Pages

Tuesday 1 November 2022

Al Risala | November۔December 2022 (الرسالہ،نومبر۔ دسمبر)

4

-علم سے آغاز

5

- دنیا ایک سفر

6

- کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے

7

- اہل کتاب سے استفادہ

9

- مطالعۂ حدیث(شرح مشکاۃ المصابیح)

20

- دعا کی حقیقت

21

- مکمل اسلام ، ربانی اسلام

23

- اہل جنت

24

- عمل کی دعوت

25

- بڑھاپے کا تجربہ

26

- چیلنج کی صورتِ حال

28

- بائی ٹائم اسٹریٹجی

29

- بات کرنے کا طریقہ

30

- ڈائری 1986

42

- ایگو کو مینج کرنا

43

- گناہ خدا سے قربت کا ذریعہ

44

- مولانا کے بعد

47

- تعارفِ کتب

49

- خبرنامہ اسلامی مرکز


علم سے آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ 610 ء میں آپ پر خدا کی طرف سے پہلی وحی اتری۔ یہ ابتدائی کلام جو خدا کی طرف سے آپ کو ملاوہ یہ تھا:
ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّکَ ٱلَّذِی خَلَقَ ۔ خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِنۡ عَلَقٍ ۔ ٱقۡرَأۡ وَرَبُّکَ ٱلۡأَکۡرَمُ ۔ ٱلَّذِی عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ ۔ عَلَّمَ ٱلۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ (96:1-5)۔ یعنی، ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پیداکیا انسان کو علق سے۔ پڑھ اور تیرارب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے ۔ا نسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا‘‘۔
قرآن میں اتراہوا یہ پہلا کلام الٰہی بتاتا ہے کہ کسی حقیقی عمل کا آغاز کیاہے۔ یہ آغاز علم ہے۔ یعنی انسان کو باشعور بنانا۔اس کے اندر ذہنی تبدیلی لاکر فکری انقلاب پیدا کرنا۔ یہی انسانوں کے درمیان کسی حقیقی تحریک کاآغاز ہے۔ اس دنیا میں وہی انسانی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے جو شعور کی بیداری سے اپنے کام کاآغاز کرے۔ رسول اللہ نے علم کا پیغام دیا جوابدی اہمیت کا حامل تھا۔ جوحال سے لے کرمستقبل تک انسان کے کام آنے والا تھا۔ اور جو اپنے وسیع انطباق (universal application) کے اعتبار سے دوسرے تمام پہلوؤں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔
علم طاقت ہے ۔ علم اس دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار ہے، ایک فرد کے لیے بھی اور پوری انسانیت کے لیے بھی ۔ علم کاآغاز مائنڈ سے ہوتا ہے مگر وہ پوری خارجی دنیا کو مسخر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
علم سے آدمی کی تکمیل ہے۔ علم کے بغیر ایک انسان ادھورا انسان ہے۔ علم کے بعد وہ مکمل انسان بن جاتا ہے۔ علم سے خالی انسان صرف اپنی ذات کو جانتا ہے۔ علم کے حصول کے بعد آدمی پوری کائنات کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ علم انسان کے ذہنی افق کو بلند کرتا ہے۔ علم انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔ علم انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ معرفت حق کے اعلی درجات تک پہنچے۔علم کسی ناقص انسان کو ایک کامل انسا ن بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دنیا ایک سفر

ملکہ ایلزبتھ دوم 8 ستمبر2022ء کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ وہ 70 سال تک انگلینڈ کی ملکہ رہیں۔ پوری دنیا میں کئی دنوں تک ملکہ کے موت کی خبر برننگ نیوز کی حیثیت سے چلتی رہی۔اگر غور کیا جائے توگویا یہ خبر انسانوں کے لیے ایک فطری حقیقت کی یاد دہانی تھی۔ یعنی اس دنیا کے ہر انسان کو ایک دن اسی طرح اس دنیا سے چلے جانا ہے،جس طرح ملکہ گئیں۔ کسی کو موت سے چھٹکارا نہیں۔
ایک دن کا واقعہ ہے۔میں اپنے کمرہ میں لیٹی ہوئی تھی، اس وقت مجھے ہلکی سی نیند آئی۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں سی 29 نظام الدین ویسٹ کے جس کمرہ میں موجود ہوں، وہ ایک ٹرین کی شکل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ٹرین کےاوپر جہاں سامان رکھنے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے، وہاں میں کوئی کپڑا رکھ رہی ہوں۔ ٹرین بالکل سادہ ہے۔ کپڑا بھی سفید چادر کی طرح ہے۔
یہ خواب دیکھ کر میرا مائنڈ ٹرگر ہوا۔ میں سوچنے لگی کہ ہم لوگ اِس دنیا کے گھر کوغیر شعوری طور پر اپنا مستقل ٹھکانا ( permanent abode) سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ یہ ایک سراب (mirage ) ہے۔ مرتے ہی حقیقت سامنے آ جائے گی کہ یہ دنیا ایک پلیٹ فارم کے سوا کچھ نہیں تھی۔ صاحب معرفت وہی لوگ ہیں جو مرنے سے پہلے اس حقیقت کا ادراک کر لیں۔ اس سلسلے میں ایک بامعنی حدیثِ رسول ا بن عمر رضی اللہ عنہما کے الفاظ میںاس طرح آئی ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں اس طرح زندگی گزارو، جیسے تم اجنبی ہو یا سفر کرنے والے۔ا بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اورصبح کے وقت شام کا انتظار نہ کرو۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کوموت سے پہلے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6416)۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھا ہے کہ" یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان آج اپنے آپ کو موجودہ دنیا میں پاتاہے۔ لیکن ایک دن آتا ہے جب کہ ہر عورت اور مرد اس دنیا سے نکال کر اگلی ابدی دنیا کی طرف منتقل (transfer) کردیاجاتا ہے۔ اس کے پیچھے وہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتی ہے، جس کو وہ غیر شعوری طور پر اپنا مستقل ٹھکانا سمجھتا تھا۔ دانش مند وہ ہے جو اُس آنے والی ابدی دنیا کو اپنا اصل ٹھکانا سمجھے اور اس کے لیے تیاری کرے" (ماخوذ الرسالہ، نومبر 2016)۔ ڈاکٹر فریدہ خانم
واپس اوپر جائیں

کائونٹ ڈائون ہورہا ہے

سورہ العصر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو حقیقی تعمیر کے لیے ٹائم مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس ٹائم مینجمنٹ کے بغیر کسی کے لیے حقیقی ترقی کو پاناممکن نہیں۔کیوں کہ اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے آدمی کو خود کوشش کرنا ہے، خواہ وہ دنیا کی کامیابی ہو یا آخرت کی۔ جب کہ ناکامی کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے آپ انسان کی طرف بھاگی چلی آرہی ہے۔ سورہ العصرکا ترجمہ یہ ہے: زمانہ گواہ ہے ۔ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ سواان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔( 103:1-3)
قرآن کی اس سورہ میں زندگی کی ایک اہم حقیقت کے بارے میں انسان کو آگاہ کیا گیا ہے۔ ایک بزرگ نے کہا کہ سورۃ العصر کا مطلب میں نے ایک برف بیچنے والے سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ لوگو، اس شخص پر رحم کرو جس کا اثاثہ گھل رہا ہے، لوگو، اس شخص پر رحم کرو، جس کا اثاثہ گھل رہا ہے (ارْحَمُوا مَنْ یَذُوبُ رَأْسُ مَالِہِ)۔ اس پکار کو سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس طرح برف پگھل کر کم ہوتی رہتی ہے اسی طرح انسان کو ملی ہوئی عمر بھی تیزی سے گزر رہی ہے۔ آدمی اگر اپنی مہلتِ عمر کو استعمال نہ کرے تو آخر کار اس کے حصہ میں جوچیز آئے گی وہ صرف ہلاکت ہے (تفسیر کبیر امام رازی، جلد 32، ص278)۔
انسان ہر لمحہ زندگی سے موت کی طرف جارہا ہے۔ ہر لمحہ انسان کاکائونٹ ڈائون ہورہا ہے۔ یہ فطرت کا ایک لازمی قانون ہے۔ اس قانون کو دوبارہ الٹی طرف چلایا نہیں جا سکتا۔مثال کے طور پر ایک شخص کی مقرر عمراگر 80 سال ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کا کائونٹ ڈائون شروع ہو گیا۔ ہر نیا دن، آنے والا سال اس کی عمر میں کمی کا اعلان ہے۔ گویا کہ اس کی عمر کا سفر اس طرح ہورہا ہے:
¢†80،79،78،77،76،75،74،73،72، 71،70.......
اسی کائونٹ ڈائون (الٹی گنتی)کو قرآن کی مذکورہ سورہ میں خسران کہا گیا ہے۔یعنی عمر برف کی طرح پگھلتی جارہی ہے۔ انسان اگر اپنی عمر کومذکورہ چار قسم کے عمل کے لیے استعمال نہ کرے تو وہ ابدی گھاٹے میں ہے۔
واپس اوپر جائیں

اہل کتاب سے استفادہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (16:43)۔ یعنی اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔
مفسرین نے اہل الذکر سے اہل کتاب مراد لیے ہیں،یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھنے والے ہیں۔ مگر توسیعی معنی کے اعتبار سے اس سے مراد موجودہ زمانے کے جدید تعلیم یافتہ یہودی اور مسیحی علما ہیں۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ اہل کتاب وہ باتیں جانیں گے، جن سے مسلم علما زیادہ باخبر نہ ہوں گے، اور ان کے لیے موقع ہوگا کہ وہ اہل کتاب کی جدید تحقیقات سے اپنے دینی علم میں اضافہ کریں۔
اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں یہوداور مسیحی قوموں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ اپنے قدیم وطن سے نکل کر ڈائسپورا (diaspora)میں چلے گئے۔پھر ان کو موقع ملا کہ وہ مغرب کے جدید علوم کو سیکھیں۔جدید علوم سے باخبر ہونے کی بنا پر انھوں نے سائنسی دریافتوں کو جانا،اور ان کو اپنی مذہبی کتابوں کی شرح کے لیے استعمال کیا۔مگر مسلم اہل علم اس سےبے خبر رہے ۔
مثلاًجدید سائنسی دریافت کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابل فہم ہوگئیں۔ مگر یہ دریافتیں نیوٹرل انداز میں تھیں۔ چنانچہ یہودی علما اور عیسائی علما نے انطباقی انداز میںخدا کے وجود پر بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب یہ ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
خدا کی سائنسی شہادت پریہ کتاب یہودی اور عیسائی اہل علم کے مضامین پر مشتمل ہے۔
اسی طرح علم الانسان (Anthropology)اور علم الآثار (Archaeology)، وغیرہ جدید ڈسپلنز ہیں۔ ان کےذریعے جدید سائنسی اصول کی روشنی میں انسان کی قدیم تہذیب اور تاریخ، وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان ڈسپلنز کی روشنی میں یہودی اور عیسائی علما نےوہ تاریخی حقائق دریافت کیے ہیں، جو بائبل اور قرآن کے مشترک موضوعات تھے۔ مثلاً پیغمبر ابراہیم کا بیان، پیغمبر موسیٰ اور فرعون کاواقعہ، حضرت مسیح کی زندگی، یہاں تک کہ قرآن کے تاریخی استناد(historicity) پر بھی انھوں نے تحقیق کی، وغیرہ۔ ان تحقیقات کے ذریعے یہودی اور عیسائی علما نے مذہبی شخصیات اور واقعات کے تاریخی استناد کو ثابت کرنے کا کام کیا ہے۔ان یہودی اور مسیحی علما کی سائنسی تحقیقات کی بنا پر اب مذہبی تاریخ دیگر تاریخی حقیقتوں کی طرح ثابت شدہ حقیقتیں بن چکی ہیں۔
بائبل اور قرآن میں بنیادی موضوع مشترک ہیں، مثلا ًخدا کا وجود اور انبیاء کے حالات، وغیرہ۔اس بنا پر اہلِ کتاب کی یہ تحقیقات بالقوہ طور پر (potentially)اسلام کی تائید کا کام ہیں۔ یہ مسلم علما کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس پوٹنشل کو ایکچول بنائیں تاکہ اسلام کی صداقت جدید علمی معیار پر ثابت شدہ حقیقت بن کر انسانوں کے سامنے آسکے۔ فرانس کےڈاکٹر موریس بکائی (وفات1998ء) کی کتاب ـ"بائبل، قرآن اور سائنس " اس قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کے انگریزی ترجمے کا ٹائٹل یہ ہے:
The Bible, The Qur'an and Science by Dr. Maurice Bucaille
چوں کہ جدید علوم سے بے خبری کی بنا پر مسلم اہل علم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ اس لیےان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ یہودی اور کرشچن علما کی دریافتوں سے اسی طرح استفادہ کریں جس طرح وہ کوئی دوسرادینی علم حاصل کرتے ہیں۔تاکہ خدا کا دین وقت کے مسلّمہ علمی معیار پر مدلل ہوکر انسانوں کے مائنڈ کو ایڈریس (address) کرے۔
اعلان
سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کی جانب سے انڈیا کےمدارس اسلامیہ کو مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں ہدیے میں بھیجی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے تحت ادارہ کی جانب سے مسٹر آصف خان (9918578630) مدارس میں جاتے ہیں، اور وہاں کی انتظامیہ سےاجازت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ان مدارس کو کتابیں بھیجی جاتی ہیں۔ قارئین الرسالہ اور دوسرے خواہش مند حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آصف صاحب سے رابطہ قائم کرکے اس سلسلے میں ان کا تعاون فرمائیں۔ شکریہ
واپس اوپر جائیں

مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح
12
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں، یہاں تک کہ وہ اس کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور وہ زکاة ادا کریں۔ پھر جب وہ ایسا کریں تو وہ اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچالیں گے، سوااسلامی حق کے، ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر25، صحیح مسلم، حدیث نمبر22)
اس حدیث میں وہی بات بتائی گئی ہے، جو سورہ التوبہ کی ابتدائی آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔اس حدیث میں لوگوں (الناس) سے مراد قدیم عرب کے وہ مشرکین ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر تھے۔ ان کے اوپر براہِ راست پیغمبر کے ذریعہ اتمام حجت کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ لوگ دشمنی پر اڑے ہوئے تھے۔ اس لیے قانونِ الٰہی کے مطابق، ان کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا — وہ یا تو اسلام قبول کریں یا قتال کے لیےتیار ہو جائیں۔ مگر ابتدائی مخالفت کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا، اس لیے ان پر مذکورہ قانونِ الٰہی کے نفاذ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کی معاصر قوم کے سوا دوسری قوموں کے لیے ایسا قانون نہیں۔ دوسری قوموں کے لیے صرف پر امن دعوت ہے اور بس۔ پیغمبر کے بعد اب کسی بھی قوم سے اس قسم کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔
13
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنائے۔ اور ہمارے ذبیحہ کو کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے۔ تو تم اس کے ذمہ کو نہ توڑو (صحیح البخاری، حدیث نمبر391)۔
اس حدیث میں ذمہ سے مراد وہ امن یا امان ہے جو ایک مسلم معاشرہ میں کسی کو دیا جاتا ہے۔ ایک شخص اگر مسلمان ہونے کا دعوی کرے اور اسلام کے ظاہری احکام پر عمل کرے تو اس کو مسلم معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے گا۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اس کی مخفی نیت کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی حکم لگائے اور نہ کسی کو یہ حق ہوگا کہ وہ کسی شخص کو بطور مسلمان قبول کرنے کے لیے مذکورہ شرطوں کے سوا کسی اور عملی شرط کا مطالبہ کرے ۔
14
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا۔ اس نے کہا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو میں جنت میں چلا جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تم فرض نماز کو قائم کرو اور فرض زکاة ادا کرو۔ اور تم رمضان کے روزے رکھو۔ اعرابی نےکہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں ان پر نہ کسی چیز کو بڑھاؤں گا اور نہ کسی چیز کو گھٹاؤں گا۔ جب وہ واپس ہونے کو ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی ایک جنتی انسان کو دیکھنے کی خوشی حاصل کرنا چاہے وہ اس اعرابی کو دیکھ لے۔(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر1397، صحیح مسلم، حدیث نمبر14)
اس حدیث میں جو اعمال بتائے گئے ہیں وہ اسلام کے بنیادی اعمال ہیں۔ یہ اعمال جس آدمی کے وجود میں حقیقی طورپر شامل ہوجائیں وہ اس کی پوری زندگی میں سما جائیں گے، وہ اس کی پوری شخصیت کو اللہ کے رنگ میں رنگ دیں گے۔
15
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بتاتےہیں کہ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیے کہ پھرمیں اس کے بارے میں کسی اور سے نہ پوچھوں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر تم اس پر جم جاؤ (صحیح مسلم، حدیث نمبر38)۔
اللہ پر ایمان لانا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ میں نے شعوری فیصلہ کے تحت اللہ کو اپنا رب ومعبود بنا لیا۔ اس قسم کا شعوری فیصلہ پورے معنوں میں آدمی کے فکر وعمل کے لیے ایک کامل رہنما بن جاتاہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر آدمی سے تقاضا کرتاہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے فیصلہ کے اوپر پوری طرح قائم رہنا، اسی کا نام مذکورہ حدیث میں استقامت ہے۔ اور جنت انہیں لوگوں کے لیے ہے جو ایمان کے بعد عملی استقامت کا ثبوت دیں۔
16
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ (وہ دور تھا) اس لیےہم اس کی دھیمی آواز سن رہے تھے۔ مگر یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا۔ تو وہ اسلام کے بارےمیں پوچھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں دن میں اور رات میں۔ اس نے کہا کہ کیا میرے اوپر ان کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، الا یہ کہ تم نفل نماز پڑھو۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا کہ کیا میرےاوپر اس کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں، إلا یہ کہ تم نفل روزے رکھو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاة کے بارے میں کہا۔ اس نے کہا کہ کیامیرے اوپر اس کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں،إلا یہ کہ تم نفل صدقہ کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی لوٹا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم میں اس پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ اس پر کمی کرونگا۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آدمی کامیاب ہوگا، اگر اس نے سچ کہا۔ (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر46،صحیح مسلم، حدیث نمبر11)
اسلام میں متعین کچھ عبادتی فرائض ہیں۔ آدمی اگر سچا عبادت گزاربن جائے تو وہ فرض کے سوا زائد عبادت بھی کرنے لگتا ہے جس کو شریعت میں نفل کہاگیا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کی زندگی میں عبادت کی روح پوری طرح پیدا ہوجائے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طورپر ایسا ہوتاہے کہ اخلاق ومعاملات میں بھی اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ خدا کی نسبت سے وہ عابد بن جاتاہے، اور بندوں کی نسبت سے عادل۔
17
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبد القیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کون لوگ ہو۔ انہوں نے کہا کہ (ہم )ربیعہ( قبیلہ سے ہیں)۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اچھے آئے کہ نہ رسوا ہوئے اور نہ شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، ہم آپ کے پاس صرف حرام مہینے میں ہی آسکتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان (مخالف) قبیلہ مضر آباد ہے۔ پس آپ ہمیںکچھ بنیادی رہنمائی کردیں جس سے ہم ان لوگوں کو باخبر کردیں جو ہمارے  پیچھے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ ہم جنت میں داخل ہوجائیں۔ انہوں نے آپ سے مشروبات کے بارے  میں پوچھا ۔ آپ نے ان کو چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے ان کو ایک اللہ پر ایمان رکھنے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم جانتےہو کہ ایک اللہ پر ایمان رکھنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتےہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکاة ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔ اور آپ نے ان کو چار چیزوں سے منع فرمایا ٹھلیا (الحنتم) سے اور توبنی (الدباء) سے اور نقیر سے اور تارکول والے پیالے (المزفت) سے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو یاد رکھو اورتمہارے پیچھے جو لوگ ہیں ان کو بتادو (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر53،صحیح مسلم، حدیث نمبر17)
مدینہ میں جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو بااقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تو آپ نے مختلف عرب قبائل کے پاس تبلیغی وفود بھیجنا شروع کیا۔ اس کے بعدیہ ہوا کہ عرب قبائل مدینہ آکر آپ کی اطاعت قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ عرب کے تمام قبائل مدینہ کی ریاست کی ماتحتی میں آگئے۔ اس حدیث میں ایک اصول یہ ملتا ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ آدمی کے سامنے دو میں سے ایک کا انتخاب ہو — وہ یا تو اپنی مرضی سے ماتحتی قبول کرلے ورنہ اُس کو رسوائی اور شرمندگی کے ساتھ ماتحتی کو قبول کرنا ہوگا۔ ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ باعزت صلح کو اختیار کرلیا جائے اور بےنتیجہ جنگ کا طریقہ چھوڑ دیاجائے۔
نوٹ حدیث میںقدیم عرب کے چار برتنوں کا ذکر ہے جو شراب بنانے اور پینے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ "حنتم "شراب کی ٹھلیا۔ "دُباء" اندر سے کھوکھلا کیا ہوا کدو جو جگ کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔" نقیر" درخت کی جڑ کواندر سے کھوکھلا کر کے اس میں شراب رکھتے تھے۔ "مزفت" تارکول سے بنا ہوا شراب کا برتن— رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حرام پر روک لگانے کے ساتھ اسباب حرام پر بھی روک لگا دی۔
18
عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا— اس وقت صحابہ کی ایک جماعت آپ کے پاس تھی— مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے۔ اور تم چوری نہ کروگے اور تم زنا نہیں کروگے اور تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے اور تم کسی پر جھوٹا بہتان نہ لگاؤگے اور تم معروف میں نافرمانی نہ کروگے۔ پھر تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرےتو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کرلے اور وہ دنیا میں سزا پالے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔اور کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے، پھر اللہ اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کا معاملہ اللہ کے اوپر ہے، چاہے وہ اس کو معاف کرے یا وہ اس کو سزا دے۔ پھر ہم نے آپ سے اس پر بیعت کی۔(متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر18، صحیح مسلم، حدیث نمبر41)
اسلام میں جن چیزوں سے منع کیاگیا ہے ان سے اپنے آپ کو دور رکھنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اگر کبھی کوئی شخص نفس سے مغلوب ہوکر وقتی طورپر گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کو فوراً توبہ کرنا چاہیے۔ ایسے آدمی کو کبھی دنیا ہی میں کوئی تکلیف دے کر اس کے گناہ کو دھودیاجاتا ہےاور کبھی اس پر پردہ ڈال دیاجاتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ اللہ کےاوپر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندے سے آخرت میں کس طرح کا معاملہ فرمائے۔ یہ وقتی طورپر گناہ میں مبتلا ہونے کا معاملہ ہے۔ گناہ میں مستقل طورپر مبتلا رہنا اور توبہ کے بغیر مرجانا قابل معافی نہیں۔
19
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اسے سزاوار نہ تھا۔ اور اس نے مجھے گالی دی حالاں کہ یہ اس کے لیے سزاوار نہ تھا۔ پس اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ خدا مجھے دوبارہ نہ بنا سکے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی بار بنایا۔ حالانکہ دوسری بار پیدا کرناپہلی بار پیداکرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے۔ حالانکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں جس نے نہ جنا ور نہ وہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4974)۔
جب کوئی شخص خدا کے وجود پر شبہ کرتا ہے یا وہ اس کی صفات کمال کا انکار کرتاہے تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک جھوٹ ہوتا ہے۔ خدا کے تخلیقی مظاہر خدا کے وجود کا یقینی ثبوت ہیں۔ اسی طرح کائنات کی معنویت خدا کی صفات کمال پر گواہی دیتی ہے۔ ایسی حالت میں جو آدمی خداکو نہ پائے، جو خدا کی تخلیق میں خدا کے جلووں کو نہ دیکھے وہ یا تو اندھا ہے یا وہ جان بوجھ کر سرکشی کررہا ہے۔
20
ایک اور روایت میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ (اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ) انسان کا مجھ کو گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ کوئی میرا بیٹا ہے۔ حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میں کسی کو اپنی بیوی یا اپنا بیٹا بناؤں (صحیح البخاری، حدیث نمبر4482)۔
کسی انسان کے لیے یہ کہا جائے کہ اس کی ایک بیوی یا اس کا ایک بیٹا ہے تو یہ صرف ایک واقعہ کا اظہارہوگا۔ لیکن اس قسم کی بات خداوندِ عالم کے لیے سخت ترین بہتان ہے۔ خدا اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی کوئی بیوی یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ انسان ایک نامکمل مخلوق ہے۔ اس کو اپنی تکمیل کے لیے بیوی اور بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے مگر خدا اپنی ذات میں آخری حد تک ایک مکمل وجود ہے۔ ایک کامل اور مکمل خدا ہی موجودہ عظیم کائنات کو پیدا کرسکتا ہے۔
ایسی حالت میں کسی کو خدا کا بیٹا بتانا خدا کے رتبہ کو گھٹانا (degradation)ہے۔ اور اس قسم کا قول بلاشبہ بدترین قسم کا سب ّوشتم ہے۔
21
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ انسان مجھ کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہاتھ میں ہے معاملہ، میں رات اور دن کو پلٹتا ہوں (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر4826،صحیح مسلم، حدیث نمبر2246)
انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کو زمانہ کا نتیجہ سمجھ کر زمانہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ مگر اس قسم کے کلمات زمانہ پر نہیں بلکہ خدا پر پڑتے ہیں کیوں کہ زمانہ کوئی آزاد اور بااختیار چیز نہیں۔ وہ خدا کے حکم کے تابع ہے۔ یہ دراصل خدا ہے جو اپنے فیصلہ کو احوال زمانہ کی صورت میں ظاہر کرتاہے۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہئے کہ وہ ہر موقع پر خدا کی طرف رجوع کرے نہ کہ زمانہ کو ذمہ دار سمجھ کر شکایت کرے۔
22
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکلیف دہ بات کو سن کر اس پر صبر کرنے والا خدا سے زیادہ اور کوئی نہیں۔ لوگ خدا کی طرف بیٹے کی نسبت کرتے ہیں۔ مگر وہ انہیں معاف کرتا ہے اور انہیں رزق دیتا رہتا ہے(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر2099، صحیح مسلم، حدیث نمبر2804)
انسان اگر کسی تکلیف دہ بات پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔ کیوں کہ انسان کا اختیار بہت محدود ہے۔ محدود اختیار کی بنا پر اس کے لیے یہ موقع نہیں کہ وہ کسی سے بھر پور انتقام لے  سکے۔ لیکن خدا کامل اور لا محدود اختیار کا مالک ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی مرضی کے خلاف باتوں کو دیکھتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے۔ اس کا سبب خود خدا کا قائم کردہ قانونی امتحان ہے۔ خدا ہر ایک کو آزادی دے کر اس کا امتحان لےرہاہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہو، یہ آزادی بھی ختم ہونے والی نہیں۔
23
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان کجاوہ کے پچھلے حصہ کی سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، کیا تم جانتےہو کہ اللہ کا حق اپنے بندوں کے اوپر کیا ہے۔ اور بندوں کا حق اللہ کے اوپر کیا ہے۔
میںنےکہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریںاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا حق اللہ کے اوپر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔ پھر میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول کیا میں لوگوں کو اس کی خوش خبری نہ دے دوں۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کو خوش خبری نہ دو ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرلیں گے۔(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر 2856، صحیح مسلم، حدیث نمبر30)
نجات کا دارومدار ہر ایک کے لیے شرک کے انکار اور توحید کے اقرارپر ہے۔ مگر اس کا مطلب صرف زبان سے کچھ الفاظ کی تکرار نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ فکری انقلاب ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کو بدل دیتا ہے۔ آدمی اندر سے لے کر باہر تک اور قول سے لے کر عمل تک ایک ربانی رنگ میں رنگ جاتاہے۔ یہ تبدیلی اتنی گہری ہوتی ہے کہ اگر اتفاقی سبب کے تحت وہ اپنے عقیدہ کے خلاف کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس کی پوری شخصیت آخری حد تک تڑپ اٹھتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ غلطی اس کے لیے مزید اضافے کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اس حدیث میں بھروسہ کرنے (فَیَتَّکِلُوا) کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے وہ اس کو صرف رسمی عقیدہ کے معنی میں لے لیں گے، اور کچھ الفاظ کو اپنی زبان سے دہرا کر یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے آخرت میں اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنا لیاہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔
24
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوہ پر تھے اور معاذ بن جبل ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، انھوںنے کہا میں حاضر ہوں خدمت میں ۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، انھوں نے کہا میں حاضر ہوں خدمت میں۔ آپ نے تین بار اس طرح فرمایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ ضرور آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔ انھوں نے کہا اے خدا کے رسول، کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں کہ وہ خوش ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ بھروسہ کرلیں گے۔ پھر معاذ نے اپنی موت کے وقت اس کی خبر دی، گناہ سے بچنے کے لیے (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر128، صحیح مسلم، حدیث نمبر 32)۔
ایک سچائی جب کسی آدمی کے دل ودماغ میں آخری حد تک اتر جائے، وہ اس کے یقین واعتماد کا لازمی حصہ بن جائے، اس وقت جو کلمۂ اعتراف آدمی کی زبان سے نکلتا ہے اسی کا نام گواہی (شہادت) ہے۔ جو آدمی اس طرح کمال درجہ میں خدا اور رسول کی معرفت حاصل کرلے اور پھر اس کا سچا اعتراف کرے تو یہ اعتراف اس کی پوری شخصیت کا نمائندہ ہوتاہے۔ ایسا اعتراف اللہ کی نظر میں اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ اس کے اوپر جہنم کی آگ حرام کردی جاتی ہے۔
جو آدمی شہات کےدرجہ میں پہنچ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے، اس کا پورا وجود معرفت رب میں ڈھل جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا مزکیّٰ شخصیت (purified soul) بن جاتا ہے جو جہنم کی دسترس سے باہر ہوچکا ہو۔
25
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ کے اوپر ایک سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے۔ پھر میں آپ کے پاس آیا تو آپ جاگ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی بندہ جو یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر وہ اسی پر مر جائے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا، اگر چہ اس نے زناکیا اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ میں نے کہا،اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ میں نے کہا، اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی، ابوذر کی ناپسندیدگی کے باوجود۔ اور ابو ذر جب بھی اس حدیث کو بیان کرتے تو اس کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ابو ذر کی ناپسندیدگی کے باوجود۔ (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر5827، صحیح مسلم، حدیث نمبر94)
کلمۂ توحید کےاقرار سے مراد وہ اقرار ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کا نمائندہ بن کر ظاہر ہو، جس میں آدمی کا پورا وجود شامل ہو۔ ایسے اقرار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا فکری اور روحانی وجود مکمل طورپر توحید کی حقیقت میں ڈھل گیا ہے۔ یہی وہ ربانی انسان ہے جو آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے گا۔
حدیث میں وإن زنى وإن سرق (اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی)کا لفظ ہے، نہ کہ وإن یزنی وإن یسرق (اگرچہ وہ زنا کرتا رہے، اگرچہ وہ چوری کرتا رہے)کا لفظ۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد بھی مستقل طورپر زنا اور سرقہ میں مبتلا رہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتفاقی طور پر وقتی سبب سے کبھی اس قسم کا گناہ سرزد ہوجائے۔ اور پھر اس پر غلطی کا شدیداحساس طاری ہو اور پھر وہ توبہ اور گریۂ ندامت سے اپنے آپ کو پاک کرلے۔ اس حدیث میں خدا سے ڈرنے والے انسان کا ذکر ہے، اور جس انسان کے دل میں خدا کا ڈر سمایا ہو وہ اگر کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کرلے تو اس کے بعد اتنی شدت کے ساتھ اس کے اوپر گناہ کا احساس طاری ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ پاک انسان بن جاتاہے۔
26
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ عیسی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ اس کی بندی کے بیٹے ہیں اور وہ اس کا کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا۔ اور وہ اس کی طرف سے روح ہیں اور یہ کہ جنت اور جہنم حق ہے۔ اللہ ایسے آدمی کو جنت میں داخل کرے گا، اس عمل کے مطابق جس پر وہ تھا (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر 3435، صحیح مسلم، حدیث نمبر28)۔
ایمان دراصل معرفت کا نام ہے۔ یعنی آدمی کو خدائی حقیقتوں کی شعوری دریافت حاصل ہو۔ اور پھر وہ اس کو بھر پور طور پر اپنی زندگی میں شامل کرلے۔ ایسے ہی انسان کو آخرت کی ابدی جنتوں میں داخلہ ملے گا۔
27
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا۔ مگر میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا۔ آپ نے کہا کہ اے عمرو، یہ کیا ۔میں نے کہا کہ میں شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : کیا شرط لگانا چاہتے ہو۔ میں نے کہا:یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمرو، کیاتم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے کیے کو ڈھا دیتا ہے۔اور ہجرت اپنے سے پہلے کیے کو ڈھا دیتی ہے۔ اورحج اس سے پہلے کے کیے کو ڈھادیتا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر121)
ایمان انسانی شخصیت میں مکمل تبدیلی کا نام ہے۔ حقیقی ایمان کے بعد کوئی آدمی اپنی شخصیت کے اعتبار سے وہ نہیں رہتا جو کہ وہ اس سے پہلے تھا۔ یہ تبدیلی اس کی پوری شخصیت میں ایک مثبت انقلاب کا باعث بن جاتی ہے۔ایمان کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے، یعنی اللہ کا رنگ۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ انسان کے ذہنی ارتقا میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت جاگتی ہے۔ اب اس کا ذکر رب العالمین کا ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے— خدا کے یہاں بعداز ایمان حالت کا اعتبار ہے، نہ کہ قبل از ایمان حالت کا۔
واپس اوپر جائیں

دعا کی حقیقت

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دعا کچھ مقرر الفاظ کی تکرار کا نام ہے۔یعنی پراسرار نوعیت کے کچھ الفاظ ہیں، ان کو اگر صحیح تلفظ کے ساتھ انسان دہرا لے تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ دعا اسپرٹ کا نام ہے، جو دل کی گہرائیوں کے ساتھ بندے کی زبان سے نکلتی ہے۔ یہ دراصل اسپرٹ ہے، جو کسی دعاکو قابلِ قبول دعا بناتی ہے۔ دعا کے الفاظ داعی کی قلبی کیفیت کو بتاتے ہیں، وہ محض زبانی طور پر تلفظ کلمات کے ہم معنی نہیں ۔
دعا انسان کے داخلی احساس کالفظی اظہار ہے۔ دعا دراصل اس بات کا نام ہے کہخدا کی کائنات میں وہ بالکل بےبس ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان دریافت کرے کہ خدا قادر مطلق ہے، اور وہ عاجز مطلق۔خدا سب کچھ ہے، اور وہ بے کچھ ۔ اگر خدا نہ دے تو اس کو کوئی چیز ملنے والی نہیں۔ یعنی وہ خدا کے مقابلے میںاپنی حالتِ عجز کو دریافت کرے۔ اور یہ دریافت انسان کے لیے اس کے وجودکا حصہ بن جائے۔جب بندہ کو یہ بات دریافت کے درجے میں معلوم ہوجائے کہ اس کو وہی مل سکتا ہے، جس چیزکو اس کا خدا اسے دینے پر راضی ہوجائے۔ اس وقت بندہ کے اندر ایک بے پناہ تڑپ پیدا ہوتی ہے، اور وہ اپنی زبان سے اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں، اسی کا نام دعا ہے۔
ایک روایت کے مطابق، وہ دعا، دعا نہیں جو غفلت والے دل (قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ) سے مانگی جائے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3479)۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ بظاہر زبان سےدعا کے الفاظ تو دہرائے ۔ لیکن ا س کا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ دعا وہ ہے، جو سچی اسپرٹ کے ساتھ مانگی جائے، جس میں آدمی کی شخصیت اور دعا دونوں ایک دوسرے کے ترجمان بن گئے ہوں۔ آدمی کی شخصیت زبان حال سے انسان کی ترجمانی کرے، اور دعا زبان قال سے انسان کی ترجمانی کرے۔ دعا اس کی شخصیت ہو، اور اس کی شخصیت اس کی دعا۔
واپس اوپر جائیں

مکمل اسلام، ربانی اسلام

اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ قرآن میں کُونُوا رَبَّانِیِّینَ (3:79)تو آیا ہے، یعنی اللہ والے بنو۔ مگر نفذوا شرائع الاسلام(اسلامی شریعت کو امپوز کرو) کہیں نہیں آیا ہے۔ اسلام کا یہ تصور بلاشبہ قرآن و سنت میں ایک اجنبی تصور ہے۔یعنی یہ کہ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے، اور اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس کوزندگی کےہر شعبہ حیات میں پوری طرح نافذ کریں۔ کسی پیغمبر نے دین کا یہ تصور پیش نہیں کیا، اور نہ کسی پیغمبر نے یہ کہا کہ میرا کام خدا کے دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں کامل طور پر نافذ کرنا ہے۔ حالاں کہ تمام پیغمبروں کا اصل دین ایک تھا۔
آپ اس قسم کے کسی مسلم رہنما کی تحریر پڑھیے یا اس کی تقریر سنیے، تو لمبی تقریر اور لمبی تحریر کے باوجود ان کی باتوں میں اصل اسلام حذف ہوگا۔ اللہ سے محبت کی بات ، اللہ سے خوف کی بات، آخرت کے مواخذہ کی بات، جنت کے شوق کی بات، ذاتی تزکیہ کی بات ، دعوت الی اللہ کی بات، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام باتیں ان کے طویل کلام میں حذف ہوں گی۔ البتہ ساری دھوم اس بات پر ہوگی کہ فلاں طاقت اسلام کی دشمن ہے، فلاں طاقت اسلام کے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم کے اندر اسلاموفوبیا کا مزاج پیدا ہوگیا ہے، فلاں حکومت اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، و غیرہ۔
ایسا کیوں ہے کہ ان لوگوں کی باتوں میں مثبت اسلام غائب ہوجاتا ہے، اور دشمنان اسلام کے تذکرے کی دھوم ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریک کے لیے صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت ہی نہیںکیا۔ وہ ہمیشہ ایک ایسے مقام سے اپنے عمل کا آغاز کرتے ہیں جو اس دنیا میں کبھی اپنی منزل تک پہنچنے والا ہی نہیں۔
جب وہ اس بات کو اپنا نشانہ بناتے ہیں کہ اسلام کو مکمل نظریۂ حیات کےطور پر نافذ کرنا ہے۔ تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پولیٹکل اتھارٹی ہے جو ان کے کام میںمستقل رکاوٹ ہے۔ اس لیے وہ فوراً پولیٹکل اتھارٹی سے ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں تاکہ خود پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کریں۔ کیوں کہ ان کے مفروضہ نظریے کے مطابق ان کو نظر آتا ہے کہ پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کیے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت کا دستورانھیں اجازت دے کہ تم نان پولیٹکل میدان میں اپنا کام جاری رکھو، تو ان کو دکھائی دے گا کہ یہ تو ناقص اسلام ہے۔ ہم اپنے نظریے کے خلاف ناقص اسلام پر کیسے راضی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کا مفروضہ مکمل اسلام ان کو کبھی حاصل نہیں ہوتا، اور جو اسلام ان کو حاصل ہوتا ہے، وہ نامکمل دکھائی دیتا ہے۔
اگر دین کا یہ تصور درست ہو کہ دین ایک جامع نظام حیات کا نام ہے، اور دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا اہل دین کا مشن ہے تو یہ دین کا ایک ایسا تصور ہے جو سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اپنا مشن یہ بنائے کہ مجھے سورج کو مغرب سے نکالنا ہے، اور اس کو مشرق میں غروب کرنا ہے، تو ایسا مشن کبھی واقعہ نہیں بنے گا۔ یہی حال اس تصور دین کا ہے جس کو مکمل اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک انسانی تاریخ میں پیغمبروں کی رہنمائی میں دینی تحریک کاتسلسل جاری رہا۔ مگر اس پوری مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں کامل نظام کی حیثیت سے نافذ اور قائم ہوجائے۔ حتی کہ خاتم النبیین کے زمانے میں بھی نہیں۔ انبیاء اور انبیاء کے متبعین کی پوری تاریخ میں کوئی نہیں بتاسکتا ہے کہ اس قسم کا مفروضہ کامل نظام کبھی عملاً جاری و نافذ رہا ہے۔
عمر بن الخطاب (وفات 23 ہجری)اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انھوں نے اپنے ایک خطاب میں کہاإِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آیَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ - صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - قُبِضَ وَلَمْ یُفَسِّرْہَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّیبَةَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2276)۔یعنی سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی، وہ آیتِ ربا تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، اور آپ نے ہمارے لیے اس کی تفسیر نہیں بیان کی۔ پس تم ربا بھی چھوڑ دو، اور جس میں ربا کا شبہ ہو، اس کو بھی چھوڑ دو۔
اس طرح کے دوسرے بہت سے احکام ہیں، جن میں ہم کو بنیادی اصول تو ملتا ہے، لیکن ہم کو ان کی تفصیل نہیں ملتی۔ مثلاً خلیفہ کے انتخاب کا کوئی ایک متعین قرآن و سنت میں موجود نہیں۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتاہے کہ دین اصلاً انفرادی پیروی کا موضوع ہے، نہ کہ اجتماعی نفاذ کاموضوع۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت

قرآن میں اہل جنت کے تین گروہوں کا ذکراس طرح آیا ہے فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیرُ (35:32)۔ یعنی پس ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور ان میں سے کچھ بیچ کی چال پر ہیں۔ اور ان میں سے کچھ اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی سب سے بڑا فضل ہے۔
یہ تین درجات جنت کے لیے انسان کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت کے دروازے ہر ایک کے لیے کھول دیے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنت کے مختلف درجات ہیں ۔ کیوں کہ دنیا میں لوگوں کی کوششیں مختلف سطح پر ہوتی ہیں (اللیل، 92:4)۔یہ کوششیں وسیع تر تقسیم کے اعتبار سے تین درجات پر مشتمل ہیں۔یہ درجات دراصل عمل کے اعتبار سے ہیں۔یعنی جنت کے لیے عمل کی تین بنیادی سطحیں ہیں۔ اور یہ سطحیں اس اعتبار سے بنیں گی کہ کون کتنا زیادہ مواقع کو اویل (avail) کرے گا۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (1730-1810ء) اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ظالم لنفسہ وہ لوگ ہیں، جو عمل میں کوتاہی کرتے ہیں (مقصر فى العمل)۔ اور مُقْتَصِدٌ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں ، حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہوئی ( یعمل على ظاہر الکتاب ولا یفوز الى حقیقتہ)۔ اور سابق بالخیرات وہ ہیں، جن کی رسائی حقائق قرآن تک ہے،جو عمل بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو تعلیم بھی دیتے اور ہدایت بھی کرتے ہیں(من ضم الى العمل التعلیم والإرشاد)تفسیر مظہری، جلد8، صفحہ56۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی عملاً اس کی تیاری کرے۔چوں کہ انسان اپنی کوششوں کے اعتبار سے مختلف درجات میں بٹا ہوا ہوتاہے۔ وہ اسی اعتبار سے آخرت میں اپنا مقام پائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عمل کی دعوت

قرآن کی ایک آیت ہے، جس کو اکثر صلحائے امت نے سب سے زیادہ امید کی آیت بتایا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ قرآن کی اس آیت کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں عدم قَنوط پر زور دیا گیا ہے، یعنی غلطی سے جو احساسِ خطا پیدا ہوتا ہے، اس کو عمل مزید کی طرف موڑ دو۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان امید (hope)میں جئے، وہ ناامیدی سے دور رہے۔یعنی بندے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس سے خطا سرزد ہوئی ہے۔ لیکن رب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ مایوسی کا شکار نہ ہو ، ورنہ وہ بےعملی کا شکار ہوجائے گا۔اس کے برعکس،توبہ کا مطلب ہےنئے جذبہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عمل کی کوشش کرنا۔
اس آیت کا سب سے زیادہ اطلاق موجودہ زمانے پر ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں عمل کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔یعنی دورِ جدید میں پوری طرح عمل کی آزادی ہے۔ قدیم دور میںمذہبی جبر کی وجہ سے یہ موقع نہیں تھا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے احساسِ خطا کو اس طرح موڑ دے کہ وہ مواقع عمل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ وہ توبۂ نصوح کی اسپرٹ کو عمل نصوح کے لیے استعمال کرے۔ وہ اپنے احساسِ خطا کو عمل کثیر کے لیے استعمال کرے۔
قدیم زمانے میں انسان کے لیے صرف احساسِ خطا میں جینے کا موقع تھا۔ آج مواقع کی فراوانی کی بنا پر اس کے لیے یہ موقع پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کثرتِ مواقع کو کثرتِ عمل کے لیے استعمال کرے۔ یعنی جو موقع آپ سے کھویا گیا ، اس کو بھلا کر جو موقع ابھی باقی ہے، اس کو زیادہ سے زیادہ اویل کرو۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا تجربہ

عربی زبان میں ایک مقولہ ہے — بڑھاپا نوجوانی کا ختم ہوجانا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک نئے مرحلے کی تیاری کے لیے موقع ہے(الشیخوخة لیست فقدان الشباب، وإنما مرحلة جدیدة للفرصة)۔ بڑھاپے کا تجربہ خالق نے انسان کے لیے کیوں مقدر کیا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ تواضع (modesty) کی اہمیت کو سمجھے۔ انسان کے لیے ہر قسم کی ترقی ماڈسٹی کے ساتھ رکھ دی گئی ہے۔ مگر تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ انسان تعلیم و تربیت کے ذریعہ ماڈسٹی کی اہمیت کو دریافت نہیں کرپاتا۔ اس لیے خالق نے انسان کے لیے یہ مقدر کیا کہ وہ بڑھاپے کے پُرمشقت تجربہ سے گزرے، اور غور و فکر کے ذریعے ماڈسٹی کی حکمت کو دریافت کرے۔
زمین کی کشش (gravitational pull) ایک عجیب نعمت ہے۔ کشش کے نظام کے بغیر زمین پر انسان کی زندگی کا فروغ ممکن ہی نہ ہوتا۔ اس لیے خدا نے نیوٹن (1642-1727ء) کے واسطے سے انسان کے لیے ایپل شاک (apple shock) کا تجربہ مقدر کیا۔ تاکہ انسان زمین کی قوت کشش کو دریافت کرے، اور اللہ کی رحمت سے باخبر ہو کر اللہ کا شکر گزار بندہ بنے۔ اسی مصلحت کے تحت خالق نے انسان کے لیے بڑھاپے کا دور مقدر کیا ۔ بڑھاپا انسان کے لیے گویا ایپل شاک ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شاک کے بغیر گہری باتوں کو پکڑنہیں پاتا ۔ بڑھاپا انسان کے لیےزندگی کی حقیقت کو پکڑنے کا آخری دورہے۔ یعنی اللہ تعالی نے بڑھاپے کے طور پرانسان کو سچائی کی دریافت کا آخری موقع عطا کیا ہے ۔ تاکہ پُر مشقت تجربہ کے ذریعہ انسان کے اندر سوچ جاگے، اور انسان اپنی زندگی کو زیادہ درست انداز میں منظم کرے۔ بڑھاپا انسان کے لیے گویا توبہ اور اصلاح کا دور ہے۔ بڑھاپا اس لیے ہے کہ انسان اپنے آخری زمانے میں اس حکمت کو دریافت کرے، جس سے وہ اپنے ابتدائی دور میںبے خبر رہا ہے۔بڑھاپا سادہ معنی میں نوجوانی کا ختم ہوجانا نہیں ہے، بلکہ ایک نیا مرحلہ ہے۔ زندگی کا آخری موقع جس میں انسان خدا کی اسکیم آف تھنگ کو جانے اور اس کے مطابق عمل کرے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کی صورتِ حال

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دو نعمتیں ہیں جن میں بہت سےلوگ دھوکےمیں رہتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔
اس حدیث میں ایک قانون فطرت کو بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جس کو چیلنج کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں جب آرام و راحت کی صورتِ حال پیش آجائے تو ایسا انسان جمود (stagnation) کا شکار ہوجاتاہے۔ ایسا انسان فکری طور پر ڈل (dull) ہوجاتا ہے۔اس کے بر خلاف، جب انسان چیلنج کی صورتِ حال میں رہتا ہے تو اس کی سوئی ہوئی فطری صلاحیتیں بیداررہتی ہیں۔ چیلنج کی حالت انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتی ہے۔ اس کی وجہ سےایک عام انسان سپر انسان (superman)بن جاتاہے۔اس کےاندر ناموافق صورتِ حال کو مثبت طور پر مینج کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسا انسان ہر عسر کے اندر یسر تلاش کرلیتا ہے۔
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975ء) نے12 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام اسٹڈی آف ہسٹری (A Study of History)ہے۔ اس کتاب میں اس نے پوری دنیا کی 19 عظیم تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے۔ ا س جائزے میں اس نے بتایا ہے کہ تاریخ میں فطرت کا ایک نظام قائم ہے۔ جس کو اس نے چیلنج- رسپانس میکینزم کانام دیا ہے۔ یعنی حالات کے تحت ایک چیلنج پیش آتا ہے۔ اس کے بعد قوم کے اندر ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہلچل اس قوم کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر ترقی یافتہ قوم ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے۔ یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا ہے۔ یہ معاملہ قوم کا بھی ہے، اور فرد کا بھی۔
اس کوراقم الحروف کے ایک تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے ایک بار کہا کہ محمد کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ اس کو میں نے مثبت چیلنج کے طور پر لیا۔ اس طرح مجھےیہ موقع ملا کہ میں وہ کتاب لکھوں جس کا نام اسلام دورِ جدید کا خالق ہے۔
اسی طرح ایک مثال یہ بھی ہے کہ میرے پاس ایک نوجوان عالم دین رہتے تھے۔ ان کی ایک اہم صفت یہ تھی کہ وہ میرے اوپر خوب تنقیدیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے جاب کے لیے یو اے ای (UAE)چلے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: انا ناقد اکبر ناقدٍفی الہند (میں ہندستان کے سب سے بڑے ناقد پر نقد کرنے والا ہوں) ۔ان کی تنقید وں سےمیرے ذہن کے بند گوشے کھلتے تھے، نئی نئی باتیں ذہن میں آتی تھیں، وغیرہ۔
چیلنج کی صورتِ حال انسانی نیچرکے مطابق ہے۔ اس کے برعکس، آرام و راحت کا راستہ انسان کی نیچرکےمطابق نہیں ہے۔میں ایک مرتبہ احمد آباد کے سفر میں ایک فیکٹری دیکھنے گیا۔ نئی امپورٹڈ مشینیں اس فیکٹری میں لگی ہوئی تھیں۔ فیکٹری کے نوجوان مالک نے بات چیت کے دوران ایک جملہ بولا تھااپنی تو لیمیٹشن (limitation)آجاتی ہیں مینجمنٹ سائڈ پر۔ اس جملے نے میرےمائنڈ کو ٹریگر کیا۔ میں نے سوچا کہ اسی طرح ہر انسان کے لیے اس کی ترقی کی لیمیٹشن (limitation) آجاتی ہے ، جب اس کے لیے چیلنج کا ماحول باقی نہ رہے۔
کسی انسان کی زندگی میں چیلنج کا ماحول کیسے پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان دو صفتوںیعنی کامل سادگی اور مکمل قناعت کا حامل ہو، اس کی زندگی میں یہ انقلاب آتا ہے۔ مکمل سادگی کامل عزم کی علامت ہے۔یہ ایک بامقصد زندگی کی علامت ہے۔ عدم قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر گہرائی کا فقدان ہے، اور قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آدمی گہری غور وفکر کا مالک ہے۔ اس بنا پروہ مادی چیزوں کے بجائے معنوی چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کو پانے کا طریقہ ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ المَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2317)۔یعنی یہ کسی آدمی کے اچھے اسلام میں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چیز کو ترک کرے۔ دوسرے الفاظ میں ، وہ غیرمتعلق چیزوں کو ترک کردے تاکہ وہ سادہ زندگی ، اونچی سوچ کا طریقہ اختیار کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

بائی ٹائم اسٹریٹجی

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَفْضَلَ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ اللہِ(مسند البزار، حدیث نمبر 6297)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا بے شک افضل عبادت اللہ کی جانب سے کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ ایک شارح نے اس حدیث کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے بترک الشِّکایة من البلاء النازل(شرح مصابیح السنةلابن الملک، حدیث نمبر1602)۔ یعنی نازل شدہ مصیبت کے موقع پر شکایت کو ترک کرنا۔
موجودہ زمانے میں ایک اسٹریٹجی وجود میں آئی ہے۔ اس کو بائنگ ٹائم (buying time) کہا جاتا ہے۔یعنی کسی کام کےلیے وقتی طور پر تاخیر کرنا تاکہ اپنی پوزیشن کو ٹھیک کیا جاسکے
to delay an event temporarily so as to have a longer time to improve one's own position.
اس کا مطلب ہے وہی کام کرنا، جو آپ کے لیے ممکن ہو۔ زندگی میں جذباتیت کو ترک کرکے حقیقت پسند بننا۔اگر انتظار کی ضرورت ہو تو جلد بازی کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائےانتظار کرنا اور صبر سے کام لینا۔ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ نے قریش مکہ کے ساتھ یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلیا تھا۔ یہ جدید اصطلاح کے مطابق بائی ٹائم اسٹرٹیجی تھی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بائی ٹائم اسٹرٹیجی کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(48:27)۔ یعنی پس اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہیں جانی۔ مفسر البیضاوی (وفات 1292ء)نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے من الحکمة فی تأخیر ذلک (تفسیر البیضاوی، جلد5، صفحہ131)۔ یعنی اس تاخیر میں جو حکمت ہے۔
اس صلح کے ذریعہ قریش سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ طے پایا اور نتیجۃً دعوت الی اللہ کے لیے موافق فضا پیدا ہوئی۔ اس صلح کےذریعہ آپ نے اپنے لیے تیاری کا موقع حاصل کیا، اور اتنی زیادہ تیاری کرلی کہ کسی جنگ کے بغیر آپ کو فریق ثانی کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوگئی۔ اسی لیے اس صلح کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔یعنی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیے بغیر بائی ٹائم اسٹرٹیجی کے ذریعے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل کرنا۔
واپس اوپر جائیں

بات کرنے کا طریقہ

گفتگو کرنے کا ایک صحیح طریقہ ہے، اور ایک بے فائدہ طریقہ۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کی بات سن کر سننے والے کو اس سے کوئی ٹیک اوے (takeaway)ملے، یعنی کوئی واضح بات جس کو لے کر وہ آپ کی مجلس سے اپنے گھر جائے۔ ایسی گفتگو صحیح گفتگو ہے۔یعنی جب سننے والے سے پوچھا جائے کہ تمھارے لیے اس کا ٹیک اوے کیا تھا۔اس کے جواب میں اگر سننےوالے نے آپ کی گفتگو سے کوئی نئی بات پائی ہو، اور وہ کوئی واضح اور متعین بات کہتا ہےتو آپ کی گفتگو کا طریقہ صحیح تھا۔ ٹیک اوے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں آپ کو ذہنی غذا (intellectual food) ملتی ہے۔
اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ آپ نے لمبی بات کہی یا لمبی تقریر کی۔ لیکن جب سننے والے سے پوچھا جائے کہ تمھیں اس بات یا تقریر سے کیا ٹیک اوے ملا۔ اور وہ اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے تو ایسی گفتگو کا نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ، اور نہ بولنے والے کو۔
صحیح گفتگو وہ ہے، جس سے سننے والے کو ٹیک اوے ملے۔ جس کو سن کر آدمی کا ذہن کھلے ، جس کو سن کر آدمی کو کوئی واضح پوائنٹ حاصل ہو، جس کو سن کر آدمی جب لوٹے تو ایک متعین بات سمجھ میں آئی ہو۔ اس کوئی نئی بات دریافت ہوئی ہو۔ صحیح گفتگو وہ ہے جو کہنے والے کی طرف سے سوچ سمجھ کر کہنے کے ہم معنی ہو، اور سننے والے کے لیے وہ کسی نئی بات کی دریافت بن جائے۔ جس گفتگو میں یہ صفت نہ پائی جائے، وہ لَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ (4:114) کا مصداق ہے۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔
جن لوگوں کے اندر سنجیدگی نہ پائی جاتی ہو وہ الفاظ بولتےہیں، لیکن ان کے الفاظ گہری معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ ایسے کلام سے لوگوں کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔سچا انسان وہ ہے، جو کسی سے گفتگو کے وقت یہ محسوس کرے کہ اس کی گفتگوزیادہ مؤثر گفتگو نہیں ہے، وہ بے فائدہ کلام ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ لایعنی باتوں سے پرہیز کرے،اور اپنے آپ کو غور وفکر میں لگائے۔
واپس اوپر جائیں

ڈائری 1986

27جنوری 1986
پروفیسر علی اشرف(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی) سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا: میں ہر مہینہ باقاعدہ الرسالہ پڑھتا ہوں۔اس سے پہلے 1980ءمیں آپ کی تمام کتابیں خرید کر پڑھ چکا ہوں۔ بعض کتابیں ایک سے زیادہ بار بھی پڑھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تحریروں میں جو فکر پیش کیا ہے اس سے مجھے صد فی صد اتفاق ہے۔اب تک کے مطالعے میں مجھے آپ کی صرف ایک بات کھٹکی ہے اور وہ آپ کا وہ مضمون ہے، جس کاعنوان ہے: حسنین: تاریخ کے دو علامتی کردار(ظہور اسلام، صفحہ 90)۔
اس مضمون کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا گویا آپ یہ تلقین کر رہے ہیں کہ انسان کو برائی (evil) کے مقابلے میں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔اس کو برائی کے مقابلے میں اپنا سر جھکا کر بیٹھ جانا چاہیے۔
میں نے کہا کہ مجھے برائی کے خلاف اقدام کرنے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسے اقدام پراعتراض ہے جب کہ اقدام سے نقصان ہوجائے مگر برائی وہیں کی وہیں باقی رہے۔
میں نے کہا کہ میرا اختلاف برائی کے خلاف اقدام سے نہیں ہے بلکہ میرا اختلاف ایسا اقدام سے ہے جو نتیجہ خیز ہونے والا نہ ہو۔قبل از وقت اقدام یا تیاری کے بغیر اقدام ہمیشہ بے فائدہ ہوتا ہے۔اور اقدام کی یہی وہ قسم ہے جس سے مجھے اختلاف ہے۔برائی کے خلاف عملی اقدام صرف اس وقت کرنا چاہیے جب کہ اقدام کے ضروری اسباب فراہم ہوگئے ہوں۔بصورتِ دیگر برائی کے خلاف نصیحت اور تلقین کی سطح پرکام کیا جانا چاہیے، نہ کہ عملی اقدام کی سطح پر۔
پروفیسر علی اشرف صاحب نے میری اس وضاحت سے اتفاق کیا۔
28جنوری 1986
مسز شکیلہ خاں(پیدائش1940ء) 1980سے الرسالہ پڑھتی ہیں، اوراس کے ساتھ ان کے شوہر آ ر یو خان بھی۔انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ کے کئی پرچے منگاتی ہوں اور ان کو دوسروں تک پہنچاتی ہوں۔میں جانتی ہوں کہ الرسالہ بہت اچھی چیز ہے ،مگر کبھی بہت اچھی چیز بھی لوگوں کو اچھی دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ گنبد کھڑا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ اینٹیں اس کی نیومیں دفن ہونے پر راضی ہوں۔انہوں نے اپنے بارے میں تاثر کے ساتھ کہا کہ’’ میں وہ نیو(foundation) بننا چاہتی ہوں جس پر کوئی گنبد کھڑا ہو سکے‘‘۔
انہوں نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت حقیقت پسند (realist)ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک مسئلہ پیدا ہوا ۔میں بہت جھنجھلائی۔میرے شوہر نے سمجھا یا کہ اس وقت ہم صرف صبر ہی کر سکتے ہیں۔جو کچھ ہو سکتا ہے وہ بعد کو ہو سکتا ہے۔ان کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا کہ ’’بعد کو سب کچھ ہوگا مگر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔اسی طرح ایک بار وہ اپنے ایک رشتے دار کے یہاں گئیں۔وہاں انہیں کچھ دن ٹھہرنا تھا۔وہاں لوگوں کے رہنے سہنے کے طریقے انہیں غلط نظر آئے۔اس پر انہیں غصہ آیا۔وہ چاہتی تھیں کہ لوگوں سے لڑ جائیں۔ان کے شوہر نے کہا کہ یہ تمہارا گھر نہیں ہے،یہ دوسرے کا گھر ہے۔یہاں تم کو برداشت کرکے رہنا ہوگا۔اس گھر میںکچھ نہیں بدلے گا، اگر بدلوگی تو تم بدلوگی۔اسی طرح انہوں نے اپنے شوہر کی ایک بات ان الفاظ میں نقل کی:’’اگر اپنی غلطی کو درست ثابت (justify)کروگی تو کبھی ترقی نہیں کروگی۔ترقی کرنے کے لیے اپنی غلطی کو ماننا پڑتا ہے‘‘۔
29جنوری 1986
27جنوری 1986 کو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز(تغلق آباد) میں مسٹر اصغر علی انجینئر کی ایک تقریر تھی۔اس کا عنوان تھا:
Islam and Contemprorary Problems
مسٹر اصغر علی انجینئر ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں حالات بدل گئے ہیں،اس لیے اسلام کی از سرنو تعبیر(بالفاظ دیگر نظرثانی) ہونی چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن منزل (goal) کی بات نہیں کرتا بلکہ صراط کی بات کرتا ہے۔صراط کا مطلب ان کے نزدیک پراسس ہے۔گویا اسلام میں کوئی حکم آخری طور پر طے شدہ نہیں ہے۔مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ صراط کے معنی پراسس کیسے ہیں۔انہوں نے اس کی کوئی لغوی دلیل نہیںدی۔حالانکہ دلیل کے بغیر مجرد بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک گھنٹے کی تقریر میںانہوں نے کوئی ایک بھی ایسی واضح مثال نہیں دی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حالات میں ایسا فرق ہو گیا ہے کہ اب اسلامی حکم میں تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام کے نکاح وطلاق کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں اسلام میں فری انکوائری کے اصول کو رائج کرنے پر زور دیا۔یہ ایک بڑا عجیب تضاد ہے۔مقرر موصوف نے جو مثال پیش کی اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں عمل(practice) غیراسلامی ہو گیا ہے۔مگر اس کی بنیاد پر وہ اسلام کے اصولوں کے بارے میں فری انکوائری کی وکالت کر رہے ہیں۔جب کہ امرواقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی خرابی اصول پر عدم پابندی سے ہوئی ہے ۔تو فری انکوائری اس بات پرہونی چاہیے کہ اصول اور عمل میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے، نہ یہ کہ اصولوں پر فری انکوائری کا عمل کیا جائے۔
30جنوری 1986
آج اتفاقاً لال قلعہ (دہلی) کی طرف جانا ہوا۔اس عظیم قلعہ کوپانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں (1592-1666ء)نے بنوایا تھا۔قلعہ کی وسیع عمارتیں اور 75 فٹ اونچی دیواریں سرخ پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ان کو دیکھ کر عجیب تاثر قائم ہوتا ہے۔
تین سو سال پہلے یہ قلعہ دنیا کی ایک طاقتور سلطنت کا مرکز تھا۔’’سلطان دہلی کو اس وقت کتنی بڑی حیثیت حاصل ہوگی‘‘ لال قلعہ کو دیکھ کر میری زبان سے یہی جملہ نکلا۔مگر عجیب بات ہے کہ لال قلعہ بننے کے بعد ہی مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔اس کی وجہ افراد کی کمی تھی۔مغل حکمرانوں کے پاس پتھر کافی مقدار میں تھے،جن سے وہ ایک عظیم قلعہ بنا سکیں،مگر ان کے پاس جاندار افراد نہ تھے جن سے وہ ایک عظیم سیاسی نظام بنا سکیں۔
اس کے بعد شاہی خاندان میں اقتدار کی لڑائیاں شروع ہو گئیں۔شاہی افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔صوبائی حاکموں میں مرکز سے بغاوت کا رجحان پیدا ہوگیا۔اس صورت حال سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا۔وہ دھیرے دھیرے پورے ملک پر قابض ہو گئے۔
لال قلعہ کو دیکھ کر یہ سب باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔میں نے اپنے دل میں کہا:قوم کے افراد میں اگر جان نہ ہو تو پتھروں کی دیواریں قوم کو بچانے والی ثابت نہیں ہوتیں۔جس قلعہ کو مغل حکمرانوں نے اپنے ابدی اقتدار کی علامت سمجھا تھا وہ ان کے اقتدار کا قبرستان بن کر رہ گیا— طاقت کا اصل راز جاندار افراد ہیں اور یہی وہ متاع ہے جودنیا میں ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
31جنوری 1986
قرآن میں حکم دیا گیا ہےکہ قرآن کی آیتوں پر غور کرو۔اس سے واضح ہے کہ قرآن کا ایک حصہ سطور (lines) میں ہے اور اسی کا دوسرا حصہ بین السطور (between the lines)میں۔اس بین السطور والے قرآن کو صرف غور کرکے پایا جا سکتا ہے۔اگر قرآن کا ایک حصہ غیرملفوظ طور پر اس کے بین السطور میں نہ ہوتا تو قرآن پر غور کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔
مجھ پر ایک تجربہ گزرا۔یہ تجربہ ایک مثال ہے جو اس معاملے کو واضح کر رہا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو قسم کے پانی بنائے۔ایک میٹھا اور دوسرا کھاری(فاطر،35:12) ۔اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ زمین میں مختلف پھل پیدا ہوتے ہیں۔سب کو ایک پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔مگر سب برابر نہیں۔ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے(الرعد،13:4)۔
ان آیتوں پر غور کرتے ہوئے اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ان میں ایک ایسا مفہوم پارہا ہوں جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں۔یعنی اللہ کی ایک نئی صفت۔میرے ذہن میں آیا کہ انسان کسی چیز کے مزے کو چکھ کر جانتا ہے۔آدمی اگر چیز کو زبان سے نہ چکھے تو وہ اس کے مزے کو نہ جان سکے۔
خدا کھانے پینے سے ماورا ہے۔خدا نے کبھی کسی چیز کو نہیں چکھا۔پھر اس کو چیزوں کا مزا کیسے معلوم ہوا۔یہ غور کرتے ہوئے اچانک مجھ پر خدا کی ایک نئی صفت منکشف ہوئی۔یہ صفت کہ وہ چکھے بغیر چیزوں کے مزے کو جانتا ہے۔خدا اس انوکھی طاقت کا مالک ہے کہ وہ چیزوں کو انسان کی طرح زبان سے نہ چکھے،اس کے باوجود وہ پوری طرح جانے کہ کس چیز کا مزہ کیا ہے اور کس چیز کا مزہ کیا۔
1فروری 1986
3ستمبر1984کو مسٹرمسعود احمد بنارسی سے میری ایک گفتگو ہوئی تھی۔گفتگو کا موضوع سکھوں کاآزاد صوبہ (پنجابی صوبہ) تھا۔میں نے کہا کہ آزاد پنجابی صوبہ کبھی نہیں بنے گا۔انہوں نے اس سے سخت اختلاف کیا۔انہوں نے کہا کہ تین سال میں سکھوں کا آزاد پنجابی صوبہ ضرور بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر میرا یہ اندازہ صحیح نہیں نکلا تو میں آپ کو ایک لاکھ روپے ادا کروں گا۔انہوں نے اپنے قلم سے میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Within three years Punjab will have an independent Khalistan. Bet Rs. one lakh.
آج ہندوستان ٹائمس (1فروری 1986) میں،میں نے مسٹر خشونت سنگھ کا ایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھے وہ واقعہ یاد آیا جو اوپر نقل کیا گیا ہے۔مسٹر خشونت سنگھ کے مضمون کا عنوان ہے:بیوقوفوں کی ایک قوم(A Nation of Fools) ۔اس مضمون میں مسٹر خشونت سنگھ نے اس پوری سیاست کو احمقانہ سیاست بتایا ہے۔انہوں نے پنجاب کی تازہ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
I disapprove of their actions. This is no kar seva but kursee-seva. (Gurcharan Singh) Tohra (d. 2004) wants to stick to his kursee, they want it for themselves.
انہوں نے پنجاب کی سیاست پر اردو کا حسب ذیل شعر چسپاں کیا ہے:
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے ادھر بھی عقل کے دشمن ادھر بھی دیوانے
3فروری 1986
آج کانپورکے دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔ایک ندوی عالم تھے اور دوسرے تاجرتھے۔ وہ دونوں تبلیغی جماعت کے چلہ میں گجرات جا رہے ہیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہاکہ اس وقت امت میں دو قسم کے کام چل رہے ہیں۔ایک اصلاحی اور دوسرا مطالباتی۔پہلے کو داخلی انداز کار اور دوسرے کو خارجی انداز کار کہہ سکتے ہیں۔قرآن وسنت سے جہاں تک میں سمجھا ہوں،صرف داخلی انداز کار ہی صحیح انداز کار ہے۔خارجی انداز کار کی تصدیق قرآن نہیں کرتا۔
پھر میں نے کہا کہ داخلی انداز کار کا اصول اگر مسلمانوں کی کسی جماعت میں پایا جاتا ہے تووہ صرف تبلیغی جماعت ہے۔تبلیغی جماعت، احتجاج اور مقابلہ اور تجاویز کا طریقہ اختیار نہیں کرتی جو موجودہ زمانہ میں دوسری مسلم جماعتیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہ تمام تر مسلمانوں کی داخلی اصلاح پر زور دیتی ہے۔اور داخلی اصلاح ہی بلا شبہ اصل قرآنی کام ہے۔
میں نے کہا کہ مستقبل میں اگر کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو صرف داخلی انداز کار سے نکل سکتا ہے۔ خارجی انداز کار سے قطعاً کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔خواہ اس قسم کی تحریکیں ایک ہزار سال تک چلتی رہیں۔
4فروری 1986
دومسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ ایس آئی ایم آئی(SIMI) سے تعلق رکھتےہیں۔پھر انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلم مسائل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ کون سے مسلم مسائل؟ انہوں نے کہا کہ مثلاً یہ کہ:
’’ہندوستان کی کورٹ ہمارے شرعی قانون کو چیلنج کرنا چاہتی ہے‘‘
میں نے کہا کہ آپ کے اس جملے میں دو غلطیاں ہیں۔آپ کورٹ کے بارےمیں فرما رہے ہیں کہ وہ شرعی قانون کو بدلنا چاہتی ہے۔حالانکہ کورٹ کا یہ کام ہی نہیں۔قانون کو بدلنا قانون ساز اسمبلی کا کام ہے، نہ کہ کورٹ کا۔کورٹ تو صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ بنے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دے۔وہ قانون کومنطبق کرنے کے لئےہوتی ہے، نہ کہ حقیقتاً قانون کو بنانے کے لیے۔
دوسری بات یہ کہ عدالت کا کوئی اقدامی رول نہیں ہوتا۔یعنی وہ خود سے آکر آپ کے اوپر کوئی قانون نافذ نہیں کرتی۔آپ جب اس کے یہاں جا کر کہتے ہیں کہ فلاں قانون کے مطابق میرے معاملے کا فیصلہ کرو تو وہ شہادتوں کو سننے کے بعد متعلقہ قانون کو آپ کے معاملے پرمنطبق کر دیتی ہے۔
مثال کے طور پر شاہ بانو کے کیس میں خود مذکورہ مسلم خاتون نے عدالت سے کہا کہ میرے معاملے میں کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ125 کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو اس نے فیصلہ دیا۔اس کے برعکس، اگر مسلم خاتون یہ دعوی کرتی کہ میرے معاملے میںمسلم شرعی قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو کورٹ مسلم پرسنل لا کے مطابق فیصلہ دیتی۔اس معاملے میں واضح طور پر مسئلہ کسی کورٹ کی طرف سے نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ خود مسلمانوں کی طرف سے پیدا ہوا ہے جو اپنے معاملات کا فیصلہ ملکی قانون کے تحت کرانا چاہتے ہیں۔
5فروری 1986
نظام الدین(نئی دہلی) میںہمارے دفتر سے ملا ہوا ایک پارک ہے۔اس پارک میں ایک لمبا سیمل کا درخت (silk-cotton tree) ہے۔اس درخت کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔اس میںروزانہ رات کو گدھ آ کر بیٹھتے تھے۔لوگوںنے پٹاخہ چھوڑ کر ان کو بھگانے کی کوشش کی،مگر وہ نہیںبھاگے۔ آخرکار کارپوریشن نے اس کا حل یہ نکالا کہ درخت کی تمام شاخیں کاٹ دی گئیں۔
یہ واقعہ1985ء کے آغاز میں ہوا۔شاخیں کاٹنے کے بعد درخت کا منظر یہ تھا۔تاڑ کی مانند ایک لمبا خالی تنا فضا میں کھڑا ہوا دکھائی دیتا تھا۔البتہ کاٹنے والوںنے یہ کیاکہ بالکل اوپر ایک آخری شاخ چھوڑ دی۔یہ شاخ تقریباً دو میٹر لمبی تھی۔
اب اس درخت کے کٹنے پر ایک سال پورا ہو چکا ہے۔آج اس بظاہر خشک تنے کا منظر دوسرا ہے۔قدیم شاخوں کے کٹنے کے بعدنیچے سے اوپر تک تنے کے چاروں طرف نئی شاخیں اور پتیاں نکلیں،یہاں تک کہ وہ ان سے ڈھک گیا۔اب وہ خشک تنا نہیںبلکہ وہ ایک پورا درخت ہے جو سرسبزو شاداب حالت میں کھڑا ہوا ہے۔تاہم اس شادابی میں ایک استثنا ہے اور وہ اسی شاخ کا ہے جس کو کاٹنے والے نے چھوڑ دیا تھا۔یہ شاخ آج بھی ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ایک سال پہلے تھی۔ایک پتلی سی لکڑی اور اس کے اوپر چند سوکھی پتیاں۔درخت کی نئی شاخیں خوب سرسبزوشاداب نظر آتی ہیں،مگر یہ قدیم شاخ ایک مرجھائی ہوئی موٹی ٹہنی کا منظر پیش کرتی ہے۔
یہ قدرت کا ایک سبق ہے۔اس دنیا میں جس کو کاٹا جائے وہی دوبارہ ظہور کرتا ہے۔جس کی سرسبزی کو مٹایا جائے وہی زیادہ سرسبزو شاداب ہو کر زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔یہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاںنہیں میں ہے کا امکان ہے۔جہاں موت کے اندر زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔
6فروری 1986
ڈاکٹرشعیب احمد قاسمی(پرنسپل طیبہ کالج جے پور) ملاقات کے لیےتشریف لائے۔انہوں نے بتایا کہ جے پور میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔اس کا ایک جلسہ ہوا اور اس کی صدارت کے لیے ہندوستان کے ایک مشہور ترین عالم کو بلایا گیا۔
اس جلسہ میں ادارہ کے ذمہ دار نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ دوسرے کورسوں کے علاوہ ٹیکنیکل کورس بھی رکھیں اور اس کے ذریعے ٹیکنیشین(technicians) تیار کریں۔مذکورہ عالم تقریر کے لیے کھڑے ہوئےتو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہاں ٹیکنیشین (technicians) کی نہیں بلکہ اکسپرٹ(experts)کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ مولانا کی یہ تقریر بہت پسند کی گئی۔
میں نے کہا کہ یہ محض ایک خطابت ہے۔یہ کوئی گہری بات نہیں۔حضرت عمر اور حضرت علی دونوں جلیل القدر صحابی تھے۔مگر حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ میں معاملات درست تھے اور حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں معاملات بگڑ گئے۔کسی نے حضرت علی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ حضرت علی نے جواب دیا:’’عمر کے ساتھی میرے جیسے لوگ تھے،میرے ساتھی تمہارے جیسے لوگ ہیں‘‘(تاریخ ابن خلدون، جلد1، صفحہ 264)۔باالفاظ دیگر عمر کے زمانہ میں’’اکسپرٹ‘‘ کے ساتھ’’ٹیکنیشین‘‘ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اب ’’اکسپرٹ‘‘ ہیں مگر’’ٹیکنیشین‘‘ موجود نہیں۔ایک اکسپرٹ کے تحت لاکھوں ٹیکنیشین درکار ہوتے ہیں تب ایک نظام چلتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بربادی کا سب سے بڑا سبب مذکورہ بالا قسم کی پرجوش تقریریں ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان یونیورسٹی بناتے ہیں، مگر وہ ابتدائی سطح پر جدید تعلیم کا انتظام نہیں کرتے۔ وہ خلافت اور حکومت قائم کرنے کے لیے دوڑتے ہیں،مگر معاشرہ تیار نہیں کرتے۔عالمی انقلاب کی باتیں ان کو بہت پسند آتی ہیں،مگر افراد کے اندر انقلاب لانے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا ہر آدمی’’گنبد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچتا ہے،مگر’’بنیاد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچنا انہیں کم تر درجہ کی بات معلوم ہوتی ہے۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے ہوائی قلعے تو خوب بن رہے ہیں،مگر حقیقی قلعہ تعمیر کرنے میں وہ اب تک کامیاب نہ ہو سکے۔
7فروری 1986
ایک مضمون نظر سے گزرا۔اس کا عنوان تھا’’عمامہ اور اتباع سنت‘‘۔مضمون نگار نے محدث ابو بکر بیہقی (وفات 1066ء) کی شعب الایمان کے حوالے سے عمامہ کی فضیلت میں ایک روایت نقل کی ہے۔پھر اطاعت رسول اور اتباع سنت کی اہمیت ثابت کرتے ہوئے عمامہ باندھنے پر زور دیا ہے۔
عمامہ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً ثابت ہے۔لیکن قولاً کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جس سے عمامہ پہننے کی اہمیت ثابت ہوتی ہو۔عمامہ کی فضیلت میں جو بھی روایتیں ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں، وہ سب کی سب غیر ثابت شدہ ہیں،ایک بھی صحیح حدیث نہیں۔سنن الترمذی کے شارح عبدالرحمن مبارکپورى لکھتے ہیں : لَمْ أَجِدْ فِی فَضْلِ الْعِمَامَةِ حَدِیثًا مَرْفُوعًا صَحِیحًا وَکُلُّ مَا جَاءَ فِیہِ فَہِیَ إِمَّا ضَعِیفَةٌ أَوْ مَوْضُوعَةٌ(تحفة الأحوذی للمبارکفورى، جلد 5، صفحہ 339)۔ یعنی، عمامہ کی فضیلت میں کوئی صحیح مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی، اس تعلق سے جو حدیثیں بھی ہیں، وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔
مثلاً ایک روایت یہ ہے:عَلَیْکُمْ ‌بِالْعَمَائِمِ فَإِنَّہَا سِیمَاءُ الْمَلَائِکَةِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13418)۔ یعنی، تم پر پگڑیاں پہننا لازم ہے،کیوں کہ یہ فرشتوں کی پہچان ہے۔ اس حدیث کا ایک راوی مجہول ہے(الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 1، صفحہ 359) اور علامہ ابن طاہر پٹنی (وفات 1578ء)نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے (تذکرة الموضوعات، صفحہ 155)۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: الْعَمَائِمُ ‌تِیجَانُ الْعَرَبِ (مسند الشہاب، حدیث نمبر 68)۔ یعنی، پگڑیاں عرب کا تاج ہیں۔یہ روایت بھی باعتبار اسناد ضعیف ہے (المقاصد الحسنہ للسخاوی، حدیث نمبر 717)۔
یہ بات بطور واقعہ صحیح ہے کہ قدیم عرب میں پگڑی پہننا شرافت اور عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اُس دور میںپگڑی آدمی کی سنجیدگی اور وقار کا نشان تھی۔اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بھی پگڑی کا استعمال کیا۔مگرمیرا خیال ہے کہ عمامہ باندھنا عادت عرب ہے ،نہ کہ سنتِ رسول، یہ تاج العرب ہے، نہ کہ تاج الاسلام ۔
8فروری 1986
شری ڈی این آول6فروری کو ہمارے دفتر میں آئے۔وہ اس وقت دہلی میں اپنے لڑکے کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ اردو بخوبی جانتے ہیں۔چنانچہ میں نے ان کو اپنی نئی کتاب ’’اللہ اکبر‘‘ بطور تحفہ دی۔ تیسرے دن 8فروری کو کتاب واپس آ گئی۔میں نے سمجھا کہ شاید بغیر پڑھے ہوئے انہوں نے واپس بھیج دی ہے۔مگر اس کے ساتھ ان کا ایک خط بھی تھا۔اپنے اس خط میںانہوں نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے نہایت بامعنیٰ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا:
’’آپ کی کتاب’’اللہ اکبر‘‘ مجھے پرسوں عطا ہوئی تھی۔میں اس کے مطالعہ میں اس قدر کھو گیا کہ آج صبح تک اس کو سارا پڑھ کر ہی دم لیا۔یہ بھی قادر مطلق کی شان ہے، ورنہ288 صفحات کی کتاب کو اتنی جلدی پڑھ لینا کوئی آسان کام نہ تھا‘‘۔
یہ کتاب میں نے انہیں واپسی کی شرط پر نہیں دی تھی،تاہم انہوں نے کتاب کو بہت ہی حفاظت کے ساتھ ورق کے اوپر کاغذ لگا کر پڑھا اور ویسے کا ویسا ہی واپس کر دیا۔
پچھلے برسوں میں،میں نے بہت سے مسلمانوں کو ہدیۃً یہ کتاب دی ہے۔اور ان سے یہ کہا ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے بعد ایک خط میں اپنے تاثرات لکھ کر بھیج دیں۔مگر جہاں تک یاد ہے غالباً کسی ایک مسلمان نے بھی اب تک ایسا خط نہیں بھیجا۔
اس طرح کے مختلف تجربات ہیں جس کی روشنی میں ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان بالکل بے جان قوم ہو چکے ہیں۔اس کے مقابلے میں ہندو ایک زندہ قوم ہیں۔کاش اسلام کے خلاف تعصب کی دیواریں ڈھ جائیں اور وہ موجودہ دور میں خدا کے دین کے علم بردار بن سکیں۔
9فروری 1986
آج تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ ملنے کے لیے آ ئے۔وہ بکارو اسٹیل(بہار) میں کام کرتے ہیں۔ان میں ایک صاحب انجینئر تھے۔گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ ہمارا مشن اور تبلیغ کا مشن اصلاً ایک ہے۔فرق یہ ہے کہ تبلیغ عوام(masses)کے لحاظ سے کام کرتی ہے اور ہم ذہین طبقہ (intellectual class) کے لحاظ سے کام کررہے ہیں۔
انجینئر صاحب نے کہا کہ تبلیغی جماعت دونوں طبقہ کے لیے کام کر رہی ہے۔مثلاً آپ دیکھیے کہ ہماری جماعت جو بکارو سے آئی ہے اس میں میرے سمیت چار انجینئرہیں۔
یہ ایک زبردست غلط فہمی ہے۔لوگ ڈگری ہولڈرس اور انٹیلکچولس کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ ایسی بات کہتے ہیں۔حالاں کہ یہ دونوں ہم معنیٰ الفاظ نہیں۔انٹیلکچول سے مراد وہ شخص ہے جو غیرمعمولی ذہین ہو اور مسائل پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچتا ہو۔جب کہ ڈگری یافتہ ہر وہ شخص ہے جو کسی تعلیمی ادارہ سے ایک متعین کورس کو مکمل کرنے کے بعد ڈگری حاصل کر لے۔
انٹیلکچولس پڑھے لکھے لوگوں میںبھی ہوتے ہیںاوربے پڑھے لکھے لوگوں میںبھی۔یہ لوگ معاملات کو تفکری انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔فکروفہم ان کی غذاہوتی ہے۔وہ کسی بات کو اسی وقت مانتے ہیں جبکہ اس کو ان کی فکری سطح پر قابل فہم بنا دیا گیا ہو۔
10فروری 1986
8-10 فروری 1986 کو غالب اکیڈمی(نئی دہلی) میں ایک سہ روزہ سیمینار ہوا۔اس کا موضوع اردو صحافت تھا اور اس کو اردو اکادمی نے منظم کیا تھا۔راقم الحروف نے بھی اس میں ایک مقالہ پڑھا۔
ایک ہندو صحافی دہلی سے ’’مستانہ جوگی‘‘ نام کا اردو اخبار نکالتے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میری پرورش لاہور میں ہوئی۔میں صرف اردو زبان جانتا ہوں۔مگر میرےبچوں کا حال یہ ہے کہ صرف ہندی اور انگریزی جانتے ہیں۔وہ اردو بالکل نہیں پڑھ سکتے۔یہی حال اب نئے ہندوستان میں بہت سے مسلم خاندانوں کا ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے اردو پرچوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ہندی پرچے نکال رکھے ہیں۔مثلاً’’شمع‘‘ اردو کا ماہنامہ ہے۔مگر اسی کے ما تحت اس نے’’ششما‘‘ نام سے ہندی ماہنامہ نکال رکھا ہے۔اسی طرح اور بہت سے پرچے اردو کے ساتھ ہندی ایڈیشنز جاری کیے ہوئے ہیں۔تاکہ اگر اردو کی کشتی ڈوبے تو وہ ہندی کی کشتی پر سوار رہ سکیں۔مگر یہی بات آپ کسی ہندی پرچے میں نہیں پائیںگے۔یعنی کوئی ہندی پرچہ ایسا نہیں ہے جس نے ہندی کے ساتھ اردو کا پرچہ جاری کر رکھا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل ہندی کے ساتھ ہے۔
میرا خیال ہے کہ تاریخ کے بارے میں اس قسم کے اندازے اکثر صحیح نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر تقسیم کے بعد عام خیال یہ تھا کہ ملک میں اردو کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔مگر چالیس سال بعد بھی اردو ختم نہیں ہوئی۔بلکہ آزادی کے وقت اور آج کی صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو اردو کافی بڑھی ہے۔
دوسری بات ایک اور ہے جس کو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔ہندوستان میںلکھنے والی اردو ضرور کم ہوئی ہے،مگر بولی جانے والی اردو میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ہندوستان کے ٹیلی وژن میں جو زبان استعمال ہوتی ہے،وہ واضح طور پر اردو ہوتی ہے ،نہ کہ ہندی۔حقیقت یہ ہے کہ زبانوں کا تسلسل ختم ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اردو بلا شبہ کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایگو کو مینج کرنا

میں نے آپ سےیہ سیکھا ہے کہ ماڈسٹی سے انسان کا ایگو ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ایگو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ (ڈاکٹر سفینہ تبسم، سہارن پور، یوپی)
جواب
انا(ego) شیطان کی جانب سے انسان کے خلاف جدو جہد کا حصہ ہے۔ اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کو مینج کرنا ہے۔ایگو با ر بار آئے گا۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ شیطان کی جانب سے آئے ہوئے ایگو کو پہچانے، اور اس سے بچاؤ کی کوشش کرے۔یہ سلسلہ موت تک جاری رہے گا۔ انسان کو بیدار (vigilant)رہنا ہے تاکہ وہ شیطان کے حملوں کو مینج کرنا سیکھے۔
انسان کے اندرانا (ego) کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔
انا کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ایسا انسان حقیقت کے اعتبار سے وہ بے اصل خوش فہمیوں میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈی کنڈیشنڈ مائنڈ بنائے۔ ڈی کنڈیشننگ کی بنا پر آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے، اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ایگو کی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے ایگو کو مینج کرنا سیکھے۔
واپس اوپر جائیں

