Pages

Wednesday 1 August 2007

Al Risala | August 2007 (الرسالہ،اگست)

2

- دجّال اکبر کا فتنہ

5

- تفسیر قرآن

8

- قیامت قریب آگئی

10

- تطفیف پر وَیل

12

- خلافتِ ارضی

14

- اظہار دین

15

- صوفی ازم

18

- مدعو نہ کہ دشمن

19

- مسلم ذہن

20

- مسلمان کیا کریں

21

- جذباتِ پرستش

22

- کامیابی کا اصول

23

- دعوہ ورک، کمیونٹی ورک

25

- ڈی لنکنگ پالیسی

26

- صحیح طرزِ فکر

30

- سائنٹفک مذہب کی ضرورت

32

- چیلنج کی اہمیت

34

- غلط جنرلائزیشن

35

- مال کی حیثیت

36

- متواضع انسان

37

- تعلیم کی اہمیت

39

- امانی، عمل

41

- احتیاط ضروری ہے

42

- ایک خط

44

- خبرنامہ اسلامی مرکز180


دجّالِ اکبر کا فتنہ

حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں مستقبل کے بارے میں آئی ہیں۔ اِن میں سے ایک یہ ہے کہ آخری زمانے میں ایک دجّال پیدا ہوگا۔ اُس وقت اُمتِ مسلمہ میںسے ایک شخص اٹھے گا، جو دجّال کا’حَجیج‘بنے گا اور اُس کا خاتمہ کرے گا(إن یخرج وأنا فیکم فأنا حَجیجہ دُونکم، وإن یخرج ولستُ فیکم فامْرُئٌ حجیج نفسہ، صحیح مسلم، کتاب الفتن) یہ واقعہ تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہوگا۔ چناں چہ صحیح مسلم کی روایت میںیہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین ( کتاب الفتن) یعنی یہ خدا کے نزدیک سب سے بڑی گواہی ہوگی۔
دجّال کے لفظی معنٰی بہت دھوکا دینے والا(great deceiver) ہے۔ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گم راہی میں مبتلا کرے گا۔ دجال کے مقابلے میں جو شخص اس کی کاٹ کے لیے اٹھے گا، اُس کے لیے صحیح مسلم میں ’حجیج‘ کا لفظ آیا ہے۔ لسان العرب میں ’حجیج‘ کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: مُحاجُّہ ومغالبُہ بإظہار الحُجّۃ علیہ (2/228) یعنی دلائل کے ذریعے غالب آنے والا:
One who can overcome in the argument.
حدیث میں آتا ہے کہ دجّال کی پیشانی پر ک، ف، ر (کفر) لکھا ہوا ہوگا (صحیح مسلم، کتاب الفتن) اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دجال جس دور میں پیدا ہوگا، وہ خدا سے کفر (انکار) کا دور ہوگا، یعنی الحاد کا دور۔ پچھلی تاریخ کا فتنہ خدا کا انکار نہیں تھا، بلکہ خدا کو مان کر اُس کا شریک بنانا تھا۔ اُس زمانے میں خدا کا وجود ایک اصولِ موضوعہ(axiom)کے طور پر تسلیم کر لیا گیا تھا۔ لیکن موجودہ زمانے میں یہ مسلّمہ ٹوٹ گیا۔ آج الحاد کا زمانہ ہے، یعنی انکارِ خدا کا زمانہ۔
قدیم زمانے میں داعی کو یہ ثابت کرنا پڑتا تھا کہ خدا کا کوئی شریک نہیں۔ موجودہ زمانے میں داعی کو خدا کے وجود کو ثابت کرنا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس کو دجّال کے فتنے سے لڑنا کہاگیا ہے۔ خدا کے وجود کو علمی طورپر ثابت کرنا، یہی دجّال کو قتل کرنا ہے۔ حدیث میں جس چیز کو ’’عظیم ترین شہادت‘‘ کہاگیا ہے، اُس سے مراد غالباً یہی ہے۔
حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجّال یا دجّالیت در اصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہوگا کہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تأثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔ پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اِس دجّالی فتنے کا خاتمہ کردے گا۔ وہ دجّالی دلائل کو زیادہ بر تر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کردے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہوگا۔ وہ دعوتِ حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہوگا۔ اِسی لیے اُس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔
دجّالی فتنہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے کوئی نیا فتنہ نہیں،وہ شیطانی فتنے ہی کا نقطۂ انتہا (culmination) ہے۔شیطان ہمیشہ سے یہ کرتا رہا ہے کہ وہ ’تزئین‘ کے ذریعے لوگوں کو سچائی کے راستے سے ہٹاتا ہے۔ شیطان کا یہ کام ہمیشہ سے جاری ہے۔ اِسی شیطانی فتنے کے خلاف ذہن کو بیدار رکھنے کے لیے حج کے موقع پر رمی کی جاتی ہے۔ رمی دراصل شیطان کے خلاف علامتی سنگ باری (symbolic stoning) ہے۔ سائنسی دور میں یہ شیطانی تزئین، علمی تزئین کے روپ میں ظاہر ہوگی۔ اسی لیے اس کو دجّالیت کہاگیا ہے۔
قرآن کے مطابق، شیطان کا کام تزئین (الحجر: 39 ) کرنا ہے۔ تزئین کے لیے ہمیشہ اُس کے موافق سامان درکار ہوتا ہے۔ پچھلے زمانوں میں یہ موافق سامان زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ موافق سامان بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، علمی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔ دجّال دراصل وہ شیطانِ اکبر ہے جو جدید ذرائع سے، زیادہ پُرزور انداز میں باطل کی تزئین کرے گا۔ پھر امتِ محمدی کا ایک شخص اٹھے گا جو خدا کی خصوصی مدد سے نظریاتی سطح پراس کی دجّالیت کا خاتمہ کردے گا۔
دجّالیت در اصل علمی سطح پر تزئینِ اکبر کا فتنہ ہے۔ حدیث کے مطابق، اُس زمانے میں ایک ’’رجلِ مومن‘‘ اٹھے گا جو دجّال کو قتل کرے گا، مگر یہ قتل جسمانی معنوں میں نہ ہوگا بلکہ فکری معنوں میں ہوگا، یعنی دجّالی فتنے کو ایکسپوز (expose) کرنا۔
دجالیت ایک علمی فتنہ ہوگا اور رجلِ مومن بھی اس کا خاتمہ علمی دلائل کے زور پر کرے گا۔ حدیث میں ’عظیم شہادت‘ کا لفظ اِسی معنیٰ میںآیا ہے۔اِس میں ’شہادت‘ سے مراد گواہی ہے نہ کہ جان کی قربانی۔دینِ حق کی یہی وہ عظیم ترین گواہی ہے جس کو حدیث میں ’’قتلِ دجّال‘‘ کہاگیا ہے۔
دجّال اکبر کا مقابلہ کرنے والے اِسی رجلِ مومن کو حدیث میں مہدی کہاگیا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں مہدی اور مسیح دونوں کو ایک شخصیت بتایا گیا ہے(ولا المہدیُّ إلاّ عیسیٰ بنُ مریم، ابن ماجہ، کتاب الفتن) اِس اعتبار سے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ دجّال، شیطانی کلچر کا نقطۂ انتہا ہے اور مہدی، ربّانی کلچر کا نقطۂ انتہا۔ دجّال، مٹیریل آئڈیالوجی کا نمائندہ ہے اور مہدی، اسپریچول آئڈیالوجی کا نمائندہ— مٹیریل آئڈیالوجی کا نشانہ دنیا میں جنت کی تعمیر ہے، اور اسپریچول آئڈیالوجی کا نشانہ آخرت میں جنت کی تعمیر۔
واپس اوپر جائیں

تفسیرِ قرآن

کچھ لوگ ضروری علمی حق ادا کیے بغیر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں۔ مگر حدیث میںاس کو سختی سے منع کیا گیا ہے(الترمذی، باب أن یفسّر القرآن بغیر علم) مثلاً قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اُس میں دو قسم کی آیتیں ہیں۔ چناںچہ ارشاد ہوا ہے: منہ آیات محکمات ہنّ أم الکتاب وأخر متشابھات (آل عمران: 7) یعنی اُس میں بعض آیتیں محکم ہیں، وہ کتاب کی اصل ہیں۔ اور دوسری آیتیں متشابہ ہیں۔
اس آیت میں ’متشابہات‘ کا لفظ لے کر کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں مشتبہ آیتیں ہیں، اُن کا مفہوم واضح نہیں۔ مگر آیت کی یہ تفسیر درست نہیں۔ متشابہات کا مطلب متماثلات ہے، یعنی بزبان تمثیل۔ یہ دونوں الفاظ اُسلوب کو بتانے کے لیے ہیں، نہ کہ اصل معنیٰ کو بتانے کے لیے۔ اصل یہ ہے کہ قرآن میں دوقسم کے مضامین ہیں۔ ایک، موجودہ معلوم دنیا کے بارے میں۔ دوسرے، غیب کی دنیا کے بارے میں۔ قرآن میں موجودہ معلوم دنیا کے بارے میں جو بیانات ہیں وہ براہِ راست زبان میں ہیں اور غیب کی دنیا کے بارے میں جو بیانات ہیں وہ تمثیل کی زبان میں ہیں۔
مثلاً إن الصلاۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتًا (النساء: 103 ) ایک ایسی آیت ہے جو محکم زبان میں ہے۔ اس آیت میں’موقوت‘ کے مفہوم کو ہم پوری طرح جان سکتے ہیں۔ اس کے برعکس یداہ مبسوطتان (المائدہ: 64) ایک ایسی آیت ہے جو متشابہ زبان میں ہے۔ اللہ کا ہاتھ کیسا ہے، اُس کو جاننا ہمارے لیے ممکن نہیں، اس لیے اُس کو تمثیل کی زبان میں بیان کیا گیا۔ اس دوسری آیت کا مفہوم ہم صرف اجمالی زبان میں سمجھ سکتے ہیں۔ کلی اورحتمی طور پر اُس کا مفہوم اس دنیا میں سمجھا نہیں جاسکتا۔
متشابہ آیتوں میں غیب کی باتوں کو تمثیل کی زبان (symbolic language) میں بیان کیا گیا ہے۔ چوں کہ ان غیبی باتوں کو انسان موجودہ دنیا میں کلی طورپر سمجھ نہیں سکتا، اس لیے اُن کے معاملے میں ایسا کیا گیا۔ اس قسم کی آیتوں کے بارے میں خوض اور تعمق درست نہیں۔ ایک عالم نے بجا طور پر کہا ہے کہ: أبہموا ما أبہمہ اللہ (تم اُس چیز کو مبہم رکھو جس کو اللہ نے مبہم رکھا ہے)۔
جہاں تک محکم آیتوں کا تعلق ہے، اُن میں ہم یہ کرسکتے ہیں کہ اُن کی تفصیلات جاننے کے لیے مکمل تحقیق اور غور و فکر کریں کیوں کہ ایسی آیتیں انسان کے دائرۂ علم سے تعلق رکھتی ہیں۔ مگر جہاں تک متشابہات کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں طالبِ قرآن کو اجمالی مفہوم پر اکتفا کرنا چاہیے۔
2 - اسی طرح قرآن میں ’أولوا الألباب‘ کا لفظ کئی مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً فرمایا: إنما یتذکر أولواالألباب(الرعد: 19 ) ۔ ان آیتوں کے بارے میں اگر کوئی شخص کہے کہ ’أولواالألباب‘ کا مطلب ہے اوپن مائنڈ(open mind) تو یہ درست نہ ہوگا۔ قرآن کی تفسیر کے بارے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے زبان کے اعتبار سے آیت کا لفظی مفہوم بتایا جائے۔ اُس کے بعد ضروری تشریح اور تجزیہ کرکے بیان کیا جائے کہ اُس کے نزدیک آیت کا مفہوم کیا ہے۔ مثلاً ’أولواالألباب‘ کی آیت میں پہلے اُس کا صحیح ترجمہ بتانا ہوگا۔ اُس کے بعد اُس کے بارے میں اپنی تشریح دلائل کے ذریعہ بتائی جاسکتی ہے۔
عربی زبان میں ’لُبّ‘ کے معنی عقل (intellect) کے ہیں۔ تاہم لُبّ میںلغوی طورپر مزید وسعت ہے۔ لُب اصل میں ہر چیز کے خالص کو کہتے ہیں۔ عقل کے لیے جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اُس سے مراد خالص عقل ہوگی، وہ عقل جو وہم اور تعصب کی آمیزش سے پاک ہو۔ اس لیے لُبّ پر عقل کا اطلاق ہوگا مگر عقل پر لُبّ کا اطلاق ضروری نہیں۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی بے آمیز عقل کے ساتھ سوچے تو وہ قرآن کے بیان کی تصدیق پر مجبور ہوگا۔
’أولوا الألباب‘ کی تشریح کرتے ہوئے مفسر ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: العقول التّامۃ الزّکیۃ التی تدرک الأشیاء بحقائقہا (تفسیر ابن کثیر ،جلد 1 ، صفحہ 438 ) یعنی کامل اور پاکیزہ عقل جو چیزوں کا اُن کی حقیقت کے لحاظ سے ادراک کر لے۔
عقل ہر انسان کو ملتی ہے، لیکن لوگ اپنی عقل پر طرح طرح کے پردے ڈال لیتے ہیں۔ اس لیے وہ چیزوں کو ویسا نہیں دیکھ پاتے جیسی کہ وہ ہیں۔ جو آدمی اپنی عقل کو اس کمزوری سے بچائے اُس کے لیے حق کو پہچاننا کچھ بھی مشکل نہیں۔
یہاں میں ایک اور بات کا اضافہ کروں گا۔ وہ یہ کہ علم کے حصول کے لیے تواضع (modesty) لازمی طورپر ضروری ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع کی صفت نہ ہو وہ کبھی علم اور معرفت کا تجربہ نہیں کرسکتا۔
ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر انانیت اورکبر کا مادہ ہے، کوئی بھی آدمی اس سے خالی نہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ کسی آدمی کا کبر اُس کے لہجے اور انداز میں کھلے طورپر نمایاں ہوجاتا ہے اور کوئی شخص اپنے کبر کواس طرح چھپائے رہتا ہے کہ عام حالات میں کوئی آدمی اُس کو پکڑ نہیںسکتا۔
کبر حصولِ علم میں کیوں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے آپ بہت کم باتوں کو جان سکتاہے۔ زیادہ باتیں اُس کو دوسروں سے سیکھنی پڑتی ہیں۔ اب ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی آدمی کے سامنے دوسرے کی طرف سے کوئی علم کی بات آتی ہے تو وہ أخذتہ العزّۃ بالإثم (البقرہ: 206 ) کا مصداق بن جاتا ہے۔ یعنی وہ اُس کو ساکھ (prestige) کا سوال بنا لیتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے دوسرے کی بات مان لی تو میں اُس کے مقابلے میں چھوٹا ہوجاؤں گا۔ اس نفسیات کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ اُس کے سامنے علم آتا ہے مگر وہ اُس کو قبول کرنے سے محروم رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت قریب آگئی

وسیع کائنات میں زمین ایک استثنائی کُرہ ہے۔ وہ استثنائی طورپر سرسبز و شاداب ہے۔ اِس بنا پر وہ اِس قابل ہے کہ انسان اُس پر آباد ہو اور یہاں ترقی یافتہ تہذیب بنائے۔ مگر قرآن کے مطابق، یہ ابدی صورتِ حال نہیں۔ ایک وقت آئے گا جب کہ زمین کی شادابی باقی نہ رہے گی۔ وہ ایک بے آب و گیاہ کرہ بن کر رہ جائے گی۔ یہ واقعہ قیامت سے پہلے ہوگا۔
قرآن کی سورہ نمبر 18 کی ایک آیت یہ ہے: إنا جعلنا ما علی الأرض زینۃً لہا لنبلوہم أیُّہم أحسن عملاً۔ وإنّا لجاعلون ما علیہا صعیداً جُرُزاً (الکہف: 7-8 ) یعنی رُوئے زمین پر جو کچھ ہے ہم نے اُس کو زمین کے لیے زینت بنایاہے تاکہ ہم لوگوں کو جانچیں کہ اُن میں اچھا عمل کرنے والا کون ہے۔ اور ہم بالآخر اُس پر جو کچھ ہے سب کو بنجر میدان بنادیں گے۔
ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میں جب قرآن میں یہ آیت اتری، اُس وقت یہ بات ایک بعید پیشین گوئی تھی، مگر اب زمین کے سائنسی مشاہدات بتارہے ہیں کہ زمین کا یہ مقرر انجام شروع ہوچکا ہے۔ حال میں سیٹلائٹ کے ذریعے سطحِ زمین کے جو مشاہدات کیے گیے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے کُرۂ ارض پر پانی کے نظام میں سخت اختلال پیدا ہوگیا ہے۔ اور زمین تیزی سے عین اُسی انجام کی طرف جارہی ہے جس کی پیشین گوئی قرآن میں ’’صعیداً جُرُزاً‘‘ کے الفاظ میں کی گئی تھی۔
حال میں ساری دنیا کے سائنس دانوں نے اِس موضوع پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا شروع کیا ہے۔ اُن کے مشاہدات اور ریسرچ کے نتائج برابر میڈیا میں آرہے ہیں۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ٹائمس آف انڈیا‘ (18 مئی 2007 ) میں ایک رپورٹ اِس عنوان کے تحت چھپی ہے— 2050 تک زمین بے آب و گیاہ اور ویران ہو جائے گی:
By 2050, Earth will be arid and empty.
اِس خبر میں بتایا گیا ہے کہ مشہور سائنس داں جیمس لولاک (James Lovelock) نے جدید سائنسی معلومات کی روشنی میں کہا ہے کہ 2050 تک سطحِ ارض کا بڑا حصہ خشک ہوچکا ہوگا۔ بیش تر زندگیاں ختم ہوجائیں گی۔ ہم ایک ایسے انجام کے کنارے پہنچ چکے ہیں جب کہ ایک ایک کرکے لوگ مرنے لگیں گے، یہاں تک کہ سارے لوگ ختم ہوجائیں گے۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہوگا جس کو اِس سے پہلے انسان نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ جو کچھ ہونے والا ہے، اُس میں اگر بیس فی صد آدمی بھی زندہ بچ جائیں تو وہ بہت خوش قسمت انسان ہوں گے:
We are on the edge of the greatest die-off humanity has ever seen. We will be lucky if 20 % of us survive what is coming. (p. 22)
یہ جو کچھ ہورہا ہے، وہ سادہ طورپر ماحولیاتی تبدیلی (climate change) کی بات نہیں ہے۔ وہ خالق کی طرف سے ایک واررننگ ہے۔ وہ ایک ہونے والے واقعہ کی پیشگی اطلاع ہے۔ وہ اس لیے ہے تاکہ آدمی ہوش میںآجائے۔ وہ اپنی اصلاح کرکے اپنے آپ کو خدا کی پکڑ سے بچانے کی کوشش کرے۔
اصل یہ ہے کہ خدانے موجودہ دنیا کو ایک مقامِ تیاری (preparatory ground) کے طورپر بنایا ۔اُس نے اِس زمین پر ہر قسم کی ضروری چیزیں مہیا کردیں۔ یہ چیزیں سامانِ عیش کے طورپر نہ تھیں، بلکہ وہ صرف سہولیات (facilities) کے طورپر تھیں۔ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ اپنے اندر جنّتی شخصیت کی تعمیر کرے، تاکہ اُس کو جنت کی ابدی دنیا میں بسایا جاسکے۔ مگر انسان نے یہ کیا کہ اُس نے سامانِ تیاری کو سامانِ عیش سمجھ لیا۔ اپنے آپ کو جنت کے لیے تیار کرنے کے بجائے، وہ اِسی دنیا میں اپنی جنت بنانے لگا۔
خدا مختلف قسم کی تنبیہات (warnings)بھیجتا رہا، لیکن انسان ہوش میں نہ آیا۔ اِس طرح اُس نے خدا کی نظر میں یہ جواز کھو دیا کہ وہ مزید مدت تک اِس دنیا میں قیام کرے۔ بظاہر اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ یہ دنیا ختم کردی جائے اور انسان کو اپنے عمل کا حساب دینے کے لیے میدانِ حشر میں کھڑا کردیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

تطفیف پر وَیل

تجارت کو منصفانہ بنیاد پر قائم کرنا، شریعتِ الٰہی کا ایک اہم اصول ہے۔ اس سلسلے میں قرآن میں ایک بنیادی حکم یہ دیاگیا ہے کہ تجارتی سودے میں کوئی تاجر نہ کم تولے اور نہ کم ناپے بلکہ ناپ اور تول میں پوری طرح عدل سے کام لے۔ اس سلسلے میں قرآن کے چند حوالے یہ ہیں:
1 - لاتنقصوا المکیال والمیزان (ہود:84 )
2 - ولا تبخسوا الناس أشیاء ہم (الشعراء:183 )
3 - ولا تخسروا المیزان (الرحمٰن:9 )
اس کے علاوہ قرآن کی سورہ نمبر 83 میں ایک اور حکم آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جو لوگوں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں۔ اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کردیں۔ کیا یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ وہ اُٹھائے جانے والے ہیں، ایک بڑے دن کے لیے، جس دن تمام لوگ خداوند عالم کے سامنے کھڑے ہوں گے‘‘۔ (التطفیف: 1-6 )
سورہ التطفیف کے حکم اور دوسری سورتوں کے حکم میں بظاہر لفظی مشابہت ہے۔ یعنی دونوں میں ناپ اور تول کی زبان استعمال کی گئی ہے۔ مگر دونوں میںایک بنیادی فرق ہے۔ وہ یہ کہ دوسری سورتوں میں دینے کے وقت یک طرفہ طورپر کم تولنے یا کم ناپنے کا ذکر ہے۔ مگر سورہ التطفیف میں اس کے برعکس یہ کہاگیا ہے کہ— وہ لوگ جو دوسروں سے ناپ کرلیں تو پورا لیں۔ اور جب اُن کو ناپ کر یا تول کردیں تو گھٹا کر دیں۔
اس فرق پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری سورتوں میں تاجرانہ بد معاملگی سے منع کیا گیا ہے۔ مگر سورہ التطفیف میں جو بات ہے اُس کا تعلق تجارتی معاملے سے نہیں ہے۔ یہ دراصل ایک انسانی کردار ہے جس کو ناپ اور تول کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کامزاج یہ ہو کہ اپنے معاملے میں اُن کا معیار کچھ ہو اور دوسروں کے معاملے میں اُن کا معیار کچھ اور۔
یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اُن کی اپنی ذات کا ذکر ہو تو وہ صرف اپنی خوبیاں بیان کریں، اور جب دوسرے کا معاملہ ہو تو وہ اُس کی صرف برائیاں بیان کریں۔ اپنے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کو ہمیشہ خوب صورت الفاظ مل جائیں، اور دوسرے کے معاملے کو بیان کرنے کے لیے اُن کے پاس صرف برے الفاظ ہوں۔ وہ اپنے آپ کو تو ہمیشہ خوش نام رکھنا چاہتے ہوں مگر دوسروں کے معاملے میں انھیں صرف اُن کی بدنامی سے دلچسپی ہو۔ ایک طرف وہ اپنے کارناموں کا بھرپور اعتراف چاہتے ہوں اور دوسری طرف اُن کے سوا جو لوگ ہیں، اُن کا ذکر اس طرح کریں جیسے کہ انھوں نے کوئی اچھا کام ہی انجام نہیں دیا۔
ان آیات میں ناپ اور تول کی زبان بطور تمثیل استعمال کی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جس باٹ سے دوسروں سے لے رہاہے، اسی باٹ سے اُسے دوسروں کو دینا بھی چاہیے۔ مثلاً دوسروں سے وہ اپنا اعتراف چاہتا ہے تو اُس کو بھی دوسروں کا اعتراف کرناچاہیے۔ دوسروں سے وہ چاہتا ہے کہ وہ اُس کو بدنام نہ کریں تو اُس کو بھی چاہیے کہ وہ دوسروں کو بدنام کرنے سے پرہیز کرے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ حق کے معاملے میں اُس کا ساتھ دیں تو اُس کو بھی اسی طرح دوسروں کا ساتھ دینا چاہیے۔وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اُس کے بارے میں وہی بات کہیں جو واقعہ کے مطابق ہو تو اُس کو بھی دوسروں کے بارے میں ہمیشہ مطابقِ واقعہ بات کہنا چاہیے۔
تاریخ کے اکثر نزاعات بدگمانی کی بنیاد پر ہوئے ہیں، اور بدگمانی کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف ہوتا ہے۔ دو افراد یا دو گروہوں کے درمیان جب بھی نزاع ہو یا ہوئی تو اُس کا سبب ہمیشہ یہی تطفیف تھا۔ لوگوں نے جس کو اپنا حریف سمجھ لیا، اُس کی اچھائیوں کو بالکل نظر انداز کردیا۔ البتہ اُس کی حقیقی یا غیر حقیقی برائیوں کو ڈھونڈھ کر نکالا اور اُس کو عوام کے درمیان خوب پھیلادیا— گھر کی انفرادی لڑائی سے لے کر باہر کی قومی لڑائیوں تک ہر جگہ یہی تطفیف کا معاملہ کام کرتا ہوا نظر آئے گا۔
واپس اوپر جائیں

خلافتِ ارضی

خلافتِ ارضی سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسری جگہ ’تمکین فی الارض‘ (الکہف: 84) کہاگیا ہے۔ یعنی زمین میں اقتدار دینا۔ یہ اقتدار ایک آزمائشی پرچہ ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح مال ایک آزمائشی پرچہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خلافتِ ارضی حکمت الٰہی کے تحت ہر قوم کو دی جاتی ہے۔ اور اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اللہ یہ دیکھے کہ اقتدار پانے والی قوم اقتدار پانے کے بعد کیسا عمل کرتی ہے (یونس : 14 )
یہ خلافت ارضی یا اقتدار قرآن کے مطابق، مکمل طورپر خدا کا عطیہ ہے۔ وہی اپنی مصلحت کے تحت یہ عطیہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے اور جس کو نہیں چاہتا اس کونہیں دیتا۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ— تم کہو،اے اللہ، سلطنت کے مالک تو جس کو چاہے سلطنت دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے۔ اور تو جس کو چاہے عزت دے اور جس کو چاہے ذلیل کرے۔ تیرے ہاتھ میں ہے سب خیر۔ بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے (آل عمران: 26 )
جس طرح مال مقصود حیات نہیں ہے اسی طرح خلافتِ ارضی بھی مقصود دعوت نہیں ہے۔ یہ منصوبۂ الٰہی کے خلاف ہے کہ کوئی گروہ خلافت کو اپنی تحریک کا نشانہ بنائے، خلافت کسی گروہ کو اس طرح نہیں ملتی کہ وہ اس کو اپنا نصب العین قرار دے کر اس کے لیے براہِ راست جدوجہد کرے۔ اس سیاسی عطیہ کا تعلق استحقاق سے ہے۔ اگر کسی گروہ کے اندر یہ شرط پائی جائے تو خوداللہ کی طرف سے ایسے حالات پیدا کیے جائیں گے جو اس کو منصب خلافت تک پہنچا دیں۔ استحقاق کے بغیر محض مطالباتی مہم یا سیاسی جدوجہد کے ذریعہ کسی کو خلافت کا منصب نہیں مل سکتا۔
جہاں تک اہلِ ایمان کاتعلق ہے خلافت ارضی کا معاملہ ان کے لیے ایک امر موعود ہے، وہ ان کے لیے امر مقصود نہیں۔ یعنی اہلِ ایمان کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ خلافت کو اپنا نشانہ بنا کر اس کے حصول کے لیے براہِ راست تحریک چلائیں۔ان کو اپنے اندر ایمانی شعور کو زندہ کرنا ہے اور اپنی ذات سے متعلق ضروری عملی تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔ اللہ کاوعدہ ہے کہ اس کے بعد وہ ان کے لیے خلافت ارضی کا فیصلہ فرمائے گا۔قرآن میں ارشاد ہوا ہے:
’’اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو زمین میں خلافت (اقتدار) دے گا جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو خلافت (اقتدار) دیا تھا۔ اور ان کے لیے ان کے دین کو جمادے گا جس کو ان کے لیے پسند کیا ہے۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد اس کو امن سے بدل دے گا۔ وہ صرف میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد انکار کرے تو ایسے ہی لوگ نافرمان ہیں۔‘‘ (النور : 55)
خلافت یانظام صالح کوئی ایسی چیز نہیں جو کاغذ سے نکل کر زمین پر قائم ہوجائے۔ اس دنیا میں صالح نظام کو قائم کرنے کے لیے ہمیشہ صالح افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر صالح افراد موجود نہ ہوں تو خلافت یا نظام صالح کا نام لینے سے کوئی صالح نظام قائم نہیں ہوسکتا۔ یہ عمل اور نتیجے کے درمیان فرق کا معاملہ ہے۔ اگر آپ پھل چاہتے ہوں تو پہلے آپ کو شجر کاری پر عمل کرنا ہوگا۔ شجر کاری کے میدان میں ضروری عمل کیے بغیر کبھی کوئی شخص پھل کا مالک نہیں بن سکتا۔
یہی معاملہ خلافت یا نظام صالح کے قیام کا بھی ہے۔ کرنے والوں کو سب سے پہلے یہ کرنا ہے کہ وہ افراد کے اندر اعلیٰ ایمانی شعور جگائیں۔ وہ لوگوں کے اندر بلند کرداری پیدا کریں۔ وہ ایسے افراد تیار کریں جو ہر قسم کے نفسانی محرکات سے اوپر اٹھ کر لوگوں سے معاملہ کرنے والے ہوں۔ جن کے اندر یہ استعدادپیدا ہو چکی ہو کہ وہ اقتدار پاکر بھی متواضع بنے رہیں۔ زمین کے خزانے ان کے ہاتھوں میں آئیں مگر وہ حبّمال میں مبتلا نہ ہوں۔ لوگوں کی طرف سے ان کی اناکو چوٹ لگے اس کے باوجود وہ انصاف کے اصول پر قائم رہیں۔ ایسے افراد ہی کوئی صالح نظام قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد کے بغیر خلافت یا صالح نظام کا نعرہ لگانا صرف فساد فی الارض ہے، نہ کہ حقیقی معنی میں کوئی نتیجہ خیز عمل۔
واپس اوپر جائیں

اظہارِ دین

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن اتر رہا تھا، اس وقت یہ اعلان کی گیا کہ— وہ اللہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کردے(ہوالذی أرسل رسولہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدّین کلّہ)
یہ آیت قرآن کی تین سورتوں (التوبہ، الفتح، الصف) میں آئی ہے۔ اس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے۔ اس کا ابتدائی مظاہرہ عرب میں ہوا جب کہ پورے عرب میں شرک مغلوب ہوگیا اور توحید کو تمام ملک میں فکری غلبہ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ اسی کے ساتھ پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر جوانقلاب لائے اس کے ذریعہ سے تاریخ میںایک نیا عمل جاری ہوا جو تمام علمی اور نظریاتی اسباب کو اسلام کے حق میں کر دینے والا تھا۔ یہ عمل تاریخ میں جاری رہا۔ یہاں تک کہ موجودہ زمانے میں وہ پوری طرح مکمل ہوگیا۔ اب اسلام کو امکانی طورپر تمام ادیان کے اوپر فکری غلبہ حاصل ہوچکا ہے۔ تاہم یہ فکری غلبہ امکان کی صورت میں ہے۔ اب اہلِ اسلام کا یہ کام ہے کہ وہ اٹھیں اور اس امکان کو استعمال کرکے اسلام کو عملی طورپر تمام ادیان کے اوپر غالب اور سر بلند کردیں۔
اظہار دین کی آیت میں جو بات کہی گئی ہے اس سے مراد دراصل یہ ہے کہ پیغمبر اور اصحاب پیغمبر کے ذریعہ تاریخ میںایسا انقلاب لایا جائے گا جس کے بعد دلائل کا وزن تمام تر مذہب توحید کے حق میں جمع ہوجائے۔ شرک کی قسم کا کوئی بھی نظریہ دلیل کی بنیاد پر کھڑا ہونے کے قابل نہ رہے۔ یہ تمام نتیجہ اس انقلاب کے ذریعہ حاصل کیا گیا ہے جس کو موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کہاجاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ امکان اپنی آخری صورت میں پیدا ہوچکا ہے۔ آج تمام علمی دلائل اسلام کی صداقت کی تصدیق کررہے ہیں۔ آج سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ ان جدید امکانات کو سمجھا جائے اور ان کو پُر امن طور پر اسلامی دعوت کے حق میں استعمال کیا جائے۔ موجودہ زمانے میں اسلامی دعوت کا کام گویا کہ ایک نظری امکان کو عملی واقعہ بنانے کا کام ہے۔
واپس اوپر جائیں

صوفی ازم

بی بی سی لندن کی طرف سے ایک خط مورخہ 31 دسمبر 2003 مجھے ملا۔ اس خط میں مجھ سے فرمائش کی گئی تھی کہ اُن کے ویب سائٹ کے لیے میںایک ہزار الفاظ کا ایک آرٹیکل تیار کرکے اُنھیں دوں۔ اس آرٹیکل کا تعلق، صوفی ازم سے تھا۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ کیا صوفی ازم مشرق اور مغرب کے درمیان دوری کو ختم کرسکتا ہے:
If Sufism has the possibility to bridge the widening gulf between the Islamic world and the West.
یہ آرٹیکل اُنھیں انگریزی زبان میں ایک ہزار الفاظ میںمطلوب تھا۔ اس آٹیکل کو وہ مختلف زبانوں میں اپنی ویب سائٹ پر شائع کرنا چاہتے تھے۔ آرٹیکل کا عنوان انھوں نے حسب ذیل الفاظ میں تجویز کیا تھا:
Relevance of Sufism in the post 9/11 world.
یہ دعوت نامہ ملنے کے بعد میںنے از سرِ نو صوفی ازم کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں میں نے صوفیوں اور غیر صوفیوں کی بہت سی کتابوں سے استفادہ کیا، اُردو کے علاوہ دوسری زبانوں میں بھی۔ اس مطالعے کے بعد بہت سی حقیقتیں میرے سامنے آئیں۔
صوفی یا تصوف کی اصطلاحیں قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ جہاں تک میںسمجھتا ہوں، اس کے بجائے قرآن میں الربّانیۃ (آل عمران: 79) کا لفظ آیا ہے۔ قرآن میں الربّانیۃ تقریباً اُسی مفہوم کے لیے استعمال ہوا ہے جس کے لیے بعد کے زمانے میں تصوف کے الفاظ استعمال ہوئے۔
الربّانیۃ یا الربّانیون کا لفظی مطلب ہے، رب والا۔ یعنی وہ شخص جس کی سوچ اور جس کا عمل، سب کچھ رب کی طرف متوجہ ہوجائے۔ جس کی زندگی مکمل طورپر رب کے رنگ میں ڈھل جائے۔ وہ بظاہر دنیا میں رہے مگر وہ نفسیاتی اعتبار سے دنیا سے قطع تعلق کرکے آخرت سے جُڑ جائے۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتدا میں جو آیتیں اُتریں اُن میںآپ کو مدثر اور مزمل کے لفظ سے خطاب کیا گیا، یعنی اے چادر اوڑھنے والے۔ چادر اوڑھنا دراصل اس بات کی علامت ہے کہ آدمی خارجی دنیا سے قطع تعلق کرکے داخلی دنیا کی طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ مادی دنیا سے کٹ کر روحانی دنیا سے جڑ گیا۔ وہ انسانوں کی طرف سے اپنا رُخ موڑ کر خدا کی طرف دیکھنے لگا۔ نبوت کے بعد پیغمبر اسلام کے اندر یہی نفسیاتی حالت پیدا ہوئی۔ چناں چہ آپ کو مدثر اور مزمل کے لفظ سے خطاب کیاگیا۔
صوفی کلچر اس مخصوص نام (تصوف) سے عباسی خلافت کے زمانے میں شروع ہوا۔ اُس وقت صوفی مزاج کے لوگوں نے پیغمبر اسلام کی پیروی میں ’’چادر‘‘ اوڑھنا شروع کیا۔ یہ چادر عام طورپر صوف (اون) کی بنی ہوئی ہوتی تھی۔ اس لیے ایسے لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا، یعنی اون کی چادر اوڑھنے والے۔ پھرصوفی کے لفظ نے مزید ترقی کی اور اس فعل کو تصوف کہاجانے لگا۔ بعد کے زمانے میں اگر چہ تصوف کے حلقوں میں کچھ بدعتیں رائج ہوگئیں، مگر ابتدائی زمانے میںتصوف کا مطلب صرف یہی تھا۔
صوفی ازم اور روحانیت اور ربّانیت سب تقریباً ہم معنٰی الفاظ ہیں۔ یہ سب بنیادی طورپر مراقبہ (meditation) پر مبنی ہیں۔ یعنی داخلی عبادت کرنا، ذکر و فکر میںمشغول ہو کر حقیقت اعلیٰ کی طرف دھیان لگانا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ عمل دنیا میں رہتے ہوئے انجام دیا جاتا ہے، نہ کہ دنیا سے باہر جنگلوں اور پہاڑوں میںجاکر۔ میںسمجھتا ہوں کہ اسلامی تصوف یا ربّانی زندگی کا بہترین اظہار مندرجہ ذیل حدیث میں پایا جاتا ہے:
وعلی العاقل مالم یکن مغلوباً علی عقلہ أن تکون لہ ساعات۔ ساعۃ یناجی فیہا ربّہ، وساعۃ یحاسب فیہا نفسہ، وساعۃ یتفکر فیہا فی صنع اللہ تعالیٰ، وساعۃ یخلوفیہا لحاجتہ من المطعم والمشرب (صحیح ابن حبان عن أبی ذر، جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلی البغدادی، صفحہ 98)
یعنی ہر صاحب عقل پر لازم ہے کہ اُس کے لیے کچھ گھڑیاں ہوں۔(1) وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے رب سے سرگوشی کرے۔ (2) وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے نفس کا محاسبہ کرے ۔(3) وہ گھڑی جب کہ وہ خدا کی کاری گری میں غور کرے۔ (4) اور وہ گھڑی جب کہ وہ اپنے کھانے پینے کی ضرورتوں میں مشغول ہو۔
اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ آدمی اپنے چوبیس گھنٹے کے وقت کو چھ چھ گھنٹے کے حساب سے چار حصوں میں تقسیم کرے اور ہر حصے کو مذکورہ چار کاموں میں سے ایک کام کے لیے وقف کردے۔ اس قسم کی ساعاتی تقسیم نہ فطری طورپر ممکن ہے اور نہ مذکورہ حدیث کا یہ منشا ہے۔
حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو اپنے رات اور دن کے اوقات اس طرح گذارنا چاہئیں کہ اُس پر مذکورہ قسم کے لمحات برابر آتے رہیں۔ وہ بار بار اس قسم کے تجربات سے گذرتا رہے۔ یہ حدیث تجربات کے تنوع کو بتانے کے لیے ہے، نہ کہ اوقات کی حسابی تقسیم کو بتانے کے لیے۔
ایک انسان کو جب حقیقتِ اعلیٰ (خدا) کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو اُس کے اندر ایک نفسیاتی انقلاب آجاتا ہے۔ اس نفسیاتی انقلاب کے تحت اُس کی روزوشب کی زندگی اُنھیں تجربات ربانی کے درمیان گذرنے لگتی ہے جن کا ذکر مذکورہ حدیث میں ملتا ہے۔ یہ حدیث دراصل اُس ربانی انسان کی زندگی کی تصویر ہے جس کو خدا کی دریافت ہوگئی ہو اور اس دریافت کے نتیجے میں اُس کی زندگی کا نقشہ بالکل بدل گیا ہو۔
ایسے انسان کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ کبھی خدا کی یاد میں اس طرح ڈوب جاتا ہے کہ اُس کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ خدا سے باتیں کررہا ہے۔ اسی طرح یہ دریافت اُس کے اندر احتساب خویش کا جذبہ جگادیتی ہے اور وہ اپنا بے لاگ جائزہ لینے لگتا ہے تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنا تزکیہ کرسکے۔ اسی طرح خالق کی دریافت اُس کے اندر خالق کی تخلیقات میں غور وفکر کا مزاج پیدا کردیتی ہے۔ وہ تخلیقات میںخالق کا جلوہ دیکھنے لگتا ہے۔ یہ اُس کی روحانی یا ربّانی مصروفیات ہیں۔ اسی کے ساتھ اُس کی ایک ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ایک جزئی حصے میں اپنی معاشی حاجتوں کے لیے کچھ وقت نکالے۔
واپس اوپر جائیں

مدعو نہ کہ دشمن

موجودہ زمانے میں تقریباً تمام مسلمان، غیر مسلم قوموں کو اپنا دشمن یا حریف سمجھتے ہیں۔ اُن کا ایک طبقہ ان قوموں کے خلاف مسلّح جنگ چھیڑے ہوئے ہے۔ اور ان کا دوسرا طبقہ ان کے خلاف منفی جذبات میں مبتلا ہے۔ یہ بات سرتا سر اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ اِس قسم کی تمام کارروائیاں نہ تو اسلامی جہاد ہیں اور نہ اسلامی غیرت۔ وہ اسلام کے نام پر صرف غیر اسلام کا ارتکاب ہیں، اِس کے سوا اور کچھ نہیں۔
قرآن کے مطابق، ہمارا دشمن صرف شیطان ہے جس کو قرآن میں طاغوت کہا گیا ہے۔ ہماری لڑائی صرف شیطان سے ہے، کسی اور سے نہیں۔انسان کے اندر امتحان کے مقصد سے مختلف قسم کے جذبات رکھے گیے ہیں۔ مثلاً غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ اِن جذبات کو غلط رُخ دے کر شیطان ہم کو صحیح راستے سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی وہ مواقع ہیں جب کہ ہمیں شیطان سے لڑنا ہے۔ شیطان کی تزئین (الحجر: 39) سے بچنے ہی کا نام تزکیہ ہے اور جو لوگ اِس اعتبار سے اپنا تزکیہ کریں، وہی وہ لوگ ہیں جن کو جنت میں داخلہ ملے گا (طٰہٰ: 76) شیطان کے خلاف انسان کی لڑائی صرف نفسیات کی سطح پر ہوتی ہے، تشدّد اور ہتھیار کی سطح پر نہیں۔
جہاں تک انسان کا معاملہ ہے، قرآن کے مطابق، انسان ہمارا مدعو ہے۔ وہ ہمارا حریف یا دشمن نہیں۔ انسان کے ساتھ ہمارا تعلق داعی اور مدعو کا ہے، دشمن یا مدّ مقابل کا نہیں۔ انسان کے مقابلے میں ہماری ذمے داری یہ ہے کہ ہم اُس کو پر امن طور پر خدا کا پیغام پہنچائیں۔ پیغام رسانی کا یہ کام صرف وہ لوگ کرسکتے ہیں جو نفرت اور عداوت کے جذبات سے مکمل طورپر خالی ہوں۔ نفر ت اور دعوت دونوں ایک سینے کے اندر جمع نہیں ہوسکتے۔ موجودہ زمانے کے مسلمان، انسان کے خلاف اپنی طاقت ضائع کررہے ہیں۔ یہ سراسر خدا کی اسکیم کے خلاف ہے۔ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے اِس رجحان کو بدلیں اور اپنی ساری طاقت دعوت الی اللہ کے کام میں صرف کریں۔ یہی اُن کے لیے نجات کا واحد راستہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مسلم ذہن

موجودہ مسلم ذہن (Muslim mind) کیا ہے— ایک صاحب نے سوال کیا۔ میںنے کہا کہ میرے مطالعے اور تجربے کے مطابق، موجودہ زمانے کے مسلمان اُس ذہنیت کا شکار ہیں جس کو خطرے سے گھری ہوئی ذہنیت(besieged mentality) کہا جاتا ہے۔ یہ حالت تقریباً تمام مسلمانوں کی ہے۔ کسی میں کم اور کسی میں زیادہ۔ کوئی شعوری طورپر اس ذہن کا شکار ہے اور کوئی غیرشعوری طورپر۔موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ کوئی ہندو خطرے کی بات کرتا ہے اور کوئی یہودی خطرے کی اور کوئی مسیحی خطرے کی۔ کوئی امریکی خطرے کی نشان دہی کر رہا ہے اور کوئی انگریزی خطرے کی۔ اس قسم کی تمام باتیں یقینی طور پر اسلامی اسپرٹ اور اسلامی طرزِ فکر کے خلاف ہیں۔قرآن میں اعلان کیا گیا ہے کہ پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اللہ نے اپنے دین کو آخری حد تک مستحکم کردیا، اس لیے اب تم لوگ انسانوں سے نہ ڈرو بلکہ اللہ سے ڈرو۔ (المائدہ: 3 ) اس واضح اعلان کے بعد انسانی خطرے کی بات کرنا یقینی طور پر خود اپنے ایمانی شعورکی کمی کا اعلان ہے، نہ کہ انسانی خطرے کی موجودگی کا اعلان۔
قرآن کے اس اعلان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ بطور واقعہ پیش نہ آئے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے مواقع کھول دیے ہیں جو ہر مسئلے پر غالب رہیں، گویا مسئلہ اگر ایک ہو گا تو اُس کے مقابلے میں مواقع متعدد ہوں گے۔ اسی حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا: لن یغلب عُسرٌ یُسرَین (تفسیر ابن کثیر، جلد4 ، صفحہ 525)
موجودہ زمانے میں تیسیر کا یہ معاملہ اپنی آخری حد پر پہنچ چکا ہے۔ مثلاً قدیم زمانے میں اقتصادیات کا انحصار تمام تر زمین(land) پر ہوتا تھا۔ اور زمین کا مالک پورے ملک میں صرف ایک شخص ہوتا تھا، اور وہ بادشاہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں بادشاہ تو شان دار محلوں میں رہتے تھے اور عام انسان صرف معمولی مکانات میں۔
واپس اوپر جائیں

مسلمان کیا کریں

1940 کے قریب مسلم اخبارات اور رسائل میں ایک عنوان پر بہت زیادہ لکھا جارہا تھا— ’’مسلمان کیا کریں‘‘۔ عجیب بات ہے کہ آج بھی یہ موضوع بدستور زندہ ہے۔ ایک مسلم پروفیسر سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ موجودہ مسلمانوں کے لیے ’لائن آف ایکشن‘ کیا ہو۔ ایک عرب شیخ سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے یہ سوال کیا کہ ہم اپنا عمل کہاں سے شروع کریں (مِن أین نبدأ) اِس مسئلے پر میں نے بہت غور کیا ہے۔ میری سمجھ میں تین باتیں آتی ہیں:
1 - اِس معاملے کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ بعد کے دور میں مسلمانوں نے پیغمبرِاُسوہ کو پیغمبرِفضیلت بنا لیا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہزاروں کتابیں لکھی گئیں، مگر وہ کم و بیش نعت خوانی کے اسلوب میں لکھی گئیں، کوئی منثور نعت خوانی تھی اور کوئی منظوم نعت خوانی۔ چناں چہ اِن کتابوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ پیغمبر اسلام سے مسلمانوں کو فخر کی غذا ملی مگر ان کو پیغمبر اسلام سے رہنمائی کی غذانہ مل سکی۔
2 - قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ قرآن کی صراحت کے مطابق، پچھلے پیغمبروں کا یہ ذکر اِس لیے تھا کہ اُن سے اپنے حالات میں رہنمائی حاصل کی جائے۔ (فبہداہم اقتدہ) لیکن بعد کے زمانے میں یہ ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے پیغمبر کو ’پیغمبر کامل‘ سمجھ لیا۔ اِ س بنا پر مسلمانوں میں یہ ذہن ختم ہوگیا کہ وہ پچھلے پیغمبروں سے رہنمائی حاصل کریں، جواُن کے نزدیک گویا کہ ’غیرکامل پیغمبر‘ تھے۔
3 - حدیث میں مومن کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے سے باخبر ہوتا ہے (أن یکون بصیراً بزمانہ) لیکن موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہنماؤں نے یہ کیا کہ انھوںنے موجودہ زمانے کو اپنا دشمن سمجھ لیا ۔ اِس بنا پر موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے اندر یہ ذہن ہی پیدا نہیں ہوا کہ وہ زمانے کو مثبت انداز میں سمجھیں اور اس کے مطابق، اپنے عمل کی منصوبہ بندی کریں— میرے نزدیک، یہ تین بنیادی کوتاہی ہے جس نے موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو حقیقی رہنمائی سے محروم کردیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جذبات ِ پرستش

انسان اپنے پیدائشی مزاج کے اعتبار سے ایک پرستش پسند مخلوق ہے۔ انسان چاہتا ہے کہ کوئی اس کا معبود ہو جس کی وہ پرستش کرے۔ کوئی ہو جس کو وہ اپنی توجہات کا مرکز بناسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام قومیں ہیرو پرست ہوتی ہیں۔ وہ اپنے ’’اکابر‘‘ کو اپنے خدا پرستارانہ جذبات کا مرکز بنا لیتی ہیں۔ ہیروؤں سے غیر معمولی لگاؤ درحقیقت اس جذبۂ عبودیت کا غلط استعمال ہے جو اللہ نے ہر آدمی کے اندر پیدائشی طورپر رکھ دیا ہے۔ جس طرح ہر آدمی کو پیاس لگتی ہے اور وہ پانی پینے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر آدمی خود اپنے اندرونی جذبے کے تحت مجبور ہے کہ وہ کسی کو معبود بنا کر اس کی پرستش کرے۔ کوئی بھی شخص اس احساس سے خالی نہیں ہوسکتا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا امتحان لیا جارہا ہے۔ جو لوگ اپنے جذبات پرستش کا مرکز ایک خدا کو بنائیں وہ سچے پرستار ہیں، وہ امتحان میں کامیاب ہوگئے۔ جو لوگ اپنے جذبات پرستش کا مرکز کسی غیر خدا کو بنالیں وہ جھوٹے پرستا رہیں، وہ امتحان میں ناکام ہوگیے۔
کچھ لوگ ہیں جو اپنی فطرت میں چھپے ہوئے جذبات پرستش کا مرکز بتوں کو یا مظاہر فطرت کو بناتے ہیں۔ کچھ اور لوگ ہیں جو اپنے قومی ہیروؤں کو اپنا معبود بنا لیتے ہیں اور اپنے جذبات پرستش ان کے لیے خاص کردیتے ہیں۔ یہ سب شرک ہے۔ اور شرک کو خدا کبھی قبول نہیں کرے گا۔
اسی طرح ایک اور طبقہ ہے جو اپنے ’’اکابر‘‘ سے وہ محبت کرنے لگتا ہے جو خدا سے ہونی چاہیے۔ اپنے اکابر کی باتوں کو وہ اہمیت دینے لگتا ہے جو خدا کی باتوں کو دینا چاہیے۔ جو اپنے اکابر پر کسی بھی قسم کی تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اکابر کی تقدیس و تعظیم ہی اس کا سرمایۂ حیات ہوتی ہے۔ یہ بھی بلاشبہہ وہی چیز ہے جس کو غیر اللہ کو معبود بنانا کہاگیا ہے۔
حقیقی موحد وہ ہے جس کے جذبات کا مرکز آخری حد تک صرف خدا بن جائے۔جوانسانی شخصیتوں میں اٹکا ہوا نہ ہو۔ ایسا آدمی اکابر کے خلاف تنقید سن کر کبھی نہیں بھڑکے گا۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا اصول

جلدی نہ کرو۔ کیوں کہ تم جتنی جلدی کرو گے اتنی ہی زیادہ دیر لگے گی— جلدی کرنا کسی کام کو وقت سے پہلے مکمل کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ اور اِس دنیا کے لیے خالق کا قائم کردہ اٹل قانون یہ ہے کہ یہاںہر کام اپنے وقت پر مکمل ہو، وقت سے پہلے کوئی کام کبھی مکمل نہیں ہوسکتا۔ جلدی کرنے والے کا کام صرف بگڑتا ہے، اُس کا کام کبھی بننے والا نہیں۔
اس دنیا میں آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اگر چہ اس کو شروع کرنے والا وہ خود ہوتا ہے۔ مگر اس کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب کہ فطرت کا نظام بھی اس کے ساتھ موافقت کرے۔ فطرت کے نظام کی موافقت حاصل کیے بغیر، یہاں کوئی کام کبھی تکمیل کو پہنچنے والا نہیں۔
فطرت کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تدریج کے اصول پر عمل کرتی ہے۔ وہ واقعات کو اچانک ظہور میں نہیں لاتی۔ اب انسان اگر فوراً اور جلد نتیجہ نکالنا چاہے تو وہ عملاً ممکن نہ ہوگا۔ کیوں کہ انسان کی رفتار تیز ہوگی اور فطرت کی رفتار تدریجی قاعدے کی بنا پر سُست۔ ایسی حالت میں آدمی کو اپنے کام میں فطرت کی موافقت حاصل نہ ہوگی۔ اس کا کام بننے کے بجائے صرف بگڑ کر رہ جائے گا۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرنا چاہے، سب سے پہلے وہ فطرت کے نظام کا مطالعہ کرے۔ اس کے بارے میں وہ فطرت کے اصول کو معلوم کرے۔ اور پھر اس مطالعہ کی روشنی میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ یہی واحد طریقہ ہے جس کو اختیار کرکے کوئی شخص کامیابی کے ساتھ اپنے مقصد تک پہنچ سکتا ہے۔
کامیابی اورناکامی دونوں کا معاملہ فطرت کے نظام سے جُڑا ہوا ہے۔ اِس دنیا میں فطرت سے مطابقت کرنے کا نام کامیابی ہے، اور فطرت کے خلاف چلنے کا نام ناکامی ۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ پہلے فطرت کے نظام کو سمجھے اور اُس کے بعد اُس کے مطابق، وہ اپنے کام کی منصوبہ بندی کرے۔
واپس اوپر جائیں

دعوہ ورک، کمیونٹی ورک

دو کام ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ایک ہے، کمیونٹی ورک، اور دوسرا ہے، دعوہ ورک۔ یہ صحیح ہے کہ دونوں ہی کام اہمیت رکھتے ہیں۔ مگر دونوں میں یہ بنیادی فرق ہے کہ کمیونٹی ورک کی اہمیت دنیا کی تعمیر کے اعتبار سے ہے، اور دعوہ ورک کی اہمیت آخرت کی تعمیر کے اعتبار سے۔
موجودزمانہ میں دعوہ ورک حقیقی معنوں میں تو کہیں موجود نہیں۔ البتہ کمیونٹی ورک ہر ملک کے مسلمانوں میں بہت بڑے پیمانہ پر انجام دیا جارہا ہے۔ امریکی اصطلاح میں، ایسے کسی شخص کو کمیونٹی ایکٹیوسٹ (community activist) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ جن میدانوں میں کام کرتے ہیں وہ یہ ہیں— تعلیم، اقتصادیات، ملّی مسائل، فرقہ وارانہ نزاعات، ریلیف ورک، سوشل ویلفیر، رفاہی کام، دوسری قوموں کی طرف سے مشکلات کا حل تلاش کرنا، وغیرہ۔
یہ کمیونٹی ورک ہے۔ اس قسم کا کام ہر قوم میں پایا جاتا ہے۔ ہندو، عیسائی، سکھ اور دوسری قوموں میںاس قسم کا کام بہت بڑے پیمانہ پر اور بہت منظّم اندا ز میں کیا جارہا ہے۔ جب بھی کوئی قوم قابلِ لحاظ تعداد میں موجود ہو تو اُس کے افراد میں فطری طور پر قومی حمیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ وہ چاہنے لگتا ہے کہ وہ اپنی قوم کو دنیوی معنوں میں مستحکم اور ترقی یافتہ بنائے، وہ اپنی قومی کلچرل شناخت کو برقرار رکھے۔
اس کے نتیجے میں ہر قوم میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو اپنی قوم کی خیر خواہی کے جذبہ کے تحت مذکورہ قسم کے کام انجام دیتے ہیں۔ اس قسم کے قومی کام کا داعیہ پیدا ہونے کی مزید وجہ یہ ہوتی ہے کہ اس سے آدمی اپنی قوم کے اندر مقبول ہوتا ہے۔ ا س کو لیڈری ملتی ہے۔ اُس کو ہر جگہ باعزت مقام پر بٹھایا جاتا ہے۔ میڈیا میں شان دار الفاظ میں اُس کا چرچا ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کو معاشرہ کے اندر وہ چیز ملتی ہے جس کواسٹیٹس (status) کہا جاتا ہے۔
مگر قرآن اور سنت کے مطالعہ سے میں نے یہ سمجھا ہے کہ اس قسم کا کمیونٹی ورک دنیا میں لوگوں کو خواہ کتنا ہی زیادہ اہم نظر آئے، آخرت کے اعتبار سے اُس کی کوئی قیمت نہیں۔ میرے فہم دین کے مطابق، آخرت کے اعتبار سے صرف دو چیزوں کی اہمیت ہے— ایک، اللہ سے عجز کا تعلق، اور دوسرے، اللہ کے بندوں کو اللہ کا پیغام پہنچانا، جس کو میں نے دعوہ ورک کہا ہے۔
صحیح مسلم اور مسند احمد میں ایک روایت آئی ہے۔اس کے مطابق، حضرت عائشہ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اے خدا کے رسول، عبد اللہ بن جُدعان جاہلیت کے زمانہ میں خوب صلہ رحمی کرتا تھا اور مسکینوں کو بہت کھانا کھلاتا تھا تو کیا اُس کا یہ عمل اُس کو آخرت میںنفع دے گا۔ آپ نے فرمایا کہ اے عائشہ، نہیں۔ اُس نے کسی دن یہ نہ کہا کہ: ربّ اغفرلی خطیئتی یوم الدین (اے میرے رب، جزا کے دن میرے گناہ کو معاف کردے) صحیح مسلم، کتاب الایمان، مسند احمد 6/93 ۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رب اغفر لی خطیئتی یوم الدین کے الفاظ میں کچھ ایسے فضائل چھپے ہوئے ہیں کہ اگر کوئی آدمی ان الفاظ کو اپنی زبان سے بول دے تو اُس کے بعد پُر اسرار طورپر اُس کو نجات حاصل ہوجائے گی۔ یہ جملہ دراصل عجز کا کلمہ ہے، نہ کہ معروف معنوں میں فضیلت کا کلمہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کی بے پایاں عظمت کو اس طرح دریافت کرے کہ اُس کے مقابلہ میں وہ سراپا عجز بن جائے۔ اُس کا عاجزانہ احساس اُس کے دل کی گہرائیوں سے مذکورہ دعا کی صورت میں نکلنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کو کسی بندہ کی طرف سے جو چیز سب سے زیادہ محبوب ہے وہ عجز ہے، وہ عجز جو داخلی معرفت کا اظہار ہو، نہ کہ محض کچھ الفاظ کی تکرار۔
دعوہ ورک سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ اور شہادت علی الناس جیسے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حق کی پیغام رسانی کا وہی کام ہے جس کو پیغمبر نے اپنے معاصرین کے سامنے انجام دیا۔ یہ کام ہر قوم میںاور ہر نسل میں مطلوب ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اُس کو ہر زمانے میں مسلسل طورپر جاری رکھا جائے، صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر نے اپنے زمانہ میں براہِ راست طورپر اس دعوتی کام کو انجام دیا تھا۔ اور امت مسلمہ کی بعد کی نسلیں بالواسطہ طورپر اُس کو ہر زمانہ میں انجام دیتی رہیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ جو ایمان باللہ آدمی کے اندر عجز کی کیفیت پیدا نہ کرے وہ ایمان ہی نہیں۔ اسی طرح جو شخص دعوت الی اللہ کا کام انجام نہ دے اُس کے بارے میں یہ امرہی مشتبہ ہے کہ وہ آخرت میں امت محمدی میںشمار ہوگا یا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ڈی لنکنگ پالیسی

اسلام کی ایک اہم تعلیم وہ ہے جس کو اعراض (الحجر: 94 )کرنا کہا جاتا ہے۔ آج کل کی زبان میںاس کو ڈی لنکنگ پالیسی (de-linking policy)کہہ سکتے ہیں۔ یہ ڈی لنکنگ پالیسی بے حد اہم ہے۔ عملی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے اِس کے سوا کوئی اور صورت نہیں۔ مثال کے طور پر انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1947 سے جھگڑا شروع ہوگیا۔ یہ جھگڑا کشمیر کو لے کر تھا۔ اِس جھگڑے میںآدھی صدی سے زیادہ مدت گذر گئی۔
انڈیا اور پاکستان دونوں سرحدی ملک ہیں۔ دونوں کے درمیان بہت بڑے پیمانے پر اقتصادی لین دین ہوسکتا ہے، مگر پاکستان کے لیڈروں نے یہ شرط لگائی کہ جب تک کشمیر کا جھگڑا طے نہ ہو، وہ انڈیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات قائم نہیں کرسکتے۔ اِس کے نتیجے میں پاکستان کو بے شمار نقصانات اٹھانے پڑے۔ حالاں کہ اِس مسئلے کا سادہ حل یہ تھا کہ پاکستان ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کرے۔ وہ کشمیر کے اِشو کو پُر امن گفت و شُنید کی میز پر رکھ دے اور انڈیا کے ساتھ ہر قسم کے اقتصادی تعلقات بحال کرلے۔ مگر پاکستان کے لیڈروں نے ایسا نہیں کیا۔ اِس طرح وہ عظیم فوائد سے محروم ہوگیے۔
یہی معاملہ انفرادی زندگی کا ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان اکثر جھگڑے پیش آتے ہیں، یہ جھگڑے زیادہ تر ذوقی یا مزاجی اختلاف کی بنا پر ہوتے ہیں۔ اِس قسم کے نزاعات کا سادہ حل یہ ہے کہ شوہر اور بیوی دونوں ڈی لنکنگ کی پالیسی اختیار کرلیں۔ وہ اختلافی معاملے کو سائڈ میں رکھ کر بقیہ معاملات میں خوش گوار زندگی گذاریں۔ خاندانی زندگی کے مسائل کا یہی بہترین حل ہے۔
ڈی لنکنگ پالیسی کا تعلق انفرادی زندگی سے بھی ہے اور قومی زندگی سے بھی۔ انسانی تعلقات کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے یہی بہترین پالیسی ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، انسانوں کے درمیان اختلافات کا پیدا ہونا یقینی ہے۔ ایسی حالت میں مسئلے کا حل اختلافات کو مٹانا نہیں ہے، بلکہ اختلافات کے معاملے میں ڈی لنکنگ کی پالیسی کو اختیار کرلینا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے گفتگو کے دوران کنفیوژن کا ذکر کیا۔ میں نے کہا کہ یہ ایک حد اہم مسئلہ ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ 99 فیصد سے زیادہ لوگ کنفیوزڈ تھنکِنگ (confused thinking) میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ اس نعمت سے محروم ہوجاتے ہیں جس کو رائٹ تھنکنگ (right thinking) کہا جاتا ہے۔ رائٹ تھنکنگ دراصل سدادِ فکر (sound thinking) کا دوسرا نام ہے۔ انسان کو چاہیے کہ سب سے پہلے وہ آرٹ آف تھنکنگ میں مہارت حاصل کرے۔ اس کے بغیر اس کی پوری زندگی بے معنی ہو کر رہ جائے گی، فکری اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی۔
کنفیوژن کا یہ مسئلہ صرف انسان کا مسئلہ ہے۔حیوانی دنیا (animal world) اس مسئلے سے آشنا نہیں۔ کوئی بھی حیوان اپنی زندگی کا کورس متعین کرنے کے لیے کبھی کنفیوژن کا شکار نہیں ہوتا۔ چیونٹی سے لے کر شیر تک اورمچھلی سے لے کر چڑیا تک ہر حیوان کارویہ ہمیشہ درست رویہ ہوتا ہے۔ ہر حیوان قابل پیشین گوئی کردار (predictable character) کا مالک ہے۔ حیوانات کے اس قابلِ رشک پہلو کو ٹی وی پر اینمل ورلڈ (Animal World) کے پروگرام میں دیکھا جاسکتا ہے۔ حیوانات معیاری حد تک ٹھیک وہی کرتے ہیں جو کہ ازروئے واقعہ انھیں کرنا چاہیے۔
اس کے مقابلے میںانسان کو دیکھئے تو یہاں بالکل مختلف منظر دکھائی دے گا۔ انسان فکری بے راہ روی کا نمونہ نظر آتا ہے۔ اس فرق کا سبب کیا ہے۔ اس فرق کا بنیادی سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ تنظیمِ فکر(thought management) ہے۔ حیوانات میں تنظیم فکر کامل طورپر موجود ہے۔ جب کہ انسان میں تنظیم فکر کا فقدان ہے۔
یہاں دوبارہ یہ سوال پیداہوتا ہے کہ حیوان اور انسان میں یہ فرق کیوں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حیوان اپنی جبلت (instinct) سے کنٹرول ہوتا ہے، اس کی جبلت اس کے اندر تنظیم فکر کی یقینی ضمانت ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میںانسان ایک آزاد مخلوق ہے۔ انسان آزادانہ طورپر سوچتا ہے اور خود اپنی آزادی (free will) کے تحت رائے قائم کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ انسان کو اپنی فکری تنظیم خودہی انجام دینا ہے۔ اس کو خود اپنے فیصلے کے تحت اپنے آپ کو فکری ڈسپلن کا پابند بنانا ہے۔
انسان کے اندر فکری تنظیم (thought management) کا عمل (process) کیوں سُکڑتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان معلومات کے جنگل کے درمیان زندگی گزارتا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کے اندر وہ فکری استعداد موجود ہو جس کے ذریعے وہ متعلق (relevant) اور غیر متعلق (irrelevant)کے فرق کو جانے۔ وہ غیر متعلق باتوں کو چھوڑتے ہوئے متعلق باتوں پر اپنی نظر جمائے رہے۔ یہی وہ واحد آرٹ ہے جو انسان کے لیے صحت فکر کا ضامن ہے۔
چند مثالوں سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اکثر لوگ ڈارون ازم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ زندگی کا ظہور جب ارتقا (Evolution) کے ذریعے ہوا تو اب خدا کو ماننے کی کیا ضرورت۔ مگر یہ صرف مغالطہ ہے۔ اصل یہ ہے کہ ارتقا کا نظریہ اولاً تو ابھی تک کوئی ثابت شدہ واقعہ نہیں۔اور اگر بالفرض وہ واقعہ ہو تب بھی وہ خالق کے عقیدے کی تردید نہیں۔ نظریۂ ارتقا زیادہ سے زیادہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ خالق کا طریقہ خصوصی تخلیق(special creation) نہیں، بلکہ ارتقائی تخلیق (evolutionary creation) ہے۔ نظریۂ ارتقا کا تعلق تخلیق کے پراسس (process of creation) سے ہے، نہ کہ خود خالق سے۔
اسی طرح کچھ لوگ یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ اسلام ابدی مذہب نہیںہوسکتا۔ کیوں کہ زندگی کے حالات بدلتے رہـتے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں ضرورت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ازسرِ نو رہنمائی دی جائے۔ مگر یہ صرف فکری کنفیوژن کی بات ہے۔ کیوں کہ اسلام اپنے اصل کے اعتبار سے صرف اساسات (basics) کا مجموعہ ہے۔ اور اساسات میں کبھی تبدیلی نہیںہوتی۔ جن چیزوں میںتبدیلی ہوتی ہے وہ غیر اساسی چیزیں (non-basics) ہیں۔ اور غیر اساسی چیزوں میں تبدیلی کے اس مسئلے کے لیے اسلام میں اجتہادکا طریقہ رکھا گیا ہے جو یقینی طورپر اس مسئلے کا مکمل حل ہے۔
بہت سے لوگ مدر ٹریسا کو ماڈل سمجھتے ہیں۔ مگر یہ ادھوری سوچ کا نتیجہ ہے۔ مدر ٹریسا علامت ہے انسان کی جسمانی تکلیف کو دور کرنے کی۔ مگر تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کی جسمانی تکلیف دور کرنا ایک مفید کام ہونے کے باوجود وہ اصل کام نہیں۔ اس لیے کہ انسان ایک فکری حیوان (thinking animal) ہے۔ جسمانی اعتبارسے صحت مند ہوتے ہی وہ دوسری شدید تر فکری بیماری میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ مثلاً تکبر، حسد، انتقام، اقتدار پسندی، خود غرضی، عصبیت، بے اعترافی اور سرکشی، وغیرہ۔
تجربہ بتا تا ہے کہ انسان اگر مسائل کے درمیان ہو تو اس کے اندر تواضع (modesty) پرورش پاتی ہے۔ وہ دوسروں کے لیے نو پرابلم انسان بنا رہتا ہے۔ لوگوں کی جسمانی تکلیف کو دور کرنا صرف ایک جزئی کام ہے۔ زیادہ بڑا کام یہ ہے کہ انسان کے اندر صحیح طرزِ فکر (right thinking) کا مادہ پیدا کیا جائے، اس کو اس کے روحانی ارتقا (spiritual development) میں مدد دی جائے۔
یہی وجہ ہے کہ مدر ٹریسا اپنے مشن کے ابتدائی مرحلے میں حالت اطمینان میں ـتھیں، مگر وہ اپنے مشن کے آخری مرحلے میں مایوس ہو کر مریں۔ کیوں کہ جب مدر ٹریسا کے ادارے کو کافی شہرت اوردولت مل گئی تو ان کے ’’تندرست‘‘ ساتھیوں نے ان کو ایسی پریشانی میں مبتلا کردیا جس کا تجربہ ان کو اپنے ’’مریض‘ ‘ ساتھیوں سے نہیں ہوا تھا۔
1947 سے پہلے کے دور میں اقبال اور جناح جیسے لوگوں نے یہ سوچا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ کے مقابلے میں علیٰ حدہ مسلم لینڈ مسلمانوں کے سارے مسائل کا حل ہے۔ مگر جب یہ علیٰ حدہ مسلم لینڈ بن گیا تو معلوم ہوا کہ اس علیٰ حدہ مسلم لینڈ میںاس سے بھی زیادہ مسائل ہیں جتنا کہ ہندو- مسلم مشترک لینڈ میں ہیں، یا ہوسکتے تھے۔ اس اندوہ ناک انجام کا سبب یہ ہے کہ اقبال اور جناح جیسے لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہ سکے کہ پاکیزہ معاشرے کا تعلق پاکیزہ انسان سے ہے۔ پاکیزہ معاشرہ اس طرح نہیں بن سکتا کہ کسی لینڈ کو سیاسی اعتبار سے الگ کرکے اس کا نام پاکیزہ لینڈ رکھ دیا جائے۔
اس معاملے میںانسان کی ایک سنگین غلطی یہ ہے کہ وہ ایک واقعہ کو دوسرے واقعہ سے جوڑ کر نہیں دیکھ پاتا۔ چناں چہ علیٰ حدگی پسندگی کی جو سیاست پاکستان کی صورت میں اندوہ ناک حد تک ناکام ہوچکی ہے۔ اب کشمیر کے مسلمان ٹھیک اسی سیاست کو دہرانا چاہتے ہیں۔ انھوں نے پاکستان کے انجام سے کوئی سبق نہیں لیا۔ حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ کشمیر خواہ آزاد کشمیر بنے یا پاکستانی کشمیر، دونوں حالتوں میں اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ حالات کے اعتبار سے کشمیر کے لیے بہترین پالیسی یہ تھی کہ وہ تاریخ کے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے ہندستان کے ساتھ مل کر رہے۔ ہندو- مسلم مشترک سماج کشمیر کی ترقی کے لیے زیادہ مفید ہے۔
سدادِ فکر کی لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی واقعات کو تقابلی انداز میں دیکھ سکے۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو شیکسپئر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
In comparison that we understand.
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے میں یہاںایک مثال دوں گا۔ ایمرجنسی کے بعد 1970 میں انڈیا کا جنرل الیکشن ہوا۔ اس وقت جے پرکاش نرائن نے نان کانگریس ازم کی تحریک چلائی۔ ان کا کہنا تھا کہ کانگریس راج ملک کی ساری خرابیوں کی جڑ ہے۔ انھوں نے نعرہ دیا کہ کانگریس کو ہٹاؤ، ملک میں ٹوٹل ریولیوشن لاؤ۔ ایمرجنسی کی وجہ سے عوام بہت برہم تھے۔ چناں چہ نان کانگریس ازم کا نعرہ کامیاب ہوا اور کانگریس، الیکشن میں بری طرح ہار گئی۔ اس کے بعد نئی دہلی میں جنتا پارٹی کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ حکومتی تبدیلی جے پرکاش نرائن کے پروگرام کے عین مطابق تھی۔
مگر جہاں تک حقیقی سطح پر سماجی اور قومی حالات کا معاملہ ہے اس میں کچھ بھی تبدیلی نہیںآئی، بلکہ اور زیادہ بگاڑ پیدا ہوگیا۔ حتیٰ کہ خود جنتا پارٹی کی حکومت اپنا ٹرم پورا نہ کرسکی اور ڈھائی سال کے اندر ہی ختم ہوگئی۔
واپس اوپر جائیں

سائنٹفک مذہب کی ضرورت

فرانسس ہربرٹ بریڈلے (وفات: 1924 ) مشہور برٹش فلسفی ہے۔ اس نے اپنی کتاب (Appearance and Reality) میں لکھا ہے کہ آج انسان کو ایک سائنٹفک مذہب (Scientific religion) کی ضرورت ہے، قدیم روایتی طرز کا مذہب آج کے انسان کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ بریڈلے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ آج کے انسان کو ایسا مذہب چاہیے جس کا پیغمبر نیوٹن ہو اور جس کی مقدس کتاب پرنسپیا (Principia) ہو، یا یہ کہ اُس کا پیغمبر آئن سٹائن ہو اور اس کا الہٰیاتی نظریہ (General theory of relativity) ہو، بلکہ بریڈلے کا مطلب یہ تھا کہ آج کے زمانے میں وہی مذہب انسان کے لیے قابلِ قبول ہوسکتا ہے جو سائنٹفک جانچ میں پورا اترے۔
اصل یہ ہے کہ جدید سائنس کے ظہور کے بعد تمام افکار و عقائد کی دوبارہ سائنسی جانچ کی گئی۔ اِس جانچ میں بہت سے نظریات غیر واقعی ثابت ہو کر متروک ہوگیے۔ مثلاً اِسی جانچ کے نتیجے میں سولرسسٹم کے بارے میں زمین مرکزی (geocentric)نظریہ ختم ہوگیا اور آفتاب مرکزی (heleocentric)نظریے کو مان لیا گیا۔ اِسی طرح قدیم الکیمی ختم ہوگئی اور جدید کمیسٹری نے اُس کی جگہ لے لی۔ اِسی طرح قدیم ایسٹرالوجی کا خاتمہ ہوگیا اور جدید ایسٹرا نومی کو قبولیت حاصل ہوگئی، وغیرہ۔
بریڈلے کا مقصد یہ تھا کہ مذہب کے اوپر بھی یہی عمل کیا جانا ضروری ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک مثبت تجویز ہے۔ میں نے ذاتی طورپر اِس تجویز پر بھر پور عمل کیا ہے۔ میں نے سائنٹفک میتھڈ کو مذاہب کے اوپر اپلائی کیا ہے۔ مجھے اپنے مطالعے سے یہ معلوم ہوا کہ پچھلے تمام مذاہب تبدیلیوں کی بنا پر اپنی اصل حیثیت کو باقی نہ رکھ سکے۔ اس بنا پر وہ سائنسی تحقیق کے معیار پرپورے نہیں اترتے۔
مگر اسلام کا معاملہ استثنائی طورپر مختلف ہے۔ میں نے ذاتی طور پر اسلام کا مطالعہ بالکل غیرجانب دارانہ انداز میں اور خالص سائنسی طریقِ کار کے مطابق کیا ہے۔ میں ذاتی تحقیق کے مطابق، پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اسلام ہی وہ سائنٹفک مذہب ہے جس کا خواب برٹش فلسفی بریڈلے نے دیکھا تھا۔ اپنی تحقیق کے نتائج کو میں اپنی کتابوں اور اپنے مضامین نیز اپنی تقریروں میں بیان کرتا رہا ہوں۔ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ لاکھوں لوگوں کو میری اِن تحریروں اور تقریروں سے اسلام کے بارے میں نیا یقین حاصل ہوا ہے، فللّٰہ الحمد۔
اپنے تجربے کے مطابق، میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ضرورت ہے کہ غیرمسلموں کے لیے اسلام کو اُن کی ڈسکوری (discovery) بنایا جائے۔ اور مسلمانوں کے لیے اسلام کو اُن کی ری ڈسکوری (re-discovery)بنایا جائے۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ الرسالہ مشن لمبی مدت سے یہی کا م کررہا ہے۔ ہمارا نشانہ یہ ہے کہ دوسری قوموں کے لیے اسلام کو ان کی ڈسکوری بنائیں۔ اور مسلم قوم کے لیے اسلام کو اس کی ری ڈسکوری بنائیں۔
یہی موجودہ زمانے میں دعوت الی اللہ کا نشانہ ہے۔ دعوت الی اللہ نہ تو کوئی مناظرے جیسا کام ہے، اور نہ وہ کسی قسم کی سیاسی تحریک ہے۔ دعوت الی اللہ یہ نہیں ہے کہ مسلمان اپنے فخر کو دوسروں کے اوپر نمایا ں کریں۔ دعوت الی اللہ کا کمیونٹی ورک سے بھی کوئی تعلق نہیں۔ دعوت الی اللہ یہ نہیں ہے کہ دوسروں کا کم تر ہونا اور اپنا برتر ہونا ثابت کیا جائے۔ داعی کی زبان یہ نہیں ہوسکتی کہ:
Buldoze them all, knock them out.
داعی کی زبان یہ بھی نہیں ہوسکتی کہ— ہاں ہم ٹررسٹ ہیں، مگر ہم سوسائٹی کے اینٹی سوشل عناصر (anti social elements)کے لیے ٹررسٹ ہیں، جیسا کہ پولیس ہوتی ہے۔ اِس قسم کے تمام اسلوب غیر داعیانہ اسلوب ہیں۔ داعیانہ اسلوب صرف وہ ہے جس میں انسان کی سچی خیر خواہی جھلکتی ہو۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کی اہمیت

جاپان کے لوگوں کی بنیادی غذا مچھلی ہے۔ وہ مچھلی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ ایک عرصے تک مچھلی کا مسلسل شکار کرنے کی وجہ سے جاپانی ساحل کی مچھلیاں یا تو ختم ہوگئیں، یا ساحل سے دور سمندر میں چلی گئیں۔ جاپان کی فشنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے زیادہ طاقت ور انجن کی کشتیاں بنائیں اور دور پانی میں مچھلیوں کا شکار کرنے کے لیے انھیں سمندر میں بھیج دیا۔ یہ کشتیاں جاپانیوں کی محبوب مچھلیوں کا شکار تو کرتی تھیں، مگر جب ان کو مارکیٹ میں لایا گیا تو ان مچھلیوں کا ذائقہ(taste) جاپانیوں کو پسند نہ آیا۔ ایسی مچھلیاں جاپان کے مارکیٹ میں صرف کم قیمت پر فروخت ہوسکتی تھیں۔
اب فشنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی فشنگ بوٹ (fishing boat) میں بڑے بڑے فریزر رکھ دیے۔ اب یہ کیا جانے لگا کہ دور پانی میں جب مچھلیاں پکڑی جاتیں تو اُسی وقت ان کو فریزر میں رکھ دیا جاتا۔اس طرح یہ مچھلیاں بظاہر تازہ حالت میں مارکیٹ میں پہنچائی گئیں، لیکن جاپانیوں کو اب بھی ان کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ فریزر میںجمی ہوئی مچھلی اپنے اصل فطری ذائقے سے محروم تھی۔
اب فشنگ کمپنیوں نے یہ کیا کہ انھوں نے اپنی فشنگ بوٹ میں پانی کے بڑے بڑے ٹینک رکھ دیے۔ اب یہ کیا جانے لگا کہ دور پانی میں مچھلیاں پکڑنے کے بعد ان کو فوراً پانی کے ٹینک میں ڈال دیا جاتا۔ اس طرح یہ مچھلیاں بظاہر زندہ حالت میں مارکیٹ کے اندر آنے لگیں، لیکن جاپانیوں کو اب بھی ان کا ذائقہ پسند نہ آیا۔ یہ بظاہر زندگی مچھلیاں بھی جاپان کے مارکیٹ میں صرف کم قیمت پر فروخت ہوتی تھیں۔
مسٹر ران ہبرڈ(L. Ron Hubbard) نے اِس معاملے کامطالعہ کیا۔ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ مچھلیوں کا فطری ذائقہ صرف اُس وقت تک باقی رہتا ہے، جب کہ وہ سمندر میں ہر طرف دوڑ رہی ہوں۔ فشنگ بوٹ کے ٹینک میںاگر چہ مچھلیوں کو زندہ رکھنے کے لیے پانی تھا، لیکن وہاں مچھلیوں کے لیے دوڑنے کا کوئی سبب موجود نہ تھا۔ یہ مچھلیاں واٹر ٹینک میںزندہ تو رہیں، لیکن وہ سست اور ڈَل حالت میں رہیں۔ اِس بنا پر اُنھوں نے اپنا فطری ذائقہ کھو دیا۔
اب فشنگ کمپنیوں نے اپنے واٹر ٹینک میں پانی کے ساتھ ایک چھوٹی شارک مچھلی بھی ڈال دی۔ شارک مچھلی شکار کرنے والی مچھلی ہے۔ وہ ایک ایسی مچھلی ہے جو مچھلیوں کو اپنی غذا بناتی ہے۔ اب شکار کی ہوئی مچھلیوں کے ساتھ شارک مچھلی بھی پانی میں ڈالی دی گئی۔ اب یہ ہوا کہ شارک مچھلی دوسری مچھلیوں کو پکڑنے کی کوشش کرتی اور دوسری مچھلیاں پانی میں ہر طرف دوڑنے لگتیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جب شکار کی ہوئی مچھلیاں مارکیٹ میں پہنچیں تو اُن کا فطری ذائقہ پوری طرح محفوظ تھا۔ چناں چہ یہ مچھلیاں پوری قیمت پر مارکیٹ میں بکنے لگیں۔
یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس دنیا میں چھوٹی مچھلیوں کو دوڑانے کے لیے بڑی مچھلیاں ہیں۔ یہاں شیر ہیں جن کے خوف سے ہرن ہروقت بھاگتے رہتے ہیں۔ حیوانات کی دنیا میں یہ دوڑ بھاگ بے حد اہم ہے۔ وہ حیوانات کی توانائی کو باقی رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہی معاملہ انسان کا ہے۔ خدا کے قائم کیے ہوئے فطری نظام کے تحت، انسانوں کے ساتھ بھی چیلنج اور مسابقت کے حالات پیش آتے ہیں۔ اِس دنیا کا نظام یہ ہے کہ چیلنج نہیں تو ترقی بھی نہیں۔ ایسی حالت میں چیلنج کے خلاف احتجاج اور شکایت خدا کے خلاف احتجاج اور شکایت ہے۔ کیوں کہ چیلنج اور مسابقت کے حالات پیدا کرنے والا خدا ہے، نہ کہ کوئی انسان۔
واپس اوپر جائیں

غلط جنرلائزیشن

10 مئی 2007 کی صبح کو میں دہلی سے بمبئی گیا اور 12مئی 2007 کی شام کو واپس آیا۔ ہوائی جہاز میںتمام ضروری سہولتیں موجود تھیں۔ سروس بھی بہتر تھی، لیکن مجھے ذاتی طورپر ایک ’’شکایت‘‘ کا تجربہ ہوا۔ جہاز کی طرف سے جوکھانا دیاگیا اُس میں خِلال(tooth pick) موجود نہ تھا۔ میںنے عملے کے دو آدمیوں سے کہا کہ مجھے خلال چاہیے، لیکن وہ شاید بھول گیے اور اُس کو نہ دے سکے۔
اِس واقعہ کو لے کر ایک لمحے کے لیے میرے دل میں خیال آیا کہ یہ ہوائی کمپنی بالکل ناقص ہے۔ اُس میں مسافر کے لیے خلال بھی موجود نہیں۔ لیکن فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ایسا سوچنا انصاف کے خلاف ہوگا۔ جہاز کے اندر ننّانوے چیزیں بالکل ٹھیک حالت میںتھیں۔ صرف ایک چیز میرے ذوق کے مطابق نہ تھی۔ ایسی حالت میں یہ بالکل غلط ہوگا کہ کوئی شخص ایک جُزئی کمی کو لے کر جہاز کی پوری سروس کو بُرا بتائے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو غلط جنرلائزیشن کہا جاتا ہے۔ قرآن میں اِس کے لیے ’تطفیف‘ کا لفظ آیا ہے۔
عام طور پر لوگوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ دوسروں پر تبصرہ کرنے کے معاملے میں سخت ناانصافی کرتے ہیں۔ وہ ایک جزئی شکایت کو لے کر اُسی کو کُلّی بنا دیتے ہیں۔ اُن کا حال یہ ہے کہ وہ جس سے خوش ہوں گے، اُس کی ایک اچھی بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے بُری بات کو چھوڑ دیں گے۔ اور جس سے ناخوش ہوں گے، اس کی ایک بُری بات کو لے لیں گے اور اس کی ننّانوے اچھی بات کو نظرانداز کردیں گے۔ یہ مزاج غیر انسانی بھی ہے اور غیر اسلامی بھی۔ ایسے لوگ اخلاق کی عدالت میں بھی مجرم ہیں اور خدا کی عدالت میں بھی۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی جب کسی بات کو بیان کرے تو وہ اس کو عین اُسی طرح بیان کرے جیساکہ وہ ہے۔ غلط طورپر کسی بات کو بڑھانا یا غلط طورپر کسی بات کو گھٹانا، دونوں عادتیں سخت مذموم ہیں۔ اِس قسم کی عادت آدمی کے اندر صالح شخصیت کی تعمیر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
واپس اوپر جائیں

مال کی حیثیت

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک بڑے تاجر کا ذکر کرتے ہوئے کہا: اللہ نے ان کو بہت نوازا ہے۔ یعنی ان کو بہت مال دیا ہے۔ میںنے کہا کہ جب کسی کے پاس زیادہ مال آجاتا ہے تو اکثر لوگ اس کے بارے میں یہ جملہ بولتے ہیں۔ مگر یہ اسلامی بات نہیں۔ کیوں کہ قرآن اور حدیث میںمال کو نوازش نہیں بتایا گیا ہے، بلکہ اس کو آزمائش کہا گیا ہے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد تمھارے لیے آزمائش ہیں۔ (إنما أموالکم وأولادکم فتنۃ۔ التّغابن: 15) قرآن میں کہیں بھی مال کو مطلق طورپر انعام نہیں بتایا گیا ہے۔ بلکہ اسے فتنہ اور آزمائش کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مال و دولت کے معاملے میں مومن کا ذہن کیا ہونا چاہیے۔
مومن کو چاہیے کہ اس کو جب مال و دولت ملے تو اس کو وہ اس نظر سے دیکھے کہ یہ امتحان کا ایک پرچہ ہے جس کو خدا نے اس کے حوالے کیا ہے۔ مال کو جب آزمائش کی نظر سے دیکھا جائے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ آدمی کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ وہ اس کو خدا کی بتائی ہوئی مدوں میں خرچ کرے، وہ اس کے استعمال میں سخت محتاط ہو، وہ اس اندیشے میں مبتلا ہو کہ اگر اس نے مال کو صحیح راہ میں استعمال کرنے کا ثبوت نہیں دیا تو وہ خدا کی پکڑ میں آجائے گا۔
جو آدمی مال کو نوازش سمجھ لے اس کی نفسیات بالکل مختلف ہوگی۔ وہ مال کو پاکر خوشی منائے گا۔ وہ مال کو صرف اپنی پسندیدہ راہوں میں خرچ کرے گا۔ وہ مال کو ان راہوں میں استعمال کرے گا جن سے اس کو یہ امید ہو کہ لوگوں کے درمیان اسے عزت کا مقام حاصل ہوگا۔
مال کو اگر جائز طریقے سے حاصل کیا جائے اور اس کو جائز مدوں میں خرچ کیا جائے تو وہ انسان کے لیے ایک نعمت ہے۔ اس کے برعکس اگر آدمی اپنی خواہش سے اتنا زیادہ مغلوب ہو کہ وہ نہ مال کمانے میںجائز طریقوں کی پابندی کرے اور نہ اس کو خرچ کرنے میں تو مال اس کے لیے گھاٹے کی چیز بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

متواضع انسان

احساسِ خویش (یا احساس برتری) ایک فطری جذبہ ہے جو ہر آدمی کے اندر موجودرہتا ہے۔ اس جذبہ سے آدمی کے اندر حوصلہ اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ اگراحساس خویش آدمی کے اندر نہ ہو تو اس کے اندر خود اعتمادی بھی نہ رہے گی اور جب خود اعتمادی نہیں ہوگی تووہ اس دنیا میں کوئی کام بھی نہیں کرسکتا۔ مگر یہ ضروری ہے کہ آدمی کا احساس خویش یا احساس برتری بے قید نہ ہونے پائے ، وہ تواضع کے جذبہ کے تحت دبا رہے۔ اگر یہ دباؤ نہ ہو تو آدمی اجتماعی زندگی میں اپنی افادیت کھودے گا۔ وہ اہنکار میں مبتلا ہوجائے گا۔ اور بلاشبہہ اہنکار سے زیادہ تباہ کن کوئی چیز اس دنیا میں نہیں۔
اس دنیا میں صرف دو چیزیں ہیں جوآدمی کو متواضع بناتی ہیں۔ ایک، سائنٹفک ذہن، دوسرے متقیانہ مزاج۔ سائنٹفک ذہن علم کی معرفت سے بنتا ہے اور متقیانہ ذہن خدا کی معرفت سے۔
آدمی کے اندر جب اہنکار کا جذبہ پیداہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے معاملے کو انسان کی نسبت سے دیکھتا ہے۔ چوں کہ انسانوں میں بہت سے لوگ اس کو اپنے آپ سے کم تر دکھائی دیتے ہیں۔ اس لیے اس کے اندر اپنی بڑائی کا جذبہ ابھر آتا ہے۔مگر جس آدمی کے اندر حقیقی معنوں میں سائنٹفک ذہن ہو، وہ اپنے معاملے کو علم کی نسبت سے دیکھتا ہے نہ کہ عالمِ کی نسبت سے۔ عالم محدود ہوسکتا ہے، مگر علم لامحدود ہے۔ عالم کی نسبت سے ایک آدمی اپنے کو زیادہ سمجھ سکتا ہے مگر وسیع تر علم کی نسبت سے ہر آدمی کم ہے۔ یہ احساس ایک سائنٹفک انسان کے اندر فطری طور پر تواضع کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح جس آدمی کے اندر تقویٰ کی صفت ہو۔ وہ اپنے معاملے کو خدائے بزرگ و برتر کی نسبت سے دیکھنے لگتا ہے۔ یہاں بھی وہی بات مزید بے پناہ اضافہ کے ساتھ موجود ہے۔ مخلوق کی نسبت سے دیکھنے میںایک شخص کو اپنی ذات بڑی دکھائی دے سکتی ہے، مگر خدا کی نسبت سے دیکھا جائے تو ہر آدمی چھوٹا ہوجاتا ہے، خدا کی نسبت سے کوئی آدمی بھی بڑا آدمی نہیں۔ اس طرح متقی آدمی کے لیے اس کا عقیدہ اس کو ایک متوازن انسان بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم کی اہمیت

تعلیم کی اہمیت کیوں ہے،ایک عام انسان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ تعلیم اس لیے ضروری ہے کہ وہ ملازمت حاصل کرنے میںمددگار ہوتی ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ تعلیم کا ثانوی پہلو ہے۔ یہ صحیح ہے کہ تعلیم آدمی کے لیے ملازمت یا معاش میں مدد گار ہوتی ہے، مگر تعلیم کی اصل اہمیت یہ ہے کہ تعلیم آدمی کو باشعور بناتی ہے۔ تعلیم آدمی کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ باتوں کو اُس کی گہرائی کے ساتھ سمجھے اور زیادہ نتیجہ خیز انداز میں اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے۔
قدیم زمانے میں عام طورپر تعلیم برائے تعلیم کا رواج تھا۔ قدیم زمانے میں علم یا تعلیم کا رشتہ معاش سے کم اور زندگی سے زیادہ جڑا ہوا تھا۔ لوگ علم کی خاطر علم حاصل کیا کرتے تھے۔ قدیم زرعی دور میں معاش کا تعلق جسمانی محنت سے زیادہ تھا اور دماغی محنت سے کم۔ اس صورت حال نے علم کو معاش کے بجائے زیادہ تر خود علم سے جوڑ رکھا تھا۔
یہی خاص وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمام بڑے بڑے اہلِ علم قدیم زمانے میں پیدا ہوئے۔ موجودہ زمانے میں ڈاکٹر اور انجینئر اور دوسرے تجارتی شعبوں کے ماہرین تو بہت پیدا ہورہے ہیں، مگر خالص علمی شعبے کے ماہرین موجودہ زمانے میں بہت کم پائے جاتے ہیں۔موجودہ زمانے میں علم اقتصادیات کے تابع ہوگیاہے، جب کہ قدیم زمانے میں زندگی کے تمام شعبے، بشمول اقتصادیات، علم کے تابع ہوا کرتے تھے۔
علمی تاریخ کے اعتبار سے دیکھاجائے تو معلوم ہوگا کہ بڑی بڑی دریافتیں کرنے والے اور بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دینے والے زیادہ تر ماضی میں پیدا ہوئے۔ موجودہ زمانے میں کوئی سقراط، کوئی گلیلیو، کوئی نیوٹن نظر نہیں آتا۔ البتہ ٹیکنیکل شعبوں کے ماہرین لاکھوں کی تعداد میں ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔
یہ صورت حال بے حد تشویش ناک ہے ۔ اس صورت حال کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ زندگی کے مادّی شعبوں میں تو بڑی بڑی نمائشی ترقیاں ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں، مگر علمی یا ذہنی ترقی کا عمل رک گیا ہے۔
حال میں امریکا کے بڑے بڑے دولت مندوں کے بارے میں ایک جائزہ شائع ہوا ہے ۔ اس کے مطابق، امریکا کے ارب پتی قسم کے لوگ ایک نئی بیماری سے دوچار ہیں۔ اس بیماری کو افلوئنزا کا نام دیاگیا ہے، یعنی خوش حالی کی بیماری۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کے ارب پتی خاندانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کا حال یہ ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے تو خوب فربہ ہوگیے ہیں، مگر وہ ذہنی بونے پن کا شکار ہیں۔ اُن کا عقلی ارتقا زیادہ نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

اَمانی،عمل

مفسر ابن کثیر نے نقل کیا ہے کہ کچھ مسلمان اور اہلِ کتاب (یہود ونصاریٰ) باہم ملے اور انھوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا (إن المسلمین وأہل الکتاب افتخروا)۔ اہل کتاب نے کہا کہ ہمارا نبی تمھارے نبی سے پہلے ہے اور ہماری کتاب تمھاری کتاب سے پہلے ہے، ہم اللہ کے زیادہ قریبی لوگ ہیں،وغیرہ۔ مسلمانوں نے کہا کہ ہم اللہ کے زیادہ قریبی ہیں۔ کیوں کہ ہمارا نبی تمام نبیوں کا خاتم ہے اور ہماری کتاب تمام کتابوں کی ناسخ ہے۔ اس پر قرآن کی وہ آیتیں اتریں، جن کا ترجمہ یہ ہے:
نہ تمھاری آرزوؤں (امانی) پر ہے اور نہ اہلِ کتاب کی آرزوؤں پر۔ جو شخص بھی برا عمل کرے گا اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور وہ اللہ کے سوا کسی کو اپنا حمایتی اور مددگار نہ پائے گا۔ اور جو شخص نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوںگے، اور ان پر ذرا بھی ظلم نہ ہوگا (النساء: 123-124 )
اِس آیت میں وہ خاص گم راہی بتائی گئی ہے جس میںآسمانی کتاب کی حامل قومیں اپنے دورِزوال میں مبتلا ہوتی ہیں، یہ ہے— فخر کی بنیاد پر جینا، امانی کو عمل کا بدل سمجھ لینا۔
’’آخرت میںاللہ کے سوا کوئی مدد گار نہ ہوگا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ آخرت میں کسی شخص کو پکڑ سے بچانے والی چیز اللہ کا یہی قانون ہوگا جو یہاں بیان ہوا۔ یعنی وہاں سچا عمل آدمی کے کام آنے والا ہے نہ کہ بے بنیاد آرزوئیں۔
فخر اور امانی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ— اللہ سے ہمارا خصوصی رشتہ ہے۔ ہم محبوبِ خدا کی امت ہیں۔ ہم اولیاء اور بزرگوں کا دامن تھامے ہوئے ہیں۔ ہم عظیم ترین تاریخ کے وارث ہیں۔ ہم مرحوم و مغفور امت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم کلمہ گو اور عاشق رسول ہیں۔ ہم کو اکابر و اعاظم کی نسبت حاصل ہے، وغیرہ ۔
اس قسم کے خیالات لوگوں کے اندر فرضی بھرم پیدا کردیتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں سے مختلف سمجھ لیتے ہیں۔ مگر یہ سب بے بنیاد آرزوئیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں نہ خوش فہمیاں کام آئیں گی اور نہ اسلام پر فخر کرناوہاں کام دے گا۔ اللہ کے یہاں ہر آدمی کی جانچ صرف اس کے ذاتی عمل کی بنیاد پر ہوگی، اس کے سوا ہر چیز وہاں بالکل بے قیمت ٹھہرے گی، خواہ آدمی کی اپنی نظر میں اس کی کتنی ہی زیادہ قیمت کیوں نہ ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ فخر ایمان کی ضد ہے۔ جب آدمی کو عظیم خدا کی دریافت ہوتی ہے تو عین اُس کے نتیجے میں اُس کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا ہوجاتی ہے۔ خدا کی عظمت آدمی کے اندر ذاتی عظمت کے تمام احساسات کو مٹا دیتی ہے۔ آدمی خدا کی بڑائی میں جینے لگتا ہے۔ ایمان دراصل خدا کی بڑائی کے مقابلے میں اپنے عجز کی دریافت کا نام ہے۔
جس آدمی کے اندر خدا کی دریافت اِس قسم کی متواضعانہ نفسیات پیدا کردے، وہ کبھی لوگوں کے درمیان فخر کے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ یہ ناممکن ہے کہ انسان دو مختلف احساسات کے درمیان جیے۔ ایک طرف اس کے اندر فخر کا احساس ہو، اور دوسری طرف اس کے اندر تواضع کی نفسیات بھری ہوئی ہو۔ جب تواضع آئے گی تو اپنے آپ فخر کا احساس اُس کے اندر سے نکل جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

احتیاط ضروری ہے

آلیور ونڈل ہومز(Oliver Wendell Holmes) نے کہا ہے کہ— نوجوان شخص عموم کو دیکھتا ہے اور عمر رسیدہ آدمی استثنا کو:
Young men see the rules, old men see the exceptions.
زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اتفاقی رکاوٹ ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو صرف عام حالات پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ غیر متوقع امکانات کو ذہن میں رکھ کر اپنا منصوبہ بنائے۔
ایک صاحب کو ٹرین کے ذریعہ ایک سفر پر جانا تھا۔ وہ وقت پر اسٹیشن جانے کے لیے تیار ہوئے تو ان کے ساتھی نے کہا: آپ اتنی جلدی کیوں جارہے ہیں۔ ٹرین تو آج کل اکثر لیٹ آتی ہے۔ مذکورہ بزرگ نے کہا— اور اگر اسٹیشن پہنچ کر معلوم ہوا کہ آج ٹرین وقت پر چلی گئی تو۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک دن کے اتفاقی انجام سے بچنے کے لیے ہر روز اہتمام کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص یہ خیال کرکے دیر میں اسٹیشن جائے کہ ٹرین تو اکثر لیٹ ہو جاتی ہے، عین ممکن ہے کہ ٹرین اس سے چھوٹ جائے۔ اس کا امکان ہے کہ جس دن اس کو سفر کرنا ہے اس دن ٹرین بالکل صحیح وقت پر جارہی ہو۔ اور مسافر ٹھیک اسی دن ٹرین کو پکڑ نہ سکے۔
بس میںایک صاحب کی جیب کٹ گئی۔ کئی سو روپیے نکل گیے۔ میںنے پوچھا کہ روپیہ آپ نے کہاں رکھا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ کُرتے کے باہر کی جیب میں۔ میںنے کہا کہ باہر کی جیب سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ روپیہ تو آپ کو ہمیشہ اندرونی جیب میں ر کھنا چاہیے۔ انھوںنے کہا: میںتو روزانہ اسی طرح باہر کی جیب میں روپیہ رکھ کر سفر کرتا تھا مگر کبھی ایسا حادثہ نہیںہوا۔
یہ جملہ اکثر لوگوں کو کہتے ہوئے سنیں گے کہ—آج ہی یہ بات ہوگئی، ورنہ وہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس قسم کا جملہ حقیقت کے اعتبار سے بالکل بے معنی ہے۔ کیوں کہ ’’حادثہ‘‘ روز روز نہیں ہوتا، حادثہ ہمیشہ ایک ہی دن ہوتا ہے اور اسی ایک دن سے بچنے کے لیے آدمی کو ہر روز چوکنا رہنا پڑتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادرِ محترم عبد السلام اکبانی صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ
26 مئی 2007 کی صبح کو آپ نے ٹیلی فون پر بتایا کہ آج جسٹس ایم ایم قاضی کا انتقال ہوگیا۔ إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔ اُن کے صاحب زادے کے ذریعے معلوم ہوا کہ ان کی پیدائش فروری1930 میں ہوئی تھی۔ جسٹس صاحب سے میری پہلی ملاقات غالباً بمبئی میں ہوئی ، جب کہ وہ وہاں جسٹس کے عہدے پر تھے۔ اس کے بعد بمبئی میں اور ان کے وطن ناگ پور میں بار بار ان سے ملاقات ہوتی رہی۔ وہ بڑی عجیب صلاحیتوں کے آدمی تھے۔
ایک بار انھوں نے بمبئی کی ملاقات میں مجھ سے کہا کہ ریلیونس (relevance) اور ارریلیوینس(irrelevance) کا جتنا اکیوٹ سینس (acute sense) میں نے آپ کے اندر پایا، کسی اور کے اندر نہیں پایا۔ میں نے کہا کہ یہ بات وہی شخص کہہ سکتا ہے جس کے اندر خود یہ صفت بدرجۂ اتم موجود ہو۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ جسٹس قاضی کے اندر یہ صفت بہت زیادہ پائی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اُن سے میرا انٹلکچول ایکسچینج دیر دیر تک ہوتا تھا اور دونوں میں سے کوئی بھی اکتاہٹ محسوس نہیں کرتا تھا۔
جسٹس قاضی کو شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ وہ اقبال کے بہت قدر داں تھے۔ چناں چہ کئی بار ایسا ہوا کہ گفتگو کے دوران اقبال کا ذکر آگیا۔ میں نے اقبال پر تنقید کی، مگر جسٹس قاضی نے کبھی بھی میری تنقید کا بُرا نہیں مانا، بلکہ اس کے علمی وزن کا اعتراف کیا۔مثلاً ایک بار میںنے کہا کہ لوگ اقبال کو تھنکرپوئٹ کہتے ہیں۔ میرے نزدیک وہ پوئٹ تو ضرورتھے، لیکن وہ تھنکرنہ تھے۔ میں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اقبال کا ایک مشہور شعر ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
اقبال کا یہ شعر بتاتا ہے کہ اُن کے اندرتجزیہ(analysis) کی صلاحیت نہ تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے قرآن کے نام پر اتنا زیادہ کام کیا ہے جو پچھلی صدیوں میں کبھی نہیں ہوا۔ موجودہ زمانے میں جتنی زیادہ نمازیں پڑھی جارہی ہیں اور جتنے زیادہ لوگ حج کررہے ہیں، اتنا زیادہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھا۔ اِسی طرح موجودہ زمانے میں اسلام کے نام پر جتنی زیادہ سرگرمیاں ساری دنیا میں جاری ہیں، اتنی زیادہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھیں۔موجودہ زمانے میں جہاد کے نام پر جان اور مال کی جتنی زیادہ قربانیاں دی گئی ہیں، وہ مقدار کے اعتبار سے پوری مسلم تاریخ کی مجموعی قربانی سے بھی زیادہ ہے۔ایسی حالت میں اصل مسئلہ عمل کے فُقدان کا نہیں ہے، بلکہ اُس کے نتیجے کے فقدان کا مسئلہ ہے۔ اقبال نے اِس فرق کو نہیں سمجھا اور نتیجۂ عمل کے فقدان کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا کہ خود جو عمل درکار ہے، وہی مفقود ہے۔ اقبال کو یہ بتانا چاہیے تھا کہ مسلمان بظاہر ’’تارکِ قرآں‘‘ نہیں ہیں، اِس کے باوجود کیوں ایسا ہے کہ وہ قرآن کی برکتوں سے محروم ہیں۔ جسٹس قاضی نے میری اِس بات کو دل چسپی کے ساتھ سنا اور اُس پر کسی منفی ردّ عمل کا اظہار نہیں کیا۔
اسی طرح ایک بار میںنے گفتگو کے دوران اُن سے کہا کہ اقبال اور دوسرے مسلم رہنما، مغربی تہذیب کو اسلام دشمن تہذیب سمجھتے ہیں اور اُس کے خلاف سخت جذبات کا اظہار کرتے ہیں، مگر یہ ناواقفیت کی بات ہے۔ فطرت کا قانون یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز کے ساتھ کچھ نہ کچھ مثبت پہلو شامل رہتے ہیں، مگر اقبال اور دوسرے مسلم رہنما مغربی تہذیب کے اِس مثبت پہلو کو دیکھ نہ سکے۔ اُس وقت مجلس میں ایک اور صاحب موجود تھے۔ انھوںنے کہا کہ یہ بات صحیح نہیں۔ اقبال نے مغربی تہذیب کے مثبت عناصر کا بھی ادراک کیا ہے۔ اپنے دعوے کی تائید میں انھوں نے اقبال کا یہ شعر پڑھا:
قوتِ افرنگ از علم و فن است از ہمیں آتش، چراغش روشن است
میں نے کہا کہ یہ ایک غیر متعلق (irrelevant) حوالہ ہے۔ اِس شعر میں اقبال نے مغرب کی داخلی قوت کا راز بتایا ہے۔ اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ کسی کو بھی داخلی قوت کے بغیر عروج نہیں ہوتا۔ میں نے جوبات کہی، اُس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغرب نے داخلی قوت کے بغیر ہی عروج حاصل کرلیا ہے۔ ایسی بات کوئی نادان آدمی ہی کہہ سکتا ہے۔ میرا مدّعا یہ ہے کہ اقبال اور دوسرے لوگوں نے مغرب کے مخالفِ اسلام ہونے کا تو اعلان کیا، مگر وہ یہ نہ بتا سکے کہ مغربی تہذیب میں موافق اسلام عناصر بھی موجود ہیں۔ اور وہ فلاں فلاں ہیں۔ جسٹس قاضی صاحب کے اہلِ خانہ کو میری طرف سے تعزیت فرمادیں۔
نئی دہلی، 26 مئی 2007 دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز — 180

1 - انڈیا انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 12 مارچ 2007 کو ایک سیمنار ہوا۔ اس کا عنوان تھا: مذاہب کے درمیان ڈائلاگ ۔ اِس سیمنار میںمختلف مذاہب کے لوگ شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر سیمنار میں شرکت کی اور اسلام کے تعارف پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں ہوا۔ اِس میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم کے افراد نے بھی شرکت کی اور حاضرین کے درمیان دعوہ بروشر تقسیم کیا۔
2 - ایران کلچر ہاؤس کی طرف سے 24 مارچ 2007 کو انڈیا ہیبی ٹٹ سنٹر (نئی دہلی) میںایک سیمنار ہوا۔ اُس کا عنوان یہ تھا:
Dialogue Among Islam and Hinduism.
اِس سیمنار کی صدارت مسٹر ایم شکیب نے کی۔ وہ ایرانی سفارت خانے میں کلچرل کاؤنسلر ہیں۔ اِس سیمنار میںاسلام اور ہندوازم دونوں مذہبوں کے اسکالرز شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ ان کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا:
Follow one and respect all.
اِس سیمنار کی ساری کارروائی انگریزی زبان میں ہوئی۔
3 - نئی دہلی کی پی آئی او ٹی وی (PIO TV) کی ٹیم نے 26 مارچ 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر کیدار ناتھ گُپتا تھے۔ سوالات کا تعلق، دو مسئلوں سے تھا— ’اسلام میں جہاد کا حکم، اور اہانتِ رسول کی سزا، جواب میں بتایا گیا کہ اسلام میں اہانتِ رسول کوئی قابلِ سزا جرم نہیں ہے۔ جوآدمی اسلام کی یارسول کی توہین کرے، وہ گویا کہ اسلام کی سچائی کے بارے میں مشتبہ ہے۔ ایسے آدمی کو دلائل کے ذریعے مطمئن کیاجائے گا، نہ کہ اُس کو سزا دی جائے گی۔ جہاد (بہ معنیٰ قتال) قائم شدہ ریاست کی طرف سے دفاعی جنگ کا نام ہے۔ ریاست کی طرف سے دفاعی جنگ کے سوا کوئی اور جنگ اسلام میں نہیں۔
4 - آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں 29 مارچ2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک پروگرام رکارڈ کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حسنِ سلوک
اِس موضوع پر بولتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے حدیث اور سیرتِ رسول کی روشنی میں اظہار خیال کیا۔
5 - مسٹر اشکوک کمار جرمن ریڈیو (نئی دہلی) نے 4 اپریل 2007 کو ’یوپی کاالیکشن اور مسلمان‘ کے موضوع پر
صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ خواہ یوپی کا الیکشن ہو یا کوئی اور الیکشن ہرجگہ کے لیے ہماری پالیسی صرف ایک ہے، وہ یہ کہ مسلمان منفی ووٹنگ کا طریقہ چھوڑ دیں اور مثبت ووٹنگ کا طریقہ اختیار کریں۔ یہی مسلمانوں کی مستقل الیکشن پالیسی ہونا چاہیے۔
6 - بمبئی کے ایک ادارہ ’ورڈس ورتھ‘ (Wordsworth) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے بمبئی کا سفر کیا۔ 10 مئی 2007 کی صبح کو راشٹریہ سہارا کی فلائٹ سے روانگی ہوئی اور 12مئی 2007 کی شام کو دوبارہ راشٹریہ سہارا کی فلائٹ سے دہلی واپسی ہوئی۔ اِس سفر میںملاقاتوں کے علاوہ چار پروگرام ہوئے۔ ایک ’ورڈس ورتھ‘ کا افتتاح۔ دوسرے، اعلیٰ سرکاری افسران کے ایک اجتماع سے خطاب۔ تیسرے، ایک ہوٹل کے ہال میں ہندو اور مسلمانوں کے ایک مشترک اجتماع سے خطاب۔ چوتھے، اِکرا(ICRA) کے ہال میں ’الرسالہ‘ کے قارئین سے خطاب۔ اِن اجتماعات کے موقعے پر لوگوں کو کتابیں اور پمفلٹ دیے گیے۔
7 - صدر اسلامی مرکز کے اردو اور انگریزی مضامین ، ہر ہفتے، تقریباً تین ہزار ای میل سبسکرائبرز کو روانہ کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ اس سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوں، وہ درج ذیل ای میل پر رابطہ کریں:
info@goodwordbooks.com
8 - لندن سے ایک خط بذریعہ ای میل موصول ہوا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
Assalam Alaikum
I am an admirer of Maulana's writings for a very long time and I would like to congratulate Goodwrod TV to bring Maulana's video on the internet. The video quality is very good. Now I hope to see more videos of Maulana on the net. (Farooq Chishty, London, England)
9 - کراچی (پاکستان) سے محمد عمر فاروق صاحب کا ایک خط موصول ہوا ہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے شعبۂ علومِ اسلامی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ اور وہاں سے ڈاکٹریٹ کررہے ہیں۔ ان کی تحقیق کا موضوع یہ ہے:
مولانا وحید الدین خاں کی علمی و فکری خدمات— ایک تحقیقی اور تنقیدی جائزہ ۔
اس سلسلے میں ان کو اسلامی مرکز (نئی دہلی) سے ضروری مواد ارسال کردیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں