈنگ ایسی تھی جیسے جہاز اچانک زمین پر گر پڑا ہو۔ جہاز کے پہیے خصوصی طورپر بہت مضبوط بنائے جاتے ہیں ورنہ وہ اس طرح کی لینڈنگ کا تحمل نہ کرسکیں۔
ایر پورٹ پر جوہر بھائی اور فرید بھائی، وغیرہ موجود تھے۔ اُن کے ساتھ روانہ ہو کر ہوٹل آرام پہنچا۔ یہاں کے کمرہ نمبر ۲۰۳ میں میرا قیام تھا۔
۲۵ جنوری کو ایر پورٹ سے محمد حسن جوہر صاحب کی کار پر شہر کے لیے روانگی ہوئی۔ پیچھے کی سیٹ پر میں اور جوہر صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور آگے ایک نوجوان گاڑی چلا رہا تھا۔ جوہر صاحب باربار ڈرائیور کو ’’بیٹے‘‘ کے لفظ سے خطاب کرتے تھے۔ بیٹے اِدھر سے چلو، بیٹے اس طرح گاڑی چلاؤ۔ جوہر صاحب کے اس انداز خطاب سے میں سمجھا کہ جونوجوان گاڑی چلا رہا ہے وہ جوہر صاحب کا صاحب زادہ ہے۔ مگر بعد کو معلوم ہوا کہ وہ ملازم تھا۔ اس ۲۴ سالہ ڈرائیور کا نام حیدر تھا۔ گجرات کے فساد میں وہ بے روز گار ہوگیا تھا۔ اس کے بعد جوہر صاحب نے اُس کو اپنے یہاں رکھ لیا۔
۲۵ جنوری کی شام کو جب میں ہوٹل آرام میں پہنچا تو وہاں میرا پہلا تجربہ بڑا انوکھا تھا۔ اس ہوٹل کے مالک علی بھائی جی ہیں۔ اُنہوں نے بتایا کہ گجرات کے فساد (مارچ ۲۰۰۲) میں یہ ہوٹل جلا دیا گیا تھا۔ مگر چار مہینہ کے اندر ہم نے اس کو دوبارہ بنا لیا۔ میں نے غور کیا تو وہاں ہوٹل کے جلائے جانے کا کوئی نشان مجھ کو نظر نہیں آیا۔ علی بھائی جی سے میںنے پوچھا کہ ہوٹل کو دوبارہ یہاں بناتے ہوئے کیا آپ کو ڈر نہیں لگا۔ اُنہوں نے فوراً کہا کہ نہیں صاحب، خدا جب ہمارے ساـتھ ہے تو ڈر کیسا۔
احمد آباد پہنچتے ہی یہ تجربہ جو مجھے ہوا وہ میرے لیے بڑا حوصلہ افزا تھا۔ احمد آباد میں اگر ایک طرف یہ مثال ہے کہ انسان پر جب نفرت کا دورہ پڑتاہے تو وہ کیسے بھیانک واقعات کرسکتا ہے۔ دوسری طرف اسی احمد آباد میں انسانی شخصیت کا یہ دوسرا پہلو بھی دکھائی دیتا ہے کہ انسان جب عزم کر لیتا ہے تو کوئی بھی حادثہ اُس کو زیر نہیں کر پاتا۔ ہر بار گرنے کے بعد وہ دوبارہ کھڑا ہوجاتا ہے۔ انسان کے سفر میں وقفہ تو آسکتا ہے مگر انسان کے سفر کو کبھی ہمیشہ کے لیے روکا نہیں جاسکتا۔
احمد آباد ریاست گجرات کا سب سے بڑا شہر ہے۔ وہ سابرمتی ندی کے کنارے واقع ہے۔ گجرات کے مسلم حکمراں سلطان احمد شاہ نے ۱۴۱۱ء میں احمد آباد کا شہر بسایا تھا۔ ۱۵۷۲ میں احمد آباد مغل شہنشاہ اکبر کے قبضہ میں آیا۔ ۱۸۱۸ میں وہ برٹش حکومت کے تحت آگیا۔ احمدآباد میں پہلی کاٹن مِل ۶۱۔۱۸۵۹ میں قائم کی گئی۔ اس وقت احمد آباد انڈیا کا ساتواں سب سے بڑا شہر ہے۔ احمدآباد عارضی طورپر ۱۹۶۰ میں گجرات کی راجدھانی بنا۔ ۱۹۷۰ میں ریاستی ایڈمنسٹریشن گاندھی نگر میں قائم کیا گیا۔ شہر کی تقریباً آدھی آبادی کا معاشی انحصار کاٹن انڈسٹری پر ہے۔
۲۵جنوری کی شام کا کھانا جوہر صاحب کی رہائش گاہ پر کھایا۔ جوہر صاحب نے گجرات کے فساد سے پہلے یہ طے کر لیا تھا کہ وہ نیوزی لینڈ جائیں گے اور وہاں سے اپنا کاروبار کریں گے۔ اُن کی اہلیہ ذکیّہ نیوزی لینڈ پہنچ چکی تھیں۔ اس درمیان میں گجرات کا فساد ہوگیا۔ جوہر صاحب کو اس سے سخت دھکّا لگا۔ اُنہوں نے سوچا کہ مظلوموں کو اس طرح چھوڑ کر میں کیسے نیوزی لینڈ جاسکتا ہوں۔ چنانچہ اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کم از کم فی الحال احمدآباد میں رہ کر اپنا کام کریں گے۔ اُن کی اہلیہ بھی نیوزی لینڈ سے واپس آگئیں۔ اب یہ لوگ پوری طرح انسانی خدمت اور سوشل سروس کا کام کررہے ہیں۔
یہاں کھانے کی میز پر سراج بھائی بھی موجود تھے۔ وہ بہت متحرک آدمی ہیں اور یہاں گجرات ٹوڈے کے نام سے گجراتی زبان میں ایک روزانہ اخبار نکالتے ہیں۔ اس اخبار کی اشاعت ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس اخبار کے پڑھنے والوں میں ۷۰ فیصد مسلم ہیں اور ۳۰ فیصد غیر مسلم ہیں۔ سراج بھائی چاہتے ہیں کہ گجرات ٹوڈے کو ایک تعمیری تحریک بنا دیں۔ وہ اُس میں ایسے مضامین اور رپورٹیں شائع کرنا چاہتے ہیں جو مسلمانوں کو تعمیر و ترقی پر اُبھارنے والے ہوں۔
پچھلے کچھ دنوں سے مسلمانوں میں سب سے زیادہ تذکرہ عراق اور گجرات کاہوتا ہے۔ دونوں ہی تذکرے منفی انداز میں ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے پاس شکایت اور احتجاج کے الفاظ کا ڈھیر ہے اور وہ ہر مجلس میں اور ہر جگہ اُن کو بکھیرتا رہتا ہے۔ مجھے اپنے تجربہ میں کوئی ایسا مسلمان نہیں ملا جو یہ کہے کہ آؤ، ہم اپنے مسائل کا حل قرآن میں دریافت کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو بہت جلد وہ دریافت کرتے کہ قرآن میںاس کی بابت یہ واضح آیت موجود ہے: وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم (الشوریٰ ۳۰)۔ یعنی اور جوپڑے تم پر کوئی سختی سووہ بدلا ہے اُس کا جو کمایا تمہارے ہاتھوں نے (ترجمہ شیخ الہند)
اس آیت کے تحت مولانا شبیر احمد عثمانی نے اپنی تفسیر میںلکھا ہے: بندوں کو جوکوئی سختی اور مصیبت پیش آئے اُس کا سبب قریب یا بعید بندوں ہی کے بعض اعمال و افعال ہوتے ہیں (صفحہ ۶۳۱)
قرآن کی ایک آیت کو بھلانے کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کو اپنے مسائل کے بارہ میں سوچنے کا صحیح نقطۂ آغاز ہی نہیں ملا۔ قرآن کے مطابق، سوچنے کا صحیح نقطۂ آغاز یہ تھا کہ مسلمان داخلی احتساب کو اس معاملہ میں اپنا نقطۂ آغاز بنائیں۔ مگر وہ برعکس طورپر خارجی شکایت و احتساب کو اپنا نقطۂ آغاز بنائے ہوئے ہیں۔ ایسی حالت میں یہی ممکن ہے کہ مسلمانوں کو نہ اپنے مسئلہ کی نوعیت معلوم ہو اور نہ اُس کا حقیقی حل۔
احمد آباد میں ایک سال پہلے بھیانک فساد ہوا تھا۔ موجودہ سفر میں مجھ کو بہت سے ایسے مسلمان ملے جنہوں نے اپنے گھر اور دُکان کو دکھایا۔ اُنہوں نے بتایا کہ یہ سب ایک سال پہلے جل چکے تھے۔ مگر آج دیکھئے تووہاں کھنڈر کے بجائے نئی تعمیر کا منظر دکھائی دیتا ہے۔ زندگی دوبارہ معمول پر آتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ انسان کے اندر خالق نے عجیب وغریب صفت رکھی ہے۔ انسان کے جسم میں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کا ایک خود کار نظام قائم ہے۔ یہی معاملہ انسانی ذہن کا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے زور پر بربادی کے بعد دوبارہ تعمیر کی لامحدود صلاحیت رکھتا ہے۔
میرے نزدیک گجرات کے حادثہ کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اس دنیا میں تخریب وقتی ہے اور تعمیر ابدی۔ کوئی شخص آپ کو وقتی یا جزئی طورپر نقصان پہنچا سکتا ہے مگر کوئی بھی اتنا طاقت ور نہیں کہ وہ فطرت کے قانون کو بدل سکے۔ ہر تخریب کے مقابلہ میں آخر کار فطرت کا قانون غالب آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں ہم بار بار دیکھتے ہیں کہ زندگی کا قافلہ وقتی ٹھہرا ؤکے بعد دوبارہ نئی طاقت کے ساتھ سرگرم سفر ہوگیا۔
گجرات کے سفر میں مجھے جو مسلمان بھی ملا، ہر ایک نے یہی کہاکہ گجرات کا فساد ایک منصوبہ بند فساد تھا، وہ سازش کے تحت کیا گیا۔ میں نے کہا کہ یہ سب ہمارے لکھنے اور بولنے والوں کی باتیںہیں جن کوآپ پڑھ کر یا سن کر دہرارہے ہیں۔ اس طرح کے معاملہ میں قرآن میں بھی ایک واضح بات لکھی ہوئی ہے۔ مگرآپ حضرات نے اُس پر غور نہیں کیا۔ اس لیے کہ آپ نے قرآن کو کتابِ تدبّر نہیں بنایا، آپ نے قرآن کو صرف کتابِ تلاوت بنانے کو کافی سمجھ لیا۔
میں نے کہا کہ قرآن میں واضح طورپر یہ آیت موجود ہے: وإن تصبروا و تتقوا لا یضرکم کیدہم شیئا (آل عمران ۱۲۰) یعنی اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو اُن کی کوئی بھی سازش تم کو کچھ بھی نقصان نہ پہنچائے گی۔ اس آیت سے واضح طورپر ثابت ہوتا ہے کہ اہل ایمان کے لیے اصل مسئلہ سازش کا ہونا نہیں ہے بلکہ صبر اور تقویٰ کا نہ ہونا ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر صبر اور تقویٰ کی صفت موجود ہے تو یہ صبرو تقویٰ ان کے لیے ہر سازش کے خلاف ایک چیک بن جائے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اگر کوئی مسلم گروہ کسی مخالف گروہ کی سازش کا نشانہ بنے تو یہ یقین کرنا چاہئے کہ صبر و تقویٰ کے نہ ہونے کی وجہ سے ایساہوا ہے۔ ایسے ہر حادثہ کے بعد تمام لکھنے اور بولنے والوں کو صبر اور تقویٰ کی اسپرٹ جگانے پر مصروف ہوجانا چاہئے، نہ یہ کہ وہ مفروضہ دشمنوں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم میں لگ جائیں۔
یہاں میری ملاقات جن لوگوں سے ہوئی اُن میں سے ایک محمد حسن جوہر صاحب تھے۔ اُن کے اندر میں نے استثنائی طورپر یہ صفت دیکھی کہ وہ اپنی بات چیت میں ہندو اور مسلمان کے درمیان تفریق اور امتیاز نہیں کرتے تھے۔ وہ ہر ایک کے لیے انسانی انداز میںکلام کرتے تھے۔ میںنے پوچھا کہ آپ کے اندر یہ سوچ کیسے آئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ اس کا ایک سبب یہ ہے کہ اُن کی ماں اس معاملہ میں انسانی مزاج رکھتی تھیں۔ وہ تفریق کی بولی کو ناپسند کرتی تھیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ نوجوانی کی عمر میں ایک بار اُن کے یہاں اسکول کا ایک طالب علم اُن سے ملنے کے لیے آیا۔ جب وہ چلاگیا تو میری ماں نے پوچھا کہ یہ کون تھا۔ میںنے کہا کہ یہ ایک ہندو لڑکا تھا جو میرے اسکول میں پڑھتا ہے۔ ماں نے فوراً کہا کہ میں نے لڑکے کا نام پوچھا تھا، میں نے لڑکے کا مذہب نہیں پوچھا تھا۔ اُنہوں نے کہا کہ والدہ کی اس طرح کی باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچپن ہی سے میرے اندر فرقہ وارانہ تعصّب کا مزاج ختم ہوگیا۔ میںہر ایک کو انسان کی نظر سے دیکھنے لگا، خواہ وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
ایک گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ کچھ لوگ ناسمجھی کے تحت میرے بارہ میں یہ کہتے ہیں کہ میں ہندوؤں کا کٹّر حامی ہوں۔ یہ بلا شبہہ ایک لغو بات ہے۔ کوئی بھی شخص جو دہلی میں میرے پاس آتا جاتا ہو یا میرے پاس رہتا ہو، اُس سے آپ پوچھیں تو یقینی طورپر وہ کہے گا کہ یہ میرے اوپر سراسر ایک غلط الزام ہے۔ میں نے کہا کہ کوئی شخص میرے نقطۂ نظر سے اختلاف کرسکتا ہے۔ نقطۂ نظر سے اختلاف کرنا عین جائز ہے۔ ہر مدرسہ میں درس حدیث کی کلاس میں علماء اور ائمہ کے خلاف کھل کر اظہار خیال کیا جاتا ہے مگر کوئی اُس کو غلط نہیںبتاتا۔ لیکن کسی شخص کو ہندوؤںکا حامی یا ایجنٹ بتانا کردار کشی کی بات ہے اور کردار کشی بلا شبہہ حرام ہے۔ کردار کشی ایک ایساجرم ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ معافی نہیں الّا یہ کہ آدمی کھلے طور پر اُس سے رجوع کرے۔
۲۶ جنوری کی صبح کو نماز فجر کے بعد میں ہوٹل سے باہر نکلا۔ جناب جوہر صاحب کے ساتھ ٹہلتے ہوئے ہم ٹیگور ہال کے علاقہ میں پہنچے اور اس کے پارک میں ٹہلنے لگے۔ یہاں کچھ لوگ ٹہلتے ہوئے دکھائی دیے۔ وہ میرے پاس آئیـ اور مجھ کو سلام کیا۔ معلوم ہوا کہ وہ الرسالہ کے قاری ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ ہم لوگ نماز فجر سے فراغت کے بعد یہاں ٹہلنے کے لیے آجاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ بہت اچھی عادت ہے۔ پھر میں نے اُنہیں ایک حدیث سنائی۔ اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں: من صلی الصبح فہو فی ذمۃ اللہ (صحیح مسلم کتاب المساجد، سنن الترمذی کتاب الصلاۃ، ابن ماجہ کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی جس نے صبح کی نماز پڑھ لی وہ اللہ کی ذمہ داری میں آگیا۔
اس حدیث میں نمازِ فجر کی ادائیگی کا جو فائدہ بتایا گیا ہے وہ کوئی پُر اسرار چیز نہیں۔ آپ غور کرکے اس فائدہ کو سمجھ سکتے ہیں۔ نماز ایک اعتبار سے خدا سے قربت تلاش کرنے کی کوشش ہے۔ دوسرے اعتبار سے وہ تنظیم اوقات (time management) کا ذریعہ ہے۔ پانچ نمازوں کی بروقت ادائیگی آپ کے اوقات کو منظّم کردیتی ہے۔ مثلاً صبح کی نماز وقت پر ادا کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ آپ صبح کو سویرے اُٹھ جاتے ہیں۔ وضو اور نماز ایک اعتبار سے صبح کی ہلکی ورزش ہے۔ پھر اس کی وجہ سے آپ کو یہ موقع مل جاتا ہے کہ آپ گھر سے باہر آکر ٹہل سکیں اور صبح کی آکسیجن لے سکیں۔ اسی طرح صبح کے وقت آپ کی ان سرگرمیوں کے درمیان دوسروں کے ساتھ آپ کا انٹر ایکشن ہوتا ہے۔ آپ سونے کے کمرے میں گھنٹوں تک پڑے رہنے کے بجائے باہر کی دنیا میں آتے ہیں اور اپنے ذہن کو وسیع کرتے ہیں، وغیرہ۔
۲۶جنوری کو صبح کا ناشتہ فرید بھائی کی رہائش گاہ پر تھا۔ یہاں اُن کے صاحب زادگان اور خاندان کے دوسرے لوگ موجود تھے۔ اُن سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک بات میں نے یہ کہی کہ آج کل نوجوانوں میں یہ رجحان ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرکے باہر جانا چاہتے ہیں۔ میں اس رجحان کو غلط سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک اپنا وطن چھوڑنا کسی اعلیٰ مقصد کے لیے تو ضرور درست ہے مگر صرف زیادہ کمائی کے لیے باہر جانا ہر گز درست نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ من کانت ہجرتہ الی اللہ ورسولہ فہجرتہ الی اللہ ورسولہ ومن کانت ہجرتہ الی دنیا یصیبہا، او الیٰ امرأۃٍ ینکحہا، فہجرتہ الی ما ہاجر الیہ ۔
ہجرت اسلام میں ایک بہت بابرکت عمل مانا گیا ہے۔ مگر اسلام کے مطابق، مطلوب ہجرت وہی ہے جو مقصد حق کے لیے کی گئی ہو۔ اس کے برعکس جو آدمی دنیا کو پانے کے لیے ہجرت کرے وہ ممکن ہے کہ دنیا کو پالے مگر وہ خدا کی رضا کو نہیں پاسکتا۔ اس حدیث میں واضح طورپر معاشی اور مادّی ہجرت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں ۔ اس کے اندر نہایت گہری حکمت چھپی ہوئی ہے۔ اس کاایک نمونہ پاکستان میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے قیام کے ابتدائی زمانہ میں وہاں بڑی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ جمع ہوگئے تھے۔ مگر جلد ہی بعد مادّی ترقی کے شوق میں لوگ پاکستان چھوڑ کر باہر کے ملکوں میں چلے گئے۔ یہی سب سے بڑا سبب ہے کہ پاکستان نصف صدی سے زیادہ مدت گذرنے کے باوجود اب تک ترقی یافتہ ملک نہ بن سکا۔
۲۶ جنوری کو ہوٹل آرام میں محمد حسن جوہر صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ وہ ایک انسان دوست اور درد مند شخص ہیں۔ اُن سے جو باتیں ہوئیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ میں نے کہا کہ آدمی کوآئیڈیل اور پریکٹیکل میں فرق کرنا چاہیے۔ میںنے پایا ہے کہ اکثر لوگ دونوں میں فرق کو شعوری طورپر نہیں جانتے ۔ اس لیے وہ کوئی بڑا کام نہیں کر پاتے۔
میں نے کہا کہ آپ اپنی ذات کے لیے آئیڈیل بن سکتے ہیں مگر جب آپ سماج میں آئیں اور دوسروں کے درمیان کام کریں تو لازمی طورپر آپ کو پریکٹیکل بنناپڑے گا۔ یہ زندگی کی حکمت ہے اور اس حکمت کے بغیر سماجی زندگی میں کوئی نتیجہ خیز کام کرناممکن نہیں۔
اکثر لوگ پریکٹیکل نہیں بن پاتے۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پریکٹیکل بننے کا مطلب اُصول پر سمجھوتہ کرنا ہے۔ حالاں کہ یہ ناسمجھی کی بات ہے۔ پریکٹیکل بننے کا مطلب اُصول پر سمجھوتہ کرنا نہیں ہے بلکہ اُصول کو قائم کرنے کے لیے عملی راستہ نکالنا ہے۔ یہ دراصل ایک عملی تدبیر ہے جو آپ کو غیر ضروری ٹکراؤ سے بچاتی ہے۔ یہ تدبیر آپ کی کوشش کو قابل بقا کوشش (sustainable effort) بنا دیتی ہے۔ یہ ایک حکمت ہے جو اس بات کی ضامن ہے کہ آپ غیر ضروری ٹکراؤ سے بچتے ہوئے اپنی کوشش کو مسلسل جاری رکھیں، یہاں تک کہ آپ اپنی منزل تک پہنچ جائیں۔
جوہر صاحب سے ایک اور موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی اور وہ کنفیوژن کا مسئلہ ہے۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں بے شمار تقریریں ہو رہی ہیں اور بے شمار تحریریں چھپ رہی ہیں۔ لیکن اگر جائزہ لیجئے تو ابھی تک لوگوں پر واضح نہیں کہ ہمارے لیے راہ عمل (line of action) کیا ہو۔ اس کا سبب کیاہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ لکھنے اور بولنے والے افراد خود کنفیوژن میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنی تقریروں اور تحریروں میں صرف اپنے کنفیوژن کو بکھیرتے ہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو کوئی واضح راہ عمل کیسے مل سکتی ہے۔
مثال کے طورپر فرقہ واریت(communalism) کے مسئلہ پر پچھلے سو برس میں بے شمار صفحات لکھے اور چھاپے گئے ہیں۔ مگر فرقہ واریت کو ختم کرنے میں وہ کچھ بھی کار آمد نہیں۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس موضوع پر لکھنے اور بولنے والے تقریباً تمام لوگ ’’انصاف‘‘ کی روشنی میںاس مسئلہ کا حل ڈھونڈھ رہے ہیں۔ حالانکہ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ یہ نہ دیکھا جائے کہ انصاف اور قانون کا تقاضا کیا ہے۔ بلکہ یہ دیکھا جائے کہ صورت موجودہ کی روشنی میں اُس کا عملی حل کیا ہوسکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس معاملہ میں آئیڈیلزم نہ چلایا جائے بلکہ پریکٹیکل بنیاد پر اُس کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہی ہے۔ مگر بدقسمتی سے اب تک کسی نے بھی اس اصلی حل کی طرف نشان دہی نہیں کی۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران میں نے دیکھا کہ وہ لمبی چوڑی باتیں کرتے ہیں۔ ساری دنیا کے مسائل کا حوالہ دیتے ہیں۔ تمام ملکی اور غیر ملکی معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ اپنے مشن کو بین اقوامی اصطلاحوں میں بیان کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ آپ کا یہ طریقہ صحیح نہیں۔ آپ کا فکری فوکس بہت پھیلا ہوا ہے۔ اس فوکس کو سمیٹیے ورنہ آپ اپنے آپ کو ضائع کردیں گے۔
میںنے کہا کہ سائنسی طرزِ فکر کی ایک شرط یہ ہے کہ آدمی غیر متعلق چیزوں کو حذف کرکے ایک پوائنٹ پر اپنے ذہن کو مرتکز کرسکے۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ مشہور واقعہ کے مطابق، نیوٹن نے دیکھا کہ ایک سیب شاخ سے ٹوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ اس واقعہ کے بہت سے پہلو تھے۔ مثلاً یہ کہ سیب کچّا ہے یا پکّا۔ اُس کو کسی گلہری نے توڑ کر گرایا ہے یا وہ اپنے آپ گر پڑا ہے۔ درخت کے دوسرے سیبوں کے مقابلہ میں اُس کا سائز چھوٹا ہے یا بڑا۔ وہ خراب ہے یا اچھا سیب ہے، وغیرہ۔ اس قسم کے مختلف سوالات کو چھوڑ کر اُس نے صرف ایک سوال پر سوچنا شروع کیا۔ وہ یہ کہ سیب شاخ سے ٹوٹ کر نیچے کیوں آیا، وہ اوپر کیوں نہیں چلا گیا۔ اسی ترکیزی فکر کی بنا پر یہ ممکن ہوا کہ نیوٹن قانونِ کشش کو دریافت کرے۔ اگر اُس کی سوچ مختلف چیزوں میںبکھر جاتی تو وہ کبھی یہ کامیابی حاصل نہیں کرسکتا تھا۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ جدید تعلیم یافتہ تھے۔ گفتگو کے دوران اُنہوں نے کہا—میں مذہب کی خدمت نہیں کرنا چاہتابلکہ میں انسان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ مذہب کے بارہ میں غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ آپ اہل مذاہب کے اندر رسوم و روایات کے ہنگاموں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہی مذہب ہے۔ حالاں کہ وہ سرے سے مذہب ہی نہیں۔ مذہب دراصل معرفتِ حق کا نام ہے اور جب کسی آدمی کو حقیقی معنوں میں حق کی معرفت حاصل ہوجائے تو اُس کے اندر لازمی طورپر انسان کے لیے خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوتاہے۔ اسی خیر خواہی کے عملی اظہار کا نام انسانی خدمت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب اور انسانی خدمت دونوں کے درمیان نہایت گہرا تعلق ہے۔ جہاں سچا مذہب ہو وہاں انسانی خدمت بھی ضرور ہوگی۔ دونوں کا ایک دوسرے سے جدا ہونا ممکن نہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ احمد آباد میں ۱۰ لاکھ مسلمان ہیں۔ مگر یہاں مسلمانوں کا نہ کوئی اچھا تعلیمی ادارہ ہے اور نہ ہی اُن کا کوئی قابل ذکر رفاہی ادارہ۔ اگر یہاں مسلمانوں کے تعلیمی اور رفاہی ادارے ہوتے تو ناممکن تھاکہ یہاں مسلمانوں کے خلاف فساد ہو۔
میںنے کہا کہ آپ کی بات بالکل درست ہے۔ اسلام کی ایک تعلیم یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں وہاں وہ دوسروں کے لیے نفع بخش بن کر رہیں۔ اسی کی منظم صورت کا نام رفاہی ادارہ ہے۔ رفاہی ادارہ اپنی اصل کے اعتبار سے انسانی خدمت ہے۔ مگر اسی کے ساـتھ اُس کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ جب سماج میں رفاہی کام کیے جائیں تو لوگوں کے اندر باہمی نفرت پرورش نہیں پائے گی۔ لوگ ایک دوسرے کو اپنا سمجھیں گے۔ لوگوں کے درمیان حُسنِ ظن کی نفسیات کو فروغ ملے گا۔ ایسے ماحول میںاپنے آپ باہمی لڑائی جھگڑے کی نفسیات ختم ہوتی رہتی ہے۔ لوگ ایک دوسرے کو اپنا دوست سمجھنے لگتے ہیں، نہ کہ اپنا دشمن۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں امن کو فروغ ملے گا، نہ کہ تشدد کو۔
احمد آباد میںایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک دینی جماعت سے وابستہ تھے۔ ان سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ گجرات کے فساد کے دوسرے پہلوؤں پر بہت بولا اور لکھا گیا ہے۔ مگر اس کاجو اہم ترین پہلو ہے اس پر ابھی تک نہ کوئی کچھ بولا اور نہ کسی نے کچھ لکھا۔
پھر میں نے کہا کہ گجرات ملک کی وہ ریاست ہے جس کے بارے میں برسوں سے کہا جاتا رہا ہے کہ یہاں دینی محنت کرنے والوں نے دین کی ہوائیں چلادی ہیں۔ یہاں کی مسجدیں اور مدرسے خوب آباد ہیں۔ یہاں مختلف قسم کی اسلامی سرگرمیاں بڑے پیمانہ پر جاری ہیں۔ مزید یہ کہ یہاں کے مسلمانوں نے معاشی اعتبار سے کافی ترقی کی ہے، مثال کے طورپر ہوٹل کی انڈسٹری میں۔ مگر ان سب کے باوجود گجرات میں ملک کا سب سے زیادہ بھیانک فسادہوا۔ یہ بات بہت زیادہ سوچنے کی ہے کہ دینی سرگرمیوں کے باوجود ایسا کیوں ہوا۔
