Pages

Monday 2 February 2009

Al Risala | February 2009 (الرسالہ،فروری)


قبرص کا سفر

اٹلی میں ویٹکن (Vatican) کی سرپرستی میں ایک مسیحی تنظیم قائم ہے۔ اس کا نام کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (Community of St. Egidio) ہے۔ وہ 1968 میں قائم ہوئی۔ اُن کی طرف سے مجھ کو دعوت نامہ ملا۔ اِس میں مجھ کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔یہ کانفرنس قبرص (Cyprus) میں 16-18 نومبر 2008 کو ہوئی۔ یہ کانفرنس کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو اور سائپرس چرچ(Church of Cyprus) کے مشترک تعاون سے کی گئی۔
اِس سے پہلے اگست 2008 میں اس تنظیم کے ارکان پر مشتمل 20 افراد کا ایک وفد دہلی آیا تھا۔ وہ لوگ ہمارے مرکز میں بھی آئے اور ان سے اسلام اور امن کے موضوع پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اُن میں سے ہر ایک کو اسلامی لٹریچر دیاگیا۔ دعوت نامے کے بعد بار بار ای میل اور ٹیلی فون پر ان کے پیغامات ملتے رہے۔ تاہم میں فیصلہ نہیں کرپاتا تھا کہ مجھ کو وہاں جانا چاہیے، یا نہیں۔ آخر کار ایک واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد میں نے وہاں جانے کا فیصلہ کرلیا۔
مجھ کو مختصر طورپر معلوم تھا کہ قبرص (Cyprus)میں ایک صحابیہ کی قبر ہے، لیکن اس کی تفصیل میرے ذہن میں نہ تھی۔ مثلاً حیاۃ الصحابہ میں امِّ حرام بنت ملحان کے تذکرہ کے تحت حاشیہ میں یہ مختصر جملہ میں نے پڑھا تھا: دُفنت أمّ حرام بنت مِلْحان فی قُبْرُص، ویسمّی قبرہا ہناک ’’قبر المرأۃ الصالحۃ‘‘ (جلد1، صفحہ592 )۔ میرے ایک ساتھی کو اِس کا علم ہوا تو انھوں نے اِس صحابیہ کے بارے میں تاریخی تفصیل انٹرنیٹ کے ذریعہ فراہم کردی۔ اِس میں صحابیہ کے اُس مقبرے کی تصویر بھی شامل تھی جو بحر ِ متوسط (Mediterranean Sea) کے ساحل پر واقع ہے۔ فطری طورپر میرے اندر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں قبرص کا سفر کروں اور صحابیہ کی قبر کو دیکھوں۔ چناں چہ کانفرنس کے منتظمین کو کنفرمیشن کی اطلاع دے دی گئی۔ میرا یہ سفر ایک قافلے کی صورت میںہوا۔ میرے ساتھ اِس سفر میں میرے دو رفیق بھی شامل تھے— مولانا محمد ذکوان ندوی، مسٹر رجت ملہوترا۔
قبرص (Cyprus) ایک جزیرہ ہے۔ اُس کا رقبہ 9,251 مربع کلومیٹر ہے۔ وہ بحرِ متوسط (Mediterranean Sea) کے درمیان اس کے مشرقی حصے میں واقع ہے۔ اس کی اہمیت یہ ہے کہ وہ تین براعظموں کے قریب ہے— ایشیا، افریقہ، یورپ۔ قبل مسیح زمانے میں اس پر یونانیوں کی حکومت تھی، پھر یہاں رومیوں کی حکومت قائم ہوئی۔ اس کے بعد یہاں ترکوں کی حکومت آئی۔ اس کے بعد یہ جزیرہ برطانیہ کے زیر اقتدار آیا۔اب قبرص کے دوحصے ہیں۔ اس کے 60 فی صد حصے پر مسیحیوں کی حکومت ہے، اور تقریباً 40 فی صد حصے پر ترکوں کی حکومت۔ یہاںکی زبان یونانی اور ترکی ہے۔ لیکن انگریزی زبان بھی عام طورپر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔
برٹش انسائکلوپیڈیا میں قبرص کے بارے میں جو تفصیل ہے، اس کا ایک جُز یہ ہے کہ — سکندر اعظم نے جب 333 قبل مسیح میں قبرص پر قبضہ کیا تو یہاں کے باشندوں نے عام طورپر اس کا استقبال کیا:
After the victory of Alexander the Great at Issus in 333, all the states of Cyprus welcomed the conqueror (EB 5/406)
یہ الفاظ دنیا کی سیاسی تاریخ کے ایک خاص پہلو کو بتاتے ہیں۔ مختلف حکم رانوں کے بارے میں کتابوں میں یہ بتایا جاتا ہے کہ جب وہ کسی ملک میں بطور فاتح داخل ہوئے تو مفتوح قوم نے خوشی کے ساتھ اُن کا استقبال کیا۔ اِس قسم کے بیانات مسلم تاریخ میں بھی مسلم فاتحین کے بارے میں بار بار ملتے ہیں۔ اِس کا مطلب لازمی طورپر یہ نہیں ہے کہ قدیم حکم راں کے مقابلے میں نئے حکم راں زیادہ بہتر تھے۔ اِس کاتعلق انسان کے اُس عام مزاج سے ہے جس کو تبدیلی (change) کہاجاتا ہے۔ موجودہ امریکی صدر براک اوباما جب نومبر2008میں امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے شکاگو میں اپنی پہلی پبلک تقریر اِن الفاظ سے شروع کی:
Change has come to America.
اِن الفاظ کو سن کر حاضرین نے خوشی سے تالیاں بجائیں۔ یہ تالیاں پرواوباما سے زیادہ، اینٹی بش جذبات کا اظہار تھیں۔ اِسی کو جدید اصطلاح میں اینٹی انکمبنسی فیکٹر(anti incumbency factor) کہا جاتا ہے۔اصل یہ ہے کہ لوگ ہمیشہ اپنے حکم رانوں کے بارے میںبڑھی ہوئی توقعات (over-expectations) میںمبتلا رہتے ہیں۔ کوئی حکم راں اِن توقعات کو پورا نہیںکرپاتا۔ اِس لیے لوگ اپنے موجودہ حکم راں کے بارے میں ہمیشہ شکایت کے جذبات لیے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں جو نیا حکم راں آتا ہے، وہ خوش نما الفاظ بولتا ہے۔ اِس بنا پر لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ نیا حکم راں اُن کے لیے زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔ مگر تجربے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ان کی توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ اب وہ دوبارہ موجود حکم راں کے خلاف ہوجاتے ہیں۔
مسیحی حضرات کے نزدیک قبرص کی خصوصی اہمیت ہے۔ مشہور مسیحی مبلغ سینٹ پال (وفات:65 ء) نے قبرص کا سفر کیا۔ اُن کی تبلیغ سے برناباس (وفات: 61 ء) نے مسیحیت قبول کی۔ برناباس کی پیدائش قبرص میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے قبرص میں مسیحیت پھیل گئی۔ برناباس کا مقبرہ شمالی قبرص کے قدیم شہر سلامی (Salamis) میں واقع ہے۔ موجودہ قبرص میںمسیحیوں کی تعداد تقریباً 80 فی صد ہے، اور مسلمانوں کی تعداد تقریباً 20 فی صد۔
15 نومبر 2008 کو مجھے دہلی سے قبرص کے لیے روانہ ہونا تھا۔ عجیب بات ہے کہ آج ہی صبح کے اخبارات میں یہ خبر آئی کہ انڈیا کا راکٹ چندریان- 1 ، 24 دن کے اندر تقریباً 4 لاکھ کلو میٹر کا سفر کرکے چاند کی قریبی فضا میں پہنچ گیا۔ وہاں اُس نے مون امپیکٹ پروب (Moon Impact Probe) کو چاند کی سطح پر اتار دیا۔ اِس طرح، انڈیا دنیا کا چوتھا ملک بن گیا جس نے مشینی طورپر چاند تک پہنچنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اِس واقعے کی رپورٹ تمام اخبارات میں چھپی ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (15 نومبر 2008) میں اِس خبر کا عنوان اِن الفاظ میں قائم کیاگیا ہے:
Kalam’s Brainchild Lands on Moon.
اِس عنوان میں مسلم سائنس داں ڈاکٹر عبد الکلام کے رول کا غیر معمولی اعتراف کیاگیا ہے۔ لیکن اخبار کے کارٹونسٹ جگ ثریا اور نیلبھ نے اِس واقعے میںایک مزاحیہ پہلو دریافت کرلیا۔ مذکورہ اخبار میں خبر کے ساتھ اُن کا ایک کارٹون چھاپا گیا ہے۔اِس کارٹون کے نیچے یہ الفاظ لکھے ہوئے ہیں:
India has planted its tricolour on the moon. Isn’t it great. It is great. It would be even greater if we could get China’s permission to plant the Indian tricolour in Arunachal Paradesh. (p. 13)
انسان کا ذہن بھی کیسا عجیب ہے۔ وہ ایک خالص سائنسی واقعے میں مزاح کا پہلو نکال سکتا ہے۔
قبرص کے لیے ہمارا سفر 15 نومبر 2008 کی شام کو شروع ہوا۔ ایک قدیم مثل ہے: السفر کالسَّقَر۔ اِسی کے لیے فارسی میں مثل ہے— سفر نمونۂ سقر، یعنی سفر جہنم کی مانند ہے۔ یہ مثل سفر کا حقیقی تعارف نہیں۔ سفر میں بہر حال مسائل پیش آتے ہیں، پہلے زمانے میں بھی اور آج بھی۔ لیکن سفر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ سفر میں نئے نئے تجربے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ تجربات ذہنی ارتقاء کے لیے بے حد قیمتی ہیں۔ اگر سفر میں مشکلات پیش آئیں تو اِن قیمتی تجربات میں اور زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔
15 نومبر 2008 کی شام کو 6 بجے ائر پورٹ کے لیے روانگی ہوئی۔ راستے میں کاروں کا ہجوم دکھائی دیا۔ کاریں مسلسل دوڑ رہی تھیں۔ مجھے یاد آیا کہ ہوائی جہاز کے لیے میرا پہلا سفر 1971 میں ہوا تھا۔ اُس وقت دہلی کی سڑکوں پر بہت کم کاریں دکھائی دیتی تھیں۔ آج ہر طرف موٹر کاریں دوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ ایک عام آدمی اِس کوترقی کی علامت بتائے گا۔ میںنے جب سڑکوں پر دوڑتی ہوئی کاروں کا ہجوم دیکھا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے قیامت قریب آگئی ہے، اور خدا نے فرشتوں کو حکم دے دیا ہے کہ لوگوں کو تیزی سے میدانِ حشر کی طرف لے آؤ۔
حقیقت یہ ہے کہ جس آدمی کو سچائی کی دریافت ہوگئی ہو، اس کوقیامت اتنی قریب نظرآئے گی کہ وہ آندھی اور طوفان کو دیکھے گا تو سمجھے گا کہ آنے والی قیامت شاید آگئی۔ وہ سڑکوں پر لوگوںکی دوڑ کو دیکھے گا تو وہ سمجھے گا کہ شاید تمام لوگ فائنل کال کی طرف تیزی سے چلے جارہے ہیں۔ حساس آدمی قیامت کو بالکل قریب دیکھنے لگتا ہے اور جو آدمی بے حس ہو، وہ اِس طرح رہے گا جیسے قیامت یا تو آئے گی نہیں، یا اس کے آنے میں ابھی بہت زیادہ دیر ہے۔عجیب بات ہے کہ آج مسلمانوں کی نفسیات یہی ہے۔
مشہور مثل ہے کہ — چیزیں تقابل کے ذریعے سمجھ میںآتی ہیں۔ عربی میںکہا جاتا ہے: تُعرف الأشیاء بأضدادہا۔ یہی مثل انگریزی زبان میں اِس طرح ہے:
In comparision that we understand.
ہمارا سفر شروع ہوا تو مجھے یہ مثل یاد آئی۔ میںنے اپنے سفر کا تقابل حیوانات کے سفر سے کیا۔ حیوانات بھی محدود طورپر سفر کرتے ہیں، لیکن ان کا سفر خود اپنے پیروں کے ذریعے ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس، انسان کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس کا سفر سواریوں کے ذریعے طے ہوتاہے، خشکی میں بھی اور سمندر میں بھی اور فضا میں بھی۔ انسان کے ساتھ خدا کا یہی خاص معاملہ ہے جس کو قرآن میں اِس طرح بیان کیاگیاہے: ولقد کرّمنا بنی آدم، وحملناہم فی البر والبحر (الإسراء: 70 ) اِس آیت کے اندر صرف بروبحر کے سفر کا ذکر ہے۔ لیکن توسیعی معنیٰ میں اِس کے اندر فضائی سفر بھی شامل ہے۔
میں اپنے مزاج کے مطابق، ایک تنہائی پسند آدمی ہوں۔ ایک بیرونی سفر میں ایک عرب شیخ سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ: أنا رجل أحبّ العُزلۃ۔ اپنے اِس مزاج کی بنا پر میں ہمیشہ اپنی تنہائی کی دنیا میں جیتاہوں۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب بھی مجھے کوئی سفر پیش آتا ہے تو اپنے اِس مزاج کی بنا پر مجھ کو ہمیشہ سفر کے لیے نکلتے ہوئے ایک قسم کی ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے۔یہی موجودہ سفر میں بھی پیش آیا۔ مگر جب میںائر پورٹ پر پہنچا تو سارا معاملہ بالکل بدل چکا تھا۔ ائر پورٹ میں داخل ہوتے ہی آپ کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ ایک عالمی قافلے کے پُر ہجوم سفر میں شریک ہوگئے ہیں۔ آپ ایک بھیڑ کے درمیان معلوم یا نامعلوم منزل کی طرف چلے جارہے ہیں۔
ہم لوگ ائر پورٹ کے اندر داخل ہوئے تو وہاں ائرپورٹ کا وہ حصہ دکھائی دیا جہاں روشن لفظوں میں ڈیوٹی فری شاپ (Duty Free Shop) لکھا ہوا تھا۔ عربی میں اس کو ’’السّوق الحُرّۃ‘‘ کہاجاتا ہے۔ یہ ائرپورٹ کا شاپنگ سنٹر تھا۔ خوب صورت الماریوں میں آئٹم برائے فروخت رکھے ہوئے تھے۔ میرے ساتھی مسٹر رجت ملہوترا نے اس کو دیکھ کر کہا:
That area is no-angel zone.
اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے مشن میں جو لوگ تیار ہورہے ہیں، ان کا ذوق کیا ہے۔ چیزوں کو دیکھنے کے معاملے میں ان کا زاویۂ نظر بالکل بدل گیا ہے۔ عام لوگ چیزوں کو مادّی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اِس کے برعکس، ہمارے مشن سے وابستہ افراد چیزوں کو روحانی نقطۂ نظر سے دیکھتے ہیں۔ وہ ہر چیز سے روحانی سبق حاصل کرتے ہیں۔
نئی دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر ہم لوگ انتظار گاہ (lounge) میں بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دونوں ساتھی لوگوں کو دعوتی لٹریچر دے رہے تھے ۔ میرے ایک ساتھی نے ایک تعلیم یافتہ خاتون کو انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی لٹریچر دیا۔ یہ خاتون جنوبی امریکا کے ملک پیرو (Peru) کی رہنے والی تھیں۔ انھوںنے نہایت خوشی سے اس کو لیا۔ لینے کے بعد انھوں نے اپنے بیگ کے اندر سے ایک چھوٹا پرس نکالا۔ یہ پرس انڈین سکّوں سے بھرا ہوا تھا۔ مذکورہ خاتون نے میرے ساتھی کی طرف یہ سکّے بڑھاتے ہوئے کہا: لٹریچر کی کتنی قیمت دینا ہے(How much?)۔ میرے ساتھی نے کہا— یہ آپ کے لیے فری اسپریچول گفٹ ہے:
This is a free spiritual gift for you.
