Pages

Wednesday 2 July 2008

Al Risala | July 2008 (الرسالہ،جولائی)

2

- قربِ قیامت کا مسئلہ

8

- امتِ وسَط

9

- شر میں خیر

10

- ہیمرنگ کی زبان

11

- تحقیق کے بغیر

12

- حِلفُ الفُضول

13

- ہر گھر دعوتی مرکز

14

- ٹیلی فون کا دور

15

- فخر، تواضع

16

- ابدی انجام

17

- سر، یہ آپ کے لیے ہے

18

- دعوت الی اللہ کا کام

19

- طوفانِ قیامت

23

- دعوت الی اللہ کے تین دَور

36

- کامیاب زندگی ، ناکام خاتمہ

38

- گنہ گار شخصیت، کم زور شخصیت

39

- کم پر راضی ہونا

40

- خود ساختہ منطق

41

- محبت اور نفرت

42

- جنون درکار ہے

43

- سوال وجواب

45

- خبر نامہ اسلامی مرکز— 186


قربِ قیامت کا مسئلہ

ماہ نامہ الرسالہ کے پچھلے شماروں میں کچھ مضامین شائع ہوئے ہیں۔ یہ مضامین گلوبل وارمنگ (global warming) کے بارے میں ہیں۔ گلوبل وارمنگ ایک نیا ظاہرہ (phenomenon) ہے۔ سائنسی مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعے یہ الارمنگ صورتِ حال سامنے آئی ہے کہ زمین کے درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ اِس کی وجہ سے زمین پر پہلی بار ایک خطرناک صورتِ حال پیش آرہی ہے، ایک ایسی صورتِ حال جو انسان جیسی مخلوق کے لیے زمین کو ناقابلِ رہائش (inhabitable) بنادے۔ سائنس دانوں کا متفقہ طور پر یہ کہنا ہے کہ یہ صورتِ حال ناقابلِ تبدیلی (irreversible) ہے۔یہاںتک کہ سائنسی حلقوں میں اِس طرح کے الفاظ بولے جارہے ہیں کہ — اب قیامت زیادہ دور نہیں:
Doomsday is not far
یہ بات جو سائنس کے حوالے سے الرسالہ میں آئی ہے، وہ قرآن اور حدیث کی پیشین گوئی کے عین مطابق ہے۔ پچھلے مضامین میں ہم، قرآن اور حدیث سے اِس قسم کے حوالے نقل کرچکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بات قرآن اور حدیث میںچودہ سو سال پہلے کہی گئی تھی، وہ اب خود علمِ انسانی کے ذریعے ایک معلوم حقیقت بن گئی ہے۔ یہ بات بے حد سنجیدہ ہے۔ اِس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دل دہل اٹھیں۔ وہ اپنی توجہات کو دوسری چیزوں سے ہٹا کر آخرت کی طرف لگادیں۔مگر عجیب بات ہے کہ کچھ افراد نے الرسالہ میں چھپنے والی اِن باتوں کا منفی اثر لیا۔ انھوںنے استہزا کے انداز میں کہا کہ الرسالہ والے اب بے عقلی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ ابھی کیسے قیامت آسکتی ہے۔ ابھی تو دجّال ظاہر نہیں ہوا۔ ابھی تو مسیح آسمان سے نہیں اترے، ابھی تو اللہ، اللہ کہنے والوں کا دنیا سے خاتمہ نہیں ہوا، وغیرہ۔
اس قسم کی باتیں سر تاسر غیر متعلق باتیں ہیں۔ لوگ جن چیزوں کا انتظار کررہے ہیں، وہ کسی ہمالیائی اعلان کے ساتھ نہیں آئیں گی۔ وہ خدائی قانون کے مطابق، التباس (شبہہ) کے پردے میں آئیں گی۔ حتی کہ عین ممکن ہے کہ وہ چیزیں جن کا لوگ انتظار کررہے ہیں، وہ عملاًپیش آچکی ہوں۔ عین ممکن ہے کہ قُربِ قیامت سے پہلے جو کچھ ہونے والا تھا، وہ ہوچکا ہو، مگر چوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، ہمیشہ سچائی کے ساتھ ایک شبہہ کا عنصر(element of doubt) موجود رہتا ہے (الأنعام: 9 ) اِس لیے ظاہر ہونے کے باوجود لوگ اِن علامتی واقعات کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔ عین ممکن ہے کہ لوگ اِسی طرح خود ساختہ انتظار کے خول میں پڑے رہیں اور صورِ اسرافیل کی چنگھاڑ اچانک بلند ہو کر اُن کو یہ خبر دے کہ اب ان کے لیے انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ اب ان کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ صرف حسرت ہے، اور ابدی حسرت۔
سائنس دانوں کے یہ بیانات بلاشبہہ قطعی مشاہدات اور قطعی حسابات (calculations) پر مبنی ہیں۔ اِن مشاہدات پر ان کی واقعیت کے اعتبار سے شک کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اِن بیانات کو اِسی طرح مستند (authentic) سمجھا جاتا ہے جس طرح زمین اور سورج اور چاند کے بارے میں ان کے حسابات کو مستند سمجھا جاتا ہے۔ ایسی حالت میں اس کے مقابلے میں صحیح ردِ عمل یہ تھا کہ لوگ اپنے روایتی ماحول سے باہر آکر یہ سوچیں کہ ایسا تو نہیں کہ قرآن اور حدیث میںجس قیامت کی پیشین گوئی کی گئی تھی، واقعتا وہ قریب آگئی ہو۔ ایسا تو نہیں کہ قیامت سے پہلے جن علامتوں کو ظاہر ہونا تھا، واقعتا وہ ظاہر ہوچکی ہوں، اور ہم اپنے خود ساختہ تصورات کی بنا پر اِس کو سمجھنے میں ناکام ہورہے ہوں۔
لوگوں کا حال یہ ہے کہ دوسرے تمام معاملات میں سائنس کے مشاہدات کو وہ درست مانتے ہیں۔ مثلاً چاند گرہن (Lunar eclipse) اور سورج گرہن (Solar eclipse) کے بارے میں سائنس دانوں کی خبر پر کوئی شک نہیں کرتا۔ اِسی طرح چاہیے کہ لوگ قربِ قیامت کے بارے میں سائنس دانوں کے مشاہدات پر بطور واقعہ شک نہ کریں۔ ان کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ سائنس دانوں کے مشاہدات پر شک کرنے کے بجائے خود اپنے روایتی تصورات پر نظر ثانی کریں، وہ سوچیں کہ جن علاماتِ قیامت کے بارے میں وہ بطور خودکراماتی اور معجزاتی نوعیت کے تصورات قائم کئے ہوئے تھے، ہوسکتا ہے کہ اُن کے یہ مفروضہ تصورات بے اصل ہوں، اور ظاہر ہونے والی علامتیں عام واقعات کی طرح اسبابِ عادی کے نقشے میں ظاہر ہوچکی ہوں، اور ہم اپنے خود ساختہ روایتی تصور کی بناپر ان کو پہچاننے سے قاصر ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ وقت خود اپنے ذہن پر نظر ثانی کرنے کا ہے، نہ کہ سائنس کے مشاہدات پر شک کرکے ان کو نظر انداز کرنے کا۔ اِن سائنسی مشاہدات پر بطور واقعہ شک نہیں کیا جاسکتا۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اِن سائنسی مشاہدات کی روشنی میں قرآن اور حدیث کی پیشین گوئیوں پر ازسرِ نو غور کریں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ بائبل کی پیشین گوئیوں کے مطابق، یہود، پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے منتظر تھے، مگر جب وہ آنے والا آیا تو وہ اس کے منکر بن گئے (البقرۃ: 89 )۔ اس کا سبب یہ تھا کہ انھوں نے بطور خود آنے والے کی ایک مفروضہ تصویر اپنے ذہن میں بنارکھی تھی۔ چوں کہ آنے والاان کی مفروضہ ذہنی تصویر پر بظاہر پورا نہیں اترتا تھا، اس لئے انھوں نے انتظار کے باوجود اس کا انکار کردیا ۔ لوگوں کو ڈرنا چاہیے کہ وہ دوبارہ یہود والی غلطی نہ کریں۔ اور اپنے خود ساختہ ذہن پر نظر ثانی کرکے معاملے پر زیادہ سنجیدگی کے ساتھ غور کریں۔ کیوں کہ اس طرح کے معاملے میں غلطی ہمیشہ ناقابلِ تلافی ہوتی ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ قیامت سے پہلے صرف ایک ہی واقعہ اپنی برہنہ صورت میں سامنے آئے گا، اور وہ فرشتہ اسرافیل کا صور پھونکنا ہے۔ اِس ایک واقعہ کے سوا تمام دوسرے علامتی واقعات، التباس کے پردہ میں ظاہر ہوں گے۔ ان کو پہچاننے کا معاملہ ایک آزمائش کا معاملہ ہوگا، نہ کہ صورِ اسرافیل کی طرح برہنہ اظہار کا معاملہ۔موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ امتحان کی دنیا میں حقیقتیں اپنی برہنہ صورت میں سامنے نہیںآتیں۔ حقیقتوں کا عیاناً سامنے آنا صرف اُس وقت ہوگا، جب کہ کشفِ ساق (القلم: 42 ) ہوجائے۔ یہی خدا کا تخلیقی منصوبہ ہے۔ اگر خدا کا منصوبہ یہ ہوتا کہ حقیقت کو عیاناً دکھادیا جائے، تاکہ اُس کو مان کر لوگ جنت میں داخل کیے جائیں، اگر ایسا ہوتا تو خدا، انسان جیسی مخلوق کو پیدا کرکے اِس دنیا میں آباد نہ کرتا۔ ایسی حالت میں وہ صرف فرشتوں کو پیدا کرتا، تاکہ وہ حقیقتوں کو عیاناً دیکھیں اور پھر اُن کی شہادت دے کر ابدی جنتوں میں داخل کردیے جائیں۔
حالیہ سائنسی تحقیقات کے حوالے سے الرسالہ میں جو مضامین شائع ہوئے ہیں، ان کے خلاف منفی ردِّ عمل بلاشبہہ انتہائی حد تک غیر علمی بھی ہے اور غیر مومنانہ بھی۔ اِس کو واضح کرنے کے لیے ہم چند حوالے یہاں نقل کرتے ہیں:
1 - قرآن کی سورہ نمبر 42 میں دو آیتیں آئی ہیں۔ اِن آیتوں کا ترجمہ یہ ہے:
’’اللہ ہی ہے جس نے حق کے ساتھ کتاب اتاری اور ترازو بھی۔ اور تم کو کیا خبر، شاید قیامت قریب ہو۔ جو لوگ قیامت کا یقین نہیں رکھتے، وہ اس کی جلدی کررہے ہیں، اور جو لوگ یقین رکھنے والے ہیں، وہ اُس سے ڈرتے ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ وہ برحق ہے۔ یاد رکھو کہ جو لوگ قیامت کے بارے میں بحثیں نکال رہے ہیں، وہ گم راہی میں بہت دور نکل گئے ہیں‘‘ (الشوریٰ: 17-18 )۔
اِس آیت میں بتایا گیا تھا کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ یہ آیت چودہ سوسال پہلے نازل ہوئی، مگر لمبی مدت گزرنے کے باوجود ابھی تک قیامت نہیں آئی۔ اِس دوران کسی بھی عالم یا مفسر نے اِس آیت میں دی جانے والی خبر پر شک کا اظہار نہیں کیا، بلکہ وہ اس سے خوف کی غذا لیتے رہے، اور سچے مومن کی یہی پہچان ہے۔ اِس کے برعکس، جو لوگ قریب اور بعید کے نکتے نکال کر اس پر بحثیں کریں، ان کو قرآن میںواضح طورپر گم راہ قرار دیاگیا ہے۔
2 - قرآن کی سورہ نمبر 21 میں ایک آیت وارد ہوئی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’لوگوں کے لیے ان کا حساب نزدیک آپہنچا ۔ اور وہ غفلت میںپڑے ہوئے اعراض برت رہے ہیں‘‘ (الأنبیاء:1 )۔
اِس آیت کی تفسیر کے تحت، ایک صحابی کا واقعہ نقل کیا گیا ہے، جو اِس طرح ہے— رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میںسے ایک شخص اپنے گھر کی دیوار بنا رہا تھا۔ اُس دن جس دن کہ یہ سورہ نازل ہوئی، ایک اور صحابی کا وہاں سے گزر ہوا۔ جو شخص دیوار بنا رہا تھا، اُس نے کہا: آج قرآن میں کیا اترا۔ دوسرے صحابی نے جواب دیا کہ: اقترب للناس حسابہم وہم فی غفلۃ معرضون نازل ہوئی۔ یہ سن کر اُس صحابی نے تعمیر کا کام روک دیا، اور کہا کہ خدا کی قسم، اب میں کبھی اِس دیوار کی تعمیر نہیں کروں گا، جب کہ حساب کا وقت قریب آگیا (واللہ لا بنیتُ أبداً وقد اقترب الحساب) القرطبی، جلد 11، صفحہ 266 )
صحابی ٔ رسول کا ذہن اگر وہ ہوتا، جو اِس معاملے میں آج کل کے لوگوں کا ذہن ہے، تو وہ اطمینان کے ساتھ اپنا گھر بناتے رہتے، اور یہ کہتے کہ ابھی تو قیامت بہت دور ہے۔ ابھی تو اس کی فلاں فلاں علامتیں ظاہر نہیں ہوئیں، پھر اِس سے پہلے قیامت کیسے آجائے گی۔
3 - صحابی ٔ رسول انس بن مالک کہتے ہیں کہ :إن کانت الرّیح، فنبادر المسجد مخافۃ القیامۃ (سنن أبی داؤد، کتاب الصلاۃ، باب: الصلاۃ عند الظلمۃ) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اگر کبھی تیز ہوا بھی چلتی، تو ہم (اصحابِ رسول) دوڑ کر مسجد میں چلے جاتے تھے، اِس ڈر سے کہ کہیں قیامت نہ آگئی ہو۔
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ رسول کا مزاج کیا تھا۔ اُن کا مزاج، قرآن کی اِس آیت سے بنا تھا: إنہم یرونہ بعیداً، ونراہ قریباً (المعارج: 6-7 ) یعنی لوگ قیامت کو دور سمجھتے ہیں، اور خدا اُس کو قریب دیکھ رہا ہے۔ اِسی طرح ان کی مزاج سازی اِس حدیث رسول سے ہوئی تھی، ألا، کلّ ما ہو اٰتٍ قریب (ابن ماجۃ، مقدمہ) یعنی آگاہ رہو کہ ہر وہ چیز جو آنے والی ہے، وہ بالکل قریب ہے۔
اصحابِ رسول کا مزاج اگر وہ ہوتا جو آج کل کے لوگوں کا مزاج ہے، تو ’’آندھی‘‘ کو دیکھ کر وہ یہ کہتے کہ ابھی قیامت کہاں۔ ابھی تو وہ تمام نشانیاں ظاہر نہیں ہوئیں، جو قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی ہیں۔ مثلاً دجال کا ظاہر ہونا، مہدی کا پیداہونا، اور مسیح کا آسمان سے اترنا، وغیرہ۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ صحابہ، اسلام میں ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس لیے یقین کے ساتھ کہاجاسکتا ہے کہ موجودہ زمانے کے لوگوں کا ذہن صحیح ذہن نہیں، کیوں کہ وہ صحابہ کے ذہن کے خلاف ہے۔
مصر کے مشہور عالم محمد بن احمد ابو زہرہ (وفات: 1974 ) نے نزولِ مسیح کی روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ : أنَّہا أحادیث اٰحاد، ولیست متواترۃ، لم تشتہر قطّ إلاّ بعد القرون الثلاثۃ الأولیٰ (مجلّۃ: ’’لواء الإسلام‘‘ اپریل 1963 ، صفحہ 261؛ بحوالہ: ’’المسیحیّۃ‘‘ (1998)، صفحہ: 66 ، الدکتور أحمد شَلَبِی) یعنی یہ حدیثیں روایاتِ آحاد پر مبنی ہیں، وہ متواتر روایتیں نہیں۔ وہ صرف ابتدائی تین صدیوں کے بعد لوگوں کے درمیان پھیلیں۔
یہ بات بے حد اہم ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں لوگوں کو ان روایتوں کی خبر ہی نہ تھی۔ اگر اُس زمانے کے لوگ اِن روایتوں سے باخبر ہوتے، تو ضرور ایسا ہوتا کہ آج کے لوگ اِس معاملے میں جس طرح کی بحثیں نکال رہے ہیں، یہ بحثیں دورِ اوّل ہی میں ظاہر ہوچکی ہوتیں۔ جیسا کہ معلوم ہے، صحابہ اور تابعین کثرت سے لوگوں کو قربِ قیامت سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ اگر اُس زمانے کے لوگ نزولِ مسیح جیسی روایتوں سے باخبر ہوتے، تو صحابہ اور تابعین کے زمانے کے لوگ ضرور یہ کہتے کہ آپ جس قیامت کے قریب ہونے کی خبر دے رہے ہیں، وہ تو ابھی بہت دور ہے۔ کیوں کہ اس کی علامتیں ابھی تک ظاہر نہیں ہوئیں۔
حقیقت یہ ہے کہ قربِ قیامت کی جو علامتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں، وہ بجائے خود درست ہیں۔ لیکن بعد کے زمانے میں قصّاص (story tellers) نے اُس میں پُر عجوبہ باتوں کے اضافے کردیے۔ یہ اضافے چوں کہ عربی زبان میںتھے، اِس لیے لوگ اُن کو اصل روایت کا حصہ سمجھنے لگے۔ اُس زمانے میں کتابت کا رواج بہت کم تھا۔ زیادہ تر باتیں زبانی طورپر دہرائی جاتی تھیں، اِس لیے یہ اضافے نہایت آسانی کے ساتھ روایات کا جز بن گئے۔
اِس معاملے میں آخری بات یہ ہے کہ اِس قسم کی پیشین گوئی ہمیشہ تمثیل کی زبان میںہوتی ہے، وہ تصریحات اور تعینات کی زبان میںنہیں ہوتی۔ اور جو چیز تمثیل کی زبان میں ہو، اس کو محض لفظی طور پر لے کر اس کا مطلب سمجھا نہیں جاسکتا، بلکہ ضروری ہوتا ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کیا جائے، تاکہ سطور (lines) کے ماورا جو بین السطور (between the lines) ہے، اس کو سمجھا جاسکے۔ یہی معاملہ علامات قیامت کی روایات کا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دجال اور مسیح کی پیشین گوئیاں تمثیل کی زبان میں ہیں۔ جب تک اِس حقیقت کو ذہن میں نہ رکھا جائے، اِن روایتوں کو سمجھنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