میں نے اس سوال پر کافی غور کیا ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ’’دینی محنت‘‘ کے ساتھ ’’شعوری محنت‘‘ درکار ہے جو گجرات میںنہیں کی گئی۔ یہاں یہ ہوا کہ کچھ لوگ بزرگوں سے برکت لے کر اپنے کاروبار کو ترقی دینے لگے۔کچھ لوگوں نے مسجد اور مدرسے کی شاندار عمارتیں بنانے کو کام سمجھا۔ کچھ لوگوں نے نقل وحرکت کو سب سے بڑا دینی کام سمجھ لیا۔ کچھ لوگوں نے مختلف نام سے اسلامی ادارے بنا کر یہ سمجھا کہ انہوں نے اسلام کا جھنڈا گاڑ دیا ہے، وغیرہ۔
اس طرح گجرات کے مسلمان گجرات میں اپنا ایک دینی جزیرہ بنا کر اس کے اندر رہنے لگے۔ بطور خود انہوں نے سمجھ لیا کہ وہ ایک محفوظ ملّی قلعہ میں جی رہے ہیں۔ انہیں اس بات کی خبر نہ تھی کہ ان کے سوا جو اکثریتی فرقہ گجرات میں آباد ہے اس کی سوچ کیا ہے۔ ان لوگوں کے اندر کس قسم کے خیالات پرورش پارہے ہیں۔ اس بے خبری کا ایک نتیجہ وہ ہے جو ۲۸ فروری ۲۰۰۲ میں شروع ہونے والے فسادات کی صورت میں مسلمانوں کو ملا۔
اصل یہ ہے کہ ایک ہزار سال پہلے محمود غزنوی نے باہر سے آکر سومناتھ پر حملہ کیا۔ اس نے کئی حملے کئے اور یہاں کے مندر کوتوڑااور اس کو لُوٹا۔ یہ مندر ہزار سال تک کھنڈر کی صورت میں غزنوی حملہ کی یاد دلاتا رہا۔ یہاں تک کہ آزادی کے بعد نہرو گورنمنٹ نے وہاں ازسرِ نو مندر کی تعمیر کی۔دوسری غلطی یہ ہوئی کہ میرے علم کے مطابق، کسی بھی قابلِ ذکر مسلمان نے محمود غزنوی کے اس سراسر غیراسلامی واقعہ کی مذمت نہیںکی۔
اسی کے ساتھ ملّی تشخص کے انتہا پسندانہ مزاج کی بنا پر مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اختلاط (interaction) بھی عملاً نہ ہوسکا جو غلط فہمیوں کو دور کرنے کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ اس درمیان میں پاکستان نے اپنے میزائل کا نام غزنوی رکھ کر ایک بم کا کام کیا۔ یہ ساری ناموافق صورت حال مسلسل طورپر پرورش پاتی رہی۔ مگر مسلمانوں کے عوام و خواص اپنی بے شعوری کی بنا پر اس سے بے خبررہے۔
اسی ناموافق صورت حال کا پہلا اظہار ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو ہوا جب اجودھیا کی بابری مسجد ڈھائی گئی۔اس واقعہ میں شامل ہونے والے ہندو نوجوانوں کی بیشتر تعداد گجرات کے سیوکوں کی تھی۔ اس واقعہ پر مسلمانوں کو چوکنّاہوجانا چاہیے تھا مگر انہوں نے صرف برا بھلا کہنے کو کافی سمجھا۔ کسی بھی قابل ذکر مسلمان نے حالات کا گہرا تجزیہ کرکے مسلمانوں کو رہنمائی دینے کی کوشش نہ کی۔ ہندوؤں میں یہ لاوا مسلسل طورپر پکتا رہا اور گجرات یا غیر گجرات کے کسی بھی مسلمان کو اپنے غیر حقیقت پسندانہ ذہن کی بنا پر اس کی خبر نہ ہوسکی۔ یہی لاوہ ہے جو گجرات کے فساد (فروری۔مارچ ۲۰۰۲) کی صورت میں پھٹا۔
اب یہاں کے مسلمانوں کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر نظر ثانی کریں۔ مسلم خواص کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کے اندر بڑے پیمانہ پر شعوری بیداری کی مہم چلائیں۔ وہ ہندوؤں سے معتدل تعلقات قائم کریں۔ وہ یہاں صرف لینے والے گروہ (taker group) بن کر نہ رہیں بلکہ دینے والے گروہ (giver group) بن کر رہنے کی کوشش کریں۔ وہ غزنوی حملہ یا غزنوی میزائل جیسے واقعات کی کھلی مذمّت کریں۔ وہ اپنی اس سوچ کو ختم کریں کہ فلاں سیکولر ہندو ہے اور فلاں متعصب ہندو ہے۔ یا فلاں پارٹی مسلم دشمن ہے اور فلاں پارٹی مسلم دوست ہے۔ وہ ہر ایک کو انسان کی نظر سے دیکھیں۔ وہ ہر ایک کے ساتھ یکساں طورپر اختلاط (interaction) کریں۔ وہ منافقانہ طورپر نہیں بلکہ مخلصانہ طورپر برادران وطن کے ساتھ خوشگوارتعلقات بنائیں۔ یہی مسئلہ کا واحد حل ہے۔ دوسری کوئی بھی تدبیر اس مسئلہ کو ختم نہیں کرسکتی۔
ایک صاحب نے پاکستان کا ایک ماہنامہ دکھایا۔ اس میں لکھا ہوا تھا کہ—یہود اور ہنود اسلام کے ازلی دشمن ہیں۔ اسی پرچے میںعلامہ اقبال کی بہت زیادہ تعریف کی گئی تھی۔ میںنے کہا کہ جولوگ ایسا کہتے ہیں اُن سے پوچھنا چاہئے کہ آپ کے محبوب شاعر نے کہا ہے کہ:
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
اب سوال یہ ہے کہ اگر ہنود اور یہود اسلام کے دشمن ہیں تو اقبال کے مذکورہ بیان کے مطابق، مسلمان کو کس خانہ میں رکھا جائے گا۔
ایک صاحب نے ایکتا کارواں (جنوری ۲۰۰۳) کا ذکر کیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ ایکتاکارواں کے جلسہ میں شریک ہوئے تھے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہاں۔ میںنے پوچھا کہ وہاں کیا باتیں کہی گئیں۔ اُنہوں نے ایک مقرر کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ اُنہوں نے کہا کہ ہندستان کے مسلمان مایوس نہ ہوں۔ انڈیا میں اب بھی ایسے ہندو ہیں جو سیکولر ہیں، جو گاندھیائی ہیں۔
میںنے کہا کہ یہ کوئی بات نہیں جس کو کہنے کے لیے آل انڈیا ایکتا کارواں کا اہتمام کیا جائے۔ میں نے کہا کہ شخصیتوں کے اوپر زندگی کی تعمیر نہیں ہوتی۔ شخصیتیں آج ہیں اور کل نہیں۔ جیسا کہ گاندھی اور نہرو پہلے تھے مگر آج وہ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ تم خود اپنے اندر یہ صلاحیت پیدا کرو کہ تم خود اپنی صلاحیت کے بل پر کھڑے ہوسکو۔ تم خود اپنی صلاحیت کے بل پر اپنی جگہ بناؤ۔ تم اپنی اعلیٰ کار کر دگی کے ذریعہ ملک کی ضرورت بن جاؤ اور پھر ہر مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
احمد آباد کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے کہا کہ میں نے اپنے تجربہ سے سمجھا ہے کہ مسلمانوں میںاعتراف کا مادّہ نہیں۔ مسلمان خود غلطی کرکے حالات کو بگاڑتے ہیں اور پھر جب اُس کا برا نتیجہ سامنے آتا ہے تو وہ ایسا نہیں کرتے کہ اپنی غلطی کو مان لیں۔ میرے نزدیک غلطی پر پردہ ڈالنا غلطی پر ایک اور غلطی کا اضافہ ہے۔ غلطی کو مان لینا اس بات کی ضمانت ہے کہ آدمی دوبارہ وہ غلطی نہیں کرے گا۔ چونکہ مسلمان اپنی غلطی نہیں مانتے اس لیے وہ بار بار اُسی غلطی کو دہراتے رہتے ہیں۔
احمد آباد کی سڑکوں اور اُس کے مختلف علاقوں سے گذرتے ہوئے میںنے ایک صاحب سے کہا کہ احمد آباد میں شہری ترقی زیادہ نہیں ہوئی۔ حالاں کہ احمد آباد ایک دولت مند شہر مانا جاتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے یہاں پولیٹکل لیڈر زیادہ تر منفی ذہن کے ہوئے، مثبت ذہن کا کوئی لیڈر یہاں نہیں اُبھرا۔ جیسا کہ حیدر آباد میںچندرا بابو نائیڈو کی مثال میں نظر آتاہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مثال کے طورپر احمد آباد کے سیاسی لوگ اتنے بے شعور تھے کہ اُنہوں نے پچھلے فساد کے موقع پر یہاں کے بہت سے ہوٹل جلا دیے۔ جب کہ چندرا بابو نائیڈو نے ان لوگوں کو آندھرا پردیش میں بلا کر وہاں جگہ دی تا کہ وہاں ٹورزم کو ترقی ہو۔
احمد آباد میںکچھ مسلمانوں نے فساد کے حوالہ سے بربادی کی کہانی بیان کی اور کچھ لوگوں نے یہ بتایا کہ فساد کے بعد کافی نئی تعمیرات ہوئی ہیں۔ میں نے کہا کہ مشہور قصّہ کے مطابق، میز پر شیشہ کا ایک گلاس رکھا ہوا تھا۔ اس میں آدھا گلاس پانی تھا۔ جب اُس کے بارہ میں پوچھا گیا تو کسی نے کہا کہ آدھا گلاس بھرا ہوا ہے اور کسی نے کہا کہ آدھا گلاس خالی ہے۔ یہی فرق مجھے مذکورہ لوگوں میں نظر آیا۔
مسلمانوں کی ایک مجلس میں میں نے کہا کہ قوموں کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز قوموں کا مزاج ہوتا ہے۔ قومی مزاج اگر صبر اور احتیاط اور حقیقت پسندی اور اعتراف کا ہو تو ہر موقع پر خود بخود لوگ صحیح روش اختیار کر لیتے ہیں۔ اس کے برعکس اگرجوش اور اشتعال اور لڑنے بھڑنے جیسا مزاج ہو تو ہر موقع پر اُن کی روش غلط ہو جاتی ہے۔ پھر میں نے کہا کہ یہ قومی مزاج قوم کے بڑے لوگ بناتے ہیں۔ بد قسمتی سے بر صغیر ہند میں پچھلے دو سو سال کے درمیان جو رہنما اُٹھے وہ زیادہ تر ایسے لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کو جذباتی طورپر اُبھارا۔ اُنہیں غیر دانش مندانہ اقدامات کی طرف چلایا۔ اس سے قومی مزاج بگڑ گیا۔
یہی معاملہ اکثر دوسرے لیڈروں کا بھی ہے۔ مثلاً مہاتما گاندھی نے ہندستانیوں کو تشدد سے روکا مگر اسی کے ساتھ اُنہوں نے ’’سیاسی حقوق‘‘ کے نام پر جو تحریک اُٹھائی اُس نے پوری قوم کو رائٹ کانشش (right conscious) بنا دیا، جب کہ صحیح یہ تھا کہ لوگوں کو ڈیوٹی کانشش(duty conscious) بنا یا جائے۔ اسی طرح ساؤتھ افریقہ میںنیلسن منڈیلا نے اگر چہ لوگوں کو تشدد سے روکا مگر اسی کے ساتھ اُنہوں نے سفید فام لوگوں کے خلاف افریقی عوام کو بھڑکایا۔ اس غلط مزاج کا نتیجہ آزادی کے بعد یہ نکلا کہ ساؤتھ افریقہ میں سماجی جھگڑے بہت زیادہ بڑھ گئے جو اب تک جاری ہیں۔
ایک صاحب نے اقبال کے کچھ اشعار پڑھے اور کہا کہ ایک وقت تھاکہ مسلمان یہاں غالب حیثیت رکھتے تھے۔ اب مسلمان یہاں مغلوب بنے ہوئے ہیں۔ میںنے کہا کہ غالب حیثیت اور مغلوب حیثیت کی یہ تقسیم بذات خود غلط ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کے مسلمان ہر جگہ پہلے کے مقابلہ میںہر اعتبار سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ اُس وقت میں اُن کے گھر میںبیٹھا ہوا تھا۔ پختہ گھر، جدید فرنیچر، ٹیلی فون، گھر کے سامنے کار، وغیرہ۔
میں نے کہا کہ یہ زندگی جو آج آپ کو حاصل ہے وہ نام نہاد غالب دور میں کسی بھی مسلمان کو حاصل نہ تھی۔ اُس زمانہ میںکسی کے پاس نہ ایسا مکان تھا، نہ ایسا فرنیچر، نہ ایسی سواری اور نہ اس قسم کے پُرراحت سامان۔ ایسی حالت میں آپ لوگوں کے لیے شکر کا موقع ہے، نہ کہ غم کا موقع۔ میںنے کہا کہ مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کی غلط رہنمائی کرکے غیر ضروری طورپر اُنہیں احساس پس ماندگی میں مبتلا کردیا ہے۔
ایک مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک مغل شہزادی کا آئینہ اُس کی کنیز کے ہاتھ سے گر کر ٹوٹ گیا۔ کنیز نے احساس ندامت کے ساتھ کہا:
از قضا آئینۂ چینی شکست
شہزادی کو جب یہ واقعہ معلوم ہوا اور اُس نے کنیز کی زبان سے مذکورہ الفاظ سنے تو اُس نے اس مصرعہ پر دوسرا مصرعہ لگاتے ہوئے اس طرح کہا:
خوب شُد اسباب خود بینی شکست
یہ چار سو سال پہلے کی بات ہے جب کہ آئینہ صرف چین میں بنتا تھا اور دیر طلب دست کاری کی بنا پر بہت کم تعداد میں اور بہت مہنگی قیمت پر حاصل ہوتا تھا۔ مگر اب صنعتی دور میں حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ اگر کسی گھر میں آئینہ ٹوٹ جائے تو وہ نہایت آسانی کے ساتھ بازار سے دوسرا آئینہسستی قیمت پر حاصل کرلیتا ہے۔ گویا کہ اب آئینہ کے بارہ میں وہ بات واقعہ بن چکی ہے جو غالب نے اپنے مٹی کے پیالہ کے بارہ میں کہی تھی:
اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا جام جم سے یہ مرا جامِ سفال اچھا ہے
اس غلط رہنمائی کے نتیجہ میں مسلمانوں سے سب سے بڑی چیز جو کھوئی گئی وہ شکر خداوندی ہے۔ مثال کے طورپر قدیم زمانہ میں کسی بھی بادشاہ یا نواب کو دھوئیں کے بغیر روشنی حاصل نہ تھی۔ کیوں کہ اُس زمانہ میں روشنی تیل کو جلا کر حاصل کی جاتی تھی۔ یہ صرف موجودہ زمانہ میں ممکن ہوا ہے کہ بجلی کی صورت میں دھوئیں کے بغیر ہر گھر کو روشن کیا جاسکے۔ اس قسم کی ہزاروں باتیں ہیں جو ایک انسان کے دل کو شکر کے جذبہ سے بھر دیں مگر غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان شکر جیسی قیمتی چیز سے محروم ہوگئے۔
احمد آباد کی سابق خاتون میئر بھاؤنابن دیو(Bahwnaben Deve) سے ملاقات ہوئی۔ (Tel: 079-7546070, 7546080) ۔ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اُن سے گجرات کے حالات پر گفتگو ہوئی۔ گفتگو سے اندازہ ہوا کہ یہ لوگ پروہندو تو توکہے جاسکتے ہیں مگر اُنہیں اینٹی مسلم کہنا درست نہیں۔ اُن کی سرگرمیوں کا نشانہ ہندو قوم کااحیاء ہے، نہ کہ مسلم قوم کا خاتمہ۔ میرے نزدیک اصل کام یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارہ میں اُن کے اندر جو غلط فہمیاں ہیں اُن کو دور کیا جائے۔ میرا بار بار کا تجربہ ہے کہ غلط فہمیوں کو دور کرنے کے بعد وہی شخص ایک معتدل انسان بن جاتا ہے جو اس سے پہلے بظاہر دشمن نظرآتا تھا۔
یہی معاملہ دوسری قوموں کا بھی ہے۔ مثلاً امریکی حکومت پر وامریکہ ہے، نہ کہ اینٹی مسلم۔ مگر اس فرق کو نہ سمجھنے کی وجہ سے مسلمان غیر ضروری طورپر دوسروں کو اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں اور پھر اس کی مہنگی قیمت ادا کرتے ہیں۔ حالاں کہ خود مسلمانوں کا یا اُن کی جماعتوں کا حال یہی ہے۔ ہر ایک پروخویش ہے، نہ کہ اینٹی غیر۔
۲۶جنوری کی شام کو ایک صاحب میرے ہوٹل کے کمرہ میںآئے۔ یہ مسٹر وقار صدیقی (Tel. 5358734) تھے۔ اُن کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا۔ اس میں الرسالہ کے تمام شمارے، نمبر ایک سے لے کراب تک کے موجود تھے۔ اُنہوں نے بتایا کہ الرسالہ میری فکری غذا ہے۔ ایک بار مجھے لائبریری میںالرسالہ کا ایک شمارہ پڑھنے کو ملا۔ وہ مجھے اتنا زیادہ پسند آیا کہ میں نے الرسالہ کے تمام شمارے اکٹھا کیے او راُن کی سال بہ سال جلد بندی کروائی۔ اُنہوں نے کہا کہ میرا ارادہ ہے کہ میں الرسالہ کی ان جلدوں کو کسی باقاعدہ لائبریری میں دے دوں تاکہ وہ مستقل طورپر محفوظ رہیں۔
۲۶ جنوری کی شام کو احمد آباد کے مہدی نواز جنگ ہال میں عمومی جلسہ تھا۔ اس میں احمد آباد کے تعلیم یافتہ مسلمان شریک ہوئے۔ ابتدائی کارروائی کے بعد میں نے ایک مفصّل تقریر کی۔ میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام میں مایوسی کو کفر بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام امید کا دین ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ عُسر میں بھی یُسر کو دیکھو۔ قرآن میں فطرت کا یہ قانون بتایا گیاہے کہ —کتنی ہی اقلیتیں کتنی ہی اکثریتوں پر غالب آتی ہیں، اللہ کی اذن سے۔ (البقرہ ۲۴۹)
میں نے کہا کہ اس آیت میں فطرت کا ایک اہم قانون بتایا گیا ہے۔ یہ قانون جدید تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ جب کسی خطّہ میںایک گروہ اقلیت میںہو اور دوسرا گروہ اکثریت میں تو خود فطرت کے قانون کے تحت، ایسا ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان چیلینج اور مسابقت کی صورت حال پیش آتی ہے۔ اس صورت حال کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اکثریت دن بدن غیر تخلیقی اکثریت (un-creative majority) بننے لگتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اقلیت تخلیقی اقلیت (creative minority) بنتی چلی جاتی ہے۔ یہ عمل(process) جب اپنی تکمیل تک پہنچتا ہے تو وہ واقعہ ظہور میںآتا ہے جس کو مذکورہ قرآنی آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
اس تقریر میں میں نے جو باتیں کہیں اُن میں سے ایک یہ تھی کہ آپ دوسری قوم کے لوگوں کو کافر نہ کہیں، بلکہ انسان کہیں اور دل سے اُنہیں اپنے جیسا انسان سمجھیں۔ اس طرح آپ کے اور دوسروں کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوں گے جوآپ کے دین کے لیے بھی مفید ہوں گے اور دنیا کے لیے بھی۔
۲۶ جنوری کی شام کو احمد آباد میں میری تقریر ہورہی تھی۔ درمیان میں سامعین میں سے کسی صاحب کے موبائل ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ جوہر صاحب نے مائک پر آکر کہا کہ یہاں اتنی سنجیدہ بات ہورہی ہے، آپ لوگ اپنے موبائل بند کرلیں۔میں نے اپنی تقریر روک کر کہا کہ موبائل ٹیلی فون ایک مفید چیز ہے مگر جس کثرت سے اُس کا استعمال ہورہا ہے وہ ایک مصیبت ہے۔ کیوں کہ وہ ایک خلل اندازی (distraction) کے ہم معنٰی بن گیا ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اعلیٰ حقیقتوں پر غور کرے تاکہ اُس کے اندر ذہنی ارتقاء کا عمل برابر جاری رہے۔ مگر موبائل ٹیلی فون اور اس طرح کی دوسری چیزیں ذہنی اور فکری ارتقاء میں ایک مستقل رکاوٹ بن گئی ہیں۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ ایک ہیومنسٹ ہیں۔ اُن کا مذہب ہیومنیزم ہے۔ میں نے کہاکہ ہیومنیزم سادہ طور پر انسانیت کے معنٰی میں نہیں ہے ۔ وہ خدا رخی (God oriented) سوچ کا نام نہیں۔ وہ در اصل انسان رخی (man-oriented) سوچ کا نام ہے۔ کسی نے درست طور پرہیومنزم کے بارے میں کہا ہے —گاڈ سے انسان کی طرف سیٹ کا منتقل ہونا:
transfer of seat from God to man
میںنے کہا کہ ہیومنیزم کا یہ فلسفہ محض خیالی ہے۔ یہ خوبصورت لفظ کے سوا اور کچھ نہیں۔ اصل یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں نہایت گہرائی کے ساتھ اپنے سے بڑے کا تصور موجود ہے۔ وہ فطری طور پر اس بڑے کو پاکر اُس کا پرستار بننا چاہتا ہے۔ اب جو لوگ نہ دکھائی دینے والے خدا کو اپنا خدا نہیں بنا پاتے وہ کسی نہ کسی دکھائی دینے والی چیز کو اپنا خدا بنا لیتے ہیں۔ قدیم زمانہ میںانسان سورج اور چاند جیسی نمایاں چیزوں کو خدا مان کر اُس کی پرستش کرتا رہا۔ موجودہ سائنسی زمانہ میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس قسم کے فطری مظاہر محض مخلوق ہیں، وہ اپنے اندر خدائی صفات نہیں رکھتے۔
اس دریافت کے بعد مظاہر فطرت کی پرستش کا دور ختم ہوگیا۔ مگر جلد ہی انسان نے انسان پرستی (Humanism) کانظریہ وضع کرلیا۔ حالانکہ یہ ایک بے معنٰی بات ہے۔ یہ گویا عابد کو معبود بنانا ہے یا اپنے آپ کو خدا کا درجہ دینا ہے۔ عملی طورپرایسا ہونا ممکن نہیں۔
خدا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ ایک برتر خدا (supreme God) انسانی فطرت کا لازمی تقاضا ہے— ایک ایسا خدا جس میں تخلیق کے واقعہ کی توجیہہ ملتی ہو۔ جس کو انسان اپنا قیّوم(sustainer) سمجھ سکے۔ جو اُس کے لیے مشکل وقتوں میں کرائسس مینیجمنٹ (crisis management) کا ذریعہ ہو۔ جو انعام دینے اور سزا دینے کا اختیار رکھتا ہو۔ جو ہر اعتبار سے انسان کی اپنی ذات سے بُلند ہو۔ اس قسم کی سُپریم ہستی صرف خدا کی ہوسکتی ہے۔ ایک انسان کے لیے دوسرا انسان سُپریم نہیں بن سکتا۔ اس لیے ہیومینزم کو مذہب کا بدل بنانا ممکن نہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ میںآپ کی تحریروں کا فین (fan) ہوں۔ میںنے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگ اس قسم کے الفاظ بولتے ہیں مگر یہ صرف کہنے کی ایک بات ہوتی ہے۔ حقیقت میں وہ فین کسی اور چیز کے ہوتے ہیں۔ میںنے کہا کہ دہلی میں ایک تعلیم یافتہ مسلم خاتون ملنے کے لیے ہمارے دفتر میںآئیں۔ ان کے بھائی نے ٹیلی فون پر بتایا تھا کہ وہ آپ کی تحریروں کی فین ہیں۔ وہ ہمارے دفتر میں بیٹھی ہوئی تھیں اور ان سے خدا اور آخرت کی بات ہورہی تھی۔ اچانک ان کے موبائیل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ انہوں نے موبائل اپنے کان سے لگایا اور کہا: ’’اچھا بیٹا، میںآرہی ہوں‘‘۔ اس کے بعد وہ فوراً اٹھ گئیں اور میری بات مکمل ہونے سے پہلے اپنے بیٹے سے ملنے کے لیے روانہ ہو گئیں جو دہلی میں کسی مقام پر ان کا انتظار کر رہے تھے۔
میرے تجربے کے مطابق، تقریباً ہر مرد اور عورت کا یہی حال ہے۔ ہر ایک اپنے مادی انٹرسٹ کا فین ہے اور فرضی طورپر کہتا ہے کہ میں سچائی کا فین ہوں۔
میں بچپن سے یہ سنتا اور پڑھتا رہاہوں کہ ماں محبت کی علامت ہے۔ یہ بات ساری دنیا کے لٹریچر میںہزاروں سال سے دہرائی جاتی رہی ہے۔ مگر یہ سراسر بے بنیاد ہے۔ بہت بعد کو میں نے یہ دریافت کیا کہ ماں بیٹا پرستی کی علامت ہے، نہ کہ محبت کی علامت۔ جب مجھے یہ دریافت ہوئی تو میری زبان سے نکلا:
کتنا غلط یہ حرف بھی مشہور ہو گیا
دہلی میں ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ بی بی سی لندن میںکرسپانڈنٹ ہیں۔ ان کا نام اگر چہ مسلمان جیسا ہے مگر وہ کھلے طور پر کہتے ہیں کہ میں خدا، مذہب، قرآن کسی چیز کو نہیں مانتا۔ ایک بار انہوں نے گفتگو کے دوران کہا کہ آپ تو ایک مذہبی انسان ہیں۔ آپ یقینا مجھ سے نفرت کرتے ہوں گے۔ میںنے کہا کہ ہر گز نہیں، بلکہ میں آپ کی قدر کرتاہوں۔ انہوں نے تعجب کے ساتھ کہا کہ وہ کس لیے۔ میں نے کہا کہ آپ میں یہ صفت ہے کہ آپ منافق نہیں ہیں۔ جب کہ آج کی دنیا میں ایک صاحب کے بقول، ایک لاکھ میں ۹۹۹۹۹ لوگ منافق ہیں۔
اُنہوں نے ایک ملاقات میں کہا کہ میری شادی ہوچکی ہے مگر ابھی میرے یہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا۔ جب میرے یہاں بچہ پیدا ہوگا تو میں اس کے کان میںمسلم روایت کے مطابق، اذان نہیں دلواؤں گا بلکہ کسی پروفیسر کو بلاؤں گا جو اُس کے کان میں یہ کہے گا—ڈیموکریسی، ڈیموکریسی، ڈیموکریسی۔
گجرات کے ایک ہندو نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ اُس کے ذہن میں عجیب و غریب خیالات بھرے ہوئے تھے۔ اُس نے کہا کہ بھارت کا ہر مسلمان چار شادی کرتا ہے اور اٹھارہ بچّے پیدا کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان بھارت کو بھی پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔ اُس نے کہا کہ مسلمان اتنے زیادہ پرو پاکستانی ہیں کہ اُنہوں نے اپنی آبادی کے بیچ میں ہیلی پیڈ بنا لیا تاکہ وہاں پاکستان کا ہیلی کاپٹر اتر سکے۔
اُس کی اس طرح کی باتوں کو سُن کر مجھے ہنسی آگئی۔ میں نے پوچھا کہ کیا آپ کسی ایسے مسلمان کا پتا بتا سکتے ہیں جس کے یہاں چار بیویاں اور اٹھارہ بچے ہوں۔ اُس نے کہا کہ اُسامہ بن لادن کو دیکھئے۔ میں نے کہا کہ اُسامہ بن لادن کی بات ہم بعد کو کریں گے۔ ابھی تو آپ یہ بتائیے کہ بھارت کا کون سا مسلمان ہے جس کے گھر میں چار بیویاں اور اٹھارہ بچے ہوں۔ وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ پھر میں نے پوچھا کہ وہ کون سا مسلم محلہ ہے جہاں مسلمانوں نے اپنا ہیلی پیڈ بنا رکھا ہے۔ ابھی ہم اور آپ چل کر وہاں اُس کو دیکھیں گے۔ مگر اس کا بھی اُس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔
پھر میںنے کہا کہ اس طرح کی افواہی باتوں سے آپ کسی دوسرے کا نقصان نہیں کررہے ہیں بلکہ خود اپنا نقصان کررہے ہیں۔ اس دنیا میں ترقی کرنے کے لیے سائنٹفک ذہن چاہئے۔ افواہی ذہن کبھی کوئی ترقی نہیں کرسکتا۔
ایک ہندو لیڈر کی تقریر سنی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا—گاندھی ہمارے دور کا ماؤنٹ ایورسٹ تھا۔ اُس نے وقت کی سب سے بڑی طاقت کو للکارا۔ اس نے ہر چھوٹے آدمی کواتنی ہمت دی کہ وہ انگریزی ایمپائر کے مقابلہ میں کھڑا ہوگیا۔ اُس نے مٹی سے انسان بنا دیا:
He made man out of clay.
اپنی شخصیتوں کی مبالغہ آمیز قصیدہ خوانی کا یہ طریقہ مسلمانوں میں بھی اسی طرح رائج ہے۔ ہر گروہ بڑھ چڑھ کر اپنی شخصیتوں کی پُر عظمت تصویر دکھارہا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اگر ہمارے یہاں اتنی بڑی بڑی شخصیتیں پیدا ہوئیں تو جو لوگ اُن کے اثر میںآئے وہ بڑے کیوں نہ بن سکے۔ پچھلے سو برس میں بر صغیر ہند میں، لوگوں کے بیان کے مطابق، ہمالیائی شخصیتیں پیدا ہوئیں مگر ملک اور قوم کو ہمالیائی مقام حاصل نہ ہوسکا۔
مسٹر امیت مکھرجی احمد آباد کے انگریزی اور گجراتی اخباروں میںلکھتے رہتے ہیں۔ اُنہوں نے تفصیلی انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ مسلمان بھی اُسی طرح مین اسٹریم میں ہیں جس طرح ہندو مین اسٹریم میںہیں۔ اس اعتبار سے دونوں گروہوں میںکوئی فرق نہیں۔ مسلمان کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے ناعاقبت اندیش رہنماؤں نے اُنہیں جذباتی بنادیا۔اصل ضرورت یہ ہے کہ اُن کی جذباتیت کو ختم کیا جائے۔ ایک اور سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ آزادی سے پہلے زرعی دور میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان روزانہ انٹرایکشن ہوتا تھا مگر اب صنعتی دور میں یہ انٹر ایکشن بہت کم ہوگیا۔ اس کمی کو دور کرنے کی صرف ایک صورت ہے اور وہ یہ کہ مسلمانوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ بڑھایا جائے۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ ہندستان میں بد قسمتی سے دانش مند رہنما پیدا نہیںہوئے۔ یہی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کااصل مسئلہ ہے، نہ کہ وہ مفروضہ مسائل جن کا مسلمانوں کے درمیان اکثر چرچا ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً بار بار یہ ہوا کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے۔ اب نا اہل لیڈروں نے اُس کو لے کر یہ مانگ شروع کر دی کہ ایسا واقعہ نہ کرو جس سے مسلمانوںکے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ اس کے بعد جلسوں اور تقریروں کاطوفان شروع ہوگیا۔ حالانکہ صحیح رہنمائی یہ تھی کہ وہ کہتے کہ جذبات کا مجروح ہونا بجائے خود ایک قابلِ اصلاح چیز ہے۔ موجودہ دنیا آزادی اور مسابقت کی دنیا ہے۔ یہاںتو جذبات بار بار مجروح ہوں گے۔
ایسی حالت میں کرنے کا کام ایجی ٹیشن نہیں ہے، بلکہ ایوائیڈنس ہے۔ اگر مسلمانوں کے اندر یہ سوچ پیدا کی گئی ہوتی کہ زندگی میں بہت سی ایسی چیزیں ہوتی ہیں جن کا حل صرف یہ ہے کہ اُن کو ایوائڈ کیا جائے یا نظر انداز کردیا جائے۔ اگر مسلمانوں میں یہ مزاج بنایا جاتا تو مسلمان اُن بے شمار نقصانات سے بچ جاتے جو صرف اس لیے پیش آئے کہ مسلمانوں نے غلط رہنمائی کے نتیجہ میں غیر ضروری رد عمل کا طریقہ اختیار کیا اور پھر اُنہیں اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔
محمد حسن جوہر صاحب کے گھر پر کچھ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی۔ مسٹر چونی اور مسٹر ویدیا، وغیرہ۔ اُن کا ایک سوال یہ تھا کہ خدا کا تصور اسلام میں کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میںادوئت واد کا تصور نہیں ہے۔ بلکہ اسلام میں دوئت واد کا تصور ہے، یعنی خالق اورمخلوق دونوں ایک نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے سے مکمل طورپر الگ ہیں۔ اس سلسلہ میں میںنے توحید کے عقیدہ کی کچھ تفصیل بیان کی۔
ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ لوگ قرآن کو آخری کتاب مانتے ہیں جو کہ چودہ سو سال پہلے اُتاری گئی۔ انسان کے حالات تو بار بار بدلتے رہتے ہیں۔ پھر بدلے ہوئے حالات میں دوسری کتاب کیوں ضروری نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ اس عقیدہ سے تو ذہنی ارتقاء رک جاتا ہے جب کہ ہندو ازم میںایسا عقیدہ نہ ہونے کی وجہ سے ذہنی ارتقاء جاری رہتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ صحیح ہے کہ ہم قرآن کو آخری کتاب مانتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ اسلام کی ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو اجتہاد کہا جاتا ہے۔ اجتہاد کا مطلب یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی ابدی تعلیمات کا از سرِ نو انطباق(re-application) دریافت کیاجائے۔ اس طرح اجتہاد کا اصول اسلام کی ابدیت کو مسلسل باقی رکھتا ہے۔
مسٹر باتک وورا(Battuk Vora) ایک فری لانس رائٹر ہیں۔ اُن کی تحریری زبان انگریزی ہے۔ وہ احمدآباد میں رہتے ہیں۔ ان کا ٹیلی فون نمبر یہ ہے(Tel. 6762884)
ان کا ایک سوال یہ تھا کہ دار الاسلام اور دار الکفر اور دار الحرب کا مطلب کیا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے دار کی اس تقسیم سے اتفاق نہیں۔ یہ اصطلاحیں عباسی دور میں بنیں۔ رسو ل اور اصحاب رسول کے زمانہ میں یہ اصطلاحیں موجود نہ تھیں۔قرآن و حدیث میں یہ الفاظ استعمال نہیںہوئے۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اصطلاحات بنانے میں قرآن و حدیث کا اتباع کیا جائے۔
دار الحرب کی اصطلاح غالباً و قاتلوہم حتی لاتکون فتنۃ سے بنی ہے۔ اس قرآنی آیت سے یہ اخذ کیا گیا کہ جس مقام پر فتنہ ہو وہ مقام اپنے آپ دار القتال یا دارالحرب بن جاتا ہے۔ اگر دارالحرب کے نظریہ کا ماخذ یہی ہو تب بھی آج کوئی ملک دار الحرب نہیں۔ کیوں کہ اب کوئی ملک دار الفتنہ نہیں۔ فتنہ سے مراد مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) ہے۔ اور اب جب کہ مذہبی آزادی کو باقاعدہ طورپر ساری دنیا میں تسلیم کر لیا گیاہے، اب مذہبی ایذا رسانی کا کوئی سوال نہیں۔ واضح ہو کہ مسلمانوں کے اپنے کسی بے جا اقدام سے اُن کے خلاف کوئی مسئلہ پیدا ہو تو وہ مذہبی ایذا رسانی نہیں کہا جائے گا۔ مذہبی ایذا رسانی کا عمل وہ ہے جو خود قائم شدہ نظام کے اپنے معیار کے تحت بلا اشتعال عاید کیا جائے۔
میرے نزدیک آج کوئی بھی ملک نہ دار الکفر ہے، نہ دار الحرب اور نہ دار الفتنہ۔ موجودہ زمانہ میںہر ملک کی حیثیت دار الدعوہ کی ہے۔ حتیٰ کہ آج کوئی ملک دار الاسلام بھی نہیں۔ آج ہر ملک دارالدعوہ ہے۔ اور کسی مسلم ملک کی حیثیت صرف دارالمسلمین کی ہے، نہ کہ دار الاسلام کی۔
کچھ مسلمانوں نے گجرات کے ہندوؤں کے بارہ میں شکایت کی۔ اُنہوں نے کہا کہ یہاں ہمیشہ سے تعصب اور مسلم دشمنی کا ماحول پایا گیاہے۔ میں نے کہا کہ مجھے اس رائے سے اتفاق نہیں۔ لیکن اگر بالفرض یہ رائے درست ہو تب بھی اس کا حل شکایت اور احتجاج نہیں ہے بلکہ قرآن کے مطابق، اُس کا حل یہ ہے کہ بہتر سلوک کے ذریعہ عداوت کو دوستی میں تبدیل کیا جائے (فصّلت ۳۴)۔
میں نے کہا کہ اب آپ میرا تجربہ سنیے۔ عرصہ ہوا الرسالہ میں میرا ایک مضمون چھپا جس کا عنوان تھا: حسنین، تاریخ کے دو علامتی کردار۔ یہ مضمون میری کتاب ’’ظہور اسلام‘‘ میں شامل ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد احمد آباد کے ایک ڈاکٹر صاحب نے مجھے غصہ سے بھرا ہوا ایک خط بھیجا۔ اس میںاُنہوں نے مذکورہ مضمون کے بارہ میں اپنی سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب آپ نے نواسۂ رسول پر بھی قلم اٹھانا شروع کردیا۔ میں نے اپنے جواب میںاُنہیں لکھا کہ میں نے اپنے مضمون میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کیا ہے کہ حسین کے مقابلہ میں حسن کے کردار کو نمایاں کیا ہے، اور وہ بھی بہر حال نواسۂ رسول تھے۔
میںنے اپنے مذکورہ مضمون میں امام حسن کے کردار کی روشنی میں صُلح اور امن کی اہمیت بتائی تھی۔ مگر بدقسمتی سے احمد آباد کے مسلمانوں کے لیے یہ مشورہ قابلِ قبول نہ ہوسکا۔ اس کے بعد پچھلے چند سالوں کے اندر احمد آباد کے کچھ باشعور مسلمانوں نے احمد آباد میں دوبار میری تقریر کا پروگرام رکھا اور اس کے انتظامات کیے۔ مگر کچھ پُرجوش مسلمانوں نے دونوں بار میرے پروگرام کو منسوخ کرادیا۔ اُن کی دلیل یہ تھی کہ وہ آئیں گے تو وہ صبر کا فارمولا پیش کریں گے، اور ہمیں اپنے حالات میں صبر کا فارمولا منظور نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسی حالت میں آپ لوگوں کے لیے شکایتِ غیر سے زیادہ احتساب خویش کی ضرورت ہے۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی نے ۲۸ جنوری ۲۰۰۳ کو احمد آباد میں تقریر کرتے ہوئے پُر فخر طور پر کہا تھا کہ بھارتیہ ریلیں بھارتیہ ریکھا ہیں۔ مگر اسی ریلوے لائن کے بارہ میں ۱۹۴۷ سے پہلے جواہر لال نہرو نے لکھا تھا کہ یہ ریلوے لائن جو انگریزوں نے ہمارے ملک میں بچھائی ہے وہ دراصل لوہے کی زنجیریں ہیں جس میں وہ ہم کو جکڑلینا چاہتے ہیں۔
یہ ایک دلچسپ مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دشمن کا فعل بھی نتیجہ کے اعتبار سے فائدہ کا سبب بن سکتا ہے۔ لوگ عام طورپر انسانوں کو دشمن گروہ اور دوست گروہ میں بانٹتے رہتے ہیں۔ وہ دشمن کو ہر حال میں دشمن اور دوست کو ہر حال میں دوست سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس طرح کی تقسیم سراسر اضافی ہے۔ اس دنیا میں ہر چیز کے متعدد پہلو ہوتے ہیں۔ ایک چیز کسی ایک پہلو سے غیر مفید دکھائی دے سکتی ہے مگر وہی چیز کسی اور پہلو سے عین مفید ہوگی۔ اس لیے آدمی کو رائے قائم کرنے میں کبھی جانب دارانہ انداز اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
۱۹۴۷ سے پہلے انڈیا میں جب انگریزوں نے انگریزی زبان کو پھیلایا اور انگریزی تعلیم کو رواج دیا تو ہمارے تمام قائدین اور مصلحین اُس کے خلاف ہوگئے۔ مگر آج یہی انگریزی زبان ہے جو انڈیا کی ترقی میں سب سے بڑا کردار ادا کررہی ہے۔ دنیا میںامریکہ اور برطانیہ کے بعد انڈیا انگریزی زبان کے اعتبار سے سب سے زیادہ بڑا ملک ہے۔
یہ واقعہ کمپیوٹر ایج میں انڈیا کے لیے زبردست ایڈوانٹج بن رہا ہے۔ انڈیا میں اگر صرف اردو یا صرف ہندی کا رواج ہوتا تو آج یقینی طورپر سائنسی اور اقتصادی اعتبار سے انڈیا ایک پچھڑا ہوا ملک ہوتا۔
یہی معاملہ گجرات کے حادثہ (مارچ ۲۰۰۲) کا ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک خوفناک واقعہ تھا۔ اس واقعہ پرہر لکھنے اور بولنے والے لوگ شکایت اور احتجاج کی زبان بولتے رہے۔حالاں کہ یہ بھی اسی نوعیت کا ایک شر تھا جس کو ایک فارسی شاعر نے اس طرح بیان کیا ہے:
خدا شرّے برانگیزدکہ خیرما دراں باشد
یہ ایک واقعہ ہے اور خود آپ اس کے مشاہد ہیں کہ گجرات کے حادثہ نے ہندستانی مسلمانوں کو جتنا زیادہ جگایا ہے اُتنا کسی اور واقعہ نے نہیں جگایا۔ اس کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ ۶دسمبر ۱۹۹۲ کو اجودھیا میںبابری مسجدڈھائی گئی تو ۱۹۹۳ میں اُس کے جواب میں بمبئی میں کار بم کا دھماکہ کیا گیا۔مگر ۲۸ فروری ۲۰۰۲ کے بعد گجرات میںجو حادثہ پیش آیا اس کے بعد ہندستانی مسلمانوں نے پورے ملک میں سدبھاؤنا شانتی کارواں (۱۰ ۔۹ ۱ جنوری ۲۰۰۳) نکالا۔ یہ مسلمانوں کی سوچ میں تبدیلی کی ایک کھلی علامت ہے جو بلاشبہہ بے حد معنٰی خیز ہے۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ میں نے اپنی زندگی میں کئی ایسے افراد دیکھے جو بے حد شریف تھے۔ وہ اعلیٰ انسانی اوصاف کے حامل تھے۔ اس کے باوجود وہ سچائی کو نہ پاسکے۔ اس کا سبب میرے تجربہ کے مطابق، ذہنی انتشار (کنفیوژن) ہے۔ سوال یہ ہے کہ کنفیوژن کسی کو کیوں ہوتا ہے۔ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ لوگوں کا دماغ زیادہ تر معلومات کا جنگل ہوتا ہے۔ وہ ایسا نہیں کر پاتے کہ تحلیل و تجزیہ (analysis) کرکے مختلف معلومات سے ایک نتیجہ نکال سکیں۔ وہ متعلق اور غیر متعلق، کا فرق سمجھیں۔ وہ بنیادی اور غیر بنیادی میں تمیز کرسکیں اور پھر مختلف معلومات کو ہضم کرکے صحیح نتیجہ نکالیں۔ اسی ناکامی کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ لوگوں کا معلوماتی ذخیرہ اُن کو صرف کنفیوژن تک پہنچاتا ہے، وہ اُنہیں فکری پختگی عطا نہیں کرتا۔
اسی قسم کے ایک صاحب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کافی ذہین او رتعلیم یافتہ ہونے کے باوجود سخت ذہنی انتشار میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ مسکّن (tranquilizer) استعمال کرکے سوتے ہیں۔
ہماری آج کی دنیا میں اس طرح کے لوگوں کی بڑی کثرت ہے۔ اس صورت حال نے کچھ لوگوں کو موقع دیا ہے کہ وہ ایک نئی تجارت شروع کرسکیں جس کو میں روحانی تجارت (spiritual business) کہتا ہوں۔ یہ لوگ آرٹ آف لیونگ اور میڈیٹیشن جیسے ناموں کے ذریعہ یہ تجارت کررہے ہیں۔ وہ لوگوں کو یہ فرضی یقین دلاتے ہیں کہ وہ اُنہیں ذہنی سکون دے سکتے ہیں۔ حالاں کہ یہ استحصال کے سوا اور کچھ نہیں۔
ایک صاحب نے بتایا کہ وہ اس قسم کے ماہرین کے قریب رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ سوچے سمجھے منصوبے کے مطابق، عوام کو بے وقوف بناتے ہیں۔ یہ دراصل پروفیشنل لوگ ہیں جو باقاعدہ طورپر اپنے پروفیشن کی مارکیٹنگ کرتے ہیں۔ مثلاً آپ اُن سے ملنے کے لیے جائیں تو عین اُسی وقت اُن کے پاس دور دور سے ’’ٹیلی فون‘‘ آنے لگیں گے۔ کوئی پانڈیچری سے بول رہا ہوگا، کوئی یورپ سے اور کوئی امریکہ سے۔ یہ لوگ باقاعدہ منصوبہ کے تحت گھڑی ہوئی کہانیاں پھیلاتے ہیں اوراس طرح لوگوں کو متاثر کرکے وہ اپنا بزنس چلارہے ہیں۔
۲۷ جنوری کی صبح کو واپسی تھی۔ ہوٹل آرام سے جناب محمد حسن جوہر صاحب کے ساتھ احمد آباد ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ راستہ میں جوہر صاحب سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ کسی بھی مسئلہ میں درست رائے قائم کرنے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت سائنٹفک طرز فکر کی ہے۔ اکثر لوگ کچھ مفروضات کو لے کر اسلام کے بارہ میں رائے زنی کرنے لگتے ہیں۔ حالاں کہ کوئی بھی رائے حقائق کی بنیاد پر قائم کرنا چاہئے، نہ کہ مفروضات کی بنیاد پر۔
مثلاً کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام چودہ سو سال پہلے کے زمانہ میں آیا۔ اب حالات بدل چکے ہیں۔ بدلے ہوئے حالات میں اسلام کی تعلیمات پر کیسے عمل کیا جاسکتا ہے۔ میںنے ایسے لوگوں سے بار بار یہ پوچھا کہ آپ متعین طورپر بتائیے کہ اسلام کی کون سی تعلیم ہے جو موجودہ زمانہ میں ناقابلِ عمل ہوچکی ہے۔ مگر وہ اپنے دعویٰ کی کوئی متعین مثال نہ بتا سکے۔ ایک صاحب نے کہا کہ اسلام کے پیغمبر صاحب اونٹ پر سفر کرتے تھے۔ اب موجودہ زمانہ میں بھی کیا آپ اونٹ پر سفرکریں گے۔ میں نے کہا کہ یہ اسلام کی تعلیم ہی نہیں کہ سفر کے لیے اونٹ کی سواری استعمال کی جائے۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ لوگوں کا ماننا ہے کہ نجات صرف محمد صاحب کی پیروی میں ہے۔ اب اگر زمین کے علاوہ کسی اور سیارہ (planet) پر انسان آباد ہوں اور وہ عربی کے علاوہ کوئی اور زبان بولتے ہوں تو اُن کی نجات کا اصول کیاہوگا۔ میںنے کہاکہ ابھی تک ایسا کوئی سیارہ دریافت نہیں ہوا اور اگر بالفرض ایسا کوئی سیارہ ہو تو خدا نے اُن کی زبان میں وہاں پیغمبر بھیجا ہوگا۔
میرا تجربہ ہے کہ لوگ مفروضہ اور حقیقت میںفرق نہیں کرتے۔ وہ نہیں سمجھـتے کہ کوئی سوال یا اعتراض حقیقت کی بنیاد پر قائم ہوسکتاہے، نہ کہ بے اصل مفروضہ کی بنیاد پر۔
۲۷ جنوری کی صبح کو جب میں احمد آباد ایر پورٹ پر ہوائی جہاز پر سوار ہو رہا تھا، مجھے یاد آیا کہ ۱۹۷۱ میں میں احمد آباد ہی سے پہلی بار ہوائی جہاز میں سوار ہوا تھا اور آج میں احمد آباد ہی سے ۱۵۰ ویں بار ہوائی جہاز میں بیٹھ رہا ہوں۔
پھر مجھے ایک سال پہلے کا واقعہ یاد آیا۔ ایک مسلمان پروفیسر جو اچانک پچھلے ماہ انتقال کرگئے وہ عمر میں مجھ سے کافی چھوٹے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے اُن کے بڑے بھائی سے میں نے پروفیسر صاحب کا حال پوچھا۔ اُنہوں نے کہا کہ اُن کا کیا۔ اُن کا توایک قدم زمین پر رہتا ہے اورایک قدم ہوائی جہاز پر۔ میںنے سوچا کہ آدمی مستقبل کے بارہ میں کتنا کم جانتا ہے۔ آدمی سمجھتا ہے کہ میرا ایک قدم زمین پر ہے اور دوسرا قدم ہوائی جہاز پر۔ حالاں کہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی کا ایک قدم دنیا میں ہے اور دوسرا قدم آخرت میں۔
اس معاملہ میں کسی کا کوئی استثناء نہیں۔ خواہ وہ یونیورسٹی کا ایک مسلمان پروفیسر ہو یا خلا میں پرواز کرنے والی کلپنا چاؤلہ جو صرف چالیس سال کی عمر میں اچانک حادثہ کا شکار ہوگئیں جب کہ وہ اپنی منزل سے صرف ۱۶ منٹ دور تھیں۔
حدیث میں آیا ہے کہ اکثروا ذکر ہاذم اللذات، الموت۔ سب سے بڑی حقیقت جو ہر وقت ہر مرد و عورت کو یاد رکھنا چاہئے و ہ موت ہے اور اگر موت آدمی کو یاد رہے تو ساری لذَّتیں اُس کو بھول جائیں۔ زندگی کا ہر سفر اُس کو موت کا سفر دکھائی دینے لگے۔
واپسی میں جہاز بڑودہ ہوتے ہوئے دہلی آیا۔ جہاز بڑودہ میں ۴۰ منٹ کے لیے ٹھہرا۔ یہاں سے کچھ مسافر دہلی جانے کے لیے سوار ہوئے۔ ایک مسافر میرے قریب کی خالی سیٹ پر آکر بیٹھے۔ اُن سے بڑودہ کے بارہ میں گفتگو ہوئی۔ اُن کی بات سے اندازہ ہوا کہ فساد سے پہلے بڑودہ میں لوگ بہت خوشحال تھے۔ پھر شاید اُن کا حال وہ ہوا جس کی تصویر قرآن کی ایک آیت میں اس طرح دی گئی ہے: اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس کے خوش حال لوگوں کو حکم دیتے ہیں، پھر وہ اُس میں نافرمانی کرتے ہیں۔ تب اُن پر بات ثابت ہوجاتی ہے۔ پھر ہم اس بستی کو تباہ کردیتے ہیں (بنی اسرائیل ۱۶)۔ خوش حالی سے سرکشی آتی ہے اور سرکشی سے فساد اور فساد کا نتیجہ تباہی۔
۲۷ جنوری ۲۰۰۳ کو احمد آباد سے انڈین ایر لائنز کے ذریعہ واپسی ہوئی۔ پرواز کے دوران راستہ میں مختلف اخبارات دیکھے۔ ٹائمس آف انڈیا (۲۷ جنوری) میں ڈاکٹر کرن سنگھ کا ایک مضمون شائع ہوا جس کا عنوان یہ تھا: سائنس اور اسپرٹ کے درمیان معانست:
Symbiosis between Science & Spirit
اس مضمون میں آئنسٹین کا ایک قول نقل کیا گیا تھا۔ اس نے کہا کہ سائنس مذہب کے بغیر لنگڑی ہے اور مذہب سائنس کے بغیر اندھا ہے:
Science without religion is lame, religion without science is blind.
میرے نزدیک سائنس کی محدودیت یہ ہے کہ وہ اپنی تحقیق کا دائرہ مادی چیزوں تک محدود رکھتی ہے۔ ایسی حالت میں ایک سائنٹسٹ کو اگر روحانی موضوعات پر رائے قائم کرنا ہو تو اس کو مذہب سے مدد لیناہوگا۔ اس اعتبار سے مذہب گویا سائنس کی محدودیت کی تکمیل ہے۔ دوسری طرف مذہبی مطالعہ کا دائرہ بھی ایک اعتبار سے محدود ہے۔مذہب کا مطالعہ بنیادی طورپر غیر مرئی دنیا (unseen world) سے تعلق رکھتا ہے۔ ایسی حالت میں ایک مذہبی انسان کو اگر مرئی دنیا (seen world) کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنا ہو تو اس کو سائنسی معلومات سے مدد لینا ہوگا۔ اس طرح مذہب اور سائنس دونوں ایک دوسرے کے لیے مدد گار (complementary) بن جاتے ہیں۔
ہندستان ٹائمس (۲۷ جنوری) میںبلزاک (Honore de Balzak) کا قول نقل کیا گیا ہے۔ وہ قول یہ تھا—بیٹھ کررائے زنی کرنا بہت آسان ہے، لیکن جوچیز مشکل ہے وہ یہ کہ اٹھ کرعمل کیا جائے:
It is easy to sit up and take notice. What is difficult is getting up and taking action.