گناہ خدا سے قربت کا ذریعہ

گناہ کے حوالے سے ایک پرامید حدیثِ رسول یہ ہے:اللہ ایک بندہ کو اس کے گناہ سے بھی فائدہ پہنچاتا ہے، جس گناہ کا ارتکاب وہ کرگزرتا ہے(إِنَّ اللہَ لَیَنْفَعُ ‌الْعَبْدَ بِالذَّنْبِ یُذْنِبُہُ) مسند الشہاب ، حدیث نمبر 1095۔ گناہ سے انسا ن کیسے خدا سے قریب ہو سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ گناہ اپنے آپ میں غلط عمل ہے، مگر وہ آپ کو نیکی کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ یعنی غلطی کا ارتکاب ہونے پرآپ سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ ندامت کا احساس کرکے خدا کے آگے جھک جائیں۔ یہی عمل توبہ کہلاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کبھی روٹین میں کیا جانے والا نیک عمل انسان کو خدا سے قریب نہیں کرپاتا ہے۔ لیکن ایک گناہ انسان کو خدا سے بہت زیادہ قریب کردیتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کو اپنے گناہ پر شرمندگی کا احساس ہو، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ توبہ و استغفار کا طریقہ اختیار کرے۔گویا گناہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ خدا سے قریب ہوجائیں۔ احساسِ گناہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ یہ آپ کی شخصیت میں تبدیلی کا دروازہ ہے۔ وہ خدا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔ آپ کی شخصیت جو گناہ سے پہلے عام شخصیت تھی، وہ گناہ کے بعد ایک ربانی شخصیت میں بدل سکتی ہے۔
احساسِ گناہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ احساسِ کمتری (inferiority complex) کا شکار ہو کریہ سمجھ لیں کہ میں کوئی نیک عمل نہیںکرسکتا۔ ہر وقت مجھ سے گناہ اور غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پھر اس کے بعدآپ ناامیدی کا شکار ہو کر دھیرے دھیرے ڈپریشن کا شکار ہوجائیں۔یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ اسلام کی تعلیم ہے توبہ یعنی رپنٹنس (repentance) پھر نئی انرجی کے ساتھ نیک عمل۔
رسول اللہ اہل ایمان کو توبہ و استغفار پربہت زیادہ ابھارا کرتے تھے۔ایک صحابی حبیب بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ!مجھ سے گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ آپ نے کہا:توبہ کرلیا کرو۔اس نے کہا: اے اللہ کے رسول، میں توبہ کروں گا، لیکن دوبارہ میں گناہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا، جب جب گناہ کرو توبہ کرلو۔ اس نے کہا: تب میرے گناہ بہت زیادہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ نے کہا: اللہ کی معافی تیرے گناہوں سے بہت وسیع ہے (عَفْوُ اللہِ أَکْثَرُ مِنْ ذُنُوبِک) المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر 4854۔ (مولانا فرہاد احمد)
واپس اوپر جائیں

مولانا کے بعد

آج بتاریخ 4اکتوبر 2022ء کومولانا وحیدالدین خاں صاحب کی رہائش گاہ ( نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچا۔ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو مولانا کی صاحبزادی ڈاکٹر فریدہ خانم (آپا) نے آواز دی کہ اوپر آجائیں۔ میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔بالآخر کسی طرح سیڑھیاں چڑھ کر مولانا مرحوم کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ میں جس شخصیت سے استفادے کے لیے ہمیشہ حاضر ہوا کرتا تھا، آج شدت سے مجھے اس کی غیر موجودگی کا احساس ستانے لگا۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ میرے کانوں میں مولانا کے چند سادہ اور محبوب کلمات گونج رہے تھے۔ مثلاً، ارے بھائی! دیکھو بھائی! سنو بھائی! وغیرہ۔ یہ گویا کسی درد مند دل کی پکار تھی۔ اِسی کے ساتھ یہ سوالات بھی سنائی دینے لگے: "اقبال صاحب! فیاض صاحب! کوئی نئی خبر، کوئی نیا تجربہ ہے آپ کے پاس۔۔۔؟" ایک مرتبہ ایک صاحب نے کہا تھا کہ کوئی خبر نہیں ہے۔ تو مولانا نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں۔ ہر دن نیا سورج نکلتا ہے، پوری کائنات اعلی بندوبست کے ساتھ چل رہی ہے— کیا یہ خبر(نیوز) نہیں ہے۔ گویا مولانا کے نزدیک اخباری نیوز کوئی نیوز نہیں تھی، بلکہ حقیقی نیوز وہ تھی، جس سے معرفت کا رزق حاصل ہو۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آج بظاہر سوال کرنے والا ہمارے سامنے موجود نہیں ہے، مگر سوال بدستور قائم ہے۔ تاکہ مولانا کے بعد بھی معرفت کا عمل رکے بغیر جاری رہے۔ مولانا کے کمرے میں خالی کرسی اور شیلف میں آویزاں اُن کے عبا کو پر نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا ، ایک طرف خالی کرسی اور جبہ ، دوسری طرف مولانا کی ساری تصنیفات۔ گویا کرسی اوران کا جبہ زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ شخصیت اب اِن کتابوں میں موجود ہے۔
پنچ پیراں قبرستان میں:اس کے بعد پہلی بار مولاناوحیدالدین خاں صاحب کی قبر پر حاضری کا موقع ملا۔ بستی حضرت نظام الدین کے قبرستان پنچ پیراں کے صدر دروازے سے داخل ہونے کے بعد سیدھے قبرستان کے آخری حصے میں ایک مزار کی مضبوط فصیل بنی ہوئی ہے۔ ٹھیک اس سے ذرا پہلے مولانا کی قبر موجود ہے۔ میری زبان گنگ تھی۔ ’’السلام علیکم یا أہل القبور‘‘(اے قبر کے ساکنو، تم پر سلامتی ہو) کے روایتی الفاظ زبان پر جاری تھے۔
قریب ہوا، اپنے ساتھی سے قبلہ معلوم کیا اور نماز جنازہ ادا کی۔ میرا دل مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ مولانا! فی الوقت میں آپ کی قبر کے پاس ہوں۔ جس معرفت کی سطح پر آپ پہنچے ہیں اس کو لے کر مجھے اور میرے ساتھیوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔اس وقت میں قبرستان میں اسی اضطراب کے عالم میں کبھی میں قبر کے کتبہ پر ہاتھ لگا تا، کبھی قبر کو دیکھتا ۔ گویا میں مولانا سے کچھ سننا چاہتا ہوں۔ مگر میرے شعور نے کہا کہ مولانا آپ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی پرواہ کیے بغیر واضح طور پرخدا کی ہر بات کھول کھول کر بتادی، آخری حد تک خیرخواہی کردی( قَد ‌بَلَّغْتَ، وَأَدَّیْتَ، وَنَصَحْتَ)۔ اب مولانا خدا کے فطری قانون کے تحت ہم سے جدا ہوکر آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ پھر یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہم نے مولانا کے ذریعہ جو عصری اسلوب میں اسلام پایا ہےاس کو آگے لے کر جائیں۔
بہرحال، اِنھیں کیفیات سے گزرتا ہوا سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے افطار کے وقت کی ایک دعا یاد آگئی:ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، ‌وَثَبَتَ ‌الْأَجْرُ ‌إِنْ ‌شَاءَ ‌اللہُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2357)۔ یعنی، پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔ اِس دعا کو میں اِس طرح پڑھنے لگا: ذھب روح مولانا ودفن الجسم وارجو من اللہ ان یثبت لہ الفردوس (مولانا کی روح پرواز کرگئی۔ جسم قبر کے حوالے ہوگیا اور اللہ سے امید ہے کہ وہ اپنے فضل سے مولانا کو جنت الفردوس میں ٹھکانہ عطا فرمائے گا)۔ اور یہ بھی سوچا کہ مولانا کی روح جب پرواز کررہی تھی تو اس وقت بھی وہ اسی قسم کے الفاظ دہرارہے ہو ں گے :ذھب نفسی، ودفن جسدی وأرجو من اللہ ان یثبت اجری( میری روح پرواز کر گئی میرا جسم سپرد خاک ہوگیا امید ہے کہ میرا رب میرے حق میں بہتر فیصلہ فرما ئے گا)۔ گویا مولانا کی سادہ زندگی معرفت کی راہ کا "روزہ" تھا، موت ان کے لیےرفیق اعلی سے ملاقات کا"افطار" بن گئی۔
حقیقت کی تلاش اور حقائق کی یافت کی خاطر ان کی ہڈیاں چٹخ گئیں اور رگوں کا خون خشک ہوگیا ، پوری امید ہےکہ برزخ کی زندگی میں خدا نےانھیں ضرور تروتازہ رکھا ہوگا، اوراجر عظیم کا فیصلہ کیا ہوگا جس کی رضا کی خاطرمولانا نے لوگوں کی ناراضگی کو برداشت کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ معرفت والا دین غائب ہو جائے اور رسمی عبادت باقی رہ جائے تو از سر نو روحِ عبادت کو ڈسکور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں نے یہی کام سر انجام دیا ہے۔
داعی کا مشن: خدا امید کا سرچشمہ ہے۔ایک سچے مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی اضطراب میں گزرتی ہو، مگر اس کا خاتمہ پرامید ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ’معلوم مقام‘ کی طرف جارہا ہوتاہے، یعنی آخرت اور خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت کی طرف۔ معرفتِ رب ہو یا معرفت ِآخرت، اس کی تذکیر کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مگر شیطان غفلت میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ جوانوں کا موضوع نہیں، بوڑھے لوگوں کا موضوع ہے۔کیوں وہ لوگ زندگی سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔انسان کی یہی سب سے بڑی نادانی اور سرکشی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موت کی یاد اور اس کے لیے تیا ری کا چرچا آج کل بہت کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی داعی یا مربی معرفت ِرب یا فکر ِآخرت کی یاددہانی کراتا ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے ۔ آخرت کے علاوہ بقیہ سارے موضوعات سے ہردن روز نامچے یا اخبار ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ مگر خدا کے منصوبۂ تخلیق کےمطابق، اصل تیاری آخرت کی ہے۔ جس کے لیےخالق نے اہتمام کے ساتھ انبیاء کرام کو منتخب کیا تھا۔ قرآن میں ہے:إِنَّآ ‌أَخۡلَصۡنَٰہُم بِخَالِصَةٖ ذِکۡرَى ٱلدَّارِ (38:46)۔ بے شک ہم نے ان کو ایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ آخرت کی یاد دہانی ہے ۔
چنانچہ آخرت داعی کاخاص موضوع ہوتا ہے۔ مسائلِ دنیا تو غیر داعی کا موضوع ہے، مگر مسائل آخرت صرف ایک نبی اور ان کے بعدان کے ماننے والےداعی کا موضوع ہواکرتا ہے۔یقیناً مولانا کی ہر بات آخرت رخی تھی۔ ان کی مجلسوں ، ٹیلفونک گفتگو اوران کی کتابوں سے میں نے یہی پایا ہے۔وہ معرفت اورآخرت کے داعی بن کر دنیا میں رہے اور اسی حالت میں وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے آخری حد تک اپنی صلاحیتوں کی قربانی دی ۔ انھوں نےاللہ کی عبادت کو مقصد اور اس کی طرف بلانے کو اپنا مشن بنایا، ان کی ساری تحریروں کو اسی نقطہ نظر کے تحت سمجھا جاسکتا ہے ۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد)
واپس اوپر جائیں

تعارفِ کتب

تربیت اولاد
ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ "کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سے عمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے" (المعجم الاوسط، حدیث نمبر3658)۔کہتے ہیں کہ گھر بچہ کا پہلا مدرسہ (اسکول) ہوتا ہے۔ جہاں وہ سب سے پہلے اپنے والدین، گھر کے ماحول اور گھر کے باقی افراد سے غیر رسمی طور پر بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اور بچہ کی پرورش، نمو اور تربیت کا یہی وہ اہم ترین دور ہوتا ہے جس میں ہر سکھائی یا سیکھی گئی بات (چاہے وہ صحیح ہو یا غلط) بچہ کے دل ودماغ میں نقش ہو جاتی ہے اور عملی طور پر زندگی بھر وہ اس کو یاد رکھتا ہے۔
یعنی اگر گھر کا ماحول بہتر ہوگا تو بچہ کی پرورش اور تربیت بھی بہت صحیح انداز میں ہوگی۔ ظاہر ہے گھر کا ماحول والدین کی بہتر سوچ اور عمل سے ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ اگر والدین کو خود تربیت کی ضرورت ہو تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر پائیں گے۔ اس لیے کہ تربیت یافتہ ہی دوسروں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔ اور یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ والدین کی اکثریت یہی سوچتی اور سمجھتی ہے کہ بچے کی تربیت اسکول، مدرسہ، کالج یا یونیورسٹی کرتی ہے۔ ان کی ساری امیدیں اور امنگیں ان رسمی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوتی ہیں، وہ بچے کی پہلی درسگاہ (گھر) کوکوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ایسے لوگ پھر بچوں کے بگاڑ کے ذمہ دار بھی ان تعلیمی اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔
تربیتِ اولاد کے موضوع پر بہت ساری کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں ان کو بے شک پڑھیں لیکن 80 صفحات پر مشتمل زیرِ تبصرہ کتاب "تربیت اولاد" اس موضوع پر مختصر مگر ایک جامع اور شاندار کتاب ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس کے مصنف کی علمی و فکری شخصیت سے کیا جا سکتا ہے، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ نہ صرف سنجیدہ والدین کو بلکہ علم و دانش سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے ہر فرد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔ فرد بدلے گا تو خاندان بدلیں گے اور اس طرح معاشرہ بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرے گا۔ یقیناً آپ احباب نے اس موضوع پراب تک کئی کتابیں پڑھی ہوں گی لیکن ایک موقع اس چھوٹی سی کتاب کو بھی دیجیے جو ہماری نسلوں کی بقا جیسے اہم مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔
کتاب کےصفحہ 11 کا ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے:"آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طور پر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کر سکیں۔ وہ اپنے بچوں کو "ٹی وی کلچر" کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر" ۔ (طاہر حجازی، کراچی، پاکستان)۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مذہب اور جدید چیلنج
موجودہ دور میں الحاد (Atheism) کا نظریہ پھیل رہا ہے۔ موجودہ الحاد سائنس اور فلسفے کے جلو میں نمودار ہوا ہے جس نے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کیا ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ الحادی فکر سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ صراحتاً خدا کے وجود کے منکر نہیں بنے لیکن تشکیک (agnosticism) میں ضرور مبتلا ہوئے۔ موجودہ سائنسی علوم کا ارتقا جن شخصیات کے ہاتھوں ہوا وہ یا تو خدا کے وجود کے منکر تھے یا متشکک (agnostic)۔ لہٰذا وقت کی بڑی اہم ضرورت تھی کہ موجودہ الحادی فکر کو سائنس کی روشنی میں ردّ کیا جائے اور سائنس سے خدا کے وجود کا اثبات کیا جائے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور سائنسی مسلّمات کی روشنی میں الحادی فکر کا ردّ کیا۔ مولانا چونکہ انگریزی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے سائنسی اور الحادی مواد کا اصل سورس سے مطالعہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ الحاد کا ایسا ردّ سائنس کی روشنی میں کسی اور شخصیت نے نہیں کیا جیسا انہوں نے کیا۔اس ضمن میں ان کی اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔مذہب اور سائنس 2۔ مذہب اور جدید چیلنج،
3۔عقلیاتِ اسلام 4۔خدا کی دریافت: سائنسی حقائق کی روشنی میں۔
دینی مدارس کے طلبہ و علما کو ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ کتابیں سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org/books)پر بھی موجود ہیں ۔( ڈاکٹر فرخ نوید ،پاکستان)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 278

1۔ میں نے مولانا صاحب سے کیا سیکھا: مولانا وحیدالدین خاں صاحب سے میں نے وہ سب سیکھا جو کسی اور سے نہ سیکھا۔مولانا صاحب جیسی ہستی سےکاش بہت پہلے ہی تعارف ہوجاتا تو تعصبات اور فرقہ واریت اور مذہبی ظاہر پرستی میں اپنے قیمتی ایام ضائع نہ کرتا۔خیر اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس نے مولانا وحیدالدین خاں کی شکل میں عظیم رہنما اور غیر معمولی شخصیت سے ملاقات کروا دی۔ مولانا صاحب کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اصحاب رسول اور انبیاء کرام کا خشیت الٰہی اور معرفت کا کتنا عظیم لیول ہوگا۔مولانا صاحب کے بارے میں سب سے پہلے جناب ابویحییٰ صاحب (ادارہ انذار)نے بتایا تھا۔اس کے بعدمیںنے مولانا کی پہلی تقریر انٹرنیٹ پر سنی اور پہلی کتاب 2017 میں پڑھی۔ پھرمولانا کے ہی ہو کر رہ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مولانا کو میری زندگی میں شامل کر دیا۔
میں لفظوں میں کیسے بتاؤں کہ مولانا صاحب نے میری زندگی میںکیا تبدیلی پیدا کی ہے۔ مولانا کی بدولت— دین کی اصل روح اور حقیقت سے آشنائی ہوئی ثمثبت انداز فکر اور معرفت الٰہی کو سمجھنے میں مدد ملیثزندگی کی بے ثباتی اور موت کی حقیقت آشکار ہوئی ثعام مذہبی فکر سے اعراض اور اصل اسلام کی پہچان ہوئی ثقرآن سے تعلق اور اس کو بنیادی اور مرکزی حیثیت دینے میں مدد ملی ثاس حقیقت کا ادراک ہوا کہ ایمان و اخلاق اور تزکیہ نفس ہی نجات کا اصل ذریعہ ہے ثمالک کے تخلیقی منصوبہ کا فہم حاصل ہوا ثصبر و شکر کی اہمیت اور اصل روح سے آشنائی ہوئی ثانفس و آفاق کی نشانیوں اور کائنات میں تدبر اور تفکر کرنا پیدا ہوا ثمالک کائنات کی کبریائی اور عظمت کا ادراک ہوا۔خواہش تھی کہ آپ جب کبھی پاکستان آئے تو ضرور ملاقات کا شرف حاصل کروں گا لیکن اس فانی دنیا میں یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ان شاءاللہ رب العالمین جنت میں یہ موقع ضرور دے گا۔(طارق سلیم، گورنمنٹ ہائی سکول،ضلع پاک پٹن)
2۔ 3 مئی 2022 کو سی پی ایس سہارن پور نے اپنے سینٹر پیس ہال میں عید ملن پروگرام کا انعقاد کیا تھا، جس میں سماجی اور سیاسی اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔ ان تمام لوگوں کو سہارن پور ٹیم کی جانب سے بطور عید گفٹ دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ اسی طرح 25 مئی 2022 دہلی لیلا پیلیس میں ڈاکٹر اسلم کو امن و شانتی کے میدان میں کام کرنے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ دینے کے لیے مرکزی وزیر مسٹر انوراگ ٹھاکر آئے تھے۔ ان کو اور دوسرے مہمانوں کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا، اور کتابیں پڑھنے کا وعدہ کیا۔
3۔کتاب میلہ (Book Fair) حصولِ علم و معلومات کا وسیلہ ہے۔یہاں پر علم اور مطالعہ سےدلچسپی رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ اس لیے مولانا وحید الدین خاں صاحب ہمیشہ سی پی ایس ٹیم کوبک فئر میں شرکت پر ابھارا کرتے تھے۔اس کا نتیجہ ہے کہ سی پی ایس انٹرنیشنل ہمیشہ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر منعقد ہونے والے بک فئر میں شریک ہوتا رہا ہے۔ مثلا 3-6 نومبر 2021 کو شارجہ میں انٹرنیشنل بک فئر لگا تو اس میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔
چنئی بک فئر: مولانا اسرار الحسن عمری (چنئی)کے مطابق، چنئی بپاسی (BAPASI) کے زیرِ اہتمام منعقد 45 واں بک فئر 16فروری 2022 کو شروع ہوا اور 6 مارچ 2022 کو اختتام پذیر ہوا۔ اس بک فئر میں چنئی گڈورڈ تقریباً دس سالوں سے حصہ لے رہا ہے۔ اس بار گڈورڈ کو چنئی BAPASI کی ممبرشپ بھی حاصل ہو گئی ہے۔ اس سال بک فئر میں تقریباً آٹھ سوپبلشرز نے حصہ لیا۔ بک فئرآنے والی پبلک کی تعداد پندرہ لاکھ تک بتائی جارہی ہے۔ اس بک فئر سے پتا چلا کہ جہاں لوگوں میںڈیجیٹل کتابوں کا رجحان بڑھا ہے، وہیںلوگوں کی کثیر تعداد ہارڈ کاپی میں مطالعہ کرنا پسند کرتی ہے۔ اس مرتبہ سی پی ایس چنئی نے تمل زبان میں دو کتابیں ریلیز کیں: تمل ترجمۂ قرآن کا روائزڈ ایڈیشن اور گاڈ ارائزز کا تمل ترجمہ۔ پبلک نے دونوں کتابوں کو بہت پسند کیا۔ بہت سے لوگوں کو ہم نے یہ کتابیں بطور تحفہ بھی پیش کیں۔ اس سال ہمارے اسٹال پر جو لوگ آئے ان میں ایک معروف نام تامل اور ملیالم ٹی وی ایکٹریس مز شبانہ شاہجہاں ہیں۔ انھوں نے کچھ کتابیں خریدیں، مثلاً لیڈنگ اے اسپریچول لائف۔ اس کے علاوہ ان کو پرافٹ آف پیس بطور تحفہ دی گئی۔ اس کتاب میلے سے یہ احساس بڑھا کہ الرسالہ مشن کی تمام کتابوں کا تمل ترجمہ ہم کو جلداز جلد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
لکھنؤ بک فئر:سی پی ایس ٹیم نے لکھنؤ بک فئر (23rd Sep to 2nd Oct 2022) میں شرکت کی۔ مولانا سید اقبال عمری (چنئی)، خطیب اسرار الحسن عمری (چنئی)اور مسٹر آصف خان (کانپور) اسٹال کا انتظام سنبھالا۔ یہاں بھی کافی تعداد میں پبلک نے اسٹال وزٹ کیا، اور قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر لے کر گئے۔یہاں انگریزی کتابوں کی بہت ڈیمانڈ تھی۔اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر ہونے والے بک فئر میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی مختلف ٹیموں نے حصہ لیا۔ مثلاً سی پی ایس پاکستان نے پاکستان کے اندر جن بک فئر میں حصہ لیا، وہ یہ ہیں:اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی بک فئر اسلام آباد (14-18 دسمبر 2021)، جی سی یونیورسٹی بک فئر (20-23 دسمبر 2021)، انٹرنیشنل بک فئر کراچی (30 Dec'21 to 3 Jan'22)، پریمیر بک فئر لاہور (11-13 مارچ 2022)، فیصل آباد اگریکلچر یونیورسٹی بک فئر (27-31 مارچ 2022)، لاہور بک فئر (12-15 مئی 2022)، بک فئر مجلس ترقی ادب، لاہور (11-14 اگست 2022)۔اس کے علاوہ ایریزونا (یو ایس) میں 11-13 مارچ 2022 کو ایک بک فئر لگا۔ اس میں سی پی ایس امریکا نے شرکت کی۔ ان تمام بک فئرمیں آنے والے لوگوں کو جن موضوعات پر کتابیں تقسیم کی گئیں ، وہ ہیں معرفت خدا، امن عالم اور دعوت الی اللہ، وغیرہ۔
4. I am, Muhammad Sohaib From England, and I am a Physiotherapist here. Every day I watch Maulana Wahiduddin khan's videos. I learned many things. Please upload the video at least once a week, and your Background Islamic tone is very effective and heart-touching. Please include this background tone in every Video. Thanks
5. I pray for you and send my best wishes regarding this magnificent deed of Tableegh e Deen. Undoubtedly the youngsters of today direly need to understand the Almighty's message, the Quran, through the books of Maulana Waheedudin Khan. (Muhammad Rafique [qrafi*****@yahoo.com])
واپس اوپر جائیں

Thursday 1 September 2022

Al Risala | September-October 2022 (الرسالہ،ستمبر۔اکتوبر)

4

-شکر کا عمل

5

- شکر ایک اعلیٰ عبادت

10

- شکر کی اہمیت

11

- شکر:ایک قربانی کا عمل

12

- شکر سے اضافہ

13

- صبر وشکر

15

- شکر کی تربیت

17

- انسان اور نظامِ ربوبیت

18

- سب کچھ خدا کا عطیہ

20

- شکر کے دو درجے

22

- جذباتِ شکر کی بیداری

23

- شکر کا احساس

24

- اعلیٰ شکر

25

- شکر ِقلیل، شکر ِکثیر

26

- شکر سب سے بڑی عبادت

28

- شکر میں جینا سیکھیے

29

- محرّک شکر

30

- فخر اور شکر

31

- انسان کا اعتراف

32

- دور شکر

33

- شکر، نہ کہ شکایت

35

- اضافۂ ایمان

37

- شکر کا ایک آئٹم

38

- بولنے کی صلاحیت

39

- شکر کی نفسیات میں جینا

40

- شکر اور ناشکری

41

- شکر یاسرکشی

42

- شکر اور سنجیدگی

45

- ناشکری نہیں

46

- دورِسائنس، دور شکر

47

- عالمی شکر

49

- میں خداکا کتنا مقروض ہوں

50

- شکر کی حقیقت


شکر کا عمل

قرآن کا آغاز بسم اللہ سے ہوتا ہے۔ بسم اللہ کے بعد سب سے پہلی آیت یہ ہےالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ۔یعنی، شکر ہے خداوندِ عالم کے لیے۔قرآن کی اِس آیت سے شکر کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے تمام اعمال میںشکر ہی ایک ایسا عمل ہے، جس کو انسان اپنی نسبت سے اعلیٰ ترین صورت میں کرسکتاہے۔ دوسرے تمام اعمال، مثلاً عبادت اور اخلاق اور معاملات کی ادائیگی میں مختلف اسباب سے کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے۔ لیکن شکر کا تعلق دل اور دماغ سے ہے اور جس چیز کا تعلق دل اور دماغ سے ہو، اُس کے بارے میں یہ ممکن ہوتاہے کہ آدمی اُس کو کامل ترین صورت میں ادا کرسکے۔ یہاں وہ اپنے تمام جذبا ت اور اپنی ساری سوچ کو خدا کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ یہ خصوصیت صرف شکر کو حاصل ہے۔
شکر کیا ہے، شکر دراصل اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ انسانی معاملات میں جس چیز کو اعتراف کہاجاتاہے، اُسی کا نام خدائی معاملے میں شکر ہے۔ ہر آدمی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ ہر ملی ہوئی چیز اُس کو کامل معنوں میں خدا کا عطیہ دکھائی دے۔ وہ کامل جذبۂ اعتراف کے ساتھ یہ کہہ سکے کہ خدایا، تیرا شکر ہے۔ خدا کی نعمتوں اور رحمتوں کا کامل احساس کرکے یہ کہہ پڑنا کہ الحمد للہ ربّ العالمین، یہی شکر ہے اور یہ شکر بلا شبہ سب سے بڑی عبادت ہے۔
موجودہ دنیا میں وہ چیز بہت بڑے پیمانے پر موجود ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ یہاں کی ہر چیز اِس طرح بنائی گئی ہے کہ وہ کامل طورپر انسان کے لیے موافق اسباب کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے کہ انسان جب اِس دنیا میں چلے پھرے اور اس کو استعمال کرے تو وہ شکر اور اعتراف کے جذبے سے سرشار ہو۔ موجودہ دنیا کی تمام قیمتی چیزیں انسان کو سرتاسر مفت میں ملی ہوئی ہیں، سچا شکر ہی اِن چیزوں کی قیمت ہے۔ جو آدمی یہ قیمت ادا نہ کرے، اُس کی حیثیت اِس دنیا میں غاصب کی ہے، اور غاصب کے لیے بلا شبہ سزا ہے، نہ کہ انعام۔ شکر کے احساس کے بغیر اِس دنیا میں رہنا بلا شبہ ایک ناقابلِ معافی جرم کی حیثیت رکھتا ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔
واپس اوپر جائیں