دہلی سے قبرص کے لیے ہمارا یہ سفر ایمرٹس (Emirates) کی فلائٹ(EK 515) کے ذریعے ہوا۔ ایمرٹس ائرلائن نہایت معیاری ائر لائن ہے۔ اس کا کرایہ دوسرے جہازوں سے کافی زیادہ ہوتا ہے۔ ایمرٹس ائر لائن 1985میں شروع ہوئی ۔ اس کی اعلیٰ کارکردگی کی بنا پر اس کو 300 انٹرنیشنل ایوارڈ مل چکے ہیں۔ دبئی سے اس کی پروازیں دنیا کے تقریباً 100 مقامات پر جاتی ہیں۔ اب دبئی میں صرف ایمرٹس ائر لائنز کے لیے ایک مستقل ائرپورٹ بنایا جارہا ہے۔
ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے تو اس کے اندر تمام انتظامات شاہانہ معیار کے نظر آئے۔ سفر کے دوران تمام سہولتیں اعلیٰ سطح پر موجود تھیں۔ دہلی سے دبئی کا سفر تقریباً 4 گھنٹے کا تھا۔ یہ پورا سفر جس طرح طے ہوا، وہ حدیث کے الفاظ میں ’’کالملوک علی الأسِرّۃ‘‘کا تجربہ کرارہا تھا۔تاہم ایک مسئلہ میرے لیے پریشانی کا باعث تھا۔ دبئی سے ہم کو لارناکا (Larnaca)کے لیے اگلی پرواز لینا تھا۔ دبئی میں یہ وقفہ 8 گھنٹے کا تھا۔ اپنے مزاج کے مطابق، میں فکرمند تھا کہ اتنا لمبا وقت ائرپورٹ پر کیسے گزرے گا۔ لیکن ائر پورٹ پر پہنچتے ہی بالکل نیا منظر سامنے آیا۔ ائرپورٹ پر میرے لیے سینئر سٹی زن ہونے کی بنا پر وھیل چئرموجود تھی۔ ائر پورٹ کا کارکن تیزی سے چلاتے ہوئے ہم کو ائرپورٹ کے لاؤنج (lounge) میں لے گیا۔ رسپشن پر حسب قاعدہ ہماری انٹری کی گئی۔ اس کے بعد ہم تینوں لوگ لاؤنج میں داخل ہوئے۔
اگلی فلائٹ کے وقفۂ انتظار کے لیے بنایا گیا یہ لاؤنج نہایت کشادہ تھا ۔ وہ بالکل جدید طرز پر بنایا گیا تھا۔ اُس میں بیٹھنے اور لیٹنے کی تمام سہولتیں موجود تھیں۔ اِسی کے ساتھ اس کے اندر کھانے اور پینے کے اعلیٰ انتظامات تھے۔ مختلف قسم کے مشروبات اور ہر ذوق کے کھانے وہاں افراط کے ساتھ رکھے گئے تھے۔ ہم لوگوں نے یہاں بڑھے ہوئے جذباتِ شکر کے ساتھ نماز پڑھی۔
یہ لاؤنج (lounge) لمبائی کی صورت میں تھا۔ اس کے دونوں طرف کی دیواروں میں نہایت شفاف قسم کے بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے۔ یہ شیشے ساؤنڈ پروف تھے۔ باہر ہوائی جہاز مسلسل پرواز کررہے تھے اور اتر رہے تھے، لیکن ان کاشور ہم لوگوں تک نہیں پہنچتا تھا۔ ہم باہر کے مناظر بخوبی طورپر دیکھتے تھے، لیکن باہر کے شور سے ہم پوری طرح محفوظ تھے۔ یہ ایک وسیع اور صاف ستھری دنیا تھی۔ اس کے اندر کھانے پینے سے لے کر ضرورت کی تمام چیزیں اپنی اعلیٰ صورت میںموجود تھیں۔ ہم جہاں چاہیں، بیٹھیں اور جہاں چاہیں لیٹیں، اور اپنی پسند کے مطابق جو چاہیں کھائیں یا پئیں۔ مزید یہ کہ ٹیلی فون کے ذریعے ہم کسی بھی مقام پر کسی بھی شخص سے فوری طورپر ربط قائم کرسکتے تھے۔
یہ ایک عجیب تجربہ تھا۔ اِس تجربے کے دوران قرآن کی دو آیتیں یاد آئیں: وإذا رأیتَ ثَمّ رأیتَ نعیماً وملکاً کبیراً (الدہر: 20) یعنی تم جہاں دیکھو گے، وہیںعظیم نعمت اور عظیم بادشاہی دیکھو گے۔ اور: نتبوّأ من الجنّۃ حیث نشاء (الزّمر:74 )یعنی ہم جہاں چاہیں، جنت میں مقام کریں۔ قرآن میںبتایا گیا ہے کہ موجود دنیا جنت کاابتدائی تعارف ہے (البقرۃ:25)۔ چناں چہ یہ جگہ اپنی مذکورہ خصوصیات کی بنا پر ہمارے لیے جنت کا ایک ابتدائی تعارف بن گئی۔ ہم سب کے دل سے یہ دعا نکلی کہ خدایا، ہمیں اِس آیت کا مصداق بنا دے: ویدخلہم الجنّۃ عرّفہا لہم(محمد: 6 ) یعنی خدا اُن کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اُنھیں پہچان کرادی ہے۔
جنت مومن کے لیے ایک معلوم چیز ہے۔ مومن اپنی بڑھی ہوئی معرفت کے ذریعے جنت کا تصوراتی ادراک کر لیتا ہے۔ وہ فطرت کے حسین مناظر میں جنت کی ابتدائی جھلکیاں دیکھ لیتاہے۔ غیب میں چھپی ہوئی جنت کا یہی گہرا ادارک ہے جو آدمی کو یہ حوصلہ دیتا ہے کہ وہ قربانی کی قیمت پر اُس کا طالب بن سکے۔ اگر ایسا نہ ہو تو کوئی شخص آج کی دنیا کو قربان کرکے کل کی جنت کا طالب نہ بنے۔
دبئی کا یہ ائرپورٹ کئی منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ اُس کی مختلف منزلوں پر مسافروں کے لیے الگ الگ تین مسجدیں بنی ہوئی ہیں۔ ایک، عورتوں کے لیے اور دو مردوں کے لیے۔ ہر مسجد ایک کشادہ کمرے پر مشتمل تھی۔ اس کے باہر کے ایک حصے میں وضو کا انتظام تھا۔ یہاں گیٹ پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے— المصلّیٰ(Prayer Room) ۔ہمارے ساتھیوں نے اِن مسجدوں میں قرآن کے انگریزی ترجمے کا ایک ایک نسخہ مسافروں کے مطالعے کے لیے رکھ دیا—دبئی ائر پورٹ پر ہمارا قیام بظاہر برائے استراحت تھا، لیکن عملاً وہ ہمارے لیے دعوت کا ایک نیا میدان بن گیا۔ میرے ساتھیوں نے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور اُنھیں اسلامی لٹریچر پڑھنے کے لیے دیا۔
ائر پورٹ پر اور بھی کئی قسم کے تجربات ہوئے۔ مثلاً ائر پورٹ کے ایک نوجوان کارکن سے ملاقات ہوئی۔ وہ انڈیا کا رہنے والا تھا۔ میرے ساتھی نے اس سے پوچھا کہ کیا آپ یہاں خوش ہیں۔ اُس نے منفی انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اِن لوگوں نے مجھ کو یہاں ایک اور کام کے نام پر بلایا تھا اور آنے کے بعد انھوں نے مجھ کو دوسرا کام دے دیا۔ اِس واقعے کو جنرلائز کیجیے تو اِس میں تمام انسانوں کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر عورت اور مرد شکایت میں جی رہے ہیں۔ کیوں کہ ہر ایک نے اپنی توقعات (expectations) کوغیر واقعی طورپر بڑھا رکھا ہے۔ اِس لیے جو کچھ اُس کو ملتاہے، وہ اس کو اپنی توقع سے کم نظر آتا ہے۔ اِس مزاج نے موجودہ زمانے کے لوگوں کو سب سے بڑی نعمت سے محروم کررکھا ہے، اور وہ ہے شکرِ خداوندی کی نعمت۔
16 نومبر 2008 کی صبح کو ساڑھے دس بجے ہم ایمرٹس ائرلائن کی اگلی فلائٹ (EK-107) میںسوار ہوئے۔یہ جہاز دبئی سے لارناکا (Larnaca) کے لیے جارہا تھا۔ اِس جہاز کے اندر بدستور اُسی طرح شاہانہ انتظامات تھے جس کا نمونہ ہم نے پچھلے جہاز میںدیکھا تھا۔
جہاز میں 16 نومبر کے مختلف اخبارات مطالعے کے لیے موجود تھے۔ ایک اخبار میںایک خبر کی سرخی یہ تھی— انٹرنیشنل مانیٹری فنڈکی طرف سے پاکستان کو سات بلین ڈالر سے زیادہ قرض:
Pak gets $ 7.6 billion loan from IMF.
خبر میں بتایا گیا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارہ اس پر راضی ہوگیا ہے کہ وہ سات بلین ڈالر سے زیادہ کی رقم پاکستان کو بطور قرض دے۔ اِس قرض کا مقصد پاکستان کو یہ موقع دینا ہے کہ وہ اپنے پچھلے قرضوں کو ادا کرسکے اور اِس طرح مالیاتی ادائگی کے معاملے میں وہ عہد شکن (defaulter) ملک قرار پانے سے بچ جائے:
The International Monetary Fund (IMF) has "in principle" agreed to extend a credit of $7.6 billion to Pakistan to stabilize its ailing economy and help it avoid defaulting on foreign debt repayments, the government said on Saturday. "Pakistan would get $4.6 billion this month while the remaining $3 billion would be disbursed next year," Pakistan's advisor on finance Shaukat Tarin said. Tarin said the credit facility will be for two years under a standby arrangement. "The facility has been obtained to strengthen the country's foreign exchange reservoirs and it will not be utilized to bailout the stock market".
اِس خبر کو پڑھ کر میں نے سوچا کہ موجودہ زمانے میں دو ملک ایسے تھے جو مذہبی نعرہ پر بنے — اسرائیل اور پاکستان۔ اسرائیل کا نعرہ زائن ازم تھا، اور پاکستان کا نعرہ اسلام ازم۔ مگراقتصادی اعتبار سے دونوں کا انجام ایک ہی ہوا، وہ یہ کہ دونوں خود کفیل (self-sufficient) ملک نہ بن سکے۔ اسرائیل کی اقتصادیات کا سب سے بڑا ذریعہ دو ہے— امریکا کی مسلسل مدد، اور بیرونی ملکوں میں رہنے والے یہودیوں کا مسلسل مالی تعاون ۔عجیب بات ہے کہ پاکستان کے بھی یہی دو بنیادی اقتصادی ذرائع ہیں— امریکا کی مسلسل مدد، اور غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا مسلسل مالی تعاون۔
اسرائیل اور پاکستان کے اِس تجربے میں بہت بڑا سبق ہے، وہ یہ کہ صرف مذہبی نعرہ کسی قوم یا کسی ملک کو ترقی یافتہ نہیں بنا سکتا۔ کسی قوم کی تعمیر میں مذہبی نظریے کا حصہ صرف پچاس فی صد ہوتاہے، اور بقیہ پچاس فی صد کا تعلق مادّی اسباب، خصوصاً اقتصادیات سے۔ اگر مادّی استحکام اور اقتصادی ذرائع موجود نہ ہوں تو صرف مذہبی نعرہ کسی ملک یا قوم کو ترقی کے درجے تک نہیں پہنچا سکتا۔
زندگی کا یہ اصول قرآن میں موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 4 میں ارشاد ہوا ہے: ولا تؤتوا السفہاء أموالکم التی جعل اللہ لکم قیاماً (النساء: 5 ) یعنی تم نادانوں کو اپنا مال نہ دو جس کو اللہ نے تمھارے لیے قیام کا ذریعہ بنایا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں اَموال کو قیام کا ذریعہ (means of support) بتایا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مالیاتی یا اقتصادی ذرائع کی اہمیت زندگی میںکیا ہے۔ اِس کے ذریعے کسی فرد یا قوم کو دنیا کی زندگی میں قیام اور استحکام حاصل ہوتا ہے۔ کوئی مذہبی نعرہ کسی بھی قوم کے لیے دنیوی استحکام کا ذریعہ نہیںبن سکتا۔ موجودہ زمانے میں اکثر مسلم ملکوں میںاسلامی ریاست کے قیام کی تحریکیں چلائی گئی ہیں۔ مگر یہ تحریکیں ہر جگہ مکمل طورپر ناکام ہوگئیں۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اِن ’’علم بردارانِ اسلام‘‘ کے پاس اسلام کا نعرہ تو تھا، مگر اُن کے پاس وہ مادّی زمین موجود نہ تھی جس کے اوپر وہ اپنا مطلوب اسلامی قلعہ تعمیر کرسکیں۔
لاؤنج کے کاؤنٹر پر ہمارا بورڈنگ کارڈ لے لیا گیا تھا۔ جب اگلی فلائٹ کا وقت قریب آیا تو کاؤنٹر سے مائک کے ذریعے میرے نام کا اعلان کیاگیا۔ اس کے بعد ائرپورٹ کا ایک آدمی وھیل چئر لے کر آیا۔ وہ مجھ کو وھیل چئر پر بٹھا کر روانہ ہوا۔ میرے دونوں ساتھی میرے ہم راہ تھے۔ ہم لوگ گیٹ پر پہنچے تو وہاں مسافروں کی بھیڑ انتظار میں کھڑی ہوئی تھی۔ ائر پورٹ کا کارکن excuse me, excuse me کہتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔ اِس طرح اس نے تیزی سے اِس بھیڑ کو پار کیا اور سب سے پہلے اس نے ہم لوگوں کو جہاز کے اندر پہنچا دیا۔ ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوکر جب اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے، اس کے کچھ دیربعد دوسرے مسافر جہاز کے اندر داخل ہوئے۔
یہ جہاز بظاہر ایک نیا جہاز تھا۔ اس کی ہر چیز نمایاں طورپر شان دار نظر آئی، اس کی سیٹیں بالکل شاہی تخت کے انداز میں بنائی گئی تھیں۔ اندر داخل ہونے کے بعد اعلیٰ قسم کے مشروبات اور ماکولات سے تواضع شروع ہوگئی۔ مجھے ذاتی طورپر اِن چیزوںسے کوئی رغبت نہیں ہوتی۔ اپنے مزاج کے اعتبارسے مجھے تکلفات کے مقابلے میں سادگی زیادہ پسند ہے، لیکن اِس قسم کے مواقع میرے لیے ہمیشہ جنت کا بعید تعارف بن جاتے ہیں۔ میںاِس قسم کی پُرراحت چیزوں کا استقبال اکثر دعاؤں اور آنسوؤں کے ساتھ کرتاہوں، نہ کہ خوشیوں اور قہقہوں کے ساتھ۔
جہاز کے اندر ایک مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایا کہ وہ دمّام (سعودی عرب) میںایک جاب کے تحت دس سال سے رہتے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ جب میںاپنے گھر میں رہتا ہوں تو خوش رہتا ہوں، لیکن دمام پہنچتے ہی میں ذہنی الجھن میں مبتلا ہوجاتا ہوں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ تمھارے اوپر کسی نے عمل کردیا ہے۔ میںنے جھاڑ پھونک کروائی، مگر اس کا کوئی فائدہ نہیںہوا۔ مزید پوچھنے پر انھوںنے بتایا کہ بیوی بچوں کے ساتھ میرا کوئی مسئلہ نہیں ہے، سب میری مرضی کے مطابق ہے۔
میں نے کہا کہ آپ کی یہ کیفیت صرف فرضی وہم کی بنا پر ہے۔ ایسا اکثر اُن لوگوں کے ساتھ پیش آتا ہے جن کو کسی وجہ سے اپنے گھر والوں سے دور رہنا پڑے۔ یہ ایک نفسیاتی حالت ہے جس کو انگریزی میں ہوم سِک (homesick) کہتے ہیں۔ عربی میں اس کو ’علیل الشوق للوطن‘ کہاجاتا ہے، یعنی دور ی کی بنا پر گھر کے فراق میں مبتلا۔ میںنے کہا کہ آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ شعوری طورپر اِس حقیقت کو جان لیں۔ اِس کیفیت کو صرف ایک فرضی وہم سمجھ کر اس کو اپنے ذہن سے نکال دیں۔ یہ کام آپ کو ابھی اور اسی وقت کرنا ہے۔ اگر آپ یہ کام ابھی اور اِسی وقت نہ کریں تو پھر آپ اُس کو کبھی نہیں کرپائیں گے۔ اِسی طرح کے معاملات کے لیے انگریزی زبان میں یہ مثل ہے کہ — ابھی، یا پھر کبھی نہیں:
