Pages

Thursday 1 April 2004

Al Risala | April 2004 (الرسالہ،اپریل)

1

- میرٹھ کا سفر


میرٹھ کاسفر

میرٹھ کے گیان پریشد کی طرف سے ڈاکٹر کے ۔سی گپتا نے پہلے ٹیلی فون پر بات کی۔ پھر ان کا خط مورخہ ۳۰ اگست ۲۰۰۳ ملا۔ اس میں مجھے میرٹھ کے دو روزہ پروگرام میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔اس پروگرام کا خاص مقصد کمیونل ہارمنی اور ریلیجس انڈر اسٹینڈنگ تھا۔ ڈاکٹر کے ۔سی گپتا میرٹھ کالج میںپولیٹکل سائنس ڈپارٹمنٹ کے سابق ہیڈ ہیں۔یہ پروگرام میرٹھ کی گیان پریشد اور میرٹھ کے حلقہ الرسالہ کے تعاون سے کیا گیا۔
۶ ستمبر ۲۰۰۳ کی صبح کو چھ بجے اس سفر کے لیے بذریعہ روڈ روانگی ہوئی۔ یہ سفر ایک ٹیم کی صورت میں ہوا۔اس سفر میں میرے ساتھ اور جو افراد شامل تھے ان کے نام یہ ہیں—خالد انصاری، رجت ملہوترہ، ہارون رشید، پریا ملک، استھی ملہوترہ، نصرت الٰہی، فریدہ خانم۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قدیم یونان میں ایک گروہ تھا جس کو مشّائین (Travellers) کہا جاتا تھا۔ یہ گویا اسی قسم کا ایک قافلہ ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جو میرے ہفتہ وار کلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ وہ اسلام کو جدید حالات کے پس منظر میں سمجھنا چاہتے ہیں۔ یہ گویا ذہنی بیداری کا ایک کام ہے۔ یہ سفر گویا ایک قسم کا چلتا پھرتا کلاس تھا۔ کیوں کہ میرا طریقہ ہے کہ میں سفر کے دوران پیش آمدہ حالات اور تجربات کے حوالہ سے گفتگو کرتا رہتا ہوں۔ اس طرح میرا سفر ایک قسم کا فکری سفر بن جاتا ہے۔
گذشتہ کل (۵؍ستمبر) کو نیو جرسی سے جناب لئیق احمد نے ٹیلی فون پر بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ امریکا میں بظاہر خوش حالی ہے مگر یہاں کا ہر انسان تناؤ (stress) کا شکار رہتا ہے۔ اس ذہنی تناؤ کو دور کرنے کے لیے عام طورپر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ ہفتہ کی چھٹیوں (weekend) کو گھر سے باہر جانے میں بتاتے ہیں۔ وہ کار کے ذریعہ کئی کئی گھنٹہ سفر کرکے دور کے مقام پر جاتے ہیں تاکہ اپنا ذہنی تناؤ دور کرسکیں مگر عملی نتیجہ برعکس صورت میں نکلتا ہے۔
میںنے پوچھا کہ اس کی وجہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اصل یہ ہے کہ امریکامیں ہر چیز نظم کے ساتھ ہوتی ہے ۔ چنانچہ یہاں بہت سی ایجنسیاں ہیں جو تفریحی مقامات پر مختلف انداز کے تفریحی پروگرام کا انتظام کرتی ہیں۔ لوگ چھٹیوں کے دن ان کی فیس دے کر وہاں جاتے ہیں۔ وہ کار کے ذریعہ لمبا سفر طے کرکے جب وہاں پہنچتے ہیںتو معلوم ہوتا ہے کہ انہیں فوراً فلاں آئیٹم میں شریک ہونا ہے۔ اس طرح ایک کے بعد ایک مختلف پروگرام آتے رہتے ہیں۔ لوگ خواہ تھکے ہوئے ہوں، یا ان کا دل نہ چاہتا ہو، مگر ’’آغاکیا کھاتاہے، آغا پیسہ کھاتا ہے‘‘ کے اصول پر لوگ ہر حال میں ان میں شریک ہوتے ہیں۔ پھر جب وہ تھکن اور بورڈم کے ساتھ واپس گھر لوٹتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے تناؤ کو ختم نہیں کیا بلکہ مہنگی قیمت پر ایک نیا تناؤ خرید لیا ہے۔ لئیق صاحب نے بتایا کہ تناؤ کی اس قسم کو یہاں ہالی ڈے اسٹریس (Holiday Stress) کہا جاتا ہے۔
پچھلے دن (۵ ستمبر) جمعہ کا دن تھا۔ میں نے نظام الدین کی کالی مسجد میں نماز ادا کی۔ امام صاحب نے خطبہ سے پہلے اپنی تقریر میں بتایا کہ ۱۹۴۷ میں یہ مسجد کچھ ہندوؤں کے قبضہ میں چلی گئی تھی۔ ہم نے دوبارہ قبضہ کرکے اس کو آباد کرنا چاہا تو پولیس کیس بن گیا اور عدالتی کارروائی کی نوبت آگئی۔ عدالت کے سامنے یہ سوال تھا کہ کیا ۱۵ اگست ۱۹۴۷ سے پہلے یہ عمارت ایک مسجد تھی اور وہ مسجد کے طورپر استعمال ہوتی تھی۔ ہندو جج نے تین آدمیوں کی گواہی پر مسجد کے حق میں اپنا فیصلہ دیا۔یہ تینوں دہلی کے تین ہندو تھے۔ ان میں سے ایک بر ہمن تھا، دوسرا بنیا اور تیسرا ہریجن۔
کالی مسجد تقریباً ۸۰۰ سال پہلے تغلق دور میں بنائی گئی تھی۔ میں ۱۹۸۳ سے اس مسجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں۔ پہلے یہ مسجد تقریباً کھنڈر کی حالت میں تھی۔ اب یہاں مسجد کی شاندار بلڈنگ کھڑی ہوئی ہے۔ یہ ایک علامت ہے جو بتاتی ہے کہ اس ملک میں ملت مسلمہ کا مستقبل دن بدن بہتر حالت کی طرف جارہا ہے۔
مجھے یاد آتا ہے کہ ۴۰ سال پہلے میں یوپی میںاپنے آبائی گاؤں میں رہتا تھا۔ میرے گھر کے قریب ایک مسجد تھی۔ اس میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میں ہی مؤذن ہوتا تھا اور میں ہی امام اور مقتدی۔ خاص طورپر عشاء کی نماز مجھے اس طرح پڑھنا ہوتا تھا کہ میں لالٹین لے کر مسجد جاتا جو گاؤں کے باہر کھیتوں کے کنارے واقع تھی۔ رات کے سنسان ماحول میں عشاء کی نماز پڑھنا بڑا عجیب تجربہ تھا۔ اس وقت وہاں میرے ساتھ کوئی اور نمازی نہیں ہوتا تھا۔ میں خود ہی اذان دیتا اور خود ہی تکبیر کہہ کر جماعت کے طورپر نماز ادا کرتا اور پھر لالٹین لے کر واپس اپنے گھر آجاتا۔
مگر اب۴۰ سال کے بعد مسجد سمیت یہ پوری جگہ نہایت با رونق ہوگئی ہے۔ اب وہاں مسجد سے متصل سڑک گزررہی ہے۔ بجلی اور ٹیلی فون آچکا ہے۔ مسجد کے بالکل سامنے ایک معیاری اسکول قائم ہوگیا ہے۔ اب یہاں رات دن چہل پہل رہتی ہے۔
اس قسم کے واقعات ہر جگہ پیش آرہے ہیں۔ ان واقعات میں نہایت امید افزا پیغام چھپا ہوا ہے۔ مگر عجب بات ہے کہ موجودہ زمانہ میں تمام مسلمان، مذہبی اور غیر مذہبی دونوں شکایت کی بولی بولتے ہیں۔ مجھے اپنے تجربہ میں پوری مسلم دنیا میں کوئی شخص نہیں ملا جو شکر کے جذبہ سے سرشار ہو اور حقیقی طورپر شکر کے کلمات بولتا ہو۔
ہندستان ٹائمس (۵ ستمبر ۲۰۰۳) میں سوامی نکھل نندا کا ایک مضمون فیتھ (Faith) کے کالم میں چھپا ہوا تھا۔ اس کا عنوان یہ تھا: Practical Spirituality for All
اس مضمون میں سوامی جی نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کھانے سے پہلے آپ یہ کہیں کہ میں اس کھانے کو خدا کے لیے پیش کرتا ہوں تو خود کھانا بھی ایک روحانی عمل بن جائے گا۔
“If just before eating you say “I offer this food to God” then eating itself becomes a spiritual act.”
میں نہیں سمجھ سکا کہ اس میں روحانیت کا پہلو کیا ہے۔ کھانا خدا کے لیے پیش کرنا یا تو ایک رسم ہے یا وہ یاد دلاتا ہے کہ انسان دینے والا ہے اور خدا پانے والا۔ اس قسم کا عمل کسی کے لیے روحانی تجربہ کیسے بن سکتا ہے۔
کھانا اور پانی بلا شبہہ عظیم روحانی تجربہ کا ذریعہ ہیں۔ کھانے پینے کا یہ روحانی فائدہ اس وقت مل سکتا ہے جب کہ آدمی خدا کو ایک زندہ وجود کی حیثیت سے مانتا ہو۔ وہ اس یقین میں جیتا ہو کہ کھانے پینے کی نعمتیں اس کو خدا نے دی ہیں۔ اس قسم کا زندہ احساس جب کسی آدمی کے اندر پیدا ہو تو اس وقت وہ ایک تھرلنگ اکسپیرینس (thrilling experience)کا تجربہ کرتا ہے۔ اسی تجربہ کا نام روحانیت ہے۔
۶ ستمبر کی صبح کو چھ بجے ہمارا قافلہ دہلی سے میرٹھ کے لیے بذریعہ کار روانہ ہوا۔ سب سے پہلے میں نے لوگوں سے کہا کہ آپ لوگ قرآن کی یہ آیت پڑھیں: سبحٰن الذی سخّر لنا ہذا وما کنا لہ مقرنین(پاک ہے وہ جس نے ان چیزوں کو ہمارے بس میں کردیا اور ہم ایسے نہ تھے کہ ان کو قابو میں کرتے) الزخرف ۱۳۔
میںنے کہا کہ چند سو سال پہلے سفر کرنا اتنا مشکل تھا کہ کہا جاتا تھا کہ السفر کالسقر (سفر جہنم کی مانند ہے) مگر آج مختلف ترقیوں کے نتیجہ میں سفر ایک قسم کی تفریح (entertainment) کی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔
یہ خدا کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اگر آدمی کو اس نعمت کا واقعی احساس ہو تو اس کا سفر ایک روحانی سفر بن جائے گا۔ میںنے کہا کہ سفر کے اس روحانی پہلو کی بنا پر خدا پرستوں کی صفت قرآن میں السائحون بتائی گئی ہے، یعنی سیاحت کرنے والے۔
سفر کو کیوں خدا پرست انسان کی صفت بتایا گیا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سفر میں مختلف قسم کے تجربات ہوتے ہیں۔ ان تجربات کے دوران مسافر کی زبان سے ذکر و دعا کے وہ الفاظ نکلتے ہیں جو مقیم کی زبان سے نہیں نکلتے۔ مثلاً آپ لوگ سفر پر چل رہے ہیں۔ سڑک کے اوپر آپ کی گاڑی دوڑتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر آپ کے ربّانی احساسات زندہ ہوں تو یہ سفر نفسیات کے اعتبار سے آپ کے لیے ایک اور سفر میں تبدیل ہوجائے گا۔ آپ کی زبان سے یہ دعا نکلے گی کہ خدایا، میرے سفر کو تو جنت کا سفر بنادے۔
ہماری گاڑی دہلی کی سڑکوں سے نکل کر آگے بڑھی تو ایک مقام پر سڑک کے کنارے ایک ٹرک الٹا ہوادکھائی دیا۔ یہ ٹرک سامان سے لدا ہوا تھا اور ڈرائیور کی کسی غلطی کی وجہ سے الٹ گیا۔ اب دوڑنے والا ٹرک سڑک کے کنارے اُلٹا ہوا پڑا تھا۔ منزل پر پہنچنے کے بجائے درمیان ہی میں اس کا سفر ختم ہوگیا۔ میں نے سوچا کہ انسانی زندگی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہر انسان اپنی زندگی کی گاڑی دوڑا رہا ہے مگر صرف اسی کی گاڑی منزل مقصود پر پہنچتی ہے جو ہوش مندی کے ساتھ اپنا سفر طے کرے۔ جو لوگ ہوش مندی کا ثبوت نہ دیں، ان کا انجام یہی ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کی گاڑی کسی حادثہ کا شکار ہوجائے اور ان کا خواب پورا ہونے سے پہلے بکھر جائے۔
سڑک دہلی سے میرٹھ تک مسلسل خراب نظر آئی۔ ہم جس گاڑی سے آئے وہ ایک نئی گاڑی تھی مگر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم کسی نا ہموار راستہ سے بیل گاڑی میں سفر کررہے ہیں۔ چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ کا راستہ تین گھنٹہ میں طے ہوا۔
ہمارے ملک میں اکثر سڑکوں کا کم وبیش یہی حال ہے۔ اس کا واحد سبب کرپشن ہے۔ میں نے بار بار مغربی ملکوں کا سفر کیا ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ہر جگہ نہایت عمدہ سڑکیں بنی ہوئی ہیں جن کے اوپر گاڑیاں پوری رفتار کے ساتھ دوڑتی ہیں۔
اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ وہاں کرپشن جیسی چیزیں نہیں ہیں۔ وہاں بھی کرپشن موجود ہے۔ مگر ان کا کرپشن عقلمندی کے ساتھ ہے، نہ کہ بے وقوفی کے ساتھ۔ مثلاً انہوں نے بلا اعلان یہ طے کر رکھا ہے کہ ترقی کے لیے سب سے بڑی چیز انفراسٹرکچر ہے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کرپشن کرتے ہیں مگر انفراسٹرکچر کی قیمت پر نہیں۔ وہ سڑک ،ٹیلی فون، بجلی اور اس طرح کی دوسری چیزیں اعلیٰ معیار کی بنائیں گے۔ وہ کسی بھی وجہ سے اس کے معیار میں کمی نہیں کریں گے۔ پھر اس کے بعد اپنے ذاتی مفادکے لیے جو کچھ کرنا ہے کریں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ وہ قومی مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اور ذاتی مفاد کو مؤخر۔ بدقسمتی سے یہ اسپرٹ ہمارے ملک میں نہیں۔
سفر کرتے ہوئے ہم لوگ وہاں پہنچے جس کو میرٹھ۔ہاپوڑ بائی پاس کہاجاتا ہے۔ یہاں الرسالہ کے قارئین کی ایک جماعت ہمارے انتظار میں کھڑی ہوئی تھی۔ مثلاً مولانا محمد عرفان قاسمی صاحب، ساجد خاں صاحب، شہزاد علی صاحب، وغیرہ۔
عام طور پر سیاسی لیڈروں کا حال یہ ہے کہ جب وہ اس طرح کسی مقام پر پہنچیں اور وہاں لوگ ان کے استقبال کے لیے کھڑے ہوں تو اس منظر کو دیکھ کر وہ فخر کے جذبات سے بھر جاتے ہیں۔مگر میرا حال برعکس طورپر یہ ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ شکر کے آنسو تھے۔ میں نے سوچا کہ پچھلے زمانہ میں کبھی ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔ موجودہ زمانہ میں موبائل ٹیلیفون نے اس کو ممکن بنا دیا ہے۔ موبائل ٹیلیفون اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ آپ کسی بھی مقام سے کسی بھی مقام کے لوگوں کو اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، حتٰی کہ آپ سفر میں ہوں تب بھی۔ چنانچہ سفر کے دوران موبائل ٹیلیفون کے ذریعہ ہمارا رابطہ قارئین الرسالہ کے مذکورہ افرادسے جاری رہا۔دوران سفر اس ٹیلیفونی رابطہ کا نتیجہ تھا کہ جب ہماری گاڑی مذکورہ بائی پاس پر پہنچی تو وہاں الرسالہ کے قارئین پیشگی طور پر ہماری رہنمائی کے لیے موجود تھے۔
میرٹھ کی پر ہجوم سڑکوں سے گذرتے ہوئے ہمارا قافلہ جناب محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر پہنچا۔ اس وقت تقریباً ۹ بج چکے تھے۔ یہاں صبح کا ناشتہ کیا گیا۔ دہلی سے میں نے محمد ساجد خاں صاحب کو ٹیلیفون کیا تھا کہ ہم لوگ ۶ ستمبر کو صبح کا ناشتہ آپ کے یہاں کریں گے۔ مگر ناشتہ سادہ ہونا چاہئے۔ محمد ساجد خاں صاحب نے اس کا پورا لحاظ کیا اور میری پسند کے مطابق سادہ قسم کا ناشتہ کرایا۔اس کے بعد میرٹھ کا پہلا پروگرام شروع ہوا۔
ساجد خاں صاحب کے مکان کی اوپر کی منزل پر ہال نما کمرہ میں لوگ اکھٹا ہوگئے۔ یہاں مائک کا بھی انتظام تھا۔ پہلے مولانا محمد عرفان قاسمی نے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی تقر یر میں الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ اس تعارف کے دوران انہوں نے ایک بات یہ کہی کہ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو ہر مسلمان کے انفرادی معاملات درست ہیں۔ مگر مسلمانوں کے اجتماعی معاملات بگڑے ہوئے ہیں۔ اس فرق پر غور کیجئے تو اس میں ہمارے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ یعنی مسلمان اپنے ذاتی مسئلہ کو جس فارمولا کو اختیار کرکے حل کئے ہوئے ہیں اسی فارمولا کو وہ ملت کے اجتماعی مسائل کے حل کے لیے استعمال نہیں کرتے۔ یعنی حالات زمانہ کی رعایت۔ اس دہرا روش کو بدل دیا جائے تو سارے مسائل اپنے آپ حل ہو جائیں گے۔
میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ انسانی تاریخ خدائی قانون کے تحت چل رہی ہے۔ کوئی بھی شخص اس قانون کو بدلنے پر قادر نہیں۔ وہ قانون یہ ہے کہ تاریخ ہمیشہ آگے کی طرف جائے، وہ کبھی پیچھے کی طرف اپنا سفر شروع نہ کرے۔ میں نے کچھ مثالیں دے کر بتایا کہ یہ خدائی قانون ہمارے حق میں بار بار درست ثابت ہوا ہے۔ مثلاً ۱۹۴۷ سے پہلے میں اپنی نوجوانی کی عمر میں یہ سنا کرتا تھا کہ ملک کے کچھ کٹّر لوگوں کا یہ منصوبہ ہے کہ وہ آزادی کے بعد ہندستان کو دوسرا اسپین بنائیں۔یعنی یہاں سے مسلمانوں کا خاتمہ کردینا، جیسا کہ پہلے اسپین میں ہوا۔ اسی مفروضہ ڈر کی بنا پر مسلمان اس انتہائی حد تک گئے کہ انہوں نے سخت ناعاقبت اندیشانہ طورپر ملک کی تقسیم کے غیر فطری فارمولے کا ساتھ دیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برصغیر ہند کے مسلمان جو پہلے ایک واحد ملت تھے وہ آج چار ٹکڑوں میں بٹ گئے—بھارت، پاکستان، بنگلہ دیش اور کشمیر۔
مگر حالات بتاتے ہیں کہ یہ مفروضہ سراسر بے بنیاد تھا۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ میں بھارت کے اندر مسلمانوں کی تعداد چھ کروڑ تھی اور اب ہندی اخبار دینک جاگرن کی رپورٹ کے مطابق، یہاں مسلمانوں کی تعداد ۲۲ کروڑ سے زیادہ ہو چکی ہے۔ گویا کہ جو انتہا پسند لوگ تاریخ کی گاڑی کو پیچھے لے جانا چاہتے تھے وہ ہار گئے اور تاریخ آگے بڑھ گئی۔
تقریر کے آخر میں سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ ایک سوال کے جواب میں مولانا محمد عرفان قاسمی نے کہا کہ کسی کو مستقل دشمن سمجھ لینا فطرت کے خلاف ہے۔ اور مسلمانوں کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ اُنہوں نے کچھ لوگوں کو اپنا مستقل دشمن سمجھ لیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر آدمی جو آج بظاہر دشمن نظر آتا ہے وہ مستقبل میں آپ کا دوست بن سکتا ہے۔ اسلام اسی امید کی تعلیم دیتا ہے( فصلت ۳۴)۔ اسلام امید کا مذہب ہے، نہ کہ نا امیدی کا مذہب۔
ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ ایمان جامد ہے یا ترقی پذیر۔ انہوں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ الایمان یزید و ینقص۔ تاہم اکثر علماء کا رجحان یہ ہے کہ ایمان ایک جامد چیز ہے وہ ترقی پذیر چیز نہیں ۔
میں نے کہا کہ اس حدیث کو آپ اس وقت سمجھ سکتے ہیں جب اُس کو آپ قرآن کی آیتوں سے ملاکر دیکھیں۔قرآن کی مختلف آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان بڑھتا رہتا ہے۔ چنانچہ ایمان کو ایک شجر سے تشبیہہ دی گئی ہے جو ایک اضافہ پذیر چیز ہے اور جو نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک پہنچ جاتا ہے۔مگر آدمی کی بے شعوری کے نتیجہ میں ایمان میں نقص بھی واقع ہوتا ہے، جیسا کہ حدیث میں بتایا گیا۔
میں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ انڈیا میں مسلمان تباہ ہورہے ہیں۔ یہاں جو لوگ بیٹھے ہیں ان میں سے ہر شخص سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ سوچیں کہ ۱۹۴۷ سے پہلے ان کے خاندان کی معاشی حالت کیا تھی اور آج ان کے خاندان کی معاشی حالت کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے ہر شخص یہ کہے گا کہ آج ہمارے خاندان کی معاشی حالت ۱۹۴۷ کے مقابلہ میں بہت زیادہ بہتر ہے۔ پھر مفروضہ تباہی کا واقعہ کہاں ہو رہا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ انڈیا میں مسلمانوں کے کچھ مسائل ہیں۔ مگر یہ انڈیا کی بات نہیں بلکہ یہ قانون فطرت کی بات ہے۔ فطرت کے قانون کے تحت مسئلہ زندگی کا لازمی حصہ ہے وہ ہر جگہ موجود رہتا ہے، حتیٰ کہ مسلم حکومت میں بھی۔ مسئلہ کا حل حکیمانہ تدبیر میں چھپا ہوا ہے نہ کہ شکایت اور احتجاج میں۔
میں نے مزید کہا کہ میں ساری دنیا میں سفر کرتا رہتا ہوں، میں نے ساری دنیا کے حالات کا مطالعہ کیا ہے۔ ہر ملک کے لوگوں سے میری ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں ۵۷ مسلم ملک موجود ہیں۔ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ کہتا ہوں کہ انڈیا کے مسلمان دوسرے تمام مسلم ملکوں سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ مثلاً انڈیا میں اس وقت مسلمان ۲۲ کروڑ ہیں۔ یہ تعداد کسی بھی مسلم ملک کی تعداد سے زیادہ ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے بڑا سائنسداں انڈیا میں ہے اور اس کا نام ڈاکٹر عبدالکلام ہے۔ پوری مسلم دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند آدمی ہندستان میں ہے اور اس کا نام عظیم ہاشم پریم جی ہے۔ پوری مسلم دنیا کی سب سے بڑی مسلم کمپنی ہندستان میں ہے اور اس کا نام سِپلَہ ہے۔ پوری مسلم دنیا کی سب سے بڑی مسلم جماعت کا مرکز انڈیا میں ہے اور یہ وہ ہے جو تبلیغی جماعت کے نام سے مشہور ہے۔ پوری مسلم دنیا کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے ہندستان میں ہیں۔ مثلاً مسلم یونیورسٹی علی گڈھ ، دار العلوم دیو بند، ندوۃ العلماء لکھنؤ ،وغیرہ۔
اس کے علا وہ اور بھی کئی چیزیں ہیں جو انڈیا میں موجود ہیں۔ مثلاً انڈیا میں مسلم کمیونٹی کے ساتھ ایک اور بڑی کمیونٹی ہندو کی شکل میں موجود ہے۔ اس بنا پر یہاں مسابقت (competition) کا ماحول قائم ہے۔ اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ترقی صرف اس قوم کو ملتی ہے جس کو مسابقت کے درمیان جینے کا موقع ملے۔ اسی طرح انڈیا میں بیک وقت دو بڑی نعمتیں موجود ہیں، امن اور آزادی۔ دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں یہ دونوں چیزیں بیک وقت موجود نہیں۔ اگر کہیں امن ہے تو آزادی نہیں اور اگر کسی ملک میں آزادی ہے تو امن نہیں۔
اس اجتماع میں تعلیم یافتہ خواتین بھی شریک تھیں ۔ ان کے لیے یہ انتظام کیا گیا تھا کہ ایک علیٰحدہ کمرہ میں لاؤڈاسپیکر اور اسی کے ساتھ وی سی آر لگایا گیا تھا۔ اس طرح وہ ہمارے پروگرام کو پوری طرح سن سکتی تھیں اور دیکھ سکتی تھیں۔
اس اجتماع کے آخر میں مجھے بتایا گیا کہ خواتین مجھ سے کچھ اور جاننا چاہتی ہیں۔ چنانچہ میں وہاں گیا۔ خواتین سے جو باتیں میں نے کیں ان میں ایک بات یہ تھی کہ آج کل اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیاں نکاح کے بعد جب اپنی سسرال جاتی ہیں تو ان کے لیے مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔ اکثر لڑکیاں اس احساس کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں کہ ان کی شادی کامیاب شادی نہیں۔ میں نے کہا کہ لڑکی کے ماں باپ اس کی ذمہ داری عام طورپر سسرال والوں پر ڈالتے ہیں مگر میرے تجربے کے مطابق، اس کی اصل ذمہ داری لڑکی کے ماں باپ پر عائد ہوتی ہے۔
ماں باپ عام طورپر اپنی لڑکی کے بارے میں ایک ہی چیز جانتے ہیں، اور وہ لاڈ پیار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لڑکی کے ساتھ یہ لاڈ پیار (pampering) سب سے بڑی دشمنی ہے۔ یہ ماں باپ اپنی محبت میں یہ بھول جاتے ہیں کہ نکاح کے بعد لڑکی کو جہاں اپنی مستقل زندگی گذارنی ہے وہ لاڈ پیار کا ماحول نہیں ہوگا بلکہ وہاں زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ شادی سے پہلے لڑکی کو یکطرفہ طورپر پیار و محبت مل رہا تھا مگر نکاح کے بعد اس کو جس ماحول میں رہنا ہے وہاں دو اورلو (Give and Take) کا اصول رائج ہے۔
مگر ماں باپ اپنی لڑکی کے ساتھ یہ ظلم کرتے ہیں کہ زندگی کا یہ راز اس کو نہیں بتاتے اور پھر لڑکی اپنی غیر حقیقت پسندانہ تربیت کے نتیجہ میں سسرال میں مسائل سے دوچار ہوتی ہے تو اس کی ذمہ داری سسرال پر ڈال دی جاتی ہے۔ اس معاملہ میں ماں باپ کو چاہئے کہ وہ خود اس کی ذمّہ داری لیں اور لڑکی کو حالات کے مطابق تیار کریں۔
سوالات کے وقفہ کے دوران ایک صاحب نے کچھ انتہا پسند ہندو لیڈروں کا نام لے کر کہا کہ ہندوؤں کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت ہے پھر اس مسئلہ کا حل کیا ہے۔ ہمارے قافلہ کے ایک صاحب مسٹر رجت ملہوترہ بھی اس موقع پر شریک تھے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو دیکھئے ، میں اس سوال کا ایک عملی جواب ہوں۔
میں ایک ہندو فیملی میں پیدا ہوا۔ دو سال پہلے میں ویسا ہی ہندو تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا۔ مگر آج میں پوری طرح بدل چکا ہوں۔ آج میرے دل میں اسلام سے اتنا ہی پیار ہے جتنا کسی مسلمان کو ہوسکتا ہے۔ میرے اندر یہ تبدیلی الرسالہ مشن کی وجہ سے آئی۔ میں پچھلے دو سال سے الرسالہ مشن میں شریک ہوں اور باقاعدہ اسلام کا مطالعہ کررہا ہوں۔ خدا کے فضل سے وہ تمام نفرتیں اور بدگمانیاں میرے دل سے ختم ہوچکی ہیں جو اس سے پہلے میرے اندر موجود تھیں۔ آپ یہ نہ دیکھئے کہ آدمی آج کیسا ہے بلکہ یہ دیکھئے کہ وہ کل کیسا ہوسکتا ہے۔
مولانا محمد عرفان قاسمی صاحب نے الرسالہ مشن کے بارے میں اپنے تأثرات بتاتے ہوئے کہا کہ الرسالہ مشن سمجھنے سے پہلے ہمیں یہ احساس تھا کہ ہم دور زوال کی صفِ آخر کے افراد میں سے ہیں۔ لیکن الرسالہ مشن کو سمجھنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ ہم تو دور عروج کی صفِ اول کے افراد بن سکتے ہیں۔
انہوں نے اپنے تاثرات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ الرسالہ مشن سے مجھے یہ حوصلہ ملا ہے کہ میری زبان سے اکثر یہ جملہ نکل جاتا ہے کہ ہم رجال ونحن رجال۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے پچھڑے پن کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے مفروضہ بڑوں کے خول میں بند ہیں وہ ان سے آگے سوچ نہیں پاتے۔ اس سوچ نے ان کے اندر ذہنی جمود پیدا کردیا۔ یہی ذہنی جمود ان کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک اس ذہنی جمود کو توڑا نہ جائے اس وقت تک موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی ترقی ممکن نہیں۔
مولانا محمد عرفان قاسمی کی باتوں کو سننے کے بعد میں نے کہا کہ آپ نے الرسالہ مشن کو بخوبی طورپر سمجھا ہے اور یہ میرے نزدیک ایک معجزہ سے کم نہیں ۔ میرا تجربہ ہے کہ جو لوگ کسی تعلیمی ادارہ یا کسی جماعتی گروہ کے ساتھ جڑے ہوئے ہوتے ہیں ان کے اندر وہ فکری کمزوری پیدا ہوجاتی ہے جس کو ذہنی کنڈیشننگ (conditioning) کہا جاتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ۹۹ فیصد سے زیادہ لوگ اس کنڈیشننگ میں مبتلا ہیں۔ اس لیے ان کا ذہنی ارتقا بھی رکا ہواہے۔ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت ہے کہ آپ مدرسہ کی باقاعدہ تربیت کے باوجود اپنی کنڈیشننگ کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے۔
دوپہر کا کھانا ساجد خاں صاحب کے مکان پر تھا۔ یہاں کھانے کے بعد دوبارہ بہت سے لوگ اکھٹا ہوگئے اور ان سے مختلف موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر دینی چہل پہل دیکھ کر میں نے کہا کہ یہ گھر تو ایک باغ اسلام معلوم ہوتا ہے۔ معلوم ہوا کہ تقریباً تین سال سے الرسالہ مشن کا ہفتہ وار اجتماع محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ الرسالہ اور مطبوعات الرسالہ کو پھیلانے کا کام بھی یہیں سے چلایا جارہا ہے۔
میرٹھ کے سفر میں بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور بہت سے سبق آموز واقعات معلوم ہوئے۔ ماسٹر محمد چاند انصاری (۴۳) ایک مکینک اور ڈیزائنر ہیں۔ وہ اپنے کام کے ماہر ہیں اور دیانت دار بھی۔ چنانچہ کمپنی میں ان کا بہت احترام کیا جاتا ہے۔ وہ یہاں کی ایک ٹکسٹائل فیکٹری میں سپروائزر ہیں۔ وہ الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ ۵ ستمبر ۲۰۰۳ کو انہوں نے فیکٹری کے مالک پی، سی جین سے بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں کل (۶ ستمبر) کام پر نہیں آؤں گا۔ مسٹر جین انہیں چھٹی دینے پر راضی نہ تھے۔ محمد چاند انصاری صاحب نے جب اصرار کیا تو مسٹر جین نے پوچھا کہ آخر تم کس بات کے لیے کل چھٹی کرنا چاہتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ کل مولانا وحید الدین صاحب میرٹھ آرہے ہیںاور مجھے ان کے پروگرام میں شریک ہونا ہے۔ مسٹر جین نے پوچھا کہ یہ مولانا وحید الدین کون ہیں۔ محمد چاند انصاری صاحب نے کہا کہ آپ ان کو نہیں جانتے۔ یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کے بعد یہ کہا تھا کہ ایک مسجد کو چھوڑ کر اگر انسانیت بچتی ہو تو ہم کو چاہیے کہ ہم مسجد کو بھلا دیں اور انسانیت کو بچالیں۔ یہ سن کر مسٹر جین نے کہا کہ پھر تو تم ضرور ان کے پروگرام میں جاؤ۔
ماسٹر محمد چاند انصاری ۱۹۷۹ سے اس ٹکسٹائل فیکٹری میں کام کررہے ہیں۔ ۱۹۸۲ میں جب میرٹھ میں فساد ہوا تو چار مہینے تک شہر میں کرفیو لگا رہا اس لیے وہ اپنے کام پر نہ جاسکے۔ جب کرفیو کھلا تو وہ فیکٹری گئے۔ اس وقت فیکٹری کے مالک دھرم داس جین زندہ تھے۔ انہوں نے چار مہینے کی تنخواہ دینے سے انکار کردیا۔ اس پر چاند انصاری صاحب نے کہا کہ اگر آپ میری تنخواہ کاٹتے ہیں تو سمجھ لیجئے کہ میں کل سے کام پر نہیں آؤں گا۔ اس کو سننے کے بعد دھرم داس جین نے انہیں پوری تنخواہ دے دی اور ساتھ ہی اپنے بیٹوں سے یہ وصیت کردی کہ دیکھو تم لوگ ان کی تنخواہ کبھی نہ کاٹنا۔ چنانچہ اب دھرم داس جین کا انتقال ہوگیا اور اب ان کی جگہ ان کے بیٹے فیکٹری چلاتے ہیں اور یہ لوگ محمد چاند انصاری صاحب کے ساتھ انتہائی رعایت کا معاملہ کرتے ہیں۔ چاند انصاری صاحب کی مہارت اور دیانت داری پر انہیں اتنا بھروسہ ہے کہ وہ ان کے ساتھ ہمیشہ نرمی اور فیاضی کا معاملہ کرتے ہیں۔ وہ انہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں دیتے۔
میرٹھ شہر دو بڑے حصّوں میں بٹا ہوا ہے، میرٹھ سٹی اور میرٹھ کینٹ۔ میرٹھ سٹی کو قدیم شہر کہہ سکتے ہیں اور میرٹھ کینٹ کو جدید شہر۔ میرٹھ سٹی میں ہندو اور مسلم تقریباً برابر کی تعداد میں ہیں۔ لیکن میرٹھ کینٹ میں ہندو حضرات کی تعداد زیادہ ہے اور مسلمان کی تعداد کم۔ دونوں کے درمیان چلتے ہوئے یہ فرق نظر آیا کہ میرٹھ سٹی یا قدیم میرٹھ میں زیادہ تر گھنی آبادی ہے۔ اسی بنا پر وہ مسائل کا مجموعہ ہے۔ اس کے برعکس میرٹھ کینٹ یا جدید میرٹھ کافی کھلا ہوا ہے۔ یہاں کی سڑکیں چوڑی ہیں۔ یہاں سر سبزی بھی کافی دکھائی دیتی ہے۔
میرٹھ شہر کے بارے میں مشہور ہے کہ یہاں اکثر فرقہ وارانہ فساد ہوتا رہتا ہے۔ مگر یہ فساد میرٹھ سٹی میں ہوتے ہیں۔ غالباً کوئی فساد اب تک میرٹھ کینٹ میں نہیں ہوا۔
۶ ستمبر ۲۰۰۳ کی شام کو ۵ بجے میرٹھ کینٹ کے علاقے میں ایک پبلک جلسہ ہوا ۔یہ جلسہ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ہوٹل مینیجمنٹ کے ہال میں تھا۔ اس جلسہ کا انتظام گیان پریشد کی طرف سے کیا گیا تھا جس کے کنوینر ڈاکٹر کے۔ سی گپتا تھے اور اس کے صدر جسٹس نریندر سروپ گپتا رٹائرڈ جج (الٰہ آباد ہائی کورٹ) تھے۔
اس جلسہ میں شہر کے تعلیم یافتہ ہندو بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ایک ہندو نے کہا کہ یہاں شہر کا پورا الیٹ کلاس موجود ہے۔ اس جلسہ کا واحد مقرر میں ہی تھا۔ پورا ہال بھرا ہوا تھا۔ مجھے تقریر کے لیے جو موضوع دیا گیا وہ تھا ’’اسلام اور آتنک واد‘‘۔ میں نے تقریباً سوا گھنٹے تقریر کی۔ میں نے کہا کہ اسلام کے ساتھ آتنک واد کو جوڑنا ایک کنفیوژن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ حضرات اگر اس حقیقت کو جان لیں کہ اسلام ایک اصولی تعلیم کا نام ہے اور مسلمان وہ لوگ ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اسلام کو ماننے والے ہیں۔ ایسی حالت میں اصل معیار اسلام ہے، نہ کہ مسلمان۔ مسلمانوں کے عمل کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں جانچا جائے گا،نہ کہ اسلام کو مسلمانوں کے عمل کی روشنی میں۔
اس کے بعد میں نے قرآن و حدیث اور سیرت رسول کی روشنی میں بتایا کہ اسلام امن اور محبت اور خیر خواہی اور انسانیت اور اخلاق اور روحانیت کا مذہب ہے۔ جہاں تک قتال یا جنگ کاتعلق ہے، وہ اسلام میں صرف دفاع کے لیے ہے۔ جارحیت کے خلاف دفاع کے سوا کسی اور مقصد کے تحت لڑائی اسلام میں جائز نہیں۔
مزید یہ کہ دفاعی جنگ کی بھی بہت سی لازمی شرطیں ہیں۔ مثلاً دفاعی جنگ بھی باقاعدہ طورپر قائم شدہ حکومت لڑسکتی ہے۔ کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے جنگ لڑنا کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ غیرحکومتی افراد کو اگر کوئی شکایت ہے تو ان کے لیے صرف دو ر و ّیوں میں سے ایک رویّہ کا انتخاب ہے۔ یا تو وہ صبر کریں یا مکمل طورپر پر امن رہتے ہوئے اپنے مطلوب کے لیے کوشش کریں۔
میری تقریر کے خاتمہ پر کچھ لوگوں نے سوالات کئے جن کا جواب میں نے مختصر طورپر دیا۔ یہ سوالات زیادہ تر منفی ذہن کی نمائندگی کرتے تھے۔ مگر قابل ذکر بات یہ ہے کہ اسٹیج پر جو دو ممتاز ہندو صاحبان تھے انہوں نے مکمل طورپر میری تقریر کی تائید کی۔ صدر جلسہ جسٹس نریندر سروپ گپتا نے میری تائید کرتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ مسلم ٹررسٹ کی بات کرتے ہیں۔ میں جج کی حیثیت سے ساری عمر کریمنل کیس کرتا رہا ہوں۔ خاص طورپر وہ کیس جن کو ٹررسٹ ریلیٹڈ کیس (terrorist related cases) کہا جاتا ہے۔ میں اپنے ذاتی تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ ان ماخوذ لوگوں میں اکثریت ہندو لوگوں کی ہوتی تھی۔ جسٹس گپتا نے جج کی حیثیت سے میرے خیالات کی تائید کی۔
اسی طرح کنوینر ڈاکٹر کے۔سی گپتا نے اپنی تقریرمیں مکمل طور پر میرے خیالات کی تائید کی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگوں کو سنی سنائی باتوں پر یقین نہیں کرنا چاہئے ۔ باقاعدہ مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے بنانی چاہئے۔
کئی لوگوں نے بتایا کہ ہندو سامعین کی اکثریت میری تقریر کے وقت سر ہلا ہلا کر اس کی تائید کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ خطاب کے بعد جب چند افراد نے منفی انداز میں سوالات کئے تو سامعین کی طرف سے ان کی حوصلہ شکنی کی گئی۔ کئی ہندو یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ مولانا صاحب ،ہمارے سوالات کے جوابات پہلے ہی دے چکے تو پھر تم دوبارہ وہی بات کیوں پوچھتے ہو، وغیرہ۔
۶ ستمبر کی رات کا کھانا محمد ساجد صاحب کے مکان پر تھا۔کھانے کے بعد دوبارہ کئی ہندو اور مسلمان ہماری قیام گاہ پر اکٹھا ہوگئے۔ ان سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔۶ ستمبر کی شام کے کھانے میں مسلمانوں کے ساتھ کئی ہندو بھی شریک تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ یہ علامتی طورپر گویا مستقبل کے ہندستان کی ایک تصویر ہے۔ یعنی وہ ہندستان جب کہ مسلمان اور ہندو دونوں بھائی بھائی کی طرح مل کر رہیں گے۔ وہ ایک ساتھ بیٹھیں گے اور ایک ساتھ کھانا کھائیں گے۔
جب ایسا ہوگا تو یہ صرف سماجی معنوں میں میل ملاپ کا واقعہ نہ ہوگا بلکہ وہ ایک ایسا انٹر یکشن ہوگا جو فطری انداز میں دین حق کے تعارف کا ذریعہ بن جائے گا۔
اسلامی تاریخ کے مطالعہ سے میں نے پایا ہے کہ اسلام کا سب سے زیادہ تعارف جس ذریعہ سے ہوا وہ نارمل ماحول میں انٹریکشن یا باہمی اختلاط سے ہوا۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا اختلاط جب بھی ہوا وہ اسلام کے تعارف کا باعث بنا۔ ہمارے مشن کا خاص مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں اور غیرمسلموں کے درمیان کھلے ماحول میں پر امن ڈائیلاگ ہونے لگے۔
۶ ستمبر کی شام کو خطاب کے بعد دو مختلف واقعات پیش آئے۔ ایک یہ کہ سامعین میں سے ایک ہندو نے کہا کہ آج آپ کو سن کر پیغمبر صاحب کے بارے میں بہت کچھ جانکاری ہوئی۔ اس کے برعکس ایک زیادہ عمر کے مسلمان میرے پاس آئے اور اُنہوں نے میرے کان میں کہا کہ آپ نے رسول اللہﷺ کا نام ہی نہیں لیا۔
میں نے سوچا کہ ایک ہی تقریر کے بارے میں دو بالکل مختلف رائے کیوں ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے اپنی تقریر میں بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے دئے اور حدیثیں سنائیںجس کا اعتراف مذکورہ ہندو نے کیا۔ پھر مسلمان نے ایسا کیوں کہا کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو نام ہی نہیں لیا۔اس پر سوچتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ مسلم مقررین نے ایک خود ساختہ روایت قائم کی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیش آیا۔
ہمارے مقررین جب اسٹیج پر آتے ہیں تو وہ ایسا کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے سے پہلے بہت سارے القاب و آداب شامل کرتے ہیں۔ مثلاً آقائے مدنی، سرور کائنات، محبوب خدا ،سرکاردوعالم، شہنشاہ کونین، وغیرہ۔ حالاں کہ صحابہ اور تابعین اور عہد اوّل کے علماء کا طریقہ ایسا نہ تھا۔میں اللہ کے فضل سے ہر معاملہ میں قرآن و سنت اور صحابہ اور تابعین کے مسلک کی پیروی کرتا ہوں۔میرا معیار وہ دور ہوتا ہے جس کو قرون مشہود لہا بالخیر کہا گیا ہے۔ مگر موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لیے یہ طریقہ اجنبی بن گیا ہے۔ وہ صرف آج کل کے مقررین کے مصنوعی طریقوں ہی سے مانوس ہیں، وہ میرے انداز کو سمجھ نہ سکے۔ شاید یہ بھی اس معاملہ کا ایک پہلو ہے جس کو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’بدأ الاسلام غریباً و سیعود کما بدأ‘‘۔
اس حدیث میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانہ میں اسلام اجنبی ہوجائے گا۔ غالباً اجنبی ہونے کا یہ بھی ایک پہلو ہے کہ لوگ دور اوّل کے اسلوب سے غیر مانوس ہوجائیں، وہ اس اہمیت کو سمجھنے سے عاجز رہیں۔
۶ ستمبر کی شام کو جب ہم لوگ میرٹھ کینٹ کی ایک سڑک سے گزر رہے تھے تو وہاں ایک جگہ چوراہے پر ایک ٹینک رکھا ہوا نظر آیا۔ لوگوں نے بتایا کہ یہ ایک پاکستانی ٹینک ہے۔ ۱۹۶۵ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان جو لڑائی ہوئی تھی اس میں یہ ٹینک پکڑا گیا تھا اور اس کو یہاں لاکر رکھا گیا۔ اس ٹینک کے اوپر اردو میں موٹے حرفوں میں یہ لکھا ہوا تھا، شانِ خیبر، ۹۹۱۹۶۷۔
ڈاکٹر کرشن کمار گپتا (۶۶ ) سے ملاقات ہوئی۔ وہ آج کل اردو سیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے ملاقات میں کئی باتیں بتائیں۔میری ایک کتاب کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس میں میں نے ایک حدیث پڑھی ہے جس سے مجھے جھوٹ کی ایک نئی قسم معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی کوئی بات سنے اور تحقیق کے بغیر اس کو پھیلانے لگے۔ اس حدیث کے عربی الفاظ یہ ہیں :کفیٰ بالمرء کذباً ان یحدث بکل ما سمع۔
۷ ستمبر ۲۰۰۳ کی صبح کو ایک صاحب مقامی ہندی اخبارات لے آئے۔ اُن میں کل شام کے پروگرام کی رپورٹنگ تھی۔ ہندی روزنامہ امر اجالا نے صفحہ ۶ پر تقریر کی تفصیلی رپورٹ شائع کی تھی۔ اس رپورٹ کا عنوان یہ تھا کہ ’’مولانا وحید الدین خود بھی روئے اور لوگوں کو بھی رلایا‘‘۔
۷ ستمبر کی صبح کو میری قیام گاہ پر کچھ مسلمان بیٹھے ہوئے تھے۔ اس موقع پر ان بعض ہندوؤں کا ذکر ہوا جنہوں نے کل شام کے جلسے میں کچھ ٹیڑھے قسم کے سوالات کئے تھے۔ ایک صاحب نے کہا کہ جلسہ کے بعد میری ملاقات اسی قسم کے ایک ہندو سے ہوئی۔ یہ ہندو کل شام کے جلسہ میں بظاہر بہت معاندانہ انداز میں بول رہا تھا۔ مگر جلسہ کے بعد وہ آپ کے سامنے آیا اور آپ کو پرنام کیا۔ پھر میں اُس سے ملا تو اُس نے مجھ سے نارمل انداز میں بات کی۔ یہ قصّہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں کا یہ مزاج ہوتا ہے کہ وہ جب کسی میٹنگ میں آتے ہیں تو صرف بولنے کے لیے بولتے ہیں، ورنہ ان کے دل کے اندر کچھ بھی نہیں رہتا۔
اس معاملہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس قسم کے افرادکے دل میں شکایت کا لاوا بھرا ہوا ہے۔ ان کو ایک ایسا موقع مل جاتا ہے جہاں وہ اپنے لاوے کوباہر لا سکتے ہیں۔ اس طرح یہ ہوتا ہے کہ ان کے دل کی بھڑاس نکل جاتی ہے۔
مولانا محمد عرفان قاسمی (۴۲) دار العلوم دیوبند سے فارغ ہونے کے بعد میرٹھ میں مقیم ہوگئے۔ وہ ۱۹۸۰ سے الرسالہ کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ان کی رہنمائی میں یہاں ہفتہ وار درس بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنا تاثر بتاتے ہوئے کہا کہ الرسالہ فکر کو سمجھنے سے پہلے ہمارا خیال تھا کہ ہم تاریخ کے صرف معمول ہیں۔ لیکن الرسالہ فکر کو سمجھنے کے بعد احساس ہوا کہ ہم تاریخ ساز کردار ادا کرسکتے ہیں۔
۷ ستمبر کی صبح کو ڈاکٹر کے۔ سی گپتا کی رہائش گاہ (میرٹھ کینٹ) پر ایک اجتماع ہوا جس میں تعلیم یافتہ حضرات شریک ہوئے۔ جسٹس نریندر سروپ گپتا بھی اس میں موجود تھے، کچھ ریٹائرڈ فوجی بھی شریک تھے۔ یہاں مختلف موضوعات پر اظہار خیال ہوا۔ لوگوں کے سوال پر الرسالہ مشن کا تعارف کرایا۔ میں نے کہا کہ ہمارا مشن خاص طورپر امن اور اتحاد کا ماحول قائم کرناہے۔ امن کے ماحول کے بغیر کوئی بھی کام نہیں کیا جاسکتا ، نہ مذہبی اور نہ غیر مذہبی۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ ہمارے ملک میں جو کمیاں ہیں ان سب کی جڑایجوکیشن کی کمی ہے۔ صحیح ایجوکیشن آدمی کے ذہن کو بیدار کرتی ہے۔ وہ آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باتوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھے اور درست رائے قائم کرے۔
اس سفر میں میرٹھ کا بازار دیکھنے کا موقع ملا۔ سب سے پہلے ہم لوگ موڈرن فوٹو اسٹوڈیو میں گئے جس کے مالک مسٹر پرویز عالم ہیں۔ انہوں نے ایک سوال کیا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تصویر حرام ہے۔ آپ بتائیے کہ اس کا مسئلہ کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اسلام میں صرف دو چیزیں حرام ہیں—خدا سے نڈر ہوجانا اور انسان سے نفرت کرنا۔ آپ صرف یہ کیجئے کہ ان دو پہلو سے اپنے دل کو ٹٹولتے رہیے کہ یہ دو باتیں آپ کے دل میں ہیں یا نہیں۔ اگر آپ پائیں کہ آپ ان دو معیاروں پر پورے اتررہے ہیں تو آپ کا معاملہ درست ہے اور اگر آپ اس معاملہ میں پورے نہ اتر رہے ہوں تو آپ کا معاملہ درست نہیں ہے۔
اس کے بعد ہم لوگ جناب محمد ساجد خاں صاحب کی دکان پر گئے جس کا نام ہائی وے ٹیلرس ہے۔ یہ ایک خوبصورت دکان تھی جو یہاں کے مین روڈ پر واقع ہے۔ مارکیٹ کے کچھ ہندو تاجر بھی میرے آنے کی خبر سن کر یہاں آگئے۔ اُن میں سے تین کے نام یہ ہیں، نریندر باش جین، امت، پنکی جین۔ یہ تینوں کپڑے کے تاجر ہیں۔ یہاں میں نے مختصر طورپر بتایا کہ اسلام کیا ہے۔ اسلام کا مطلب لڑائی بھڑائی نہیں ہے بلکہ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ آدمی لوگوں کے درمیان امن اور اتحاد کے ساتھ زندگی گذارے۔
یہاں سے واپس ہو کر ہم لوگ محمد ساجد صاحب کے مکان پر پہنچے۔ یہاں دوبارہ کافی لوگ اکھٹا ہوگئے اور ان سے باتیں ہوتی رہیں۔ جناب شہزاد علی صاحب الرسالہ کے قاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ الرسالہ کے مطالعہ سے اُس کا خلاصہ میں نے یہ سمجھا ہے کہ مخلوق سے ہجرت کرکے خالق تک پہنچنا۔
۷ ستمبر کی شام کو چار بجے محمد ساجد خاں صاحب کے مکان پر ایک اجتماع ہوا۔ اس موقع پر مختصر انداز میں اسلامی تعلیمات کی وضاحت کی۔
ماسٹر نفیس احمد انصاری الرسالہ کے مستقل قاری ہیں۔ انہوں نے اپنا تأثر بتاتے ہوئے کہا کہ مولانا صاحب کا میرٹھ کا دو روزہ دورہ اپنے مقصد میں ہر اعتبار سے کامیاب رہا۔ایم ساجد انصاری بھی الرسالہ کے قاری ہیں۔ انہوںنے اپنا احساس بتایا کہ آپ کے دورہ سے پہلے میرا خیال تھا کہ میرٹھ میں ہمارا یہ دعوت کا کام آہستہ آہستہ ہور ہا ہے۔ لیکن آپ کے آنے کے بعد یہ محسوس ہوا کہ انشاء اللہ اب یہ کام بہت تیز رفتار ہوگا۔
ایک بار کھانے کے وقت ایک صاحب نے کھانے کے ٹیسٹ کے بارے میں کوئی بات کہی۔ میں نے کہا کہ ہر سال روزہ کا تجربہ اہل ایمان کو اس لیے کرایا جاتا ہے کہ وہ یہ جانیں کہ کھانے کی اصل لذت مسالہ جیسی چیزوں میں نہیں ہے بلکہ اس میں ہے کہ آدمی کو بھوک کا تجربہ ہو اور پھر وہ کھانا کھائے اور پانی پئے۔ اسی حقیقت کو بنجیمن فرینکلن (Benjamin Franklin) نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے— دنیا میں سب سے اچھی چٹنی بھوک ہے:
The best sauce in the world is hunger.
۶ ستمبر ۲۰۰۳ کے ٹائمس آف انڈیا میں پہلے صفحہ پر ایک مغربی لیڈر ول راجرس (Will Rogers) کا قول چھپا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم نے سچائی کو سیاست میں داخل کیا تو تم کبھی کامیاب سیاست داں نہ بن سکو گے:
If you ever injected the truth into politics, you would have no politics.
سیاست کے بارہ میں اس قسم کاتصور ہمیشہ سے لوگوں کے اندر موجود تھا لیکن اس کو ایک باقاعدہ نظریہ کے طورپر جدید مغرب میں پیش کیاگیا اور اب ساری دنیا میں یہ حال ہے کہ جوآدمی سیاست میں داخل ہوتا ہے وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اسی نظریہ کو اختیار کر لیتا ہے۔ اس معاملہ میں سب سے زیادہ افسوس ناک مثال ان لوگوں کی ہے جو اسلام پسند سیاست داں کہے جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی نام نہاد اسلامی سیاست کو اسی انداز پر چلا رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کی اسلامی سیاست ساری دنیا میں عملاً اسلام کے نام پر تخریب کاری کے ہم معنٰی بن گئی ہے۔
۶ستمبر ۲۰۰۳ کے ٹائمس آف انڈیا کے صفحہ ۴ پر دہلی کے بارے میں ایک خبر تھی۔ اس کا عنوان یہ تھا۔ اب دہلی میں پیدل چلنے والوں کے لیے صاف اور ہرے بھرے راستے:
Now, clean, green walkways for city.
میں دہلی میں ۱۹۶۷ سے رہتا ہوں۔ اس وقت سے اب تک برابر یہ منظر دکھائی دیتا رہا ہے کہ فٹ پاتھ کو توڑ پھوڑ کر اس کو پختہ بنانا۔ پہلے فٹ پاتھ کو اینٹ کے ذریعہ پختہ کیا گیا پھر اُس کو توڑ کر فٹ پاتھ پر پتھر لگائے گئے۔ پھر اس کو توڑ کر ٹائل لگائی گئی۔ پھر سیمنٹ کنکریٹ (concretisation) کا نظریہ اختیار کیا گیا۔ اب خبر کے مطابق، ڈی کنکریٹ(de-concretisation) کا طریقہ اختیار کیا جانے والا ہے۔
اصل یہ ہے کہ فٹ پاتھ کو مکمل طورپر پختہ کرنے کے بعد یہ نقصان ہوا کہ بارش کا پانی جو پہلے زمین کے نیچے چلا جاتا تھا وہ سطح کے اوپر سے بہہ کر باہر جانے لگا ۔ اس طرح بارش کے پانی کا دوبارہ استعمال بہت کم ہوگیا۔ اب ہمارے افسران نے یہ طے کیا ہے کہ موجودہ پختہ فٹ پاتھ کو توڑ کر وہاں نئے قسم کے ٹائل لگائے جائیں۔ ان ٹائلوں میں ایک طرف سوراخ رکھا جائے جس سے بارش کا پانی اندر داخل ہوسکے اور دوسری طرف ٹائلوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑ کر وہاں گھاس اگائی جائے۔ اس طرح فٹ پاتھ بیک وقت بارش کے پانی کو بہہ جانے سے بچائے گا اور اسی کے ساتھ فٹ پاتھ پر سرسبز مناظر بھی دکھائی دینے لگیں گے۔ یہ طریقہ وہی ہے جس کو فرانس کے شہر لیان (Lyon) میں مختلف تجربات کے بعد آخر میں اختیار کیا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کی منصوبہ بندی کتنی ناقص ہے۔ اس کے برعکس خالق کی منصوبہ بندی کائنات میں اتنی مکمل ہے کہ ایک بار بنانے کے بعد خالق کو یہ ضرورت پیش نہیں آئی کہ وہ کائنات کی از سر نو منصوبہ بندی کرے: فتبارک اللہ احسن الخالقین (المومنون ۱۴)
۶ ستمبر کے ٹائمس آف انڈیا میں ایک خبر ہندی روزنامہ دینک بھاسکر کے بارے میں تھی۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ اس وقت آٹھ ریاستوں میں دینک بھاسکر کے اکیس ایڈیشن نکلتے ہیں۔ ہر دن اس کی جو تعداد چھپ کر فروخت ہوتی ہے وہ مجموعی طورپر ۲۴ لاکھ ہے۔
میں نے کہا کہ مسلمان ہر معاملہ میں دوسروں کی شکایت کرتے ہیں، حالانکہ انہیں اپنی کوتاہیوں کو جان کر اس کو درست کرنا چاہئے۔ موجودہ زمانہ میں اخبار بہت بڑی طاقت مانا جاتا ہے۔ مگر ہندستان میں مسلمانوں کا کوئی ایک بھی ایسا اخبار نہیں جس کی روزانہ اشاعت اتنی زیادہ ہو۔ ایسے حالات میں اگر اس ملک میں مسلمانوں کا کیس ایک کمزور کیس بن جائے تو اس کی شکایت انہیں اپنے آپ سے کرنا چاہیے، نہ کہ دوسروں سے۔
۷ ستمبر ۲۰۰۳ کے ٹائمس آف انڈیا کا ایڈیٹوریل اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون (Ariel Sharon)کے دورۂ ہند کے بارہ میں تھا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ اسرائیل کا کوئی وزیر اعظم انڈیا کے سرکاری دورہ پر آرہا ہے۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے اخبار نے لکھا تھا کہ ہم دنیا کو یہ بتا سکتے ہیں کہ فلسطینیوں کی تحریک اپنے اسٹیٹ کے اقدام کے لیے ہے جس کی جڑیں خود اختیاری کے مسلّمہ اصول میں ہیں جب کہ اسرائیل کی کارروائیاں یہودی ریاست کی توسیع کے اصول پر مبنی ہیں:
We could tell the world that Palestinion aspirations for a state of their own were rooted in the Principle of self-determination while Israeli actions testified to the Jewish state's vile, self-aggrandising ambitions.
یہ بات بالکل درست ہے۔ اس کے باوجود فلسطینیوں کی تحریک ناکام کیوں ہے۔ اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے—صحیح مقصد کے لیے غلط طریقہ اختیار کرنا۔ فلسطینیوں کے لیے لازم تھا کہ وہ اپنی تحریک کو پوری طرح پُر امن طریق کار کے اصول پر چلائیں۔ مگر یہ عرب لیڈروں کی سنگین غلطی تھی کہ اُنہوں نے فلسطینی تحریک کو تشدد کی بنیاد پر چلایا۔
یہ غلطی اتنی عام ہوئی کہ ساری دنیا کے علماء اور رہنما اس معاملہ میں عربوں کے مسلّح موقف کے حامی بن گئے۔ مسلم دنیا میں میں اکیلا تھا جس نے اس پالیسی کو غلط بتایا۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی دوسرا عالم یا غیر عالم اس معاملہ میں فلسطینیوں سے یہ نہ کہہ سکا کہ تم اپنی تحریک کو پُر امن دائرہ میں رہ کر چلاؤ۔ اب تشدد کے جواب میں جب فریق ثانی کی طرف سے جوابی تشدد کا معاملہ پیش آرہا ہے تو یہ تمام لوگ ظلم اور سازش کی فریاد کررہے ہیں۔
ایک مسلمان بزرگ نے اپنے یہاں کھانے پر بُلایا۔ میں اور میرے ساتھی وہاں پہنچے تو ایک بڑے کمرہ میں دستر خوان بچھا ہوا تھا۔ میں نے تاکید کی تھی کہ کھانا بالکل سادہ ہونا چاہیے۔ مذکورہ بزرگ نے اس کی رعایت کی۔ مگر جب ہم لوگ کھانا کھا چکے تو ’’سویٹ ڈش‘‘ لائی گئی۔ یہ نہایت خوشبودار کھیر تھی۔ میں نے صاحب خانہ سے کہا کہ مسلمان ابھی تک کھانے کے اصول کو نہیں جانتے۔ وہ صرف لذیذ کھانے کو کھانا سمجھتے ہیں۔ حالانکہ کھانے کا اصل مقصد تغذیہ (nutrition) ہے، یعنی متوازن خوراک لینا۔ میں نے کہا کہ آپ کے گھر کی خواتین نے کئی گھنٹہ کی محنت کے بعد یہ کھیر تیار کی ہوگی۔ مگر غذائی اعتبار سے اس کا فائدہ بہت کم ہے۔ میں نے کہا کہ میں نے یہاں کے بازار میں دیکھا کہ لوگ جگہ جگہ تازہ امرود بیچ رہے ہیں۔ آپ کے لیے زیادہ اچھا یہ تھا کہ آپ مہنگی کھیر کے بجائے یہ سستے امرود بازار سے لاتے اور اس کو خود بھی کھاتے اور دوسروں کو بھی کھلاتے۔ مگر بد قسمتی سے مسلمان بریانی اور مرغا کو کھانا سمجھتے ہیں۔ کھانے کے سائنٹفک تصور سے وہ ابھی تک واقف نہیں۔
جس دن مجھے میرٹھ جانا تھا اس سے صرف ایک دن پہلے میری ایک تازہ کتاب چھپ کر آئی۔ اُس کا موضوع مذہب پر عقلی استدلال ہے۔ وہ ۴۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اُس کا نام یہ ہے:
In Search of God
میرے ساتھیوں نے اس کتاب کے کچھ نسخے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔ میرٹھ میں اُنہوں نے اس کتاب کو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں تقسیم کیا۔ کتاب کے ٹائٹل پر ایک مفکر کے یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے۔علم کی کمی آدمی کو خدا سے دور کردیتی ہے، زیادہ علم آدمی کو خدا کی طرف واپس لاتا ہے:
A smattering of knowledge turns people away from God. Greater knowledge brings back to Him.
۶ ستمبر کی شام کو پروگرام کے خاتمہ پر جب میں ہال سے باہر نکلنے لگا تو ایک صاحب نے اپنی ایک تحریر مجھے دی۔ اس تحریر کے نیچے محمد علی زیدی کا نام درج تھا۔ اس میں کچھ سوالات درج تھے مگر سب کے سب غیر واضح تھے۔ ایک سوال اُن کے اپنے الفاظ میں یہ تھا: شاہ بانو کیس شریعت کی تشریح کا معاملہ تھا—اجودھیا میں بابری مسجد کا کیس حقِّ ملکیت سے شروع ہوا ہے۔
سوچنے کا یہ طریقہ میرے نزدیک غیر منصفانہ ہے۔ ایک مسلمان کو اگر یہ کہنے کا حق ہے کہ اجودھیا کا معاملہ مسلمان کے لیے شریعت کا معاملہ ہے اور ہندو کے لیے وہ آستھا کا معاملہ ہے۔ اگر کوئی مسلمان ایسا کہے تو اُس کو یہی حق ہندو کو بھی دینا ہوگا۔ اس منطق کے مطابق، ہندو یہ کہیں گے کہ اجودھیا کا معاملہ ہمارے لیے عقیدہ کا معاملہ ہے اور مسلمانوں کے لیے وہ بے جا قبضہ کا معاملہ۔ اس طرح کی باتوں سے اجودھیا کا مسئلہ کبھی حل ہونے والا نہیں۔ اُس کے حل کی صورت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اس معاملہ کو بلا شرط عدالت کے حوالہ کردیا جائے۔
۷ ستمبر ۲۰۰۳ کی دوپہر کو پریس کانفرنس تھی۔ یہ کانفرنس پیس اینڈ پراگرس (P.P.) ہال میں ہوئی۔ اس میں پریس کے لوگوں کے علاوہ اور بہت سے لوگ آگئے۔اکثر سیٹیں بھری ہوئی نظر آئیں۔ میڈیا کی طرف سے حسب ذیل نمائندوں نے شرکت کی:
سنجیو
امر اجالا
Tel.: 9412204147
ارشد محمد
دینک جاگرن
9837294639
کمال بھارگو
سہارا سمے
2662543
راج کمار
دینک کیسر خوشبو
9837037373
وِجے مان
اِناڈو ٹی وی
2570969
عمومی خطاب کے موقع پر میڈیا کے اکثر نمائندے موجود تھے اور اس کی رپورٹ میڈیا میں تفصیل کے ساتھ آچکی تھی۔ اس وقت کی پریس کانفرنس میں زیادہ تر اُسی کے پس منظر میںسوالات اور جوابات ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ آج کل زیادہ تر یہ ہورہا ہے کہ مسلمان لکھنے اور بولنے والے ہندوؤں کو نصیحت کررہے ہیں اور ہندو لکھنے اور بولنے والے مسلمانوں کو نصیحت کررہے ہیں۔ اس کا عملی طورپر کوئی فائدہ نہیں۔ اس قسم کا عمل کسی کو اپنی کمیونٹی میں مقبولیت دے سکتا ہے مگر صورت حال کی اصلاح کے اعتبار سے اُس کا کوئی فائدہ نہیں۔
اصلاح کے پہلو سے مفید طریقہ یہ ہے کہ ہندو لوگ ہندوؤں کو نصیحت کریں اور مسلمان حضرات مسلمانوں کو نصیحت کریں۔ لوگ عام طورپر ایسا نہیں کرتے ۔کیوں کہ ایسا کرنے میں اُنہیں یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی کمیونٹی میں مقبولیت کھودیں گے۔ مگر یہ ایک فرضی اندیشہ ہے۔ لوگوں کوچاہئے کہ وہ اس فرضی اندیشہ سے باہر آئیں اور اپنی اپنی کمیونٹی پر ’’امر بالمعروف، نہی عن المنکر‘‘کا عمل جاری کریں۔ اس کے بغیر حالات میں سُدھارلانا ممکن نہیں۔
ایک اور سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ اجودھیا کے مسئلہ پر کئی ہندو اور مسلمان پُرجوش طورپر اپنی اپنی رائے پیش کرتے رہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس کا کوئی فائدہ نہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ دونوں ہی طرف کے لوگوں کو صرف ایک بات کہنا چاہئے۔ اور وہ یہ کہ اس معاملہ میں ۱۹۹۱ کے ایکٹ کو نافذ کیا جائے اور اُس کے مطابق، عدالت کا فیصلہ جلد سے جلد حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عدالت جو فیصلہ دے، دونوں فریق کسی شرط کے بغیر اُس کو مان لیں۔ اس معاملہ میں اس کے سوا کوئی اور بات قابلِ عمل نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ ہمارا مقصد خاص طورپر یہ ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان امن قائم ہوجائے۔ امن یکساں طورپر دونوں ہی کی ضرورت ہے۔ امن کے بغیر دونوں میں سے کوئی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔
ایک اور سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کا نظریہ سراسر غیر عملی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یکساں سول کوڈ کا قانون بہت پہلے ہمارے یہاں بن چکا ہے۔ مگر یہ قانون عملاً نافذ نہ ہوسکا۔ پھر ایک اور قانون بنانے سے کیا فائدہ۔
میں نے کہا کہ اس سے پہلے پارلیمنٹ نے سول میرج ایکٹ بنایا تھا۔ سول میرج ایکٹ عملی طورپر تقریباً وہی چیز ہے جس کو کامن سول کوڈ کہا جاتا ہے۔ کامن سول کوڈ کا جو مدّعا ہے وہ پوری طرح سوِل میریج ایکٹ میں موجود ہے۔ اب صرف اتنی بات باقی ہے کہ سوِل میریج کا طریقہ جو موجودہ قانون میں اختیاری ہے، اس کو قانونی طور پر لازم کردیا جائے۔ مگر ایسا قانون کبھی چلنے والا نہیں۔
کسی قانون کے تحت اگر سوِل میریج کو لازمی قرار دے دیا جائے تو اُس کے بعد یہ ہوگا کہ کوئی فرد یا کوئی تنظیم سپریم کورٹ میںاُس کے خلاف مرافعہ کرے گی۔ کیوں کہ ایسا قانون دستور کی دئی ہوئی مذہبی آزادی میں کھلی مداخلت ہوگی۔ وہ دستور ہند کی خلاف ورزی کے ہم معنٰی ہوگا۔ ایسی حالت میں یقینی طورپر یہ ہوگا کہ سپریم کورٹ ایسے قانون کو رد کردے گی۔ اس طرح مسئلہ جہاں اب ہے وہیں وہ قانون کے بعد بھی باقی رہے گا۔
میرٹھ شہر دہلی کے شمال مشرقی حصہ میں واقع ہے۔ میرٹھ کا پورا ضلع نہایت زرخیز ہے۔ اس کا ایک سبب غالباً یہ ہے کہ میرٹھ ضلع دو بڑی ندیوں، گنگا اور جمنا کے درمیان واقع ہے۔ میرٹھ میں پہلا کالج ۱۸۹۲ میں بنایا گیا۔ میرٹھ یونیورسٹی ۱۹۶۵ میں بنائی گئی۔
۱۸۵۷ میں انگریزوں کے خلاف جو بغاوت ہوئی وہ میرٹھ شہر سے شروع ہوئی تھی۔ یہ بغاوت کرنے والے زیادہ تر معمولی تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ اُن کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس وقت ملک میں ایک ایسا انقلاب آچکا ہے جو مغل سلطنت کے زمانہ میں موجود نہ تھا۔ یعنی ٹیلی گراف کے ذریعہ کمیونیکیشن۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ کی بغاوت کو بہت جلد فرو کرنے میں انگریزوں کو جس چیز سے سب سے زیادہ مدد ملی وہ یہی کمیونیکیشن کا نیا نظام تھا۔ چنانچہ انگریزوں نے اپنے مختلف مراکز کو فوری طور پر پیغام بھیج کر ہر جگہ سے فوجی مدد حاصل کر لی اور اس طرح بغاوت کو تیزی سے دبا دینے میںوہ کامیاب ہوگئے۔
ایک صاحب نے ایک کتاب کا ذکر کیا اور اُس پر میری رائے پوچھی۔ اس کتاب کا عجیب وغریب نام ادراک زوالِ امت ہے۔ اس کتاب کی پہلی جلد ۵۳۳ صفحات پر مشتمل ہے اور وہ ۲۰۰۳ میں نئی دہلی سے چھپی ہے۔ یہ کتاب کا غذ، چھپائی، جلد بندی، وغیرہ ہر پہلو سے وقت کی اعلیٰ ترین معیار پر تیار کی گئی ہے۔ میں نے جب اُس کو دیکھا تو میرا پہلا تأثر یہ تھا کہ جوامت اتنی شاندار کتاب چھپوا سکتی ہو اُس کے بارہ میں لکھی جانے والی کتاب کا نام ادراک عروج امت ہونا چاہئے، نہ کہ ادراک زوال امت۔
اس ضخیم کتاب میں امت مسلمہ کے بارہ میں جو باتیں کہی گئی ہیں اُن کا خلاصہ کتاب کے آغاز میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’خیر امت کی خوا ب آسا فضا میں جینے والی ملت کے لیے یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ آخر اس کے ہاتھوں سے تاریخ کی لگام کیوں کر پھسلتی گئی ہے۔ چودہ صدیوں پر مشتمل ہماری ملّی تاریخ میں ایسے حوادث کی کمی نہیں جن سے مختلف اوقات میں ہمارے نہ تھمنے والے زوال کی بار بار تصدیق ہوتی رہی ہو۔ فتنۂ قتلِ عثمان ہو یا جمل اور صفین کی خانہ جنگیاں، بغداد اور غرناطہ کا سقوط ہو یا مغل دہلی اور خلافت عثمانی کی تباہی، یہ ہماری تاریخ کے وہ لمحات ہیں جب من حیث القوم ہمارا وجود اپنے زوال کی سرعت اور شدت کے سلسلہ میں ششدر رہ گیا تھا۔ ہم ابھی ایک حادثے کی ماہیت اور شدت کا پوری طرح ادراک بھی نہ کرپائے تھے کہ پے در پے دوسرے حوادث پیش آتے گئے۔ یہاں تک کہ تاریخ کو کبھی اپنی مٹھی میں رکھنے والی امت خود تاریخ بن کر رہ گئی‘‘۔
مصنف نے جس تاریخی ظاہرہ کے بارہ میں لکھا ہے کہ اُس کو سمجھنا مشکل ہے، اُس کاجواب قرآن میں بہت پہلے ان الفاظ میں دے دیا گیا ہے: تلک الایام نداولہا بین الناس (آل عمران ۱۴۰) اس کے مطابق، سیاسی اقتدار کسی قوم کی ابدی ملکیت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی اقتدار صرف امتحان کا ایک پرچہ ہے اور خدائی قانون کے مطابق، وہ بدلتا رہتا ہے۔ وہ کبھی ایک قوم کو ملتا ہے اور کبھی دوسری قوم کو۔ سیاسی اقتدار ابدی طورپر کسی ایک قوم کے پاس رہناخدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہے اور جو چیز خدا کے تخلیقی منصوبہ کے خلاف ہو وہ اس دنیا میں کبھی وقوع میں آنے والی ہی نہیں۔
گفتگو اور اظہار خیال
۱۔ فجر کی نماز کے بعد میں نے لوگوں کے سامنے یہ حدیث پڑھی: من صلّی الصبح فہو فی ذمّۃ اللہ۔ (جس نے صبح کی نماز پڑھی وہ اللہ کی ذمہ داری میں آگیا) میں نے کہا کہ اس حدیث میں نماز اور اللہ کے ذمہ کے درمیان جس تعلق کا ذکر ہے وہ کوئی پُر اسرار تعلق نہیں۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو آدمی فجرکے وقت مسجد میں حاضر ہو کر مقرر انداز میں نماز ادا کرلے وہ کسی پُر اسرار تاثیر کے نتیجہ میں خود بخود اللہ کی ذمہ داری میں آجائے گا اور اُس کا سارا دن محفوظ گذرے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک پوری طرح معلوم تعلق ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صبح کی نماز اس کی حقیقی اسپرٹ کے ساتھ پڑھے گا اُس کے اندرایسے اخلاقی اوصاف پیدا ہوجائیں گے جو اس کی حفاظت کے ضامن ہوں گے۔ مثلاً وضو کی روح تطہیر قلب ہے۔ جو آدمی اس طرح وضو کے دوران اپنا داخلی تزکیہ کررہا ہو وہ گویا اُس کے ذریعہ سے ایک نیا انسان بن جائے گا۔ اسی طرح اللہ اکبر کی اسپرٹ تواضع ہے۔ الحمد للہ کی اسپرٹ قناعت ہے، رکوع اور سجدہ کی اسپرٹ اپنے اندر اکڑکو ختم کرنا ہے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ کی اسپرٹ یہ ہے کہ نمازی پورب پچھم اور اُتّر دکّن منھ پھیر کر یہ کہہ رہا ہے کہ ائے لوگو، تمہاری جان، تمہارا مال اور تمہاری آبرو مجھ سے محفوظ ہے۔ اسی طرح باجماعت نماز کی اسپرٹ یہ ہے کہ آدمی اپنے میں سے ایک کو آگے رکھ کر خودبیک سیٹ پر چلا جائے۔
فجر یا صبح کی نماز ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی مذکورہ قسم کے انسانی اوصاف کو اپنے اندر پیدا کرکے مسجد سے باہر کی دنیا میں نکلے اور جو آدمی ان اعلیٰ اوصاف کے ساتھ متصف ہو کر دنیا میں داخل ہو وہ بلا شبہہ ایک ایسا انسان ہوگا جو لوگوں کے درمیان اس طرح محفوظ طورپر رہے گویا کہ اللہ نے اُس کی حفاظت کا ذمّہ لے لیا ہے۔
۲۔ شہزاد علی صاحب نے کہا کہ میں نے اپنے تجربہ کی بنا پر جانا کہ امیری کے مقابلہ میں محتاجی زیادہ بڑی نعمت ہے۔ امیری کی حالت ہو تو آدمی غافل ہوجاتا ہے۔ مگر فقیری کی حالت آدمی کے اندر خدا کی یادجگاتی ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ ذکر و دعا میں مشغول ہوجاتا ہے۔ وہ زیادہ گہرائی کے ساتھ خدا کی قربت کا تجربہ کرتا ہے۔
میں نے کہا کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ اس کو حدیث میں ان الفاظ میںبتایا گیا ہے: اَنا عند المنکسرۃ قلوبہم( میں ٹوٹے دل والوں کے ساتھ رہتا ہوں) یہ بات اسلامی لٹریچر میں کثرت سے بیان کی گئی ہے۔ مگر اس معاملہ کا ایک اور پہلو ہے جس کو میرے علم کے مطابق، علماء اور صوفیا بتا نہ سکے۔ کم ازکم ان کی تحریروںسے ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ الغزالی کی احیاء علوم الدین سے لے کر شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ تک کسی بھی کتاب میں اُس کا ذکر نہیں ملتا۔ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین بھی، میرے علم کے مطابق، اس کی نشاندہی نہ کرسکے۔
پھر میں نے کہا کہ یہ دوسری چیز ذہنی ارتقاء (intellectual development) ہے۔ امیری کی حالت میں انسان کا ذہن پُر سکون رہتا ہے۔ یہ سکون دماغ کے عمل کو معطّل کردیتا ہے۔ وہ جہاں ہے وہیں پڑا رہتا ہے۔ مگر محتاجی اور مصیبت ذہن کے اندر ہلچل پیدا کرتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر ایک قسم کا دماغی طوفان (brain storm) ظہور میں لاتی ہے۔ اس طرح سویا ہوا دماغ جاگ اُٹھتا ہے۔ دماغی سِل (brain cells) متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ چیز آدمی کی فکری عمل کو بڑھاتی ہے۔ وہ اُس کو زیادہ باشعور انسان بنا دیتی ہے۔
میں نے کہا کہ حدیث میں یہ بات بتائی جاچکی ہے۔ مگر حدیث میں یہ بات تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس لیے شارحین اُس کو سمجھ نہ سکے۔ ایک حدیث قدسی میںآیا ہے کہ’’ میں جب بندے کو کسی مصیبت میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ اُس پر صبر کرلیتا ہے اور لوگوں سے اُس کی شکایت نہیں کرتا‘‘۔ اس کے بعد حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ثم ابدلتہ لحماً خیراً من لحمہ ودماً خیراً من دمہ (رواہ الحاکم عن ابی ہریرہ) یعنی پھر میں اُس کے گوشت کو زیادہ بہتر گوشت سے بدل دیتا ہوں اور اُس کے خون کو زیادہ بہتر خون سے بدل دیتا ہوں۔
اس حدیث میں گوشت اور خون کا ذکر لفظی معنوں میں نہیں ہے بلکہ علامتی معنوں میںہے۔ اس کا مطلب خون اور گوشت کا مادّی معنوں میں بدلنا نہیں ہے بلکہ شخصیت کا معنوی معنوں میں بدلنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صبر بغیر شکایت کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر ایک فکری عمل شروع ہوجاتا ہے جو ذہنی ارتقاء (intellectual development) کا باعث ہوتا ہے۔ اُس کے اندر سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ اُس کا ذہن زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے لگتا ہے۔ اُس کی قوت تفکیر زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ ایک سادہ عالم مفکر عالم بن جاتا ہے۔
۳۔ ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ میرے اندر خدا کے فضل سے یہ بات ہے کہ میں اختلاف کے باوجود اعتراف کرتا ہوں۔ زندہ انسانوں کے درمیان ہمیشہ اختلاف ہوتا ہے۔ اس لیے اختلاف کو میں کوئی معیوب چیز نہیں سمجھتا۔ چنانچہ صحابہ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، فقہاء اور علماء سب کے درمیان ہمیشہ کثرت سے اختلافات رہے ہیں۔ اس کے باوجود باہمی احترام اور اعتراف میں کوئی فرق نہیں آیا۔
جمعیۃ علماء ہند سے بعض جزئی امور میں مجھ کو اختلاف ہے۔ مگر اسی کے ساتھ میں جمعیۃ علماء ہند کی خدمات کا بھی کھلے طور پر اعتراف کرتا ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندستان میں دوسری جماعتوں کے مقابلہ میں جمعیۃ علماء ہند کی خدمات سب سے زیادہ ہیں۔ جمعیۃ علماء ہند کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ وہ واحد جماعت ہے جو ہندستان کے مسلمانوں کے لیے گویا ایک پولیٹیکل بیس کی حیثیت رکھتی ہے۔
۱۹۴۷ کے بعد جو آزاد ہندستان بنا اس میں ہندوؤں نے کانگریس میں شریک ہو کر حصہ لیا۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اُن کی اکثریت مسلم لیگ کی حامی بن کر پاکستان کے حق میں چلی گئی۔ اس عموم میں واحد استثناء جمعیۃ علماء ہند کا تھا۔ جمعیۃ علماء ہند اگر چہ تنظیمی اعتبار سے بعد کو بنی۔ مگر علماء کی نسبت سے اس کے عمل کا آغاز ۱۸۵۷ سے شروع ہوتا ہے۔ ۱۸۵۷ سے لے کر ۱۹۴۷ تک علماء کا یہ گروہ آزادیٔ ہند کی جد و جہد میں سرگرم طورپر شریک رہا اور اُس کے لیے ہر قسم کی قربانیاں دیتا رہا۔
۱۹۴۷ کے بعد انتہا پسند ہندوؤں نے یہ کہنا شروع کیا کہ مسلمان جو پاکستان چاہتے تھے وہ پاکستان بن چکا۔ اب وہ ہندستان کو چھوڑ کر پاکستان چلے جائیں۔ مگر جیسا کہ معلوم ہے، یہ آواز زیادہ زور نہ پکڑ سکی۔ وہ صرف کچھ کٹّر ہندوؤں کی آواز بن کر رہ گئی۔ اس خطرناک آواز کا بے اثر ہو جانا کیوں ہوا۔ اس کا ایک بڑا حصہ جمعیۃ علماء ہند کا وجود ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے کھلے طور پر پاکستان کی مخالفت کی اور دو قومی نظریہ کو غلط بتایا۔ اُس کو اپنی اس مخالفت کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔
علماء ہند کی اس تاریخ کی بنا پر یہاں کے مسلمان اس پوزیشن میںہوسکے کہ وہ نئے ہندستان میں کہہ سکیں کہ ہم نے بھی ہندستان کی آزادی کے لیے اُتنی ہی قربانی دی ہے جتنا کہ ہندوؤں نے دیا ہے۔ اس لیے ہندستان میں رہنے کا ہم کو بھی برابر کا حق ہے۔ اس طرح جمعیۃ علماء ہند نے ہندستان کے مسلمانوں کو وہ پولیٹیکل مبرّر(سیاسی وجہ جواز) دیا جس کی بنا پر وہ بھی اس ملک میں سر اُٹھا کر برابر کے شہری کے طورپر رہ سکیں۔ جمعیۃ علماء ہند کو حذف کرنا گویا اس پولیٹیکل مبرّر کو حذف کرنا ہے جس کے بغیر ہند ستان میں مسلمانوں کے لیے بظاہر کوئی سیاسی وجہ جواز باقی نہیں رہتا۔
۴۔ ایک موقع پر میںنے کہا کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان کے مسلمان یہاں کی حکومت سے برابر احتجاج اور ٹکراؤ میں مشغول رہے ہیں۔ کسی نہ کسی ملّی ایشو کو لے کر وہ مسلم ورسس حکومت کی فضا بنائے رہتے ہیں۔ یہ نا اہل مسلم رہنماؤں کی ناعاقبت اندیشانہ رہنمائی کے نتیجہ میں ہوتا ہے۔ اس کے بارہ میںاگر اُن سے کچھ کہا جائے تو اُن کا جواب یہ ہوتا ہے کہ دستورِ ہند نے ہم کو آزادی دی ہے۔ دستوری اعتبار سے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنی شکایتوں کے لیے حکومت کے خلاف تحریک چلائیں۔
یہ سخت نادانی کی بات ہے۔ ہندستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں کوئی راجا یا بادشاہ حکومت نہیں کرتا جس کا عوام سے کوئی تعلق نہ ہو۔ یہاں کا حکمراں خود ہندستانیوں کے ووٹ سے بنتا ہے۔ ایسی حالت میں حکومت سے ٹکراؤ کرنا بالواسطہ طورپر عوام سے ٹکراؤ کرنا بن جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ ان عوام میں بہت بڑی اکثریت ہندوؤں کی ہوتی ہے۔ اس لیے حکومت سے ٹکراؤ کرنا بالواسطہ انداز میں مجاریٹی سے ٹکراؤ کرنا بن جاتا ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ آپ کسی حکومت سے ٹکراؤ کر کے زندہ رہ سکتے ہیں مگر مجاریٹی سے ٹکراؤ کرکے آپ زندہ نہیں رہ سکتے۔
اس معاملہ میں ایک مفکر کا قول ان مسلم رہنماؤں پر صادق آتا ہے۔ اُس نے کہا کہ— عقلمند آدمی وہ ہے جو چیزوں کی اضافی قدر کو جانے:
A wise man is one who knows the relative value of things.
یہ ایک فطری حقیقت کا اظہار ہے۔ اس کی روشنی میں دیکھا جائے تو ہندستان کے نام نہاد رہنما یقینی طورپر غیر عاقل ثابت ہوئے ہیں۔ اُنہوں نے یہ تو جانا کہ دستور کے الفاظ کے اعتبار سے ہم کو حکومت سے ٹکراؤ کرنے کا حق حاصل ہے۔ مگر انہوں نے یہ نہیں جانا کہ اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں یہ ہوگا کہ مسلمانوں اور یہاں کی اکثریتی فرقہ کے درمیان تناؤ اور نفرت کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ مسلمان حکومت سے ٹکراؤ کا تحمل تو کرسکتے ہیں مگر وہ اکثریتی فرقہ سے ٹکراؤ کا تحمل نہیں کرسکتے جو اُن کی مذکورہ سیاسی پالیسی کے نتیجہ میں لازماً پیش آئے گا۔
۵۔ ایک گفتگو کے ذیل میں میںنے کہا کہ زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے جو اُصول ہیں، اُن میں سے ایک اہم اُصول یہ ہے کہ—اگر کسی شخص سے کسی معاملہ میں آپ کی نزاع پیدا ہوجائے تو پہلے ہی مرحلہ میں اُس کو ختم کردیجئے، خواہ اس میں آپ کو کچھ نقصان اُٹھانا پڑے۔ اگر آپ نے پہلے مرحلہ میںاس کو ختم نہیں کیا تو آپ اُس کو بعد کے مرحلہ میں ختم کرنے پر مجبور ہوں گے۔ مگر بعد کو ختم کرنا صرف زیادہ نقصان کی قیمت پر ہوگا اور آپ پر فارسی شاعر کا یہ شعر صادق آئے گا:
آں چہ داناکند کند ناداں
لیک بعد از خرابیٔ بسیار
۶۔ ایک صاحب کے سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ جب کسی آدمی کو ذہنی ٹینشن (mental tension) ہوجائے تو وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے ذہنی ٹینشن کو ختم کرے تاکہ اُس کو سکون حاصل ہوجائے۔ مگر یہ ایک ناقابل عمل تدبیر ہے۔ ذہنی ٹینشن کے ساتھ ہمیں جینا ہے، نہ کہ اُس کو ختم کرنے کی کوشش کرنا۔
ذہنی ٹینشن جب کسی کو ہوتا ہے تو وہ کسی کو اُس کا ذمہ دار سمجھ کر اُس کا شاکی بن جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ذہنی ٹینشن کسی انسانی سبب سے نہیں آتی۔ وہ براہِ راست طورپر فطرت کے نظام کا نتیجہ ہے۔ ہم فطرت کے نظام کو بدل نہیں سکتے۔ اس لیے ہم ٹینشن کا خاتمہ بھی نہیں کرسکتے۔ اس حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو ٹینشن اپنے آپ ڈیفیوز ہوجائے گا۔
۷۔ ایک موقع پر میںنے کہا کہ اکثر لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ اپنے محبوب رہنما کے اقدام کو اُس کے ان بولے ہوئے الفاظ سے جانچتے ہیں جو اس نے اپنے اقدام سے پہلے لکھا تھا یا بولا تھا۔ مگر جانچ کا یہ طریقہ صحیح نہیں۔ عملی اقدام کو اس کے عملی انجام کی روشنی میں جانچنا چاہئے ،نہ کہ رہنماکے قبل از اقدام قول کی روشنی میں۔
دنیا میں کسی اقدام کا نتیجہ اقدام کرنے والے کی خواہش کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ قانون فطرت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ رہنما وہ ہے جو اس حقیقت کو جانے اور اقدام سے پہلے موجودہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ کر یہ اندازہ کرے کہ اُس کا اقدام نتیجہ خیز ہوگا یا نہیں۔ جوآدمی واقعی حالات کا اندازہ کیے بغیر محض اپنی خواہش کے زیرِ اثر عملی اقدام کرے وہ رہنما نہیںہے بلکہ صرف ایک نادان انسان ہے۔ ایسے آدمی کا اقدام بندر کی چھلانگ ہے، نہ کہ دانا انسان کا منصوبہ بند عمل۔
فلسطین کا جہاد، کشمیر کا جہاد، پاکستان بنانے کا ہنگامہ اور مختلف مسلم ملکوں میںاسلامی قانون کے نفاذ کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلانا وغیرہ سب اسی قسم کے نادانی کے اقدامات ہیں۔ یہ سب وہ لوگ تھے جن پر فرض تھا کہ وہ اپنی نااہلی کے بُرے انجام سے لوگوں کو بچائیں، نہ یہ کہ نا اہلی کے باوجود ایسے عملی نشانوں کی طرف چھلانگ لگا دیں جن کا کو ئی مثبت نتیجہ نکلنے والاہی نہیں۔
۱۹۶۵ کے زمانہ میں جب کہ میں ندوہ (لکھنؤ) میں مقیم تھا، وہاں کے ایک سینیر استاد میرے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا کہ برما میں اراکان کے سرحدی علاقہ میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ میں وہاں جانا چاہتا ہوں تاکہ اس حصہ کو الگ کرکے وہاں اسلامی حکومت بنائی جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں آپ میرا ساتھ دیں۔ میں نے کہا کہ استغفر اللہ، یہ کوئی منصوبہ نہیں، یہ تو نادانی کی ایک چھلانگ ہے۔ وہ اس پر غصہ ہوگئے اور یہ سمجھ کر چلے گئے کہ میرے اندر اسلامی حمیت نہیں۔
تاہم جیسا کہ معلوم ہے، اراکان میں کچھ جوشیلے رہنماؤں نے علیٰحدہ مسلم اسٹیٹ کی تحریک چلائی۔ اس تحریک کا نتیجہ صرف یہ ہوا کہ اراکان کے مسلمان تباہ ہوگئے۔ جب برما کی حکومت کی طرف سے ان باغیوں کی پکڑ دھکڑ شروع ہوئی تو بہت سے مسلمان وہاں سے بھاگ کر بنگلہ دیش آگئے اور اب وہ بنگلہ دیش میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ اراکان میں مفروضہ مسلم اسٹیٹ تو نہیں بنی البتہ جو کچھ مسلمانوں کو وہاں حاصل تھا وہ بھی تباہ ہوگیا۔ اس قسم کی تحریکیں بہت سے ملکوں میں چلائی گئیں۔ میںان تحریکوں کو پاکستانائیزیشن کہتا ہوں۔ اس قسم کی تحریک بلاشبہہ ایک نادان تحریک ہے۔ اُس کا کوئی جواز نہ عقل میں ہے اور نہ اسلام میں۔
۸۔ کچھ تعلیم یافتہ ہندوؤں سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ دو قسم کے لیڈر دنیا میںر ہے ہیں۔ ایک وہ جن کو ریفارمر کہا جاسکتا ہے، اور دوسرے وہ جن کو پرافٹ کہا جاتا ہے۔ دونوں میں فرق یہ ہے کہ ریفارمر کا نظریہ انسان بمقابلۂ انسان(man versus man) کے اصول پر مبنی ہوتا ہے اور پرافٹ کا نظریہ انسان بمقابلۂ خدا (man versus God) کے اصول پر قائم ہے۔ ریفارمر کا طریقہ ہمیشہ انسانوں میں دو متحارب گروہ بناتا ہے۔ ریفارمر یہ کرتا ہے کہ وہ انسانیت کے ایک گروہ کو معصوم کے طورپر لیتا ہے اور دوسرے گروہ کو خطاوار کے طور پر۔ اور پھر وہ مفروضہ معصوم گروہ کو مفروضہ خطا وار گروہ سے ٹکرادیتا ہے۔
مثلاً فرانس کے سیاسی ریفارمر روسو نے انسانیت کو سیاسی مظلوم اور سیاسی ظالم کے نام سے دوگروہوں میں بانٹا۔ چنانچہ روسو کی کتاب معاہدۂ عمرانی (Social Contract) اس جملہ سے شروع ہوتی ہے—انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر میںاُس کو زنجیروں میں جکڑا ہوا پاتا ہوں:
Man was born free. But I find him in chains.
اس قسم کا نظریہ ہمیشہ انسانیت کو بانٹتا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان گروہی نزاع پیدا کرتاہے۔ وہ انسانوں کے درمیان نفرت اور تناؤ جیسے منفی جذبات پیدا کرتا ہے۔
پرافٹ کے طریقہ کی مثال دیتے ہوئے میں نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الخلق عیال اللّٰہ (سارے انسان خدا کی فیملی ہیں)۔ اس نظریہ میں ایک طرف خدا ہوتا ہے اور دوسری طرف تمام انسان۔ اس طرح یہ نظریہ تمام انسان کو ایک اُصول پر متحد کردیتا ہے۔ آپس میں ایک دوسرے کے لیے مثبت جذبات فروغ پاتے ہیں، نہ کہ منفی جذبات۔
۹۔ ایک صاحب نے حالات کی شکایت کی۔ اُس کے جواب میں میں نے کہا کہ خدا نے دنیا میں ایسے اسباب رکھ دیے ہیں کہ یہاں ہمیشہ ہلچل جاری رہے۔ آدمی ہر قسم کے موافق اور مخالف حالات کا تجربہ کرتا رہے۔ اس دو طرفہ تجربہ کے بغیر انسانیت کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔
میں نے کہا کہ جو آدمی پھولوں کے چمن میں زندگی گذارے وہ یہ نہیں جانے گا کہ خارستان کیا ہے۔ جو آدمی بلبل کے نغموں کے درمیان جیتا ہو وہ یہ نہیں جانے گا کہ گدھے کی چیخ کیا ہے۔ جو آدمی بے آزار درختوں کے درمیان اپنے صبح و شام بسر کرتا ہو وہ نہیں جانے گا کہ خاردار جھاڑی کیا چیز ہوتی ہے۔ جو آدمی آرام دہ صوفہ پر زندگی گذار رہا ہو وہ نہیں جانے گا کہ ریت اور پـتھر کے اوپر سونا کیا ہے۔
۱۰۔ ایک اعتراض کے جواب میں میں نے کہا کہ ایک افغانی عالم دار العلوم دیو بند میںاُستاد تھے۔ ایک مجلس میںاُنہوں نے کہا کہ میں اتنے عرصہ سے ہندستان میں رہتا ہوں اور میری تعلیم دارالعلوم دیوبند میںہوئی ہے۔ چنانچہ اب میں اُردو زبان اچھی طرح سمجھنے لگا ہوں۔ ایک صاحب نے اُن کا امتحان لینے کے لیے پوچھا کہ ’’کریلا نیم چڑھا‘‘ کا مطلب کیا ہے۔افغانی بزرگ نے کچھ دیر سوچا اور اس کے بعد کہا کہ اس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ آدھا پکا ہوا کریلا۔ انہوں نے نیم کو نصف کے معنٰی میں لیا اور چڑھا کو آگ پر ہانڈی چڑھا کر پکانے کے معنٰی میں۔
اس قسم کی زیادہ بڑی غلطی وہ لوگ کرتے ہیں جو اپنی کم فہمی کی بنا پر اسلام کی انوکھی تشریح کرتے ہیں۔ وہ قرآن و حدیث سے ایک دو لفظ کو لے کر خود ساختہ طورپر اس کا ایک مفہوم بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام یہ ہے۔ مثلاً ایک ہندو نے ایک بار اپنی تقریر میں کہا کہ مسلمان یہ شکایت کرتے ہیں کہ تعصب کی بنا پر وہ اقتصادی بد حالی کا شکار ہیں۔ مگر یہ مسلمانوں کے لیے کوئی شکایت کی بات نہیں۔ اس لیے کہ اُن کے پیغمبر نے خود کہا ہے ’’بدأ الاسلام غریباً وسیعود کما بدأ‘‘۔ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام غریبوں کا مذہب ہے، مسلمان پہلے بھی غریب تھے اور بعد کو بھی وہ غریب رہیں گے۔ ایسی حالت میں اگر مسلمان اقتصادی اعتبار سے کمزور ہوں تو اس میں شکایت کی کوئی بات نہیں۔ یہ تو عین وہی بات ہے جو خود اُن کے پیغمبر نے کہی ہے۔
مذکورہ ہندو نے حدیث کا یہ مطلب اس لیے نکالا کہ اُس نے اپنے ذہن کے مطابق، غریب کا مطلب محتاج (poor) سمجھا تھا۔ حالاں کہ غریب کا مطلب عربی زبان میں اجنبی (stranger) کے ہیں۔
اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ سچّے خدا پرست بن کر رہیں، آپ اللہ کے دین کے داعی بنیں، آپ اللہ کی پسند والی زندگی گذاریں تو آپ کو کچھ ایسی چیزوں کو چھوڑنا پڑے گا جو آپ کی دینی زندگی کو ڈسٹرب کرنے والے ہوں۔ مثلاً اس کے لیے آپ کو حرص کو چھوڑنا پڑے گا۔ ورنہ آپ دنیا میں اس طرح پھنس جائیں گے کہ آخرت کے کام کے لیے آپ کے پاس وقت ہی نہیں رہے گا۔ اسی طرح آپ کو ر د عمل کی نفسیات سے اوپر اُٹھنا ہوگا، ورنہ آپ کا ذہن غصہ اور نفرت اور انتقام اور کینہ کا کارخانہ بن جائے گا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آپ اللہ کے سچے تعلق سے محروم ہو جائیں گے۔ اسی طرح آپ کو وقت کے ضیاع سے بچنا ہوگا ،ورنہ آپ کے پاس دین کے کام کے لیے کوئی ٹائم ہی نہیں رہے گا۔ اسی طرح آپ کو اسراف سے بچنا ہوگا، ورنہ آپ کا مالی بجٹ اس طرح غیر مستحکم ہوجائے گا کہ آپ ساری زندگی پیسہ کمانے میں لگے رہیں گے اور کوئی مزید کام نہ کرسکیں گے، وغیرہ۔
۱۱۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ نماز اللہ کی عبادت کا ایک محفوظ اور غیرمحرّف فارم ہے۔ یہ بلا شبہہ اہل اسلام کے لیے بہت بڑی نعمت ہے۔ کیوں کہ کسی دوسرے مذہبی نظام میں اللہ کی عبادت کا وہ فارم محفوظ نہیں جو اللہ کو مطلوب ہے اور جس کی تعلیم اُس نے پیغمبروں کے ذریعہ دی ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ: و ماکان صلٰوتہم عند البیت الا مکاء ً و تصدیۃ (التوبہ) عام طور پر اس آیت کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ رسول اللہ جب کعبہ میں نماز پڑھتے تو مشرکین آپ کی نماز کو ڈسٹرب کرنے کے لیے سیٹی بجاتے اور تالی بجاتے۔ مگر آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ اُن کے یہاں نماز تھی مگر وہ بگڑی ہوئی حالت میں تھی۔ پچھلے مذہبوں میں عبادت الٰہی کا جو فارم بتایا گیا تھا وہ بعد کے زمانہ میں اپنی ابتدائی شکل میں باقی نہیں رہا۔ دینی اسپرٹ اور اللہ سے تعلق میں کمی کے نتیجہ میں اُن کی عبادت خارجی مظاہر میں تبدیل ہو کر عبادت کا صرف ایک ناقص فارم بن گئی۔ یہی وہ ناقص فارم ہے جو آج اسلام کے سوا تمام مذہبوں میں دکھائی دیتا ہے۔ عبادت کے وقت گانا اور بجانا اور تالی پیٹنا اور رقص کرنا یا الفاظ کی جَپ (chanting) کرنا اس کی مثالیں ہیں۔
اسلام میں بھی بعد کے زمانہ میں طرح طرح کی بدعات کی صورت میں عبادت کے فارم کو بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔ مگر یہ بدعات اسلام کے اصل عبادتی فارم کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔
۱۲۔ ایک گفتگو کے ذیل میں میں نے کہا کہ شاہ ولی اللہ دہلوی نے لکھا ہے کہ جن مختلف چیزوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بتایا جاتا ہے اُن میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی حیثیت سنتِ نبوی کی نہیں ہے بلکہ اُن کی حیثیت عادت عرب کی ہے۔ چوں کہ عرب کے سماج میں ان چیزوں کا رواج تھا اس لیے آپ نے بھی اُن کو اختیار کرلیا، مثلاً عمامہ، وغیرہ۔
میں اس بات کو لفظ بدل کر یہ کہوں گا کہ پیغمبر اسلام نیز ہر پیغمبر کی زندگی میں دو قسم کی چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک، سنت پیغمبر اور دوسرے، عادت انسانی۔ سنت پیغمبر کا تعلق اُن افعال سے ہے جن پر آخرت کی نجات کا انحصار ہے اور عادت انسانی کا تعلق اُن چیزوں سے ہے جن کا تعلق دنیا میں صاف ستھری زندگی گذارنے سے ہے۔
مثلاً حضرت ابراہیم گھوڑے پر سواری کرتے تھے اور رسول اللہ ﷺکی سواری اونٹ تھی۔اس فرق کا سبب یہ تھا کہ قدیم عراق میں گھوڑے کی سواری کا رواج تھا اور قدیم عرب میں اونٹ کی سواری کا رواج۔ رسول اللہ ﷺنے مدعو کی زیادتیوں پر صبر کیا۔ یہ بھی آپ کی ایک سنت تھی۔ اس سنت کا تعلق آخرت کی کامیابی سے ہے۔ اسی طرح رسول اللہ ﷺنے عمامہ اور خضاب،وغیرہ کے معاملہ میں ایک طریقہ اختیار فرمایا۔ ان طریقوں کا تعلق حقیقۃً عادتِ انسانی سے تھا، نہ کہ سنتِ نبوی سے۔
ان دونوںقسم کے طریقوں یا سنتوں میں فرق کرنا بے حد ضروری ہے۔ اگر ان دونوں کے درمیان فرق نہ کیا جائے تو اُس کا نقصان یہ ہوگا کہ لوگ دنیوی اہمیت کی چیزوں کو وہ درجہ دے دیں گے جو آخرت والی اہمیت کی چیزوں کا درجہ ہے۔ وہ اُس کو تقویٰ کی علامت سمجھ لیں گے۔ حالاں کہ تقویٰ کا تعلق دل سے ہے، نہ کہ ظاہری چیزوں سے۔
۱۳۔ ایک صاحب کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ گرنے کا نام ہار نہیں۔ ہارنے والا وہ ہے جو گرنے کے بعد اُٹھنے والا نہ بن سکا۔ اس دنیا کا نظام اس طرح بنا ہے کہ یہاں گرنا بھی ہوتا ہے اور اُٹھنا بھی۔ یہاں کامیابی بھی آتی ہے اور ناکامی بھی۔ یہاں کبھی فائدہ ہوتا ہے اور کبھی نقصان۔ ایسی حالت میں یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص اس دنیا میں ہمیشہ کامیاب ہو، اس کو کبھی ناکامی کا تجربہ پیش نہ آئے۔ اس دنیا میں کامیابی کی صحیح تعریف یہ ہے کہ آدمی کو جب فطرت کے قانون کے مطابق، ناکامی کا تجربہ پیش آئے تو وہ مایوس نہ ہو، وہ اپنا حوصلہ نہ کھوئے۔ وہ ہر ناکامی کے بعد دوبارہ اپنی جدوجہد شروع کردے، وہ ہر ناکامی کے بعد از سرِ نو اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکے۔
۱۴۔ ایک مجلس میں ایک صاحب نے مرزا غالب کا ایک واقعہ بیان کیا۔ اُنہوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ مرزا غالب کے پاس اُن کے ایک تاجر دوست جو اُن کے معتقد تھے آئے اور کہا کہ میں دہلی چھوڑ کر کلکتہ جارہا ہوں۔ آپ سے رخصتی ملاقات کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ مرزا غالب نے پوچھا کہ آپ دہلی چھوڑ کر کلکتہ کیوں جارہے ہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ دلّی میں میرا کاروبار نہیں چل رہا ہے وہاں جاکر کوشش کروں گا۔ مرزا غالب نے کہا کہ جب آپ کلکتہ پہنچیں تو وہاں کے اللہ میاں کو ہمارا سلام کہنا۔ اس پر مذکورہ تاجر دوست نے کہا کہ کیا وہاںکے اللہ میاں الگ ہیں۔ مرزا غالب نے جواب دیا کہ اگر وہاں کے اللہ الگ نہ ہوتے تو آپ دلّی چھوڑ کر کلکتہ نہیں جاتے۔ اس کے بعد دوست لاجواب ہوگئے اور اُنہوں نے کلکتہ جانے کا ارادہ ترک کردیا۔
بات کہنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک منطقی انداز اور دوسرا پُر لطف انداز۔ مرزا غالب کا مذکورہ واقعہ کسی بات کو پُر لطف انداز میں کہنے کی ایک مثال ہے۔ اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ علمی اور منطقی طریقہ ہے۔ پہلا طریقہ ہر آدمی کو اپیل کرتا ہے اور دوسرا طریقہ صرف سنجیدہ لوگوں کو اپیل کرے گا۔
۱۵۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ کوئی شخص پیدا ہوتے ہی ہر قسم کا مادی سازوسامان پالے ۔ باپ کی کمائی کی بنیاد پر اُس کو ابتدا ہی میں ہر قسم کی آسانیاں مل جائیں تو عام لوگ اس کو ایک خوش قسمت انسان سمجھتے ہیں۔ انگریزی میںایسے آدمی کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ—فلاں شخص اپنے منھ میں چاندی کا چمچہ لے کرپیدا ہوا۔
He was born with a silver spoon in his mouth.
مگر میرے تجربہ کے مطابق، سب سے زیادہ محروم انسان وہ ہے جو اپنی کم عمری ہی میں اپنی پسندیدہ چیز پالے۔ مثلاً پُر کشش بیوی، شاندار مکان، زرق برق کار، بینک بیلنس ، دوستوں کا حلقہ، محنت کے بغیر کافی آمدنی، عزت اور عہدہ، وغیرہ۔ ابتدائی عمر میں آدمی زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچنے کے قابل نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ملی ہوئی چیز کو کافی سمجھ کر بس اسی میں گُم ہوجاتا ہے ۔ راحت اور لذّت ہی کو وہ اپنا سب کچھ سمجھ لیتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بس ایک فربہ او رخوش پوش حیوان بن کر رہ جاتا ہے۔ اُس کی ذہنی سطح حیوانی سطح سے آگے نہیں بڑھتی۔
اصل یہ ہے کہ انسان فطرت سے بے پناہ صلاحیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ یہ صلاحیت ابتداء ً غیر پختہ حالت میں ہوتی ہے۔ پینتیس سال کے بعدانسان پختگی کی حالت پر پہنچتا ہے۔ اس طرح ہر انسان گویا ایک خام لوہا (ore) ہوتا ہے جس کو دوبارہ اسٹیل(steel) بننا ہے۔ یہ ارتقائی مرحلہ صرف پُرمشقت حالات کے درمیان طے ہوتا ہے۔ پُر مشقت حالات اور چیلنج کے سوا کوئی دوسری چیز نہیں جو اس ارتقائی عمل میں کار آمد ہوسکے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی زندگی کے آغاز ہی میں وہ حالات پالے جس میں اُس کو کچھ کیے بغیر سب کچھ مل جائے، وہ گویا خام لوہے کے درجہ میں پڑا رہے گا۔ اس کے برعکس جو آدمی پُر مشقت حالات سے گذ رے اور چیلنج کاسامنا کرکے اپنی زندگی بنائے وہ اس عمل کے دوران خام لوہے سے ترقی کرکے قیمتی اسٹیل بن جائے گا۔
۱۶۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ حدیث میں آیا ہے کہ: عجب اللہ من قوم یدخلون الجنّۃ فی السلاسل (صحیح البخاری، کتاب الجہاد، سنن ابی داؤد کتاب الجہاد،مسند احمد) یعنی کچھ لوگ زنجیروں میں باندھ کر جنت میں داخل کیے جائیں گے۔ اس حدیث کا مطلب عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زنجیر میں باندھنے کا یہ واقعہ آخرت میں پیش آئے گا۔ مگر یہ بات درایت یا کامن سنس کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ آخرت میں اگر کسی کو معلوم ہوجائے کہ اس کو جنت دے دی گئی ہے تو وہ خود ہی بھاگ کر جنت میں داخل ہو جائے گا، نہ یہ کہ اس کو باندھ کر زبردستی جنت میں پہنچانا پڑے۔
صحیح یہ ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں پیش آئے گا۔ زنجیر میں باندھنا اس کو دنیا کی مصیبتوں میں ڈالنا ہے۔ زنجیر میں باندھنا دنیا کی مصیبتوں میں مبتلا کرنے کی ایک تعبیر ہے۔ یہ معاملہ غالباً ان مخصوص لوگوں کے ساتھ پیش آئے گا جن کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ مصیبتوں میں پڑیں تو وہ منفی نفسیات کا شکار نہ ہوجائیں۔ بلکہ مصیبت کا واقعہ ان کے اندر رجوع الی اللہ کی کیفیت پیدا کردے۔ وہ ان کو اللہ سے قریب کرنے کا ذریعہ بن جائے۔ جن افراد کے اندر یہ صلاحیت موجود ہوتی ہے اُن کے لیے مصیبت کا تجربہ ربّانی نفسیات جگانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ غفلت سے نکل کر اللہ کی یاد کرنے والے بن جاتے ہیں اور اس طرح وہ جنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ یہ پورا واقعہ آج کی دنیا میں ہوتا ہے، نہ کہ آخرت کی دنیا میں۔
۱۷۔ ایک مجلس میں میںنے کہا کہ قدیم زمانہ میں پرنٹنگ پریس موجود نہ تھا۔ اس بنا پر ناول اور افسانے عمومی طورپر پائے نہیں جاتے تھے۔ ٹی وی اور سینما جیسی تفریحی چیزیں بھی موجود نہ تھیں۔ چنانچہ قدیم زمانہ میں ہر جگہ کچھ ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جن کو قصاص یا قصہ گو (story teller) کہا جاتا تھا۔ یہ افراد لوگوں کے لیے تفریح کا سامان فراہم کرتے تھے۔ دور پریس سے پہلے اس قسم کے افراد ہر سماج میں ہر مقام پر ہوا کرتے تھے۔ میںنے خود بھی اپنے بچپن میں ایک قصہ گو کو دیکھا ہے۔ یہ ایک مسلمان تھے جن کا نام گُھرہُو تھا۔ وہ بچوں یا بڑوں کو اکھٹا کر کے عجیب و غریب قصے سنایا کرتے تھے۔ یہ فرضی قصے اتنے دلچسپ ہوتے تھے کہ آدمی گھنٹوں سننے کے باوجود اکتاتا نہ تھا۔
فتوحات کے بعد جب اسلام شام و ایران اور مصر و عراق وغیرہ جیسے ملکوں میں داخل ہوا تو وہاں اس قسم کے بہت سے قصاص موجود تھے۔ ان لوگوں کے اثر سے مسلمانوں میں بھی قصاص کا گروہ پیدا ہوگیا۔ ان لوگوں نے مزید یہ کیا کہ قصہ گوئی کو اسلامائز کر لیا۔ یعنی عجیب و غریب قسم کی کہانیوں کو رسول اور اصحاب رسول اور بزرگانِ دین کے حوالہ سے بیان کرنے لگے۔ یہ قصہ گوئی چونکہ عربی زبان میں ہوتی تھی۔ اس لیے جب ان کا مجموعہ کتابی شکل میں مرتب ہو کر پھیلا تو لوگ اس کو سچ مُچ حدیث کی طرح مقدس سمجھنے لگے۔ یہ فرضی قسم کی مقدس کہانیاں مسلم دنیا میں پھیل گئیں اور پھر وہ ترجمہ ہو کر ہندستان جیسے ملکوں میں بھی پہنچ گئیں۔
اس قسم کی پُر اسرار اور پُر عجوبہ کہانیاں سراسر بے اصل ہیں۔ وہ مسلمانوں کا ذہن بگاڑتی ہیں۔ وہ مسلمانوں سے صحیح دینی اسپرٹ ختم کر دینے والی ہیں۔ ان انوکھی کہانیوں میں دنیا کی بھی تباہی ہے اور آخرت کی بھی تباہی ۔ دنیا کی تباہی اس لیے کہ اس قسم کی کہانیاں آدمی کے اندر غیر حقیقت پسندی کا مزاج پیدا کرتی ہیں اور آخرت کی تباہی اس لیے کہ آدمی اس جھوٹے بھرم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ حقیقی عمل کے بغیر سستے اعمال کرکے وہ جنت حاصل کرسکتا ہے۔
۱۸۔ ایک مجلس میں میں نے قرآن کی دو آیتوں کی تشریح کی۔ ان کا ترجمہ یہ ہے: کیا ایمان والوں کے لیے وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی نصیحت کے آگے جھک جائیں اور اُس حق کے آگے جو نازل ہوا ہے۔ اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر اُن پر لمبی مدت گزر گئی تو اُن کے دل سخت ہوگئے اور اُن میں سے اکثر نافرمان ہیں۔ جان لو کہ اللہ زمین کو زندگی دیتا ہے اُس کی موت کے بعد۔ ہم نے تمہارے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں، تاکہ تم سمجھو (الحدید۱۶۔۱۷)
اس آیت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اُمت مسلمہ پُر اسرار طورپر قساوت میں مبتلا ہونے سے محفوظ کردی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قساوت کا تعلق فطرت کے قانون سے ہے اور وہ ہر امت کے ساتھ بعد کی نسلوں میں ڈی جنریشن(de-generation) کے نتیجہ میں پیش آتا ہے۔ اصل یہ ہے کہ پیغمبر کی امت کی پہلی جنریشن معرفت (realization)کے ذریعہ خدا کے دین میں داخل ہوتی ہے۔ اس کا ایمان ذہنی انقلاب کے ہم معنیٰ ہوتا ہے۔ مگربعد کی نسلوں میں ایسا ہوتا ہے کہ لوگ صرف پیدائش کی بنا پر مسلم گروہوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس لیے امت کے بعد کی نسلوںمیں خشوع کا عنصر ختم ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ خشوع معرفت سے آتا ہے، نہ کہ پیدائشی وراثت سے ۔
فرمایا کہ بعد کی نسلوں میں جب ایسا ہو تو یہ کرنا ہوگا کہ دوبارہ لوگوں کے شعور کو جگایا جائے اور اُنہیں پھر سے معرفت والے ایمان پر کھڑاکیا جائے۔ اسلام کو اُن کے لیے ری ڈسکوری (re-discovery) بنایا جائے۔ اس معاملہ کی وضاحت کے لیے قرآن میں زمین کی مثال دی گئی ہے۔ زمین کے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے بعد مردہ (بنجر) ہوجاتی ہے۔ اُس وقت کسان زرعی عمل کرکے اُس زمین کو دوبارہ فصل کے قابل بناتا ہے۔ ڈی جنریشن کے بعد ری جنریشن (re-generation) کا یہی معاملہ امت میں نسل در نسل جاری رہنا چاہیے۔ تاکہ وہ قساوت سے بچے اور وہ خشوع والے ایمان پر قائم رہے۔
۱۹۔ ایک مجلس میں میں نے مولانا اسحاق کمال قادری کا واقعہ بیان کیا۔ وہ عرصہ سے ماہنامہ الرسالہ اور میری کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں۔ ایک بار حیدر آباد میں کئی دن اُن کو میری صحبت میںرہنے کا موقع ملا۔ اس دوران میں نے اُن سے پوچھا کہ اس تجربہ کی روشنی میں آپ بتائیں کہ تحریر اور صحبت میں کیا فرق ہے۔ یعنی کسی شخص کو کتابوں میں پڑھ کر اُس کے بارہ میں کتنا علم ہوتا ہے اور اُس کی صحبت میں رہ کر براہ راست اُس کی زبان سے سننے میں کیا حاصل ہوتا ہے۔ میرے بارہ میں تجربہ کی نسبت سے آپ اس فرق کو بتائیں۔
اُنہوں نے کہا کہ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس شخصیت کے قول و عمل میںتضاد ہے یا نہیں، اس کا اندازہ صرف تحریر کو پڑھ کر نہیں ہوسکتا مگر صحبت سے بخوبی طورپر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ صحبت کے بعد یا تو آدمی کی عظمت گھٹ جاتی ہے یا اُس کی عظمت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ پھر اُنہوں نے میرے بارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ تو یہ ہے کہ میں نے آپ کی تحریر اور آپ کے عمل میں کوئی تضاد نہیں پایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے ساتھ قلبی تعلق میںاور زیادہ اضافہ ہوگیا۔
۲۰۔ کم آمدنی والے لوگوں میں میں نے اکثر ایک مشترک مزاج پایا ہے۔ وہ یہ کہ یہ لوگ اکثر اس فکر میں رہتے ہیں کہ اپنی آمدنی کو کسی نہ کسی طرح بڑھائیں تاکہ اُن کے بچوں کو زیادہ آرام وراحت مل سکے۔ اس قسم کے ایک صاحب کو مشورہ دیتے ہوئے میں نے کہا کہ یہ ایک غلط مزاج ہے۔ یہ مزاج آدمی کو طرح طرح سے نقصان پہنچاتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کا ملا ہوا سکون بھی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
اس کے برعکس صحیح مزاج یہ ہے کہ آدمی آئندہ ترقی کے معاملہ کو بچوں پر چھوڑ دے۔ اُس کو جو کچھ مل رہا ہے اُس پر وہ راضی رہ کر گزارہ کرنے کی کوشش کرے۔ اس کی آمدنی اگر فطری طورپر بڑھ جائے تو وہ اُس کو اللہ کا انعام سمجھ کر ادا کرے۔ لیکن وہ اپنی آمدنی کو بڑھانے کے لیے زیادہ ہاتھ پاؤں نہ مارے۔ اُس کو چاہئے کہ وہ زیادہ آمدنی کے لیے اپنے بچوں کو تیار کرے۔ بچوں کو تعلیم دینا، بچوں کو ہُنر سکھانا، بچوں کے اندر شعورِ حیات پیدا کرنا، یہ سب مستقبل کے لیے اُس کا نشانہ ہونا چاہئے۔ اس کا دونکاتی فارمولا یہ ہونا چاہئے—اپنے لیے قناعت، اوربچوں کے لیے ترقی۔
۲۱۔ ایک مجلس میں میںنے کہا کہ ایک دیہاتی مقولہ ہے: بِتَّہ بھر جوتے، کچہری میں کھوکھے۔ یعنی آدمی کے پاس جوتنے کے لیے ایک بالشت زمین ہو مگر کچہری میں وہ آئے دن پہنچا رہے۔ یہ مقولہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو مقدمہ بازی کو اپنی عادت بنالیتے ہیں۔ مقدمہ لڑنے کے لیے عدالت میں جانا جن کا مشغلۂ حیات بن جاتا ہے۔
دوسرے لوگ وہ ہیں جو سنجیدہ اور شریف ہوتے ہیں۔ جن کو مقدمہ بازی ایک ناقابلِ برداشت مصیبت معلوم ہوتی ہے۔ اگر اتفاقاً وہ کسی مقدمہ میں پھنس جائیں تو وہ مسلسل ذہنی کوفت میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو میرا بہترین مشورہ یہ ہے کہ وہ یہ سوچ لیں کہ وہ یا تو مقدمہ جیتیں گے یا مقدمہ ہاریں گے۔ اس کے سوا کوئی تیسری صورت ہونے والی نہیں اور پھر وہ دونوں کے لیے یکساں طورپر تیار ہوجائیں۔
اگر وہ اپنے اندر یہ سوچ پیدا کرلیں تو اس کا پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ عدالت کا سامنا کرنا اُن کے لیے آسان ہوجائے گا۔ وکیل کی صورت میں جب قانونی مُکَّہ باز (legal boxer) سے اُن کا مقابلہ پیش آئے گا تو وہ معتدل ذہن کے ساتھ اُس کو جواب دے سکیں گے۔ عام لوگ اس اندیشہ میںمبتلا رہتے ہیں کہ کہیں وہ مقدمہ ہار نہ جائیں۔ لیکن جب ایک شخص ہار کا بھی استقبال کرنے کے لیے تیار ہو تو اُس کے اندر ایک نیا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حوصلہ مند آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کے مسائل کا سامنا کرسکے۔
۲۲۔ ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔قرآن کے مطابق، قیامت سے پہلے پیش آنے والے تین واقعات ظاہر ہوچکے ہیں۔ ایسی حالت میں اب قیامت میں زیادہ تاخیر کی بظاہر کوئی وجہ نہیں۔
اس سلسلہ میں پہلی چیز قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے: اولم یر الذین کفروا ان السمٰوات والارض کانتا رتقاً ففتقناہما (الأنبیاء ۳۰) اس آیت میںمجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قرآن مستقبل کے منکرینِ خدا کو خطاب کررہا ہے اور بتارہا ہے کہ تمہارے سامنے ایک ایسی کھُلی شہادت ظاہر ہونے والی ہے جس کے بعد خدا کے وجود کاانکار عقلی طور پر ناممکن ہوجائے۔ یہ شہادت موجودہ زمانہ میں بِگ بینگ(Big Bang) کا کائناتی نظریہ ہے۔ یہ نظریہ اب سائنسی طورپر ثابت ہوچکا ہے۔ یہ خالص علم انسانی کی سطح پر یہ ثابت کررہا ہے کہ کائنات کا پیدا کرنے والا ایک خالق ہے۔ اُس نے تقریباً ۲۰ بلین سال پہلے ہماری کائنات کو وجود دیا۔
اس سائنسی تحقیق کے بعد اب کسی سنجیدہ انسان کے لیے خدا کے وجود کا انکار کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں۔ اس تحقیق کے بعداب انسان کے سامنے صرف دو میں سے ایک کا انتخاب ہے۔ یا تو وہ خالق کے وجود کو مانے یا کائنات کے وجود کاانکار کردے اور خود اپنے وجود کا بھی۔
قرآن میں ایک پیشگی اطلاع یہ دی گئی تھی کہ —ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود اُن کے اندر بھی۔ یہاںتک کہ اُن پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے(حٰم السجدہ ۵۳)
اس آیت میں بتایا گیاتھا کہ مستقبل میں خالص علمی تحقیق کے ذریعہ ایسی شہادتیں سامنے آئیں گی جو قرآن کی صداقت کا یقینی ثبوت ہوں۔ یہ شہادتیں یا نشانیاں اب پوری طرح ظاہر ہوچکی ہیں۔ اس موضوع پر مختلف زبانوں میں بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک کتاب ڈاکٹر مَورث بُکائی کی ہے جو فرانسیسی زبان میں لکھی گئی تھی اور پھر مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوا۔ انگریزی میں اس کتاب کا نام یہ ہے:
The Bible, The Qur’an and Science
اس سلسلہ میں تیسری چیز دابۃ ہے جس کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے—اور جب اُن پر بات آپڑے گی تو ہم اُن کے لیے زمین سے ایک دابۃ نکالیں گے جو اُن سے کلام کرے گا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں رکھتے تھے (النمل ۸۲)
اس آیت میں دورِ آخر میں نکلنے والے دابۃ کا ذکر ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں موبائل ٹیلی فون اسی دابۃ کی مشینی تعبیر ہے۔ موبائل ٹیلی فون نے یہ ثابت کیا ہے کہ انسان اور انسان کے درمیان بعید فاصلوں سے ربط قائم کیا جاسکتا ہے۔ جب کہ دونوں کے درمیان بظاہر کوئی مادّی رشتہ موجود نہ ہو۔ اور جب انسان اور انسان کے درمیان فاصلہ کے باوجود غیر مرئی طورپر ربط قائم ہوسکتا ہو تو انسان اور خدا کے درمیان ربط قائم ہونا اپنے آپ ثابت ہو جاتا ہے۔ اور یہی رسالت اور وحی کا معاملہ ہے۔
اس طرح اب خدا کی طرف سے انسانی نسلوں کے اوپر خود علم انسانی کے ذریعہ آخر ی اتمام حجت ہو چکا ہے۔ اور جب لوگوں کے اوپر آخری اتمامِ حجت ہوجائے تو اُس کے بعد قیامت کے ظہور میںکوئی سببِ تاخیر باقی نہیں رہتا۔
۲۳۔ میرٹھ کے سفر میںایک خاص بات میں نے یہ دیکھی کہ یہاں جو لوگ الرسالہ مشن سے جڑے ہوئے ہیں وہ اسی کے ساتھ وہ کا م بھی کررہے ہیں جس کو موجودہ زمانہ میں سوشل سروس کہا جاتا ہے۔ ایک طرف وہ دعوہ ورک مستقل طورپر کرتے ہیں اور اسی کے ساتھ ساتھ سوشل ورک بھی مستقل طورپر انجام دیتے ہیں۔ مولانا عرفان صاحب، ساجد خاں صاحب اور شہزاد علی صاحب وغیرہ، سب اس میں شریک ہیں، ان کا سوشل ورک مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلموں میں ہورہا ہے۔
یہ طریقہ بے حد اہم ہے۔ موجودہ صورت حال یہ ہے کہ مختلف اسباب سے مسلمانوں اور غیر مسلموں میںدوری پیدا ہوگئی ہے۔ نفرت اور کشیدگی کا ماحول بن گیا ہے۔ ایسی حالت میں دعوت کا کام عملی طورپر کامیاب نہیں ہوسکتا۔ موجودہ حالات میں پہلا کام یہ ہے کہ دوری کو مٹایا جائے۔ نفرت کو ختم کیا جائے۔ لوگوں کے دلوں کو نرم کیا جائے اس کے بعد ہی داعی اور مدعو کے درمیان وہ معتدل ماحول بنے گا جس کے تحت کامیابی کے ساتھ دعوہ ورک ہوسکے۔ میرٹھ کا حلقہ اس معاملہ کی ایک قابل تقلید مثال ہے۔
ایک صاحب سے اس مثال کا تذکرہ کرتے ہوئے میںنے کہا کہ مجھے یقین ہے کہ میرٹھ میں دعوت کا کام آگے بڑھے گا۔ کیونکہ یہاں دعوت کی ابتدائی بنیاد موجود ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جگہ مسلمانوں کو سچی خیر خواہی کے ساتھ سوشل ورک کرناچاہئے، صرف مسلمانوں کے لیے نہیںبلکہ ساری انسانیت کے لیے۔ میںنے کہا کہ ’’امت پنا‘‘ کا تصور اسلام کی آفاقی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کی اصل روح ’’انسانیت پنا‘‘ ہے نہ کہ ’’امت پنا‘‘۔ اس معاملہ میں موجودہ مسلمانوں کا مزاج دعوت کے راستہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ جب تک یہ مزاج نہ بدلے، حقیقی معنوں میں دعوت کا کام نہیں ہوسکتا۔
۲۴۔ ایک مجلس میں میںنے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں ایک دینی صفت بالکل اُٹھ گئی ہے اور وہ سادگی ہے۔ حالاں کہ سادگی کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ اس کو ایمان کا ایک جزء بتایا گیا ہے۔ ایک صحابی کہتے ہیں کہ: ہم کو تکلف سے منع کیا گیا ہے (نہیناعن التکلف) ہر معاملہ میں سادگی کا طریقہ اسلام کا طریقہ ہے اور تکلف کا طریقہ غیر اسلامی طریقہ ہے۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میںیہ بیماری اتنی عام ہے کہ ہر ملک میں اس کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
کھانا صحت کے لیے ہے۔ صحت بخش کھانا وہی ہے جو سادہ کھانا ہو۔ مگر مسلمانوں نے ساری دنیا میں کھانے کو لذت کی چیز سمجھ لیا ہے۔ ہر مسلمان کی کمائی کا سب سے بڑا حصہ اس پر خرچ ہوتا ہے کہ کھانے کو زیادہ سے زیادہ لذیذ بنایا جائے۔ یہ لذیذ کھانا اسراف بھی ہے، وہ صحت کو بھی خراب کرتا ہے اور سادگی کے مزاج کو بھی ختم کرتا ہے۔ جب کہ سادگی ایمان کی پرورش کے لیے بے حد ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی لذیذ کھانا کھائے وہ نہ صرف اپنی صحت کو کھوتا ہے بلکہ وہ اس سے بھی محروم ہوجاتا ہے کہ اس کو اعلیٰ ایمانی کیفیات کا تجربہ ہو۔ لذیذ کھانا گہرے ایمانی احساس کے لیے قاتل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جولوگ لذیذ کھانے سے اوپر نہ اٹھ سکیں وہ ایک قسم کے خوش پوش حیوان ہیں، انہیں کبھی بلند انسانیت کا تجربہ نہیںہوسکتا۔
اسی طرح لباس اور تیوہار اور تقریبات اور شادی بیاہ اور سماجی رسوم اور خاندانی رواج میں اور بچوں کی ناز برداری میں تقریباً ہر مسلمان اتنا زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے جو بلا شبہہ اسراف اور تبذیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور اسراف و تبذیر میں مبتلا ہونے والوں کو قرآن میںشیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ یہ بے حد خطرناک بات ہے۔ ایسے لوگوں کا اس وقت کیا حال ہوگا جب کہ آخرت میںان کے بارے میں اعلان کیا جائے کہ یہ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔ ان کو اس مقام پر لے جاؤ جس کو شیطانوں کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔
۲۵۔ ایک مجلس میں میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میںایک برائی بہت عام ہے۔ وہ کسی ایک حدیث کو لے لیں گے اور اس کو مطلق اور عمومی بنا کر اس کے معاملہ میںآخری حد تک پہنچ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم فلاں حدیث پر عمل کررہے ہیں۔ حالانکہ یہ سراسر غیر اسلامی فعل ہے۔ اس روش پر سخت مواخذہ کا اندیشہ ہے۔
مثال کے طورپر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ایک حدیث سے اَولموا (ولیمہ کرو) کا لفظ لے لیں گے۔ اور اپنی شادیوں میں ولیمہ کے نام پر اتنا زیادہ خرچ کریں گے جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے شیطانی طریقہ پر عمل کرنا ہوگا، نہ کہ سنت کے طریقہ پر عمل کرنا۔
۲۶۔ ایک صاحب نے کہا کہ امت میںآج اتنازیادہ اختلاف ہے۔ بے شمار جماعتیں اور تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ سے پوری امت انتشار میں مبتلا ہے۔ ایسی حالت میں اتحاد کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ میں نے کہا کہ اتحاد ہمیشہ اختلاف کے باوجود ہوتا ہے، نہ کہ اختلاف کے بغیر۔ اتحاد کا راز اختلاف کو برداشت کرنا ہے، نہ کہ اختلاف کو مٹانا۔ حقیقت یہ ہے کہ رایوں کا اختلاف یا تنظیموں کی کثرت ایک فطری امر ہے۔ یہ چیز بجائے خود کوئی مسئلہ نہیں۔ جو چیز مسئلہ پیدا کرتی ہے وہ انتہا پسندی(extremism) ہے جس کو قرآن وحدیث میں غلو کہا گیا ہے۔
اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ حیدر آباد میں مولانا سید اکبر الدین قاسمی (ایم اے عثمانیہ) کا تجربہ اس معاملہ کی ایک کامیاب مثال ہے۔ وہ اپنا ایک واضح مسلک رکھتے ہیں۔ وہ اپنا مستقل ادارہ بھی چلارہے ہیں۔ وہ ہمارے مشن کے ساتھ بالکل شروع سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ پابندی کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ کی ایجنسی (۲۵ کاپیاں) چلارہے ہیں۔ اس کے باوجود ان کا نہایت خوش گوار تعلق ہر جماعت اور ہر تنظیم سے ہے۔ اس کا سبب ان کی اعتدال پسندی ہے۔ اپنے متحمل مزاج کی بنا پر وہ طبقہ کے درمیان مقبول ہیں۔ وہ ایک مغربی مفکر کے ایک قول کی ایک معیاری مثال ہیں۔ میرے اندر اتنا زیادہ وسعت ہے کہ تمام تضادات کو اپنے اندر سمو سکوں:
I am large enough to contain all these contradictions.
یہی وسعت نظری اور اعتدال پسندی اتحاد اور اتفاق کی اصل ضمانت ہے۔
(افسوس کہ مولانا سید اکبر الدین قاسمی ایک کار ایکسیڈنٹ میں شدید طورپر زخمی ہوگئے۔ اور ایک ہفتہ اسپتال میں رہ کر ۲۸ جنوری ۲۰۰۴ کو انتقال کرگئے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے۔ وہ حیدر آباد میں بہت بڑا تعلیمی کام کررہے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اس کام کو حسن خوبی کے ساتھ جاری رکھے اور اس کو ترقی کے اعلیٰ منازل تک پہنچائے اور ان کے پس ماندگان کے لیے حسن تلافی کا انتظام فرمائے۔ مولانا اکبر الدین صاحب کی موت راقم الحروف کے لیے ایک ذاتی حادثہ کی حیثیت رکھتی ہے)۔
۸ ستمبر ۲۰۰۳ کی صبح کو میرٹھ سے واپس ہو کر دہلی پہنچا۔ واپسی کا یہ سفر اُسی سڑک سے ہوا جس سڑک سے پہلی بار میں میرٹھ گیا تھا۔ میرٹھ میں قیام کے دوران اور بھی کئی واقعات پیش آئے۔ مگر سفرنامہ میں اُن کو درج نہ کیا جاسکا۔ تاہم میں سمجھتا ہوں کہ زندگی کا ہر سفر نامکمل ہے، خواہ اُس کے ہر لمحہ کو الفاظ کی صورت دے کر کاغذ پر لکھ دیا جائے۔ حقیقت کی دنیا غیر محدود ہے اور الفاظ کی دنیا محدود۔ پھر محدود کس طرح غیر محدود کا احاطہ کرسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں