Pages

Saturday 1 March 2003

Al Risala | March 2003 (الرسالہ،مارچ)

2

- حیدرآباد کا سفر


حیدر آبادکا سفر

حیدرآباد میں۷۔۸ دسمبر ۲۰۰۲ کو تھنکرس میٹ (Thinkers’ Meet) کے نام سے ایک سیمینار ہوا۔اس کا اہتمام وگیان بھارتی مہارشی بھاردواج سوسائٹی اے۔پی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر راقم الحروف نے اس میںشرکت کی۔ ۷دسمبر کی صبح کو میں حیدر آباد پہنچا اور ۱۱دسمبر ۲۰۰۲ کو میری واپسی ہوئی۔
دہلی سے حیدر آباد کے لیے یہ سفر ۷ دسمبر ۲۰۰۲ کی صبح کو انڈین ایر لائنزکے ذریعہ ہوا۔ ایر پورٹ پر کوئی خاص قابلِ ذکر واقعہ پیش نہیں آیا۔ البتہ سفر کے دوران یہ احساس ہوا کہ انڈین ایر لائنز میں پچھلے ایک سال کے اندر کئی چیزوں میں بہتری آئی ہے۔ مثلاً پہلے کے مقابلہ میں اب جہاز وقت پرروانہ ہونے لگے ہیں۔ اسی طرح کئی اور چیزوں میں پہلے کے مقابلہ میں فرق نظر آیا۔ یہ فرق یا تو ہوائی پرواز میں کامپٹیشن کی وجہ سے ہو یا وہ موجودہ نوجوان وزیر ہوابازی کا کارنامہ ہو۔
دہلی سے حیدرآباد کے لیے دو گھنٹے کا سفر تھا۔ اس دوران مختلف اخبارات کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ دہلی اور حیدر آباد کے سفر کے دوران انڈین ایر لائنز کا فلائٹ میگزین سواگت دیکھا۔ یہ اُس کا شمارہ دسمبر ۲۰۰۲ تھا۔ اس میں مختلف سفری دلچسپی کے مضامین تھے۔ اس میں ایک مضمون چائے (tea) کے بارہ میں تھا۔ اس کے مضمون نگار کا نام سُجاتا پانڈے (Sujata Pandey) تھا۔ موضوع سے متعلق مختلف معلومات دیتے ہوئے اُس میں بتایا گیا تھا کہ چائے میںاگرچہ کیلوریز (calories) نہیں ہوتیں مگر دودھ والی چائے کے اندر کئی مفید اجزاء، خاص طورپر کچھ منرل (minerals) شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چائے کے ذریعہ ہمیں بڑی مقدار میں فلورائڈ(fluoride) حاصل ہوتا ہے۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ برابر چائے لینے والے لوگ بوسیدہ دانت(carious teeth) کا کم شکار ہوتے ہیں۔ مشہور مقولہ ہے کہ:
An apple a day keeps the doctor away.
اس مقولہ پر ڈھالتے ہوئے مضمون نگار نے چائے کے بارہ میں یہ جملہ لکھا تھا کہ ہر دن چائے کی ایک پیالی لو اور دانت کے ڈاکٹر کو دور بھگاؤ:
A cup a day keeps the dentist's drill away.
مجھے یاد آیا کہ پروفیسر کلیم اللہ خاں کشمیری کچھ دنوں کے لیے امریکہ گئے۔ وہاں اُنہوں نے قرآن کا روزانہ درس شروع کیا۔ اس درس میں اُنہوں نے لوگوں کو یہ سلوگن دیا کہ قرآن کی ایک آیت روزانہ پڑھو اور شیطان کو دور بھگاؤ:
One verse a day keeps the Satan away.
۷ دسمبر ۲۰۰۲ کے ٹائمس آف انڈیا کے صفحہ ۱۴ پر ایک رپورٹ دیکھی۔ یہ رپورٹ ایک انٹرنیشنل سیمینار کے بارہ میں تھی جو پچھلے دن (۶دسمبر) کو نئی دہلی کے وگیان بھون میں ہوا تھا۔ اس کا افتتاح صدر جمہوریہ ڈاکٹر عبد الکلام نے کیا تھا۔ مجھے بھی تاکید کے ساتھ اس سیمینار میں بلایا گیا تھا۔ اُس کے مطبوعہ پروگرام میں میرا نام بھی دوسرے اسپیکروں کے ساتھ شامل کردیا گیا تھا۔ مگر بعض وجوہ سے میں اُس میں شریک نہ ہوسکا۔ اس سیمینار کا اہتمام پونا کے ایک ادارہ ورلڈ فاؤنڈیشن آن ریورینس فار آل لائف(World Foundation on Reverence for All Life) کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس فاؤنڈیشن کے پریزیڈنٹ مسٹر باہری بی۔آر ملہوترا (Bahri B.R. Malhotra) ہیں ۔ دعوت نامہ مورخہ ۴ دسمبر ۲۰۰۲ کے علاوہ اُن کے کئی ٹیلیفون بھی آئے۔ مگر میںخواہش کے باوجود اُ س میں شرکت نہ کرسکا (Tel.: 91-20-6111485) ۔
اس انٹرنیشنل سیمینار کی جو مختصر رپورٹ ٹائمس آف انڈیا (۷دسمبر) میں یونیورسل ہارمنی کے عنوان سے چھپی ہے اُس کو یہاں صفحہ کے نیچے نقل کیا جارہا ہے۔ اس رپورٹ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وسیع پیمانہ پر انٹر نیشنل سیمینار کا اہتمام کرنے کے باوجود، مقررین پیس اور ہارمنی کا کوئی قابل عمل فارمولا پیش نہ کرسکے۔ رپورٹ کے مطابق، صدر جمہوریہ نے اپنے خطبہ میں کہا کہ مذہب کو روحانیت کا درجہ دینا چاہئے، اسی سے عالمی اتحاد پیدا ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس موضوع پر یہ کوئی واضح بات نہیں۔ صدر صاحب غالباً مذہب کو کلچر یا رسومات کے مجموعہ کے معنیٰ میں لے رہے ہیں۔ حالانکہ مذہب اپنی اصل کے اعتبار سے روحانیت ہی کا دوسرا نام ہے۔ یہی اسلام کی روح بھی ہے۔ موجودہ زمانہ کے لوگوں نے رسوم و ظواہر کا اہتمام اتنا زیادہ کیا کہ مذہب کی اصل روح اوجھل ہو کر رہ گئی۔
انڈین ایر لائنز کی فلائٹ کے ذریعہ دہلی سے حیدر آباد پہنچا۔ ابھی ہم جہاز کے اندر ہی تھے کہ میرے پاس کے ایک مسافر کی جیب میں رکھے ہوئے موبائل ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ اُنہوں نے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہماری فلائٹ حیدر آباد پہنچ چکی ہے۔ میںنے سوچا کہ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن کی ترقی نے اُس چیز کو گویا ایک عینی مشاہدہ بنا دیا ہے جس کو پہلے زمانے میں صرف غیبی ایمان کے طورپر ماننا پڑتا تھا۔ یعنی فاصلہ کے باوجود دوشخصوں کے درمیان رابطہ قائم ہونا۔ میرا اپنا حال یہ ہے کہ جب میں ایک شخص کو موبائل ٹیلی فون کے ذریعہ دور کے ایک شخص سے بات کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے اس حقیقت کاایک امکانی مظاہرہ کیا جارہا ہے کہ خدا اور انسان کے درمیان وحی یا الہام کے ذریعہ کس طرح ربط قائم ہوتا ہے۔
Peace can only come from reverence for all life... Religions must graduate to spirituality to bring about universal harmony.(APJ Abdul Kalam, President of India) Reverence to all life begins with reverence to oneself... we need to first stop violating our bodies by stuffing it with junk food and violating our minds by harbouring desires and cravings.(Sri Sri Ravi Shankar) Every human being is worthy of reverence because of the divine element within. (Swami Jitatmananda, Ramakrishna Mission) A scientist who explores space and beyond, searching the cosmos for truth, must also learn to look within for universal harmony. (R A Mashelkar, Director; CSIR) Each man is a microcosm of the universe. Your body is made of all the elements of the world. Nature supplied all the ingredients that make your body, which means that the universe made you by donating itself. If nature demanded that you refund everything that nature loaned you, would there be anything left of you? You can feel that the universe gave you birth and made you, so nature is your first parent. Do you feel good that you are a microcosm of the universe? (Sun Myung Moon)
دو گھنٹہ کی پرواز کے بعد ۷ دسمبر کو صبح ۹ بجے ہمارا جہاز حیدر آباد ایر پورٹ پر اُتر گیا۔ پورا سفر بالکل ہموار (smooth) طور پر طے ہوا۔ ہوائی جہاز کا سفر ہوا کے تابع ہوتا ہے۔ ہوا اگر پر سکون ہے تو سفر بھی پُر سکون ہوگا اور ہوا میں اگر اضطراب ہے تو سفر میں بھی اضطراب کی حالت جاری رہے گی۔ انسان ہوائی جہاز بنا سکتا ہے مگر انسان کو ہوا کے اوپر کوئی قدرت نہیں۔ اسی مثال سے جبر و اختیار کے معاملہ کو سمجھا جاسکتاہے۔ ہوا کی مثال انسان کی مجبوری کو بتاتی ہے اور ہوائی جہاز کی مثال انسان کے اختیار کو۔ اس دنیا میں انسان کا معاملہ بین بین کا معاملہ ہے۔ یعنی انسان ایک اعتبار سے مجبور ہے اور دوسرے اعتبار سے بااختیار۔
حیدر آباد ایر پورٹ پر ڈاکٹر شیزان صاحب اور مولانا عمر عابدین صاحب موجود تھے۔ کانفرنس والوں نے یہاں میرے قیام کا انتظام تولپ منوہر ہوٹل میں کیا تھا جو ایر پورٹ سے قریب ہے۔ ایرپورٹ پر ہوٹل کا ایک نمائندہ موجودتھا۔ اُس نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر ہم لوگوں کو ہوٹل میں پہنچایا۔ یہاں میرا قیام ہوٹل کے کمرہ نمبر ۲۱۱ میں تھا۔
ڈاکٹر شیزان صاحب اور مولانا عمر عابدین صاحب سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اصلاح اور اسلام کے احیاء نو کا جو کام کرنا ہے وہ تقلیدی انداز میں نہیں ہوسکتا۔ آج ہزاروں تحریکیں اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں مگر مطلوب نتیجہ بر آمد نہیں ہورہا ہے۔ اُس کا خاص سبب یہی ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو وقت کے فکر ی مستویٰ (intellectual level) پر پیش کیا جائے تاکہ وقت کا کارفرما طبقہ اُس کو اپنا سکے۔ ہماری موجودہ تحریکیں اسلام کو وقت کے فکری مستویٰ پر پیش نہیں کررہی ہیں اس لیے عوامی طبقہ کے کچھ لوگ تو ضرور اُن کے گرد اکٹھا ہو رہے ہیں مگر اعلیٰ طبقہ کے لوگ اُنہیں قابل توجہ نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ جب تک اعلیٰ طبقہ کے لوگ متوجہ نہ ہوں اسلام کی نئی تاریخ بنائی نہیں جاسکتی۔
حیدر آباد ایر پورٹ سے روانہ ہو کر سب سے پہلے منوہر ہوٹل پہنچا۔ یہاں الرسالہ کے کئی قارئین اکٹھا ہوگئے۔ اُن سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ اس مجلس میں میںنے جو باتیں کہیںاُن میں سے ایک یہ تھی کہ معرفت کس طرح آدمی کوایک نیا انسان بنادیتی ہے۔ میںنے کہا کہ ایک انگریزی شاعر نے لکھا ہے کہ میں نے اپنی زندگی میں سب سے عجیب چیز یہ دیکھی کہ مِس ٹی جو کچھ کھاتی ہے وہ مِس ٹی بن جاتا ہے:
What ever miss T eats turns into miss T.
میں نے کہا کہ یہ واقعہ جو مِس ٹی کے ساتھ مادی غذا کے معنیٰ میں ہوتاہے وہی مومن کے ساتھ روحانی معنیٰ میں ہوتا ہے۔ یعنی ایک عورت یا مرد جو مادی غذا کھاتے ہیں وہ اُن کے جسم میں داخل ہو کر اُن کے گوشت اور خون اور ہڈی کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ اسی طرح مومن اس دنیا میں جو کچھ دیکھتا ہے یا سنتا ہے یا تجربہ کرتا ہے وہ سب اُس کے مومنانہ ذہن کی وجہ سے اُس کے لیے معرفتِ حق میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اسی مومنانہ صفت کو قرآن میں توسّم کہا گیا ہے۔ یہاں سلطان محمود صاحب، احمد سعید صاحب اور ضیاء الدین نیّر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔
ہوٹل میںقیام کے دوران بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے ملاقات ہوئی۔ اُن میں سے ایک قابلِ ذکر نام آرایس ایس کے چیف کے ایس سدرشن کا ہے۔ ۷دسمبر کو کھانے کی میز پر اُن سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میںنے کہا کہ الیکشن کی سیاست سے واضح ہوچکا ہے کہ ’’سنگھ پریوار‘‘ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ مرکز میں مطلق اکثریت کے ساتھ آسکے۔ آپ حضرات کا یہ اندازہ درست ثابت نہیں ہوا کہ ہندو لوگ بڑی تعداد میں آپ کو ووٹ دیں گے اور اس طرح آپ پارلیمنٹ میںاکثریت حاصل کرلیں گے۔ آپ کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ مسلمان آپ کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں بلکہ خود ہندوؤں کے اندر ذات کی بنیاد پر سیاسی تفریق اتنی بڑھ چکی ہے کہ خود ہندوؤں کی اکثریت آپ کے ساتھ نہیں ۔ آپ جانتے ہیں کہ خود ہندوؤں میں ایسے لوگ ہیں جو آپ کے کلچرل نیشنلزم کو ہندو ٹیررزم کے ہم معنٰی بتاتے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ مرکزی حکومت پر کس طرح قبضہ کریں گے اوراپنے سیاسی ایجنڈا کو کس طرح نافذ کریں گے جب کہ مرکزی اقتدار پر قبضہ کیے بغیر آپ کے لیے اپنے سیاسی ایجنڈے کا نفاذ ممکن نہیں۔
سُدرشن جی نے میری بات کے وزن کو تسلیم کیا اور کہا کہ اب ہم اپنی حکمت عملی بدل رہے ہیں۔ ہم نے ریجنل بنیاد پر بہت سے کام شروع کردیے ہیں اور اس میں ہمیں کامیابی کی پوری اُمید ہے۔ غالباً ان حضرات کا یہ خیال ہے کہ علاقائی سطح پر کام کرکے لوگوں کے ذہن کو ہموار کیا جائے اوراُس کے بعد مرکزی اقتدار تک پہنچا جائے۔ اُن کے جدید فارمولا کو شاید اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ—نئی دہلی کا وہ راستہ زیادہ قریب ہے جو گاؤں سے ہو کر جاتا ہے۔
حیدرآباد کے اس سیمینار کا عنوان یہ تھا: انڈیا نائزیشن آف ایجوکیشن (Indianisation of Education) ، یعنی تعلیم کو بھارتیہ بنانا۔ اس سلسلہ میں پروفیسر جے۔ایس۔ راجپوت (J.S. Rajput) نے مجھے ایک انگریزی کتابچہ دیا۔ یہ کتابچہ ۸۶ صفحات پر مشتمل تھا۔ ڈاکٹر راجپوت کا دفتر نئی دہلی میں ہے۔(Tel.: 6519154, 6964712)
اس کتابچہ میں سپریم کورٹ کا وہ مشہور فیصلہ مکمل طورپر شائع کیا گیا تھا جو ۱۲ ستمبر ۲۰۰۲ کو دیا گیا۔ سیمینار کے منتظمین کے نزدیک سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ان کے نظریہ (انڈیانائزیشن آف ایجوکیشن) کی تائید کرتا ہے۔ میںنے سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کو مکمل طورپر پڑھا۔ اس کے بعد میںنے حیدر آباد کے سیمینار کے ایک ذمہ دار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آپ لوگوں کے نظریہ کی تائید نہیں کرتا۔
میںنے کہا کہ آپ اپنے نظریہ کوانڈیانائیزیشن آف ایجوکیشن کہتے ہیں۔ جب کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ میں یہ لفظ سرے سے موجود ہی نہیں۔ اس فیصلہ میں جس چیز کی ضرورت بتائی گئی ہے وہ اسکول کی تعلیم کے نصاب میں مشترک اخلاقی قدروں کو شامل کرنا ہے، نہ کہ تعلیم کا انڈیا نائزیشن یا بھارتیہ کرن۔میںنے کہا کہ آپ اس فیصلہ کو دوبارہ پڑھیے اور دیکھئے کہ اُس کا ریشیو آف دی ججمینٹ (ratio of the judgement) کیا ہے۔ اُس میں صاف طورپر کہاگیا ہے کہ اس فیصلہ کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ کسی خاص مذہب یا تہذیب کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ اس فیصلہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ مختلف مذاہب میں جو مشترک اخلاقی تعلیمات موجود ہیں اُن کو اسکول کے نصاب میں داخل کیا جائے۔ یہ کام سیکولر انداز میں ہونا چاہئے، نہ کہ مذہبی انداز میں۔ فیصلہ میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ سیکولرزم ہمارے دستور کی بنیاد ہے:
Secularism is the basic structure of the Indian constitution. (p. 52)
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے گفتگو کے دوران کہا کہ آپ لوگ خدا اور روحانیت کی بات کرتے ہیں لیکن آج کا ایک انسان جس کے پاس پیسہ ہے اور جس کو مادّی سہولتیں حاصل ہیں وہ کہتا ہے کہ ہم کو خدا اور روحانیت کی کیا ضرورت ۔ ہم جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب کچھ ہم کو اس کے بغیر ملا ہوا ہے۔ پھر کیوں خدا اور روحانیت جیسی چیزوں میںاپنے دماغ کو الجھائیں۔
میںنے کہا کہ آپ کو جوچیز ملی ہوئی ہے وہ کیا ہے۔ وہ صرف وہ چیزیں ہیں جو آپ کے جسم کو آرام دے سکیں۔ مگر یہ تو زندگی کی حیوانی سطح ہے۔ کوئی بھی حیوان اس قسم کی زندگی حاصل کرسکتا ہے۔ انسان کی اصل عظمت یہ ہے کہ وہ دماغ رکھتا ہے۔ جسم تو صرف اس دماغ کی سواری ہے۔ انسان کی اصل ترقی اس میں ہے کہ اُس کا دماغ ترقی کرے۔ اگر جسم فربہ ہوجائے اور دماغی سطح پر کوئی ترقی نہ ہو توایسی ترقی کی کوئی قیمت نہیں۔ خدا اور روحانیت کا راستہ اسی دماغی ترقی کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
میںنے کہا کہ آپ جیسے لوگ یہ کرتے ہیں کہ وہ مخصوص تعلیم اور ٹریننگ کے ذریعہ دماغ کے ایک حصہ کو ترقی یافتہ بنا لیتے ہیں۔ یہ دماغ کا پروفیشنل حصہ ہے۔ ایسے لوگ پروفیشنل اعتبار سے ذہین معلوم ہوتے ہیں۔ مگر دماغ کے دوسرے فکری پہلوؤں کے اعتبار سے وہ بالکل غیر ترقی یافتہ حالت میں پڑے رہتے ہیں۔
ایک سابق وائس چانسلر سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ انڈیا کے مسائل کی اصل جڑ تعلیمی پچھڑا پن ہے۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ملک کی پوری آبادی کو تعلیم یافتہ بنایا جائے۔ اس کے بعد ہی یہاں کے مسائل ختم ہوں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ صرف تعلیم کافی نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ افراد بھی کتنے زیادہ غلط کام کرتے ہیں۔
میںنے کہا کہ جب میں تعلیم کو بنیادی اہمیت کی چیز بتاتا ہوں تومیں تعلیم کے بالواسطہ فائدوں کو شامل کرکے ایسا کہتا ہوں۔ آپ جیسے لوگ صرف تعلیم کے رسمی پہلو کو دیکھتے ہیں۔ حالانکہ تعلیم کے بہت سے اضافی پہلو ہیں۔
میں نے کہا کہ تعلیم کا ایک فائدہ یہ ہے کہ اُس کے ذریعہ آدمی جاب کے قابل بنتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا فائدہ یہ ہے کہ تعلیم آدمی کو باشعور بناتی ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تعلیم آپ جیسے مصلحین اور نوجوانوں کے درمیان ذہنی بُعد (intellectual gap) کو ختم کرتی ہے۔ آپ جیسے رہنماؤں کے لیے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کی قابلِ فہم زبان میں اُن سے کلام کر سکیں۔
کچھ اخبار نویسوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ انسان کی ایک عام کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے مخالف کی بات کو صحیح شکل میںرپورٹ نہیں کرتا۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے لارڈ ٹی۔بی میکالے(وفات ۱۸۵۹) نے غیر منقسم ہندستان میں انگریزی تعلیم کے بارے میں اپنا مشہور خاکہ پیش کیا جس کو اُس وقت کی برطانی حکومت نے منظور کرکے اُسے ملک میں جاری کیا۔
لارڈ میکالے کے اس خاکہ کے بارے میںاپنی نوجوانی کی عمر میں میںصرف یہ جانتا تھا کہ اُس کا مقصد ایک ایسی قوم بنانا ہے جو پیدائش کے اعتبار سے انڈین اور خیالات کے اعتبار سے انگلش ہو۔ اُس وقت کے لیڈر یہی بات لکھتے اور بولتے تھے۔ مگر بعد کو جب میں پختگی کی عمر کو پہنچا تو میںنے یہ سوچنا شروع کیا کہ انگریزی تعلیم کا یہی وہ نظام تھا جس سے ملک کے تمام اعلیٰ افراد پیدا ہوئے—سوامی وویکا نند، آروندو، ٹیگور، ڈاکٹر رمن، مہاتما گاندھی، جواہر لال نہرو، جے پرکاش نرائن، راجیندر پرشاد، رادھا کرشنن، راج گوپال اچاری، ڈاکٹر ذاکر حسین، وغیرہ وغیرہ۔ اس کے برعکس آزادی کے بعد ہماری قومی حکومت نے جو تعلیمی نظام ملک میں رائج کیا اُس سے مذکورہ قسم کی شاید کوئی ایک بھی اعلیٰ شخصیت پیدا نہ ہوسکی۔
اس کے بعد جب میں نے اس معاملہ کا ازسرِ نو مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ لارڈ میکالے کی ایک تقریر کے ایک جملہ کو لے کر مذکورہ بات پھیلائی گئی۔ جب کہ انگریزی تعلیم کے منصوبہ کا اصل مقصد یہ تھا کہ ملک کے نوجوانوں کو جدید علوم اور جدید معیار کے مطابق، تعلیم یافتہ بنایا جائے اور ماڈرن ایجوکیشن کو ملک میں عام کیا جائے۔
وائس آف امریکہ کے ایک نشریہ میں ایک بار میں نے سُنا کہ امریکہ میں ہندستان کے لوگ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور دوسرے شعبوں میں زیادہ کامیاب کیوں ہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ وہ انگریزی زبان بہت اچھی جانتے ہیں:
They speak very good English, and this is their advantage.
یہ طریقہ آج بھی ہمارے یہاں رائج ہے۔ صحیح انداز یہ ہے کہ جب بھی کسی کی بات کو پیش کیا جائے تو اُس کو ٹھیک ویسا ہی پیش کیا جائے جیسا کہ وہ ہے۔ اس کے بغیر لوگوں کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ پیدا نہیں ہوسکتی جو ملکی تعمیر کے لیے بے حد ضروری ہے۔
ہندوؤں کی ایک مجلس میںمیں نے اسلامی تعلیمات کا تعارف پیش کیا۔ لوگوں نے بہت غور سے سُنا۔ آخر میں ایک تعلیم یافتہ ہندو نے کہا کہ آپ اسلام کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کے لیے سہج سوئکاریہ ہو جائے۔ یعنی اسلام کو ماننا اُن کے لیے آسان ہوجائے۔
۷ دسمبر ۲۰۰۲ کی شام کو وہ سیمینار تھا جس میں شرکت کے لیے میرا یہ سفر ہوا۔ اس سیمینار کا موضوع انڈیانائیزیشن آف ایجوکیشن تھا۔ میںنے اپنی تقریر میںایک بنیادی بات کہی۔ وہ یہ کہ ہمارا ملک جس مسئلہ سے دوچار ہے وہ اسکول ایجوکیشن کے انڈیانائزیشن سے حل ہونے والا نہیں۔ اُس کے لیے زیادہ وسیع پیمانہ پر مسلسل محنت کی ضرورت ہے۔ ہمیں تمام وسائلِ ابلاغ کو استعمال کرکے ملک میں ایک فکری اور اخلاقی انقلاب لانا ہوگا۔ اُس کے بعد ہی ہمارا مطلوب مقصد حاصل ہوسکتا ہے۔
۷ دسمبر کی شام کے سیمینار میں ہونے والی میری تقریر کی رپورٹ مختلف اخبارات میں چھپی ۔ حیدرآباد کے اُردو روزنامہ منصف (۱۲ دسمبر ۲۰۰۲) میں یہ رپورٹ اس عنوان کے ساتھ شائع ہوئی— ’’ مولانا وحید الدین خاں کے ساتھ ایک شام‘‘۔ اس رپورٹ کا کچھ حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’عید کے دوسرے دن، ادارہ ادبیاتِ اردو کے ایک صاحبعبدالنعیم نے دعوت نامہ پیش کیاکہ مولانا وحید الدین خاں کا لکچر ہے اور آپ کا چلنا ضروری ہے۔ یہ وگیان بھارتی مہارشی بھاردواج سوسائٹی آندھرا پردیش کی جانب سے مختلف مذاہب کے مفکرین کا سیمینار تھا جس کا مقصد قومی یکجہتی اور ترقی تھا۔ عثمانیہ یونیورسٹی پہنچے تو شام کے پانچ بج رہے تھے۔ سرمئی اجالے میں وسیع سبزہ زار پر اسٹیج وکرسیوں کا انتظام تھا۔ تیز روشنی میں سیکورٹی کا غیر معمولی اہتمام کیاگیا تھا۔ معلوم ہوا کہ مرکزی وزیر برائے فروغ انسانی وسائل مرلی منوہر جوشی اور آر ایس ایس کے سَر سنچالک سدرشن جی بھی تشریف لارہے ہیں۔ جب ہم پہنچے تھے تو اسٹیج پر تین چار حضرات موجود تھے اور سیمینار کے پہلے مقرر ڈاکٹرڈیوڈ فرالے (David Frawlay) انگریزی میںویدک نالج دے رہے تھے۔ اُنہوں نے ہندو دھرم کی خصوصیات پر روشنی ڈالی اور تالیوں کی گونج میں اپنی کرسی پر دوبارہ بیٹھ گئے۔ دوسرے مقرر مولانا وحید الدین خاں تھے جنہوں نے ناسازی ٔ مزاج کی بنا پر مختصر خطاب کیا لیکن لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔
مولانا وحید الدین خاں نے انگریزی میں بولتے ہوئے بتایا کہ ہندستان بہتر کیوں ہے۔ مذہبی آزادی اور روحانی ماحول کی وجہ سے ہندستان، ساری دنیا میں اپنی انفرادیت رکھتا ہے۔ یہ صوفیوں اور سَنتوں کا ملک رہا ہے۔ موجودہ حالات کی روشنی میں اُنہوں نے یہاںکے لوگوں کو آپسی رواداری برتنے اور ایک دوسرے کا لازمی احترام کرنے کی تلقین کی۔ اُنہوں نے حالات حاضرہ کو پیش کرتے ہوئے بتایا کہ بچپن میں اُنہوں نے اسمٰعیل میرٹھی کی ایک نظم ’’گائے‘‘ پڑھی تھی جو گھاس کھا کر دودھ پیدا کرتی ہے۔ اس کا ایک شعر یہ تھا:
کل جو گھاس چری تھی بن میں دو دھ بنی وہ گائے کے تھن میں
گائے تمام لوگوں کے لیے قدرت کا یہ پیغام ہے کہ نان مِلک کو مِلک میں تبدیل کرو۔ منفی جذبات کا جواب مثبت انداز میں دو۔ دنیا کے مختلف ممالک مادی، فوجی اور دیگر طاقتیں رکھتے ہیں مگر ہندستان روحانی سپر پاور کی حیثیت سے اپنا منفرد مقام رکھتا ہے۔ مولانا وحید الدین خاں نے سیمینار سننے والے ننانوے فیصد ہندو بھائیوں اور بہنوں کو بتایا کہ میں مسلمان ہونے کے ناطے ’’میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‘‘ پرعقیدہ رکھتا ہوں۔ ہندستان ایک ایسا ملک ہے جو روحانی طورپر ساری دنیا کی قیادت کرے، تشدد کے ذریعہ نہیں بلکہ امن و یکجہتی کے ذریعہ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہندستان ہمیشہ سپر پاور رہا ہے، روحانی طورپرنہ کہ سیاسی طور پر ‘‘۔ (صفحہ ۴)
میری تقریر کے بعد سدرشن جی کی تقریر تھی۔ میری طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ چنانچہ میںاُن کی تقریر کے درمیان ہی اُٹھ گیا۔ اسٹیج سے اُتر کر میں نیچے پہنچا تھا کہ سدرشن جی اپنی تقریر کوروک کر آئے اور مجھے رخصت کیا۔
حیدر آباد سے ایک انگریزی ماہنامہ نکلتا ہے۔ اس کا نام بھارتیہ پرجنا (Bharatiya Pragana) ہے۔ اس کا شمارہ دسمبر ۲۰۰۲ دیکھا۔ اُس کے صفحہ ۵۸ پرایک رپورٹ درج تھی۔ حیدر آباد میں ۱۸ نومبر ۲۰۰۲ کو کنورژن پر ایک راؤنڈ ٹیبل کانفرنس ہوئی جس میںہندو اور کرشچین شریک ہوئے۔ یہ رپورٹ اسی سے متعلق تھی۔ اُس کا عنوان یہ تھا:
Conversions—Issues and Need for legislation
رپورٹ کے مطابق، ہندو اسپیکروں نے کنورژن (تبدیلی ٔ مذہب) کو مکمل طورپر کنڈم کیا اور اس پر زور دیاکہ سارے ملک میں کنورژن پر بَین لگانے کے لیے قانون بننا چاہئے۔ بھارتیہ پرجنا کے شمارہ جنوری ۲۰۰۳ میں مذکورہ سیمینار کی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے۔
ایک ہندو سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ کنورژن پر پابندی لگائی جائے یا نہ لگائی جائے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ مگر ایک بات میری فہم سے بالاتر ہے۔ ایک طرف تمام ہندو دانشور یہ کہتے ہیں کہ ہر مذہب سچا ہے۔ ہر مذہب نجات کی طرف لے جاتا ہے۔ حتٰی کہ اُن کا یہ کہنا ہے کہ ہم اپنے سوا دوسرے مذہبوں کو صرف ٹالریٹ نہیں کرتے بلکہ اُن کو ایکسیپٹ(accept) کرتے ہیں۔ دوسری طرف یہی لوگ شدت سے کنورژن کے مخالف ہیں۔ میرے نزدیک یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جب آپ لوگ ہر مذہب کو سچامانتے ہیں تو ایسی حالت میں کنورژن کا مطلب صرف یہ ہے کہ آدمی سچائی اے کو چھوڑ کر سچائی بی میںچلا گیا۔ خود آپ کے نظریہ کے مطابق، یہ کوئی برائی نہیں۔ پھر اس کی مخالفت کرنے کی کیا ضرورت۔
۷دسمبر کی رات منوہر ہوٹل میں گذری۔ ایک تعلیم یافتہ ہندو سے میڈیٹیشن (meditation) پر گفتگو ہوئی۔ اُنہوں نے کچھ سوامی لوگوں کا ذکر کیا جو اُن کے الفاظ میں، اسٹریس (stress) کو ڈی اسٹریس کرنے کا آرٹ جانتے ہیں۔ وہ لوگوں کے ذہنی تناؤ کو دور کرکے لوگوں کو شانتی بانٹ رہے ہیں۔
میں نے کہا کہ میں ایسے کچھ سوامی لوگوں سے ملا ہوں اور اس آرٹ کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ یہ لوگ یہ کرتے ہیں کہ جو آدمی ذہنی تناؤ میں مبتلا ہو اُس کو میڈیٹیشن کے مخصوص کورس سے گزارتے ہیں۔ اس کورس کا مقصد تناؤ کو سپریس (suppress)کرنا ہوتا ہے، نہ کہ اُس کو ختم کرنا۔ جن لوگوں نے یہ کورس کیا ہے وہ بتاتے ہیں کہ چند گھنٹے کے لیے جب کہ وہ اس کورس میں ہوتے ہیں، بظاہر اُن کا ذہنی تناؤ دور ہو جاتا ہے۔ مگرجب وہ اس کورس سے نکل کر اپنی زندگی میں واپس آتے ہیں تو تناؤ کی وہی کیفیت دوبارہ لوٹ آتی ہے۔
میں نے کہا کہ اسٹریس کو دور کرنے کا یہ طریقہ مسئلہ کا علاج نہیں بلکہ وہ پین کِلر گولی کے مانند ہے جو وقتی طورپر درد کو دبا دیتی ہے اور اُس کے بعد درد بدستور اُبھر آتا ہے یا اُس کو ایک ذہنی تحذیر(intellectual anesthesia) کہا جاسکتا ہے۔ اور اگر بالفرض ایسا کوئی طریقہ ہو جو فکری عمل کو مستقل طورپر روک کر تناؤ کو دور کرسکے تووہ انسان کو باشعور انسان کی سطح سے اُتار کر بے شعور انیمل کی سطح پر لانا ہوگا۔ یہ ڈی ہیومینائزنگ (de-humanising) ہوگا، نہ کہ ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) ۔
میں نے کہا کہ ذہنی تناؤ کوئی برائی نہیں۔ وہ ذہنی ترقی کا ذریعہ ہے۔ تاریخ میں تمام بڑے بڑے کام اُنہی لوگوں نے کیے ہیں جو ذہنی تناؤ کا شکار ہوئے۔ وہ لوگ جن کی پوری زندگی سکون و عافیت میں گذری اُنہوں نے کبھی کوئی تخلیقی کام نہیںکیا۔ کسی پُر سکون ذہن نے کبھی کوئی سائنسی دریافت نہیںکی۔ کسی پُرعافیت آدمی نے کبھی کوئی تخلیقی کتاب نہیں لکھی۔
ایک مجلس میںمیں نے اپنا ایک واقعہ بتایا۔ حال میں دہلی کے شری پال جین (Tel.: 2248920, 2215617) مجھ سے ملنے کے لئے میرے آفس میں آئے۔ وہ اپائنٹمنٹ کے بغیر اچانک آگئے تھے۔ اس وقت میںایک ضروری کام میں مصروف تھا۔ مجبوراً کام چھوڑکر اُن سے ملنے کے لیے ملاقات کے کمرہ میںجانا پڑا۔ جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اہنسا پرِ یَا سماج کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے۔ اس کے تحت وہ مہاشکتی اہنسا ٹائمس چھاپنا چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس کے لئے آپ کا ایک آرٹیکل چاہئے۔ آج کل ہنسا بہت بڑھ گئی ہے۔ آپ ہمیں ہنسا کے خلاف ایک آرٹیکل دیجئے۔ میں نے کہا کہ میرا آرٹیکل آپ کو سوٹ نہیں کرے گا۔ اس لئے کہ میں اس میں لکھوں گا کہ اہنسا وادی بھی ہنسا کرتے ہیں۔ میرے نزدیک ہنسا صرف گولی یابم مارنے کا نام نہیں ہے۔ ہنسا وہ بھی ہے جو اس وقت آپ نے کیا ۔ میںنے کہا کہ اپائنٹمنٹ کے بغیر کسی کے یہاں جانا اس کو ڈسٹرب کرناہے۔ اور ڈسٹرب کرنا بھی ایک قسم کی ہنسا ہے۔
میںنے کہا کہ انڈیا میں صرف دو اہنسا وادی پیدا ہوئے ہیں—مہاتما گاندھی اور اس کے بعد یہ آدمی جو اس وقت آپ کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔ میں نے کہا کہ میرا طریقہ یہ ہے کہ میں پوری طرح ایک نوپرابلم انسان بن کر رہتا ہوں، حتیٰ کہ خود اپنے گھرمیں بھی۔ باہر کے سفروں میں لوگ مجھے اپنے گھر ٹھہراتے ہیں تو میں کبھی کسی چیز کی فرمائش نہیں کرتا۔ چائے کی ایک پیالی بھی ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ نہیں رکھتا۔ کبھی زور سے نہیں بولتا، کبھی خود سے نہ لائٹ جلاتا ہوں اور نہ اے۔ سی چلاتا۔
میں نے کہا کہ ہنسا صرف یہ نہیں ہے کہ آپ کسی کو جسمانی طورپر تکلیف پہنچائیں۔ ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچانا بھی ہنسا ہے۔ کسی کے لئے غیر ضروری طورپر مسئلہ پیدا کرنا بھی ہنسا ہے ۔ کسی کو غلط مشورہ دینا بھی ہنسا ہے۔ کسی کے خلاف بری بات پھیلانا بھی ہنسا ہے۔ کسی سے نفرت کرنا بھی ہنسا ہے۔
۸ دسمبر ۲۰۰۲ کی صبح کو میںاپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ منوہر ہوٹل سے روانہ ہوکر مدینہ ایجوکیشن سنٹر پہنچا۔ یہاں میرا قیام اُس کے گیسٹ ہاؤس میںتھا۔ یہ گیسٹ ہاؤس وسطِ شہر میں واقع ہے۔ اس لیے لوگ رات دن مسلسل آتے رہے اور لوگوں سے ملاقاتیں جاری رہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ میں الرسالہ پڑھتا ہوں۔ مگر الرسالہ میں تکرار ہوتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب آپ بوڑھے ہوگئے ہیں اور زیادہ باتیں آپ کے پاس نہیں ہیں اس لیے آپ پچھلی کہی ہوئی باتوں کو دہراتے رہتے ہیں۔
میںنے کہا کہ اگر آپ دہلی آئیں تو میںآپ کو ایک سوٹ کیس دکھاؤں گا۔ اس میںہزاروں لکھے ہوئے صفحات موجود ہیں جوسب کے سب غیر مطبوعہ ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو آپ ہمارے رفیق کار مولانا ندیم احمد سے خط یا ٹیلی فون کے ذریعہ پوچھ لیجئے۔ وہ آپ کو بتائیں گے۔ کیو ں کہ آج کل میںاِملا کے ذریعہ انہیں سے مضامین لکھواتا ہوں۔
میںنے کہا کہ آپ جانتے ہیں کہ قرآن میں مضامین کی تکرار ہے۔ مثلاً آدم اور ابلیس کے قصہ کو قرآن میں کئی بار دہرایاگیا ہے۔ اس کا مقصد بات کو ذہن نشین کرنا ہے۔ جب کوئی بات ماحول کے خلاف کہی جائے تو لوگ اُس کو ایک بار کہنے سے سمجھ نہیں سکتے۔ مثلاً سو سال سے مسلمانوں کا ذہن احتجاج اور شکایت کی باتوں سے بھر دیا گیا تھا۔ اب میںلوگوں کی سوچ کو بدل کر اُنہیں صبر و اعراض کے اُصول پر سوچنے والا بنانا چاہتا ہوں۔ اسی طرح سو سال سے مسلمانوں کا ذہن قومی طرز فکر سے بھر دیا گیا تھا اب ہم اُن کے اندر دعوتی طرز فکر لانا چاہتے ہیں۔ یہ لوگوں کی کنڈیشننگ (conditioning) کو توڑنا ہے اور کنڈیشننگ کو توڑنے کا کام اس طرح نہیں ہوسکتا کہ بات کو قانون کی زبان میںایک بار کہہ دیا جائے۔
۸ دسمبر کی شام کا کھانا ڈاکٹر شیزان صاحب کے یہاں تھا۔ کھانے پر کئی لوگ اکٹھا ہوئے۔ یہاں لوگوں سے مختلف موضوعات پر گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ ایک بات میںنے یہ کہی کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان لمبی مدت سے بڑی بڑی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ مگر مطلوب نتیجہ ابھی تک نہیں نکلا۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ پورے معاملہ پر ازسرِ نو غور کیا جائے۔وہ کام کیا جائے جس کو ری اسسمنٹ re-assessment) ( کہا جاتا ہے۔ مثال کے طورپر اگر سلطان ٹیپو کی شہادت (۱۷۹۹) سے شمار کیا جائے تو نہ صرف ہندستان بلکہ دوسرے مقامات کے مسلمان تقریباً تین سو سال سے مسلّح جہادکررہے ہیں۔ مگر نتیجہ یک طرفہ طورپر مسلمانوں کی تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔ اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ مسلّح جہاد کو یک طرفہ طورپر اور مکمّل طور پر بند کردیا جائے اور ساری کوشش پُرامن عمل میںلگادی جائے۔
۹ دسمبر کی صبح ہوئی تو کئی ساتھی بالکل سویرے ہی مدینہ ایجوکیشن سینٹر آگئے۔ مثلاً عبدالغفار صاحب، عبد الرؤف صاحب، معین بھائی، وغیرہ۔ مدینہ ایجوکیشن سینٹر کے اوپر کی چھت پر باجماعت نماز کا انتظام ہے۔ یہاں ہم لوگوں نے دوسرے طلبہ کے ساتھ با جماعت فجر کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے کہا کہ پنج وقتہ نماز اصلاً اللہ کی عبادت ہے مگر اسی کے ساتھ وہ کتاب موقوت ہے۔ نماز کا یہ نظام ہمارے اوقاتِ کار کو منظم کرتا ہے۔ اگر ہم اپنے کام کو پانچ وقتوں میں تقسیم کریں اور ہر کام ایک نماز اور دوسری نماز کے درمیان انجام دیں تو یہ بہت مفید ہوگا۔ اس طرح پانچ وقت کی نماز ہمارے لیے ٹائم مینیجمنٹ کا ایک فطری ذریعہ بن جائے گی۔
ایک مسلم نوجوان نے اپنی ڈائری پیش کی اور کچھ نصیحت لکھنے کے لیے کہا۔ میںنے ڈائری میں یہ الفاظ لکھ دیے کہ زندگی کا ہر لمحہ ایک تجربہ ہے اور ہرتجربہ ذہنی ارتقاء کا ذریعہ:
Every moment is an experience and every experience is a source of intellectual development.
ایک صاحب نے اپنی روداد بتائی۔اس سے موجودہ زمانہ کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کے مزاج کا اندازہ ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ٹرین کے ایک سفر میںان کی ملاقات ہندو انتہا پسند لیڈر ڈاکٹر پروین توگڑیا سے ہوئی ۔ اس طرح انہیں ڈاکٹر توگڑیا سے تقریباً تین گھنٹہ بات چیت کرنے کا موقع ملا۔ اسلام کی امتیازی حیثیت کو بتاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر توگڑیا سے کہا کہ:
Islam was the culmination of the evolution of religion.
میںنے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اسلام ارتقائی مذہب نہیں ہے بلکہ وہ مذہب کا محفوظ ایڈیشن ہے۔ قرآن میں کئی مقامات پر پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم پچھلے نبیوں کی پیروی کرو۔ مثلاً فبہداہم اقتدہ۔ اگر اسلام مذہب کی ارتقائی صورت ہو تو پچھلے پیغمبروں کی پیروی کا حکم ایک ناقابل فہم حکم بن جائے گا۔
اسی طرح اسلام کی خصوصیت بتاتے ہوئے انہوں نے ڈاکٹر توگڑیا سے کہا کہ محمدﷺ کا ظہور اس وقت ہوا جب کہ زمانہ میں مکمل تبدیلی آگئی تھی اور انسانی ذہن اتنا ترقی کر چکا تھا کہ خالص تعقل کی سطح پر وہ خدا کی معرفت حاصل کرسکے:
Human intelligence had developed sufficiently enough to recognize God through reason.
میں نے کہا کہ یہ ایک مغالطہ آمیزبات ہے ۔اس لئے کہ ساتویں صدی عیسوی میں انسانی علم ابھی روایتی دور میں تھا۔ انسانی علم کا روایتی دور سے نکل کر سائنسی دور میں پہنچنا مسلّمہ طورپر بہت بعد کو ہوا۔ اب اس معیار کے مطابق، کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ اسلام دور قدیم کا مذہب ہے، وہ دور جدید کا مذہب نہیں۔
اُنہوں نے بتایا کہ گفتگو کے دوران ڈاکٹر توگڑیا نے کہا کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے اور مسلم تاریخ خون سے لکھی گئی ہے۔ یہ سُن کر مذکورہ مسلمان نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیاآپ اس معاملہ میں دوسرے مذاہب کی تاریخ کو جانتے ہیں۔ اُن کی تاریخ بھی اگر زیادہ نہیں تو اس سے کم خونی نہیں۔ ان کے الفاظ یہ تھے:
I countered by asking if he was aware of the history of other religions. They too were not less bloody if not more.
یہ جواب کا وہ طریقہ ہے جس کو الزامی جواب کہا جاتا ہے۔ وہ اُس آدمی کے لیے مفید نہیں جو دین حق کی نمائندگی کر رہا ہو۔ اسلام ہر حال میں با اصول کردار کا حکم دیتا ہے۔ دوسروں کا غلط رویّہ اسلام کے لیے کبھی مثال نہیں بن سکتا۔ ڈاکٹر توگڑیا کے مذکورہ بیان کا صحیح جواب یہ تھا کہ—اسلام اصولی حیثیت سے ایک پُر امن مذہب ہے۔ البتہ مسلمان، خاص طور پر مسلم حکمراں، تشدد کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مگر آپ کو چاہئے کہ اسلام اور مسلمان میں فرق کریں۔ اسلام کو سمجھنے کے لیے اسلام کی تعلیمات کو دیکھیں، نہ کہ مسلمانوں کے عمل کو۔
انہوں نے اپنی گفتگو کیتفصیلی رپورٹ دینے کے بعد آخر میں کہا کہ جب میںنے مسلمانوں میں ریفارم کی ضرورت کو تسلیم کیا تو اس موقع پر ڈاکٹر توگڑیا نے آپ کا نام لیا اور آپ کی کوششوں کے بارہ میں اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اس موقع پر مذکورہ مسلمان کے الفاظ یہ تھے:
Dr. Togadia asked me about you. He said he had not met Maulana Wahiduddin but his colleagues had. He was aware of your views and appreciated them.
اپنے تجربہ کے مطابق، میں ایسے بہت سے مسلمانوں کو جانتا ہوں۔ اسلام کے بارے میں ان کا علم محدود ہے۔ وہ اسلام کے بارے میں جب بولتے ہیں تو وہ اسلام کی یا تو غلط نمائندگی کرتے ہیں یا ناقص نمائندگی۔ ایسے مسلمانوں سے میں کہتا ہوں کہ وہ دو میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ یا تو وہ اپنے دوسرے کاموں کو چھوڑ کر ساری زندگی مطالعہ اور تحقیق میں لگائیں تا کہ وہ اسلام کی صحیح نمائندگی کے قابل ہوسکیں۔ اور اگر ان کے پاس اتنا وقت نہیں ہے تو دوسری صورت ان کے لئے یہ ہے کہ اگر کسی عالم نے اپنی پوری زندگی صرف کرکے اسلام پر ایسا لٹریچر تیا رکیا ہے جس کا اعتراف دوسرے بھی کرتے ہوں تو وہ اس لٹریچر کو استعمال کریں اور خود لکھنے اور بولنے کے بجائے اُس کی کتابیں دوسروں کو پڑھنے کے لئے دیں۔ مگر بدقسمتی سے ان لوگوں نے تیسری صورت کا انتخاب کر رکھا ہے۔ اور اس طرح کے معاملہ میں تیسرا انتخاب ہمیشہ غلط ہوتا ہے۔
کچھ مسلم نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ دعوت کاکام آدمی کو فطرت کے راستہ پرلے آنا ہے۔ اس کا مقصد کنڈیشننگ کو ختم کرکے انسان کو اپنی فطرت پرقائم کرنا ہے، مسلم وغیرمسلم دونوں کا مسئلہ یہی ہے:
Dawah is de-conditioning, both of Muslims as well as of non-Muslims.
حدیث میںبتایا گیا ہے کہ ہر انسان اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اُس کے ماں باپ اُس کو یہودی اور نصرانی اور مجوسی بنا دیتے ہیں (کل مولودٍ یولد علی الفطرۃ فابواہ یہودانہ اوینصرانہ او یمجسانہ) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عام انسان اپنے ماحول سے متاثر ہو کر سچائی سے ہٹ جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کے بارہ میں قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ بعد کے زمانہ میں وہ، دوسری امتوں کی طرح خود ساختہ دین کو دین سمجھ کر اُس پر قائم ہوجائیں گے۔ اس اعتبار سے دونوں ہی گروہوں کا کیس اپنے اپنے لحاظ سے کنڈیشننگ کا کیس ہے۔ اور دونوں ہی کے سلسلہ میں یہ کرنا ہے کہ اُن کی کنڈیشننگ کو ختم کر کے اُنہیں اپنی اصل حالت کی طرف لوٹایا جائے۔یہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی اُن میں سے چند نام یہ ہیں: مولانا فیروز عادل قاسمی صاحب، حافظ و قاری اعجاز عادل صاحب، مفتی احتشام صاحب، خالد بھائی، حمزہ بھائی، انور خاں صاحب، مفتی اشرف علی قاسمی ، وغیرہ۔
ایک بار میں ایک صاحب کے ساتھ ان کی کار میں سفر کر رہا تھا۔ وہ ایک کمپنی میں مینیجر ہیں۔ ان کی کار میں اسٹیریو سسٹم لگا ہواتھا۔ وہ گاڑی چلاتے ہوئے اس سے میوزک سنتے رہتے ہیں۔ میںنے ان سے کہا کہ اگر آپ ایک کسٹمر سے ایک بڑے سودے کے لئے سنجیدہ گفتگومیںمشغول ہوں اور عین اسی وقت کوئی شخص آپ کی میز پرایک ٹیپ ریکارڈر لا کر رکھ دے اور پوری آواز کے ساتھ اس پر میوزک بجانے لگے۔ ایسے وقت میں آپ کا احساس کیا ہوگا۔ انہوں نے کہا اس کو میںایک غیر مطلوب مداخلت (unwanted distraction) سمجھوں گا اور فوراً اس کو بند کردوں گا۔
میںنے کہا کہ گاڑی چلاتے ہوئے جب آپ اپنا میوزک ریکارڈر بجاتے ہیں تو یہ اس سے بھی زیادہ بڑی غیر مطلوب مداخلت ہوتی ہے۔ اس قسم کی چیز آپ کے اندر تفکیری عمل (thinking process) کو رخ سے بے رخ کردیتی ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے آپ کو اعلیٰ تفکیری عمل میں مشغول ہونا چاہئے۔ مثلاً آپ کو یہ سوچنا چاہئے کہ خدا کتنا عظیم ہے جس نے اس امکان کو پیدا کیا کہ غیر متحرک مادہ موٹر کار کی صورت میں متحرک مادہ بن کر سڑک پر دوڑنے لگے۔ اس طرح کی سیکڑوں باتیں آپ سوچ سکتے ہیں۔ مگر آپ ذہنی ترقی کے اس عظیم امکان سے محروم ہو کر کچھ پیشہ وروں کے میوزک اور سانگ میںمشغول ہوجاتے ہیں۔
ایک بار میں لوگوں کے ساتھ کھانے کے دستر خوان پر تھا۔ میںنے چمچہ مانگا۔ دوسرے لوگوں نے ہاتھ سے کھانا کھایا اور میں نے چمچہ سے۔ یہ دیکھ کر ایک صاحب بولے: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ یورپ اور امریکہ کا سفر کرتے کرتے مغربی کلچر سے مرعوب ہوگئے ہیں۔ اس لئے آپ چمچہ سے کھانا پسند کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس قسم کی چیز کو اسلام میںبُرا گمان کہا گیا ہے۔ برا گمان اسلام میں سخت گناہ ہے (الحجرات ۱۲)
میں نے کہا کہ یہ میرا پیدائشی مزاج ہے۔ چنانچہ جب میں گاؤں میں رہتا تھا اور یورپ اور امریکہ کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا تب بھی میں چمچے سے کھانا پسند کرتا تھا۔
ایک اور موقع پر ایک بزرگ نے کہا کہ میںنے سنا ہے کہ آپ انگریزوں کی اور لارڈ میکالے کی تعریف کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ تبصرہ تاویل القول بما لا یرضٰی بہ قائلہ کا مصداق ہے۔ میںنے کہا کہ میرے بارے میں جو بات آپ نے سنی وہ در اصل بخاری کی ایک روایت (ان اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر) کی تشریح تھی۔ اگر آپ خالی الذہن ہو کر اُس پر غور کریں تو اس میں آپ کو کوئی قابلِ اعتراض بات نظر نہ آئے گی۔
انگریزی زبان کے ایک مسلم ہفت روزہ (۱۶ دسمبر ۲۰۰۲) میں حیدر آباد کے مسلمانوں کے بارہ میں ایک رپورٹ دیکھی۔ اُس کو لکھنے والے ایک حیدر آبادی مسلمان تھے۔ اُنہوں نے اپنی پوری رپورٹ منفی انداز میں لکھی تھی۔ اُس کی چند سطریں یہ تھیں:
Andhra Pradesh may be progressing under the able leadership of chief minister Chandrababu Naidu, but the state of Muslims there is as bad as in other parts of the country.... At the time of Independence of the country, the ratio of Muslims in government jobs was about 30 per cent, which has now dropped to mere two per cent.
یہ بلا شبہہ ایک غلط رپورٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حیدر آباد میں مسلمانوں کی حالت ہر اعتبار سے ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں آج بہت زیادہ بہتر ہے۔ حتیٰ کہ خود مضمون نگار اگر اپنا جائزہ لیں تو یقینا وہ پائیں گے کہ ۱۹۴۷ میںاُن کے خاندان کی جو اقتصادی حالت تھی، اُس کے مقابلہ میں اب وہ بہت زیادہ بہترہو چکی ہے ۔
جہاں تک سرکاری ملازمتوں میںکمی کا سوال ہے، اُس کی ذمہ داری تمام تر یہاں کے نام نہاد مسلم لیڈروں پر ہے۔ ۱۹۴۷ میں یہاں کی انتہائی حد تک ناعاقبت اندیش قیادت نے علیٰحدہ حیدر آباد کی جو تحریک چلائی اُس کی وجہ سے یہاں کے مسلمانوں کا ذہن غلط طور پریہ ہو گیا کہ انڈیا کا حصہ بننے کے بعد حیدر آباد میں مسلمان ہر قسم کے مواقع سے محروم ہوجائیںگے۔ اس بے بنیاد سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۱۹۴۸ میں جب حیدرآباد انڈیا کا حصہ بنا تو بیشتر تعلیم یافتہ افراد غیر ضروری طور پر مایوسی کا شکار ہو کر حیدر آباد چھوڑ کر باہر کے ملکوںمیں چلے گئے۔ انہی باہر جانے والوں میں خود تحریک حیدر آباد کے قائد بھی شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ جب تعلیم یافتہ لوگ حیدر آباد چھوڑ کر چلے جائیں تو ملازمتوں میں اُن کا تناسب اپنے آپ گھٹ جائے گا۔
میں ذاتی طورپر ہر اُس تحریک کو دیوانگی کی تحریک سمجھتا ہوں جو شکایت اور احتجاج اور پڑوسیوں کو دشمن بتانے کی بنیاد پر چلائی جائے۔ اس قسم کی تحریک کے دو لازمی نقصانات ہیں۔ اوّل یہ کہ اُس سے منفی سوچ پیدا ہوتی ہے۔ اور منفی سوچ بلا شبہہ ایک ذہنی خود کُشی ہے۔ دوسرے یہ کہ تحریک اگراپنے نشانہ کو پورا کرنے میں ناکام ہوجائے تو اُس سے متاثر لوگ سخت مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ مواقع کی فراوانی کے درمیان بھی وہ مواقع کو دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ یہی واقعہ ابتدائی طورپر حیدر آباد میں ۱۹۴۷ کے بعد ہوا۔ اور یہی واقعہ پورے ملک میںاس طرح پیش آیا کہ آزادی کے بعد ہندستان کے مسلمان تقریباً تیس سال تک مایوسی کی حالت میں رہے۔ ۱۹۷۱ میں بنگلہ دیش کا قیام اور پاکستان میں مسلمانوں کی باہمی خونریزی کے بعد اُن کی آنکھ کھلی اور پھر اُنہوں نے ہندستان میںاپنی جگہ بنانا شروع کیا۔
مدرسہ کے طلبہ کی ایک مجلس میںمیںنے کہا کہ ’’بڑوں‘‘ کے بارے میں قوموں کے اندر دو قسم کے نظریات ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کی نمائندگی کرتے ہوئے عنترہ نے کہا: ہل غادر الشعراء من متردم(پچھلے شعراء نے کیا کوئی جگہ پیوند لگانے کی باقی چھوڑی ہے)۔ یعنی وہ سب کچھ کہہ گئے ہیں- اب کسی شاعر کے لیے کوئی چیز باقی نہیں رہی کہ اس پر وہ کچھ کہے۔
اس معاملہ میں دوسرا نقطۂ نظر وہ ہے جس کی نمائندگی کرتے ہوئے ایک فارسی شاعر نے کہا کہ دنیا کا کام کسی نے مکمل نہیں کیا جو بھی آیا اس نے نئی عمارت بنائی:
کار دنیا کسے تمام نہ کرد ہر کہ آمد عمارتِ نو ساخت
بد قسمتی سے ہمارے یہاں کسی کو بڑا سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کو تنقید سے بالا تر سمجھ لیا جائے۔ حالانکہ بڑے کی صحیح تعریف یہ ہے کہ اس کا عمل ایک بوسٹ (boost) کا کام کرے۔ میں نے کہا کہ اس معاملہ میں صحت مند نقطۂ نظر وہ ہے جس کو برناڈ شا نے ان الفاظ میں کہا تھا کہ میرا قد شیکسپئر سے کم ہے مگر میں شیکسپئر کے کندھوں پر کھڑا ہوا ہوں:
I am smaller in stature than Shakespeare but I stand upon his shoulder.
میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں شبلی نعمانی اور حمید الدین فراہی نے اپنے اپنے میدان میں بڑے کام انجام دئے ہیں۔ مگر یہ سمجھ لینا غلط ہوگا کہ ان کے کام میںکوئی بات قابل تنقید نہیں۔ صحیح مزاج یہ ہے کہ آپ اس طرح سوچیں کہ شبلی اور فراہی، ابن تیمیہ اور شاہ ولی اللہ کے کندھے پر کھڑے ہوئے۔ اب آپ شبلی اور فراہی کے کندھے پر کھڑے ہوں اور اگلی نسل آپ کے کندھے پر کھڑی ہو۔ اس طرح ترقی کا یہ سلسلہ چلتا رہے، یہاں تک کہ علم کا وہ قطب مینار بن جائے جس کی بلندی آسمان تک پہنچی ہوئی ہو۔
مسلمانوں کی ایک مجلس میںایک صاحب نے کہا کہ میں اور میرے گھر والے ہر سال شوّال کے مہینے کے چھ روزے پابندی کے ساتھ رکھتے ہیں۔ میں نے کہا کہ شوّال کے چھ روزے کا ذکر اگرچہ حدیث میںآیا ہے مگر اُس کا زیادہ اہتمام مجھے اپنے مطالعہ کے مطابق، درست نظر نہیں آتا۔ صحابہ سے اُس کا یہ اہتمام ثابت نہیں۔ یہ سُن کر ایک صاحب بگڑ گئے۔ اُنہوں نے پُرجوش انداز میں کہنا شروع کیا کہ آج آپ شوّال کے روزہ کے بارے میں ایساکہہ رہے ہیں، کل آپ کہیں گے کہ رمضان کے مہینہ کے روزے میرے نزدیک ضروری نہیں۔ اس کے بعد آپ کہیں گے کہ روزانہ پانچ وقت کی نماز میرے نزدیک ضروری نہیں۔ اس طرح آپ ہر چیز کو ختم کرتے جائیں گے۔ یہاں تک کہ آخر میں صرف آپ کا الرسالہ رہ جائے گا۔
اُن کی اس نامنصفانہ بات پر مجھے غصہ آگیا۔ مگر میں دل ہی دل میں استغفراللہ کہہ کر خاموش ہوگیا۔ میرا طریقہ ہے کہ جب مجھے غصہ آتا ہے تو میں چُپ ہوجاتا ہوں۔ میرے تجربہ کے مطابق، غصہ کا بہترین علاج یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو آدمی چپ ہوجائے اور اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔ اورغصہ والی بات کو بھلا کر دوسری بات سوچنا شروع کردے۔
جہاں تک شوّال کے چھ روزوں کا معاملہ ہے تو میں نے جو بات کہی وہ شرعی طورپر بالکل درست تھی۔ یہ روایت ترمذی، ابن ماجہ اور مسلم میں آئی ہے۔ صحیح مسلم کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: عن ابی ایوب الانصاری، ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من صام رمضان ثم اَتبعہ ستاً من شوّال کان کصیام الدہر(صحیح مسلم، کتاب الصیام، باب استحباب صوم ستۃ أیام من شوال اتباعاً لرمضان) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے رمضان کے مہینہ کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد اُس نے شوّال کے چھ روزے اور رکھے تو یہ اُس کے لیے پورے سال روزہ رکھنے کے برابر ہوگا۔
یحییٰ بن شرف النووی (وفات ۶۷۶ھ) شام میں پیدا ہوئے۔ وہ مشہور عالم دین ہیں۔ فقہ اور حدیث میںامام کا درجہ رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے مختلف دینی موضوعات پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں۔ اُن میں سے ایک المنہاج فی شرح صحیح مسلم ہے جو پانچ جلدوں پر مشتمل ہے۔ النووی اپنی اس کتاب میںمذکورہ حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: فیہ دلالۃ صریحۃ لمذہب الشافعی و أحمد و داؤد وموافقیہم فی استحباب صوم ہذہ الستۃ وقال ابو مالک وابوحنیفۃ یکرہ ذلک۔ قال مالک ما رأیت احداً من اہل العلم یصومہا قالوا فیکرہ لئلا یظن وجوبہ۔ (۵۶)
ترجمہ: اس میںشافعی اور احمد اور داؤد اور اُن کے موافقین کے مسلک کی کھُلی دلیل ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ چھ روزے مستحب ہیں۔ اور مالک اور ابو حنیفہ کا قول ہے کہ یہ روزے مکروہ ہیں۔ امام مالک نے مؤطا میںکہا ہے کہ میںنے کسی اہل علم کو نہیں دیکھا کہ وہ یہ روزے رکھتا ہو۔ اُنہوں نے کہا کہ یہ مکروہ اس لیے ہیں کہ کہیں اُس کو واجب نہ سمجھ لیا جائے۔
یہ معاملہ در اصل شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا ہے۔ یعنی زیادہ اہم کو کم اہم اور کم اہم کو زیادہ اہم بنا لینا۔ مثلاً روزہ میںاُس کی روح کے مقابلہ میں تعداد کو زیادہ اہم سمجھ لینا۔ اسی طرح دعوت حق کے مقابلہ میں سوشل سروس کو زیادہ بڑا درجہ دے دینا۔ رسول کی اتباع کے مقابلہ میں رسول کی نعتخوانی کو زیادہ اہم سمجھ لینا۔ قرآن میں تدبّر کے مقابلہ میں قرآن کی لفظی تلاوت کو زیادہ بڑا درجہ دے دینا۔ کلمۂ توحید کی حقیقت کو اپنے اندر اتارنے کے بجائے کلمہ کے الفاظ کی تکرار کو زیادہ اہم بنا لینا۔افراد کی اصلاح کے مقابلہ میں حکومت کی اصلاح کے نام پر سیاسی تحریک چلانا، وغیرہ۔
صبح کے وقت ریڈیو پاکستان پر وہاں کے کسی وزیر کی تقریر آرہی تھی۔ اُنہوں نے پُر جوش طورپر کہا کہ کشمیر کے ایشو کو لے کر بھارت ہمارے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرتا ہے۔ حالاں کہ ہمارا کہنا صرف یہ ہے کہ کشمیر کے معاملہ کو اقوام متحدہ کے رزولیوشن (۱۹۴۸) کی روشنی میں طے کیا جائے۔ اس پُر جوش تقریر کو سن کر میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ ایک غیر عملی اور غیر حقیقت پسندانہ مطالبہ ہے۔ پاکستان کے لیڈر لمبی مدت سے اس قسم کا مطالبہ کررہے ہیں۔ مگر اس کا کوئی نتیجہ نہ اب تک نکلااور نہ آئندہ اس کا کوئی امکان ہے کہ اس کا کوئی مثبت نتیجہ اُن کے حق میں نکلے۔
پھر میں نے کہا کہ یہود کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ نے اپنے پیغمبر کی زبان سے فرمایا تھا: یٰقوم ادخلوا الارض المقدسۃ التی کتب اللہ لکم (المائدہ ۲۱)۔ یعنی اے میری قوم، اس پاک زمین میں داخل ہوجاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔ اب اگر فلسطین کے یہودی اس قرآنی آیت کو لے کر یہ کہیں کہ ہم اپنے وطن سے باہر ڈائس پورا(diaspora)میں تھے، پھر خود تمہارے قرآن کے مطابق، ہم واپس آکر فلسطین میںآباد ہوگئے۔ خود تمہارے قرآن کے مطابق، یہ ہمارا قومی حق تھا۔ اب تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم ہمیںاپنے قومی حق سے محروم کرنے کی کوشش کرو۔ ظاہر ہے کہ موجودہ یہودی اگر اس قدیم نوشتہ کا حوالہ دے کر فلسطین میںاسرائیل کے قیام کو جائز قرار دیں تو کوئی بھی مسلمان اس کو تسلیم نہیں کرے گا۔
اسی طرح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مدینہ میں کچھ یہود قبائل آباد تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد ایک اعلانیہ (declaration) جاری کیا جس کو عام طورپر صحیفۃ المدینہ کہا جاتا ہے۔ اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لوگوں کے بارہ میں یہ اعلان فرمایا تھا کہ للیہود دینہم وللمسلمین دینہم (سیرت ابن کثیر ۲؍۳۲۲) یعنی یہاں کے یہود کے لیے اُن کا دین اور یہاں کے مسلمانوں کے لیے اُن کا دین۔
پیغمبر اسلام کا جاری کردہ یہ صحیفہ ٔمدینہ تاریخ اور سیرت کی کتابوں میں موجود ہے۔ ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے پُر فخر طورپر اُس کو تاریخ عالم کا پہلا تحریری دستور قراردیا ہے۔ اب اگر آج کے یہود یہ کہیں کہ یہ پیغمبرانہ صحیفہ مدینہ میں ہمارے وجود اور ہمارے حقوق کو تسلیم کرتا ہے اس لیے ہم کو حق ملنا چاہئے کہ ہم مدینہ میں داخل ہو کر دوبارہ وہاں اپنی بستیاں بنائیںاور دوسرے لوگوں کے ساتھ وہاں رہیں تومسلمان کبھی اس قسم کے مطالبہ کو ماننے کے لیے تیار نہ ہوں گے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کے معاملات قدیم تاریخی دستاویزات کی بنیاد پر طے نہیں ہوتے بلکہ وہ وقت کے حقائق کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں۔ قرآن کی مذکورہ آیت یا صحیفۂ مدینہ کی مذکورہ دفعہ اب یہود کے لیے ایک غیر متعلق چیز بن چکی ہے۔ آج کے یہود ان قدیم الفاظ کا حوالہ دے کر اپنے لیے کچھ نہیں پاسکتے۔ ٹھیک اسی طرح اقوام متحدہ کے قدیم رزولیوشن کا حوالہ پاکستان کے لیڈروں کے لیے سراسر غیر مفید ہے۔ خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان کہہ چکے ہیں کہ یہ قدیم رزولیوشن اب اپنا ریلیونس (relevence) کھو چکا ہے۔ ایسی حالت میں پاکستانی لیڈروں کو جاننا چاہئے کہ اقوام متحدہ کے رزولیوشن کے بیس سال بعد ہونے والا شملہ ایگریمنٹ (۱۹۷۲) اس معاملہ میں پچھلی کاغذی دستاویزات کو منسوخ کرچکا ہے۔ اب اُن کے پاس قابلِ حوالہ چیز شملہ ایگریمنٹ ہے، نہ کہ اقوام متحدہ کا رژولیوشن۔
ایک اخبار میںایران کے بارہ میں ایک رپورٹ دیکھی۔ اس میں بتایاگیا تھا کہ آج کل ایران کے نوجوانوں میں ایک نیا ذہن اُبھر رہا ہے۔ وہ مانگ کر رہے ہیں کہ ہم کو مذہبی ریاست نہیں چاہئے بلکہ ہم کو ترقی پسند ریاست چاہئے۔ مغربی نیوز ایجنسی کی اس رپورٹ میں بظاہر یہ تاثر دیا گیا تھا کہ اسلام دور قدیم کا ایک مذہب تھا، دور جدید میں اب وہ ایک غیر متعلق چیز بن کر رہ گیا ہے، حتیٰ کہ خود مسلمانوں کی نئی نسلیں اب اس قدیم نظام سے بیزار ہورہی ہیں۔
اس اخباری رپورٹ کو لے کر ایک صاحب نے کہا کہ مغربی نیوز ایجنسیاں اسی طرح اسلام کو بدنام کرتی رہتی ہیں۔ وہ اسلام کو ایک فرسودہ نظام ثابت کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس طرح وہ یہ تاثر دیتی ہیں کہ اسلام کے مقابلہ میں جدید مغربی نظام زیادہ بہتر ہے۔ میںنے کہا کہ اس نامطلوب صورت حال کی ذمہ داری خود مسلم لیڈروں پر ہے، نہ کہ مغربی میڈیا پر۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں اکثر مسلم ملکوں میں یہ ہوا کہ وہاں کے انتہا پسند (radical) رہنما اسلامی نظام قائم کر نے کے شوق میں اچانک سخت تبدیلیاں نافذ کرنے لگے۔ جب کہ یہ کام صرف تدریجی طورپر انجام دیا جاسکتا ہے۔ صحیح البخاری میںحضرت عائشہ کی روایت ہے کہ اسلام میں پہلے ذہن بنایا گیا، اُس کے بعد احکام اتارے گئے۔ اس کے برعکس اگر شروع ہی میں یہ حکم آتا کہ تم لوگ زنا کو چھوڑ دو اور شراب کو چھوڑ دو تو لوگ کہتے کہ : لا ندع الزنا ابداً و لا ندع الخمر ابداً۔ (کتاب فضائلالقرآن، باب تالیف القرآن) یعنی ہم تو کبھی زنا نہ چھوڑیں گے اور ہم کبھی شراب نہ چھوڑیں گے۔
عین یہی بات موجودہ زمانہ کے مسلم ملکوں میں پیش آئی ہے۔ نا عاقبت اندیش مسلم لیڈروں نے افراد سازی اور معاشرہ سازی سے پہلے شرعی قوانین نافذ کردیے۔ اس غیر حکیمانہ طریقہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم کو اسلام نہیں چاہیے، ہم کو ترقی پسند ریاست چاہئے۔
شام کا کھانا مولانا اسحق کمال قادری کے گھر پر تھا۔ یہاں لوگوں سے مختلف دینی اور ملّی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ یہاں مولانا اسحق صاحب کی رہائش ایک صاف ستھرے فلیٹ میں ہے۔ یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ یہ فلیٹ ایک مسلمان تاجر کاہے۔ اُنہوں نے کسی کرایہ یا معاوضہ کے بغیر اس کو مولانا اسحق صاحب کے استعمال کے لیے دے دیا تھا۔ وہ یہاں اپنے بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس فلیٹ میں ٹیلی فون بھی موجود تھا۔ معلوم ہوا کہ یہ ٹیلی فون بھی ایک مسلمان تاجر نے اپنی طرف سے اُن کے یہاں لگوایا ہے۔ مسلمان تاجروں میں اہلِ دین کی خدمت کا یہ مزاج اگر ہر جگہ پیدا ہوجائے تو وہ بہت زیادہ مفید ہوگا۔
مولانا اسحق کمال قادری کے اندر تقریر کا اچھا ملکہ ہے۔ وہ ٹکراؤ کے بغیر کام کرنے کا اچھا سلیقہ رکھتے ہیں۔ وہ تنقید بھی کرتے ہیں تو اُن کی تنقید بھی ایسے خوبصورت انداز میں ہوتی ہے کہ کوئی اُس کو بُرا نہیں مانتا۔ اُنہوں نے ایک رنگین تولیہ مجھے تحفہ میں پیش کیا۔ میں نے اُسی وقت یہ تولیہ اُن کے چھوٹے بچے کو اوڑھا دی اور اُس کو دعائیں دیں۔
حیدر آباد میںکئی اردو اخبارات نکلتے ہیں۔ اُردو اخبارات کے لحاظ سے غالباً صرف حیدر آباد کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہاں ایک قسم کا صحافت کلچر وجود میںآچکا ہے۔ یہ بات شاید کسی اور ہندستانی شہر میں موجود نہیں۔ یہاں کئی اردو اخبارات نکلتے ہیں۔ مثلاً رہنمائے دکن، سیاست، منصف، عوام، وغیرہ۔ حیدر آباد میں قیام کے دوران ان اخبارات کا مطالعہ جاری رہا۔
روزنامہ عوام کے شمارہ ۱۰ دسمبر ۲۰۰۲ کے آخری صفحہپر حیدر آباد کی ایک دردناک خبر پڑھنے کو ملی۔ اس خبر کاعنوان یہ تھا:بیٹے کو عید کے کپڑے دلانے سے محروم والد کی خود سوزی۔ یہ خبر یہاں نقل کی جاتی ہے:
’’حیدر آباد۔ ۹دسمبر (عوام نیوز) عیش وعشرت اور شادی بیاہ کے موقعوں پر لاکھوں روپیوں کا اسراف کرنے والوں کے اس شہر میں ایک ایسا خاندان بھی موجود ہے جوعید الفطر کے موقع پر اپنے اکلوتے فرزند کے لیے نئے کپڑے خرید نہ سکا اور اُس سے دل برداشتہ ہو کر اس خاندان کے ایک فرد نے خود سوزی کر لی۔ پولیس نے اس دردناک واقعہ کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ۳۵ سالہ حمید خان ساکن بہادر پورہ جن کو خانگی ملازم بتایا جاتا ہے، عید الفطر کی رات ہی اپنے جسم پر کیروسین چھڑک کر خود سوزی کی کوشش کی تھی کیوں کہ وہ اپنے اکلوتے فرزند کو نئے کپڑے نہ دلانے کے باعث بہت افسردہ تھے۔ اُنہیں شدید جھلسی ہوئی حالت میں دواخانہ عثمانیہ میںشریک کروایاگیا تھا جہاں وہ آج جانبر نہ ہوسکے‘‘۔ (صفحہ ۱۲)
اس طرح کے دردناک واقعات مسلم سماج کے اندر مختلف شکلوں میں ہر روز ہوتے رہتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے اندر اُن کو لے کر کوئی تحریک نہیں اُٹھتی۔ البتہ اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کے خلاف ایسا واقعہ کردے تو تمام مسلمانوں میںایک ہنگامہ کھڑا ہو جائے گا۔ یہ صورت حال ثابت کرتی ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان قومی مذہب پر ہیں، نہ کہ خدائی مذہب پر۔ اُن کی سوچ ذاتی عصبیتوں کے تابع ہے، نہ کہ احکام دین کے تابع۔
روزنامہ عوام کو کے ۔ایم۔عارف الدین ایڈوکیٹ نے سات سال پہلے جاری کیا تھا۔ موصوف نے حیدر آباد میںتعلیم کے میدان میں قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔ حیدر آباد شہر میں ایک قدیم وقف تھا جو لوگوں کے بیان کے مطابق، بڑی حد تک اجاڑ ہو چکا تھا۔ عارف الدین صاحب نے اس وقف کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ایک ٹیم بنا کر اُس کو آباد کرنا شروع کیا۔ اس ٹیم میں بشیر الدین ایڈوکیٹ جیسے کئی لوگ شامل ہیں۔یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اب یہ ایک تعلیمی ایمپائر کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اس سے ہزاروں نوجوان تعلیمی فائدہ حاصل کررہے ہیں۔ یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح یہ ممکن ہے کہ ماضی کے کھنڈر پر مستقبل کا نیا محل تعمیر کیا جائے۔ حیدر آباد کے اس سفر میں مجھے اس تعلیمی ادارہ کو بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اُس کی مرکزی بلڈنگ کے اوپر قائم شدہ مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی توفیق بھی خدا کے فضل سے حاصل ہوئی۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ اخباری رپورٹر عام طورپر غلط رپورٹ کرتے ہیں۔ مگر اُن کی غلط رپورٹنگ کسی کے خلاف دشمنی کی بنا پر نہیںہوتی بلکہ یہی اُن کا مزاج ہے۔ اُن لوگوں پر فارسی کا یہ شعر صادق آتا ہے:
نیش عقرب نہ از پئے کین است مقتضائے طبیعتش این است
اصل یہ ہے کہ اخبار کے لیے سنسنی خیز خبریں مفید ہیں۔ اس لیے خبروں کو اپنے مفید مطلب بنانے کے لیے وہ اُس کو سنسنی خیزی کا رنگ دے دیتے ہیں۔مثلاً ایک اُردو اخبار نے میری ایک پریس کانفرنس کی رپورٹ دیتے ہوئے یہ لکھا کہ—مولانا وحید الدین خاں نے دعویٰ کیا کہ بحیثیت ملت ہندستانی مسلمانوں نے بابری مسجد کے مسئلہ سے دستبرداری حاصل کرلی ہے (راشٹریہ سہارا؍۲۳ دسمبر ۲۰۰۲)۔ یہ میری بات کی صحیح ترجمانی نہیں۔ میں جو بات کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ۶دسمبر ۱۹۹۲ کے حادثہ کے فوراً بعد (دسمبر ۱۹۹۲۔ جنوری ۱۹۹۳) تو مسلمانوں نے کچھ جوش دکھایا مگر جلدہی بعد وہ اپنے ذاتی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ خود ساختہ مسلم رہنماؤں نے یہ کا ل دی کہ ہر سال مسلمان ۶دسمبر کو یوم بابری مسجد منائیں۔ مگر ۱۹۹۳ سے لے کر ۲۰۰۲ تک کسی بھی سال ہندستانی مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا۔ اب بابری مسجد کا ایشو صرف اُن افراد کا ایشو ہے جو اسی قسم کی چیزوں کے نام پر سطحی لیڈر ی کرتے ہیں۔ جہاں تک مسلم عوام کا معاملہ ہے، وہ عملاً اس سے بے تعلق ہوچکے ہیں۔ میںنے اپنے بیان میں مسلمانوں کی عملی طور پر بے تعلقی کی بات کہی تھی، نہ کہ اصولی طور پرمسجد سے دستبرداری کی بات۔
ایک صاحب نے نئی دہلی کے انگریزی ماہنامہ مسلم انڈیا کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ مجھے کبھی بھی مسلم انڈیا سے دلچسپی نہ تھی۔ میں صرف اُس کام کو کام سمجھتا ہوں جو قابل بقا (sustainable) ہو۔ مسلم انڈیا مسلمانوں کی احتجاجی سیاست کا نمائندہ تھا اور احتجاجی سیاست میرے نزدیک نہ مفید ہے اور نہ قابلِ بقا۔ برصغیر ہند میںاحتجاجی صحافت کی لمبی تاریخ ہے—ہمدرد، کامریڈ، الہلال، ڈان، قائد، ندائے ملت، وغیرہ۔ یہ سب احتجاجی صحافت کے علم بردار تھے۔ مگر یہ تمام صحافتی تحریکیں تھوڑے دن تک زور وشور دکھا کر فضا میں تحلیل ہوگئیں۔
ماہنامہ مسلم انڈیا ۲۰ سال جاری رہ کر دسمبر ۲۰۰۲ میں ختم ہوگیا۔ اُس کے بانی اور ایڈیٹر نے دسمبر ۲۰۰۲ میں اپنا الوداعی ایڈیٹوریل ان الفاظ میں شروع کیا:
As I pen my last editorial, my mind goes back to the spade work done before the Muslim India was launched and the trepidations with which it began the long journey. Today I am satisfied that it has fulfilled its purpose. (p. 530)
اس ایڈیٹوریل میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلم انڈیا نے اپنا مقصد پورا کرلیا۔ مگر خود یہی ایڈیٹوریل یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اُس کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ اس ایڈیٹوریل کی یہ سطریں پڑھیے:
The Muslim India, thus became the record of the community's struggle for dignity, equality and justice, shirking fanaticism and engaging chauvinism, at the same time. (p. 530)
ان مطبوعہ الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلم انڈیا کا مقصد یہ تھا کہ مسلمانوں کو عظمت اور مساوات اور انصاف ملے۔ اسی کے ساتھ وہ ہندو کٹّر واد کے خطرے سے بچ سکیں۔ مگر جیساکہ ہر آدمی جانتا ہے، یہ مقاصد کسی بھی درجہ میں پورے نہیں ہوئے۔ اس اعتبارسے بیس سال پہلے مسلمانوں کی جو حالت تھی وہی آج بھی برقرار ہے۔ ایسی حالت میں مسلم انڈیا کے بانی اور ایڈیٹر کو یہ اعلان کرنا چاہئے تھا کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے اب ہم اس میدان سے ہٹ رہے ہیں۔ اس کے برعکس اُنہوں نے یہ دعویٰ کردیا کہ ہمارا مقصدپورا ہوچکا ہے اس لیے اب ہم اپنا آخری ایڈیٹوریل لکھ رہے ہیں۔
۹ دسمبر کو جب کہ میں مدینہ ایجوکیشن سینٹر کے گیسٹ ہاؤس میںمقیم تھا، دو تعلیم یافتہ مسلمان ملاقات کے لیے آئے۔ بیٹھتے ہی اُن میں سے ایک شخص نے کہا: آپ کو معلوم ہے کہ آج کے اخبار میں یہ خبر چھپی ہے کہ امریکہ ایک مہینہ کے بعد عراق پر حملہ کرنے والا ہے۔ میں نے کہا کہ عراق پر امریکہ کا حملہ تو ایک مہینہ کے بعد ہوگا مگر ہر ایک شخص کے اوپر شیطان نے تو آج ہی حملہ کررکھا ہے۔ پھر اس بڑے حملہ کے خلاف آپ جیسے لوگ کیا کررہے ہیں۔
عام طورپر یہ حال ہے کہ لوگ خبر کے نام پر اسی طرح کی خبروں کو جانتے ہیں۔ جب بھی چند آدمی کسی مجلس میں اکٹھا ہوں تو یہ ہوتا ہے کہ ایک آدمی اس قسم کی کوئی خبر بیان کرتا ہے اور دوسرے لوگ اُس کو مان کرفوراً اُس پر رائے زنی شروع کردیتے ہیں اور پھر پوری مجلس اسی قسم کی اخباری باتوں کا چرچا بن کر رہ جاتی ہے۔ مصلح کا کام یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس قسم کی بے فائدہ باتوں کو چھیڑے تو فوراً وہ گفتگو کو مثبت اور تعمیری رُخ پر موڑ دے۔ اسی کا نام تزکیہ اورتربیت ہے۔
میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اُن کے اندر اسلامی سوچ موجود نہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ لوگ اپنے بارہ میں سوچیں مگر آج کل کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ہر ایک دوسروں کے بارہ میں تقریر کررہا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ داخلی تعمیر پر زور دیا جائے۔ مگر مسلمان خارجی تخریب کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کا انداز اختیار کیا جائے۔ مگر مسلمان دوسروں کو دشمن قرار دے کر اُن کو بُرا بھلا کہنے میں مشغول ہیں۔ اسلام چاہتا ہے کہ اسپرٹ پر زور دیا جائے۔ مگر آج کل کے مسلمان ظواہر کی دھوم مچائے ہوئے ہیں۔ اسلام کے نزدیک پہلا بنیادی کام تعلیم یا شعوری بیداری ہے۔ چنانچہ قرآن میں پہلی آیت اقراء اُتری۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہر جگہ سیاست کا ہنگامہ کھڑا کیے ہوئے ہیں، وغیرہ۔
۹دسمبر کی شام کو مسجد عثمان غنی میںتقریر تھی۔ اس تقریر کے لیے مجھے جو موضوع دیا گیا وہ یہ تھا کہ حیدر آباد کے مسلمان موجودہ حالات میںکیا کریں۔ میں نے اپنی تقریر شروع کی تو میں نے کہا کہ حیدرآباد کے مسلمان یہ کریں کہ وہ خدا کا شکر ادا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی اپنی کسی منصوبہ بندی کے بغیر یہاں کے مسلمان عمومی طور پرآج بہت زیادہ ترقی کرچکے ہیں۔ مسلم دور کے مقابلہ میںتقریباً سوگنا زیادہ۔ ایسی حالت میں آپ لوگوں کو شکر کے جذبہ کے تحت سجدہ میں گر جانا چاہیے۔ تاکہ آپ کواور بھی زیادہ خدا کی نعمتیں حاصل ہوں (لئن شکرتم لأزید نکم)۔
میںنے کہا کہ میں غالباً ۱۹۴۳ میں پہلی بار حیدر آباد آیا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دن میں یہاں کی ایک سڑک سے گذر رہا تھا۔ اچانک میں نے دیکھا کہ سڑک پر پولیس کے لوگ آگئے ہیں اور سیٹیاں بجارہے ہیں۔ سیٹی کی آواز سُن کر لوگ تیزی سے سڑک کے دونوں طرف کی گلیوں میں چلے گئے۔ مجھے بھی ایسا ہی کرنا پڑا۔جب سڑک پوری طرح صاف ہوگئی تو میںنے دیکھا کہ تین کاریں آئیں اور تیزی سے گذرتی ہوئی آگے چلی گئیں۔ معلوم ہوا کہ یہ سابق حیدرآباد کے نواب کی سواری تھی۔ وہ روزانہ اسی طرح اپنی رہائش گاہ سے کسی مقام پر جاتے تھے اور ہر دن سڑک اُن کے لئے خالی کردی جاتی تھی۔
میں نے کہا کہ ۱۹۴۳ میں حیدر آباد میں صرف چند کاریں تھیں اور یہ کاریں صرف نواب یا کسی بڑے جاگیر دار کے پاس تھیں۔ آج یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کے پاس ہزاروں کی تعداد میں کاریں موجودہیں۔ لوگ پہلے سے زیادہ اچھے مکانات میں رہتے ہیں۔ مسجد اور مدرسے اور اسلامی ادارے پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ آج امام اور مدرّس کے جیب میں بھی موبائل ٹیلی فون ہوتا ہے جو گذشتہ دور میں نواب کے پاس بھی نہیں ہوتا تھا۔ آج کے مسلمان پہلے کے مقابلہ میں بہت زیادہ دھوم کے ساتھ شادی وغیرہ کی تقریب مناتے ہیں۔ آج پہلے سے زیادہ تعدادمیں یہاں کے لوگ حج کے لیے جاتے ہیں، وغیرہ۔
ایسی حالت میں حیدر آباد کے مسلمانوں کے لیے شکایت اور احتجاج کی بولی بولنا گناہ ہے۔ اُن پر فرض ہے کہ وہ یا تو شکر کی بولی بولیں یا چپ رہیں۔ (من کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیقل خیراً اولیصمت)۔
تقریر کے بعد کچھ سوالات کیے گئے جن کا میںنے مختصر جواب دیا۔ ایک صاحب نے کہا کہ آپ غیر مسلموں میں دعوت کی بات کرتے ہیں۔ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کس طرح کیا جائے۔ میں نے کہا کہ دعوت کا عمل گہری خیر خواہی کے جذبہ کے تحت انجام پاتا ہے۔ اور جہاںگہری خیر خواہی ہووہاں یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ ہم یہ کام کیسے کریں۔
میں نے کہا کہ کیا کوئی ماں کسی سے پوچھنے جائے گی کہ میںاپنے بیٹے کی خدمتکس طرح کروں۔ کیا کوئی باپ کسی سے پوچھنے جائے گا کہ میں اپنی اولاد کے ساتھ پدری حقوق کس طرح ادا کروں۔ ماں اور باپ خود اپنی قلبی محبت کے تحت یہ جان لیتے ہیں کہ اُنہیں اپنے بیٹے اور بیٹی کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ اسی طرح جو لوگ انسان کی محبت میں تڑپیں، جن کے دل میںیہ درد ہوکہ اُن کے آس پاس کے لوگ جہنم میں نہ جائیں، اُنہیں کسی سے یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں کہ وہ لوگوں کی اصلاح و دعوت کا کام کس طرح کریں۔ اُن کا داخلی جذبہ ہی اُنہیں یہ بتانے کے لیے کافی ہو گاکہ اُنہیں اپنی دعوتی ذمّہ داری کو کس طرح ادا کرنا چاہئے۔ مگر بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان اکرام مسلم کو جانتے ہیں، اکرام انسان کی اہمیت سے شعوری طورپر وہ باخبر ہی نہیں۔
ایک صاحب کی عیادت کرنے کا موقع ملا۔ وہ لمبی بیماری سے کافی پریشان ہوچکے تھے۔ میںنے اُن کا حال پوچھاتو اُنہوں نے گانے کے انداز میں کہا: تڑپنا اور مرجانا۔
میںنے سوچا کہ تڑپنا اور مرجانا یہی ہر آدمی کا کیس ہے۔ ہر آدمی تڑپ کر ہی مرتا ہے۔ لوگ اپنی تڑپ کو جانتے ہیں مگر دوسروں کی تڑپ سے وہ واقف نہیں۔ اس لیے وہ سمجھتے ہیں کہ اس دنیا میں میں ہی ہوں جس کو تڑپ کا تجربہ ہورہا ہے۔ حالانکہ خود خالقِ فطرت نے تڑپ کو ہر ایک کا مقدر بنا دیا ہے(لقد خلقنا الانسان فی کبد)۔
۱۰ دسمبر کو تقریباً آدھا دن یہاں کی ایک کورٹ میںگذرا۔ ایک کیس کے سلسلہ میں مجھے وہاں جانا پڑا تھا۔ اس سے پہلے بھی چند بار مجھے بادلِ ناخواستہ کورٹ میں جانے کا اتفاق ہوا ہے۔ اپنے علم اور تجربہ کی بنا پر میں نے پایا ہے کہ موجودہ عدالتیں قانونی پہلوانی کے ادارے ہیں۔ ان عدالتوں میں حقائق کی بنیاد پر فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ ساری بحث فنّی بنیاد (technical ground) پر ہوتی ہے۔ میرے تجربہ کے مطابق، اس نظام میں جج ایک بے اختیار مشین کی طرح کام کرتا ہے۔ وہ مجبور ہے کہ وکیلوں کے نکالے ہوئے فنّی نکتوں پر فیصلہ دے۔ چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ فیصلہ میں فنّی نکتہ کی رعایت تو ضرور ہوتی ہے مگر اصل حقیقت سے اُس کا کوئی تعلق نہیںہوتا۔
۱۰ دسمبر کے اس تجربہ کے بعد میںنے سوچا کہ آخر میرے جیسے بے ضرر انسان کے ساتھ ایسے حالات کیوں پیش آئے کہ اُس کو مجبورانہ طورپر عدالت میںجانا پڑا۔ اس پر غور کرتے ہوئے مجھے حضرت علیؓ کا قول یاد آیا کہ: الخیر فیما وقع۔ اور پھر میرے دل نے کہا کہ شاید میرے لیے یہ مقدر تھا کہ میرے ساتھ وہ تجربہ گذرے جس کو حضرت مسیح نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: ابن آدم کو عدالت میں لے جاتے ہیں۔
۱۰ دسمبر کو عدالت کے کمرہ میں جناب مجاہد الدین احمد ایڈوکیٹ سے ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نے بتایا کہ وہ میری کتابیں پڑھ چکے ہیں اور ہمارے مشن سے پوری طرح اتفاق رکھتے ہیں۔
ایک تعلیم یافتہ ہندو نے انگریزی میں چھپاہوا ایک آرٹیکل دیا جو ستیہ سائی بابا کے بارہ میں تھا۔ اُس میں بتایا گیا تھا کہ ستیہ سائی بابا کا طریقہ بے کُچھ آدمی کو سب کچھ دے دیتا ہے۔ اس کا عنوان یہ تھا:
Sai Baba and theory of Everything
اُس میں بتایا گیا تھا کہ خدا نے ہم کو دماغ کی صورت میں ایک سُپر کمپیوٹر دیا ہے۔ مگر ہم اس کو دس فیصد سے بھی کم استعمال کرپاتے ہیں۔ سادھنا کے روحانی طریقہ کے ذریعہ یہ ممکن ہے کہ ہم اپنے مائنڈ کو زیادہ بہتر بنا سکیں۔ تاکہ ہم اپنے دماغ کے غیر استعمال شدہ طاقت کو بڑھا سکیں:
This places a ceiling on the proportion in use of the God-given super computer—our brain— we use less than ten per cent of its capacity. By spiritual discipline (Sadhana) it is possible to reprogramme our minds to increase the unused capacity of our brain.
میں نے کہا کہ یہ ایک بے دلیل دعویٰ ہے۔ سائی بابا اور اُن کے ہزاروں معتقدین نے سادھنا کے اس طریقہ کو بھر پور استعمال کیا مگر وہ دماغی ترقی کے اعلیٰ درجہ تک نہ پہنچ سکے۔ سائی بابا سمیت اُن کے کسی معتقد نے کوئی سائنٹفک ڈسکوری نہیں کی اور نہ کوئی اعلیٰ درجہ کی کتاب لکھی۔ پھر میں نے اپنا ذاتی واقعہ بیان کیا۔ ایک بار سائی بابا کے ایک معتقد مجھ کو سائی بابا کے آشرم میں لے گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ سائی بابا ہر چیز کو جانتے ہیں، یہاں تک کہ آپ کے دل کا حال بھی۔ میںنے جاتے ہوئے ایک کاغذ پر یہ جملہ لکھا:
What is the future of my mission
میں نے مذکورہ معتقد کو وہ کاغذ دکھاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کے ساتھ آشرم میں چلتا ہوں۔ میں اُن سے زبانی طورپر کچھ سوال نہیں کروں گا۔ وہ خود سے جان کر میرے اس سوال کا جواب دیں۔ ہم دونوں وہاں پہنچ کر مجمع میں بیٹھ گئے۔ سائی بابا اپنے راؤنڈ پر نکلے۔ وہ چلتے ہوئے میرے پاس پہنچے۔ وہ چند سیکنڈ کے لیے میرے پاس ٹھہرے اور پھر کچھ بولے بغیر آگے بڑھ گئے۔ میں نے مذکورہ معتقد سے کہا کہ آپ نے تو کہا تھا کہ سائی باباخود سے میرے سوال کا جواب دے دیں گے۔ مگر اُنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ مذکورہ معتقد لاجواب ہو کر خاموش رہے۔
ایک مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں میں سماجی اصلاح کی تحریکیں کثرت سے اُٹھائی گئیں مگر اُن کا مطلوب نتیجہ نہیں نکلا۔میںنے کہا کہ میرے تجربہ کے مطابق، تحریکیں اُٹھانے والے بطور پروفیشن تحریک اُٹھاتے ہیں، نہ کہ بطور مشن۔ اُن میں نہ گہر ا دردہوتا اور نہ گہری سنجیدگی۔ ظاہر ہے کہ ایسی تحریکوں کا کوئی مثبت انجام نکلنے والا نہیں۔
اُن کا حال یہ ہے کہ مسلمان اگر انسانیت کے نام پر کوئی تحریک اُٹھاتے ہیں تو عملاً اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ایڈوکیٹ بن کر ہندوؤں کو انسانیت کا سبق دیں۔ اور ہندو اگر مانوتا کے نام پر کوئی تحریک اُٹھاتے ہیںتو اس کا مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے ایڈوکیٹ بن کر مسلمانوں کو مانوتا کا سبق دیں۔اس قسم کی تحریکوں کا کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ صحیح اور موثر طریقہ یہ ہے کہ مسلم قائدین مسلمانوں کو نصیحت کریں اور ہندو قائدین ہندوؤں کو نصیحت کریں۔ مگر موجودہ رہنما ایسا نہیں کرتے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ اُنہیں یہ خوف ہوتاہے کہ ایساکرنے کی صورت میں وہ اپنی قوم کے اندر اپنی مقبولیت کھو دیں۔ عوامی نفسیات یہ ہے کہ اگر آپ اپنی قوم کے وکیل بن کر دوسروں کی مذمت کریں تو آپ اپنی قوم کے اندر ہیرو بن جاتے ہیں اور اگر آپ خوداپنی قوم کے خلاف بولیں توآپ اپنی قوم میں زیرو ہو جائیں گے۔
ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے گفتگو ہوئی۔ میں نے اُنہیں انگریزی میں چھپا ہوا ایک انویٹیشن دکھایا۔ اس میں مجھے تقریر کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ یہ دعوت نامہ دی انلائٹنمنٹ فاؤنڈیشن (The Enlightenment Foundation) کی طرف سے تھا۔ نئی دہلی میں اُس کا کنٹیکٹ نمبر یہ ہے: (Tel.: 26916696)۔
اس میٹنگ کا موضوع یہ تھا کہ میںکون ہوں( Who Am I) میںنے کہا کہ اس طرح کے ادارے بڑی تعداد میں تقریباً ہر شہر میں قائم ہیں۔اس میں شرکت کرنے والوں کو پوری آزادی ہوتی ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر سے زیر بحث موضوع پر بولے۔ اور اپنے علم کے مطابق، سوال کا جواب دے۔ اس طرح گویا ہر شہر میںایک قسم کا دعوتی میدان کھلا ہوا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمان وہاں جاکر آزادانہ طور پر اپنی بات پیش کرسکتے ہیں، بشرطیکہ اُن کا انداز خالص علمی ہو۔ مناظرہ کا انداز، سیاسی پروپیگنڈے کا انداز یا قومی وکالت کا انداز نہ ہو۔ اس امکان کو اگر استعمال کیا جائے تو ہر شہر میں خاموش انداز میں دعوت کا کام شروع ہوجائے گا۔ مگر موجودہ مسلمانوں میں چونکہ دعوتی جذبہ نہیں اس لیے اُنہوں نے نہ اس جدید امکان کو جانا اور نہ اُس کو استعمال کیا۔
کچھ مسلمانوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ قرآن میں مومن کی تصویر ان الفاظ میں دی گئی ہے: ولم یخش الا اللہ (اُس کو اللہ کے سوا کسی اور کا ڈر نہیں ہوتا)۔ اس کے مقابلہ میں منافق کی تعریف یہ کی گئی ہے: یحسبون کل صیحۃ علیہم (وہ ہر چیخ کو اپنے ہی خلاف سمجھتے ہیں)۔
موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دیکھئے یا اُن کی تقریروں اور تحریروں کا جائزہ لیجئے تو تقریباً سارے ہی مسلمان اس کا مصداق نظر آئیں گے۔ آج تقریباً ساری دنیا کے مسلمان ایک ہی مشترک بولی بول رہے ہیں۔ وہ دنیا کی تمام قوموں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ دوسری قوموں کی سرگرمیوں کو بتانے کے لیے اُن کے پاس ایک ہی مشترک لفظ ہے اور وہ ہے سازش، موامرہ، کانسپریسی (conspiracy)۔ اُن کونظر آتا ہے کہ دنیا کے تمام غیر مسلم لوگ صرف ایک ہی کام کررہے ہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف سازش ہے۔
موجودہ مسلم دنیا میں شاید میںاکیلا مسلمان ہوں جو اعلان کے ساتھ اس نظریہ کے خلاف ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ آج کی دنیا ہمارے لیے مواقع (opportunities) کی دنیا ہے، نہ کہ دشمنی اور سازش کی دنیا۔ میری یہ بات موجودہ مسلمانوں کو اتنی عجیب معلوم ہوتی ہے کہ وہ مجھ کو مسلم دشمن طاقتوں کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔اعوذ باللہ من ذالک۔
ایک صاحب نے کہا کہ تعلیم یافتہ طبقہ عام طورپر یہ سوال کرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ساری دنیا کے مسلمان جہادی مزاج رکھتے ہیں۔ وہ جہاد کے نام پر صرف لڑنا بھڑنا جانتے ہیں۔ پُر امن جدو جہد جیسے اُن کے مزاجی خانہ میں فٹ نہیں ہوتی۔
میں نے کہا کہ غور کیجئے تو اس کا سبب نہایت گہرا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں بعد کے زمانہ میں وہی ریورس کورس (reverse course)مطلوب تھا جو دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان نے اختیار کیا۔ مگر پچھلے ہزار سال میں مسلمانوں میں کوئی ایسا عالم پیدا نہ ہو سکا جو مسلمانوں کو ریورس کورس کا سبق دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ گاڑی ایک ہی رُخ پر دوڑتی رہی۔
میں نے کہا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں تقریباً ہزار سال تک پُر امن جدو جہد ہی کا طریقہ رائج تھا۔ اس کے بعد مخالفین کی جارحیت کے نتیجہ میں ہجرت کے بعد جنگیں شروع ہوگئیں جو خلافت راشدہ کے زمانہ تک جاری رہیں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ خلافت راشدہ کے آخری زمانہ میں جارحانہ طاقتوں کا مکمل خاتمہ ہوگیا۔ اب وقت آگیا تھا کہ مکی دور والے پُر امن طریق کا رکی طرف واپسی اختیار کی جائے۔ مگر سیاسی حوصلہ مندوں نے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کے لیے جنگ وقتال کا سلسلہ جاری رکھا جواب تک مختلف صورتوں میں جاری ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد ضرورت تھی کہ کوئی بڑا عالم اور رہنما اٹھے جو جہاد کی پُر امن تعبیر پیش کرکے مسلمانوں کو ریورس کورس پر ڈال سکے۔ یعنی پُر تشدد طریقِ کار کے بجائے پُر امن طریقِ کار۔مگر ہزار سال کے دوران ایساکوئی رہنما پیدا نہ ہوسکا۔ چنانچہ قومی رُخ بھی بدلا نہ جاسکا۔
۱۰ دسمبر کی شام کو یہاں کے المعہد العالی الاسلامی کو دیکھا اور اُس کے بانی مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کے ساتھ شام کا کھانا کھایا۔ اس موقع پر کئی لوگ میرے ساتھ تھے—ڈاکٹر شیزان صاحب، عمر عابدین صاحب، عبد الرؤف صاحب، عبد الغفار صاحب، وغیرہ۔
یہ ادارہ ۱۴۲۰ھ میں قائم کیا گیا۔ اس میں مدارس دینیہ کے فارغین کو داخل کیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد اُس کے تعارف نامہ میں یہ بتایا گیا ہے: مختلف علوم اسلامی میں افراد کار کی تیاری، زمانہ شناس داعیوں کی تربیت، علماء کو انگریزی زبان اور جدید علوم سے با خبر کرنا، تحقیق وتالیف۔
یہ ادارہ ایک پہاڑی کے اوپر قائم کیا گیا ہے۔ یہاں بالکل سکون کا ماحول ہے۔ فضائی کثافت بھی یہاں تقریباً موجود نہیں۔ تعلیم وتحقیق کے لیے یہ ادارہ اپنے جائے وقوع کے اعتبار سے بہت موزوں ہے۔ اس ادارہ کی جو چیزیں میں نے دیکھیں اُن میں سے ایک اُس کی لائبریری تھی۔ یہ لائبریری بہت جامع اور خوبصورت نظر آئی۔ اس لائبریری کی ایک قابل ذکربات یہ تھی کہ اُس کی ایک الماری میں ماہنامہ الرسالہ کے تمام شمارے نمبر ۱ سے لے کر اب تک مجلد صورت میں رکھے ہوئے تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ مکمل فائل مسٹر کشن جیونت راؤ پاٹل (ناندیڑ) نے دیا ہے۔
کشن جَیونت راؤ پاٹل ۱۹۷۶ میں اُردو زبان بالکل نہیں جانتے تھے۔ اُن کے ایک ساتھی محمدعثمان چاؤش نے اُنہیں الرسالہ کے کچھ مضامین پڑھ کر سنائے۔ اُنہیں اس سے اتنی زیادہ دلچسپی ہوئی کہ اُنہوں نے الرسالہ کو خود پڑھنے کے لیے اُردو زبان سیکھنا شروع کردیا۔ ایک بار اُنہوں نے بتایا کہ اُردو الفاظ کا مراٹھی ترجمہ یادکرتے کرتے اُن کا منھ دُکھنے لگتا ـتھا۔ مگر اُنہوں نے اپنی کوشش جاری رکھی۔ یہاں تک کہ اب وہ الرسالہ کی اُردو زبان مکمل طورپر سمجھ لیتے ہیں۔ وہ پابندی سے ہر ماہ الرسالہ کا باقاعدہ مطالعہ کرتے ہیں۔ اُن کے پاس الرسالہ کے تمام شمارے محفوظ حالت میں موجود تھے۔ اُنہوں نے ان شماروں کی جلد بندی کروائی اور اُن کو المعہد میں بطور عطیہ دے دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے گھر کے مقابلہ میں یہ جلدیں المعہد کی لائبریری میں زیادہ محفوظ رہیں گی۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے اُن کی رہائش گاہ پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ المعہد کے مقاصد نہایت اہم ہیں اور عین زمانہ کے مطابق ہیں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ المعہد میںانگریزی زبان کو ذریعۂ تعلیم بنادیں۔ یہاں عربی اور دینی علوم انگریزی زبان میں پڑھائے جائیں۔ طلبہ کو تاکید کی جائے کہ وہ المعہد کے احاطہ میں صرف انگریزی زبان بولیں۔ کوئی اور زبان بولنے کی صورت میں اُن پر جُرمانہ عائد کیا جائے۔
میں نے کہا کہ المعہد کے موجودہ اساتذہ کو بظاہر یہ مشکل معلوم ہوگا۔ وہ سوچیں گے کہ ہم تو انگریزی زبان بہت کم جانتے ہیں۔ پھر ہم انگریزی زبان میں تعلیم کس طرح دیں۔ مگر میرے نزدیک اصل اہمیت زبان جاننے کی نہیں ہے بلکہ اپنے مقصد کے بارہ میں مجنونانہ جذبہ کی ضرورت ہے۔میں نے کہا کہ سرسیّد احمد خاں انگریزی زبان نہیں جانتے تھے۔ مگر اُنہوں نے ہندستان میں مسلمانوں کا سب سے بڑا انگریزی ادارہ قائم کیا۔ میں نے کہا کہ سرسید کا حال یہ تھا کہ اُنہوں نے ایک انگریزمستشرق کی انگریزی میں لکھی ہوئی سیرت کی کتاب کا جواب دیاتو پہلے اُس کا ترجمہ اردو زبان میں کروایا۔ اسی طرح ایک بار اُنہوں نے ’’انگریزی‘‘ میں تقریر کی۔ یہ انگریزی تقریر اُردو الفاظ میں کاغذ پر لکھ دی گئی تھی۔ پھر اس اُردو تحریر کی مدد سے اُنہوں نے اپنی انگریزی تقریر کی۔
میںنے کہا کہ آج ساری دنیا میں ایسے علماء کی ضرورت ہے جو انگریزی زبان میں اسلام کی بات کہہ سکیں۔ میںنے کانفرنسوں میں دیکھا ہے کہ کچھ غیر عالم مسلمان انگریزی میںاسلام کی نمائندگی کرتے ہیں مگر غیر عالم ہونے کی بنا پر اُن کی نمائندگی صحیح نہیں ہوتی۔ دوسرے مذہبوں میں ایسے علماء کثرت سے موجود ہیں۔ مگر مسلمانوں میںایسے علماء کی شدید کمی ہے جو انگریزی زبان میں درست طورپر اسلام کی نمائندگی کرسکیں۔ اگر المعہد اس ضرورت کو پورا کرے تو بلا شبہہ یہ اُس کا ایک تاریخی کارنامہ ہوگا۔
المعہد کے کچھ طالب علموں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آپ لوگ آج ہی سے انگریزی بولنا شروع کردیجئے۔ میں نے افریقہ کے ایک تاجر کی مثال دی۔ انہوں نے تجارتی ضرورت کے تحت انگریزی بولنا شروع کیا۔ ابتدا میں اُن کی انگریزی بہت غلط ہوتی تھی مگر بعد کو وہ صحیح انگریزی بولنے لگے۔ ابتدائی دور میں اُنہوں نے اس سلسلہ میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں غلط انگریزی بولتا ہوں تاکہ مجھے صحیح انگریزی بولنا آجائے:
I speak incorrect English, so that I may be able to speak correct English.
میںنے کہا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے لامحدود صلاحیت دی ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ منصوبہ بند اور منظّم انداز میں اپنی صلاحیت کو برروئے کار لانے کی کوشش کی جائے۔ اس سلسلہ میں میںنے مالیگاؤں کے مولانا انیس لقمان ندوی کی مثال دی۔ وہ ماشاء اللہ بیک وقت عربی اور انگریزی دونوں زبان روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ ایسا کیوں کر ممکن ہوا۔ اُس کا راز یہ ہے کہ اُنہوں نے خود اپنے گھر کو تربیت گاہ بنا دیا۔ وہ اپنے بھائی کے ساتھ ہمیشہ انگریزی میں بولتے تھے اور اپنے برادر نسبتی کے ساتھ ہمیشہ عربی میں۔ اس طرح اُنہوں نے خود اپنے گھر میں دونوں زبان میں بولنے کی عمدہ مشق پیدا کرلی۔ یہی طریقہ ہر نوجوان اپنے حالات کے اعتبار سے استعمال کرسکتا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ صاحب نے ۱۰ دسمبر کی ملاقات کے موقع پراپنی کچھ کتابیں تحفہ کے طورپر عطا کیں۔ مثلاً خطباتِ بنگلور اورشمع فروزاں، وغیرہ۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی بر صغیر ہند کے ممتاز علماء میں سے ایک ہیں۔ اللہ نے اُنہیں عالم بھی بنایا ہے اور حکیم بھی۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے ملاقات کے بعد ہم لوگ آگے کے لیے روانہ ہوئے۔ ہم کو حبیب بھائی کے مکان پر پہنچنا تھا۔ یہاں پہنچے تو رات کے گیارہ بجے کا وقت ہوچکا تھا۔ حبیب بھائی اور کچھ دوسرے ساتھیوں کے ہمراہ یہاں دیرتک باتیں ہوتی رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ اولمپک کے کھیلوں کے موقع پر کھلاڑیوں کی ایک ٹیم کے کیپٹن نے کہا کہ میں غلطی کا تحمل نہیں کرسکتا:
I can not afford to make a mistake.
یہ بات آخرت کے مسافر کے لیے مزید اضافہ کے ساتھ اہم ہے۔ کھیل کے مقابلہ کا کیپٹن اگر غلطی کر جائے تو وہ صرف ایک کھیل کو وقتی طورپر کھوئے گا، لیکن آخرت کا مسافر اگر غلطی کرے تو وہ ابدی جنت کو کھو دے گا۔ اس سنگینی کا تقاضا ہے کہ کھیل کے کیپٹن کے مقابلہ میںآخرت کا مسافر مزید اضافہ کے ساتھ یہ کہے کہ میںغلطی کا تحمل نہیں کرسکتا۔
ایک اور بات میںنے یہ کہی کہ سچائی کے مشن میںاپنا واجبی حصہ ادا کرنے کے لیے ایک ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا سینہ شکایتوں سے خالی ہو۔ عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص سچائی کا ارادہ لے کر کچھ لوگوں کے ساتھ سفر شروع کرتا ہے۔ ا س کے بعد شکایتوں کا عذر لے کر وہ قافلہ سے الگ ہوجاتا ہے۔ یہ مزاج بے حد خطرناک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا معاملہ ہویا آخرت کا معاملہ، کامیابی کا واحد فارمولا یہ ہے کہ اگر تمہارے پاس ایک اچھا عذر ہو تب بھی تم اُس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse, don't use it.
۱۰ دسمبر کی رات کو ہم لوگوں کا قیام حبیب بھائی کے مکان پرتھا۔ حبیب بھائی کے والدبابو بھائی (غلام محمدمرحوم) الرسالہ کے زبردست شیدائی تھے۔ وہ آخروقت تک پوری طرح الرسالہ مشن سے جڑے رہے۔ ۲۱ جولائی ۱۹۸۷ کو ان کا انتقال ہوگیا جب کہ ان کی عمر صرف ۵۳ سال کی تھی۔
حبیب بھائی نے بتایا کہ بابو بھائی کے انتقال کے کچھ پہلے انہوں نے ایک خواب دیکھا۔ یہ اتنا واضح تھا کہ ابھی تک وہ انہیں اچھی طرح یاد ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ایک سیدھی چوڑی سڑک ہے۔اس پر وہ کھڑے ہوئے ہیں۔ اتنے میں پیچھے سے ایک بہت بڑا سانپ آیا۔ اس کو دیکھ کر حبیب بھائی آگے کی طرف دوڑنے لگے۔ سانپ تیزی سے انہیں دوڑا رہا تھا اور حبیب بھائی پوری طاقت کے ساتھ اس کے آگے بھاگ رہے تھے۔ وہ اسی طرح دوڑتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک مقام آیا جہاں انہوں نے دیکھا کہ میں تنہا سڑک کے بیچ میںکھڑا ہواہوں۔ میرے پاس پہنچ کر حبیب بھائی رک گئے۔ سانپ بھی رک گیا۔ حبیب بھائی نے گھبراہٹ کے لہجے میں کہا کہ دیکھئے ،یہ سانپ مجھے دوڑا رہا ہے، میںکیا کروں۔ حبیب بھائی کے بیان کے مطابق ،میں نے پُر سکون طور پرکہا: آپ دعوت کیجئے۔
حبیب بھائی نے بتایا کہ یہ خواب ٹھیک اسی طرح انہیں بار بار آتا رہا۔ غالباً چھ بارسے زیادہ انہیں یہ خواب ٹھیک اسی طرح دکھائی دیا۔ انہوںنے بابو بھائی سے کہا کہ اس قسم کا خواب مجھے بار بار دکھائی دیتا ہے۔ میں کیا کروں۔ بابو بھائی نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم مولانا کے ساتھ مل کر دعوت کا کام کرو۔
حبیب بھائی نے اپنا یہ خواب بتایا تو میں نے اس پر غور کرنا شروع کیا۔میری سمجھ میں آیا کہ اس خواب میں حبیب بھائی کی حیثیت ملت مسلمہ کے نمائندہ کی ہے۔ یہ خواب گویا پوری ملت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تم دعوت اسلامی کا کام کرو ورنہ مسائل کا سانپ تم کو دوڑاتا رہے گا۔ وہ کبھی تمہارا پیچھا نہیں چھوڑے گا۔
میں یہ بات بار بار لکھ چکا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کو جو مسائل پیش آرہے ہیں وہ سادہ طورپر صرف مسائل نہیں ہیں۔ وہ خدا کی تنبیہہ (warning) ہیں۔ یہ مسائل مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر یاد دلا رہے ہیں کہ تم اگر تباہی سے بچنا چاہتے ہو تو اپنی دعوتی ذمہ داری کو پورا کرو۔ یہ حقیقت میں نے قرآن سے اخذ کی ہے۔ جیسا کہ قرآن میںآیا ہے، اہل ایمان کے لئے عصمت من الناس کا راز تبلیغ ما انزل اللہ میںہے (المائدہ ۶۷)
موجودہ زمانہ کے مسلمان نہایت جوش و خروش کے ساتھ ’’تحفظ ختم نبوت‘‘ کی تحریک چلاتے ہیں۔ مگر اس قسم کی تحریکیں مضحکہ خیز حد تک بے معنٰی ہیں۔ ختم نبوت کے تحفظ کی ذمہ داری تو خود اللہ نے لے رکھی ہے پھر مسلمان اس میںکیا رول ادا کرسکتے ہیں۔ اس قسم کی تحریک اتنا ہی بے معنٰی ہے جتنا کہ شمس و قمر کے تحفظ کی تحریک چلانا۔
حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ذمہ داری ختم نبوت کا تحفظ نہیںہے بلکہ ختم نبوت کی دعوتی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہے۔ ختم نبوت کے بعد وہ مقام نبوت پر ہیں۔ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دعوت الی اللہ کا وہ کام کریں جو پہلے پیغمبر کے ذریعہ انجام پاتا تھا: لیکون الرسول شہیدا علیکم و تکونوا شہداء علی الناس (الحج ۷۸)
قرآن اور حدیث اور سیرت کا میں نے جو گہرا مطالعہ کیا ہے اس کی بنیاد پر میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ امت محمدی صرف نماز روزہ کی ادائیگی سے خدا کے یہاں بری الذمہ نہیں ہوسکتی۔ حتیٰ کہ خود ساختہ نظریات کے تحت موجودہ زمانہ میں اسلامی جہاد اور اسلامی سیاست کے جو ہنگامے مسلم دنیا میں جاری ہیں وہ بھی ہر گز اس کی نجات کا ضامن نہیں بن سکتے۔ مسلمانوں پر فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچائیں۔ اور اس کے تمام آداب و شرائط کے ساتھ اس کو مسلسل انجام دیں۔ دعوتی فرض کی انجام دہی کے بغیر مسلمانوں کا امت محمدی ہونا ہی مشتبہ ہے۔اور جب اصل حیثیت ہی مشتبہ ہو تو انعامات کس بنیاد پر دیے جائیں گے۔
ایک گفتگو کے دوران ایک نکتہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ دہلی میں ایک صاحب اکثر ہمارے دفتر میں آتے ہیں۔ وہ دیکھتے تھے کہ گرمیوں کے موسم میں میںاے۔ سی استعمال نہیں کرتا۔اب وہ سردی کے موسم میںہمارے یہاں آئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ میرے کمرے میں ہیٹر لگا ہوا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ آپ تو اے ۔سی استعمال نہیں کرتے۔پھر آپ ہیٹر کیوں استعمال کرتے ہیں۔ کیا یہ تضاد نہیں۔
میںنے کہا کہ میرے بھائی، آپ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق نہ کرسکے۔ اے۔سی آرام کے لیے ہوتا ہے اور ہیٹر ایک ضرورت کی چیز ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ گرمی کا موسم مجھے بیمار نہیں کرتا۔ اے ۔سی لگانے سے جسمانی آرام تو ملتا ہے مگر اس کا تعلق بیماری سے نہیں۔ اس کے برعکس میرا بار بار کا تجربہ ہے کہ اگر مجھے سردی لگ جائے تو میں بیمار ہوجاتا ہوں۔ زکام، کھانسی، بخار کی وجہ سے ہفتوں کے لیے کام کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے سخت سردی میں میں ہیٹر کا استعمال کرتا ہوں۔ آپ آرام اور ضرورت میں فرق نہ کرسکے۔ اس لیے آپ کو یہ شبہہ لاحق ہوا۔
یہ حکمت (wisdom) کی بات ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق کرنا جانے۔ میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے پڑھے لکھے لوگ عام طورپراس حکمت سے بے بہرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ باتوں کو واضح انداز میں سمجھ نہیںپاتے۔ وہ خود بھی کنفیوژن میں مبتلا رہتے ہیں اور اپنے تحریر و تقریر کے ذریعہ دوسروں کو بھی کنفیوژن میں مبتلا کرتے ہیں۔
۱۱ دسمبر کی صبح کو حبیب بھائی کے گھر سے ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوا۔ اُن کے گھر سے ایر پورٹ بہت قریب ہے۔ ساتھیوں سے رخصت ہو کر ایر پورٹ کے اندر داخل ہوا ۔ حیدر آباد سے دہلی کے لیے واپسی دوبارہ انڈین ایر لائنز کی فلائٹ سے ـتھی۔ جہاز ٹھیک اپنے وقت پر حیدر آباد سے روانہ ہوا۔
حیدر آباد اوردہلی کے درمیان سفر کرتے ہوئے کچھ اخبارات دیکھے۔ انڈین ایکسپریس کے بمبئی ایڈیشن (۱۱ دسمبر، ۲۰۰۲) میں صفحہ ۶ پر ایک مضمون تھا۔ مضمون نگار کا نام مسٹر عندلیب اختر چھپا ہوا تھا۔ عنوان کے الفاظ یہ تھے:
IN TIMES OF STRIFE, REMEMBER IQBAL
یعنی نزاع کے وقت اقبال کو یاد کرو۔ مضمون میں کہا گیا تھا کہ اجودھیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی کی جو نزاع ہے اُس کا حل اقبال کے کلام میں موجود ہے۔ اس مقصد کے لیے مضمون میںاقبال کی ایک نظم (نیا شوالہ) کے حسب ذیل اشعار نقل کیے گئے تھے:
سچ کہہ دوں اے برہمن گر تو برا نہ مانے
تیرے صنم کدوں کے بُت ہوگئے پرانے
اپنوں سے بیر رکھنا تو نے بتوں سے سیکھا
جنگ و جدل سکھایا واعظ کو بھی خدا نے
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاک وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
شکتی بھی، شانتی بھی بھکتوں کی گیت میں ہے
دھرتی کے واسیوں کی مُکتی پِر ِیت میں ہے
اس مضمون سے یہ واضح نہ ہوسکا کہ اجودھیا کے نزاعی مسئلہ کا حل اقبال کے مذکورہ شعروں میں کس طرح ہے۔ مضمون نگار کے عقیدت مندانہ ذہن میں تو یہ حل ضرور موجود ہوگا مگر چھپے ہوئے اشعار کے اندر یقینی طورپر اس کا حل موجود نہیں ۔ مزید انوکھی بات یہ ہے کہ اقبال نے بر صغیر ہند کی مذہبی تقسیم کا فارمولہ پیش کر کے خود ہی موجودہ نزاعات کی بنیاد رکھ دی۔ اس کے باوجود اُن کے عقیدت مند اُن کے کلام میںبرعکس طورپر اس مسئلہ کا حل دریافت کر رہے ہیں۔
انگریزی میگزین انڈیا ٹوڈے (۲ دسمبر ۲۰۰۲)دیکھا۔ اُس کے صفحہ ۶۶۔۶۷ پر برطانی جرنلسٹ َسرمارک ٹلی (Mark Tully) کی تازہ کتاب پر تبصرہ شائع ہوا تھا۔ ۳۰۲ صفحہ کی یہ کتاب پنگوئن بُکس نے چھاپی ہے۔ کتاب کا نام یہ ہے:
INDIA IN SLOW MOTION (2002)
اس کتاب میں انٹروڈکشن کے علاوہ گیارہ ابواب ہیں۔ اس کا پہلا باب رام کی نئی دریافت کے بارے میں ہے اور آخری باب کاعنوان ہے، گم شدہ جنت (Paradise Lost) ۔ کتاب کا ایک باب صوفیوں اور اُن کے عقائد کے بارے میں ہے۔ اس باب کا عنوان یہ ہے:
The Sufies and a Plain Faith
اس کتاب کی ترتیب کے دوران سَرمارک ٹلی نے راقم الحروف کا دوبار انٹرویو لیا تھا۔ کتاب کے مذکورہ باب میں اُنہوں نے تفصیل کے ساتھ میرے خیالات کا ذکر کیا ہے جو کتاب کے صفحہ ۱۵۶ سے لے کر ۱۶۱ تک موجودہے۔
سر مارک تلی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اُن کو یہ خیال ہوا کہ وہ اپنی کتا ب میں اسلامی تصوف (Sufi Faith) پر ایک باب شامل کریں۔ اس سلسلہ میں انہوں نے سب سے پہلے یہ کوشش کی کہ تبلیغی جماعت کے مرکز میں جاکر موضوع کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ مگر وہ لوگ اس سلسلہ میں انتہائی حد تک غیر معاون (unhelpful)ثابت ہوئے۔ حتیٰ کہ انہوں نے یہ بتانے سے بھی انکار کردیا کہ دوسرا کون مسلمان اس معاملہ میں ان کے لئے مدد گار ہوسکتا ہے۔ (صفحہ ۱۵۵)
سرمارک ٹلی نے لکھا ہے کہ اس کے بعد اُنہوں نے مجھ سے کہا کہ آپ کوشش کیجئے تاکہ تبلیغ کاکوئی آدمی مل جائے جس سے میںتبلیغ کے بارے میں معلومات لے سکوں۔ ان کے کہنے پر میںنے کوشش کی لیکن مجھے کامیابی نہ ہوسکی۔ میںنے ان کو ٹیلیفون کیا اور اس سلسلہ میں معذوری ظاہر کی۔ اس کی رپورٹ سر مارک ٹلی نے ان الفاظ میں لکھی ہے:
(Maulana) agreed but a few days later rang me back to confess failure. ‘These people are not living in this century’, he said. ‘They don't know what the media is.’ (p. 161)
اس کے بعد وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے صوفی ازم پر تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس سلسلہ میںانہوں نے جو کچھ لکھا ہے اس کے چند جملے یہ ہیں:
Maulana Wahiduddin Khan proved far more approachable. When we rang him he willingly agreed to see us both, and there was no question of Gilly (wife) not being welcome. (P. 156)
موجودہ زمانہ کے مسلم مصلحین نے تقریباً مشترک طورپر یہ غلطی کی ہے کہ اُنہوں نے عوام کو اپنی کوششوں کا نشانہ بنایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانہ میں اسلام کی نمائندگی صرف عوام کی سطح پر ہوسکی۔ جہاں تک خواص کا تعلق ہے، وہ اسلام سے تقریباً بے بہرہ ہو کر رہ گئے۔
میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ موجودہ زمانہ کے خواص (تعلیم یافتہ طبقہ) میں اسلام کا پیغام انتہائی حد تک قابلِ قبول بن چکا ہے بشرطیکہ اس طبقہ کے سامنے اسلام کو اُس کی قابلِ فہم زبان میں پیش کیا جائے۔ بد قسمتی سے موجودہ زمانہ کے مسلم مصلحین لسانِ قوم میں بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس معاملہ میں اُن کی بے خبری کا حال یہ ہے کہ اُنہوں نے اکبر الٰہ آبادی جیسے ایک شاعر کو لسان العصر کا خطاب دے دیا۔ حالاں کہ اکبر الٰہ آبادی نہ تو عصر کو جانتے تھے اور نہ اُن کی زبان لسان العصر کا مصداق تھی۔
اس سلسلہ میں ایک سبق آموز ذاتی تجربہ یہ ہے کہ میںنے انگریزی اخبار کے لیے ایک مضمون تیار کیا۔ یہ مضمون واضح طورپر موجودہ زمانہ کے ہندو گروؤں اور سوامیوں کے خلاف تھا۔ اس مضمون کا عنوان یہ تھا:The Role of Spirituality in De-stressing the Human Mind.
آج کل ہندو سوامی اور ہندو گرو ملک میں اور ساری دنیا میں بہت بڑے بڑے آشرم چلا رہے ہیں۔ یہاں میڈیٹیشن کے مخصوص تکینک کے ذریعہ لوگوں کے ذہنی تناؤ کو دور کیا جاتا ہے۔ میرا مضمون اس کے سراسر خلاف تھا۔ انگریزی اخبار کے دفتر میںجب میرا مضمون پہنچا تو وہاں کے ذمہ داروں کے درمیان اس پر بحث ہوئی۔ ایک ہندو صحافی نے کہا کہ یہ مضمون تو ہماری بنیاد کو ڈھارہا ہے۔ دوسرے ہندو صحافیوں نے جواب دیا کہ ہمیں اس سے بحث نہیں۔ یہ مضمون سائنسی اور منطقی دلائل سے بھر پور ہے۔ اس لیے ہم اُس کو اپنے اخبار میں چھاپیں گے۔ چنانچہ یہ مضمون بعینہٖ دہلی کے مشہور انگریزی اخبار میں شائع ہوا۔
میرا یہ مضمون نئی دہلی کے مشہور انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس کے انٹرنیٹ ایڈیشن میںموجود ہے۔ کوئی بھی شخص اپنے کمپیوٹر پر ڈاؤن لوڈ کرکے ہندستان ٹائمس کے شمارہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۲ میں اُس کو دیکھ سکتا ہے۔ اس اخبار کا انٹر نیٹ نمبر یہ ہے :www.hindustantimes.com
دو گھنٹہ کی پرواز کے بعد نو بجے میں دہلی پہنچ گیا۔ حیدر آباد میں موسم بالکل معتدل تھا جب کہ دہلی میں عین اُسی دن سردی کا موسم تھا۔ زمین کے اوپر موسم کا یہ فرق زمین کے مخصوص جھکاؤ (tilt) سے پیدا ہوتا ہے۔یہ جھکاؤ ایک انتہائی غیر معمولی اور استثنائی قسم کا شعوری واقعہ ہے اور شعوری واقعہ صاحبِ شعور کے وجود کا ایک زندہ ثبوت ہے۔
واپسی کے بعد مجھے ایک خط ملا۔ یہ خط یہاںنقل کیا جاتا ہے:
’’۵ دسمبر ۲۰۰۲ کا روزنامہ انقلاب نظر سے گذرا ۔اس میںایک خط شائع ہوا تھا جس میںمکتوب نگار نے گجرات اسمبلی الیکشن اور الیکشن کمیشن کے متعلق ایک خط لکھا تھا جس کا ایک حصہ یہ ہے:’اور اب ’بی جے پی‘ کو دنیا کی پروا بھی نہیں۔ تمام اخلاق و آداب اور آئین اور دستور کو بالائے طاق رکھ دئے گئے ہیں اور کھلّم کھلّا زہر افشانی کی جارہی ہے۔ اس دوران سابق جج حضرات کی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی شائع ہوگئی مگر سنگھ پریوار ہے کہ اس کے سامنے اس کی بھی کوئی وقعت نہیں، لیکن اس عُسر میںالیکشن کمیشن کی صورت میں یُسر نظر آرہا ہے کہ الیکشن پروپیگنڈے کے نام پر ’زہر افشانی‘ لنگڈوہ کی عقابی نگاہ سے بچ نہ سکے گی۔‘ یہ فکر آپ کی ہی دی ہوئی ہے اور اب ہماری اُمّت کا ہرلکھنے والا اور بولنے والا اسی طرح کی باتیں لکھنے اور بولنے لگا ہے۔ اسی اخبار میں ایک دوسری سُرخی ان الفاظ میں تھی ’’۶ دسمبر کو مشتعل نہ ہوں‘‘۔ اوّل روز سے آپ اسی صبر و اعراض اور مشتعل نہ ہونے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ جس کو بعد از خرابی ٔ بسیار قوم کا ہر ’دانش ور‘ اُمّت کو اختیارکرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ یعنی اب پوری امّت الرسالہ کے نقطۂ نظرسے اتفاق کرنے لگی ہے۔اب وہ حالت بھی نہیں جب بابری مسجد کے انہدام کے بعدبعض پڑھے لکھے لوگوں کی مجلس میں میں نے دیکھی تھی کہ اپنے آپ کو ’دانشور‘ یا ’انٹلیکچول‘ ثابت کرنے کے لئے مولانا وحید الدین خاں صاحب پر تنقید کی جائے۔ یعنی اب مخالفت کی بنیاد ہی ختم ہوگئی اور ہر ایک نے اعلان کے ساتھ یا بلا اعلان الرسالہ کی پالیسی سے اتفاق کر لیا ۔یہی وجہ ہے کہ آپ کی فکر سے متاثر جُملے اکثر سننے یا پڑھنے میں آرہے ہیں۔جب ساری امت آپ کی پالیسی سے متفق ہوچکی ہے، پھر یہ بے بنیاد مخالفت کیوں۔دسمبر کا الرسالہ پڑھ کرایک وجہ جو میری سمجھ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری قوم اکابر پرستی کا شکار ہے اور آپ اکابر شکنی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مولانا مودودی کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا وہ بالکل برحق ہے۔ آپ نے مولانا مودودی کی ذات پر کچھ نہیں لکھا۔ جو بھی تنقید کی وہ اُن کے معلوم افکار پر کی۔ جو کہ اسلام میں عین جائز بات ہے۔لیکن یہ جائز چیز بھی ہمارے عوام ہی نہیں بلکہ خواص کی نظروں میں بھی’شجر ممنوعہ‘ کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کا دو ٹوک بات کرنے کا انداز کچھ لوگوں کو بہت گراں گذرتا ہے۔ مثلاً آپ نے لکھا ہے: ’’میرے نزدیک موجودہ زمانہ کی مسلم شخصیتوں میں سے کوئی بھی شخصیت (بشمول مولانامودودی) ان شرائط پر پوری نہیں اترتی۔ اس لئے ان میں سے کوئی بھی مفکر کہے جانے کا مستحق نہیں۔ (الرسالہ ، دسمبر ۲۰۰۲)۔یہاں مجھے مرحوم محی الدین صدیقی ایم ۔اے یاد آتے ہیں۔ وہ جناح کے زبردست پرستار ہونے کے باوجود آپ کی کسی تنقید پر برا نہیں مانتے تھے، بلکہ آپ کی تعریف کرتے تھے۔ اُنہوں نے کہاکہ مولانا نے جناح کے ذاتی کردار کے قابل اعتراض پہلو پر کبھی نہیں لکھا، نہ ہی اُن کی شراب نوشی کا ذکر کیا، نہ ہی خنزیر خوری کا تذکرہ کیا۔بہت پہلے کی بات ہے جب الرسالہ لوگوں میںاپنی پہچان بنا رہا تھا۔ ایک ملاقات میں مرحوم حامد الانصاری غازی نے آپ کے بارے میں کہا تھا: ’’بہت خوب! مولانا بہت اچھے جارہے ہیں‘‘۔ (فاروق فیصل، بمبئی)
واپس اوپر جائیں