Pages

Monday 1 January 2007

Al Risala | January 2007 (الرسالہ،جنوری)

1

- ایک علمی بُرائی— دعویٰ بلا دلیل

2

- مراسلت نمبر — ۱

5

- مراسلت نمبر — ۲

8

- مراسلت نمبر — ۳

14

- مراسلت نمبر — ۴

18

- مراسلت نمبر — ۵

20

- مراسلت نمبر — ۶

21

- مراسلت نمبر — ۷

23

- مراسلت نمبر — ۸

28

- مراسلت نمبر — ۹

30

- مراسلت نمبر — ۱۰

32

- مراسلت نمبر — ۱۱

39

- مراسلت نمبر — ۱۲


ایک علمی بُرائی— دعویٰ بلا دلیل

بینک کی اصطلاح میں ڈَڈچیک(Dud Cheque) ایسے چیک کو کہا جاتا ہے جس کے پیچھے بینک کے کھاتے میں ضروری سرمایہ موجود نہ ہو۔ مثلاً آپ کے بینک کے کھاتے میں صرف ایک ہزار روپیہ موجود ہو اور آپ پچاس ہزار روپیے کا چیک لکھ کر کسی کو دے دیں تو یہ ڈڈ چیک ہوگا۔ کیوں کہ یہ چیک جب بینک میں جائے گاتو بینک یہ کہہ کر ایسے چیک کو رد کردے گا کہ لکھنے والے کے کھاتے میں بقدر ضرورت سرمایہ موجود نہیں۔
بہت سے لوگ اپنے نقطۂ نظر کی حمایت میں جو دلیل پیش کرـتے ہیں وہ ڈڈ چیک کی مانند ہوتی ہے۔ وہ بڑی بڑی باتیں لکھتے اور بولتے ہیں لیکن جب ان سے ان کے دعوے کی دلیل مانگی جائے تو وہ ایسی باتیں لکھتے اور بولتے ہیں جو علمی اعتبار سے بالکل بے وزن اور دلیل کے سرمایے سے خالی ہوتی ہیں۔
مجھے بار بار اس قسم کے تلخ تجربات پیش آئے ہیں۔ مزید یہ کہ جب میں نے ایسے حضرات کو متنبّہ کیا اور ان سے ان کے قول کی دلیل مانگی تو وہ یا تو چپ ہوگیے یا ایک اور بے دلیل بات اپنی تائید میں پیش کردی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر نہ تو علمی ذوق ہے اور نہ علمی جرأت۔ وہ بظاہر ڈگری یافتہ یا سند یافتہ ہونے کے باوجود مدلّل بات کہنے سے قاصر ہیں، اور مزید یہ کہ ان کے اندر اِس اعتراف کی جرأت بھی نہیں کہ وہ کھلے طورپر یہ کہہ سکیں کہ —ہم غلطی پر تھے۔میں نے اِس معاملے میں کئی حضرات سے خط وکتابت کی۔ اِس سلسلے میں کچھ خط وکتابت اگلے صفحات میں نقل کی جارہی ہے۔
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۱

سہ ماہی مجلّہ تحقیقاتِ اسلامی (علی گڈھ) کے معاون مدیر اور ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رُکن ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے ۱۶ صفحات کی ایک کتاب لکھی، جو مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی سے ۲۰۰۵ میں چھپی۔ مصنف محترم نے اپنی اس کتاب کا ایک نسخہ میرے پاس بھیجا۔ اس سلسلے میں اُن سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
برادرِ محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کی بھیجی ہوئی کتاب ’’اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت‘‘ بذریعے ڈاک ملی۔ یہ کتاب آپ نے۲۲ رمضان ۱۴۲۶کو روانہ کی تھی۔ میں نے اس کتاب کو پڑھا۔ آپ نے اپنی اِس کتاب میں ’’بعض حضرات‘‘ کے ایک نقطۂ نظر پر تنقید فرمائی ہے۔ میں اپنے مطالعے کے مطابق، اِن بعض حضرات کو نہیں جانتا۔ براہِ کرام اِن بعض حضرات کے نام اور ان کی کتابوں کے نام تحریر فرمائیں۔ جن کی طرف آپ نے اپنے اِس نقطۂ نظر کو منسوب فرمایا ہے۔ امیدہے کہ آپ اِس سلسلے میں واضح جواب سے ممنون فرمائیں گے۔
نئی دہلی ، ۶ نومبر ۲۰۰۵ء جواب کا منتظر وحید الدین
جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے انھیں یاد دہانی کے لیے دوبارہ ایک خط لکھا۔ میرا یہ دوسرا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِ محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ ہے کہ اس سے پہلے ایک خط مؤرخہ ۵ نومبر ۲۰۰۵ ء میں نے آپ کی خدمت میں روانہ کیا تھا۔ یہ خط آپ کی اس کتاب کے بارے میں تھا جو آپ نے مجھے اپنے دستخط کے ساتھ ۲۲ رمضان ۱۴۲۶ کو روانہ فرمائی تھی۔ آپ نے اپنی اِس کتاب میں ’’بعض حضرات‘‘ کے نقطۂ نظر پر تنقید فرمائی ہے، لیکن آپ نے اپنی کتاب میں نہ ان بعض حضرات کا نام لکھاہے اور نہ ان کی کسی کتاب کا حوالہ دیا ہے۔ میں نے اپنے خط میں آپ سے پوچھا تھا کہ یہ بعض حضرات کون ہیں اور ان کا نام کیا ہے۔ ابھی تک مجھے آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا۔ براہِ کرم اپنا جواب بھیج کر شکریے کا موقع دیں۔
نئی دہلی، ۳۰ نومبر۲۰۰۵ء دعا گو وحید الدین
میرے ان دو خطوں کے بعد موصوف کا ایک خط ملا ، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترمی ومکرمی جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب مد ظلہ العالی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ جملہ متعلقین کے ساتھ بعافیت ہوں۔ آںجناب سے معذرت ہے کہ میری طرف سے جواب میں تاخیر کے سبب دوسرا خط لکھنے کی زحمت کرنی پڑی، والعفو عند کرام الناس مقبول۔
ماہ نامہ زندگی ٔ نَو میں قارئین کی طرف سے جو سوالات اور استفسارات آتے ہیں ان میں سے کچھ، محترم مدیر زندگی میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ تقریباً چار سال قبل ’’اقامتِ دین‘‘ کے موضوع پر ایک صاحب کے سوالات کے جواب میں مذکورہ تحریر لکھی تھی۔ مگر مدیر محترم کے مشورے پر سوالات اور سائل کا نام حذف کردیاگیا اور تحریر کا جوابی انداز بھی بدل دیاگیا اور ایک معروضی تحریر کے طورپر یہ اگست ۲۰۰۱ ء کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
آں جناب کی خدمت میں یہ تحریر بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اِس موضوع پر الرسالہ میںآپ مستقل لکھتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل الرسالہ کا ایک خصوصی شمارہ’’دین وشریعت‘‘ کے عنوان سے نکلا تھا۔ اس میں بھی یہی بحثیں اٹھائی گئی تھیں۔ پاکستان میں ماہ نامہ ’اشراق‘ میںبھی وقتاً فوقتاً اس موضوع پر تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔آں جناب سے گذارش ہے کہ میری تحریر میں استدلال کی کوئی غلطی ہو تو مطلع فرمائیں۔ والسلام
۱۴ دسمبر ۲۰۰۵ء دعاؤں کا طالب محمدرضی الاسلام ندوی
مصنف محترم کا یہ خط میرے سوال کا جواب نہ تھا بلکہ وہ وہی چیز تھی جس کو ٹالنے والا جواب(evasive reply) کہا جاتا ہے۔یہ جواب علمی اعتبار سے غیر تشفی بخش تھا۔ اس لیے میں نے انھیں دوبارہ درج ذیل خط روانہ کیا:
برادر محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۴دسمبر ۲۰۰۵ ملا۔ عرض یہ ہے کہ آپ کا یہ خط میرے استفسار کا جواب نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ آپ کے بیان کے مطابق، ’’بعض حضرات‘‘ کے نقطۂ نظر کے جواب میں ہے۔ چوں کہ مجھے ایسے بعض حضرات کا علم نہیں ہے، اس لیے میں بالتصریح ان کا نام یا ان کی کسی کتاب کا نام جاننا چاہتا ہوں، تاکہ یہ متعین کیا جاسکے کہ جن مفروضہ بعض حضر ات کے نقطۂ نظر کی تردید میں آپ نے یہ تحریر لکھی ہے وہ ان کے نقطۂ نظر کی واقعی تردید ہے، یا ایسا ہے کہ آپ نے بعض حضرا ت کے نقطۂ نظر کو بطور خود غلط صورت میں پیش کیا ہے۔ اگر یہ دوسری صورت ہو توآپ کی تنقید خود آپ کی اپنی مفروضہ صورت پر ہوگی نہ کہ بعض حضرات کے واقعی نقطۂ نظرپر۔
میںدوبارہ آپ سے گذارش کروں گا کہ آپ مذکورہ بعض حضرات کا نام اور ان کی کتاب کا نام بصراحت تحریر فرمائیں تاکہ دونوں نقطۂ نظر کا تقابل کرکے معاملے کو سمجھا جاسکے۔ آپ نے اپنی کتاب اپنے دستخط سے میرے پاس روانہ فرمائی تھی، اس لیے یہ خط لکھنے کی ضرورت پیش آئی، ورنہ اِس قسم کی خط وکتابت کی کوئی ضرورت نہ تھی۔
نئی دہلی ، ۱۹ دسمبر ۲۰۰۵ دعا گو وحید الدین
کافی انتظار کے بعد جب ان کا جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے حسب ذیل خط ان کو روانہ کیا:
برادرِ محترم ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کی کتاب ’’اقامتِ دین اور نفاذ شریعت‘‘ کے سلسلے میں آپ کو میں نے کئی خطوط لکھے، مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی واضح جواب مجھے نہیں مل سکا۔ میں نے یہ جاننا چاہا تھا کہ آپ نے اپنی اِس کتاب میں جن ’’بعض حضرات‘‘ کا حوالہ دیا ہے وہ کون لوگ ہیں۔میں متعین طورپر ان کا نام یاان کی کتاب کا نام جاننا چاہتا تھا۔ مگر آپ نے اِس سلسلے میں واضح اور متعین جواب دینے سے اعراض فرمایا۔ آپ کی اِس روش کے بعد میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ آپ نے جن بعض حضرات کا تذکرہ اپنی کتاب میں فرمایا تھا وہ محض ایک فرضی حوالہ تھا۔ ایسے حضرت کا یا تو حقیقت میں کوئی وجود نہیں، یا آپ نے مفروضہ بعض حضرات کی طرف ایک ایسی بات منسوب کردی ہے جو خود انھوں نے نہیںکہی تھی۔
میں عرض کروں گا کہ یہ طریقہ سراسر غیر علمی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ آدمی کو چاہیے کہ وہ ایسا غیر علمی طریقہ اختیار نہ کرے۔ اور اگر کسی وجہ سے اُس نے ایسا کیا تھا تو اب توجہ دلانے کے بعد کھُلے طور پر وہ اپنی غلطی کا اعتراف کرلے۔ اس طرح کی روش آدمی کے اندر غیر علمی مزاج پیدا کرتی ہے، اور آپ یقینا اِس اصولِ عام سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتے۔
نئی دہلی، ۷مارچ ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
اس کے بعد ان کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔ انھوں نے اپنے مذکورہ خط میں لکھا تھا کہ ’’میری تحریر میں استدلال کی کوئی غلطی ہو تو مطلع فرمائیں‘‘۔ میرے نزدیک یہ بات مغالطہ آمیز بھی ہے اور سخت غیر علمی بھی۔ اس لیے کہ جب صاحبِ کتاب ’’بعض حضرات‘‘ کا تعین نہ کریں تو کس بنیاد پر ان کے استدلال کا تجزیہ کیا جائے گا۔ بنائِ دعویٰ کے تعیّن کے بعد ہی ان کے خلاف، تردیدی بیان کا علمی تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
میرے اِس خط کے بعد دوبارہ موصوف کی طرف سے کوئی جواب مجھے وصول نہیں ہوا۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر علمی طریقہ ہے کہ آدمی ’’بعض حضرات‘‘ کا متعین حوالہ تو نہ دے سکے مگر ان کے نام پر ایسی تنقید چھاپے جو علمی اعتبار سے سراسر بے وزن ہو۔ تنقید کے لیے علمی جرأت ضروری ہے۔ جو لوگ اپنے اندر علمی جرأت نہ رکھتے ہوں انھیں ہر گز تنقید کاکام نہیں کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر — ۲

ماہ نامہ الفرقان (لکھنؤ) کے مرتّب مولانا محمد یحییٰ نعمانی کا ایک مضمون الفرقان کے شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ء میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا:’’امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ کا ایک عظیم کارنامہ، شریعتِ اسلامیہ کی حکیمانہ ترجمانی‘‘۔
اس مضمون میں ایک ذیلی عنوان کے تحت، انھوں نے ایک ایسی بات لکھی تھی جو میرے نزدیک علمی اعتبار سے بے بنیاد تھی۔ ان کے اِس مضمون کو پڑھ کر صاحبِ مضمون سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
مکرمی مولانا محمد یحییٰ نعمانی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ نامہ الفرقان کے شمارہ دسمبر ۲۰۰۵میں آپ کا اداریہ دیکھا۔ یہ اداریہ شاہ ولی اللہ دہلوی کے بارے میں ہے۔ اس کا ایک ذیلی عنوان یہ ہے:’’حکمتِ ولی اللہ کی عصری معنویت‘‘۔
اِس مضمون میں میں نے اس کے عنوان کے مطابق، شاہ ولی اللہ کی تعلیمات میں ’’عصری معنویت‘‘ کو تلاش کرنے کی کوشش کی، مگر یہ عصری معنویت مجھے اِس تحریر کے اندر نہیں ملی۔ پورا مضمون بیانیہ انداز میں ہے۔ آپ نے کوئی ایک بھی مثال ایسی نہیں دی جس سے آپ کے دعوے کے مطابق، یہ اندازہ ہو کہ شاہ ولی اللہ کی تحریروں میں عصری معنویت موجود ہے۔ براہِ کرم اس سلسلے میں صرف ایک متعین مثال تحریر فرمائیں جس سے معلوم ہو کہ شاہ ولی اللہ کو عصرِ جدید کا عرفان حاصل تھا اور اس کے مطابق، انھوں نے عصری رہنمائی فرمائی۔ آپ کا مضمون دعوے کی زبان میں ہے، مگر متعین مثال کے بغیر صرف دعوے سے کوئی بات علمی طورپر ثابت نہیں ہوتی۔
نئی دہلی، ۶ دسمبر ۲۰۰۵ء دعا گو وحید الدین
یہ خط بذریعے ڈاک روانہ کرنے کے بعد میں اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔ جواب نہیں آیا تو میں نے انھیں دوسرا خط روانہ کیا۔ یہ دوسرا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِمحترم مولانا محمد یحییٰ نعمانی! ا لسلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کے ایک مضمون شائع شدہ الفرقان دسمبر ۲۰۰۵ کے حوالے سے میں نے اپنے خط مؤرخہ ۶ دسمبر ۲۰۰۵ میں آپ سے ایک سوال کیا تھا۔ آپ نے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات ’’عصری معنویت‘‘ کی حامل ہیں۔ مجھے شاہ ولی اللہ کی کتابوں میں یہ عصری معنویت نہیں ملی۔ میں نے آپ سے اس کا متعین حوالہ پوچھا تھا، مگر اب تک آپ کی طرف سے مجھے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ براہِ کرم واضح جواب روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۷ جنوری۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
محترم مضمون نگار کی طرف سے میرے دوسرے خط کا جواب بھی نہیں آیا۔ کافی انتظار کے بعد میںنے یہ تیسرا خط ان کوروانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا محمد یحییٰ نعمانی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ماہ نامہ الفرقان کے شمارہ دسمبر ۲۰۰۵ میں آپ نے شاہ ولی اللہ دہلوی کے ایک ’’عظیم کارنامہ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی تعلیمات میں ’’عصری معنویت‘‘ کا تذکرہ فرمایا تھا۔ اِس سلسلے میں میں نے آپ سے شاہ ولی اللہ کی کسی تحریرکا حوالہ دریافت کیا تھا جس سے ان کا یہ کارنامہ متعین طورپر معلوم ہوتا ہو، مگر آپ نے اپنے دعوے کے ثبوت میں کوئی حوالہ روانہ نہیں فرمایا۔
ایسی حالت میں میں یہ ماننے پر مجبور ہوں کہ آپ نے محض زورِ ادب کے تحت ایسا لکھ دیا تھا۔ آپ کو خود ایسے کسی متعین حوالے کا علم نہیں۔ اگر آپ کو اِس سلسلے میں کسی واضح اور متعین حوالے کا علم ہوتا تو آپ ضرور اس کو تحریر فرماتے۔
میںعرض کروں گا کہ یہ طریقہ بے حد غیر علمی ہے۔ آپ کے لیے اِس معاملے میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ یا تو آپ متعین حوالہ تحریر فرماتے یا یہ اعتراف کرتے کہ میںنے غلط طور پر ایسا لکھ دیا تھا۔ اِن دو طریقوں کو چھوڑ کر خاموشی کا طریقہ اختیار کرنا سخت غیر علمی بات ہے۔ جو لوگ اِس قسم کی غیر علمی روش اختیار کریں وہ خود اپنے علمی اور فکری ارتقا کو روک رہے ہیں۔ ایسی روش کا نقصان آدمی کے اپنے حصّے میں آتا ہے نہ کہ کسی دوسرے کے حصّے میں۔
نئی دہلی، ۷ مارچ ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے نزدیک یہ نہ کوئی سادہ بات ہے ا ور نہ وہ کسی ایک شخص کا معاملہ ہے۔ وہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی عمومی نفسیات کو بتاتا ہے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان عام طورپر ’’دینِ اکابر‘‘ پر قائم ہیں۔ ایسے لوگ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ فرض کرلیتے ہیں کہ ان کے اکابر انھیں فکری عظمتوں کے مالک ہیں جو رسول اور اصحابِ رسول کو حاصل تھیں، وہ اُن ابدی صفات سے متصف ہیں جو رسول اور اصحابِ رسول کو ملی ہوئی تھیں۔ اِس بنا پر ان کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے اکابر کے بارے میں مذکورہ قسم کے بڑے بڑے دعوے کریں۔ اگر وہ ایسے بڑے بڑے دعوے نہ کریں توان کے نزدیک ان کے اکابر کی مفروضہ عظمت ہی مشتبہ ہوجائے گی۔
مگر اس طریقے کا ایک عظیم نقصان یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا ذہنی ارتقا رُک جاتا ہے۔ اکابر کی عظمت کا مفروضہ عقیدہ ان کے ذہنی سفر پر فل اسٹاپ لگا دیتا ہے۔ شاہ ولی اللہ دہلوی (وفات ۱۷۶۲) بلاشبہہ ایک بڑے عالمِ دین تھے۔ اپنے زمانے کے اعتبار سے انھوں نے بہت قابلِ قدر خدمات انجام دیں مگر یہ سمجھنا کہ شاہ ولی اللہ کی تحریریں ’’عصری معنویت‘‘ کی حامل ہیں، اِس بات کا ثبوت ہے کہ صاحبِ مضمون کو عصرِ جدید کی معرفت حاصل نہیں۔ کیوں کہ شاہ ولی اللہ دہلوی کی تحریروں میں نہ عصر جدید کا عرفان موجود ہے اور نہ عصرِ جدید کی نسبت سے اسلامی رہنمائی۔ اِس قسم کا بیان ایک مہلک خوش فہمی کے سوا اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۳

ماہ نامہ افکارِ ملّی کے سب ایڈیٹر مولانا غطریف شہباز ندوی کا ایک مضمون ماہ نامہ زندگی ٔ نو (نئی دہلی) کے شمارہ جنوری ۲۰۰۶ میں شائع ہوا۔ اس کا عنوان یہ تھا: ’’اجتہاد، عصرِ حاضر کی ایک دعوتی ضرورت‘‘۔
اِس مضمون میں انھوں نے ایک ایسی بات لکھی تھی جو میرے مطالعے کے مطابق، بالکل فرضی تھی۔ میں نے انھیں اس سلسلے میں ایک خط بھیجا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ماہ نامہ زندگیٔ نو کے شمارہ جنوری ۲۰۰۶ میں آپ کا ایک مضمون بعنوان: ’’اجتہاد، عصرِ حاضر کی ایک دعوتی ضرورت‘‘ چھپا ہے۔ اپنے اس مضمون میں آپ نے دار الدعوہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے تحت آپ نے یہ الفاظ لکھے ہیں: ’’ڈاکٹر یوسف القرضاوی پوری دنیا کو دار الدعوۃ قرار دیتے ہیں۔ محمد محروس مدرس الاعظمی بھی اسی نظریے سے اتفاق کرتے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۳۲ )
میں نے مذکورہ دونوں صاحبان کی کئی تحریریں پڑھی ہیں۔ اپنے مطالعے کے مطابق، میں نے ان کی کسی تحریرمیں دار الدعوہ کا تصوّر نہیں پایا۔ براہِ کرم اِن دونوں صاحبان کی اُن کتابوں کے نام اور ان کا صفحہ نمبرتحریر فرمائیں جن میں انھوں نے دار الدعوہ کے تصور کا ذکر کیا ہے، تاکہ اس سے رجوع کرکے اس بات کو معلوم کیا جاسکے۔
نئی دہلی ، ۴ جنوری ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
کافی انتظار کے باوجود اُن کی طرف سے اِس خط کا کوئی جواب نہیںآیا۔ اس کے بعد انھیں یاد دہانی کے طورپر دوسرا خط روانہ کیا گیا۔ اِس دوسرے خط کا مضمون یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
اس سے پہلے آپ کو ایک خط مؤرخہ ۴جنوری ۲۰۰۶ روانہ کرچکا ہوں۔ مگر ابھی تک اس کا کوئی جواب نہیںآیا۔ آپ نے لکھا تھا کہ ڈاکٹریوسف القرضاوی اور محمد محروس مدرس الاعظمی پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں۔ میرے مطالعے کے مطابق، یہ ایک بے بنیاد دعویٰ ہے۔ اِن حضرات نے یا کسی اور عالم نے صراحتاً ایسا نہیں لکھاہے۔ اگر آپ کے علم میں ایسے علماء ہیں تو بر اہِ کرم مطلع فرمائیں کہ انھوں نے ایسا کس کتاب میںلکھا ہے۔براہِ کرم اس سلسلے میں اپنے جواب سے مطلع فرمائیں۔
نئی دہلی ، یکم فر وری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے دو خط روانہ کرنے کے بعد ان کا ایک خط مجھ کو ملا۔ وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام جناب حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب حفظہ اللہ وتولاہ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
چند دن پہلے والا نامہ موصول ہوا، جس میں آپ نے موجودہ دنیا کو دار الدعوۃ قرار دینے سے متعلق، ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور محمد محروس مدرس الاعظمی کے حوالے کے سلسلے میں استفسار فرمایا ہے۔ عرض یہ ہے کہ یوسف القرضاوی صاحب کے فتاویٰ کی دو جلدیں (اردو ترجمہ) مرکزی مکتبہ اسلامی نے شائع کی ہیں۔ پہلی جلد پر مولانا جلال الدین عمری کا مقدمہ ہے۔ مقدمہ میںانھوںنے یہ بات ڈاکٹر قرضاوی کے بارے میں لکھی ہے کہ وہ موجودہ پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں اور دار الاسلام اور دار الحرب کی فقہی تقسیم پر نظر ثانی کی رائے رکھتے ہیں۔
مولانا عمری کے اس بیان پر تکیہ کرکے راقم نے زندگی ٔنو والے مضمون میں ڈاکٹرقرضاوی کی طرف یہ بات منسوب کردی ہے۔ محمد محروس مدرس الاعظمی کا تذکرہ راقم کی غلطی ہے۔ اور مجھے اپنی غلطی کا اعتراف ہے۔ ان کا حوالہ دار الاسلام اور دار الحرب کے سلسلے میں دیا جانا تھا۔
عید الاضحی کی وجہ سے جواب میں تاخیر ہوگئی ہے اس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ آپ کی بیش قیمت تالیفات سے برابر استفادہ کرتا رہتا ہوں۔ اگر چہ کہیں کہیں اختلاف کی جسارت بھی کرڈالی ہے لیکن اس سے انشاء اللہ آپ کبیدہ خاطر نہ ہوںگے۔ حاشا و کلا یہ ہر گز مقصود بھی نہیں۔ اگر کہیں سوئے ادب ہوگیا ہو تو میں اُس کے لیے معافی کا خواستگار ہوں۔
۱۶ جنوری ۲۰۰۶ء والسلام غطریف شہباز ندوی
ان کے اِس خط کو پڑھ کر میںنے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۴ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ اللہ تعالیٰ ہر طرح آپ کی مدد فرمائے اور آپ کو آپ کی اعلیٰ صلاحیت کے مطابق، دینی خدمت کا موقع عطا فرمائے۔
مولانا جلال الدین عُمری کی تحریر کا جو حوالہ آپ نے دیا ہے، وہ مکمل نہیں ہے۔ براہِ کرم ان کے اصل الفاظ اور کتاب کا صفحہ نمبر دونوں روانہ فرمائیں۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
نئی دہلی، ۱۸ فروری ۲۰۰۶ دعاگو وحید الدین
ان کے پہلے خط کو پڑھ کر میں نے مذکورہ کتاب میں اس کا کوئی حوالہ نہ پایا تو میں نے انھیں دوبارہ درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ نے اپنے خط مؤرخہ ۱۶ جنوری ۲۰۰۶ میں لکھا تھا کہ: ’’یوسف القرضاوی صاحب کے فتاوی کی دو جلدیں (اردو ترجمہ) مرکزی مکتبہ اسلامی، نے شائع کی ہیں۔ پہلی جلد پر مولانا جلال الدین عمری کا مقدمہ ہے۔ مقدمے میں انھوں نے یہ بات ڈاکٹر قرضاوی کے بارے میں لکھی ہے کہ وہ موجودہ پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں‘‘۔
میں نے ’’فتاویٰ یوسف القرضاوی‘‘ نامی مذکورہ کتاب کی پہلی جلد حاصل کی اور اس میں مولانا جلال الدین عمری کے پیش لفظ کو دیکھا، مگر اس میں نہ تو دار الدعوہ کا لفظ موجود ہے اور نہ یہ بات کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی موجودہ پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ آپ نے یہ بالکل بے اصل بات آخر کس طرح لکھ دی۔
۲۰فروری ، ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے اِس خط کے بعد ان کا ایک خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ادھر آپ کے کئی والا نامے ملے۔ امید ہے کہ میرا جواب بھی آپ کو موصول ہوا ہوگا۔ حال ہی میں میرے مطالعے میں ایک کتاب آئی ہے: ’’الإسلام والتعایش السلمی مع الآخر‘‘۔ (للدکتور طٰہٰ جابر علوانی) صدر ادارہ المعہد العالمی للفکر الاسلامیواشنگٹن، امریکا، صفحات ۱۰۲) اِس کے اخیر کے دو صفحات آپ کی خدمت میں فیکس کررہا ہوں،ان میں تقریباً وہی بات کہی گئی ہے جو دنیا کے ’’دار دعوت‘‘ ہونے کے سلسلے میںآپ کا موقف ہے اور خاکسار بھی اسی سے اتفاق رکھتا ہے۔
۲۱ فروری، ۲۰۰۶ نئی دہلی والسلام غطریف شہباز ندوی
ان کے اس خط کے بعد میں نے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۲۱ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ اس کے ساتھ آپ نے ایک عربی کتاب کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی روانہ کی ہے۔ اِس صفحے کو پڑھنے سے بات واضح نہیں ہوتی۔ میںاصل کتاب دیکھنا چاہتا ہوں۔ براہِ کرم اصل عربی کتاب مجھے عاریتاً عنایت فرمائیں۔ آپ مولانا محمد حسان ندوی کو یہ کتاب دے دیں۔ وہ مجھ کو کتاب پہنچا دیںگے۔ میں اس کو پڑھنے کے بعد کتاب آپ کو لوٹا دوں گا۔
نئی دہلی، ۲۷ فروری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
کافی انتظار کے بعد جب مجھے ان کا کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے درج ذیل خط انھیںروانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ نے اپنے مطبوعہ مضمون میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی پوری دنیا کو دار الدعوہ قرار دیتے ہیں۔ میںنے حوالے کے ساتھ یہ واضح کیا کہ آپ کا یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ موصوف کی کسی کتاب میں دار الدعوہ کا یہ تصور نہیں پایا جاتا ۔ مگر آپ نے اپنی غلطی کا اعتراف کیے بغیر ایک اور ناقص حوالہ پیش کردیا۔یہ ڈاکٹر طٰہٰ جابر العلوانی کی کتاب ’’الإسلام والتّعایش السّلمی مع الآخَر‘‘ کے دوصفحات (صفحہ نمبر درج نہیں) کی فوٹو کاپی ہے۔
مجھے ابھی تک اصل عربی کتاب نہیں ملی۔ تاہم آپ نے کتاب کے دو صفحات کی جو فوٹو کاپی بھیجی ہے اس کو میں نے بغور پڑھا ۔دوبارہ میں کہوں گا کہ ان مُرسَلہ صفحات سے آپ کا یہ دعویٰ ثابت نہیں ہوتا کہ ڈاکٹر العلوانی کے یہاں دار الدعوہ کا تصور پایا جاتا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اِس کتاب میں ایک مقام پردارِ دعوت کا لفظ موجود ہے، مگر صرف لفظ کی موجودگی سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مصنف کے یہاں وہ تصور موجود ہے جس کو دار الدعوہ کہاگیا ہے۔
آپ نے مرسلہ صفحات کے حسب ذیل جملے کی طرف اشارہ کیا ہے: ثم تنقسم الأرض من حیث کونہا داراً إلیٰ ’’دار إجابۃ‘‘ و ’’دار دعوۃ‘‘ وکلاہما ’’دارإسلام‘‘ (پھر زمین بحیثیت ایک دار کے، دو حصوں میں تقسیم ہوجاتی ہے، دارِ اجابت اور دارِ دعوت، اور دونوں دارِ اسلام ہیں)۔
مصنف کے اِس جملے میں دارِ دعوت کا لفظ ضرور ہے، لیکن اصل عبارت میں اس کا مفہوم بالکل واضح نہیں۔ مصنف کا کہنا ہے کہ زمین دارِ اجابت اور دار دعوت میں منقسم ہے، اور یہ دونوں ہی دار، بیک وقت دار اسلام ہیں۔ یہ جملہ صرف مصنف کے کنفیوژن کو بتاتا ہے۔ دار دعوت اور دار اسلام کی اصطلاحیں دو مختلف مِنطقوں کے درمیان فرق کو بتانے کے لیے ہیں، لیکن جب دونوں اصطلاحوں کو ایک کہہ دیا جائے تو دونوں کے درمیان فرق سِرے سے ختم ہو جاتا ہے۔ اِسی کا نام کنفیوژن ہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے کسی مفروضہ مفہوم کے تحت، دار دعوت کا لفظ تو استعمال کیا، مگر اُن پر یہ واضح نہیں تھا کہ دارِ دعوت حقیقتاً کیا ہے۔ دارِ دعوت یا دار الدعوہ در اصل یہ بتانے کے لیے ہے کہ غیر مسلموں کی نسبت سے مسلمانوں کی جو ذمّے داری ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان ان کے اوپر دعوت الی اللہ کے عمل کو انجام دیں۔ لیکن جب دارِ دعوت اور دار اسلام دونوں کو ایک کہہ دیا جائے تو دار الدعوہ کی وہ نوعیت ہی گُم ہوجاتی ہے جس کی وضاحت کے لیے یہ اصطلاح وضع کی گئی ہے۔
اصل یہ ہے کہ دماغ میں جب وضوح (clarity) ہو تو آدمی ایک چیز کو دوسری چیز سے الگ کرکے دیکھنے کے قابل ہوتا ہے، لیکن جب دماغ میں کنفیوژن ہو تو آدمی فرق کو نہیں سمجھ پاتا اور وہ ایک قسم کے فکری تضاد میں مبتلا رہتا ہے۔ مثلاً ایسا آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ برّ صغیر ہند، دو منطقوں میںتقسیم ہے۔ انڈیا دارِ دعوت ہے اور پاکستان دار اسلام، اور پھر دونوں بیک وقت دار الاسلام ہیں۔ اِس قسم کی بات کہنے والے کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ امتحان کی اصطلاح میں مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ یعنی وہ انڈیا کی شرعی نوعیت سے بھی بے خبر ہے اور پاکستان کی شرعی نوعیت سے بھی بے خبر۔
میںعرض کروں گا کہ یہ کوئی صحیح علمی طریقہ نہیںکہ آدمی ایک بیان دے اور پھر جب وہ بیان غلط ثابت ہوجائے تو وہ اپنی غلطی کا کھُلا اعتراف نہ کرے بلکہ غیر متعلق باتیں بول کر یہ ظاہر کرے کہ اس کا بیان درست تھا۔ اس قسم کی روش نفسیات کی اصطلاح میں، کمزور شخصیت(weak personality) کا ثبوت ہے۔ جو آدمی کمزور شخصیت کا حامل ہو اس کو اپنی اِس روش کی یہ بھاری قیمت دینی پڑتی ہے کہ اس کا علمی ارتقا مستقل طورپر رُک جائے اور وہ اعلیٰ فکری ترقی کا تجربہ نہ کرسکے۔
نئی دہلی، ۹مارچ ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
اِس خط کے بعد مولانا غطریف شہباز ندوی کی طرف سے ان کا ایک خط ملا۔ اپنے اس خط میں انھوں نے اعتراف کرکے اِس بحث کو ختم کردیا تھا۔ ان کا یہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب مد ظلہم العالی السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ موصول ہوا۔ اس ناچیز کے لیے آپ نے زحمت اٹھائی اس کا شکریہ۔ آپ نے جو کچھ تحریر فر مایا ہے میں اس کے لفظ لفظ سے متفق ہوں۔ اس سے پہلے ایک خط میں اپنی یہ غلطی صاف طور پر قبول کرچکا ہوں کہ دنیا کے دار دعوت ہونے کے سلسلے میں یوسف القرضاوی وغیرہ کی طرف جو بات میں نے منسوب کردی تھی وہ میری غلطی تھی۔ ہاں ایسا ضرور محسوس ہوتا ہے کہ بعض علما، قدیم فقہاء و علماء کے برعکس، دنیا کو دو داروں دار الاسلام و دار الحرب میں تقسیم کرنے کے سلسلے میں کچھ نئے انداز سے سوچنے لگے ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر محمد محروس مدرس الاعظمی کے مضمون کی اردو تلخیص کا ایک تراشہ بھی آپ کی خدمت میں راقم نے روانہ کیا تھا۔ اس مسئلے میں آپ کے استثناء کے ساتھ باقی اکثر علماء کوئی نئی بات کہنی بھی چاہتے ہیں تو گول مول انداز میں کہتے ہیں۔ ایسی ہی بعض تحریروں کے مطالعہ سے غلطی سے راقم نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ بعض علماء دنیا کو دار الدعوہ سمجھنے اور کہنے لگے ہیں۔ یہ بات اگر بعض علماء کی نسبت سے صحیح بھی ہو تب بھی بغیر حوالہ کے ایسا کہنا درست نہ تھا۔
بذریعہ فیکس طٰہ جابر العلوانی کی تحریر کا جو صفحہ میں نے روانہ کیا تھا اُس کا مقصد اپنی کسی بات کی پچ کرنا نہیں تھا بلکہ آپ کے سامنے صرف یہ رکھنا تھا کہ بعض جدید عرب علماء بھی اِس انداز میں سوچتے ہیں۔ باقی علوانی کی اِس تحریر پر آپ کا نقد نہایت مضبوط ہے۔ آپ کا یہ فرمانا بھی بالکل بجا ہے کہ موجودہ دور کے تمام علماء و فقاء اس موضوع پر کنفیوژن کا شکار ہیں۔ خاکسار کے نزدیک اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی اکثریت قدیم فقہی لٹریچر اور مصطلحات کی اسیر ہے۔ وہ اس نپے تلے فقہی چوکھٹہ سے باہر آنے کی ہمت نہیں کرپاتے، لہذا ان کی ساری بحث دار الکفر دارالاسلام، پھر دار الکفر کی مزید تقسیمات دار العہد، دار الامن ودار الحرب وغیرہ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ نتیجہ میں کنفیوژن پیدا ہوجاتا ہے۔
آپ چوںکہ نئے انداز سے سوچنے کی ہمت اور اجتہادی بصیرت رکھتے ہیں اور عصری اسلوب میں اپنی بات کہنے کا فن بھی جانتے ہیں۔ لھٰذا آپ کی تحریروں میں غموض اور ابہام کی جگہ شجاعت اور وضاحت پائی جاتی ہے۔ جو ایک پڑھے لکھے قاری کو اپیل بھی کرتی ہے۔ لیکن اس کو کیا کیجئے کہ عرب ہوں یا عجم، مسلم امت ان چیزوں کو ابھی تک محض روایتی انداز میں دیکھنے اوربرتنے کی عادی ہے۔ عام علماء اور وہ لوگ جو مزعومہ تحریکات اسلامیہ سے وابستہ ہیں دعوت دعوت تو ضرور چلاتے ہیں، لیکن وہ دعوت کو آخرت سے جوڑنے اور اسے ہر صاحبِ ایمان کی ذاتی، دینی ، انسانی و اخلاقی ذمہ داری کے بجائے ’’امامتِ عالم اورقیادت عالم‘‘ کے مزعومہ تصورات سے ہی جوڑ کر دیکھنے کے عادی ہیں۔ لھٰذا دعوت ان کے ہاں بھی ذمہ داری سے زیادہ فخر و مباہات کی نفسیات کی علامت بن کر رہ گئی ہے۔ ’’ہم ہی خیر امت ہیں‘‘ ایک دعوے کے طور پر دہرایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ انقلابی تحریکات، اسلام سے زیادہ مسلم قومیت کے خود ساختہ تصور کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اسلامی دعوت کی صحیح اور واضح ترین نمائندگی صرف آپ کی فکر کرتی ہے۔
مسلمان ،تحریکی لوگ ہوں یا علماء سب آپ سے مخاصمانہ رویہ برتتے ہیں اِس لیے وہ آپ کی دعوت اور فکر سے بھی عام مسلمانوں کو کاٹ دینے کی کوشش دانستہ کرتے رہتے ہیں۔
آپ اسے مبالغہ یا کذب بیانی خیال نہ فرمائیں۔ موجودہ علماء و مفکرین میں مجھے سب سے زیادہ آپ کی ہی تحریریں پسند ہیں۔ مسلم -سیاسی فکر، قانون بین الاقوامی، مسلمانوں کے غیر مسلم دنیا سے تعلقات کی نوعیت (مسالمہ یا محاربہ) وغیرہ، مختلف موضوعات پر خاکسار کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا ہے۔ آپ بھی رہنمائی فرمائیں۔
والسلام غطریف شہبار ندوی
ان کا یہ خط ملنے کے بعد میںنے انھیں ایک مختصر تحریر روانہ کی جو یہاں نقل کی جاتی ہے:
بر ادرِ محترم مولانا غطریف شہباز ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۶ ملا، شکریہ۔ اب اِس موضوع پر آپ سے خط وکتابت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۷؍ اپریل ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۴

ڈاکٹر محمد فاروق خان پاکستان کے ایک مسلم دانشور ہیں۔ ان کی ایک کتاب لا ہور سے ۲۰۰۵میں چھپی ہے۔ اس کتاب کے باب پنجم میں ایک ذیلی عنوان ’’دار الدعوۃ‘‘ کے تحت، انھوں نے یہ تحریر کیا ہے کہ اخوانی رہنما حسن الہُضیبی کے یہاں دار الدعوۃ کا تصور پایا جاتا ہے۔ میرے مطالعے کے مطابق، یہ ایک بے بنیاد دعویٰ تھا۔ چنانچہ میں نے صاحبِ کتاب کو ایک خط لکھا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:
برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کی تازہ کتاب ’’جہاد، قتال اور عالم اسلام‘‘ نظر سے گذری۔ اِس کتاب کے ایک ذیلی عنوان ’’دارالدعوۃ‘‘ کے تحت، آپ نے لکھا ہے:
’’دَور حاضر میں ایک نئی اصطلاح ’’دار الدعوۃ‘‘ استعمال کی گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک نہ دار الحرب ہیں اورنہ دار الکفر، بلکہ وہ ’’دار الدعوۃ‘‘ ہیں۔ یعنی یہ وہ ممالک ہیں جنھیں اسلام کی دعوت پہنچانا ہمارا کام ہے۔ یہ اصطلاح...... اخوان المسلمون کے مُرشدِ عام امام حسن الہُضیبی نے استعمال کی ہے۔ امام حسن الہضیبی نے اپنی کتاب ’’دُعاۃ... لاقُضاۃ‘‘ ’’یعنی ہم داعی ہیں نہ کہ قاضی‘‘ میں وضاحت اور تفصیل کے ساتھ اپنے موقف کو بیان کیا ہے کہ ہمارا کام کسی کو کافر اور دشمن قرار دینا نہیں، بلکہ تمام غیر مسلم ہمارے مدعو ہیں اور ہم داعی۔ یعنی ہم اُن کو اسلام کی دعوت پہنچانے کے مکلّف ہیں‘‘۔ (صفحہ ۹۵)
میںنے شیخ حسن الہضیبی کی کتاب ’’دعاۃ...لاقضاۃ‘‘پڑھی ہے، مگر میںنے اس میں وہ بات نہیں پائی جو آپ نے اُن کی بابت تحریر فرمائی ہے۔ حتی کہ اس کتاب میں ’’دار الدعوۃ ‘‘ کا لفظ بھی موجود نہیں۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ ’’دار الدعوۃ‘‘ کی یہ بات مذکورہ کتاب کے کس صفحے پر موجود ہے۔
نئی دہلی، ۱۹ جنوری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے اِس خط کا کوئی جواب صاحبِ کتاب کی طرف سے نہیں ملا۔ کافی انتظار کے بعد میں نے دوبارہ اُنھیں ایک خط روانہ کیا۔ میرے اس دوسرے خط کا مضمون یہ تھا:
برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میںنے آپ کے نام ایک خط مؤرخہ ۱۹ جنوری ۲۰۰۶ روانہ کیا تھا، مگر اب تک مجھے اس کا جواب نہیں ملا۔میں نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ آپ نے اپنی کتاب میں مصری عالم، حسن الہضیبی کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’دُعاۃ…لاقضاۃ ‘‘ میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ غیر مسلم اقوام ہماری مدعو ہیں اور ہم اُن کے لیے داعی ہیں، غیر مسلم ممالک کی حیثیت دار الدعوۃ کی ہے نہ کہ دارالحرب اور دار الکفر کی۔
میں نے لکھا تھا کہ مذکورہ کتاب میں نے پڑھی ہے، مگر اس میں دار الدعوہ کا لفظ کہیں موجود نہیں۔آپ کے قریبی جواب کا انتظار ہے۔
نئی دہلی، ۶ فروری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
محترم مولانامحمدذکوان ندوی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے آپ بخیر وعافیت ہوں گے۔ محترم ومکرم مولانا وحید الدین خاں صاحب کا خط چند روز پہلے مجھے موصول ہوا تھا۔ ’المورد‘ کی لائبریری شفٹ کرنے کے دوران میں مطلوبہ کتاب کہیں misplace ہوگئی۔ میں نے سوچا تھا کہ وہ کتاب مل جائے تو میں اپنی معروضات پیش کروں گا تاہم ابھی تک وہ کتاب نہیں مل سکی۔ میرے نزدیک اس کتاب کا لب لباب وہی ہے جو میں نے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے نام سے بھی یہی ظاہر ہے۔
۱۲ فروری، ۲۰۰۶ والسلام ، مخلص ڈاکٹر محمد فاروق خان
موصوف کے اس خط کے بعد میں نے انھیں ایک خط روانہ کیا جس کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۲ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ آپ کا یہ خط اصلاً میرے خط کے جواب میں ہے۔ لیکن کسی غلط فہمی کی وجہ سے اس میں مولانا محمد ذکوان ندوی کو ایڈریس کیاگیا ہے۔
آپ نے اپنے اِس خط میں میرے سوال کا جواب نہیں دیا ہے بلکہ براہِ راست جواب سے اعراض فرمایا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب میں مصری عالم استاذ حسن الہضیبی کا ذکر کیا ہے، اور بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی کتاب ’’دُعاۃ…لا قضاۃ‘‘ میں غیر مسلم ممالک کو دار الدعوۃ قراردیا ہے۔
میرا سوال مذکورہ کتاب کے صرف اس حوالے کے بارے میں تھا۔ میں نے پوچھاتھا کہ استاذ حسن الہضیبی نے اپنی مذکورہ کتاب کے کس صفحے پر غیرمسلم ممالک کے لیے ’’دار الدعوۃ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ غیر مسلم ممالک دار الحرب اور دار الکفرنہیں بلکہ وہ ’’دار الدعوۃ‘‘ ہیں۔ میں نے یہ کتاب پڑھی ہے اور میں نے اس میں کہیں بھی دار الدعوۃ کا لفظ نہیں پایا۔ آپ کا مذکورہ جواب علمی اعتبار سے مکمل طورپر غیر تشفی بخش ہے۔
آپ کا یہ کہنا کہ —’’کتاب کا لبّ لباب وہی ہے، اور کتاب کے نام سے بھی یہی ظاہر ہے‘‘۔ یہ دونوں باتیں سخت غیر علمی ہیں۔ کیوں کہ میںنے آپ سے یہ نہیں پوچھاتھا کہ کتاب کا لب لباب کیا ہے، بلکہ یہ پوچھا تھا کہ آپ کے دعوے کے مطابق، کتاب میں متعیّن طورپر ’’دارالدعوۃ‘‘ کی اصطلاح کہا ں استعمال ہوئی ہے۔ آپ کا یہ عذر کہ کتاب مِس پلیس(misplace) ہوگئی ہے، موجودہ پریس اور کمیونکیشن کے دَور میں مضحکہ خیز حد تک ناقابل قبول ہے۔ شریعت کا اصول ہے کہ: البیّنۃ علی المدّعی۔ چوں کہ آپ نے ایک دعویٰ کیا ہے، اِس لیے اب آپ ہی کی یہ ذمّے داری ہے کہ آپ اپنے اس دعوے کے حق میں مطلوب ثبوت پیش فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۶فروری ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے اِس خط کے بعد ان کا ایک خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم ومکرم مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ میں آپ کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے ایک اہم غلطی کی طرف میری توجہ دلائی۔ میں اپنے پبلشر کو پیغام دے رہا ہوں کہ ان کے پاس جتنے نسخے بھی موجود ہیں، ان کے متعلقہ صفحے سے استاذ حسن الہضیبی کا نام کاٹ دیں۔ فی الوقت یہ کتاب صرف پانچ سو کی تعداد میں چھپی ہے اور میرا خیال ہے کہ اس کے کم ہی نسخے نکلے ہوں گے۔ انشاء اللہ جب اس کتاب کا اگلا ایڈیشن شائع ہوگاتو اس میں نہ صرف یہ کہ اس غلطی کی اصلاح کردی جائے گی بلکہ اس میں جناب حسن الہضیبی کے بارے میں تبصرہ بھی اس موضوع سے علیحدہ درج کیا جائے گا۔ انشاء اللہ اگلے ایڈیشن میں موجودہ ایڈیشن کی اس غلطی کا تذکرہ بھی ہوگا تاکہ زیادہ سے زیادہ قارئین تک یہ بات پہنچ جائے۔
آپ نے میرا عذر قبول نہیں فرمایا حالانکہ میری بات بالکل حقیقت پر مبنی تھی۔ میںایک دور افتادہ چھوٹے سے شہر میں رہتا ہوں جہاں پریس اور کمیونیکیشن کا وہ حال نہیں ہے جو بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ جب بھی آپ کا کوئی نمائندہ لاہور آئے تو وہ کتاب مس پلیس ہونے سے متعلق ذمے دار افراد سے خود اس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں۔
والسلام
۱۹ فروری ، ۲۰۰۶ آپ کا مخلص ڈاکٹر محمد فاروق خان
ان کے اس خط کے بعد میں نے حسب ذیل خط ان کو روانہ کیا:
برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۹ فروری ۲۰۰۶ ملا۔ آپ نے اپنی تحریر کے متعلق وضاحت کرتے ہوئے جو کچھ لکھا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو صرف ’’ایڈیشن کی غلطی‘‘ سمجھتے ہیں۔ ایڈیشن کی غلطی کا لفظ ایک مبہم لفظ ہے۔ اِس سے غلطی کی اصل نوعیت معلوم نہیں ہوتی۔آپ کو غیر مبہم انداز میں یہ لکھنا چاہیے کہ جو الفاظ آپ کی کتاب میں چھپے ہیں وہ آپ نے غلط طور پر لکھ دیے تھے، یا آپ کے کسی قصد کے بغیر وہ اتفاقاً اپنے آپ ہی اس میں چھپ گیے۔ میرے نزدیک، آپ کی کتاب میں جو غلطی کی گئی ہے وہ یقینی طورپر طباعت کی غلطی نہیں ہے بلکہ وہ خود مصنف کی اپنی تحریری غلطی ہے۔ میں دوبارہ عرض کروں گا کہ آپ متعیّن الفاظ میں اِس معاملے کی وضاحت تحریر فرمائیں۔
نئی دہلی، ۲۰ فروری ۲۰۰۶ دعاگو وحید الدین
کافی انتظار کے بعد جب ان کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا تو میں نے ان کی خدمت میں درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم ڈاکٹر محمد فاروق خان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کی کتاب ’’جہاد، قتال اور عالمِ اسلام‘‘ کے بارے میں میں نے آپ سے ایک خط وکتابت کی تھی مگر آپ نے واضح اور متعین جواب سے اعراض فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے، یا تو آپ بتائیں کہ آپ کے دعوے کے مطابق، کتاب ’’دعاۃ…لاقضاۃ‘‘ کے کس صفحے پر ’’دار الدعوۃ‘‘ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے، یا پھر صاف طورپر یہ اعتراف کریں کہ آپ نے جو حوالہ دیا وہ ایک غلط حوالہ تھا۔ آپ کے لیے یہ کوئی درست طریقہ نہیں کہ آپ اصل سوال کا براہِ راست جواب نہ دے کر ٹالنے والے جواب (evasive reply) کا انداز اختیار کریں۔
میں عرض کروں گا کہ آپ کا یہ طریقہ سخت غیر علمی طریقہ ہے۔ اِس قسم کی روش کا نتیجہ آدمی کے حصّے میں یہ آتا ہے کہ اس کی علمی ترقی رُک جائے اور وہ اعلیٰ فکری ارتقاء کے درجے تک نہ پہنچ سکے۔
نئی دہلی،۸مارچ ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۵

ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی مدیر ماہ نامہ زندگی ٔ نَو (نئی دہلی) کا ایک مضمون زندگی ٔ نَو میں ’’اشارات‘‘ کے طور پر چھپا ۔ اس کا تعلق ڈنمارک میں شائع ہونے والے حالیہ کارٹون سے تھا۔ اِس مضمون کو پڑھنے کے بعد میں نے انھیں ایک خط روانہ کیا جس کا متن یہ تھا:
برادر محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ نامہ زندگی ٔ نو کا شمارہ اپریل ۲۰۰۶ دیکھا۔ اس کے ’’اشارات‘‘ میں آپ نے ڈنمارک کے ایک اخبار میں شائع شدہ کارٹون پر تبصرہ فرمایا ہے۔ اِس تحریر کے آخر میں آپ نے ’’ایک معروف مفکّر‘‘ کے حوالے سے ان کی طرف کچھ باتیں منسوب کی ہیں، مگرآپ نے اِس معروف مفکر کا نام نہیں لکھا اور نہ یہ حوالہ دیا کہ انھوں نے اپنی کس تحریر یا کتاب میں وہ بات لکھی ہے جو آپ نے ان کی طرف منسوب فرمائی ہے۔
براہِ کرم مذکورہ معروف مسلم مفکر کا نام تحریرفرمائیں، نیز یہ کہ انھوں نے اپنی کس تحریر میں وہ بات لکھی ہے جو آپ نے ان کی طرف منسوب کی ہے، تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ آپ نے جوبات اُن کی طرف منسوب کی ہے وہ خود انھوں نے لکھی ہے یا آپ نے ان کی بات کو بطور خود بگڑی ہوئی صورت میں پیش کیا ہے۔ براہِ کرم نام اور حوالہ دونوں تحریر فرمائیں، تاکہ اِس معاملے کو متعین طورپر سمجھا جاسکے۔
نئی دہلی، ۳۱ مارچ ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
مذکورہ خط کا جواب موصول نہیں ہوا تواس کے بعد میںنے بطور یاد دہانی انھیں دوسرا خط روانہ کیا۔ تاہم ان کی طرف سے میرے خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ میرے مذکورہ خط کا متن درج ذیل ہے:
برادرِ محترم ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ۳۱ مارچ ۲۰۰۶ کو میں نے آپ کی خدمت میں ایک جواب طلب خط روانہ کیا تھا مگر اس سلسلے میں آپ کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ براہِ کرم اس سلسلے میں اپنا جواب ارسال فرمائیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ آپ نے ماہ نامہ زندگی ٔ نو (اپریل ۲۰۰۶) میں ’’اشارات ‘‘کے تحت، ڈنمارک کے اخبار میں چھپنے والے حالیہ کارٹون کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اس سلسلے میں آپ نے مزید لکھا تھا کہ : ’’شیطانی کارٹون کے خلاف امتِ مسلمہ کے عالم گیر اضطراب اور احتجاج کے دوران ملتِ اسلامیہ کے بعض مسلم ناصحین بھی میدانِ کار میں اتر آئے ہیں۔ یہ سب نصیحت فرمانے لگے ہیں کہ ’’مسلمانو! صبر کا رویّہ اختیار کرو، جیسا کہ دُشنام طرازی کہ مابَین خود رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا۔ قرآن کریم نے خود حریفوں کی الزام تراشی اور ہرزہ گوئی کے درمیان صبر کا رویّہ اختیار کرنے کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی تھی:فاصبر علیٰ ما یقولون، وسبّح بحمد ربّک۔ (یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں آپ اس پر صبر کیجئے اور اپنے رب کی تسبیح و پاکی بیان کیجئے اور حمد و ثنا کیجئے)۔اس لیے مسلمانوں کو بھی صبر کرنا چاہیے‘‘۔ یہ نصیحت ہندستان کے ایک معروف مفکر اکثر ہندی مسلمانوں کو ہدیہ کرتے رہتے ہیں اور اس طرح ارشاد فرماتے ہیں کہ گویاگناہ گار خود مسلمان ہیں‘‘۔ (صفحہ ۱۵)
آپ نے اپنی اِس تحریر میں جن صاحب کا حوالہ دیا ہے ان کا نام آپ نے ذکر نہیں فرمایا۔ براہِ کرم نام کی تصریح کے ساتھ مطلع فرمائیں کہ یہ کون صاحب ہیں، اور انھوں نے اپنی کس کتاب یا مضمون میں وہ نقطۂ نظر تحریر کیا ہے جس کو آپ نے اپنے ’’اشارات‘‘ میں ان کی طرف منسوب فرمایا ہے۔
نئی دہلی، ۱۳؍ اپریل ۲۰۰۶ء طالب جواب وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر — ۶

ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی، مدیر مجلّہ علوم القرآن (علی گڈھ) کا مولانا حمید الدین فراہی کے بارے میں ایک مضمون چھپا تھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر میں نے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ علی گڈھ سے شائع ہونے والے ششماہی مجلّہ علو م القرآن (جنوری۔دسمبر ۱۹۹۱) میں آپ کا ایک مضمون دیکھا، اس کا عنوان یہ تھا:
’’ترجمان القرآن، مولانا حمید الدین فراہی کی فکری اور اصلاحی تحریک‘‘۔
اپنے اس مضمون میں آپ نے یہ لکھا تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی علی گڈھ کے زمانۂ قیام میں ’’نہ صرف عصری علوم سے آشنا ہوئے بلکہ عصری اسلوب ومزاج اور عصری اندازِ تحقیق وترسیل سے پوری واقفیت بہم پہنچائی۔ یہیں انگریزی زبان پر عبور حاصل کیا اور فلسفۂ جدید کے ذوق آشنا ہوئے…یہ امر واقعہ ہے کہ قدیم و جدید کا جیسا مجمع البحرین اُن کی ذات والا صفات میں نظر آتا ہے اس کی مثال ملنی مشکل ہے‘‘۔ (صفحہ ۸۷)
اس کے بعد مجھے سرائے میر (اعظم گڑھ) سے شائع ہونے والے سہ ماہی مجلّہ نظام القرآن کا شمارہ ستمبر، اکتوبر، نومبر ۲۰۰۵ ملا۔ اس میںآپ کا ایک مضمون اِس عنوان کے ساتھ چھپا ہے: فکرِفراہی، مرض اور علاج۔
اپنے اِس مضمون میں آپ نے دوبارہ لکھا ہے کہ مولانا حمید الدین فراہی نے علی گڑھ میں ’’جدید نظریات اور فلسفے سے واقفیت ہی حاصل نہیں کی بلکہ اُن کا گہرا مطالعہ کیا اور علمی اور ذہنی سطح پر اپنے آپ کو اس کام کے لیے تیار کیا جو اُن کے پیش نظر تھا... وہ جدید تعلیم سے بر اہِ راست واقف تھے‘‘۔ (صفحہ ۶۹)
آپ کے اِن دونوں مضامین میں آپ کے دعوے کے حق میں مولانا فراہی کی کسی تحریر کا کوئی متعلق حوالہ موجود نہیں۔میں نے خود مولانا حمید الدین فراہی کی تحریریں دیکھی ہیں، مگر ان کی کسی بھی تحریر یا کتاب میں ان کی وہ تصویر مجھے نہیں ملی جس کاذکرآپ نے اپنے مذکورہ دونوں اقتباس میں فرمایا ہے۔ ان کی تحریروں سے قدیم میں ان کی دست گاہ کا ثبوت تو ملتا ہے لیکن عصری افکار اور جدید علوم میں ان کی مہارت کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔
براہِ کرم متعین طور پر بتائیں کہ مولانا حمید الدین فراہی کی کس کتاب یا کتاب کے کس صفحے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ عصری افکار اور جدید علوم میں تبحر کا درجہ رکھتے تھے، جیسا کہ آپ نے اپنے مضامین میں تحریر فرمایا ہے۔
نئی دہلی، ۳۰؍اپریل ۲۰۰۶ دعا گو و حید الدین
ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں ملا تو میں نے انھیں یاددہانی کے طور پر درج ذیل خط لکھا:
برادرِ محترم ڈاکٹر اشتیاق احمد ظلّی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ۳۰ ؍اپریل ۲۰۰۶ کو میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا تھا۔ یہ خط آپ کے ایک مطبوعہ مضمون سے متعلق تھا۔ میں نے آپ سے آپ کی لکھی ہوئی ایک بات کی وضاحت طلب کی تھی، مگر ابھی تک آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا۔براہِ کرم جلدجواب روانہ فرماکر شکریے کا موقع دیں۔
نئی دہلی، ۲۶ مئی ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر — ۷

مولانا محمد کلیم صدیقی، سرپرست ماہ نامہ ارمغان شاہ ولی اللہ (پھُلت، ضلع مظفر نگر) کا ایک مضمون مولانا عبد اللہ عباس ندوی کے متعلق، ارمغان میں چھپا تھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر میںنے انھیں یہ خط لکھا:
برادرِ محترم مولانا محمد کلیم صدیقی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ماہ نامہ ارمغان ولی اللہ کا شمارہ اپریل-مئی ۲۰۰۶ دیکھا۔اس میں آپ کاایک مضمون چھپا ہے، اس کا عنوان یہ ہے:’’حضرت مولانا عبد اللہ عباس ندوی، چند یادیں چند باتیں‘‘
اس مضمون میںآپ نے مولانا عبد اللہ عباس ندوی کے تذکرے کے ذیل میں لکھا ہے کہ:
’’حق و باطل کو قریب سے دیکھنے اور ان کے درمیان تحقیقی تقابل کے بعدحق کی عظمت آشکارا ہوتی ہے اور ایسی شخصیات جن کو مشرق و مغرب کے مے خانوں سے استفادے کا موقع ملتا ہے تو وہ حق کی عظمت اور اعتراف کے سلسلے میں صاحب تقلید نہیں رہتے بلکہ صاحب تحقیق ہوجاتے ہیں۔ اور پھر ان کی زبان و قلم سے جو بھی نکلتا ہے اس سے حق پر اُن شخصیات کا تحقیقی اعتماد ظاہر ہوتا ہے۔ مولانا عبد اللہ عباس ندوی کو اللہ نے اِس کا موقع دیا تھا…انھوں نے مغرب کی راجدھانی انگلینڈ میںمغربی علوم، تہذیب ومعاشرت کا تحقیقی وتقابلی نظر سے مطالعہ کیا تھا۔وہ وہاں کے محققین میںشمار کیے جاتے تھے‘‘۔ (صفحہ ۹)
آپ کے اِس اقتباس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مولانا عبداللہ عباس ندوی، مغربی علوم میں صاحبِ تحقیق کا درجہ رکھتے تھے۔ ان کاشمار ’’مغرب کے محققین‘‘ میں کیا جاتا تھا۔ جہاں تک مشرقی موضوعات کا تعلق ہے، ان میں مولانا عبد اللہ عباس ندوی بلاشبہہ دست رس رکھتے تھے،لیکن میںان کی کسی ایسی تحریر کو نہیں جانتا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ مغربی علوم میں محقق کا درجہ رکھتے تھے اور ان کا شمار مغرب کے محققین میں ہوتا تھا۔
براہِ کرم مولانا عبد اللہ عباس ندوی کی کسی ایسی کتاب یا مقالے کا حوالہ تحریر فرمائیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ وہ مغربی علوم میں تحقیقی دست گاہ رکھتے تھے۔ اِس قسم کا کوئی متعین حوالہ بھیج کر ممنون فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۰؍اپریل ۲۰۰۶ء دعا گو
وحیدالدین
کافی انتظار کے بعد جب مولانا موصوف نے میرے خط کا کوئی جواب اور اپنے دعوے کے حق میں کوئی حوالہ نہیں فرمایا تو میں نے دوبارہ انھیں ایک خط روانہ کیا۔ اس خط کا مضمون یہ تھا:
برادرِ محترم مولانا محمد کلیم صدیقی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ ۱۰؍ اپریل ۲۰۰۶ کو میں نے آپ کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا تھا۔ یہ خط آپ کے ایک مطبوعہ مضمون سے متعلق تھا۔ میں نے آپ سے آپ کی تحریر کردہ ایک بات کا حوالہ دریافت کیا تھا، مگر ابھی تک آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا۔
براہِ کرم میرے خط کا جواب جلد روانہ فرماکر شکریے کا موقع دیں۔
نئی دہلی، ۲۵ مئی ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
طویل انتظار کے بعد جب کوئی جواب مجھے نہیں ملا تو میں نے ان کو درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا محمد کلیم صدیقی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ عریضہ میںاپنے سابقہ خط کے ضمن میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔ آپ نے اپنے ماہ نامہ ارمغان شاہ ولی اللہ (اپریل۔مئی ۲۰۰۶) میں لکھا تھا کہ مولانا عبد اللہ عباس ندوی مغربی علوم میں صاحبِ تحقیق کا درجہ رکھتے تھے۔ اُن کا شمار مغرب کے محققین میںہوتا تھا۔ مگر میں ان کی کسی ایسی تحریر کو نہیں جانتا جس سے معلوم ہوتا ہو کہ مولانا عبد اللہ عباس ندوی مغربی علوم میں محقق کا درجہ رکھتے تھے۔ میں نے آپ سے آپ کے اِس بیان کا متعین حوالہ دریافت کیا تھا، مگر ابھی تک آپ کی طرف سے اِس سلسلے میں کوئی جواب موصول نہیںہوا۔
اب میں اِس سلسلے میں اپنا آخری خط آپ کو لکھ رہا ہوں۔ اگر آپ نے اس کا جواب روانہ نہیں فرمایا تو میں یہ سمجھوں گا کہ مولانا عبداللہ عباس ندوی کے متعلق، آپ کایہ بیان صرف قصیدہ نگاری کے طورپر تھا، وہ ایک امرِ واقعہ کا بیان نہ تھا۔ کیوں کہ امرواقعہ کا ہمیشہ ایک متعین حوالہ ہوتا ہے۔ جب کہ مدحیّہ قصیدے کی حیثیت صرف ایک شاعرانہ مبالغے کی ہوتی ہے، وہ کسی ایسی حقیقت پر مبنی نہیں ہوتا جس کا حوالہ دینا ممکن ہو۔
نئی دہلی، ۳۰؍ اگست ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۸

ماہ نامہ زندگیٔ نو (نئی دہلی) کے شمارہ جون ۲۰۰۶ میں ’’رسائل ومسائل‘‘ کے تحت، مولانا محمد شاہد خان ندوی (دوحہ، قطر)کا ایک مراسلہ چھپا۔ اپنے اِس مراسلے میں انھوں نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بارے میں ایک ایسی بات لکھی تھی جو میرے نزدیک علمی اعتبار سے بے بنیاد تھی۔ اس سلسلے میں ان سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
برادرِ محترم مولانا محمد شاہد خان ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ کا ایک مراسلہ ماہ نامہ زندگی ٔ نو (جون ۲۰۰۶) میںچھپا ہے۔ اس مراسلے میں آپ نے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کے بارے میں لکھا ہے کہ—’’عصرِ حاضر اور اسلام پر شاید ہی کوئی دوسرا عالم اتنا لکھتا اور بولتا ہو جتنا کہ علامہ یوسف القرضاوی لکھتے اور بولتے ہیں‘‘ ۔ (صفحہ ۸۰)
اِس بیان سے آپ کی مراد اگریہ ہو کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے عصرِ حاضر میں پیدا شدہ بعض جُزئی فقہی مسائل کے متعلق کلام کیا ہے تو یہ بجائے خود درست ہے، لیکن اگر آپ کا مطلب یہ ہے کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے عصرِ حاضر اور اسلام کے موضوع کو اس کے عمیق معنوں میں سمجھا ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے اس کا علمی تجزیہ کیا ہے تو مجھے ان کی ایسی کسی کتاب کا علم نہیں۔ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے اپنی کس کتاب میں اسلام اور عصرِ حاضر کے موضوع پر اِس عمیق مفہوم میں اس کاگہرا علمی تجزیہ کیا ہے۔ براہِ کرم متعیّن طور پر صفحہ نمبر کے ساتھ اُن کی متعلقہ تحریر کا حوالہ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۳ جون ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
جواب میں تاخیر ہوئی تو میں نے یاد دہانی کے لیے دوبارہ درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا محمد شاہد خان ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۳ جون ۲۰۰۶ میں، آپ سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی کسی ایسی تحریر کا ایک متعین حوالہ دریافت کیا تھا جس سے آپ کے دعوے کے مطابق، یہ معلوم ہو کہ انھوں نے اسلام اور عصرِ حاضر کے موضوع کو اس کے عمیق معنوں میں سمجھا ہے اور اس کا علمی تجزیہ کیا ہے۔ مگر ابھی تک آپ نے اس کا کوئی جواب روانہ نہیں فرمایا۔براہِ کرم جلد میرے خط کا متعین جواب روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۳ جولائی ۲۰۰۶ء جواب کا منتظر وحید الدین
میرے ان دو خطوں کے بعد مراسلہ نگار کا درج ذیل خط مجھے بذریعے ای میل موصول ہوا:
فضیلۃ الاستاذ مولانا وحید الدین خاں صاحب اطال اللہ بقاء کم وادام فیوضکم السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوگا!
آپ کاای میل نظر نواز ہوا۔ پہلی بار انٹرنٹ کی برکت سے آپ سے شرف ہم کلامی حاصل ہورہا ہے، میں آپ کے مؤقر جریدہ –الرسالہ– کا تقریباً بارہ تیرہ سال سے شیدائی ہوں، آپ کی تحریروں کو بڑے شوق سے پڑھتا ہوں، زمانہ طالب علمی ہی میں آپ کی کتاب –مذہب اور جدید چیلنج، تعبیر کی غلطی– اور چند دوسری کتابیں پڑھ لی تھیں، اُسی زمانہ سے الرسالہ مطالعہ کے لیے اِدھر اُدھر سے حاصل کرتا تھا نہ ملنے کی صورت میں لکھنؤ شہر کے بعض مکتبوں سے خرید کر پڑھتا تھا، جب میں قطر آگیا تو یہاں اردو داں حلقے سے جس حد تک بھی میری واقفیت تھی کسی کے پاس بھی الرسالہ نہیں آتا تھا، آپ کے افکار سے واقفیت رک گئی، شوق نے پھر مہمیز کیا اور میں نے الرسالہ یہاں کے پتہ پر جاری کروایا جو میری سستی اور بعض دوسری مشغولیات کی بنا پر تجدید اشتراک نہ کرسکنے کی وجہ سے پچھلے سال جون میں بند ہوگیا۔
ماشاء اللہ آپ کا مطالعہ بہت وسیع ، آپ کا اسلوب نگارش بہت عمدہ اور طریقۂ استنتاج بہت منفرد ہے۔ آپ کا ذہن تقلیدی نہیں، آپ اوریجینل چیزیں پیش کرتے ہیں اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں اور ان کی سائنٹفک توجیہ کرتے ہیں، عصر حاضر میںاسلام کی خدمت کے حوالے سے آپ کی کوششیں اور کاوشیں قابل قدر ہیں۔
جب بھی ہندستان میں مسلمانوں کو کوئی نیا مسئلہ در پیش ہوتا ہے آپ کی ذات گرامی سے توقع ہوتی ہے کہ کوئی عمدہ چیز سامنے آئے گی اور عام تقلیدی مزاج سے ہٹ کر آپ کوئی مجتہدانہ رائے دیں گے لیکن معذرت کے ساتھ بعض مسائل میںآپ کی طرف سے ہم لوگوں کو شدید مایوسی ہوئی، مثلاً گڑیا کا معاملہ، آپ لوگوں نے فیصلہ پہلے شوہر کے حق میں دیا۔ اس دن زی ٹیلی ویژن کے اسکرین پر ہم لوگ آپ کو سن رہے تھے، ایک عام آدمی نے اس دن اس فیصلہ کو آپ سے درایۃً جاننا چاہا تو آپ نے اسے اطمینان بخش جواب دینے کے بجائے اس سے کچھ اسی طرح کے الفاظ فرمائے کہ شریعت میں عقل کا گھوڑا دوڑانا چاہتے ہو؟
اسی طرح سے عمرانہ کا مسئلہ جس کے ساتھ اس کے خسر نے زنا کیا، اور ایک قدیم فقہی فیصلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اسے باپ کی موطوء ۃ قرار دیاگیا حالاں کہ حدیث شریف کہتی ہے کہ —الولد للفراش وللعاہر حجر– اس موقع پر آپ سے توقع تھی کہ آپ روح شریعت کو صحیح طورپر پیش کریں گے، اور شریعت کی روشنی میں ایسا معقول اور دل لگنے والا فیصلہ دیں گے جس سے تمام لوگ مطمئن ہوں گے۔ لیکن مایوسی ہوئی، یقین مانئے کہ اس طرح کے فیصلوں سے اسلام کی بدنامی ہوتی ہے اور میڈیا کے اس دور میں دوسرے لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ قصور اسلام میں ہے اور وہ اس دور کے تقاضوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے، میری ان معروضات کا مقصد تنقید ہرگز نہیں بلکہ یہ باتیں میں نے آپ سے اس لیے عرض کی ہیں کہ آپ ایک بلند پایہ روشن دماغ عالم دین ہیں، اور آپ کا ایک حلقہ اثر ہے، اور لوگوں کے مقام و مرتبہ کے مطابق ہی ان سے امیدیں قائم کی جاتی ہیں۔ ہم جیسے لوگ آپ کی تحریروں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، بہت ممکن ہے کہ آپ لوگوں کا فیصلہ درست بھی ہو لیکن اس دور میں ایک عام عقل کو اس طرح کی چیزیں مطمئن کرنے والی نہیں ہیں۔
جہاں تک ڈاکٹر علامہ یوسف القرضاوی صاحب کے سلسلہ میں آپ کے استفسار کا سوال ہے تو یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے کہ انھوںنے عصر حاضر میں پیدا شدہ بے شمار فقہی مسائل پر مجتہدانہ گفتگو کی ہے لیکن انہوں نے صرف فقہی مسائل کو ہی اپنا موضوع نہیں بنایا ہے بلکہ عصر حاضر کے سیاسی، سماجی، اور دیگر مسائل کو گہرائی سے دیکھا اور اسلامی نقطۂ نظر سے ان پر کلام کیا ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں عصر حاضر میں دین کی تفہیم و تشریح اور اسلام کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی ہے، جیسا کہ میں نے اپنا مراسلہ (زندگی نو، جون ۲۰۰۶) میں لکھا ہے کہ، انٹرنٹ ویب سائٹ موقع القرضاوی islamonline، اور الجزیرہ سیٹلائٹ چینل کے ہفتہ واری پروگرام الشریعۃ والحیاۃ، قطر ٹیلی ویژن کے ہفتہ واری پروگرام ہدی الاسلام میں ان کی سرگرمیوں کو دیکھا جاسکتا ہے، ان پروگراموں کے ذریعہ اسلام کو عصری انداز میں پیش کیا جاتا ہے، عصر حاضر کے مسائل اٹھائے جاتے ہیں اور مختلف چیلنجز کا اسلامی حل پیش کیا جاتا ہے، علامہ موصوف انتہائی مصروف انسان ہیں، خدمت دین ان کی زندگی کا اوڑھنا بچھونا ہے، اس عمر میں بھی وہ انتھک محنت کرتے ہیںمختلف عالمی کانفرنسوں میں شرکت کرتے ہیں جس میں ایک موضوع حوار الادیان بھی ہے، جمعہ کا ان کا خطبۂ ثانیہ (جو قطر سے ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے) ہمیشہ حالاتِ حاضرہ پر ہوا کرتا ہے جس میں تنقید بھی ہوتی ہے اور توجیہہ بھی۔
ان کی مکمل فکر کو کسی ایک اقتباس سے نہیں سمجھا جاسکتا، ان کے افکار بے شمار کتابوں میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کو یکجا کرنے کے بعد ہی ان کی مکمل فکر سامنے آسکتی ہے، یہاں میں ان کی چند کتابوں کی طرف اشارہ کررہا ہوں۔
۱ ۔ فقہ الاولویات دراسۃ جدیدۃ فی ضوء القرآن والسنۃ۔
۲۔ این الخلل۔
۳۔ الاسلام والعلمانیۃ وجہا لوجہ۔
۴۔ شریعۃ الاسلام صالحۃ للتطبیق فی کل زمان ومکان۔
۵۔ الحلول الاسلامی وکیف جنت علی امتنا۔
۶۔ بینات الحل الاسلامی وشبہات العلمانیین والمغتربین۔
۷۔ الاسلام حضارۃ الغد۔
۸ لقاء ات ومحاورات حول قضایا الاسلام والعصر (جزء ان)
۹۔ قضایا معاصرۃ علی بساط البحث۔
۱۰۔ الدین فی عصر العلم۔
۱۱۔ مستقبل الاصولیۃ الاسلامیۃ۔
۱۲۔ القدس قضیۃ کل مسلم۔
۱۳۔ حاجۃ البشریۃإلی الرسالۃ الحضاریۃ لأمتنا۔
۱۴۔ العولمۃ۔
۱۵۔ الاجتہاد فی الشریعۃ الاسلامیۃ۔
۱۶۔ أمّتنا بین قرنین۔
لیکن مجھے نہیں معلوم کہ—اسلام اور عصر حاضر پر اسلامی نقطہ نظر سے گہرا علمی تجزیہ— کے آپ کے مطلوبہ معیار پر ان کی تحریریں یا ان کے افکار و نظریات پورا اترتے ہیں یا نہیں، اس لیے کہ مسائل کو دیکھنے کا ہر آدمی کا اپنا نقطہ نظر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عملِ خیر اور خیر عمل کی زیادہ سے زیادہ توفیق نصیب فرمائے۔
۷ اگست ۲۰۰۶ طالب دعا
محمد شاہد خان ندوی، دوحہ، قطر
مراسلہ نگار کا یہ طویل خط میرے اصل سوال کا جواب نہ تھا، اس لیے میںنے دوبارہ ان کو ایک خط روانہ کیاجس کا کوئی جواب موصوف کی طرف سے مجھے نہیں ملا۔ میرے اُس خط کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم مولانا محمد شاہد خان ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کاخط مؤرخہ۷؍اگست ۲۰۰۶ملا۔ عرض ہے کہ آپ کا یہ مکتوب میرے سوال کی نسبت سے غیر متعلق (irrelevant) ہے۔ اس لیے دوبارہ میں آپ کو اپنا یہ خط لکھ رہا ہوں۔
اصل یہ ہے کہ’’عصری مسائل‘‘ کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو دورِ جدید میں مسلمانوں کی فقہی ضرورت کی نسبت سے پیدا ہوئے ہیں۔ اور دوسرے وہ جو وقت کے جدید عالمی ذہن کی پیداوار ہیں۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کو بہت سے فقہی نوعیت کے مسائل پیش آئے ہیں۔ مثلاً اسکینڈی نیویا کے ملکوں میں نماز اور روزے کے اوقات کا مسئلہ، مغربی ممالک میں ذبیحہ اور غیر ذبیحہ کا مسئلہ، بینک انٹرسٹ اور انشورنس پالیسی کا مسئلہ، وغیرہ۔ یہ سب خالصتاً مسلم مسائل ہیں۔ ان مسائل پر ڈاکٹر یوسف القرضاوی اور دوسرے لوگوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔
مگر میرے سوال کا تعلق، اِس قسم کے ’’عصری مسائل‘‘سے نہیں۔ میرے سوال کا تعلق، ایک اور بات سے ہے۔ وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں انسانی ذہن میں انقلابی تبدیلی آئی ہے۔ جدید عالمی ذہن سائنٹفک فریم ورک میں اسلام کی صداقت کو سمجھنا چاہتا ہے۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ کیا جدید سائنٹفک فریم ورک کی نسبت سے ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے کوئی علمی کام کیا ہے۔ اگر آپ کی مراد یہ ہے کہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے بعض جدید فقہی ضرورتوں کی نسبت سے کچھ مسائل میںمسلمانوں کی رہنمائی کی ہے تو یہ بات بجائے خود درست ہے، لیکن اگر آپ کی مرادیہ ہے کہ وقت کے فکری مستویٰ کے مطابق، اسلام کو جدید عالمی ذہن کے لیے قابلِ فہم بنانے کی نسبت سے انھوں نے کوئی علمی کام کیا ہے تو مجھے اس کا علم نہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ جدید سائنٹفک فریم ورک کی نسبت سے بھی انھوں نے کوئی علمی کام انجام دیا ہے تو براہِ کرم ایسے کسی کام کا متعین حوالہ، کتاب کے نام اور صفحہ نمبر کے ساتھ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۹ ؍اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر — ۹

مولانا محمد رابع حسنی ندوی (ناظم ندوۃ العلما، لکھنؤ) کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ اِس کتاب میں انھوں نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب’’نبی رحمت‘‘ کا تعارف لکھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کتاب جدید ذہن کو سامنے رکھتے ہوئے عصری اسلوب میں لکھی گئی ہے۔اِس سلسلے میں مولانا موصوف سے درج ذیل مراسلت ہوئی:
مکرمی و محترمی مولانا محمد رابع حسنی ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ نے اپنی کتاب ’’مولانا سید ابو الحسن علی ندوی: عہد ساز شخصیت‘‘ (مطبوعہ: مجلس تحقیقات و نشریات اسلام، لکھنؤ) میں مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’نبی رحمت‘‘ کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’اِس میں سیرتِ نبوی کو اپنے ذوق اوررجحان اور رائج الوقت علمی نظریات کا تابع بنانے اور زندہ حقیقتوں اور منہ بولتی صداقتوں میں فلسفہ آرائی اور رنگ آمیزی سے کام لینے کے بجائے، اپنی حقیقی اور واقعی شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔نئی نسل کے فہم اور نفسیات کی موجودہ سطح اور عصری اور علمی اسلوب کا پورا خیال رکھا گیا ہے‘‘۔ (صفحہ ۳۰۴)
میںنے مولانا ابوالحسن علی ندوی کی مذکورہ کتاب عربی اور اردو دونوں زبانوں میں پڑھی ہے، مگر مجھے اس میں آپ کے مذکورہ بیان کی کوئی تصدیقی مثال نہیں ملی۔ مولانا علی میاں کی اِس کتاب کے کس صفحے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نئی نسل کے فہم کی موجودہ سطح کو سمجھتے تھے، اور انھوں نے عصری اسلوب میں اس کا علمی تجزیہ کیا ہے۔ نیز ان کی کس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ وقت کے فکری مستویٰ اور عصری اسلوب سے گہرائی کے ساتھ واقف تھے۔ براہِ کرم صفحہ نمبر کی تعیین کے ساتھ اس کے مکمل حوالے سے آگاہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۵ جون ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
میرے اِس خط کے بعد جب مولانا موصوف کی طرف سے میرے خط کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے دوبارہ یاددہانی کے لیے انھیں درج ذیل خط روانہ کیا:
مکرمی ومحترمی مولانا محمد رابع حسنی ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۵ جون ۲۰۰۶ میں ، مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کتاب ’’نبی ٔرحمت‘‘ کے متعلق، آپ سے یہ دریافت کیا تھا کہ مولانا علی میاں کی اس کتاب کے کس صفحے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نئی نسل کے فہم کی موجودہ سطح کو سمجھتے تھے، اور انھوں نے عصری اسلوب میں اس کا علمی تجزیہ کیا ہے۔
مجھے ابھی تک آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں ملا۔ براہِ کرم متعین طور پر جلد اس کا جواب ارسال فرماکر شکریے کا موقع عنایت فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۰۶ء جواب کا منتظر وحید الدین
میرے ان دو خطوط کے بعد مولانا موصوف کا ایک خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب زیدت معالیہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔عنایت نامہ ملا، اس بات سے مسرت ہوئی کہ میری مرتب کردہ کتاب آپ کی نظر سے گذری، اس میں آپ نے ایک جگہ میری تحریر کردہ بات سے اختلاف کیا ہے، وہ بات حضرت علی میاں صاحب رحمۃ اللہ کی کتاب ’’نبی ٔ رحمت‘‘ کی افادیت اور خوبی کے سلسلہ میں ہے، اس میں آپ کی رائے میرے اظہار کردہ خیال کے خلاف ہے، آپ کے عنایت نامہ سے اس کا علم ہوا۔
اختلاف رائے ہونا کوئی قابل اعتراض بات نہیں۔ بہر حال میں نے جو سمجھا وہ لکھا، اور صحیح سمجھ کر لکھا۔ امید ہے کہ میری اختیار کردہ رائے کے اظہار کو آپ غلط معنی نہ دیں گے۔ میں نے کسی دوسرے سے تقابل نہیں کیا ہے، اور میں حتی الوسع شخصیتوں کے درمیان اختلاف کو اپنی تحریر یا تقریر کا موضوع بھی نہیں بناتا، ہر ایک شخصیت کی صرف خوبیوں تک اپنے اظہار رائے کو رکھنے کی کوشش کرتاہوں، اور اختلافی معاملات سے اجتناب کی بھی کوشش کرتا ہوں، الا یہ کہ اسلام اور کفر کے مابین کی بات ہو۔ میںاس میں کہاں تک کامیاب ہوتا ہوں، کہہ نہیں سکتا، لیکن ایسے معاملات میں کسی سے ردّوقدح کرنا پسند نہیں کرتا۔آپ سے مجھ کو عرصہ سے تعارف حاصل ہے، اور اچھے انداز کا ربط و تعلق رہا ہے، دعا ہے کہ وہ باقی رہے۔ دعا میں یاد رکھیں۔
۰۲؍۰۸؍۲۰۰۶ء مخلص محمد رابع حسنی ندوی
ندوۃ العلماء، لکھنؤ
مولانا موصوف کے اس خط کے بعد میںنے دوبارہ ان کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا۔ میرے اس خط کا ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا۔ مذکورہ خط کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
مکرمی ومحترمی مولانا محمد رابع حسنی ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۲ ؍اگست ۲۰۰۶ ملا۔میرا پچھلا خط واضح طور پر ردّ و قدح کی نوعیت کا خط نہیں تھا۔مولانا ابو الحسن علی ندوی کی کتاب ’’نبی ٔ رحمت‘‘ کی افادیت اور خوبی سے بھی مجھے کوئی انکار نہیں، نیز یہ کہ میں نے اس کتاب کا تقابل کسی اور کتاب سے نہیں کیا تھا۔ میں نے آپ سے متعین طور پرصرف ایک بات دریافت کی تھی۔ وہ یہ کہ آپ نے لکھا ہے کہ—اس کتاب میں نئی نسل کے فہم اور نفسیات کی موجودہ سطح اور عصری اور علمی اسلوب کا پورا خیال رکھاگیا ہے۔ آپ کے اس بیان کے مطابق، میرا سوال صرف یہ ہے کہ آپ متعین طورپر اس کتاب کے کسی ایک صفحے کی نشان دہی فرمائیں جس میں عصری اسلوب کی واضح مثال ملتی ہے۔
نئی دہلی، ۸ ؍اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر — ۱۰

مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی (ناظم مدرسہ ضیاء العلوم، رائے بریلی) کی ایک کتاب شائع ہوئی۔ یہ کتاب مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بارے میں لکھی گئی تھی۔ میں نے اس کتاب کو پڑھ کر اس سلسلے میں مصنف کو ایک خط لکھا۔ اس خط کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ آپ نے اپنی کتاب ’’سوانح مفکر اسلام‘‘ (مطبوعہ: سید احمد شہید اکیڈمی، رائے بریلی) میں برصغیر ہندوپاک میں مغربی تہذیب پر ’نکتہ چینی‘ کرنے والوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’بر صغیر میں اِس سلسلے کا سب سے نمایاں نام ڈاکٹر محمد اقبال کا ہے جن کو جدید مشرق کا سب سے زیادہ بالغ نظر مفکّر قرار دیا جاسکتا ہے۔ انھوں نے مغربی تہذیب و افکار کا بھر پور مطالعہ کیا اور پوری جرأت وقوّت کے ساتھ اس پر تنقید کی۔ جدید تعلیم یافتہ نسل نے اس کا گہرا اثر قبول کیا‘‘۔ (صفحہ ۳۹)
میرے علم کے مطابق، ڈاکٹر محمد اقبال نے مغرب پر منفی انداز اور شاعرانہ زبان میں تو ضر ور طنز و تعریض کیا ہے، لیکن ان کی مطبوعہ تحریروں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی افکار کا’’ بھرپور مطالعہ‘‘ کیا تھا، اور نہ اِس کا کوئی ثبوت موجود ہے کہ انھوں نے جدید مغربی افکار کا علمی اسلوب میں گہرا تجزیہ کیا۔ اگر آپ کے نزدیک ان کی ایسی کوئی تحریر ہے تو صفحہ نمبر کے ساتھ اس کے مکمل حوالے سے مطلع فرمائیں۔
اسی طرح آپ نے مولانا ابوالحسن علی ندوی کے بارے میں لکھا ہے کہ:
’’عالمی سطح پر حضرت نے جو اصلاحی و تجدیدی کارنامے انجام دیے اُن میں سب سے بڑا اور بنیادی کارنامہ، عالمِ اسلام کو مغربی تہذیب و فکر سے صحیح طریقے پر آزاد کرکے ان کے سامنے اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرنے کا تجدیدی کام ہے۔
حضرت نے خود مغربی تہذیب کا مطالعہ کیا اس کی خوبیوں او ر خامیوں کو سمجھا، اس کی شاطرانہ چالوں کا جائزہ لیا، پھر اس کی حقیقت واضح فرمائی۔ حضرت نے نہ دفاعی پوزیشن اختیار کی اور نہ محض تنقیدکا کام کیا۔ بلکہ اس کا پورا تجزیہ فرماکر اس کے نقصانات کی نشاندہی فرمائی، اس کا تقابلی مطالعہ فرمایا، پھر تہذیب وتمدن پر اسلام کے اثرات و احسانات کو اُجاگر کیا، اور عالمِ اسلام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا پر پڑنے والے مغربی تہذیب کے مہلک اثرات کو واضح فرمایا اور اس کے نتیجے میں جس طرح اخلاقی قدریں پامال ہورہی تھیں اور دنیا اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہورہی تھی اس کو پیش کیا۔
حضرت کے اِس اصلاحی وتجدیدی فکر و عمل کا گہرا اثر پڑا۔ خاص طور پر عالمِ عربی جس طرح مغرب کے شکنجے میں جکڑتا چلا جارہا تھا اور یہ ڈر پیدا ہوچلا تھا کہ یہ عملی ارتداد کہیں ذہنی و فکری ارتداد کا پیش خیمہ نہ بن جائے، اِس خطرے کے بادل چھٹنے لگے اور امید کی کرن پھوٹی‘‘۔ (صفحہ۵۵۷۔۵۵۸)
میرے علم کے مطابق، مولانا ابوالحسن علی ندوی نے اپنے ادبی اسلوب اور خطیبانہ انداز میں مغرب کے خلاف کچھ منفی ریمارک ضرور دیے ہیں، لیکن ان کی کسی تحریر سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور افکار کو گہرائی کے ساتھ سمجھا تھااور وقت کی موجودہ علمی سطح کے مطابق، اس کا عمیق تجزیہ کیا تھا۔ اگر آپ کے علم میں ان کی ایسی کوئی تحریر ہے تو براہِ کرم متعین طورپر صفحہ نمبر کے ساتھ اس کا حوالہ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۵ جون ۲۰۰۶ دعا گو وحید الدین
میرے اس خط کا موصوف کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا تو میں نے دوبارہ ان کودرج ذیل خط روانہ کیا، مگر موصوف کی طرف سے میرے خط کا کوئی جواب نہیں آیاا:
برادرِ محترم مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۵ جون ۲۰۰۶ میںآپ سے دوبات دریافت کی تھی:
۱۔ ڈاکٹر محمد اقبال کی کس تحریر سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور مغربی افکار کا بھرپور مطالعہ کیا تھا، اور انھوں نے جدید افکار کا علمی اسلوب میں تجزیہ کیا ہے۔
۲۔ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی کس کتاب سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے مغربی تہذیب اور افکار کو گہرائی کے ساتھ سمجھا تھا، اور وقت کی موجودہ علمی سطح کے مطابق، انھوں نے اس کا عمیق تجزیہ کیاہے۔
آپ نے ابھی تک میرے خط کا کوئی جواب روانہ نہیں فرمایا۔ براہِ کرم متعین طورپر صفحہ نمبر کے ساتھ مذکورہ دونوں باتوں کا حوالہ روانہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۵ جولائی ۲۰۰۶ء جواب کا منتظر وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۱۱

ماہ نامہ ’’جامِ نور‘‘ میں مولانا منظر الاسلام ازہری (اسلامک سنٹر آف ہائی پوائنٹ، امریکا)کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اِس کو پڑھ کر میں نے مضمون نگار کو ایک خط لکھا۔ اس سلسلے کی مراسلت یہاں درج کی جاتی ہے:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
ماہ نامہ جامِ نور (دہلی) کے شمارہ جولائی ۲۰۰۶ء میں آپ کا ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کا عنوان یہ ہے: ’’یورپ و امریکا کے ممالک دار الدعوہ ہیں‘‘۔ اپنے اس مضمون میں آپ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ مختلف ممالک کی فقہی حیثیت کیا ہے۔ اِس سلسلے میں آپ نے فقہا کی معروف اصطلاحوں، دار الاسلام، دار الحرب، دارالکفر، نیز دارالامان اور دار العہد کا ذکر کیا ہے۔ آپ نے لمبی بحث کے بعد یہ بتایا ہے کہ امریکا اور یورپ کے ممالک پر یہ فقہی اصطلاحات منطبق نہیں ہوتیں۔ اس کے بعد آپ نے ایک اور اصطلاح ’’دار الدعوہ‘‘ کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ— ’’امریکا اور یورپ کے ممالک کو دارالدعوہ کہا جائے تو بہترہوگا‘‘۔ (صفحہ ۱۳)
دریافت طلب امر یہ ہے کہ دوسری فقہی اصطلاحوں کے ضمن میں تو آپ نے متعلقہ فقہی کتابوں اور علماء کے حوالے دیے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے یہ دوسری اصطلاحیں کہاں سے نقل کی ہیں، لیکن دار الدعوہ کی اصطلاح کے بارے میں آپ نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ براہِ کرم مطّلع فرمائیں کہ آپ نے دار الدعوہ کی اصطلاح کہاں سے اخذ کی ہے۔ صفحہ نمبر کی تعیین کے ساتھ کتاب کے مکمل حوالے سے آگاہ فرمائیں۔
نئی دہلی، ۱۷ جون ۲۰۰۶ء دعاگو وحیدالدین
کافی انتظار کے بعد جب مضمون نگار کا کوئی جواب مجھے نہیں ملا تو میں نے دوبارہ انھیں یاددہانی کا ایک خط لکھا۔ وہ خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
عرض یہ کہ میںنے اپنے خط مؤرخہ ۱۷ جون ۲۰۰۶ میں، آپ کے مضمون میں مذکور اصطلاح ’’دارالدعوہ‘‘ کے متعلق، آپ سے دریافت کیا تھا کہ اس اصطلاح کا ماخذ کیا ہے، مگر ابھی تک آپ نے اس کا کوئی حوالہ مجھے ارسال نہیں فرمایا۔براہِ کرم مذکورہ اصطلاح کے اصل ماخذ کا متعین حوالہ روانہ فرماکر شکریے کا موقع دیں۔
نئی دہلی، ۱۷ جولائی ۲۰۰۶ جواب کا منتظر وحید الدین
میرے ان دو خطوں کے بعد صاحب مضمون کا درج ذیل ایک خط مجھے بذریعے ای میل موصول ہوا:
مکرمی مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
اٹھارہ جولائی اور پھر چودہ کا بھیجا ہوا آپ کا مراسلہ ملا، مصروفیت کے سبب میں فی الفور جواب نہیں لکھ سکا۔ آپ نے ’’دار الدعوۃ‘‘ سے متعلق ماخذ کے بارے میں لکھا ہے، اس سلسلہ میں آپ سے یہ کہنا ہے کہ بشمول مذاہب اربعہ کسی قدیم فقہی کتاب میں میری نگاہ سے یہ اصطلاح نہیں گذری، میں اس موضوع پر بار بار سوچا کرتا تھا، یہاں امریکا پہنچنے کے بعد کئی دانشوروں کے ساتھ لمی نشست ہوئی جہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث رہا، میں نے ان کے سامنے اپنی رائے پیش کی تو انھوں نے اس سے اتفاق کیا، اسی دوران مجھے ہندستان کے ایک ادارہ کی جانب سے منعقد سیمینار میںاس موضوع پر لکھنے کے لیے کہاگیا، میں نے اپنی فکر کو عملی شکل دے کر یہ مقالہ ترتیب دے دیا، جو بعد میں ’’جام نور‘‘ میں بھی شائع ہوا۔
اس ضمن میں ایک خاص نکتہ میری نگاہ میں نبی اکرم ﷺ کی مکی زندگی کاہے جہاں میری سمجھ کے مطابق نہ تو ’’دارالحرب‘‘ کی اصطلاح فٹ ہوسکتی ہے نہ ہی ’’دار الاسلام‘‘ اور ’’دار العہد‘‘ کی کیوں کہ یہ زمانہ آپ کی دعوت رسانی کا ہے، اس کے ساتھ ساتھ زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں فقہاء کی مشہور اصطلاح ’’عُرف‘‘ کا بھی سہارا لیا ہے۔ انھیں دو چیزوں کو اپنی فکر کی بنیاد بنا کر میں نے مقالہ تحریر کیا، اس کے علاوہ اور کوئی ماخذ میری نگاہ میں نہیں۔
۲۶جولائی ۲۰۰۶ والسلام
منظر الاسلام، نارتھ کیرولینا، امریکا
مضمون نگار کا یہ خط میرے سوال کا واضح جواب نہیں تھا، اس لیے میں نے دوبارہ انھیں درج ذیل خط لکھا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۲۶جولائی ۲۰۰۶ء ملا۔ مگر آپ نے اپنے خط میں میری اصل بات کا جواب نہیں دیا۔ یہ با ت میں خود اپنے مطالعے کے تحت، پہلے سے جانتا ہوں کہ عبّاسی دور سے لے کر اب تک کے پورے مسلم لٹریچر میں دارالدعوہ کی اصطلاح استعمال نہیں ہوئی ہے۔ میرا اصل سوال یہ تھا کہ آپ پر استثنائی طورپر دار الدعوہ کی اصطلاح کیسے منکشف ہوگئی۔اگر یہ آپ کی اپنی دریافت ہے تو میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ ذاتی دریافت کیسے ہوگئی۔ جو چیز ہزار سال تک کسی عالمِ نے نہیں جانا تھا، اس کو آپ نے استثنائی طورپر کیسے جان لیا۔ اگر یہ آپ کی اپنی ذاتی دریافت ہے تو آپ سے میں نے یہ معلوم کرنا چاہا تھا کہ یہ ذاتی دریافت آپ کو استثنائی طورپر کیسے ہوگئی۔ میںاسی خاص نکتے کی بابت آپ کا جواب معلوم کرنا چاہتا تھا۔
اِس معاملے میں میرے اشکال کی بنیاد یہ ہے کہ میںاس کو اجتہادِ مطلق کی نوعیت کا ایک واقعہ سمجھتا ہوں۔ جیسا کہ معلوم ہے، اب تک کی پوری مسلم تاریخ میں کسی نے دار الدعوہ کی اصطلاح استعمال نہیں کی۔ پچھلے ہزار سالہ عمل کے نتیجے میں مسلم کمیونٹی تقلید کے اصول پر قائم ہوگئی ہے۔ متفقہ طورپر یہ مان لیا گیا ہے کہ اب اجتہادِ مطلق کا دروازہ بند ہوچکا ہے۔ ایسی حالت میں کسی کا دار الدعوہ کی اصطلاح استعمال کرنا کوئی سادہ بات نہیں۔ اجتہادِ مطلق کا یہ واقعہ اُسی استثنائی شخص کی زندگی میں پیش آسکتا ہے جو لمبی مدت تک اُس علمی اور فکری پراسس سے گذرا ہو جو کسی کو اجتہادِ مطلق کے مقام پر پہنچاتا ہے۔ دار الدعوہ جیسا مجتہدانہ قول اتفاقاً کسی کی زبان پر جاری نہیں ہوسکتا۔ یہ ماضی کے معلوم فکری پس منظر اور معلوم مجتہدانہ سفر کا کلمنیشن ہے۔ وہ کسی شعر کا کوئی مصرعہ یا اچانک پیش آجانے والا کوئی واقعہ نہیں۔
