Pages

Friday 1 December 2006

Al Risala | December 2006 (الرسالہ،دسمبر)

2

- مسلم تاریخ ایک جائزہ

8

- انسان کی دریافت

19

- مذہب اور سائنس

26

- نقطۂ آغاز

31

- رمضان اور جنگ

34

- احساس محرومی کیوں

37

- خبرنامہ الرسالہ ۱۷۷


مسلم تاریخ ایک جائزہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ۵۷۰ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ پر پہلی وحی ۶۱۰ عیسوی میں نازل ہوئی۔ یہی وہ سال ہے جب کہ اسلام کا آغاز ہوا۔ مبصرین کا اِس پر اتفاق ہے کہ آغاز کے بعد جس طرح اسلام کی عالمی توسیع ہوئی، وہ انسانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ مثال کے طور پر انڈیا کے ایک بنگالی اسکالر ایم این رائے (وفات ۱۹۵۴) کی ایک کتاب دہلی (اَجنتا پبلکیشنز) سے پہلی بار ۱۹۳۹ میں چھپی۔ اس کتاب کا نام یہ تھا:
The Historical Role of Islam
اِس کتاب میں مصنف نے اسلام کے اِس تاریخی پہلو کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ— اسلام کی توسیع تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزاتی واقعہ ہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles (p. 4)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آغاز کے بعد اسلام اور اہلِ اسلام کو بہت کم مدّت میں عالمی غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہ غلبہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ایک شاعر نے بجا طور پر کہا ہے:
ہمیںچھائے ہوئے تھے شرق سے تا غرب دنیا میں نہ تھا پَلّہ کسی ملّت کا دنیا میں گراں ہم سے
اسلام کی یہ توسیع رومن ایمپائر اور برٹش ایمپائر کی طرح محض ایک سیاسی توسیع نہ تھی، توسیع کا یہ معاملہ مکمل طورپر ایک خدائی معاملہ تھا، وہ ایک خدائی منصوبے کے تحت پیش آیا۔ چنانچہ وہ اس خدائی منصوبے کی تکمیل تک باقی رہا، اور جب یہ منصوبہ مکمل ہو گیا اور اس کی براہِ راست ضرورت نہ رہی تو مسلمانوں کا پورا سیاسی محل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت پر غور کیجئے: إنّا نحن نزّلنا الذکر وإنّا لہ لحافظون (الحجر۹) یعنی وہ خدا ہے جس نے اِس قرآن کو اتارا اور خدا ہی یقینی طورپر اس کی حفاظت کرے گا۔
اِس قرآنی آیت کا پس منظر یہ ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے بار بار اپنا کلام اُتارا ، مگر یہ خدائی کلام تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکا۔ خدا نے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے انسان کی اِس محرومی کو ختم کرنا چاہااور یہ فیصلہ فرمایا کہ قرآن آخری خدا ئی کلام کے طورپر محفوظ ہوجائے تاکہ اس کے بعد دوبارہ کوئی پیغمبر اور کوئی کتاب بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
سنت اللہ کے مطابق، یہ کام معجزاتی طورپر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ اِس مقصد کے لیے ملکِ عرب میں ایک لمبی منصوبہ بندی کی گئی۔ اِس منصوبے کا آغازاُس وقت ہوا جب کہ چار ہزار سال پہلے ہاجرہ کو اپنے چھوٹے بچے اسماعیل کے ساتھ مکّہ کے صحرا میںآباد کردیاگیا۔ اُس کے بعد ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ٹیم بنی جس کو ایک مستشرق اسکالر نے ہیروؤں کی قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ پر قرآن اتارا گیا۔ آپ نے قرآن کی بنیاد پر تحریک چلائی۔ اِس قرآنی تحریک کی بنیاد پر انسانوں کی ایک جماعت بنی، پھر ایک غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے اسلامی اقتدار کا وہ نظام بنا جس کو خلافت کا نظام کہاجاتا ہے۔
زمین کے تقریباً تمام آباد حصے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر خلافت کے اِس نظام کے زیرِ اثر آگیے۔ خلافت کا یہ تصور خود قرآن سے اخذ کیا گیا تھا، کیوں کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان اور عملِ صالح کی صفات سے متصف ہوں گے، ان کو خدا زمین میں خلافت عطا فرمائے گا (النور ۵۵)
اب فطری طورپر ایسا ہوا کہ قرآن کا تصور اِس نظامِ خلافت کی اساس بن گیا۔ یہ قرآن سے اخذ کردہ تصور، نظامِ خلافت کے قیام کے لیے وجہِ جواز فراہم کرتاتھا۔ یہ قرآن کا تصور تھا جس پر عقیدہ رکھنے والوں کی حمایت، یا مین ڈیٹ (mandate) کے ذریعے کوئی خلیفہ اقتدار کی سیٹ پر بیٹھتا تھا۔ اِسی کی ایک علامت وہ چیز تھی جس کو بیعت کہاجاتا ہے۔
قرآن کی اس حیثیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے اندر ایک سیاسی اہمیت، یا سیاسی قدر (political value) پیدا ہوئی۔ اب قرآن، خلافت کے تصور کے تحت قائم شدہ سیاسی ادارے کا اپنا انٹر سٹ بن گیا۔ اب خود سیاسی اقتدار کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ قرآن کا سرپرست بن کر اس کی مسلسل حفاظت کرتا رہے۔ قرآن کے محفوظیت ، سیاسی ادارے کی محفوظیت تھی اور قرآن کا غیر محفوظ ہونا یہ معنی رکھتا تھا کہ خود سیاسی ادارہ بھی غیر محفوظ ہوجائے۔
قدیم زمانے کے سماج میں صرف سیاسی ادارہ ہی واحد طاقت ور ادارہ ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں کوئی بھی دوسرا ادارہ نہیں ہوتا تھا جو کوئی مؤثر سماجی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ قرآن سے پہلے جو کتابیں آئیں وہ قدیم روایتی دور میں آئیں۔ اِن کتابوں میں سے کسی کتاب کی حمایت میں سیاسی ادارے کا زور شامل نہ ہوسکا۔ عالمِ اسباب کے لحاظ سے یہی سبب تھا جس کی بنا پر قدیم کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔
قرآن کے ساتھ استثنائی طورپر ایساہوا کہ اس کی حفاظت کے لیے مسلسل طورپر سیاسی ادارے کی طاقت حاصل رہی۔ عالمِ اسباب کے اعتبار سے یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا۔اسی کا ایک مظہر یہ تھا کہ حکمراں طبقے کے افراد بھی قرآن کو حفظ کرنے اور قرآن کی کتابت کرنے کو اپنے لیے فخر کی چیز سمجھتے تھے۔
قرآن کی حفاظت کا یہ سیاسی انتظام آغازِ اسلام کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ نظام صرف اُس وقت ختم ہوا جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے قرآن کی حفاظت کے لیے سیاسی اقتدار کی اہمیت ختم کردی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ قرآن کا ہر نسخہ الگ الگ تیار کرنا پڑتا تھا، مگر پرنٹنگ پریس نے اِس بات کو ممکن بنادیا کہ قرآن کی ایک کاپی نہایت صحیح طورپر لکھ کر تیار کی جائے اور پھر چھاپ کر اس سے ملین اور بلین کاپیاں تیار کر لی جائیں۔ اِس زمانی تغیرنے قرآن کی حفاظت کو سیاسی دائرے سے نکال کر صنعتی دَور میں پہنچا دیا۔ اِس تبدیلی کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ کوئی مخالف قوّت، قرآن کو ایک غیر محفوظ کتاب بنا سکے۔
پرنٹنگ پریس کے ظہور کے ساتھ نَو آبادیاتی دَور (colonialism) کا بھی ظہور ہوا۔ اِس نَو آبادیاتی دَور نے خلافت، یا مسلمانوں کی سیاسی بالا دستی کا خاتمہ کردیا۔ اُنیسویں صدی عیسوی میں خلافت کا یہ محل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا۔ اس کے بعد سے مسلمان تمام دنیا میں کسی نہ کسی عنوان سے احیائِ خلافت کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر انھیں اِس معاملے میں ایک فیصد کے بقدر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ راقم الحروف کے تجزیے کے مطابق، نظامِ خلافت کا انہدام اتفاقی نہیں تھا، اور نہ وہ کسی کی سازش کے تحت انجام پایا۔ یہ واقعہ مکمل طورپر خدا کی منصوبہ بندی کے تحت تھا۔ مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصدصرف ایک تھا، اور وہ ہے قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اِس مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ قرآن کی حفاظت جب تک سیاسی اقتدار پر منحصر تھی، اُس وقت تک مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل رہا، اور جب اِس حفاظت کی ذمّے داری پرنٹنگ پریس نے لے لی تو اب سیاسی اقتدار نے اپنی اہمیت کھودی۔ چنانچہ خدا نے اُس سے اپنی مدد واپس لے لی۔ یہی اصل سبب ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی قدیم شکل میں باقی نہ رہا۔
خلافت کے سیاسی اقتدار کے ٹوٹنے کا ایک اورپہلو بھی تھا۔ اصل یہ ہے کہ آغازِ اسلام کے بعد ہزار سال تک جو سیاسی اقتدار قائم تھا، وہ روایتی دور میں قائم ہوا تھا۔ اس روایتی دور کی نسبت سے اسلامی فکر اور اسلامی عمل کا ایک ماڈل بن گیا تھا۔ اِس ماڈل کی تشکیل روایتی ماحول میں ہوئی تھی۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عارضی ماڈل تھا، مگر وہ لمبی مدّت تک باقی رہا۔ اِس بنا پر شعوری یا غیر شعوری طورپر عوام اور خواص دونوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہی ماڈل اسلام کا حقیقی ماڈل ہے۔ حالاں کہ اس کے حق میں قرآن اور حدیث میں کوئی بنیاد موجود نہ تھی۔
مغربی نو آبادیات کا دَور اپنے ساتھ سائنسی انقلاب کا دور لے آیا تھا۔جدید سا ئنسی حالات نے قدیم روایتی نظام کو آج کے لیے مکمل طورپر غیر متعلق (irrelevant) بنا دیا تھا۔ ماقبل سائنس دَور(pre-scientific era) میں بننے والا ماڈل اب مابعد سائنس دور (post-scientific era) میں کار آمد نہیں رہا تھا۔ ضرورت تھی کہ اب اس کی نئی تشکیل کی جائے اور روایتی فریم ورک میں بننے والے ماڈل کی جگہ سائنسی فریم ورک میں نیا ماڈل بناجائے۔
قُرونِ وسطیٰ کے مسلمان اپنے عمل سے ثابت کررہے تھے کہ وہ تشکیلِ نَوکے اِس کام کے لیے بالکل نااہل ہیں۔ اِس طرح مسلمان عملاً اسلام کی راہ میں ایک رُکاوٹ بن گیے۔ وہ اسلام کو دَور جدید میں داخل کرنے کے لیے نااہل ثابت ہوئے۔
یہی وہ موقع تھا جب کہ خدا نے انیسویں صدی عیسوی میں مغربی قوموں کو یہ موقع دیا کہ وہ روایتی دور میں بنے ہوئے مسلمانوں کے قدیم ڈھانچے کو توڑ دیں اور اسلامی فکر اور اسلامی عمل کا نیا ڈھانچہ بنانے کی راہ ہموار کریں۔
مگر پچھلے دو سوسال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اِس منصوبۂ الٰہی کو سمجھ نہ سکے۔ مسلمانوں کی تمام طاقت پچھلے دو سو سال سے اِس بے نتیجہ کام میں لگی ہوئی ہے کہ وہ قدیم کھنڈر کی اینٹوں کو اکھٹا کرکے دوبارہ قدیم روایتی انداز کا ڈھانچہ کھڑا کریں، مگر ایسا کرنا غیر مفید بھی ہے اور غیر ممکن بھی۔ اس لیے وہ کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔ پچھلے دو سو سال کی ناکام کوشش اِس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
مسلمان پچھلے دوسو سال سے سیاسی اقتدار کی بازیابی کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر وہ اپنے اِس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کی وہ اہمیت ہی نہیں جو مسلم رہنماؤں نے بطور خود سمجھ لیا تھا۔ قدیم زمانے میں مسلمانوں کو طویل مدّت تک سیاسی اقتدار اس لیے ملاکیوں کہ قدیم زمانے میں آخری کلامِ الٰہی (قرآن) کی کامل حفاظت کے لیے سیاسی اقتدار کی حمایت ضروری تھی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد خود پرنٹنگ پریس قرآن کی حفاظت کا ضامن بن گیا، اس کے بعد سیاسی اقتدار کی حیثیت اِس پہلو سے ایک اضافی (relative)چیز بن گئی۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ سیاسی اقتدار کے حق میں خدا کی خصوصی حمایت باقی نہ رہی۔
اب سیاسی اقتدار کا معاملہ اُسی طرح صرف مسابقت کا معاملہ ہے، جس طرح اقتصادیات کا معاملہ مسابقت کا معاملہ۔ تاریخ میں اِس تبدیلی کے بعد اب ایسا ہونے والانہیں کہ سیاسی اقتدار کے قیام و بقا کے لیے مسلمانوں کو خصوصی خدائی مدد ملے۔ اب اِس پہلو سے مسلمانوں کا معاملہ دوسری قوموں جیسا ہے۔ اب مسلمانوں کا معاملہ بھی دوسری قوموں کی طرح اسباب و علل کے تحت ہے۔ جو قوم بھی اسباب و علل کے اعتبار سے اپنے کو اہل ثابت کرے گی وہی سیاسی اقتدار کی مالک ہوگی۔
اب قانونِ فطرت کے تحت، مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اقتدار کی لڑائی لڑنا چھوڑ دیں، وہ اُس نیے امکان سے فائدہ اٹھائیں جس کو موجودہ زمانے میں اداراتی دَور(institutionalization) کہاجاتا ہے۔ یہ نیا امکان قدیم دَور سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ پہلے جس طرح سیاسی اقتدار کو قائم کرنے کے لیے وہ اپنی ساری طاقت لگا دیتے تھے، اُسی طرح اب وہ مختلف غیر سیاسی شعبوں میںادارہ بنانے میں اپنی ساری طاقت لگا دیں ۔ مثلاً تعلیم، دعوت، سماجیات، صحافت، پبلشنگ، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اِس جدید تقاضے کو سمجھیں اور اداراتی تنظیم کے میدان میں پُرامن طورپر سرگرم ہوجائیں تو وہ غیر سیاسی میدان میں زیادہ بڑے پیمانے پر اُس مقصد کو حاصل کرلیں گے، جس کو وہ سیاسی میدان میں صرف ناکام طورپر حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے اور جس میں انھیں یک طرفہ تباہی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی دریافت

ایک فلسفی نے کہا ہے کہ—انسان کی تاریخ اندھیرے میں بھٹکنے کی تاریخ ہے۔ یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پوری تاریخ میں بے خبری کے اندھیروں میں بھٹکتا رہا ہے۔ انسان کی اِس بے خبری کو تین عنوان کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ آئڈیل ازم(Idealism)
۲۔ بہیویر ازم(Behaviourism)
۳۔ یوٹلیٹرین ازم (Utilitarianism)
یہاں میںنے آئڈیل ازم کا لفظ اس کے کلاسکل معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے لغوی معنی میں اس کو استعمال کیا ہے۔ انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر آئڈیل کا ایک تصور لیے ہوئے ہے، ہر انسان اس آئڈیل کو پانا چاہتا ہے۔ اِس معاملے میں عوام اور خواص کا کوئی فرق نہیں۔ عوام کی اکثریت اپنی غفلت کی بناپر آئڈیل کی تلاش کے بارے میں شعوری طورپر باخبرنہیں ہوگی، تاہم غیر شعوری طورپر اس کا کیس پوری طرح یہی ہے۔ البتہ خواص، یعنی فلسفی اور مفکر اور رفارمر سب کے سب اِس میں مبتلا رہے ہیں۔
مگر دوسری طرف تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تمام لوگ، بلا استثناء آئڈیل کے بارے میں اپنی تلاش میںناکام رہے ۔ آئڈیل سماج، آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل ادارہ، آئڈیل نظام، یہی ہر ایک کا محبوب نشانہ رہا ہے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ ہر ایک اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہا، اور آخر کار وہ مایوسی کے عالم میں مرگیا۔
۱ — قدیم یونان کا مشہور فلسفی افلاطون(Plato) ۴۲۷ قبل مسیح میں پیدا ہوا، اور ۳۴۷ قبل مسیح میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے سُقراط (Socrates) سے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ مشہور فلسفی ارسطو(Aristotle) اس کا شاگرد تھا۔ افلاطون کو اپنے زمانے میں اتنا بڑا درجہ ملا کہ وہ اُس زمانے کے شاہی خاندان کامعلم بن گیا۔ لیکن اس کی سوانح عمری میںہمیں یہ الفاظ لکھے ہوئے ملتے ہیں کہ— وہ ایک مایوس انسان کی طرح مرا:
He died as a disappointed person.
ایسا کیوں ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ افلاطون نے یونان میں آئڈیل اسٹیٹ قائم کرنے کو اپنا مقصد بنایا۔ اس نے اِس موضوع پر کتاب لکھی۔ اس نے وقت کے شاہی خاندان کی اپنے آئڈیل نظریے کے مطابق، تعلیم و تربیت کی۔ اُس کے نزدیک اس کا آئڈیل اسٹیٹ اتنا کامل تھا کہ اس نے اِس موضوع پر اپنی کتاب میں سزا (punishment) کا قانون شامل نہیںکیا۔
مگر عملاً یہ ہوا کہ اس کا آئڈیل اسٹیٹ سرے سے قائم ہی نہ ہوسکا، نہ کسی شہر میں اور نہ پورے ملک میں۔ آخر کار وہ سخت مایوسی میں مبتلا ہوا، اور اِسی مایوسی کے عالم میں حسرت کے ساتھ مر گیا۔
یہی انجام، بلا استثناء ہر فلسفی اور ہر مفکر اور ہر رفارمر کا ہوا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ذہن میںایک آئڈیل دنیا بنانے کا خواب دیکھا۔ مگر کوئی بھی شخص اپنی آئڈیل دنیا نہ بنا سکا۔ آپ کسی بھی مشہور آدمی کی سوانح عمری پڑھیے تو آخر میں ہر ایک کے بارے میں یہ لکھا ہوا ملے گا کہ وہ اپنے نشانے کو پانے میں ناکام رہا اور آخر کار مایوسی کے عامل میں مرگیا—روسو، مارکس، ڈارون، جان آسٹن، لارڈ کرزن، وغیرہ ہر ایک کا خاتمہ محرومی کے احساس کے ساتھ ہوا۔
انسان کی اِس عمومی ناکامی کا سبب یہ تھا کہ ہر ایک نے یہ غلطی کی کہ اس نے خدا کی تخلیقی اسکیم (creation plan) کو سمجھے بغیر خود اپنے ذہن سے اپنا ایک آئڈیل نقشہ بنایااور وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑا۔ حالاں کہ خالق کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر اِس قسم کی کوشش سراسر عبث تھی۔ ایسی کوشش کبھی اِس دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی ناکام تجربے کی بنا پر لوگوں میںعمومی طورپر وہ تصور رائج ہوگیا جس کو ایک جملے میں اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ— آئڈیل کبھی حاصل نہیں ہوسکتا:
Ideal can't be achieved.
مگر حقیقتِ واقعہ کے اعتبارسے یہ قول درست نہیں۔ انسان کے دماغ میں جو آئڈیل بسا ہوا ہے وہ یقینی طورپر قابلِ حصول ہے، مگر موت سے پہلے کی دنیا میں نہیںبلکہ موت کے بعد کی دنیا میں۔ خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہ آئڈیل دنیا جنت ہے، اور وہ مستحق افراد کو صرف موت کے بعد کی زندگی میں حاصل ہوگی۔ انسان کی غلطی یہ ہے کہ وہ آئڈیل دنیا کو موت سے پہلے کی زندگی میں پانا چاہتا ہے۔ حالاں کہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، یہ آئڈیل دنیا صرف موت کے بعد کی زندگی میں حاصل ہونے والی ہے۔
خدا کے تخلیقی پلان سے اِس بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر انسان کا یہ کیس بن گیا کہ وہ امید کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرے اور محرومی کا احساس لے کر مرجائے۔ حالاں کہ اگر وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے اور اس کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے موت سے قبل کی زندگی میں بھی امید ہے اور موت کے بعد کی زندگی میں بھی امید۔ ایسا آدمی فطری طورپر کبھی ذہنی تناؤ(tension) میں مبتلا نہیںہوگا اور وہ اِس المیے سے بھی بچ جائے گا کہ محرومی کے احساس پر اس کا خاتمہ ہو۔
تاریخ میں بہت سے مفکر اور رفارمر گذرے ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل نظام، آئڈیل سماج، آئڈیل ادارہ بنے، مگر بلا استثنا ہر ایک اپنے مقصد میںناکام رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موت سے پہلے کی یہ موجودہ دنیا اِس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، ہر انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ اِس دنیا میں ایسا کوئی میکانزم نہیں جو لوگوں کو مجبور کرے کہ وہ اپنی آزادی کاغلط استعمال نہ کریں۔ چنانچہ پوری تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ افراد نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے پورے نظام کو غلط رُخ پر ڈال دیا اور ابتدائی مُصلح کے پورے نقشے کو تباہ کرڈالا۔
فلسفی افلاطون نے اپنے زمانے کے بادشاہ سکندر اعظم(Alexander the Great) کو شہزادگی کے زمانے میں تربیت دے کر تیار کیا کہ وہ افلاطون کے آئڈیل اسٹیٹ کو قائم کرے۔ لیکن سکندر اعظم جب بڑا ہوا تو اس نے افلاطون کی تعلیم کو چھوڑ کر اپنی پسند کا راستہ اختیار کر لیا۔ جرمن فلسفی کارل مارکس (وفات ۱۸۸۳) کے اقتصادی نظریات کی بنیاد پر کمیونسٹ پارٹی بنی۔ لینن اور اسٹالن کی قیادت کے تحت، کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بھی زمین کے بڑے رقبے پر قائم ہوگئی۔ لیکن یہ حکومت مکمل طورپر ناکام رہی۔ کمیونسٹ لیڈر ٹراٹسکی (Trotsky leon) نے کمیونسٹ نظام کی اِس ناکامی کو خود کمیونسٹ لیڈروں کی غدّاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اِس موضوع پر ٹراٹسکی نے ایک کتاب شائع کی جس کا ٹائٹل یہ تھا: Revolution — Betrayed
جرمن سائنس داں آئن سٹائن(Albert Einstein) نے جوہری توانائی (atomic energy)کو دریافت کیا۔اِس دریافت میں عظیم مثبت فائدہ چھپا ہوا تھا، لیکن پولٹکل لیڈروں نے جوہری توانائی کی دریافت کو لے کر ایٹم بم بنا ڈالا اور ساری دنیا میں جنگی تیاری کا جنون پیدا کردیا۔
انڈیا کے لیڈر مہاتما گاندھی نے زبردست جدوجہد کے ذریعے انڈیا کوانگریزوں سے آزاد کرایا۔ان کا نظریہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میں ایسا سماج بنایا جائے گا جوانسانی خدمت اور سیوا پر مبنی ہوگا۔ اِس مقصد کے لیے انھوںنے ایک ماڈل بستی کے طور پر مہاراشٹر میں ’’سیوا گرام‘‘بنایا۔ مگر آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کے تمام ساتھی، سیوا کے نظریے کو چھوڑ کر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے گاندھی کی نصیحتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ چنانچہ اِس منظر کو دیکھ کر مہاتما گاندھی نے کہا—اب میری کون سنے گا
اِس قسم کے واقعات تمام مصلحین کے ساتھ پیش آئے۔ اِن تمام واقعات کا مشترک سبب یہ تھا کہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے ہر اصلاحی اسکیم کو تہہ وبالا کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی بھی کوئی اصلاحی اسکیم اپنے مطلوب معیاری معنوں کامیاب نہ ہوسکی۔
۲ — انسان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے تحت، ہر انسان کنڈیشننگ کا کیس ہے۔ اِس بنا پر ہر انسان درست سوچ (right thinking) سے محروم رہتاہے۔ وہ کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ جیتا ہے اور کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ ہی مرجاتا ہے۔ اپنی عدم واقفیت کی بنا پر اس کو کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیںہوتی کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ ہر آدمی اپنی سوچ اور اپنے جذبات کے اعتبارسے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے، مگر اپنی بے خبر کی بنا پر وہ اِسی مصنوعی شخصیت کو اصل شخصیت سمجھ لیتا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی بار انسان نے کنڈیشننگ کے اِس معاملے کو جانا۔ امریکا کے پروفیسر جے بی واٹسَن (John Broadus Watson)نے لمبی تحقیق کے بعد ۱۹۲۵ میں اپنی کتاب بہیویر ازم(Behaviourism) شائع کی۔ اِسی کتاب کے نام پر نفسیات میں بہیویر سٹ اسکول(Behaviourist School) قائم ہوا، جو اتنا عام ہوا کہ عرصے تک دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں وہ علم النفس کے نصاب کے طورپر پڑھایا جاتا رہا۔
لیکن پروفیسر واٹسن کی یہ دریافت صرف ایک ادھوری دریافت تھی۔ اِس دریافت کے مطابق، کنڈیشنڈ انسان ہی اصل انسان تھا۔ اِس نفسیاتی اسکول میں یہ مان لیاگیا کہ جو چیز انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے وہ اس کا پیدائشی نیچر نہیں ہے، بلکہ وہ بعد از پیدائش اس کے ماحول کا نرچر (nurture) ہے،مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ انسان کے لیے ایک امتحان ہے۔ ہر انسان کو اپنی تعمیرشخصیت کے لیے یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ قدرت نے پیاز کی صورت میں اِس معاملے کا ایک نمونہ انسان کے لیے رکھ دیا ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیاز میں ایک کے بعد ایک پرتیں(layers) ہوتی ہیں۔ اِن پرتوں کو ہٹایا جائے تو آخر کار اس کا اصل مغز سامنے آجائے گا۔
ایسا ہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کی اصل شخصیت وہ ہے جو فطرت کی طرف سے اس کو پیدائشی طورپر ملتی ہے، پھر خارجی ماحول سے اس کے اوپر کنڈیشننگ کی پرت چڑھتی رہتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ باشعور ہونے کے بعد اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے وہ ان خارجی پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ فطری انسان سامنے آجائے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر مسٹر نیچر ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ مسٹر کنڈیشنڈ بن جاتا ہے۔ ایسا خدا کے تخلیقی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ انسان کو خدا نے شعور اور آزادی کی صلاحیت بخشی ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے شعوری فیصلے کے تحت، اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ انسانِ فطری (Mr. Nature) بنائے۔ یہی انسان کا امتحان ہے، اور اِس امتحان میں کامیاب ہونے والوں ہی کے لیے خدا نے اپنے ابدی انعامات کا اعلان کیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کی کنڈیشننگ ہوتی ہے، مگر پوری معلوم تاریخ میں ڈی کنڈیشننگ کا نظریہ کبھی موجود نہیں رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے تحت، ہر زمانے میں لوگوں کی کنڈیشننگ ہوتی رہی، لیکن عدم واقفیت کی بنا پر وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ نہ کرسکے۔ ایسی حالت میں محفوظ طورپر کہا جاسکتا ہے کہ پوری تاریخ ایسے افراد سے خالی ہے جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے آپ کو مسٹر نیچر بنا سکے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تاریخ کے تمام مفکرین اور فلاسفہ اپنے اصلاحی یا فکری کردار کو ادا کرنے کے لیے نااہل تھے۔ وہ اِس مقصد کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
تمام فکری نظاموں میں اسلام اِس معاملے میں ایک استثناکی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم وہ ہے جس کو تزکیہ(purification) کہاجاتا ہے۔ تزکیہ کسی پُراسرار چیز کا نام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ اُسی عمل کا نام ہے جس کے لیے ہم نے ڈی کنڈیشننگ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسبہ(introspection) کرے۔ وہ اپنی فکری اور نظریاتی غلطیوں کو ڈھونڈ کر نکالے اور ان کی اصلاح کرے۔ یہ عمل تمام تر ایک ذہنی عمل ہے۔ آدمی بے لاگ طورپر اپنے اوپر نظر ثانی کرتا ہے۔ یہ عمل مسلسل طورپر ساری عمر جاری رہتا ہے۔ اِس طرح آدمی تزکیہ کے عمل کے ذریعے اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک مزکّٰی اور مطہّر شخصیت (purified personality)بن جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کے لفظ کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس استعمال کے اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا مطلب ہوتا ہے—ذہنی تناؤ کو ختم کرنا۔
مگر میرے نزدیک یہ ڈی کنڈیشننگ کے لفظ کا نادرست استعمال ہے۔ میرے نزدیک ڈی کنڈیشننگ سے مراد یہ ہے کہ پروفیسر واٹسن کے تصور کے مطابق، کنڈیشننگ کے ساتھ برعکس عمل کیا جائے۔ جس کنڈیشننگ کو پروفیسر واٹسن نے حتمی سمجھ لیا تھا، اس کو حتمی نہ سمجھتے ہوئے فکری عمل کے ذریعے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ،اسی کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔ میرے علم کے مطابق، مفکرین نے اگر چہ ڈی کنڈیشننگ کو اِس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، لیکن میرے نزدیک ڈی کنڈیشننگ کا صحیح ترین مفہوم یہی ہے۔
اِس موضوع پر ایک بار میری گفتگو ایک کمیونسٹ پروفیسر سے ہورہی تھی۔ انھوںنے کہا کہ ڈی کنڈیشننگ کو ہم بھی مانتے ہیں، مگر ہم اس کو ڈی کلاسنگ (de-classing) کہتے ہیں۔ میںنے کہا کہ ڈی کنڈیشننگ، اور ڈی کلاسنگ دونوں بالکل الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ ڈی کلاسنگ ایک سماجی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے— بے طبقاتی سماج(classless society) بنانا۔ مگر ڈی کنڈیشننگ مکمل طورپر ایک نفسیاتی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے—ذہن کی فکری آلودگی کو دور کرکے ذہن کو دوبارہ خالص فطری حالت پر لے جانا۔
۳ — اِس معاملے میںتیسری چیز وہ ہے جس کو اِفادی نظریہ (Utilitarianism) کہا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ سے مادّی مفادات کا طالب رہا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں اِس تصور نے باقاعدہ فلسفے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اِسی فلسفے کو یوٹلٹیرین ازم کہاجاتا ہے۔ اِس افادی فلسفے کو پہلے برطانوی فلسفی بنتھم (Jeremy Bentham) نے پیش کیا تھا۔ بنتھم ۱۷۴۸ میں انگلینڈ میں پیدا ہوا، اور ۱۸۳۲ میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد اِس افادی فلسفے کو انیسویں صدی کے مشہور فلسفی جان اسٹوارٹ مِل (John Stuart Mill) نے، اور دوسرے فلسفیوں نے آگے بڑھایا، یہاں تک کہ عملاً یہ فلسفہ جدید دنیا کا سب سے بڑا فلسفہ بن گیا۔ آج شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام انسان اِسی فلسفے کے تحت سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔
یوٹلٹیرین اسکول میں بہت سے نام شمار کیے جاتے ہیں، اور ان کے درمیان بعض ظاہری اختلافات بھی ہیں، مگر عملاً یہی فلسفہ آج کی دنیا کا سب سے بڑا فلسفہ ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر آج تمام دنیا کے لوگ اس فلسفے کو قبول کیے ہوئے ہیں۔ وہ چیز جس کو مادّیت (materialism) کہاجاتا ہے، وہ دراصل یوٹلیٹرین ازم ہی کا دوسرا نام ہے۔
یوٹلیٹرین اسکول، یامٹیریلسٹ اسکول کے مطابق، موجودہ دنیا ہی وہ جگہ ہے جہاں آدمی اپنی تمناؤں اور خواہشوں کو پورا کرسکتا ہے۔ ویبسٹر کے مطابق، اس نظریے کی سادہ تعریف یہ ہے:
The doctrine that the worth or value of anything is determined solely by its utility.
یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیز ہے جس کو عوامی زبان میںاِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ— کھاؤ، پیو اور خوش رہو:
Eat, drink and be merry.
یہ تصور دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ اِسی تصور کو ہندستان کے شہنشاہ بابر (وفات ۱۵۳۰) نے اپنے ایک شعر میں اِس طرح بیان کیا تھا:
بابر بہ عیش کوش کہ عالَم دوبارہ نیست!
مگر پوری تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ نشانہ قابلِ حصول نہیں ۔جیسا کہ معلوم ہے، ہر آدمی سوسال سے کم مدّت کے لیے موجودہ دنیا میں جینے کا موقع پاتا ہے۔ اِس محدود مدّت میںاس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی آرزوؤں کے مطابق، یہاں اپنی مطلوب دنیا بنا سکے ، ایسی آرزوئیں جو کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے لامحدود حیثیت رکھتی ہیں۔ طرح طرح کی رکاوٹیں اس کا راستہ روک دیتی ہیں۔ حادثات اور بیماری اور دوسرے ناموافق اسباب اس کے لیے اپنے منصوبے کی تکمیل میں فیصلہ کُن رکاوٹ بن جاتے ہیںاور اگر بالفرض کوئی شخص اپنی خواہشوں کا ایک محل بنا لے، تب بھی بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر موت آتی ہے اور یک طرفہ فیصلے کے تحت، اس کی خواہشوں کے محل کو ڈھا دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے مقرر نقشے کے مطابق، انسان کی زندگی دو دَورں میں تقسیم ہے— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ موت سے پہلے کا زمانہ عمل کرنے کا زمانہ ہے اور موت کے بعد کا زمانہ اپنے عمل کے مطابق، اس کا انجام پانے کا زمانہ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ امتحان ہال، کسی اسٹوڈنٹ کے لیے ٹسٹ دینے کی جگہ ہے، اور امتحان ہال کے باہر کی دنیا جاب(job) حاصل کرنے کی دنیا۔ جو لوگ موت سے قبل کی دنیا میں اپنی تمناؤں کا محل بنانا چاہتے ہیں وہ اُس طالبِ علم کی مانند ہیں جو امتحان ہال کے اندر اپنے لیے جاب تلاش کرنے لگے، حالاں کہ ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔
پہلی عالمی جنگ جب ہوئی تو اُس وقت انگریز، انڈیا کے اوپر حکومت کررہے تھے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد انھوں نے نئی دہلی کے علاقے میں ایک شان دار دنیا تعمیر کی۔ اس میں وہ وسیع محل بھی شامل تھا جس کا نام اُس وقت ’’وائس رِگل لاج‘‘ رکھا گیا تھا، اور اب اس کو ’’راشٹرپتی بھون‘‘ کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ وہ اِس شان دار دنیا میں ابدی طورپر پُر عیش زندگی گذار سکیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ دوسری عالمی جنگ نے ان کے سنہرے خواب کو درہم برہم کردیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ایک فرانسیسی مدبّر نئی دہلی آیا تھا۔ اس نے انگریزوں کی بنائی ہوئی اِس خوش نما دنیا کو دیکھا تو اس نے کہا کہ— انھوں نے کیسی شاندار دنیا بنائی، صرف اس لیے کہ ایک دن وہ اس کو چھوڑ دیں:
What a magnificent world they built to leave.
انگریزوں سے پہلے دہلی میں مغل خاندان کا راج تھا۔ ۱۸۵۷ء میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ دہلی میں ان کی چھوڑی ہوئی شان دار عمارت ’’لال قلعہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔ لال قلعہ کے ایک حصے میں میوزیم ہے۔ اِس میوزیم میں جو چیزیں موجود ہیں، اُن میں سے ایک وہ ٹوٹا ہوا پتھر ہے جس کے اوپر یہ فارسی شعر کَندہ ہے— آسمان کے نیچے ان کی سلطنت ہمیشہ باقی رہے:
ہمیشہ باد بہ زیرِ سپہر بُو قلموں!
اس ٹوٹے ہوئے پتھر کے ساتھ جو تشریحی عبارت لکھی ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پتھر ایک قدیم محل میں نصب تھا۔ وہ محل اب بالکل مٹ چکا ہے۔ اس کا یہ پتھر یادگار کے طورپر لال قلعہ کے میوزیم میںرکھ دیا گیا ہے۔
یہی معاملہ پوری تاریخ میں تمام انسانوں کا ہوا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے انسان نے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے اپنا محل بنانے کی کوشش کی، مگر کسی کے لیے بھی اس کا محل آرزوؤں کی تکمیل کا محل نہ بن سکا۔ یہ تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ ایک غیر فطری اور غیر واقعی نظریہ ہے۔ یہ ایک ناممکن کو حاصل کرنے کی کوشش ہے، جو موجودہ دنیا میں کبھی کسی کے لیے واقعہ نہیں بنی اور نہ آئندہ وہ کسی کے لیے واقعہ بن سکتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ خدا کے تخلیقی نقشے کے خلاف ہے۔ خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ پھر اس کی مدتِ حیات(life span) کو اس نے دو مختلف حصوں میں بانٹ دیا۔ اس کا مختصر حصہ، قبل از موت دنیا میں رکھا گیااور اس کا بقیہ تمام حصہ، بعد از موت کی زندگی میں رکھ دیا گیا ہے۔ قبل از موت کا عرصۂ حیات ٹسٹ کے لیے ہے اور بعداز موت کا عرصۂ حیات اپنی کارکردگی کے مطابق، انعام پانے کے لیے۔
یہ ٹسٹ کیا ہے۔ یہ ٹسٹ بنیادی طورپر یہ ہے کہ آدمی اختیار کے باوجود اپنے کو بے اختیار بنا لے، وہ آزادی کے باوجود اپنی آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ وہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود خدا کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے۔
دنیا میں انسان کو اگرچہ کامل آزادی دی گئی ہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ ایک کمزور مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً وہ حادثے کا شکار ہوتا ہے، وہ بیمار ہوتا ہے، وہ بوڑھا ہوتا ہے، وہ لامحدود طور پر اپنی خواہشوں کو پورا نہیں کرپاتا۔ طرح طرح کے ناموافق حالات اس کے لیے رُکاوٹ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار وہ بے بسی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر انسان، خواہ وہ کوئی بھی ہو، بیک وقت کمزوری اور آزادی دونوں کا مجموعہ بنا رہتا ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں کرپاتا کہ وہ اپنی آزادی سے اپنی کمزوری کو جدا کرسکے۔
جنت نہ صرف ابدی ہوگی بلکہ وہ ایک ایسی کامل جگہ ہوگی جہاں ہر قسم کی محدودیت (limitations) کو ختم کردیا گیا ہوگا، جہاں آدمی نہ صرف آزاد ہو بلکہ وہ اپنی ہر قسم کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے مواقع بھی رکھتا ہو۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جنت میں عظیم اقتدار (great kingdom) حاصل ہوگا (الدھر ۲۰) اسلامی تصور کے مطابق، جنت مکمل طورپر فساد سے پاک ہوگی۔ ایسی حالت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جنت میں کوئی ایسا شخص جگہ نہیں پاسکتا جو اپنے اقتدار کو فساد کے لیے استعمال کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت کے اِس ماحول میں صرف اُن لوگوں کو داخل کیا جائے گا جو موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں یہ ثابت کرچکے ہوں کہ وہ اتنے زیادہ با شعور ہیں کہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی انھیں اِس پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے اقتدار کو کسی معمولی درجے میں بھی فساد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہر لمحہ موجودرہتے ہیں جو اس کی زندگی کے ہر واقعے کو رکارڈ کرتے رہتے ہیں، خواہ وہ نیت ہو، یا قول، یا عمل۔ اس معاملے کو اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ فرشتے ہر لمحہ انسان کی نگرانی کررہے ہیں۔ اگر وہ صحیح کام کرتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر پر اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھ دیتے ہیں کہ یہ شخص جنت کا مستحق ہے:
He is a deserving candidate for Paradise.
اس کے برعکس، اگر وہ دیکھتے ہیں کہ آدمی غلط کام کررہا ہے تو وہ اپنے رجسٹر میں یہ اندراج کرلیتے ہیں کہ— یہ شخص جنت میں داخلے کا استحقاق نہیں رکھتا:
He is not a deserving candidate for Paradise.
یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر عورت اور مرد کا معاملہ اسی قانونِ الٰہی کے تحت ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اِس حقیقت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے اور دنیا میں انتہائی محتاط زندگی گذارے۔ اِس کے برعکس، وہ لوگ ناکام ہیں جو اِس حقیقت کو بھلا کر زندگی گذاریں اور نتیجۃًٌ ابدی تباہی میں مبتلا ہو کر رہ جائیں۔
واپس اوپر جائیں