شکر ایک اعلیٰ عبادت

شکر کیا ہے۔ شکر اُس داخلی کیفیت کا نام ہے جو کسی نعمت کے گہرے احساس سے آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ انگریزی میں اس کو گریٹ فُل نیس (gratefulness) کہاجاتا ہے۔ عربی زبان کی مشہور ڈکشنری لسان العرب (جلد4، صفحہ 423)کے مطابق ، احسان کی معرفت اور اس کے تذکرے کا نام شکرہے (الشُّکْرُعِرْفانُ الإِحسان ونَشْرُہ)۔ راغب الاصفہانی کی کتاب المفردات فی غریب القرآن (صفحہ 265) میں بتایا گیا ہے کہ شکر کا مطلب ہے— نعمت کے بارے میں سوچنا اور اس کا اظہار کرنا (الشُّکْرُتصوّر النّعمة وإظہارہا)۔ مفسر القرطبی نے لکھا ہے — وَالشُّکْرُ مَعْرِفَةُ الْإِحْسَانِ وَالتَّحَدُّثُ بِہِ (تفسیر القرطبی، جلد2، صفحہ172)۔شکر نام ہےاحسان شناسی کا اور اس کے اعتراف کا ۔
نعمت کا اعتراف (acknowledgement)ایک اعلیٰانسانی صفت ہے۔ یہ اعتراف جب خدا کی نسبت سے ہو تو اِسی کا نام شکر ہے۔ انسان کے اوپر خدا کی نعمتیں سب سے زیادہ ہیں، اِس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ خداوند ِ ذوالجلال کا شکر ادا کرے۔ حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ نے اپنی ایک دعا میں فرمایارَبِّ اجْعَلْنِی لَک شَکَّارًا (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3831؛ سنن الترمذی،حدیث نمبر3551 ؛ مسند احمد،حدیث نمبر1997) ۔یعنی اے میرے رب! تو مجھ کو اپنا بہت زیادہ شکر کرنے والا بنا۔
قرآن میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اے لوگو! خدا کے شکر گزار بندے بنو۔ مثلاً میٹھے پانی کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایافَلَوۡلَا ‌تَشۡکُرُونَ(56:70)۔ یعنی، تم شکر کیوں نہیں کرتے۔ انسان سے جو چیز سب سے زیادہ مطلوب ہے، وہ یہی شکر ہے۔ شیطان کی ساری کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے۔قرآن کے مطابق، آغازِ حیات میںاُس نے خدا کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں انسانوں کو بہکاؤں گا، یہاں تک کہ تو اُن میں سے اکثر لوگوں کو اپنا شکر گزار نہ پائے گا— وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ
And you will not find most of them grateful (7:17)
قرآن میں مختلف انداز سے یہ بات کہی گئی ہے کہ خدا کے بندوں میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو شکر کرنے والے ہیں وَقَلِیلٌ مِنْ عِبَادِیَ الشَّکُورُ(34:13)۔ شکر کا مطلب اگر یہ ہو کہ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا رہے، تو ایسے لوگ ہمیشہ بہت زیادہ رہے ہیں اور آج بھی وہ بہت زیادہ ہیں۔ ایسے لوگ بے شمار ہیں جو اپنی گفتگو کے دوران بار بار الحمد للہ، اللہ کا شکر ہے اور اللہ کا فضل ہے، جیسے الفاظ بولتے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں دنیا بظاہر شکر کرنے والوں سے بھری ہوئی ہے، پھر مذکورہ قرآنی بیان کا کیا مطلب ہے کہ لوگوں میں بہت کم ہیں جو شکر کرنے والے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ شکر کی دو قسمیں ہیں— لسانی شکر، اور قلبی شکر۔ لسانی شکر کو نارمل شکر، اور قلبی شکر کو تھِرلنگ (thrilling) شکر کہہ سکتے ہیں۔ خدا کی خدائی شان کے مطابق، شکر صرف وہ ہے جو تھرلنگ شکر ہو۔ نارمل شکر صرف ایک لِپ سروس (lip-service) ہے۔ اِس قسم کا شکر خدا کو مطلوب نہیں۔ اِسی کے ساتھ ضروری ہے کہ خدا کے لیے انسان کا شکر ایک اضافہ پذیر شکر ہو۔ جو شکر ایک حالت پر قائم ہوجائے، وہ ایک جامد شکر ہے۔ اور جامد شکر وہ شکر نہیں جو خدا کے نزدیک مطلوب شکر کی حیثیت رکھتا ہے۔
تھرلنگ شکر صرف اُس شخص کو ملتا ہے جو خدا کے احسانات (blessings)پر مسلسل غور کرتا رہے۔ انسان کے اوپر خدا کے احسانات لامحدود ہیں۔ اِس لیے جوآدمی اِس پہلو سے غور وفکر کرتا رہے، وہ ہر وقت ایک نئے خدائی احسان کو دریافت کرے گا، وہ ہر وقت ایک نئے سبب ِ شکر کا تجربہ کرے گا۔ اس کے یہ تجربات کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اِس لیے اس کے اندر شکرِ خداوندی کا احساس بھی مسلسل طورپر زندہ رہے گا۔
میں اپنے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا۔ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے سوچا کہ انسان کی قوتِ سماعت بھی کیسی عجیب ہے کہ اس کے کان میں بے شمار قسم کی آوازیں آتی ہیں۔ وہ ہر آواز کو ممیّز (differentiate) کرکے اس کو الگ سے پہچان لیتا ہے۔ اس کے بعد میں نے اپنے ایک ہاتھ کو حرکت دی اور بات کرنے کے لیے ریسیور کو اٹھایا۔ دوبارہ میں نے سوچا کہ میرے جسم میں بہت سے اعضا ہیں، لیکن میرے دماغ نے صرف ایک عضو (ہاتھ) کو متحرک کیا کہ وہ ریسیور کو اٹھائے۔ اِس عمل میں آنکھ کا بھی ایک حصہ تھا، کیوں کہ اگر آنکھ اپنا عمل نہ کرتی تو مجھے یہ معلوم ہی نہ ہوتا کہ ریسیور کہاں ہے۔
جب میں نے ٹیلی فون پر بات کرنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ ٹیلی فون کے دوسری طرف جو آدمی ہے، وہ انگریزی زبان میں بول رہا ہے۔ میںاس کی بات کو پوری طرح سمجھ رہا تھا۔ میںنے سوچا کہ میری مادری زبان اردوہے، اور دوسرے شخص کی زبان انگریزی۔ میںکسی بات کو صرف اُس وقت سمجھ پاتا ہوں، جب کہ میںاس کو اردو الفاظ میں ڈھال لوں۔ میںنے سوچا کہ دماغ کیسی عجیب نعمت ہے۔ جو اپنے اندر یہ انوکھی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ انگریزی الفاظ کو فی الفور(instantly) اردو میں ڈھال دے۔ اور اِس طرح متکلم کی بات کو بلاتاخیر میرے لیے قابلِ فہم بنادے۔
اِس طرح کی بہت سی باتیں اُس وقت میرے ذہن میں آتی رہیں۔ میں ایک طرف دور کے ایک شخص سے ٹیلی فون پر بات کررہا تھا اور دوسری طرف، عین اُسی وقت میں خدا کے بارے میں تھرلنگ شکر کا تجربہ کررہا تھا۔ یہ تجربہ اتنا زیادہ شدید تھا، جیسے کہ شکر کا ایک دریا میرے سینے میں جاری ہوگیا ہو۔اِسی طرح ہر لمحہ انسان کو ایسے تجربات پیش آتے ہیں جن کے اندر شکر کا سمندر چھپا ہوا ہوتا ہے۔ اِس اعلیٰ شکر تک آپ کی رسائی صرف غور وفکر کے ذریعے ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سوچ ہی اعلیٰ شکر کا دروازہ ہے۔ جس آدمی کے اندر سوچ نہ ہو، اس کے اندر شکر بھی نہ ہوگا۔ ایسا آدمی ہر چیز کو فارگرانٹیڈ (for granted) لیتا رہے گا۔
جو انسان چیزوں کو فار گرانٹیڈ طور پر لے گا، وہ خدا کی نعمتوں کی کوئی قدر نہیں کرے گا، وہ شکر کے سمندر کے درمیان رہتے ہوئے بھی تھرلنگ شکر کا تجربہ نہیں کرے گا۔یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں قرآن میںآیا ہے —
لَہُمۡ قُلُوبٌ لَّا یَفۡقَہُونَ بِہَا وَلَہُمۡ أَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُونَ بِہَا وَلَہُمۡ ءَاذَانٌ لَّا یَسۡمَعُونَ بِہَآۚ أُوْلَٰٓئِکَ کَٱلۡأَنۡعَٰمِ ‌بَلۡ ‌ہُمۡ أَضَلُّۚ أُوْلَٰٓئِکَ ہُمُ ٱلۡغَٰفِلُونَ(7:179)۔ یعنی، ان کے دل ہیں جن سے وہ سمجھتے نہیں، ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے نہیں۔ وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے، بلکہ ان سے بھی زیادہ بےراہ۔ یہی لوگ ہیں غافل۔
اصل یہ ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک، اس کا ابتدائی اور ظاہری پہلو۔ اور دوسرا، اس کا زیادہ گہرا پہلو۔ چیزوں کا ظاہری پہلو ہر آدمی کو کسی کوشش کے بغیر اپنے آپ دکھائی دیتا ہے۔ لیکن اس کا جو گہرا پہلو ہے، وہ صرف سوچنے کے بعد کسی کو سمجھ میںآتا ہے۔ اعلیٰ شکر کا تجربہ کرنے کے لیے آدمی کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ چیزوں کے گہرے پہلو پر غور کرے، تاکہ وہ ایک معمولی چیز کو غیر معمولی روپ میں دیکھ سکے
It is the result of taking an ordinary thing as extraordinary.
ایک دن مجھے پیاس لگی۔ میرے سامنے میز پر شیشے کا ایک گلاس پانی سے بھرا ہوا رکھا تھا۔ میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اس کو دیکھ کر میرے دماغ میں ایک فکری طوفان برپا ہوگیا۔ اچانک ایک پوری تاریخ میرے ذہن میںآگئی۔ میری زبان سے نکلا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تونے پانی جیسی نعمت انسان کو عطا کی۔ یہ کوئی سادہ بات نہیں تھی۔ یہ ایک سپر(super) شکر تھا، جس نے میری پوری شخصیت میں طوفان برپا کردیا تھا۔میں نے سوچا کہ کئی بلین سال پہلے ایسا ہوا کہ دو گیسوں، آکسیجن اور ہائڈروجن، کے ملنے سے پانی جیسی سیّال چیز بنی۔ یہ پانی گہرے سمندروں میںذخیرہ ہوگیا۔ اِس کے بعد خدا نے تحفّظاتی مادّہ (preservative) کے طورپر اِس میں دس فی صد نمک ملا دیا۔ یہ پانی براہِ راست طورپر انسان کے لیے ناقابلِ استعمال تھا۔ اِس کے بعد خدا نے ایک عالمی نظام کے تحت، پانی کو نمک سے الگ کرنے کے لیے، اِزالۂ نمک (desalination)کا ایک آفاقی عمل جاری کیا۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ سمندروں کا کھاری پانی، میٹھا پانی بن کر بارش کی صورت میں ہم کو حاصل ہوگیا۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ تھرلنگ شکر کی توفیق کسی آدمی کو کس طرح حاصل ہوتی ہے۔ اِس کا واحد ذریعہ سوچ ہے۔ یہ دراصل سوچ ہے جو آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ سپر شکر کا ہدیہ اپنے رب کے حضور پیش کرے۔ سوچ کے سوا کوئی بھی دوسری چیز نہیں ہے جو آدمی کو اُس اعلیٰ شکر کا تجربہ کرائے جو کہ خدا کو انسان سے مطلوب ہے۔
جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کرتے ہوئے فرمایا ربّ اجْعَلنِی لَک شکّاراً۔ کوئی انسان، شَکَّار یا بہت زیادہ شکر کرنے والا کیسے بنتا ہے۔ اس کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ آدمی شکر کے کلمہ کو ہزاروں بار دہرائے، یا اور کوئی وظیفہ پڑھے۔ اِس کوحاصل کرنے کا واحد ذریعہ غوروفکر ہے۔ مذکورہ دعا کا مطلب یہ ہے کہ خدایا، تو مجھ کو ربّانی غور وفکر کی توفیق دے، تاکہ میرے اندر اعلیٰ شکر کی کیفیات پیدا ہوں، جو کہ حقیقی معنوں میں کسی انسان کو خدا کا شکر گزار بندہ بناتی ہیں۔آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ پائیں گے کہ قرآن میں شکر کو صبر کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ مثلاً قرآن میں دنیا کی نعمتوں کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہےإِنَّ فِی ذَلِکَ لَآیَاتٍ لِکُلِّ صَبَّارٍ شَکُورٍ (31:31)۔ یعنی، اِس میں نشانیاں ہیں ہر اُس انسان کے لیے جو بہت زیادہ صبر کرنے والا اور بہت زیادہ شکر کرنے والا ہو۔اِس قسم کی آیات پرغور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، اعلیٰ شکر کی توفیق صرف اُن لوگوں کو ملتی ہے جو بہت زیادہ صبر کرتے ہوئے اِس دنیا میں زندگی گزاریں۔
ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کو مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرتا ہے۔ اِس بنا پر یہاں مختلف قسم کی برائیاں (evils)پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ صورتِ حال خدا کے قانون کی بنا پر ہے، انسان اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ اِس معاملے میں انسان کو ایک ہی اختیار (option) حاصل ہے، وہ یہ کہ وہ صبر وبرداشت سے کام لے، تاکہ وہ دنیا میں نارمل طریقے سے رہ سکے۔
شکر ایک ایسا جذبہ ہے جو صرف ایک ایسے مائنڈ میں پیدا ہوتاہے جو کامل طور پر مثبت (positive) ہو، کسی بھی قسم کا منفی فکر(negative thought) اس کے ذہن میں موجود نہ ہو۔ مثبت ذہن کا آدمی ہی خدا کی توفیق سے اعلیٰ شکر ادا کرنے کے قابل ہوتاہے۔ صبر دراصل شکر کی قیمت ہے۔ جو آدمی یہ قیمت ادا نہ کرے، وہ شکر جیسی اعلیٰ عبادت بھی انجام نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

شکر کی اہمیت

طاغوت کا لفظی مطلب ہے، حد سے تجاوز کرنے والا۔ قرآن میں یہ لفظ شیطان کے لیے آیا ہے۔ کیوں کہ اس نے اللہ رب العالمین سے بغاوت کی۔شیطان کی سب سے بڑی کوشش یہ ہے کہ وہ انسان کو شکایتی ذہن میں مبتلا کرکے اللہ سے دور کردے۔ شیطان نے آدم کی تخلیق کے وقت اللہ رب العالمین کو چیلنج کرتے ہوئے کہا تھا وَلَا تَجِدُ أَکْثَرَہُمْ شَاکِرِینَ (7:17)۔ یعنی، تو اکثر انسانوں کو اعتراف کرنے والا نہ پائے گا۔
دین کا خلاصہ اللہ سے تعلق ہے۔ اللہ سے تعلق اگر انسان کو دریافت کے درجے میں حاصل ہوا ہو تو انسان کے اندر اپنے آپ میں یہ واقعہ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔اس کے برعکس، جہاں اللہ کا اعتراف (شکر) نہ ہو، یقینی طور پر وہاںاللہ سے حقیقی تعلق بھی نہ ہوگا۔انسان کے اندر اللہ کے شکر کا جذبہ کیسے پیدا ہوتا ہے۔وہ تدبر و تفکر سے پیدا ہوتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا یک طرفہ عطیہ ہیں۔ اس دریافت کے بعد انسان کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ اللہ رب العالمین کے اِسی اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔
تعلق باللہ فقہی یا قانونی حکم کے طور پر کسی کے اندر پیدا نہیں ہوتا، بلکہ وہ دریافت کے نتیجے کے طو رپر پیدا ہوتا ہے۔اگر ایسا ہوکہ بندے کے اندر ڈسکوری کے درجے میں اللہ سے تعلق پیدا ہو تو اس کے بعد اپنے آپ اس کے نتائج ظاہر ہوں گے، اس کی سوچ میں تعلق باللہ کی جھلک دکھائی دے گی۔ تعلق باللہ کا ایک ظاہرہ شکر(acknowledgement) ہے۔ اور جب اس قسم کا شکر کسی کو حاصل ہوجائے تو فطری طور پر اس کے اندر غور و فکر کا مزاج پیدا ہوتا ہے ، یعنی وہ ہمیشہ اللہ رب العالمین کے بارے میں غور وفکر کرتا رہے۔ معرفت اسی غور وفکر کا نتیجہ ہے۔ اسی لیے دین میں تدبر یا غور و فکر کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر: ایک قربانی کا عمل

شکر سب سے بڑی عبادت ہے۔ شکر جنت کی قیمت ہے۔ شکر کے بغیر ایمان نہیں۔ شکر کے بغیر سچی خدا پرستی نہیں۔ شکر کے بغیر آدمی اُن اعلیٰ کیفیات کا تجربہ نہیں کرسکتا جس کو قرآن میں ربّانیت (آل عمران،2:79) کہاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دین داری کی اصل روح شکر ہے۔ شکر کے بغیر دین داری ایسی ہی ہے جیسے پھل کااوپری چھلکا۔
لیکن شکر محض زبان سے کچھ الفاظ ادا کردینے کا نام نہیں، شکر ایک قربانی کا عمل ہے، بلکہ سب سے بڑی قربانی کا عمل۔ جو آدمی سب سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہو، وہی اُس شکر کا تجربہ کرسکتا ہے جو خدا کو مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میںہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے احساسِ محرومی کا شکار ہوتاہے۔ ہر انسان کے دل میںکسی نہ کسی کے خلاف منفی جذبات موجود رہتے ہیں۔ ہر انسان مختلف اسباب سے شکایت اور نفرت کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ یہی وہ صورتِ حال ہے جو شکر کو کسی انسان کے لیے مشکل ترین کام بنا دیتی ہے۔ آدمی زبان سے شکر کے الفاظ بولتا ہے، لیکن اس کا دل حقیقی جذباتِ شکر سے بالکل خالی ہوتا ہے۔
ایسی حالت میں صرف وہی انسان شکر کا عمل کرسکتاہے جس کا شعور اتنا زیادہ بیدار ہوچکا ہو کہ وہ ناشکری کے اسباب کے باوجود شکر کرسکے، جو منفی خیالات کے جنگل میں رہتے ہوئے مثبت احساس میں جینے والا بن جائے۔ وہ اپنے اندر سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر خلافِ شکر چیزوں کو نکالے، وہ اپنے اندر حقیقی جذباتِ شکر کی تخلیق کرسکے۔
شکر ایک عبادت ہے جو ہر حال میں مطلوب ہے۔ جو آدمی یہ سمجھے کہ شکر اُس وقت کرنا ہے جب کہ ہر چیز اُس کو اس طرح حاصل ہوجائے جیساکہ وہ انھیں حاصل کرنا چاہتاتھا، ملی ہوئی چیز اُس کی مرضی کے مطابق اُس کو مل جائے۔ ایسا آدمی کبھی شکر کرنے والا نہیں بن سکتا۔ خدا کا حقیقی شکر گزار وہی ہے جو شکایت کے باوجود شکر گزاری کار از دریافت کرے۔
واپس اوپر جائیں

شکر سے اضافہ

قرآن کی سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوا ہےوَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِی لَشَدِیدٌ (14:7) ۔یعنی،اور جب تمھارے رب نے تم کو آگاہ کردیا کہ اگر تم شکر کروگے، تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ اور اگر تم ناشکری کروگے، تو میرا عذاب بڑا سخت ہے
And remember also the time when your Lord declared: ‘If you are grateful, I will surely bestow more favours on you; but if you are ungrateful, then know that My punishment is severe indeed’ (14:7)
قرآن کی اِس آیت میں نعمت میں اضافہ سے مراد یہ ہے کہ دنیا کی زندگی میں جو انسان خدا کی نعمتوں کا سچا شکر ادا کرے گا، اُس کو آخر ت میں جنت کی صورت میں حقیقی طور پرزیادہ بڑا انعام دیا جائے گا۔حقیقت یہ ہے کہ انسان کو اس کی ذات کے اعتبار سے یا خارجی دنیا کے اعتبار سے جو چیزیں ملی ہیں، ان میں سے ہر چیز اس کے لیے عظیم نعمت (great blessing) ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ چیزوں کو فار گرانٹیڈ (for granted) نہ لے، بلکہ وہ ان کو شعوری طورپر دریافت کرے۔ وہ ان نعمتوں کے لیے کامل معنوںمیں خالق کا اعتراف (acknowledgement) کرے۔
شکر دراصل اعتراف کا دوسرا نام ہے۔ نعمت کے ملنے پر منعم کا اعتراف سب سے بڑی عبادت ہے۔ اور یہی عبادت وہ چیز ہے جو کسی انسان کو جنت کا مستحق بنائے گی۔نعمت کا احساس کس طرح ہوتا ہے۔ انسان کے اندر خالق نے ایک فیکلٹی رکھی ہے، اس کو احساسِ لذت (sense of enjoyment) کہتے ہیں۔
کائنات میں انسان واحد مخلوق ہے جو لذت کا احساس رکھتا ہے۔ موجودہ دنیا میں انسان کو عارضی طورپر اِسی لیے رکھا گیا ہے کہ وہ لذتوں کو محسوس کرکے خدا کاشکر اداکرے۔ جو انسان اِس دنیا میں حقیقی شکر کا ثبوت دے گا، وہ اگلی دنیا میںابدی جنت میں بسایا جائے گا، جہاں وہ اپنے احساسِ لذت کی کامل تسکین پاسکے۔ موجودہ دنیا انسان کے لیے عارضی شکر کا مقام ہے۔ یہی عارضی شکر وہ قیمت ہے جو کسی انسان کو ابدی جنت میں داخلے کا مستحق بناتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر وشکر

اکتوبر 1988 میں میرا کابل کے لیے ایک سفر ہوا۔میں نظام الدین ویسٹ نئی دہلی اپنےآفس سے ایر پورٹ کے لیے روانہ ہوا توسڑک کے دونوں طرف سرسبز درختوں کی قطاریں مسلسل چلی جا رہی تھیں ۔ اس کو دیکھ کر مجھے شارجہ کا ایک صحرائی منظر یاد آیا۔ 1984 کے شارجہ کے سفر میں الشیخ علی المحویتی (قاضی شارجہ) مجھے اپنے رہائشی مکان پر لے گئے تھے جو شہرسے تقریباً25 کیلومیٹر کے فاصلہ پر واقع تھا۔ یہ سفر پورا کا پورا صحرا کے ریتیلے میدان میں طے ہوا تھا۔ دہلی کا سفر سرسبز ماحول میں تھا تو شارجہ کا یہ سفر صحرائی ماحول میں۔ اس دنیا میں ’’درخت‘‘ اس لیے ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر شکر کرے، اور’’صحرا ‘‘ اس لیے ہیں کہ آدمی ان کو دیکھ کر صبر کر نا سیکھے۔ آدمی دونوں قسم کی چیزوں کو دیکھتا ہے مگروہ ان سے نہ شکر کا سبق لیتا ہے اور نہ صبرکا ۔
مومن انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ صحابیٔ رسول صہیب رومی (وفات 38 ھ) کی ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ اس کا ہر معاملہ اس کے لیے خیر ہے۔ اور ایسا مومن کے سوا کسی اور کے لیے نہیں ۔اگر اس کو آرام ملتا ہے تو (وہ اللہ کی حمد کرتا ہے، اور) شکر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے۔ اور اگر اس پر مصیبت آتی ہے تو وہ(اللہ کی حمد کرتا ہے، اور ) صبر کرتا ہے۔ پس وہ اس کے لیے خیر بن جاتا ہے
عَنْ صُہَیْبٍ، قَالَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَعَجَبًا لِأَمْرِ الْمُؤْمِنِ، إِنَّ أَمْرَہُ کُلَّہُ خَیْرٌ، وَلَیْسَ ذَاک لِأَحَدٍ إِلَّا لِلْمُؤْمِنِ، إِنْ أَصَابَتْہُ سَرَّاءُ (وفی روایۃ لاحمد حَمِدَ ‌رَبَّہُ ‌وَ) شَکَرَ، فَکَانَ خَیْرًا لَہُ، وَإِنْ أَصَابَتْہُ ضَرَّاءُ، (وفی روایۃ لاحمد وَإِنِ أصَابَتْہُ مُصِیبَةٌ حَمِدَ رَبَّہُ وَ) صَبَرَ فَکَانَ خَیْرًا لَہُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر2999؛ مسند احمد، حدیث نمبر 1487)۔
The affair of the believer is truly strange. Every situation proves good for him and this is special to a believer alone. If he finds himself in a pleasant situation, he is thankful to God, and that is good for him. If he is faced with unpleasant situation he keeps patience and again that is good for him.
اللہ کی حمد وہی کرسکتا ہے جومنفی نفسیات سے خالی ہو۔مومن کے ساتھ دو طرفہ خیر کا یہ معاملہ کسی پر اسرار سبب سے نہیں ہوتا ، وہ مکمل طورپر ایک معلوم سبب کے تحت پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ مومن اس انسان کا نام ہے جس کو دریافت کی سطح تک خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو۔ ایسے انسان کے اندر ایک ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اس کے اندر شعوری بیداری کی صفت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ معاملات اور تجربات کو حقیقت کی نظر سے دیکھے۔ وہ وقتی جذبات سے بلند ہو کر معاملہ کی گہرائی کو سمجھ سکے۔
مومن اپنی اس حقیقت شناسی کی بنا پر اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ جس تجربہ سے بھی گزرے وہ اس کو مثبت نتیجہ میں تبدیل کرسکے۔ وہ ہر واقعہ میں خدا کی کارفرمائی کو دیکھے۔ وہ ذاتی تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ میں رکھ کر دیکھ سکے۔ مومن کی یہی وہ صفات ہیںجو اس کے اندر یہ با معنٰی صلاحیت پیدا کردیتی ہیں کہ اس کو جب خوشی اور راحت کا تجربہ ہو تو وہ سرکش نہ بن جائے۔وہ اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے۔ اسی اعتراف خداوندی کا نام شکر ہے۔ شکر بلاشبہ ایک عظیم عبادت ہے۔
تاہم دنیا کی زندگی میں آدمی کو ہمیشہ خوش گوار تجربے نہیں ہوتے۔ بار بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو ناخوش گوار تجربات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس وقت مومن کی شعوری بیداری اس کو اس سے بچا لیتی ہے کہ وہ اس پر شکایت یا فریاد کرنے لگے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو خدا کے تخلیقی نقشہ کے مطابق سمجھتا ہے۔ وہ ناخوش گوار تجربہ کو ایک فطری عمل سمجھ کر اس سے یہ یقین حاصل کرتا ہے کہ یہ ایک وقتی چیز ہے۔ حالات یقیناً بدلیں گے اور وہ جلدہی مجھ کو زیادہ بہترزندگی عطا کریں گے، خواہ آج کی دنیا میں یا آج کے بعد بننے والی دوسری ابدی دنیا میں۔
حقیقت یہ ہے کہ صبر بھی شکر ہی کی ایک صورت ہے۔ ناخوش گوار صورت حال کو رضامندی کے ساتھ قبول کرنا اور اس کو خدا کی طرف سے آیا ہوا مان کر مثبت ذہن کے تحت اس کا استقبال کرنا یہی صبر ہے۔ اور یہ صبر ہمیشہ شاکرانہ قلب سے ظاہر ہوتا ہے۔ ناشکری سے بھرا ہوا دل کبھی صبر کا ثبوت نہیں دے سکتا۔
واپس اوپر جائیں

شکر کی تربیت

شکر کا مزاج کیسے پیدا ہوتا ہے، اس کو ایک واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں اسلامی ذہن بنانے کے لیے بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں، مگر پچاس سالہ کوششوں کے باوجود اب تک اسلامی انداز میں لوگوں کی ذہنی تربیت نہ ہوسکی ۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کے بیان کے نصف ثانی سے اتفاق ہے۔ مگر مجھے اس کے نصف اول سے اتفاق نہیں ۔صرف اسلام کا نام لینے سے اسلامی تربیت نہیں ہوتی۔ اصل یہ ہے کہ اسلامی ذہن بنانے کے لیے صحیح رخ میں کوشش نہیں کی گئی ۔ جب سمت درست نہ ہو تو مطلوب نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے ۔ اسلامی مزاج بنانے کی ابتدا خدا کی معرفت اور خدا کے شکر کا مزاج پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔
یہ مزاج کیسے پیدا ہوتا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ المنبر کے شمارہ 25 ستمبر1991 میں ’’ ضیاءالحق شہید فاؤنڈیشن‘‘ کے زیراہتمام ہونے والی کانفرنس کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ ضیاء الحق فاونڈیشن کو فوری طور پر قوم کے کردار اور فکر کی تہذیب و تربیت کا کام شروع کرنا چاہیے‘‘۔
مگر محض اس طرح اسلام کا نام لینے سے خدا کی معرفت اور اسلامی کر دار پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضرورت ہو تی ہے کہ لوگوں کو حیات و کائنات کا اس طرح مطالعہ کرایا جائے کہ ان کے گرد و پیش کی پوری دنیا ان کے لیے رزق ربانی کا دسترخوان بن جائے، تاکہ انسان خدا کی بلیسنگ کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل کرے، اور خدا کا شکر گزار بنے۔مگر مذکورہ میگزین میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کے تذکرہ کے تحت درج ہے کہ ’’یہ شہید صدر ہی تھے جن کی بدولت (سویت یونین ٹوٹنے کے بعد)قرآن مجید کے لاکھوں نسخے روس میں تقسیم ہوتے رہے‘‘(صفحہ 22)۔ المنبر میں دعوتی عمل کے واقعہ کو تمام تر ایک انسان کی بدولت ظہور میں آنے والا واقعہ بتایا گیا ہے۔
اسی واقعہ کا ذکر الرسالہ (نومبر1990 ،صفحہ27) میں بھی کیا گیا ۔ سوویت سسٹم کا تجزیہ کرتے ہوئے راقم الحروف نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ تدبیروں کے ذریعہ حالات میں وہ تبدیلی پیدا کی جس کے نتیجہ میں سوویت یونین کی آہنی دیواریں ٹوٹ گئیں اور وہاں اسلام کا داخلہ ممکن ہو گیا ۔
کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں— اس واقعہ کو اکابر قوم یا قومی ہیرو کے خانے میں ڈال کر دیکھنا۔ اس کے برعکس، دوسرا طریقہ ہے اس واقعہ کوخدا کے خانہ میں ڈال کر دیکھنا ۔الرسالہ کے مضمون کو پڑھ کر آدمی کے اندرشکر خدا وندی کا جذ بہ امنڈے گا۔ مزیداس کے اندر یہ جذبہ ابھرے گا کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ان کو استعمال کریں ۔ جب کہ المنبر کے بیان سے صرف ہیروورشپ کا جذبہ ابھرے گا، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی تربیت کے لیے مسلمانوں کا موجودہ طریقہ کس طرح ناکافی ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــ
جمہوریہ مالدیپ بحر ہند میں واقع جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے۔ دسمبر1987 میں مالدیپ کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ یہ سفر ایک انٹر نیشنل اسلامک کا نفرنس میں شرکت کے لیے تھا جس کا اہتمام حکومت مالدیپ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ 5 دسمبر1987 کی صبح کو فجر سے پہلے گھر سے روانہ ہونا تھا ۔4 دسمبر کی شام کو مختلف کاموں میں دیر ہوگئی اور میں ساڑھے بارہ بجے سے پہلے بستر پر نہ جاسکا ۔ سوتے وقت دل سے دعا نکلی کہ خدا یا مجھے تین بجےجگا دیجیے۔ تاخیر کی وجہ سے نیند بھی کسی قدر دیر میں آئی، اور میں سو گیا۔ میں بالکل گہری نیند سورہا تھا کہ خلاف معمول اچا نک نیند کھل گئی ۔ دیکھا تو گھڑی کی ایک سوئی تین پر تھی اور دوسری سوئی بار ہ پر۔میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ دل نے کہا کہ اللہ کی مدد ٹھیک اپنے وقت پر آتی ہے ، اگر چہ انسان اپنی عجلت پسندی کی وجہ سے گھبرا اٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی مدد آنے والی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انسان اور نظامِ ربوبیت

انسان ایک مکمل وجود ہے، مگر اِسی کے ساتھ وہ مکمل طورپر خارجی سہارے کا محتاج وجود ہے۔یعنی، انسان کو اپنے وجود کی تکمیل کے لیے ہر لمحہ ایک مددگار نظام درکار ہے۔ اِس نظام کے بغیر وہ اپنے وجود کو باقی نہیں رکھ سکتا۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے یَاأَیُّہَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللَّہِ (35:15)یعنی،اے لوگو، تم اللہ کے محتاج ہو۔
اِس مددگار نظام کا نام نظامِ ربوبیت ہے، یعنی رب العالمین کا قائم کردہ نظام۔مثلاًانسان کے اندر نظامِ ہضم(digestive system) ہے، مگر غذائی اشیا کی سپلائی باہر سے ہوتی ہے۔ انسان کے اندر نظامِ تنفس (respiratory system )ہے، مگر آکسیجن اس کو خدا کے کارخانے سے ملتا ہے۔ انسان کے پاس نظامِ بصارت ہے، مگر وہ روشنی خداکی طرف سے آتی ہے جس کے بغیر وہ دیکھ نہیں سکتا۔ انسان کے پاس نظامِ سماعت ہے، مگر اُس ہوا کو چلانے والا خدا ہے جس کے ذریعہ انسان کے کانوں تک آواز پہنچتی ہے، وغیرہ۔انسانی وجود کے اندر اِس قسم کے بہت سے نظام ہیں، مگر ہر نظام اپنی کارکردگی کے لیے خارجی مدد کا محتاج ہے۔ یہ مختلف قسم کے خارجی نظام جن پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ ان کے مجموعہ کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتاہے۔ یہ اگر سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا پورا وجود بے معنی ہوجائے گا۔
مچھلی پانی کے باہر مسلسل تڑپتی رہتی ہے۔ ایسا اس لیے ہوتاہے کہ اس کو زندہ رہنے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے اور مچھلی صرف پانی سے آکسیجن لے سکتی ہے۔ مچھلی کی یہ مثال ہر آدمی کے لیے بہت زیادہ سبق آموز ہے۔ ہر وقت انسان کو سوچنا چاہیے کہ خدا اگر لائف سپورٹ سسٹم یا بالفاظ دیگر اپنے نظامِ ربوبیت کو واپس لے لے تو میراکیا حال ہوگا۔قرآن میں ہےبتاؤ، اگر اللہ قیامت کے دن تک تم پر ہمیشہ کے لیے رات کردے تو اللہ کے سوا کون معبود ہے جو تمہارے لیے روشنی لے آئے۔ تو کیا تم لوگ سنتے نہیں(28:71)۔یہ سوچ اگر آدمی کے اندر حقیقی طورپر پیدا ہوجائے تو یہی ایک بات اس کے اندر تمام اعلی انسانی قدروں (human values) کو پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گی۔ مثلاً تواضع (modesty) ، شکر، عفو ودرگزر، خیر خواہی، انصاف، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ خدا کا عطیہ

1938 میں عرب میں پٹرولیم کی دریافت ہوئی ۔ اس کے بعد عربوں کی زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب بدو کا واقعہ ہے، وہ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سوئٹزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب بدو ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب بدو کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب بدو کو سوئٹزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سوئٹزر لینڈ کا مکان عرب بدو کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب بدو کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ اس فطری حقیقت کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہےاے لوگو! تم سب اللہ کے محتاج ہو(35:15)۔پھر اس کو موجودہ دنیا کی صورت میں سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ فطرت اپنے تمام خزانوں کے ساتھ تاحیات اس کی خدمت گزار بن جاتی ہے ۔
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب بدو کی طرح، شکر کے احساس سے، سجدے میں گرپڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ (for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

شکر کے دو درجے

اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔ اِس اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔اِس کے دو درجے ہیں— ایک، نارمل شکر یانارمل اعتراف (normal acknowledgement)۔ دوسرا، تخلیقی شکر یا تخلیقی اعتراف (creative acknowledgement) ۔ نارمل شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ کو پیاس لگی۔ آپ نے گلاس میں پانی لے کر اس کو پیا۔ اِس سے آپ کو سیرابی حاصل ہوئی اور پھر آپ نے کہا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ کو پانی دیا جس سے میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
تخلیقی شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جب پانی پیا تو آپ کو پانی کی وہ پوری تاریخ یاد آگئی جو جدید سائنس نے دریافت کی ہے، یعنی تقریباً 15 بلین سال پہلے وسیع خلا میں بے شمار ستارے (stars) وجود میں آئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد لٹل بینگ (little bang) ہوا، جس سے موجودہ نظامِ شمسی وجود میں آیا۔ اِس کے بعد زمین کی سطح پر بہت بڑی مقدار میں ہائڈروجن گیس اور آکسیجن گیس کے بادل چھاگئے، پھر دو گیسوں کے ملنے سے وہ استثنائی چیز وجود میں آئی جس کو ’’پانی‘‘ کہاجاتا ہے۔ پھر یہ پانی سمندروں میں کھاری پانی کی حیثیت سے جمع ہوگیا، پھر بارش کے نظام کے تحت، اِس کھاری پانی کا ازالۂ نمک (desalination) ہوا۔ اِس طرح ہمیں وہ میٹھا پانی حاصل ہوا جس سے ہم اپنی پیاس بجھائیں اور دوسرے کام کریں۔ مثلاً زراعت، وغیرہ۔
پانی کے معاملے میں پہلی صورت نارمل شکر کی ہے اور دوسری صورت تخلیقی شکر کی۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا شکر اگر صرف شکر ہے تو دوسرا شکر برتر شکر۔ شکر اور برتر شکر کا یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کے بارے میں پیش آتا ہے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال خون (blood) ہے۔ انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے، پھر یہ خون ایک اور پیچیدہ نظام کے تحت سارے جسم میں رگوں کے ذریعے مسلسل دوڑتا ہے۔ یہ بلاشبہ ربوبیت کے نظام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں انسان کو خدا کی نعمتیں یاد دلاتی ہیںاور وہ اللہ کے لیے سراپا شکر میں ڈھل جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں خون کا تصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک سرخ سیال ہے جو جسم کی طاقت کے لیے جسم کے اندر گردش کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ دریافت ہوئی کہ خون دو قسم کے ذرات سے مل کر بنتا ہے— سرخ ذرات (red blood corpuscles)، اور سفید ذرات (white blood corpuscles) ۔ اب یہ دریافت ہوئی ہے کہ خون میں اِس کے سوا، ایک اور خورد بینی ذرہ ہوتا ہے۔ اس کو پلیٹ لیٹس (platelets) کانام دیاگیاہے۔ یہ تیسرا ذرہ انسان کی زندگی اور صحت کے لیے بےحد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خون ہراعتبار سے، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس نعمت کا احساس آدمی کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔
اِس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کے اوپر انسان کی زندگی قائم ہے۔ یہ نظام براہِ راست خدا کی قدرت کے تحت قائم ہے اور اِسی کو قرآن میں ربوبیت کہاگیاہے۔ یہ نظامِ ربوبیت تمام تر اللہ کی جانب سے قائم ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ربوبیت کے اِس نظام سے واقفیت حاصل کرے اور پورے معنوںمیں اللہ کا شاکر بندہ بن کر اِس دنیا میں رہے۔
قرآن میں بتایا گیاہے کہ رب صرف اللہ ہے اور اُسی کی ربوبیت اِس دنیا میں قائم ہے (6:164)۔اِسی طرح فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے اور تمام چیزیں اُسی کے زیر حکم ہیں(12:40)۔ یہ دونوں الفاظ (رب اور حکم) اللہ کی ذات کی نسبت سے قرآن میںآئے ہیں، اس کا کچھ بھی تعلق سیاسیات یا معاشیات سے نہیں ہے۔مگر موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ انھوں نے مذکورہ الفاظ قرآن سے لیے اور اس کے اندر اپنے خود ساختہ مفہوم کو شامل کردیا۔ یہ گویا کہ ’رب‘ اور’ حکم‘ کے لفظ کو سیاسی بنانا (politicisation) تھا۔ قرآنی الفاظ میں اِس قسم کا خود ساختہ مفہوم شامل کرکے انھوں نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان کا یہ مشن ہے کہ وہ دنیا میں نظامِ ربوبیت یا نظامِ حاکمیت قائم کرے۔ یہ بلا شبہ ایک غیرعلمی بات ہے۔ اس کی غلطی اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے۔
واپس اوپر جائیں

جذباتِ شکر کی بیداری

حضرت عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھ کر شام کو پانی سے افطار کیا تو آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللہُ(سنن ابو داؤد،حدیث نمبر2357) ۔یعنی، پیاس چلی گئی اور رگیں تر ہو گئیں اور روزے کا اجر ان شاء اللہ ثابت ہوگیا۔
پانی ایک غیر معمولی قسم کی نعمت ہے۔ پانی پر انسانی زندگی کا انحصار ہے۔ پانی نہیں تو زندگی نہیں۔ مگر عام حالات میں پانی کی اِس خصوصی نعمت کا احساس نہیں ہوتا۔ مگر ایک آدمی جب روزہ رکھ کر سارے دن پانی کا استعمال نہ کرے اور اُس پر پیاس کا تجربہ گزرے، اُس وقت جب آدمی پانی پیتا ہے تو اس کو محسوس ہوتا ہے کہ پانی کیسی عجیب نعمت ہے۔
اُس وقت آدمی کے تمام احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ وہ سوچتا ہے کہ کس طرح دو گیسوں کے ملنے سے سیال (liquid)پانی بن گیا۔ اتھاہ مقدارمیں پانی کے ذخیرے زمین کے اوپر جمع ہوگئے، پھر پانی سے زندگی کی تمام ضرورتیں پوری ہوگئیں۔ انھیں میں سے ایک یہ ہے کہ پانی آدمی کی پیاس کو بجھاکر اس کے لیے زندگی کا سبب بنتا ہے۔یہ احساسات جب جاگتے ہیں تو نہ صرف یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی پیاس بجھتی ہے، بلکہ اِسی کے ساتھ شکر ِخداوندی کا ایک دریا آدمی کے اندر رواں ہوجاتا ہے۔
اللہ، انسان کا منعمِ حقیقی ہے۔ اللہ نے انسانوں کو ان گنت نعمتیں عطا کی ہیں۔ ان نعمتوں پر اللہ کا حقیقی شکر ادا کرنا، اللہ کی سب سے بڑی عبادت ہے۔ روزہ کے ذریعہ جب انسان کے اندران نعمتوں کا احساس جگایا جاتا ہے تو آدمی کا شعور بیدار ہوجاتا ہے۔ وہ غفلت سے باہر آجاتا ہے۔ وہ احساسِ نعمت سے سرشار ہوکر حقیقی معنوں میں اللہ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے۔روزہ ،جذباتِ شکر کی بیداری کا ذریعہ ہے۔ انسان ہر وقت انعاماتِ خداوندی کے سمندر میں رہتا ہے، مگر عام حالات میں اس کو ان نعمتوں کا شعوری احساس نہیں ہوتا۔ روزہ آدمی کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اِن نعمتوں کو ازسرِ نو دریافت کرکے اپنے رب کی اعلیٰ معرفت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں

شکر کا احساس

اگر آپ لذیذ کھانا کھائیں اور اس کو کھا کرلپ سروس کے طور پر الحمد للہ کہیں تو یہ حیوانی درجے کا شکر ہے۔ کیوں کہ یہ مشاہدہ اور ذائقہ پر مبنی ہے، اور مشاہدہ اور ذائقہ کے درجے کا شکر صرف حیوانی درجے کا شکر ہے، وہ اعلیٰ انسانی درجے کا شکر نہیں۔
اعلیٰ درجے کا شکر یہ ہے کہ جب کھانا آپ کے سامنے آئے تو اس کو دیکھ کر خدا کا پورا تخلیقی نظام آپ کو یاد آجائے۔ آپ سوچیں کہ یہ تمام غذائی چیزیں پہلے غیر غذائی چیزیں تھیں۔ خدا نے ایک برتر عمل (process) کے ذریعے ایک عظیم واقعہ برپا کیا۔ وہ تھا غیر غذا (non-food) کو غذا (food) میں تبدیل کرنا۔ اِس طرح ایک کائناتی عمل کے ذریعے یہ تمام غذائی چیزیں وجود میں آئیں۔
پھر آپ یہ سوچیں کہ یہ غذائی چیزیں اپنی ابتدائی صورت میں میرے لیے توانائی (energy) کا ذریعہ نہیں ہوسکتی تھیں۔ چنانچہ خدا نے مزید یہ کیا کہ اُس نے میرے جسم کے اندر ایک پیچیدہ قسم کا نظام ہضم (digestive system) رکھ دیا۔ یہ نظامِ ہضم ایک خود کار نظام ہے۔ جب میں کوئی چیز کھاتا ہوں تو یہ نظام ہضم اِن غذائی چیزوں کو حیرت انگیز طورپر زندہ خلیات(living cells) میں تبدیل کردیتا ہے، پھر یہ زندہ خلیات میرے جسم میں گوشت اور خون جیسی چیزوں میں ڈھل جاتے ہیں۔ یہ سوچ کر آپ کے اندر شکر کا گہرا احساس پیدا ہوگا، جس کو الفاظ میں ظاہر کرنے کے لیے آپ خود کو عاجز پائیں گے۔
اِس مثال سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی شکر کیا ہے اور حیوانی شکر کیا۔ اگر آپ کے اندر صرف حیوانی درجے کا شکر ہے توآپ ہمیشہ ناشکری کے احساس میں جئیں گے۔ شکر کے اعلیٰ احساس میں جینے کے لیے انسانی درجے کا جذبۂ شکر درکار ہے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ کم پائی جاتی ہےوَقَلِیل ‌مِّنۡ ‌عِبَادِیَ ٱلشَّکُورُ ( 34:13)۔انسان سے اللہ تعالیٰ کو جو شکر مطلوب ہے، وہ انسانی درجے کا شکر ہے۔ صرف حیوانی درجے کا شکر انسان جیسی مخلوق سے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

اعلیٰ شکر

شیطانی اغوا کا اصل نشانہ یہ ہے کہ وہ انسان کو شکر کے راستے سے ہٹا دے (الاعراف،7:17)۔ ہدایت اور گم راہی دونوں کا اصل خلاصہ یہی ہے۔ ہدایت یہ ہے کہ آدمی شکر کے احساس میں جینے والا ہو۔ اِس کے مقابلے میں، گم راہی یہ ہے کہ آدمی کا دل شکر کے جذبات سے خالی ہوجائے۔ شیطان یہی کام ہمیشہ کرتا رہا ہے، لیکن بعد کے زمانے میں شیطان کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ لوگوں کو زیادہ بڑے پیمانے پر شکر ِ خداوندی کے راستے سے ہٹا سکے۔ اِسی لیے حدیث میں اِس فتنے کو دجّال یا دجّالیت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خدا کی نعمتوں کے اعتراف (acknowledgement) کا دوسرا نام ہے۔ یہ شکر ہر زمانے میں انسان سے مطلوب تھا۔ پچھلے زمانے میں بھی اور موجودہ زمانے میں بھی۔ کسی انعام پر مُنعم کا اعتراف کرنا، ایک فطری انسانی جذبہ ہے۔ لیکن اعتراف کے لیے ہمیشہ کسی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference) کی ضرورت ہوتی ہے۔ مثلاً جب آپ کھانے کی کوئی چیز کھاتے ہیں، تو آپ کو فوڈ آئٹم کی صورت میں شکر، یا اعتراف کا ایک پوائنٹ آف ریفرنس مل جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ خدایا، تیرا شکرہے کہ تو نے مجھے یہ چیز کھانے کے لیے عطا کی۔
لیکن ایک شخص جو جدید علم نباتات (Botany) اور جدید علم زراعت (Agriculture) اور جدید علم باغبانی (Horticulture) سے واقف ہو، اس کے لیے یہ ممکن ہوجائے گا کہ وہ کسی فوڈ آئٹم کی معنویت کو ہزاروں گُنا زیادہ اہمیت کے ساتھ دریافت کرسکے۔ اِس طرح اس کا احساسِ شکر، عام انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جائے گا۔ جب وہ کہے گا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھے کھانے کے لیے یہ فوڈ آئٹم دیا، تو وہ ایک عظیم اہتزاز (super thrill) کے جذبے کے تحت، وہ الفاظ بولے گا جس کا تجربہ پہلے کسی انسان کو نہیں ہوسکتا تھا۔پہلا شخص جس حقیقت کو صرف ذائقہ لسانی کی سطح پر جانے گا، دوسرا شخص اس کو وسیع تر علم سائنس کی سطح پر دریافت کرے گا۔ پہلے شخص کا اعتراف اگر ایک سادہ اعتراف ہوگا، تو دوسرے شخص کا اعتراف ایک ہمالیائی اعتراف بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

شکر ِقلیل، شکر ِکثیر

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ لَمْ یَشْکُرِ الْقَلِیلَ، لَمْ یَشْکُرِ الْکَثِیرَ(مسند احمد،حدیث نمبر18449 ) یعنی جو شخص کم پر شکر نہیں کرے گا، وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرے گا۔ اِس حدیثِ رسول میں فطرت کے ایک قانون کو بتایا گیا ہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ چھوٹے واقعے کو یاد کرنے سے بڑے بڑے واقعات ذہن میں تازہ ہوجاتے ہیں۔
نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے دماغ میں بہت سے الگ الگ فولڈر (folder) ہوتے ہیں۔ مثلاً محبت کا فولڈر، نفرت کا فولڈر، اعتراف (acknowledgement)کا فولڈر، ظلم کا فولڈر، وغیرہ۔ جوچیزیں انسان کے تجربے اورمشاہدے میں آتی ہیں،اُن کو دماغ الگ الگ کرکے ان کے متعلق فولڈر میں ڈالتا رہتا ہے۔ آدمی جب کسی ایک واقعے سے متاثر ہو تو اُس وقت انسان کا دماغ ٹریگر (trigger) ہوجاتاہے اور پھر فوری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ اُس سے متعلق (relevant) فولڈر کھل جاتا ہے اور اس نوعیت کے تمام واقعات آدمی کے ذہن میںتازہ ہوجاتے ہیں۔
فطرت کا یہ قانون شکر اور اعتراف کے معاملے میں بھی بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ مثلاً آج آپ کو ایک موبائل ملا۔ اُس سے آپ نےکسی دوسرے مقام پر موجود ایک شخص سے بات کی۔ اُس وقت آپ نے سوچا کہ پہلے زمانے میں ایک آدمی کو کسی دوسرے پر موجود آدمی سے رابطہ قائم کرنے میں کتنی مشکلیں پیش آتی تھیں۔ اِس پر آپ نے گہرے تاثر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کیا تو اس کے بعد فوراً یہ ہوگا کہ آپ کا دماغ ٹریگر ہوجائے گا۔ اُسی وقت دماغ کا وہ فولڈر کھل جائے گا، جس میں آپ کی پوری زندگی میں پیش آنے والے شکر واعتراف کے تمام آئٹم محفوظ ہیں۔فطرت کے اِس نظام کے تحت ایسا ہوتا ہے کہ شکر کے چھوٹے واقعے کی یاد، شکر کے دوسرے تمام واقعات کو یاد دلا دیتا ہے۔ اِس طرح شکر کا چھوٹا واقعہ بڑے شکر کا سبب بن جاتاہے، یہاں تک کہ آدمی کے دل میں شکر کا چشمہ جاری ہوجاتا ہے۔ شکر کا احساس خدا سے آدمی کے تعلق کو بڑھاتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اعلیٰ معرفت کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر سب سے بڑی عبادت

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مختلف کتابوں میں آئی ہے ۔ مثلاً صحیح البخاری (حدیث نمبر 6490)، صحیح مسلم ( حدیث نمبر 2963)جامع الترمذی ( حدیث نمبر 2513)، سنن ابن ماجہ (حدیث نمبر 4142) ،وغیرہ۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیںانْظُرُوا إِلَى مَنْ أَسْفَلَ مِنْکُمْ، وَلَا تَنْظُرُوا إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَکُمْ، فَہُوَ أَجْدَرُ أَنْ لَا تَزْدَرُوا نِعْمَةَ اللہِ۔ قَالَ أَبُو مُعَاوِیَةَ ۔ عَلَیْکُم(مسند احمد،حدیث نمبر10246)۔ یعنی، تم اس کو دیکھو جوتم سے نیچے ہے اورتم اس کونہ دیکھو جوتم سے اوپر ہے ، کیوںکہ اس طرح تم اپنے اوپر اللہ کی نعمت کوکم نہیں سمجھوگے ۔
اس حدیث کی مزید تشریح ایک اورحدیث سے ہوتی ہے ۔ ایک مرفوع روایت کے مطابق رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خَصْلَتَانِ ‌مَنْ ‌کَانَتَا ‌فِیہِ کَتَبَہُ اللہُ شَاکِرًا وَصَابِرًا ، مَنْ نَظَرَ فِی دِینِہِ إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ ، وَنَظَرَ فِی دُنْیَاہُ إِلَى مَنْ ہُوَ دُونَہُ ، فَحَمِدَ اللہَ ، کَتَبَہُ اللہُ شَاکِرًا صَابِرًا وَمَنْ نَظَرَ فِی دُنْیَاہُ إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ فَأَسِفَ عَلَى مَا فَضَّلَہُ اللہُ عَلَیْہِ ، لَنْ یَکْتُبَہُ اللہُ شَاکِرًا وَلَا صَابِرًا (مسند الشامیین للطبرانی، حدیث نمبر 505)۔یعنی، دوصفتیںہیں جوکسی کے اندرہوں تو اللہ اس کو شاکر اورصابر لکھ دیتاہے ۔ جواپنے دین کے معاملہ میںاس کو دیکھے جواس کے اوپرہے، اوردنیا کے معاملہ میں اس کو دیکھے جواس سے کم ہے پھر وہ اللہ کا شکراداکرے، اللہ اس کو شاکر اورصابر لکھ دیتاہے ۔ اورجواپنے دنیا کے معاملہ میں اس کو دیکھے جواس سے بڑھ کرہے پھروہ اس پرافسوس کرے جو مادی برتری اللہ نے اس کے مقابل کو دی تواللہ اس کو ہرگز شاکرو صابرنہیں لکھے گا۔
شکر سب سے بڑی عبادت ہے ۔ کسی بندے سے جوچیز سب سے زیادہ مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ وہ اللہ کو ایک عظیم منعم کے طورپر دریافت کرے ۔ اللہ کی نعمتوں کے احساس سے اس کاسینہ بھراہواہو ۔ اس کی روح میں شکر کاابدی چشمہ جاری ہوجائے۔وہ اللہ کو ایک ایسی ہستی کے طورپرپائے جو اس پر بے پایاں نعمتوں کی بارش کررہاہے ۔ یہ شعور اتنا زیادہ قوی ہوکہ کسی بھی حال میں اس کاسینہ شکر خدا وندی کے احساس سے خالی نہ ہو۔
مگر یہ کوئی آسان بات نہیں ۔ اپنے آپ کوشکر کے جذبہ سے سرشار رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ آدمی کاشعور اس معاملہ میں پوری طرح زندہ ہو ۔ وہ اس کامسلسل اہتمام کرے ۔ وہ کسی ایسے خیال کو اپنے دل میں جگہ نہ دے جواس کے جذبۂ شکر کومجروح کرنے والاہو۔ وہ سب کچھ برداشت کرلے مگر وہ اپنے جذبۂ شکر کاانحطاط (erosion)کبھی برداشت نہ کرے۔ موجودہ دنیا میں فطری طورپر ہمیشہ ایسا ہو تاہے کہ لوگوں کے درمیان نا برابری قائم رہتی ہے ۔ اس بنا پر ہرآدمی یہ محسوس کرتاہے کہ مادی اعتبارسے کوئی اس سے کم ہے اورکوئی اس سے زیادہ ۔ اب اگر آدمی اپنامقابلہ اس شخص سے کرے جوبظاہر اس سے زیادہ ہے تواس کے اندر کمتری کااحساس پیدا ہوگا اور اس کاجذبۂ شکر دب کررہ جائے گا۔ اس لیے آدمی کوایسا کبھی نہیں کرنا چاہیے کہ وہ اپنا موازنہ (comparison) اس سے کرے جومادی اعتبارسے بظاہر اس سے زیادہ ہے ۔ اس کے بجائے آدمی کویہ کرنا چاہیے کہ وہ اپنا موازنہ (comparison)ان لوگوں سے کرے جومادی اعتبارسے ا س سے کم ہیں ۔ اس طرح اس کاجذبۂ شکر زندہ رہے گا ۔ اس کا دل کبھی نعمت کے احساس سے خالی نہ ہوسکے گا۔
موجودہ دنیا میں ہمیشہ ایساہو تاہے کہ تمام لوگ مادی اعتبارسے یکساں نہیں ہو تے ۔ کوئی زیادہ ہو تاہے اورکوئی کم ، کوئی پیچھے ہوتاہے اورکوئی آگے ، کوئی طاقت ورہوتاہے اورکوئی کمزور ۔ اس قسم کے تمام فرق امتحان کی مصلحت کی بنا پر ہیں ۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ آدمی مختلف قسم کے حالات سے گزرے ، مگروہ حالات سے متاثرہوئے بغیر اپنے ایمانی شعور کوزندہ رکھے ۔ وہ ناشکری والے حالات سے دوچار ہو، پھربھی اس کے شکر کے جذبہ میں کوئی کمی نہ آئے ۔ وہ بے اعترافی کی صورتِ حال سے گزرے ، مگر وہ اپنے اعتراف کی صفت کو نہ کھوئے ۔ وہ منفی جذبات پیدا کرنے والے حالات سے دوچارہو ، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو مثبت طرز فکر پرقائم رکھے ۔ شکر وہ سب سے قیمتی متاع ہے جس کو انسان اپنے رب کے سامنے پیش کرسکتاہے ۔ ایسی حالت میںعقل مند انسان وہ ہے جو اپنے سینہ کو شکر کے احساس سے خالی نہ ہونے دے ، حتی کہ انتہائی غیرموافق صورت حال میں بھی ۔
واپس اوپر جائیں

شکر میں جینا سیکھیے

کسی انسان کو شکر کا اعلیٰ درجہ کیسے حاصل ہوتا ہے۔مئی 2012 میں میں نے ترکی کا سفر کیا۔ وہاں مجھ کو جو پانی پینے کے لیے دیا گیا، وہ پانی اتنا زیادہ فریش (fresh) تھا، اور پینے میں اتنا زیادہ میرے اعلیٰ ذوق کےعین مطابق تھا ۔ میں نے پانی کا گلاس میز پر رکھ دیا، اور سوچنے لگا کہ خالق نے یہ کیسے جانا کہ میرے بندے کو ایسا پانی چاہیے، اور اس نے فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے بندے کی عین طلب کے مطابق، اس کو پانی فراہم کریں۔
کوئی چیز پُرلذت اِسی لیے ہے کہ ہمارے اندر لذت کا احساس موجود ہے۔ اگر لذت کا احساس نہ ہو، تو کوئی بھی چیز لذت کا ذریعہ نہیں بن سکتی۔سائنسی ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ انسان کی زبان میں تقریباً دس ہزار ذائقہ خانے (taste buds) ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے اندر جتنے ذائقہ خانے ہیں، ان کے عین مطابق خدا نے ہمارے آس پاس کی دنیا میں فل فلمینٹ (fulfillment ) کا سامان بھی مہیا کردیا ہے۔ یہ خدا کی قدرت کا انتہائی انوکھا ظاہرہ ہے۔ کیوں کہ انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ کسی ذائقے کو اس وقت جانتا ہے، جب کہ وہ خود اس کا تجربہ کرے۔ ذاتی تجربے کے بغیر کسی ذائقے کو جاننا انسان کے لیے ممکن نہیں۔
ایک سنجیدہ انسان جب دنیا میں کسی ذائقے کا تجربہ کرتا ہےتو یہ احساس اس کو شکر کے اتھاہ جذبے سےسرشار (overwhelm) کردیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اس منعم کا اعتراف کرے، لیکن وہ محسوس کرتا ہے کہ اس کے پاس وہ الفاظ نہیں، جن کے ذریعے وہ اس عظیم نعمت کا اعتراف کرسکے۔ یہ اس کے لیے ایک ناقابلِ تصور تجربہ ہوتاہے۔ اسی تجربے کا نام شکر ہے۔
یہ تجربہ اتنا زیادہ اعلی ہوتاہےکہ منعم کےلیےزبان سےشکر کی ادائیگی کےہر الفاظ اس کو کمتر لگنے لگتے ہیں۔ وہ چاہتا ہےکہ اس کی پوری شخصیت ایک زبان بن جاتی، اور وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اپنے رب کا شکر ادا کرتا۔ اس کا پورا وجود شکر کے احساس میں ڈھل جاتا ، اوروہ زبان سے شکر کے الفاظ بولنے والا نہیں، بلکہ سراپا شکر میں جینے والا انسان بن جاتا۔
واپس اوپر جائیں

محرّک شکر

تقریباً تیرہ بلین سال پہلے سولر سسٹم وجود میں آیا۔ اس وقت زمین کے اوپر صرف گیس تھی۔ پھر گیس کے ذریعے پانی بنا۔ پانی کا فارمولا H2O ہے، یعنی زمین میں ایسے مالیکیول (molecule) رکھ دیے گئے، جس میں ہائڈروجن کے دو ایٹم ہوتےتھے، اور آکسیجن کا ایک ایٹم۔ اس طرح زمین کے اوپر پانی وجود میں آیا۔ یہ پانی بڑے پیمانے پر سمندر کی گہرائیوں میں جمع ہوگیا۔ ابتدامیں نیچر نے اس پانی میں حفاظتی مادہ (preservative) کے طور پر نمک (salt) شامل کیا ۔ یہ نمک آمیزپانی براہ راست طور پر انسان کے لیے قابل استعمال نہ تھا۔ پھر زمین کے اوپرسورج کی حرارت اور پانی کے تعامل سے حیرت انگیز طور پر بارش کا انتظام ہوا۔ فطری طور پر نمک کا وزن زیادہ تھا، اور پانی کا وزن کم۔ چنانچہ جب سمندرکی سطح پر سورج کی حرارت پہنچی تو سمندر کا پانی فطری قانون کے تحت ازالۂ نمک (desalination) کے پراسس سے گزر ا،یعنی پانی بھاپ بن کرنمک سےالگ ہوگیا ۔ نمک سمندر میں رہ گیا، اور پانی بھاپ بن کر فضا میں بلندہوا، وہاں وہ بادل بنااور آخر کار وہ پانی بارش کی صورت میں دوبارہ زمین پر برسا۔ اس پانی نے زمین کو سیراب کیا، اور چشموں اور دریاؤں کی صورت میں محفوظ ہوگیا۔
فطرت کے نظام کے تحت یہ ایک سائکل (cycle) ہے، جو مسلسل طور پر جاری ہے۔ پانی کا یہی نظام ہے، جس نے زمین کو انسان کے لیے حیات بخش سیارہ بنا کر رکھا ہے۔ اگر یہ نظام نہ ہو تو انسان زمین کے اوپر زندہ سماج نہ بنا سکے۔ زمین پر تہذیب کی تشکیل پانی کے بغیر ناممکن ہو جائے۔ اس پورے عمل پر غور کیا جائے ،تو اس میں حکمت کے اتنے زیادہ پہلو ہیں، جو انسان کے لیے مائنڈ باگلنگ ظاہرہ (mind-boggling phenomena) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ قدیم زمانے کا انسان ان حقیقتوں سے بے خبر تھا، مگر اب سائنسی مطالعے کے ذریعے یہ حقیقتیں انسان کے علم میں آگئی ہیں۔ ان حقیقتوں کو جاننا انسان کے لیے اتھاہ خزانے کی حیثیت رکھتا ہے۔ غالباً یہی وہ عظیم حقیقت ہے، جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے وَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّہِ لَا تُحْصُوہَا (16:18)۔ یعنی، اگر تم اللہ کی نعمتوں کو گنو تو تم ان کو گن نہ سکو گے۔
واپس اوپر جائیں

فخر اور شکر

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے پُر اعتماد لہجے میں کہا — میں پورے فخر اور شکر کے ساتھ کہتا ہوں کہ اللہ تعالی نے مجھے فلاں دینی ماحول میں پیدا کیا، اور اس نے مجھے فلاں ادارے میں تعلیم وتربیت حاصل کرنے کا موقع عطا فرمایا، وغیرہ۔
یہ کسی ایک شخص کی بات نہیں۔ اِس قسم کی بات بہت سے لوگ اپنے اپنے انداز میں کہتے ہیں۔ یہ الفاظ بظاہر خوب صورت معلوم ہوتے ہیں، لیکن وہ انتہائی بے معنیٰ ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ فخر اور شکر دونوں دو مختلف جذبات ہیں۔ جہاں فخر ہوگا، وہاں شکر نہیں ہوگا اور جہاں شکر ہوگا، وہاں فخر نہیں ہوگا۔ جو لوگ ایسے الفاظ بولیں، ان کے اندر فخر تو ہوسکتا ہے، لیکن حقیقی شکر کا جذبہ ان کے اندر ہرگز موجود نہیں ہوسکتا۔
شکر کیا ہے۔ شکر دراصل، خداوند ِ ذوالجلال کی نعمتوں کا اعتراف ہے۔ خداوند ِ ذوالجلال کی نعمت کا احساس فوراً ہی آدمی کے اندر اپنی بے مائگی کا احساس پیدا کردیتا ہے اور اپنی بے مائگی کے احساس کے بعد کوئی شخص کبھی فخر کا تحمل نہیں کرسکتا۔ اِس قسم کے احساس کے بعد آدمی اپنے آپ کو ’’بے کچھ‘‘ کے مقام پر پاتا ہے اور خداوندذوالجلال کو ’’سب کچھ‘‘ کے مقام پر۔ جو آدمی اس قسم کی نفسیات کا حامل ہو، اس کے لیے فخر ایک مضحکہ خیز لفظ بن جائے گا۔ ایسا آدمی سب کچھ بھول کر شکر ِ خداوندی کے جذبے سے سرشار ہوجائے گا۔اس کے اندر فخر جیسی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ ہوگی۔ شکر کی توفیق ہمیشہ عجز کامل کی سطح پر ہوتی ہے جس آدمی کے اندر عجز کامل کی اعلیٰ ربانی صفت نہ ہو، وہ شکر کا تجربہ بھی نہیں کرسکتا۔
فخر کے ساتھ شکر کا لفظ بولنا، بتاتا ہے کہ ایسا آدمی، امتحان کی اصطلاح میں، مائنس مارکنگ (minus marking) کا مستحق ہے۔ ایسا کہنے والا شخص اِس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ وہ فخر اور شکر دونوں کی اصل حقیقت سے بے خبر ہے۔ وہ نہ فخر کی نفسیات کو جانتا ہے اور نہ شکر کی نفسیات کو۔ اگر وہ دونوں کی حقیقت سے باخبر ہوتا تو وہ اِس طرح، فخر اور شکر کے متضاد الفاظ کو ایک ساتھ نہ بولتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر ہمیشہ نفیِ فخر کی زمین پر پیدا ہوتا ہے، نہ کہ اثباتِ فخر کی زمین پر۔
واپس اوپر جائیں

انسان کا اعتراف

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، قَالَقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَمَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ، لَمْ یَشْکُرِ اللہَ (مسند احمد،حدیث نمبر 7504)۔یعنی، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے فرمایا  جو آدمی لوگوں کا شکر نہ کرے، وہ خدا کا شکر بھی نہیں کرے گا۔
شکر ایک کیفیت کا نام ہے۔ یہ کیفیت کسی آدمی کے دل میں پیدا ہو جائے تو وہ منقسم ہو کر نہیں رہ سکتی۔ اگر وہ ایک معاملہ میں ظاہر ہوگی تو یہ ناممکن ہے کہ وہ اسی قسم کے دوسرے معاملہ میں ظاہر نہ ہو۔ جب آدمی ایک کا شکر گزار ہوگا تو وہ دوسرے کا بھی ضرور شکرگزار ہوگا۔
بندہ کا احسان آنکھ سے دکھائی دیتا ہے، وہ ایک براہ راست تجربہ ہے۔اس کے برعکس، خدا کا جو احسان ہے وہ ظاہری آنکھ سے دکھائی نہیں دیتا، وہ آدمی کے لیے براہِ راست تجربہ نہیں۔خدا کے احسان کو سوچ کر جاننا پڑتا ہے۔ بندہ کے احسان کو آدمی بذریعہ مشاہدہ جانتا ہے اور خدا کے احسان کو بذریعہ تفکر۔جو آدمی براہِ راست مشاہدہ میں آنے والے واقعہ کا احساس نہ کر سکے، وہ ایسے واقعہ کو کیوں کر محسوس کرے گا جو بالواسطہ غور وفکر کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔
کوئی احسان کرنےوالا جب احسان کرتا ہے تو آدمی اس کے احسان کا اعتراف اس لیے نہیں کرتا کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح میں محسن کی نگاہ میں چھوٹا ہو جاؤں گا۔ حالانکہ ایسا کر کے وہ خود اپنا نقصان کرتا ہے۔اس کے بعد وہ اپنے ضمیر کی نگاہ میں چھوٹا ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے ضمیر کے نزدیک کم بن جاتا ہے۔ اور بلاشبہ اپنے ضمیر کے نزدیک کم ہونا، دوسرے کے نزدیک کم ہونے سے زیادہ سخت ہے۔
اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ بندوں کے احسان نہ ماننے سے آدمی کے اندر بے اعترافی کا مزاج بنتا ہے۔ اولاً وہ انسان کا اعتراف نہیں کرتا۔ اور اس کے بعد اس کا بگڑا ہوا مزاج اس کو یہاں تک لے جاتا ہے کہ وہ رب العالمین کا بھی سچا اعتراف نہیں کر پاتا۔ اور بلاشبہ اس سے زیادہ گھاٹا اٹھانے والا اور کوئی نہیں جو اپنے رب کا اعتراف کرنے سے عاجز رہے۔
واپس اوپر جائیں

دور شکر

نومبر 1992 میں میرا ایک سفر ناگپور کے لیے ہوا۔ 8نومبرکو میں نے فجرکی نماز نظام الدین کی سات سو سالہ قدیم کالی مسجد میں پڑھی تھی ۔ پھر ظہرکی نماز میں نے دہلی ایرپورٹ پرپڑھی ، اور عصر کی نماز ناگپور پہنچ کر ادا کی ۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے جو ہر روز بہت سے مسلمانوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ مگر جب میں نے غور کیا تو مجھے اس چھوٹے سے واقعہ میں بہت بڑا سبق چھپا ہوا نظر آیا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میں دہلی میں بھی اسلامی عبادت کرنے کے لیے آزاد تھا۔ اسی طرح میں راجدھانی کے ایر پورٹ پر بھی اسلامی عبادت آزادانہ طور پر کر سکتا تھا۔ اور دہلی سے گیارہ سو کیلومیٹر دور ناگپور میں بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ میں اطمینان کے ساتھ اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ کی عبادت کروں ۔
پھر اس کا مقابلہ میں نے قدیم مکی دور سے کیا جب کہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس وقت پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ کھلے طور پر وہ نماز ادا کرسکیں۔ حتی کہ نماز باجماعت ادا کرنے کے مواقع بھی اس وقت موجود نہ تھے مگر آج تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر دینی آزادی حاصل ہے ۔
یہ واقعہ میرے لیے ایک علامت بن گیا جس میں مجھے اسلام کی تاریخ آگے کی طرف سفر کرتی ہوئی نظر آنے لگی ۔ مجھے دکھائی دیا کہ آج مسلمانوں کی حالت لائق شکر ہے، نہ کہ لائق شکایت ۔ آج ہم اسلام کے حوصلہ افزا مرحلہ میں ہیں، نہ کہ حوصلہ شکن مرحلہ میں ۔
میں نے سوچا کہ جدید تہذیب نے انسانوں (بشمول مسلمان)کے لیے ہر اعتبار سے کتنی زیادہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔ اس کے باوجود انسان خدا کا شکر ادا نہیں کرتا۔موجودہ زمانہ میں جو چیز سب سے زیادہ اٹھ گئی ہے وہ شکر ہے۔ سائنسی دریافت ،صنعتی انفجار، اور مذہبی آزادی کے اس دور میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ انسان ہمیشہ سے زیادہ شکر کرنے والا بن جائے ، مگربرعکس طور پر ایسا ہوا کہ وہ ہمیشہ سے زیادہ ناشکری کرنے و الا بن گیا۔ اس معاملہ میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کا کوئی فرق نہیں ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر، نہ کہ شکایت

5 ستمبر(2003) کو جمعہ کا دن تھا۔ میں نے نظام الدین کی کلاں (کالی) مسجد میں نماز ادا کی۔ امام صاحب نے خطبہ سے پہلے اپنی تقریر میں بتایا کہ 1947 میں یہ مسجد کچھ ہندوؤں کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے دوبارہ قبضہ کرکے اس کو آباد کرنا چاہا تو پولیس کیس بن گیا اور عدالتی کارروائی کی نوبت آگئی۔ عدالت کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا 15 اگست 1947 سے پہلے یہ عمارت ایک مسجد تھی اور وہ مسجد کے طورپر استعمال ہوتی تھی۔ ہندو جج نے تین آدمیوں کی گواہی پر مسجد کے حق میں اپنا فیصلہ دیا۔یہ تینوں دہلی کے تین ہندو تھے۔ ان میں سے ایک بر ہمن تھا، دوسرا بنیا اور تیسرا ہریجن۔
کلاں (کالی) مسجد تقریباً 800 سال پہلے تغلق دور میں بنائی گئی تھی۔ میں 1983 سے اس مسجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں۔ پہلے یہ مسجد تقریباً کھنڈر کی حالت میں تھی۔ اب یہاں مسجد کی شاندار عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک علامت ہے جو بتاتی ہے کہ اس ملک میں ملت مسلمہ کا مستقبل دن بدن بہتر حالت کی طرف جارہا ہے۔
اسی طرح کا واقعہ ہے۔ اپریل 1996 کو میرٹھ اور اس کے اطراف کے لیے میرا سفر ہوا۔ 12 اپریل کو جمعہ کا دن تھا۔ سردھنہ کی جامع مسجد میں میں نے اپنے مقامی ساتھیوں کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھی ۔ کافی بڑی مسجد ہے ،اندر سے باہر تک نمازیوں سے بھری ہوئی تھی ۔ میں نے سوچاکہ موجودہ مسلمانوں سے جو سب سے بڑی چیز اٹھ گئی ہے وہ شکرِ خداوندی کا جذبہ ہے ۔ چنانچہ ایک مسجد کے ساتھ کسی وجہ سے کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آجائے تو ہر زبان اور ہر قلم اس کے پرجوش تذکرہ میں مصروف ہو جاتا ہے۔ مگر اس ملک میں لاکھوں مسجد یں شاندار طور پر آباد ہیں اور اس کے تذکرہ میں کوئی رطب اللسان نہیں ۔
مجھے یاد آتا ہے کہ 40 سال پہلے میں یوپی میں اپنے آبائی گاؤں، بڈھریا، ضلع اعظم گڑھ، میں رہتا تھا۔ میرے گھر کے قریب ایک مسجد تھی۔ اس میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں ہی مؤذن ہوتا تھا اور میں ہی امام اور مقتدی۔ خاص طورپر عشاء کی نماز مجھے اس طرح پڑھنا ہوتا تھا کہ میں لالٹین لے کر مسجد جاتا جو گاؤں کے باہر کھیتوں کے کنارے واقع تھی۔ رات کے سنسان ماحول میں عشاء کی نماز پڑھنا بڑا عجیب تجربہ تھا۔ اس وقت وہاں میرے ساتھ کوئی اور نمازی نہیں ہوتا تھا۔ میں خود ہی اذان دیتا اور خود ہی تکبیر کہہ کر جماعت کے طورپر نماز ادا کرتا اور پھر لالٹین لے کر واپس اپنے گھر آجاتا۔
مگر اب40 سال کے بعد مسجد سمیت یہ پوری جگہ نہایت با رونق ہوگئی ہے۔ اب وہاں مسجد سے متصل سڑک گزررہی ہے۔ بجلی اور ٹیلی فون آچکا ہے۔ مسجد کے بالکل سامنے ایک معیاری اسکول قائم ہوگیا ہے۔ اب یہاں رات دن چہل پہل رہتی ہے۔
اس قسم کے واقعات ہر جگہ پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں نہایت امید افزا پیغام چھپا ہوا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں تمام مسلمان، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں، شکایت کی بولی بولتے ہیں۔ مجھے اپنے تجربہ میں پوری مسلم دنیا میں کوئی شخص نہیں ملا جو شکایت سے خالی ہو، اورحقیقی طورپرشکر کے جذبہ سے سرشار ہوکر حمد کلچر یا مثبت سوچ میں جیتاہو۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
اردو کے ایک مرثیہ گونے قدیم زمانہ میں حضرت حسین اور ان کے خاندان کے لوگوں کے سفر کا نقشہ کھینچتے ہوئے کہا تھا کہ خدا نے فرشتوں کو حکم دیا کہ زمین کو مختصر کر کے ان کا راستہ آسان بنا دو 
طنابیں کھینچ کر کم کر زمیں کو کہ ہو وے راہ کم ان مہ جبیں کو
آج اللہ تعالیٰ نے ہر آدمی کے لیے ’’زمین کی طنابیں کھینچ کر‘‘سفر کو مختصر بنا دیا ہے، یعنی جدید وسائل کے ذریعہ فاصلوں کو کم کردیا ہے ۔ مثلاًہوائی جہاز کی سواری آج بہت زیادہ عام ہوچکی ہے۔ اس لیے لوگوں کو اس کے غیر معمولی پن کا احساس نہیں ہوتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہوائی جہاز اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے ۔ ہوائی جہاز نے آج لمبے سفروں کو ہر آدمی کے لیے ممکن بنا دیا ہے۔ ورنہ قدیم زمانے میں بہت ہی کم افراد لمبے سفر کا حوصلہ کرسکتے تھے۔ مگر قرآن کے مطابق، انسانوں میں سب سے کم وہ لوگ ہیں جو قابل شکر باتوں کو شدت کے ساتھ محسوس کریں اور شکر کے جذبات سے سرشار ہو جائیں (سبا،34:13) ۔
واپس اوپر جائیں

اضافۂ ایمان

سائنسی اندازہ کے مطابق،سورج ہماری زمین سے تقریباًنو کرورتیس لاکھ میل دور ہے۔ سورج ہماری زمین سے ایک لاکھ تیس ہزارگنا بڑا ہے۔ سورج زمین کی مانند ٹھوس نہیں ہے، بلکہ وہ پورا کا پورا ایک عظیم دہکتا ہوا شعلہ ہے۔ اس کی گرمی گیارہ ہزار ڈگری فارن ہائٹ ہے۔ یہ گرمی اتنی زیادہ ہے کہ سخت ترین مادہ بھی اس میں پگھلے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زمین اگر اس کے قریب کی جائے تو وہ ایک سکنڈ سے بھی کم عرصے میں پگھل کر گیس بن جائے گی۔
سورج کیسے چمکتا ہے اور کیسے اتنی بڑی مقدار میں وہ روشنی اور گرمی دے رہا ہے۔ قدیم خیال یہ تھا کہ سورج مسلسل جل رہا ہے، جیسے کوئی لکڑی یا کوئلہ جلتا ہے۔ مگر جب فلکیاتی تحقیق سے معلوم ہوا کہ وہ ہزاروں ملین سال سے اسی طرح روشن ہے تو یہ خیال غلط ثابت ہوگیا۔ سورج میںاگر کوئی مادہ جل رہا ہوتا تو اب تک سورج بجھ چکا ہوتا، کیوں کہ کوئی چیز اتنی زیادہ لمبی مدت تک جلتی ہوئی حالت میں نہیںرہ سکتی۔
اب سائنس دانوں کا نظریہ یہ ہے کہ سورج کی گرمی اُسی قسم کے ایک عمل (process) کا نتیجہ ہے جو ایٹم بم کے اندر وقوع میں آتا ہے، یعنی سورج، مادہ کو توانائی میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ عمل جلنے سے مختلف ہے۔ جلنا مادہ کو ایک صورت سے دوسری صورت میں تبدیل کرتا ہے، مگر جب مادہ کو توانائی میں بدلا جائے تو بہت زیادہ توانائی صرف تھوڑے سے مادہ کے ذریعہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ مادہ کا ایک اونس اتنی زیادہ توانائی پیدا کرسکتا ہے جو ایک ملین ٹن سے زیادہ چٹان کو پگھلا دے
The sun changes matter into energy. This is different from burning. Burning changes matter from one form to another. But when matter is changed into energy, very little matter is needed to produce a tremendous amount of energy. One ounce of matter could produce enough energy to melt more than a million tons of rock.
کائنات میں ا س قسم کی ان گنت نشانیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ نشانیاں بتاتی ہیں کہ کائنات کے پیچھے ایک عظیم خالق کی ہستی کام کررہی ہے۔ عظیم خالق کے بغیر کبھی اس قسم کی عظیم تخلیق ظہور میں نہیں آسکتی۔قرآن میں بار بار کائناتی نشانیوں پر غور کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔ یہ غور وفکر ایک خالص دینی عمل ہے، وہ مومن کے ایمان میں غیر معمولی اضافے کا سبب بنتا ہے، وہ مومن کے شکر کے جذبے کو بے پناہ حد تک بڑھا دیتا ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــ
جولائی 2001 میں میرا ایک سفر سوئٹزرلینڈ کے لیے ہوا۔ ہمارا جہاز 25 جولائی کی صبح کو ٹھیک وقت پر زیورک ، سوئٹزر لینڈ پہنچ گیا۔ جہاز جب ایر پورٹ کے قریب پہنچ کر نیچے اترا تو چاروں طرف سرسبز مناظر دکھائی دے رہے تھے۔ یہ ایک خوبصورت دنیا تھی جو گویا فطرت کے سبزہ زار ماحول میں بنائی گئی تھی۔ اس کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا
It is like seeing paradise from a distance.
مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اللہ نے ایک نہایت حسین اور معیاری دنیا بنائی جہاں انسان ابدی طورپر پر مسرت زندگی گزار سکے۔ یہ جنت ہے ۔پھر اس نے ایک اور دنیا موجودہ زمین کی صورت میں بنائی۔ ہماری زمین ساری کائنات میں ایک انتہائی انوکھا استثنا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے،یعنی اس دنیا میں جنت کے مشابہ تمام چیزیں رکھ دی گئی ہیں (البقرہ ، 2:25)۔ گویا موجودہ دنیا آخرت کی کا مل جنت کا ایک ناقص تعارف ہے۔ یہ دنیا انسان کو اس لیے دی گئی ہے تاکہ وہ اس کے اندر جنت کی ابتدائی جھلک دیکھے اور پھر اس کا شکر ادا کر کے ابدی جنت کا مستحق بنے ۔ اس حقیقت کی طرف قرآن میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے لَئِن شَکَرۡتُمۡ لَأَزِیدَنَّکُمۡ (14:7)۔ یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو (جنت کی صورت میں)زیادہ دوں گا۔
واپس اوپر جائیں

شکر کا ایک آئٹم

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا إِذَا عَطَسَ أَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْالحَمْدُ لِلہِ، وَلْیَقُلْ لَہُ أَخُوہُ أَوْ صَاحِبُہُیَرْحَمُکَ اللہُ، فَإِذَا قَالَ لَہُیَرْحَمُکَ اللہُ، فَلْیَقُلْ یَہْدِیکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ(صحیح البخاری،حدیث نمبر 6224 )۔یعنی، جب تم میں سے کسی شخص کو چھینک آئے تو وہ کہے الحَمْدُ لِلہِ (اللہ کا شکرہے)۔ اُس وقت اس کا ساتھی یہ کہے یَرْحَمُکَ اللہُ (اللہ کی رحمت ہو تم پر)۔ اس کے بعد چھینکنے والا کہےیَہْدِیکُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ (اللہ تم کو ہدایت دے اور تمھارے حالات کو درست کردے)۔
چھینک آنے پر الحمد للہ کہنا محض کوئی رسمی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چھینک آنا شکر کا ایک آئٹم ہے۔ یہ بات ایک تازہ تحقیق سے علمی طورپر ثابت ہوئی ہے۔ اِس تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ چھینک کوئی بری چیز نہیں، وہ فطرت کا ایک عمل ہے۔ چھینک سے جسم میں تازگی آتی ہے
Sneezing revives your body: A sneeze is your body’s way of rebooting naturally and patients with disorders of the nose such as sinusitis sneeze more often as they can’t reboot easily, a new study said. Researchers from the University of Pennsylvania found that our noses require ‘‘reboot’’ by the pressure force of a sneeze. (The Times of India, New Delhi, August 2, 2012, p. 15)
اِس سے معلوم ہوا کہ چھینک آنا کوئی سادہ بات نہیں، چھینک آنا بھی شکر کا ایک آئٹم ہے۔ ہر چھینک پورے جسم کو تازگی عطا کرتی ہے۔ مزید یہ کہ چھینک اللہ کی نعمتوں کی ایک یاد دہانی ہے۔ چھینک کے ذریعے ایک انسان اللہ کی ایک نعمت کو یاد کرکے جب اُس پر شکر ادا کرتاہے تو اُس وقت اس کا ذہن بیدار ہوجاتا ہے۔ اِس ذہنی بیداری کی بنا پر انسان کو شکر کے دوسرے آئٹم بھی یاد آنے لگتے ہیں۔ شکر کے ایک آئٹم پر شکر کرکے آدمی شکر کے دوسرے آئٹم پر بھی شکر کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بولنے کی صلاحیت

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سےملاقات ہوئی،وہ دعوت کے کام کو اہم کام سمجھتے تھے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے کہ مدارس کے علما میں دعوت کا شوق نہیں۔ وہ بس مدرسے کے کام میں لگے رہتے ہیں، اور اسی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔
ان کی باتیں سن کر مجھے محسوس ہوا کہ ان کے اندر بہت اچھا اسپیکنگ پاور ہے۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ مدارس کے لوگوں کو دیکھ کر منفی احساس میں مبتلا ہورہے ہیں، آپ ایسا کیجیے کہ مدارس کے لوگوں کو لے کر مت سوچیے، بلکہ خود اپنے آپ کو لے کر سوچیے۔ اگر آپ خود اپنے آپ کو لے کر سوچیں تو آپ دریافت کریں گے کہ آپ کو اللہ تعالی نے بہت اچھا اسپیکنگ پاور دیا ہے۔ آپ اپنی اس صلاحیت کو دعوت کے کام میں استعمال کیجیے، اور مجھے یقین ہے کہ سارے شہر میں آپ سے اچھا اسپیکر نہ ہوگا۔
آپ کے اندر بولنے کی فطری صلاحیت بہت اعلیٰ درجے میں موجود ہے۔ اب آپ صرف اتنا کیجیے کہ دعوت کے موضوع پر اپنا مطالعہ بڑھائیے۔ آپ دعوت کے اعتبار سے اپنے آپ کو مزید تیار کیجیے، اور پھر دعوت کے میدان میں کام کرنا شروع کردیجیے۔ میں نے کہا کہ آپ اکیلے ہی، ان شاءاللہ، دعوتی کام کے لیے کافی ہیں۔ آپ اپنے آپ کو لے کر سوچیے، آپ دوسروں کو لے کر سوچنا بند کر دیجیے، اور پھر آپ کو کسی سے شکایت نہ ہوگی۔
لوگوں میں یہ غلطی بہت عام ہے۔ لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنے آپ کو لے کر نہیں سوچتے، بلکہ دوسروں کو لے کر سوچتے ہیں۔ اس طرزِ فکر کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر منفی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔اگر وہ مثبت نفسیات میں جینے والے بن جائیںتو خدا کے وعدہ کا مستحق بن سکتے ہیں،جو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُم (14:7)یعنی، اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو زیادہ دوں گا۔ لیکن وہ غیر ضروری طور پر اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم کرلیتے ہیں۔ شکر میں جینے والا انسان بننے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی مثبت سوچ میں جینے والا انسان بنے۔
واپس اوپر جائیں

شکر کی نفسیات میں جینا

مسلمان ہر روز اپنی نماز میں قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (1:1)۔ یعنی ساری حمد صرف اللہ کے لیے ہے جوسارے جہان کا رب ہے۔ حمد کی حقیقت شکر ہے۔ "ساری حمد اللہ کے لیے ہے"کا مطلب یہ ہے کہ سارا شکر اللہ کے لیے ہے۔
قرآن کی اس آیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو صرف زبان سے پڑھ دیا جائے، بلکہ وہ ایک تربیت کا کلمہ ہے۔ وہ ہر روز مسلمان کو ایک حقیقت کی یاد دلاتاہے۔ وہ یہ کہ انسان کو چاہیے کہ وہ روزانہ پیش آنے والے واقعات پر غور کرے۔ وہ واقعات کی ایسی مثبت توجیہ (positive explanation) تلاش کرے، جو اس کو ہر حال میں شکر کرنے والا انسان بنا دے، وہ ہردن اس احساس سے بھرا رہے کہ کائنات کا خالق ایک نہایت مہربان خالق ہے، وہ ہر وقت خالق کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے شکر واعتراف کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
قرآن کی یہ آیت مومن کی حقیقی تصویر کو بتارہی ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو الحمد للہ کی نفسیات میں جیے۔ اس کے برعکس، جو انسان عملاً لا حَمدَ للہکی نفسیات میں جیتا ہو، وہ سچا مومن نہیں۔ وہ زبان سے تو الحمد للہ کہتا ہے، لیکن اس کا دل شکایتی مزاج کی بنا پرعملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لا حَمدَ للہ، یعنی اللہ کے لیے کوئی حمد نہیں۔ یہ نفسیات منافقت کی نفسیات ہے، نہ کہ ایمان کی نفسیات۔
اس معاملہ کا تعلق حالات کی توجیہ سے ہے۔ جو آدمی حالات کی مثبت توجیہ کرے، وہ الحمد للہ کی نفسیات میں جیے گا، اور جو آدمی حالات کی مثبت توجیہ نہ کرسکے، وہ لاحَمدَ لِلہ کی نفسیات میں جینے والا انسان بن جائے گا۔ الْحَمْدُ لِلہِ شکر کا کلمہ ہے اور لاحَمدَ لِلہ ناشکری کا کلمہ۔گویا کہ الحمد للّٰہ کہنے سے پہلے ایک اور چیز مطلوب ہے،اور وہ ہے الحمد للّٰہ کی شعوری معرفت۔جو آدمی الحمد للّٰہ کہنے سے پہلے اس کی شعوری معرفت حاصل کرچکا ہو، وہی درست طورپر الحمد للہ کہے گا، اور جو آدمی اس شعوری معرفت سے خالی ہو، اس کی زندگی میں الحمد للہ ایک حقیقت کے طورپر شامل نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

شکر اور ناشکری

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک غزوہ پیش آیا جس کو غزوۂ حنین کہا جاتا ہے۔ اس غزوہ میں کافی بھیڑ بکری غنیمت کی صورت میں حاصل ہوئیں۔ رسول اللہ نے غنیمت کا سامان مہاجرین میں تقسیم کردیا اور انصار کو کچھ نہیں دیا(وَلَمْ ‌یُعْطِ ‌الْأَنْصَارَ شَیْئًا)۔ یہ دیکھ کر انصار کے کچھ افراد کو شکایت پیداہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نےانصار کے لوگوں کو جمع کرکے ایک تقریر کی۔ آپ نے فرمایا کہ اے انصار! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ لوگ بھیڑ بکری لے جائیں اور تم اللہ کے رسول کو اپنے ساتھ لے جاؤ( أَتَرْضَوْنَ أَنْ یَذْہَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالبَعِیرِ، وَتَذْہَبُونَ بِالنَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَى رِحَالِکُمْ ) صحیح البخاری، حدیث نمبر4330 ۔
اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ تھا کہ دوسروں کو اگر میں نے بھیڑ بکری دی ہے تو تم کو تو میں نے خود اپنے آپ کو دے دیا ہے، یعنی اللہ کے رسول کو۔
یہ انسان کی عام کمزوری ہے کہ وہ اپنے ملے ہوئے کو نہیں دیکھ پاتا اور دوسرے کو جو کچھ ملے وہ اس کو بہت زیادہ نظر آتا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ ملی ہوئی چیز بظاہر زیادہ ہوتی ہے، اور نہ ملی ہوئی چیز بظاہر کم۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کا مزاج بے حد خطرناک ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر سے شکر کا جذبہ نکل جائے گا، وہ ناشکری میں جینے لگے گا۔ اور یہ نقصان بلاشبہ تمام نقصانات سے زیادہ ہے۔ جو چیز آدمی کے اندر ناشکری پیدا کرے اس کے غلط ہونے میں کوئی شک نہیں۔
دین میں سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ انسان اپنے رب کا شکر گزار بندہ بنے۔ اس کے صبح و شام شکر کی نفسیات میں بسر ہوتے ہوں۔ لیکن ضروری ہے کہ آدمی اس معاملے میں اپنے شکر کی حفاظت کرے۔ شکر کی حفاظت کرنے سے شکر باقی رہے گا، اور حفاظت نہ کرنے سے شکر کا احساس آدمی کے اندر سے رخصت ہوجائے گا۔ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے ، جب کہ آدمی ہر لمحہ اپنا نگراں بنا رہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر یاسرکشی

ایک اچھی چیز آپ کو ملتی ہے ۔ اس کواگرآپ اپنی محنت اورقابلیت کانتیجہ سمجھیں توآپ کے اندر سرکشی کاجذبہ پیداہوگا۔ اوراگر آپ اس کو خد اکی طرف سے ملی ہوئی چیز سمجھیں تو آپ کے اندر شکر کاجذبہ جاگ اٹھے گا۔ پہلی کیفیت کانام گمراہی ہے اوردوسری کیفیت کانام ہدایت یابی ۔
موجودہ دنیاکو امتحان(test) کی مصلحت کے تحت بنایاگیاہے ۔دنیا کے تمام واقعات بلاشبہ اللہ کی مرضی سے اورا س کی پلاننگ کے تحت سے ہورہے ہیں ۔ مگر تمام واقعات پراسباب کاپردہ ڈال دیاگیاہے ۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ اسباب کے ظاہری پردہ کوہٹا کر اصل واقعہ کودیکھے اوراس پرایمان لائے ۔
آپ کے اندر ایک چیز کی طلب پیداہوتی ہے ۔ آپ اس کے لیے کوشش شروع کرتے ہیں۔آپ کی کوشش مختلف مراحل سے گزرتی ہے ۔ کہیں آپ اپنا ذہن استعمال کرتے ہیں کہیں اپنی عملی طاقت لگاتے ہیںاورکہیں اپنا اثاثہ خرچ کرتے ہیں ۔ اس طرح بظاہراسباب وعلل کے راستہ سے گزرتی ہوئی آپ کی کوشش اپنے انجام تک پہنچتی ہے ۔ آپ اپنے مقصود کوپالیتے ہیں ۔
اب اگر آپ کوصرف ظاہربیںنگاہ حاصل ہے تو آپ اپنی کامیابی کواپنی کوشش کانتیجہ سمجھیںگے لیکن اگرآپ کووہ نگاہ حاصل ہو جوباتوں کواس کی گہرائی کے ساتھ دیکھ سکے تو آپ جان لیں گے کہ جوہوا وہ خد کے کیے سے ہوا ، یہ میراکوئی ذاتی کارنامہ نہیں ۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کاامتحان ہورہاہے ۔ آدمی پرلازم ہے کہ وہ ظاہری پردہ کو پھاڑ کر اندرونی حقیقت کو دیکھے ۔ بظاہر اپنے ہاتھ سے ہونے والے کام کے بارے میں یہ دریافت کرے کہ وہ حقیقت میں خدا کے ذریعہ انجام پارہاہے ۔
جولوگ اس بصیرت کاثبوت دے سکیں وہی معرفت والے لو گ ہیں اورجولوگ اس بصیرت کاثبوت نہ دیں وہی وہ لوگ ہیں جو معرفت سے محروم رہے۔
واپس اوپر جائیں

شکر اور سنجیدگی

قرآن کی سورہ الاحقاف میں ایک بندہ صالح کی دعا ان الفاظ میں آئی ہےرَبِّ أَوۡزِعۡنِیٓ أَنۡ أَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ ٱلَّتِیٓ ‌أَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلَىٰ وَٰلِدَیَّ وَأَنۡ أَعۡمَلَ صَٰلِحٗا تَرۡضَىٰہُ وَأَصۡلِحۡ لِی فِی ذُرِّیَّتِیٓ إِنِّی تُبۡتُ إِلَیۡکَ وَإِنِّی مِنَ ٱلۡمُسۡلِمِینَ(47:15)۔ یعنی، اے میرے رب، مجھے توفیق دے کہ میں تیرے احسان کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کیا اور میرے ماں باپ پر کیا اور یہ کہ میں وہ نیک عمل کروں جس سے تو راضی ہو۔ اور میری اولاد میں بھی مجھ کو نیک اولاد دے۔ میں نے تیری طرف رجوع کیا اور میں فرمان برداروں میں سے ہوں۔
سورہ النمل (آیت19)میں الفاظ کے جزئی فرق کے ساتھ یہی دعا حضرت سلیمان علیہ السلام کے حوالہ سے آئی ہے۔اس دعا کے ذریعہ ایک سنجیدہ انسان (sincere person) کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ جب اس کو نعمت ملے تو اس کا حال کیا ہونا چاہیے۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب ان کو کوئی نعمت(favor) ملتی ہے تو وہ اس کا کریڈٹ خدا کو نہیں دیتے ہیں، بلکہ اپنی ذات کو اس کا کریڈٹ دیتےہیں۔ اس قسم کا کوئی بڑاواقعہ ایک عام انسان کو فخر و غرور میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ مگرایک بندہ صالح ، جس کو خدا کی معرفت حاصل ہوئی ہو، اللہ سے تعلق قائم ہونے کے بعد اس کے اندر اپنے مُنعم حقیقی کے لیے اعتراف (acknowledgement) کا جذبہ ابھرتا ہے۔ وہ نعمت کو دیکھ کر سراپا شکر بن جاتا ہے۔ جو کچھ بظاہر اس کو ذاتی محنت سے حاصل ہوتا ہے اس کو بھی وہ پورے طور پر خدا کے خانہ میں ڈال دیتا ہے۔ یہی ہرسنجیدہ انسان کا طریقہ ہونا چاہیے۔ اِسی اعتراف کا شرعی نام شکر ہے۔ یعنی کسی نعمت کے حصول پر مُنعِم کے لیےدل کی گہرائی سے قدردانی کا اظہار ہے
deep appreciation for kindness received
جہاں شکر نہ ہو، یقینی طور پر وہاں دین بھی نہ ہوگا۔اس دنیا کے اندر شکر کے آئٹم اتنے زیادہ ہیں کہ ان کو گنا نہیں جاسکتا ہے(النحل، 16:18)۔ اگر انسان سنجیدہ (sincere) ہوتو نعمت کا احساس انسان کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔ یہی اللہ سے تعلق کا خلاصہ ہے۔
انسان کے اندر یہ کمزوری ہے کہ اس کی نفسیات میں کسی کیفیت کا تسلسل باقی نہیں رہتا۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ہمیشہ شکرِ خداوندی کی کیفیات میں زندگی گزارے۔ اِس لیے انسان پر مختلف قسم کے ناخوشگوار حالات لائے جاتے ہیں، تاکہ اس کے ذریعے سے انسان کے اندر نعمت اور منعم کی اہمیت کا احساس ابھرے۔ تاکہ آدمی کبھی شکر کی کیفیت سے خالی نہ ہونے پائے، وہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے ہر تجربے کے بعد شکر کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔
بے خبرانسان
نومبر2004 میں بمبئی (ممبئی)کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ اس سفر میں ایک بڑا عبرت ناک واقعہ معلوم ہوا۔ ممبئی میں نیتومانڈکے نامی ایک ڈاکٹر تھے۔ 2003 میں ان کا انتقال ہوگیا۔ وہ امراضِ قلب کے بہت بڑے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ سرجری میں اُن کو کمال حاصل تھا۔ انہوں نے بہت سے دل کے مریضوں کی کامیاب سرجری کی تھی۔ آخر میں اُن کو اپنے فن پر بہت غرور آ گیا تھا۔یہاں تک کہ وہ خدا کے منکربن گئے ۔
ایک صاحب نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب نے ایک بار ایک مسلم خاتون کے دل کا آپریشن کیا۔ آپریشن سے صحتیابی کے بعد مسلم خاتون نے ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی، اور بات کرتے ہوئے یہ کہا کہ خدا کا شکر ہے کہ آپریشن کامیاب رہا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا اس میں خدا کی کیا بات ہے۔ تم پیسہ دو اور میں تم کو صحت دوں گا
Give me money and I will give you cure.
وہ ایک آپریشن کا معاوضہ تین لاکھ روپیے لیتے تھے۔ عجیب بات یہ ہے کہ خود اُن کا انتقال دل کے دورے میں ہوا۔ وہ اپنی قیمتی کار میں سفر کررہے تھے، ہندو جا ہاسپٹل پہنچے کہ اچانک اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ ان کو فوراً اسپتال لے جایا گیا، اتفاق سے وہاں اُس وقت جو عملہ تھا وہ ان کو پہچانتا نہ تھا۔ چنانچہ اسپتال میں ان کے ساتھ بے توجہی کا معاملہ ہوا۔ وہ بے بسی کے ساتھ چلّاتے رہے کہ میں ڈاکٹر مانڈکے ہوں۔ مگر عدم واقفیت کی بنا پر وہاں بَر وقت ان کا صحیح علاج نہ ہوسکا اور اسپتال ہی میں ان کا خاتمہ ہوگیا۔
ممبئی کے ایک دوسرے سرجن، ڈاکٹر کامران سے ملاقات ہوئی۔انھوںنے بتایا کہ انسان کے جسم میں ایک خاص عنصر ہوتا ہے۔ یہی آپریشن کے بعد اندمال (healing)کا سارا کام کرتا ہے۔ اگر یہ عنصر نہ ہوتو تمام سَرجن بے روزگار ہوجائیں۔ ڈاکٹر مانڈکے اگر اِس پوری حقیقت پر غور کرتے تو وہ ہر سرجری کے بعد اپنے عجز کو دریافت کرتے۔ لیکن غور و فکر نہ کرنے کی وجہ سے وہ برعکس طورپر سرجری کے واقعے میں اپنی مہارت دیکھتے رہے۔ اس لیے ایسا ہوا کہ جس واقعے میں انہیں عجز کی غذا مل رہی تھی، اُس سے وہ غلط طورپر کبر کی غذا لیتے رہے اور آخر کار اسی بے خبری کے ساتھ اُن کا خاتمہ ہوگیا۔
موجودہ زمانے میں یہ مزاج بہت زیادہ عام ہوچکا ہے— نعمتوں کا استعمال، لیکن مُنعم کا اعتراف نہیں۔ہر انسان مکمل طورپر عاجز ہے مگر وہ اپنے آپ کو قادر سمجھ لیتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ غور و فکر سے کام نہیں لیتا۔حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر کام خارجی اسباب کی رعایت کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔ آپ کی زندگی میں 99 فی صد سے زیادہ حصہ خدا کا ہے اور ایک فی صد سے بھی کم حصہ آپ کی اپنی کوشش کا۔ ایسی حالت میں انسان کے اندر اعتراف (شکر ) کا جذبہ خدا کے لیے ہوناچاہیے، نہ کہ اپنی ذات کے لیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں تمام دنیا کے لوگ بے خبری میں مبتلا ہیں۔
غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ موجودہ زمانے میں خدا نے انسان کو نہایت قیمتی چیزیں عطا کی ہیں، جو قدیم زمانے میں بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں تھیں۔ مگر میر ے تجربے کے مطابق، بیش تر لوگ ان کا صرف غلط استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً جدید کمیونی کیشن خدا کی ایک عظیم نعمت ہے مگر غالباً اس نعمت کا تقریباً 95 فیصد حصہ صرف بے فائدہ یا غلط مقاصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اور جہاں تک کہ اس نعمت پر شکر کا تعلق ہے وہ تو میں نے اپنے تجربے میں حقیقی طور پر کسی کے اندر پایا ہی نہیں، نہ مذہبی لوگوں میں اورنہ سیکولر لوگوں میں۔ اس معاملے میں دونوں کی حالت ایک ہے — اپنے دین کوجانچنے کا معیار یہ ہے کہ آپ دیکھیے کہ آپ کے اندر شکر کی نفسیات ہے یا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ناشکری نہیں

صحابی رسول ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی اپنے اوپر اللہ کی نعمت کا اندازہ کرنا چاہے تووہ اس کو دیکھے جواس سے کمتر ہو، وہ اس کو نہ دیکھے جو اس سے برتر ہو(عَنْ أَبَی ہُرَیْرَةَ یَقُولُقَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِذَا أَحَبَّ أَحَدُکُمْ أَنْ یَعْلَمَ قَدْرَ نِعْمَةِ اللہِ عَلَیْہِ، فَلْیَنْظُرْ إِلَى مَنْ ہُوَ تَحْتَہُ، وَلَا یَنْظُرْ إِلَى مَنْ ہُوَ فَوْقَہُ) الزہد والرقائق لابن المبارک، حدیث نمبر 1433۔
خدا کے منصوبۂ تخلیق کے مطابق، دنیا کی چیزوں کی تقسیم میں یکسانیت نہیں۔ یہاں کسی کو کم ملا ہے اور کسی کو زیادہ۔ کسی کو ایک چیز دی گئی ہے اور کسی کو دوسری چیز۔ اس صورت حال نے دنیوی معاملات میں ایک شخص اور دوسرے شخص کے درمیان فرق کر دیا ہے ۔ اب اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرے جو بظاہر اس کو اپنے سے کم نظر آتا ہے تو اس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر آدمی اپنا مقابلہ اس شخص سے کرنے لگے جو بظاہر اس کو اپنے سے زیادہ دکھائی دیتا ہے تو اس کے اندر ناشکری کا احساس ابھرے گا ۔ اس نفسیاتی خرابی سے بچنے کا آسان حل یہ بتایا گیا ہے کہ ہر آدمی اس کو دیکھے جو اس کے نیچے ہے ، وہ اس کو نہ دیکھے جو اس کے اوپر ہے ۔
شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ میرے پاؤں میں جوتے نہیں تھے۔ میں نے کچھ لوگوں کو جوتا پہنے ہوئے دیکھا۔ مجھے خیال آیا کہ دیکھو ، خدا نے ان کو جوتا دیا اور مجھے بغیر جوتے کے رکھا۔ وہ اسی خیال میں تھے کہ ان کی نظر ایک شخص پر پڑی جس کا ایک پاؤں کٹا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر انھوں نے اللہ کا شکرادا کیا کہ اس نے انھیں اس سے بہتر بنایا اور ان کو دو تندرست پاؤں عطا کیے — اللہ تعالیٰ کو اپنے ہر بندہ سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اس کا شکر گزار بنے۔ مگر موجودہ دنیا میں شکر گزار وہی شخص رہ سکتاہے جو اس اعتبار سے اپنا نگراں بن گیا ہو— ملے ہوئے پرشکر کا جذبہ آدمی کے اندر حوصلہ پیدا کرتا ہے ۔ نہ ملے ہوئےپر شکایت کا ذہن آدمی کو جھنجلاہٹ اور مایوسی میں مبتلا کر دیتا ہے ۔
واپس اوپر جائیں

دورِسائنس، دور شکر

ماہنامہ پاپولر سائنس نیو یارک (امریکا) سے شائع ہونے والی ایک میگزین ہے۔ یہ میگزین 1872 میں شروع ہوئی، اور آج تک جاری ہے۔ اس کے قدیم شمارے گوگل بکس میں موجود ہیں۔ اس کے ایک قدیم شمارہ (مارچ 1956 ، صفحہ 2 )میں ایک پیراگراف ان الفاظ میں تھا
From Atom to Star: Research at Bell Telephone Laboratories ranges from the ultimate structure of solids to the radio signals from outer space. Radio interference research created the new science of radio astronomy; research in solids produced the transistor and the Bell Solar Battery. Between atoms and stars lie great areas of effort and achievement in physics, electronics, metallurgy, chemistry and biology. Mechanical engineers visualize and design new devices.
اس مضمون میںایک امریکی کمپنی، بیل ٹیلیفون لیبوریٹری میں ہونے والی سائنسی ریسرچ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ایٹم سےلے کر ستارے تک انسانی جدو جہد اورکارِنمایاں انجام دینے کے لیے فزکس، الیکٹرانکس،میٹالرجی، کیمسٹری،اوربایالوجی کا بہت بڑا میدان موجود ہے۔اس سائنسی لیبوریٹری میں میکانیکل انجینئر نئے آلات کا خاکہ بناتے ہیں اور ڈیزائن تیارکرتے ہیں۔
ایک سیکولر انسان کی حد یہاں پر ختم ہوجاتی ہے ۔ لیکن اہل ایمان کی ایک اور حد ہے۔ وہ ہے، کائناتی نشانیوں سے معرفت و شکر کی غذا حاصل کرنا۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔اس نے معرفت اور شکرکے لیے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے۔
مثلاً پرندوں کا فضا میں اڑنا قدرت الٰہی کی ایک عظیم نشانی ہے۔ قدیم زمانہ میں قدرت الٰہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لیے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔یہی معاملہ تمام کائناتی انفراسٹرکچر کا ہے،جوتمام نقائص سے پاک (zero-defect) ہو کر زمین کےلیے لائف سپورٹ سسٹم کا کام کررہا ہے۔ یہ بلاشبہ شکر کا بہت عظیم آئٹم ہے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

عالمی شکر

اسلام میں انسانوں کا شکر ادا کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار انسانوں کا شکر ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ مثلاً ایک حدیث رسول یہ ہے عَنْ أَبِی ہُرَیْرَةَ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ‌لَا ‌یَشْکُرُ ‌اللہَ مَنْ لَا یَشْکُرُ النَّاسَ(مسند احمد، حدیث نمبر 8019)۔ ابوہریرہ کی روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا اس نے اللہ کا شکر ادا نہیںکیا ، جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا۔
اس حدیث کا ایک اور مطلب بھی ہے جو ابن الاثیر الجزری (وفات 606 ھ)نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے‌أَن ‌اللہَ ‌لَا ‌یَقْبَلُ ‌شُکْرَ ‌الْعَبْدِ ‌عَلَى ‌إِحسانہ إِلیہ، إِذا کَانَ الْعَبْدُ لَا یَشکُرُ إِحسانَ النَّاسِ ویَکْفُر معروفَہم(جامع الاصول، جلد2، صفحہ 559)۔ یعنی،اللہ اس بندے کا شکر قبول نہیں کرے گاکسی احسان پر،اگر وہ بندہ انسانوں کے احسانات کا شکر ادا نہ کرے یا ان کے احسانات کا انکار کرے۔
غور سے دیکھا جائے تو اِس حدیث میں شکر کا ایک عالمی حکم بیان کیا گیا ہے، یعنی دنیا کے تمام انسانوں کا شکر گزار ہونا، اور ان کے لیے دل میں منفی سوچ نہ رکھنا۔ قدیم دور میںانسان ایک دوسرے پر محدود معنی میں نِربھَر (dependent)ہوتا تھا۔مگر دور جدید کو عالمی طور پر باہمی انحصار (global interdependence) کا دور کہا جاتا ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے بے نیاز نہیں ، ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے۔ خواہ وہ ڈائریکٹ طور پرہو یا بالواسطہ طور پر۔
اسی حقیقت کو مولانا وحید الدین خاں صاحب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے اللہ نے انسانی تاریخ میں ایسے اسباب پیدا کیے کہ انسانوں کے درمیان ایک نئی ڈائیکاٹومی وجود میں آگئی۔ وہ تھی، دوست اور موید (supporter) کی ڈائیکاٹومی۔ یعنی جو لوگ دوست تھے، وہ تو دوست ہی تھے۔لیکن جو لوگ دوست نہ تھے، وہ عملاً موید (supporter) بن گئے۔یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ جمہوریت (democracy) اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہر آدمی کا مفاد دوسرے آدمی کے ساتھ جڑ گیا۔ پولیٹکل لیڈر کا انٹرسٹ ووٹر سے، اور ووٹر کا انٹرسٹ پولیٹکل لیڈر سے.... ٹیچر کا انٹرسٹ اسٹودنٹس سے، اور اسٹوڈنٹس کا انٹرسٹ ٹیچر سے، وغیرہ۔اس طرح دنیا میں ایک نیا باہمی انحصار کا کلچر (interdependent culture) وجود میں آیا (الرسالہ ستمبر 2017)۔
قدیم زمانے میں بھی انسان ایک دوسرے پر انحصار کرتا تھا، مگروہ بہت ہی محدود پیمانے پر تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ ظاہرہ، مولانا وحید الدین خاں صاحب کے الفاظ میں، ’’اپنے نقطۂ انتہا (culmination) کو پہنچ گیا ہے۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر باہمی مفاد (mutual interest) کے اصول پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں باہمی انحصار (interdependence) کا دور آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو خود اپنے مفاد کے تحت دوسرے کی ضرورت ہے۔ مثلاً تاجر کو گراہک کی ضرورت ہے، اور گراہک کو تاجر کی۔ وکیل کو کلائنٹ کی ضرورت ہے اور کلائنٹ کو وکیل کی ۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، اور مریض کو ڈاکٹر کی۔ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے ،اور ووٹر کو لیڈر کی۔ کنزیومر کو بازار کی ضرورت ہے، اور بازار کو کنزیومر کی۔ کمرشیل سواری کو مسافر کی ضرورت ہے، اور مسافر کو کمرشیل سواری کی ۔ہوٹل کو سیاح کی ضرورت ہے، اور سیاح کو ہوٹل کی ۔ صنعت کو خریدار کی ضرورت ہے، اور خریدار کو صنعت کی ، وغیرہ‘‘۔ (الرسالہ ستمبر 2017)
اس واقعہ کی ایک مثال روس اور یوکرین کی جنگ ہے، جو فروری 2022 میں شروع ہوئی اور اس مضمون کے لکھے جانے تک 31 جولائی 2022 جاری ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی بڑھ چکی ہے۔حالاں کہ یوکرین اور روس زمین کے ایک محدود جغرافی رقبہ میں موجود ہیں۔ مہنگائی کا واقعہ عالمی طور پر باہمی ڈپنڈنسی کو ظاہر کرتاہے۔ اسی طرح سائنسی ٹکنالوجی تمام تر مغرب کی ایجاد ہے، مگر اس سے ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ عالمی ڈپنڈنسی کی ایک اور مثال 2019 میں چین کے ایک شہر سے پھیلنے والی کرونا کی وباہے، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر اس وبا سے بچاؤ کے لیے ہر انسان نے خود سے ویکسین تیار نہیں کی، بلکہ بعض ممالک کی کچھ کمپنیوں نےتیار کی، اور اس کو ساری دنیا کے انسانوں کو لگایا گیا، وغیرہ۔ عالمی انحصار(global interdependence) کا یہ ظاہرہ بتاتا ہے کہ موجودہ دور میں ہر انسان کو دوسرے انسان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

’’میں خداکا کتنا مقروض ہوں‘‘

یہ اٹلی کا واقعہ ہے۔ کورونا وائرس کا ایک 93 سالہ مریض جب اسپتال میں اچھا ہوگیا تو اسپتال والوں نے اس سے صرف ایک دن کا ونٹیلیٹر کا بل ادا کرنے کے لیے کہا، جو کہ 500 یوروتھا۔ مریض بے تحاشہ رونے لگا۔ ڈاکٹر گھبراگئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ بل کے لیے پریشان نہ ہوں۔بوڑھے انسان نے جو جواب دیا، اس سے اسپتال کے ڈاکٹراوراسٹاف بھی رونے لگے۔اس نے کہا کہ میں اس رقم کے لیے نہیں رو رہا ہوں۔ میں آسانی سے پیسہ ادا کرسکتا ہوں۔ میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میں 93 سال سے خدا کی اس صحت بخش ہوا میں سانس لے رہا ہوں، لیکن میں نے کبھی ا س کا بل ادا نہیں کیا۔لیکن اسپتال میںصرف ایک دن کے لیے ونٹیلیٹرکا استعمال کیاتو اس کا بل 5 سو یورو لگ رہا ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ میں خدا کا کتنا زیادہ مقروض ہوں۔ اس کے لیے کبھی خدا کا شکر ادا نہیں کیا۔
In Italy, a 93 year old gentleman was on the ventilator in ICU fighting for the Coronavirus and survived. When his Doctor told him that he is billed for 500 Euro for one day ventilator use, he cried. The Doctor tried to comfort him not to feel sad for the cost. What the old man responded made the hospital workers weep. The old man explained: "I don’t cry because of the money I have to pay. Thankfully I am able to afford it. I cry for another reason. I cry because I’ve just come to realize after all these many years on earth I’ve been breathing God’s air for 93 years, yet I have never had to pay for it. It seems it takes over Euro 500 to use a ventilator in the hospital for one day. Do you know how much I owe God Why haven’t I ever truly thanked Him all the days of my life for the miracle of this divine gift which I took for granted". (https://bit.ly/3oONJjW)
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا یک طرفہ عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ پورے دل وجان کے ساتھ اِن انعامات کے منعم (giver) کا اعتراف (شکر) کرے۔ (ڈاکٹر فریدہ خانم)
واپس اوپر جائیں

شکر کی حقیقت

شکر یہ ہے کہ آدمی خدا کی نعمتوں کا اعتراف کرے۔ یہ اعتراف اصلاً دل میں پیدا ہوتا ہے۔ اور پھر وہ الفاظ کی صورت میں آدمی کی زبان پر آ جاتا ہے۔
انسان کو خدا نے بہترین جسم اور دماغ کے ساتھ پیدا کیا ۔ اس کی ضرورت کی تمام چیزیں افراط کے ساتھ مہیا کیں۔ زمین و آسمان کی تمام چیزوں کو انسان کی خدمت میں لگا دیا۔ زمین پر زندگی گزارنے یا تمدن کی تعمیر کرنے کے لیے جو جو چیزیں مطلوب تھیں، وہ سب وافر مقدار میں یہاں مہیا کر دیں۔انسان ہر لمحہ ان نعمتوں کا تجربہ کرتا ہے۔ اس لیے انسان پر لازم ہے کہ وہ ہر لمحہ خدا کی نعمتوں پر شکر کرے۔ اس کا قلب خدا کی نعمتوں کے احساس سے سرشار رہے۔
شکر کی اصل حقیقت اعتراف ہے۔ جس چیز کو انسان کے سلسلہ میں اعتراف کہا جاتا ہے اسی کا نام خدا کی نسبت سے شکر ہے۔ اعتراف کا لفظ انسان کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے اور شکر کا لفظ خدا کے مقابلہ میں۔شکر تمام عبادتوں کا خلاصہ ہے۔ عبادت کی تمام صورتیں دراصل شکر کے جذبہ ہی کی عملی تصویر ہیں۔ شکر سب سے زیادہ جامع اور سب سے زیادہ کامل عبادت ہے۔ شکر خدا پرستانہ زندگی کا خلاصہ ہے۔
شکر کا تعلق انسان کے پورے وجود سے ہے۔ ابتدائی طور پر آدمی اپنے دل اور اپنے دماغ میں شکر کے احساس کو تازہ کرتا ہے، پھر وہ اپنی زبان سے بار بار اس کا اظہار کرتا ہے۔ اس کے بعد جب شکر کے جذبات قوی ہو جاتے ہیں تو انسان اپنے مال اور اپنے اثاثہ کو اظہار شکر کے طور پر خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگتا ہے۔ اسی طرح اس کا جذبۂ شکر اس کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اپنے وقت اور اپنی طاقت کو اس خدا کی راہ میں صَرف کرے جس نے اس کو وقت اور طاقت کا یہ سرمایہ دیا ہے۔ ہمارا وجود پورا کا پورا خدا کا دیا ہوا ہے۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جیتے ہیں جو سب کا سب خدا کا عطیہ ہے۔ اسی حقیقت کے اعتراف اور اظہار کا دوسرا نام شکر ہے۔
(زیر نظر شمارہ شکر کے موضوع پر آنے والی نئی کتاب کے منتخب مضامین پر مشتمل ہے)
واپس اوپر جائیں