آپ نے اپنے خط میں دارالدعوہ کے متعلق، اپنے فکری ماخذ کو بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’زمانے کے بدلتے ہوئے حالات کی روشنی میں، فقہاء کی مشہور اصطلاح’’عرف‘‘ کا بھی سہارا لیا ہے‘‘ ۔ آپ کی یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔ کیوں کہ اصطلاح فقہ میں عُرف کسی قوم کے معمولاتِ عام کو کہا جاتا ہے (عادۃ جمہور قومٍ فی قولٍ أو عملٍ)۔ اس اعتبار سے عرف کے تصور کا کوئی تعلق، دار الدعوہ سے نظرنہیں آتا۔ براہِ کرم اِس معاملے کی وضاحت فرمائیں۔
نئی دہلی، ۲۹ جولائی ۲۰۰۶ء دعاگو وحید الدین
میرے اِس خط کے بعد صاحبِ مضمون کا ایک طویل خط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
مکرمی مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا مکتوب ۲ ؍اگست کو ملا، میں نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۴ جولائی میں اس امر کی وضاحت کردی تھی کہ ’’دارالدعوہ‘‘ کے سلسلہ میں میرا اصل ماخذ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی اور فقہاء امت کی وضع کردہ اصطلاح’’ضرورت‘‘ ہے مگر آپ کو میرے جواب سے تشفی نہیں ہوسکی اور آپ نے اسے اجتہاد مطلق کی نوعیت سمجھ کر مجھ جیسے باحثین کے لیے اس فکر تک رسائی تقریباً محال قرار دیا۔ بحمدہ تعالیٰ میں نے ہندستان کے مدارس میں درس نظامیہ پر کامل عبور حاصل کرنے کے بعد جامعہ ازہر شریف میں بھی ساڑھے پانچ سال گذارا ہے، جہاں مجھے ایسے عظیم اساطین ملت سے استفادہ کا موقع ملا جو اپنی فقہی بصیرت، اجتہادی افکار اور دانشورانہ نظریات کے اعتبار سے موجودہ عالم اسلام کی ناک سمجھے جاتے ہیں اور آج کسی بھی زبان بالخصوص اردو میں علمی وفکری مضامین پر قلم اٹھانے والے اکثر مفکرین بھی میرے انہیں اساتذہ کے افکار کے مرہون منت ہیں، پھر قدرت نے کچھ اور ہی نظارہ دکھایا کہ عالمی منظر نامہ پر اسلام کے خلاف جن نظریات کی طرف میرے اساتذہ نے اشارہ کیا تھا اس کو عملی شکل میں ملاحظہ کرنے کے لیے امریکا کا سفر کرنا پڑا، جہاں ہر آن ٹریڈیشنل اور نیو مسلم کے مابین ’’تجدید فی الفقہ الاسلامی‘‘ اور ’’تجدید فی المصطلحات الفقہیہ’’ ہی کی بحث چھڑی رہتی ہے، اسی طرح کی ایک مجلس ’’معائیر التجدید فی الفقہ الاسلامی‘‘ کا راقم نائب صدر بھی ہے، ایسے ماحول میں رہنے والا انسان پہلے سے موجود کسی لفظ کو حسن ترتیب کے ساتھ اگر پیش کرے تو مجھے نہیں معلوم کہ اس میں اشکال کیوں کر ہوسکتا ہے، کیا حالات اور زمانہ کے شکست و ریخت کی وجہ سے الفاظ و اصطلاحات میں تبدیلی نہیں آتی؟ جہاں سیکڑوں افکار و نظریات ہر آئے دن جنم لے رہے ہوں ایسے ماحول میں بسنے والا انسان خواہ کسی بھی عمر کا ہو اسلام میں موجود مفرد الفاظ کو ترکیب کا جامہ پہنا کر بیان کردے تو اس میں کون سا تعجب ہے؟ کیا اگر کسی نے ایسا کردیا تو وہ مجتہد مطلق ہوجاتا ہے؟ کیا اجتہاد مطلق کی یہی تعریف ہے کہ دو لفظوں کو ایک کردیا جائے؟
میری یہ فکر بھی آپ کے اشکال کا باعث بن سکتی ہے کہ حادثہ سنامی کے وقت عالم اسلام کے تمام فقہاء، مجتہدین، دانشوران اور مفکرین نے بیک زبان کہا کہ یہ عذاب الٰہی ہے، جب کہ راقم کا موقف یہ تھا کہ اس طرح کے حادثات کو عذاب الٰہی سے جوڑنا دانشمندی نہیں، سورۂ طور اور سورۂ تکویر کی آیتوں کی تفسیر میں قدیم تمام مفسرین کی آراء سے اختلاف کرتے ہوئے ان آیتوں کو میںنے قرب قیامت کی ہولناکیوں پر محمول کرنے کے بجائے حقیقت پر محمول کیا، جس کی یہاں پورے امریکا میں زبردست پذیرائی ہوئی، تو کیا اسے بھی اجتہاد مطلق کی نوعیت کا واقعہ سمجھ لیا جائے؟ الازہر میں تعلیم کے دوران اپنے ایک استاذ ڈاکٹر عبد المعطی بیومی جو فلسفہ کے ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ہونے کے ساتھ ساتھ فقیہ اعظم سمجھے جاتے ہیں اور مصری پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں،سے شہادت کے مسئلہ پر سیکڑوں عربی و عجمی طلبہ کی موجودگی میں مسلسل تین دن گفتگو کرتا رہا جہاں تمام فقہاء سے میرا نظریہ بالکل الگ تھا اور بعد میں جس کی میرے استاذ نے مجھے مبارک باد بھی دی تو کیا اسے بھی اجتہاد مطلق سمجھ لیا جائے؟ آپ کی رائے میںاگر اس طرح کے واقعات کا تعلق اجتہاد مطلق سے ہے تو الحمد للہ راقم مجتہد مطلق ہے۔
علم وتحقیق کے میدان میں میرا نہیں خیال کہ عمر سے بحث کی جاتی ہے، اگر عمر کا دخل مان لیا جائے تو سیکڑوں وہ علماء جو بارہ، اٹھارہ اور بیس سال کی عمر میں ہی قوم مسلم کے امام بن چکے تھے، کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟ امام غزالی کی ’’المنقذ من الضلال‘‘ آپ کے مطالعہ میں یقینا آئی ہوگی، کیا انہوں نے اپنے فکری سفر کا آغاز بیس سال سے قبل کی عمر میں نہیں کیا تھا؟ اگر عمر ہی مقیاس ہے تو آج سیکڑوں مسلم فلاسفہ اور مستشرقین بیس سال سے پہلے فکری سفر شروع کرنے والے غزالی کے ’’منہج شک‘‘ پر کیوں پی، ایچ، ڈی کررہے ہیں؟ پھر عجیب تضاد بیانی بھی ہے جب ’’متفقہ طورپر یہ مان لیا گیا ہے کہ اب اجتہاد مطلق کا دروازہ بند ہوچکا ہے‘‘ تو پھر استثنائی طورپر بڑی عمر کے تجربہ کار لوگوں کو ان کی علمی کاوش کے نتیجہ میں کیوں مجتہد مطلق مانا جارہا ہے؟
ویسے میں اس نظریے سے خود بھی اتفاق نہیں کرتا کہ اس بات پر اتفاق ہوچکا ہے کہ اب کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوگا، اس سلسلہ میں درجنوں علماء کے مواقف موجو ہیں، خاص طور پر علامہ سیوطی کلا رسالہ ’’الرد علی من اخلد الی الأرض وجہل أن الاجتہاد فی کل عصر فرض‘‘ شاہدعدل ہے۔
میں نے اپنے مکتوب مورخہ ۲۶ جولائی میں یہ لکھا تھا کہ یہاں مجھے ’’ضرورت‘‘ لکھنا تھا جو ’’عرف‘‘ لکھ گیا ہے، مگر آپ نے اس جانب کوئی توجہ ہی نہیں دی۔ یہ چند الفاظ ذہن میں آئے تھے جو آپ کے جواب میں تحریر کردیا ہوں، اگر میری بات میں کہیں سختی آگئی ہو تو در گذر کیجئے گا۔ والسلام
۶؍اگست ۲۰۰۶ء منظر الاسلام ازہری
مضمون نگار کے اِس طویل خط کو پڑھنے کے بعد میں نے دوبارہ ان کو اپنا درج ذیل خط روانہ کیا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری۱ السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۶؍اگست ۲۰۰۶ء ملا۔ اس کو تین بار پڑھنے کے بعد میں اپنا یہ خط تحریر کررہا ہوں۔ عرض یہ ہے کہ آپ نے اپنے تفصیلی خط میں جو باتیں لکھی ہیں، وہ سب میرے سوال کی نسبت سے بالکل غیر متعلق (irrelevant) ہیں۔ ان باتوں سے میرے سوال پر کوئی روشنی نہیں پڑتی۔
میرا سوال سادہ طور پر صرف یہ ہے کہ دار الدعوہ کی اصطلاح، آپ کی خود اپنی ذاتی دریافت ہے، یا آپ نے اس کو کسی کتاب میں پڑھا ہے، یا اس کو کسی عالم سے سُنا ہے۔ دونوں میں سے جو بات بھی ہو، اس کو آپ پوری صراحت کے ساتھ تحریر فرمائیں۔
ایسی حالت میں آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ یا تو آپ واضح الفاظ میں یہ کہیں کہ— دار الدعوہ کی اصطلاح مجھے کہیں اور سے نہیں ملی، بلکہ میں نے اس کو خود اپنے طور پر بطور ذاتی دریافت کے پایا ہے۔ یا پھر متعیّن طور پر صفحہ نمبر کے ساتھ آپ یہ بتائیں کہ— میںنے فلاں مصنّف کی فلاں کتاب میں اس کو پڑھا، یا اس کو فلاں عالمِ یا فلاں مصنف سے سُنا ہے اور پھر میںنے اس کو اختیار کرلیا۔
میں نے آپ سے صرف یہی بات دریافت کی تھی، اور اِسی کا واضح جواب میں آپ سے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ آپ میرے اصل سوال کو سمجھ کر متعین الفاظ میں اس کا جواب روانہ فرمائیں گے۔
نئی دہلی، ۱۰؍ اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
میرے اس خط کے جواب میں موصوف نے جو کچھ لکھا، اس کی نقل یہاں درج کی جاتی ہے:
مکرمی مولانا وحیدالدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کا خط مورخہ ۱۲؍اگست کو ملا، فرمائش کے مطابق ایک لفظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کسی کتاب یا کسی عالم کی زبان سے سن کر اسے نہیں لکھا ہے، بلکہ یہ میری اپنی ایجاد ہے۔ والسلام
۱۲؍ اگست ۲۰۰۶ء منظر الاسلام
مضمون نگار کی اِس غیر واضح تحریر کو پڑھ کر میں نے دوبارہ ان کو اپنا درج ذیل خط ارسال کیا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا خط مؤرخہ ۱۲؍ اگست ۲۰۰۶ ملا۔ آپ نے میرے استفسا ر کے جواب میں صرف یہ مختصر جملہ تحریر فرمایا ہے—’’فرمائش کے مطابق، ایک لفظ میں اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے کسی کتاب یا کسی عالم کی زبان سے سُن کر اسے نہیں لکھا ہے۔ بلکہ یہ میری اپنی ایجاد ہے‘‘۔
میں عرض کروں گا کہ آپ کا مذکورہ جملہ ایک مبہم جملہ ہے۔ ایسا مبہم اور غیر واضح جملہ میرے متعین سوال کا جواب نہیں۔ آپ کا یہ جملہ صرف ایک ٹالنے والا جواب (evasive reply) ہے، وہ میرے سوال کا کوئی واضح اور متعین جواب نہیں۔ آپ کے اس جملے میں ’’یہ‘‘ کا لفظ ہے۔ اِس سے واضح طورپر معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں لفظ ’’یہ‘‘ سے آپ کی کیا مراد ہے۔ اِسی طرح آپ نے اپنے جملے میں ’’ایجاد‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ایجاد کا لفظ بھی اِس موقع پر ایک غیرمتعلق اور مبہم لفظ ہے۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے، میں نے آپ سے یہ پوچھا تھا کہ دار الدعوہ کی اصطلاح آپ نے خود وضع کی ہے، یا اس کو آپ نے کہیں اور سے اخذ کیا ہے۔ مگر آپ کا مذکورہ مبہم جملہ میرے متعین سوا ل کا واضح جواب نہیں۔
اس لیے گذارش ہے کہ آپ دوبارہ زحمت فرمائیں، اور بالکل واضح اور غیر مبہم الفاظ میں یہ بتائیں کہ — دار الدعوہ کی اصطلاح آپ نے خود وضع کی ہے، یا آپ نے اس کو کہیں اور سے لیا ہے۔
نئی دہلی، ۱۵ ؍ اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
میرے اس خط کے بعد موصوف کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ چنانچہ میرے درج ذیل خط پر ان سے خط و کتابت کا سلسلہ بند ہوگیا:
برادرِ محترم مولانا منظر الاسلام ازہری! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ خط مَیں آپ کے ساتھ اپنی سابقہ مراسلت کے ضمن میں لکھ رہا ہوں۔ میں نے اپنے خط مؤرخہ ۱۵؍اگست ۲۰۰۶ میں لکھا تھا کہ آپ کے جواب کے الفاظ مبہم ہیں، آپ صریح الفاظ میں معاملے کی وضاحت فرمائیں۔ مثلاً آپ یہ تحریر فر مائیں کہ— دار الدعوہ کی اصطلاح میںنے خود اپنے ذہن سے وضع کی ہے، کسی اور کی تقریر یا تحریر سے اخذ کرکے میں نے دار الدعوہ کی اصطلاح وضع نہیں کی۔ امید ہے کہ آپ اِس سلسلے میں جلد اپنا واضح جواب ارسال فرمائیں گے۔
نئی دہلی، ۳۰ ؍اگست ۲۰۰۶ء دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

مراسلت نمبر— ۱۲

مولانا علی میاں کے خطوط کا ایک مجموعہ معروف عالمِ دین اور مفسّر قرآن مولانا عبد الکریم پاریکھ (ناگ پور) نے شائع کیا۔ اِس مجموعے میںایک خط مجھ سے متعلق تھا۔ اِس خط کو پڑھ کر میںنے مولانا موصوف کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا۔ اس سلسلے کی مراسلت یہاں درج کی جاتی ہے:
مکرمی ومحترمی مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کی صحت اور عافیت کے لیے دعا گو ہوں۔عرض یہ کہ آپ کی شائع کردہ کتاب نظر سے گذری جس کا پورا نام یہ ہے— ’’مرشد روحانی، مصلح امت حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی صاحب عُرف علی میاں صاحب کے خطوط، حضرت مولانا عبدالکریم پاریکھ صاحب کے نام‘‘۔
آپ کی اِس کتاب کا مکتوب نمبر ۱۱۳ میرے لیے ناقابلِ فہم ہے۔ چوں کہ کاتبِ محترم کی وفات ہوچکی ہے، اس لیے اس کی وضاحت کے لیے آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ آپ کے نام حضرت مولانا کے مذکورہ مکتوب کے الفاظ یہ ہیں:
’’اپنی خیرت کی اطلاع کے علاوہ میں یہ خط اِس ضرورت سے بھی لکھ رہاہوں کہ میرے پاس حیدر آباد سے ایک فہیم وسنجیدہ دوست کا خط آیا ہے کہ ’ندوہ ایجنسی‘ کے نام سے، سید جمیل الدین صاحب کی طرف سے جو اشتہار شائع ہوا ہے اس کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس میں میری کتابوں کے علاوہ جہاں بعض اور دوسرے حضرات کی تصنیفات کا تذکرہ ہے، اُن میں مولوی وحید الدین خاں صاحب کی کتابوں کے دستیاب ہونے کا بھی اعلان ہے۔ مَیں سید جمیل الدین صاحب کو براہِ راست نہیں لکھنا چاہتا۔آپ اشارہ کردیں کہ اُن کے بہت سے خیالات سے اتفاق نہیں۔ اور ہماری اور اُن کی کتابوں کا جوڑ نہیں۔ اِس لیے آئندہ وہ اِس کا لحاظ رکھیں۔ آپ اپنے انداز میں مناسب طریقے سے لکھ دیجئے گا۔ مجھے مولوی وحید الدین خاں صاحب سے کوئی ذاتی خصومت نہیں۔ لیکن اُن کے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے، اور سَلف ومجاہدین اور شہدائے اسلام سے بدعقیدگی پیدا ہوتی ہے‘‘۔ (صفحہ ۲۰۳)
حضرت مولانا علی میاں کے اِس مکتوب کے بارے میں آپ سے دو باتیں قابلِ دریافت ہیں۔ ایک یہ کہ مکتوب کے مطابق، میرے خیالات میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی ہے، مگر اِس مکتوب میں، اور نہ اِس مجموعۂ خطوط میں اور نہ صاحبِ مکتوب کی دوسری کسی تحریر میں ایسی کوئی وضاحت یا حوالہ موجود ہے، جس سے معلوم ہوتا ہو کہ وہ کیا چیز ہے جس کو اس مکتوب میں ’’سخت ناہمواری اور بے اعتدالی‘‘ قرار دیاگیا ہے۔ اپنی کتاب میں اِس مکتوب کی اشاعت اور حضرت مولانا سے خصوصی قربت کی بنا پر آپ ضرور اس بات سے واقف ہوں گے۔ براہِ کرم مطلع فرمائیں کہ وہ کیا چیز ہے جس کو اِس مکتوب میں سخت ناہمواری اور بے اعتدالی قرار دیاگیا ہے۔
اِس مطبوعہ مکتوب میںدوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ راقم الحروف کی کتابوں سے اَسلاف کے بارے میں بد عقیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اِس کے بارے میںبھی اِس مکتوب میں کوئی وضاحت یا حوالہ موجود نہیں۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ میری کتابوں میں وہ کون سی بات ہے جو اسلاف کے بارے میں بدعقیدگی پیدا کرتی ہے۔
حضرت مولاناعلی میاں کا یہ بیان بلاشبہہ ایک بے دلیل بیان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ۱۹۵۹ء میں حضرت مولانا علی میاں کی ایک عربی کتاب چھپی۔ اس کا نام یہ تھا: ردّۃ ولا أبا بکر لہا۔ اِس کتاب میں امت کے اندر ایک خطرے کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ امت کا جدید تعلیم یافتہ طبقہ ذہنی ارتداد کا شکار ہوگیاہے۔ میں نے اِس مسئلے کی تحقیق کی تو میں اِس نتیجے پر پہنچا کہ جدید تعلیم یافتہ طبقے کا کیس، ذہنی ارتداد (intellectual apostasy) کا کیس نہیں ہے۔ یہ لوگ ذہنی عدم اطمینان (intellectual discontent) کا شکار ہیں۔ موجودہ زمانے میں جو اسلامی لٹریچر تیار ہوا وہ ان کے مائنڈ کو ایڈریس نہیں کرتا۔ اِس بنا پر وہ اسلام کی صداقت کے بارے میں ذہنی بے اطمینانی میں مبتلا ہوگیے ہیں۔
اِس دریافت کے بعد میں نے اِس مسئلے کو اپنا موضوع بنالیا۔ میں نے قدیم اور جدید دونوں علوم کا گہرا مطالعہ کرکے عصری اسلوب میں بہت سی اسلامی کتابیں لکھیں، اور ان کو مختلف زبانوں میںشائع کیا۔ یہ خدا کا فضل ہے کہ یہ کتابیں نہایت مفید ثابت ہوئیں۔ اور مختلف ملکوں میں لاکھوں لوگوں کو اس سے ایمان اور یقین کا سرمایہ ملا۔ اِسی بنا پر ایک عرب شیخ نے میری کتاب الاسلام یتحدّی کا سکنڈٹائٹل یہ تجویز کیا تھا— مدخل علمی إلی الإیمان۔
حضرت مولانا علی میاں کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ انھوں نے جس خطرے کی نشاندہی کی تھی، میں نے اس کو گہرائی کے ساتھ سمجھا، اور وقت کے فکری مُستوی کے مطابق، طاقت ور علمی انداز میں اس کا سدّ باب کیا۔ ایسی حالت میں میری کتابوں کے متعلق، حضرت مولانا کا مذکورہ بیان میرے لیے سخت ناقابلِ فہم ہے۔
چوں کہ آپ نے حضرت مولانا کے اِس خط کو اپنی کتاب میں شائع فرمایا ہے۔ اس لیے یقینا آپ اِس کی نوعیت کو پوری طرح سمجھتے ہوں گے۔ میری گذارش ہے کہ آپ اپنے علم کے مطابق، متعین صورت میں مذکورہ دونوں باتوں کی وضاحت فرمائیں۔
نئی دہلی، ۲۵ ؍اگست۲۰۰۶ دعاگو وحیدالدین
میرے اس خط کے بعد مولانا موصوف کا درج ذیل خط مجھے ملا:
محترم المقام، عالم ربّانی حقانی، صاحب ِ قلم، مشہور شخصیت ،حضرت مولانا وحید الدین خاںصاحب مد ظلہ العالی وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
۲۵؍ اگست ۲۰۰۶ کا عنایت نامہ موصول ہوا، جزاک اللہ۔ میں پچھلے تین سالوں سے گلوکوما آپریشن ناکام ہونے کے سبب دونوں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوں۔ صاحب فراش بھی ہوں۔ سارے کام کاج بند ہیں۔ لیکن خطوط بڑی تعداد میں آتے رہتے ہیں۔ جواب دینا مشکل پڑتا ہے۔ آپ کا خط اہم تھا، آپ کو دکھ پہنچا، اس لیے جواب کے لیے حاضر خدمت ہوں۔
میرے بزرگ، آپ نے جس خط کاحوالہ دیا ہے، وہ ۲؍ اگست ۱۹۸۷ کا ہے۔ اور حضرت مولاناسید ابوالحسن علی ندویؒ کوانتقال فرمائے ۷،۸ برس ہوگیے ہیں۔ اور اس مذکورہ خط کو ۲۰ سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔ اس خط کے شائع ہونے کا مجھے افسوس ہے۔ جس کی وجہ سے آپ کو دکھ پہنچا۔ اللہ مجھے معاف فرمائے۔
میرے بزرگ، مجھ سے زیادہ دین کا فہم، علم اور گہرائی اللہ نے آپ کو دی ہے۔ یہ ۲۰ سال پہلے کی بات ہے۔ جمیل الدین صاحب سے میری ملاقات ہوئے ۱۰، ۱۵ سال ہوگئے۔ ندوہ ایجنسی ہے بھی یا نہیں، مجھے لگتا ہے شاید ختم ہو گئی ہو۔ در اصل ندوہ ایجنسی مولانا ؒ کا خود کا ادارہ تھا اور ساتھ ہی جمیل الدین صاحب کے گھر پر ہی ادارہ میںایک مدرسہ بھی چلتا تھا۔ مولاناؒ اپنی کتابیں اس میں رکھتے تھے۔
آپ کا خط سننے کے بعد تقریباً ۲۵ نسخے مجموعۂ خطوط کے میرے پاس تھے۔ اُن تمام نسخوں سے خط نمبر ۱۱۳ پھاڑ کر نکلوا دیا ہے۔ آئندہ ایڈیشن جب چھپے گا، جس کی امید تو کم ہے، کیوں کہ میں اب اس حال میںنہیںہوں، لیکن اگر چھپنے کی نوبت آئی اوراحباب کا تقاضا رہا تو اس خط کو دوبارہ شائع نہیں کیا جائے گا۔
مجھے امید ہے کہ میرے اس سہو کو میرے تعلق سے معاف فرمائیں گے۔ اب رہا مولانا ؒ کے تعلق سے، تو دیر یا سویر ہم کو بھی اللہ کے دربار میں پہنچنا ہے۔ وانما توفون اُجورکم یوم القیامۃ (آخرت میںتمہارے ’’اجور‘‘ پورے پورے دیے جائیں گے) آپ کو بھی آپ کے کاموں کا اجر اللہ تعالیٰ مجھ سے زیادہ دے گا۔ آپ کے سامنے میری کیا ہستی ہے۔ لیکن آپ کو تکلیف پہنچی اس کے لیے معافی چاہتا ہوں۔
مجھے امید ہے کہ آپ حسن ظن سے کام لیں گے۔ میری دھندلی یادداشت میںآپ کی اور حضرت مولانا ؒ کی برسہا برس پہلے مجھ سے کہیں زیادہ وابستگی رہی ہے، ایسا سنا ہے۔ واللہ اعلم۔ ہاں جو جملے مولانا نے ہم آہنگی نہ ہونے کے استعمال کیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں نے اس خط سے متعلق جمیل الدین صاحب کو کچھ بھی ہدایت نہیں دی تھی۔ میرا یہ مزاج بھی نہیں ہے۔
ایک بات کی طرف آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ جن جملوں سے آپ کو تکلیف پہنچی وہ صفحہ ۲۰۳ کے دوسری جانب صفحہ ۲۰۴ میں ہے۔ میری نظر سے نہ گذرا ہو ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ بہر حال بندہ بشر ہے۔ حضرت مولاناؒ ہوں یا میں ہوں یا کوئی اور ہو، غلطی کا امکان ہے۔
آپ کے خط سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعلیم یافتہ طبقہ کی ذہنی بے اطمینانی پر ان کی اصلاح کو آپ نے اپنا موضوع بنا کر محنت کی اور الحمد للہ اس کا نتیجہ، بقول آپ کے ’’اس سے لاکھوں لوگوںکو ایمان اور یقین کا سرمایہ ملا‘‘۔ اسی بنا پر آپ کی تحریریں عرب دنیا میں الحمد للہ مقبول عام و خاص ہوئیں، اس پر مجھے بڑی مسرت ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس محنت کو قبول فرمایا۔
آپ کے یہ جملے ’’مگر اس مکتوب میںایسی کوئی وضاحت یا حوالہ موجود نہیں ہے جس سے معلوم ہوتاہو کہ وہ کیا چیز ہے جس کو اس مکتوب میں ’’سخت ناہمواری اور بے اعتدالی‘‘ قرار دیاگیا ہے‘‘۔ صاحب مکتوب (حضرت مولانا علی میاں) کو اس کا حوالہ دینا ضروری تھا۔
ایک عرصہ پہلے میں نے الحمد للہ آپ کی کتابیں پڑھی ہیں اور خود اس ملک میں اور ملک کے باہر آپ کے قلم سے بے شمار لوگوں کو دینِ حق کی واقفیت ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس میں مزید اضافہ فرمائے۔ آپ کی تشریف آوری ناگپور کبھی کبھار ہوتی رہتی ہے۔ بھائی عبد السلام اکبانی جو میرے بھانجے ہیں، آپ کے بہت مدّاح ہیں، کبھی آنا ہوا تو اس نابینا کو ملاقات کا شرف عنایت فر مائیں۔ جزاک اللہ۔
آپ کے ترجمہ و تشریح قرآن (تذکیر القرآن) کا ایک نسخہ وی پی کے ذریعہ ارسال فرمائیں، عنایت ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ اس خط کا آپ اچھا اثر لیں گے اور میرے لئے دعا کریں گے۔ ہم سب اللہ کی رضا کے لیے کام کرتے ہیں اس میںاجر کا زیادہ حصہ آپ ہی کا ہے۔ آپ کے لیے دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کی محنت کو شرف قبولیت بخشے۔ آمین۔ والسلام
۱۸؍ ستمبر ۲۰۰۶ء طالب دعا عبد الکریم پاریکھ
مولانا موصوف کے خط کو پڑھ کر میں نے ان کی خدمت میںاپنا درج ذیل خط روانہ کیا:
محترمی و مکرمی مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
آپ کا عنایت نامہ مؤرخہ ۱۸ ستمبر ۲۰۰۶ ملا۔ حالات معلوم ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح صحت اور عافیت میں رکھے۔ اور آپ کو شفا عطا فرمائے۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے دین کا بہت کام لیا ہے۔ اللہ کی ذات سے امید ہے کہ آئندہ بھی وہ آپ کی دینی خدمات کو جاری رکھے گا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ مکتوب بھی آپ کے مراتبِ عالیہ میں اضافے کا ذریعہ ہوگا۔ آپ نے جس طرح کھُلے دل کے ساتھ معاملے کی وضاحت فرمائی ہے، وہ آپ کی ایمانی عظمت اور اخلاقی جرأت کا ایک مزید ثبوت ہے۔اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک بیمار آدمی کے پاس عیادت کے لیے گیے۔ وہ تکلیف کی حالت میں تھا۔ اس کو دیکھ کر آپ نے فرمایا: لابأس طہورإن شاء اللہ۔ اِس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحت جس طرح ایک نعمت ہے اسی طرح بیماری بھی ایک نعمت ہے۔ مومن جب صحت مند ہو تو صحت کی حالت اس کے لیے شکر کے جذبات پیدا کرنے میں معاون بنتی ہے، اور مومن کو جب بیماری کا تجربہ ہوتا ہے تو بیماری اس کے عجز کے جذبات میں اضافے کا سبب بن جاتی ہے۔ اور جیسا کہ معلوم ہے، عجز اللہ سے قربت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر قسم کی رحمت اور نصرت اور عافیت عطا فرمائے۔
نئی دہلی، ۲۵ستمبر ۲۰۰۶ دعا گو وحیدالدین
میرے اِس خط کے بعد مولانا موصوف کا ایک اورخط مجھے ملا، جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
محترم المقام، صاحب قلم، عالمِ ربّانی، حضرت مولانا وحید الدین خاں صاحب مدظلہ العالی!
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آپ کے خط کے جواب میں میرا عریضہ الحمد للہ آپ کو مل گیا۔ آپ نے اس کے جواب میں جو تحریر فرمایا اس سے مجھے بڑی تسکین، خوشی، اور راحت محسوس ہوئی۔ الحمد للہ دل پوری طرح مطمئن ہوا۔اس عاجز کے خط کا آپ نے مؤمنانہ اثر لیا۔ آپ مطمئن ہوئے۔ اس پر آپ کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ اور اپنے حق میں بھی دعا کی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہم کو راہِ ہدایت پر قائم رکھے۔ اور ہم سبھوں کو ایک دوسرے کا معاون بنائے۔
آپ نے جن احادیثِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا اسے پڑھوا کر سنا، بڑی تسلی ہوئی۔ بعض احادیث کا استحضار بھی ہوا۔ آپ کے یہ جملے— ’’مومن جب صحت مند ہو تو صحت کی حالت اس کے لیے شکر کے جذبات پیدا کرنے میں معاون بنتی ہے، اور جب مومن کو بیماری کا تجربہ ہوتا ہے تو بیماری اس کے لیے عجز کے جذبات میںاضافے کا سبب بن جاتی ہے‘‘۔الحمد للہ ان جملوں سے مزید تقویت پہنچی۔ آپ کا یہ تحریرفرمانا کہ — ’’مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ مکتوب بھی آپ کے مراتب عالیہ میں اضافے کا ذریعہ ہوگا۔ آپ نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ معاملے کی وضاحت فرمائی، وہ آپ کی ایمانی عظمت کا ایک مزید ثبوت ہے‘‘۔یہ جملے آپ نے میرے لیے استعمال کئے، اس کا مستحق تو نہیں ہوں لیکن اس پر الحمدللہ آمین آمین کہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے میرے تعلق سے آپ کا ذہن حسن ظن کی طرف ڈالا۔ میںاللہ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس کا مستحق بنادے۔ آپ کے جملے سن کر میرا دل بھر آیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر کثیر عطا فرمائے۔جو دعائیں آپ نے میرے حق میں فرمائی ہیں، میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہی دعائیں لاکھوں گنا آپ کے حق میں بھی قبول فرمائے۔ آمین۔
آں جناب کی گراں قدر تفسیر ’’تذکیر القرآن‘‘ الحمد للہ موصول ہوئی۔ تھوڑا تھوڑا پڑھوا کر روزانہ اس کو سنتا ہوں۔ اللہ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ اور آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے۔ والسلام
۱۰؍ اکتوبر ۲۰۰۶ طالب دعا عبد الکریم پاریکھ،ناگ پور
خاتمۂ کلام
اِس قسم کا تجربہ مجھے بار بار ہوا ہے۔ بار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک شخص اپنی تقریر یا تحریر میں ایک بہت بڑی بات بظاہر پورے یقین کے ساتھ کہتا ہے، لیکن جب اُس سے اس کا حوالہ دریافت کیا جائے تو وہ اس کا کوئی حوالہ نہیں دے پاتا، اور نہ وہ اس کا کھلا اعتراف کرتا ہے۔ اِس قسم کے بیانات نہایت غیر علمی ہیں۔ علمی اعتبار سے ان کا کوئی وزن نہیں۔
مگر یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں۔ اس قسم کا مزاج بتاتا ہے کہ آدمی اپنے حق میں ایک بہت بڑے نقصان کو برداشت کررہا ہے۔ اس قسم کا مزاج ذہنی ترقی کے راستے میں مستقل رکاوٹ ہے۔ جو آدمی ذہنی ترقی کا حریص ہو، اس کو چاہیے کہ وہ کبھی بھی ایسی کوئی بات نہ کہے جس کے حق میں اس کے پاس ضروری دلیل موجود نہ ہو۔ اگر وہ کبھی بھول کر کوئی بے بنیاد بات کہہ دے تو وضاحت کے بعد اس کو چاہیے کہ وہ فوراً ہی اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرے۔ ان دو کے سوا کوئی تیسرا طریقہ انسان کے لیے درست نہیں۔ تیسرا طریقہ ہلاکت کا طریقہ ہے نہ کہ زندگی کا طریقہ۔
اہلِ علم کا طبقہ ذہن سازطبقہ(opinion-maker class) ہوتا ہے۔ اہلِ علم کی تقریروں اور تحریروں سے لوگ اپنا ذہن بناتے ہیں۔ یہ پہلو مزید تقاضا کرتا ہے کہ اہلِ علم مذکورہ معاملے میں بہت زیادہ محتاط ہوں۔ کیوں کہ اِس پہلو سے ان کی پکڑ دُگنا ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے ساتھ عوام کی بے راہ روی کے بھی ذمے دار قرار پاتے ہیں۔ کتنازیادہ سنگین ہے یہ معاملہ۔ حقیقت یہ ہے کہ غلطی کا اعتراف ایسے لوگوں کے لیے اَہون البلیّتین (lesser evil) کی حیثیت رکھتا ہے۔
غلطی کا اعتراف سادہ معنوں میں صرف غلطی کا اعتراف نہیں ہے، وہ اس سے زیادہ ہے۔ غلطی کے اعتراف کا معاملہ آدمی کی خود اپنی علمی اور دینی شخصیت کی تعمیر سے جُڑا ہوا ہے۔ غلطی کا اعتراف نہ کرنا آدمی کے اندر روحانی اور ذہنی ارتقاء کو روک دیتا ہے۔ اِس کے برعکس، غلطی کا اعتراف آدمی کے اندر روحانی اور ذہنی ارتقاء کے عمل کو بڑھاتا ہے۔غلطی کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ملی جُلی حالت میں پڑے رہیں۔ اِسی کا نام کنفیوژن ہے۔ لیکن جب آدمی اپنی غلطی کو کھلے طورپرمان لے تو اس کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ اب آدمی اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ صحیح کو صحیح سمجھے، اور جو غلط ہے وہ اس کو غلط نظر آئے۔ یہ عمل آدمی کو کنفیوژن سے نکال کر فکرِ صحیح کے درجے میں پہنچا دیتا ہے۔
غلطی کا اعتراف در اصل فکری تطہیر کا عمل ہے۔ جس آدمی کے ذہن میں فکری تطہیر کا یہ عمل جاری نہ ہو وہ گویا ایک بہت بڑا خطرہ مول رہا ہے۔ یہ خطرہ کہ وہ فکری آلودگی کا شکار ہو کر رہ جائے، اس کو کبھی معرفت کا اعلیٰ درجہ حاصل نہ ہوسکے۔
مذکورہ خط و کتابت سے واضح ہوتا ہے کہ میرے حالیہ تجربے کے مطابق، اِس معاملے میں صرف دو حضرات کا استثنا ہے۔ ایک، مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب کا، اور دوسرے، مولانا غطریف شہباز ندوی کا۔ مولانا غطریف شہباز ندوی نے اِس معاملے میں صحیح اسلامی اسپرٹ کا ثبوت دیا ہے۔ اور مولانا عبد الکریم پاریکھ صاحب نے جس طرح کھلے دل کے ساتھ معاملے کی وضاحت فرمائی ہے، وہ بلا شبہہ ان کی ایمانی عظمت کا ثبوت ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان حضرات کی ہر طرح مدد فرمائے اور ان کو دنیا اور آخرت کی ابدی سعادتوں سے نوازے۔
اس خط و کتابت کے دَوران ایک اور نہایت اہم حقیقت واضح ہوئی۔ وہ یہ کہ ہمارا تعلیم یافتہ طبقہ تقریباً بلا استثنا، شعوری یا غیر شعوری طور پر ایک بہت بڑی کمزوری میں مبتلا ہے، اور وہ ہے قصیدے کی زبان میں کلام کرنا۔ قدیم زمانے میں بادشاہوں کے لیے مدحیّہ قصیدے لکھے جاتے تھے۔ ان قصیدوں میں محض خیالی اور فرضی طورپر بہت بڑی بڑی باتیں اپنے ممدوح کے ساتھ منسوب کردی جاتی تھیں۔ یہ شعراء کبھی یہ نہیں سوچتے تھے کہ اُن کی باتیں حقائق سے تعلق رکھتی ہیں یا نہیں۔ یہی اندازِ کلام بعد کو ہمارے یہاں نثر میں بھی رائج ہوگیا۔ اور عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں قصیدے کی زبان میں مدحیہ نثر لکھی جانے لگی۔ اپنی پسندیدہ شخصیتوں کے لیے لوگ ایسے الفاظ لکھنے اور بولنے لگے جن کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
زیر نظر خط وکتابت ایک چشم کُشا خط وکتابت ہے۔ یہ خط و کتابت لوگوں کو بتا رہی ہے کہ وہ کس طرح نثر میں مدحیہ قصائد لکھنے میں مشغول ہیں۔ ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اسلوب پر نظر ثانی کریں، اور مدح نگاری کے بجائے حقیقت نگاری کو اپنا اسلوب بنائیں۔
واپس اوپر جائیں