Pages

Sunday 1 January 2006

Al Risala | January 2006(الرسالہ،جنوری)

2

- دعوت اور صبر

3

- دارالعمل دار الجزاء

4

- مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات

5

- سچائی—ایک مطالعہ

9

- سیاسی اصطلاحیں

11

- شرعی عدالتیں، ہندستانی عدلیہ کے متوازی نہیں

16

- یہ قیادت

17

- خادم الحرمین کا انتقال

21

- سوال جواب

40

- خبر نامہ اسلامی مرکز


دعوت اور صبر

اسلامی مشن کا پروگرام بنیادی طورپر دونکات پر مشتمل ہے۔ دعوت اور صبر۔ دعوت کا مطلب ہے، قرآن کے خدائی پیغام کو تمام انسانوں تک پہنچانا، اور صبر کا مطلب یہ ہے کہ بقیہ تمام امور میں حالتِ موجودہ پر رضامندی کا طریقہ اختیار کرنا۔ جس کو اسٹیٹس کو ازم کہاجاتا ہے۔
یہ صبر بے حدضروری ہے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا میں خود فطری قانون کے تحت ،ہمیشہ ناخوشگوار واقعات پیش آتے ہیں اگر ایسا ہو کہ آدمی ہر ناپسندیدہ صورتِ حال پر لوگوں سے ٹکرانے لگے تو اس کے پاس دعوت کے کام کے لیے وقت ہی نہیں رہے گا۔ دوسری طرف داعی اور مدعو کے درمیان وہ معتدل فضا ختم ہو جائے گی جو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے ضروری ہے۔
دعوت کا کام ہمیشہ قربانی پر ہوتا ہے۔ اس قربانی کا تعلق جان ومال کی قربانی سے زیادہ جذبات کی قربانی پر ہے۔ دوسرے انسانوں کی طرف سے بار بار ایسے ناموافق تجربے ہوتے ہیں جو داعی کے اندر منفی نفسیات پیدا کرنے والے ہیں، جو داعی کو نفرت اور انتقام کی طرف لے جانے والے ہیں۔ اگر داعی اس منفی نفسیات سے مغلوب ہوجائے تو دعوت کے کام کی مطلوب فضا ہی ختم ہوجائے گی۔
اس لیے ہر داعی کو جذبات کی قربانی دے کر اپنے آپ کو مثبت نفسیات پر قائم رکھنا پڑتا ہے۔ یہ دعوت کی لازمی شرط ہے۔ اس کے بغیر دعوت کا کام نہیںہوسکتا۔ اسی کو اسٹیٹس کو ازم کہاجاتا ہے اور شریعت میں اسی کا نام صبر ہے۔ صبر کی اسی قربانی پر دعوت کا کام ہمیشہ انجام پاتا ہے۔ صبر نہیں تو دعوت بھی نہیں۔
صبر دراصل دعوت کی قیمت ہے۔ صبر کی یہ قیمت ادا کرنے کے بعد ہی وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو دعوت کہا جاتا ہے۔ صبر دوسرے لفظوں میں وہی چیز ہے جس کو تجارت کی اصطلاح میں کسٹمرفرینڈلی بہیویر (customer friendly behaviour) کہا جاتا ہے۔ تاجر اپنے کسٹمر کے ساتھ یک طرفہ طورپر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح داعی اپنے مدعو کے معاملے میں یک طرفہ طورپر تحمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ اسی مدعو فرینڈلی سلوک کا نام صبر ہے۔
واپس اوپر جائیں

دار العمل دارالجزاء

دنیا دار العمل ہے اور آخرت دار الجزاء۔ یعنی دنیا عمل کرنے کی جگہ ہے اور آخرت اس عمل کے مطابق بدلہ پانے کی جگہ۔ ہر عورت اور مرد اپنی زندگی کا ابتدائی بہت تھوڑا حصہ موجودہ دنیا میں گزارتے ہیں اور پھر موت کے بعد وہ اگلی دنیا میں پہنچا دیے جاتے ہیں جہاں ان کو اپنے عمل کے مطابق، یا جنت میں جگہ ملے گی یا جہنم میں۔
اس اعتبار سے موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ امتحان حال ہمیشہ ٹسٹ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ ٹسٹ کا رزلٹ پانے کے لیے۔ جو طالب علم امتحان حال میں جاب حاصل کرنا چاہے وہ یقینی طورپر ناکام رہے گا۔ اسی طرح جو شخص موجودہ دنیا میں اپنے لیے خو شیوں کا ابدی محل بنانا چاہے وہ بھی اپنے مقصود کو نہیں پائے گا۔ کیوں کہ موجودہ دنیا اس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی۔
عقلمند آدمی وہ ہے جو اس فرق کو سمجھے اور وہ دنیا میں وہ کرے جو اس کو یہاں کرنا ہے، اور آخرت کے لیے وہ چیز چاہے جو وہاں کسی خوش نصیب شخص کو ملنے والی ہے۔
اس معاملے میں عقلمند آدمی ٹھیک اسی اصول کو اختیار کرتا ہے جس کو طالب علم اختیار کرتا ہے۔ طالب علم جب امتحان حال میں ہوتا ہے تو وہ اپنی ساری توجہ اس طرف لگا دیتا ہے کہ وہ اپنے ٹسٹ پیپر کو صحیح طورپر کر سکے وہ امتحان حال میںاپنا معاشی محل بنانے کی کوشش نہیں کرتا۔
ٹھیک یہی حال ہر انسان کا دنیا اور آخرت کی نسبت سے ہونا چاہیے۔ ہر انسان کو چاہیے کہ وہ موت سے پہلے کی مختصر زندگی کو آخرت کی تیاری میں لگائے تاکہ موت کے بعد کے دورِ حیات میں وہ اپنے لیے خوشیوں کی دنیا پاسکے۔ اگر کوئی عورت یا مرد موجودہ دنیا میں اس اعتبار سے غافل رہے تو اگلی دنیا میں اس کی تلافی ممکن نہ ہوگی، حتی کہ یہ بھی ممکن نہ ہوگا کہ وہ لوٹ کر دوبارہ موجودہ دنیا میں آئے اور آخرت کی نسبت سے دوبارہ اپنی تعمیر کرے۔
واپس اوپر جائیں

مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات

مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کی اصولی بنیاد کیا ہے۔ اس کو مسلم اور ذمّی یا مسلم اور حربی جیسی اصطلاحوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اس قسم کے فقہی الفاظ صرف وقتی تعلق کو بتاتے ہیں، وہ دونوں کے درمیان مستقل یا اصولی تعلق کو نہیں بتاتے۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کی فطری بنیاد یہ ہے کہ دونوں یکساں طورپر انسان ہیں۔ دونوں کے درمیان انسانیت کا ابدی رشتہ قائم ہے۔ انسانیت کا تعلق دونوں کے درمیان وہ فطری تعلق ہے جو کبھی اور کسی حال میں ٹوٹنے والا نہیں۔ ہر سماج میں اور ہر ملک میں یہ انسانی رشتہ یکساں طورپر برقرار رہتا ہے۔ یہ رشتہ وہ ہے جو پیدائش کے ساتھ ہی دونوں گروہوں کے درمیان اپنے آپ قائم ہوجاتا ہے۔ یہ ایک ایسا اٹل رشتہ ہے جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان دوسرا رشتہ وہ ہے جو عقیدے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ اسلامی عقیدے کے مطابق، مسلمان ایک صاحب مشن گروہ ہے۔ یہ مشن وہی ہے جو پیغمبرکا مشن تھا۔ یعنی خدا کے پیغام کو پُر امن طورپر دوسرے لوگوں تک پہنچانا۔ اس اعتبار سے زیادہ صحیح طورپر، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلق کو ان الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے—داعی اور مدعو، شاہد اور مشہود، ناصح اور منصوح۔
انسان کی نسبت سے مسلمانوں کے اوپر دوسرے لوگوں کے لیے وہ تمام فرائض عائد ہوتے ہیں جو اخلاق کے عنوان سے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ انسانی اخلاقیات کی پابندی جس طرح دوسرے لوگوں کے لیے ضروری ہے اسی طرح مسلمانوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ داعی کی حیثیت سے مسلمانوں کی اخلاقی ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ دوسروں کے ساتھ یک طرفہ طورپر حسن اخلاق کا ثبوت دیں، تاکہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم رہیں جو کہ مؤثر دعوتی عمل کے لیے لازمی طورپر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

سچائی —ایک مطالعہ

کہاجاتا ہے کہ سچائی مطلق چیز نہیں—ہر آدمی کی سچائی الگ الگ ہے۔ جو چیز کسی ایک کے لیے سچائی ہو وہی دوسرے کے لیے سچائی نہیں ہوسکتی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سچائی ایک ریلیٹیو (relative) چیز ہے، وہ کوئی رِیَل (real)چیز نہیں۔ اس بات کو ایک فلسفی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
There is no full stop in truth, but only commas.
کچھ لوگ اس طرح سوچتے ہیں۔ مگر یہ ایک ایسی سوچ ہے جو بداہتاً ہی غلط ہے۔ اس قسم کے مفروضے کے پیچھے کوئی لاجک یاکوئی ریشنل گراؤنڈ نہیں۔
اس دنیا میں آدمی جن چیزوں کو بھی مانتا ہے اُن کو وہ مطلق مفہوم میں مانتا ہے۔ یہی انسان کی فطرت ہے۔ اگر انسان کسی چیز کو اس کے مطلق مفہوم میں دریافت نہ کرے تو وہ مسلسل اُس وقت تک اپنی تلاش جاری رکھتا ہے جب تک وہ اُس چیز کو اُس کی مطلق صورت میں دریافت نہ کرلے۔
مثال کے طورپر قدیم زمانے میں انسان سورج اور شمسی نظام کے بارے میں بہت کم جانتا تھا۔ وہ ہزاروں سال تک اُس کی کھوج میں لگا رہا۔ یہاں تک کہ انسان نے سورج اور اس کے تابع سیاروں کے پورے نظام کو دریافت کرلیا۔ جب تک انسان اس دریافت تک نہیں پہنچا تھا وہ برابر اس کی تلاش میں لگا رہا۔
یہی معاملہ علم کے دوسرے شعبوں کا ہے۔ ہزاروں سال سے انسان علم کے مختلف شعبوں میں بحث وتحقیق میں مشغول رہا ہے اور بدستور مشغول ہے۔وہ اُس وقت تک اپنی تحقیق جاری رکھتا ہے جب تک اُس کی اصل حقیقت کو معلوم نہ کرلے۔ گویا انسان کے نزدیک ہر چیز کی ایک مطلق صورت ہے۔ ستاروں سے لے کر ایٹم تک کسی چیز کا اس میں استثناء نہیں۔
گویا انسانی ذہن کے مطابق، ہر چیز اپنی ایک مطلق صورت رکھتی ہے۔ یہی وہ یقین ہے جس کی بنا پر ہزاروں سال سے تحقیق اور جستجو کا عمل جاری ہے۔ اگر انسان یہ مان لے کہ چیزوں کا کوئی مطلق فارم نہیں تو اچانک تمام سائنسی سرگرمیاں ٹھپ ہوجائیں گی۔ علم کا سفر ہمیشہ کے لیے رُک جائے گا۔
یہی اُصول ذاتی معاملات کا ہے۔ انسان اپنے آپ کو مطلق سمجھتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ سمجھے تو وہ ایک دن بھی زندہ نہ رہ سکے۔ انسان اپنی ماں، اپنی بیوی، اپنی اولاد کو مطلق سمجھتا ہے۔ اسی تصور پر خاندان کا نظام قائم ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسانی زندگی کا سارا نظام بکھر کر رہ جائے۔ اسی طرح انسان اپنی پراپرٹی، مثلاً گھر اور کار اور بزنس اور بینک بیلنس کو مطلق سمجھتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ سمجھے تو اس کی معاشی زندگی کبھی تشکیل نہ پاسکے گی۔
ایسی حالت میں یہ ماننا کہ سچائی مطلق نہیں، گویا یہ ماننا ہے کہ سچائی کی حیثیت ایک استثناء کی ہے۔ گویا کہ سچائی مطلق دنیا میں ایک غیر مطلق (non-absolute) کی حیثیت رکھتی ہے۔ مگر اس قسم کے عقیدے کے لیے کوئی منطقی بنیاد موجود نہیں۔ یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ اس وسیع دنیا میں دوسری تمام چیزیں تو مطلق ہوں، مگر سچائی استثنائی طورپر مطلق نہ ہو۔ یہ ایک منطقی تضاد ہے اور اس قسم کا منطقی تضاد عقل وفہم والے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ غور کیجئے تو انسان ایک دہرا وجود ہے—جسم اور روح ۔سچائی کے سوا جتنی چیزیں ہیں وہ سب کی سب انسان کی جسمانی ضرورت سے تعلق رکھتی ہیں۔ سچائی واحد چیز ہے جو انسان کو اپنی روحانی ضرورت کے طورپر مطلوب ہے۔ اب یہ ناقابلِ فہم ہے کہ جسم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے جو چیزیں اس دنیا میں ہیں وہ تو سب کی سب مطلق ہوں۔ مگر سچائی، جو انسان کی روحانی ضرورت کو پورا کرتی ہے وہ مطلق نہ ہو۔
اس تقسیم کو ماننے کے لیے یہ ماننا پڑے گا کہ اس دنیا میں ایک بہت بڑا تضاد ہے۔ یہاں مادی ضرورتوں کا سامان مطلق حیثیت سے موجود ہے۔ مگر روحانی ضرورت کا سامان استثنائی طورپر ایک ایسی چیز ہے جس کی تکمیل کا سامان مطلق حیثیت سے دنیا میں موجود ہی نہیں۔
ایک فلسفی جو سچائی کو مانتا تھا، اُس نے اپنے نقطۂ نظر کے حق میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ سچائی انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ سچائی کے بغیر انسان سر تا سر نامکمل ہے۔ سچائی انسان کی اتنی بڑی ضرورت ہے کہ اگر وہ مطلق نہ ہو تو ہم کومفروضہ طورپر یہ یقین کرنا پڑے گا کہ سچائی مطلق ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سچائی کو مطلق نہ ماننا ایک ذہنی خود کُشی ہے۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ اپنے اس قول میں سنجیدہ نہیں ہوتے۔ اگر وہ سنجیدہ ہوں تو کبھی وہ ایسا لفظ اپنے منھ سے نہ نکالیں۔
سچائی کو مطلق نہ ماننا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ میں اپنی ماں کو مطلق مفہوم میں اپنی ماں نہیںمانتا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہوسکتا ہے کہ وہ میری ماں ہو،اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ میری ماں نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سنجیدہ انسان غیر مطلقیت(non-absolution) کے اس نظریے کا تحمل نہیں کرسکتا۔ ٹھیک اسی طرح کوئی سنجیدہ انسان اس کا بھی تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ کہے کہ سچائی میرے نزدیک کوئی مطلق چیز نہیں۔سچائی تو صرف ایک ریلیٹیو چیز ہے۔ یعنی A بھی سچائی ہوسکتی ہے اور B بھی اور اسی طرح C اور D بھی۔ یہاں تک کہ Z تک ہر چیز سچائی ہوسکتی ہے۔
یہاں تک کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اے سے زیڈ تک کوئی بھی سچائی نہ ہو۔ بلکہ سچائی ان کے سوا کوئی اور ہو، یاسچائی، سرے سے کوئی چیز ہی نہ ہو۔ یہ بلا شبہہ ایک ایساذہنی تعیش (intellectual luxury) ہے جس کا کوئی سنجیدہ انسان کبھی تحمل نہیں کرسکتا۔
سنجیدہ طورپر کوئی شخص یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میںنے ابھی سچائی کو نہیں پایا۔ میں ابھی صرف متلاشی (seeker) ہوں۔ مگر کوئی شخص سنجیدہ طورپر یہ نہیں کہہ سکتا کہ سچائی کوئی مطلق چیز ہی نہیں۔
انسان جس کائنات میںرہتا ہے وہاں ہر چیز مطلق ہے۔ یعنی ایک اسٹار اسٹار ہے وہ کوئی ہاتھی نہیں۔ اسی طرح ایک ہاتھی ہاتھی ہے وہ کوئی اسٹار نہیں۔ اسی طرح ہر چیز معلوم طور پر ایک مطلق چیز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اور اگر کوئی چیز مطلق حیثیت سے معلوم نہ ہوئی ہو تو انسان لگاتار اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ اس کو مطلق حیثیت میں دریافت کرلے۔
یہی معاملہ خود انسان کی شخصیت کا ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے مطلق پسند انسان ہے۔ وہ یقین میں جینا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ جب وہ ایک عورت کو ماں کی حیثیت سے جانے تو وہ مطلق طورپر اس کے ماں ہونے پر یقین کرسکے۔ اسی طرح جب وہ ایک پراپرٹی کو اپنی پراپرٹی کی حیثیت سے جانے تو وہ مطلق مفہوم میں یقین کرسکے کہ وہ اسی کی پراپرٹی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان ہرچیز کے بارے میں غیر یقینیت (uncertainty) میں مبتلا رہے گا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان غیر یقینیت میںنہیں جی سکتا۔یہ حقائق واضح طورپر بتاتے ہیں کہ مطلق کا تصور انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ اس کے برعکس یہ سمجھنا فطری تقاضے کے خلاف ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز مطلق نہیں۔
سچائی کو مطلق نہ سمجھنا گویا یہ کہنا ہے کہ میں کسی چیز کے سچّاہونے پر یقین نہیں رکھتا۔ اس قسم کے کسی تصور کو لے کر کوئی آدمی صرف متشکک (sceptic)بن سکتا ہے، اور متشکک بننا کسی بھی انسان کے لیے قابل عمل پوزیشن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سیاسی اصطلاحیں

دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب کی اصطلاحیں بعد کے زمانے میںاس وقت وضع کی گئیں جب کہ مسلمانوں کا ایک پولیٹکل امپائر بن چکا تھا۔ زمین کے ایک بڑے حصے پر مسلمانوں کا سیاسی غلبہ قائم ہوچکا تھا۔ اس سیاسی ماحول میں فقہ کی تشکیل ہوئی۔ اس صورت حال کا نتیجہ قدرتی طورپر یہ ہوا کہ فقہ کی تدوین وتشکیل میںسیاسی نقطۂ نظر غالب آگیا۔ فقہ عملاً مسلمانوں کے دور سلطنت کا اظہار بن گئی۔
اس کی ایک مثال دار الاسلام، دار الکفر اور دار الحرب کی اصلطلاحیں ہیں۔ ان اصطلاحات میں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مفروضہ کام کررہا تھا کہ مسلمان سیاسی طور پر غالب پوزیشن میں ہیں اور وہ اپنی اس سیاسی پوزیشن کے حوالے سے دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات کو متعین کررہے ہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ سیاسی اقتدار کسی گروہ کا ایک وقتی مرحلہ(temporary phase) ہوتا ہے۔ اس اعتبار سے بعد کے دور میں بننے والی فقہ، اسلام کے ابدی تقاضوں کا اظہار نہ تھی، وہ زیادہ تر وقتی ضرورتوں کے تحت مدون کی گئی ۔
قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں اور دوسری قوموں کے درمیان جو تعلق ہے وہ داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ خدا کے رسول کے ذریعے مسلمانوں کو خدا کا پیغام ملا ہے اوراس پیغام کو انھیں تمام قوموں تک پہنچانا ہے۔ مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اس عمل کو نسل درنسل جاری رکھیں۔ دوسری قوموں کی نسبت سے مسلمانوں کا تعلق متعین کرنے کے لیے مرکزی تصور یہی ہے۔ یہ تصور مسلمانوں کو ہمیشہ کے لیے مدعو فرینڈلی بناتا ہے۔ اس کا تقاضا ہے کہ داعی اور مدعو کے درمیان ہمیشہ نارمل تعلق قائم ہو، تاکہ دعوت کا عمل مؤثر انداز میں جاری رہے۔
مگر فقہ کی تدوین کے وقت مسلم دنیا میں جو سیاسی ماحول تھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سیاسی ابواب تو فقہ کی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ شامل ہوگئے مگر دعوت اورتبلیغ کا باب سرے سے اس میں شامل نہ ہو سکا۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ کی تماتم کتابیں کتاب الدعوۃ والتبلیغ سے خالی نظر آتی ہیں۔
فقہ کی کتابوں کے ان ابواب کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دنیا حاکم اور محکوم میں تقسیم ہے۔ ایک طرف مسلم حکمراں ہیں اور دوسری طرف محکوم غیر مسلم۔ مسلمانوں کے لیے مطلوب حالت یہ ہے کہ زمین پر ان کا سیاسی اقتدار قائم ہو، یعنی وہ حالت جس کو فقہ میں دارالاسلام کہا گیا ہے۔ اس کے بعد جو بقیہ دنیا ہے وہ یا تو ’’غیر‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے جس کو فقہ کی تقسیم میں دار الکفر بتایا گیا ہے۔ یا پھر یہ کہ مسلمانوں کے لیے وہ خطہ دار الحرب کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی مسلمان ان سے برسرِ جنگ ہیں تاکہ وہاں اپنا سیاسی اقتدار قائم کریں۔
اسلام کا یہ تصور بلاشبہہ اسلامی تاریخ کی سیاسی تعبیر کے ہم معنی ہے۔ اقتدار مسلمانوں کی مستقل وراثت نہیں۔ قرآن کے مطابق ، اقتدار دوسرے تمام سامانِ حیات کی طرف صرف ایک ٹسٹ پیپر ہے اور وہ ہر قوم کو باری باری دیا جاتا ہے۔ اس معاملے میں مسلمانوں کی کوئی خصیوصیت نہیں۔ اس اصول کو مان لیا جائے تو دار الاسلام، دار الکفر اور دارلحرب کی اصطلاحیں اپنے آپ غیر متعلق (irrelevant)ہو جاتی ہیں۔
دار الاسلام، دار الکفر اور دارالحرب کی اصطلاحوں کے پیچھے یہ سیاسی مفروضہ شامل ہے کہ مسلمان اور دوسری قوموں کے درمیان حاکم اور محکوم کا رشتہ ہے، مگر یہ تصور سراسر بے بنیاد ہے۔ قرآن و سنت میںاس کے لیے کوئی حقیقی دلیل موجود نہیں۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلم کے درمیان داعی اور مدعو کا رشتہ ہے۔ اس رشتے کو قرآن میں شاہد اور مشہور (البروج ۳) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
ایک مسلم پروفیسر نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا کہ اسلام میں پوزیشن آف اسٹرنتھ (position of strength) کا ماڈل موجود ہے، مگر اسلام میں پوزیشن آف ماڈسٹی کا ماڈل موجود نہیں۔ یہ بات انھوں نے اس لیے کہی کہ انھوں نے اسلام کا ماڈل بعد کے مسلم دورِ اقتدار سے اخذ کیا۔ اس سے پہلے اسلام کے نبوی دور میں اسلام کا جو ماڈل تھا وہ تمام تر پوزیشن آف ماڈسٹی ہی کا ماڈل تھا۔ حالاں کہ اسلام میں اصل ماڈل کی حیثیت دَور دعوت کی ہے نہ کہ دور اقتدار کی۔
واپس اوپر جائیں