مذہب اور سائنس

مذہب کیا ہے۔ مذہب زندگی کی سائنس ہے۔ اس کے مقابلے میں معروف سائنس، طبیعیات کی سائنس ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، طبیعیات کی سائنس یا فزیکل سائنس میں پچھلے پانچ سو سال کے اندر بہت ترقی ہوئی ہے، جب کہ اِس مدت میں مذہب میں کوئی ترقی نہ ہوسکی۔
مثلاً پانچ سوسال پہلے انسان سادہ قسم کی اونٹ گاڑی یا گھوڑا گاڑی پر سفر کرتا تھا، مگر پچھلے کئی سو سال کی مسلسل ترقی کے نتیجے میںاب انسان، سواری کے میدان میں بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے—بائسکل، اسٹیم شِپ، موٹر کار، ہوائی جہاز، وغیرہ، اِس ترقی کے نمونے ہیں۔
اس کے مقابلے میں مذہب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مذہب پر جُمود کا عالم طاری ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب، پانچ سو سال پہلے جہاں تھا وہیں وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ مذہب میں کوئی حقیقی ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حالت ہر مذہب کی ہے۔ اس معاملے میں کسی مذہب کا کوئی استثنا نہیں۔ طبیعیاتی ترقیوں کے سیلاب میں مذہب ایک غیر ترقی یافتہ ڈسپلن بنا ہوا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ طبیعیات کی دنیا میںپچھلے پانچ سو سال سے انکوائری(inquiry) کا عمل جاری ہے۔ ہر چیز کی تحقیق ہورہی ہے۔ ہر چیز کھلے ڈائلاگ کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں طبیعیات کے شعبوں میں ردّوقبول کا عمل جاری ہے۔ مثلاً پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے، مگر مشاہدہ اور تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں، بلکہ سورج درمیان میں ہے اور زمین اور دوسرے سیّارے وسیع خلا میں اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نئی دریافت ہوئی تو اس کے فوراً بعد علما ئے فلکیات نے قدیم روایتی نظریے کو ترک کرکے جدید سائنسی نظریے کو اختیار کرلیا۔
یہی انکوائری کا عمل ترقی کا اصل سبب ہے۔ لیکن مذہب کے میدان میں انکوائری کا یہ عمل جاری نہ ہوسکا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کی دنیا میں جُمود آگیا۔ مذہب کا عمل ایک مقام پررُک کر رہ گیا۔
موجودہ زمانے میں مذہب کو ٹریڈیشن (tradition) کہاجاتا ہے۔ مثلاً مذہب یہودیت کو یہودی ٹریڈیشن، مذہب عیسائیت کو عیسائی ٹریڈیشن اور مذہب اسلام کو اسلامی ٹریڈیشن، وغیرہ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ مذہب کو ایک جامد روایت مان لیا گیا، ایک ایسی روایت جو نسل در نسل ایک ہی حالت پر چلی جارہی ہے، حالاں کہ سائنس میں ایسا نہیں ہوا۔ سائنس کی دنیا میں ایسا نہیں ہوا کہ برٹش سائنس کو برٹش ٹریڈیشن، جرمن سائنس کو جرمن ٹریڈیشن اور امریکن سائنس کو امریکن ٹریڈیشن کہا جانے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح معروف سائنس ایک سائنس ہے، اسی طرح مذہب بھی ایک سائنس ہے۔ مذہب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مذہب میںبھی آزادانہ انکوائری اور کھُلا ڈائلاگ اُسی طرح جاری کیا جائے جس طرح وہ سائنس میںعملاً جاری ہے۔ اِس طرح کی انکوائری یا ڈائلاگ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ مذہب میں قدیم زمانے میں کم تر واقفیت کی بنا پر جو باتیں مان لی گئیں، وہی بدستور آج تک جاری ہیں۔ ضرورت تھی کہ بعد کی تحقیقات کو لیتے ہوئے قدیم بے اصل نظریات کو ترک کردیا جائے اور ان کی جگہ اُن باتوں کو مان لیا جائے جو بعد کی تحقیقات سے انسان کے علم میں آچکی ہیں۔
مذاہب کے حلقے میں باشعور لوگوں کے اندر خود بھی اس کا احساس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے درمیان بار بار اِس قسم کی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، اگر چہ موافق فضا نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریکیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ مثلاً ہندو ازم میں آریہ سماج کی تحریک، جو مورتی پوجا کے خلاف اٹھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ مورتی پوجا ویدوں میں نہیں ہے، یہ بعد کا اضافہ ہے۔ اِسی طرح بھکتی موومنٹ، جو ہندوازم میں بڑھی ہوئی ریچول ازم (Ritualism) کے خلاف اٹھی۔ اُس نے رسمی اعمال کے بجائے ڈووشن (devotion) پَر زور دیا۔ اِسی طرح بُدھ ازم میں، نیو بدھ ازم(neobuddhism) کی تحریک ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے رسم ورواج سے پاک کرکے بدھ ازم کو ابتدائی دور کے بدھ ازم کی طرف واپس لے جانا۔
یہی معاملہ مسیحیت کا ہے۔ ۳۲۵ء میں ہونے والی نیقیا کاؤنسل (Nicaea Council) کے بعد مسیحیت میں کافی تبدیلی آئی۔ اب مسیحی تعلیمات کے بجائے چرچ کی روایات، مسیحیت کا ماخذ بن گئیں۔ اس کے بعد مسیحی حلقے میں سولھویں صدی میں رفارمیشن (Reformation) کی تحریک اٹھی جو گویا چرچ سے بائبل کی طرف واپسی کی تحریک تھی، مگر وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح، ڈی ہیلی نائزیشن(Dehellenization) کی تحریک، جو انیسویں صدی کے آخر میں اٹھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یونانی اور رومی اثرات سے مسیحیت کو پاک کیا جائے، اگرچہ یہ تحریک زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔
اس معاملے میں اسلام کا معاملہ مختلف ہے۔ دوسرے مذاہب کے برعکس، اسلام میں اصل متن کامل طورپر محفوظ ہے۔ یہاں جو بگاڑ آتا ہے وہ مسلم قوم میں آتا ہے نہ کہ خود اسلام میں۔ اس لیے اسلام میں رفارمیشن جیسی تحریک کی ضرورت نہیں۔ البتہ اسلام میں احیاء (Revivalism) کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ مسلم اضافوں سے پاک کرکے اسلام کو اس کی اصل صورت میں سامنے لایا جائے۔
مثلاً مانزم(monism) کے عقیدے کو لیجئے، جس کو اَدوئت واد ،یا وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ یعنی حقیقت کو ایک سنگل وحدت کے روپ میں دیکھنا۔ پانچ ہزار سال پہلے یونانی فلسفیوں نے آئڈنٹٹی کرائسس کے سوال پر غور کرنا شروع کیا۔انھوں نے یہ فرض کیا کہ انسان ایک کُلی حقیقت کا حصہ ہے۔ وہ صرف اِس لیے اُس سے الگ ہوا ہے کہ ایک دن دوبارہ وہ اس سے مل جائے۔ انسان ایک الگ وجود کی حیثیت سے اپنی شناخت نہیں پارہا تھا، لیکن جب اس نے یہ مان لیا کہ وہ ایک عظیم تر حقیقتِ کُلّی کا ذاتی جُز ہے، تو اس نے گویا اپنی شناخت پالی۔ کائنات کے اندر اس کو اپنی پہچان معلوم ہوگئی۔ یہ نظریہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا۔
مگر اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مانزم کا نظریہ صرف ایک فلسفیانہ تخیل تھا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بیسویں صدی میں فلکیاتی سائنس میں جو تحقیق ہوئی ہے، اس نے اِس مفروضے کو بے بنیادثابت کردیا ہے۔ بِگ بینگ(Big Bang) کا نظریہ جو سائنسی حلقے میں اب ایک مسلّمہ بن چکا ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔ خالق بلا شبہہ تخلیق سے الگ ہے، اسی لیے وہ تخلیق کا واقعہ ظہور میںلا سکتا ہے۔ اگر خالق خود تخلیق کا حصہ ہو تو تخلیق کا واقعہ کبھی وجود ہی میں نہ آئے اور تخلیق ہمیشہ کے لیے غیر موجود بنی رہے۔
بگ بینگ کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے پوری کائنات ایک واحد سپر ایٹم کی صورت میں تھی۔ پھر خارجی مداخلت کے ذریعے اس کے اندر انفجار (explosion) ہوا۔ اِس انفجارکے بعد سپر ایٹم کے ذرّات خلامیں پھیل گیے اور موجودہ دنیاوجود میں آئی۔ سپر ایٹم کے اندر یہ انفجار، داخلی سبب کے ذریعے نہیںہوا، بلکہ وہ واضح طورپر ایک خارجی مداخلت کار (intervener) کے ذریعے ہوا۔ اور جب یہ مان لیا جائے کہ زیرِ مداخلت(entervened) سپر ایٹم الگ تھا اور مداخلت کار (intervener) الگ، تو اپنے آپ ادوئت واد یا مانزم کا نظریہ ختم ہوجاتا ہے۔
قدیم زمانے میں انسان نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس نے فرض کرلیا کہ چاند ایک دیوتا ہے۔ اِس طرح چاند کو ایک آسمانی دیوتا مان لیا گیا اور اس کی پرستش کی جانے لگی۔ بعد کو جب مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ چاند کوئی روشن وجود نہیں۔ وہ سورج کی روشنی پڑنے سے چمکتا ہے۔ بعد کو جب خلائی سفر میںترقی ہوئی تو انسان چاند کی طرف پرواز کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ یہاں تک کہ امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ(Neil Armstrong) ۲۱جولائی ۱۹۶۹ کو چاند کی سطح پر اتر گیا۔ یہ پہلا انسان تھا جو چاند کی سطح پر اُترا۔
اِس براہِ راست مشاہدے کے بعد معلوم ہوا کہ چاند صرف ایک خشک چٹان ہے، وہ نہ تو روشن ہے اور نہ گول، اور نہ اس کے اندر کوئی امتیازی صفت ہے۔ اِس دریافت نے چاند کے تقدّس کا نظریہ علمی طورپر ختم کردیا۔ ضرورت تھی کہ اس کے بعد چاند کو دیوتا سمجھنے کے عقیدے کو مکمل طورپر ترک کر دیا جائے، لیکن ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔
یہی معاملہ آوا گَون(cycle of life) کے نظریے کا ہے۔ یہ نظریہ اِس تصور پر قائم ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم کے اعمال کے مطابق، دوبارہ زمین پر پیدا ہوتا ہے اور پھر اپنے کَرم کی سزا بھُگت کر مر جاتا ہے، تاکہ اسی طرح دوبارہ پیدا ہو اور اپنے کرم کا نتیجہ بھُگتے۔ یہ سلسلہ ۸۰ لاکھ سال سے بھی زیادہ مدت تک بار بار جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ نِروان (نجات) کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ عقیدہ ہزاروں سال پہلے ایک فلسفیانہ نکتے کے طورپر لوگوں کے سامنے آیا۔ فلسفی نے دیکھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہیں تو اُن میںسے کوئی امیر ہوتا ہے اور کوئی غریب، کوئی محروم ہوتا ہے اور کوئی پائے ہوئے ہوتا ہے۔ اس معاملے کو اس نے انسان کے’’ کرم‘‘ سے جوڑ کر آواگون کا فلسفہ بنا لیا۔ دھیرے دھیرے یہ فلسفیانہ نکتہ ایک باقاعدہ مذہبی عقیدہ بن گیا اور کروڑوں لوگ اِس کو درست سمجھنے لگے۔
مگر موجودہ زمانے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے بتایا ہے کہ محروم اور غیر محروم (haves and have nots) کا فرق انسانی عمل (کرم) کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ فطرت کے نظام میں عدم مساوات (inequality) کا طریقہ رکھا گیا ہے۔ اِس کی وجہ سے انسانی سماج میں چیلنج اور کامپٹیشن کا ماحول قائم ہوتا ہے۔ تمام ترقیاں اِس چیلنج اور کامپٹیشن کی وجہ سے وجود میںآئی ہیں۔ (ملاحظہ ہو—آرنلڈ ٹائن بی کی ضخیم کتاب: دی اسٹڈی آف ہسٹری)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان امیر اور غریب، پس ماندہ اور ترقی یافتہ کا فرق کوئی برائی کی بات نہیں، بلکہ وہ ایک مطلوب فطری نظام ہے، وہ تمام انسانی ترقی کا ضامن ہے۔ اِس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد ضرورت ہے کہ آواگون کے مفروضے کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے۔ اور یہ مان لیا جائے کہ آواگون کا نظریہ محض ایک فلسفیانہ لطیفہ (joke) تھا، نہ کہ کوئی حقیقی نظریہ۔
اِسی طرح روحانیت کے میدان میں ہزاروں سال سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انسان کا دل(heart) رُوحانی معرفت کا خزانہ ہے۔ دل کا مراقبہ (meditation) کرکے اِس روحانی خزانے کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ اتنا پھیلا کہ تمام روحانی اسکول نے اس کو اختیار کرلیا۔ مگر موجودہ زمانے میں انسانی جسم پر جو تحقیقات ہوئی ہیں، اُن سے یقینی طورپر ثابت ہوجاتا ہے کہ دل کسی بھی قسم کے معارف کا خزانہ نہیں، وہ صرف گردشِ خون (cirulation of blood) کا ذریعہ ہے۔ فکر اور جذبات دونوں کا مرکز یکساں طورپر انسان کا ذہن (mind) ہے۔ اب اہلِ علم کے درمیان اِس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں۔
اِس تحقیق کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ اِس پورے معاملے پر نظر ثانی کی جائے، اور پھر مبنی بَر قلب روحانیت(heart-based spirituality) کے نظریے کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور اس کے بجائے مبنی بَر ذہن روحانیت(mind-based spirituality) کے نظریے کو اختیار کرلیا جائے۔
قدیم زمانے میں مذہب کو ایک مقدس چیز سمجھا جاتا تھا۔ اِس بنا پر مذہب کا تنقیدی جائزہ ایک امرِ ممنوع بنا ہوا تھا، مگر موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے اثر سے یہ ہوا کہ جس طرح دوسرے تمام شعبوں کا تنقیدی جائزہ لیاجارہا تھا، اسی طرح مذہب کا بھی تنقیدی جائزہ لیا جانے لگا۔ اِس شعبۂ تحقیق کو اب تاریخی انتقاد (historical criticism) کہاجاتا ہے۔ اِس تحقیق و تنقید کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام مذاہب بعد کی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب غیر تاریخی بن چکے ہیں، ہر مذہب گویا کہ ایک میتھا لوجی ہے۔ جس کے پیچھے کوئی تاریخی سند(historical credibility) موجود نہیں۔
مذاہب کے اِس عموم میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ مذہبِ اسلام کا ہے۔ خالص علمی جائزے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام مذاہب میں صرف اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کو پورے معنوں میں تاریخی مذہب کہاجاسکتا ہے۔ ایسی حالت میں علم کا تقاضا ہے کہ دوسرے مذاہب کو قابلِ احترام اثاثہ سمجھتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ عملی طورپر صرف اسلام قابلِ اعتبار مذہب ہے، الہامی سچائی کو جاننے کے لیے اسلام ہی واحد مستند ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسیحی پوپ(Pope Benedict XVI) نے ۱۲ستمبر ۲۰۰۶ کو ویسٹ جرمنی کی یونیورسٹی ریجنس برگ(Regensburg) میںایک لکچر دیا۔ یہ لکچر سات صفحات پر مشتمل تھا۔سات صفحے کے اِس لکچر کا عنوان یہ تھا:
Faith and Reason
مسیحی پوپ نے اپنے اِس لکچر میں چودھویں صدی عیسوی کے بازنطینی کنگ، مینویل دوم (Manual II) کے ایک قول کو نقل کیا تھا۔ وہ قول یہ تھا—مجھے محمد کی لائی ہوئی کوئی ایسی بات بتاؤ جو نئی ہو:
Show me just what Muhammad brought that was new.
بازنطینی کنگ کی یہ بات پوپ نے کسی تنقید کے بغیر نقل کی ہے۔ مگر بلا شبہہ یہ ایک ایسی بات ہے جو خلافِ واقعہ بھی ہے اور غیر سنجیدہ بھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ وہ کوئی نئی چیز لائے ہیں، یا انھوں نے کوئی نیا مذہب پیش کیا ہے۔انھوں نے جو کیا وہ صرف یہ تھا کہ پچھلے مذاہب، جو ملاوٹ کا شکار ہوگیے تھے اور اِس بنا پر اصل خدائی مذہب ان کے یہاں گم ہوکر رہ گیا تھا، پیغمبر اسلام نے اس کی تصحیح کی۔ انھوںنے خدا کی مددسے خدا کے دین کا اصل ورژن(version) دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی پیغمبرِ اسلام کا اصل کنٹری بیوشن ہے۔ یہ کنٹری بیوشن اتنا بڑا ہے کہ اس سے بڑا ور کوئی کنٹری بیوشن نہیںہوسکتا۔
خدا نے پچھلے زمانوں میں بہت سے پیغمبر بھیجے۔ یہ تمام پیغمبر ایک ہی خدائی دین کو لے کر آئے، لیکن قدیم زمانے میں کسی متن (text) کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھنے کاکوئی باقاعدہ نظم نہ تھا۔ اس لیے پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا دین، تبدیلی اور ملاوٹ کا شکار ہوگیا۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی وحی کے مطابق، خدا کے اصل دین کو جانا اور اس کو اس کی اصل صورت میں محفوظ کردیا۔
خدائی مذہب کا محفوظ متن نہ ہونے کی وجہ سے انسان گمراہی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ تلاش کے باوجود اس کو سچائی نہیں ملتی تھی۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت الٰہی نے تاریخ بشری کے اِس خلا کو پُر کردیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی مُتلاشی روح جب حق کی دریافت کرنا چاہے تو وہ اس کو یقین کے ساتھ دریافت کرسکے۔ یہ ایک عظیم خدائی تحفہ ہے جو پیغمبرِ اسلام کے ذریعے انسانیت کو ملا۔
واپس اوپر جائیں

نقطۂ آغاز

ایک سفر میں میری ملاقات ایک عرب شیخ سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کا کام کرنے کے لیے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ: من أین نبدأ (عمل کا آغاز کہاں سے کیا جائے)۔
یہ سوال مجھ سے کئی بار کیا گیا ہے۔ اِس سوال کا جواب پانے کے لیے میں نے تقابلی مطالعے کا طریقہ اختیار کیا۔ میںنے سوچا کہ اصحابِ رسول نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا سوال نہیں کیا تھا۔ اوّل دن سے انھیں معلوم تھا کہ ان کو کیا کرنا ہے اور آخر وقت تک وہ اس پر یقین کے ساتھ کار بند رہے۔ موجودہ زمانے میں پورا قرآن ہمارے سامنے موجودہے اس کے باوجود کیوں لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ عمل کا آغاز کہاں سے کیاجائے۔
غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ دورِ اول میں قرآن کی خود ترتیبِ نزول ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کہاں سے شروع کرنا ہے اور پھر کیا کام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ موجودہ زمانے میں صورتِ حال یہ ہے کہ تیئس سال میں نجماً نجماً اترنے والا قرآن ایک کامل مجموعے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری ہوگیاہے کہ ہم خود دریافت کریں کہ اپنے زمانے میں ہم کو اپنے عمل کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے۔ گویا کہ دورِاول میںبغیر تحقیق کیے ہوئے ہر قدم پر ہم کو فطری طورپر بتایا جارہا تھا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے، جب کہ آج یہ صورت حال ہے کہ تقریباً ساڑھے چھ ہزار آیتوں کے مجموعے میں ہم کو خود یہ دریافت کرنا ہے کہ اِن آیتوں میں نقطۂ آغاز کی آیت کون سی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ بعد کے زمانے میں طالبِ حق کو بہت سے انتخابات(options)میں سے کسی ایک انتخاب (option)کو ڈھونڈھ کر نکالنا ہے، جب کہ دورِ اوّل میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سِرے سے موجو ہی نہ ہوتا تھا۔
یہی مسئلہ ہے جس کی بنا پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلم گروہ ہیں اور ہر ایک قرآن کے حوالے سے اپنی تحریک چلا رہا ہے، مگر سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کسی کے نزدیک احیائِ اسلام کے عمل کا آغاز یہ ہے کہ فضائل کی کہانیاں سُنا کر لوگوں کو نمازی بنایا جائے ۔ کوئی سمجھتا ہے کہ اقتدار حاصل کرکے اسلامی قوانین کو نافد کیا جائے۔ کسی کا خیال ہے کہ قومی فخر کا احساس پیدا کرکے مسلمانوں کو بیدار کیا جائے۔ کسی کا ماننا یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں اور سورتوں کے اندر چھپے ہوئے نظم کو کھولا جائے۔ کسی کا کہنا یہ ہے کہ جغرافی تقسیم کرکے مسلمانوں کا علیٰحدہ پاکٹ بنایا جائے، اِس طرح مسلمان خیرِ امت کا کردار اداکرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عشقِ رسول کی دھوم مچائی جائے اور پھر سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہوجائے گا۔ اسی طرح کچھ لوگ مسائلِ اسلام اور مظاہرِ اسلام کو اصل سمجھ کر اس کی دھوم مچائے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ کچھ اور لوگ ہیں جو حصولِ برکت کو سب سے زیادہ اہم چیز سمجھتے ہیں اور اسی کو تمام سعادتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ کمیونٹی ورک یا ملّی خدمت کو اصل کام سمجھے ہوئے ہیںاور اس کو نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ شوکتِ اسلام کے نام پر تقریر اور تحریر کی سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیںاور اس کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ جہاد کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جہادی سرگرمیاںجاری کرنا ہی اسلام کا سب سے زیادہ مطلوب کام ہے، وغیرہ۔
حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں امتِ مسلمہ میںتہتّر فرقے ہوجائیں گے (ابوداؤد، کتاب السنّۃ) میرا خیال ہے کہ یہ تہتر فرقے، دراصل وہ تہتر گروہ ہوں گے جو قرآن کی تہتر آیتوں سے اپنے لیے الگ الگ نقطۂ آغاز دریافت کریں گے اور پھر امتِ واحدہ کو امتِ متفرقہ میں تبدیل کردیں گے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ نقطۂ آغاز کا فرق پورے معاملے میں فرق پیدا کردیتا ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ترتیبِ کار کے سوال کا جواب اصحابِ رسول کی تاریخ میں تلاش کیاجائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طورپر اپنے اصحاب کو کیا نقطۂ آغاز دیا اور کس رخ پر انھیں چلایا، یہی اِس مسئلے کاواحد حل ہے۔ نقطۂ آغاز یا ترتیب کار کا سوال ایک عملی سوال ہے، اور اس کو عملی تاریخ ہی کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
حدیث میںآیاہے کہ: إنّ اللہ یبعث لہذہ الأمۃ علیٰ رأس کلّ مائۃ سنۃ من یجدّد لہا دینہا (ابوداؤد، کتاب الملاحم) اور دوسری طرف حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثمّ الذین یلونہم(صحیح البخاری)۔ اِس دوسری حدیث کے مطابق، ابتدائی تین زمانوں (عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین) کو قرونِ مشہود لہا بالخیر کہاگیا ہے۔
اِس قسم کی حدیثوں پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آتا ہے کہ پہلے دَور سے مراد وہ دور ہے جب کہ صحیح نقطۂ آغاز کو لے کر کام کیا گیا اور اس کے مطابق، ایک نسل تیار ہوئی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، دوسری نسل پہلی نسل سے گہرے طورپر متاثر ہوتی ہے۔ یہ اثر تیسری نسل تک کم و بیش باقی رہتا ہے۔ اس کے بعد حالات بدل جاتے ہیںاور ضرورت ہوتی ہے کہ صحیح نقطۂ آغاز سے کام شروع کرکے دوبارہ پہلے گروہ کے مانند ایک گروہ بنایا جائے۔
اِس سلسلے میں حدیث میں ’سَو سال‘ کا ذکر کیاگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سو سال سے مراد مذکورہ تین نسلوں کا زمانہ ہے۔ سوسال کے اندر تربیت یافتہ تین نسلوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت ہوتی ہے کہ دوبارہ پہلے کی طرح ایک تربیت یافتہ نسل بنائی جائے ۔تربیت یافتہ نسل بنانے کے اِسی کام کو حدیث میں ’تجدید‘ کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق، تجدید کا یہ کام بار بار سوسالہ وقفے کے ساتھ جاری رہے گا، یہاںتک کہ قیامت آجائے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ مسلمہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کو المہدی کا نام دیاگیا ہے۔ المہدی کوئی سیاسی لیڈر نہیںہوگا۔ وہ حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں اٹھے گا، بلکہ اس کا کام یہ ہوگا کہ دورِ آخر کے زیادہ بدلے ہوئے حالات میں از سرِ نو صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت کرے اور اس کے مطابق، اصلاح اور دعوت کا عمل جاری کرکے اسلام کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں قائم کردے۔
صحیح نقطۂ آغاز سے مراد صحیح ترتیبِ کار ہے۔ صحابہ کے حالا ت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا آغاز سچائی کی تلاش سے ہوا۔ ابتداء ً وہ سچائی کی تلاش میںسرگرداں ہوئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کو سچائی کی ڈسکوری ہوئی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میںایک اور عمل جاری ہوا جس کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ تزکیہ سے مراد کوئی پُر اسرار چیز نہیں۔اس کا مطلب ہے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) ، ذہن کی ری انجینئرنگ(re-engineering) ، اور وہ چیز جس کو تزکیۂ نفس (purification of soul) کہا جاتا ہے۔
اسی کے ساتھ ہر صحابی کی زندگی میں دعوت کا عمل شامل ہوگیا۔ معرفت اور دعوت دونوں باہم اس طرح جُڑے ہوئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معرفت اور دعوت دونوں اپنی حقیقت کے اعتبارسے وہی کام ہیں جو دورِ اول میں پیش آئے تھے، لیکن جدید سائنسی دور میں جو نیے فکری مواقع ظہور میں آئے ہیںوہ بھی حسبِ امکان اس کا حصہ بنتے چلے جائیں گے۔ گویا کہ موجود زمانے میں حق کی اعلیٰ معرفت کسی کو سائنسی فریم ورک میں حاصل ہوگی، اور اسی طرح دعوت کا کام بھی سائنسی فریم ورک کے مطابق، انجام پائے گا۔ سائنسی فریم ورک سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں لسانِ قوم، یعنی لسانِ عصر کہاگیا ہے (ابراہیم ۴)۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ قدیم اور جدید کا امتزاج نہیں ہوگا بلکہ وہ قدیم کا صرف ایک نیا اظہار ہوگا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی آدمی ایک بڑی سچائی کو دریافت کرے تو فوراً وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو وہ اس سچائی میں حصے دار بنائے۔ عین فطری تقاضے کے طورپر اس کے اندر یہ تڑپ جاگ اٹھتی ہے کہ وہ چیز جو اس نے اپنے نسخٔہ نجات کے طورپر دریافت کی ہے، اس سے کوئی بھی عورت اور مرد محروم نہ رہے، اس طرح دعوت ، معرفت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ گویا کہ دعوت، معرفت ہی کی توسیعی صورت ہے۔ جہاں معرفت ہوگی وہاں دعوت ضرور ہوگی۔ اگر کوئی شخص حصولِ معرفت کا دعویٰ کرے، لیکن اس کی زندگی میں دعوت شامل نہ ہو تو یقینی طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ابھی تک معرفت سے آشنا نہیںہوا۔
حقیقت اپنی ذات میں ایک ناقابلِ تقسیم اکائی ہے۔ حقیقت کے مختلف مظاہر ہوسکتے ہیں، لیکن خود حقیقت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ یہی معاملہ معرفت حق کا ہے۔ جب ایک آدمی کو لمبی مدت تک سنجیدہ تلاش کے بعد سچائی کی دریافت ہوتی ہے تو وہ یونانی فلسفی اَرشیمیدس (Archimedes) کی طرح چیخ کر بھاگتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتائے کہ اس کی دریافت کے مطابق، سچائی کیا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ معرفت اور دعوت دونوں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ معرفت اپنے داخل کے اعتبار سے معرفت ہے، اور اپنے خارج کے اعتبار سے دعوت۔
دین کا نقطۂ آغاز دریافت کرنے کا تعلق، بیک وقت دو چیزوں سے ہے۔ ایک، خود اپنی دینی زندگی کی تعمیر اور دوسرے، قرآن کو صحیح طورپر سمجھنا۔
نقطۂ آغاز جاننے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ جب تک آدمی کو نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو، اُس وقت تک وہ بظاہر جاننے کے باوجود کچھ بھی جاننے سے محروم رہے گا، وہ بے یقینی اور کنفیوژن میں جیے گا، وہ بے نتیجہ کام اور نتیجے والے کام میں فرق نہ کرسکے گا، اس کی روح سچے یقین سے محروم رہے گی، وہ فارم والے دین کو جانے گا لیکن حقیقت والے دین کو وہ نہ جان سکے گا، دین اس کے لیے ایک قسم کا خارجی کلچر ہوگا نہ کہ وہ گہری حقیقت جو اس کی زندگی کا جز بن جائے، وہ سطح کی کچھ باتوں کو جانے گا، لیکن وہ گہری باتوں کو جاننے سے بے خبر رہے گا۔
یہی معاملہ قرآن فہمی کا ہے۔ وہ قرآن کے مرکزی تصور کو نہ جان سکے گا، اور جو آدمی قرآن کے مرکزی تصور سے بے خبر ہو اس کو اعلیٰ سطح پر قرآن کی بصیرت بھی حاصل نہ ہوگی۔ بظاہر وہ قرآن کو پڑھے گا، لیکن وہ اس کی گہرائی میں نہ اتر سکے گا، وہ گہرے معنوں میں قرآن کی تفسیر و تشریح نہ کرسکے گا۔
واپس اوپر جائیں

رمضان اور جنگ

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رمضان کا مہینہ شہر الفرقان ہے، یعنی یہ مہینہ فتح کا مہینہ ہے۔ اُن کے نزدیک رمضان کے مہینے میں اگر جہاد (بمعنی قتال) کیا جائے تو فتح یقینی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ پچھلے برسوں میں کچھ لوگوں نے اس خیال کو لے کر رمضان کے مہینے میں اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ لیکن یہ جنگ یک طرفہ طورپر’’مجاہدین‘‘ کی تباہی پر ختم ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ اِس معکوس تجربے کے باوجود لوگوں کے نظریے میں فرق نہیں آیا۔ وہ اب بھی رمضان کے مہینے میں جنگ کی باتیں کررہے ہیں۔
رمضان کے مہینے کو فتح کا مہینہ سمجھنے کا ماخذ کیا ہے۔ اس کا ماخذ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنگِ بدر پیش آئی۔ یہ جنگ ۱۷ رمضان ۲ ہجری کو ہوئی۔ اِس جنگ میں رسول اور اصحابِ رسول کو فتح حاصل ہوئی۔ اس لیے یہ سمجھ لیا گیا کہ رمضان کا مہینہ فتح کا مہینہ ہے،مگر یہ ایک بے اصل بات ہے۔ بدر کی لڑائی کا رمضان کے مہینے میں پیش آنا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا انتخاب(choice) نہ تھا۔ بدر کی جنگ ایک دفاعی جنگ تھی۔ وہ رمضان کے مہینے میں اس لیے پیش آئی کہ فریقِ مخالف کا لشکر اسی مہینے میں اقدام کرکے مدینے کے قریب بدر کے مقام پر پہنچا۔ یہ فریقِ مخالف کی طرف سے یک طرفہ اقدام تھا او راس مسلّح اقدام کی بنا پر بدر کی دفاعی جنگ پیش آئی۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بدر کی لڑائی کے علاوہ بھی کچھ اور لڑائیاں پیش آئی ہیں۔ مثلاً غزوۂ اُحد اور غزوۂ حُنین۔ مگر یہ د وسری لڑائیاں رمضان کے مہینے میں نہیںہوئیں۔ احد کی لڑائی مدینہ کے پاس ۶شوال ۳ ہجری میں پیش آئی، اورحنین کی لڑائی ۱۱ شوال ۸ ہجری میں ہوئی۔ اگر ایسا ہوتا کہ بدر کی لڑائی کا رمضان کے مہینے میں پیش آنا، پیغمبر اسلام کا اپنا انتخاب ہوتا تو احد اور حنین کی لڑائیاں بھی رمضان کے مہینے میں پیش آتیں۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو یہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رمضان کے مہینے کا کوئی تعلق قتال اورجنگ سے نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کبھی بھی اہلِ اسلام کا اپنا انتخاب (choice) نہیں ہوتا۔ اسلام میں جب بھی کوئی جنگ پیش آتی ہے تو وہ فریقِ مخالف کے مسلّح اقدام کے نتیجے میں صرف دفاعی طورپر پیش آتی ہے۔ اور یہ واضح بات ہے کہ اقدام کرنے والے کے لیے تو تاریخ کا تعین اس کا اپنا انتخاب ہوتا ہے، مگر دفاع کرنے والے کے لیے تاریخ کا تعین اس کا اپنا انتخاب (choice) نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ وسئلوا اللہ العافیۃ( صحیح البخاری) یعنی تم لوگ دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت (امن) مانگو۔ اِس حدیثِ رسول سے جنگ کے بارے میں اسلام کا بنیادی اصول معلوم ہوتا ہے۔ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت استثنا (exception) کی۔ اسلام میں جنگ ایک مجبورانہ فعل ہے نہ کہ اختیارانہ فعل۔ اسلام میں جنگ کی صورتِ حال خود اسلام کی طرف سے پیدا نہیں کی جاتی۔ یہ دراصل فریقِ مخالف ہے جو جنگ کی صورتِ حال پیدا کرکے اہلِ اسلام کو دفاعی طورپر مسلّح ٹکراؤ کے لیے مجبور کرتا ہے۔
جہاں تک رمضان کے مہینے کی بات ہے تو حدیث میں رمضان کو شہر الصبر (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی صبر کا مہینہ۔ رمضان کا مہینہ اِس بات کی تربیت کا مہینہ ہے کہ لوگ اپنے آپ پر کنٹرول کرکے رہنا سیکھیں۔ وہ اپنی خواہشوں پر لگام لگائیں۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔ وہ بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرکے اپنے اندر روحانیت پیدا کریں۔ ذکر اور تلاوت اور نماز کی کثرت سے وہ خدا کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان کے مہینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو آخری حد تک خدا سے قریب کرے۔ اور یہ قربت اُسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اپنے آپ کو انسانوں کی دنیا سے دور لے جائے اور اپنے آپ کو خدا کی دنیا سے قریب کرے۔
اِن حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رمضان کا مہینہ امن کا مہینہ ہے، وہ جنگ کا مہینہ نہیں۔ رمضان کا مہینہ اپنی داخلی فطرت کو جگانے کا مہینہ ہے، وہ خارجی نزاعات میں سرگرم ہونے کا مہینہ نہیں۔ رمضان کا مہینہ خدا کی یاد میں گم ہونے کا مہینہ ہے، وہ انسانوں سے الجھنے اور خون بہانے کا مہینہ نہیں۔حدیث میں آتا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آیا اور رمضان کا نیا چاند آسمان پر دکھائی دیا تو پیغمبر اسلام کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: اللہمّ أہلّہ علینا بالأمن والإیمان، والسّلامۃ والاسلام۔ (الترمذی:کتاب الدعوات، الدارمی:کتاب الصوم، مسند احمد)یعنی اے خدا، تو رمضان کے چاند کو ہمارے اوپر امن اور ایمان کے ساتھ اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ ظاہر فرما۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے کا استقبال اس احساس کے ساتھ فرمایا کہ وہ اہلِ اسلام کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے اور اہلِ اسلام کے درمیان امن اور سلامتی کا ماحول بنائے۔ پیغمبر اسلام کے یہ الفاظ اِس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ رمضان کے مہینے کا کوئی تعلق قتال اور جنگ سے نہیں، بلکہ وہ اس لیے ہے کہ لوگوں کے اندر امن کے جذبات پیدا کرے اور سماج میں امن کو فروغ دے۔
قرآن میں روزے کا حکم دیتے ہوئے اس کا یہ فائدہ بتایاگیا ہے کہ: لعلکم تتّقون (البقرہ: ۱۸۳)یعنی رمضان کے مہینے کا روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ لوگ متّقیانہ زندگی گذارنا سیکھیں، وہ برائیوں سے بچ کر زندگی گذارنے کی تربیت حاصل کریں۔
تقویٰ کیا ہے۔ اس کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ خلیفۂ ثانی عمر فاروق نے ایک سینئر صحابی اُبی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین، کیا آپ کسی ایسے راستے سے گذرے ہیں جہاں دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاںہوں۔ انھوںنے کہا کہ ہاں۔ ابی بن کعب نے پوچھا کہ اُس وقت آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچتا ہوا اُس سے گذر گیا۔ ابی بن کعب نے کہا : ذلک التّقویٰ ۔ یعنی اِسی روش کا نام تقویٰ ہے۔ (القرطبی، جلد اوّل، صفحہ ۱۶۲)
رمضان کا مہینہ تقویٰ کا مہینہ ہے۔ اب مذکورہ قولِ صحابی کی روشنی میں اس معاملے کی وضاحت کی جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رمضان کا مہینہ کانٹوں سے نہ الجھنے کا مہینہ ہے۔ ایسی حالت میں کتنا عجیب ہوگا کہ رمضان کے مہینے کو کانٹوں سے الجھنے کا مہینہ بنا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

احساسِ محرومی کیوں

ایک آدمی کا قصہ ہے۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ سفر کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے دو پیروں کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اس کو کہیںجانا ہوتا تو وہ پیدل سفر کرکے جاتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دوسرے لوگ سواریوں پر چل رہے ہیں۔ وہ اکثر سوچتا کہ کاش میرے پاس ایک بائسکل ہوتی تو میں بھی سواری پر چلنے کے قابل ہوجاتا۔
اس نے پیسہ اکھٹا کرکے اپنے لیے ایک بائسکل خریدی۔ اب وہ بائسکل پر سفر کرنے لگا۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دیکھتا کہ دوسرے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر سائکل ہے۔ اس نے سوچا کہ کاش، میرے پاس بھی موٹر سائکل ہوتی تو سفر کرنا زیادہ آسان ہوجاتا۔ اس نے دوبارہ کوشش کی۔ آخر کار اس کے پاس دو پہیوں والا اسکوٹر ہوگیا۔
شروع کے چند دن اس کے لیے بہت خوشی کے دن تھے۔ لیکن جلد ہی اس کے دل میںایک اور خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے سوچا کہ دوسرے کئی لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر کار ہے، لیکن میرے پاس نہیں۔ اب اس نے ایک نئی کوشش شروع کردی۔ ایک عرصے کے بعد اس کی یہ کوشش کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ اس نے ایک چھوٹی موٹر کار خریدلی۔
مگر اب بھی اس کی خواہشوں کی حد نہیں آئی۔ اب وہ بڑی موٹر کار کی تمنا کرنے لگا۔ آخر کار وہ دن آیا جب کہ اس کے گھر کے سامنے ایک بڑی کار آکر کھڑی ہوگئی۔ اِسی کے ساتھ اس کا کاروبار بھی بڑھا۔ یہاں تک کہ اس نے دوسری کار اور تیسری کار بھی خرید لی، مگر اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ آخر کار وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ گیا اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر مرگیا۔
موت سے ایک دن پہلے اس کا ایک دوست اس سے ملا۔ وہ دیر تک اس کے پاس رہا۔ گفتگو کے دوران دوست نے اس سے کہا کہ تم ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ پھر تم نے کاروبار کیا۔ تمھارا کاروبار ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ آج تمھہارے پاس مادّی اعتبار سے بہت سی چیزیں ہیں۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں میری سب خواہشیں پوری ہوگئیں۔ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے آدمی نے کہا کہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب میںایک محرومِ تمنا آدمی کی حیثیت سے مررہا ہوں:
Now I am dying as a case of unfulfilled desires.
یہ کہانی صرف ایک انسان کی کہانی نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پوری عمر اِس کوشش میں گذار دیتا ہے کہ اس کے دل میں جو خواہشیں چھپی ہوئی ہیں وہ پوری ہوں۔ مگر ہر انسان اس احساس کے ساتھ مر جاتا ہے کہ اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوئیں۔ اِس معاملے میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثناء نہیں۔
دوسری طرف حیوانات کو دیکھیے۔ حیوانات بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ بھی کچھ دن جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں، لیکن کوئی بھی حیوان اِس دنیا میں احساسِ محرومی کے ساتھ نہیںمرتا۔ وہ پیدا ہوکر کچھ دن جیتا ہے اور پھر اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے بارے میں کسی بھی قسم کا غم یا افسوس نہیںہوتا۔
انسان اور حیوان میںیہ فرق کیوں ہے۔ اس کا سبب دونوں کے ذہنوں کے فرق میں پایا جاتا ہے۔ حیوان کا ذہن، انسان کے ذہن سے مکمل طورپر مختلف ہوتا ہے۔ حیوان خواہ کوئی بھی ہو، اس کا ذہن حال رُخی ذہن(present-oriented mind) ہوتا ہے۔ اِس بنا پر حیوان کو جو کچھ مل جائے اُسی کو وہ کافی سمجھتا ہے۔ ہر حیوان صرف آج میںجیتا ہے۔ حیوان کے ذہن میںکَل یا مستقبل کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے حیوان کو ملے ہوئے سے زیادہ کی کوئی فکر بھی نہیں۔
اِس کے مقابلے میں انسان کا ذہن مستقبل رُخی ذہن (future-oriented mind) ہے۔ وہ آج پر قانع نہیںہوتا، بلکہ وہ کَل کے بارے میں بھی فکر مند رہتا ہے۔ اور وہ حال کے ساتھ مستقبل تک کامیاب رہنا چاہتا ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میں انسان کو یہ طویل کامیابی حاصل نہیں ہوتی، اس لیے ہر انسان کا مقدّر بن گیا ہے کہ وہ احساسِ محرومی کے ساتھ دنیا سے چلا جائے۔
تاہم یہ مسئلہ حقیقی نہیں، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا عرصۂ حیات(life span) ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ جب آدمی مرتا ہے تو وہ ختم نہیںہوتا، بلکہ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںداخل ہوجاتا ہے۔خالق کے کریشن پلان (creation plan) کے مطابق، موت سے قبل کی زندگی ٹسٹ دینے کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی ٹسٹ کے مطابق، اپنا انجام پانے کی زندگی۔ انسان کا ذہنی تناؤ، یا اس کا احساس محرومی صرف اس لیے ہے کہ وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو سمجھ کر اپنی رائے نہیں بناتا۔ وہ ایسا کرتا ہے کہ جو کچھ خالق نے اس کے لیے بعد ازموت مرحلۂ حیات میں مقدّر کیاہے، اس کو وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں پالینا چاہتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کو سمجھے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو کچھ اس کو کَل ملنے والا ہے، وہ اس کو آج ہی پالینا چاہے۔ جو آدمی درخت لگانے کے دن پھل کا طالب بن جائے اس کے حصے میں صرف مایوسی آئے گی۔ اس کے برعکس، جو آدمی درخت کی تکمیل پر اس کا پھل لینے پر راضی ہوجائے، اس کے لیے نہ کوئی تناؤ ہے اور نہ کوئی افسوس۔
ذہنی تناؤ دراصل چاہنے اور پانے کے درمیان فرق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس فرق کو مٹا دیجئے اور پھر ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۷

۱۔ بی بی سی (لندن) کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین زَین نے ۴؍اگست ۲۰۰۶ء کوصدر اسلام مرکز کا ایک انٹرویو رکارڈ کیا ۔ سوالات کا تعلق، اس مسئلے سے تھا کہ اسلام میں انٹر کاسٹ شادی کے بارے میں کیا حکم ہے۔ جوابات کے دوران بتایا گیا کہ یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سماجی مسئلہ ہے۔ اسلام میں مذہبی بنیاد پر کوئی کاسٹ سسٹم نہیں ہے۔ ایک کاسٹ اور دوسری کاسٹ کے درمیان شادی بالکل جائز ہے۔ فقہِ حنفی میں کُفو کی بنیاد پر جو مسئلہ ہے وہ بھی کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ سماجی ضرورت کے تحت بنا ہے۔ انڈیا کے مشہور عالم مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کُفو کے مسئلہ کے سخت مخالف تھے۔
۲۔ اٹلی (روم) سے ۵۵ عورتوں اور مَردوں کی ایک ٹیم نئی دہلی آئی۔ دوسری مصروفیات کے علاوہ انھوں نے کنا ٹ پلیس (نئی دہلی) میں ۵؍اگست ۲۰۰۶ کو ایک خصوصی اجتماع کیا۔ یہ اجتماع پارک ہوٹل کے ہال میں ہوا۔ ان کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اور تقریباً ایک گھنٹہ امن اور اسلام کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس کے بعدآدھ گھنٹہ سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اِس خطاب میں اسلام کا تعارف پیش کیا گیا۔ سوال جواب کے دوران،اسلام کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی گئی۔ تقریر کے بعد ان لوگوں نے خود سے یہ کیا کہ ترانے کے انداز میں ان کے لیڈر مسٹر ماریہ یہ کہتے— بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ، اللہ، اور لا الٰہ الا اللہ اور مجمع میں بیٹھے ہوئی تمام اطالوی عورت اور مرد اس کو بلند آواز سے دہراتے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ اور پورے پروگرام کی ویڈیو رکارڈنگ کی گئی۔ اس کا کیسٹ ہمارے دفتر میں موجودہے۔ ان لوگوں نے اسلام کی تمام تعلیمات سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے آخر میں یہ سوال کیا کہ اسلام جب اتنا پُرامن اور فطری صداقتوں کا حامل مذہب ہے تو پھر مسلمان اسلامی تعلیمات کے برعکس کیوں ہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام اور مسلمانوں میں فرق ہے۔ اسلام کو جاننے کے لیے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ موجودہ مسلم کمیونٹی کا۔
۳۔ نئی دہلی میں مقیم رٹائرڈ جنرل ڈاکٹر چھبّر نے اپنے طور پر اسلامی مرکز کی کتابیں پاکستان کے کچھ لوگوں کو بھجوائیں۔ ان میں سے ایک، جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد صاحب تھے۔ قاضی موصوف کو یہ کتابیں مل گئیں۔ ا س کے بعد انھوں نے جنرل چھبّر کے نام اپنے خط مؤرخہ ۵؍اگست ۲۰۰۶ میں اس کو اکنالیج کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں:
Kindly convey my heartly gratitude to Maulana Wahiduddin Khan sahib for sending his scholarly piece "Mutala-e-Seerat" to me, Indeed, this book is an invaluable addition to my reading shelf.
۴۔ جرمنی سے ایک خط اسلامی مرکز کے دفتر میں آیا ہے۔ وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
I wrote you few years back and I wanted to translate the book “Moral Vision of Islam” in German. Today I found someone who wants to publish the book “Islam and Peace”. Could you kindly send me a detailed biodata of Maulana Wahiduddin Khan, so I can pass it to the publishers. The link, which says something about Maulana Wahiduddin Khan cannot be opened. Please could you pass this on, after asking Maulana Sahib, whether he wants me to translate his book “Islam and Peace” in German. Few years ago he gave me the authority to translate his book “Vison of Islam”.
I would be very thankful, if you could answer me as quick as possible. 8, August 2006
(Samina Khan (Germany)
۵۔ دہلی میں دوردرشن پر ایک اردو چینل کا افتتاح کیاگیا ہے ۔۱۶؍اگست ۲۰۰۶ کو اس کا پہلا پروگرام ریکارڈ کیاگیا۔ یہ رکارڈنگ خان پور مارکیٹ کے ایک اسٹوڈیو میں ہوئی۔ اس میں تین افراد کو بلایا گیا تھا۔ میرے سوا، مولانا جلال الدین عمری اور تیسرے ایک ہندو تھے جن کا نام موہن جی داس تھا۔ یہ ایک پینل ڈسکشن تھا جس کا عنوان یہ تھا: مسلمان اور دہشت گردی۔ اینکر کا فریضہ ماجد دیوبندی صاحب نے ادا کیا۔ میںنے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک حقیقی امیج ہے، اور دوسری میڈیا امیج۔ یہ مسلمانوں کی میڈیا امیج ہے کہ وہ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ مگر حقیقی امیج ایسی نہیں۔ کچھ لوگ تشدد کا طریقہ ضرور اختیار کرتے ہیں لیکن بقیہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کھلے طورپر ان کی مذمت کریں۔ تاکہ تشدد کا فعل صرف چند مسلمانوں کا فعل سمجھاجائے نہ کہ پوری مسلم کمیونٹی کا۔
۶۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۲؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترمسلم مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ ـتھا کہ مسلمانوں کے مسائل کی جڑ ان کی اپنی نااہل قیادت ہے۔ اور نااہل قیادت مسلمانوں کے اوپر اس لیے مسلط ہوئی کہ مسلمان تعلیم میں پچھڑ گئے۔ اس لیے وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ وہ جذباتی نعروں کے پیچھے دوڑتے رہے۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھایا جائے، خاص طور پر جدید تعلیم میں۔
۷۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۲۳؍ اگست ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ خطاب کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
اِس موضوع پر پہلے ۴۵ منٹ کا خطاب ہوا۔ اس کے بعد ۱۵ منٹ تک سوال وجواب ہوا۔ پروگرام کے آخر میں لوگوں کو اسلامی کتابیں تقسیم کی گئیں۔ اور یہ بتایا گیا کہ ویب سائٹ کے علاوہ آپ لوگ زی جاگرن ٹی وی پر روزانہ صبح کو سات بج کر بیس منٹ پر صدر اسلامی مرکز کی تقریر سن سکتے ہیں۔
۸۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر رمیش شرما نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ تفصیلی انٹرویو ۲۵؍ اگست ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر وندے ماترم کے مسئلے سے تھا۔ چوں کہ مختلف تنظیموں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ۷ ستمبر ۲۰۰۶ کو پورے ملک میں وندے ماترم گایا جائے، اور ہر فرقے کے لوگ اس میں شریک ہوں۔ ۷ ستمبر ۲۰۰۶ کو اِس نظم کی اشاعت پَر سو سال پورے ہوجائیں گے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اِس معاملے میں ہندو اور مسلمان دونوں غلو کا شکار ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وندے ماترم گانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ اِس کے مؤیّدین یہ کہتے ہیں کہ وندے ماترم دیش بھگتی کی اسپرٹ جگانے کے لیے ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ وندے ماترم ایک سو سال سے برابر گایا جارہا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اسکول اور جلسے ہر جگہ ،مگر نتیجہ برعکس ہے۔ اِس مدت میں دیش بھکتی تو نہیں بڑھی، البتہ دولت بھکتی خطرناک حدتک بڑھ گئی ہے۔ ایسی حالت میں ۷ستمبر کا دن اِس معاملے پر ری اسیس منٹ(reassessment) کے طور پر منایا جانا چاہیے نہ کہ خوشی کے طور پر۔
۹۔ نئی دہلی کے بہائی ہاؤس آف ورشپ (لوٹس ٹمپل میں ۲۷؍اگست ۲۰۰۶ کو ایک اجتماع ہوا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Human being: The Living Dwelling Place of the Divine
اس کی دعوت پر اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اِس موضوع پر خطاب کیا۔ ایک بات انھوںنے یہ کہی کہ مذہبوں کے درمیان جھگڑا زیادہ تر کٹّر پن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کو اسلام میں غلو کہاگیا ہے۔ غلو کا مطلب ہے انتہا پسندی(extremism) ۔
۱۰۔ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۲۹؍ اگست ۲۰۰۶ کو ایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس میں کئی لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع ’کمیونل ہارمنی‘ تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے بھی اس کی دعوت پر اس پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتایا کہ ہندستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیسے لائی جاسکتی ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کسی بھی سماج میں اختلاف کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اختلاف سے ٹکرانے کے بجائے اس کو نظر انداز کریں۔ وہ ڈفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلے کو حل کریں۔ وہ کسی بھی حال میں احتجاج اور مظاہرہ اور تشدد کا طریقہ نہ اختیار کریں۔ اِس پروگرام میں سوامی اگنی ویش، تارا بھٹا چاریہ، پروفیسر کمار، وغیرہ شریک ہوئے۔
۱۱۔ جَن مت ٹی وی (نئی دہلی) کی نمائندہ مزورمانی (Jyoti Virmani) نے ۳۰؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو اِس سوال پر تھا کہ انشورنس کروانا، مسلمان کے لیے جائز ہے کہ نہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ ہر چیز کو جائز اور ناجائز کا مسئلہ بنانا، یہ خود اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ سب سے پہلے حالات کو دیکھا جاتا ہے۔ حالات کے مطابق، جو چیز قابل عمل ہو اس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ جو چیز قابل عمل نہ ہو اس پر فتویٰ دینا یہ خود اسلام کے خلاف ہے۔ کیوں کہ ایسا فتویٰ اپنے نتیجے کے اعتبار سے کوئی اصلاح کی بات نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی تصغیر کے ہم معنیٰ ہے۔
۱۲۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین نے ۳۱ ؍ اگست ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع ’حج سبسڈی، تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ حج سبسڈی، جو گورنمنٹ کی طرف سے دی جاتی ہے وہ بالکل جائز ہے، اس میں ناجائز کی کوئی بات نہیں ہے۔ تمام مسلم ملکوں میں یہ طریقہ رائج ہے۔ حالاں کہ مسلم رہنما ہر مسلم ملک کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہاں کے حکمراں اسلامی اصولوں پر حکومت کا نظام نہیں چلاتے۔ مسلمان اپنے دنیوی حقوق کے معاملے میں جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندستان کی حکومت اُسی طرح ہماری حکومت ہے جس طرح وہ ملک کے دوسرے باشندوں کی حکومت ہے۔ ایسی حالت میں حج سبسڈی کے بارے میں مسلم ممالک اور ہندستان کے درمیان فرق کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
۱۳۔ جَین ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ اِس اشو پر شور وغل کرنا اور اس کو شرعی مسئلہ بنانا درست نہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی ایک نظم میں برہمن کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
جب مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ اقبال کا یہ شعر بھی اتنا ہی قابل اعتراض ہے جتنا کہ وندے ماترم، تو مسلمان کہتے ہیں کہ اقبال نے جو کہا تھا وہ تو شعر وشاعری کی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بنکم چندر چٹرجی نے اپنے ناول ’آنند مٹھ‘ میں وندے ماترم کی شکل میں جو گیت شامل کیا وہ بھی تو ناول اور شعر و شاعری کی بات ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ یا تو دونوں کے خلاف ہنگامہ کریں یا دونوں کو نظر انداز کردیں۔
۱۴۔ شانتی گِری آشرم (نئی دہلی) کا سالانہ فنکشن ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کو تھا۔ شانتی گری آشرم کا مرکز کیرلا (تری وندرم) میں ہے۔ اس کے فاؤنڈر کُروناکراگرو ہیں۔ وہ ایک مسلم صوفی قریشیہ فقیر کے شاگرد مانے جاتے ہیں۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں کئی ممتاز افراد کی تقریر یں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں قرآن اور حدیث کی روشنی میںبتایا کہ امن اور انسانیت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ اِس موقع پر تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ان لوگوں کے درمیان اسلامک لٹریچر اور دعوہ بروشر تقسیم کیا گیا۔ کئی لوگوں سے اسلام کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔
۱۵۔ بی بی سی کے نمائندہ مسٹر عبد الباقی مرزا نے ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کی شام کو ایک انٹرویو رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو کار پر سفر کے دوران رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ جواب میں ایک بات یہ کہی گئی کہ وندے ماترم نہ گیتا میں آیا ہے اور نہ ویدوں میں۔ وہ صرف بنکم چندرچٹر جی کے ناول ’آنند مَٹھ‘ میں آیا ہے۔ اس لیے وہ کوئی مذہبی اِشو نہیں۔ یہ ایک پولٹکل اِشو ہے۔ ایسی حالت میں وندے ماترم پڑھنے کو مذہبی اہمیت دے کر اس کے خلاف ہنگامہ کرنا درست نہیں۔
۱۶۔ ۵ستمبر ۲۰۰۶ کو دور درشن (اردو) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ یہ انٹرویو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ انٹرویور مسٹر تحسین منور تھے۔ یہ پورا انٹرویو نظام الدین ویسٹ کے پارک میں رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق، اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام اوردورِ جدید میںکوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اسلام ایک ابدی مذہب ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میںبیان کیا جائے۔
۱۷۔ ہندی اخبار کے نمائندہ مسٹر کرشن موہن مشرا نے ۷ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ وندے ماترم کو پڑھانے پر اس لیے زور دیا جاتا ہے کہ اس سے ملک میں دیش بھکتی آئے گی۔ مگر سو برس سے وندے ماترم پڑھا جارہا ہے، مگر اب تک ملک میں دیش بھکتی کو فروغ حاصل نہ ہوسکا۔ ایسی حالت میں ضرورت ہے کہ اِس معاملے پر نظرِ ثانی کی جائے، نہ کہ اس کو پڑھانے کی دھوم مچائی جائے۔
۱۸۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اسی دن صبح ۹ بجے کے لائیوٹیلی کاسٹ میںنشر کیاگیا۔ آج ہی ۱۴ ستمبر کے اخباروں میںیہ خبر آئی ہے کہ مسیحی پوپ نے اپنی تقریر میںکہا کہ اسلام کے پیغمبر نے یہ تعلیم دی ہے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعے پھیلاؤ۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسلام میں تلوار کا استعمال صرف وقتی اور استثنائی طورپر دفاع کے لیے کیاگیا۔ اسلام کی اشاعت کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ حضرت مسیح نے کہا تھا کہ: ’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں، بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں‘‘۔ (متّٰی: ۳۵) حضرت مسیح کے اِس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تلوار کا مذہب لے کر آئے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام بھی تلوار کا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ وہ امن کا مذہب لے کر آئے۔
۱۹۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو اسلامی مرکز کے دفتر میں آئی اور صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویور مسٹر شارق تھے۔ یہ انٹرویو پوپ کے اُس بیان سے متعلق تھا جو ۱۴ ستمبر کے اخبارات میں چھپا ہے۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ پوپ کا بیان ایک کنفیوژن پر مبنی ہے۔ قرآن میں قتال کی بات ضرور کی گئی ہے مگر وہ صرف دفاع کے لیے ہے۔ پوپ نے یہ کیا کہ قتال کی بات کو اسلام کی تبلیغ سے جوڑ دیا۔
۲۰۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) کے نمائندہ مسٹر ثقلین امام نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسیحی پوپ کے اُس بیان سے تھا، جو ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو مختلف اخباروں میں شائع ہوا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں، وہ پچھلے مذاہب کا محفوظ ایڈیشن ہے۔ اسلام میں یہ اصول نہیں ہے کہ تلوار کے ذریعے اسلام کو پھیلایا جائے، بلکہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ— لاإکراہ فی الدین(البقرہ ۲۵۶) اسلام میں تلوار کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہے، کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔
۲۱۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ’’مقابلہ‘‘ چینل پر ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو لائیو ٹیلی کاسٹ تھا ۔ ان کا موونگ اسٹوڈیو دفتر کے سامنے روڈ پر آیا اور اِس طرح انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع مسیحی پوپ کا بیان تھا جو ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو میڈیا میں آیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ پوپ کا بیان ایک فکری چیلنج ہے، وہ کوئی مسلح حملہ نہیں۔ اس لیے اس کا جواب بھی فکری سطح پر دینا چاہیے۔ سڑکوں پر مظاہرہ کرنا، یا متشددانہ ردّ عمل ظاہر کرنا اس کا جواب نہیں۔
۲۲۔ ہندی روزنامہ دینک جاگرن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مسیحی پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ آزادیٔ تقریر کا زمانہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ زمانہ سائنٹفک استدلال کا زمانہ ہے۔ پوپ، یا اس قسم کے لوگ اپنی آزادیٔ رائے کے حق کو تو استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ زمانہ سائنٹفک استدلال کا زمانہ ہے۔ علمی دلیل کے بغیر رائے کا اظہار، زمانے کی اسپرٹ کے سراسر خلاف ہے۔
۲۳۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکرن کے نمائندہ مسٹر دویدی نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جواب کے تحت بتایا گیا کہ پوپ نے یہ بات اپنی ایک تقریر میں کہی، جس کا عنوان تھا— فیتھ اینڈ ریزن:
Faith and Reason
یہ عجیب بات ہے کہ انھوں نے اپنے سات صفحے کے لکچر میں یہ کہا کہ مذہب کی تعلیمات کو عقلی دلائل کی روشنی میں بیان کرنا چاہیے، لیکن خود انھوں نے اسلام پر جو منفی ریمارک دیا اس کی کوئی علمی دلیل اپنے طویل لکچر میں انھوںنے پیش نہیں کی۔
۲۴۔ انگریزی روزنامہ دکن ، ہیرالڈ کی نمائندہ مز شو بھا مکھرجی نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق ، زیادہ تر اِس سے تھا کہ پوپ بینڈکٹ نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی ہے۔ اس کے بعد اس معاملے میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اب پوپ کے خلاف اپنی احتجاجی مہم کوختم کردیں۔ البتہ یہ کام بدستور باقی ہے کہ پوپ نے اسلام کی نسبت سے جوسوالات اٹھائے ہیں ان کی مدلّل وضاحت کی جائے۔ مثلاً یہ کہ تشدد کا کوئی تعلق، اسلام سے نہیں۔ جو مسلمان متشددانہ تحریک چلاتا ہے وہ اسلام سے انحراف کرکے ایسا کررہا ہے۔
۲۵۔ زی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق پوپ بینڈکٹ کے حالیہ بیان سے تھا جس میں انھوںنے کہا تھا کہ اسلام کا کوئی مثبت کنٹری بیوشن انسانی تاریخ میں نہیں۔ اس کے جواب میں یہ بتایا گیا کہ پوپ کا یہ دعویٰ بالکل بے اصل ہے۔ اپنے سات صفحے کے پیپر میں انھوں نے اس کی کوئی دلیل نہیںدی۔ ان کا ایک دعویٰ یہ تھا کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا۔ بتایا گیا کہ اصل واقعہ اس کے برعکس ہے۔ اسلام اپنی نظریاتی طاقت سے پھیلا، نہ کہ تلوار کی طاقت سے۔ خود مغربی مصنفین نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً ٹامس کارلائل، اور ٹی ڈبلو آرنلڈ، وغیرہ۔ اس کے انٹرویور مسٹر راجیو (Rajeev Ranjan) تھے۔
۲۶۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔سوال کا تعلق ، زیادہ تر اس مسئلے سے تھا کہ مسیحی پوپ نے اسلام کے خلاف جو ریمارک دیا تھا اس پر اس نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ ایسی حالت میں اب اِس معاملے میں مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہونی چاہیے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ معافی کو فوراً قبول کرلیا جائے اور معاملے کو بالکل ختم کردیا جائے۔
۲۷۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر رائے (Amritanshu Rai) تھے۔ سوالات کا تعلق اِس مسئلے سے تھا کہ شریعت میں فتویٰ کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فتویٰ کا مطلب ایک مفتی کی ذاتی رائے ہے۔ کوئی مفتی اپنی یہ ذاتی رائے اُس وقت دیتا ہے جب کہ کوئی شخص خود اپنے ذاتی معاملے سے متعلق، مفتی کی رائے جاننا چاہے۔ ۔ یہ طریقہ، فتویٰ کا غلط استعمال ہے کہ مسئلہ کسی اور کا ہو اور سوال کوئی اور شخص کرے۔ اِسی طرح یہ بھی فتویٰ کا غلط استعمال ہے کہ مفتی اپنی حد سے باہر جاکر ایسے مسئلے میں فتوے جاری کرے جس کا تعلق، عدالت اور حکومت سے ہو۔
۲۸۔ دہلی کے ٹی وی چینل ۷ نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویور مسٹر جتارتھ (Jitarth) تھے۔ سوالات کا تعلق مسیحی پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جوابات کے تحت جو بات کہی گئی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ پوپ کے اِس بیان کے خلاف ویسا سخت رد عمل ہونے والا نہیں ہے جو ڈنمارک کے کارٹون کے خلاف ہوا تھا۔ ۱۵ ستمبر کو جمعہ کے عبادتی اجتماع کی وجہ سے وقتی طورپر کچھ مظاہرہ ہوگیا، لیکن الگ سے اِس اِشو پر کچھ ہونے والا نہیں۔
۲۹۔ الامین پبلک اسکول (کوچن) کے تحت، ۱۶ستمبر ۲۰۰۶ کو ایک انٹراسکول اسلامک کوئز (InterSchool Islamic Quiz) منعقد کیا گیا۔ اسکول کی فرمائش پر ان کو گُڈ ورڈ کی اسلامی کتابیں بھیجی گئیں۔ جو وہاں کامیاب طلبا کو بطور انعام دی گئیں ۔ اس سلسلے میں اسکول کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
We are gald to inform you that the Inter-School Religious Quiz, which was held on 16th Sept. 2006, was a grand success with three senior students from around 30 schools participating from various districts of Kerala. Al-Ameen Public School, Edappally, sponsored the individual trophies and the trophy for the winning schools along with cash prizes. Apart from these above prizes, all participants were given gift hampers consisting of the Quran with Malayalam translation, Islamic Books, World Atlas and Parker Pen. Escorting teachers of the various schools were given a set of Parker Pen.
Further an Islamic Quiz Competition was also held for the parents and escorting teachers of various schools and prizes were distributed for the winners.
We take this opportunity to thank your good self for your wholehearted contribution for this noble cause without which we would not have been able to make this programme a grand success.
May Allah Almighty reward you and give the best in this life and hereafter.
With regards,
(Mrs. Fahmida Fiaz) (Mrs. Jayaprabha Pradeep)
Religious Quiz Coordinator Principal
۳۰۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق، فتویٰ اور شریعت کے مسئلے سے تھا۔ جواب میںبتایا گیا کہ آج کل جس طرح فتوے کا استعمال کیا جارہا ہے وہ درست نہیں۔ آج کل کی زبان میں یہ فتویٰ ایکٹوزم ہے، اور اسلام کی تعلیم کے مطابق، کرنے کا اصل کام ایجوکیشن ایکٹوزم ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم۔
۳۱۔ ۲۳ستمبر ۲۰۰۶ کو انڈیا ہبی ٹیٹ سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار خدا کے موضوع پر تھا۔ اس سیمنار میںموضوع کے تین پہلو زیرِ بحث آئے— خدا کا وجود، خدا اورنیچر، عقیدۂ خدا کا اثر زندگی پر۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور وہاں مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی ٹیم نے یہاں لوگوں سے دعوتی ملاقات کی اور ان کے درمیان دعوتی بروشر تقسیم کیے۔
۳۲۔ انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر (نئی دہلی) میں لائف پازیٹیو کے تحت، ایک نمائش (Expo) منعقد کی گئی۔ وہ ۲۲ـ۲۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو ہوئی۔ اِس موقع پر مختلف اداروں کے اسٹال وہاں لگائے گیے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے بھی یہاں اسٹال لگایا گیا۔ کتابوں کے ساتھ یہاں ایک ٹی وی سیٹ بھی رکھا گیا تھا جس میں صدر اسلامی کی تقریر مسلسل دکھائی جاری تھی۔ کافی لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
۳۳۔ جھارکھنڈ کے ہندی روزنامہ ’’پربھات خبر‘‘ کے نمائندہ مسٹر نشانت بھاردواج نے اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۶ کو یہ انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیاگیا۔ یہ انٹرویو مسٹر گُرائینم کی کتاب کے بارے میں تھا۔ اِس کتاب میں کئی باتیں مسلم نقطۂ نظر کے خلاف لکھی گئی ہیں، مثلاً کامن سوِل کوڈ اور وندے ماترم وغیرہ۔ جواب میں کہاگیا کہ موجودہ دستور کی موجودگی میں اِس طرح کی باتیں قابلِ عمل نہیں۔ اور جو بات قابلِ عمل نہ ہو اُس پر لکھنا اور بولنا، صرف منفی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس سے صرف لوگوں کی سوچ بگڑتی ہے، لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بعض اوقات یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی بولنے کے بجائے چُپ رہے۔
واپس اوپر جائیں

Wednesday 1 November 2006

Al Risala | November 2006 (الرسالہ،نومبر)

2

- نزولِ قرآن کا مہینہ

5

- زندگی کا مقصد

14

- قانونِ حیات

17

- قرآن اور امنِ عالم

21

- دولت کا مسئلہ

23

- مسلمان مسئلہ کیوں بن گیے

32

- ایک عظیم ایمانی صفت

35

- دعوہ ایمپائر

37

- فرق نہ سمجھنا

39

- انسانی اتحاد

41

- خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۶


نزولِ قرآن کا مہینہ

رمضان کا مہینہ نزولِ قرآن کا مہینہ ہے۔ قرآن میں ارشادہوا ہے کہ— رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا لوگوں کی ہدایت بناکر اور ہدایت اور حق و باطل کے درمیان امتیاز کے کھلے دلائل کے ساتھ ، پس جو کوئی تم میں سے اس مہینہ میں موجودہو وہ اس کے روزے رکھے (شہر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ہدی للناس و بینات من الہدی والفرقان فمن شہد منکم الشہرفلیصمہ) البقرہ ۱۸۵
اس آیت سے رمضان میں روزہ کی سالانہ عبادت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی قمری مہینہ میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا۔ قرآن جیسی الہامی کتاب کاانسان کو دیا جانا بلاشبہہ انسان کے اوپر بہت بڑا نعام تھا۔اس انعام کی شکر گزاری یہی تھی کہ اس مہینہ کو خصوصی طورپر اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں گزارا جائے۔
یہاں قرآن کی تین خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ وہ لوگوں کے لیے رہنمائی ہے۔ قرآن ایک خدائی گائڈ بک ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں انسان کس طرح رہے کہ اس کو حقیقی کامیابی حاصل ہو۔
اس سلسلہ میں ایک بہت بنیادی بات یہ بتائی گئی کہ موجودہ دنیا نہ تو اہانت کی جگہ ہے اور نہ اکرام کی جگہ۔ یہاں کسی کو اگر سامان حیات کم ملے تو اس کو احساس کمتری میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی کو زیادہ ملے تو اس کے لیے بھی درست نہیں کہ وہ احساس برتری میں مبتلا ہوجائے۔ یہ دنیا حقیقتاًآزمائش کا مقام ہے۔ یہاں کی ہر حالت امتحان کی حالت ہے۔ اس لیے آدمی کی نظر اس پر ہونی چاہیے کہ اس نے اپنے ملے ہوئے حالات میں کیسا رد عمل پیش کیا ، نہ یہ کہ وہ دیکھنے لگے کہ خود حالات مادی معنوں میں کیسے تھے اور کیسے نہیں تھے۔
دوسری خصوصیت قرآن کی یہ ہے کہ اس میں جو ہدایت دی گئی ہے وہ ایسے واضح دلائل کے ساتھ دی گئی ہے جو عقل انسانی کے عین مطابق ہے۔ قرآن مجرد حکم نامہ نہیں ہے، اسی کے ساتھ اس میںاعلیٰ سطح پر عقلی اطمینان کا سامان بھی موجود ہے۔
مثال کے طورپر قرآن میںقاتل کے لیے قصاص کی سزا کا حکم دیاگیا ہے۔ یعنی مجرم کے ساتھ وہی معاملہ کرنا جس کا ارتکاب اس نے دوسرے انسان کے ساتھ کیا ہے۔ یہ حکم بظاہر سخت تھا۔ چنانچہ اس کے بعد اس کی عقلی توجیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: ولکم فی القصاص حیاۃ یا اولی الالباب (البقرہ ۱۷۹) یعنی ایک قاتل کو مارنا بہت سے لوگوں کو زندگی دینا ہے۔ کیوں کہ اس طرح تم پورے معاشرہ کو بچا لیتے ہو۔
قرآن کی تیسری خصوصیت یہ بتائی کہ وہ فرقان ہے۔ یعنی وہ حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا خدائی معیار (criterion)ہے۔ وہ جھوٹ کی ملاوٹ سے پاک کرکے، سچ کو اس کے اصلی روپ میں پیش کرتا ہے۔
اس کی ایک مثال موسی علیہ السلام کا ید بضاء کا معاملہ ہے۔ بائبل میں اس کے بارہ میں یہودی عالموں نے لکھ دیا تھا کہ موسی نے اپنا ہاتھ اپنے سینہ پر رکھ کر اسے ڈھانک لیا۔ اور جب اس نے اسے نکال کر دیکھا تو اس کا ہاتھ کوڑھ سے برف کی مانند سفید تھا (خروج ۴:۶) یہ ایک خدا ئی معجزہ کی نہایت غلط تصویر تھی۔
چنانچہ قرآن میں اس کا ذکر کیا گیا تو اُس کو اِس طرح واضح کردیاگیا: واضمم یدک الی جناحک تخرج بیضاء من غیر سوء آیۃ اخری(طہ ۲۲) قرآن میں ید بیضاء کے ساتھ غیر سوء کی قید لگاکر اس لغو الزام کو دور کردیا گیا کہ حضرت موسیٰ کے ہاتھ کی سفیدی کسی بیماری کے سبب سے تھی بلکہ وہ آپ کی نبوت کے حق میں اللہ کی ایک عظیم نشانی تھی۔
نزول قرآن کے مہینہ میں روزہ رکھنے کا حکم دینے کا مقصد یہ ہے کہ خصوصی اہتمام کے ساتھ اس کتاب کو پکڑا جائے۔ اس مہینہ کو تمسک بالقرآن کا مہینہ بنا دیاجائے۔
روزہ دراصل یکسوئی کا ایک خصوصی طریقہ ہے۔ روزہ کی حقیقت یہ ہے کہ تمام غیر متعلق چیزوں سے کٹ کر آدمی ایک حقیقت اعلیٰ سے جڑ جائے۔ روزہ میں کھانا اور پانی چھوڑ دینا اس بات کی علامت ہے کہ بندہ اپنی بنیادی ضرورتوں تک کو بھول کر ہمہ تن قرآن اور صاحب قرآن کی طرف متوجہ ہوگیا ہے۔
رمضان کے مہینہ میں روزہ رکھ کر آدمی اپنے اندر روحانی طلب پیدا کرتا ہے۔ وہ قرآن میں غور کرکے اس سے اپنے لیے روحانی غذا لیتا ہے۔ وہ اللہ کے ذکر اور اللہ کی عبادت میں اپنے صبح وشام گزارتا ہے۔ خدا کی ہدایت ابتداء ً رمضان کے مہینہ میں اتری تھی، اب دوبارہ وہ قمری کیلنڈر کے اسی مہینہ میں مومن کے قلب میں اترتی ہے۔ خوش نصیب ہے وہ آدمی جو رمضان کے مہینہ کو اس ربانی طریقہ پر گزارے۔
واپس اوپر جائیں

زندگی کا مقصد

۱۱ مارچ ۲۰۰۶ کو شام کی فلائٹ سے میں حیدر آباد سے دہلی آرہا تھا۔ میرے ساتھ سی۔پی۔ایس ٹیم کے کئی اور افراد شامل تھے۔ اِس جہاز میں ایک خاتون نیہا بٹوارا (Neha Batwara) بھی سفر کررہی تھیں۔ ہماری ٹیم کے لوگ جہاز کے اندر مسافروں کے درمیان دعوہ ورک کررہے تھے۔ اس سلسلے میں انھوں نے مز نیہا سے بھی بات کی اور انھیں دعوتی پمفلٹ دیے۔ یہ خاتون دہلی ائر پورٹ پر اُتر کر اپنے وطن اَلور چلی گئیں۔ بعد کو حیدرآباد سے ان کا ایک خط مورخہ ۲۸ مارچ بذریعے ای میل موصول ہوا۔ وہ خط حسب ذیل تھا:
Respected Maulana!
I am Neha, working in an MNC for some people, it cannot be better than to get a job in top MNC just after graduation. But believe me, I am in search of a more purposeful life. That's why I am writing to you.
I met Priya Malik, Khalid Ansari and Sadia Khan on a flight to Delhi and could apparently see the difference your guidance has made to their lives.
Maulana, I know we have been created by God, and we all have a purpose here to fulfill on earth, which, if done, will be more satisfying than getting heaven after death.
The point where I am lacking is to know the purpose for which I have been sent here. I could not come to your class in Delhi, because my family was against going to some spiritual classes. You understand.
I will be grateful to you for the whole of my life if you could help me in any way. I am currently in Hyderabad.
Regards
Neha Batwara, Software Engg. MIEL
Hyderabad, Ext. 3355, Tel. 040-23308090
یہ خط سادہ طورپر صرف ایک خاتون کا خط نہیں ہے، بلکہ وہ ہر رُوح کی پکار ہے۔ یہ خط گویا ہر عورت اور مرد کے دل کی ترجمانی ہے۔ ہر انسان ایک بامقصد زندگی (purposeful life) کی تلاش میں ہے۔ یہ ہر انسان کی فطرت کی آواز ہے۔ لیکن لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہ بامقصد زندگی ان کو پوری طرح موت سے پہلے کے دورِ حیات میں مل جائے۔ موت کے بعد کے دورِ حیات کا نہ اُن کو شعور ہے اور نہ وہ اس کا انتظار کرنے کے لیے تیار ہیں۔
اِس سلسلے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آدمی اس بامقصد زندگی کو کہاں حاصل کرناچاہتا ہے۔ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں یا خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں ۔ ظاہر ہے کہ یہ مقصد اس کو خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں حاصل کرنا ہے۔ کیوں کہ خود اپنی بنائی ہوئی دنیا اُس کے لیے سِرے سے موجود ہی نہیں۔
ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات ہے کہ آدمی سب سے پہلے یہ جانے کہ خدا کی بنائی ہوئی دنیا کے قوانین کیا ہیں اور اس کے بنانے والے نے کس تخلیقی منصوبے کے تحت اس کو بنایا ہے۔ کیوں کہ اس کی مطابقت کے بغیر وہ کسی بھی حال میں اپنا مقصد حاصل نہیں کرسکتا۔
اگر آپ کے پاس ایک اچھی کار ہو اور اس کو آپ سڑک پر دَوڑانا چاہیں تو آپ کو سب سے پہلے یہ جاننا ہوگا کہ جس ملک میںآپ اپنی گاڑی دوڑانا چاہتے ہیں وہاں لفٹ ہینڈ ڈرائیو(left-hand drive) کا اصول ہے یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو(right-hand drive) کا۔ کامیاب سفر کے لیے اِس بات کو جاننا ضروری ہے۔ اگر آپ ایسا کریں کہ لفٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی دائیں طرف دَوڑانے لگیں، یا رائٹ ہینڈ ڈرائیو کے ملک میں اپنی گاڑی بائیں طرف دوڑانے لگیں تو دونوں حالتوں میں آپ کامیاب سفر سے محروم رہ جائیں گے۔
یہی معاملہ زندگی کے وسیع تر سفر کا بھی ہے۔ انسان اپنی زندگی کا وسیع تر سفر کسی خلا میں یا خود اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں کرتا۔ وہ اپنا یہ سفر خدا کی بنائی ہوئی دنیا میں کرتا ہے۔ اِس لیے ہر عورت اور مرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ خدا کے تخلیقی منصوبے کو سمجھے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی تشکیل کرے۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں وہ اپنے آپ کو ناکامی سے نہیں بچا سکتا۔
خود انسان کا اپنا تجربہ اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ ہر انسان کا یہ مسئلہ ہے کہ اس کو پیاس لگتی ہے۔ وہ اپنی پیاس بجھانا چاہتا ہے۔ مگر یہ ایک معلوم بات ہے کہ ہر انسان اپنی پیاس بجھانے کے لیے پانی کو استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ پانی کے سوا کسی اور چیز سے وہ اپنی ضرورت پوری نہیں کرسکتا۔ اِسی طرح انسان کو بھوک لگتی ہے۔ بھوک کے معاملے میں بھی انسان یہی کرتا ہے کہ وہ فطرت کی فراہم کردہ غذا کے ذریعے اپنی بھوک مٹائے۔ ہر انسان کو سانس لینے کے لیے آکسیجن کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ ہر انسان آکسیجن لینے کے لیے اُسی نظام کو استعمال کرتا ہے جو اس کے باہر فطرت نے قائم کیا ہے۔ یہی تمام دوسری ضرورتوں کا معاملہ ہے۔
ٹھیک یہی معاملہ مقصدِ حیات کا بھی ہے۔ مقصدِ حیات کے معاملے میں بھی انسان کو اپنے خالق کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کو جاننا ہے۔ اِس معاملے میں کوئی دوسرا متبادل، انسان کے لیے نہیں۔
قرآن خالقِ فطرت کی کتاب ہے۔ قرآن میں اِس سوال کا جواب اس کی سورہ نمبر ۱۰۳ میں دیاگیا ہے۔ قرآن کا یہ جواب اپنے مفہوم کے اعتبار سے یہ ہے:
History is a witness that man is in loss, except those who follow the course of life set by the Creator.
اِس اعتبار سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ خالق نے انسان کی زندگی کو دو دَوروں میںتقسیم کیا ہے—قبل از موت دَور، اور بعد از موت دَور۔ موت سے پہلے کا دَور عمل کرنے کا دَور ہے اور موت کے بعد کا دَور عمل کا انجام پانے کا دَور۔ جو کچھ موت کے بعد ملنے والا ہے وہ موت سے پہلے نہیں مل سکتا۔ جو کچھ موت سے پہلے کرنا ہے اس کو کرنے کا موقع موت کے بعد باقی نہیں رہے گا۔
انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان لامحدود خواہشوں (unlimited desires)کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ڈیزائر ہر ایک کو بہت محبوب ہوتی ہیں۔ مگر یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ پوری انسانی تاریخ میں کوئی ایک شخص بھی اپنی اِن خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ مختلف انسانوں نے اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ساری عمر محنت کیا۔ بظاہر انھوں نے بڑی بڑی کامیابی حاصل کی۔ مگرہر ایک اِس حسرت کے ساتھ مرا کہ وہ اپنی خواہشوں کی تکمیل نہ کرسکا۔ آج کی دنیا میں وہ جس خوشی کو پانا چاہتا تھا اس کو پانے میں وہ ناکام رہا۔
دنیا کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں جوڑا(pair) کا اصول قائم ہے۔ یہاں ہر چیز اپنا جوڑا رکھتی ہے۔ ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کی تکمیل کرتی ہے۔ یہ اصول عالمی سطح پر قائم ہے۔ زمین سے لے کر اسپیس تک ہر جگہ یہی نظام رائج ہے— نگیٹیو پارٹکل کا جوڑا پازیٹیو پارٹکل، نباتات میں میل سیکس اور فی میل سیکس، حیوانات میں مؤنث حیوان اور مذکر حیوان، انسان میں عورت اور مرد، وغیرہ۔
جوڑا یا زَوجین کا نظام تمام مخلوق میں عالمی سطح پر قائم ہے۔ اِس وسیع اور کامل نظام میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ انسانی خواہشات کا ہے۔ ہر انسان خواہشات کا گہرا احساس لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ہر انسان اپنی اِن خواہشات کی تکمیل کیے بغیر مرجاتا ہے۔ دنیا میں خواہش ہے مگر اس کا جوڑا، تکمیلِ خواہش یہاں موجود نہیں۔
یہ سوال اس دنیا میں آنے والے ہر عورت اور مرد کا سوال ہے۔ ہر پیدا ہونے والا اِس سوال کا جواب معلوم کرنا چاہتا ہے مگر اس سے پہلے کہ وہ اپنے سوال کا تشفی بخش جوا ب پائے وہ حسرت کے ساتھ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
امریکی مشنری بلی گرہم(Billy Graham) نے لکھا ہے کہ ایک بار اس کے پاس امریکا کے ایک عمر رسیدہ دولت مند کاارجنٹ مسیج آیا۔ بلی گراہم اپنے پروگرام کو ملتوی کرکے فوراً روانہ ہوگیے۔ وہ امریکی دولت مند کے گھر پہنچا تو اس کو ایک کمرے میں لے جایا گیا۔ وہاں اس کی ملاقات امریکی دولت مند سے ہوئی۔ امریکی دولت مند نے کسی تمہید کے بغیر کہا:
You see, I am an old man. Life has lost all meaning. I am going to take a fateful leap into the unknown. Young man can you give me a ray of hope.
بلی گرہم کے پاس اِس سوال کا کوئی تشفی بخش جواب نہ تھا۔ امریکی دولت مند جواب سے محرومی کا احساس لے کر مرگیا۔ خود بلی گرہم کا یہ حال ہوا کہ تازہ اطلاع کے مطابق، وہ شدید حادثے کا شکار ہو کر معذوری کی حالت میں بستر پر پڑا ہوا ہے، اور اپنے آخری انجام کے طورپر موت کا انتظار کررہا ہے۔
یہی معاملہ اِس دنیا میں ہر عورت اور مرد کا ہے۔ ہر ایک اپنی زندگی کا مقصد جاننا چاہتا ہے۔ ہر ایک، ایک پُر مسرت زندگی کی تلاش میں ہے۔ ہر ایک یہ چاہتا ہے کہ اس کو ایسی زندگی ملے جس میں اس کو پوری طرح فُل فلمینٹ(fulfillment)حاصل ہو۔ مگر ہر ایک کا انجام صرف ناکامی پر ختم ہورہا ہے۔واقعات بتاتے ہیںکہ ہر عورت اور مرد نے یہ سمجھا کہ دنیا کے مادّی سازوسامان ہی اصل ہیں۔ ہر ایک نے مادی سازوسامان اکھٹا کرکے اس کے ذریعے فل فلمینٹ کی زندگی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مگر کسی استثنا کے بغیر ایک شخص کو بھی مطلوب فل فلمینٹ حاصل نہ ہوسکا۔
ایسی حالت میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اِس ناکام تجربے کو دہرایا جاتا رہے۔ اب اِس معاملے میں اصل مسئلہ نظرثانی (reassessment) کا ہے۔ اب اصل کام یہ ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ یہ سوچا جائے کہ دنیا کی قابلِ حصول مادّی چیزوں میں تو ثابت شدہ طورپر فل فلمینٹ کا سامان موجود نہیں۔ ایسی حالت میں پھر یہ سامان کہاں ہے۔ جب انسانی خواہش کا تسلسل جاری ہے تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ ایک حقیقی چیز ہے، اور جب وہ ایک حقیقی چیز ہے تو یقینا اس کی تکمیل کا سامان بھی کائنات میں ہونا چاہیے۔
اِس معاملے کو سفر کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ کوئی شخص جب سفر کرتا ہے، خواہ وہ ٹرین سے سفر کرے یا ہوائی جہاز سے، اس کے سفر کے دو مرحلے ہوتے ہیں۔ ایک ، وہ جب کہ وہ حالتِ سفر میں ہوتا ہے۔ دوسرا وہ جب کہ وہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ کامیاب سفر کے لیے ضروری ہے کہ مسافر دونوں حالتوں کے فرق کو سمجھے۔ جو مسافر اِس فرق کو نہ جانے وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوجائے گا اور غیر ضروری پریشانی میں مبتلا ہوکر اپنی عقل کھو بیٹھے گا۔
صحیح مسافر وہ ہے جو سفر کو سفر سمجھے، وہ سفر کو منزل کی حیثیت نہ دے۔ یہ ایک فطری بات ہے کہ سفر کے دَوران وہ سہولتیں حاصل نہیں ہوتیں جو منزل پر پہنچ کر حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن ہر مسافر اِس کو گوارا کرتا ہے۔ کیوںکہ اس کو یقین ہوتا ہے کہ سفر کی حالت ایک وقتی حالت ہے۔ آخر کار اس کا سفر ختم ہوگا اور وہ اپنی مطلوب منزل پر پہنچ جائے گا۔ منزل پر پہنچنے کے بعد اس کو وہ سب کچھ مل جائے گا جس کو وہ چاہتا تھا لیکن سفر کے دَوران وہ اُن کو حاصل نہ کرسکا۔
ہماری موجودہ زندگی بے حد مختصر مدت کے لیے ہوتی ہے۔ اس کا مختصر مدت کے لیے ہونا خود اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دَورانِ سفر کی حالت ہے، وہ منزل پر پہنچنے سے پہلے کا لمحہ ہے۔ اِس بنا پر یہ ممکن نہیں کہ موجودہ مختصر زندگی میں ہم وہ تمام چیزیں پالیں جن کو ہم پانا چاہتے ہیں۔ یہ چیزیں بلا شبہہ ہم کو ملیں گی لیکن وہ منزل پر پہنچ کر ملیں گی، سفر کے درمیانی مرحلے میں وہ ہرگز ہم کو ملنے والی نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہماری زندگی دو مرحلوں میں تقسیم ہے— موت سے پہلے کا مرحلہ اور موت کے بعد کا مرحلہ۔ موت سے پہلے کا مرحلہ گویا حالتِ سفر کا مرحلہ ہے، اور موت کے بعد کا مرحلہ گویا منزل پر پہنچنے کا مرحلہ۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو جاننا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ یہی وہ حقیقت ہے جو ہر انسان کی زندگی کو بامعنیٰ بناتی ہے، جو ہر عورت اور مرد کو اُس مقصد سے متعارف کرتی ہے جو اس کی زندگی کو پوری طرح بامعنیٰ بنادے جو اس کو اطمینان کا سرمایہ عطا کرے۔
زندگی کی یہ توجیہہ اِس سوال سے جُڑی ہوئی ہے کہ موت کے بعد دوبارہ انسان زندہ ہوتا ہے۔ کیا موت کے بعد بھی اسی طرح زندگی ہے جس طرح موت سے پہلے ہم زندگی کا تجربہ کررہے ہیں۔ اس سوال کا جواب اثبات میں ہے۔ اِس سوال کا جواب ہم عین اُسی سائنسی طریقے کے ذریعے جان سکتے ہیں جس سائنسی طریقے سے دوسری حقیقتوں کو جانا جاتا ہے۔
حقیقتوں کو جاننے کے معاملے میں سائنٹفک متھڈ کیا ہے۔ وہ یہ نہیں ہے کہ جس بات کو جاننا ہے وہ اپنی کامل صورت میں سائنس داں کے سامنے آجائے۔ اگر یہ شرط ہوتو ساری حقیقتیں سائنسی طورپر غیر معلوم رہ جائیں ۔ علم کی ترقی رُک جائے۔ حقائق کی نسبت سے انسان ہمیشہ کے لیے اندھیرے میں پڑا رہے۔ کیوں کہ کوئی بھی حقیقت اِس طرح علم میں نہیں آتی کہ وہ پہاڑ کی طرح مشہود چیز کے طور پر سامنے آجائے۔
اِس کے بجائے جو ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مطالعے کہ دَوران سائنس داں کے سامنے ایک سُراغ (clue) آتا ہے۔ اِس سُراغ پر غور کرکے وہ ایک ایسی حقیقت تک پہنچتا ہے جو پہلے اس کو معلوم نہ تھی۔ اِس دنیا میں ہر حقیقت سراغ کی سطح پر دریافت ہوتی ہے۔ اِس دنیا میں سراغ ہی تمام حقیقتوں کی دریافت کی کنجی ہے۔
مثلاً سائنس میں اِس کو بطور حقیقت مان لیا گیا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے بِگ بینگ کا واقعہ پیش آیا۔ اِسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ زمین پر حیاتیاتی ارتقا کا واقعہ ہوا۔ اسی طرح سائنس میں یہ مان لیا گیا ہے کہ ہماری کائنات ایک پھیلتی ہوئی کائنات (expanding universe) ہے، وغیرہ۔
اِس قسم کی حقیقتیں جو آج مسلّم حقیقت بن چکی ہیں وہ اِس طرح حقیقت نہیں بنیں کہ انسان نے اس کو مشاہداتی سطح پر دیکھ لیا۔ اِس کے بجائے جو کچھ ہوا وہ صرف یہ تھا کہ ایک سراغ انسان کے علم میںآیا۔ پھر اِس سراغ پر غور کرکے انسانی علم ایک بڑی حقیقت تک پہنچا۔ یہ بڑی حقیقت اگر چہ دکھائی نہیں دے رہی تھی مگر وہ موجود تھی۔ اس کی موجودگی کو بطور ایک واقعہ کے تسلیم کرلیا گیا۔ اگر چہ اِس سلسلے میں سُراغ کے سوا کوئی اور چیز انسان کے مشاہدے میں نہیں آئی تھی۔
یہی معاملہ موت کے بعد زندگی کا یا اگلے دَورِ حیات کا ہے۔ اگلے دَور حیات کے بارے میں بھی واضح سُراغ (clue) موجود ہیں۔ سراغ پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو وہ ہمیں اِس یقین تک پہنچاتے ہیں کہ موت کے بعد بھی زندگی ہے۔ موت کے بعد بھی اِسی طرح ایک اور مرحلۂ حیات ہے جو لازمی طورپر ہر ایک کے سامنے پیش آئے گا۔
وہ سر اغ کیا ہے۔ مثلاً انسان کا جسم بے شمار خلیوں(cells) پر مبنی ہے۔ یہ خلیّے ہر وقت ٹوٹتے رہتے ہیں۔ دوسری طرف ہمارا نظامِ ہضم یہ کام کرتا ہے کہ جو کچھ ہم کھاتے ہیں وہ خلیّوں کی صورت اختیارکر لیتا ہے۔ ہمارا نظام ہضم گویا خلیہ ساز فیکٹری ہے۔ اِس نظام کے تحت یہ ہوتا ہے کہ عملاً تقریباً ہر دس سال میں ہمار ا پورا جسم بدل جاتا ہے۔ نیے خلیوں کے ساتھ مکمل طورپر ایک نیا جسم وجود میں آجاتا ہے۔
گویا کہ ہمارے جسم پر بار بار ’’موت‘‘ طاری ہوتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ذہنی وجود نہیںمرا۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ذہنی وجود ہی انسان کا اصل وجود ہے۔ یہ ذہنی وجو بظاہر جسمانی موت کے باوجود یکساں طورپر باقی رہتا ہے۔ یہ ایک سراغ ہے جو بتاتا ہے کہ انسان اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ابدی مخلوق ہے۔ اس کے ابدی وجود کا تھوڑا سا حصہ قبل ازموت مرحلۂ حیات میں ہے، اور اس کا بقیہ پورا حصہ بعد ازموت مرحلۂ حیات میں۔
اِسی طرح اِس معاملے کا ایک سُراغ یہ ہے کہ انسان کے اندر استثنائی طورپر عدل (justice) کا تصور پایا جاتا ہے۔ انسان اپنے فطری ذہن کے تحت، یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عدل قائم ہو۔ یعنی اچھا عمل کرنے والوں کو اچھا انجام ملے اور بُرا عمل کرنے والوں کو بُرا انجام ملے۔ اِس سرغ کو سامنے رکھ کر سوچا جائے تو انسانی ذہن اِس نتیجے تک پہنچتا ہے کہ موجودہ مرحلۂ حیات چوں کہ اپنی مدت کے اعتبار سے نہایت ناکافی ہے اس لیے بعد کے مرحلۂ حیات میںعدل کے تقاضے کی تکمیل ہو۔ بعد کے مرحلۂ حیات میں ہر انسان کو اس کے کیے کے مطابق، جزا یا سزا ملے۔
اِسی طرح اِس معاملے کا ایک سراغ یہ ہے کہ انسان پیدائشی طورپر معیاری دنیا (perfect world) چاہتا ہے۔ مگر موجودہ دنیا کی محدودیت (limitations) کی بنا پر یہاں مطلوب معیاری دنیا بن نہیں پاتی۔ اِس سراغ پر غور کرتے ہوئے انسانی ذہن اِس دریافت تک پہنچتا ہے کہ جو معیاری دنیا قبل ازموت مرحلۂ حیات میں محدود حالات کی بنا پر حاصل نہ ہوسکی وہ بعد از موت مرحلۂ حیات میں اپنی مطلو ب معیاری صورت میں حاصل ہوگی۔
اِسی طرح اِس معاملے میں ایک سراغ یہ ہے کہ انسان استثنائی طورپر ایک ایسی مخلوق ہے جو کَل (tomorrow) کا تصور رکھتا ہے۔ کسی بھی دوسرے حیوان یا غیر حیوان کے اندر کل کا تصور موجود نہیں۔ اِس سراغ کو لے کر غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ موجودہ محدود حالات میں آدمی اپنی جس مطلوب دنیا کو نہیں پاتا اس کو وہ موت کے بعد آنے والے لا محدود مرحلۂ حیات میں پالے گا۔ یہ دنیا وہ ہوگی جہاں آدمی اپنے لیے پوری طرح فُل فلمینٹ کا تجربہ کرسکے گا۔
موت کے بعد معیاری دنیا بننا ویسا ہی ایک ثابت شدہ واقعہ ہے جیسا کہ دوسرے ثابت شدہ واقعات۔ تاہم مستقبل کی اِس معیاری دنیا میںہر ایک کو خود بخود جگہ نہیں مل جائے گی بلکہ صرف وہ عورت اور مرد اِس معیاری دنیا میں جگہ پائیں گے جو موت کے پہلے کی اِس دنیا میں اس کا استحقاق ثابت کرسکیں۔ یہ فطرت کا قانون ہے کہ ہر انعام مستحقین کو ملتا ہے۔ غیر مستحقین کے لیے کبھی کوئی بڑا انعام مقدر نہیں ہوتا۔
سوال یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے اپنے آپ کو اس معیاری دنیا کا مستحق بنانے کا فارمولا کیا ہے۔ وہ فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنے روح کی تطہیر (purification of soul) ۔
جو آدمی مستقبل کی اس معیاری دنیا میں اپنے لیے جگہ حاصل کرنا چاہتا ہو اس کو آج کی اِس دنیا میں یہ ثبوت دینا ہے کہ اس نے دکھائی دینے والی دنیا (seen world) میں نہ دکھائی دینے والی دنیا (unseen world) کو اپنی بصیرت سے جانا۔ اس نے کنفیوژن کے جنگل میں سچائی کو دریافت کیا۔ اس نے منفی تجربات کے ماحول میں اپنے آپ کو مثبت رویّے پر قائم رکھا۔ اس نے اپنے آپ کو حیوانی سطح سے اوپر اٹھایا اور انسانیت کی اعلیٰ سطح پر کھڑا کیا۔ اس نے اپنے آپ کو بے اعترافی، بددیانتی، سرکشی، خود غرضی، خواہش پرستی اور انانیت جیسی پست صفات سے بچایا۔ جو پورے دل اور جان کے ساتھ جنت کا طالب بنا۔ خلاصہ یہ کہ جس نے خدا رُخی زندگی(God-oriented life) کو پوری طرح اختیار کیا۔
یہ صفات رکھنے والے عورت اور مرد خلاصہ ٔ انسانیت ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جومستقبل کی معیاری دنیا میںبسائے جانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے۔ جو لوگ اس معیارپر پورے نہ اتریں ان کو رد کرکے کائناتی کوڑا خانے میں ڈال دیا جائے گا۔ جہاں وہ ہمیشہ کے لیے حسرت کی زندگی گذاریں گے۔ وہ کبھی اِس ذلّت اور حسرت کی زندگی سے نجات نہ پاسکیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قانونِ حیات

قرآن کی سورہ نمبر دو میں زندگی کا ایک قانون ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ بإذن اللہ واللہ مع الصابرین۔ یعنی کتنے ہی چھوٹے گروہ بڑے گروہ پر غالب آئے ہیں، اللہ کے اِذن سے، اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (البقرہ: ۲۴۹)
قرآن کی اِس آیت میں اِذن سے مراد فطرت کا قانون (law of nature) ہے۔ یہ قانون، خالق فطرت نے قائم کیا ہے۔ اس لیے اُس کی حیثیت ایک حتمی قانون کی ہے۔ اس کو بدلنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔ یہ قانون اُسی طرح عمل کرتا ہے جس طرح رات کے بعد دن کا آنا، اور دن کے بعد رات کا آنا۔
فطرت کا یہ قانون تاریخ میں بار بار واقعہ بنا ہے۔ بار بار ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ ایک کثیر گروہ پر غالب آیا ہے۔ مثلاً دَورِ اول میں مکّہ کے مسلمان جو مقابلۃً قلیل تعداد میں تھے وہ اپنے حریف پر غالب آئے جو مقابلۃً ان سے بہت زیادہ تھے۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں امریکا میں وہاں کے تاریکین وطن (emigrants)وہاں کے مقامی باشندوں کے مقابلے میں زیادہ ترقی کررہے ہیں۔ حالاں کہ تارکین وطن کم ہیں اور مقامی باشندے تعداد میں ان سے زیادہ ہیں، وغیرہ۔
اِس تاریخی ظاہرہ (phenomenon) پر موجودہ زمانے میں کافی مطالعہ کیا گیا ہے، اور واقعات کو لے کر اصول اخذ کیے گیے ہیں۔ اِس موضوع پر چھپنے والی کتابوں میں سے ایک کتاب وہ ے جو برطانی مؤرخ ٹائن بی (وفات : ۱۹۵۴) نے طویل مطالعے کے بعد تیار کی ہے۔ اس کا نام تاریخ کا مطالعہ ہے:
A Study of History, by Arnold Joseph Toynbee
اِس تاریخی مطالعے کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ جب بھی کسی علاقے میں ایسا ہوتا ہے کہ وہاں دوگروہ ہوں۔ ایک تعداد میں کم ہو اور دوسرا تعدادمیں زیادہ ہو۔ ایسے مقام پر خود فطری اسباب کے تحت، دونوں گروہوں کے درمیان دو مختلف قسم کا عمل (process) جاری ہوجاتا ہے۔ اقلیتی گروہ اپنے کو دفاعی پوزیشن میں محسوس کرتا ہے اِس لیے اس کے اندر یہ جذبہ اُبھرتا ہے کہ وہ اپنے حریف اکثریتی گروہ سے زیادہ محنت کرے۔ اس کو محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ محنت کرکے ہی وہ اپنے بقا (survival) کا انتظام کرسکتا ہے۔ دوسری طرف اکثریتی گروہ کے اندر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ عددی اعتبار سے فریقِ ثانی کے مقابلے میں برتر ہے اس لیے اس کا مستقبل محفوظ ہے۔ اس کو کسی کی طرف سے کوئی خطرہ نہیں۔ اِس بے جا خود اعتمادی کی بنیاد پر اکثریتی گروہ کے اندر عمل کا جذبہ کمزور پڑجاتا ہے۔ وہ سمجھنے لگتا ہے کہ تمام حالات میری موافقت میں ہیں، میں کم عمل کرکے بھی زیادہ فائدہ حاصل کرسکتا ہوں۔
دونوں گروہوں کے درمیان اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں کے اندر خاموشی کے ساتھ دو مختلف عمل شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دو طرفہ عمل ایک گروہ کے لیے ترقی کا ضامن بن جاتا ہے، اور دوسرے گروہ کے لیے تنزلی کا ضامن۔ فطرت کے قانون کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ دن بدن تخلیقی اقلیت(creative minority) بننے لگتی ہے۔ اس کے برعکس، اکثریتی گروہ دن بدن غیر تخلیقی اکثریت(uncreative majority) بننے لگتی ہے۔ یہ عمل بلا اعلان خاموشی کے ساتھ جاری رہتا ہے یہاں تک کہ وہ واقعہ پیش آتا ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں اکثریتی گروہ پر اقلیتی گروہ کے غلبے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
قرآن کے مطابق، فطرت کا یہ قانون جس بنیادی اصول پر مبنی ہے وہ صبر (patience) ہے۔ صبر کوئی پسپائی نہیں، بلکہ وہ قانونِ فطرت سے ہم آہنگی اور منصوبہ بند عمل کا نام ہے۔ مذکورہ صورتِ حال میں ایسا ہوتا ہے کہ اکثریتی گروہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اس کو صبر کی ضرورت نہیں ۔ اس کی عددی برتری اس کے لیے ہر چیز کا بدل ہے۔ لیکن اقلیتی گروہ کے افرادکے اندر اِس سے مختلف سوچ بنتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر محسوس کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں ان کے لیے صرف ایک انتخاب ہے اور وہ صبر ہے۔ اِس طرح اقلیتی گروہ کے لیے صبر ایک جبری انتخاب (compulsive choice) بن جاتا ہے۔
اس طرح حالات کا دباؤ اقلیتی طبقے کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ہر معاملے میں صبر کی پالیسی اختیار کرے۔ بظاہر اگر چہ وہ صبر کی روش کو ایک مجبوری کے تحت اختیار کرتا ہے لیکن صبر فطرت کا ایک عمومی قانون ہے۔ صبر کا طریقہ ہر حال میں مفید ہوتا ہے خواہ اس کو آزادانہ طور پر اختیار کیا جائے یا مجبورانہ طورپر، ٹھیک اسی طرح جیسے ٹانک کوئی شخص آزادانہ طورپر استعمال کرے یا مجبورانہ طورپر، ہر حال میں وہ اس کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
جب ایسا ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ صبر کی پالیسی پر قائم رہتا ہے تو فطرت کے نظام کے تحت، اس کے اندر کئی صفات پیدا ہوجاتی ہیں جو اس کی ترقی اور کامیابی کے لیے ضمانت کا کام کرتی ہیں۔
۱۔ موجودہ دنیا میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ ناخوش گوار واقعات پیش آتے ہیں یا اشتعال انگیزی کی باتیں ہوتی ہیں۔ ایسی حالت میں صبر کی روش کا مطلب عملاً یہ ہوتا ہے کہ ناخوش گواریوں کے باوجود اعتدال پر قائم رہنا، اشتعال انگیزی کے باوجود مشتعل نہ ہونا، منفی اسباب کے باوجود مثبت روش پر قائم رہنا، اِسی کا نام صبر ہے۔ اِس اعتبار سے صبر کی پالیسی اقلیتی افراد کے لوگوں کو اُس چیز کا حامل بنا دیتی ہے جس کو بلند فکری (high thinking) کہا جاتا ہے۔ اِن لوگوں کے اندر اعلیٰ اخلاقیات کی پرورش ہوتی ہے۔ ان کے اندر وہ صلاحیت پیدا ہوتی ہے جس کو منصوبہ بند انداز میں کام کرنا کہا جاتا ہے۔ وہ شکایت اور احتجاج کو چھوڑ کر خود اپنے امکانات (potentials) کو بروئے کار لانے پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ اِس طرح صبر کی پالیسی اقلیتی گروہ کو تخلیقی گروہ بنانے کا سبب بن جاتی ہے۔
۲۔ صبر کی پالیسی کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اقلیتی گروہ کا وقت بے فائدہ کاموں میں استعمال ہونے سے بچ جاتا ہے۔ ان کا وقت اور ان کی توجہ زیادہ سے زیادہ تعمیری کاموں میں استعمال ہونے لگتی ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ داخلی استحکام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اپنی نسلوں کی تعلیم، اپنے اداروں کی تنظیم، اپنے افراد کی تربیت، اقتصادی شعبوں میں زیادہ سے زیادہ مصروف ہونا، بے نتیجہ کاموں کو چھوڑ کر نتیجہ خیز (result-oriented) کاموں میں اپنے آپ کو لگانا، یہ گویا ان کا گروہی کلچر بن جاتا ہے۔
۳۔ اقلیتی گروہ کے اندر یہ تمام صفات فطری اسباب کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ یہ صفات اِس بات کی ضامن بن جاتی ہیں کہ وہ اقلیت میں ہونے کے باوجود ان لوگوں سے آگے بڑھ جائیں جو عددی اعتبار سے اکثریت کا درجہ رکھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن اور امنِ عالم

امن کی تعریف، عدم جنگ(absence of war) سے کی جاتی ہے۔ مگر یہ امن کی منفی تعریف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امن ایک مثبت قدر کا نام ہے۔ ہر قسم کی تعمیری سرگرمی کے لیے ضروری ہے کہ سماج میں امن کی حالت قائم ہو۔ امن کے بغیر کسی صحت مند سماج کا قیام ممکن نہیں۔
امن کا تصور دنیا میں ہمیشہ پایا جاتا رہا ہے۔ اِس شعبۂ مطالعہ کے لیے ایک مخصوص اصطلاح بھی وضع کی گئی ہے، جس کو پیسفزم(Pacifism) کہاجاتا ہے۔ پیسفزم کے موضوع پر کثیر تعداد میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ حتی کہ اِس موضوع پر ایک مستقل انسائکلو پیڈیا چھپی ہے، جس کا نام یہ ہے:
An Encyclopaedia of Pacifism (1937)
تاہم قدیم زمانے میں امن کا تصور یہ تھا کہ وہ ایک ایسی حالت ہے جس کو کوئی حکومت اپنی طاقت کے زور پر قائم کرتی ہے۔ چنانچہ رومن امپائر کے عہد میں پیکس رومانا(Pax Romana) کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اِس کا مطلب یہ تھا کہ رومی اقتدار کے تحت قائم کیا ہوا امن۔ موجودہ زمانے میں جب امریکا کو سپرپاور کی حیثیت حاصل ہوئی تو پیکس امریکانا(Pax Americana) کا لفظ بولا جانے لگا۔ یعنی امریکا کے صنعتی دبدبے کے تحت قائم کیا جانے والا امن۔ امن کے معاملے میں اسلام نے جو فارمولا دیا ہے اس کو اِسی طرح پیکس اسلامیکا(Pax Islamica) کہا جاسکتا ہے۔
مہاتما گاندھی کو اِس باب میں ایک خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ انھوںنے ہتھیار کے استعمال کے بغیر انڈیا کو سیاسی آزادی دلائی۔ چنانچہ اِس موضوع کو لے کر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مثلاً:
Mahatma Gandhi's Ideas, by C.F. Andrews.
Gandhi's Notions of Satyagraha, by Hannah Arendt.
مگر اس معاملے میں گاندھی کا کارنامہ ایک ادھوری نوعیت کا کارنامہ ہے۔ گاندھی نے انگریزوں کے خلاف آزادی کی جدوجہد میں ہتھیار کا استعمال نہیں کیا۔ مگر انھوںنے دوسرا کام یہ کیا کہ عوامی مظاہروں اور سول نافرمانی (civil disobedience) جیسے انتہا پسندانہ طریقوں کو اپنے مقصد کے لیے بھر پور طور پر استعمال کیا۔ اِس طریقِ کار کا منفی نتیجہ یہ ہوا کہ ہندستان سے انگریزوں کاسیاسی اقتدار تو ختم ہوا لیکن اسی کے ساتھ ملک میں نراج کا دَور دورہ ہوگیا۔ قانون شکنی کا مزاج عام ہوگیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کی روایات ٹوٹ گئیں،وغیرہ۔ چنانچہ ۱۹۴۷ میں جو آزاد ہندستان بنا، وہ ایک ایسا ملک تھا جو امریکی پروفیسر گال بریتھ کے الفاظ میں حقیقی جمہوریت سے زیادہ ایک فنکشننگ انارکی(functioning anarchy)کے ہم معنی تھا۔
اصل یہ ہے کہ امن کے قیام کے لیے سب سے پہلے امن کا ایک قابل عمل فارمولا درکار ہے۔ ایک ایسا فارمولا جو لوگوں کی آزادی کو منسوخ کیے بغیر زیر عمل لایا جاسکے۔ جو موجود روایات کو توڑے بغیر امن کی حالت قائم کرے۔ جس کے ذریعے سماج میں کوئی نیا بگاڑ لائے بغیر امن کا حصول ممکن ہوسکے۔ امن کے لیے اِس قسم کا فارمولا پہلی بار قرآن میں پیش کیا گیا، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زیرِ عمل لاکر اس کا ایک باقاعدہ نمونہ تاریخ میں قائم کردیا۔
پیکس رومانا، اور پیکس امریکانا کو اگر سیاسی امن کہا جائے تو قرآن کے اصولِ امن کو اصلاحی امن کا نام دینا درست ہوگا۔ قرآن کا امن فارمولا اِس بات کو ممکن بناتا ہے کہ جبر اور بگاڑجیسی کوئی خرابی پیدا کیے بغیر امن کی حالت قائم کی جاسکے، یعنی وہ حالت جس میں ہر قسم کی تعمیری سرگرمیاں قابلِ عمل ہوجائیں۔
قر آن کے اِس امن فارمولے کو بتانے کے لیے میں نے اپنی کتاب اسلام ری ڈسکورڈ (Islam Rediscovered) میںایک اصطلاح استعمال کی ہے۔ یہ اصطلاح پازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive statusquoism) ہے۔ یعنی حالتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، اور اس کے ہوتے ہوئے عین اُسی وقت جو امکانات(opportunities) پائے جارہے ہیں، ان کو اپنے حق میں استعمال کرنا۔ یہ ایک کامیاب فارمولا ہے جس کو قرآن میں انّ مع العسر یسرا کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ یعنی مسائل کے ساتھ ہمیشہ مواقع بھی موجود رہتے ہیں، اس لیے مسائل کو نظر انداز کرو اور مواقع کو استعمال کرو:
Ignore the problems, avail the opportunities.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسانی تاریخ کے پہلے شخص ہیں جنھوں نے حقیقی معنوں میں امن کا سماج قائم کیا۔ اس سماج کے قیام میں پوری طرح مذکورہ قرآنی فارمولے کو استعمال کیاگیا تھا۔ پیغمبر اسلام کی زندگی گویا کہ امن کے اِس قرآنی فارمولے کی ایک عملی تفسیر ہے۔ آپ کی زندگی کے مطالعے سے ہم جان سکتے ہیں کہ یہ قرآنی فارمولا کس طرح زیر عمل لایا جاسکتا ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم مکّہ میں ۶۱۰ عیسوی میں اپنی دعوتِ توحید کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکّہ میںآپ کے لیے ایک سنگین مسئلہ تھا۔ آپ کا مشن یہ تھا کہ آپ کعبہ کو دوبارہ توحید کے عالمی مرکز کی حیثیت سے بحال کریں۔ مگر عملی صورتِ حال یہ تھی کہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئـے تھے۔ اگر آپ ایسا کرتے کہ ’’بت شکنی‘‘سے اپنے کام کا آغاز کرتے تو اس کا انجام یہ ہوتاکہ آپ کی بُت شکنی عملاً امن شکنی کے ہم معنی بن جاتی۔ اِس قسم کی کوشش کے نتیجے میں جوچیز ظہور میں آتی وہ سماجی فساد ہوتانہ کہ سماجی امن۔ آپ نے قرآنی حکمت کے مطابق،اِس معاملے میں ڈی لنکنگ پالیسی (de-linking policy) اختیار کی۔ یعنی بُت کی موجودگی کے مسئلے کو بَروقت نظر انداز کرنا، اور بتوں کے باوجود آپ کے لیے وہاں کام کے جو مواقع موجود ہیں، اُن کو استعمال کرنا۔
کعبہ کے تین سو ساٹھ بت در اصل مختلف عرب قبائل میںپوجے جانے والے بت تھے۔ چنانچہ اِن قبائل کے افراد اپنے بتوں کی زیارت کے لیے برابر وہاں آتے رہـتے تھے۔ اِسی طرح خود اہلِ مکّہ کے لیے بھی کعبہ ایک مرکزِ اجتماع بنا ہوا تھا۔ جہاں وہ روزانہ اکھٹا ہوتے اور اپنے رواج کے مطابق، وہاں اپنے مذہبی مراسم ادا کرتے۔ اِس طرح کعبہ فطری طورپر ایک مقامِ اجتماع بن گیا۔
کعبہ میںرکھے ہوئے بُت بظاہر پیغمبر اسلام کے لیے ایک مسئلہ تھے، لیکن کعبہ کے صحن میں لوگوںکے اجتماع نے اِس مقام کو گویا کہ عربوں کی نیشنل اسمبلی کا درجہ دے دیا تھا۔ آپ نے کعبہ کے اِس دوگونہ پہلو کو سمجھا، اور بصیرتِ قرآنی سے کام لیتے ہوئے یہ کیا کہ آپ نے بتوں کی موجودگی کو وقتی طور پر نظر انداز کیا، اور انسانوں کی موجودگی کو اپنی دعوت کے لیے مقامِ خطاب کے طورپر استعمال کیا۔ چنانچہ آپ پُرامن طور پر وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن کے حصے پڑھ کر سُناتے۔ اِس طرح قرآن کا پیغام کسی ٹکراؤ کے بغیر خاموشی کے ساتھ عرب قبائل میں پہنچنے لگا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ سال تک پُرامن پیغام رسانی کا یہ مشن چلاتے رہے۔ قریش نے دیکھا کہ لوگ آپ کے کلام سے متاثر ہو کر آپ کے دین میں داخل ہورہے ہیں، اِس لیے وہ آپ کے مخالف ہوگیے۔ یہ مخالفت اتنی زیادہ بڑھی کہ انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سب مل کر آپ کو قتل کرڈالیں، اور اس طرح آپ کے مؤحّدانہ مشن کو ختم کردیں۔یہ ایک سنگین صورت تھی۔ آپ نے پیشگی طورپر اس کا اندازہ کرلیا اور مکّہ میں قیام کے زمانے ہی میں اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے تین سو میل دور واقع شہر مدینہ بھیج دیا۔ یہ لوگ وہاں جاکر توحید کی پُرامن تبلیغ کرنے لگے۔ اُن کا طریقہ یہ تھا کہ وہ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے ۔ اِس لیے اُن کو مُقری کہاجانے لگا، یعنی پڑھ کر سنانے والا۔ اِس کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ مدینہ کے لوگ تیزی سے اسلام قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہوگیا۔
اس تجربے سے اندازہ ہوا کہ مدینہ کے حالات مکّہ کے حالات سے مختلف ہیں۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے فیصلہ کیا کہ وہ مکّہ والوں سے متشدّدانہ ٹکراؤکی نوبت نہ آنے دیں۔ اِس کے بعد آپ یک طرفہ فیصلے کے تحت، مکّہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ اِس واقعہ کو اسلام کی تاریخ میں ہجرت کہا جاتا ہے۔ ہجرت کا مطلب ہے—تشدد کے مقام کو چھوڑ کر ایسی جگہ چلے جانا جہاں پُر امن طورپر کام کرنے کے مواقع پائے جاتے ہوں۔
پیغمبر اسلام نے پُر امن عمل کا یہی طریقہ اپنی پوری زندگی میں اختیار کیا۔ ہجرت کے بعد قریش نے آپ کے خلاف جنگی کارروائی شروع کی تو آپ ہر قیمت پر اس سے اعراض کرتے رہے۔ چند بار صرف اُس وقت محدودطور پر دفاعی جنگ کی نوبت آئی جب کہ فریقِ مخالف کے جارحانہ اقدام نے آپ کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں چھوڑا تھا۔ آخر میں آپ نے خود اپنی طرف سے مخالف قبیلہ قریش سے امن کی بات چیت شروع کی۔ وہ لوگ ضد پر اُترآئے تو آپ نے اُن کی شرطوں کو یک طرفہ طورپر منظور کرتے ہوئے اُن سے ناجنگ معاہدہ(no war pact) کرلیا۔ اِس معاہدے کا خلاصہ یہ تھا کہ—دونوں فریق اپنے اپنے دائرے میں امن پر قائم رہیں گے اور دوسرے کے خلاف وہ کوئی متشددانہ کارروائی نہیںکریں گے— اِس معاملے کی تفصیل راقم الحروف کی کتاب ’ امنِ عالم‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

دولت کا مسئلہ

امریکا کے انتہائی دولت مند لوگوں کے بارے میں ایک جائزہ شائع کیا گیا ہے۔ اس کا عنوان ہے ’’چاندی کے چمچہ سے محروم بچے‘‘(Off with Silver Spoon) ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ:
امریکا میں دولت ایک بیماری بن رہی ہے جس کو افلوئنزا (Affluenza) کا نام دیاگیاہے۔ وہاں کے دولت مند لوگ اس بیماری سے چھٹکارا پانے کی تلاش میں ہیں۔ ایک حالیہ مطالعہ کے مطابق، پانچ دولت مندوں میں سے ایک، اپنے بچوں کے لیے وراثت کو محدود کررہے ہیں تاکہ زندگی کی ہر چیز انھیں چاندی کی ٹرے میں رکھی ہوئی نہ مل جائے۔
اس سلسلے میں جن دولتمندوں کے نام دئے گئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں: بِل گیٹس، ٹیڈٹرنر، ہالی وڈ ہیروئن جیمی لی کرٹس اور کیتھرین زیٹا جونس وغیرہ۔ یہ سب لوگ ایسے اقدامات کررہے ہیں کہ ان کے بچے اَفلوئنزا کی بیماری سے محفوظ رہیں۔ یعنی زیادہ دولت سے جڑے ہوئے اخلاقی، جذباتی اور عملی مسائل۔
بل گیٹس کی بیوی ملینڈا (Melinda) کہتی ہیںکہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بچے مصنوعی بڑائی کے خول میں ایک بے مقصد زندگی گزاریں۔ بچوں کا نقصان خیراتی کاموں کے لیے نفع بن گیا ہے۔ چنانچہ کثیر دولت رکھنے والے اِن والدین نے مجموعی طورپر بارہ ارب پونڈ خیراتی کاموں کے لیے دئے ہیں:
Off with Silver Spoon
Protection from 'affluenza' is what American millionaires and billionaires are seeking now. According to a recent study, about one in five among them are limiting their children's legacies to assure that they don't get everything in life on a silver platter. From Bill Gates, media baron Ted Turner, to Hollywood stars Jamie Lee Curtis and Catherine Zeta-Jones, they are all taking steps to ensure that their children do not fall victim to affluenza— the moral, emotional and practical problems associated with having to much money. Says Bill Gates' wife, Melinda: “We don’t want our kids to lead a paranoid, pointless life.” And the kids’ loss is charity’s gain. Fo these super-rich parents have donated a total of £12 billion in charity. Life Positive Monthly, New Delhi, April 2002 (p. 86)
جو لوگ دولت سے محروم ہیں، وہ دولت کو ایک نعمت سمجھتے ہیں، لیکن جب کوئی شخص دولت کو پالیتا ہے تو دولت کا تجربہ اس کے پچھلے احساس کو بدل دیتا ہے۔ اب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اگر بے دولت ہونا ایک مسئلہ ہے تو دولت مند بننا بھی ایک مسئلہ ہے، بلکہ شاید شدید تر مسئلہ۔
ایک شخص جو ابتدا میں غریب تھا، بعد کو اس کے پاس کافی دولت آگئی۔ اس کے ماضی کے ایک دوست نے کہا کہ میں دیکھتا ہوں کہ جب سے تمھارے پاس دولت آئی ہے، تم کافی بدل گیے ہو۔ دولت مند آدمی نے اپنے دوست سے کہا—میرے اوپر دولت کی بجلی گری ہے، یہی میرا مسئلہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر دولت ملنے سے پہلے آدمی کو اس کا تجربہ ہوجائے تو کبھی کوئی شخص دولت کی تمنا نہ کرے۔ وہ دولت کا حریص بننے کے بجائے قناعت کی زندگی کو اپنے لیے بہتر سمجھے۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان مسئلہ کیوں بن گیے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی جو حدیثیں محفوظ حالت میں ہم تک پہنچی ہیں اُن میں سے کچھ حدیثیں وہ ہیں جن میں آپ نے اپنی امت کو مستقبل کے کچھ فتنوں سے پیشگی طورپر خبر دار کیا ہے۔ اس قسم کی حدیثوں میں سے ایک حدیث وہ ہے جس میںآپ نے فرمایا: واذا وضع السیف فی امتی لم یرفع منہا إلی یوم القیامۃ (ابو داؤد، کتاب الفتن، الترمذی ،کتاب الفتن، ابن ماجہ، کتاب الفتن، مسند احمد) یعنی میری امت کے اندر جب تلوار داخل ہوگی تو اس کے بعد وہ قیامت تک اُس سے اُٹھائی نہ جائے گی۔
سیف (تلوار) تشدد کی علامت ہے۔ اس قولِ رسول کا مطلب یہ ہے کہ امت مسلمہ کے اندر جب ایک بار متشددانہ طریقہ داخل کردیا جائے تو پھر وہ نسل در نسل جاری رہے گا۔ حتیٰ کہ اگر اس رجحان کو بدلنے کی خصوصی کوشش نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ وہ برابر امت کے اندر جاری رہے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کی پیشین گوئی بالکل لفظی طورپر درست ثابت ہوتی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، خلیفۂ ثالث عثمان بن عفان کے آخری زمانہ میں سیف، بالفاظ دیگر، متشددانہ طریق کار امت مسلمہ کے اندر داخل ہوا، اس کے بعد پھر وہ کبھی ختم نہ ہوسکا۔ اِس وقت سے لے کر آج تک پوری امت کا یہ حال ہے کہ اُس کے کچھ افراد اگر عملی تشدد میں مشغول ہیں تو اس کے کچھ افراد فکری تشدد میں ۔ کچھ لوگ اگر اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف گن اٹھائے ہوئے ہیں تو دوسرے لوگ براہِ راست یابالواسطہ طورپر اس کی تصدیق اور تبریر کرنے میں مشغول ہیں۔
اصل یہ ہے کہ چودہ سو سال پہلے جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی، اُس وقت عرب میں اور ساری دنیا میں مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ مروجہ مذہب کے لوگ جب بھی دیکھتے کہ کوئی فرد یا گروہ اُن سے الگ کوئی مذہب اختیار کررہا ہے تو وہ اُس کے سخت مخالف بن جاتے۔ مذہبی رواداری (religious tolerance) جو موجودہ زمانے میں دکھائی دیتی ہے، اس زمانہ میں اس کا سرے سے کہیں وجود نہ تھا۔
یہی زمانی رُکاوٹ ہے جس کا سامنا پیغمبر اسلام اور آپ کے ساتھیوں کو پیش آیا۔ لوگ پیغمبر اور آپ کے اصحاب کے ساتھ جارحیت کی حد تک ناروا داری کا معاملہ کرنے لگے۔ یہاں تک کہ آپ کو اور آپ کے اصحاب کو اپنے وطن مکہ سے نکل جانے پر مجبور کردیا۔ اس وقت قرآن میں یہ حکم دیاگیا کہ: وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین للہ (البقرہ ۱۹۳)
اس آیت میں فتنہ سے مراد یہی مذہبی ایذا رسانی (religious persecution) ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مذہب کے جائز معاملہ میں تمھارے خلاف تشدد کررہے ہیں اور جارحیت کی حد تک جاکرتمھارے خلاف رکاوٹیں کھڑی کررہے ہیں، اُن سے دفاعی جنگ لڑو، یہاں تک کہ مذہبی جبر(فتنہ) کی حالت ختم ہوجائے اور مذہبی آزادی کی حالت قائم ہوجائے۔ مذہبی جبر یا مذہبی ایذارسانی اپنے آپ میں ایک جارحانہ فعل ہے، اور دوسری جارحیت کی طرح، اس جارحیت کے خلاف جو جنگ کی جائے وہ بھی دفاعی جنگ ہے۔
پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے یہی مدافعانہ جنگ کی۔ یہ گویا ایک قسم کا وقتی آپریشن تھا۔ یہ آپریشن بہترین تربیت یافتہ انسانوں کے ذریعہ کیاگیا، اور یہ آپریشن اصحاب رسول کی اگلی ہی نسل میں تقریباً مکمل ہوگیا۔
جیسا کہ معلوم ہے، یہ آپریشن ہجرت مدینہ کے بعد شروع ہوا ،پہلے عرب میںاور اس کے بعد ایرانی سلطنت اور بازنطینی سلطنت کے دائرہ میں۔ یہ آپریشن پیغمبر اسلام کے زمانہ میں شروع ہوا اورخلیفۂ ثانی عمر فاروق کے زمانہ میں وہ اپنی آخری تکمیل تک پہنچ گیا۔ یہ پورا کام خدا کی خصوصی مدد سے ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اتنا بڑا آپریشن صرف پچیس سال کے مختصر عرصہ میں مکمل ہوگیا۔ قتال فتنہ کی آیت کا یہ مفہوم دوسرے نصوص کے علاوہ، عبد اللہ بن عمرکی تشریح سے ثابت ہے، جو صحیح البخاری میںایک سے زیادہ مقامات پر آئی ہے۔
خلافت راشدہ کے بعد جب بنوامیّہ کی سلطنت شروع ہوئی تو عبد اللہ بن زبیر نے اس کے خلاف خروج کیا۔ اس کے نتیجہ میںعبد اللہ ابن زبیر اور بنو امیہ کے گورنر حجاج بن یوسف کے درمیان جنگ پیش آئی۔ عبداللہ بن عمر ایک سینئر صحابی کی حیثیت سے مکہ میں موجود تھے، مگر اُنھوں نے اس جنگ میںشرکت نہیں کی۔ عبداللہ بن زبیر کے کچھ ساتھی عبد اللہ بن عمر کے پاس گئے اور اس جنگ میں اُنھیں شرکت کی دعوت دی۔ اُن لوگوں نے قرآن کی آیت قتال فتنہ (الانفال ۳۹) کا حوالہ دے کر کہا کہ ہماری یہ جنگ قرآن کے اس حکم کے تحت ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر نے کہا کہ تم لوگ غلط کہتے ہو۔ فتنہ کے خلاف جنگ سے مراد مذہبی تشدد کے خلاف جنگ تھی۔ ہم نے لڑ کر اس فتنہ کو ختم کردیا۔اب تم لڑ رہے ہو تاکہ جو فتنہ ختم ہوچکا ہے وہ دوبارہ نئے نام کے ساتھ لوٹ آئے (فتح الباری، جلد ۸، صفحہ ۳۲، ۱۶۰)
تاہم حضرت عبد اللہ بن عمر کے اس احتجاج کے باوجود امت کے اندر تشدد کا طریقہ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ امت کی پوری تاریخ پر پھیل گیا۔ قتال فتنہ کے حکم سے مراد دراصل یہ تھا کہ مذہبی تشدد کے دور کو ختم کرکے مذہبی آزادی کا دور لایا جائے۔ مگر بعد کے دور میں اُس کو سیاسی معنی میں لے لیا گیا۔ اب اس کا مطلب یہ ہوگیا کہ دوسری قوموں کے اقتدار کو ختم کر کے مسلمانوں کا اقتدار دنیا میں قائم کیا جائے۔ یہ قرآنی حکم کے معاملے میں ایک انحراف تھا، تاہم یہ انحراف عمل میں آیا، حتی کہ وہ پوری مسلم تاریخ پر چھاگیا۔
سیاسی حوصلہ مندوں کو یہ نظریہ بہت موافق نظر آتا تھا۔ چنانچہ اُنھوں نے بہت جلد پورے زور کے ساتھ اس کو پکڑ لیا۔ یہ رجحان اتنا زیادہ بڑھا کہ اسلام عملاً کِشور کُشائی اور ملک گیری کا ایک مذہب بن گیا اور اسی کے ساتھ تشدد کا بھی۔ کیوں کہ کشور کُشائی اور ملک گیری کی مہم تشدد کے بغیر چلائی نہیں جاسکتی۔ سیاسی حوصلہ مندوں کے اس عمل میں چند چیزوں سے خصوصی نظریاتی مدد ملی۔ اس طرح اُنھیں اپنی عملی سیاست کے لیے نظریاتی جواز بھی حاصل ہوگیا۔
ایک یہ کہ قدیم زمانہ کے رواج کے مطابق، اسلام کی تاریخ سیاسی نمونہ پر لکھی گئی۔ خلافت عباسیہ سے لے کر بعد کے زمانہ تک جتنی بھی تاریخیں لکھی گئیں، وہ سب کی سب قدیم پیٹرن پر لکھی گئیں۔ قدیم پیٹرن میں جنگ و فتح اور سیاسی معرکہ آرائیوں کو سب سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا اور انھیںکوتاریخ کی کتابوں میں ریکارڈ کیاجاتا تھا۔
ان سیاسی حوصلہ مندوں کو جن چیزوں سے نظریاتی تائید ملی، اُن میں سے ایک، تاریخ نویسی کا یہ قدیم طریقہ تھا۔ یہ تمام تاریخیں حقیقتاً مسلم بادشاہوں کی تاریخیں تھیں۔ اُن کی قائم کردہ ہر سلطنت خاندانی خلافت (dynasty) تھی۔ مگر ان تاریخوںکو ’’اسلامی تاریخ‘‘ کا نام دے دیاگیا۔ اس طرح مسلم خاندانوں کی یہ حکومتیں اسلامی حکومتیں قرار پائیں۔
اس سلسلہ میں دوسری نظریاتی تائید فقہ سے حاصل ہوئی۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ فقہ عباسی سلطنت کے دورمیں مرتب ہوئی۔ اس میں وقت کے رجحان کے مطابق، نہ کہ قرآن اور سنت کی تعلیم کے مطابق، ساری دنیا کو دو علاقوں میں تقسیم کردیاگیا، دار الاسلام اور دار الحرب۔
دار الاسلام سے مراد وہ زمینی علاقے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت قائم تھی۔ اور دار الحرب سے مراد وہ علاقے تھے جہاں مسلمانوں کی حکومت ’’ابھی‘‘ قائم نہیں ہوئی۔ یہ فرض کر لیاگیا کہ یہ تمام غیر مسلم علاقے گویا امکانی طورپر مسلمانوں سے حالت جنگ (potentially at war) میں ہیں، اس لیے ان کو دار الحرب کا نام دے دیا گیا۔
دار الحرب اور دار الکفر کی اصطلاحیں بلا شبہہ اجتہادی ہیں، وہ کسی نصّ صریح پر مبنی نہیں۔ جن لوگوں نے اپنے اجتہاد سے یہ اصطلاحیں وضع کیں وہ ایک حدیث کے مطابق، اس پر یقینا اجتہادی خطا کا اجر پائیں گے، مگر ان کو درست اجتہاد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلاد کی تقسیم کے لئے صحیح طورپر دو ہی ابدی اصطلاحیں ہیں، دارالدعوہ، اور دارالاسلام۔ جہاں اسلام کا حکم قائم ہو جائے وہ دارالاسلام ہے اور جہاں ایسا نہ ہو وہ دار الدعوہ ہے۔ ان کے سوا کوئی تیسری اور چوتھی اصطلاح اسلام کی تعلیم کے مطابق نہیں۔
اس معاملہ میں دور اول کو لیجئے۔ نبوت کے ابتدائی زمانہ میں مکہ اور مدینہ اور دوسرے تمام علاقے ایک ہی قسم سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ سب کے سب دار الدعوہ تھے۔ ہجرت کے بعد مدینہ میںاسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو اس کے بعد مدینہ دار الاسلام بن گیا اور دوسرے علاقے، بشمول مکہ، دارالدعوہ کی حیثیت سے قائم رہے۔ اسی طرح عرب کے باہر کے ملکوں کی حیثیت بھی دارالدعوہ کی تھی۔ اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ملکوں کے حکمرانوں کو دعوتی مکاتیب روانہ کئے۔
بلاد کی اس تقسیم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دارالاسلام کے علاوہ جو علاقے ہیںان کو بھی سیاسی معنوں میں دار الاسلام بنانے کی کوشش کی جائے۔ اس قسم کا نظریہ سراسر بے بنیاد ہے۔ دیگر علاقوں کے لیے اہلِ اسلام کی ذمہ داری صرف دعوت ہے، اول بھی اور آخر بھی۔ پر امن دعوت کے سوا کسی بھی قسم کی دوسری کارروائی اہل اسلام کے لیے جائز نہیں۔
فقہ کی کتابوں میں،اور دوسرے موضوعات کی کتابوں میں عام طور پر بلاد الکفر اور بلاد الکفار کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ اسلوب یقینی طورپر درست نہیں۔ غیر مسلم ملکوں کا ذکر ان کے اپنے معروف نام کے ساتھ کیا جانا چاہئے نہ کہ بلاد الکفر یا بلاد الکفار کے الفاظ میں۔ اس طرح کے معاملات میں ہمیں خود ساختہ طریقہ اپنانے کے بجائے انٹرنیشنل آداب کو اپناناچاہیے۔ اس سلسلہ میں بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام دین فطرت ہے۔ ہر انسان کی جو فطرت ہے وہی خود اسلام بھی ہے۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر انسان امکانی طورپر مسلم ہے:
Every human being is potentially Muslim.
ایسی حالت میں ہمارا نقطۂ نظر دوسرے انسانوں کے بارے میں وہی ہونا چاہئے جوخود مسلمانوں کے بارے میں ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ سارے انسان امکانی طورپر مسلم ہی ہیں۔ اسلام کی پوری تاریخ اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے۔
اسی طرح دشمن اور دوست کی تقسیم بھی عمومی طور پر درست نہیں۔ ایک گروہ اگر یکطرفہ طورپر اہل اسلام پر حملہ کردے تو ایسی حالت میں اہل اسلام وقتی طورپر دفاع کی ذمہ داری کو پورا کریں گے۔ مگر بظاہر زیادتیوں کے باوجود ،کسی گروہ کو مستقل طورپر دشمن سمجھ لینا درست نہیں۔ قرآن کے مطابق، اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ اپنے دشمن کو بھی امکانی طورپر اپنا دوست سمجھیں، وہ یکطرفہ حسن اخلاق کے ذریعہ اپنے دشمن کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں(حٰم السجدہ ۳۴)
ہجرت کے بعد مدینہ جب دارالاسلام بن گیا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ مکہ دارالکفر یا دار الحرب ہوگیا۔ بلکہ صحیح یہ ہے کہ ہجرت کے بعد مدینہ اگر بالفعل دار الاسلام تھا تو مکہ بالقوہ دار الاسلام، جیسا کہ بعد کی تاریخ سے ثابت ہوا۔ بلاد کی تقسیم کے بارے میں یہی صحیح اسلامی نقطۂ نظر ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ بلاد کی یہ تقسیم مکمل طورپر غیر سیاسی معنوں میں ہے نہ کہ سیاسی معنوں میں۔ دوسرے اسباب کے علاوہ یہ دو اسباب، فقہ اور تاریخ، گویا اس مسلم سیاست کے لیے نظریاتی تائید کے ہم معنی بن گئے۔
انیسویں صدی کے آخر میں قدیم طرز کی مسلم سلطنتوں کا دور ختم ہوگیا۔ حالات کی اس تبدیلی کے بعد، مسلم دنیا میں یہ ذہن پیدا ہونا چاہیے تھا،انھیں اب نیے حالات کے مطابق، ازسرِ نو اپنی تیاری کرنا ہے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔ عین اُس وقت مسلمانوں میں وہ گروہ پیدا ہوا جس کو عام طورپر انقلابی مفکرین کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے قدیم جارحانہ سیاست کے حق میں ایک اور نظریاتی تائید فراہم کردی۔یہ اسلام کی سیاسی تشریح تھی۔ ان لوگوں نے قرآنی آیتوں کی نام نہاد انقلابی تشریح کرکے بتایا کہ اسلام کا مقصد ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کرنا ہے۔ کسی مسلمان کا اسلام اُس وقت تک مکمل ہی نہیں، جب تک وہ ایسا نہ کرے کہ یا تو اسلام کی حکومت بالفعل قائم کردے یا اسی راہ میں وہ اپنے آپ کو قربان کردے۔
اس جدید تشریح نے مذکورہ قسم کی غلطی کو عملی انحراف سے بڑھا کر عقیدہ کا درجہ دے دیا اور اس طرح سیاسی تشدد کو یہ حیثیت دے دی کہ وہ کسی مسلمان کے لیے جنت کا سب سے زیادہ یقینی ٹکٹ ہے، اسلام کے نام پر تشدد کرنے والے مرد اور عورت سیدھے جنت میں پہنچ جائیں گے۔
فارسی کی ایک مثل ہے کہ پدرم سلطان بود۔ میرا باپ بادشاہ تھا۔ مذکور تفصیلات کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ مسلمانوں کی ہزار سال کی تاریخ کا خلاصہ دو جملوں میں یہ ہے کہ دورِبادشاہت میں مسلمان اس احساس میں جی رہے تھے کہ پدرم سطان است،اور دور بادشاہت کے خاتمہ کے بعد اب وہ اس احساس میں جی رہے ہیں کہ پدرم سطان بود۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے دور میں وہ دوسری قوموں سے اس لیے لڑ رہے تھے کہ وہ ان کی حاکمانہ حیثیت کو تسلیم کریں، اور اب اس لیے لڑرہے ہیں کہ وہ اُن کی کھوئی ہوئی حاکمانہ حیثیت کو اُن سے واپس لیں۔ یہی دو جملوں میں ہزار سالہ مسلم تاریخ کا خلاصہ ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب فتنہ کاخاتمہ ہوا، دوسرے لفظوں میں یہ کہ جب مذہبی تشدد کا دور ختم ہوا اور مذہبی آزادی کا دور شروع ہوا تو اب ضرورت تھی کہ امن کے نظریہ پر اسلام کی پُرامن آئڈیالوجی کو واضح کیا جائے۔ یہ بتایا جائے کہ اسلام کاتشدد سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کا اصل کنسرن صرف مذہبی آزادی کی حالت کا قائم ہونا ہے،اور وہ اب پوری طرح قائم ہوچکی ہے۔ اس لیے اب کرنے کا کام یہ ہے کہ مذہبی آزادی کو استعمال کرکے دعوت وتعمیر کے کام کی پُرامن منصوبہ بندی کی جائے، مگر عملاً ایسا نہیں ہوا۔
میرے علم کے مطابق، خلافت راشدہ کے بعد صرف دو مسلم شخصیتیں ہیں جنھوںنے اس راز کو سمجھا اور اس کا اعلان کیا۔ ایک، عبداللہ بن عمرصحابی، اور دوسرے،عمر بن عبدالعزیز تابعی۔ مگر یہ نظریہ عمومی قبولیت حاصل نہ کرسکا۔ وہ ایک انفرادی اظہار خیا ل بن کر رہ گیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر نے ابن زبیر کے زمانہ میں جو بات کہی تھی، اس کا مطلب یہ تھا کہ قرآن میں فتنہ سے مراد مذہبی تشدد تھا، وہ اب ختم ہوگیا ۔ اس لیے اب کسی اور چیز کو فتنہ بتا کر اس کے خلاف لڑائی چھیڑنا عملاً فتنہ کو نئے عنوان سے واپس لانے کا سبب بن جائے گا۔ یعنی آپ غیر اسلامی سیاست کو ختم کرنے کے نام پر حکمراں سے جنگ چھیڑیں گے۔ چونکہ آپ کی یہ جنگ اسلام کے نام پر ہوگی اس لیے حاکم آپ کی تشریح کے مطابق، اسلام کو اپنا حریف سمجھ لے گا اور غیر ضروری طورپر یہ کرے گا کہ جو لوگ اسلام کے نام پر تحریک اٹھائیں، اُنھیں اپنے لیے سیاسی خطرہ سمجھ کر وہ انھیں کچل دے۔ اس طرح فتنہ کی حالت نئے عنوان کے ساتھ دوبارہ تاریخ میں واپس آجائے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز کو پانچواں خلیفۂ راشدکہا جاتا ہے۔ اُن کے زمانے میں عمومی طور پر امن کی حالت قائم ہوگئی تھی۔ چنانچہ غیر مسلم قومیں کثرت سے اسلام میں داخل ہونے لگیں۔ اُس وقت اُن کے ایک گورنر نے کہا کہ اسلام کی یہ توسیع اگر اسی طرح جاری رہی تو خراج کی رقم بہت کم ہوجائے گی اور ہمارا بیت المال خالی ہوجائے گا۔حضرت عمر بن عبد العزیز نے جواب دیا: ویحک ان محمداً بعث ہادیاً ولم یبعث جابیاً۔
اس سلسلہ میں سب سے زیادہ تباہ کن کردار موجودہ زمانہ کے نام نہاد انقلابی مفکرین نے ادا کیا ہے۔ اُنھوں نے اسلام کی خود ساختہ تشریح کرکے مسلمانوں کو بتایا کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے۔ اور اس مکمل سیاسی نظام کو عملاً نافذ کیے بغیر اُن کے اسلام کی تکمیل نہیں ہوگی۔ یہ غلط تشریح بعض اسباب سے ساری دنیا میں پھیل گئی۔ اب مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مجنونانہ طورپر ساری دنیا سے لڑنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں۔ اُن کے درمیان ایسے انتہاپسند علماء پیدا ہوگیے ہیں جو اس معاملہ میں خود کُش بم باری کو استشہاد (طلب شہادت) قرار دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ مفروضہ دشمن کو مارنے کے لیے تم خود کُش بم باری کی حد تک جاسکتے ہو اور اس طرح اپنی جنت کو یقینی بنا سکتے ہو۔
قرآن میں جہاد کا لفظ پُر امن جدوجہد کے معنی میں ہے۔ بعض اوقات جہاد کے لفظ کو توسیعی معنیٰ میں قتال یا پُر تشدد طریق کار کے لیے استعمال کیا گیا ۔ مگر بعد کے زمانہ میں جہاد کوعملاً قتال کا ہم معنیٰ بنا دگیا اور اُس کو عملی طورپر پُر تشدد طریق کار کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا، جو کہ بلاشبہہ غلط تھا۔
صوفیا اسلام کے اسی پُر امن طریق کار کے نمائندے تھے۔ اُنھوں نے ساری دنیا میں بڑے بڑے دعوتی کام کئے۔ مگر پوری تاریخ میں جہاد (بمعنی قتال) کا تصور اتنا غالب تھا کہ صوفیاء کے طریقہ کو فراریت (escapism)کے ہم معنی سمجھا گیا۔ صوفیاء کے لیے یہ ممکن نہ ہوا کہ وہ پُر امن طریق کار کو ایک مکمل آئڈیالوجی کے طورپر مدلّل اور مفصل کرکے پیش کریں۔ اس لیے علمی اعتبار سے صوفیاء فراریت کے درجہ میں رہے، وہ اسلام کی مین اسٹریم کے نمائندہ نہ بن سکے۔
قرآن کے مطابق، یہ کہنا صحیح ہوگا کہ قتال سے مراد متشددانہ طریقِ کار ہے اور جہاد سے مراد پُر امن طریقِ کار۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ جہاد کو قتال کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا۔ اس طرح جہاد کے حوالہ سے پُر امن طریقِ کار کا تصور تاریخ سے عملی طور پر حذف ہوگیا۔
موجودہ دنیا مسابقت کے اصول پر چل رہی ہے۔ یہاں ہمیشہ ایک اور دوسرے کے درمیان نزاع کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں آدمی کے لیے صرف دو ممکن انتخاب ہے۔ ایک، حالتِ موجودہ (status quo) کو مان لینا۔ اور دوسرے، اگر وہ ماننا نہیں چاہتا تو دوسری صورت یہ ہے کہ مکمل طورپر پُر امن دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کو جاری کرنا۔ ان دو کے سوا جوصورت ہے وہ صرف مزید تباہی کی صورتیں ہیں، وہ یقینی طورپر کامیابی کی صورت نہیں۔
آج سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ جہاد بالقرآن کے اصول کو عام کیا جائے۔ یعنی اسلام کو ایک پُرامن آئڈیا لوجی کے طورپر دنیا کے سامنے لایا جائے۔ مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کا نشانہ اقتدار نہیں ہے، بلکہ دعوت ہے۔ اسلام میں دشمن سے لڑنا نہیں ہے بلکہ دشمن کو اپنا دوست بنانا ہے۔
اس مقصد کا تقاضا ہے کہ ایک طرف صبر کے ذریعہ مسلمانوں اور غیر مسلموں، بالفاظ دیگر، داعی اور مدعو کے درمیان معتدل فضا قائم کی جائے۔ اور دوسری طرف پُر امن دعوتی عمل کو لوگوں کے درمیان مؤثر طورپر چلایا جائے۔
واپس اوپر جائیں

ایک عظیم ایمانی صفت

ایمان کیا ہے، ایمان نام ہے خدا کو اس کی عظمتوں کے ساتھ دریافت کرنے کا۔ خدا کی عظمتوں کو دریافت کرنا، دوسرے اعتبار سے خوداپنے بے عظمت ہونے کو دریافت کرنا ہے۔ یہ دریافت آدمی کے اندر کامل تواضع(modesty) کی صفت پیدا کرتی ہے۔
تواضع کے فائدوں میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ آدمی کو پورے معنوں میں علم کا طالب بنا دیتی ہے۔ اس دنیا میں سب سے بڑا جاننے والا وہ ہے جو اس احساس میں جینے لگے کہ میں نہیں جانتا۔ تواضع آدمی کے اندر یہی صفت پیدا کرتی ہے۔ تواضع آدمی کو اس قابل بنادیتی ہے کہ اس کا علمی سفر کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔ اس کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل (process) کبھی ختم نہ ہو۔
خلیفۂ ثانی عمر فاروق کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ہر ایک سے علم حاصل کرتے تھے(کان یتعلم من کل احد) دوسرے لفظوں میں یہ کہ عمر فاروق کے اندر اضافۂ علم کا عمل (learning process) مسلسل جاری رہتا تھا، وہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔
ایساکیوں ہوتا تھا۔ اس کا ایک عام طریقہ یہ تھا کہ عمر فاروق جب کسی سے ملتے تھے تو اپنی بات سنانے سے زیادہ وہ اس کی بات سننے کی کوشش کرتے تھے۔ وہ ہر ایک سے سوال کرکے اس کے تجربات اور معلومات سے فائدہ اٹھاتے تھے۔
یہ اضافۂ علم صرف اس لیے ممکن ہوتا تھا کہ وہ ایک بے حد متواضع آدمی تھے۔ وہ اپنی بڑائی میں جینے کے بجائے حق کی بڑائی میں جیتے تھے۔ اس نفسیات نے ان کو ابدی طورپر ایک طالب (seeker) بنا دیا تھا۔
حضرت عمر فاروق کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ کسی وجہ سے ان کے کسی فیصلہ میں غلطی ہوجاتی تھی تو خواہ وہ غلطی کتنی ہی چھوٹی ہو وہ فوراً اس کو قبول کر لیتے اور کھلے طورپر انتہائی شدت کے ساتھ یہ کہہ پڑتے کہ —لولافلانٌ لہلک عمر (اگر فلاں شخص نہ ہوتا تو عمر ہلاک ہوجاتا)
اپنی غلطی کا اعتراف، مومن کے لئے عبادت کا درجہ رکھتا ہے۔ مومنانہ مزاج یہ ہے کہ کوئی چھوٹی غلطی ہو تب بھی وہ انتہائی الفاظ میں اس کا عتراف کرے۔ مومن اعتراف خطا کو عبادت سمجھتا ہے، اس لیے وہ اس سلسلہ میں کسی ادنیٰ کمی کو بھی گوارہ کرنے کے لیے تیار نہیںہوتا۔
واحد چیز جو غلطی کے اعتراف میں رکاوٹ بنتی ہے وہ کبر ہے۔ مومن کبر خفی اور کبر جلی دونوں سے پاک ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی بھی چیز اس کے لیے اپنی غلطی کے اعتراف میں رکاوٹ نہیں بنتی۔مومن کا ذہن یہ ہوتا ہے کہ —اپنی غلطی کا فوراً اعتراف کرو، خواہ اس کے نتیجہ میں تم دوسروں کی نظر میں چھوٹے بن جاؤ۔
عمر فاروق کے اسوہ سے مزید یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں مومن کی حسّاسیت اتنی زیادہ بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ غلطی تو درکنار وہ شبہِ غلطی پر بھی تڑپ اٹھتا ہے اور کھلے لفظوں میں اپنی کوتاہی کا اعتراف کرلیتا ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عمر فاروق کی خلافت کے زمانہ میں لوگ نکاح میں عورتوں کے مہر زیادہ باندھنے لگے۔ عمرفاروق نے ایک بار اپنے خطبہ میں لوگوں کے سامنے کہا کہ زیادہ مہر باندھنا اسلامی طریقہ کے خلاف ہے۔ تم لوگ ایسا نہ کرو۔ اگر کوئی شخص زیادہ مہر باندھے گا تو میں فاضل رقم ضبط کرکے اس کو بیت المال میں داخل کردوں گا۔ اس پر ایک بوڑھی عورت اٹھی اور اس نے کہا کہ اے عمر، تم کو ایسا کہنے کا کیا حق ہے، جب کہ خدا نے فرمایا ہے کہ اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی بدلنا چاہو اور تم اس کو بہت سا مال دے چکے ہو تو تم اس میں سے کچھ واپس نہ لو۔ (وإن أردتم استبدال زوجٍ مکان زوجٍ واٰتیتم إحداہنّ قنطاراً فلا تأخذوا منہ شیئا، النساء ۲۰)
بوڑھی خاتون کا یہ حوالہ خالص منطقی اعتبار سے درست نہ تھا۔ کیوں اس آیت میں قنطار (مال کثیر) سے مراد مہر کے علاوہ مال ہے نہ کہ بوقت نکاح دی ہوئی مہر۔ مگر حضرت عمر کی حسّاسیت نے اس پہلو کو نظر انداز کردیا۔ یہ اگر چہ ان کی غلطی نہ تھی بلکہ یہ ایک شبہِ غلطی کا معاملہ تھا۔ اس کے باوجود اپنی متواضعانہ نفسیات کی بنا پر وہ منبر سے اتر پڑے اور کہا: کل الناس أفقہ منک یا عمر حتی العجائز( تمام لوگ ، اے عمر، تجھ سے زیادہ جانتے ہیں حتی کہ بوڑھیاں بھی)۔ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: أصابت امرأۃ وأخطأ رجل(ایک عورت نے صحیح کہا اور عمر نے غلطی کی)۔
مومن کے لیے اپنی غلطی کا اعتراف در اصل اعلیٰ ترین عبادت کے ہم معنی ہوتا ہے۔ وہ اپنے کو خطاوار مان کر خدا کے بے خطا ہونے کا اقرار کرتا ہے۔ وہ اپنے کو چھوٹا بتا کر اس حقیقت کا اعلان کرتا ہے کہ بڑائی تو صرف ایک خدا کا حق ہے، کسی انسان کے لیے کوئی بڑائی نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا کوئی موقع مومن کے لیے ایک نادر موقع ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنی عبودیت کا ثبوت دے کر خدا کی قربت حاصل کرے۔ یہ مومن کے لیے ایک ایسے عمل کا موقع ہے جس سے زیادہ اور قیمتی موقع کوئی نہیں۔
معمولی حالات میں اپنی عبودیت کا اظہار بھی اگر چہ ایک اجرکا کام ہے، مگر وہ موقع جب کہ عبودیت کا اعتراف اپنی انا کو کچلنے کی قیمت پر ہو، وہ ایک ایسا انوکھا عمل ہے جس سے بڑا عمل اس زمین اور آسمان کے اندر کوئی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعوہ ایمپائر

لکشمی نواس متّل ۱۹۵۰ میں راجستھان میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے لندن میں اسٹیل انڈسٹری شروع کی۔ اِس میدان میں انھوں نے بہت ترقی کی، یہاں تک کہ اب ان کی متّل انڈسٹری (Arcelor Mittal) دنیا کی سب سے بڑی اسٹیل انڈسٹری بن گئی ہے۔ انھوں نے اِس میدان میں ساری دنیا میں نمبر ایک پوزیشن حال کرلی۔
لکشمی متّل نے دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا کو انٹرویو دیا ہے جو اخبار کے شمارہ ۲ جولائی ۲۰۰۶ میں شائع ہوا ہے۔ اِس انٹرویو کا عنوان یہ ہے:
Mittal has a message for India: Go ahead and conquer the world.
میں نے اس رپورٹ کواخبار میں پڑھا تو اچانک میرے ذہن میں آیا کہ کیا وجہ ہے کہ مادّی انڈسٹری کے میدان میں ایک آدمی اِس قسم کی بڑی بڑی بات بولتا ہے لیکن مذہب کے میدان میں کسی کے پاس بولنے کے لیے اس قسم کے الفاظ نہیں۔ حالاں کہ مذہب کے اندر دلوں کو جیتنے کی طاقت ہے۔ اِس اعتبار سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ:
Go ahead and conqure the people of the world.
اِس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میںآیا کہ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آج مذہب کے نام سے لوگوں کو صرف اس کی ایک کم تر صورت(reduced form) لوگوں کے سامنے ہے۔ مثلاً مسٹر لکشمی متل، اسٹیل کو ایک عالمی انڈسٹری کا موضوع سمجھتے ہیں۔ جب کہ مذہب کا تصور ان کے ذہن میں یہ ہے کہ کچھ توہماتی عقائد کو مان لیا جائے، اور کچھ بے روح رسموں کو وقتی طورپر ادا کرلیا جائے۔ اس قسم کے کم تر مذہب کے لیے کسی کے دل میں یہ جذبہ نہیں ابھر سکتا کہ وہ اس کو لے کر اٹھے اور عالمی سطح پر کوئی فاتحانہ کارنامہ انجام دے سکے۔
اِس معاملے میںمسلمانوں کا حال بھی دوسروں سے کچھ مختلف نہیں۔ مسلمان جس اسلام کو اعتقادی طورپر مانتے ہیں وہ مکمل طورپر ایک محفوظ دین ہے۔ وہ تمام انسانوں کے دلوں کی آواز ہے۔ وہ ہر انسان کی روحانی تلاش کا جواب ہے۔ وہ انسان کے لیے جنت کا دروازہ کھولنے والا ہے۔ اِس میں ذہنی انقلاب کا پورا سامان موجود ہے۔ اسلام کی یہی خصوصیات ہیں جس کی بنا پر پیغمبر اسلام نے ساتویں صدی عیسوی میںاپنے عرب مخاطبین سے کہا تھا:
کلمۃ واحدۃ تعطونیہا تملکون بہا العرب وتدین لکم بہا العجم (البدایۃ والنہایۃ، جلد ۲، صفحہ ۱۲۳) یعنی میں تم سے صرف ایک بات کا مطالبہ کرتا ہوں، اگر تم اس کو مان لو تو تم سارے عرب کے مالک بن جاؤگے اور عجم تمھاری اطاعت کریںگے۔
مگر آج کے مسلمان ایسا نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر بالفرض وہ ان الفاظ کو دہرائیں تو سننے والا اس کو کوئی اہمیت نہیں دے گا۔ کیوں کہ آج اسلام کے نام سے جو مذہب لوگوں کے سامنے ہے وہ اُسی طرح ایک بگڑا ہوا مذہب ہے جس طرح دوسرے اہل مذاہب نے اپنے مذہب کو بگاڑ رکھا ہے۔ مسلمانوں کے پاس عملاً جو اسلام ہے، وہ اسلام ایک کم تر فارم (reduced form) ہے۔ یہ کم تردرجے کا اسلام نہ تو خود مسلمانوں میں کوئی جوشِ عمل پیدا کرسکتا ہے، اورنہ اِس قابلِ ہے کہ اس کو اہلِ دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور وہ اس سے متأثر ہوکراس کو اپنا دین بنا لیں۔
واپس اوپر جائیں

فرق نہ سمجھنا

ایک دن کا واقعہ ہے۔ میں شہر سے دورایک کھُلے مقام پر بیٹھا ہوا تھا۔ صبح سویرے کا وقت تھا۔ چاروں طرف سرسبز مناظر تھے۔ تازہ اور خالص ہوا کے نرم جھونکے آرہے تھے۔ اس بے آمیز ہوا میں سانس لینا نہایت خوش گوار معلوم ہورہا تھا۔ میرے اوپر ایک سرور کی کیفیت طاری تھی۔ مجھے شبلی نعمانی کا ایک شعر یاد آیا جس کو انھوں نے اسی قسم کے فکری ماحول سے متاثر ہو کر کہا تھا:
ہے ہوا میں شراب کی تاثیر بادہ نوشی ہے باد پیمائی
اُس وقت میرے ساتھ یونیورسٹی کے ایک استاذ وہاںموجودتھے۔ میں نے کہا کہ جس دنیا میں اتنی خوشگوار ہوا موجودہو وہاں کسی کو شراب پینے کی کیا ضرورت۔ میری بات سُن کر اُنھوں نے کہا: کیا معلوم، وہ لوگ دونوں چیزیں لے رہے ہوں۔
میں نے کہا کہ آپ کا یہ جُملہ گریمر کے لحاظ سے درست ہے،مگر وہ معنی کے اعتبار سے درست نہیں۔ میںنے کہا کہ آپ نے شراب اور ہوا دونوں کو برابر قرار دے دیا۔ حالاں کہ ہوا ایک صحت مند انتخاب (healthy option) ہے۔ جب کہ شراب ایک مہلک چیز ہے، وہ سرے سے کوئی صحت مند انتخاب (option)ہی نہیں۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس دنیا میں ایسی چیزیں موجود ہوں جو کسی نقصان کے بغیر آپ کو سرور دے سکتی ہیں تو ایسی چیزمیں سرور تلاش کرنے کی کیا ضرورت جس میں اگر بالفرض کوئی وقتی سرور ہو تب بھی وہ اس قیمت پر ہوتا ہے کہ وہ آدمی کی صحت کو تباہ کردے۔
اکثر حالات میں فکری غلطی کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی ایک چیز اور دوسری چیز میں فرق نہیں کرپاتا۔ وہ صحت مند مشغولیت اور مضر مشغولیت میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے دونوں کو برابر کا درجہ دے دیتا ہے، اور مضر چیز میں بھی اُسی طرح مشغول ہوجاتا ہے جس طرح اُسے صحت مند چیز میں مشغول ہونا چاہیے۔ وہ اُس وقت تک متنبہ نہیں ہوتا جب تک اُس کے غلط انتخاب کا بُرا نتیجہ آخری طورپر اس کے سامنے نہ آجائے۔
ایک دوسری مثال سے اس معاملے کو سمجھیے۔ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک اعتراض کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ اُنھوں نے یہ اعتراض نقل کیا ہے کہ اسلام ایک کامل اور مکمل نظام حیات ہے۔ پھر ایسا کیوں ہے کہ پچھلے چودہ سو سال کی مدّت میں بہت کم لمحات ایسے آئے ہیں جن کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ اسلامی نظام عملاً دنیا میں قائم ہوا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام ناقابلِ عمل نظام ہے۔ اس اعتراض کے جواب میں اُن کا کہنا یہ ہے کہ دوسرے نظام مثلاً اشتراکی نظام بھی عملاً کبھی کامل صورت میں قائم نہ ہوسکا۔ اس سلسلہ میں وہ اشتراکیت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’اشتراکی انقلاب برپا کرنے کے لیے اس نظریہ کے علم برداروں نے زبردست جدوجہد کی اور جان ومال کی ہر قربانی دی۔ حالانکہ وہ غیر طبقاتی معاشرہ جس کی خوش خبری کارل مارکس نے دی تھی، نہ پہلے کبھی دنیا میں وجود میںآیا اور نہ کمیونسٹ انقلاب پر تقریباً سو سال گزر جانے کے بعد کہیں قائم ہوا، بلکہ عوام، زار کی شہنشاہیت سے نکل کر انتہائی بے رحم آمریت کے پنجے میں گرفتار ہوگئے‘‘۔ (ماہنامہ میثاق، اپریل ۲۰۰۲، صفحہ ۷۸)
یہ ایک غلط تقابل ہے۔ اشتر اکیت ایک غیر فطری نظام ہے اس لیے وہ نہ قائم ہوا اور نہ کبھی وہ قائم ہوسکتا ہے۔ اُس کے قائم نہ ہونے کا سبب یہ ہے کہ عملی طور پر اُس کا قائم ہونا ممکن ہی نہیں۔ اس کے مقابلے میں اسلام ایک فطری نظام ہے، وہ مکمل طورپر قابلِ عمل ہے۔ مگر معترض کی غلطی یہ ہے کہ وہ اس کو ایک غلط معیار(criterion) سے جانچ رہے ہیں۔
صحیح یہ ہے کہ اسلام کا نشانہ فرد ہے، نہ کہ سیاسی اور اجتماعی نظام۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ فردِ انسانی کے اندر اللہ کا خوف اور اللہ کی محبت پیدا کی جائے تاکہ وہ قول و عمل میںاللہ کی منشاء کے مطابق، زندگی گزارے۔ سیاسی اور اجتماعی نظام اسلامی مشن کا براہِ راست نشانہ نہیں۔ اس لیے اسلام کے قابلِ عمل ہونے کا معیار انفرادی زندگی ہے، نہ کہ اجتماعی اور سیاسی نظام۔
واپس اوپر جائیں

انسانی اتحاد

انسانی اتحاد ہزاروں سال سے اعلیٰ ترین دماغوں کا خواب رہا ہے۔ تمام اصلاح پسند لوگ ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ مختلف انسانی گروہوں میں کس طرح اتحاد اور یگانگت پیدا کی جائے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ یہ کوششیں نہ صرف عملی نتیجہ پیداکرنے میں ناکام رہیں بلکہ اس مقصد کے لیے کوئی قابلِ عمل فارمولا بھی اب تک وضع نہ کیا جاسکا۔
اس ناکامی کا سبب یہ ہے کہ تقریباً تمام اہلِ دماغ اس معاملہ میں غیر عملی طرزِ فکر کا شکار رہے ہیں۔ مختلف مفکرین اور مصلحین اس معاملہ میں جو کچھ کہتے رہے ہیں، وہ بعض ظاہری یا جزئی فرق کے ساتھ صرف ایک ہے۔ ان لوگوں نے دیکھا کہ انسانوں کے درمیان مختلف قسم کے فرق پائے جاتے ہیں،خاص طورپر مذہبی فرق۔ انھوںنے کہا کہ یہ فرق کسی حقیقی اختلاف پر مبنی نہیں ہیں۔ بلکہ وہ صرف تنوع کو بتاتے ہیں۔ یعنی ایک واحد حقیقت کا مختلف صورتوں میں ظاہر ہونا۔
یہ نظریہ کبھی بھی مختلف لوگوں کے لیے بڑے پیمانے پر قابل قبول نہ ہوسکا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف مذہبوں میں فرق کا پایا جانا، حقیقی اختلاف کی بنا پر ہے نہ کہ تنوع کی بنا پر۔ مثال کے طورپر کچھ لوگ خدا کو ایک مستقل اور باشعور ہستی کے طورپر مانتے ہیں۔ اور کچھ دوسرے لوگوں کے نزدیک خدا کا لفظ محض ایک علامتی قدر(symbolic value) کی حیثیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک اس کا کوئی حقیقی یا مستقل وجود نہیں ہے۔ یہ دو انتہائی متضاد نظریات ہیں جن کوکسی بھی طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
انسانی اتحاد کا صحیح اور ممکن فارمولا یہ ہے— ایک کو ماننا اور دوسرے کا احترام کرنا:
Follow one and respect all.
یہ فطرت کا ایک اصول ہے جس پر انسانی زندگی کا پورا نظام چل رہا ہے۔ بقیہ تمام معاملات میں ہمارا طریقہ یہی ہے۔ایسی حالت میں عقل اور فکر کا یہ تقاضا ہے کہ مذہب کے معاملہ میں بھی اسی اصول کو اختیار کر لیا جائے۔
انسانی اتحاد کا اوّل الذکرفارمولا بظاہر اپنے اندر ایک سماجی قدر(social value) رکھتا ہے مگر بالفرض وہ حاصل ہوجائے تب بھی وہ ایک اور عظیم تر چیز کی نفی کی قیمت پر حاصل ہوگا، اور وہ سچائی ہے۔ ہر انسان کی یہ فطر ی اور لازمی ضرورت ہے کہ اس کو یہ یقین ہو کہ میںنے سچائی کو پالیا ہے، میں سچائی پر کھڑا ہوا ہوں۔ یہ کسی فرد کے لیے اس کا اعلیٰ ترین اثاثہ ہے۔ یہ موجودہ دنیا میں کسی فرد کے لیے پُراعتماد زندگی کی ضمانت ہے۔ مگر مذکورہ قسم کا فارمولا انسان سے اس کا یہ فکری اثاثہ چھین لیتا ہے۔
جو معاشرہ اوّل الذکرفارمولے کی بنیاد پر بنے اس کے افراد صرف مادی حیوان کے مانند زندگی گزاریں گے۔ ان کا عقیدہ اپنے اندر صرف اضافی قدر(relative value) رکھنے والا ہوگا۔ ان کی اخلاقیات کی حیثیت صرف سماجی آداب(social manners) کی ہوگی۔ فوری خوشی (immediate pleasure) حاصل کرنے کے سوا ان کی زندگی کا کوئی اور مقصد نہ ہوگا۔ ان کی سرگرمیوں کا مرکز و محور مادی ضرورتیں ہوں گی نہ کہ اعلیٰ آئڈیل۔ ان کی زندگی میں کوئی معرفت (discovery) نہ ہوگی جس کو انھوںنے تلاش کے بعد پایا ہو اور جو انھیںیہ احساس عطا کرے کہ انھوں نے اس حقیقت اعلیٰ کو پالیا ہے جس کو ان کی روح تلاش کررہی تھی۔
اتحاد انسانی کا اوّل الذکرفارمولا صرف ایک سوشل فارمولا ہے۔وہ لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کی ایک اسکیم ہے۔ مگر یہ اسکیم کسی سماج میںاس قیمت پر قائم ہوتی ہے کہ اس کے افراد میں ذہنی ارتقاء (intellectual development) کا عمل رک جائے۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز 176

۱۔ شانتی گری آشرم(انسٹی ٹیوشن ایریا، نئی دہلی) میں ۶ مئی ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں بطور چیف گیسٹ بلایا گیا تھا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں امن کی اہمیت کو بتایا، اور یہ بتایا کہ اسلام میں امن پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے۔ اِس پروگرام میں زیادہ تر تعلیم یافتہ ہندو شریک ہوئے۔ ان میں اکثریت کیرالا والوں کی تھی۔ اس میں سی پی ایس ٹیم کے افراد بھی شریک ہوئے۔ تقریر کے بعد انھوں نے حاضرین سے اسلام کے موضوع پر گفتگو کی۔ اس کے علاوہ اسلامی بروشر اور اسلامی پمفلٹ بھی انھیں مطالعے کے لیے دئے گئے۔
۲۔ لائف پازٹیو(نئی دہلی) کی طرف سے انڈیا ہیبی ٹٹ سنٹر کے ہال میں ۲۴ مئی ۲۰۰۶کو ایک سیمنارہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ ہر مذہب کے نمائندے کے لیے مشترک ٹاپک یہ تھا—آپ کے مذہب میں اسپریچولٹی کا تصور کیا ہے۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ روحانیت کا ہم معنیٰ لفظ اسلام میں الربّانیۃ ہے، یعنی خدارخی زندگی۔ تقریرمیں بتایا گیا کہ اسلام میں روحانیت کوئی پُر اسرار چیز نہیں ہے۔ بلکہ اس کا تعلق روز مرّہ کی زندگی سے ہے۔ روز مرہ کی زندگی میں روحانی اور انسانی اقدار کے ساتھ زندگی گذارنا، یہی اسلامک اسپریچویلٹی ہے۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم بھی اس پروگرام میں شریک ہوئی۔انھوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور دعوتی پمفلٹ لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق کے ساتھ لیا۔
۳۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۵ مئی ۲۰۰۶ کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز کو یہاں خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ ان کی تقریر کا موضوع یہ تھا:
Human Values in Islam
اِس موضوع پر انھوں نے ۴۵ منٹ تقریر کی۔ اس کے بعد سوال اور جواب کا پروگرام ہوا۔ لوگوں کے بیان کے مطابق، یہ پروگرام کافی کامیاب رہا۔ سی پی ایس کی ٹیم نے بھی اس موقع پر یہاں شرکت کی اور دعوتی بروشر اور پمفلٹ لوگوں کے درمیان تقسیم کیے۔ لوگوں نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اس سے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔
۴۔ اسٹوڈینٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (SIO) کی طرف سے ایک آل انڈیا پروگرام ہوا۔ اس میں ایس آئی او کے منتخب افراد شریک ہوئے۔ یہ ایک ہفتے کا پروگرام تھا۔ اس کی کارروائی ہمدرد پبلک اسکول (نئی دہلی) میں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انھوںنے یکم جون ۲۰۰۶ کو وہاں کے ہال میںایک تقریر کی اس تقریر کا موضوع یہ تھا:
How to Realize God
تقریرکے بعد سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اس پروگرام میں سی پی ایس کی ٹیم کے افراد نے بھی شرکت کی، اور طلبا کے درمیان دعوہ بروشر تقسیم کیے۔ طلباء نے اس کو شوق کے ساتھ لیا اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
۵۔ گلوبل ایکسپوزیشن اینڈ مینیجمنٹ سروس پرائیویٹ لمیٹڈ (نیپال) گذشتہ ۹ برس سے نیپال کی راجدھانی کاٹھمنڈو میں ’نیپال بک فئر‘‘ کا اہتمام کررہا ہے۔ ۲ جون تا ۱۰ جون ۲۰۰۶ء اس کا دسواں بک فئر تھا۔ اِس دسویں بک فئر میں پہلی بارگڈ ورڈ بُکس نئی دہلی (Goodword Books) کی طرف سے وہاں اسلامی بک اسٹال لگایا گیا۔ لوگوں نے کافی دلچسپی لی۔ اور قرآن کے نسخے اور دیگر اسلامی کتابیں خریدیں۔ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنے والوں کو صدر اسلامی مرکز کی دعوتی کتابیں اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے بر وشر دیے گیے۔ نیپال کے وزیر تعلیم نے بھی اس بک اسٹال کا معائنہ کیا،اور بک فئر میں اسلامی کتابوں کی موجودگی پر اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ انھیں ترجمۂ قرآن (انگریزی) کا ایک نسخہ اور سی پی ایس کے بر وشر اور کچھ مزید دعوتی کتابیں دی گئیں، جن کو انھوں نے ادب اور احترام کے ساتھ قبول کیا۔
۶ ۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۱۵ جون ۲۰۰۶ کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت ایک انٹرویو نشر کیاگیا۔ اس کے اینکر مسٹر پنکج تھے، اور جواب دینے والوں میں صدر اسلامی مرکز اور مسٹر پربھاش جوشی۔ موضوع یہ تھا کہ عبادت گاہوں میںکیا خواتین جاسکتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کہ خواتین کا درجہ عمومی طورپر اسلام میں کیا ہے۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں اس کا جواب دیاگیا۔
۷۔ انگریزی روزنامہ دکن ہیرالڈ(Deccan Herald) کے چیف کرسپانڈنٹ مسٹر او۔پی۔ورما (مقیم دہلی) نے ۱۹ جون ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو رکارڈ کیا۔ وہ ایک کتاب لکھ رہے ہیں جس کا موضوع دوستی (friendship) ہے۔ وہ اِس کتاب میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ تمام مذاہب کی تعلیم ایک ہے، اس لیے تمام مذاہب کے درمیان دوستی عین فطری ہے۔ جواب میں ایک بات یہ کہی گئی کہ مذاہب میں یکسانیت یا عدم یکسانیت فلسفۂ مذہب کا موضوع ہے، دوستی کے مسئلے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کے لوگ ہی ایک دوسرے سے نہیں لڑتے، بلکہ خود ایک مذہب کے لوگ آپس میں لڑتے ہیں۔ مثال کے طورپر مہابھارت کی لڑائی میں دونوں فریق ہندو تھے، اس کے باوجود وہ آپس میں لڑے۔ اسی طرح پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں کا مذہب ایک ہے لیکن ۱۹۷۱ میں دونوں کے درمیان سخت لڑائی ہوئی۔ اس لیے دوستی کا صحیح فارمولا یہ نہیں ہے کہ مذہبوں کے درمیان مین کارڈ(main card) ایک بتایا جائے، بلکہ اس کا فارمولا باہمی احترام ہے یعنی:
Follow one and respect all.
۸۔ دہلی کے ہندی روزنامہ ہندستان کے نمائندہ مسٹر فضلِ غفران نے ۲۰ جون ۲۰۰۶ کو اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ اِس انٹرویو کا موضوع ’’مسلم سماج اور مسلم مسائل‘‘ تھا۔ اس سلسلے میں قرآن اور حدیث کی روشنی میں ان کے سوالات کی وضاحت کی گئی۔
۹۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر(نئی دہلی) میں ۲۸ جون ۲۰۰۶ء کو ایک اجتماع ہوا۔ اس میں کیندریہ ودّیالیہ کے تمام اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے ’’بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام‘‘ کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوال اور جواب ہوا۔ یہ پروگرام ایک گھنٹہ رہا۔ حاضرین نے سوال کیا کہ آپ جو افرادتیار کررہے ہیںوہ کس طرح کے لوگ ہیں۔ وہاں ہماری ٹیم کچھ لوگ موجود تھے۔ لوگوں کی فرمائش پر مسٹر رجت ملہوترا اور سعدیہ خان نے اس سلسلے میں اپنا تجربہ بتایا۔ اس کے علاوہ لوگوں کے درمیان سی پی ایس کے دعوہ پملفٹ اور بروشر تقسیم کیے گئے۔
۱۰۔ سنٹر فار کلچر رسورسز اینڈ ٹریننگ (CCRT) کے تحت نئی دہلی میں ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ یہ ڈسکشن یونی سیف بلڈنگ(UNICEF) کے ہال میں ۳ جولائی ۲۰۰۶ کو ہوا۔ امریکا کے پروفیسروں کی ایک ٹیم انڈیا آئی تھی ۔ انھیں کی درخواست پر یہ پروگرام منعقد کیا گیا۔ صدر اسلامی مرکز نے ان کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ وہاں انھوں نے اسلام اور ہندستان کے موضوع پر ایک تقریر کی اور سوالات کے جوابات دئے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میںہوا۔
۱۱ ۔ نیو ورلڈ موومنٹ(نئی دہلی) کے زیر اہتمام ۴ جولائی ۲۰۰۴ کو انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں ایک سیمنار ہوا۔ اس کے صدر سوامی اوم پورن سوتنتر تھے۔ ا س میں دہلی اور دہلی کے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک تھے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Integrated Model of Development
اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوںنے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایا کہ زیادہ صحیح طورپر اس کا عنوان یہ ہونا چاہیے:
Spiritual Model of Integrated Development
حدیث رسول کی روشنی میں انھوں نے بتایا کہ اختلاف زندگی کی ایک حقیقت ہے اس لئے صحیح طریقہ یہ ہے کہ امن کے اصول پر قائم رہتے ہوئے زندگی کا نقشہ بنایا جائے۔
۱۲۔ ۱۱جولائی ۲۰۰۶ کو ای ٹی وی(نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کی گفتگو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق، پاپولیشن ڈے سے تھا۔ جواب کے دوران بتایا گیا کہ پاپولیشن کنٹرول کاتعلق، فتاویٰ سے نہیںہے۔ اس کا تعلق، نیشنل پالیسی سے ہے۔ اِس معاملے میں حکومت جو پالیسی بنائے گی وہی مسلمانوں کی پالیسی بھی ہوگی۔ ان کی پالیسی اس سے الگ نہ ہوگی۔
۱۳۔ ترکی کا ایک ادارہ ہے اس کا نام یہ ہے:
Inter-civilizational Inter-cultural Dialogue for Understanding and Peace
اس کی شاخ انڈیا میں انسل بھون (نئی دہلی) میں قائم ہے۔ اس کے پریزیڈنٹ مسٹر بلند(Bulent Cantmur) ۱۱ جولائی ۲۰۰۶ کو اپنی ٹی وی ٹیم کے ساتھ مرکز میںآئے۔اور صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ سوالات کا تعلق، عالمی اسلامی تحریکیں، عالمی امن، مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی وغیرہ سے تھا۔ ان موضوعات پر تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک گفتگو ہوتی رہی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو جاننا چاہیے کہ موجودہ زمانے کا سکولرنظام، عین وہی چیز ہے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں معاہدۂ حدیبیہ کی شکل میں پیش آیا تھا۔ یعنی ٹکراؤ کو اوائڈکرکے مواقع کو استعمال کرنا۔
۱۴۔ چینل ۷۔ٹی وی (نوئیڈا) کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر آشیش جوشی نے ۱۸ جولائی ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوال کا تعلق، اس مسئلے سے تھا کہ کیااردو تعلیم مسلمانوں کے مسئلے کا حل ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ نہیں۔اردو اب مسلمانوں کی کلچرل زبان بن چکی ہے۔ مسلم کلچر کے تحفظ کے لیے بلا شبہہ اس کی اہمیت ہے۔ لیکن تعلیم کا اصل مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے اندر وقت کا شعور پیداہو۔ وہ وسیع تر ذہن کے ساتھ اپنے معاملات کو سمجھیں اور اس کی مؤثر منصوبہ بندی کریں۔ اِس مقصد کے لیے ماڈرن ایجوکیشن کی ضرورت ہے۔ ماڈرن ایوکیشن کے بغیر مسلمان کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
۱۵۔ جَن مت ٹی وی (نئی دہلی ) کے کرسپانڈنٹ مسٹر سید مجیب امام نے ۱۹ جولائی ۲۰۰۶ کو اپنے ٹی وی کے لیے صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق اردو اسکول سے تھا۔ ایک سوال یہ تھا کہ مرکزی گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جس ایریا میں مسلمان بارہ فیصد ہیں وہاں اردو میڈیم اسکول کھولے جائیں۔ کیا یہ مسلمانوں کا اپیزمنٹ (appeasement) ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اپیزمنٹ ایک سیاسی اصطلاح ہے۔ پولٹکل زبان میں بولنا ہمارا طریقہ نہیں۔ البتہ یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کی ترقی کے لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ ان کو ماڈرن ایجوکیشن میں لایا جائے۔ جس میں وہ پچھڑ گئے ہیں۔
۱۶۔ نئی دہلی کے انگریزی ماہ نامہ لائف پازیٹیو (Life Positive) کی نمائندہ مز جمنا (Jamuna Rangachari) نے ۲۸ جولائی صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق، زیادہ تر، اسلام اور اسلامی تعلیمات سے تھا۔ جو باتیں بتائی گئیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ اسلام کی ابتدائی تین جنریشن صحیح اسلامی طریقے پر رہے گی۔ اِن تین جنریشن کو قُرونِ ثلاثہ یا قرونِ مشہود لہا بالخیر کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ ان تین کے بعد مسلمانوں میں بگاڑ آجائے گا جو قیامت تک جاری رہے گا۔ آج اسلام کے بارے میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ وہی ہیں جن کا تعلق ابتدائی تین نسلوں کے بعد سے ہے۔ اگر آپ کو یہ سمجھنا ہے کہ اسلام کیا ہے، تو آپ ابتدائی تین نسلوں کو دیکھیے۔ یعنی دورِ رسالت، دور صحابہ، دورِ تابعین۔ بعد کے زمانے کو لے کر اسلام کے بارے میں رائے بنانا درست نہیں۔
۱۷۔ نئی دہلی کے این ڈی ٹی وی(NDTV) کی اسپیشل کرسپانڈنٹ اور اینکر مز نغمہ سحر نے ۳؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، اِس مسئلے سے تھا کہ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد ہندستانی مسلمانوں کی حالت کیا ہے۔ جواب میں بتایاگیا کہ ہندستان کے مسلمان اِس ملک میں بہت ترقی کررہے ہیں۔ یہاں تک کہ ستّاون مسلم ملکوں سے بھی زیادہ۔ مسلمانوں کی ترقیاتی سرگرمیوں کی رپورٹ میڈیا میں نہیں آتی۔ اِس لیے وہ لوگ اس کو بہت کم جانتے ہیں جن کے لیے خبریں جانے کا ذریعہ صرف میڈیا ہے۔
۱۸۔ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۳؍ اگست ۲۰۰۶ کی شام کو نرمل دیش پانڈے، وغیرہ نے شرکت کی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز بھی اس میں شریک ہوئے۔ ڈسکشن کا موضوع آزادی اور قومی اتحاد تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے پچھلے ساٹھ سال کے دوران ہونے والے اپنے تجربات بیان کیے۔ انھوں نے بتایا کہ مختلف گروہوں کے درمیان اتحاد، ہندستان کی قومی روایت میں شامل ہے۔
۱۹۔ مولانا شمس الدین ندوی بھوپالی تین مہینے (مئی، جون، جولائی ۲۰۰۶) کے لیے جاپان گئے تھے۔ وہاں ان کا قیام تویاما(Toyama) میں تھا۔ یہ شہر ٹوکیو سے پانچ سو کلومیٹر دور واقع ہے۔ ۳؍اگست ۲۰۰۶ کو نئی دہلی میں ان سے ملاقات ہوئی۔ مولانا شمس الدین ندوی نے بتایا کہ جاپان میں انھوں نے مختلف لوگوں کے درمیان الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ ان کے ذریعہ سے الرسالہ مشن کی کتابوں کا دو مکمل سیٹ جاپان پہنچا ہے۔ اس طرح انشاء اللہ جاپان میں الرسالہ مشن کی اشاعت جاری رہے گی۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان، شاہد اعوان جو جاپان میں تجارت کرتے ہیں۔ انھوںنے ’’انسان کی منزل‘‘نامی کتاب پڑھ کر کہا کہ اس کتاب کو پڑھ کر کوئی بھی منکر، خدا کے وجود کا قائل ہوجائے گا۔ اس میں مولانا نے خدا کا نام ذکر کئے بغیر خدا کا مکمل تعارف پیش کردیا ہے‘‘۔مولانا شمس الدین ندوی نے جاپان میں قیام کے دوران ’’تذکیر القرآن ‘‘کے ذریعے وہاں کے لوگوں کے درمیان درس قرآن کا سلسلہ جاری رکھا۔
۲۰۔ ایک نئی کتاب تیار ہو کر پریس میں زیر طبع ہے۔ اس کا نام’’ہندــپاک ڈائری‘‘ ہے۔ یہ کتاب گویا برّ صغیر ہند کی سو سالہ تاریخ کا ایک مختصر جائزہ ہے۔ یہ کتاب ۲۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔ انشاء اللہ یہ کتاب بہت جلد شائع ہو کر منظر عام پر آجائے گی۔
واپس اوپر جائیں