اس کو پڑھ کر مجھے یاد آیا کہ اکبر الٰہ آبادی جو سرسید کے ہم عصر شاعر تھے، وہ سر سید کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ خواجہ الطاف حسین حالی نے سرسید کی سوانح عمری (حیات جاوید) لکھ کر شائع کی تو اکبرالٰہ آبادی نے یہ شعر کہا:
سید کی داستان کو حالی سے پوچھئے غازی میاں کا حال ڈفالی سے پوچھئے
مگر جب سرسید کا انتقال ہوا تو اکبر الہٰ آباد ی کو سرسید کی عملی خدمات یاد آئیں۔ انہوں نے اپنے اس احساس کا اظہار ایک قطعہ کی صورت میں کیا جس کا ایک شعر یہ تھا:
ہماری باتیں ہی باتیں تھیں سید کام کرتا تھا نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
۲۷ جنوری کی دوپہر کو جہاز دہلی کے رن وے پر اُتر کر کچھ دور چلا اور اُس کے بعد وہ قبل از وقت رک گیا۔ کیپٹن نے اعلان کیا کہ ہائیڈ رالک فیلیر(hydraulic failure) کی وجہ سے ہم کو جہاز کا انجن بند کرنا پڑا۔ واضح ہو کہ ہائیڈرالک فیلیر کا مطلب ہے، جہاز کے بریک کا فیل ہوجانا۔ ایسی حالت میں جہاز اگر رن وے پر چلتا رہتا تو مطلوب مقام پر پائلٹ اُس کو روک نہ پاتا۔ اس لیے پائلٹ نے انجن کو بند کرکے درمیان ہی میں جہاز کو روک دیا۔ پائلٹ نے اس حادثہ کی خبر ایر پورٹ کے ذمہ داروں کو دی۔ کچھ دیرکے بعد ایک ٹریکٹر آیا جو جہاز کو کھینچ کر آگے لے گیا۔
میں نے سوچا کہ جہاز میں ہائیڈرالک فیلیر ہوجائے تو جہاز زمین کے اوپر کھڑا ہوسکتا ہے۔ لیکن زمین جو خودبھی ایک خلائی جہاز ہے، اگر اُس میں ہائیڈرالک فیلیر جیسا حادثہ پیش آجائے تو اُس کے بعد جو تباہی آئے گی اُس کا اندازہ کرنا ممکن نہیں۔
ایر پورٹ سے باہر نکلا تو یہاں مسٹر رجت ملہوترا اپنی گاڑی کے ساتھ موجود تھے۔ اُنہوں نے مجھے گھر تک پہنچایا۔ راستہ میں اُن سے اسلام اور روحانیت پر باتیں ہوتی رہیں۔
مسٹر رجت ملہوترا (۳۰ سال) ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں سروس کرتے ہیں۔ اُنہوںنے اسلام کا کافی مطالعہ کیا ہے۔ براہ راست مطالعہ سے پہلے وہ اسلام سے نفرت کرتے تھے۔ مگر مطالعہ کے بعد اُن کی غلط فہمیاں دور ہوگئیں۔ اب اُن کے دل میں اسلام کے لیے گہری عقیدت پائی جاتی ہے۔ وہ بہت سی ایسی چیزوں کو چھوڑچکے ہیں جن کو اسلام میں منع کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ مجھے سچائی کی تلاش تھی۔ اس سلسلہ میں میں بہت سے مذہبی پیشواؤں سے ملا اور بہت سی کتابیں پڑھیں۔ یہ سلسلہ برسوں تک جاری رہا۔ مگر جب میں نے اسلام کو پڑھا تو میرے دل نے کہا کہ جس سچائی کو میں تلاش کررہا تھا وہ یہاں موجود ہے۔
احمد آباد کے سفر سے واپسی کے بعد میںنے ایک خط لکھا۔ یہ خط احمد آباد کے جناب محمد حسن جوہر کے نام تھا۔ اس خط میںمیںنے جو باتیں لکھی تھیں وہ مسلمانوں کی عمومی حالت پر ایک تبصرہ تھا۔ اس خط کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادر محترم محمد حسن جوہر صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۷جنوری ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ انڈیا میں ہندوبھاری اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں۔مسلم رہنما بدقسمتی سے ابھی تک ہندو۔ مسلم تعلقات کے بارے میں کوئی قابل عمل فارمولا دریافت نہ کرسکے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں فرقوں کے درمیان مسلسل تناؤ اور ٹکراؤ کی حالت جاری ہے۔ یہ غیر معتدل صورت حال اقلیت کی ترقی میںایک مستقل رکاوٹ ہے۔
آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد دونوں دوروں میں مسلم رہنماؤں کی سوچ یہ رہی ہے کہ ہندوؤں میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ان کے الفاظ میں ہندوؤں کا ایک گروہ وہ ہے جو سیکولر اور انسان دوست ہے۔ اور دوسرا گروہ وہ ہے جو کٹّر اور اینٹی مسلم ہے۔ مسلم رہنماؤں نے تقریباً سو سال سے یہ پالیسی اختیار کر رکھی ہے کہ سیکولر اور انسان دوست ہندوؤں کو ساتھ لے کر کٹّر اور اینٹی مسلم ہندوؤں کا مقابلہ کیا جائے۔مگرسو سال کا ناکام تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سوچ عملی اعتبار سے سراسر بے فائدہ تھی۔ ممکن ہے، خالص منطقی تجزیہ (logical analysis) میںیہ بات درست نظر آئے۔ مگر جب اصل مسئلہ جان ومال کو بچانے کا ہو تو منطقی تجزیہ بظاہر درست ہونے کے باوجودناقابلِ قبول ہوگا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ عملی زندگی میں کبھی آئیڈیل نہیں چلتا۔ عملی زندگی کو ہمیشہ پریکٹکل تدبیر کے ذریعہ حل کیا جاتا ہے۔ اور ایسا ہی ہمیں ملّی مسائل میں بھی کرنا چاہئے۔
اگر بالفرض مان لیا جائے کہ ہندوؤں میںکچھ پرابلم ہندوہیں اور کچھ نوپرابلم ہندو۔ تب بھی یہ کوئی کارگر فارمولا نہیں کہ ہندوؤں کے ایک طبقہ کو ہندوؤں کے دوسرے طبقہ کے مقابلہ میںکھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اولاً تو ایسا ممکن ہی نہیں اور اگر بالفرض ایسا ممکن ہوجائے تب بھی وہ صرف اصل مسئلہ کو بڑھانے کاسبب ہوگا۔ اس تقسیم کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ مفروضہ نوپرابلم ہندو بقیہ ہندوؤں سے کٹ جائیں گے۔ اورنتیجۃً وہ خود ہندوؤں میں غیر موثر ہو کر رہ جائیں گے۔
اس معاملہ میں زیادہ درست طریقہ یہ ہے کہ تقسیم و تفریق کے اس ذہن کو ختم کرکے سارے ہندوؤں کو ایک نظر سے دیکھا جائے۔ اگر بالفرض اس ملک میں ایسے ہندو ہیں جو مسلم دشمن ہیں تب بھی اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ ایسے ہندوؤں کو اپنا دوست بنا یا جائے اور ان کو اپناکر اصل مسئلہ کو حل کیاجائے۔
عقل اور مذہب دونوں کا تقاضہ یہی ہے۔ ارباب دانش مسئلہ کو حل کرنے کے اس طریقہ کو برترحل (superior solution) کہتے ہیں۔ دوسری ورلڈ وار میں امریکہ نے جاپان کے اوپر تباہ کن بمباری کرکے بدترین دشمنی کا معاملہ کیا تھا مگر جنگ کے بعد جاپان نے امریکہ کی دشمنی کو بھلا کر اس سے دوستی کرلی۔ اس کا شاندار نتیجہ یہ نکلا کہ جاپان نے پہلے سے بھی زیادہ بڑی ترقی حاصل کرلی۔ یہاں تک کہ وہ اقتصادی سپر پاور(economic super power) بن گیا۔
یہی وہ حسن تدبیر ہے جس کو مسیح نے اپنے مشہور الفاظ میں اس طرح بتایا تھا—اپنے دشمن سے محبت رکھو (Love your enemy) ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کو اپنا دوست بنا کر دشمنی کا مسئلہ حل کرو: (Solve the problem of enemity by befriending your enemy.)
اس طرح کے مسئلہ کا یہی وہ برتر حل ہے جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: اور اس سے بہتر کس کی بات ہوگی جس نے خدا کی طرف بلایا اور نیک عمل کیا اور کہا کہ میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔ اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میںاور جس میں دشمنی تھی وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا(حٰم السجدہ ۳۳۔۳۴)
اس معاملہ میں فیصلہ کن بات یہ ہے کہ ہر شخص فطرت صحیح پر پیداہوتا ہے۔ ہر آدمی کے اندر ضمیر (conscience) ہے۔ہر آدمی اسی طرح ایک انسان ہے جس طرح میں یا آپ ایک انسان ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمنی ہمیشہ صرف ایک اوپری چیز ہوتی ہے، وہ انسان کی گہری شخصیت کا حصہ نہیں ہوتی۔ یہ اوپری دشمنی صرف اس وقت تک زندہ رہتی ہے جب کہ فریق ثانی اپنے منفی رد عمل (negative reaction) سے اس کو غذا دیتا رہے۔ اگر فریق ثانی اپنے آپ کو منفی رد عمل سے بچائے اور مثبت سلوک(positive behaviour) کا طریقہ اختیار کرے تو یقینی طورپر مفروضہ دشمن کا دشمنانہ رویہ ختم ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں دشمنی ہمیشہ جوابی دشمنی کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ اگر فریقِ ثانی اپنے آپ کو جوابی دشمنی سے بچائے اور جوابی دوستی کا طریقہ اختیار کرے تو یقینی طورپر وہی معجزاتی واقعہ پیش آئے گا جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے—جو شخص بظاہر تمہارا دشمن تھا وہ تمہارا قریبی دوست بن جائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ فطرت کا قانون ہے۔ اور میںنے اپنے ذاتی تجربہ میں بار بار فطرت کے اس اٹل قانون کونزاعی مسئلہ کایقینی حل پایا ہے۔ اس سلسلہ میں میرے تجربات سیکڑوں سے بھی زیادہ ہیں۔ جن لوگوں نے میری کتابیں پڑھی ہیں یا میری ڈائری یا میرے سفر نامہ کامطالعہ کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ میںنے اس نوعیت کے سیکڑوں تجربات اپنی تحریروں میںنقل کئے ہیں۔
یہ سلسلہ میںنے ۱۹۶۵ میں ہفت روزہ ندائے ملّت (لکھنؤ) سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۶۷ سے الجمعیۃ ویکلی (نئی دہلی) کی صورت میں اس کا تسلسل قائم رہا۔ ۱۹۷۶ سے یہ سلسلہ ماہنامہ الرسالہ کی صورت میں برابر جاری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ اصول نظری اعتبار سے بھی درست ہے اور عملی تجربہ میں بھی وہ مکمل طورپر نتیجہ خیز ثابت ہوا ہے۔
لکھنؤ کے ایک مسلم تاجر سے میں نے پوچھا کہ اپنی زندگی کا کوئی تجربہ بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان کا مطلب غیر سنجیدہ (insincere) انسان ہے۔ میںنے بھی اپنے تجربہ میں یہ پایا ہے کہ تقریباً ہر مسلمان اپنے ذاتی معاملہ کو آئیڈیل سلوشن کے بجائے پریکٹیکل سلوشن کی بنیاد پر حل کرتا ہے۔ لیکن جب ملت کا کوئی معاملہ ہو تو وہ فوراً آئیڈیل سلوشن کی حمایت میں پر جوش طورپر بولنا شروع کردیتا ہے۔ یہی غیر سنجیدگی (insincerity) ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے، نہ کہ وہ مفروضہ مسائل جن کا عام طورپر اخباروں اور جلسوں میںتذکرہ کیا جاتا ہے۔
نئی دہلی ۲۹ فروری ۲۰۰۳ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
آج مسلمانوں میںایسی جماعتیں اور گروہ موجودہیں جن کا دعویٰ ہے کہ اسلام میں توحید پر زور دیا گیا ہے۔ لہٰذا جماعت اور تنظیم توحید کے اتفاقی مسئلے پر اٹھانی چاہئے اور یہ تنظیمیں اور جماعتیں اپنے زعم کے مطابق توحید کے اتفاقی مسئلے پر کام کررہی ہیں۔
یہ لوگ قرآن کی تمام توحید والی آیتوں کو عوام کے سامنے پیش کرکے کہتے ہیں کہ اے لوگو، توحید کو اختیار کرو اور شرک کو چھوڑو۔ اس کائنات میں کوئی داتا، دستگیر، حاجت روا، مشکل کشا اور غوث اعظم وغیرہ نہیں ،سوائے مالکِ کائنات کے۔
اس طرح یہ لوگ قرآن کی تمام اُن آیتوں کو جن میں شرک کی مذمّت بیان ہوئی ہے، پیش کرکے کہتے ہیں کہ چونکہ یہ کلمہ پڑھنے والے شرک کرتے ہیں اور شرک کی موجودگی میں نیک اعمال قبول نہیں ہوتے۔ لہٰذا ہم موحد لوگ ان قبر پرستوں (بریلویوں اور شیعوں، وغیرہ) کے پیچھے نہ نماز پڑھیں گے اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے۔
مسلمانوں کے اس طرح کے دعووں کو سامنے رکھتے ہوئے چند سوالات پیش خدمت ہیں۔ امید ہے آپ تسلی بخش جواب دیں گے۔
۱۔ کلمہ پڑھنے کے بعد اگر شرک ہوتا رہے تو کیا ایسے شخص پر مشرک کا اطلاق ہوگا۔
۲۔ مسلم اور مشرک کی تعریف کیا ہے۔ کیا مسلمان مشرک ہوسکتاہے۔
۳۔ مسلمانوں میںجو لوگ واضح شرک کرتے ہیں اُن کی اقتداء میںصلوٰۃ پڑھنے کی کیا دلیل ہے جب کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ مشرک کے اعمال قبول نہیں ہوتے۔
۴۔ جب مشرک امام کی اپنی صلوٰۃ نہیں ہوتی تو موحّد مقتدی کی نماز کیسے ہوگی۔
۵۔ امتِ مسلمہ کے بہت سے علماء اس بات کے قائل ہیں کہ سورہ یوسف کی آیت ۱۰۶ کی روشنی میں کلمہ پڑھنے والے بھی مشرک ہوسکتے ہیں لہٰذا ان کے پیچھے نماز نہ پڑھی جائے۔
۶۔ جب شراب کا پینے والا شرابی کہلائے گا تو شرک کرنے والا مشرک کیوں نہیں کہلایا جائے گا۔
۷۔ کلمہ پڑھنے کے بعد اگر ایک ہندو مندر جاتا ہے تو یہ کام اس کے مسلمان ہونے میں رکاوٹ ہوگا اور اُسے بدستور ہندو سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر دوسرا شخص کلمہ کا اقرار کرنے کے بعد قبر کا طواف کرتا رہے تویہ عمل اس کے اسلام میں رکاوٹ کیوں نہیں بنے گا اور ایسا شخص مشرک کیوں نہیں ہوگا۔
۸۔ آپ کے لٹریچر اور کتابوں میں میں نے قبر پرستی اور شرک کے پہلوؤں پر اتنا زیادہ زور نہیں دیکھا جتنا زور توحیدی ٹائپ کے لوگ لگاتے ہیں۔ اس فرق کی وجہ کیا ہے، جب کہ آپ بھی شرک کے مخالف ہیں، بلکہ سخت ترین مخالف۔ (عبد اللطیف ،کراچی، ۲۵ دسمبر ۲۰۰۲)
جواب
اختلاف کی برائی جو موجودہ مسلمانوں میں پائی جاتی ہے اُس کا سبب یہ نہیں ہے کہ مسلم جماعتیں توحید کے بجائے کسی اور عنوان پر کام کر رہی ہیں۔ اختلاف کا اصل سبب صرف ایک ہے، اور وہ انتہاپسندی (extremism) ہے۔ موجودہ زمانہ کی مسلم جماعتیں کسی نہ کسی پہلو سے انتہا پسندی کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کوئی اعتقادی انتہا پسندی کا شکار ہے، کوئی سیاسی انتہا پسندی کا، کوئی مسائلی انتہا پسندی کا، کوئی گروہی انتہا پسندی کا، کوئی کسی اور انتہا پسندی کا۔ یہی انتہا پسندی موجودہ نزاعات کااصل سبب ہے۔ انتہا پسندی کو قرآن اور حدیث میں غلو کہا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایاکم والغلو فی الدین فانما ہلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین(النسائی، ابن ماجہ، مسند احمد) یعنی تم غلو سے بچو، کیوں کہ پچھلی امتیں غلو ہی کے سبب سے ہلاک ہوئیں۔
غلو یا انتہا پسندی کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ کسی بات کو اُس کی آخری منطقی حد (logical extreme)تک لے جایا جائے۔ اور پھر اُس کی بنیاد پر انتہائی احکام صادر کیے جائیں۔اُس کی ایک مثال خود آپ کی زیر نظر تحریر میںموجود ہے۔ توحید پر زور دینا بہت اچھا ہے۔ مگریہ کہنا اتنا ہی غلط ہے کہ ’’یہ کلمہ پڑھنے والے مسلمان چونکہ شرک کرتے ہیں اور شرک کی موجودگی میںنیک اعمال قبول نہیںہوتے۔ لہذا ہم موحّد لوگ ان قبر پرستوں (بریلویوں اور شیعوں وغیرہ) کے پیچھے نہ نماز پڑھیں گے اور نہ اُن کی نماز جنازہ میں شریک ہوں گے‘‘۔
اسی آخری بات کو حدیث میں غلو کہا گیا ہے اور غلو خود ایک ہلاکت خیز عمل ہے۔ ایک شخص کو علم دین حاصل ہو اور علم دین کی روشنی میںاُس نے یہ جانا ہو کہ توحید اسلام میں بنیادی عقیدہ کی حیثیت رکھتی ہے تو ایسے شخص کو حق ہے کہ وہ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت لوگوں کو توحید کی طرف بلائے۔ لیکن اس اصلاحی دعوت کے ساتھ اگر وہ یہ حکم لگانے لگے کہ فلاں لوگ چونکہ اُس کے نزدیک مشرکانہ اعمال میں مبتلا ہیں اس لیے اُن کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ حتیٰ کہ اُن کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی جائے گی تو ایسا شخص خود اسلام کی نظر میں غلط کار قرار پائے گا۔ کیوں کہ وہ غلو کررہا ہے اور غلو کی اسلام میںگنجائش نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اصلاح کا کام ایک بے حد نازک کام ہے۔ اُس کی ناگزیر شرطوں میں سے ایک شرط یہ ہے کہ مصلح ایک چیز اور دوسری چیز کے فرق کو جانے۔ اُس کو یہ جاننا چاہئے کہ اُس کی ذمہ داری صرف پُر امن دعوت ہے۔ یہ اُس کی سرے سے ذمہ داری ہی نہیں کہ وہ متعین طورپر لوگوں کے بارہ میں یہ حکم لگائے کہ فلاں شخص مشرک ہے۔ مصلح کو چاہئے کہ وہ مشرک ہونے کے معاملہ کو خدا کے حوالہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو صرف خیر خواہانہ نصیحت تک محدود رکھے۔ جن لوگوں کے اندر فرق کرنے کی یہ صلاحیت نہ ہو، اُن کا اصلاح کے میدان میں آنا بذات خود ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ کے سوالات کا نمبر وار جواب حسب ذیل ہے:
۱۔ کسی مصلح کی ذمہ داری صرف یہ ہے کہ وہ سنجیدگی اور خیر خواہی کے ساتھ شرک کے مسئلہ کو بتائے۔ کسی مصلح کا یہ کام نہیں کہ وہ کسی متعین شخص کو مشرک قرار دے اور اُس کے اوپرشرک کے احکام نافذ کرنے کی کوشش کرے۔ پہلا کام یقینی طورپر جائز ہے مگر دوسرا کام یقینی طورپر جائز نہیں۔ جو لوگ ایسا کریں وہ مفسد ہیں، نہ کہ مصلح۔
۲۔ مشرک کسی قوم یا نسل کانام نہیں۔ کسی بھی شخص سے شرک کا فعل سرزد ہوسکتا ہے۔ مگر تعین کے ساتھ کسی کو مشرک قرار دینے کا حق صرف خدا کو ہے، انسان کو نہیں۔
۳۔ کوئی مقتدی امام کی نماز نہیں پڑھتا۔ ہر مقتدی خود اپنی نماز پڑھتا ہے۔ امام کے سبب سے کسی مقتدی کی نماز نہ مقبول ہوتی ہے اور نہ غیر مقبول۔ قبولیت کا تعلق تمام تر ہر آدمی کی اپنی نیت سے ہے۔ باجماعت نماز کا مقصد صرف اجتماعیت ہے۔ جس امام کے پیچھے بھی اجتماعیت کا یہ مقصد حاصل ہو جائے وہ درست قرار پائے گا۔ یہ بات حدیث میںان الفاظ میںکہی گئی ہے: الصلاۃ المکتوبۃ واجبۃ خلف کل مسلم، برّا کان او فاجراً و ان عمل الکبائر (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب امامۃ البرّ والفاجر)یعنی فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے، خواہ وہ نیک ہو یا بد اور خواہ اُس نے کبیرہ گناہ کیا ہو۔
یہاں اگر کوئی یہ نکتہ نکالے کہ حدیث میں فاجر یا مرتکب کبائر کا لفظ ہے، اُس میںمشرک کا لفظ نہیں تو یہ بھی اُسی غلو کی ایک صورت ہوگی جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔ اس قسم کے غلو کرنے والوں پر فرض ہے کہ وہ چُپ رہیں، نہ کہ اس قسم کے فتنہ انگیز الفاظ بول کر امت میں نزاع پیدا کریں۔
۴۔ کس مصلی کی نماز ہوئی اور کس مصلّی کی نماز نہیں ہوئی، اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار تمام تر اللہ تعالیٰ کو ہے۔ جو لوگ کسی مصلّی کی نماز پر ہونے یا نہ ہونے کا حکم لگائیں وہ اپنی حد سے تجاوز کرتے ہیں اور حد سے تجاوز کرنا بلا شبہہ سخت گناہ ہے۔
۵۔ کلمہ پڑھنا صرف اسلام میںداخلہ کا اعلان ہے۔ کلمہ کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی شرک کے ارتکاب سے ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ فتنہ کی اس دنیا میں کوئی بھی شخص شرک میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ مصلح کا کام مشرک کی نشاندہی کرنا اور اُس پر حکم لگانا نہیںہے بلکہ عمومی انداز میں شرک کا مسئلہ بتانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ آپ کو جب اصلاحی خطاب کرنا ہوتا تو آپ فرماتے: ما بال اقوام یفعلون کذا وکذا۔ (لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ایسا اور ایسا کرتے ہیں)۔
۶۔ ایک شخص اگر شراب پیتا ہو تو مصلح کا کام یہ نہیںہے کہ وہ اُس کے شرابی ہونے کا اعلان کرے اور اُس کو کوڑا مارنے کا فتویٰ دے۔ مصلح کا کام صرف یہ ہے کہ وہ کامل خیر خواہی کے ساتھ شرابی کو نصیحت کرے اور برابر نصیحت کرتا رہے۔ اسی طرح اگرکوئی شخص بظاہر شرک میں مبتلا ہے تو مصلح کو چاہیے کہ وہ خیر خواہانہ انداز میں اُس کو سمجھائے۔ مصلح کو اس کا حق نہیںکہ وہ برسرِ عام تعین کے ساتھ کسی کے مشرک ہونے کا اعلان کرے اور اُس کے خلاف فتویٰ جاری کرے۔ یہ سب دینی اصطلاح میں غلو کے کام ہیںاور اسلام میں غلو کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔
۷۔ اس معاملہ میں مسلم اور نو مسلم دونوں کا حکم ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ اصلاح کی ہمدردانہ کوشش دونوں کے ساتھ کی جائے گی۔ مگر تعین کے ساتھ شرعی حکم لگانے کا کام کسی کے خلاف بھی نہیں کیا جائے گا۔
۸۔ پیغمبر کا طریقہ یہ ہے کہ سارا زور روح دین کو زندہ کرنے پر لگایا جائے۔ خارجی اعمال ہمیشہ داخلی روح کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ خارجی اعمال سے اپنے آپ داخلی روح پیدا ہوجائے۔
تکفیر و تفسیق کا موجودہ طریقہ جو مسلمانوں میں ایک عرصہ سے رائج ہے وہ سراسر باطل ہے، شریعت سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ مذموم طریقہ عباسی سلطنت کے زمانہ میں رائج ہوا اور ’’فرق ضالّہ‘‘ کے نام پر وہ کئی سو سال تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہ نوبت آگئی کہ ان فتووں کے مطابق، امت مسلمہ میںکوئی بھی شخص مومن و مسلم کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔ آخر کار علماء نے اتفاقِ عام کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ تکفیر وتفسیق کے اس کام کو بند کردیا جائے۔ علماء نے اتفاق رائے کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ: لا نکفراحداً من اہل القبلۃ (ہم کسی ایسے شخص کو کافر نہیں کہیں گے جو قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھے)۔
یہی اس معاملہ میں صحیح مسلک ہے۔ قرون مشہود لہا بالخیر میں اس قسم کا تکفیری مشغلہ نہیں ملتا۔ یہ تکفیری مشغلہ عباسی دور میں قدیم عراق میں متکلمین نے پیدا کیا۔ مگر بعد کو علماء راسخین نے اُس کو رد کردیا اور یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ کسی بھی حال میں اہل قبلہ کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
اہل قبلہ کی شرط اُسی قسم کی ایک چیز ہے جس کوتعلیق بالمحال کہا جاتاہے۔ کوئی بھی فرقہ کبھی ایسا نہیںکرے گا کہ وہ کعبہ کے بجائے کسی مندر یا چرچ کی طرف نماز پڑھے۔ پچھلے ہزار سال کے دوران کبھی کسی فرقہ نے ایسا نہیں کیا۔ ایسی حالت میں لا نکفر احداً من اہل القبلۃ کا مطلب دوسرے لفظوں میںیہ ہے کہ کوئی شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہے ہم بھی اُس کومسلمان کہیں گے۔ ہم اپنی طرف سے کسی کو کافر نہیں بتائیں گے۔
تکفیر و تفسیق کی ممانعت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ برائی کے معاملہ میں لوگوں کو بے عمل یا غیرجانبدار بنا دیا جائے۔ اس کا مطلب عمل کے صحیح رُخ کو بتانا ہے۔ اور وہ یہ کہ برائی کے معاملہ میںہمارا طریقہ خیر خواہانہ نصیحت کا ہونا چاہئے۔ بقیہ چیزوں کو اللہ کے اوپر چھوڑ دینا چاہئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اپنے رب سے دعا کی کہ وہ میری امت کو قحط سے ہلاک نہ کرے۔ اللہ نے میری یہ دعا قبول کر لی۔ اور میںنے دعا کی کہ وہ میری امت پر کسی خارجی دشمن کو مسلط نہ کرے۔ اللہ نے میری یہ دعا قبول کرلی۔ اور میں نے یہ دعا کی کہ وہ اُن کو گروہوں میں نہ بانٹے کہ اُن کا ایک گروہ اُن کے دوسرے گروہ کو اپنی طاقت کا مزہ چکھائے۔ اللہ نے اس کوقبول نہیںکیا۔ (مسند احمد، الجزء ۵، صفحہ ۲۴۸)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی تحریک کے غیر مطلوب ہو نے کی پہچان کیا ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ کیا اس تحریک کے ذریعہ مسلمان دو حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔ جب بھی کسی تحریک کا یہ نتیجہ نکلے کہ مسلمان دو گروہوں میں بٹ کر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگیں تو یقینی طورپر ایسی تحریک ایک غیر مطلوب تحریک ہے۔ اُس کو خدا کی مددحاصل نہیں۔ ایسی تحریک کااگر پھیلاؤ ہو تو یقینی طورپر یہ پھیلاؤ شیطان کی مدد سے ہوگا، نہ کہ اللہ کی مدد سے۔
دوگروہوں میں بٹنے کا یہ معاملہ سیاسی عنوان سے بھی ہوسکتا ہے اور مذہبی عنوان سے بھی یا کسی اور عنوان سے بھی۔ کسی مسلم تحریک کے مطلوب ہونے کی اصل پہچان یہ نہیںہے کہ وہ قرآن و حدیث کے نام پر اُٹھائی گئی ہے۔ بلکہ اصل پہچان یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوںکے اندر اتحاد فروغ پا رہا ہے یا اختلاف۔ جس تحریک کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحاد فروغ پائے وہ خدا کی مطلوب تحریک ہے اور جس تحریک کے ذریعہ مسلمانوں میں تفریق و اختلاف فروغ پائے وہ خدا کے نزدیک غیر مطلوب تحریک ہے۔
واپس اوپر جائیں