Now, or never
دبئی سے ہوائی جہاز روانہ ہوا تو جہاز کے اندر مسلسل یہ دکھایا جا رہا تھاکہ جہاز کن ممالک کے اوپر سے گزر رہا ہے۔ مثلاً سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک، وغیرہ۔ یہ دورِ جدید کا ایک انوکھا تجربہ ہے جوہوائی جہاز کے مسافروں کو پیش آتا ہے۔ قدیم زمانے میں اِس قسم کا سفر ناممکن تھا کہ آدمی بالائی فضا میں اڑتے ہوئے مختلف ممالک سے گزرے اور دور اپنی منزل پر پہنچ جائے۔ اِس اعتبار سے ہوائی جہاز گویا ایک اڑتا ہوا تخت (flying throne) ہے جو سوچنے والے کو خدا کی اتھاہ عظمت کے تصور سے لرزا دیتا ہے۔ وہ ایک طرف، خدا کی قدرت اور دوسری طرف، اپنے عجز کا لرزہ خیز تجربہ کراتا ہے۔
لیکن یہ دیکھ کر مجھ کو تعجب ہورہا تھاکہ جہاز کے مسافر اِس عظیم ربانی تجربے سے بالکل بے خبر تھے۔ کوئی مسافر اپنے کان میں مائکروفون لگائے ہوئے میوزک سن رہا تھا،کوئی اپنی سیٹ کے سامنے لگی ہوئی اسکرین پر فلم دیکھ رہا تھا، کوئی اپنے لیپ ٹاپ (laptop)کو کھول کر اس میںمصروف تھا، کوئی کھانے اور پینے کی چیز سے محظوظ ہورہا تھا، کوئی اپنے بچوں کو دیکھ کر ان کی محبت میں گم تھا— روحانیت کے سمندر سے گزرتے ہوئے لوگ روحانی سیرابی سے محروم تھے۔
ایسا کیوں ہوا۔ کیا وجہ ہے کہ لوگ اُس وقت عین خداوندی کرشموں کے درمیان تھے،اِس کے باوجود وہ کیوں اس کی حقیقت سے بے خبر رہے۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اِس قسم کا اعلیٰ تجربہ کسی کو اچانک پیش نہیں آتا۔ ایک انسان جب زمین پر ہوتا ہے، اُس وقت وہ اپنے آپ کو ایک تیار ذہن (prepared mind) بناتا ہے۔ اِس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ جب یہ تیار ذہن ہوائی جہاز میں سوار ہو کر زمین کی بالائی فضا میں پرواز کرے تو وہ اُس اعلیٰ کیفیت کا تجربہ کرے جس کے لیے اُس نے اپنے آپ کو پیشگی طورپر تیار کیاتھا۔ بلا شبہہ ہوائی جہاز کا سفر ایک اعلیٰ ربانی تجربے کا ذریعہ ہے۔ لیکن یہ اعلیٰ ربانی تجربہ صرف اُس انسان کے حصے میں آتا ہے جو ہوائی جہاز کی سواری سے پہلے اپنے آپ کو ذہنی اعتبار سے اس کے لیے تیار کرچکا ہو— الرسالہ مشن کا مقصد ایک اعتبار سے لوگوں کے اندر اِسی قسم کی ذہنی استعداد پیدا کرنا ہے، نہ صرف ہوائی جہاز کے سفر میں، بلکہ زندگی کے ہر تجربے میں۔
جہاز کے اندر جو شاہانہ انتظامات تھے، اُن میں سے ایک یہ تھا کہ سیٹ کے سامنے ایک مخصوص اسکرین لگی ہوئی تھی۔ اِس اسکرین پر تین نشانات دکھائی دے رہے تھے— I, C, E ۔ آئی کا مطلب انفارمیشن تھا، سی کا مطلب کمیونکیشن ، اور ای کا مطلب انٹرٹین مینٹ۔ اسکرین پر دکھائی دینے والے اِن حروف کو ٹچ کرنے سے متعلقہ معلومات سامنے آجاتی تھیں۔ مثلاً اگر آپ آئی کے حرف کو ٹچ کریں تو ایمرٹس سے متعلق انفارمیشن اسکرین پر آجاتی تھی۔ یہ انفارمیشن مختلف شعبوں کے بارے میں تھی۔ اس میںایک دل چسپ آپشن اپ ورڈ(upward) اور ڈاؤن ورڈ(downward) کیمرہ تھا۔ اگر آپ اپ ورڈ کیمرے کے نشان کو ٹچ کریں تو جہاز کے باہر کی خلائی تصویر اسکرین پر آنے لگتی تھی۔ اِسی طرح ڈاؤن ورڈ کے نشان کو ٹچ کرنے سے جہاز کے نیچے کی دنیا نظر آتی تھی۔ مثلاً سمندر اور پہاڑ اور صحرا، وغیرہ۔ اِس کے علاوہ بقیہ دو نشانات کمیونکیشن اور انٹرٹین مینٹ کے لیے تھے۔ مثلاً فلم، گیم، اور میوزک، وغیرہ۔ سی کے نشان کو ٹچ کرنے پر بتایا جاتا تھا کہ آپ جہاز کے اندر بیٹھے ہوئے کسی آدمی سے کس طرح ٹیلی فون پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
اِس سفر کے دوران کئی بار بریک فاسٹ اور لنچ اور ڈنر کا وقت آیا۔ ہر بار ہوائی جہاز کے عملے کی طرف سے خوب صورت چھپا ہوا مینو کارڈ (menu card) دیا جاتا تھا۔ اِس میںتفصیل کے ساتھ یہ درج ہوتا تھا کہ یہاں کھانے پینے کی کیا کیا چیزیں موجود ہیں۔ اِس میںطرح طرح کے ماکولات اور مشروبات درج رہتے تھے۔ اُس کودیکھ کر مجھے قرآن کی یہ آیت یاد آتی تھی: ولکم فیہا ما تشتہی أنفسکم (حٰمٓ السجدۃ:31) یعنی اہلِ جنت کے لیے، جنت میں ہر وہ چیز موجود ہوگی جس کو وہ چاہیں۔
تاہم میں نے ایک بار بھی اِس مینو کارڈ کو نہیں پڑھا۔ وہ لوگ مختلف قسم کے کھانے پینے کی چیزیں لاتے تھے۔ لیکن میں اپنے مزاج کی بنا پر اُن کا استعمال نہ کرسکا۔ عام طورپر میں یہ کرتا تھا کہ براؤن بریڈ(brown bread) لے لیتا تھااور کسی سادہ چیز سے کھا لیتا تھا، مثلاً سبزی، وغیرہ۔ کھانے پینے اور راحت کے سامان کے بارے میں میرا یہ سادہ مزاج ہمیشہ اور ہر جگہ باقی رہتاہے۔
حدیث میں سادگی کو مومن کا مزاج بتایا گیا ہے (البَذاذۃ من الإیمان)۔ ایسا کیوں ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ایمان کسی آدمی کو دنیا کی چیزوں سے اٹھاکر آخرت میں جینے والا بنادیتا ہے۔ اُس کے دماغ میںہر وقت یہ خیال چھایا رہتاہے کہ آخرت میںاُس سے اِن تمام چیزوں کے بارے میں باز پرس ہونے والی ہے۔ اِس معرفت کی بنا پر اُس کا وہ حال ہوجاتا ہے جس کو حدیثمیں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: لوعلمتم ما أعلم، لضحکتم قلیلاً ولبکیتم کثیراً۔
جن لوگوں کے لیے پھانسی کا حکم سنایا جاتا ہے، اُن کے لیے یہ قانون ہے کہ پھانسی کا پھندا گلے میں ڈالنے سے پہلے اُن کی پسندیدہ غذااُن کے سامنے پیش کی جائے۔ چناں چہ آخر وقت میں ہر مجرم کے لیے ایسا کیا جاتا ہے۔ لیکن واقعات بتاتے ہیں کہ ایسے لوگوں کے سامنے ان کی پسندیدہ غذا موجود ہوتی ہے، لیکن وہ اس کو کھا نہیں پاتے۔ بلاتشبیہ، یہی معاملہ سچے مومن کے ساتھ پیش آتاہے۔ اس کے سامنے تمام لذیذ غذائیں موجود ہوں، تب بھی وہ اُن سے محظوظ نہیں ہوپاتا۔ آخرت کی بازپرس کا معاملہ اُس کے لیے قاطعِ لذت بن جاتا ہے۔
دبئی سے آگے کے سفرکا ایک حصہ وہ تھا جو بحر متوسط (Mediterranean Sea) کے اوپر سے گزرتا تھا۔ جہاز جب سمندر کے اوپر سے گزرتا ہوا تیزی سے پرواز کرتا ہے تو یہ ایک عجیب منظر ہوتا ہے۔ نیچے کی طرف نظر آتا ہے کہ پانی کے جہاز سمندر کے اوپر تیر رہے ہیں، اور اس کے اوپر ہوائی جہاز تیزی کے ساتھ پرواز کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ ایک انوکھا منظر ہوتا ہے جو ماضی میں ہزاروں سال تک انسان کو دیکھنے کے لیے نہیں ملا تھا۔ یہ منظر اتنا زیادہ انوکھا ہوتاہے کہ وہ آدمی کو معرفت کے سمندر میں غرق کردے۔ اُس وقت میںنے سوچا کہ کتنی عظیم قدرت والا ہوگا وہ خدا جو ایسی انوکھی دنیا کو بنائے اور ایسے انوکھے انسان کو بنائے جو فطرت کے امکانات کو واقعہ کی صورت دے سکے۔
جہاز میں شیشے کی کھڑکیاں لگی ہوئی تھیں۔ یہ کھڑکیاں ہمارے لیے معرفت کی کھڑکیاں بن گئیں۔ ہر منظر ہمارے لیے خدا کی عظمت کے نشان میں ڈھل گیا۔ جہاز کے اندر کی دنیا ہمارے لییشکر کا ماحول فراہم کررہی تھی اور جہاز کے باہر کی دنیا، خدا کے اتھاہ جمال و جلال کا مشاہدہ کرارہی تھی۔
ایک صاحب نے پوچھا کہ خدا سے محبت کیسے کی جائے۔ میںنے کہا کہ یہ بے خبری کا سوال ہے۔ آپ دنیا میں آنکھ کھول کر رہنا سیکھئے تو ہر چیز آپ کو خدائی عطیہ کی صورت میںنظر آنے لگے گی۔ ہر چیز میں آپ خدا کی رحمت (blessings) کو دیکھنے لگیںگے۔ ساری دنیا انعاماتِ الٰہی کا ایک عظیم باغ بن جائے گی اور خدا آپ کو ایک منعمِ حقیقی کی صورت میںنظر آنے لگے گا۔ جب ایسا ہوگا تو آپ دیکھیں گے کہ خدا کی محبت آپ کے دل میں ایک طوفان بن کر داخل ہوگئی ہے۔
تقریباً چار گھنٹے کی پرواز کے بعد پائلٹ نے اعلان کیا کہ ہمارا جہاز جلد لارناکا (Larnaca) کے ائرپورٹ پر اترنے والا ہے۔ اِس کے کچھ دیر کے بعد جہاز آہستگی کے ساتھ لارناکا ائر پورٹ کے رن وے پر اتر کر دوڑنے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ کیسا عجیب واقعہ ہے کہ سیکڑوں مسافروں کو لیے ہوئے ایک طیارہ زمین سے اوپر اٹھ کر چالیس ہزار فٹ کی بلندی پر تقریباً 600 کلومیٹر کی رفتار سے اڑتے ہوئے اگلی منزل پر اتر جاتا ہے۔ یہ سارا معاملہ اتنا عجیب ہے کہ اس کو معجزہ سے کم کسی لفظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میںنے سوچا کہ یہ کوئی مشین نہیں تھی، بلکہ فرشتے تھے جو ہوائی جہاز کو اڑاتے ہوئے یہاں تک لے آئے۔ یہی مطلب ہے آدم کے سامنے فرشتوں کے سجدہ کرنے کا۔میں سمجھتاہوں کہ اِسی کا نام معرفت ہے۔ معرفت یہ ہے کہ بظاہر اسباب کے تحت ہونے والے واقعے کو آدمی براہِ راست خدا کی طرف سے ہونے والا واقعہ سمجھے۔ ایک چیز جو بظاہر انسانی واقعہ نظر آئے، اس کا کریڈٹ وہ خدا وند ِ ذوالجلال کو دے سکے۔
لارناکا میں جہاز کا بند دروازہ کھلا۔ ہم لوگ جہاز سے باہر آئے۔ یہ ائر پورٹ بحرِ متوسط کے عین کنارے واقع ہے، چناں چہ ہمارے ایک طرف ائر پورٹ کی عمارتیں تھیں اور دوسری طرف دور تک پھیلا ہوا سمندر جس کے اوپر کشتیاں اور جہاز تیر تے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ یہ پورا ماحول دوبارہ خدا کی رحمتوں اور قدرتوں کا ایک انوکھا منظر پیش کررہا تھا۔ مجھے قرآن کی وہ آیت یاد آئی جس میں بتایاگیا ہے کہ ’’کہو کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لیے روشنائی ہوجائے تو سمندر ختم ہوجائے گا، اِس سے پہلے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں، اگر چہ ہم اس کے ساتھ اِسی کے مانند اور سمندر ملادیں‘‘ (الکہف: 109 )۔
یہاں رن وے کے کنارے خصوصی قسم کی لگزری بس پہلے سے موجود تھی۔ ہم لوگ اُس میںداخل ہو کر اس کے اندر بیٹھ گئے۔ اس کے بعد بس چلتی ہوئی ائرپورٹ کے گیٹ پر پہنچ گئی۔ بس سے اتر کر ہم لوگ باہر نکلے تو پیشگی طورپر وہاں کانفرنس کے دو نمائندے ہم کورسیو کرنے کے لیے موجود تھے۔ اُن کو دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے خدا نے اپنے دو فرشتوں کو حکم دیا کہ تم فلاں مقام پر جاؤ۔ وہاں پر ایک عاجز بندہ سواری سے اترے گا۔ اُس کی معاونت کرکے تم اُس کو اس کی منزل پر پہنچاؤ۔
ہوائی اڈے کے اندر داخل ہوئے تو ہم لوگوں کو کچھ نہیں کرنا پڑا۔ مذکورہ دونوں صاحبان نے ائر پو رٹ کی تمام ضروری کارروائیاں پوری کیں۔ ہمارے ساتھ کتابوں کے دس بڑے بڑے بنڈل تھے۔ اس کو بھی اُنھیں لوگوں نے کنویئر بیلٹ (conveyor belt) سے حاصل کیا اور باہر کھڑی ہوئی کار تک پہنچایا۔ ہم لوگوں کا دعوتی کام ائر پورٹ ہی سے شروع ہوگیا۔ ہمارے ساتھیوں نے لوگوں سے مل کر اُن کو پمفلٹ اور بروشر دینا شروع کردیا۔ لارناکا ائرپورٹ دبئی وغیرہ کے مقابلے میںایک چھوٹا ائر پورٹ تھا۔ لیکن وہ صاف ستھرا اور خوب صورت تھا۔ اس کی سادگی میرے ذوق کے عین مطابق تھی۔ میںذاتی طورپر سادگی کو حسن کا اعلیٰ معیار سمجھتا ہوں۔ میرا یہ ماننا ہے کہ:
Simple is beautiful
جس کانفرنس میں ہم کو بلایا گیا تھا، اس کا اہتمام روم کی ایک مسیحی تنظیم نے کیا تھا۔ ائر پورٹ پر جن دوصاحبان نے ہماری کتابوں کے بنڈل کو لے جانے میں مدد کی، وہ دونوں بھی مسیحی حضرات تھے۔ یہ موجودہ زمانے کا ایک عجیب ظاہرہ ہے۔ انٹرنیشنل کانفرنس کا اہتمام دوسرے لوگ کررہے ہیں اور ہم کو وہ کھلا موقع دے رہے ہیں کہ ہم وہاں آنے والوں کو اسلامی کتابیں پڑھنے کے لیے دیں۔ یہ کامل مذہبی آزادی تاریخ میںپہلی بار آئی ہے۔ غالباً یہ اُسی معاملے کا ایک پہلو ہیجس کو قرآن میں پیشگی طورپراِن الفاظ میں بیان کیا گیا تھا: ویکون الدین کلّہ للہ (الأنفال: 39 )
یہ ائر پورٹ لارناکا شہر میں واقع ہے۔یہاں سے ہم کو قبرص کے دوسرے شہر نکوسیا (Nicosia) جانا تھا۔ نکوسیا قبرص کا دارالسلطنت ہے۔ لارناکاسے نکوسیا کا سفر تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پرتھا۔ ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر نکلے تو یہاں کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے ایک کار موجود تھی۔ یہ جدید طرز کی ایک کار تھی جس کو عام طور پر لگزری کار کہاجاتا ہے۔ لیکن میرا اپنا مزاج یہ ہے کہ مجھے کسی بھی سواری کے بجائے پیدل چلنا زیادہ پسند ہے۔ پیدل سفر میں آدمی نیچر سے براہِ راست مربوط ہو کر سفر کرتاہے، جب کہ سواری میںسفر کرنا غیر شعوری طورپر آدمی کو اِس احساس میں مبتلا کردیتاہے کہ وہ انسانی ساخت کی ایک مشین کے ذریعے سفر کررہا ہے۔ چناں چہ مسافت اگر کم ہو تو مجھے پیدل سفر کرنا ہمیشہ زیادہ مرغوب ہوتا ہے۔
سڑک کے دونوں طرف پہاڑی علاقہ تھا۔ پہاڑیاں اور وادیاں دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ پہاڑیاں زردی مائل سفید رنگ (cream-cloured) کی تھیں۔ اُن پر چھوٹے چھوٹے درخت اگے ہوئے تھے۔ ہماری گاڑی تیزی کے ساتھ سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ سڑک کے دونوں طرف پھیلے ہوئے خوب صورت مناظر حسنِ فطرت کا ایک نیا نمونہ دکھارہے تھے۔ یہاں سڑک پر کاروں کاہجوم نہیںتھا، البتہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر کچھ کاریں آگے پیچھے دوڑتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ راستے میں کہیں کہیں کچھ عمارتیں سڑک کے دونوں طرف دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ عمارتیں زیادہ تر مارکیٹ یا شاپنگ سنٹر کے طور پر بنائی گئی تھیں۔ کچھ رہائشی مکانات بھی نظر آئے۔ یہ مکانات سادہ اور خوب صورت تھے۔
ایک طرف دور پہاڑ پر ایک جھنڈا دکھائی دیا۔ یہ جھنڈا پہاڑ کے اوپر کندہ (engraved) تھا۔ ہمارے ڈرائیور مسٹر پیٹر (Peter) نے بتایا کہ یہ ترکی کا جھنڈا ہے۔ ترکوں نے 1974 میں قبرص کے مشرقی سمت میں داخل ہو کر اس کا 37 فی صد حصہ اپنے قبضے میں لے لیا ۔ اُس وقت سے یہ علاقہ ترکوں کے زیر قبضہ ہے۔ ترکوں کے اِس فعل کی وجہ سے قبرص کے مسیحی لوگوں کے اندر اُن کے خلاف منفی جذبات پیداہوگئے۔ یہ منفی جذبات دعوت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مسلمان اگر اپنی طرف سے اِس طرح کے مسائل نہ کھڑے کریں اور پرامن انداز میں دعوت کا کام کریں تو اس کے بعد معتدل ماحول میں دعوت کا نہ رکنے والا پراسس شروع ہوجائے اور خدا کے بہت سے بندے اور بندیاں اس کی ابدی رحمتوں کے سایے میں آجائیں۔میں نے سوچا کہ دورِ اول میں مسلمانوں کا سب سے بڑا کنسرن یہ تھا کہ وہ لوگوں کے دلوں میں سچائی کا پیغام داخل کریں۔ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا کنسرن یہ بن گیا کہ وہ زمین کے اوپر اپنا سیاسی جھنڈا لہرائیں۔ اُسی کا ایک نمونہ مشرقی قبرص میںدکھائی دیتا ہے۔
نکوسیامیںانٹرنیشنل ہوٹل ہلٹن (Hilton) کی دو شاخیں ہیں— ہلٹن پارک (Hilton Park)، اور ہلٹن سائپرس (Hilton Cyprus) ۔ ہم لوگوں کے قیام کا انتظام ہوٹل ہلٹن پارک میں کیاگیا تھااور کانفرنس کی کارروائی ہلٹن سائپرس میں رکھی گئی تھی۔ ائر پورٹ سے چل کر ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ہلٹن پارک پہنچے۔ جب ہم ہوٹل کے گیٹ کے سامنے اترے تو ہم نے دیکھا کہ یہ شیشے کا گیٹ ہے۔ ہمیں اُس کو کھولنا نہیں پڑا۔ قریب پہنچتے ہی وہ اپنے آپ کھل گیا اور ہم اندر داخل ہوگئے۔
ایسا میرے ساتھ بار بار ہواہے۔ جب بھی مجھے ایسے گیٹ کا تجربہ ہوتا ہے جو قریب پہنچتے ہی اپنے آپ کھل جائے تو اُس وقت بے اختیار میرے دل سے یہ دعا نکلتی ہے— خدایا، جب میں آخرت میںپہنچوں تو وہاں بھی میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہو کہ جنت کے دروازے اپنے آپ میرے لیے اور میرے ساتھیوں کے لیے کھلتے چلے جائیں۔ اور بلا شبہہ یہ اللہ کی رحمت سے کوئی بعید بات نہیں۔
ہوٹل پہنچتے ہی وہاں کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے ایک ممبر مسٹر فلپو (Philipo Sbrata) مل گئے۔ وہ ہمارے گائڈ تھے جو آخر وقت تک ہمارے ساتھ رہے۔ وہ اٹلی کی ایک یونی ورسٹی میں رسرچ اسکالر ہیں۔ یہاں کے قیام کی پوری مدت میں وہ ہمارے بہترین مددگار بنے رہے۔ ہوٹل کے کارکنوں نے ہمارا سامان اور کتابوں کے تمام بنڈل اُس کے کمرہ نمبر 343 میں پہنچا دیا۔ کانفرنس کے دوران ہمارا قیام ہوٹل کے اِسی وسیع کمرے میں تھا۔ یہیں سے ہم لٹریچرکی تقسیم کا انتظام کرتے رہے۔
ہوٹل کے جس کارکن نے ہمارا سامان ہمارے کمرے میں پہنچایا تھا، وہ رومانیہ کا باشندہ تھا۔ اُس نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور پوچھا کہ آپ کس ملک سے آئے ہیں۔ میںنے کہا کہ انڈیا سے۔ یہ سن کر وہ بہت خوش ہوگیا۔ اُس نے کہا کہ گاندھی کے ملک سے، یہ کہہ کر اُس نے دوبارہ ہاتھ ملایا اور نہایت خوشی کا اظہار کیا۔اس قسم کا تجربہ مجھے باہر کے ملکوں میں بار بار ہوا ہے۔ باہر کے لوگ انڈیا کو سب سے زیادہ گاندھی کے نام کے حوالے سے جانتے ہیں۔ گاندھی کا نام ساری دنیا میںایک محترم نام بن چکا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ آج کی دنیا کے لوگ تشدد (violence) کو بہت برا سمجھتے ہیں۔ جب وہ یہ سنتے یا پڑھتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے اپنی پوری تحریک عدم تشدد (non-violence) کے اصول پر چلائی تو وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ یہ جدید دور کا مزاج ہے۔ آج کا انسان تشدد کرنے والے کے نام سے بے زاری کا اظہار کرتاہے۔ اِس کے مقابلے میں امن کا کام کرنے والے کے لیے وہ اپنے دل میں احترام کا جذبہ پاتا ہے۔
ہلٹن، ہوٹلوں کی ایک انٹرنیشنل امریکی تنظیم کا نام ہے۔ یہ تنظیم 1919 میں قائم ہوئی۔ اس کی شاخیں دنیا کے 80 سے زیادہ ملکوںمیں موجودہیں۔ میںنے سوچا کہ ہلٹن ہوٹل ساری دنیا میں کامیابی کے ساتھ اپنی تنظیم چلا رہا ہے۔ لیکن مسلمانوں میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کچھ مسلمان ایک ادارہ قائم کرتے ہیں اور پھر وہ اختلاف کا شکار ہو کر ختم ہوجاتا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ہلٹن کی تنظیم عالمی طورپر مسلّمہ اصول (internationally accepted norms) کے مطابق قائم کی جاتی ہے۔ وہ مروّجہ قوانین کے مطابق ہوتی ہے، جب کہ مسلمان عام طورپر شخصی تعلقات یا گھریلو انداز میں اپنا ادارہ قائم کرتے ہیں۔ یہی وہ فرق ہے جس نے دونوں قسم کی تنظیموں میں انجام کے اعتبار سے فرق پیدا کردیا ہے۔
16 نومبر 2008 کو دوپہر کے بعد ہم لوگ ہوٹل ہلٹن پارک پہنچے تھے۔ آج ہی کے دن شام کو ساڑھے چار بجے کانفرنس کا افتتاح (opening assembly) تھا۔ یہ افتتاح یونی ورسٹی آف سائپرس کے اسپورٹ سنٹر میںکیاگیا۔ اسپورٹ سنٹر کا یہ ہال جدید طرز پر بنایا گیا تھا اور غیر معمولی طورپر وسیع اور پرشکوہ تھا۔ کانفرنس کا یہ افتتاحی پروگرام حسب ذیل افراد کی صدارت میں کیا گیا:
Françoise Rivière, Director General Adj. of UNESCO
Siti Musdah Mulia, University Islam Syarief Hidayatullah, Indonesia
اِس افتتاحی پروگرام میں مختلف ملکوں کی اعلیٰ مذہبی اور سیاسی شخصیتوں نے خطاب کیا۔ مثلاً:
Dimitris Christofias, President of the Republic of Cyprus
Chrysostomos II, Archbishop of New Justinian and All Cyprus
Andrea Reccardi, Community of Sant’ Egidio
Stanislaw Dziwisz, Cardinal, Archbishop of Cracow, Poland
Shear-Yashuv Cohen, Chief Rabbi of Haifa, Israel
Cresenzio Sepe, Cardinal, Archbishop of Naples, Italy
Muhammad Fathi Usman
Institute for the Study of Islam in the Contemporary World, USA
Edward Fenech-Adami, President of the Republic of Malta
Bamir Topi, President of the Republic of Albania
Filip Vujanovic, President of Republic of Montenegro
قبرص کی یہ کانفرنس امن کے موضوع پر تھی۔ اس کا مقرر عنوان حسب ذیل تھا:
The Civilization of Peace, Faiths and Culture in Dialogue.
اسپورٹ سنٹر کا یہ وسیع ہال سامعین سے پوری طرح بھرا ہوا تھا۔ میڈیا کے لوگ بھی بڑی تعداد میں وہاں موجود تھے۔ مقررین نے مختلف زبانوں میں اِس موضوع پرتقریریں کیں۔ وہاں ترجمے کا انتظام تھا۔ لوگ ہیڈ فون کے ذریعے اپنی مطلوب زبان میں ان کی تقریریں سنتے رہے۔ سامعین میںمقامی لوگوں کے علاوہ، مختلف ملکوں اور مختلف مذہبوں کے نمائندے موجود تھے۔ افتتاحی پروگرام کا خاتمہ اِس طرح ہوا کہ آخر میں چرچ آف سائپرس کے کچھ لوگ ایک مقرر مقام پر سامنے آئے۔ وہاں انھوںنے اپنی زبان میں کورس (chorus) کی شکل میں کھڑے ہو کر ایک نظم پڑھی۔
اِس افتتاحی پروگرام کے موقع پر ہمارے ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر لوگوں کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ افتتاحی پروگرام کے خصوصی مقررین اور مختلف ملکوں کے اعلیٰ عہدے داروں اور مختلف مذاہب کے نمائندوں کو ہمارے یہاں کا تیار کیا ہواقرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا۔ ہمارے ایک ساتھی نے اسپورٹ سنٹر کے گیٹ پر کھڑے ہو کر بقیہ سامعین کے درمیان انگریزی میں چھپے ہوئے خوب صورت دعوتی پمفلٹ تقسیم کیے۔ لوگوں نے اُس کو شکریے کے ساتھ لیا، اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔ لوگ لٹریچر حاصل کررہے ـتھے اور Thank you, Thank you کہتے جارہے تھے۔
سائپرس یونی ورسٹی (University of Cyprus) جہاں مذکورہ افتتاحی پروگرام ہوا، وہ قبرص کی پہلی بڑی یونی ورسٹی ہے۔ وہ 1989 میں قائم ہوئی۔ یہاں تقریباً چار ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں۔ یہ یہاں کی ایک مکمل یونی ورسٹی (full-fledged university) ہے۔ قبرص میں اور کئی یونی ورسٹیاں ہیں، لیکن اِن دوسری یونی ورسٹیوں میں ہر قسم کے تعلیمی شعبے موجود نہیں۔
یہاں جن لوگوں کو اسلامی لٹریچر دیاگیا تھا، اُن میں سے ایک شام کے مسیحی پادری یوحنا ابراہیم (Mar Gregorios Yohanna Ibrahim) تھے۔ اُن کا تعلق، آرتھاڈاکس میٹروپولٹن، سیرین چرچ(Orthodox Metropolitan, Syrian Church) سے تھا۔ اُن کو ہال کے اندر قرآن کے انگریزی ترجمے کا ایک نسخہ دیاگیا تھا۔ پروگرام کے خاتمے پر باہر نکلتے ہوئے اُن سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ وہ اچھی عربی بولتے تھے۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے ان کو انگریزی پمفلٹ دیا۔ انھوںنے کہا کہ کیا آپ ہم کو اِس ترجمۂ قرآن کا ایک اور نسخہ دے سکتے ہیں۔ مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ ضرور، مگر اِس وقت میرے پاس قرآن کے سارے نسخے ختم ہوچکے ہیں۔ میںہوٹل میںآپ کو قرآن کا ایک مزید نسخہ دے دوں گا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اُس پر شیخ وحید الدین کے دستخط مطلوب ہیں۔ ہوٹل پہنچنے پر اُن کو ایک اور نسخہ دیاگیا۔ انھوںنے خوشی کے ساتھ اس کو لیا۔
افتتاحی پروگرام سے فارغ ہو کر تمام شرکاء گاڑیوں کے ذریعے ہوٹل ہلٹن سائپرس لائے گئے۔ یہاں سب کے لیے ڈنر (شام کے کھانے) کا انتظام تھا۔ ہوٹل کے وسیع لان کے اندر تمام لوگ میزوں کے کنارے بیٹھ گئے۔ مختلف قسم کے اور ہر ذوق کے کھانے یہاں موجود تھے۔ تقریباًہر شخص کچھ بول رہا تھا۔ مگر جہاں تک میں نے اندازہ کیا، کوئی بھی شخص کانفرنس کے متعین موضوع پر گفتگو نہیں کررہا تھا۔ ہر آدمی اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہا تھا، اور درمیان میں بار بار قہقہے بلند ہورہے ـتھے۔ اِس میں عرب اورغیر عرب دونوں قسم کے لوگ تھے، لیکن موضوعِ گفتگو کے اعتبار سے، کسی کا کوئی استثنا نہ تھا۔یہی منظر میںنے تمام کانفرنسوں میں دیکھا ہے۔ لوگ جس موضوع کے نام پر کانفرنس میںآتے ہیں، اُس موضوع پر وہ صرف اُس وقت بولتے ہیں جب کہ وہ اسٹیج پر بیٹھے ہوئے ہوں۔ اسٹیج کے بعد ان کی گفتگو کا موضوع ہمیشہ کچھ اور ہوتا ہے۔
یہ طریقہ کانفرنس کے اصول کے سراسر خلاف ہے۔ منتظمین کے پروگرام کے مطابق، ہر کانفرنس کے دو حصے ہوتے ہیں— ایک، وہ جب کہ لوگ اسٹیج پر بولنے کے لیے آتے ہیں اور دوسرا، اسٹیج کے باہر۔ کانفرنس کے اصول کے مطابق یہ ہونا چاہیے کہ آنے والے لوگ دونوں صورتوں میں کانفرنس کے موضوع پر بات کریں۔ اسٹیج پر وہ زیر بحث موضوع پر تقریر کریں۔ اور اسٹیج کے باہر وہ اُس موضوع پر آپس میں ڈسکشن کریں۔ مگر میرے تجربے کے مطابق، کسی کانفرنس میں ایسا نہیں ہوتا۔ البتہ وہ کانفرنسیں اس سے مستثنیٰ ہیں جو کسی ٹکنکل موضوع پر کی گئی ہوں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آنے والے لوگ نہ دوسروں کو کوئی مثبت چیز دے پاتے ہیں اور نہ خود کوئی مثبت چیز لے کر وہاں سے لوٹتے ہیں۔
شام کے کھانے سے فراغت کے بعد لوگوں کو دوبارہ ان کی قیام گاہوں پر پہنچا دیاگیا۔ یہ لوگ عام طورپر بسوں کے ذریعے واپس بھیجے گئے۔ لیکن منتظمین نے ہمارے لیے خصوصی طورپر ایک بڑی کار کا انتظام کیا تھا۔ یہ کار ہمارے لیے مخصوص تھی۔ جب تک ہم وہاں رہے، اِس کار کے ذریعے ہم سفر کرتے رہے۔ کھانے سے فارغ ہو کر ہم لوگ ہوٹل ہلٹن پارک میںآگئے، جہاں ہمارے لیے قیام کا انتظام تھا۔
اِس وقت دنیا میں اقوامِ متحدہ کی ممبر شپ کے مطابق، ممالک کی تعداد 192 ہے۔کچھ ممالک اِس کے علاوہ ہیں جو اقوامِ متحدہ کے باقاعدہ ممبر نہیں ہیں۔ قبرص کی کانفرنس میں تقریباً ایک سو ملکوں کے لوگ آئے ہوئے تھے۔ یہ ہر مذہب اور ہر مکتبِ فکر کے لوگ تھے۔ اِن میں عالمی سطح کی بڑی بڑی شخصیتیں بھی شامل تھیں۔ یہ لوگ مختلف قسم کے علمی اور مذہبی اور سیاسی میدانوں سے تعلق رکھتے تھے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اُن میں سے کسی کے پاس دوسروں کودینے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، نہ مسلمانوں کے پاس اور نہ دوسرے مذہب کے لوگوں کے پاس، حتی کہ ان کی تقریریں بھی کنفیوژن سے بھری ہوئی ہوتی تھیں۔ اِس سے سننے والوں کو کوئی پیغام نہیں ملتا تھا۔ اِس بھری ہوئی کانفرنس میں صرف ہم لوگوں کا معاملہ استثنائی معاملہ تھا۔ ہم لوگوں کے پاس اسلامی لٹریچر کا ایک بڑا ذخیرہ تھا۔ میرے ساتھی دیوانوں کی طرح اِس لٹریچر کو لوگوں تک پہنچانے میں سرگرم تھے۔
ایسا کیوں ہوا کہ لوگوں کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ نہ تھا۔ غور کرنے کے بعد سمجھ میںآتا ہے کہ اِس کاسبب صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ کسی کے لیے دوسرے لوگ اُس کا کنسرن (concern) نہیں۔ کسی کو دوسروں سے نہ محبت ہے اور نہ خیر خواہی۔ ہر ایک کسی نہ کسی بات کو لے کر دوسروں کے خلاف نفرت میںمبتلا ہے، مسلمان بھی اور دوسرے مذہب کے لوگ بھی۔ عام انسان سے محبت آج عنقا کی طرح معدوم ہوچکی ہے۔ نفرت کی اِسی عام فضا کا نتیجہ ہے کہ کوئی شخص دوسروں کے بارے میں خالص خیر خواہانہ انداز میں نہیں سوچتا، اور نہ کسی کے پاس خیر خواہی کا کوئی تحفہ ہے جس کو وہ دوسروں کو دینے کے لیے بے چین ہو۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ جرأت موجود نہیں کہ وہ دوسرے انسانوں کو سچائی کا پیغام پہنچائیں۔ اِس قسم کی پیغام رسانی کے لیے جرأت درکار ہے۔ اور جہاں محبت نہ ہو، وہاں یقینا جرأت بھی موجود نہ ہوگی۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے، میں اپنے طویل تجربے کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کے سوا، ساری دنیا میں میں نے کوئی شخص نہیں پایا جو حقیقی معنوں میں انسان سے محبت کرتا ہو۔ ہر مسلم عورت اور ہر مسلم مردکسی نہ کسی بات کو لے کر عام انسان کے خلاف نفرت میں جی رہے ہیں۔ بعض لوگ بظاہر اچھی اچھی باتیں کرتے ہوئے دکھائی دیں گے، لیکن اگر گہرائی کے ساتھ اُن کی اسکروٹنی (scrutiny) کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ بھی دوسروں کے خلاف اپنے اندر نفرتیں لیے ہوئے ہیں۔
یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کی ذمے داری براہِ راست طورپر موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہ نماؤں پر آتی ہے۔ موجودہ زمانے میں جب ’’مغربی استعمار‘‘ کا دور آیا تو تمام مسلم حکومتیں اس کی زد میں آگئیں۔ اِسی طرح مسلم قومیں عمومی طور پرمغربی تہذیب کا شکار ہوئیں۔ اِس واقعے کے بعد تمام مسلم رہ نما ساری دنیا میں منفی نعرے لے کر کھڑے ہوگئے۔ انھوںنے مغربی قوموں کو دشمن کے روپ میں پیش کیا۔ یہ ایک معکوس رہ نمائی تھی۔ جن مغربی قوموں کو ہمارے رہ نما دشمن بتا رہے تھے، وہ سب ہمارے لیے مدعو کا درجہ رکھتی تھیں۔ اِن قوموں کے اوپر ہمیں خیر خواہانہ دعوت کا عمل کرنا تھا، نہ کہ اُن کو دشمن قرار دے کر اُن کے خلاف نفرت کی مہم چلانا۔ مسلم رہ نماؤں کی اِسی معکوس رہ نمائی کا یہ براہِ راست نتیجہ تھا کہ تمام دنیا کے مسلمان دوسری قوموں کے خلاف نفرت میں مبتلا ہوگئے۔
ایک انوکھی بات یہ تھی کہ اِس کانفرنس میں میرے ساتھی کھلے طور پر اسلامی لٹریچر لوگوں کو دے رہے تھے۔ وہ قرآن کا انگریزی ترجمہ لوگوں کو پہنچا رہے تھے، لیکن یہاں کوئی اُنھیں روکنے والا نہ تھا۔ یہ دعوتی کام یہاں مکمل آزادی کے ماحول میں ہو رہا تھا، حتی کہ کانفرنس کے لوگ حسب ضرورت ہمارے تعاون کے لیے تیار رہتے تھے۔ عجیب تر بات یہ ہے کہ اِس قسم کا تجربہ مسلم جماعتوں اور مسلم اداروں میں پیش نہیںآتا۔ معروف مسلم جماعتیں اور مسلم ادارے بھی بار بار اپنے اجتماعات کرتے ہیں۔ لیکن یہ عام تجربہ ہے کہ ہمارے لوگ اگر وہاںاسلامی مرکزکی چھپی ہوئی مطبوعات لے کر جائیں تو اُن کو وہاں یہ موقع نہیں دیا جاتا کہ وہ کھلے طورپر اِن کتابوں کو تقسیم کریں۔ موجودہ زمانہ مذہبی آزادی کا زمانہ ہے، لیکن نام نہاد مسلم جماعتوں اور اداروںکے درمیان آزادی کا یہ دور ابھی تک نہیں آیا۔
قبرص کی کانفرنس صحیح معنوں میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی۔ اِس میں ہر مذہب کے لوگ اور تقریباً ہر ملک کے لوگ شریک ہوئے۔ ہم لوگوں کے پاس اسلامی لٹریچر چھپا ہوا کافی تعداد میں موجود تھا۔ہمارے ساتھی تین دن تک کتاب اور پمفلٹ اور بروشر دیوانہ وار لوگوں کے درمیان تقسیم کرتے رہے۔ اِس میں سب سے بڑا آئٹم ہمارے یہاں کا چھپا ہوا قرآن کا نیا انگریزی ترجمہ تھا۔ اِس ترجمے کی خصوصیت یہ ہے کہ دوسرے انگریزی ترجموں کے مقابلے میں، اِس میں وضوح (clarity) بہت زیادہ ہے۔ اِس میں قاری کو کوئی کنفیوژن محسوس نہیںہوتا۔لوگوں نے بہت شوق کے ساتھ اس کو لیا۔ مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو پہلی بار معلوم ہوا کہ یہاں ہم حقیقی معنوں میں انٹرنیشنل دعوہ ورک کررہے ہیں، لیکون للعالمین نذیراً (الفرقان: 1 ) کی خبر یہاں واقعہ بنتی ہوئی نظر آئی۔
یہ انٹرنیشنل دعوہ ورک کوئی سادہ بات نہ تھی۔ یہ اُس تاریخی انقلاب کی بنا پر ممکن ہوا جو موجودہ زمانے میں پہلی بار ظہور میں آیاہے۔اِس انقلاب کے اَجزا ہیں— گلوبل انٹریکشن، کمیونکیشن، پرنٹنگ پریس، مذہبی آزادی، عالمی سطح پر اُس انقلابی ذہن کا پیدا ہونا جس کو اسپرٹ آف انکوائری کہاجاتاہے، وغیرہ۔ یہ میرے لیے اور میرے ساتھیوں کے لیے انٹرنیشنل انٹریکشن بھی تھا اور انٹرنیشنل دعوہ ورک بھی۔
17 نومبر 2008 سے کانفرنس کے دوسرے حصے کا آغاز ہوا۔ اب شرکائِ کانفرنس کے 22 پینل (panel) بنا دئے گئے۔ ہر پینل کا الگ الگ موضوع تھا اور ہر ایک کے لیے الگ الگ ہال مخصوص کیاگیا تھا۔ سامعین کو اختیار تھا کہ وہ اپنے ذوق کے مطابق، جس پینل میں چاہیں شریک ہوں۔مثال کے طورپر فلسطین کے اِشو پر بھی ایک پینل بنایا گیا تھا۔ اِس پینل کے مقررین میںعرب بھی شامل تھے اور اسرائیلی بھی۔ اِن میں سے دو خاص مقررین کے نام یہ ہیں:
Salah A. Zuheika, Deputy Minister of Religious Affairs, Palestine
David Rosen, Grand Rabbi, President of the IJIC, Israel
اِس پینل میں دونوں جانب سے پُر جوش تقریریں ہوئیں۔ عرب مقرر نے اسرائیل کو فلسطینی المیہ کا ذمہ داربتایا۔ اور اسرائیلی مقرر نے عربوں کو سارے معاملے کا ذمے دار ٹھیرایا۔ یہ ڈسکشن کسی مثبت نتیجے تک پہنچے بغیر ختم ہوگیا۔ ہمارے ساتھیوں نے اِس موقع پر اسلامی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ لوگوں کو دیا۔ یہاں انھوں نے راقم الحروف کا تیار کیا ہوا 15 صفحات کا ایک پمفلٹ بھی تقسیم کیا جس کا ٹائٹل یہ تھا:
How to Establish Peace in the Holy Land— Ten Point Program
یہ پمفلٹ ہمارے ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر بھی دستیاب ہے۔
17 نومبر 2008 کی صبح کو راقم الحروف کا پروگرام تھا۔ مجھے پینل نمبر 6 میں بولنے کاموقع دیا گیا۔ اِس پینل کی کارروائی ہلٹن سائپرس کے ہال(Achera) میں منعقد ہوئی۔ اِس پینل کے چئر پرسن ناروے (اسکینڈی نیویا) کے بشپ (Ole Chr. M. Kvarme) کو بنایا گیا تھا۔ اِس پینل میں میرے سوا چار اور مقرر تھے۔ اِس پینل کا موضوع یہ تھا:
Prayer as a Source of Peace.
میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ سب سے پہلے یہ متعین کرنا چاہیے کہ پریئر کی تعریف کیا ہے۔ میں نے کہا کہ لغت کے مطابق، پریئر کا مطلب — حقیقت ِ اعلیٰ سے روحانی ربط قائم کرناہے:
Dictionary meaning of the ‘prayer’ is — establishing spiritual communion with the Higher Reality.
اِس کے بعد میںنے بتایا کہ اسلام کے تصورِ عبادت اور تصورِ روحانیت کے مطابق، انسان کا اصل کام اپنے خالق سے ربط قائم کرنا ہے۔ اِس ربط کے ذریعے آدمی کے اندر تمام اعلیٰ اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔
تقریر کے بعدایک امریکن پروفیسر جان پناما (John Panama) مجھ سے ملے۔ انھوں نے میری تقریر پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اُن کو تازہ چھپا ہوا قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا جس میں راقم الحروف کا ایک مفصل دیباچہ شامل ہے۔ وہ قرآن کا انگریزی ترجمہ پاکر خوش ہوئے۔ ا ور کہا کہ کیا مجھے آپ اِس کا ایک اور نسخہ دے سکتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ امریکا میں میرے ایک دوست ہیں۔ ان کی ڈائریکٹ پہنچ براک اوباما تک ہے۔ میں قرآن کے اِس نسخے کو صدر امریکا براک اوباما تک پہنچاؤں گا۔ چناں چہ انھیں اِس انگریزی ترجمۂ قرآن کا ایک اور نسخہ دے دیاگیا۔ انھوںنے مزید کہا کہ میں ٹیلی فون پر براک اوباما سے آپ کی بات کرانے کی کوشش کروں گا۔
ڈسکشن کے دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ بہت سے مقامی طلبا اورطالبات ہال کے اندر داخل ہوئے۔ اُس وقت تمام سیٹیں بھر چکی تھیں۔ چناں چہ وہ لوگ ہال کے چاروں طرف دیوار کے کنارے کھڑے ہو گئے۔ اُس وقت صدر جلسہ نے اعلان کیا کہ اسٹیج کے سامنے بچھے ہوئے قالین پر جگہ خالی ہے۔ کھڑے ہوئے لوگ یہاں آکر بیٹھ جائیں۔ اِس اعلان کے بعد تمام طلبا اور طالبات وہاں جاکر بیٹھ گئے۔ اُس وقت مولانا محمد ذکوان ندوی لٹریچر لیے ہوئے وہاں موجود تھے۔ انھوں نے سوچا کہ اِن نوجوانوں تک کس طرح دعوتی لٹریچر پہنچایا جائے۔ انھوںنے ایک طالبِ علم سے اِس سلسلے میں بات کی، پھر انھوںنے اُس طالبِ علم کو انگریزی میں چھپے ہوئے پمفلٹ (The Reality of Life) کے کچھ نسخے دیے اورمذکورہ طالب علم سے کہا کہ اِس کو اپنے ساتھیوں کے درمیان تقسیم کردیجئے۔ طالب علم نے نہایت خوشی کے ساتھ پمفلٹ کو لیا اور اپنے ساتھیوں کو مطالعے کے لیے دے دیا۔
بعد کو ہمارے ساتھی نے اُن طلبا سے دوستانہ انداز میں بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ اِس ملک میں امن کے پیام بر (ambassador of peace) ہیں۔ آپ کو لازماً یہ کام کرنا ہے کہ آپ پیس اور اسپریچولٹی کے اِس لٹریچر کو دوسروں تک پہنچانے میں ہماری مدد کریں۔ اِس کے بعد اُن طلبا نے ہمارے ساتھی سے لٹریچر لے لیا اور لوگوں سے مل کر نہایت جوش و خروش کے ساتھ ان کو لٹریچر دینے لگے۔ وہ یونانی زبان میں اُن سے باتیں کرکے ہمارا دعوتی لٹریچر اُن کو پہنچا رہے تھے۔ یہ تمام طلبا اور طالبات مذہب کے اعتبار سے کرسچن ـتھے۔ اِس کے باوجود انھوں نے اسلامی دعوت کے مشن میںہمارا ساتھ دیا۔
17 نومبر 2008کو ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ آسٹریا (یورپ) کے ایک یہودی ربی (Ribbi)کی صدارت میں ایک پینل ڈسکشن تھا۔ ڈسکشن کے خاتمے پر انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں جو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ تمام آسمانی مذاہب کے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اپنی مقدس کتابوں کو پڑھیں اور اُن سے رہ نمائی لیں۔ انھوںنے کہا کہ میں مسلمانوں سے کہوں گا کہ اگر وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھیں تو وہی ان کی رہ نمائی کے لیے کافی ہوجائے گا۔
ہمارے گائڈ مسٹر فلپو اِس ڈسکشن میں موجود تھے۔ انھوںنے جب یہ بات سنی تو انھوں نے مذکورہ ربی سے ملاقات کی۔ انھوں نے کہا کہ یہاں قرآن کا ایک ایسا ترجمہ موجود ہے جس میں بہت زیادہ وضوح (clarity) ہے۔ اگر آپ مسلمانوں کے اندر صحیح اسپرٹ پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ اُنھیں اِس ترجمۂ قرآن کے مطالعے کا مشورہ دیں۔ اِس کے بعد مسٹر فلپو نے مذکورہ ربی سے میری ملاقات کرائی۔ اورمیرے دستخط کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ ان کو مطالعے کے لیے دیا۔
اِن واقعات سے دورِ جدید کا ایک پہلو سامنے آتا ہے۔ دورِ جدید کا ایک پہلو وہ ہے جس کو کھلا پن (openness)کہاجاتاہے۔ آج کا انسان مذہب کے معاملے میںمتعصبانہ طرزِ فکر(biased thinking) کو پسند نہیں کرتا۔ آج کے انسان کامزاج یہ ہوتا ہے کہ مذہب کے معاملے میں رواداری کا طریقہ ہونا چاہیے، نہ کہ کٹرپن کا طریقہ۔ دورِ جدید کا یہ مزاج دعوتی کام کے لیے بے حد مفید ہے۔ اگر اپنی طرف سے کوئی منفی بات نہ کی جائے تو ہر جگہ اِس مزاج کو دعوت الی اللہ کے حق میں استعمال کیا جاسکتاہے۔
اِس طرح 17 نومبر اور 18 نومبر 2008کو مختلف موضوعات پر الگ الگ پینل ڈسکشن جاری رہے۔ ہر ڈسکشن الگ الگ ہال میں ہوتا تھا۔ پینل ڈسکشن کے موضوعات یہ تھے:
1. Peace in the Mediterranean: Faiths, conflicts and the Challenge of Coexistence.
2. John Paul II and the Prophecy of Peace
3. Xenophobia and Philoxenia: Welcoming the Stranger
4. Has Europe’s Time come? (H. C. Akamas Hall)
5. The Culture of the Mediterranean
6. Prayer as a Source of Peace.
7. Earth and Humankind: a Dialogue of Faiths and Culture.
8. Israelis and Palestinians in Dialogue for Peace
9. Christians and Violence in Today’s World.
10. Human Rights: 60 Years After the Declaration
11. Africa: Religions and Societies of Coexistence
12. The Legacy of the Martyrs of the 20th Century
13. Monasticism in the 21st Century
14. Faiths and Love
15. Lebanon, Working for a Civilization of Coexistence
16. Latin America, Working for a Civilization of Peace
17. Fighting Poverty to Build Peace
18. Ecumenism, Christian Unity and Peace Among Nations
19. Iraq; Working for a Civilization of Peace
20. Islam and Christianity: A Complex and Multifaceted Relationship
21. Economic Development and the Civilization of Coexistence: The Role of Religions in Asia
22. Jews and Christians: An Unavoidable Dialogue.
قبرص کی اِس کانفرنس میں 17 نومبر 2008 کی شام کو ایک پینل ڈسکشن کا موضوع یہ تھا:
Africa: Religions and Societies of Coexistence
میرے ایک ساتھی نے اُس میں شرکت کی اور وہاں لوگوں کو اسلامی لٹریچر دیا۔ اِس میں ہمارے یہاں کی مطبوعات میں سے خاص طورپر ایک کتاب(The True Jihad) بھی شامل تھی۔ حاضرین نے اس کو بہت شوق سے لیا۔ ہمارے ساتھی کا بڑا بیگ جو لٹریچر سے بھرا ہوا تھا، وہ اِس ہال میں خالی ہوگیا۔ بعد کو جب ہم لوگ یہاں سے شام کے کھانے کے لیے ہوٹل ہلٹن سائپرس کے وسیع ہال میں اکھٹا ہوئے تو ایک صاحب میرے ساتھی کے پاس آئے۔ انھوںنے کہا کہ آپ اکامس ہال (Akamas Hall) میں جہاد کے موضوع پر ایک کتاب لوگوں کو دے رہے تھے ۔ مجھے بھی اس کا ایک نسخہ چاہیے۔ انھوںنے بتایا کہ مسلم-کرسچن جہاد میں میرا داہنا ہاتھ کٹ گیا تھا، پھر انھوں نے دکھایا کہ کلائی سے لے کر انگلیوں تک ان کا پورا ہاتھ ایک مصنوعی ہاتھ ہے۔ انھوں نے کہا کہ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اسلام میں جہاد کا تصور کیا ہے۔ انھوں نے یہ بات غصہ اور نفرت کے بغیر بالکل سادہ انداز میں کہی۔ اُن کا نام یہ ہے:
Dr. James Morel Wuye, Interfaith Mediation Centre, Nigeria
میرے ساتھیوں نے ان کو اسلامی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
اِس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کا انسان کس طرح ہر بات کو جاننا چاہتا ہے۔ وہ ذاتی شکایتوں سے اوپر اٹھ کر سچائی کی دریافت کرنا چاہتا ہے۔ جدید دور کا یہ مزاج دعوت کے کام کے لیے بے حد مفید ہے۔ ضرورت ہے کہ اِس مزاج کو آخری حد تک استعمال کیا جائے اور ساری دنیا میں سچائی کا پیغام پہنچا دیا جائے۔
قبرص کی اِس تین روزہ کانفرنس کے دوران میرے ساتھیوں کا حال یہ تھا کہ وہ دن بھر وہاں کے لوگوں سے مل کر اُن سے انٹریکشن کرتے اور اُن کو اسلامی لٹریچر پہنچاتے۔ دن بھر یہ لوگ دیوانوں کی طرح کام کرتے۔ شام کو جب یہ لوگ اپنی قیام گاہ پر لوٹتے تو اُن کا حال یہ ہوتا کہ وہ بالکل تھک چکے ہوتے تھے۔ ان کے ہاتھ پیر درد اور تھکاوٹ سے شل ہوچکے ہوتے اور بستر پر لیٹتے ہی اُن کو نیند آجاتی، حتی کہ مجھ سے بات کرنے کی بھی اُنھیں فرصت نہیں تھی۔ صبح کو اٹھ کر میں اور میرے ساتھی لوگوں کی ہدایت کے لیے خدا سے دعا کرتے، اور پھر اِس کی پلاننگ کرتے کہ آج کے پروگرام میںکس طرح لوگوں تک دعوتی لٹریچر پہنچایا جائے۔ اِس کے بعد یہ لوگ اپنے بیگ میں لٹریچر پیک کرتے۔ اور ناشتے کے بعد ہم لوگ اپنے کمرے سے نکل کر کانفرنس کے مقام پر پہنچ جاتے۔ یہی روزانہ کا رُٹین تھا۔ صبح ہوتے ہی لٹریچر کی پیکنگ اور پلاننگ شروع ہوجاتی۔ غالب نے اپنے زمانے کے ایک ظاہرے کا حال اِن لفظوں میں بیان کیا ہے— ’’ہوئی صبح اور اِدھر ہم کان پر رکھ کر قلم نکلے‘‘۔ میرے ساتھیوں کا حال بھی ایک لفظی فرق کے ساتھ یہی تھا: ’’ہوئی صبح اور اِھر ہم بیگ میں رکھ کر کُتب نکلے‘‘۔ قدیم زمانے کے شاعر کا یہ حال کسبِ معاش کے لیے ہوتا تھا۔ لیکن میرے ساتھیوں کا یہ حال اشاعتِ حق کے لیے تھا۔
اِس معاملے کو دیکھ کر قرآن کی اِس آیت کا مفہوم سمجھ میں آیا: إنّ لک فی النّہار سبحاً طویلا (المزّمل: 7) ۔ اِس تجربے سے یہ سمجھ میں آیا کہ یہاں ’’سبحِ طویل‘‘ سے مراد دعوتی سرگرمی ہے، یعنی دعوت وتبلیغ کی مجاہدانہ مصروفیت۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ جس طرح آپ لوگ دوسرے انسانوں تک دعوتی لٹریچر پہنچانے کے لیے تیاری اور پلاننگ کرتے ہیں، صحابہ اِسی طرح دعوتی مہم کے لیے تیاریاں کرتے ہوں گے۔ انسانی تاریخ پر رسول اوراصحابِ رسول کا یہ عظیم ترین احسان ہے کہ انھوںنے تاریخ میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ انھوںنے تاریخ میں پہلی بار قلم کوتلوار کا قائم مقام بنا دیا۔ اب ایک آدمی قلم کے ذریعے دعوت الی اللہ کا وہ کام بخوبی طورپر کرسکتاہے جس کو قدیم مذہبی جبر کے دور میں صرف تلوار کے زور پر کیا جاسکتا تھا۔
کانفرنس کی وسیع دنیا میں جب ہم لوگ داخل ہوئے تو وہاں ہر طرف انسانوں کا ہجوم تھا۔میں نے سوچا کہ کاش، میںاِن تمام انسانوں کو خدا کی رحمتوں کے سائے میں پہنچا سکتا۔ کاش، میںاِن تمام لوگوں کو جنت کی ابدی دنیا میںداخل کرسکتا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ اِن تمام انسانوں کو ہدایت دینا میرے اختیار میں نہیں ہے۔ تاہم ایک بات میرے اختیار میں ہے۔ وہ یہ کہ میں اِن لوگوں کی ہدایت کے لیے تڑپوں، میں ان کی ہدایت کے لیے دردمندانہ انداز میں دعا کروں۔ میں ان کی ہدایت کے لیے خدا کے سامنے آنسو بہاؤں۔ اِن حالات میں میری زبان پر بے ساختہ دعاؤں کے کلمات جاری ہوجاتے تھے— اے اللہ، تو مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو توفیق دے کہ ہم اِس بھٹکی ہوئی دنیا کو سچائی کاپیغام دے سکیں۔ دعا کے وقت میرے ذہن میںیہ خیال آیا کہ شاید ہم لوگوں کو اِسی لیے خدایہاں لایا ہے، تاکہ ہم اُن کو دیکھیں اور دردمندی کے ساتھ اُن کی ہدایت کے لیے دعا کرسکیں۔ وہ دعا جوآج سے چودہ سو سال پہلے قبرص کی اِسی سر زمین پر اصحابِ رسول نے کی تھی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ دعوت اور دعا دونوں ایک دوسرے کا لازمی حصہ ہیں۔ داعی جب انسانوں کی ہدایت کے لیے اٹھتا ہے تو ایک طرف اُس کو انسانوں کا سمندر دکھائی دیتا ہے۔ اُس کو محسوس ہوتاہے کہ اِن تمام عورتوں اور مردوں کے دلوں میں حق کی آواز اتارنا اُس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے، جتنا کہ ہمالیہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکانا۔ دوسری طرف، اس کو شدت کے ساتھ یہ محسوس ہوتا ہے کہ اِس عظیم کام کے مقابلے میں اُس کے پاس عجز کے سوا کوئی اور سرمایہ نہیں۔ اِس دو طرفہ احساس کا نتیجہ یہ ہوتاہے کہ اس کے اندر مدعو کے لیے دعا کا چشمہ ابل پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دعا کے بغیر دعوت نہیں، اور دعوت کے بغیر دعا نہیں۔ جس داعی کے اندر مدعو کے لیے سچی دعا نہ ہو، اس کی حیثیت صرف ایک اداکار(actor) کی ہے، جس کی کوئی حیثیت نہ انسانوں کی نظر میں ہے اور نہ خدا کی نظر میں۔
مجھے اپنی طویل زندگی میں بہت سے سفر پیش آئے ہیں۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ میری زندگی سفروںمیں گزری ہے۔ ریکارڈ کے مطابق، صرف ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کی تعداد تقریباً 170 تک پہنچ چکی ہے۔ مگر قبرص کا سفر میری زندگی میں ایک استثنائی سفر تھا۔ یہ ایک عجیب سفر تھا جو شروع سے آخر تک گویا کہ شاہانہ انداز میں ہوا۔ اِس سے کم کسی لفظ کے ذریعے اِس سفر کی نوعیت کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ میں دیکھتا تھا کہ ہر جگہ دوسرے لوگ لمبی لائن میںکھڑے ہوئے ہیں اور مجھ کو اور میرے ساتھیوں کو کسی روک ٹوک کے بغیر ہر جگہ عزت کے ساتھ بسہولت آگے جانے کا موقع دیا جارہا ہے، وغیرہ۔
قبرص کی کانفرنس کے لیے جب دعوت نامہ ملا تو میں وہاں جانے کے لیے تیار نہ تھا۔ منتظمین کے شدید اصرار کی بنا پر مجھے اس کے لیے آمادہ ہوناپڑا۔ یہ ’’اصرار‘‘ بھی اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ بیرونی سفر کے لیے پہلا معاملہ ویزا (visa) کا ہوتاہے۔ منتظمین نے نئی دہلی میںواقع قبرص کے سفارت خانے میں ایک خصوصی خط بھیج دیا۔ جس کی بنا پر ویزا حاصل کرنے کا مسئلہ استثنائی طورپر نہایت آسان ہوگیا۔ سفر شروع ہوا تو جدید ترین سہولتوں کے ساتھ دو قابلِ اعتماد اور لائق ساتھی میرے ہم راہ تھے۔ اُن کی وجہ سے سفر کے ہر مرحلے میںایسا ہوا کہ مجھے خود کچھ نہیں کرنا پڑا۔ سارا کام دوسرے لوگ انجام دیتے رہے۔ ائرپورٹ کی رسمی کارروائی، جہاز کے اندر کے لمحات، اس کے بعد دبئی کے لاؤنج میں قیام، پھر اگلے سفر کے بعد قبرص کے ہوائی اڈّے پر تعاون کے خصوصی انتظامات، اس کے بعد ہوٹل اور کانفرنس کی کارروائیوں کے درمیان خصوصی معاملات، سب کے سب اِس طرح پیش آئے کہ میںنے کسی مرحلے میں خود کچھ نہیںکیا اور سب کچھ انتہائی اعلیٰ معیار پر انجام پاتا چلا گیا۔
اِن تجربات سے گزرتے ہوئے بار بار مجھ کو قرآن کی وہ آیت یاد آتی رہی جس میں بتایا گیا ہے کہ آخرت میں کچھ لوگوں کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوگا کہ اُنھیں آسان حساب کے ذریعے جنت میںپہنچا دیا جائے گا: فسوف یُحاسب حساباً یسیراً (الانشقاق: 8 )۔ میںبار بار اپنے لیے اور اپنے ساتھیوں کے لیے یہ دعا کرتا رہا کہ خدایا، ہم کو آخرت کے دن حسابِ عسیر سے بچا اور ہم سب کو حسابِ یسیر کے ساتھ جنت میں داخل کردے۔
راستے میں بار بار میں اپنے ساتھیوں سے کہتا رہا کہ یہ خصوصی اہتمام کا معاملہ جو ہمارے ساتھ پیش آرہا ہے، اس کے متعلق ہر گز یہ مت سمجھئے گا کہ یہ ہماری کسی صلاحیت کی وجہ سے ہم کو ملا ہے۔ یہ سب یک طرفہ طورپر صرف خدا کی رحمت کے نتیجے میں ہورہا ہے۔ مزید یہ کہ یہ بات گہرے قلبی احساس کے تحت ہونا چاہیے، نہ کہ صرف زبانی طورپر بولے ہوئے الفاظ کے ذریعے۔
18 نومبر 2008 کی شام کو اِس کانفرنس کا آخری پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام نکوسیا شہر کے قدیم حصے میں منعقد ہوا۔ اِس پروگرام کا عنوان یہ تھا— امن کے لیے دعاPrayer For Peace—
اِس پروگرام کے تحت مختلف مذہب کے لوگوں کے لیے الگ الگ مقامات مقرر کیے گئے تھے۔ ہر مذہب کے لوگ اپنے مقرر مذہبی مقام پر پہنچے اور اپنے طریقے کے مطابق، عبادت کرکے وہاں امنِ عالم کے لیے دعا کی۔ مسیحی لوگ نکوسیا کے بڑے چرچ میںاکھٹا ہوئے۔ کانفرنس کے مسلم شرکا مسجدعمر(Omeriye Mosque)میں اکھٹا ہوئے۔ یہ اِس شہر کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ یہ مسجد مین میونسپل مارکیٹ (main municipal market) کے قریب والڈ سٹی (walled city) میں واقع ہے۔ ہم لوگ اجتماعی صورت میں پیدل چل کر وہاں پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں مغرب کی نماز کے لیے جماعت کھڑی ہورہی تھی۔ یہ کافی بڑی جماعت تھی۔ ہم لوگوں نے جماعت میںشریک ہو کر وہاں مغرب کی نماز اداکی۔ نماز کے بعد ڈاکٹر فتحی عثمان نے مختصر طورپر عربی اور انگریزی میں تقریر کی اور آخرمیں امنِ عالم کے لیے دعا کی۔
مسجد عمر ایک قدیم مسجد ہے۔ 1571 میں قبرص کے علاقے میں ترک داخل ہوئے۔ ترکی فوج کے ایک جنرل مصطفی پاشا (وفات: 1580 ) نے یہاں موجودہ مسجد قائم کی۔اِس مسجد کی وجہ تسمیہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ساتویں صدی عیسوی میں خلیفہ عمر فاروق نے مصر جاتے ہوئے ایک رات یہاں قیام کیا تھا۔ اِسی وجہ سے اِس کا نام ’’مسجد ِ عمر‘‘ رکھا گیا۔ تاہم تاریخی اعتبار سے یہ بات غیر ثابت شدہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں لوگ تفاؤل (good omen) کے طورپر اِس طرح کے نام رکھ دیتے تھے۔ غالباً اِسی مزاج کی بنا پر اِس مسجد کا نام مسجد عمر رکھا گیا۔
اِس مسجد میںمیرے ساتھیوں نے وہاں کے امام کی اجازت سے قرآن کے انگریزی ترجمے کے دو نسخے رکھے اور لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔ یہاں کئی پاکستانی نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے بتایا کہ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی قبرص میں موجود ہیں۔ یہ لوگ یہاں جاب (job)کی تلاش میں آئے ہیں۔ اِن میں سے کچھ نوجوان وہ ہیں جو قبرص کی یونی ورسٹی میں پروفیشنل کورس کررہے ہیں۔ اِسی کے ساتھ وہ یہاں جاب بھی کرتے ہیں۔ میرے ساتھی یہاں کچھ نوجوانوں سے ملے اور ان کو انگریزی زبان میں چھپا ہوا لٹریچر دیا۔ انھوں نے اِن نوجوانوں سے دعوت کے موضوع پر بات کی اور کہا کہ آپ لوگ اِس ملک میں خدا کے سفیر ہیں۔ آپ یہاں دعوت کا کام کیجیے، آپ کو اِس کام کے لیے جتنا لٹریچر مطلوب ہوگا، وہ لٹریچر ان شاء اللہ ہم آپ کو انڈیا سے بھیج دیںگے۔
مجھے پیشگی طورپر اندازہ نہ تھا کہ قبرص میںاتنے زیادہ مسلم تارکینِ وطن (emigrants) موجود ہوں گے۔ میرا تجربہ ہے کہ موجودہ زمانے میں دنیا کے تقریباً ہر ملک اور ہر جگہ مسلمان پہنچے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ صرف تلاشِ معاش کے جذبے کے تحت اِن مقامات پر گئے ہیں۔ تلاشِ معاش اپنے آپ میںکوئی ناجائز چیز نہیں۔ لیکن مسلمان کے لیے تلاشِ معاش صرف ایک ثانوی چیز ہے۔ موجودہ زمانے میں دس ملین سے زیادہ ایسے مسلمان ہیںجو اپنے ملکوں سے نکل کر کسی دوسرے ملک میں گئے ہیں۔ یہ لوگ اگر ون مَین ٹو مشن (one man two mission) کے اصول پر اِن ملکوںمیں رہیں، یعنی وہ اپنے وقت اوراپنی توانائی کا ایک حصہ دعوت کے کام میں لگائیں اور ایک حصہ کسبِ معاش کے کام میں۔ اگر وہ ایسا کریں تو اُن کا یہ ترکِ وطن اُن کے لیے ایک قابلِ اجر کام بن جائے گا، بصورتِ دیگر اندیشہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اُن کا سخت محاسبہ کیا جائے، اُن سے پوچھا جائے کہ مواقعِ معاش کو جاننے کے لیے تم چیونٹیوں کی طرح ہر جگہ پہنچے، لیکن مواقعِ دعوت کو جاننے کے لیے تم اندھے اور بہرے بنے رہے۔
مسجد عمر میںدعا اور عبادت سے فارغ ہو کر تمام لوگ اپنے اپنے مذہبی مقامات سے نکلے اور اجتماعی صورت میں سڑک پر پیدل چلنے لگے۔ اِس سفر کی قیادت قبرص کے آرک بشپ (Chrysostomos Kykkotis) کررہے تھے۔ اِس طرح چلتے ہوئے تمام لوگ اُس مقام پر پہنچے جس کا نام یہ تھا— آرک بشپ یارڈ(Archbishopric Yard)۔ یہاں خصوصی انداز میںایک بہت بڑا اسٹیج بنایا گیاتھا۔ اِس اسٹیج پر تقریباً ڈیڑھ سو آدمی بٹھائے گئے۔ بقیہ ہجوم آگے کے میدان میںلگی ہوئی کرسیوں کے اوپر سامعین کی حیثیت سے بیٹھا ہوا تھا۔ یہاںامن کے موضوع پر تین تقریریں ہوئیں۔ چھوٹے چھوٹے بچوں نے لوگوں کو پھول پیش کئے۔ تمام مذاہب کے نمائندوں نے مل کر امن کی مشعل جلائی۔ لوگوں نے امن کے اعلامیہ (declaration) پر دستخط کیے۔ آخر میں لوگ کھڑے ہو کر ایک دوسرے سے اِس طرح ملے کہ اُن میں سے ہر ایک دوسرے سے یہ کہہ رہا تھا:
Peace be upon you, Peace be upon you.
اِس کارروائی میںرات ہوچکی تھی۔ یہاں سے واپس ہوکر لوگ اجتماعی ڈنر میں شریک ہوئے۔ ڈنر کے بعد کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے صدر اور قبرص کے آرک بشپ نے تمام شرکا اور حاضرین کا شکریہ ادا کیا، اِس کے بعد لوگ اپنی اپنی قیام گاہوں پر چلے گئے۔
’’پریئر فار پیس‘‘ کے اس آخری پروگرام کے موقع پر بھی ہمارے ساتھیوں نے دعوہ ورک کیا۔ اِس پروگرام میںعالمی سطح کے بہت سے اہم مذہبی اور سیاسی اشخاص موجود تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے اُن کو دعوتی پمفلٹ دیے۔قبرص کے آرک بشپ کو بھی اسلامی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
18 نومبر 2008 کو اٹلی کی ایک بڑی ٹی وی کمپنی (Mediaset) کی ٹیم نے ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور کا نام یہ تھا— ماریہ(Maria Cecilia Sangiorgi) ۔ انٹرویو کے دوران انھوںنے اسلام اور عالمی حالات کے بارے میں مختلف سوالات کئے ۔ میںنے قرآن اور حدیث کی روشنی میں اِن سوالات کا جواب دیا۔ اُن کا آخری سوال یہ تھا کہ آج کی دنیا بہت سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ اِن حالات میں آپ ان کی طرف سے پُرامید ہیں، یا ناامید۔ میںنے کہا میں ایک پُرامید (optimist) شخص ہوں۔ میںہمیشہ واقعات میں امید کے پہلو دیکھتاہوں۔ مثلاً ابھی حال میں امریکا کے الیکشن میںسابق صدر جارج بش ہار گئے، اور بلیک صدر براک اوباما جیت گئے۔ یہ میرے لیے امید کا ایک پیغام ہے۔ میںنے کہا کہ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ وائٹ ہاؤس میں وائٹ پریزیڈنٹ کی جگہ ایک بلیک پریزیڈنٹ آگیا ہے۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ براک اوباما نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ— امریکا میں تبدیلی آگئی۔ میں کہوں گا کہ دنیا میں تبدیلی آگئی:
Black president replaced white president in White House. After the victory, in his first speech Barrack H. Obama has said: change has come to America. I would like to say: Change has come to the world.
قبرص کی اِس کانفرنس میںحسب ذیل اعلیٰ تعلیم یافتہ عرب خواتین نے بھی شرکت کی:
Asma Benkada, Programme producer of Al-Jazeera TV, Qatar
Aisha Yosuf al-Manna’i, Dean of Shariah &Islamic Studies, Qatar
Khadija Benganna, Al-Jazeera TV, Qatar.
اِن خواتین نے کانفرنس ہال میں مجھ سے ملاقات کی۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کہ انھوں نے میری کتاب الإسلام یتحدی پڑھی ہے، وہ اس کتاب سے بہت متاثر ہیں۔ اول الذکر خاتون اسماء، مشہور عرب عالم ڈاکٹر یوسف القرضاوی کی اہلیہ ہیں۔ انھوں نے موجودہ مسائل پر مجھ سے گفتگو کی۔ آخر الذکر خاتون خدیجہ بن قنّہ نے الجزیرہ ٹی وی کے لیے ’’اسلام اور امن‘‘ کے موضوع پر میرا ایک انٹرویو ریکارڈ کیا۔ میرے ساتھیوں نے ان لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔
اِن خواتین کی باتوں سے اندازہ ہوا کہ وہ سب نہایت ذہین خواتین ہیں اور مفید کام انجام دے رہی ہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ خواتین میں غیر معمولی صلاحیت ہوتی ہے، لیکن عام طورپر ان کی صلاحیتیں بروئے کار نہیںآتیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ روایتی ماحول کی بنا پر مرد اُن کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے۔ عورتوں کو کار آمد بنانے کے لیے جو کچھ کرنا چاہیے، اس کو عام طورپر ہمارے معاشرے کے مرد انجام نہیں دیتے۔ اپنے روایتی ذہن کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کو صرف ’’خاتونِ خانہ‘‘ بننا ہے، اِس کے سوا کوئی اور کام اُنھیں انجام نہیں دینا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اپنے مخصوص انداز میں مسلم عورتوں کے بارے میں کہا تھا کہ :
تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے، مگر خاتونِ خانہ ہوں، وہ سبھا کی پَری نہ ہوں
اِس شعر میں ایک سخت قسم کا مغالطہ موجود ہے۔ اِس شعر میں یہ بتایا گیا ہے کہ عورتوں کے لیے امکانی پوزیشن صرف دو ہے— یا تووہ خاتونِ خانہ بنیں، یا وہ سبھا کی پری بن جائیں۔ مگر یہ تصور ایک غلط قسم کی ثنائیت (dichotomy) پر مبنی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایک تیسری زیادہ بہتر پوزیشن بھی موجود ہے، وہ یہ کہ عورت اپنے حدود کے اندر رہتے ہوئے اعلیٰ تعلیم حاصل کرے اور پھر وہ معاشرے میں کوئی دینی اور تعمیری خدمت انجام دے۔ مثلاً ایجوکیشن اور دعوہ ورک، وغیرہ۔
اِس سفر کی ایک ملاقات وہ ہے جو ہلٹن پارک کے ڈائننگ ہال کی خاتون مینجر سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ وہ پولینڈ کی رہنے والی تھیں ۔ ان کا نام یہ تھا— پالینا (Paulina Theodorou) ۔ وہ اِس بات سے بہت متاثر تھیں کہ ڈائننگ ہال میں جو لوگ کھانے کے لیے آتے تھے، اُن میں ہم لوگ نمایاں طورپر دوسروں سے مختلف ہوتے تھے۔ میرے ساتھیوں نے اُن سے گفتگو کی اور ان کو اسلامی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔ انھوںنے میرے ساتھیوں سے کہا کہ اتنی بڑی کانفرنس میںآپ ہی لوگ ہم کو اسپریچول دکھائی دیتے ہیں، ورنہ آج کل ہر آدمی صرف ایک مادّی حیوان ہوکر رہ گیا ہے۔دوسرے لوگوں کی طرح، آپ لوگ یہاں نہ جوک (joke) چھوڑتے ہیں اور نہ قہقہے بلند کرتے ہیں۔
اُس خاتون کی گفتگو مجھ سے ہوئی تو میں نے کہا کہ آپ مجھ کو اندر سے سَیڈ (sad) دکھائی دیتی ہیں۔ انھوںنے اِس کو مانا، پھر اپنے کچھ گھریلو مسائل کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اِن معاملات میں میرے شوہر تو پازیٹو (positive) ہیں، لیکن میںاکثر نگیٹیو (negative) ہوجاتی ہوں۔ میںنے کہا کہ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، عورت اورمرد دونوں، ایک واحد یونٹ کے دو برابر کے نصف حصے ہیں:
Men and women are two equal halves of a single unit.
اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اور آپ کے شوہر دونوں ایک واحد یونٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اب جب کہ آپ کے بیان کے مطابق، آپ کے شوہر پازیٹو ہیںتو اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کی شخصیت کا نصف حصہ ابھی بھی پازیٹیو ہے۔ اب آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ آپ بقیہ نصف حصے کو، پہلے نصف حصے کے مانند بنا لیں۔ اِس بات کو سن کر وہ بہت خوش ہوئیں۔ انھوں نے کہا کہ آج سے میںایسا ہی کروں گی۔
19 نومبر 2008 کو سفر سے واپسی کا دن تھا۔ آج شام کو ہمیں واپسی کا جہاز لینا تھا۔نماز ظہر سے فارغ ہو کر ہم لوگ ہوٹل سے ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ ہمارا پروگرام یہ تھا کہ پہلے ہم لوگ ہالہ سلطان جاکر ام حرام بنت ملحان کا مقبرہ دیکھیں گے اور اس کے بعد ائر پورٹ جائیں گے۔ یہ مقبرہ ائرپورٹ سے بہت قریب سالٹ لیک (Salt Lake) کے کنارے سمندر کے پاس واقع ہے۔ آتے ہوئے جب ہمارا جہاز لارناکا ائرپورٹ کے قریب پہنچا تو جہاز سے ہم نے یہ مقبرہ دیکھ لیا تھا۔
19 نومبر 2008کی سہ پہر کو ہم بذریعہ روڈ سفر کرتے ہوئے یہاں پہنچے۔ یہ مقبرہ بہت بڑے رقبے میں واقع ہے۔ ام حرام کے انتقال کے بعد اُس کو یہاں ایک سادہ قبر کے طورپر بنایا گیا۔ اٹھارویں صدی عیسوی میں یہاں ایک ترکی درویش شیخ حسن آئے۔ انھوںنے 1760 میں قبر کے اوپر ایک گنبد تعمیر کیا۔ ترک اقتدار کے زمانے میں 1816 میں وہاں مقبرہ سے متصل ایک بڑی مسجد تعمیر کی گئی اور ایک بڑے رقبے میں کامپلکس کی صورت میں کئی تعمیرات کرائی گئیں۔
یونائی ٹیڈ نیشنس (United Nations Development Programme) کے تحت ہالہ سلطان کی اِس مسجد کو کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا بڑا مقدس مقام بتایا گیا ہے:
The mosque was described by the UNDP in Cyprus as Islam’s third holiest site, after the Ka’ba in Makkah and the Mosque of the Prophet in Medina.
ہالہ سلطان کے کیمپس کے گیٹ پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا۔ اِس بورڈ پر یہ الفاظ درج تھے:
This project was financed with a grant from the Bi-Communal Development Programme, which was supported by USAID and UNDP and executed by UNOPS. The works were conducted in collaboration with the Department of Antiquities (Ministry of Communications and Works).
پہلے میراخیال یہ تھا کہ یہاں صرف ایک قبر ہوگی جس کو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے، مگر وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ یہاں ایک بہت بڑا کامپلکس بناہوا ہے۔ ترکوں نے اس کا نام ہالہ سلطان تکیہ (Hala Sultan Tekke) رکھا تھا، یعنی سلطانِ انبیاء کی خالہ کا مقبرہ۔ کہاجاتاہے کہ ام حرام بنت ملحان، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دایہ حلیمہ سعدیہ کی بہن تھیں۔اِس نسبت سے ام حرام، آپ کی رضاعی خالہ تھیں۔ اِس بنا پر اس علاقے کا ترکی نام ہالہ سلطان رکھاگیا۔ یہ کامپلکس اتنا بڑا ہے کہ اس کے اندربڑے پیمانے پر ایک تعلیمی یا دعوتی ادارہ قائم کیا جاسکتاہے۔ لیکن بروقت اس کا بظاہر کوئی خاص استعمال نہیںہے۔ یہاں مختلف ملکوں سے ٹورسٹ آتے ہیں اور دیکھ کر چلے جاتے ہیں۔
ہالہ سلطان پہنچ کر ہم لوگوں نے وضو کیا اور مسجد کے اندر داخل ہوکر دو رکعت نماز پڑھی۔ یہ ایک وسیع مسجد ہے جس کے اندر عمدہ قسم کا قالین بچھا ہوا ہے۔مسجد کے محراب کے بائیں گوشے میںایک دروازہ کھلتا ہے۔ اِس دروازے سے داخل ہوکر ہم لوگ اندر پہنچے۔ یہ ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔ اِس کمرے کے بیچ میںامِ حرام کا مقبرہ ہے۔ یہ مقبرہ پتھر کی دیوار سے گھرا ہوا ہے۔مقبرہ کی چھت سے قبر کے اوپر تک چاروں طرف ایک موٹا غلاف آویزاں ہے۔ ام حرام کی قبر ایک سبز چادر سے ڈھکی ہوئی ہے۔ قبر کے داہنے اور بائیں جانب پیتل کی موٹی جالیاں ہیں۔ یہاں قبر کے چاروں طرف کشادہ گیلری ہے جس پر دبیز قالین بچھا ہوا ہے۔
ہم نے وہاں ایک مسلم نوجوان کو دیکھا۔ یہ نوجوان جرمن کا رہنے والا تھا۔ وہ آج کل قبرص میںاپنی فیملی کے ساتھ رہتاہے۔ اس نے مسجد میںنماز پڑھی۔ نماز کے بعد وہ ام حرام کے مقبرے میں داخل ہوا۔ وہاں اس نے چوکھٹ پر سجدہ کیا۔ اور قبر کی جالی پکڑ کر کھڑا ہوگیا۔ ہمارے ساتھیوں نے اس سے گفتگو کی اور اس کو اسلامی لٹریچر دیا۔ ام حرام کے مقبرے کے باہر ایک درخت لگا ہوا ہے۔ میںنے دیکھا کہ یہ درخت دھاگوں اور سفید پٹیوں سے بھرا ہوا ہے۔ لوگ اپنی مرادیں مانگنے کے لیے یہاں درخت پر کاغذ اور کپڑے کی پٹیاں باندھتے ہیں۔ اِس قسم کی بدعتیں غالباً ترکی سے یہاںآئی ہیں۔ اگر یہاں کوئی تعلیمی یا دعوتی ادارہ قائم ہوتا تو اِس قسم کی بدعتیں یہاں فروغ نہ پاتیں۔ ہمارے ساتھیوں نے یہاں کی مسجد میں قرآن کا دوانگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر رکھا۔ وہاں اُس وقت کئی غیر ملکی ٹورسٹ موجود تھے۔ انھوں نے ان لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔
یہاں کی مسجد میںہم لوگ دیر تک رہے۔ یہاں ہم نے نماز پڑھی اور دعا کی۔ ہماری دعا کا خاص پہلویہ تھا کہ ہم نے کہا کہ خدایا، ہم کو حدیث کے مطابق، جماعتِ آخرین میں شامل کردے، یعنی اہلِ ایمان کا وہ دوسرا گروہ جو بعد کے زمانے میں سفر کرکے قبرص کے اِس جزیرے میں آئے گا اور یہاں دعوت الی اللہ کا کام کرے گا۔ ہماری اِس دعا کا پس منظر ایک روایت ہے، جو حدیث کی مختلف کتابوں میںآئی ہے۔ صحیح البخاری میں یہ روایت چار ابواب کے تحت نقل ہوئی ہے۔ کتاب الاستئذان کے تحت درج شدہ روایت میں ابنِ حجر العسقلانی نے تقریباً دس صفحات پر مشتمل اس کی شرح لکھی ہے۔ اِن روایات میںجو بات آئی ہے، اُس کا خلاصہ یہاں درج کیا جاتا ہے:
امِ حرام بنت ملحان، انس بن مالک کی خالہ اور عُبادہ بن صامت انصاری کی اہلیہ تھیں۔ اُن کو رُمیصاء کہاجاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی اُن کے گھر جاکر وہاں آرام کرتے تھے۔ ایک بار رسول اللہ اُن کے گھر گئے۔ وہاں دوپہر کے وقت آپ سوگئے۔ آپ نیند سے بیدار ہوئے تو آپ مسکرارہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ خواب میں مجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے۔ وہ تخت نشیں بادشاہوںکے مانند (کالملوک علی الأسِرَّۃ)تھے۔ وہ بحرِ اخضر (Mediterranean Sea) کا سفر کریں گے۔امّ حرام نے کہا کہ اے خدا کے رسول، دعا کیجیے کہ اللہ مجھ کو اُن لوگوں میںشامل کردے۔ آپ نے فرمایا کہ تم اُن میں شامل ہو۔ اِس کے بعد آپ دوبارہ سو گئے، پھر آپ بیدار ہوئے تو آپ مسکرارہے تھے۔ ام حرام کے پوچھنے پر آپ نے دوبارہ فرمایا کہ خواب میںمجھے میری امت کے کچھ لوگ دکھائے گئے جو بحرِ اخضر کا سفر کریں گے۔ وہ تخت نشیں بادشاہوں کے مانند ہوں گے۔ ام حرام نے کہا کہ اے خدا کے رسول، دعا کیجیے کہ اللہ مجھ کو اُن لوگوں میں شامل کردے۔ آپ نے فرمایا کہ تم پہلے گروہ میںشامل ہو، دوسرے گروہ میں نہیں (أنتِ من الأوّلین، لستِ من الاٰخرین)۔
تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت عثمان کی خلافت کے زمانے میں صحابہ کی ایک جماعت نے 28 ہجری (649ء) میں ایک دعوتی سفر کیا۔ صحابہ کی اِس جماعت کی قیادت امیر معاویہ کررہے تھے۔ وہ مدینہ سے روانہ ہو کر شام کے علاقے میں داخل ہوئے اور دمشق پہنچے، پھر یہاں سے مزید سفر کرکے وہ حمص پہنچے جو بحرِ اخضر (Mediterranean Sea) کے ساحل پر واقع ہے۔ حمص تک کا سفر انھوںنے اونٹوں اور خچروں کے ذریعے کیا۔ یہاں سے انھوں نے کشتیوں پر بحری سفر کیا اور اِس طرح وہ قبرص کے ساحل پر اترے۔ یہاں کے لوگوں کے درمیان انھوںنے دعوتی کام کیا۔ ان کے دعوتی کام کے مثبت اثر کا ایک ثبوت یہ ہے کہ جب ایک صحابیہ ام حرام جن کی عمر اُس وقت 70 سال سے زیادہ ہوچکی تھی، یہا ںاُن کا انتقال ہوا توقبرص کے ساحلی شہر لارناکا میں ان کی قبربنائی گئی۔ صحابیہ کے حسنِ سیرت کی بنا پر مقامی لوگ اِس قبر کو نیک خاتون کی قبر (قبرالمرأۃ الصّالحۃ) کہنے لگے۔
جب ہم لوگ ہالہ سلطان کی مسجد میں تھے تو ہم نے اِس روایت کو یاد کیا۔ ہم نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ حدیث کے مطابق، امتِ محمدی کی دو جماعتوں کے لیے یہ سعادت مقدر تھی کہ وہ سفر کرکے قبرص کے اِس مقام پر آئیں اور یہاں کے لوگوں کے درمیان سچائی کا پیغام پہنچائیں۔ پہلی دعوتی جماعت میںشامل ہونے کی سعادت پریس کے دورسے قبل کچھ صحابہ اور صحابیات کو حاصل ہوچکی ہے۔ شاید ہم لوگ تاریخ کی دوسری جماعت ہیں جن کو پریس کے دور میں یہ توفیق حاصل ہوئی کہ وہ خالص دعوتی مقصد کے تحت یہاں آئے اور یہاں کے لوگوں میں مطبوعہ لٹریچر کے ذریعے بڑے پیمانے پر اسلام کا پیغام پہنچایا۔ خدایا، تو ہماری جماعت کو وہ دوسری جماعت بنادے جس کی بشارت تیرے پیغمبر نے اپنے زمانے میں دی تھی۔
حدیث اور تاریخ کی کتابوں میںعام طورپر قبرص کے اِس سفر کو ’’غزوہ‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیاگیا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک دعوتی سفر تھا، نہ کہ کوئی جنگی سفر۔ چناں چہ یہ ثابت ہے کہ جب صحابہ کی جماعت اِس مقام پر پہنچی تو وہاںکے مقامی باشندوں سے ان کی کوئی لڑائی پیش نہیں آئی۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانہ مذہبی جبر (religious persecution) کا زمانہ تھا۔ اِس بنا پر داعیوں کو بھی اپنے سفر میںحفاظتی طورپر کچھ ہتھیار رکھنا پڑتا تھا، تاکہ اگر لوگوں کی طرف سے تشدد اور جارحیت کی صورت پیش آجائے تو بر وقت اس کا دفاع کیا جاسکے۔ چناں چہ ساتویں صدی عیسوی میں جب ’’جماعتِ اوّل‘‘ نے یہاں کے لیے دعوتی سفرکیا تو انھوںنے احتیاطی طورپر کچھ ہتھیار بھی اپنے ساتھ رکھ لیے۔ اگر چہ عملاً اِن ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیںآئی۔ اِس کے برعکس، موجودہ زمانے میں جب ہم لوگوں نے ’’جماعتِ ثانی‘‘ کی حیثیت سے قبرص کا سفر کیا تو زمانہ بدل چکا تھا، اِس لیے ہمارے ساتھ صرف چھپی ہوئی کتابوں کے بنڈل تھے۔ اِس کے سوا کوئی دفاعی چیز لے جانے کی ضرورت ہم کو پیش نہیں آئی۔ ہم نے وہاں کئی دن تک مسلسل طورپر دعوتی کام کیا اور کسی نے ہمارے اوپر کوئی اعتراض نہیںکیا بلکہ ہر موقع پر وہاں کے لوگ ہم کو اپنا تعاون دیتے رہے۔
19 نومبر 2008 کو میں قبرص میں بحرِ متوسط کے ساحل پر واقع اُمِ حرام بنتِ ملحان کے مقبرے کو دیکھ رہا تھا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میںنے سوچا کہ لارناکا کا یہ مقبرہ بھی ایک مقبرہ ہے اور آگرہ کا تاج محل بھی ایک مقبرہ ہے۔ مگر دونوں میں یہ فرق ہے کہ تاج محل کو تاریخ کا ایک صفحہ سمجھا جاتا ہے، جب کہ ام حرام بنت ملحان صحابیہ کا یہ مقبرہ تاریخ کے ایک صفحے کی حیثیت سے نمایاں نہ ہوسکا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ تاج محل کا مطالعہ تاریخ کی روشنی میں کیا جاتا ہے، جب کہ صحابیہ کا یہ مقبرہ ہماری کتابوں میں صرف ’’فضائل صحابہ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہوا ہے۔
اِس معاملہ پر غور کرتے ہوئے ایک بہت بڑی حقیقت میرے سامنے آئی، ایک ایسی حقیقت جس کو خود میںنے بھی پہلی بار یہاں دریافت کیا۔ یہ حقیقت اگر چہ بہت پہلے سے موجود تھی، لیکن شعوری دریافت کے طورپر وہ غالباً پہلی بار ایک انسان کی سمجھ میںآئی۔
میں نے 1984 میں حجاز کا سفر کیا تھا۔ اُس وقت مدینہ میں ایک مسلم اسکالرسے میری ملاقات ہوئی۔ انھوںنے کہاکہ آپ نے لکھا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا تمام انبیاء خالص علمی اعتبار سے، غیر تاریخی پیغمبر تھے۔ آپ نے لکھا ہے کہ کسی شخصیت کے تاریخی شخصیت ہونے کا علمی معیار یہ ہے کہ معاصر تاریخ میںاُس کا حوالہ موجود ہو۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کی معاصر تاریخ میںآپ کاحوالہ کہا ںملتا ہے۔ میںنے کہا کہ میں نے پڑھا ہے کہ بعض سُریانی مورخین نے آپ کے نام کے ساتھ آپ کا حوالہ دیا ہے۔تاہم اُس وقت یہ بات پوری طرح میرے اوپر واضح نہ تھی۔ اب اچانک یہ سمجھ میںآیا کہ پیغمبر اسلام کے تمام صحابہ اور صحابیات کا معاملہ یہی تھا کہ وہ اِس معاملے میں گویا کہ معاصر مورخین تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث کا موجودہ ذخیرہ اِس اعتبار سے، پورے معنوں میں ایک تاریخی ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس ریکارڈ میں پیغمبر اسلام کے ہم زمانہ افراد آپ کے بارے میں تاریخی بیانات دے رہے ہیں۔ مگر حدیث کا یہ پہلو لوگوں پر اِس لیے مخفی رہا کہ وہ حدیث کا مطالعہ ایک ’’مقدس کلام‘‘ کی حیثیت سے کرتے رہے، نہ کہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت سے۔
آدمی کی یہ کم زوری ہے کہ وہ چیزوں کو اپنے ذہنی مفروضہ (pre-occupied mind) کے اعتبار سے دیکھتاہے۔ اِس ذہنی مفروضہ کی بنا پر میںحدیث کے اِس پہلوکو شعوری طورپر نہ جان سکا کہ وہ پیغمبر اسلام کی شخصیت کاایک معتبر تاریخی ریکارڈہے اور تمام صحابہ اِس معاملہ میںگویا ’’راویانِ تاریخ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
یہ دریافت میرے لیے ایک عظیم دریافت تھی۔ کیوں کہ اِس سے خالص علمی طورپر یہ ثابت ہوگیا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے تاریخی پیغمبر ہیں جن کا حوالہ آپ کے معاصر مورخین نے بڑے پیمانے پردیا ہے، اور اِن تمام مورخین کے تاریخی حالات اسماء الرجال کی کتابوں میں مستند طورپر پوری طرح محفوظ حالت میں موجود ہیں۔
19 نومبر 2008 کی شام کو ہم لارناکا ائر پورٹ پر پہنچے۔ یہاں سے ہم کو واپسی کا جہاز لینا تھا۔ میرے ساتھیوں نے ائرپورٹ پر دعوت کا کام کیا۔ انھوں نے بہت سے مسافروں سے بات کی اور ان کو اسلامی لٹریچر دیا۔ ائرپورٹ کے عملہ کو بھی انھوںنے دعوتی لٹریچر پہنچایا۔
لارناکا سے دوبارہ ہمیں ایمرٹس ائرلائن سے سفر کرنا تھا۔ ائرپورٹ پر جو خصوصی معاملات پیش آئے، اُن میں سے ایک قابلِ ذکر معاملہ یہ تھاکہ ائر پورٹ پر مجھ کو سینئر سٹی زن ہونے کی بنا پر وھیل چئر پر بٹھایا گیا۔ ہم لوگ ائر پورٹ کے باہر پہنچے تو یہاں ایک بڑی گاڑی کھڑی ہوئی تھی۔ پیچھے کی جانب سے اس کا دروازہ کھلا اور وھیل چئر کے ساتھ ہم کو اس کے اندر داخل کردیا گیا۔ میرے دونوں ساتھی بھی میرے ہم راہ تھے۔ اِس کے بعد گاڑی کا دروازہ بند ہوا اور وہ آگے کے لیے روانہ ہوگئی۔ اِس کے بعد گاڑی چلتی ہوئی ہوائی جہاز کے پاس پہنچی۔ یہاں مخصوص مشین کے ذریعے گاڑی کی باڈی اوپر اٹھنے لگی، یہاں تک کہ وہ ہوائی جہاز کے دروازہ کے برابر پہنچ گئی۔ دوبارہ گاڑی کا دروازہ کھلا اور مجھ کو وھیل چئر پر بیٹھے بیٹھے ہوائی جہاز کے اندر داخل کردیا گیا۔ یہاں مخصوص انداز کی شان دار کرسی موجود تھی، مجھ کو اُس کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ ہم لوگ سب سے پہلے مسافر تھے جو اِس جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ بقیہ تمام لوگ ہمارے بعد آئے۔ یہ پورا معاملہ جس طرح ہوا، اُس کو انسانی زبان میں بیان کرنا ہو تو یہی کہاجائے گا کہ یہ معاملہ گویا کہ حدیث کے الفاظ میں: کالملوک علی الأسِرَّۃ کی ایک تصویر تھا۔
جہاز کے اندر میرے پاس کی سیٹ پر ایک پاکستانی مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں چئر مین ہیں۔ مادی اعتبار سے وہ ایک کامیاب انسان معلوم ہوتے تھے۔ جہاز کے پورے سفر میں میں نے دیکھا کہ وہ صرف ایک چیز میںمشغول ہیں اور وہ اُن کا لیپ ٹاپ (laptop) ہے۔ ان سے میںنے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوںنے زیادہ دل چسپی نہیں دکھائی۔ آخر وقت تک وہ اپنے لیپ ٹاپ میں مشغول رہے اور پھر لیپ ٹاپ بند کرکے وہ دبئی میں اتر گئے۔
یہی موجودہ زمانے کے تعلیم یافتہ اور خوش حال لوگوں کی تصویر ہے۔ یہ لوگ سفر میں ہوں یا حضر میں، وہ ہر وقت کسی نہ کسی طورپر بس مَنی بزنس (money business) میںمشغول رہتے ہیں۔ اُن کو یہ معلوم نہیں کہ ’’منی بزنس‘‘ سے بھی زیادہ بڑی ایک چیز ہے جس کو اُنھیں حاصل کرنا چاہیے۔ یہ زیادہ بڑی چیز ذہنی اور روحانی ارتقا ہے۔ اِس ارتقا کا ذریعہ یہ ہے کہ آدمی آس پاس کی دنیا پر غور کرے، وہ کتابوں کا مطالعہ کرے، وہ لوگوں سے علمی اور فکری موضوعات پر تبادلۂ خیال کرے، وغیرہ۔
دبئی ائر پورٹ کے لاؤنج (lounge) میں ہم لوگوں کو آتے ہوئے اورجاتے ہوئے، دونوں بار کچھ گھنٹے کے لیے ٹھیرنا پڑا۔ یہاں لاؤنج کے ایک حصے میںایک ڈسک (desk) تھا، جس میں اخبارات اور جرائد برائے مطالعہ رکھے ہوئے تھے۔ ایک عربی جریدے میںایک مضمون نظر سے گزرا۔ یہ مضمون دکتور خالد النجّار کا لکھا ہوا تھا۔ اِس مضمون کا عنوان یہ تھا— أمیر البیان شکیب أرسلان: جُندیّ ذو ثلاثۃ أہداف (امیر شکیب ارسلان: ایک مسلم سپاہی جن کی جدوجہد کے تین نشانے تھے)۔ امیر شکیب ارسلان کی جدوجہد کے یہ تین نشانے مضمون کے مطابق، حسب ذیل تھے :
الاتّحاد، التحرّر، السّیر فی موکب النّہضۃ والعلم، یعنی مسلمانوں کے درمیان باہمی اتحاد، مغربی استعمار سے آزادی، علم اور ترقی کے سفر میں قافلۂ انسانی کے ساتھ چلنا۔
امیرشکیب ارسلان 1869 میں لبنان میں پیدا ہوئے، اور 1946 میں بیروت میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ نہایت با صلاحیت آدمی تھے۔ سید جمال الدین افغانی نے جب پہلی بار اُن کو دیکھا تو اُن کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: أنا أہنّیٔ أرض الإسلام التی أنبتتک(میں اس سرزمین ِ اسلام کو مبارک باد دیتا ہوں جس نے تمھارے جیسے انسان کو پیدا کیا)۔ امیر شکیب ارسلان، عربی کے علاوہ انگریزی اور فرانسیسی زبان بھی جانتے تھے۔ انھوںنے بہت سے ملکوں کے سفر کیے۔اُن کو اپنے زمانے کی بڑی بڑی شخصیتوں سے استفادے کا موقع ملا۔ مثلاً شیخ محمد عبدہ، سعد زغلول، احمد ذکی پاشا، سید جمال الدین افغانی، وغیرہ۔ امیر شکیب ارسلان بہت زیادہ مشغول رہتے تھے۔ وہ اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ استعمال کرتے تھے۔ انھوںنے کثرت سے مطالعہ کیا۔ انھوںنے بہت سے مقالات کے علاوہ تقریباً پچاس کتابیں لکھیں۔
مگر واقعات بتاتے ہیں کہ امیر شکیب ارسلان کوئی بڑا کام نہ کرسکے۔ مثلاً جدید فکری تحدیات کے مقابلے میں کوئی موثر کتاب تیار کرنا، جدید ضرورتوں کے مطابق، کوئی ایسا ادارہ قائم کرنا جو اُن کے بعد بھی مسلمانوںکو فائدہ پہنچاتا رہے۔ جدید مسلم نسلوں میںکوئی ایسا فکر پیدا کرنا جس کے نتیجے میں وہ نئے مواقع کو سمجھیں اور اُن کو بڑے پیمانے پر استعمال کریں، وغیرہ۔ ان کی اِس ناکامی کا سبب میرے نزدیک صرف ایک تھا، وہ یہ کہ انھوںنے تین مختلف نشانوں کواپنی زندگی کا نشانہ بنا لیا۔
اِس دنیا میں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر کرنے کے بہت سے کام ہوتے ہیں۔ لیکن آدمی کو گہرے غور وفکر کے ذریعے یہ دریافت کرنا پڑتا ہے کہ کسی وقتِ خاص میں کرنے کا بنیادی کام کیا ہے، یعنی وہ کام جس میں محنت کرنے سے دوسرے کام اپنے آپ انجام پاتے چلے جائیں۔ امیر شکیب اُس بنیادی کام کو دریافت نہ کرسکے۔ اِس لیے ہر قسم کی اعلیٰ صلاحیتوں کے باوجود ان کی کوششیں بکھر کر رہ گئیں۔
مذکورہ مضمون میں امیر شکیب ارسلان کے تذکرے کے تحت یہ الفاظ درج ہیں: وکان شکیب أرسلان یری أن العدوّ الأوّل للإسلام والمسلمین ہو الجہل (امیر شکیب ارسلان یہ سمجھتے تھے کہ اسلام اور مسلمانوں کا دشمن نمبر ایک ان کی جہالت ہے)۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ یہ بات انھوں نے گہری شعوری دریافت کے نتیجے میں کہی تھی۔ اگر حقیقی معنوں میں یہ ان کی دریافت ہوتی، تو وہ اپنی ساری زندگی اِسی ایک کام میں لگا دیتے۔ انھوںنے اپنی زندگی کا بڑا حصہ ’’مغربی استعمار‘‘ کے خلاف لکھنے اور بولنے میںصرف کردیا ،جو نتیجے کے اعتبار سے سرتاسر ایک بے فائدہ کام تھا۔
میںاکثر یہ کہا کرتا ہوں کہ ایک کام کرنے کے لیے دوسرے کام کو چھوڑنا پڑتا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اِس حقیقت سے بے خبر رہے۔ تقریباً ہر مسلم رہ نما کا یہ حال ہوا کہ وہ بیک وقت مختلف نشانوں کی طرف دوڑتا رہا۔ اِن تمام رہ نماؤں کے اوپر یہ مثل صادق آئی کہ — جو آدمی کئی خرگوشوں کی پیچھے دوڑے، وہ ایک کو بھی نہیں پکڑ سکتا۔ اِن رہ نماؤں سے یہ غلطی اِس لیے ہوئی کہ وہ اِس حقیقت کو نہ سمجھ سکے کہ ہر صورتِ حال میںمختلف قسم کے مسائل ہوتے ہیں۔ عقل مند آدمی وہ ہے جو مسائل (problems)کو نظرانداز کرے اور مواقع (opportunities) کو استعمال کرے۔ یہ فطرت کا اصول ہے۔ لیکن موجودہ زمانے میں شایدکوئی بھی مسلم رہ نما فطرت کے اِس اصول کو سمجھ نہ سکا۔ شاعر کے الفاظ میں ہر ایک کا انجام یہ ہوا — خوش درخشید، ولے شعلۂ مستعجل بود
دبئی سے دہلی کے لیے دوبارہ عرب ایمرٹس کی فلائٹ (EK 510) سے واپسی ہوئی۔ یہ رات کا وقت تھا۔ اِس لیے زیادہ وقت کھانے پینے یا سونے میں گزرا، کوئی خاص واقعہ درمیان میں پیش نہیں آیا۔ 20 نومبر 2008 کی صبح 9 بجے ہمارا جہاز دہلی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اتر گیا۔ میںجہاز سے باہر آیا تو میںنے دیکھا کہ ائرپورٹ کا آدمی وہاں دوبارہ وھیل چئر لیے ہوئے کھڑا ہے۔ وہ مجھ کو وھیل چئر پر بٹھا کر تیزی سے لے چلا۔ میرے دونوں ساتھی بھی میرے ہم راہ تھے۔ ہم لوگوں کو ونڈو پر پہنچ کر ضروری اندراجات کروانا تھا۔ میں نے دیکھا کہ عام ونڈو پر کافی بھیڑ ہے۔ لیکن مجھ کو نئے راستے سے چلا کر ایک خاص ونڈو پر لے جایا گیا جو کہ خالی تھی۔ ہم تینوں کے کاغذات کو فوراً کلیر کردیاگیا اور ہم جلد ہی ائر پورٹ سے باہر آگئے۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ میںنے کہا کہ خدایا، اِسی قسم کا زیادہ سخت مرحلہ آخرت میں پیش آنے والا ہے۔ اُس وقت تو میرے اور میرے ساتھیوں کے ساتھ اِسی طرح آسانی کا معاملہ فرما۔
ہم لوگ ائر پورٹ سے باہر نکلے تو ہمارے یہاں کے ایک کارکن مسٹر اشوک گاڑی کے ساتھ یہاں موجود تھے۔ ان کے ساتھ روانہ ہو کر ہم لوگ دوبارہ نظام الدین ویسٹ پہنچ گئے۔
15 نومبر 2008 کی شام کو میں دہلی سے قبرص کے لیے روانہ ہوا تھا اور 20 نومبر 2008 کو میں دوبارہ دہلی واپس آگیا۔ جب میںاِس سفر پر غور کرتاہوں تو مجھے یہ پورا سفر ایک خواب معلوم ہوتا ہے۔ مولانا اقبال احمد سہیل (وفات: 1955 ) نے ایک طویل نظم لکھی تھی۔ اِس نظم کا عنوان رویائِ صادقہ (سچا خواب) تھا۔ اِس نظم کے آخری دو شعر یہ تھے، جو کہ مجھے اپنے حسب حال معلوم ہوتے ہیں:
ِمحو نظارہ تھا میں، ناگاہ آئی یہ صدا
آگئی صبحِ مسرت، سونے والو ہوشیار
یہ صدا سن کر یکایک میری آنکھیں کھل گئیں
پھر وہی میں، اور وہی ہنگامۂ لیل ونہار
(یہ سفرنامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)۔
واپس اوپر جائیں