شرعی عدالتیں، ہندستانی عدلیہ کے متوازی نہیں

ہر قانونی نظام میں قانون کے دو حصے مانے گیے ہیں۔ ایک، اَحوالِ اجتماعی ۔ دوسرا، احوالِ شخصی۔ احوالِ اجتماعی سے مراد وہ احوال ہیں جو دو یا زیادہ شخصوں کے درمیان پیدا شدہ معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ احوالِ شخصی سے مراد وہ معاملات ہیں جو کسی فرد کی ذات سے تعلق رکھتے ہیں۔
ہر قانونی نظام میں ایسا ہوتا ہے کہ احوالِ اجتماعی کا تعلق ریاست یا عدالت سے ہوتا ہے۔ مگر جہاں تک احوالِ شخصی کا تعلق ہے، اس معاملے میں لوگوں کو یہ رخصت دی جاتی ہے کہ وہ اپنے ذاتی دائرے والے معاملات کو بطورِ خود ثالث یا کسی اور طریقے سے طے کریں۔ اگر یہ فیصلہ سماج کے دوسرے لوگوں کے حقوق پر اثر انداز نہ ہوتا ہو تو اس کو ایک جائز فیصلہ تسلیم کرلیا جاتا ہے۔
برّ صغیر ہند میں یہ نظام ماضی قدیم سے چلا آرہا تھا۔مسلم عہدِ حکومت سے پہلے ہندستان میں راجاؤں کی حکومت تھی۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان ہندستان میں آئے، اور مختلف راجاؤں کے حدودِ سلطنت میں آباد ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ان ہندو راجاؤں نے اپنی مسلم رعایا کی مذہبی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ایک مخصوص قانونی عہدہ قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ اس مسلم عہدے دار کا نام ’’ہُنر من‘‘ ہوتا تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ مسلمانوں کے شخصی معاملات میں انھیں شریعت کے مطابق فیصلہ دے۔
ہندستان میں جب مسلم عہد سلطنت شروع ہوا تو اس روایت کو باقی رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے ذمے دار افراد مقرر کیے گیے۔ ان کو قاضی کہا جاتا تھا۔ یہ گویا آزاد قانونی ادارہ تھا۔ اس کا کام یہ تھا کہ وہ مسلم افراد کے شخصی یا خاندانی معاملات میں شریعت کی رہنمائی میں فیصلے دے۔ یہ قاضی احوالِ اجتماعی میں دخل نہیں دیتے تھے۔ وہ محدود طور پر صرف شخصی احوال میں مسلمانوں کی ایک دینی ضرورت کو پورا کرتے تھے۔
انیسویں صدی کے وسط میںہندوستان میں برٹش راج قائم ہوا تو برٹش حکمرانوں نے قاضی کے عہدے کو باقی رکھا۔ یہ قاضی ہندستان کے اکثر شہروں میں موجود ہوتے تھے اور وہ مسلمانوں کے شخصی احوال میںان کی شرعی رہنمائی کرتے تھے۔
۱۹۴۷میں ہندستان آزاد ہوا تو اُس وقت مولانا ابوالکلام آزاد حکومتِ ہند میں وزیرِ تعلیم کے عہدے پر تھے۔ مولانا آزاد کے مشورے سے حکومت نے اِس مقصد کے لیے دہلی میں ایک مسلم جج مقرر کیا۔ ان کا نام محمد شفیع تھا۔ جب تک وہ زندہ رہے یہ نظام چلتا رہا۔ وہ خاص طورپر نکاح وطلاق کے معاملات میں اپنا فیصلہ دیتے تھے۔ مگر محمد شفیع صاحب کے انتقال کے بعد یہ نظام عملاً ٹوٹ گیا۔
اس کے بعد مختلف مدارس اور مسلم اداروں میں قائم شدہ دار الافتاء اور دار القضاء مسلمانوں کی اس ضرورت کو پورا کرنے لگے۔ دار الافتاء اور دار القضاء کا یہ نظام کامیابی کے ساتھ چلتا رہا اور اب بھی چل رہا ہے۔ پچھلی نصف صدی میں ان اداروں نے بہت بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کی ہے۔ ہندستان کی ریاست یا یہاں کے سیاسی نظام نے اس کو تسلیم کیا۔ کیوں کہ وہ دستورِ ہند میں دی ہوئی مذہبی آزادی کے مطابق تھا۔
۴ جون ۲۰۰۵ کو مظفر نگر کے ایک گاؤں میں ایک واقعہ ہوا۔ جس نے غالباً پہلی بار نئی صورت حال پیدا کردی۔ واقعہ یہ تھا کہ ایک مسلم خاتون (عمرانہ )کے ساتھ خود اس کے خاندان کے ایک ممبر نے زنا بالجبر کا فعل کیا۔ اس پس منظر میں کچھ لوگوں نے ملوث افراد کا نام لیے بغیر بالواسطہ انداز میں ایک استفتاء مرتّب کیا، اور اس کو دیوبند کے دار الافتاء میں بھیج دیا۔ دالافتاء والوں نے اس معاملے میں اپنے فقہی اصول کے مطابق، ایک فتویٰ جاری کردیا۔ اس فتوے سے اصل مجرم کو تو کوئی سزا نہیں ملی ، البتہ اس نے عمرانہ اور اس کے پورے خاندان کے لیے ناقابلِ بیان مسائل پیدا کردیے۔ ایسے مسائل جن کا کوئی حل مفتی صاحبان کے پاس نہ تھا۔ کیوں کہ مفتی صاحبان کے پاس فتویٰ تحریر کرنے کا اختیار ضرور موجود تھا مگراس فتوے کو نافذ کرنے کا کوئی اختیار انھیں حاصل نہ تھا۔
مزید یہ کہ دیوبند کے اس فتوے نے ایک سنگین نوعیت کا قانونی بحران پیدا کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ مسئلہ سپریم کورٹ تک پہنچا۔ سپریم کورٹ نے اس کی سماعت کرکے مختلف ریاستوں کے نام یہ نوٹس جاری کردیے کہ وہ مسلمانوں کے اس نظامِ فتویٰ پر پابندی لگائیں، کیوں کہ یہ لوگ اپنی حد سے تجاوز کرکے ملک کے عدالتی نظام میں مداخلت کررہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں سپریم کورٹ کا یہ اقدام اصولی طورپر درست ہے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ فتوے کا نظام چلانے والوں نے غالباً نادانستہ طورپر یہ غلطی کی کہ وہ اپنی جائز حد سے باہر چلے گیے۔ انھوں نے زنا بالجبر کے ایک واقعے میں بالواسطہ طورپر ایک فتویٰ جاری کردیا۔ حالاں کہ زنا بالجبر مسلّمہ طورپر ایک فوجداری کیس ہے، اور فوجداری کیس سرکاری عدالت کی عمل داری میں آتا ہے۔ وہ دارالافتاء یا دارالقضاء کے دائرۂ عمل سے باہر کی چیز ہے۔
سپریم کورٹ کے اس اقدام نے ایک سنگین قسم کا قانونی بحران پیدا کردیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ کے اس اقدام کا تعلق موجودہ نظامِ فتویٰ کے وجود سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صرف ایک، یا بعض غلط فتووں سے ہے۔ اس معاملے کا سادہ حل یہ ہے کہ فتوے کا نظام چلانے والے ایک عرضی انڈیا کی سپریم کورٹ میں داخل کریں۔ اس عرضی میں غیر مشروط طورپر یہ کہا گیا ہو کہ زنا بالجبر کا مذکورہ کیس ایک فوج داری کیس تھا۔ ایسے معاملے میں فتویٰ دینا عملاً ملک کے عدالتی نظام میں ایک قسم کی مداخلت تھی۔ اب وہ اپنی اس غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے فتوے کو واپس لیتے ہیں اور آئندہ کے لیے عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنے فتوے کا نظام مسلمانوں کے شخصی امور تک محدود رکھیں گے۔ وہ کسی بھی ایسے معاملے میں ہرگز کوئی فتویٰ نہ دیں گے جس کا تعلق دستورِ ہند کے مطابق، ملک میں قائم شدہ عدالت سے ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس قسم کی عرضی سپریم کورٹ کے لیے یقینا قابلِ قبول ہوگی اور وہ اپنا جاری کردہ نوٹس واپس لے لے گی۔
میری اس تجویز پر کچھ لوگوں کو اعتراض ہوسکتا ہے۔ وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو پسپائی ہے۔ اور پسپائی مسلمان کا طریقہ نہیں۔ ہمیں اقدام کرکے سامنے آنا چاہیے اور سپریم کورٹ سے لڑ کر اپنا حق منوانا چاہیے۔
میں کہوں گاکہ یہ پسپائی کی بات نہیں، بلکہ یہ اعترافِ خطا کی بات ہے۔ اور اعتراف اور پسپائی دونوں ایک دوسرے سے بالکل الگ ہیں۔ مسلمان انڈیا میں دستورِ ہند کو مان کر رہ رہے ہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ فوج داری نوعیت کے کیس میں فتویٰ دینا دستورِ ہند کے مطابق، ملک کے قانونی نظام میں مداخلت ہے۔ اور دستورِ ہند کے مطابق اِس قسم کی مداخلت جائز نہیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے یا تو وہ دستورِ ہند سے بغاوت کا اعلان کردیں اور پھر اپنے اس عمل کی ہر قیمت کو ادا کریں، یا پھروہ کھُلے طورپر یہ اعتراف کرلیں کہ مفتی صاحبان نے اس معاملے میں ملک کے قانونی نظام کی خلاف ورزی کی ہے۔ ان دو کے سوا کوئی تیسرا انتخاب عملی طورپر ان کے لیے ممکن نہیں۔
یہاں میں یہ اضافہ کروں گا کہ مسلمانوں کو دوسری بار وہ غلطی نہیں کرنا چاہیے جو انھوں نے ۱۹۸۶ میں شاہ بانو بیگم کے مشہور کیس میں کی تھی۔ شاہ بانو کے کیس میں سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا تھا، اس کی ذمّے داری واضح طور پر خود مسلمانوں پر عائد ہوتی تھی۔ اس معاملے میں جو ہُوا وہ یہ تھا کہ ایک مسلم خاتون (شاہ بانو بیگم) اپنے طلاق کے کیس کو ملکی عدالت میں لے گئیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ سابقہ شوہر مجھے ماہانہ گذارہ(maintenance) ادا کرے۔ اپنے مطالبے کے حق میں انھوں نے عدالت میں عبد اللہ یوسف علی کا ترجمۂ قرآن پیش کیا جس میں قرآن کی ایک متعلق آیت (البقرہ: ۲۴۱) کے تحت، متاع کا ترجمہ گذارہ (maintenance) کیاگیا تھا۔ انگریزی کا یہ ترجمۂ قرآن جو ساری دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ مقبول تھا اس کو لے کر سپریم کورٹ نے شاہ بانو کے حق میں اپنا فیصلہ دے دیا۔
اصولی بات یہ تھی کہ عبد اللہ یوسف علی نے آیت کا جو ترجمہ کیا تھا وہ غلط تھا۔ قرآنی لفظ متاع کا صحیح ترجمہ پراویجن (provision) ہے نہ کہ مینٹیننس (maintenance) ۔
اس معاملے میں شرعی مسئلہ یہ ہے کہ مطلّقہ عورت کے خاوند کو چاہیے کہ وہ بوقت طلاق حسب حیثیت عورت کو کچھ رقم وغیرہ دے دے۔ بعد از طلاق ماہانہ گذارہ ادا کرنے کی ذمے داری سابقہ شوہر پر نہیں۔ ایسی حالت میں سپریم کورٹ کا فیصلہ خالص شرعی اعتبار سے درست نہ تھا۔ مگر اس نادرست فیصلے کی اصل ذمے داری دو مسلمانوں پر تھی— شاہ بانو بیگم (مدّعیّہ) اور عبد اللہ یوسف علی (مترجم قرآن) ایسی حالت میں اس معاملے میں مسلمانوں کی تحریک کا رُخ شاہ بانو بیگم اور عبد اللہ یوسف علی یا اُن کے ترجمۂ قرآن کے ناشر کی طرف ہونا چاہیے تھا نہ کہ سپریم کورٹ کی طرف۔
مگر اس معاملے میں مسلم علماء اور رہنماؤں نے یہ کھلی غلطی کی کہ انھوں نے اپنی پوری تحریک سپریم کورٹ اور حکومتِ ہند کے خلاف چلا دی۔ شاہ بانو یا عبد اللہ یوسف علی کے مذکورہ غلط ترجمے سے انھوں نے کوئی تعرض نہیں کیا۔
یہ روش بلاشبہہ خلافِ عدل تھی۔ چناںچہ انڈیا کے مسلمانوںکو اس غیر عادلانہ روش کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ تمام لوگ جانتے ہیں کہ دراصل شاہ بانو تحریک ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ انڈیا میں پہلی بار وہ عناصر سیاسی اقتدار پر قابض ہوگیے، جن کو مسلمان مسلم دشمن عناصر کہتے ہیں۔ (واضح ہو کہ مسلم دشمن عناصر کا نظریہ راقم الحروف کا نظریہ نہیں۔ راقم الحروف کے نزدیک کوئی بھی ہمارا مستقل دشمن نہیں۔ کیوں کہ قرآن کے مطابق، دشمن بھی ہمارے لیے امکانی دوست (potential friend) کی حیثیت رکھتا ہے۔ حم السجدہ: ۳۴)
آخری بات یہ کہ غیر عادلانہ تحریک ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتی ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے وہ ہمیشہ کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہوتی ہے۔ مسلمان نہ صرف ہندستان میں بلکہ پوری دنیا میں اس قسم کے ناعاقبت اندیشانہ تجربے کر چکے ہیں۔ اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے کہ اس قسم کی غلطی کو مزید نہ دہرایا جائے کیوں کہ حدیث میں آیا ہے: لا یلدغ المؤمن من جُحرٍ واحدٍ مرّتین، البخاری (مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا)
واپس اوپر جائیں

یہ قیادت

پانچویں صدی عیسوی میں یونان میں کچھ سیاسی لیڈر ابھرے جنھوںنے لوگوں کے وقتی اور سطحی جذبات کو بھڑکا کر مقبولیت حاصل کی۔ ایسے لیڈر کو اس زمانہ میں ڈیماگاگ (Demagogue) کہا گیا۔ ان میں سے ایک مشہور نام کلیون (Cleon) کا ہے۔ وہ ایک بلند آواز آدمی تھا۔ اسی کے ساتھ اس کے اندر اس بات کی خصوصی صلاحیت تھی کہ وہ عوام پسند زبان میں کلام کرسکے۔ اس نے وقت کے نظام حکومت کے خلاف پرجوش تقریریں کرکے عوام کے اندر مقبولیت حاصل کر لی ۔(8/357)
موجودہ زمانے میں ڈیماگاگ کا لفظ اس سیاسی لیڈر کے لئے بولا جاتا ہے جو لوگوں کے جذبات اور تعصبات کو مخاطب کرے اوراس طرح ان کے درمیان لیڈری اور مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ وہ عوامی خواہشات کا نمائندہ بن کر لوگوں کی بھیڑ اپنے گرد اکھٹا کرلے (111/454-55) ویبسٹر کی ڈکشنری میں ڈیماگاگ کی تشریح اس طرح کی گئی ہے: ایک شخص جو عوام کے جذبات اوران کے تعصبات وغیرہ کو بھڑکائے اور اس طرح ان کا لیڈر بن کر اپنے ذاتی مفادات کو پورا کرے:
A person who tries to stir up the people by appeals to emotion, prejudice, etc., in order to become a leader and achieve selfish ends.
قیادت کی دو قسمیں ہیں۔ ایک قائد وہ ہے جو عوام کے پیچھے چلے۔ جوعوامی جذبات کی ترجمانی کرے۔ دوسرا قائد وہ ہے جو عوام کو خود اپنے پیچھے چلائے، جو اصولوں کی نمائندگی کرنے والا ہو۔ پہلی قسم کے قائد کو موجودہ زمانے میںڈیماگاگ کہا جاتا ہے۔ اس قسم کے قائدکو ہمیشہ زبردست مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ ایسا قائد عوام کو اپنا وکیل معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اس کے گرد بہت جلد عوام کی بھیڑ اکھٹاہو جاتی ہے۔
اس کے برعکس معاملہ دوسری قسم کی قیادت کا ہے۔ ایسا قائد اپنے اعلیٰ ترین اوصاف کے باوجود عوام کے اندر اجنبی بن جاتا ہے ۔اس کے گرد لوگوں کی بھیڑ جمع نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے نہیں چلتا بلکہ وہ برتر اصولوں کا ترجمان ہوتا ہے۔ ایسے قائد کو اکثر یہ کام کرنا پڑتا ہے کہ وہ بولنے والوں کو چپ کرائے اور چلنے والوں کو روکے۔
واپس اوپر جائیں

خادم الحرمَین کا انتقال

سعودی عرب کے حُکمراں شاہ فہد ۲؍ اگست ۲۰۰۵ء کو انتقال کرگئے۔ شاہ فہد ۱۹۲۳ء میں پیدا ہوئے۔ وہ مختلف عُہدوں پر فائز رہے۔ ۱۹۸۲ میں وہ سعودی عرب کے حکمراں بنے۔ اُن کا زمانۂ حکومت سعودی عرب کی تاریخ میں نہایت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں سعودی عرب تیل کی پیداوار میںدنیا کا سب سے بڑا ملک (oil super power) بنا۔ ساری دنیا کے لوگ تیل کی دَولت کے حصول کے لیے سعودی عرب کی راجدھانی ریاض آنے لگے۔ اسی زمانے میں امریکی میگزین ٹائم نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ قدیم زمانے میں کہا جاتا تھا کہ تمام سڑکیں روم کی طرف جاتی ہیں، اب یہ کہنا صحیح ہوگا کہ تمام سڑکیں ریاض کی طرف جاتی ہیں:
All roads lead to Riyadh.
شاہ فہد کا دَورِ حکومت نہایت جاہ وجلال کا دورِ حکومت تھا۔ مگر ۱۹۹۵ میں اُن پر دل کا دورہ پڑا۔ اُن کی صحت نہایت کمزور ہوگئی۔ اُنھیں کنگ فیصل اسپتال میں داخل کردیاگیا۔ اِس کے بعد وہ مسلسل زیرِ علاج رہے۔ دس سال پہلے انھیں حکومت کے کاموں سے عملی طورپر الگ ہوجانا پڑا۔ چنانچہ حکومت کے کام ان کی نیابت میں ان کے سوتیلے بھائی شہزادہ عبد اللہ انجام دینے لگے۔ شاہ فہد کے انتقال کے بعد شہزادہ عبد اللہ سعودی عرب کے حکمراں مقرر کیے گئے ہیں۔ ۱۹۹۵ میں شاہ فہد کے صاحبِ فراش ہوجانے کے بعد سے، حکومت کا روز مرّہ کا کام شاہ عبد اللہ ہی سنبھالے ہوئے تھے۔
شاہ فہد کے زمانۂ حکومت میں سعودی عرب کو غیر معمولی ترقی حاصل ہوئی۔ حرم مکّی اور حرم مدنی دونوں میں غیر معمولی توسیع کی گئی۔ ان کو جدید ترین سہولتوں سے آراستہ کیا گیا۔ قرآن کی توسیع واشاعت کے لیے بہت بڑا ادارہ قائم ہوا، جس کے تحت دنیا کی تمام زبانوں میں قرآن کے ترجمے کرکے کروڑوں کی تعداد میں ساری دنیا میں پھیلا دیے گیے۔ دنیا بھر کے مسلم اداروں اور مسلم تنظیموں کو مسلسل مدد ملتی رہی۔ مسلم حکومتوں کو مختلف قسم کی امداد فراہم کی جاتی رہی۔ انھوںنے اپنے لیے خادم الحرمین الشریفین کا لقب اختیار کیا، اس کی وجہ سے وہ مسلم دنیا کے لیے جذباتی طورپر خلیفۃ المسلمین کا بدل بن گئے۔ عرب شہروں کی نئی منصوبہ بند تعمیر کی گئی۔ ملک میں بہترین انفراسٹرکچر قائم کیا گیا، وغیرہ۔
شاہ فہد کے انتقال کے بعد ان کے بارے میں جو رپورٹیں اخباروں میں چھپی ہیں، ان میں کئی سبق آموز پہلو موجود ہیں۔ مثلاً رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شاہ فہد عرب کے ایک سادہ اور بے نشان قبرستان میں دفن کیے گیے:
King Fahad was buried in a simple unmarked grave. (TOI, Agust 3, 2005)
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ واقعہ سعودی سلطنت کی ایک عظیم تاریخ کی یاددلاتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عرب کے علاقہ نجد میں مشہور مُصلح محمد بن عبد الوہاب نجدی ظاہر ہوئے۔ وہ ۱۷۰۳ میں پیدا ہوئے اور ۱۷۹۲ میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے مجاہدانہ انداز میں توحید خالص کے احیاء کا عمل شروع کیا۔ اُس زمانے میں نجد کے امیر محمد بن سعود (وفات: ۱۷۶۵)تھے۔ اُنھوںنے محمد بن عبد الوہاب کی پوری مدد کی۔
اس کے بعد محمد بن سعود (حاکم) اور محمدبن عبد الوہاب (مصلح) کے تعاون سے عرب میں زبردست تحریک چلی۔ اس تحریک کے نتیجے میں یہ ہوا کہ محمد بن سعود کو تقریباً پورے عرب میں اقتدار حاصل ہوگیا۔ اس کے بعد سے جزیرہ نمائے عرب کا نام سعودی عرب یا سعودی مملکت پڑ گیا۔ شاہ فہد اسی شاہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہ تحریک عام طور پر وہابی تحریک کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس تحریک کا خاص نشانہ یہ تھا کہ شرک کے تمام مظاہر اور علامتوں کو بالکل مٹا دیا جائے۔ یہ لوگ پختہ قبروں کے سخت خلاف تھے۔ چنانچہ انھوں نے عرب میں قدیم پختہ قبروں کو ختم کردیا۔ اس کے بعد عرب میں بڑے بڑے لوگوں کی قبریں بھی سادہ انداز میں بنائی جانے لگیں۔ اسی کا ایک نمونہ یہ تھا کہ شاہ فہد کو عام قبرستان میں بالکل سادہ طور پر دفن کیاگیا۔
شاہ فہد کو عام طورپر امریکا نواز سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ شاہ فہد کی موت کی خبر کو اخباروں میںاس طرح کی سرخی کے ساتھ شائع کیا گیا ہے—امریکا کے دوست، شاہ فہد کا انتقال:
America's friend, King Fahad, dead.
میرے نزدیک شاہ فہد کے لیے یہ لقب درست لقب نہیں۔ آج کل عام طورپر یہ مزاج ہے کہ لوگوں کو پروامریکا یا اینٹی امریکا کے الفاظ میں یاد کیا جاتا ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ کہ لوگوں کو حقیقت پسند (pro-reality) اور غیر حقیقت پسند(anti-reality) کی اصطلاحوں میں یاد کیا جائے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں، شاہ فہد نہایت ذہین اور حقیقت پسند آدمی تھے۔ انھوں نے حالات کے مطالعے سے یہ سمجھا کہ امریکا سے ٹکراؤ کرنا ان کو یا مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں دے گا، بلکہ یقینی طورپر وہ معکوس نتیجہ (counter-productive) کا سبب بن جائے گا۔ اس لیے انھوںنے یہ پالیسی اختیار کی کہ امریکا سے بے فائدہ ٹکراؤ نہ کیا جائے بلکہ امریکا کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کا طریقہ اختیار کیا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ امریکا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی طاقت کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ اس کو واحد سپر پاور کہا جاتا ہے۔ ایسی طاقت سے ٹکراؤ کرنا عقل اور دین دونوں کے خلاف ہے۔ اس کی ایک مثال خود قرآن میں موجود ہے۔ حضرت سلیمان جو اپنے زمانے کے عظیم حکمراں تھے، ان کے مقابلے میں ملکۂ سبا نے ٹکراؤ نہ کرنے کی پالیسی اختیار کی اور اس کو کامیابی حاصل ہوئی(النمل ۳۴)۔ یہ واقعہ قرآن میں جس طرح بیان کیا گیا ہے وہ اصولِ تفسیر کے مطابق قرآنی تصدیق کے ہم معنی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاہ فہد نے اسی دانش مندانہ پالیسی کو اختیار کیا۔ یہ منفی طرزِ فکر کا نتیجہ تھا کہ لوگوں نے اس پالیسی کو غلط طور پر امریکا نواز پالیسی کا نام دے دیا۔
عربی زبان کی ایک بامعنی مثل ہے: تعرف الأشیاء بأضدادہا (چیزیں اپنے ضد سے پہچانی جاتی ہیں) اس تاریخی اصول کی روشنی میں شاہ فہد کے معاملے کو سمجھئے۔ امریکا کے مقابلے میں حکومتی پالیسی کا جو مسئلہ ہے، اس کے بارے میں موجودہ زمانے میں دو متضاد مثالیں ملتی ہیں۔ ایک، عرب کے حکمراں شاہ فہد کی مثال، جنھوں نے امریکا کے ساتھ صُلح کا طریقہ اختیار کیا۔ دوسری مثال عراق کے حکمراں صدام حسین کی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، شاہ فہد کی حقیقت پسندانہ پالیسی کے نتیجے میں نہ صرف عرب کو بلکہ ساری مسلم دنیا کو بے شمار فائدے حاصل ہوئے۔ آج مسلم دنیا نیز یورپ اور امریکا میں ہر جگہ شان دار مسلم ادارے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے بنانے والے مسلمان اگرچہ زبان سے کھلے طورپر اس کا اعتراف نہیں کرتے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کی شان دار کامیابی کا راز سعودی حکومت کا عظیم تعاون ہے ۔ سعودی حکومت اس عالمی تعاون کے قابل اس لیے بنی کہ اس نے مغربی طاقتوں کے مقابلے میں عدم ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کی۔
عراق کے حکمراں صدام حسین کی زندگی اس کے برعکس مثال پیش کرتی ہے۔ انھوںنے امریکا کو مسلم دشمن قرار دے کر اس کے خلاف جنگ (اُمُّ المعارک) کا اعلان کردیا۔ بہت سے جذباتی مسلمان اس معاملے میں صدام حسین کے ہم نوا بن گئے، مگر نتیجہ کیا نکلا۔ صدام حسین اور عراق دونوں تباہ ہوگیے۔ عراق میں تیل کی دولت بڑی مقدار میں موجود تھی، مگر اس خداد اد دولت کا فائدہ نہ عراق کو ملا اور نہ عراق کے باہر دوسری مسلم دنیا کو۔
سعودی عرب کے قدیم حکمراں شاہ فیصل (وفات: ۱۹۷۵)اپنی جرأت اور بے باکی کے لیے مسلمانوں میں بہت مقبول ہوئے۔ مگر ذاتی طورپر میرا خیال ہے کہ شاہ فہد کی مفاہمت کی پالیسی اس سے بھی زیادہ عرب کے لیے نیز ساری دنیا کے مسلمانوں کے لیے غیر معمولی طورپر مفید ثابت ہوئی۔
اس معاملے میں ایک تقابلی مثال لیبیا کے حکمراں کرنل قذّافی کی ہے۔ لیبیا کے پاس تیل کی بہت بڑی دولت موجود تھی۔ مگر کرنل قذافی نے امریکا مخالف پالیسی اختیار کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لیبیا میں کوئی ترقی نہ ہوسکی، اس کی دولت نہ لیبیا کے کام آئی اور نہ باہر کی مسلم دنیا کو اس سے کوئی فائدہ پہنچا۔ لیبیا ، فارسی مقولے کے مطابق ’’نہ خود خورد نہ بہ کس دہد‘‘ کا مصداق بن گیا۔
کرنل معمّر قذافی کی مخالفِ امریکا پالیسی کی بنا پر امریکا نے لیبیا کے خلاف سخت کارروائی کی۔ چند سال یہ معاملہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ کرنل معمر قذافی نے مجبور ہوکر امریکا کے مقابلے میں ہتھیار ڈال دیے۔ گویا کرنل قذافی نے وہی حقیقت پسندانہ پالیسی بعد کو اختیارکی جو حقیقت پسندانہ پالیسی شاہ فہد بہت پہلے اختیار کرچکے تھے:
آں چہ دانا کند، کُند ناداں لیک بعد از خرابی ٔ بسیار
واپس اوپر جائیں

سوال جواب

سوال
آپ کا ایک خط ماہنامہ تذکیر کے مئی ۲۰۰۴ کے شمارے میں شائع ہوا ہے جو آپ نے عبدالسلام اکبانی صاحب کو لکھا ہے۔ اس میں آپ نے اس تقریر کا حوالہ دیا ہے جو آپ نے دہلی میں کانسٹی ٹیوشن کلب کے ایک سیمینار میں کی۔ اس میں آپ نے دو قومی نظریے کو علامہ اقبال اور جناح صاحب کے ذہن کی پیداوار قرار دیا اور یہ دلیل دی کہ ہر پیغمبر نے اپنے زمانے کے لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے ’’اے میری قوم‘‘ کہا۔یعنی حاضرین کا عقیدہ یا مذہب چاہے الگ الگ ہو، ایک بستی یا ایک جغرافیائی وحدت میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سے وہ ایک قوم تھے۔
آپ نے یہ بھی بتایا کہ آپ کے بعد بلراج مدھوک کی تقریر تھی۔ انھوں نے دو قومی نظریے کا قرآن میں موجود ہونا بتایا کہ مسلمانوں نے یہ نظریہ قرآن ہی سے لیا ہے اور یہ کہ قرآن انسانوں کے درمیان تفریق سکھاتا ہے اور یہ کہ وحید الدین صاحب قرآن کے اس چہرے پر وہائٹ واش کررہے ہیں۔ تبصرہ کرتے ہوئے آپ نے الزام لگایا کہ مدھوک صاحب نے قرآن کا کوئی حوالہ دلیل کے طور پر پیش نہیں کیا۔ مدھوک صاحب سے لوگ دلیل مانگنا چاہتے تھے مگر وہ دامن چھڑا کر غائب ہوگئے۔
اس سلسلے میں بندہ کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہے۔ قرآن تو جگہ جگہ ایمان والوں کو یاایُّہا الذین آمنوااور کفر والوں کو یا ایُّہا الکٰفرونکہہ کر پکارتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ کیا مؤمن اور فاسق برابر ہوسکتے ہیں۔ پھر قرآن خود جواب دیتا ہے ہرگز نہیں (سورہ السجدہ) ۔ وہ کہتا ہے تم جس کو پوجتے ہو اس کو ہمارا رسول نہیں پوجتا اور جس کو وہ پوجتا ہے اس کو تم نہیں پوجتے۔ ہمارے رسول اور اس کے ساتھیوں کا اپنا دینِ خالص، اورتمہارے لیے تمہارا دین (سورہ الکٰفرون)۔قرآن کہتا ہے کہ مسلمین اور مجرمین کو کیا ہم ایک سطح پر رکھیں؟تمہیں کیا ہوگیا کیسا غلط گمان ہے تمہارا (سورہ القلم)۔ قرآن میںاللہ کافروں کو حزبُ الشیطٰن کہتا ہے اور مومنوں کو حزب اللہ کہہ کر ان کو انعام کی بشارت دیتا ہے (سورہ مجادلہ) اور سورہ توبہ میں اعلان کرتا ہے کہ مشرکین نجس ہیں اور یہ جو اپنے آپ کو حرم کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے ان کو اگلے سال سے حرم کعبہ کے قریب بھی نہ آنے دینا اور جو ایمان نہیں لاتے ان سے قتال کریں اور آپ ہیں کہ کافروں اور مومنوں کو ایک ہی قوم ثابت کرنے کی سعی لاحاصل میں ہلکان ہورہے ہیں۔ (محمد صدیق، اسلام آباد)
جواب
۱۔ قرآن سے جب یہ ثابت ہوجائے کہ پچھلے نبیوں نے اپنے غیر مسلم مخاطبین سے کہا تھا کہ:’’اے میری قوم‘‘ تو یہی اسوہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ قرار پائے گا۔ کیوں کہ قرآن میں رسول اللہ کو خطاب کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ: تم بھی وہی کرو جو پچھلے انبیا نے کیا — فبہداہم اقتدہ (الأنعام ۹۰)
روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عملاً بھی یہی کیا۔ چنانچہ غزوہ اُحد کے موقع پر آپ کے مخالفین نے آپ کے اوپر پتھر مارا جو آپ کے چہرے پَر لگا، اس سے آپ کے چہرے سے خون جاری ہوگیا۔ اُس وقت آپ نے ایک پچھلے رسول کے اُسوہ پر عمل کیا۔ عبد اللہ بن مسعود اس واقعے کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: کأنی أنظر إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحکی نبیّا من الأنبیاء ضَرَبہُ قَومُہ وہو یمسح الدَّم عن وجہہ ویقول: ربّ اغفر لقومی فإنہم لا یعلمون (صحیح مسلم، بشرح النووی جلد ۱۲ ، ۱۵۰)یعنی ’’میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں۔ وہ نبیوں میں سے ایک نبی کا حال بیان کررہے ہیں جس کو اُس کی قوم نے مار کر زخمی کیا۔ وہ اپنے چہرے سے خون پونچھ رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے: اے اللہ! تو میری قوم کو معاف فرمادے کیوں کہ وہ جانتے نہیں‘‘۔
اس معاملے میں جو کچھ میں نے کہا ہے وہ نص پر مبنی ہے۔ جب کہ آپ نے جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ تمام تر قیاس اور استنباط پر مبنی ہے۔ اور یہ کھلی ہوئی بات ہے کہ قیاس اور استنباط کے ذریعے کسی نص کی تردید نہیں ہوتی۔
۲۔ اس معاملے میں آپ جیسے لوگوں کی اصل مشکل یہ ہے کہ آپ نے انسانیت کو مستقل طورپر دو گروہوں میں بانٹ دیا ہے— مسلم اور کافر۔ اس تقسیم کی بنا پر آپ لوگوں کے نزدیک ایک طرف ابدی معنوں میں ایک قوم، مسلم قوم بن گئی ہے اور دوسری طرف ابدی معنوں میںایک قوم، غیرمسلم قوم۔ یہ تقسیم سراسر غلط ہے۔ نہ مسلمان کسی نسلی گروہ کا نام ہے اور نہ کافر کسی نسلی گروہ کا نام۔ دونوں ہی کا مدار اس پر ہے کہ کس کو معرفتِ خداوندی ملی اور کس کو معرفتِ خداوندی نہیں ملی۔ اس لیے مسلسل ایسا ہوگا کہ مسلمانوں کی بعد کی نسلیں اسلام سے دور ہوتی رہیں گی اور غیر مسلموں میں سے لوگ سچائی کی دریافت کرکے مسلم بنتے رہیں گے۔ اس لیے یہ بالکل فطری بات ہے کہ قومیت کا مدار مذہب پر نہ ہو بلکہ ہوم لینڈ پرہو ۔ کیوں کہ مذہب کی تقسیم بدلتی رہتی ہے، جب کہ ہوم لینڈ کی تقسیم عموماً نہیں بدلتی۔
۳۔ آپ جیسے بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے زمانے میں ’’نسل آدم تمدنی عروج پر پہنچ گئی تھی‘‘۔ یہ ایک فرضی دعویٰ ہے، جس کی تصدیق نہ قرآن سے ہوتی ہے اور نہ تاریخ سے۔ قرآن میں پچھلی اُمتوں کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وعمروہا اکثر ممّا عمروہا (الروم ۹) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ زمانۂ رسالت کے مقابلے میں پچھلے زمانے کے لوگ زیادہ بڑے پیمانے پر تمدنی ترقی حاصل کر چکے تھے۔
جہاں تک تاریخ کی بات ہے تو اِس قسم کا دعویٰ واضح طورپر بے بنیاد دعویٰ ہے۔ رسول اللہ کا زمانہ قبل سائنس دور(pre-scientific era) سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد وہ حالات پیش آئے جن کو بعد سائنس دَور (post-scientific era) کہا جاتا ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ قبل سائنس دور میںانسانی تمدن جس درجے پر تھا، اُس کے مقابلے میں بعد سائنسی دور میں انسانی تمدن سیکڑوں گُنا زیادہ ترقی کرچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’تمدنی عروج‘‘ کا مذکورہ دعویٰ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
سوال
میں کافی عرصے سے تقریباً جب سے ہوش سنبھالا تب ہی سے حق کی تلاش میں سرگرداں ہوں۔ یقینا کسی چیز کو پانے کے لیے محنت پہلی شرط ہے۔ اس حق کی تلاش میں تمام دینی جماعتوں کو دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا مگر کہیں بھی دل پوری طرح مطمئن نہ ہوا۔ میری عادت ہے کہ میں خاموش مطالعہ کیا کرتا ہوں، بے جا بحث ومباحثہ اور طعن وتشنیع میرا مزاج نہیں۔ اس طرح میں نے کچھ وقت تبلیغی جماعت کے ساتھ لگا کر دیکھنا چاہا کہ یہ جماعت کیا چاہتی ہے، ان کے کیا عزائم ہیں، ان میں اصولوں کی کتنی پابندی ہے۔ الغرض یہاں آکر میرا مجھے مقصود حاصل ہوا۔ مطالعے کا شوق بہت ہے۔ اسی طرح ہر قسم کا لٹریچر، کتابیں وغیرہ پڑھتا ہوں۔ پھر ایک روز ایک کتابوں کی دکان پر آپ کی کتاب ’’صراط مستقیم‘‘ نظر سے گزری تو فوراً خرید لی۔ کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا تھا کہ شاید میں انھیں باتوں کی تلاش میں تھا۔ آپ کی اور کتابیں بھی مطالعہ کی ہیں۔ آپ کی تحریروں میں غزوۂ بدر کی مدد و نصرت ظاہر ہوتی نظر آتی ہے۔ اور پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے انسان اپنی فطرت سے باتیں کررہا ہو۔ محترم! میری باتوں کا ضرور جواب دیں۔ (محمد اسحاق بلوچ، پاکستان)
جواب
آپ کے ساتھ جو معاملہ پیش آیا اُس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی جتنی بھی تحریکیں ہیں وہ سب ردّ عمل کی تحریکیں ہیں۔ یعنی کسی مخصوص صورت حال کا ردّعمل۔ مثلاً ایک جماعت کے لوگ کسی مقام پر دیکھیں کہ وہاں کے لوگوں کو کلمہ بھی یاد نہیں اور اس سے متاثر ہو کر کلمہ اور نماز کی تحریک چلا دیں تو ایسی تحریک صرف اُن لوگوں کے ذہن کو ایڈریس کرے گی جو خود بھی اِسی قسم کے مسلمانوں کے بارے میں سوچتے رہے ہوں۔ ایسی کسی تحریک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو کوئی دلچسپی نظر نہیں آئے گی۔ اسی طرح کچھ لوگ دیکھیں کہ مسجدوں میں لوگ نماز تو پڑھتے ہیں مگر وہ مسائل نماز سے واقف نہیں اور پھر اس پر وہ مسائل عبادت میں اصلاح کی تحریک چلادیں تو ایسی تحریک صرف اُن لوگوں کو اپیل کرے گی جو خود بھی فقہی مسائل میں مسلمانوں کی بے شعوری کا احساس اپنے دل میں لیے ہوئے ہوں۔ اس کے بجائے وہ لوگ جو جدید الحادی افکار کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھتے ہوں اُنھیں اصلاح مسائل کی تحریک سے کوئی دل چسپی نہیں ہوگی۔ اسی طرح کچھ لوگ یہ دیکھیں کہ کسی مسلم ملک میں وہاں کے مسلم حکمراں شرعی قانون کا نفاذ نہیں کررہے ہیں اور وہ اس معاملے کو لے کر اِن مسلم حکمرانوں سے سیاسی ٹکراؤ شروع کردیں تو ایسی کوئی تحریک صرف اُن لوگوں کے لیے پُر کشش ثابت ہوگی جن کا ذہن خودبھی روزانہ اخبارات پڑھ پڑھ کر اس قسم کے سیاسی مسائل میں الجھا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو لوگ فطرت کی سطح پر جیتے ہوں، جو اپنے فطری سوالا ت کا جواب پانا چاہتے ہوں اُنھیں مذکورہ قسم کی سیاسی تحریک کی طرف کو ئی رغبت نہ ہوگی۔
الرسالہ مشن مذکورہ قسم کی تحریکوں سے بالکل مختلف ہے۔ الرسالہ مشن کسی قسم کے ردّ عمل کے طور پر نہیں اٹھا۔ وہ فطرت کے ابدی تقاضوں کی بنیاد پر اُٹھا ہے۔ اس لیے الرسالہ مشن میں صرف اُن لوگوں کو دل چسپی ہوگی جو اسلام کو اُس کی ابدیت کے تناظر میں سمجھنا چاہتے ہوں۔ جواُس اسلام کو جاننا چاہتے ہوں جو اُن کی فطرت میں چھپے ہوئے ابدی احساسات کو مطمئن کرسکے۔ اِس لیے یہی ہوگا کہ ہر تحریک میں کچھ مخصوص لوگ ہی آئیں گے۔تمام لوگ نہ الرسالہ مشن میں شامل ہوسکتے ہیں اور نہ دوسری مسلم تحریکوں میں۔
الرسالہ کی جو لوگ مخالفت کرتے ہیں، اُن کی مخالفت کا سبب عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ الرسالہ میں مسلمانوں کے مفروضہ اکابر پر تنقید کیوں ہوتی ہے۔ اس مخالفت کا سبب کسی شرعی تعلیم پر مبنی نہیں ہے۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی بڑی تعداد ’’دینِ اکابر‘‘ پَر جی رہی ہے۔ انھوں نے دین کو اپنے مفروضہ اکابر کے واسطے سے پایا ہے۔ اُن کا یہی خود ساختہ ذہن ان کی مخالفت کا اصل سبب ہے۔ مگر امت میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا ذہن اکابر اور غیر اکابر کی تقسیم سے آزاد ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دین کو اس کی ابدی تعلیمات کی روشنی میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ جو اکابر اور غیر اکابر سے اوپر اُٹھ کر یہ جاننا چاہتے ہوں کہ خدااور رسول کی سطح پر کیا چیز حق ہے اور کیا چیزباطل ہے۔ ایسے لوگوں کو صرف الرسالہ میں تسکین ملے گی۔ الرسالہ کے سوا کہیں اور اُنھیں تسکین ملنے والی نہیں۔
سوال
’’فقہی مقالات‘‘ کے نام سے مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی ایک کتاب ہے۔ اس کتاب میں ایک مقالہ ’’جہاد دفاعی یا اقدامی‘‘ کے عنوان سے ہے۔ اس مقالے کو میں نے غائر نگاہ کے ساتھ پڑھا بھی ہے۔ اس کو پڑھنے کے بعد جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ کہ اسلام میں جہاد اقدامی ہے۔ اور ایک مومن ومسلم کے لیے جہاد بمعنٰی قتال اس وقت تک فرض ہے جب تک کہ دنیا میں غیرقوموں کا غلبہ موجود ہے۔ تقی عثمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’آپ نے جہاد کے بارے میں جو کچھ تحریر فرمایا، اس کا حاصل میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلم حکومت اپنے ملک میں تبلیغ کی اجازت دے دے تو اس کے بعد اس سے جہاد کرنا جائز نہیں رہتا۔ اگر یہی آپ کا مقصد ہے تو احقر کو اس سے اتفاق نہیں۔ تبلیغ اسلام کے راستے میں رکاوٹ صرف اس کا نام نہیں کہ غیر مسلم حکومت تبلیغ پر قانونی پابندی عائد کردے، بلکہ کسی غیر مسلم حکومت کا مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ پر شوکت ہونا بذات خود دین حق کی تبلیغ کے راستے میں بہت بڑی رکاوٹ ہے‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں : ’’لہٰذا کفار کی اس شوکت کو توڑنا جہاد کے اہم ترین مقاصد میں سے ہے‘‘۔ (ص۔ ۳۰۱، فقہی مقالات، جلد سوم) (حافظ ابو الحِکم محمددانیال، بہار)
جواب
جہاد (بمعنٰی قتال) کا کوئی تعلق نہ مانعین دعوت کے خلاف لڑنے سے ہے اور نہ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ شوکتِ اسلام (بالفاظ دیگر شوکتِ مسلمین) کے قیام کی راہ میں حائل ہوں ان کے خلاف لڑائی کی جائے۔ یہ سب جہاد کی خود ساختہ تعبیریں ہیں جن کا قرآن وحدیث سے کوئی تعلق نہیں۔
جہاد اصلاً پُر امن دعوتی جدوجہد کا نام ہے۔ یہ بات قرآن کی اِس آیت سے واضح طورپر ثابت ہوتی ہے: وجاہدہم بہ جہاداً کبیراً (الفرقان: ۵۲ ) یعنی غیر مسلموں پر قرآن کے ذریعے دعوت و تبلیغ کی پُر امن جدوجہد کرو۔ جہاں تک قتال (جنگ) کا تعلق ہے، وہ اسلام میں صرف ایک مقصد کے لیے جائز ہے، اور وہ حملے کی صورت میںدفاع ہے۔ اس دفاع کی بھی دو لازمی شرطیں ہیں۔ ایک یہ کہ دفاع کا کام صرف ایک قائم شدہ حکومت کرے گی۔ کسی غیر حکومتی گروہ کو کسی بھی حال میں مسلّح جہاد کی اجازت نہیں۔
آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ شوکتِ اسلام کا لفظ بولتے ہیں، حالاں کہ اس سے مراد صرف شوکتِ مسلمین ہوتا ہے۔ جہاں تک شوکتِ اسلام کا تعلق ہے، وہ ابدی طور پر بالفعل قائم ہوچکا ہے۔ اس سلسلے میں ہمارا کام صرف یہ ہے کہ اسلام کے موافق جو دلائل ظاہر ہوچکے ہیں اُن کو ہر زمانے میں استعمال کرتے رہیں۔ اور جہاں تک شوکتِ مسلمین کا تعلق ہے، وہ سیاسی اعتبار سے آج ۵۷ مسلم ملکوں میں قائم ہے۔ مگر یہ ۵۷ مسلم ملک، بشمول پاکستان، شوکتِ اسلام کا ذریعہ نہ بن سکے۔
سوال
جناب کی ہر تحریر ہر اورجملہ سبق آموز ہے۔ صرف مسلمان ہی کے لیے نہیں بلکہ ہر قوم ، ہر ملت کے افراد کے لیے ۔ قرآن مبین کے علاوہ روئے زمین پر جتنی کتابیں سطور نگار نے پڑھیں، آخر کتاب ختم کرنے کے بعد بات کی وضاحت ہوتی ہے یا پھر خلاصہ کلام پر ۔لیکن اس کے برعکس جناب کا ہر پیراگراف نصیحت سے لبریز ہے۔ سطور نگار آںجناب سے التجا کرتا ہے کہ جناب کے سارے مقالات جو آپ نے اجتماعات میں پڑھے ہیں وہ سب بھی ایک کتابی شکل میں منظر عام پر آجائیں تو نوع انسانی کے لیے مفید ثابت ہوں (محمد ہاشم رنگونی، لندن)
جواب
آپ نے جو تجویز پیش کی ہے وہ پہلے ہی عمل میں آچکی ہے۔ راقم الحروف کے مقالات اور مضامین، انفرادی اصلاح اور اجتماعی اصلاح، دونوں کے بارے میں چھپ چکے ہیں۔ آپ ان کو حاصل کرکے ان کا مطالعہ کرسکتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں اصل چیز کتاب چھاپنا نہیں ہے، بلکہ کتاب کو پھیلانا ہے۔ آپ جیسے لوگ اپنی ذمّے داری صرف یہ سمجھتے ہیں کہ کتاب چھاپنے کی تجویز پیش کرتے ہیں مگر یہ صحت مند سوچ نہیں۔ صحت مند سوچ یہ ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ کتابیں تو چھپ چکی ہیں۔ اب ہماری یہ ذمّے داری ہے کہ ہم ان کتابوں کو لوگوںمیں پھیلائیں۔
میرا تجربہ ہے کہ لوگ دوسروں کے سامنے تجویزیں تو خوب پیش کرتے ہیں مگر یہ نہیںسوچتے کہ اس معاملے میں خود اُن کی اپنی ذمّے داری کیا ہے۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان میرے پاس آئے۔ انھوں نے کہا کہ آپ فلاں موضوع پر کتاب تیارکرکے اس کو چھاپئے۔ میں نے کہا کہ میںنے بہت سے دینی موضوعات پر کتابیں تیار کرکے چھاپی ہیں، ان کے سلسلے میں آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے تو کچھ نہیں کیا۔ میںنے کہا کہ آپ پہلے چھپی ہوئی کتابوں کو پھیلا کر اپنی ذمے داری ادا کیجئے۔ اس کے بعد نئی کتابوں کی تجویز پیش کیجئے۔ اس قسم کا ذہن کوئی صحت مند ذہن نہیں۔
سوال
عرب سے واپس آنے کے بعد میری دلی خواہش تھی کہ میں الرسالہ مشن کے لیے کام کروں۔ یہاں آکر ایک صاحب سے کاروبار میں شرکت کی تو رہی سہی پونجی بھی گنوا بیٹھا۔ ۱۹۹۰ میں شوگر (ذیابیطس) ہوگئی، ساتھ ہی بعض دیگر عوارض نے گھیر لیا، مالی پریشانیوں کے ساتھ ساتھ صحت بھی متاثر ہوئی۔ ان دنوں سخت نقاہت اور کمزوری کا شکار ہوں۔ یہ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ کسی مشن کے ساتھ دامے، درمے اور قدمے چلنے کے لیے اچھی صحت اور کسی حد تک معاشی حالت بہتر ہونا ضروری ہے، ورنہ سخنے تک ہی محدود ہونا پڑتا ہے۔
بحمدا للہ تعلیم یافتہ طبقے میںآپ کے قدردانوں کی تعداد برابر بڑھ رہی ہے۔ جن لوگوں نے گیارہ ستمبر (۹؍۱۱) کے بعد پاکستانی صدر پرویز مشرف کا قوم سے خطاب سنا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی کی مذمت، جہاد اکبر اور جہاد اصغر کی اصطلاحات وغیرہ کے بارے میں آپ نے جو لکھا یا تلقین کی، کم وبیش الفاظ کے نئے جامے کے ساتھ دہرایا گیا تھا۔ جو بھی معتدل مزاج کے ساتھ سوچے گا اور ملت کا حقیقی خیر خواہ ہوگا وہ تسلیم کرے گا کہ آپ کی سوچ اور فکر ہی صحیح اسلامی سوچ ہے۔ (ماشاء اللہ) اور اس پر عمل ہی سے مسلمانوں کے موجودہ مصائب اور پسماندگی کا خاتمہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ دیگر راستے بربادی کی طرف جاتے ہیں۔ یہاں بہت سے لوگ الرسالہ کے باقاعدہ قاری ہیں۔ (حفیظ الرحمن قریشی، لاہور)
جواب
اکثر لوگ یہی غلطی کرتے ہیں کہ وہ سروس وغیرہ کے ذریعے پیسے کماتے ہیں اور پھر کوئی ایسا شخص اُنھیں مل جاتا ہے جو اُن سے کہتا ہے کہ پیسہ تمہارا، اور محنت ہماری۔ اس طرح آؤ ہم دونوں مل کر کاروبار کریں۔مگر یہ طریقہ تقریباً ہمیشہ ناکام ثابت ہوتا ہے۔ اور پھر صاحب سرمایہ طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو کر رہ جاتے ہیں۔
اس طرح کی تجارتی شرکت کو میں عملی طور پر درست نہیں سمجھتا۔ ایسی شرکت ہمیشہ ناکامی پر ختم ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ تجارت ہر شخص نہیں کرسکتا۔ اور جو شخص عرصے تک سروس کرکے اس سے ریٹائر ہو وہ تو تجارت جیسے کام کے لیے بالکل نااہل ہوجاتا ہے۔
اب یہ ہوتا ہے کہ جب ایک سروس والا آدمی سرمایہ دیتا ہے اور تجارتی ذہن والا آدمی کام کرتا ہے تو بہت جلد غیر شعوری طورپر محنت کرنے والے آدمی کے اندر یہ ذہن بنتا ہے کہ سارا کام میںکرتاہوں اور یہ شخص صرف ایک بار کچھ پیسے لگا کر کاروبار میں مستقل حصّے دار بن گیا ہے۔ اس طرح دونوں میں دوری کا بیج پڑ جاتا ہے جو بڑھتے بڑھتے اختلاف اور علیٰحدگی کا سبب بن جاتا ہے۔ یہ علیٰحدگی ہمیشہ محنت کرنے والے کی موافقت میں ہوتی ہے اور پیسہ لگانے والے کے خلاف۔ اس بنا پر میری رائے ہے کہ اگر کسی کے پاس مذکورہ قسم کا سرمایہ ہوتووہ اپنے سرمایے کو بینک میں رکھ دے مگر وہ اس سے کاروباری شرکت کا معاملہ ہر گز نہ کرے۔
سوال
میںنے بہت ساری کتابیں، دینی رسالے، بخاری شریف، صحیح مسلم شریف، تاریخ اسلام اور معنٰی سے قرآن بھی پڑھا ہے۔لیکن میں اُن کو سمجھ نہیں پاتی تھی ۔ صرف عقیدے کے اعتبارسے میں اسلام میں شامل تھی لیکن الرسالہ پڑھنے کے بعد اسلام میرے لیے re-discover ہوا، اور میں سنجیدگی سے اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگی۔ گویا مجھے معرفت الٰہی کا راستہ مل گیا۔
آپ کی کتاب پڑھنے سے پہلے میں بن لادن اور صدام جیسے لوگوں کو Islamic Hero اور Terrorist کو اسلامی مجاہدین سمجھتی تھی۔ غیر مسلم سے نفرت کرتی تھی۔ حالانکہ میری 60 فیصدسہیلیاں غیر مسلم ہیں۔ جب میں Hostel میں تھی تب وہ لڑکیاں میرے ساتھ نماز ادا کرتیں، کبھی کبھار رمضان کے ایک دو روزے بھی رکھ لیتی تھیں۔ وہ لوگ قرآن مجھ سے مانگتیں تو میں ہاتھ بھی لگانے نہیں دیتی۔لیکن الرسالہ سے مجھے پتہ چلا کہ اسلام کیا ہے، اس کا اصل مقصد کیا ہے۔ حدیث کو سمجھنے میں مدد ملی۔Dawah & Community Work میں فرق سمجھ میں آیا۔ رسول کی سیرت سمجھ میں آئی۔ اللہ تعالیٰ کے ظاہری صفات کو دیکھنے اور اُن پر غور کرنے کا ذہن بنا۔ انشاء اللہ جب بھی میں practice شروع کروں گی تو میں اپنی سہیلیوں کو ہندی قرآن اور الرسالہ ہندی کی کاپیاں دوں گی۔ میری سہیلیاں اسلام کے بارے میں پوچھتی ہیں۔ الرسالہ کے ذریعے اُن کو جواب دینے کی capability آئی۔ صحیح میں اللہ کے فضل سے میری de-conditioning ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ کے مشن میں بے انتہا آپ کی مدد کرے اور مجھے خشوع والا ایمان نصیب کرے اور اُس پر خاتمہ کرے، آمین۔ دادا جان کی پُرانی الماری سے مجھے ۱۹۸۰ سے لے کر ۱۹۹۶ تک کا الرسالہ ملا ہے۔ آپ کی مزید کچھ کتابیں مجھے منگوانا ہے۔ (ڈاکٹر رابعہ، مہاراشٹر)
جواب
دوسری دینی کتابیں جو آپ نے پڑھیں اور ان میں آپ کو اطمینان حاصل نہیں ہوا اور ماہنامہ الرسالہ کے مطالعے سے آپ کو اطمینان حاصل ہوا۔ اس کا سبب یہ نہیں تھا کہ ماہنامہ الرسالہ میں دینی بات ہے اور دوسری کتابوںمیں دینی بات نہیںہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں ہی جگہ دینی باتیں ہیں۔ دونوں میں جو فرق ہے وہ خود دینی بات کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ وہ اسلوب کے اعتبار سے ہے۔ دوسرے علماء کی دینی کتابوں میں بھی دین ہی کی بات ہوتی ہے۔ مگر وہ قدیم روایتی انداز میں ہوتی ہے جب کہ ماہنامہ الرسالہ میں دین کی بات جدید عصری اسلوب(modern idiom) میں ہوتی ہے۔
اس فرق کی بنا پر ایسا ہے کہ دوسرے علماء کی کتابیں ان لوگوں کو خوب پسند آتی ہیں جو قدیم روایتی ذہن رکھتے ہیں۔ لیکن جو لوگ عصری افکار سے واقف ہیں اور اسلام کو جدید انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں اُن کو اپنے ذہن کی تسکین صرف ماہنامہ الرسالہ میںہوتی ہے۔ کیوں کہ ماہنامہ الرسالہ میں جو مضامین چھپتے ہیں وہ سب کے سب زمانی تقاضوں کو سامنے رکھ کر لکھے جاتے ہیں۔اُن میں بالقصد ایسا انداز اختیار کیا جاتا ہے جو آج کے ذہن کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
قدیم اسلوب کیا ہے اور جدید اسلوب کیا۔ اس فرق کو سادہ طورپر اس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ قدیم اسلوب کے مطابق، یہ بھی پورے معنوں میں ایک دلیل ہے کہ لکھنے والا یہ لکھے کہ ’’حضرت کا یہ ملفوظ ہے، علماء نے ایسا لکھا ہے، اکابر کی یہ رائے ہے‘‘ وغیرہ۔ اس کے مقابلے میں جدید اسلوب یہ ہے کہ جو بات کہی جائے وہ جدید معیار کے مطابق، دلیل کی زبان میں کہی جائے۔ گویا کہ دونوں میں جو فرق ہے وہ مغزِ کلام کے اعتبار سے نہیں بلکہ اسلوب کلام کے اعتبار سے ہے۔
سوال
قرآن کریم میں ہے کہ غیب کا علم سوائے خدا کے کسی کو نہیں معلوم۔ مگر فرعون کو معلوم تھا کہ ایک لڑکا اس کو ختم کرنے والا ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے (انیس فضل، سکندر آباد)
جواب
روایاتمیںیہ بات آئی ہے کہ فرعون نے ایک خواب دیکھا تھا یا نجومیوں نے اس کو بتایا تھا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہونے والا ہے جو فر عون کی سلطنت کو ختم کردے گا۔ مگر یہ بات درست نظر نہیں آتی۔ واضح ہو کہ قرآن یا حدیث میں ایسے کسی خواب یا نجومی کی پیشین گوئی کا حوالہ موجود نہیں ہے۔ یہ بات صرف اسرائیلی روایات (بائبل، تالمود) میں آئی ہے۔ انھیں اسرائیلی روایت سے نقل ہوکر وہ ہماری تفسیروں میں بھی آگئی ہے۔ مگر علمی طورپر یہ بنیاد اس کو ماننے کے لیے کافی نہیں۔
بظاہر جو بات صحیح ہے وہ یہ تھی کہ حضرت یوسف نے اپنے زمانے میں اپنے خاندان کو کنعان سے بلایا اور مصر آکر وہ وہاں کے زرخیز علاقوں میں آباد ہوگئے۔ ان کی نسل بڑھتی رہی یہاںتک کہ چند صدیوں میں وہ لوگ نہایت زور آور ہوگئے۔ حضرت یوسف کے تقریباً پانچ سو سال بعد مصر میں قومی انقلاب ہوا اور وہاں قبطی حکومت قائم ہوگئی۔ اس کے بادشاہ نے فرعون کا لقب اختیار کیا۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کو بنی اسرائیل کا فروغ اپنے لیے ایک سیاسی خطرہ نظر آیا۔ اس نے مختلف طریقوں سے بنی اسرائیل کے زور کو توڑنے کی کوشش کی۔ ان میں سے ایک بنی اسرائیل کی محدود نسل کشی بھی ہے۔ اگر یہ نسل کشی مطلوب نوعیت کی ہوتی تو جلد ہی بنی اسرائیل کا وجود مٹ جاتا، اور حضرت موسیٰ کے زمانے میں خروج کی نوبت ہی نہ آتی۔
سوال
میںآپ کے الرسالہ کا قریب پانچ سال سے مطالعہ کررہا ہوں۔ آپ کے positive approach کا قائل ہی نہیں بلکہ موجودہ حالات میں اس کو بہت ضروری سمجھتا ہوں۔
لیکن کیا کسی چیز کو صحیح ٹھہرانے کے لیے کسی اور کو غلط کہنا ضرور ی ہے۔ کیا کسی کی تعریف کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ دوسرے کی برائی کی جائے۔ جولائی ۲۰۰۴ کا الرسالہ میرے مطالعے میں ہے۔ کچھ سوالات ہمارے ذہن میں آئے ہیں۔ امید کرتا ہوں آپ الرسالہ ہی کے ذریعے جواب دیں گے،مشکور ہوں گا۔
۱۔کیا آپ اپنے صحیح مشن کی طرف بغیر مولانا مودودی، ڈاکٹر اقبال اور علّامہ یوسف القرضاوی کو بُرا بھلا کہے آگے نہیں بڑھ سکتے۔
۲۔ کیا دین اسلام کو صرف آپ ہی نے ٹھیک ٹھیک سمجھا ہے، باقی علماء گمراہ ہیں۔
۳۔ کسی جماعت کو کریڈٹ یا discredit دینے کا حق کس کو ہے۔ ایک شخص کو، عوام کو یا کسی ایجنسی کو۔
ہوسکتا ہے یہ سوالات آپ کی نظر میں اہمیت نہ رکھتے ہوں لیکن وہ ہمارے لیے کافی اہمیت کا باعث ہیں (سید غیاث الدین، رانچی)
جواب
یہ میرے اوپر ایک بے بنیاد الزام ہے کہ میں کسی کو برا بھلا کہتا ہوں۔ میری کسی بھی تحریر سے یہ ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ میں نے کبھی وہ کام کیا ہے جس کو برا بھلا کہنا بتایا جاتا ہے۔ میں جو کچھ کرتا ہوں وہ تجزیاتی تنقید ہوتی ہے اور دونوں میں اتنا زیادہ فرق ہے کہ ایک سر تا سر ناجائزہے اور دوسرا جائز۔ حقیقت یہ ہے کہ میری تحریروں پر اس قسم کا تبصرہ وہی شخص کرسکتا ہے جو یہ نہ جانتا ہو کہ برا بھلا کہنے اور تجزیاتی تنقید کرنے میں کیا فرق ہے۔
کسی کو برا بھلا کہنا ایک حرام فعل ہے۔ اس فعل کو وہی شخص کرسکتا ہے جو خدا کی پکڑ کا خوف نہ رکھتا ہو۔ جہاں تک علمی تنقید کا تعلق ہے، وہ زندہ لوگوں کی علامت ہے۔ چنانچہ علمی تنقید اسلام کے ہر دور میں جاری رہی ہے۔ اصحاب رسول، تابعین، تبع تابعین، فقہاء، علماء، رہنما اور مفکرین اور مصنفین، ہر گروہ میں اور ہمیشہ علمی تنقید کارواج رہا ہے۔ آپ چاہیں تو اس کی تاریخی تفصیل راقم الحروف کی کتاب دین انسانیت میں دیکھ سکتے ہیں۔ حتٰی کہ آپ نے اپنے سوال میں جن شخصیتوں کے نام لیے ہیں خود ان کی نثر ونظم میں بھی کثرت سے تنقید کی مثالیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کے بہت سے تنقیدی اشعار میں سے ایک شعر یہ ہے:
وضع میںتم ہو نصاریٰ تو تمدّن میں ہُنود یہ مسلماں ہیں جنھیںدیکھ کے شرمائیں یہود
سوال
ایک بڑی جماعت ہے جس کا نام ’’جماعت المسلمین‘‘ ہے۔ مسلمانوں کی یہ جماعت اس بات پر بہت زور دیتی ہے کہ اسلام میں فرقہ بندی نہیں بلکہ فرقہ بندی شرک ہے، لعنت ہے، کفر ہے اور عذاب ہے بلکہ فرقہ بندی حرام بھی ہے— ولاتفرقوا (القرآن)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے ۷۲ فرقے جہنم میں جائیںگے اور ایک فرقہ جنتی ہے ،اور وہ ’’الجماعۃ‘‘ ہے۔
کتاب اللہ اور فرمانِ رسول کے مطابق، ـتمام مسلمانوں کو جماعت المسلمین سے جڑنا چاہیے اور اُس کے امیر کی اطاعت کرنی چاہیے اور تمام فرقوں سے علیٰحدہ رہنا چاہیے۔
تلزم جماعۃ المسلمین و امامہم۔ فاعتزل تلک الفرق کلہا (متفق علیہ) مزید برآں جماعت المسلمین کہتی ہے کہ اسلام نے اجتماعیت کو فر ض قر ار دیا ہے۔ علیکم بالجماعۃ وإیاکم والفرقۃ (ابو داؤد)
اور امیر کی بیعت نہ کرنے والا جاہلیت (کفر) کی موت مرتا ہے۔ لہٰذا ہر مسلم کو جماعت المسلمین کے امیر کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیے۔ من مات ولیس فی عنقہ بیعۃ مات میتۃ جاہلیۃً (صحیح مسلم)
لہذا حکم رسول کے بموجب، جماعت المسلمین کے علاوہ تمام فرقوں سے دینی معاملات میں علیٰحدگی اختیار کرنی چاہیے۔ تاکہ ہر مسلم کی موت اسلام پر ہو نہ کہ فرقہ وارانہ مذاہب پر۔ مزید براں کہ جماعت المسلمین کے افراد اپنی جماعت کے علاوہ کسی مسلمان کو مسلم نہیں سمجھتی اور تمام دینی امور مثلاً صلوٰۃ، نمازِ جنازہ، شادی بیاہ اور رویت ہلال وغیرہ میںامت سے الگ رہتی ہے۔
براہِ کرم آپ کتاب وسنت کی روشنی میں وضاحت کریں کہ آیا اس قسم کا عقیدہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے یا یہ عقیدہ غُلو میں داخل ہے جس سے قرآن نے سختی سے روکا ہے (لا تغلوا فی دینکم) (عبد اللطیف، کراچی)
جواب
مجھ کو قرآن وحدیث کا جو علم ہے اس کی روشنی میں میں کہوں گا کہ یہ خود سب سے بڑا گناہ ہے کہ کچھ لوگ بطورِ خود ایک جماعت بنائیں اور اس کا نام’’الجماعت ‘‘ رکھ کر یہ کہیں کہ یہی وہ’’الجماعت‘‘ ہے جس کا ذکر حدیثِ رسول میںآیا ہے۔ جو شخص ہماری جماعت میں شامل ہو وہ حق پر ہے اور جو اس میں شامل نہ ہو وہ باطل پر ہے۔ اس قسم کا فعل جماعت بندی یا فرقہ بندی ہے، اور یہی وہ تفرق ہے جس سے قرآن اور حدیث میں منع کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں مختلف حدیثوں کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ لوگ ہمیشہ اُمت کے مجموعے سے جُڑے رہیں، وہ امت کے مجموعے کو مختلف ٹکڑوں میں تقسیم نہ کریں۔ میرے نزدیک امت سے وابستہ رہنے کی تاکید جو حدیث میں کی گئی ہے وہ دُنیوی اتحاد کے اعتبار سے ہے۔ دنیا میں مسلمان ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بحیثیت امت کمزور نہ ہوجائیں، اِس کے لیے ضروری ہے کہ لوگ اختلاف کے باوجود متحد ہو کر رہیں۔ اختلاف کی حالت میں اُس کے اوپر کوئی دینی فتویٰ نہ لگائیں بلکہ اجتماعیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے معاملے کو خدا کے اوپر ڈال دیں۔ اسی لیے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ: لا نکفّر من أہل القبلۃ۔ یعنی جو شخص قبلے کی طرف رُخ کرکے نماز ادا کرے اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی۔
جہاں تک اُس ’’الجماعت‘‘ کی بات ہے جو آخرت میں جہنم سے محفوظ رہے گی اور جنت میں جگہ پائے گی، اُس کا تعلق کسی خود ساختہ جماعت یا فرقے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق ایک ایسے گروہ ِ افراد سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’الجماعۃ‘‘ قرار پائے۔
مذکورہ حدیث میں جس ’’الجماعۃ‘‘ کا ذکر ہے اس سے مراد معروف معنوں میں کوئی تنظیم نہیںہے۔ کسی خود ساختہ جماعت کو ’’الجماعۃ‘‘ کہنا اپنے آپ کو اِس خطرے میں ڈالنا ہے کہ ایسے لوگ کبھی ’’الجماعت‘‘ (فرقۂ ناجیہ) میں شامل نہ کیے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میںالجماعت سے مراد متفرق افراد کا گروہ ہے نہ کہ کوئی منظم جماعت، جو صدر اور سکریٹری کے تحت وجود میں آتی ہے۔ اس مطلوب الجماعت کی پہچان یہ ہے کہ وہ مَن کان علی ما أنا علیہ وأصحابی(ابوداؤد) کا مصداق ہو۔ یعنی وہ پوری سنجیدگی اور دیانت داری کے ساتھ رسو ل اور اصحاب رسول کو اپنا اُسوہ بنائے۔ وہ ہر معاملے میں یہ دیکھے کہ دورِ اوّل میں جب اس قسم کی صورت حال پیدا ہوئی تو رسول اور اصحابِ رسول نے اُس موقع پر کس قسم کی روش اختیار کی۔ اورپھر رسول اور اصحاب رسول کے یہاں جو روش ملے اُس کو کسی تاویل کے بغیر اختیار کرلے۔
آپ نے اپنے خط میں جس جماعت کا ذکر کیا ہے وہ بلاشبہہ اُس برائی کا شکار ہے جس کو قرآن اور حدیث میں غُلو کہا گیا ہے۔ جب آپ کسی کو ایسی حالت میں دیکھیں جو آپ کے نزدیک بُرائی ہے تو آپ کو صرف یہ حق ہے کہ پوری خیر خواہی اور دل سوزی کے ساتھ اس کو نصیحت کریں، اور اپنی تنہائیوں میں اس کے لیے رو کر دعا کریں۔ ضروری دلائل کے ساتھ اس کو مطمئن کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اپنی بری روش کو چھوڑ دے۔ اس قسم کی پُر امن اور خیر خواہانہ نصیحت کا حق ہر شخص کو ہے۔ لیکن جب کوئی شخص نصیحت سے آگے بڑھ کر یہ کرے کہ وہ برائی کرنے والے پر حُکم لگانے لگے، وہ برائی کرنے والے کا بائیکاٹ کرے، وہ برائی کرنے والے کے خلاف تشدد کو جائز سمجھے تو یہ دوسری صورت غلو کی صورت ہوگی اور غلو بلا شبہہ اسلام میں جائز نہیں۔
سوال
ایک مقرر صاحب نے دورانِ خطاب آپ کے بارے میں کہا کہ آپ جہاد کے بارے میں کہتے ہیں کہ محدثین کرام نے کتاب الجہاد وغیرہ باب باندھے لیکن کتاب الدعوات وغیرہ جیسے باب نہیں باندھے۔ یہ ایک آپ کا تنقیدی پہلو ہے اورعلماء سوء وغیرہ کہہ رہے تھے کہ ایسے عالم کا اعتراض کوئی معمولی نہیں ۔ گویا ان کی تنقید کا انکاری پہلو انکار جہاد ہے اور رسول ﷺ پر تنقید کرنا ، آپ پر عیب لگانے کے برابر، اور آپؐ پر تنقید کرنے کے برابر ہے۔
ہم اس کی وضاحت چاہتے ہیں۔ چونکہ آپ دین اسلام کی خاطر اتنی کتابیں تالیف وتصنیف کرتے ہیں۔ پھربھی آپ پر یہ الزام حقیقی ہے یا آپ سے سہو ہوا ہے اور آپ بتقاضۂ بشریت تسلیم کرتے ہیں کہ مجھ سے فلاں غلطی ہوئی۔ (عتیق الرحمن قریشی، کرناٹکی)
جواب
میں نے جو بات لکھی ہے اس کا تعلق حدیث سے نہیں ہے بلکہ اُس کا تعلق تدوین حدیث سے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث ہیں خود اُن میں کثرت سے دعوت یا دعوت کے متعلق موضوعات کا بیان موجود ہے۔ مگر تدوین کا تعلق ان لوگوں سے ہے جن لوگوں نے احادیث کو مرتب اور مدوّن کیا۔ اس اعتبار سے یہ ایک واقعہ ہے کہ حدیث کے موجودہ مجموعوں میں اُن کے مرتبین نے کتاب الدعوۃ والتبلیغ کا باب قائم نہیں کیا۔ ان مجموعوں کے اندر ہم کثرت سے ایسی حدیثیں پاتے ہیں جن میں دعوت کا پہلو موجود ہے۔ میں نے اپنی کتابوں اور تحریروں میں ایسی احادیث کو کثرت سے نقل کیا ہے۔ مگر جہاں تک مرتبین حدیث کی بات ہے، اُنھوں نے احادیث کو مرتب کرتے ہوئے دوسرے ابواب تو قائم کیے مگر کتاب الدعوہ والتبلیغ کی فصل قائم نہیں کی۔
اس معاملے میں جو کچھ میںنے کہا ہے وہ ایک علمی بات ہے۔ اگر کسی صاحب کا خیال ہے کہ میرا قول درست نہیں تو وہ حدیث کے مجموعوں کا حوالہ دیکھ کر بتائیں کہ ان میں کتاب الدعوۃ والتبلیغ کہاں ہے۔ ایسا کہنا صرف بے بنیاد (سب وشتم) ہے۔ وہ کوئی علمی اعتراض نہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۴ ’’واردھا کا سفر‘‘ ابھی ابھی تمام ہوا۔ صفحہ ۲۰ پرآپ نے لکھا ہے کہ ’’گوتم بدھ دراصل ذو الکفل کی بدلی ہوئی صورت ہے‘‘۔ مگر بظاہر یہ نظریہ ناقابل فہم معلوم ہوتا ہے۔‘‘…
میرے نزدیک قصہ یوں ہے کہ گوتم بدھ کا تعلق کپل وستو سے تھا۔ دہلی یا دلی کی نسبت سے دہلوی، دلی والی یا دلی والا بولنا سمجھنا عام ہے اسی طرح کپل والا کو ذوالکفل کا مترادف سمجھ کر گوتم بدھ کی طرف بعض علماء و مفسرین کا ذہن گیا ہے۔ دوسرے گوتم بدھ کی سیرت اور تعلیمات پر نگاہ رکھتے ہوئے مولانا گیلانی (مؤلف سوانح قاسمی) ’’النبی الخاتم‘‘ میںیہ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’اللہ پاک نے طلوع اسلام سے پہلے ایشیا کے بہت بڑے خطے کو مشرکانہ افکار سے پاک کرنے اور توحید کا پیغام عام کرنے کے لیے گوتم بدھ سے کام لیا تاکہ اسلام کے لیے مستقبل کی زمین ہموار ہورہے اور تاریخی اعتبار سے ایسا ہی ہوا‘‘ اس لیے استنباطاً یا قیاساً انھیں (گوتم بدھ کو) اس زمرے میں شامل ہونے کا امکان ظاہر کیا جاتا ہے جس کی طرف آپ نے مذکورہ بالا صفحے پر اشارہ فرماتے ہوئے اسے ناقابل فہم قرار دیا ہے۔ براہِ مہربانی اس کی وضاحت کریں۔ (محمد رضوان احمد خاں، شیخ پورہ، بہار)
جواب
جو لوگ گوتم بدھ کو پیغمبر بتاتے ہیں ان کے پاس اس کے لیے کوئی تاریخی دلیل موجود نہیں۔ ذوالکفل سے دور کی لفظی مشابہت کوئی قابل قبول ثبوت نہیں ہوسکتی۔ مزید یہ کہ گوتم بُدھ کے یہاں صرف انسانی اخلاقیات کی تعلیم ہے۔ خدا کے وجود یا توحید کا تصور ان کے یہاں موجود نہیں ہے۔ ایسی حالت میں گوتم بُدھ کو پیغمبر بتانا محض ایک لفظی نکتہ ہے، نہ کہ کوئی دلیل۔
اس قسم کی دلیل کو اگر معتبر مانا جائے تو یہ کوئی سادہ بات نہ ہوگی۔ آپ ایسا نہیں کرسکتے کہ ایک اُصولِ استدلال کو آپ اپنے لیے استعمال کریں اور جب اس اصول استدلال کو لے کر دوسرا شخص اپنے حق میں کوئی دلیل قائم کرے تو اس کو ماننے سے انکار کردیں۔ غالباً آپ کو معلوم ہوگا کہ لفظی مشابہت کے اس طریقۂ استدلال کو لے کر لوگوں نے ہر غلط عقیدے کو قرآن میں دریافت کرلیا ہے اور مزید اس قسم کی دریافت کا سلسلہ جاری ہے۔
سوال
پوجیہ ور مولانا صاحب! آداب وتسلیمات
کتاب ’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں حضرت با یزید بُسطامی ؒ کا جیون چرتّر پڑھا۔اس میں آیا ہے: ’’کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ رات کو نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ فرمایا کہ مجھے عالَمِ مَلکوت (یعنی عالم ارواح) کے چکر لگانے سے فرصت نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ لوگوں کی اعانت کرتا رہتا ہوں۔‘‘
اس جواب سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ آپ عالم ملکوت کے چکر رات بھر کیوں لگاتے رہتے تھے؟ کِرپا کرکے اس کو سمجھانے کی مہربانی کریں۔ اس کی پرارتھنا ہے۔ کَسٹ کے لیے چھما چاہتا ہوں۔ سب کو سادَر سلام، پَرنام۔
آپ کا کرپا پاتر رام دیو
GH-4/276, Paschim Vihar
New Delhi- 110063
جواب
بھائی رام دیو جی! آداب وتسلیمات
آپ کا خط مورخہ ۱۴ جولائی ۲۰۰۵ ملا۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ کو روحانیت کے سبجیکٹ میں انٹرسٹ ہے۔ خدا اس معاملے میں آپ کی بھرپور مدد کرے۔
میں بھی روحانیت کا ایک طالب علم ہوں۔ اگر چہ میں کوئی پروفیشنل صوفی نہیں ہوں۔ مگر روحانیت میری فطرت میں بسی ہوئی ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا کہ میں روحانیت میں جیتا ہوںاور روحانیت میں صبح و شام کرتا ہوں۔
میرا تجربہ ہے کہ لوگ روحانیت کے نام پر ایک اور چیز کو لیے ہوئے ہیں۔ وہ روحانیت کے نام سے روحانیت کی صرف ایک کمتر صورت (reduced form) کو جانتے ہیں۔
تذکرۃ الاولیاء اور اس طرح کی دوسری تمام کتابیں روحانیت کو جاننے کا صرف ناقص ذریعہ ہیں۔ یہ کتابیں دو قسم کی غیر متعلق باتوں سے بھری ہوئی ہیں—فرضی تمثیلات، اور فرضی کہانیاں۔ آپ نے ایک صوفی کے ’’ملکوتی سفر‘‘ کے بارے میں جو بات لکھی ہے، وہ محض ایک بے بنیاد کہانی ہے۔ اُس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
اصل یہ ہے کہ پرنٹنگ پریس اور جدید میڈیا کے زمانے سے پہلے ہر جگہ قصہ گو (story tellers) ہوا کرتے تھے۔ یہ لوگ انوکھی کہانیاں بنا بنا کر لوگوں کو سنایا کرتے تھے۔ یہ گویا قدیم زمانے میں تفریح (entertainment) کا ایک سادہ ذریعہ تھا۔ بعد کو یہ کہانیاں لکھ لکھ کر کتابوں میں جمع ہو گئیں۔ پھر وقت گذرنے کے بعد وہ مقدس ہوگئیں۔ مسیحی روایات میں اِن کہانیوں کو ’’مقدس فریب‘‘ (pious fraud)کہا جاتا ہے۔ اور اسلام میں ان کو ’’موضوعات‘‘ کہاگیا ہے۔ ہندو کلچر میں بھی اس قسم کی بے اصل کہانیاں بھری ہوئی ہیں جن کو ’’دیومالائی کہانیاں‘‘ کہا جاتا ہے۔
ہم سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچولٹی (CPS)کے تحت صحیح روحانیت کو زندہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس روحانیت کو آپ سائنٹفک روحانیت (Scientific spirituality) کہہ سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نے بہت سی کتابیں شائع کی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر ہفتے ہمارے یہاں اسپریچول کلاس نیز دوسرے پروگرام ہوتے ہیں۔ ہماری اس تحریک کے ساتھ بہت سے لوگ جڑے ہوئے ہیں۔ خدا کے فضل سے روحانی احیاء کا یہ کام مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۷۲

۱۔ نئی دہلی میںانڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے نام سے ایک ادارہ ہے جو ایشیا کا سب سے بڑا ادارہ سمجھا جاتا ہے۔ حال میں اُس کے تحت صدر اسلامی مرکز کے تین پروگرام ہوئے۔ ایک خود انڈیا انٹرنیشنل سینٹر کے زیر انتظام اور دو گڈورڈ بکس(Goodword Books) کے زیرِ انتظام ۔ ان کی تفصیل یہ ہے:
۱۔ دی مسیج آف قرآن (The Message of Quran) یکم مئی ۲۰۰۵۔
۲۔ اسنس آف اسلام (Essence of Islam) ۵ جولائی ۲۰۰۵۔
۳۔ گاڈ اینڈ ہز کرییشنپلان(God and His Creation Plan) ۱۰ جولائی ۲۰۰۵۔
یہ تینوں پروگرام کافی کامیاب رہے۔ ہر ایک میں ہندو اور مسلمان دونوں طبقے کے تعلیم یافتہ افراد نے شرکت کی۔ تینوں پروگراموں کے موقع پر اسلامی مرکز کا بک اسٹال رکھا گیا۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں کتابیں اور پمفلٹ اور بروشر حاصل کیے۔
۲۔ مظفر نگر کے ایک گاؤں میں ۴ جون ۲۰۰۵ کو ایک واقعہ ہوا۔ اخباری رپورٹ کے مطابق، ایک مسلم خاتون عمرانہ کے خسر علی محمد نے عمرانہ کے ساتھ جنسی زیادتی کی (شوہر کا نام نور محمد ہے)۔ یہ واقعہ میڈیا میں بہت زیادہ پھیلا۔ یہ واقعہ انگریزی میگزین آؤٹ لُک کے شمارہ ۱۸ جولائی ۲۰۰۵ میں تفصیل کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ اسٹار نیوز نے اس واقعے پر ۶ جون ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ دستیاب معلومات کے مطابق، اس معاملے میں عمرانہ قصور وار نہیں ہے بلکہ اُس کا خُسر قصور وار ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہندستان میں سزا دینے کا اختیار کسی دارالافتاء یا دار القضاء کو نہیں ہے۔ اُس کا اختیار تمام تر صرف ملکی عدالت کو ہے۔
۳۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) نے عمرانہ کے واقعہ (۴ جون ۲۰۰۵) پر صدر اسلامی مرکز کا دوسرا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو لائیو ٹیلی کاسٹ ہوا۔ اس میں جو بات کہی گئی اس میں سے ایک یہ تھی کہ ہم کو اس معاملے میں میڈیا سے شکایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر اصلاح معاشرہ کی تحریکیں چلائی جائیں اور مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنایا جائے۔
۴۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ مہا میگھا کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار شاہ نے ۱۰ جون ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم تہذیب اور مسلم عورتوں کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میںعورتوں کو پورے معنوں میں مرد کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔ موجودہ زمانے میں اگر اِس اعتبار سے مسلم سماج میں کچھ کمی نظر آتی ہے تو وہ خود مسلمانوں کے اپنے عمل کی بنا پر ہے۔ اس کا تعلق اسلامی تعلیمات سے نہیں۔
۵۔ ۲۵ جون ۲۰۰۵ کو ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا تعلق مظفر نگر کے واقعہ (۴جون ۲۰۰۵) سے تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ اس معاملے میں مسلم علماء کی طرف سے جو رویّہ سامنے آیا وہ درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں عمرانہ بے قصور ہے۔ سارا قصور اس کے خسر کا ہے۔ مگر علماء نے برعکس فتوے دے کر خواہ مخواہ اسلام کو بدنام کیا ہے۔ یہ فتویٰ تمام مسلم علماء کا نہیں ہے۔ بلکہ صرف دیوبندکے علماء کا فتویٰ ہے۔ جہاں تک سلفی علماء کا تعلق ہے، وہ اس فتوے سے اتفاق نہیں کرتے۔
۶۔ بی بی سی لندن کے کرسپانڈنٹ مسٹر شکیل اختر نے ۲۹ جون ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں دو آل انڈیا مسلم تنظیمیں بنی ہیں، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔ یہ دونوں تنظیمیں حالات کے ری ایکشن کے تحت ہی بنیں۔ آل انڈیامسلم مجلس مشاورت فرقہ وارانہ فساد کے ردّ عمل کے تحت بنی اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ شاہ بانو کے کیس پرسپریم کورٹ کے فیصلے کے ردّ عمل میں بنا۔ یہ دونوں تنظیمیں ’’میری تعمیر میںمضمر ہے ایک صورت خرابی کی‘‘ کا مصداق تھیں۔ اس لیے دونوں تنظیمیں بے نتیجہ رہیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ اس دنیا میں منفی عمل سے کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا۔
۷۔ فاؤنڈیشن فار یونٹی آف ریلیجنز اینڈ انلائٹنڈ سٹیزنشپ (FUREC) کے زیر اہتمام نئی دہلی میں ایک دھرم سمّیلن ہوا۔ اس کی کارروائی اَدھیاتم سادھنا کیندر (مہرولی) میں ہوئی۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز اس میں شریک ہوئے اور روحانیت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ انھوں نے کہا کہ ہماری آج کی دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں پھول کے ساتھ کانٹے ہیں۔ یہاں ہر قسم کے مسائل ہیں جن کو قرآن میں کبد کہا گیا ہے۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ ان مسائل کے خلاف چیخ پکار نہ کرے۔ بلکہ وہ ان مسائل کے درمیان مثبت زندگی گزارے۔ اسی کا نام روحانیت ہے۔ یہ سیمینار ۳۰ جون ۲۰۰۵ کو مہرولی میں ہوا۔ اس کے کوآرڈینیٹر بریگیڈئر پی کے لنگر تھے۔
۸۔ گاڈس گریس فاؤنڈیشن (God's Grace Foundation) دہلی کا ایک تعمیری ادارہ ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سید ظفر محمود ہیں۔ اس ادارے کے تحت، یکم جولائی ۲۰۰۵ کو ایک انٹرنیشنل سیمینار ہوا۔ اس میں امریکا کے آٹھ پروفیسر شریک ہوئے۔ انڈیا سے ہر مذہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز بھی اس میں شریک ہوئے۔ اِس سیمینار کا موضوع یہ تھا:
Interfaith Bridge-building Session
صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں مذکورہ موضوع پر خطاب کیا۔ اس سیمنار کی کارروائی سردار پٹیل بھون (نئی دہلی) میں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز کے ساتھ اسپریچول کلاس کے گیارہ اَفراد شریک ہوئے۔ اِن اَفراد نے سیمینار کے شُرکاء سے ملاقاتیں کیں اور ان کو اسلامی لٹریچر دیا۔ لوگوں نے بہت شوق سے اسلامی لٹریچر کو لیااور کہا کہ وہ ضرور اس کا مطالعہ کریں گے۔
۹۔ یو۔ این ۔ آئی (نئی دہلی) کی نمائندہ ناز اصغر نے ٹیلیفون پر ۲؍ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں میں پانچ بڑے فقہی اسکول ہیں—مالکی، حنبلی، شافعی، حنفی اور جعفری۔ ہر مکتب فکر کے علماء اپنے مسلک پر فتوے دیتے رہتے ہیں۔ ان میں سے کسی کے فتوے کو شرعی فتویٰ نہیں کہا جاسکتا ۔ ہر فتویٰ اپنے فقہی اسکول کی طرف منسوب رہے گا اور لوگوں کو یہ حق باقی رہے گا کہ وہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کو جانچیں اور اگر وہ پائیں کہ یہ فتویٰ قرآن و حدیث سے مطابق نہیں ہے تو وہ اس کو ردّ کردیں۔
۱۰۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار وجے ٹائمس (Vijay Times) کی نمائندہ دیکشا چوپڑا نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا تعلق زیادہ تر انڈیا کے مسلمانوں کے مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ انڈیا کے مسلمان مختلف قسم کے مسائل سے دوچار ہیں مگر ان مسائل کے بارے میں یہ سمجھنا غلط ہے کہ ان کا سبب مذہب اسلام ہے۔ ان مسائل کے اسباب کچھ اور ہیں۔ مثلاً عمرانہ (۴ جون ۲۰۰۵) کے واقعے کا سبب جہالت ہے۔ جس کا اظہار اس سے ہوتا ہے کہ عمرانہ کا شوہر نور محمد ایک رکشہ چلانے والا ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں کے درمیان اس قسم کے مسائل نہیں ہیں۔ اسی طرح کٹر پن بھی کم پڑھے لکھے مسلمانوں کا ظاہرہ ہے۔ تعلیم یافتہ مسلمانوں میں یہ چیز موجود نہیں ہے۔ ایک اور سوال کے جوا ب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل کامن سول کوڈ نہیں۔ کامن سول کوڈ جیسا ایک ایکٹ (سول میرج ایکٹ) آج بھی موجود ہے مگر ہندستانی سماج پر اس کا اثر ایک فی صد بھی نہیں۔ ان مسائل کو صحیح طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسلام اور مسلمانوں میں فرق کرتے ہوئے ان کو دیکھا جائے۔
۱۱۔ روزنامہ دَینک جاگرن (نئی دہلی) کے نمائندہ ارشد فریدی نے ۲ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مظفر نگر کے واقعہ (۴ جون) سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اس معاملے میں علماء اور جماعتوں کا فتویٰ غلط ہے۔ اسلام کے مطابق، سزا برا فعل کرنے والے کو ملے گی نہ کہ بالجبر برے فعل کا شکار ہونے والے کو۔ میرے نزدیک اس معاملے میں عمرانہ بے قصور ہے۔ اس معاملے کی تفصیلی روداد انگریزی میگزین آؤٹ لُک (Out Look) کے شمارہ ۱۸ جولائی ۲۰۰۵ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
۱۲۔ اٹلی میں ایک تنظیم ایسوشیزون کلچریل ارمونیا(Associazione Culturale Armonia) کے نام سے ہے۔ اُس کا صدر دفتر نوالے (Noale) میں قائم ہے۔ اس تنظیم کا ایک وفد اُس کے صدر ایٹمبری ماریو (Atombri Mario) کی قیادت میں ۳ جولائی ۲۰۰۵ کو نئی دہلی آیا اور صدر اسلامی مرکز سے ملاقات کی۔ اُنھوں نے تقریباً دو گھنٹے تک اسلام اور روحانیت کے موضوع پر گفتگو کی۔ اسلام کے روحانی تصور سے وہ بہت متاثر ہوئے۔ اُنھیں اسلامی مرکز کی انگریزی مطبوعات دی گئیں۔ اس کے علاوہ ان کی فرمائش پر اُن کو یہ دعا لکھ کر دی گئی: اَللہم أنت السلام ومنک السلام وإلیک یرجع السلام، اللہم حیینا بالسلام وادخلنا دارک دار السلام۔ تبارکت ربنا وتعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔ اس دعا کو اُنھیں رومن رسم الخط میں لکھ کر دیا۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ دعا ہم کو بہت پسند ہے اور ہم اس کو اپنے کارکنوں کی مجلس میں باقاعدہ وِرد کے انداز میں پڑھیں گے۔
۱۳۔ ۵ جولائی ۲۰۰۵ کو اجودھیا میں قدیم بابری مسجد کے علاقے میں خود کُش حملہ ہوا۔ اس سلسلے میں نئی دہلی کے آج تک ٹی وی اور انڈیا ٹی وی نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ دونوں میں یہ کہاگیا کہ اس قسم کا واقعہ ہر حال میں قابل مذمت ہے۔ اسلام میں تشدد جائز نہیں۔ صرف حکومت یا عدالت تحقیق وتفتیش کے بعد بقدر ضرورت تشدد کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ عوام کو کسی حال میں تشدد کی اجازت نہیں۔
۱۴۔ ہندی روزنامہ مہامیگھا ¼egkes?kk½ کے نئی دہلی کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار شاہ نے ۱۳ جولائی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ’’آتنک واد اور اسلام‘‘ سے تھا۔ جواب میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ آتنک واد کا فعل جو آج آپ دیکھ رہے ہیں وہ مسلمانوں کا فعل ہے وہ اسلام کی تعلیمات کا نتیجہ نہیں۔
۱۵۔ اسلامی مرکز کے تحت اسپریچول کلاس کا ہفتے وار سلسلہ جنوری ۲۰۰۱ سے جاری ہے۔ اب تک یہ کلاس سی۔۲۹ نظام الدین ویسٹ میں ہورہی تھی۔ ۱۷ جولائی ۲۰۰۵ سے اس کا سلسلہ سی ۔۱، نظام الدین ویسٹ مارکٹ میں شروع کیا گیا ہے۔ اس کلاس میں ہندو اور مسلمان دونوں فرقوں کے تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوتے ہیں۔ چوں کہ شرکاء کی تعداد کافی بڑھ گئی تھی اس لیے جگہ بدلنے کا فیصلہ کیا گیا۔
۱۶۔ ایک نئی کتاب زیر ترتیب ہے۔ یہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب کے حالات پر مشتمل ہوگی۔
۱۷۔ مالدیپ میں عرصے سے ماہنامہ الرسالہ جارہا ہے۔ نیز الرسالہ مطبوعات بھی وہاں بڑی تعداد میں پہنچی ہیں۔ اب مالدیپ کے کچھ لوگ الرسالہ مطبوعات کا ترجمہ وہاں کی مقامی زبان میں شائع کررہے ہیں۔ اب تک اس قسم کے کئی ترجمے شائع ہوچکے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں مالدیپ سے ایک خط موصول ہوا ہے۔ اس کو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
واپس اوپر جائیں