امتِ وسَط

قرآن کی سورہ نمبر 2 میں ایک آیت ہے۔ اُس کے الفاظ یہ ہیں: وکذٰلک جعلناکم أمّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس، ویکون الرّسول علیکم شہیداً (البقرۃ:143 ) یعنی اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنادیا، تاکہ تم گواہ بنو لوگوں کے اوپر، اور رسول گواہ بنے تمھارے اوپر۔
وسَط کے لفظی معنٰی ہیں— بیچ، دو طرفوں کے درمیان(بین طرفی الشییٔ)۔ امتِ وسط کا مطلب ہے— بیچ کی امت(middle community) ۔ آیت کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس میں مسلمانوں کی داعیانہ حیثیت کا ذکر ہے۔ خدا کا دین اُن کو خدا کے رسول کے ذریعے ملا ہے۔ اب ان کا فرض ہے کہ وہ اِس دین کو ہر دور اور ہر نسل میں پہنچاتے رہیں۔ اِس آیت میں شہید (گواہ) سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں داعی کہاجاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر نبی کی امت کی یہ ذمے داری تھی کہ جس سچائی کو اُس نے خداکے پیغمبر کے ذریعے پایا ہے، اُس سچائی کو وہ دوسرے انسانوں تک پہنچائے۔ قدیم اہلِ کتاب کی بھی یہی ذمے داری تھی، جس کو قرآن میں تبیین (آلِ عمران: 187 ) کہاگیا ہے۔
یہ تبیین، یا دعوت، یا شہادت نہ کوئی پُراسرار (mysterious) چیز ہے، اور نہ وہ کوئی فضیلت کی چیز ہے۔ یہ صرف ایک دعوتی ذمے داری ہے، اور بلا شبہہ دعوتی ذمے داری سے زیادہ بڑی ذمے داری اور کوئی نہیں۔ امتِ محمدی سے یہ دعوتی ذمے داری مزید اضافے کے ساتھ مطلوب ہے۔ کیوں کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت آخری پیغمبر کی تھی۔ آپ کے بعد اب کوئی، اور پیغمبر آنے والا نہیں۔ اِس لیے امتِ محمدی کی ہر نسل کو قیامت تک ہر دور میں اپنے معاصرین کے درمیان اِس دعوتی ذمّے داری کو ادا کرنا ہے۔ یہ ہر مسلم فرد کی ذمے داری ہے جس کو اُسے ترجیح (priority) کی بنیاد پر انجام دینا ہے۔ اِس دعوتی کام کا معیار یہ ہے کہ وہ قولِ بلیغ (النساء: 63 ) کی زبان میں ادا کی جائے، یعنی ایسا قول جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔
واپس اوپر جائیں

شر میں خیر

قرآن کی سورہ نمبر 24 کی ایک آیت اِن الفاظ میںآئی ہے: لا تحسبوہ شراًّ لکم بل ہو خیرٌ لکم (النّور:11 ) یعنی تم اس کو اپنے حق میںبُرا نہ سمجھو، بلکہ وہ تمھارے حق میں بہتر ہے:
Do not regard it a bad thing for you; may be it is good for you.
یہ آیت قرآن میں ایک مخصوص سیاق(particular reference) میںآئی ہے، لیکن اس کا ایک عمومی مفہوم (general application) بھی ہے، اِس عمومی مفہوم کے اعتبار سے اِس آیت میںہر انسان کے لیے سبق ہے۔ ہر انسان غور کرکے اُس سے اپنی زندگی کے لیے سبق لے سکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فطرت کا ایک عام قانون بتایا گیاہے۔ وہ قانون یہ ہے کہ اِس دنیا میں کسی کے ساتھ کوئی منفی واقعہ پیش آئے، تو وہ اس کے لیے کُلّی طورپر بُرا نہیں ہوتا۔ یہ دراصل آدمی کا اپنا رویہ ہے جو کسی واقعے کو اُس کے لیے برا واقعہ بنا دیتا ہے۔
جب کوئی منفی واقعہ کسی کے ساتھ پیش آئے تووہ اس کے صبر کے لیے ایک امتحان ہوتا ہے۔اگر آدمی صبر سے کام لے، وہ جوابی نفسیات کا شکار نہ ہو، بلکہ اپنے ذہن کو اشتعال سے بچاتے ہوئے معاملے کا بے لاگ جائزہ لے، اور غیر متاثر ذہن کے ساتھ اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ اگر وہ ایسا کرسکے، تو وہ دیکھے گا کہ جو چیز بظاہر اس کے لیے بُری تھی، وہ اس کے لیے اچھے نتیجے کا سبب بن گئی۔
فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی بھی شخص آپ کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیںرکھتا۔ یہ آپ کا اپنا رد عمل ہے جو آپ کے لیے نقصان کا باعث بن جاتا ہے۔ اپنے آپ کو درست راستے پر رکھیے، اور پھر کوئی بھی چیز یا کوئی بھی شخص آپ کے لیے نقصان کا باعث نہیں بنے گا۔موجودہ دنیا ناموافق تجربات سے بھری ہوئی ہے، ٹھیک اُسی طرح جیسے پھول کی ایک شاخ کانٹوں سے بھری ہوئی ہوتی ہے۔ ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی، ناموافق بات کو نظر انداز کرے، اور موافق پہلو کو تلاش کرکے اس کو استعمال کرے۔ یہی طریقہ فطرت کے مطابق ہے، اور یہی طریقہ کسی شخص کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہیمرنگکی زبان

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کے ابتدائی تیرہ سال تک مکہ میں رہے، اس کے بعد آپ مدینہ چلے گئے اور آخر وقت تک وہیں رہے۔ پہلے دور کو مکی دور کہاجاتا ہے اور دوسرے دور کو مدنی دور۔ قرآن کی سورہ نمبر 109 (الکافرون) کا آغاز اِن الفاظ سے ہوا تھا: قل یاأیّہا الکافرون (کہوکہ اے کافرو)۔ اِس خطاب کے بعد سورہ میں فرمایا گیا تھا کہ: ولا أنتم عابدون ما أعبد (تم اس کی عبادت نہیں کرنے والے ہو جس کی عبادت میں کرتاہوں)۔
مذکورہ خطاب ثابت شدہ طورپر قدیم اہلِ مکہ سے تھا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اِس کے تقریباً آٹھ سال بعد مکہ فتح ہوا، اور مکہ کے تمام لوگوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہی واقعہ ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر 110 میںاِن الفاظ میں بیان کیاگیا: إذا جاء نصر اللہ والفتح، ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ أفواجاً (النّصر: 1-2 )یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے، اور تم دیکھو کہ لوگ، فوج در فوج، خدا کے دین میں داخل ہورہے ہیں۔
یہاں یہ سوال ہے کہ جب مکہ کے تمام لوگ آئندہ مومن اور مسلم بننے والے تھے تو ان کو ’’کافر‘‘ کے لفظ سے کیوں خطاب کیاگیا، اور کیوں یہ کہاگیا کہ تم لوگ خدا کی عبادت کرنے والے لوگ نہیں ہو، حالاں کہ خدائے عالم الغیب کو اِس ہونے والے واقعے کا پورا علم تھا۔
اِس فرق کا سبب یہ تھا کہ یہاں قانون کی زبان استعمال نہیں کی گئی ہے، بلکہ ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) استعمال کی گئی ہے۔ ہیمرنگ کی زبان قانون اور منطق کی زبان نہیں ہوتی۔ اُس میں شدتِ کلام کااسلوب اختیار کیا جاتاہے۔ مذکورہ الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اگر تم نے پیغمبر کی بات نہیں مانی، تو خدا کی نظر میں تم ’’کافر‘‘ قرار پاؤ گے اور آخر کار جہنم کے مستحق ٹھہروگے۔ گویا کہ تشدید کی زبان میں یہ ایمان کی دعوت تھی، نہ کہ ان کے کفر کا اعلان۔اگر یہ ان کے کفر کا اعلان ہوتا، تو فتحِ مکہ کے بعد وہ تمام لوگ جوق درجوق خدا کے دین میں داخل نہیں ہوسکتے تھے۔
واپس اوپر جائیں

تحقیق کے بغیر

24 اپریل 2008 کو ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ وہ نہایت جو ش کے ساتھ بول رہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ماہ نامہ الرسالہ (اپریل 2008 ) میںایک مضمون چھپا ہے۔ اُس کا عنوان ہے— سفارش نہیں، استحقاق(صفحہ: 3 )۔ اِس مضمون میںآپ نے یہ کہا ہے کہ جنت کسی کو صرف استحقاق کی بنیاد پر ملے گی، نہ کہ سفارش کی بنیاد پر۔ انھوںنے کہاکہ آپ نے ایسا کیسے لکھ دیا،حالاں کہ حدیث میں آیا ہے: یشفع یومَ القیامۃ ثلاثۃ: الأنبیاء، ثمّ العلماء، ثم الشہداء (ابن ماجہ، کتاب الزہد) یعنی قیامت کے دن تین لوگ شفاعت کریں گے— انبیاء، علماء اور شہداء۔
اِس روایت کو علماء نے موضوع (fabricated)قرار دیا ہے۔ مشکاۃ المصابیح (رقم الحدیث: 5611) میں مشہور محدث محمد ناصر الدین الالبانی (وفات: 1999 ) نے اِس حدیث کے تحت حاشیے میں یہ الفاظ لکھے ہیں:
حدیث موضوع، فی سندہ عنبسۃ بن عبد الرحمن. قال أبو حاتم: کان یضع الحدیث (صفحہ: 1561) یعنی یہ حدیث موضوع ہے۔ اِس کی سند میں عنبسہ بن عبد الرحمن ہے۔ ابوحاتم نے اس کے بارے میں کہا ہے کہ وہ حدیث وضع کرتا تھا۔
لوگ عام طورپر ایسا کرتے ہیں کہ وہ خطیبوں اور واعظوں کی زبان سے ’’حدیث‘‘ سنتے ہیں۔ چوں کہ یہ حدیث عربی الفاظ میںہوتی ہے، اِس لیے لوگ اس کو قولِ رسول سمجھ لیتے ہیں اور اس کو بطور قولِ رسول بیان کرنے لگتے ہیں، مگر یہ طریقہ درست نہیں۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو سنے، تو وہ اُس کی تحقیق کرے۔ تحقیق کے بغیر کسی بات کا چرچا شروع کردینا، ایک خطرناک عادت ہے۔ اِسی قسم کی عادت کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: کفیٰ بالمرئِ کذبا أن یحدِّث بکلّ ما سمع (صحیح مسلم بحوالہ: مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 156 ) یعنی کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے صرف یہی بات کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو دوسروں کے سامنے بیان کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

حِلفُ الفُضول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تقریبا بیس سال پہلے مکہ میںایک واقعہ ہوا۔ یمن سے ایک شخص مکہ آیا۔ اُس نے اپنا کچھ تجارتی سامان مکہ کے ایک شخص عاص بن وائل سہمی کے ہاتھ فروخت کیا۔ عاص بن وائل نے سامان لیا، لیکن اس کی پوری قیمت ادا نہ کی۔
یہ واقعہ مکہ کی روایات (traditions) کے خلاف تھا۔ جب مکہ والوں کو اِس کا علم ہوا، تو لوگوں نے اس کو بہت بُرا مانا۔ مکہ کے کچھ سربرآوردہ افراد عبد اللہ بن جُدعان کے مکان پر اکھٹا ہوئے۔ انھوں نے اِس واقعے پر اپنی برہمی کا اظہار کیا۔ پھر انھوںنے ایک معاہدہ کیا۔ اِس معاہدے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے۔ اس معاہدے کو تاریخ میں حلف الفضول کہاجاتا ہے۔ اِس معاہدے کے متعلق، روایات میں بتایا گیا ہے کہ: فتعاقدوا وتعاہدوا باللہ لیکونُنَّ یداً واحدۃً مع المظلوم علی الظالم حتّٰی یؤدّی إلیہ حقہ (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، جلد 1، صفحہ 259 )یعنی انھوں نے خداکا نام لے کر ایک دوسرے کے ساتھ یہ عہد کیا کہ وہ متحد ہو کر ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کریںگے اور حق دار کو اس کا حق دلوائیں گے۔
یہ معاہدہ موجودہ اصطلاح کے مطابق، سوشل سروس، یا خدمتِ خَلق کا معاہدہ نہ تھا، بلکہ وہ دادرسی اور نصرتِ مظلوم کا معاہدہ تھا۔اس کا مطلب یہ تھا کہ مکہ میں ظلم اور حق تلفی کے کسی معاملے کو برداشت نہیںکیا جائے گا۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوگا، تو مکہ کے سربرآوردہ افراد موقع پر پہنچیں گے اور ظالم کو مجبور کریں گے کہ وہ اپنے ظلم سے باز آئے، وہ غاصب کو مجبور کریں گے کہ وہ غصب کا مال اُس کے مغصوب کے حوالے کرے۔
حلف الفضول سے یہ مسئلہ معلوم ہوتا ہے کہ معاشرے میںداد رسی کی اسپرٹ ہونا چاہیے۔ لوگوں کے اندر یہ طاقت ور جذبہ ہونا چاہیے کہ وہ کسی بے انصافی کو برداشت نہ کریں، اور عملاً اُس میں دخل دے کر پُر امن دباؤ کے ذریعے اس کا خاتمہ کر دیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر گھر دعوتی مرکز

حضرت موسیٰ کا زمانہ پندرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے، یعنی اب سے تقریباً ساڑھے تین ہزار سال پہلے کا زمانہ۔ وہ قدیم مصر میں پیغمبر بنائے گئے۔ اُس وقت مصر میں بنی اسرائیل چند لاکھ کی تعداد میں آباد تھے۔ وہ گویا اُس زمانے کے اہلِ ایمان تھے۔ اُس وقت بنی اسرائیل کو ایک حکم دیاگیا، جو قرآن میںاِن الفاظ میںآیاہے: اجعلوا بیوتکم قبلۃ (یونس: 87 ) یعنی تم اپنے گھروں کو قبلہ بنالو۔ ’’اپنے گھروں کو قبلہ بنالو‘‘ کا حکم دینے کا مطلب یہ تھا کہ اگر میکسمم (maximum) صورت ممکن نہ ہو، تو مینمم (minimum) صورت تو ہر حال میں ممکن ہوتی ہے، اور تم کو اِس حکمت کو اختیار کرنا چاہیے۔
قبلہ اُس مرکزی جگہ کو کہتے ہیں، جس کی طرف توجہ کی جائے۔ جولوگوں کے لیے فوکس آف اٹنشن (focus of attention) یا سنٹر آف اٹنشن (centre of attention) کی حیثیت رکھتا ہو۔ اُس وقت کے حالات میں اِس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے گھروں کو اپنے لیے دعوتی اور تربیتی عمل کا مرکز بنالو۔
یہ ایک تدبیر تھی، اور یہ تدبیر ہر زمانے میںاورہر مقام پر مطلوب ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی ہمیں دعوتی عمل کو مستحکم کرنے کے لیے یہی کام کرنا ہے۔ وہ تمام لوگ جو کہ دعوت الی اللہ کاکام کرناچاہتے ہیں، اُن پر فرض کے درجے میں ضروری ہے کہ اُن میں سے ہر ایک اپنے اپنے مقام پر اِس قسم کا ’’قبلہ‘‘ بنائے۔ گھروں کو قبلہ بنانے کا حکم جو بنی اسرائیل کو دیاگیا، وہ گویا کہ اِس معاملے کی آخری ممکن صورت تھی۔ بلاشبہہ یہ ایک ایسی صورت تھی، جو ہر ایک کے لیے اور ہمیشہ ممکن ہوتی ہے۔
موجودہ زمانے میں اِس کی بہترین صورت یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مقام پر لائبریری کے نام سے ایک جگہ بنائے، خواہ اپنے گھر کے اندر، یا اپنے گھر کے باہر ۔ حتی کہ اگر کسی کے پاس ایک کمرے کا گھر ہو، تب بھی وہ اس کے ایک حصے میں کتابوں کی الماری کھڑی کرکے اس کو لائبریری کی صورت دے سکتا ہے۔ یہ لائبریری عملاً دعوت اور تربیت کا ایک مرکز ہوگی۔ ضرورت ہے کہ اِس طرح کے مراکز ِ دعوت ہر جگہ قائم کیے جائیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹیلی فون کا دور

21 مئی 2008 کو ماہ نامہ الرسالہ کے ایک قاری کا ٹیلی فون آیا۔ انھوںنے کہا کہ میں برسوں سے الرسالہ کا مطالعہ کرتا ہوں اور اُس کے پیغام سے پوری طرح اتفاق رکھتا ہوں۔ ایک مسئلہ میرے سامنے آگیا ہے، اس میںآپ کی رہ نمائی چاہتا ہوں۔ میرے والد صاحب کا اصرار ہے کہ اِس سال میںحج کے لیے جاؤں۔ وہ میرے سفرِ حج کی پوری رقم دینے کے لیے تیار ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ گھر کے دوسرے افراد سب حج کرچکے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم بھی میری زندگی میں حج کرلو۔ کیا معلوم میرے بعد کیا ہو۔
انھوںنے کہا: لیکن مجھے ابھی اِس پیش کش کو قبول کرنے میں تردد ہے۔ جلد ہی میرا نکاح ہوا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اور میری اہلیہ دونوں، ایک ساتھ حج کی سعادت حاصل کریں۔ میںنے پوچھا: کیا آپ کے پاس اتنی رقم ہے کہ آپ دونوں ایک ساتھ حج کرسکیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر یہ کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے کہ آپ ایک مفروضہ بات کو لے کر ایک حقیقی پیش کش کو رد کردیں، جب کہ مستقبل کے بارے میں کوئی بھی شخص کوئی یقینی بات نہیں کہہ سکتا۔ میںنے کہا کہ زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ — کوئی موقع(opportunity) ملے، تو اس کو فوراً استعمال (avail) کرو، کیوں کہ موقع بار بار نہیں آتا۔انھوںنے کہا کہ آپ کی نصیحت بالکل درست ہے اور میں ان شاء اللہ ایسا ہی کروں گا۔
موجودہ زمانے میں ایک نئی سہولت پیدا ہوئی ہے جس کو ٹیلی فون کہاجاتا ہے۔ میںسمجھتا ہوں کہ جو لوگ ماہ نامہ الرسالہ پڑھتے ہیں، اُن کو اِس سہولت کا بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میرا تجربہ ہے کہ صرف الرسالہ، یا کتاب کو پڑھنا کافی نہیں ہوتا۔ ضرورت ہوتی ہے کہ اس کے بعد براہِ راست مشورہ اور ڈسکشن کیاجائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹیلی فون موجودہ زمانے میں صحبت کا بدل ہے۔ ٹیلی فون کے ذریعے صحبت کا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الرسالہ کے قارئین کو ٹیلی فون کے ذریعے یہ صحبت کلچر جاری کرنا چاہیے۔
واپس اوپر جائیں

فخر، تواضع

فخر تمام برائیوں کی جڑ ہے، اور تواضع تمام خوبیوں کا سرچشمہ۔ کسی آدمی کو پہچاننا ہو، تو اِنھیں دو چیزوں کے ذریعے اس کی شخصیت کو پہچانا جاسکتا ہے۔ جس آدمی کے اندر فخر کی نفسیات ہو، وہ ہر اعتبار سے ایک غیر مطلوب شخصیت کا حامل ہوگا، اور جس آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات ہو، اس کی شخصیت کے اندر تمام مطلوب اوصاف پائے جائیںگے۔
جس سماج میں لوگ فخر والا مزاج رکھتے ہوں، وہ سماج منفی نفسیات کا جنگل ہوگا۔ فطرت کے نظام کے تحت، ہر سماج میںکچھ لوگ چھوٹے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ بڑے۔ اب ایسے سماج میں یہ ہوگا کہ ایک شخص جس آدمی کو اپنے سے کم پائے گا، اس کو وہ حقیر سمجھ لے گا، اور جس آدمی کو وہ اپنے سے زیادہ دیکھے گا، اس کے بارے میں وہ حسد اور جلن کی نفسیات میں مبتلا ہوجائے گا۔ ایسے سماج میں کوئی بھی شخص معتدل نفسیات کا حامل نظر نہیں آئے گا۔
اِس کے برعکس معاملہ تواضع (modesty) کا ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پائی جائے، اس کا حال یہ ہوگا کہ وہ ہر چیز کو خدا کی نسبت سے دیکھے گا، نہ کہ انسان کی نسبت سے۔ اس کو چھوٹا آدمی بھی ایک انسان نظر آئے گا، اور بڑا آدمی بھی ایک انسان۔ وہ لوگوں کو انسان بمقابلہ انسان (man versus man)کی نظر سے نہیںدیکھے گا،بلکہ وہ لوگوں کو انسان بمقابلہ خدا (man versus God) کی نظر سے دیکھے گا۔ یہ مزاج اس کے اندر سے کبر اور حسد جیسی نفسیات کا خاتمہ کردے گا۔ وہ اِس کو سب سے بڑا کام سمجھے گا کہ وہ اپنا بے لاگ جائزہ لے کر اپنی کمیوں کو جانے اور ان کی اصلاح کرے، وہ اپنا محاسبہ (introspection) کرکے اپنی ذمے داریوں کو جانے اور ان کو پورا کرے۔
تواضع در اصل حقیقت کے اعتراف (acknowledgement)کا دوسرا نام ہے، اور فخر حقیقت کے انکار کا دوسرا نام۔ اِس دنیا میں حقیقت کا اعتراف تمام خوبیوں کا سرچشمہ ہے، اور حقیقت کا انکار تمام برائیوں کا سرچشمہ۔
واپس اوپر جائیں

ابدی انجام

موجودہ دنیا میں ہر آدمی غلطیاں کرتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ ہر غلطی کے بعد ایسے حالات پیداہوئے کہ اس نے اپنی غلطی کو درست کرلیا اور غلطی کرنے کے باوجود وہ غلطی کے بُرے انجام سے بچ گیا۔یہ واقعہ ہر آدمی کے ساتھ پیش آرہا ہے۔ ہر آدمی اِس کو اپنی زندگی میں، یا دوسروں کی زندگی میں روزانہ دیکھتا ہے۔
اِس عمومی تجربے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی غلطی کو ایک قابلِ تلافی خطا (compensating error) سمجھ لیتا ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ حتمی معنوں میں غلطی کوئی مہلک (fatal) چیز نہیں۔ غلطی وقتی طورپر ضرور نقصان پہنچاتی ہے، لیکن جلد ہی کسی نہ کسی طورپر غلطی کی تلافی ہوجاتی ہے، اور پھر زندگی اپنے معمول پر آجاتی ہے۔
اِس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان آخرت کے معاملے کو بھی دنیا کے معاملے پر قیاس کرنے لگتا ہے۔ وہ یہ سمجھ لیتا ہے کہ غلطی کے انجام کے معاملے میں جو کچھ دنیا میں پیش آرہا ہے، وہی آخرت میں بھی پیش آئے گا۔ اِسی نفسیات کا یہ نتیجہ تھا کہ کچھ لوگوں نے آخرت کو مانتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ: لن تمسّنا النّار إلاّ أیّاماً معدودۃ (البقرۃ: 80 )-
یہ صورتِ حال ہر عورت اور مرد کے لیے سخت آزمائش ہے۔ اِس دنیا میں ہر عورت اور رمرد کو یہ کرنا ہے کہ وہ کھلے ذہن کے تحت سوچے اور آخرت کی پکڑ کے معاملے کو اُس کی اصل نوعیت کے اعتبار سے دریافت کرے۔ ہر عورت اور مرد کو یہ جاننا چاہیے کہ آخرت کا معاملہ دنیا کے معاملے سے بالکل مختلف ہے۔ موت کے بعد ہر ایک کو ایک ایسی ابدی دنیا میں داخل ہونا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہ ہوگی، جہاں ہر آدمی اکیلا ہوگا، جہاں تلافی ٔ مافات کی کوئی صورت نہ ہوگی۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہر آدمی کو بہر حال اپنے عمل کے انجام کو بھگتنا ہے۔ آخرت کی دنیا میں داخل ہونے کے بعد ہر آدمی اپنے آپ کو یا تو ابدی جنت میں پائے گا، یا ابدی جہنم میں۔
واپس اوپر جائیں

سر، یہ آپ کے لیے ہے

ہمارے یہاں سے اسلام کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تعداد میں دو ورقہ، یا کتابچے (brochures) چھاپے گئے ہیں۔ ایک صاحب نے بتایا کہ وہ ہمیشہ اپنے ساتھ اِن کتابچوں (brochures) کو رکھتے ہیں۔ جب بھی کوئی شخص، کہیں ان کو ملتا ہے، تو وہ یہ کہتے ہوئے کتابچہ اس کو پیش کردیتے ہیں— سر،یہ آپ کے لیے ہے:
Sir, this is for you.
انھوں نے بتایا کہ جب بھی وہ کسی کو ایسا کتابچہ پیش کرتے ہیں، تو وہ نہایت خوشی کے ساتھ اُس کو لے لیتا ہے اور پڑھنے لگتا ہے۔ یہ بلاشبہہ دعوت کا نہایت آسان طریقہ ہے۔ ہر آدمی نہایت آسانی کے ساتھ اِس طریقے کو اختیار کرسکتا ہے۔ آپ خواہ سفر میں ہوں، یا حضر میں، ہر وقت کسی سے آپ کی ملاقات ہوتی ہے۔ ہر وقت کسی سے آپ کو سابقہ پیش آتا ہے۔ ایسا ہر لمحہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ اُس لمحے کو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے استعمال کریں۔
موجودہ زمانے میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے یہ دعوتی موقع ہمارے لیے فراہم کیا ہے۔ اِسی کے ساتھ موجوہ زمانے میں انٹریکشن (interaction) بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ ہر جگہ اور ہر وقت کوئی نہ کوئی شخص آپ کو مل سکتا ہے، جس کو آپ ایک چھپا ہوا خوب صورت دعوتی کتابچہ پیش کرکے دعوت کے فرض کو انجام دے سکیں۔
دعوتی عمل کوئی مصنوعی عمل نہیں، وہ ایک فطری عمل ہے۔ روزانہ اپنی معمول کی زندگی کے ساتھ آپ دعوتی عمل کرسکتے ہیں۔ دعوتی موضوعات پر چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی اشاعت نے ہر ایک کے لیے دعوت الی اللہ کے کام کو بہت زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ ہر عورت اور مرد کو چاہیے کہ وہ اِس امکان کو استعمال کرے۔ ہر شخص اِن کتابچوں کو اپنے ساتھ رکھے، اور موقع کی مناسبت سے وہ اُس کو لوگوں تک پہنچاتا رہے۔ یہ عمل مسلسل جاری رکھنا ہے، یہاں تک کہ تمام لوگوں تک سچائی کا پیغام پہنچ جائے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ کا کام

موجودہ زمانہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے انتہائی حد تک موافق زمانہ ہے۔ آج ہر جگہ مذہبی آزادی (religious freedom) کا ماحول ہے۔ کمیونکیشن کی سہولتیں اعلیٰ درجے میں حاصل ہیں۔ موثّر دعوتی لٹریچر چھپا ہوا موجود ہے۔ ایسی حالت میں کسی بھی شخص کے لیے کوئی عذر (excuse) باقی نہیں رہا۔کوئی بھی عورت یا مرد یہ کہہ کر نہیں چھوٹ سکتا کہ وہ دعوت کا کام کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تھا، اِس لیے اُس نے دعوت کاکام نہیں کیا۔
آج دعوت کاکام کرنے کے لیے اِس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اپنے کاموںکوچھوڑ کر، تمام ضروری مضامین کا مطالعہ کریں اور پھر اپنے اندر اعلیٰ علمی استعداد پیدا کریں اور پھر دعوت کا کام کریں۔ اب آپ کی طرف سے یہ کام کیا جاچکا ہے۔ آپ اپنی زندگی کے نقشے میںکوئی تبدیلی کیے بغیر دعوت کے کام کو اپنی زندگی کا جُز بنا سکتے ہیں اور دعوت کی ذمے داریوں کو بخوبی طورپر اداکرسکتے ہیں۔
آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ الرسالہ کے دعوتی مشن میںشامل ہوجائیں۔ اِس مشن کے تحت مختلف زبانوں میں طاقت ور لٹریچر شائع کیا جاچکا ہے۔ آپ اِس لٹریچر کو حاصل کریں۔ اس کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھیں، اور جب بھی کسی شخص سے آپ کی ملاقات ہو، توآپ اس کو یہ کہہ کر پیش کردیں کہ — جناب، یہ آپ کے لیے ہے:
Sir, this is for you!
آپ اِس لٹریچرکو اپنے آفس میں، اپنی دکان میں، اور اپنے ادارے میں نمایاں مقام پر رکھ دیں۔ آنے والے لوگ خود ہی اس کو لے لیں گے اور شوق سے اس کا مطالعہ کریںگے۔ یہ زمانے کا تقاضا ہے، اور ہمیں چاہیے کہ ہم اِس تقاضے کو دعوت الی اللہ کے کام کے لیے استعمال کریں۔ زمانے نے اپنا کام کردیا ہے، اب ہماری ذمے داری ہے کہ ہم جدید امکانات (opportunities)کو پہچانیں اور اس کو بھر پور طور پر استعمال کریں۔
واپس اوپر جائیں

طوفانِ قیامت

گلوبل وارمنگ (global warming) موجودہ زمانے میں سب سے بڑا عالمی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ سائنسی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ زمین پر لائف سپورٹ سسٹم کی صورت میں جو متوازن نظام قائم تھا، وہ تیزی سے ٹوٹ رہا ہے۔سخت اندیشہ ہے کہ جلد ہی وہ وقت آجائے جب کہ زمین پر زندہ رہنے کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے۔
اِس آنے والے ہول ناک دور کے لیے پیشگی طورپر مختلف قسم کی تدبیریں کی جارہی ہیں۔ اِن میں سے ایک تدبیر یہ ہے کہ یہ کوشش کی جارہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کے نتیجے میں اگر ایسا ہو کہ غذا کے لیے استعمال ہونے والی فصلیں زمین کی سطح سے نابود ہوجائیں، تو دوبارہ ان کی کاشت کرکے غذا کی ضرورت پوری کی جاسکے۔ اِس مقصد کے لیے ناروے (Norway) میںمختلف قسم کے بیجوں (seeds) کا محفوظ گودام بنایاگیاہے۔ اس کا افتتاح 26 فروری 2008 کوکیا گیا۔ اِس تقریب کے موقع پر بڑی بڑی عالمی شخصیتیں وہاں موجود تھیں۔ مثلاً یورپین کمیشن کے پریزڈنٹ یوسے مینول(Jose Manuel Baroso) اور نوبل انعام یافتہ ماہر ماحولیات (environmentalist) وینگر(Wangari Matai) ، وغیرہ۔ اِس واقعے کی رپورٹ مختلف اخبارات میں آئی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (26 فر وری 2008 ) میں یہ رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے:
‘Doomsday Vault’ Comes to Life
یعنی روزِ قیامت کے لیے حفاظتی گودام تیار ہوگیا۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ فصلوں کی عمومی تباہی کے اندیشے کی بنا پر ناروے کے جزیرہ (Svalbard) میں ایک پہاڑ کے اوپر عالمی بیج گودام (Global Seed Vault) بنایاگیا ہے۔ یہ مقام قطب شمالی (North Pole) سے ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں اونچے پہاڑ کے اوپر تین وسیع ائرکنڈیشنڈ کمرے (spacious cold chambers) بنائے گئے ہیں۔ اِن حفاظتی کمروں میں دنیا بھر کے دو لاکھ پچاس ہزار قسم کے مختلف بیجوں کے نمونے (samples) رکھے گئے ہیں۔ اِس مقصد کے لیے ایک عالمی تنظیم (Global Crop Diversity Trust) بنائی گئی ہے۔
مذکورہ خبر مشہور نیوز ایجنسی اے پی ایف (APF) کے حوالے سے میڈیا میںآئی ہے۔ اِس رپورٹ کا آغاز اِن الفاظ کے ساتھ کیاگیا ہے— ناروے کا منصوبہ ہے کہ وہ انسان کے لیے نوح جیسی ایک غذائی کشتی فراہم کرے، تاکہ وہ آنے والی عالمی مصیبت سے اپنے آپ کو بچا سکے:
Longyearbyen (Norway): Aimed at providing mankind with a Noah’s Ark of food in the event of a global catastrophe, and Arctic “Doomsday Vault” filled with samples of important seeds. (p.21)
مگرزیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ناروے میں پہاڑ کے اوپر بنائے جانے والے غذائی گودام کو سفینۂ نوح (Noah’s Ark) کے معاملے سے تشبیہہ دینے کے بجائے نوح کے بیٹے کنعان کے معاملے سے تشبیہ دی جائے۔ قرآن میںبتایا گیا ہے کہ پیغمبر نوح کے آخری زمانے میں جب عمومی سیلاب آیا، تو پیغمبر نوح کے باغی بیٹے کنعان نے کہا کہ میںکسی پہاڑ کے اوپر پناہ لے لوں گا، اور وہ مجھ کو سیلاب کی زد سے بچالے گا:
I will be take myself for refuse to a mountain, that shall protect me from the water (11:43).
پیغمبر نوح نے اپنے بیٹے کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سیلاب کا معاملہ ایک خدائی معاملہ ہے، کوئی پہاڑ تم کو اِس سے نہیں بچا سکتا (ہود: 43)۔ طوفانِ نوح کے بارے میں پیغمبر کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی اور پیغمبر اور ان کے کچھ ساتھیوں کے سوا کوئی بھی اِس طوفان سے محفوظ نہیں رہا۔ یہی معاملہ آنے والے طوفانِ قیامت کا بھی ہے۔ پہاڑ کی کوئی چوٹی یاکوئی غذائی گودام انسان کو اِس طوفان کی زد سے بچانے والا نہیں۔ آنے والا طوفان موجودہ صورتِ حال کو یک سر بدل دے گا۔ جب یہ طوفان آئے گا، تو کوئی بھی انسان اُس سے اپنا بچاؤ نہ کرسکے گا۔
قدیم زمانے میں انسانی آبادی صرف میسوپٹامیا (Mesopotamia) کے علاقے میں پائی جاتی تھی۔ میسوپوٹامیا اُس علاقے کو کہاجاتا ہے جو دریائے دجلہ اور دریائے فُرات کے درمیان واقع ہے۔ یہاں کی آبادی میں بگاڑ پیدا ہوا، تو اللہ تعالیٰ نے یہاں حضرت نو ح کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ خدا نے ان کو بہت لمبی عمر دی۔ وہ ساڑھے نو سو سال تک لوگوں کے درمیان موجود رہے۔
لمبی مدت تک حضرت نوح کی دعوتی کوششوں کے باوجود صرف چند لوگوں نے خدا کے پیغام کو مانا۔ ان کی بھاری اکثریت انکار اور گم راہی میںپڑی رہی۔ آخر کار حضرت نوح نے لوگوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی، تو یہاں ایک بہت بڑا سیلاب آئے گا اور تم سب کے سب لوگ اس میں ہلاک ہوجاؤ گے۔ لوگوں نے حضرت نوح کے اِس انتباہ (warning) کو نظر انداز کردیا۔ آخر کار ایک عظیم سیلاب آیا۔ اِس سیلاب میںیہ پورا آباد علاقہ پانی میں ڈوب کر تباہ ہوگیا۔
یہ قدیم زمانے کا طوفانِ نوح تھا۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب غالباً جلد ہی طوفانِ قیامت آنے والا ہے۔ اِس نئے شدید تر طوفان کی زد میں ساری دنیا آجائے گی، صرف وہ تھوڑے سے لوگ اِس عمومی تباہی سے بچالیے جائیں گے جو بگاڑ میں مبتلا نہ ہوئے ہوں۔
موجودہ زمانہ گویا کہ خدائی نعمتوں کے انفجار (explosion) کا زمانہ تھا، لیکن نعمتوں کی کثرت نے صرف لوگوں کی سرکشی میںاضافہ کیا۔ لوگوں نے اِن نعمتوں کو بھر پور طورپر استعمال کیا، لیکن وہ ہمیشہ سے زیادہ مُنعم سے دور ہوگئے۔ آزادی کے نام پر سرکشی موجودہ زمانے کا عام کلچر بن گیا۔
قدیم طوفان کے خلاف پیشگی انتباہ، پیغمبر نوح نے دیا تھا۔ جدید طوفان کے خلاف پیشگی انتباہ ماڈرن سائنس دے رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ساری دنیا کے سائنس داں مسلسل یہ خبریں دے رہے ہیں کہ برف کے بھاری ذخیرے پگھل رہے ہیں۔ گلیشئر کی برف، قطب شمالی (North Pole) اور قطب جنوبی (South Pole) کی برف نہایت تیزی سے پگھل کر سمندروںمیں شامل ہو رہی ہے۔
یہ واقعہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change)کے ذریعے ہورہا ہے۔ اِس کو گلوبل وارمنگ (global warming) کہاجاتاہے۔ برفانی پہاڑوں کے پگھلنے سے مسلسل سمندروں کے پانی کی سطح میں اضافہ ہورہا ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 2050 تک یہ تبدیلی اپنی آخری حد پر پہنچ جائے گی۔ یہ ایک شدید تر قسم کا نیا طوفانِ نوح ہوگا اور دنیا کی تمام آبادی اس کی زد میں آکر ختم ہوجائے گی۔ صرف تھوڑے سے لوگ بچیں گے جو موجودہ زمانے کے عمومی بگاڑ سے محفوظ تھے۔
پیغمبر نے یہ خبر دی تھی کہ زمین پر انسان کی آبادی موجودہ صورت میں ہمیشہ باقی نہیں رہے گی۔ وہ وقت آئے گا جب کہ موجودہ آباد دنیا کا خاتمہ کردیا جائے گا، اور پھر ایک نئی دنیا بنے گی جس میں تمام سرکشوں کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا، اور خدا کے وفادار بندوںکو الگ کرکے اُنھیں ابدی جنتوں میں بسا دیا جائے گا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں صدی عیسوی میںکہا تھا کہ میرے اور قیامت کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ انسان کی دو انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے (أنا والساعۃ کہاتین، صحیح البخاری، کتاب الرقاق) گلوبل وارمنگ کا ظاہرہ (phenomenon) بتاتا ہے کہ یہ فاصلہ اب ختم ہوچکا ہے۔ جدید سائنس جس موسمیاتی تبدیلی (clamatic change) کی خبر دے رہی ہے، وہ تبدیلی سائنس دانوںکے بیان کے مطابق، اب اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ اب اس کو دوبارہ الٹی طرف لوٹانا ممکن نہیں۔
جو واقعہ ہونے والا تھا، وہ ہوچکا ۔جو دن آنے والا تھا، وہ دن بہت قریب آگیا۔ اب آخری وقت آگیا ہے جب کہ انسان اپنے آپ کو بدلے۔ وہ خدا کے خلاف سرکشی کا طریقہ چھوڑ کر خدا کے ساتھ وفاداری کا طریقہ اختیار کرے۔ حالات کی یہ خاموش پکار ہے کہ انسان اپنے آپ کو درست کرلے، اِس سے پہلے کہ اپنے آپ کو درست کرنے کا موقع اس کے لیے باقی نہ رہے ۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ کے تین دَور

دعوت الی اللہ کے کام کو قرآن میں اِنذار اور تبشیر کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے: رسُلاً مبشّرین ومنذرین لئلاّ یکون للنّاس علی اللہ حجّۃٌ بعد الرّسل (النساء: 165 ) یعنی ہم نے لوگوں کی طرف اپنے پیغمبر بھیجے، خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے، تاکہ لوگوں کے پاس اللہ کے خلاف حجت باقی نہ رہے۔
پیغمبروں نے دعوت الی اللہ کاجو کام کیا، وہ اصلاً یہ تھا کہ ہر زمانے کے انسان کو خدا کے تخلیقی پلان (creation plan) سے آگاہ کیا جائے،لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ موجودہ دنیا تم کو بطور انعام نہیں ملی ہے، بلکہ بطور امتحان ملی ہے۔ اِس دنیا میں تمھارے قول و عمل کا ریکارڈ درج کیا جارہا ہے۔ اگلی مستقل دنیا میںاِس ریکارڈ کے مطابق، ہر ایک کے لیے یا تو جنّت کا فیصلہ کیاجائے گا، یا جہنّم کا۔ دعوت الی اللہ کی اِس طویل تاریخ کے تین بڑے دور ہیں۔ مطالعے کی آسانی کے لیے اُن کو حسب ذیل تین اَدوارکی صورت میں بیان کیاجاسکتا ہے:
1 - پیغمبروں کا دور
2 - اصحابِ رسول کا دور
3 - اخوانِ رسول کا دور
پیغمبروں کا دور
پیغمبروں کا دور آدم سے شروع ہوا، جو کہ پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی، اور یہ دورآخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگیا۔ قرآن کے بیان کے مطابق، خدا کے یہ پیغمبر ہر نسل میں اور ہر علاقے میں لوگوں کو خدائی سچائی (divine truth)کا پیغام دیتے رہے (الفاطر: 24 )۔ یہ پیغام اصلاً توحید اور آخرت کا پیغام تھا۔ اِس پیغمبرانہ دعوت کا جو عمومی انجام ہوا، اُس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیا گیاہے: یا حسرۃً علی العباد، مایأتیہم من رسولٍ إلاّ کانوا بہ یستہزؤن (یٰس: 30)۔ یعنی بندوں پر افسوس ہے۔ اُن کے پاس جب بھی کوئی پیغمبر آیا، تو انھوں نے اُس کو حقیر سمجھا اور اس کا مذاق اُڑایا ۔
پیغمبروں کے ذریعے دعوت کا یہ سلسلہ حضرت ابراہیم تک جاری رہا۔ حضرت ابراہیم 260 قبل مسیح میں عراق کے شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ انھوںنے 175 سال کی عمر پائی۔ وہ لمبی مدت تک دعوت الی اللہ کا کام کرتے رہے، لیکن لوگوں نے آپ کی بات نہ مانی۔ آخر کار وہ عراق سے نکل کر دوسرے مقامات کی طرف چلے گئے۔ جب وہ عراق سے نکلے تو اُن کے ساتھ صرف دو انسان تھے۔ ایک، اُن کے بھتیجے لوط اور دوسرے، ان کی بیوی سارہ۔
پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں ایسا کیوں ہوا۔ اِس کا جواب حضرت ابراہیم کی آخری زمانے کی ایک دعا میں اِن الفاظ میںملتا ہے: ربّ إنّہنّ أضللن کثیراً من الناس (إبراہیم: 36) اِس آیت کی تشریح اُس حدیث سے معلوم ہوتی ہے جس میں پیغمبر ِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلُّ مولود یُولد علی الفطرۃ، فأبواہ یہوّدانہ أوینصرانہ أویمجّسانہ (صحیح البخاری، کتاب الجنائز ) ۔
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا سب سے پہلے اپنے قریبی ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ اُس کا بچپن اور اس کی جوانی جس ماحول میں گزرتی ہے، اس کے مطابق، اس کی کنڈیشننگ (conditioning) ہوتی رہتی ہے۔ اس کے بعد جب اس کے سامنے کوئی پیغمبر آتا ہے اور اُس کو خدائی سچائی کا پیغام دیتا ہے تو ماحول کی کنڈیشننگ کی بنا پر وہ اُس کو سمجھ نہیں پاتا۔ یہی کنڈیشننگ اُس زمانے میں دعوت کی راہ میں سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی تھی۔ اُن کے لیے ناممکن ہوگیا تھا کہ وہ اپنی کنڈیشننگ سے باہر آکر ایک نئے پیغام کو خالی الذہن ہوکر سنیں اور آزادانہ طورپر اس کو سمجھ کر اُس کو قبول کرلیں۔
اُس وقت اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق، حضرت ابراہیم نے دعوتی عمل کا ایک نیا منصوبہ بنایا۔ وہ منصوبہ یہ تھا کہ شہروں اور انسانی آبادیوں سے دُور کھُلے صحرا میں ایک نئی نسل تیار کی جائے، جو انسانی تمدن کی کنڈیشننگ سے پاک اور غیر متاثر ذہن کے تحت پیغمبرانہ دعوت کو سنے اوراس کو قبول کرسکے۔ اِسی منصوبہ بندی کے تحت ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم نے اپنے بیٹے اسماعیل کو اُن کی ماں ہاجرہ کے ساتھ موجودہ مکہ کے پاس غیر آباد صحرا میں لاکر بسا دیا، یعنی ایک ایسی جگہ جہاں کوئی تمدن یا کوئی انسانی کلچر لوگوں کی کنڈیشننگ کے لیے موجود نہ تھا۔
اصحابِ رسول کا دَور
عرب کے صحرا میں جو قوم تیار ہوئی، اس کو بنو اسماعیل کہا جاتا ہے۔ توالد وتناسل کے ذریعے اِس قوم کی تیاری میں تقریباً ڈھائی ہزار سال لگ گئے۔ یہ منفرد قسم کے لوگ تھے۔ صحرائی تربیت کے اِس معاملے کو پروفیسر فلپ ہٹی (وفات: 1978 )نے نرسری آف ہیروز (nursery of heroes) کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ صحرائی تربیت کا یہ طریقہ اِس لیے اختیار کیا گیا، تاکہ کنڈیشننگ سے پاک لوگ(deconditioned people) پیدا کئے جاسکیں۔
کنڈیشننگ سے محفوظ ہونے کی بنا پر بنو اسماعیل اپنے اصل نیچر پر قائم رہے۔ اُن کے اندر انسانی اوصاف بدرجۂ اتم محفوظ حالت میںموجود تھے۔ یہی انسانی اوصاف تھے جن کو قدیم عرب کے لوگ المرُوء ۃ(manliness) کہتے تھے۔
ڈھائی ہزار سالہ صحرائی تربیت کے بعد بنو اسماعیل کی جو قوم تیار ہوئی، وہ اُس وقت کی پوری آباددنیا میں ایک منفرد قوم تھی۔ اُس وقت دنیا کا یہ حال تھا کہ تمام قوموں میںشرک کلچر چھاگیا تھا۔ شہری آباد یوں میں بسنے والے تمام عورت اور مرد مشرکانہ کنڈیشننگ کا شکار ہو کر رہ گئے تھے۔ شرک کا تصور اُن کے دل و دماغ میں اِس طرح سما گیا تھا کہ اُس کے خلاف سوچنا، اُن کے یے ناممکن ہوگیا تھا۔ اگرچہ سرحدی علاقوں کے اثرات سے بنواسماعیل میںبھی جُزئی طورپر شرک اور بُت پرستی آگئی تھی، لیکن یہ محض رواج کی سطح پر تھی، بنو اسماعیل کے اندر اس کی گہری جڑیں موجود نہ تھیں۔ اِس کا اندازہ ایک واقعے سے ہوتا ہے۔
امرء ُ القیس عرب کا ایک ممتاز شاعر تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570ء) سے تیس سال پہلے 540 ء میںاُس نے وفات پائی۔ وہ بظاہر ایک بت پرست قبیلے میں پیدا ہوا، لیکن دوسرے عربوں کی طرح، بت پرستی کے بارے میں گہرا یقین اس کے اندر موجود نہ تھا۔ امرء القیس کے باپ کو قتل کردیا گیاتھا۔ وہ قاتل سے اس کا بدلہ لینا چاہتا تھا۔ وہ اپنے قبیلے کے بت ذُو الخلَصہ کے پاس گیا اور عرب رواج کے مطابق، اُس نے فال نکال کر اِس معاملے میں بت کی رائے معلوم کرنا چاہا کہ میں اپنے باپ کے قاتل کو قتل کروں یا نہ کروں۔ جواب آیا کہ نہیں۔ اِس پر امرء القیس غصّے میں آگیا اور اُس نے بت کو اپنی کمان سے مار کر کہا:
لو کنتَ یا ذا الخلص الموتورا مثلی، وکان شیخک المقبورا
لم تنہ عن قتل العُداۃ زُوراً
یعنی اے ذو الخلصہ، اگر تیرے ساتھ ایسا ہوتا کہ تیرے بزرگ کو قتل کیا گیاہوتا، تو ہر گز تو ایسی غلط بات نہ کہتا کہ مجرموں کو قتل نہ کیا جائے۔
قدیم ُحنفاء
بنو اسماعیل کی یہ نسل جو ڈھائی ہزار سالہ صحرائی تربیت کے ذریعے بنی، وہ تاریخ بشری میں ایک نئی نسل کی حیثیت رکھتی تھی۔ اِس نسل کی بڑی اکثریت ایسے عورتوں اور مردوں پر مشتمل تھی جو بنیادی طورپر اپنی فطرت پر قائم تھے، اور اِس بنا پر وہ نئی بات کو قبول کرنے کی امتیازی صفت رکھتے تھے۔ اِن میں ایک تعداد ایسے لوگوں کی تھی جو اِس صفت میں نسبتاً زیادہ نمایاں تھے۔ یہ لوگ گویا کہ اپنی فطرت کے زور پر پچاس فی صد سچائی کو پہلے ہی پاچکے تھے۔ اِن لوگوں کو قدیم عرب میں ُحنفاء کہاجاتا تھا۔
حنیف یا حنفاء سے مراد وہ انسان ہے جو متلاشی ٔ حق (truth seeker) ہو۔ قدیم عرب میں ایسے بہت سے لوگ تھے۔ انھیں میں سے ایک قُس بن ساعدہ (وفات: 600 ء) تھے۔ ان کے اندر خطابت کی غیر معمولی صلاحیت تھی۔ اِسی طرح ایک اور صاحب تھے، جن کا نام زید بن عمرو بن نُفیل (وفات: 606 ء) تھا۔ وہ بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ : الّٰہم إنّی لو أعلم أحبّ الوجوہ إلیک عبدتُک بہ، ولٰکنّی لا أعلم(سیرت ابن ہشام، جلد 1، صفحہ 154 )۔ یعنی اے خدا، اگر میں جانتا کہ تیری عبادت کا بہتر طریقہ کیا ہے تو میں اُسی طرح تیری عبادت کرتا، لیکن میں اُس کو نہیں جانتا:
O God, if I knew how you whished to be worshipped, I would so worship you; but I do not know.
اِنھیں حنفاء میں سے ایک ورقہ بن نوفل (وفات: 611ء) تھے۔610 ء میں جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوت ملی، تو اُس وقت وہ بوڑھے اور نابینا ہوچکے تھے۔ مگر جب انھوںنے آپ کی زبان سے وحی کی بات سنی تو انھوںنے فوراً آپ کی تصدیق کی، تاہم اس کے چند مہینے بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ابو بکر بن ابی قحافہ بھی انھیں حنفاء میں سے ایک تھے، جنھوںنے کسی تردّد کے بغیر آپ کی دعوت کو قبول کرلیا۔ نبوت سے پہلے خود محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب بھی اِسی قسم کے ایک حنیفِ کامل تھے، یعنی خالص حق کے متلاشی۔ قرآن کی سورہ نمبر 93 میں اس حقیقت کی طرف اِن الفاظ میں اشارہ کیاگیا ہے: ووجدک ضالاّ فہدیٰ (الضّحی: 7 )۔
مؤرخین نے عام طور پر تسلیم کیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب میں غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی۔ اِس کامیابی کا راز کیا تھا۔ اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ آپ کو اعلیٰ کردرا رکھنے والے جان دار ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد ملی، جن کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ یہ اصحابِ رسول بنی اسماعیل کے منتخب افراد تھے۔ اِس قسم کی ٹیم اِس سے پہلے کسی پیغمبر کو حاصل نہ ہوئی۔ اِن میں سے ایک ایک آدمی گویا کہ ایک ہیرو تھا۔ یہ اعلیٰ افراد، سادہ طورپر محض ’’صحبت‘‘ کی بنا پر نہیں ملے، وہ دراصل اُس ڈھائی ہزار سالہ منصوبۂ خداوندی کا نتیجہ تھے جو ایک نئی نسل پیدا کرنے کے لیے حضرت ابراہیم اور ہاجرہ اور اسماعیل کی غیر معمولی قربانی کے ذریعے عمل میں لایا گیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں، یہ گروہ اخراجِ امت (آل عمران: 110 ) کا تاریخی نتیجہ تھا، نہ کہ سادہ طورپر صرف صحبت کا پُراسرار نتیجہ۔
اخوانِ رسول کا دور
حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہم عصر اہلِ ایمان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: وددتُ أنّا قد رأینا إخوانَنا۔ قالوا: أولسنا إخوانک یا رسولَ اللہ، قال: أنتم أصحابی، وإخواننا الّذین لم یأتوا بعد (صحیح مسلم، کتاب الطّہارۃ) یعنی میری تمنا ہے کہ ہم اپنے بھائیوں (اِخوان) کو دیکھتے۔ صحابہ نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے بھائی نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ میرے اصحاب ہو، اور وہ ہمارے اخوان ہیں جو بعد کو آئیں گے۔
جیسا کہ عرض کیاگیا، دورِ اوّل کے اصحابِ رسول ایک لمبے تاریخی عمل کے ذریعے وجود میں آئے۔ اِسی طرح دورِ ثانی کے اخوانِ رسول بھی ایک خصوصی تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میںآنے والے لوگ ہیں۔ گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو دونوں گروہوں کے درمیان ظاہری فرق کے باوجود کامل مشابہت پائی جاتی ہے۔
دورِ اوّل کے اصحابِ رسول، بنو اسماعیل کی اُس نسل سے نکلے تھے جس کو تمدنی ماحول سے دور رکھ کر صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے عمل سے گزارا گیا، اور اِس طرح متعصبانہ ذہن سے پاک کرکے اُن کو ان کی اصل فطرت پر لایا گیا۔ اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوا کہ وہ دین ِ فطرت کا پیغام سنیں اور کسی نفسیاتی پیچیدگی (complex)کے بغیر اُس کو قبول کرلیں۔
موجودہ سائنسی دور بھی اِسی قسم کا ایک دور ہے۔ اِس زمانے میں دوبارہ عالمی سطح پر جدید نسلوں کی سائنسی ڈی کنڈیشننگ کی گئی۔ اِس طرح ایسے لوگ تیار ہوئے، جو قدیم طرز کی روایتی سوچ سے آزاد تھے۔ وہ خالص فطرت کی سطح پر چیزوں کو سمجھ سکتے تھے۔ اِنھیں لوگوں کے لیے یہ مقدر کیاگیا تھا کہ وہ اسلام کودوبارہ معرفت کی سطح پر پائیں اور انقلابی ذہن کے ساتھ اس کو قبول کرلیں۔
یہی بات موجودہ زمانے میں اِس طرح ہوئی کہ جب دنیا میں سائنس کا تجرباتی متھڈ رائج ہوا، تو لوگ قدیم تصورات پر نظر ثانی کرنے لگے۔ پہلے قیاس اور توہمات کی بنیاد پر رائیں قائم کی جاتی تھیں، اب تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے رائیں قائم کی جانے لگیں۔ اِسی کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک متھڈ(sientific method) کہاجاتا ہے۔ اِس سائنٹفک متھڈ کے رواج نے موجودہ زمانے میں قدیم اندازِ فکر کو بدل دیا، اور لوگ چیزوں کو سائنسی انداز میں ازسرِ نو جانچ کردیکھنے لگے۔ اِسی واقعے کو ہم نے یہاں سائنسی ڈی کنڈیشننگ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ سائنسی ڈی کنڈیشننگ موجودہ زمانے کی ایک اہم خصوصیت ہے۔ اِس کے نتیجے میں موجودہ زمانے میں ایک نئی نسل پیدا ہوئی ہے، جس طرح قدیم عرب میں صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایک نئی نسل بنی تھی۔ موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ روایتی بندشوں سے آزاد ہو کر سوچتے ہیں۔ اِسی بنا پر وہ کسی نئی سچائی کو سمجھنے کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت رکھتے ہیں، جب کہ قدیم زمانے میں ایسا نہ تھا۔
ڈھائی ہزار سال پہلے صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے عرب میںایسے لوگ پیدا ہوئے تھے، جو باپ دادا سے ملی ہوئی مذہبی روایات سے باہر آکر سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں سائنسی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے ایسے لوگ بڑی تعداد میں پیدا ہوئے، جو اپنے آبائی مذہب کے خول سے باہر آکر سوچنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِس طرح کے لوگ ساری دنیا میں پیدا ہوئے۔ مثال کے طور پر یہاں اِس قسم کے دو ممتاز مغربی افراد کا ذکر کیا جاتا ہے۔
اِن میں سے ایک مشہور سائنس داں سر آئزاک نیوٹن (وفات:1727 ) تھا۔ وہ اگر چہ روایتی مسیحی خاندان میں پیدا ہوا، لیکن سائنسی مطالعے کے بعد وہ مسیحیت کے روایتی خول سے باہرآگیا۔ نیوٹن کے ایک سوانح نگار پیٹر (Peter Ackroyd) کی ایک کتاب اِس موضوع پر 2006 میں شائع ہوئی ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے:
Isaac Newton — A Secret Faith
مصنف نے اِس کتاب میں نیوٹن کے بارے میں لکھا ہے:
Newton also believed that the true religion was derived from the sons of Noah, and had been transmitted by Abraham, Isaac and Moses. Pythagoras was a convert to this religion, and passed it on to his own disciples. Christ was a witness to that primitive faith in his simple commandments to love God and to love one's neighbor. In a later document Newton declared that we must worship 'the only invisible God' and venerate the 'one mediator between God & man the man Christ Jesus'. At the peril of our souls 'we must not pray to two Gods'. We must not worship Christ. Christ had been filled with divine spirit, but he was not God. (p. 54)
دوسری مثال فرانسس ہر برٹ بریڈ لے (وفات: 1924 ) کی ہے۔ وہ مشہور برٹش فلسفی ہے۔ وہ بھی اِسی قسم کے افراد کی ایک مثال ہے، جو اگرچہ قدیم مذہبی روایات کے ماحول پیداہوئے، لیکن سائنسی تعلیم اور سائنسی غور وفکر نے ان کو مجبور کیا کہ وہ قدیم روایتی خول سے باہر آکر کھلے ذہن کے تحت سوچیں اور بے آمیز سچائی کی تلاش کریں۔
فرانسس ہر برٹ بریڈ لے کی ایک کتاب (Appearance and Reality) ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1893 میںشائع ہوئی۔ اس نے اپنی اِس کتاب میں لکھا ہے کہ آج انسان کو ایک سائنٹفک مذہب (scientific religion) کی ضرورت ہے۔ قدیم روایتی طرز کا مذہب آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ بریڈ لے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آج کے انسان کو ایسا مذہب چاہیے، جس کا پیغمبر نیوٹن ہو، اور جس کی مقدس کتاب پرنسپیا (Principia) ہو، یا یہ کہ اُس کا پیغمبر آئن سٹائن ہو، اور اُس کا الٰہیاتی نظریہ آئن سٹائن کا نظریۂ اضافیت (General theory of relativity) ہو، بلکہ بریڈلے کا مطلب صرف یہ تھا کہ آج کے زمانے میں وہی مذہب انسان کے لیے قابل قبول ہوسکتا ہے جو سائنٹفک جانچ (scientific scrutiny) میں پورا اُترے۔
اِس قسم کے افراد میں ایسے لوگ بھی تھے جو اپنی تلاش کی آخری منزل تک پہنچے۔ ان میں سے ایک مثال ڈاکٹر نشی کانت چٹوپادّھیائے کی ہے۔ وہ ایک بڑے ہندو اسکالر تھے۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے۔ وہ بنگال کے ایک روایتی ہندو خاندان میں پیدا ہوئے۔ بعد کو ان کی تعلیم نے ان کو پورے معنوں میں نان کنفارمسٹ(non-conformist) بنا دیا۔ انھوں نے آزاد ذہن کے تحت، مختلف مذاہب کامطالعہ کیا۔ انھوں نے مختلف مذہبی شخصیتوں کو پڑھا۔ آخر میں اپنے کھلے ذہن کی بنا پر وہ اِس اعتراف پر مجبور ہوگئے کہ تمام مذہبی شخصیتیں غیر تاریخی شخصیتیں ہیں۔ اِن میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔
اِس معاملے میں اپنے خیالات کے اظہار کے لیے انھوںنے 1904حیدر آباد (انڈیا) میںایک لیکچر دیا تھا۔ اِس لیکچر میں انھوںنے واضح طورپر کہا کہ دوسری تمام مذہبی شخصیتیں مائتھالاجکل فیگر (mythological figure) کی حیثیت رکھتی ہیں، اِس عموم میں صرف ایک استثناء ہے، اور وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ اِس بات کا ذکر کرتے ہوئے، انھوںنے اپنے تحریری لیکچر میںیہ تاثر سے بھرا ہوا جملہ کہاتھا:
Oh, what a relief to find, after all, a truly historical Prophet to believe in.
جدید حنفاء
جس طرح قدیم عرب میں حنفاء پیدا ہوئے تھے، اسی طرح موجودہ زمانے میں بھی بہت سے حنفاء پیدا ہوئے۔ یہ جدید حنفاء وہ لوگ تھے جو تعصبات سے آزاد ہو کر امکانی طورپر اسلام کی صداقت کا اعتراف کرنے کے لیے تیار تھے۔ اِس قسم کی مثالیں موجود ہ زمانے میں کثرت سے سامنے آئیں۔ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے یہاں اِس نوعیت کی چند مثالوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
اسکاٹ لینڈ کے ٹامس کارلائل (وفات: 1881 ) ایک مشہور انگریزی مصنف اور مورخ ہیں۔ ان کی مختلف کتابیں ہیں۔ اُن میں سے ایک کتاب کا نام یہ ہے:
On Heroes, Hero-Worship (1841)
ٹامس کارلائل نے اپنی اِس کتاب میں پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا ہے اور ان کو تمام پیغمبروں کا ہیرو بتایا ہے۔
مشہور لبنانی پروفیسر فلپ ہٹی (وفات: 1978) نے اپنی کتاب تاریخِ عرب (History of the Arabs) میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں لکھا ہے کہ دوسرے پیغمبروں کے برعکس، محمد تاریخ کی مکمل روشنی میں پیداہوئے:
Muhammad was born withing the full light of history (p.111)
فرانس کے ڈاکٹر مورس بوکائی (پیدائش: 1920 ) نے عربی زبان سیکھی اور قرآن کا مطالعہ کیا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ تمام مذہبی یا الہامی کتابوں میں قرآن واحد کتاب ہے، جس کی صداقت جدید سائنسی معیار پر پوری اترتی ہے۔ اِس موضوع پر انھوںنے ایک مستقل کتاب لکھی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
The Bible, the Quran and Science
امریکا کے ڈاکٹر مائکل ہارٹ (پیدائش:1932 ) نے 572 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم کتاب تیار کی۔ یہ کتاب 1991 میں پہلی بار چھپی۔ اِس کتاب میں مصنف نے تاریخ کے ایک سو ایسے افراد کے حالات لکھے ہیں، جنھوںنے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ایک سو ایسے کامیاب ترین افراد کی فہرست میں انھوں نے نمبر ایک پر جس کا نام درج کیا ہے، وہ پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ اس کتاب کا نام یہ ہے:
The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History
انڈیا کے ایک مؤرخ مسٹر ایم این رائے (وفات: 1954 ) نے اسلام پر ایک کتاب شائع کی ہے۔ اس کا نام ہے— اسلام کا تاریخی رول (The Historical Role of Islam) ۔ یہ کتاب پہلی بار 1939 میں چھپی۔ مصنف نے پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے لائے ہوئے انقلاب کا ذِکر ان الفاظ میں کیا ہے— تمام معجزوں میں سب سے زیادہ بڑا معجزہ:
The Most Miraculous of all Miracles. (p. 4)
اِس طرح کے حنفاء جدید دور میں بڑی تعداد میں پیدا ہوئے۔ اُن میں بہت سے ایسے لوگ تھے جنھوں نے واضح طورپر مذکورہ قسم کا اعتراف کیا۔ اِن کے علاوہ اِس گروہ میں بہت سے ایسے لوگ بھی نکلے جنھوں نے بطور خود قرآن کا ترجمہ پڑھ کر باقاعدہ اسلام قبول کرلیا۔ مثلاً ہنگری کے ڈاکٹرعبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے لیو پولڈ محمد اسد، برطانیہ کے محمد مارما ڈیوک پکتھال، اور لارڈ ہیڈلے فاروق، وغیرہ۔
جدید سائنسی دور نے موجودہ نسلوں کے اندر ایک نیا ذہن پیدا کیا، جو عین اسلام کے موافق تھا۔ وہ ہے روحِ تجسس (spirit of inquiry)۔انگلش فلسفی برٹرینڈ رسل (وفات: 1970 ) نے خاص اِسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے— وِل ٹو ڈاؤٹ (Will To Doubt)۔ اِس طرح کی کتابوں کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جدید ذہن کی نمایاں صفت یہ ہے کہ سائنس کی ڈی کنڈیشننگ کے ذریعے لوگوں کا روایتی فکر ختم ہوگیا۔ وہ یہ چاہنے لگے کہ چیزوں کو تاریخی اور سائنسی معیار پر جانچ کر وہ اس کی سچائی کو جانیں اور پھر اس کو قبول کریں۔
موجودہ زمانے کا یہ ذہنی انقلاب عین اسلام کے حق میں تھا۔ کیوں کہ تمام مذاہب میں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو کامل طورپر محفوظ مذہب کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوسرے تمام مذاہب تبدیلی کا شکار ہوکر علمی اور تاریخی اعتبار سے غیر مستند بن چکے ہیں۔ اِس بنا پر جدید ذہن کے لیے مذہبوں کے درمیان صرف ایک ہی چوائس باقی رہا ہے، یہ اسلام کا چوائس ہے جو استثنائی طورپر الہامی مذہب کے مستند متن (authentic version) کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس طرح جدید تاریخ میں دوبارہ عین وہی صورتِ حال پیدا ہوگئی ہے جو ساتویں صدی عیسوی کے آغاز میں عرب میں تھی، یعنی انسانوں کے ایک ایسے گروہ کا وجود میں آجانا جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کی بنا پر غیر شعوری اعتبار سے اسلام کے قریب آچکا ہے۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ آج کے انسان کے اِس لاشعور کو شعور میں تبدیل کیا جائے۔ ایک سفر میں ایک جاپانی اسکالر نے مجھ سے کہا کہ جاپانی لوگ بالقوّہ مسلمان ہیں:
Japanese are potentially Muslims.
میں کہوں گا کہ موجودہ زمانے میں تمام انسان بالقوہ طورپر مسلم بن چکے ہیں۔ اب ضرورت صرف یہ ہے کہ جدید سائنسی معیار پر اسلامی دعوت کا کام کیا جائے اور اِس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنایا جائے۔ اِسی جدید نسل سے وہ لوگ نکلیں گے جو خدائی سچائی کو پہچانیں اور اس کا اعتراف کرکے وہ جماعت بنائیں، جس کو حدیث میں ’اخوان رسول‘ کہاگیا ہے۔
اخوانِ رسول کا یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں۔ یہ اُسی طرح ایک معلوم تاریخی واقعہ ہوگا، جس طرح اصحابِ رسول کا معاملہ ایک تاریخی واقعے کی حیثیت رکھتا ہے۔اصحابِ رسول کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پیغمبرانہ اسلوب پر ایک دعوتی عمل کے ذریعے وجود میں آئے تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں بھی پیغمبرانہ اسلوب پر ایک دعوتی عمل درکار ہے، جس کے ذریعے نئی نسل کے لوگ خدائی سچائی کو دریافت کرکے وہ گروہ بنیں گے، جس کو حدیث میںاخوانِ رسول کہاگیا ہے۔
عظیم ترین شہادت
حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم (کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال) میں چند روایتیں آئی ہیں۔ اِن روایتوں میں بتایا گیا ہے کہ تاریخ کے آخری دور میں ایک دجّالی زمانہ آئے گا، یعنی پُر فریب نظریات اور توجیہات کا زمانہ۔ لوگوں کی بڑی تعداد اُس سے مسحور ہوجائے گی۔ اُس وقت ایک شخص اٹھے گا جس کے لیے حدیث میں ’’رجلٌ ہو خیرا لناس‘‘ اور ’’رجل من المؤمنین‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ شخص اُس وقت کے دجالی فتنے کا مقابلہ کرکے اس کا خاتمہ کرے گا۔ اور سچائی کا اظہار اِس طرح کرے گا کہ لوگ دجّالی فتنے سے باہر آکر سچائی کو پہچان سکیں۔ یہ تاریخِ دعوت کا ایک عظیم معاملہ ہوگا۔ اِسی بنا پر اس کو حدیثِ رسول میں: أعظم النّاس شہادۃً عند ربّ العالمین سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی خدا وند ِ عالم کے نزدیک لوگوں کے سامنے حق کی عظیم ترین شہادت ۔
عظیم ترین شہادت سے مراد، حق کا عظیم ترین اظہار ہے۔ حق کا یہ اظہار خود علمِ انسانی کی سطح پر ہوگا، جس کو سائنسی دور نے پہلی بار ممکن بنا دیاہے۔ یہی وہ عظیم دعوتی واقعہ ہے جس کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر41 میں اِس طرح کیاگیا ہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق و فی أنفسہم حتی یتبین لہم أنّہ الحق (حٰمٓ السجدۃ: 53) یعنی آئندہ ہم لوگوں کو اپنی نشانیاں (signs) دکھائیں گے، آفاق میںبھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر پوری طرح کھل جائے گا کہ یہ حق ہے۔
مذکورہ حدیث کو سامنے رکھ کر اِس معاملے پر غور کیجیے۔ اِس سے معاملے کی جو تصویر بنتی ہے، وہ یہ ہے کہ جس طرح اسلام کے دورِ اوّل میںدعوتی عمل کیا گیا اوراس کے نتیجے میںایک عظیم واقعہ پیش آیا، ٹھیک وہی حالات آج دوبارہ پیدا ہوچکے ہیں۔ اور زمانی فرق کی رعایت کرتے ہوئے آج دوبارہ اُسی عمل کو دہرایا جائے گا اور پھر اس کا وہ مطلوب نتیجہ ظاہر ہوگا جس کی پیشگی خبر حدیثِ رسول میں دی جاچکی ہے، یعنی بصیرتِ زمانہ کا حامل ایک شخص اٹھے گا۔ اس کو خدا کی خصوصی نصرت حاصل ہوگی۔ وہ زمانے کی مکمل رعایت کرتے ہوئے پیغمبرانہ اسلوب پر دعوتی عمل جاری کرے گا۔
اِس دعوتی عمل کے نتیجے میںیہ ہوگا کہ ایک طرف، وقت کے پُر فریب نظریات کا پردہ چاک ہوجائے گا اور لوگ سچائی کو بے نقاب حالت میں دیکھ سکیں گے۔ دوسری طرف، یہ ہوگا کہ بہت سے وہ افراد جو حق کے متلاشی بنے ہوئے تھے اور اپنے سائنسی ذہن کی سطح پر، سچائی کی معرفت حاصل کرنا چاہتے تھے، اُن کو یہ معرفت حاصل ہوگی۔ اِس طرح اللہ ولیّ الذین آمنوا یُخرجہم من الظلمات إلی النّور (البقرۃ: 257 ) کا واقعہ دوبارہ تاریخ میں ظاہر ہو کر سامنے آجائے گا۔
یہی وہ گروہ ہے جس کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیاگیا ہے۔ یہ لوگ تاریخِ دعوت کا آخری حصہ ہوں گے۔ جدید ذرائع کو استعمال کرکے وہ عالمی سطح پر کلمۂ اسلام کو ہر گھر میں داخل کردیں گے۔ اِس کے بعد تاریخِ بشری کا پہلا دور ختم ہوجائے گا اور پھر تاریخِ بشری کا وہ دوسرا دور ہوگا، جب کہ تمام انسان خدا وند ِ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے، تاکہ وہ اپنے ابدی انجام کے بارے میں خدائی عدالت کا فیصلہ سن سکیں۔ ایسا بہر حال ہوگا، اور اب ایسا ہونے میں زیادہ دیر نہیں۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی ، ناکام خاتمہ

ایک مغربی ملک کے ایک آدمی کو دولت کمانے کا شوق تھا۔ اس کا خیال تھا کہ دولت کے ذریعے وہ زندگی کی تمام خوشیاں حاصل کرسکتا ہے۔ اُس نے کافی دولت کمائی۔ اس نے اپنے لیے ایک شان دار گھر بنایا۔ ہر طرح کی راحت اور عیش کے سامان اپنے گرد اکھٹا کیے، لیکن حقیقی خوشی اس کو حاصل نہ ہوسکی، یہاں تک کہ وہ بوڑھا ہوگیا۔ اس کی جسمانی طاقت ختم ہوگئی، وہ بستر پر پڑگیا۔ اپنی زندگی کے اِس آخری زمانے میں اُس نے اپنی ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Now, I am 90 plus, bedridden. My story can be sum up in these two words— successful life, unsuccessful end.
یہی اُن تمام لوگوں کی کہانی ہے جن کو لوگ اچیور، یا سُپر اچیور کہتے ہیں۔ بڑی بڑی کامیابیوں والے اِس دنیا میں صرف چھوٹی خوشی حاصل کرتے ہیں اور آخر کارمایوسی کے ساتھ وہ اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ اتنا عام ہے کہ اِس میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثنا نہیں۔
انڈیا میں اعلیٰ کامیابی حاصل کرنے والوں میں سے ایک مشہور نام لَتا منگیشکر کا ہے۔ وہ اب 80 سال کی ہوچکی ہیں۔ ان کو اپنی زندگی میں وہ تمام چیزیں ملیں جن کی لوگ حرص کرتے ہیں۔ دولت، شہرت، مقبولیت اور اعلیٰ خطابات، وغیرہ۔ انھوںنے عالمی سطح پر شاپنگ کی۔ بہت زیادہ جیولری اور جواہرات حاصل کیے۔ ہر وہ چیز اُن کے پاس ہے جس کی دنیا پرست لوگ تمنا کرتے ہیں۔ لیکن عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر وہ محسوس کرتی ہیں کہ انھوں نے جو کچھ چاہا تھا، وہ اُن کو نہیں ملا۔
نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (30 ستمبر 2007 ) میں لتا منگیشکر کا ایک انٹرویو چھپا ہے۔ انٹرویور کا نام سُدیشنا (Sudeshna Chatterjee) ہے۔ اِس انٹرویو کے مطابق، لتا منگیشکر تمام ظاہری کامیابیوں کے باوجود افسردگی کے احساس (dejected feeling) میں جیتی ہیں۔ یہ انٹرویو اخبارکے ضمیمہ (Times Life) میںاِس عنوان کے تحت چھپا ہے— میرے خواب کبھی پورے نہیں ہوئے:
‘My dreams have never got fulfilled’.
انٹرویو ر نے لتا منگیشکر سے پوچھا کہ اگر خدا اُن سے پوچھے کہ عمر کے اِس حصے میں پہنچ کر ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہوگی۔ انھوں نے کسی وقفے کے بغیر فوراً جواب دیا کہ— میری صرف یہ خواہش ہوگی کہ میں اِس دنیا کو چھوڑ کر چلی جاؤں:
I would like to leave this world. (p. 3)
کامیاب انسانوں کی اِس ناکام کہانی میں ہر عورت اور مرد کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ وہ یہ کہ جس پُر مسرت زندگی کو حاصل کرنے کے لیے وہ اپنی ساری عمر لگا دیتے ہیں، وہ اِس دنیا میں سِرے سے قابلِ حصول(achievable) ہی نہیں۔
تمنّا کا ہونا، مگر تمنا کے حصول کا فُقدان ایک عظیم حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے، وہ یہ کہ آدمی جس چیز کو قبل از موت (pre-death period) دنیا میں پانا چاہتا ہے، اس کو خالقِ کائنات نے بعداز موت (post-death period) دنیا میں رکھ دیا ہے۔
ایسی حالت میں سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو بعد از موت دنیا میں کامیابی کا مستحق بنائے۔ وہ موجودہ عارضی زندگی کو بعد کی ابدی زندگی کی تیاری میں لگا دے۔
انسان پیدائشی طورپر معیار پسند (idealist) ہے، لیکن موجودہ دنیا میں ہر چیز معیار سے کم (less than ideal) حالت میں پائی جاتی ہے۔ یہی لوگوں کے ٹنشن (tension) کا اصل سبب ہے۔ انسان اپنی پوری توانائی صرف کرکے جو کچھ حاصل کرتا ہے، وہ ہمیشہ اس کے اپنے مطلوب معیار سے کم ہوتا ہے۔
طلب اور مطلوب کے درمیان اِس فرق کو جاننا ہی سب سے بڑی دانش مندی ہے۔ جو آدمی اِس فرق کو جانے، وہ اپنے عمل کی حقیقت پسندانہ منصوبہ بندی کرے گا، اور پھر کامیابی کی منزل تک پہنچ جائے گا۔ ایسا انسان کبھی ٹنشن میں جینے ولا انسان نہیں ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

گنہ گار شخصیت، کم زور شخصیت

مطلوب شخصیت وہ ہے جو اعلیٰ انسانی اَوصاف کی حامل ہو، جو اصول پسند ہو، جو اخلاقی اقدار پر قائم ہو، جس کے اندر مثبت نفسیات پائی جاتی ہو، جس کے دل میں سارے انسانوں کے لیے محبت ہو، جس کے اندر اعتراف کا جذبہ پایا جاتا ہو، جو قابلِ پیشین گوئی کردار (predictable character) کا حامل ہو۔ ایسا ہی انسان حقیقی معنوں میں وہ انسان ہے جس کو مطلوب انسان کہا جاسکے۔
اِس کے بعد وہ لوگ ہیںجو انسانی پہلو سے گراوٹ کا شکار ہوں۔ ایسے افراد کی دو قسمیںہیں— گنہ گار شخصیت، اور کم زور شخصیت۔ گنہ گار شخصیت سے مراد وہ شخصیت ہے جو جھوٹ پربنے۔ جس کے اندر استحصال (exploitation) کا مزاج ہو۔ جو اپنے ذاتی مفاد (interest) کے سوا کسی اور چیز کو نہ جانتا ہو۔ جو اپنی ذاتی بڑائی کے خول میںجینے والا انسان ہو۔
کم زورشخصیت (weak personality) دراصل منافق شخصیت کا دوسرا نام ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اندر سے کچھ ہوںا و باہر سے کچھ۔ جو بناوٹی باتیں کرکے دوسروں کو دھوکے میں رکھیں۔ جن کے کہنے اور کرنے میںیکسانیت نہ ہو۔ جن کے سامنے ذاتی مفاد کے سوا کوئی اور اصول نہ ہو۔
اِس دنیا میں کسی آدمی کے لیے حاصل کرنے کی سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ انسانی شخصیت کی پرورش کرے۔ یہی لوگ حقیقی انسان کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God)کے مطابق، مطلوب انسان کہے جاسکتے ہیں۔
اس کے برعکس، جو لوگ جھوٹ میںجیتے ہوں، جو اپنے مادّی مفاد کے لیے ہر اصول کو توڑنے کے لیے تیار ہوں، جن کا واحد مقصد اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنا ہو، نہ کہ انسانیتِ عامہ کے لیے کام کرنا، ایسے لوگ خدا کی زمین پر ایک بوجھ (liability) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ خالق کی مطلوب شخصیت وہ ہے جو اپنے کردار کے اعتبار سے، مضبوط شخصیت (strong personality) ہو، نہ کہ کم زور شخصیت(weak personality)۔
واپس اوپر جائیں

کم پر راضی ہونا

اِس دنیا میں کامیابی کا سادہ اصول صرف ایک ہے— کم پر راضی ہوجاؤ، تاکہ تم زیادہ کو پاسکو۔ اِس دنیا میں زیادہ چاہنے والے کو کم ملتا ہے، اور جو کم چاہے، وہ زیادہ پانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ اِس دنیا کے لیے یہ ایک ایسا عام اصول ہے جس میں غالباً کوئی استثنا نہیں۔
عالمِ فطرت میںہر چیز کے نمونے موجود ہیں۔ اِسی طرح کامیابی کے مذکورہ اصول کا نمونہ بھی یہاںموجود ہے۔ یہ نمونہ درخت کا نمونہ ہے۔ درخت کیا ہے۔ درخت ایک بیج سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہ اپنے تنا، اپنی شاخوں او راپنی پتیوں کے ساتھ ایک بڑا درخت بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ فطرت میں یہ نمونہ اِس لیے ہے، تاکہ انسان اُس سے سبق لے اور اِس فطری اصول کو اختیار کرتے ہوئے وہ اپنی زندگی کی تعمیر کرے۔اِسی فطری حقیقت کو ایک شاعر نے اِن الفاظ میں نظم کیا ہے:
اگر کچھ مرتبہ چاہے تو اِس ہستی کو باطل کر
کہ دانا بارور ہوتا ہے پہلے خاک میں مل کر
ہر انسان اپنے اندر غیر معمولی امکانات (potentials) لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ امکانات کسی انسان کے لیے گویا بہ منزلہ بیج ہیں۔ جو انسان اپنے اندر چھپے ہوئے اِس امکان کو جانے اور اُس کو دانش مندانہ طورپر بروئے کار لانے کی کوشش کرے، اُس کے لیے کامیابی اتنا ہی یقینی بن جاتی ہے، جتنا کہ ایک اچھے بیج کو زمین میں ڈالنے کے بعد اُس کا ہرے بھرے درخت کی صورت میں تبدیل ہونا۔
ایک بیج قانونِ فطرت کی مدد سے درخت بنتا ہے۔ اِسی طرح ایک انسان اپنے فطری امکانات کے دانش مندانہ استعمال سے اعلیٰ کامیابی حاصل کرتا ہے۔ درخت کی صور ت میں جو کام فطرت کا قانون کرتا ہے، انسان کی صورت میں وہی کام اس کی اپنی عقل انجام دیتی ہے، بشرطیکہ انسان اپنی عقل کو صبر اور حکمت کے ساتھ استعمال کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

خود ساختہ منطق

ایک انگریزی کتاب نظر سے گزری۔ وہ 2007 میں بمبئی سے چھپی ہے۔ وہ 391 صفحات پر مشتمل ہے۔ اِس کتاب کا نام یہ ہے— کامیابی کا قانون :
Law of Success For Both the Worlds.
اِس کتاب کے باب (chapter) نمبر چار میں فلسطینی لیڈر شیخ احمد یاسین کو ماڈل کے طورپر پیش کیا گیا ہے(صفحہ 16 )۔ وہ نوجوانی کی عمر میں ایک حادثے کی بنا پر چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے۔ وہ وھیل چیر (wheel chair) پر رہتے تھے۔ وہ اپنی جوشیلی تقریروں کے ذریعے فلسطینی نوجوانوں کو ابھارتے تھے کہ وہ اسرائیل کے خلاف جنگ کریں۔ مگر اِس جنگ میں فلسطینیوں کو یک طرفہ نقصان کے سوا اور کچھ حاصل نہیںہوا۔ اسرائیل نے شیخ یاسین کو پہلے جیل میں قید کیا۔ جب وہ قید سے چھوٹے تو پھر انھوںنے اسرائیل کے خلاف اپنی لفظی جنگ جاری کردی۔ آخر کار اسرائیل نے ان کو 22 مارچ 2004 کوگولی مار کر ہلاک کردیا۔
مصنف نے اِس واقعے کو کامیابی کے قانون کے تحت بطور ماڈل پیش کیا ہے۔ حالاں کہ صحیح بات یہ ہے کہ اِس واقعے کو ناکامی کے قانون کے تحت بطور ماڈل پیش کیا جائے۔ کامیابی کی جدوجہد، مواقع (opportunities) کو مثبت طورپر استعمال کرنے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ مفروضہ دشمن سے لڑکر اپنی جان دینے کے لیے۔
اِس دنیا میں زندگی کا معاملہ ایک امتحان کا معاملہ ہے۔ اِس دنیا میں ہمیشہ مختلف قسم کے اَحوال موجود رہتے ہیں۔ اِس دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ وقت کے حالات کا گہرا مطالعہ کیا جائے ۔ موافق مواقع کو دریافت کیا جائے اور پھر پُر امن منصوبہ بندی کے ذریعے اِن مواقع کو استعمال کیا جائے۔ اِس دنیا میں کامیابی ہمیشہ مواقع کو استعمال کرنے کا نام ہوتی ہے، نہ کہ جذباتی طور پر مفروضہ دشمن سے ٹکرا کر اپنے آپ کو ہلاک کرنے کا نام۔
واپس اوپر جائیں

محبت اور نفرت

ایک مغربی مصنف لینس آرم اسٹرانگ (Lance Armstrong) کی ایک کتاب چھپی ہے۔ یہ کتاب اسپورٹس اور اس کے شائقین کے بارے میں ہے۔ اِس کتاب کا فرانسیسی نام یہ ہے:
Tour de France.
کتاب کے مصنف نے بتایا ہے کہ اسپورٹس کے شائقین کی یہ نفسیات ہے کہ وہ اپنی قوم کے جیتنے والوں سے جذباتی طورپر محبت کرتے ہیں، اور اگر وہ ہار جائیں تو اسی شدت کے ساتھ وہ اُن سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ اس قسم کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے لکھا ہے کہ — عوام یا تو آپ سے محبت کرتے ہیں یا آپ سے نفرت۔ اِس معاملے میں ان کے یہاں کوئی درمیانی حالت نہیں:
Either the public loves you or hates you. There is no such thing as a happy middle ground.
عوامی نفسیات کے بارے میں یہ بیان بالکل درست ہے۔ عام لوگ محبت اور نفرت دونوں کے معاملے میں سخت جذباتی واقع ہوئے ہیں۔ یہ بلاشبہہ ایک تباہ کن عادت ہے۔ صحیح یہ ہے کہ محبت اور نفرت کو عقل کے تابع کیاجائے، نہ کہ جذبات کے تابع۔
حدیث میںآیا ہے کہ دوستی کرو تو اعتدال کے ساتھ کرو، شاید تمھارا دوست کبھی تمھارا دشمن بن جائے۔ اور دشمنی کرو تو اعتدال کے ساتھ کرو، شاید تمھارا دشمن کبھی تمھارا دوست بن جائے (أحبب حبیبک ہونًا ما، عسیٰ أن یکون بغیضک یوماً ما۔ وأبغض بغیضک ہونا ما، عسیٰ أن یکون حبیبک یوماً ما) الترمذی، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب۔
یہ ایک نہایت حکیمانہ ہدایت ہے۔ دنیا میں دوستی اور دشمنی دونوں عارضی چیزیں ہیں۔ اِس معاملے میں ضروری ہے کہ آدمی اعتدال پسندی کا رویہ اختیا رکرے، نہ کہ انتہا پسندی کا رویہ۔ اعتدال پسندی کا رویہ ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے، اور انتہا پسندی کا رویہ ہمیشہ مہلک نتیجے کا سبب بنتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جنون درکار ہے

ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک ہندستانی نوجوان سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میں آپ کا ماہ نامہ الرسالہ باقاعدہ پڑھتا ہوں۔ اُس سے مجھ کو زندگی کا نیا شعور ملا ہے۔ الرسالہ کے مطالعے سے میرے اندر یہ جذبہ پیدا ہوا کہ میں انگریزی زبان سیکھوں۔ چناں چہ میں نے انگریزی زبان سیکھنے کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ آپ مجھے بتائیں کہ میںاس مقصد کے لیے کون سی ڈکشنری استعمال کروں۔ میں نے جواب دیا— ڈکشنری آف جنون۔
یہ بات نہ صرف کسی نئی زبان کو سیکھنے کے لیے ضروری ہے، بلکہ وہ ایک عام فطری اصول ہے۔ کوئی بھی اعلیٰ مقصد مجنونانہ کوشش چاہتا ہے۔ مجنونانہ کوشش کے بغیر کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنا ممکن نہیں۔
مجنونانہ کوشش کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو مکمل طور پر مقصد کے حصول میںلگادے۔ وہ کسی بھی عذر (excuse) کو عذر نہ سمجھے، کوئی بھی چیز اُس کو اپنے طے شدہ راستے سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو۔ اُس کے دماغ میں اگر کوئی خیال ایسا آئے جو اس کے طے شدہ مقصد کے خلاف ہو، تو وہ اس کو لڑ کر اپنے ذہن سے نکال دے۔
کامیابی کا فارمولا صرف دو ہے— صحیح مقصد، اور اس مقصد کے لیے مسلسل جدوجہد۔ جو آدمی اِن شرطوں کو پورا کرے، وہ لازماً اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائے گا۔ کامیابی کے سفر کا بنیادی فارمولا یہی ہے۔ دوسری چیزیں جومطلوب ہیں، وہ اپنے آپ اس میں شامل ہوتی جاتی ہیں۔
جنون کا مطلب ہے اپنے آپ کو اپنے مقصد کے لیے وقف (dedicate) کردینا۔ جو آدمی اپنے وقت اور اپنی توانائی کو مختلف کاموں میں تقسیم کیے ہوئے ہو، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑاکام لازمی طورپر ڈیڈی کیشن (dedication) چاہتا ہے، یعنی پوری یک سوئی کے ساتھ ایک متعین نشانے کے لیے جدوجہد۔ اِس یک سوئی میں دوسرے پہلوؤں کا نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے، لیکن اِسی برداشت میں بڑی کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
محترم جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ اللہ تعالی کا ہزار شکر و احسان ہے کہ ہم سبھی احباب بعافیت ہیں۔ امید کرتا ہوں حضرت والا بھی بعافیت ہوں گے۔ ماہ نامہ الرسالہ (جنوری ،فروری، مارچ 2008 ) ایک ساتھ دستیاب ہوا۔ الحمد للہ مدرسے کے اساتذہ کرام اور طلبہ کو بھی الرسالہ سے پورا فائدہ حاصل ہورہا ہے اور قرب و جوار میں رہنے والے دینی شوق رکھنے والے دوستوں کو بھی۔ آپ کی توجہات کا شکریہ کہ آپ نے اس لائق سمجھا اور مدرسے کے نام الرسالہ جاری فرمادیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر عظیم سے نوازے، آمین۔ ملکی حالات کافی کشیدہ ہیں۔ دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ملک میں دستور سازی کا الیکشن ہونے والا ہے۔ مسلمانوں کی شمولیت اچھی ہو اور مسلمانوں کے حق میں بھی ضابطے بنیں، ابھی تک تو مسلمان دستور کے اعتبار سے ملک میں برائے نام ہیں۔ بس دعاء اور رہ نمائی کی درخواست ہے (مولانا محمد حسین خاںندوی، مدرسہ حرمین ، نیپال)۔
جواب
ماہ نامہ الرسالہ میںمسلسل طورپر جو ذہن دیا جاتا ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ہم کسی ملک کو اِس لحاظ سے نہیں دیکھتے کہ مسلمان وہاں اکثریت میںہیں یا اقلیت میں۔سیاسی اعتبار سے وہاں کے ماحول میں کشیدگی ہے، یا کشیدگی نہیں ہے، یا یہ کہ دستور اور قانون میں مسلمانوں کو کیا حقوق دیے گیے ہیں، اور کیا حقوق نہیں دیے گئے ہیں۔ یہ سب باتیں ہمارے نزدیک اضافی (relative) ہیں۔
اصل قابلِ لحاظ بات یہ ہے کہ ہر ملک انسانوں کا ملک ہے۔ ہر ملک میںفطری طورپر مسائل ہوتے ہیں، خواہ وہ نام نہاد مسلم ملک ہو، یا غیر مسلم ملک۔ اِسی طرح ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ کسی کو اس کے حقوق، دستور اور قانون کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ کسی کو اُس کا حق خود اپنی ذاتی استعداد کی بنیاد پر ملتا ہے، نہ کہ کسی کے عطیہ کی بنیاد پر۔
کسی نقطۂ نظر کے درست ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ آدمی کے اندر نہ احساسِ برتری (superiority complex)پیدا کرے، اور نہ وہ احساسِ کم تری (inferiority complex) پیدا کرنے کا سبب بنے۔ اور مذکورہ نقطہ نظر اِس معیار کے اوپر کامل طورپر پورا اترتا ہے۔ احساسِ برتری اور احساسِ کم تری دونوں یکساں طور پر مہلک ہیں۔ مذکورہ نقطہ نظر،انسان کو اِن دونوں برائیوں سے بچانے کا واحد ذریعہ ہے۔ہمارا ماننا ہے کہ آدمی کو خدا کے اعتماد پر جینا چاہیے، نہ کہ سیاسی اور سماجی حالات کے اعتبار پر۔ سیاسی اور سماجی حالات خواہ کچھ ہوں، لیکن جس آدمی کو خدا پر حقیقی اعتماد ہو، وہ ہر حال میںیکساں طورپر مثبت نفسیات کا مالک بنا رہے گا۔ اس کی شخصیت کی تشکیل، اس کی اپنی داخلی سوچ کی بنیاد پر ہوتی ہے، نہ کہ خارج میں پائی جانے والی کسی موافق یا غیر موافق صورتِ حال کی بنیاد پر۔
سیاسی، یا غیر سیاسی مسائل چوں کہ بظاہر کچھ انسانوں کی طرف سے پیش آتے ہیں، اِس لیے لوگ ان کو انسان کا پیدا کردہ مسئلہ سمجھ لیتے ہیں اور اس کے خلاف نفرت اور تشدد کا ہنگامہ شروع کردیتے ہیں۔ مگر یہ بلا شبہہ ایک مہلک قسم کی غلط فہمی ہے۔ یاد رکھیے، ہر مسئلہ، خواہ وہ سیاسی ہو، یا غیر سیاسی، وہ ہمیشہ نظامِ فطرت کا ایک حصہ ہوتا ہے، نہ کہ محض کسی انسان کا ظلم، یا اس کی سازش۔
موجودہ زمانے کے مسلمان، اُن کے بڑے اور چھوٹے، سب زندگی کے اِس راز سے بے خبر ہیں۔ اِسی کا یہ نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان دوسروں کے خلاف نفرت اور شکایت میں جی رہے ہیں۔ موجودہ زمانے کا شاید ہی کوئی مسلمان ہو جو نفرت اور شکایت کی نفسیات سے خالی ہو۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اِس منفی نفسیات سے اپنے کو پاک کریں۔ جب تک ایسا نہ ہو، مسلمانوں کے اوپر سعادت کے دروازے بند رہیں گے، جیسا کہ اِس وقت وہ ان کے اوپر بند ہیں۔ یہ بظاہر ایک تلخ حقیقت ہے، لیکن اِس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنے ہی میں مسلمانوں کے لیے تمام بھلائیوں کا راز چھپا ہوا ہے۔
اِس معاملے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ شکایت، شکر کی قاتل ہے۔ جو آدمی شکایت کی نفسیات میںمبتلا ہو، وہ کبھی حقیقی شکر کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا کی نصرتیں صرف شکر کرنے والے بندوں کے لیے مقدر ہیں۔ شکر نہیں تو نصرت بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز— 186

1 - 28 فروری 2008 کو 24 افراد پر مشتمل ایک وفد اسلامی مرکز میںآیا۔ اس نے ’’اسلام اور صوفی ازم‘‘ کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا خطاب سنا۔ اس وفد کے ذمے دار کاایک تاثراتی خط یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Dear Maulana Wahiduddin Khan!
The group were so blest to have heard your speach and I know the African brothers would love to have you with them in their country. Your presence and your lived peace “spoke” louder than your words to them. Thank you and your lovely family for such hospitality. Truly the group have left with a whole new concept of 'Islam' and with a big question: “Why no one else can grasp the message as you did”. With our thanks and very warm regards and hope for your continued sharing,. (Gloria Bunett, America, March 13, 2008)
2 - سرودھرم سنسد (Parliament of Religions) کا پہلا کنونشن 29 مارچ 2008 کو ہوا۔ اس کی کارروائی نئی دہلی کے کانسٹی ٹیوشنل کلب میں انجام پائی۔ یہ کنونشن ہر قسم کے سماجی بھید بھاؤ (discrimination) کے خلاف تھا، خواہ وہ جس بنیاد پر بھی ہو۔ اِس کنونشن میں سوامی اگنی ویش، فادر تھمپواور دوسرے مذہبی رہ نما شریک ہوئے۔ اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے اِس کنونشن کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کو دعوت نامہ ملا تھا، لیکن وہ کسی وجہ سے ذاتی طورپر اس میں شریک نہ ہوسکے۔ تاہم کنونشن کے ذمہ داروں کی درخواست پر صدر اسلامی مرکز نے ایک تحریر ان کو بھیج دی، جو کہ کنونشن کے موقع پر وہاںپیش کی گئی۔
3 - 30مارچ 2008 کو انگلینڈ کے دو اعلیٰ تعلیم یافتہ صاحبان اسلامی مرکز میںآئے۔ ان کے نام یہ ہیں:
Sir Mark Tully
Dr. Richard Cheetham
(Bishop of Kingston, U.K.)
اِن لوگوں نے صدر اسلامی مرکز سے اسلام کے مختلف موضوعات پر تفصیل کے ساتھ گفتگوکی۔ مثلاً یہ کہ مسلمان اِس وقت جن مسائل سے دوچار ہیں، ان کا اسلام کے مطابق کیاحل ہے۔ جدید بدلے ہوئے حالات میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان بہتر تعلق قائم کرنے کے لیے اسلام کی تعلیم کیا ہے۔ ہمارا مشن مسلمانوں کے لیے اور غیرمسلموں کے لیے کیا کام کررہا ہے۔ تمام سوالات کا جواب تفصیل کے ساتھ دیاگیا۔ ان لوگوں نے آخر میں اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ملاقات ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔
4 - این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے 2 اپریل 2008 کو اپنے ایک پروگرام کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ریکارڈکیا۔ انٹرویور کا سوال یہ تھا کہ اسلام میں ری برتھ (re-birth) یا ری انکارنیشن (reincarnation) کا تصور کیا ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کے تصور کے مطابق، برتھ اور ری برتھ دونوں ایک ایک بار ہیں۔ موت کے بعد آدمی اگلی دنیا میں چلا جاتا ہے۔ وہ دوبارہ موجودہ دنیا میں واپس نہیںآتا۔ موت کے بعد کی دنیا میںآدمی کے عمل کے مطابق، اس کے انعام یا اس کی سزا کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ یہ سوال وجواب انگریزی زبان میں تھا۔
5 - سی پی ایس انٹرنیشنل اور گڈ ورڈ کی طرف سے 5 اپریل 2008 کو انڈیاانٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں بڑی تعداد میں ہندواور مسلمان دونوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہ پروگرام صدر اسلامی مرکز کی تقریر کے لیے کیا گیا تھا۔ اِس کا عنوان یہ تھا:
The Message of the Prophet Muhammad.
ایک گھنٹے کی تقریر میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ابدی پیغام کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی۔ مثلاًتوحید، عالمی اخوت، امن اور انسانی ہمدردی، وغیرہ۔ لوگوں نے اس کو بہت پسند کیا۔ اِس موقع پر تمام آنے والوں کو اسلامی لٹریچر بھی دیا گیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔
6 - محترم المقام مولانا وحید الدین خاں صاحب حفظہ اللہ تعالیٰ! السلام علیکم ورحمۃاللہ۔ امید کہ مزاج گرامی ہر طرح بخیر و خوبی ہوں گے۔ ’’الرسالہ‘‘ ہر ماہ نظر نواز ہوتا ہے، خرید کر پڑھتا ہوں۔ آپ کی تحریروں نے مجھے ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ مجھ ٹوٹے ہوئے انسان کو بنانے، سنبھالنے اور سنوارنے میں، بلکہ مجھ میںایک نیا انسان پید کرنے میں آپ کے توانا قلم کا غیر معمولی رول رہا ہے۔ ان حقائق کا اظہار میں نے آپ کی خدمت میں پہلے بھی کیا ہے، آج بھی کررہا ہوں اور آئندہ بھی کرتا رہوں گا۔ جامعہ دار السلام عمر آباد سے ایک ماہ نامہ گزشتہ 17 سال سے شائع ہورہا ہے۔ ہر سال کسی خاص موضوع پر اس کے خصوصی شمارے نکلتے ہیں۔ امسال ستمبر (2007)میںاس کا خصوصی شمارہ بعنوان ’’مسلمانوں کے مسائل، امراض او ران کا علاج‘‘ طے ہے۔ میرا احساس ہے کہ کسی مرض کے ازالے کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں: (1) مرض کی صحیح تشخیص (2) دواؤں کی صحیح تجویز۔ یہ خوبی آپ کے علاوہ میںنے دوسروں میں نہیں پائی ہے۔ خصوصی شمارے کے لیے تجویز کردہ درج ذیل عناوین بھی آپ کی تحریروں کی دین ہیں:
(1) مسلمانوں میں حقیقت پسندی کا فقدان (2) مسلمانوں میں پروفیشنل ازم کا فقدان
(3) مسلمانوں میں دور اندیشی اور منصوبہ بندی کا فقدان (4) مسلمانوں میں احساسِ ذمہ داری کا فقدان
(5) مسلمانوں میں جذباتیت کا مسئلہ
ہماری دلی خواہش اور عاجزانہ گزارش ہے کہ مذکورہ بالا عناوین میں سے کسی ایک دوموضوعات پر آپ کی قیمتی تحریریں خصوصی شمارے کی زینت بنیں۔ امید کہ مایوس نہیں فرمائیں گے۔ آپ کے ’’جوابِ باصواب‘‘ کا انتظار رہے گا (مولانا محمد رفیع کلوری عمری، نائب مدیر ماہ نامہ ’’راہِ اعتدال‘‘ جامعہ دار السلام ،عمر آباد، یکم جولائی2007 ۔
واپس اوپر جائیں