Pages

Saturday 1 December 2007

Al Risala | December 2007 (الرسالہ،دسمبر)

2

-ہر حال میں خیر

3

- ذریعۂ سکون

4

- عورت معاونِ حیات

5

- اہلِ بیت

6

- سب سے بڑی نعمت

7

- ایک حدیث

8

- قو ّامیت یا باس ازم

9

- صنفی مساوات

10

- ایک شادی یا کئی شادی

11

- زوجین کے درمیان کامل مطابقت

12

- انٹلیکچول پارٹنر

13

- کنڈیشننگ کو توڑنا

14

- باہمی اعتماد

15

- بامقصد انسان

16

- مشن کے بغیر

17

- بے مقصد زندگی

18

- سادگی ایک اصولِ حیات

19

- جذباتیت بمقابلہ انانیت

20

- فارمولا آف تھرٹی سکینڈ

21

- آرٹ آف فیلیر مینج منٹ

22

- لائف مینج منٹ

23

- انتظار کی پالیسی

24

- گھر :بہتر انسان بنانے کا کارخانہ

26

- تعلیم اور خواتین

27

- صورت یا سیرت

28

- لَو میریج ناکام کیوں

29

- غصے پر کنٹرول کیجیے

30

- سختی یا عزم

31

- چھوٹی بات کو بڑی بات نہ بنائیے

32

- عدم مداخلت کی پالیسی

33

- ایک دانش مند خاتون

34

- میکے کے تصور میں جینا

35

- غیر فطری تمنّا

36

- میکے اور سُسرال کا فرق

37

- ایک مشاہدہ

38

- ماؤں کا غلط رول

39

- لاڈ پیار کا نقصان

40

- ماں باپ کا رول

41

- ایک واقعہ

42

- برابری میںنکاح


ہر حال میں خیر

شوہر اور بیوی کے درمیان بہتر تعلق کی تعلیم دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وعاشروہن بالمعروف فإن کرہتموہن فعسی أن تکرہوا شیئاً ویجعل اللہ فیہ خیراً کثیراً (النساء: 19 ) یعنی عورتوں کے ساتھ اچھی طرح گز ر بسر کرو۔ اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تم کو پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُس میں تمھارے لیے بہت بڑی بھلائی رکھ دی ہو۔
یہ بات اپنی حقیقت کے اعتبار سے شوہر اور بیوی دونوں ہی کے لیے ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسنِ معاشرت یا بہتر ازدواجی زندگی کا انحصار اِس پر نہیں ہے کہ شوہر کو بالکل اپنی پسند کی بیوی مل جائے، یا بیوی کو بالکل اپنی پسند کے مطابق شوہر مل جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے مطابق، ایسا ہونا ممکن نہیں۔ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز پسند کے خلاف زَوج(spouse) کے ساتھ موافقت (adjustment) کرنا ہے، ناپسندیدگی میں پسند کا پہلو تلاش کرلینا ہے۔
عورت اور مرد عام طورپر ایک مشترک مسئلے سے دوچار رہتے ہیں۔ ہر ایک یہ سمجھتا ہے کہ اُس کو جو ساتھی ملا ہے، یا اُس کو جو زندگی ملی ہے، وہ اس کے مطلوب سے کم ہے۔ اپنی حاصل شدہ زندگی سے غیر مطمئن ہو کر ہر آدمی ایک اور مفروضہ زندگی کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہ تصور انتہائی حد تک غیرحقیقت پسندانہ ہے۔ کوئی عورت یا مرد جس مفروضہ زندگی کو اپنے ذہن میں لیے ہوئے ہے، وہ مفروضہ زندگی اگر بالفرض اس کو مل جائے تب بھی وہ بدستور غیر مطمئن ہی رہے گا۔
یاد رکھیے، خوش گوار زندگی خود آپ کے ذہن میں ہے۔ آپ کے ذہن سے باہر کسی خوش گوار زندگی کا کوئی وجود نہیں۔ سوچنے کا ہنر (art of thinking) سیکھیے، اور پھر ہر زندگی آپ کے لیے آپ کی پسند کی زندگی بن جائے گی۔ خوش گوار زندگی کی تعمیر آدمی اپنے آپ کرتا ہے۔ کوئی دوسرا نہیں جو آپ کو خوش گوار زندگی کا تحفہ اپنی طرف سے پیش کرے۔
واپس اوپر جائیں

ذریعہ ٔ سکون

قرآن کی سورہ نمبر تیس میں ارشاد ہوا ہے: خلق لکم من أنفسکم أزواجاً لتسکنوا إلیہا (الرّوم: 21 ) یعنی خدا نے تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑے پیدا کیے، تاکہ تم اُن سے سکون حاصل کرو۔ اِس آیت میں سُکون سے مراد صرف معروف اِزدواجی سکون نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد زیادہ برتر سکون ہے۔ اِس کا مطلب ہے— زندگی کا رول ادا کرنے کے لیے ایک پُرسکون پارٹنر حاصل کرنا:
To find a peaceful partner for playing a greater role in life.
اِس دنیا میںکوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش کے ذریعے ممکن ہے۔ اکیلا ایک آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ اِس اجتماع کی پہلی اور فطری صورت نکاح کے ذریعے ایک عورت اور ایک مرد کا باہم اکھٹا ہونا ہے۔ دو روحوں کا یہ اجتماع سب سے زیادہ کامیاب اجتماع ہے۔ یہ واحد اجتماع ہے جس میں طَرفین قلبی سکون اور کامل اعتماد کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں۔
نکاح کے ذریعے ایک عورت اور ایک مرد کی یک جائی اِس دنیا میں میں بننے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ طرفین کو اگر اس کا احساس ہو تو وہ اِس کو ایک عظیم نعمت سمجھیں اور دونوں مل کر اتنا بڑا کام کریں جو انسانوں کی کوئی دوسری کمپنی نہیں کرسکتی۔
اِس معاملے کی ایک مثال فرانس کے ایک جوڑے کی ہے۔ اُن کا نام پیرے کیوری (وفات: 1906 ) اور میری کیوری (وفات: 1934 ) تھا۔ اِن دونوں نے مل کر بہت اہم کام کیا۔ ماڈرن سائنس میں ان کا کام اتنا بڑا تھا کہ ان کو 1903 اور 1911 میں نوبل پرائز دیے گیے۔ یہی امکان ہر عورت اور ہر مرد کے لیے موجود ہے۔ اپنے اپنے میدان کے اعتبار سے ہر جوڑا یہی کام انجام دے سکتا ہے۔
فطرت نے ہر عورت اور ہر مرد کو اعلیٰ صلاحیت دی ہے۔ جو لوگ بھی جدوجہد کی مطلوب شرط کو پورا کریں، وہ اپنے اپنے دائرے میںاِس قسم کی اعلیٰ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔بدقسمتی سے عورت کا برتر رول، شعوری طورپر، نہ مشرقی دنیا دریافت کرسکی اور نہ مغربی دنیا۔
واپس اوپر جائیں

عورت معاونِ حیات

قرآن کی سورہ نمبر دو میں عورت اور مرد کے تعلق کے بارے میں ایک آیت آئی ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: تمھاری عورتیں تمھاری کھیتیاں ہیں۔ پس اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ، اور اپنے لیے آگے بھیجو، اور اللہ سے ڈرو، اور جان لو کہ تمھیں ضرور اس سے ملنا ہے۔ اور ایمان والوں کو خوش خبری دے دو:
And do good beforehand for yourselves (2:223)
اِس آیت میںاپنے لیے آگے بھیجو (قدّموا لأنفسکم) کا لفظ بنیادی لفظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی مرکزی لفظ سے پوری آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے۔ آیت کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ تمھارا اصل نشانہ یہ ہونا چاہیے کہ تم وہ کام کرو جو مستقبل میں تمھارے لیے مفید بننے والا ہو (قدّموا ما ینفعکم غداً) یعنی آدمی موجودہ امتحان کی دنیا میں اپنے آپ کو اس طرح تیار کرے کہ وہ آگے آنے والی آخرت کی دنیا میں کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔ یہ کسی انسان کا اصل مقصدِ حیات ہے۔ آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ اِسی مقصدِ حیات کی نسبت سے عورت کے معاملے کو سمجھو۔ عورت کو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے ایک معاونِ حیات کی حیثیت سے پیدا کیا ہے، جس طرح کھیت کسی کسان کے لیے اس کے مقصد کی نسبت سے معاونِ حیات کا درجہ رکھتا ہے۔
جس زمانے میں یہ قرآنی آیت اتری، اُس زمانے میں مدینہ (اور بقیہ دنیا) میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ عورت کا درجہ انسانی زندگی میں کیا ہے۔ اس معاملے میں لوگ اپنے سابق ذہنی نقشے کی بناپر صرف دو باتیں جانتے تھے— صنفی تسکین اور بقائِ نسل۔ قرآن میںبتایا گیا کہ اس قسم کے پہلوؤں سے زیادہ اہم پہلو یہ ہے کہ عورت تمھارے لیے اپنی زندگی کی تعمیر میں ایک معاون کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے تم کو چاہیے کہ تم اپنے اِس فطری معاون کا بھر پور استعمال کرو اور اس کو اپنی تکمیلِ حیات کا ذریعہ بناؤ۔ عورت کا اِس سے کم کوئی تصور عورت کا کم تر تصور ہے۔ نکاح کی صورت میں عورت اور مرد کی یک جائی اس لیے ہوتی ہے، تاکہ دونوں وسیع تر انسانیت کی تعمیر میں اپنا مشترک رول ادا کریں۔
واپس اوپر جائیں

اہلِ بیت

قرآن کی سورہ نمبر 33 میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کی نسبت سے یہ آیت آئی ہے: إنّما یرید اللہ لیذہب عنکم الرِّجس أہل البیت، ویطہّرکم تطہیراً (الأحزاب: 33 ) یعنی اللہ تو چاہتا ہے کہ تم اہلِ بیت سے آلودگی کو دور کرے اور تم کو پوری طرح پاک کردے۔اِس آیت میں بظاہر اہلِ بیتِ رسول سے خطاب کیا گیا ہے۔ اہل بیتِ رسول تمام اہلِ ایمان کے لیے نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں، اِس لیے اِس آیت کا تعلق تمام اہلِ ایمان سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں بالواسطہ طورپر مسلم معاشرے کے ہر گھر سے خطاب کیاگیا ہے۔ ہر مسلم خاندان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اُسی تعمیری کورس کو اختیار کرے جس کا حکم اہلِ بیتِ رسول کے لیے دیا گیا تھا۔
ہر گھر سماج کا ایک یونٹ ہوتا ہے۔ بہت سے گھروں سے مل کر ایک سماج بنتا ہے۔ اگر سماج کا ہر یونٹ درست ہوجائے تو پورا سماج درست ہوجائے گا، اور اگر سماج کے یونٹ بگڑ ے ر ہیں تو سماج بھی ایک بگڑا ہوا سماج بن جائے گا۔اِس اعتبار سے ہر مسلم خاندان کی وہی حیثیت ہے جو قرآن کے الفاظ میں ’’اہلِ بیت‘‘ کی تھی۔ ہر مسلم خاندان کو اپنے افراد کی تطہیر اور تزکیہ کا کام کرنا ہے۔ وہ اپنے افراد کے اندر سے برائی کو نکالے اور اُن کے اندر بھلائی کو فروغ دے۔ ہر گھر کے مَردوں اور عورتوں کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنے خاندان کو صالح خاندان بنائیں، تاکہ اُن کے مجموعے سے صالح معاشرہ وجود میںآسکے۔
اِس معاملے میں عورت اور مرد دونوں کی ذمے داری یکساں ہے۔ تعمیر کے اِس کام میں مرد کی حیثیت اگر ناظم کی ہے تو عورت کی حیثیت معاون کی۔ دونوں کے اوپر فرض ہے کہ وہ اپنی ذمے داری کو سمجھیں اور اپنے اپنے دائرے میںخاندان کی صحت مند تعمیر کا کام انجام دیں۔ یہ خدا کی طرف سے عائد کردہ ایک ذمے داری ہے۔ عورت اور مرد اگر اِس ذمے داری کو درست طورپر انجام دیں تو اُن کے لیے خدا کے یہاں بہت بڑا انعام ہے۔ اور اگر وہ اِس ذمے داری کو ادا کرنے میں کوتاہ ثابت ہوں تو وہ خدا کے یہاں پکڑے جائیں گے، اور خدا کی پکڑ بلا شبہہ نہایت سخت ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے بڑی نعمت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر متاع الدنیا، المرأۃ الصّالحۃ (صحیح مسلم، کتاب الرضاع؛ نسائی، کتاب النکاح ) یعنی دنیا کی چیزوں میں سے سب سے اچھی چیز صالح عورت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر عورت جو پیدا ہوتی ہے، وہ اپنے فطری امکان (potential) کے اعتبار سے کسی مرد کے لیے سب سے اچھی متاعِ حیات ہے۔ لیکن اِس امکان کو واقعہ (actual) بنانا مرد کا کام ہے۔ جس طرح خام لوہا (ore) فطرت کا عطیہ ہوتا ہے، لیکن خام لوہے کو اسٹیل بنا نا، انسان کا اپنا کام ہے۔ یہی معاملہ عورت کا بھی ہے۔
مرد کی پہلی ذمے داری یہ ہے کہ وہ عورت کا قدر داں بنے۔ وہ عورت کے اندر چھپے ہوئے جوہر کو پہچانے۔ وہ عورت کے حسنِ باطن کو دریافت کرے۔ عورت کی شکل میں ہر مرد کو ایک اعلیٰ فطری امکان ملتا ہے۔ اب یہ خود مرد کے اوپر ہے کہ وہ اِس واقعے کو امکان بنائے، یا وہ اس کو ضائع کردے۔
اِس عمل کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ جو عورت کسی آدمی کو بیوی کے طورپر ملی ہے، وہ اس کو خدا کی طرف سے بھیجا ہوا عطیہ سمجھے۔ جب وہ اپنی بیوی کو خدا کا براہِ راست عطیہ سمجھے گا تو فطری طورپر وہ اس کے بارے میں سنجیدہ ہوجائے گا اور یہ یقین کرے گا کہ خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا۔ خدا کا انتخاب جس طرح دوسرے تمام عالمی معاملات میں درست ہوتاہے، اسی طرح یہاں بھی وہ درست ہے۔ مرد کے اندر جب یہ ذہن بنے گا تو اس کے بعد وہ عمل اپنے آپ شروع ہوجائے گا جو عورت کے امکان کو واقعہ بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اپنی بیوی کو خدا کا عطیہ سمجھنے کے بعد اس کے ساتھ معاملہ کرنے کو وہ اپنے لیے عبادت سمجھے گا۔ وہ ہرممکن قیمت ادا کرتے ہوئے یہ کوشش کرے گا کہ اس کی بیوی حقیقی معنوںمیں اس کے لیے دنیا کی سب سے اچھی متاعِ حیات بن جائے۔
ہر آدمی چاہتاہے کہ اس کو اچھی بیوی ملے۔لیکن اچھی بیوی کسی کو ریڈی میڈ سامان کی طرح نہیں ملتی۔ شوہر کو یہ کام خود کرنا پڑتا ہے۔ اِس عمل کی کامیابی کے لیے مرد کے اندر دو صفت کا ہونا ضروری ہے— سچی ہم دردی اور صبر و تحمل۔
واپس اوپر جائیں

ایک حدیث

اِزدواجی رشتے کے بارے میں ایک جامع نصیحت حدیثِ رسول میںآئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یفرکُ مؤمنٌ مومنۃً، إن کرِہ منہا خُلقاً، رضی منہا اٰخر (صحیح مسلم، کتاب الرّضاع، باب الوصیۃ بالنساء) یعنی کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے بغض نہ رکھے۔ اگر عورت کی ایک خصلت اُس کو ناپسند ہو تو اُس کے اندر کوئی دوسری خصلت موجود ہوگی جو اس کو پسندآئے۔
اصل یہ ہے کہ کسی عورت یا مرد کے اندر ساری اچھی صفات پائی نہیں جاتیں۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ کسی کے اندر ایک صفت موجود ہوتی ہے تو اس کے اندر دوسری صفت موجود نہیں ہوتی۔ مثلاً عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ایک عورت یا مرد اگر ظاہری دل کَشی کے اعتبار سے زیادہ ہوں تو وہ داخلی خصوصیات کے اعتبار سے کم ہوں گے۔ اور اگر کسی میں داخلی خصوصیات زیادہ ہوں تو اس کے اندر خارجی صفات کم پائی جائیں گی۔
انسان کا یہ مزاج ہے کہ وہ کسی کے منفی پہلو کو زیادہ دیکھتا ہے، اُس کے مثبت پہلو اکثر اس کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔ یہ ایک تباہ کُن مزاج ہے۔ اِسی مزاج کی وجہ سے رشتوں میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اِس کے بجائے اگر ایسا کیا جائے کہ مثبت پہلو پر دھیان دیاجائے اور منفی پہلو کو نظر انداز کردیا جائے تو تعلقات خود بخود خوش گوار ہوجائیں گے۔ ایسا کرنے کی صورت میں ہر مرد کو اُس کی بیوی بہترین رفیقِ حیات دکھائی دے گی اور ہر عورت کو اُس کا شوہر بہترین رفیقِ زندگی نظر آئے گا۔
خدا نے کسی عورت یا مرد کو کم تر پیدا نہیں کیا۔حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنے آپ میں باعتبار تخلیق کامل ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے اپنے فہم کا قصور ہے کہ ہم کسی کو کم اور کسی کو زیادہ سمجھ لیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس حقیقت کو جان لیں تو ان کی زندگی شکر کی زندگی بن جائے، شکایت یا محرومی کا احساس ان کے اندر باقی نہ رہے اور پھر وہ زیادہ بہتر طورپر زندگی کی تعمیر کے قابل ہوجائیں۔
واپس اوپر جائیں

قو ّامیت یا باس ازم

قرآن کی سورہ نمبر چار میں ارشاد ہوا ہے کہ : الرّجال قوّامون علی النّساء (النّساء: 34) یعنی مرد عورتوں کے اوپر قوّام ہیں۔ اِس کا مطلب یہ نہیں کہ مرد عورتوں کے اوپر حاکم ہیں۔ حاکم کا لفظ اپنے ساتھ مخصوص روایات رکھتاہے۔ اِس لفظ سے یہ مفہوم سامنے آتا ہے کہ ایک حاکم ہے اور دوسرا محکوم، مگر قوّام کا یہ مطلب نہیں۔ قوّام کا مطلب صرف انتظام کار ہے، نہ کہ حاکم یا دوسرے سے برتر۔
موجودہ زمانے میں باس اور باس ازم(bossism) کا تصور ایک معروف تصور ہے۔ اِس کی مثال سے قوام کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ قوام کا مطلب صرف یہ ہے کہ مرد گھر کے اندر باس (boss) کی حیثیت رکھتا ہے، ٹھیک اُسی طرح جس طرح کسی ادارے یا کمپنی کا ایک باس ہوتا ہے۔ یہ باس کمپنی کے لیے ایک تنظیمی ضرورت ہوتا ہے، وہ کمپنی کاحاکم نہیں ہوتا۔ کہاجاتا ہے کہ — باس ہمیشہ درست ہوتا ہے (boss is always right) ۔ اس کا مطلب بھی یہ نہیں کہ باس دوسرے سے برتر ہے۔ یہ اصول صرف اِس لیے ہے کہ کسی تنظیم میں جب تک ایک شخص کو اتھارٹی نہ مانا جائے، تنظیم کامیابی کے ساتھ نہیں چل سکتی۔
اِسی طرح گھر بھی ایک ادارہ ہے۔ اِس ادارے کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ایک تنظیمی اتھارٹی (management authority) ضروری ہے۔ قرآن میں اِسی اعتبار سے مرد کو قوّام کہاگیا ہے۔ کسی گھر کا قوّام اُس کے مساوی ممبران کے درمیان ایک ناظم کا درجہ رکھتا ہے۔ اِس اصول کو نہ ماننا صرف اِس قیمت پر ہوگا کہ ہر گھر انارکی کا شکار ہو کر رہ جائے۔
باس ازم ایک ذمے داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کا ٹائٹل نہیں۔ اِسی طرح قوامیت بھی ایک ذمے داری ہے، وہ ایک کے اوپر دوسرے کی برتری کے ہم معنیٰ نہیں۔ یہ ایک انتظامی ضرورت کامعاملہ ہے، نہ کہ کسی قسم کی فضیلت کا معاملہ۔ عملی ضرورت اور نظریاتی شرف کے فرق کو اگر پوری طرح سمجھ لیا جائے تو قوام اور قوامیت کے معاملے کو سمجھنا آسان ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

ِصنفی مساوات

دہلی کے ایک سیمنار میںمیری ملاقات ایک رٹائرڈ جج سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ— مولاناصاحب، آپ جانتے ہیں کہ اسلام کا سب سے زیادہ کم زور پوائنٹ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اسلام صنفی مساوات (gender equality) کو نہیں مانتا۔ آج کے انسان کے لیے اِس قسم کا تصور کبھی قابلِ قبول نہیں ہوسکتا۔ آج کا زمانہ صنفی مساوات کا زمانہ ہے،جب کہ اسلام صنفی نامساوات (gender inequality) کی بات کرتا ہے۔
موجودہ زمانے میں یہ بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، لیکن اِس کے پیچھے کوئی گہری سوچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کو صنفی نامساوات کہاجاتا ہے، وہ صنفی فرق کا معاملہ ہے نہ کہ صنفی نامساوات کا معاملہ۔ ہماری دنیا پوری کی پوری اِسی فرق کے اصول پر قائم ہے۔ اور عورت اور مرد کا معاملہ بلاشبہہ اِس عام اصول سے مُستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔
فرق کوئی منفی (negative) چیز نہیں، فرق مکمل طورپر ایک مثبت (positive) چیز ہے۔ یہ فرق ایسا ہی ہے جیسے ایک گاڑی کے دو پہیے۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے مقابلے میں غیر مساوی نہیں۔ ایک پہیہ دوسرے پہیے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتاہے۔ یہی معاملہ عورت اور مرد کا ہے۔ عورت اور مرد کے درمیان فطرت نے حیاتیاتی اور نفسیاتی فرق رکھا ہے۔ یہ فرق اِسی لیے ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہتر رفیقِ حیات بنیں، دونوں ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصے کا رول ادا کریں۔
صنفی مساوات کا تصور ایک غیر فطری تصور ہے۔ وہ زَوجین کے درمیان غیر ضروری نزاع پیدا کرنے والا ہے۔ اِس کے مقابلے میں صنفی فرق کا تصور ایک فطری تصور ہے۔ وہ زوجین کے درمیان تعاون کا ذہن پیدا کرتاہے۔ وہ زوجین کو اِس قابل بناتا ہے کہ دونوں دو پہیوں کی طرح باہم مل کر زندگی کی گاڑی کامیابی کے ساتھ چلاتے رہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک شادی یا کئی شادی

قرآن کی سورہ نمبر چار میں یہ اجازت دی گئی ہے کہ ایک آدمی چار خواتین سے نکاح کرسکتا ہے (النساء: 3 ) اِس کا مطلب یہ نہیں کہ چار نکاح کرنے کی کھُلی اجازت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک استثنائی حکم ہے، نہ کہ عمومی حکم۔ عام حکم تو یہی ہے کہ ایک آدمی صرف ایک نکاح کرے، لیکن جب کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے، اُس وقت ایک آدمی ایک سے زیادہ نکاح کرسکتا ہے، یعنی دو یا تین یا چار۔
یہ ضرورت اصلاً صرف ایک وجہ سے پیش آتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ کسی حادثے کی بنا پر معاشرے میں عورتوں کی تعداد زیادہ (surplus) ہوجائے اور مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں کم ہوجائے۔ ایسی حالت میں ایک نکاح کے اصول کو اختیار کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ سماج میںبہت سی عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں۔
کسی سماج میں عورتیں جب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوجائیں تو یہ ایک نازک موقع ہوتا ہے۔ اُس وقت انتخاب (choice) ایک نکاح اور کئی نکاح کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ انتخاب ایک نکاح اور صنفی انارکی کے درمیان ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں معاشرے کو صنفی انارکی سے بچانے کے لیے اس کے سوا کوئی اور صورت نہیں ہوتی کہ تعدّدِ اَزواج کے اصول کو اختیار کرلیاجائے اور ایک مرد کو کئی نکاح کی اجازت دے دی جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ نکاح کا فطری طریقہ یہی ہے کہ ایک عورت اور ایک مرد۔ عورت کے اندر فطری طورپر سوکن کے خلاف منفی جذبات ہوتے ہیں۔ یہی واقعہ اِس بات کے ثبوت کے لیے کافی ہے کہ یک زوجیت(monogamy) کا طریقہ ہی فطری طریقہ ہے۔ اور تعددِ زوجیت (polygamy) کا طریقہ ایک استثنائی اجازت ہے، جو قانونِ ضرورت (law of necessity) کے تحت روا رکھا گیاہے۔ اِس قسم کا استثنائی قانون زندگی کے ہر معاملے میں ہوتاہے، مگر استثنائی قانون صرف ایک استثنائی قانون ہے، اس کو عمومی قانون کا درجہ نہیں دیاجاسکتا۔
واپس اوپر جائیں

زوجین کے درمیان کامل مطابقت

ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے بعد ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں تو یہ اجتماع ساری کائنات کاسب سے زیادہ انوکھاواقعہ ہوتا ہے۔وسیع کائنات میں اَن گنت چیزیں ہیں۔ یہاں کی اکثر چیزیں جوڑے (pair) کی صورت میں ہیں، مگر کسی بھی دو چیز کے درمیان وہ کامل مطابقت(complete compatibility) نہیں جو عورت اور مرد کے درمیان پائی جاتی ہے۔ جب ایک عورت اور ایک مرد جیون ساتھی بن کر ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ دونوں شعوری منصوبے کے تحت ایک دوسرے کے لیے بنائے گیے تھے۔
زوجین کے درمیان یہ شعور اگر زندہ ہو تو دونوں ایک دوسرے کو پاکر شکر کے جذبات میں سرشار ہوجائیں۔ دونوں اہتزاز(thrill) کے درجے میں ایک دوسرے کو اپنے لیے نعمت سمجھیں۔ یہ اہتزاز اتنا زیادہ طاقت ور ہو جو کبھی اُن سے جُدا نہ ہو۔ دونوں ایک ساتھ اِس طرح رہیں جیسے کہ دونوں کو ان کی سب سے زیادہ محبوب چیز مل گئی ہو۔ دونوں آخری حد تک مثبت احساس میں جینے لگیں۔
دنیا میں اگر صرف عورتیں ہوں اور کوئی مرد وہاں موجود نہ ہو۔ اِسی طرح اگر ایساہو کہ صرف مرد ہوں اورکوئی عورت موجود نہ ہو۔ ایک ایسی دنیا میں بظاہر زندگی ہوگی، مگر وہ خوشیوں سے خالی ہوگی۔ ایسی دنیا میں ہر طرف ایک ایسی کمی کا احساس چھایا رہے گا جو کبھی اور کسی حال میں ختم نہ ہوگا۔ صرف مردوں کی دنیا بھی ایک بے معنی دنیا ہے، اور صرف عورتوں کی دنیا بھی ایک بے معنیٰ دنیا۔ موجودہ دنیا اِسی لیے ایک بامعنیٰ دنیا ہے کہ یہاںعورت اور مرد دونوں موجود ہیں۔
عورت اور مرد اگر اِس حقیقت پر غور کریں تو اُنھیں اُس سے بھی زیادہ خوشی حاصل ہو جو کسی سائنس داں کو ایک نئی چیز کی دریافت سے حاصل ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف شکایت کی بات اُن کو آخری حد تک بے معنیٰ دکھائی دینے لگے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تخلیق کا شاہ کار ہیں۔ نکاح کا مطلب دو تخلیقی شاہ کاروں کی یک جائی ہے۔ اِس سے بڑا واقعہ پوری معلوم کائنات میں کوئی دوسرا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

انٹلیکچول پارٹنر

انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ خام لوہا(ore) کی مانند ہوتا ہے۔ یہ فطرت کی طرف سے پیدا شدہ انسان ہے۔ اِس کے بعد کا سارا کام انسان کو خود کرنا ہے۔ فطرت، خام لوہا پیدا کرتی ہے۔ اس کے بعد اُس کو اسٹیل کی صورت میں کنورٹ کرنا یا اس کو مشین بنانا، انسان کا اپناکام ہے۔
خود سازی کے اِس فطری عمل میں سب سے زیادہ اہمیت ذہنی ترقی (intellectual development) کی ہوتی ہے۔ اپنی شخصیت بنانے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہر آدمی اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنائے۔ وہ اپنے شعور کو بیدار کرکے اپنے ذہن کی تکمیل کرے۔
اِس عمل میں بنیادی طورپر تین چیزوں کی ضرورت ہے— مطالعہ، مشاہدہ، اور دوسرے انسانوں سے فکری تبادلہ(intellectual exchange)۔ مطالعے کا سب سے بڑا ذریعہ کتابیں ہیں۔ اِسی طرح مشاہدے کا سب سے بڑا ذریعہ عالم فطرت ہے۔افکار وخیال کے تبادلے کے سلسلے میں ضروری ہے کہ آدمی کے اندر دوسروں سے سیکھنے کا مزاج ہو۔ وہ ہر ایک کے ساتھ سیکھنے کے عمل(learning process) کو مسلسل جاری رکھے۔
سیکھنے کے عمل کے سلسلے میں ہر مرد کے لیے اس کی بیوی اور ہر بیوی کے لیے اس کا شوہر قریبی انٹلیکچول پارٹنر (intellectual partner) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِزدواجی زندگی اِس اعتبار سے ایک عظیم موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں ہر عورت اور مرد اپنے لیے ایک انٹلیکچول پارٹنر پالیتے ہیں جس کے ذریعے وہ اپنے ذہنی ارتقا کے عمل کو بلا انقطاع جاری رکھیں۔
ذہنی ارتقا (intellectual development) ہر عورت اور مرد کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ ازدواجی زندگی کی صورت میں دونوں ایسے انٹلیکچول پارٹنر کو پالیتے ہیں جوہر وقت قابلِ حصول ہو۔ ذہنی ترقی کے اِس عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کی شرط صرف ایک ہے، وہ یہ کہ دونوں ذہنی ترقی کی اہمیت کو سمجھیں اور وہ اس کو اوّلین ترجیح کی حیثیت دے کر اپنی روز مرہ کی زندگی میں شامل کرلیں۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کو توڑنا

شادی کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی، یہ دو مختلف شخصیتوں کا ایک ساتھ جمع ہونا ہے۔ اِن میں سے ہر ایک دوسرے سے الگ ہوتا ہے۔ ایک لفظ میں، عورت مِز کنڈیشنڈ ہوتی ہے اور مرد مسٹر کنڈیشنڈ۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ کوئی عورت یا مرد جب پیدا ہوتے ہیں تو اپنے اپنے ماحول کے لحاظ سے دونوں کی کنڈیشننگ شروع ہوجاتی ہے۔ گھر کا ماحول اور گھر کے باہر کا ماحول دونوں کے اثر سے ہر ایک دھیرے دھیرے ایک متأثر ذہن (conditioned mind) بن جاتا ہے۔ ہر ایک کے اوپر اُس کا یہ متاثر ذہن اتنا زیادہ چھا جاتا ہے کہ ہر ایک اپنے خول میں جینے لگتا ہے۔ ہر ایک اپنے کو درست سمجھنے لگتا ہے اور دوسرے کو نادرست۔ اِسی تاثر پذیری کو کنڈیشننگ کہاجاتا ہے۔ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ ہر ایک کے ساتھ بلا استثنا پیش آتا ہے۔
ایسی حالت میں جب ایک عورت اور ایک مرد باہم اکھٹا ہوتے ہیں تو دونوں ایک دوسرے کے لیے مسئلہ بن جاتے ہیں۔ عورت اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے ایک چیز کو ہرے رنگ میںدیکھ رہی ہوتی ہے، اور مرد کو وہی چیز اپنی کنڈیشننگ کی وجہ سے نیلے رنگ میں دکھائی دیتی ہے۔ اِس فرق کی بنا پر دونوں میں بار بار اختلافات پیدا ہوتے ہیں جو بڑھ کر شدت اختیار کرلیتے ہیں۔
اِس مسئلے کا واحد حل ڈی کنڈیشننگ ہے، اور ڈی کنڈیشننگ کا واحد طریقہ یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کھلے ذہن سے ڈسکشن کریں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ برابر انٹلیکچول ایکسچینج کریں۔ اِسی کے ساتھ دونوں کے اندر اعتراف کا مزاج لازمی طورپر ضروری ہے۔ یعنی حقیقت کھل جانے کے بعد فوراً اس کو مان لینا اور فوراً یہ کہہ دینا کہ —اِس معاملے میں میں غلطی پر تھا:
I was wrong.
اپنی غلطی کو کھلے طورپر مان لینا، یہی اپنی ڈی کنڈیشننگ کا واحد کامیاب طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

باہمی اعتماد

دو آدمی جب مل کر کام کریں تو کامیاب کارکردگی کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان کامل اعتماد ہو۔دونوں ایک دوسرے کے اوپر ہر اعتبار سے بھروسہ رکھتے ہوں۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی کوئی دیوار باقی نہ رہے۔ باہمی اعتماد کا یہ اصول شوہر اور بیوی کے درمیان انتہائی حد تک ضروری ہے۔ اِس کے بغیر کوئی گھر اچھا گھر نہیں بن سکتا۔
شوہر اور بیوی کے درمیان کیوں ایسا ہوتا ہے کہ مطلوب قسم کا باہمی اعتماد پیدا نہیں ہوتا۔ دونوں کے درمیان اجنبیت کی ایک غیر محسوس دیوار مسلسل طورپر باقی رہتی ہے۔ اِس نا مطلوب صورتِ حال کی ذمے داری عورت اور مرد دونوں کے اوپر یکساں طورپر عائد ہوتی ہے۔ عورت کی غلطی یہ ہے کہ وہ نکاح کے بعد اپنے ذہن کو نیے حالات کے مطابق نہیں بنا پاتی۔ وہ بدستور اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے۔ اِس کا اظہار بار بار اس کے رویے سے ہوتا رہتاہے۔ مثلاً جب وہ اپنے میکے کا ذکر کرے گی تو وہ اِس طرح کہے گی کہ میرے گھر میںایسا تھا، یا میرے گھرمیں ایسا ہوتا ہے۔ یہ چیز فطری طورپر مرد کو ناگوار ہوتی ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر محسوس کرتا ہے کہ اُس کے اور اس کی بیوی کے درمیان ایک قسم کی غیریت موجودہے، جو کسی طرح ختم نہیں ہوتی۔
دوسری طرف مرد کے اندر عام طورپر ایک کم زوری ہوتی ہے، جو مطلوب نوعیت کے باہمی اعتماد میںمسلسل طورپر رکاوٹ بنی رہتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مرد کے ذہن میں ایک مفروضہ عورت کا تصور بساہوا ہوتاہے،یہ مفروضہ مرد کے ذہن میں مسلسل طورپر بسا ہوا ہوتا ہے۔ اِس بنا پر وہ اپنی موجود بیوی کے ساتھ مطلوب قسم کا باہمی اعتماد قائم نہیں کر پاتا ۔شوہر اور بیوی کے درمیان باہمی اعتماد قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں اپنی اصلاح کریں۔ دونوں اپنے آپ کو مذکورہ قسم کے واہمہ (obsession) سے باہر نکالیں۔ دونوں یہ کریں کہ وہ خیالی دنیا میں جینے کے بجائے عملی حالات کے مطابق، اپنا ذہن بنائیں۔ جب وہ ایسا کریں گے تو دونوں کے درمیان اپنے آپ باہمی اعتماد قائم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

بامقصد انسان

ایک تعلیم یافتہ مسلمان ہیں۔ وہ دعوت کا کام کافی سرگرمی کے ساتھ کررہے ہیں۔انھوںنے اپنی ایک لڑکی کی شادی ایک نوجوان سے کی، جو کہ ایک مغربی ملک میں رہتے ہیں۔ شادی کے بعد لڑکی اپنے شوہر کے پاس چلی گئی۔ وہاں وہ چند سال رہی۔ اُس کے یہاں ایک بچہ بھی پیدا ہوا، مگر شوہر اور بیوی کے درمیان اختلاف ہوگیا۔ آخر کار لڑکی غصہ ہو کر اپنے باپ کے پاس انڈیا آگئی۔ لڑکی کی زبان سے شکایتوں کو سُن کر اس کے باپ نے یقین کرلیا کہ ان کی لڑکی بے خطا ہے اور سارا قصور اس کے شوہر کا ہے۔
مذکورہ مسلمان سے میری ملاقات ہوئی۔ حالات سننے کے بعد میں نے کہا کہ اِس معاملے میں آپ باپ کے دل سے بول رہے ہیں، آپ داعی کے دل سے نہیں بول رہے ہیں۔ انھوںنے کہاکہ میں نے ٹیلی فون پر اپنے داماد کو سمجھانے کی کوشش کی، مگر وہ بہت سخت(adamant) ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ— میں نہیں بدلوں گا، آپ کی بیٹی کو میرے ساتھ ایڈجسٹ کرنا چاہیے۔
میں نے کہا کہ اِس قسم کے اختلاف ہر شادی شدہ زندگی میں پیش آتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اختلاف کی دو قسمیں ہیں۔ ایک یہ کہ شوہر کے اندر بُری عادتیں ہوں۔ مثلاً شراب پینا، وغیرہ۔ دوسری قسم کا اختلاف وہ ہے جو مزاجی (temperamental) نوعیت کا ہوتا ہے۔ میںنے کہا کہ میرے اندازے کے مطابق، آپ کے داماد میں پہلی قسم کی خرابی نہیں ہے۔ اِس لیے آپ کو اُسے زیادہ سنجیدگی کے ساتھ نہیں لینا چاہیے۔ موجودہ صورت میں آپ کو چاہیے کہ آپ اپنی بیٹی کو سمجھائیں کہ تم اپنے شوہر سے ایڈجسٹ کرو۔ تم گھر کی زندگی میں اپنے شوہر کو اپنا باس(boss) بنا لو۔ یہی واحد قابلِ عمل صورت ہے۔ اِس کے سوا کوئی اور صورت ممکن نہیں۔میں نے کہا کہ آپ داعی ہیں۔ داعی ایک بامقصد انسان ہوتا ہے۔ اور بامقصد انسان اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ اپنے مقصد کے سوا کسی اور چیز کو اپنا مسئلہ بنائے۔ آپ اپنی بیٹی کو سمجھا بُجھا کر اس کے شوہر کے پاس بھیج دیجئے، ورنہ یہ بیٹی آپ کی مقصدی زندگی کا خاتمہ کردے گی۔ اِس کے بعد آپ صرف باپ کی حیثیت سے زندہ رہیں گے، نہ کہ داعی کی حیثیت سے۔
واپس اوپر جائیں

مشن کے بغیر

ایک بار مجھے ایک تعلیم یافتہ مسلمان کے گھر پر ٹھہرنے کا موقع ملا۔ یہ مسلمان دعوہ مشن میں سرگرمی کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ مجھے معلوم ہوا کہ ان کی ایک بیٹی ہیں۔ ان کی شادی ہوئی مگر وہ سسرال میں نباہ نہ کرسکیں۔ وہ شوہر کو چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے پاس آگئیں۔ میں نے لڑکی سے کہا کہ آپ کو ایک فیصلہ لینا پڑے گا۔ اِس طرح آپ زندگی نہیں گزار سکتیں۔ انسان کو جینے کے لیے ہمیشہ ایک مشن درکار ہوتا ہے۔ آپ کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ہے۔ موجودہ صورت میں آپ تیسرا آپشن لیے ہوئے ہیں، اور تیسرا آپشن یقینی طورپر کوئی ممکن آپشن نہیں۔
انسان مشن کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک عورت جب شادی شدہ زندگی اختیار کرتی ہے تو دھیرے دھیرے وہ اس کے لیے ایک مشن بن جاتا ہے۔ گھر سنبھالنااور بچوں کی تعلیم وتربیت، وغیرہ۔ اس دنیا میں وہ اپنی ایک مستقل پوزیشن کی مالک ہوتی ہے۔ یہاں اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک ’’اسٹیٹ‘‘ ہوتی ہے۔ اور اس اسٹیٹ کو چلانا اس کا تاعمر مشن بن جاتا ہے۔
میںنے کہا کہ آپ یاتو اپنے شوہر کے پاس واپس جائیں اور وہاں اپنے لیے اس طرح کی دنیا بنائیں۔ آپ کے لیے دوسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنے والد کے ساتھ دعوہ مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنائیں۔ یہ بھی آپ کے لیے ایک قابلِ عمل آپشن ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے آپ کو از سرنو تیار کرنا پڑے گا۔ آپ اپنے مطالعہ کو بڑھائیں، اپنے لائف اسٹائل کو بدلیں،اپنی زندگی کی ازسرِ نومنصوبہ بندی کریں۔ آپ اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کریں اور ان کو دوبارہ نئے ڈھنگ سے قائم کریں۔
اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو ایک مکمل زندگی حاصل ہوجائے گی۔ شوہر کے ساتھ اگر آپ کی ایک فیملی اسٹیٹ ہوتی تو اپنے والد کے ساتھ آپ کی ایک دعوہ اسٹیٹ بن جائے گی۔ میں نے کہا کہ اس وقت آپ جو کچھ کررہی ہیں وہ محض جذبات کی بنیاد پر کررہی ہیں۔آپ جذبات کے ساتھ بہت دیر تک نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح آپ بہت جلد مایوسی کا شکار ہو جائیں گی اور کسی انسان کے لیے مایوسی سے زیادہ بری کوئی چیز نہیں۔
واپس اوپر جائیں

بے مقصد زندگی

ایک سفر میں میری ملاقات ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے تھے۔ ان کا مکان کافی بڑا تھا۔ لیکن اس میں دو کے سوا کوئی اور فرد موجود نہ تھا۔ بظاہر سجے ہوئے مکان کے اندر دو بالکل سادہ انسان رہ رہے تھے۔گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ ان کے یہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیداہوا۔ دونوں کو انھوں نے اچھی تعلیم دلائی، مگر تعلیم کی تکمیل کے بعد دونوں باہر چلے گیے۔ اب دونوں باہر کے ایک ملک میں رہ رہے ہیں اور غالباً وہاں کے شہری بن گئے ہیں۔ میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا آپ کو بچوں کی یاد آتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ہم یہ سوچ کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے بچے جہاں ہیں، وہاں وہ خوش ہیں۔
اِس طرح کے بہت سے جوڑے ہیں۔ انھوںنے بڑے شوق کے ساتھ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلائی، لیکن جب بچے تعلیم یافتہ ہوگئے تو وہ باہر چلے گیے۔ اب یہ لوگ اپنے شان دار گھرو ںمیں بے شان زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے پاس گزرے ہوئے دنوں کی یادوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ یہ کہانی اکثر ان لوگوں کے ساتھ پیش آرہی ہے جو پیسے کے اعتبار سے خوش حال سمجھے جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے پیسہ کما کر بظاہر اپنے لیے ایک کامیاب دنیا بنائی، لیکن جلد ہی ان کی امیدوں کی دنیا اُجڑ گئی۔اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا کوئی مستقل مقصد نہیں بنایا تھا۔ ان کا واحد مقصد بچوں کو خوش کرنا تھا۔ بعد کو جب بچوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تو ان کے سامنے زندگی کا کوئی نشانہ باقی نہ رہا۔
مقصد وہ ہے جس کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہو، کسی کے رہنے یا نہ رہنے سے اس میں فرق نہ آتا ہو۔ ایک عورت اور ایک مرد نکاح کے رشتے میں بندھ کر اِس قابل بنتے ہیں کہ وہ خود اپنی ایک دنیا تعمیر کریں، مگر غیر حقیقی محبت کے نتیجے میں وہ اپنے بچوں کو اپنی امیدوں کا مرکز بنالیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت والدین کی ذمے داری ہے، نہ کہ ان کی زندگی کا مقصد۔ والدین اگر اِس فرق کو سمجھ لیں تو وہ اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کریں گے اور پھر وہ کبھی افسردگی اور مایوسی کا شکار نہ ہوں گے۔
واپس اوپر جائیں

سادگی ایک اصولِ حیات

میرے تجربے کے مطابق، تقریباً تمام والدین کا یہ حال ہے کہ وہ سادگی کو ایک اصولِ حیات کے طورپر نہیں جانتے۔ کسی معاملے میں بطور مجبوری وہ سادگی کا طریقہ اختیار کرسکتے ہیں، لیکن اپنے آزادانہ اختیار کے تحت وہ سادگی کا طریقہ اختیار نہیں کرتے۔ والدین کا یہ مزاج ان کے بچوں تک پہنچتا ہے۔ اُن کے بچے بھی سادگی کو اصولِ حیات کے طور پر دریافت نہیں کرپاتے۔ اور پھر اپنی پوری زندگی میں وہ اِس کی بھاری قیمت ادا کرتے رہتے ہیں۔
سادگی کیا ہے۔ سادگی یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اِس مقصد کو وہ اپنی زندگی میں اوّلین اہمیت دے۔ اِس کے سوا ہر چیز کو وہ ثانوی(secondary) درجے میں رکھے۔
زندگی میںہر ایک کے لیے سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ وہ اپنے اندر اعلیٰ شخصیت کی تعمیر کرے۔ خالق کی طرف سے ہر عورت اور مرد کو اعلیٰ امکانات(potentials) عطا کیے جاتے ہیں، لیکن اِس امکان کو واقعہ بنانا ہر عورت اور مرد کا اپنا کام ہے۔ امکانات دینا خالق کا کام ہے، لیکن امکانات کو واقعہ بنانا ہمیشہ آدمی کا اپنا کام ہوتاہے۔
اِس معاملے میں پہلی چیز یہ ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد اپنی امکانی صلاحیتوں کو دریافت کرے۔ اس کے بعد ہر ایک کو یہ کرنا ہے کہ وہ مقصدی بنیادوں پر اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ مطالعے اور تجربے کے ذریعے اپنے ذہن کی تشکیل کرے۔ وہ اُس ہنر کو جانے جس کو ٹائم مینج منٹ (time management) کہا جاتا ہے۔ وہ اپنے تمام ذرائع کو اپنے مقصد کے حصول میں لگا دے۔
با مقصد زندگی ایک طریقِ حیات ہے۔ اِس طریقِ حیات کو کامیابی کے ساتھ اختیار کرنے کے لیے سادگی لازمی طورپر ضرور ی ہے۔ سادگی آدمی کواِس نقصان سے بچاتی ہے کہ وہ اپنے پیسے یا اپنے ذرائع کو غیر ضروری چیزوں میں لگا دے اور پھر وہ مقصد کے حصول میں زیادہ کارگر جدوجہد نہ کرسکے۔اِس معاملے میں غفلت ہر ایک کے لیے تباہ کُن ہے۔
واپس اوپر جائیں

جذباتیت بمقابلہ انانیت

ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک ساتھ اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ دو متضاد شخصیت کا اجتماع ہوتا ہے۔ عورت اپنی پیدائش کے اعتبار سے جذباتی (emotional) ہوتی ہے، اور مرد اپنی پیدائش کے اعتبار سے انانیت پسند (egoist) ہوتا ہے۔ یہ دونوں باتیں فطری ہیں۔ وہ لازمی طورپر ہر عورت اور ہر مرد کی شخصیت کاحصہ ہوتی ہیں۔ اِس معاملے میں کسی کا بھی کوئی استثنا نہیں ۔
لیکن اِن دونوں صفتوں کا ایک مثبت پہلو ہے اور دوسرا اُن کا منفی پہلو۔ اگر اِن صفات کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو وہ انسانیت کے لیے خیر ثابت ہوں گے، اور اگر ان کو منفی انداز میںاستعمال کیاجائے تووہ انسانیت کے لیے شر بن جائیں گے۔
انانیت (ego) کا مثبت پہلویہ ہے کہ اس کی وجہ سے انسان کے اندر کسی مقصد کے لیے جمنے کا مزاج پیداہوتاہے۔ اگر آدمی کے اندر یہ صفت نہ ہو تو وہ موم کی مانند ہوجائے گا اور عزم وجزم کے ساتھ وہ کوئی کام نہ کرسکے گا۔ انانیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ آدمی کے اندر گھمنڈ کا مزاج پیدا ہوجائے۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنی انانیت کو اِس منفی حد تک نہ جانے دے، ورنہ وہ تعمیر پسند انسان کے بجائے ایک تخریب پسند انسان بن جائے گا۔
اِسی طرح عورت پیدائشی طورپر جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ اِس صفت کے بھی مثبت اور منفی پہلو ہیں۔ اِس صفت کا مثبت پہلو یہ ہے کہ اِس کی وجہ سے عورت کے اندر نرمی اور شفقت کا مزاج زیادہ ہوتاہے، جو بلاشبہہ ایک خوبی کی بات ہے۔ اِس صفت کا منفی پہلو یہ ہے کہ عورت کے اندر ضد کا مزاج پیدا ہوجائے۔ وہ معاملات میں ضدّی پن دکھانے لگے۔ یہ دوسرا پہلو اِس صفت کا منفی پہلو ہے۔ اگر عورت کے اندر یہ منفی مزاج پیداہوجائے تو اس کی فطری صفت اپنا مثبت فائدہ کھو دے گی۔
عورت اور مرد دونوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اِس فطری مزاج کو سمجھیں۔ وہ شعوری طورپر اِس کا اہتمام کریں کہ ان کا یہ مزاج مثبت دائرے میں رہے، وہ منفی رُخ اختیار نہ کرے۔ اِسی انضباط میں عورت اورمرد دونوں کے لیے کامیابی کا راز چھپا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

فارمولا آف تھرٹی سکینڈ

مرد اپنی فطرت کے اعتبار سے انانیت پسندہے، اور عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے جذباتی ہے۔ اِسی فرق کی بنا پر اکثر دونوں میں جھگڑا کھڑا ہوجاتا ہے۔ دونوں کے درمیان اِس فرق کو مٹایا نہیں جاسکتا۔اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ — جب مرد کی انا بھڑکے تو عورت خاموش ہوجائے، اور جب عورت کے جذبات بھڑکیں تو مرد خاموشی اختیار کرلے۔ دونوں میںسے کوئی بھی ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کرے۔ اِس کے سوا اِس مسئلے کا کوئی اور حل سرے سے ممکن ہی نہیں۔
ہر منفی جذبہ ، مثلاً غصے وغیرہ کا معاملہ یہ ہے کہ جب وہ بھڑکتا ہے تو وہ اپنے آپ بھڑکتا ہے، لیکن ابتدائی طورپر وہ ایک حد کے اندر ہی رہتاہے۔ حد سے آگے جانے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کو کوئی بڑھاوا (boost) دینے والا بڑھاوا دے۔ یہ بڑھاوا دینے والا خود کوئی انسان ہوتا ہے۔ اگر آدمی اپنی طرف سے بوسٹ فراہم نہ کرے تو ہر منفی جذبہ تھوڑی دیر کے بعد اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ منفی جذبے کے بارے میں فطرت کا قانون یہ ہے کہ وہ پیدا ہونے کے بعد تھرٹی سکینڈ تک اوپر کی طرف جاتا ہے۔اس کے بعد اگراُس کو مزید بُوسٹ نہ ملے تو تھرٹی سکینڈ کے بعد وہ فطری طورپر نیچے کی طرف جانے لگتا ہے۔
شوہر اور بیوی دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فطرت کے اِس قانون کو سمجھیں، جس کو ہم نے تیس سکینڈ کا فارمولا(formula of 30-seconds) کہا ہے۔ فطرت کے اِس قانون کو جاننا شادی شدہ زندگی کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے۔ جو شوہر اور بیوی اِس قانون کو جان لیں، ان کی زندگی میںکبھی ایسا بُحران (crisis) نہیں آئے گا جو بڑھ کر بریک ڈاؤن (breakdown) تک پہنچ جائے۔خالق نے فطرت کے اندر تمام ضروری تحفّظات (safeguard) رکھ دیے ہیں۔ کسی عورت یا مرد کو صرف یہ کرناہے کہ وہ فطرت کے اندر پہلے سے موجود اِن تحفظات کو جانے اور ان کو اپنی عملی زندگی میںاستعمال کرے۔ فطرت کا طریقہ یہ ہے کہ وہ خاموش زبان میں بولتی ہے۔ جو لوگ خاموش زبان کو سننے کی استعداد رکھتے ہوں، وہی لوگ فطرت کی اِس آواز کو سنیں گے اور اُس سے فائدہ ا ٹھا کر اپنی زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

آرٹ آف فیلیر مینج منٹ

ایک صنعت کار اپنی بیٹی کو لے کر میرے پاس آئے۔ انھوںنے کہاکہ میری بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہوگئی ہے۔ جلد ہی ان کی شادی ہونے والی ہے۔ آپ دعا کیجیے کہ ان کی شادی شدہ زندگی (married life) کامیاب ہو۔ میںنے ان کی بات سنی اور پھر میری زبان سے نکلا:
Every marriage is doomed to failure, except for the one who knows the art of failure management.
یعنی ہر شادی کے لیے مقدر ہے کہ وہ ناکام ہو، سوا اُس کے جو ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کا آرٹ جانتا ہو۔انھوں نے کہا کہ پھر ہم کو وہی آرٹ بتائیے۔ میں نے کہا کہ وہ آرٹ یہ ہے کہ آدمی شادی کو آئڈیل کی نظر سے نہ دیکھے، بلکہ پریکٹکل کی نظر سے دیکھے اور پھر جو شادی اس کے حصے میں آئی ہے اُسی کو ممکن سمجھ کر اس پر راضی ہوجائے۔شادی کے بعد عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھی کو آئڈیل سے ناپتے ہیں۔ چوں کہ آئڈیل کا حصول ممکن نہیں، اس لیے اُن کا احساس یہ ہوتا ہے کہ انھیں رائٹ جیون ساتھی نہیں ملا۔ شادی کے دونوں فریق اِسی احساس میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ شادی کے نام پر ایک دوسرے کے ساتھ اکھٹا ہوتے ہیں، لیکن اُنھیں شادی یا خوشی کا کبھی تجربہ نہیںہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر عورت وہی ہے جو دوسری عورت ہے۔ اِسی طرح ہر مرد وہی ہے جو دوسرا مرد ہے۔ ظاہری صورتوں کے لحاظ سے خواہ لوگ ایک دوسرے سے مختلف ہوں، لیکن داخلی شخصیت کے اعتبار سے ہر ایک یکساں حیثیت کا مالک ہے۔ لوگ اگر اس حقیقت کو جان لیں توہر مرد کو یہ محسوس ہوگا کہ اس کو جو بیوی ملی ہے، وہ دنیا کی سب سے اچھی بیوی ہے۔ اِسی طرح ہر عورت کو یہ محسوس ہوگا کہ اُس کو جو شوہر ملا ہے، وہ دنیا کا سب سے اچھا شوہر ہے۔ جب دونوں اِس حقیقت کو دریافت کریں گے تو اس کے بعد اُن کی زندگی سے مایوسی اور رنج کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اور پھر وہ اُس خوش گوار زندگی کو پالیں گے جس کی انھیں تلاش تھی۔
واپس اوپر جائیں

لائف مینج منٹ

اِس دنیا میںکامیاب زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اُس ہنر کو جانے جس کو آرٹ آف لائف مینج منٹ(art of life management) کہا جاتا ہے۔آرٹ آف لائف مینج منٹ یہ ہے کہ آدمی ایک طرف اپنے آپ کو جانے اور دوسری طرف اپنے سے باہر کے حالات کو سمجھے، اور پھر خالص حقیقت پسندانہ انداز میں اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔ پھر وہ اِس نقشے پر اِس طرح عمل کرے کہ نتیجے کو دیکھتے ہوئے بار بار وہ اپنے نقشے پر نظر ثانی کرتا رہے۔
زندگی کے کسی نقشے یا منصوبے کے درست یا نادرست ہونے کا صرف ایک معیار ہے اور وہ اُس کا نتیجہ ہے۔ جس نقشۂ عمل کا نتیجہ منفی صورت میں نکلے، وہ نقشۂ عمل نادرست ہے۔ اور جس نقشۂ عمل کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلے، وہ درست ہے۔ کسی نقشۂ عمل کو نظری معیار پر جانچنادانش مندی نہیں۔ دانش مندی یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے نقشے کو اُس کے نتیجے کی روشنی میں جانچا جائے۔
شادی شدہ زندگی کے بارے میں بھی یہی اصول ایک صحیح اصول ہے۔ شادی شدہ زندگی کی نزاکت یہ ہے کہ وہ غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ جہاں دو فرد کے درمیان خونی رشتہ موجود ہو، وہاں کسی شعوری منصوبہ بندی کے بغیر بھی تعلقات قائم ہوسکتے ہیں۔ لیکن شوہر اور بیوی کا تعلق غیرخونی رشتے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ ایسے تعلق کو درست طورپر چلانے کی تدبیر صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ اُس کو پوری طرح عقل کے تابع رکھا جائے، نہ کہ جذبات کے تابع۔
خونی رشتے میں فطری طورپر جذباتی تعلق موجود ہوتاہے۔ یہ جذباتی تعلق ہر چیز کا بدل بن جاتا ہے، لیکن غیر خونی رشتے کی کامیابی کا انحصار تمام تر اِس پر ہے کہ اُس کو سوچ سمجھ کر چلایا جائے۔خونی رشتہ فطرت کے زور پر اپنے آپ جاری رہتاہے، لیکن غیر خونی رشتے میں اِس قسم کا فطری زور موجود نہیں ہوتا۔ غیر خونی رشتے کو عقلی مینج منٹ(rational management) کے بغیر کامیابی کے ساتھ چلانا ممکن نہیں—خونی رشتہ فطرت کے تحت قائم ہوتا ہے اور غیر خونی رشتہ شعور کے تحت۔
واپس اوپر جائیں

انتظار کی پالیسی

انتظار کرو اور دیکھو (wait and see) ایک قدیم مقولہ ہے۔ یہ صرف ایک مقولہ نہیں، وہ فطرت کاایک قانون ہے۔ انتظار کی پالیسی بہتر انجام کے استقبال کے ہم معنیٰ ہے۔ ایک چیز جو آج آپ کو نہیں ملی، اُس کو پانے کے لیے آپ کَل کا انتظار کریں تو یہ بلاشبہہ ایک اعلیٰ دانش مندی کی بات ہوگی۔ عین ممکن ہے کہ جو کچھ آپ کو آج نہیںملا، وہ کل اپنی پوری مطلوب صورت میں آپ کو مل جائے۔
شادی شدہ زندگی میں شوہر اور بیوی دونوں یہ غلطی کرتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کوآج ہی ویسا دیکھنا چاہتے ہیں، جیسا کہ وہ اُن کے دماغ میں بساہوا ہے۔ اِس معاملے میں وہ وقت کے عامل (factor) کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ کوئی چیز وقت سے پہلے کسی کو نہیں ملتی۔ عورت اورمرد دونوں کو جاننا چاہئے کہ اِس دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتاکہ جو چیز کل ملنے والی ہے، وہ آج ہی آپ کو مل جائے۔
نکاح کے بعد جب ایک عورت اور ایک مرد ایک گھر میں اکھٹا ہوتے ہیں تو یہ دونوں کے لیے ایک نیا تجربہ ہوتاہے۔ دونوں فطری طورپر ایک دوسرے سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ دونوں فطری طورپر اپنے آپ کو ایک دوسرے کے مطابق بنا نا چاہتے ہیں۔ یہ فطری عمل نکاح کے پہلے دن سے شروع ہو جاتا ہے۔ زوجین کا کام یہ ہے کہ وہ اِس فطری عمل (process) کو جاری رکھنے میں مدد گار بنیں۔ وہ ایسا کوئی کام نہ کریں جو اِس فطری عمل کو درہم برہم کردینے والا ہو۔
انتظار کا مقصد اِسی فطری عمل میں مدد دینا ہے۔ انتظار کا مقصد یہ ہے کہ یہ فطری عمل بلا روک ٹوک جاری رہے، یہاں تک کہ وہ اپنی آخری حد پر پہنچ جائے۔ انتظار ایک عمومی اصول ہے۔ اُس کا تعلق ہر بڑی کامیابی سے ہے۔ یہی اصول شوہر اور بیوی کے معاملے میں بھی درست ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ انتظار کیجیے، اور اس کے بعد آپ کو یقینی طورپر اپنی مطلوب چیز مل جائے گی۔یہ فطرت کا قانون ہے اور اِس دنیا میں فطرت کے قانون سے بڑا کوئی قانون نہیں۔
واپس اوپر جائیں

گھر :بہتر انسان بنانے کا کارخانہ

ماں کی حیثیت سے عورت کا رول اگلی نسل کی تیاری ہے۔ انسان کی نسل ایک رواں دریا کی مانند ہے جس میں ہر وقت پرانا پانی بہہ کر چلا جاتاہے اور نیا پانی اس کی جگہ لے لیتا ہے۔ یہی معاملہ انسانی قافلے کا ہے۔ یہاں بھی مسلسل ایسا ہوتا ہے کہ پچھلی نسل جاتی رہتی ہے اور نئی نسل اس کی جگہ لیتی رہتی ہے۔ ماں کا کام اِسی نئی نسل کی تیاری ہے۔ ماں کے ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر بار اگلی نسل کے لیے بہتر انسان بنا کر بھیجے۔
بہتر انسان کون ہے۔ بہتر انسان وہ ہے جس کے اندر زندگی کا حوصلہ ہو۔ جو منفی سوچ سے بلند ہو اور مثبت سوچ کا حامل ہو۔ جو اپنے ذہن کے اعتبار سے اِس قابل ہو کہ وہ چیز تعمیری بنیادوں پر زندگی کی منصوبہ بندی کرسکے۔ جو اپنے سماج کے لیے کوئی نیا پرابلم پیدا نہ کرے۔ جو اپنے سماج کا دینے والا ممبر (giver member) ہو، نہ کہ صرف لینے والا ممبر (taker member) ۔
اِس معاملے میں ماں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کو ہم چند مثالوں کے ذریعے واضح کریں گے۔ ان مثالوں کاخلاصہ یہ ہے کہ ماں کو چاہیے کو وہ اپنی اولاد کے اندر وہ چیز پیدا کرے جس کو پختگی (maturity) کہاجاتا ہے، وہ ناپختگی (immaturity) کا ذہن لے کر اپنی اولاد کو سماج میںنہ بھیجے۔
امریکا کی ایک خاتون نینسی اَلوا ایڈیسن کا ایک بیٹا تھا۔ اُس کا نام ٹامس الوا ایڈیسن (وفات: 1931)تھا۔ وہ پیدائشی طورپر کم سنتاتھا۔ اس کے اسکول ٹیچر نے دیکھا کہ وہ کلاس میں ٹیچر کی باتوںکو سن نہیں پاتا اور اسکول کے کام کو ٹھیک سے نہیں کرتا۔ اسکول ٹیچر اس پر غصہ ہوگیا۔ اس نے ایڈیسن کو معذور بچہ (retarded boy) قر ار دے اس کو اسکول سے خارج کردیا۔
لیکن ایڈیسن کی ماں نے یہاں ایک تعمیری رول ادا کیا۔ اس نے ایڈیسن کے اندر یہ ذہن پیدا کیا کہ تم ایک معذور بچے نہیں ہو بلکہ یہ معذوری تمھارے لیے ایک چیلنج ہے۔ تم اپنی فطری صلاحیتوں کو استعمال کرو اور اس چیلنج کا مقابلہ کرکے تم ایک کامیاب انسان بن سکتے ہو۔ ماںنے ایڈیسن کی تعلیم کو اپنا مشن بنا لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایڈیسن کا نام تاریخ میں ایک بڑے سائنس داں کی حیثیت سے درج کیا گیا۔
اسی طرح عام ذہن یہ ہے کہ جو آدمی دولت مند گھر میں پیدا ہو، اُس کو خوش قسمت سمجھا جاتا ہے۔ اور جو آدمی غریب گھر میں پیدا ہو، اس کو بد قسمت انسان کہا جاتا ہے۔ یہاں ماں کا رول یہ ہے کہ اگر اس کا بچہ غریب گھر میں پیدا ہوا ہے تو وہ اس کو بتائے کہ غریب ہونا کوئی محرومی کی بات نہیں۔ ایسی ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو زندگی کا یہ فلسفہ بتائے کہ دولت مند بچے کے پاس اگر دولت ہوتی ہے تو غریب بچے کے پاس بڑھا ہوا محرک (incentive) موجود ہوتا ہے۔ یہ محرک اُس کی زندگی کی طاقت بن کر اس کا ساتھ دیتا ہے:
If a rich person is born with a silver spoon in his mouth, the poor person is born with an incentive spoon in his mouth.
ماں کو چاہیے کہ وہ اپنے بچے کو بتائے کہ ہر امیر بچے کے باپ اور دادا غریب ہی تھے، پھر وہ محنت کرکے امیر بنے۔ اِسی طرح تم بھی محنت کرکے سب کچھ حاصل کرسکتے ہو۔
اِسی طرح ایک اور فکری گمراہی ہے۔ ماں کو چاہیے کہ اس گمراہی سے وہ اپنے بچے کو باہر نکالے۔ وہ یہ کہ عام طور پر انسانی طبقات کو محروم اور غیر محروم (Haves and have nots) میں تقسیم کیا جاتا ہے، مگر یہ ایک غلط ڈائکاٹمی (wrong dichotomy) ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بچپن میں ایک شخص محروم طبقے کا فرد ہوتا ہے، لیکن بعد میں وہ ایک غیر محروم طبقے کا فرد بن جاتا ہے۔ مثلاً سی وی رمن، جی ڈی برلا، آبرائے، دھیرو بھائی امبانی، ڈاکٹر عبدالکلام، وغیرہ۔ اس قسم کے ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے بچپن میں بظاہر محروم طبقے سے تعلق رکھتے تھے، لیکن بعد کو وہ غیرمحروم طبقے کے اعلیٰ فرد بن گیے۔ اِس لیے اِس دنیا میں صحیح ڈائکاٹمی محروم اور غیر محروم کی نہیں ہے، بلکہ امکانی غیرمحروم اور واقعی غیر محروم (pontential haves and actual haves) کی ہے۔
کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہمیت کی چیز حوصلہ اور مثبت شعور ہے۔ ہر پچھلی نسل کا فرض ہے کہ وہ اگلی نسل کو با حوصلہ اور باشعور بنا کر زندگی کے میدان میں داخل کرے۔
واپس اوپر جائیں

تعلیم اور خواتین

تعلیم کی اہمیت جتنی زیادہ مَردوں کے لیے ہے، اتنی ہی زیادہ اس کی اہمیت عورتوں کے لیے بھی ہے۔ تعلیم کے بغیر دونوں ہی ادھورے ہیں۔ تعلیم ہر عورت اور مرد کی ایک ایسی ضرورت ہے جس کو دونوں میں سے کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ تعلیم کو نظر انداز کرنا اپنے لیے یہ خطرہ مول لینا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے مطلوبِ اعلیٰ تک نہ پہنچیں، وہ مطلوبِ اعلیٰ تک پہنچے بغیر ناکامی کے احساس کے ساتھ مرجائیں۔
عورت اور مرد دونوں کے لیے تعلیم اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اِس معاملے میں کوئی بھی عُذر قابلِ قبول نہیں۔ مشہور مقولہ اِس معاملے میں پوری طرح صادق آتا ہے— اگر تمھارے پاس ایک اچھا عذر ہے، تب بھی تم اُس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse , don't use it.
تعلیم کی اہمیت صرف جاب کے لیے نہیں ہے، بلکہ اس کی اہمیت بہتر زندگی کی تعمیر کے لیے ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام چیزوں کا تعلق علم اور تعلیم سے ہوگیا ہے۔ ایسی حالت میںکوئی عورت یا مرد اِس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جائیں۔ کیوں کہ تعلیم سے بے بہرہ رہ جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایسا شخص ایک حقیقی انسانی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوسکے۔
ہر آدمی ایک حیوان ہے۔ حیوانیت کے مقام سے اوپر اٹھا کر جو چیز اُس کو انسان کے مقام تک پہنچاتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ حیوان اور انسان کے درمیان جو چیز فرق کرتی ہے، وہ تعلیم ہے۔ تعلیم آدمی کو اِس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے اندر چھپے ہوئے اعلیٰ امکانات کو بروئے کار لائے، وہ اپنے امکان (potential) کو واقعہ(actual) بنا سکے۔ یہ کام کبھی تعلیم کے بغیر انجام نہیں پاسکتا۔
تعلیم سے مراد پروفیشنل ایجوکیشن نہیں ہے، بلکہ حقیقی ایجوکیشن ہے۔ تعلیم سے مراد اپنے آپ کو علم وحکمت کی دنیا تک پہنچانا ہے۔ پروفیشنل ایجوکیشن کسی آدمی کو صرف جاب دیتی ہے، لیکن علم وحکمت کا حصول آدمی کو اعلیٰ مرتبۂ انسانیت تک پہنچا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صورت یا سیرت

اکثر نوجوان یہ خواب دیکھتے رہتے ہیںکہ ان کو خوب صورت بیوی مل جائے۔ مگر یہ صرف ایک نادانی کی خواہش ہے۔ نام نہاد خوب صورت عورت اکثر پُر مسائل بیوی (problem wife)ثابت ہوتی ہے۔ ایسی عورت کی دل کَشی صرف چند دن کی ہوتی ہے اور اس کے بعد سارا جنون ختم ہوجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نکاح کے معاملے میں آدمی کو اصل اہمیت سیرت کو دینا چاہیے۔ جو عورت سیرت میںاچھی ہو، وہی سب سے اچھی بیوی ہے۔
فرینک فرٹ یونی ورسٹی کے ماہرِ نفسیات ڈاکٹر جان (Dr. John Ockert) نے ایک جائزے میں بتایا کہ— زیادہ خوب صورت لڑکیاں عام طورپر زندگی میں ناکام رہتی ہیں:
Gorgeous women feel beuty is the only asset, and they cannot be ar the ageing. Marilyn Monroe, one of the prettiest woman to emerge from Hollywood, is stated to have wept bitterly when she saw first traces of wrinkles in the mirror.
دل کَش عورتیں سمجھتی ہیں کہ خوب صورتی اُن کا واحدسرمایہ ہے اور بڑھاپے کو وہ برادشت نہیں کرسکتیں۔ میری لین مانرو، جو ہالی وُڈ کی ایک انتہائی خوب صورت عورت تھی، کہا جاتا ہے کہ وہ اُس وقت بُری طرح رونے لگی، جب کہ اُس نے آئینے میں پہلی بار اپنے چہرے پر جھُرّیوں کے نشانات دیکھے۔
جس آدمی کو پُرکشش عورت نہ ملے، وہ زیادہ خوش قسمت ہے۔ کیوں کہ غیر پُرکشش عورت عملی زندگی میں زیادہ بہتر رفیق ثابت ہوتی ہے۔ نکاح کا مقصد ایک نِسوانی کھلونا حاصل کرنا نہیں ہے، بلکہ نکاح کا مقصد یہ ہے کہ آدمی کو ایک کار آمد رفیقۂ حیات مل جائے۔ اور بہتر رفیقۂ حیات وہی ہے جو سیرت کے اعتبار سے بہتر ہو، نہ کہ صرف صورت کے اعتبار سے بہتر۔ یہ تجربہ اتنا عام ہے کہ ہر آدمی اپنے قریب کے لوگوں میں اِس کی مثالیں دیکھ سکتا ہے، بشرطیکہ اس کے اندر چیزوں کو حقیقت پسندانہ انداز سے دیکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔
واپس اوپر جائیں

لَو میریج ناکام کیوں

جدید دور میں جب لو میرج (love marriage) کا طریقہ رائج ہوا تو اکثر عورت اور مرد نے یہ یقین کرلیا کہ اب انھوںنے نکاح کے معاملے میں آخری فارمولا دریافت کرلیا ہے۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہر عورت اور مرد لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادی کرے اور پھر اپنی پسند کے مطابق، اپنے لیے بہترین زندگی کی تعمیر کرے۔لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ لو میریج کا طریقہ پوری طرح ناکام ثابت ہوا۔ آج کل ساری دنیا میں یہ حال ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں لو میریج کے ذریعے اپنی پسند کی شادیاں کرتے ہیں، لیکن سروے کے مطابق، پچاس فی صد سے زیادہ شادیاں ناکام ہوتی ہیں۔ لو میریج نے لوگوں کو خوش گوار ازدواجی زندگی کا تحفہ نہیں دیا۔
لومیریج کی ناکامی کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ لو میریج صرف ایک غیر فطری میریج کا خوب صورت نام ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ایک نوجوان عورت اور ایک نوجوان مرد ایک دوسرے کو دیکھتے ہیںاور ظاہری خوش نُمائی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو پسند کرلیتے ہیں۔ مگر پھر جب دونوں کے درمیان عملی تعلق قائم ہوتا ہے تو اُن پر کھلتا ہے کہ انھوں نے جس چمک دار چیز کو سونا سمجھا تھا، وہ سونا ہی نہ تھا۔
اصل یہ ہے کہ نکاح سے پہلے جو لو اَفئر (love affair) ہوتا ہے، وہ صرف نظر فریبی کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد جب دونوں کے درمیان عملی تعلق ہوتا ہے تو نظر فریبی کا سَراب ختم ہوجاتا ہے اور حقیقی صورتِ حال سامنے آجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبل از نکاح جو چیز غیر معمولی نظر آئی تھی، وہ بعد از نکاح صرف ایک معمولی چیز بن کر رہ جاتی ہے۔ اب مایوسی کا دور شروع ہوتا ہے جو آخر کار طلاق یا کم ازکم دوری تک پہنچ جاتا ہے۔
درست طریقہ صرف یہ ہے کہ لڑکے اور لڑکیاں نکاح کے معاملے کو اپنے والدین پر چھوڑ دیں۔ تاہم والدین کو اِس معاملے میں ایسا کرنا چاہیے کہ وہ اپنی اولاد سے اِس بارے میں رائے لیں، اِس کے بعد ہی وہ کوئی آخری فیصلہ کریں۔
واپس اوپر جائیں

غصے پر کنٹرول کیجیے

عورت اور مرد کے درمیان بگاڑ کا سب سے بڑا سبب غصہ ہوتا ہے۔ کسی معاملے میں ایک کو دوسرے کے اوپر غصہ آجاتا ہے۔ اس کے بعد دونوں میں تکرار ہوتی ہے۔ یہ تکرار آخر کار نفرت میں بدل جاتی ہے، او رپھر یہ نفرت مختلف قسم کی برائیوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ باہمی زندگی میں ننانوے فی صد بگاڑ غصے کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ غصہ ایک فطری جذبہ ہے، غصے کا حل غصے کو کنٹرول کرنا ہے۔ غصہ خود کوئی بُری چیز نہیں، بُری چیز صرف یہ ہے کہ غصے کو کنٹرول نہ کرکے اُس کو مزید برائی تک پہنچنے دیا جائے۔
نفسیاتی اعتبار سے غصہ صرف ایک وقتی اشتعال کا معاملہ ہے۔اشتعال ایک غیر معتدل حالت کا نام ہے۔ یہ ایک ایسی آگ ہے جو وقتی طورپر بھڑکتی ہے اور اس کے بعد بہت جلد وہ بجھ جاتی ہے، بشرطیکہ اس کو مزید بھڑکایا نہ جائے۔ آدمی اگر اِس حقیقت کو جانے تو اُس کا غصہ کبھی کسی مستقل فساد کا سبب نہ بنے۔
غصہ گویا ایک نفسیاتی آگ ہے۔ غصہ اچانک کسی بات پر بھڑک اٹھتا ہے، لیکن نفسیاتی اعتبار سے غصے کی زندگی صرف تھوڑی دیر کے لیے ہوتی ہے۔ غصہ آنے کے وقت اگر آپ چپ رہیں اور اس کا جواب دینے کے بجائے غصے کے مقام سے ہٹ جائیں تو بہت جلد آپ دیکھیں گے کہ آپ کا غصہ اندر ہی اندر ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ اب آپ اُسی طرح ایک نارمل انسان بن گیے ہیں، جیسا کہ آپ غصے سے پہلے ایک نارمل انسان تھے۔
غصے کا فطری اصول یہ ہے کہ وہ کچھ دیر کے لیے بھڑکتا ہے اور پھر اپنے آپ بجھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اگر غصہ کرنے والا فوری طور پر خاموشی اختیار کرلے اور اپنے ذہن کو دوسری طرف موڑ دے تو اس کے بعد ابتدائی محرّک ختم ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ اپنے آپ معمول کی حالت قائم ہوجائے گی۔
اپنے غصے کو چند لمحوں کے لیے تک سنبھالیے، اس کے بعد غصے کوحرکت دینے والا عنصر اپنے آپ کم زور پڑجائے گا اور جلد ہی ایسا ہوگا کہ غصے کی آگ بجھ جائے گی اور اپنے آپ معمول کی حالت قائم ہوجائے گی۔
واپس اوپر جائیں

سختی یا عزم

ایک مغربی سفر میں میری ملاقات ایک مسیحی خاتون سے ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ میرا شوہر سخت (stubborn) ہے۔ مجھے اس کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ میں نے کہا کہ یہ کوئی حقیقی مسئلہ نہیں، یہ صرف سوچ کا مسئلہ ہے۔ آپ اپنی سوچ درست کر لیجیے اور پھر یہ مسئلہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ آپ یہ نہ سوچیے کہ آپ کا شوہر سخت ہے۔ سخت ایک منفی لفظ ہے۔ منفی الفاظ میں آپ کسی بات کو سوچیں تو اس کے بارے میں معتدل انداز میں سوچنا ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے آپ کو اِس بارے میں مثبت الفاظ استعمال کرنا چاہیے، تاکہ آپ جو کچھ سوچیں، وہ مثبت ذہن کے تحت سوچیں، نہ کہ منفی ذہن کے تحت۔
میں نے کہا کہ آپ یہ کہیے کہ آپ کے شوہر کے اندر عزم (determination) کا مادّہ ہے۔ وہ کسی چیز کے بارے میں سوچتے ہیں تو اَٹل انداز میں سوچتے ہیں۔ یہ ایک مردانہ صفت ہے اور وہ بلاشبہہ ایک اچھی صفت ہے۔ اگر یہ صفت نہ ہو تو آدمی ہمت کے ساتھ زندگی کے چیلنج کا سامنا نہیں کرسکتا۔ اور جو آدمی چیلنج کا سامنا نہ کرسکے، وہ کبھی زندگی میں کامیاب بھی نہیں ہوسکتا۔
مذکورہ خاتون کئی زبان جانتی تھیں اور وہ پروفیشن کے اعتبار سے ترجمان (interpreter) تھیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا پروفیشن چیلنجنگ پروفیشن نہیں ہے۔ اِس پروفیشن میں نرم ہونا ایک اچھی بات ہے۔ آپ کا نرمی کا مزاج آپ کے پروفیشن کے عین مطابق ہے، مگر آپ کے شوہر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں مینیجر ہیں۔اس کام میں ان کو ہر وقت چیلنج کا سامنا رہتا ہے۔ خدا نے آپ کو نرم بنایا، تاکہ آپ اپنے پروفیشن کو کامیابی کے ساتھ کرسکیں۔ اِس کے برعکس، خدا نے آپ کے شوہر کو سختی کا مزاج دیا جو کہ اُن کے پروفیشن کے اعتبار سے ضروری تھا۔ آپ کو چاہیے کہ اِس تقسیم پر آپ شکر کریں، نہ کہ شکایت۔
معاملات میں مثبت رخ پر سوچنا آدمی کو مثبت نتیجے تک پہنچاتا ہے، اور منفی رخ پر سوچنا اُس کو منفی نتیجے تک پہنچاتا ہے۔اِس اصول کا تعلق جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات سے ہے، اِسی طرح اس کا تعلق ازدواجی زندگی سے بھی ہے۔ اِس اصول کو جاننا بلا شبہہ اِس دنیا میں کامیاب زندگی کی کلید ہے۔
واپس اوپر جائیں

چھوٹی بات کو بڑی بات نہ بنائیے

زوجین کے درمیان جو جھگڑے ہوتے ہیں، وہ اکثر چھوٹی باتوں پر ہوتے ہیں۔ کسی چھوٹی بات کو لے کر اختلاف شروع ہوتا ہے اور وہ اختلاف بڑھتے بڑھتے بڑا بن جاتا ہے۔زوجین وہ عورت اور مرد ہیںجو رات اور دن ایک ساتھ رہتے ہیں۔ یہی چیز نزاع کا اصل سبب ہے۔ یہی دونوں عورت اورمرد اگر اتفاقاً کچھ دیر کے لیے ملیں، مثلاً کسی سفر میں یا کسی سیمنار میں تو اُن کے درمیان کبھی مذکورہ قسم کا جھگڑا پیدا نہیں ہوگا۔جھگڑا ہمیشہ ایک معتدل چیز پر غیر معتدل ردّ عمل کا نتیجہ ہوتا ہے۔
زوجین اگر اِس حقیقت کو جان لیںتو اِس کے بعد اُن کے درمیان کبھی کوئی اختلاف شدید نوعیت اختیار نہ کرے۔ اِس حقیقت سے بے خبری کی بنا پر ایساہوتا ہے کہ دونوں پیش آئے ہوئے اختلاف کو حقیقی اختلاف سمجھ لیتے ہیں، حالاں کہ وہ صرف ایک اِضافی نوعیت کا اختلاف ہوتا ہے۔
ہرعورت اور مرد کا مزاج فطری طورپر ایک دوسرے مختلف ہوتاہے۔ یہ مزاجی اختلاف ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ وقتی ملاقاتوں میں وہ کبھی مسئلہ نہیںبنتا، لیکن جب ایک عورت اور ایک مرد مستقل طورپر ایک ساتھ رہنے لگیں تو یہ اختلافات بار بار ظاہر ہوتے ہیں اور پھر دھیرے دھیرے وہ شدید نوعیت اختیار کرلیتے ہیں۔ عورت اور مرد اگر اِس بات کو جانیں کہ یہ ایک نفسیاتی نوعیت کا مسئلہ ہے، نہ کہ حقیقی نوعیت کا مسئلہ تو وہ فوراً اُس کو نظر انداز کردیں، جس طرح وہ وقتی ملاقاتوںمیںایسی چیزوں کو نظر انداز کردیتے ہیں۔
اِسی بے خبری کی بنا پر ہر عورت اور مرد کی زندگی ایک متضاد رویّے کا شکار رہتی ہے۔ وہ اپنے گھر کے اندر لڑتے جھگڑتے ہیں، لیکن یہی لوگ جب گھر کے باہر کی دنیا میں آتے ہیں توان کا رویّہ لوگوں کے ساتھ بالکل معتدل ہوجاتا ہے۔ زوجین کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اِس متضاد رویّے سے بچائیں۔ اِس کے بعد ان کی گھر کی زندگی بھی اُسی طرح معتدل بن جائے گی، جس طرح ان کی باہر کی زندگی معتدل بنی ہوئی ہے۔زندگی کے اکثر مسائل صرف بے شعوری کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ اپنے آپ کو باشعور بنائیے، اورپھر آپ خود بخود غیر ضروری مسائل سے بچ جائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

عدم مداخلت کی پالیسی

میں نے ایک تعلیم یافتہ شخص سے پوچھا کہ آپ کی ازدواجی زندگی کیسی ہے، خوش گوار یا ناخوش گوار۔ انھوںنے کہا کہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری ازدواجی زندگی پوری طرح ایک خوش گوار زندگی ہے۔ میرے گھر میںمعتدل ماحول رہتا ہے۔ ہم دونوں کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ اِس خوش گوار زندگی کے لیے آپ کا فارمولا کیا ہے۔ انھوںنے کہا کہ ہمارا فارمولا، ایک لفظ میں، عدم مداخلت(non-interference) ہے۔ یعنی ہم نے اپنے یہاںتقسم کار کے اصول کو اپنا لیا ہے۔ نہ میں بیوی کے معاملے میں دخل دیتا ہوں اور نہ بیوی میرے معاملے میں دخل دیتی ہیں۔
میں نے کہا کہ ازدواجی زندگی کو خوش بنانے کے لیے یہ بلا شبہہ ایک بہترین اصول ہے۔ کیوں کہ خالق نے ہر عورت اور مرد کو الگ الگ مزاج کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ہر مرد مسٹر ڈفرنٹ ہے اور ہر عورت مِس ڈفرنٹ۔ایسی حالت میں ازدواجی تعلق گویا دو ڈفرنٹ افراد کے درمیان تعلق کا نام ہے۔ یہ فرق چوں کہ خالق کا پیدا کیا ہوا ہے، اِس لیے ہم اس کو بدلنے پر قادر نہیں۔ ہم کو چاہیے کہ ہم اِس فرق کو بدلنے کی ناکام کوشش نہ کریں، بلکہ فرق کے ساتھ نِباہ کرنے کی کوشش کریں۔ اِس اصول کو ایک لفظ میں آرٹ آف ڈفرنس مینج منٹ (art of difference management) کہاجاسکتا ہے۔
پھر یہ فرق کوئی برائی نہیں۔ اِس فرق کے اندر ایک عظیم فائدہ چھپا ہوا ہے۔ فرق کا مطلب صرف فرق نہیں، بلکہ اس کا مطلب دو مختلف صلاحیتیں ہیں۔ اگر عورت اور مرد دونوں میں ہر اعتبار سے یکسانیت پائی جائے تو وہ کوئی اچھی بات نہ ہوگی۔ یکسانیت نہ ہونا، ذہنی ترقی کا راز ہے۔ اِسی لیے کہاگیا ہے کہ — جب تمام لوگ یکساں طورپر سوچیں تو کوئی بھی زیادہ نہیں سوچتا:
When everyone thinks alike, no one thinks very much.
مشترک زندگی کے لیے عدم مداخلت کی پالیسی بہترین پالیسی ہے۔ یہ پالیسی گھر کے باہر کی زندگی کے لیے بھی بہترین ہے اور گھر کے اندر کی زندگی کے لیے بھی بہترین۔
واپس اوپر جائیں

ایک دانش مند خاتون

مہاراشٹر کے ایک خاندان کا واقعہ میرے علم میںآیا۔ ایک لڑکی کی شادی اُس کی اپنی پسند کے مطابق، ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئی۔ دونوں ایک ساتھ رہنے لگے۔ اُن کے یہاں ایک لڑکا بھی پیدا ہوا، لیکن جلد ہی دونوں میںاختلافات شروع ہوگیے۔ بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچی کہ لڑکی اپنے شوہر سے خفا ہو کر اپنے میکے میں اپنی ماں کے پاس چلی گئی۔ اور ماں سے اپنے شوہر کے خلاف شکایتی باتیں بتانے لگی۔ ماںنے سننے کے بعد کہا کہ —شادی دوبار نہیں کی جاتی۔ یا تو تم اپنے شوہر سے نباہ کرو یا زہر کھا کر مرجاؤ۔
لڑکی کے لیے اپنی ماں کا یہ جواب اُس کی امیدوں کے سراسر خلاف تھا۔ اِس جواب کو سن کر وہ رونے لگی اور چند دن تک وہاں اِسی حال میں رہی۔ اس کی ماں نے کہا کہ —تم چاہے روؤ یا چلاّؤ، میں نے اپنا جواب تم کو بتا دیا۔ میرا جواب بدلنے والا نہیں۔
ماں کا جواب لڑکی کے لیے ایک دھماکے سے کم نہ تھا، لیکن اِس دھماکہ خیز جواب نے لڑکی کے اندر نئی سوچ پیدا کردی۔ اِسی دوران لڑکی کو راقم الحروف کی کتاب ’’رازِ حیات‘‘ (صفحات: 292) مل گئی۔ اس کو اس نے پڑھا۔ کتاب کو پڑھنے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ اس کی ماں نے جو کچھ کہا تھا، وہی اِس معاملے میں صحیح بات ہے۔ مجھے اپنے شوہر کے ساتھ مل جُل کر رہنا ہے۔ اب میرے لیے اس کے سوا کوئی اور انتخاب (option) نہیںہے۔
اِس طرح وہ لڑکی چند دن سوچتی رہی۔ آخر کار اس نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنے شوہر کے پاس واپس چلا جانا چاہیے۔ چناں چہ وہ کسی شرط کے بغیر اپنے شوہر کے پاس چلی گئی اور وہاں رہنے لگی۔ میںنے خود اپنے ایک سفر کے دوران دیکھا ہے کہ دونوں میاں اور بیوی خوشی سے ایک ساتھ رہ رہے ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے کامیاب رفیقِ حیات بنے ہوئے ہیں— اختلاف کا معاملہ ربر کی مانند ہے۔ آپ چاہیں تو اس کوکھینچ کر بڑھادیں اور چاہیں تو اس کو نہ بڑھائیں اور اس کو اپنی فطری حالت پر رہنے دیں۔
واپس اوپر جائیں

میکے کے تصور میں جینا

مشرقی خواتین میںایک مزاج بہت عام ہے۔ نکاح کے بعد وہ اپنی سُسرال آجاتی ہیں، لیکن نفسیاتی اعتبار سے بدستور وہ اپنے میکے میں جیتی رہتی ہیں۔ جسمانی اعتبار سے وہ سسرال میں ہوتی ہیں، لیکن ذہنی اعتبار سے وہ بدستور اپنے میکے کی یادوں میں گُم رہتی ہیں۔ خواتین کا یہ مزاج ایک غیر حقیقی مزاج ہے۔ اِس غیر حقیقی مزاج کی بھاری قیمت اُن کو یہ دینی پڑتی ہے کہ وہ اپنی سسرال میں غیر ضروری طورپر پریشان رہیں، ان کو کبھی سکون کی زندگی حاصل نہ ہو۔
خواتین کے اندر اِس غیر حقیقی مزاج کی اصل ذمے داری اُن کے والدین پر ہے۔ والدین اپنی نام نہاد محبت کی بنا پر ایسی باتیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی بیٹی کو نئی زندگی کا شعور حاصل نہیں ہوتا۔ والدین اپنی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ محبت کے نام پر کرتے ہیں، لیکن انجام کے اعتبار سے وہ دشمنی ہوتا ہے۔ والدین تو کچھ دنوں کے بعد اس دنیا سے چلے جاتے ہیں، لیکن اپنی بیٹی کو وہ ہمیشہ کے لیے ایک غیر حقیقی مسئلے میں مبتلا کرکے چھوڑ جاتے ہیں۔
مجھے ایک باپ کا حال معلوم ہے۔ نکاح کے بعد جب انھوںنے اپنی بیٹی کو رخصت کیا تو انھوںنے اپنی بیٹی سے کہہ دیا کہ —جہاں تم جارہی ہو، وہی اب تمھارا گھر ہے۔ وہیں کے ماں باپ، تمھارے ماں باپ ہیں۔ ہم تمھارے لیے دعا کرتے رہیں گے، لیکن اِس حقیقت کو سمجھ لو کہ اب تمھارا گھر بھی بدل چکا ہے اور تمھارے ماں باپ بھی۔ بیٹی کے لیے اپنے والد کی یہ نصیحت بہت مفید ثابت ہوئی۔ سسرال پہنچتے ہی انھوں نے سسرال کو اپنا گھر بنا لیا۔ اِس کے بعد اُن کو زندگی کی وہ تمام خوشیاں اپنی سسرال میں مل گئیں جو اُنھیں اس سے پہلے اپنے میکے میں حاصل تھیں۔
زندگی میں کامیابی کا راز حقیقت پسندی ہے۔ اِسی طرح زندگی کے تمام مسائل کا سبب غیرحقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ جوعورت یا مرد اِس راز کو سمجھ لیں، وہ یقینی طورپر اپنی زندگی کو خوش گوار بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

غیر فطری تمنّا

مشہور ہندستانی سِنگر محمد رفیع (وفات: 1980 ) کا ایک گانا اتنامقبول ہوا کہ وہ ہر ماں باپ کے دل کی دھڑکن بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ محمد رفیع نے جب اِس کو گایاتو وہ شدتِ تاثّر سے روپڑے۔ اِس گانے میں باپ اپنی بیٹی کو رخصت کرتے ہوئے کچھ اشعار کہتا ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے:
بابُل کی دعائیں لیتی جا جا، تجھ کو ُ سکھی سنسار ملے
میکے کی کبھی نہ یاد آئے سسرال میں اتنا پیار ملے
یہ بات فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی لڑکے یا لڑکی کو اِس طرح ’’سکھ اور پیار‘‘ نہیںمل سکتا۔ ایسی حالت میں مذکورہ قسم کے سُکھ اور پیار کو زوجین کے لیے کامیاب زندگی کا معیار بتانا، زوجین کے ساتھ نا انصافی ہے۔ کیوںکہ اس کے نتیجے میں دونوں کے اندر غیرحقیقت پسندانہ ذہن بنتا ہے۔ اور غیر حقیقت پسندانہ ذہن کے ساتھ اِس دنیا میں کامیاب اِزدواجی زندگی گزارنا کسی کے لیے ممکن نہیں۔
اِس غیر فطری معیار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ والدین اور ان کی بیٹی دونوں ہمیشہ اِس احساس میں جیتے ہیںکہ ان کی لڑکی کی شادی غلط ہوگئی۔ دونوں اسی منفی احساس میںجیتے ہیں اور اِسی منفی احساس میں مرجاتے ہیں۔ اگرلوگ زندگی کی حقیقت کو جانیں تو والدین اپنی بیٹی کے بارے میں غیر فطری تمنا کرنے کے بجائے، اُس کو نیے دورِ حیات کے لیے تیار کریں اور خود لڑکی جب نیے حالات میں پہنچے تو وہ اس کو مثبت ذہن کے ساتھ لے۔ وہ نیے حالات کو اپنے لیے فطرت کا ایک چیلنج سمجھے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرکے نیے حالات میںاپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر کرلے۔
زندگی ایک چیلنج ہے، عورت کے لیے بھی اور مرد کے لیے بھی۔ جو لوگ اِس حقیقت کو جانیں، وہ چیلنج کو ترقی کا ایک زینہ سمجھیں گے اور اُس پر چڑھتے ہوئے اعلیٰ مراتبِ حیات تک پہنچ جائیں گے۔ سُکھ مادّی راحت کا نام نہیں۔ سکھ یہ ہے کہ آدمی اپنے حالات سے مطابقت کا راز جان لے۔
واپس اوپر جائیں

میکے اور سُسرال کا فرق

ایک لڑکی جب اپنی میکے میں ہوتی ہے تو وہ اُن لوگوں کے درمیان ہوتی ہے جن سے اس کا خونی تعلق ہے۔ اِس خونی تعلق کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ میکے میں اس کو یک طرفہ محبت کے ماحول میں جینا ہوتا ہے۔ میکے میں لڑکی کے لیے یہ ماحول ہوتا ہے کہ — تم کچھ نہ کرو تب بھی تم کو ہر چیز ملتی رہے گی۔
سسرال کا معاملہ اِس سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ سسرال میں لڑکی کو غیر خونی رشتے داروں کے درمیان رہناپڑتا ہے۔ میکے کا کلچر اگر دیے بغیر پانے کے اصول پر قائم تھا تو سسرال کا کلچر یہ ہوتا ہے کہ دوگے تو پاؤے گے، اگر نہیں دیا تو تم کو بھی کچھ ملنے والا نہیں۔
لڑکیاں عام طورپر میکے اور سسرال کے اِس فرق کو نہیں سمجھتیں۔ چناںچہ وہ ہمیشہ ایک غیرحقیقی احساس میں جیتی رہتی ہیں— میکے کو اچھا سمجھنا اور سسرال کو اُس کے مقابلے میں بُرا سمجھنا۔ یہ مزاج خواتین میں عام ہے۔ اِس کا نقصان سب سے زیادہ خود خواتین کو بھگتنا پڑتا ہے۔ اپنے اِس غیرحقیقی مزاج کی بنا پر وہ اپنے شوہر سے اور اپنے سسرال والوں سے گہرا تعلق قائم نہیں کر پاتیں۔
خالق نے ہر عورت اور مرد کو مخصوص صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اِس دنیا میں ہرعورت اور مرد کے لیے کوئی بڑا رول مقدر ہے۔ اِس رول کے لیے ضروری ہے کہ عورت اپنے نیے رشتے داروں کے ساتھ بھر پور تعلق قائم کرکے رہے۔ مگراکثر عورتیں اپنے سسرال والوں کے ساتھ یہ تعلق قائم نہیں کر پاتیں اور نتیجۃً وہ رول ادا نہیں کر پاتیں جو اُن کے خالق نے اُن کے لیے مقدر کیا تھا۔
اِس دنیا میں کسی بڑے رول کے لیے اجتماعی کوشش ضروری ہے۔ گھر اِسی قسم کا ایک اجتماعی ادارہ ہے۔ ہر گھر اپنی اجتماعی کوشش سے ایک بڑا کام کرسکتا ہے، لیکن یہ بڑا کام اُسی گھر کے لوگ انجام دیں گے جو اپنے گھر کو حقیقی معنوں میں ایک اجتماعی ادارہ بنادیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کسی عورت کے لیے اس کی سسرال بھی اُسی طرح اس کا اپنا گھر ہے جس طرح اس کا میکہ اس کے لیے اس کا اپنا گھر تھا۔
واپس اوپر جائیں

ایک مشاہدہ

امریکا کے ایک سفر میں مجھے ایک امریکی مسلمان کے گھر میں چند دن قیام کا موقع ملا۔ مذکورہ مسلمان کا نکاح ایک ایسی خاتون سے ہوا جو پاکستان میں پیدا ہوئیں، ان کی پوری پرورش پاکستان میں ہوئی۔ شادی کے بعد وہ امریکا چلی آئیں اور وہاں اپنے شوہر کے ساتھ رہنے لگیں۔
ایک دن ایسا ہوا کہ مرد اپنے جاب پر باہر چلے گیے۔ اُس وقت خاتون مجھ سے ملنے کے لیے آئیں۔ بظاہر وہ مجھ سے نصیحت لینا چاہتی تھیں، لیکن میرے کمرے میں آتے ہی وہ رونے لگیں۔ وہ کچھ بول نہ سکیں اور اِسی حال میں واپس چلی گئیں۔ اگلے دن انھوں نے بتایا کہ میرے شوہر مجھ سے خوش نہیں رہتے۔ میں سوچتی ہوں کہ میں یہاں سے واپس ہوکر اپنے ماں باپ کے پاس چلی جاؤں۔
میں نے اِس مسئلے پر کافی غور کیا اور پورے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ آخر کار میںنے دریافت کیا کہ اِس معاملے کا اصل سبب عورت کے ماں باپ کی نادانی ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ خاتون کے ماں باپ نے پاکستان میںاُن کو لاڈ پیار کے ساتھ رکھا، انھیں کبھی گھر کا کام کرنے نہیں دیا۔ گھر کا کام کرنا یا گھر سنبھالنا، اِس کی کوئی تربیت ان کو اپنے میکے میں نہیں ملی۔ اِس کے بعد یہ ہوا کہ ان کے والدین نے ان کا نکاح امریکا میں مقیم ایک مسلمان کے ساتھ کردیا۔ اِس مسلمان میںاخلاقی اعتبار سے کوئی برائی نہ تھی، لیکن ایک عملی پہلو اُن کی زندگی میں ناخوش گواری کا سبب بن گیا۔
انڈیا اور پاکستان میںگھر کے کام کے لیے آسانی کے ساتھ ملازم مل جاتے ہیں۔ اِس لیے یہاں کے والدین ایسا کرسکتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کا سارا کام ملازم سے کروائیں اور اپنی بیٹی کو کوئی کام نہ کرنے دیں، لیکن امریکا کی زندگی اِس سے بالکل مختلف ہے۔ امریکا میں گھریلو ملازم نہیں ملتے، چناں چہ یہاں کی خواتین کو گھر کا تمام کام خود کرنا پڑتا ہے۔ دونوں ملک کا یہی فرق مذکورہ خاتون کے لیے مسئلہ بن گیا۔ ان کے ماں باپ نے اُن کو گھر کا کام کرنے کا عادی نہیں بنایا تھا، جب کہ امریکا میں وہ مجبور تھیں کہ گھر کا سارا کام خود کریں۔ والدین کی اِسی نادانی نے مذکورہ خاتون کی زندگی کو اُن کے لیے ایک مصیبت بنا دیا۔
واپس اوپر جائیں

ماؤں کا غلط رول

ماں کو اپنی اولاد سے گہرا جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ اولاد کے معاملے میں ماں کے جذبات اس کی عقل پر چھا جاتے ہیں۔ اولاد کے معاملے میں وہ اپنی عقل پر نہیں چلتی، بلکہ جذبات کے تحت چلتی رہتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ کوشش یہ ہوجاتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر خواہش کو پورا کرتی رہے۔ حالاں کہ ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کے لیے اس کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کامیاب انسان بنانے کی کوشش کرے۔ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے۔ پیدائش کے اعتبار سے ہر بچہ مسٹرنیچر ہوتا ہے، لیکن بعد کی کنڈیشننگ کے نتیجے میں ہر بچہ اپنی حقیقی فطرت سے دور چلا جاتا ہے۔یہی مقام ہے جہاں ماں کو اپنا تعمیری رول ادا کرنا ہے۔ اس کو بچے کی خواہشوں کو پورا کرنے کا ذریعہ نہیں بنناہے، بلکہ اپنے بچے کو ہر قسم کے انحراف سے بچا کر اس کی حقیقی فطرت پر اس کو قائم رکھنا ہے۔
مائیں اپنی بڑھی ہوئی محبت کی بنا پر یہ چاہتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ہر خواہش کو پورا کریں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچہ اِس مزاج کے ساتھ جوان ہوتاہے کہ اس کی ہر خواہش کو پورا ہونا چاہیے۔ اس کے بعد جب یہ نوجوان باہر کی دنیا میں آتا ہے تو وہ یہاں برعکس تجربہ کرتا ہے۔ اِس تضاد کا نتیجہ نہایت بری شکل میں نکلتا ہے۔ اس قسم کے نوجوان، شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ان کے گھر کے لوگ بہت اچھے تھے اور باہر کے تمام لوگ نہایت بُرے لوگ ہیں۔گھر کی زندگی اور باہر کی زندگی کا یہی فرق وہ سب سے بڑا سبب ہے جس نے آج تمام انسانوں کو منفی سوچ والا انسان بنادیا ہے۔ آج ہرانسان دوسروں سے کھلی یا چھپی نفرت کرتا ہے۔ اس صورت حال کی سب سے زیادہ ذمّے داری ان عورتوں کے اوپر ہے جو ماں کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے میں ناکام ہورہی ہیں۔خالق نے ہر ماں کے دل میں اپنی اولاد کے لیے بے پناہ محبت رکھ دی ہے۔ یہ محبت اس لیے تھی تاکہ مائیں ہر مشکل کا سامنا کرتے ہوئے اپنی اولاد کی صالح تربیت کریں، لیکن ماؤں نے اپنی اِس فطری محبت کو صرف لاڈ پیار تک محدود کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری انسانیت بگڑے ہوئے انسانوں کا جنگل بن گئی۔
واپس اوپر جائیں

لاڈ پیار کا نقصان

لڑکی کے والدین کی سوچ عام طورپر یہ ہوتی ہے کہ اُن کی لڑکی جب سسرال جائے گی تووہاں اس کو گھر کے سب کام کرنے پڑیں گے، اِس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنے یہاںوہ اپنی لڑکی سے کوئی کام نہ کرائیں۔ حالاں کہ جو لڑکی اپنے میکے میں کام نہ سیکھے یا کام کی عادی نہ بنے، وہ سُسرال پہنچتے ہی اچانک ایسی نہیں ہوجائے گی کہ وہ زور دار طورپر سارے کام کرنے لگے۔ والدین کا یہ طریقہ ایک جھوٹا لاڈ پیارہے، وہ سچی محبت کا طریقہ نہیں۔
میںنے ایسے والدین دیکھے ہیں جو بچی کے پیدا ہوتے ہی اُس کے لیے جہیز کاسامان تیار کرنے لگتے ہیں، مگریہ صرف ایک نادانی ہے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ کبھی کوئی جہیز لڑکی کی زندگی میںاس کے کام نہیں آتا۔ ہرجہیز صرف ایک وقتی نمائش ہے، وہ کسی بھی درجے میں لڑکی کی زندگی کی تعمیر کا کوئی ذریعہ نہیں۔تعمیر کا تعلق تیاری سے ہے، نہ کہ نمائش سے۔
والدین کااصل کام جہیز کی تیاری نہیں ، بلکہ اُن کا اصل کام یہ ہے کہ وہ خود لڑکی کو تیار کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو اعلیٰ تعلیم دلائیں۔ وہ اپنی لڑکی کی اچھی تربیت کریں۔ وہ اپنی لڑکی کو عملی زندگی کے آداب سکھائیں۔ وہ اپنی لڑکی کے اندر وہ دانش مندانہ مزاج پیدا کریں جو اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے۔
لاڈ پیار(pampering) ایک پورے کلچر کا نام ہے۔ اُس کا اظہار ہر معاملے میں ہوتا ہے۔ مثلاً بچے کی ہر خواہش پوری کرنا، بچے کی ہر غلطی کو یہ کہہ کر ٹال دیناکہ ابھی بچہ ہے، بڑاہونے پر ٹھیک ہوجائے گا۔ اپنی اولاد کو معصوم سمجھنا اور ہر معاملے میں دوسروں کو ذمے دار ٹھیرانا۔ کھانے پینے کے معاملے میں بچے کی ہر مانگ پوری کرنا، خواہ اس کی صحت خراب ہوجائے۔ بچے کو کوئی کام نہ کرنے دینا۔ اپنے بچے کو ہمیشہ اچھا سمجھنا اور دوسروں کو غلط بتانا۔ اپنے بچے کو آرام کا عادی بنانا۔ اپنی اولاد کو زندگی کی جدوجہد سے دور رکھنا۔ جھوٹی محبت کی بنا پر بچوں کے لیے ہر فیشن کی چیز فراہم کرنا۔ ان کو بچپن ہی سے فیشن کا عادی بنانا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ماں باپ کا رول

میرے تجربے کے مطابق، شادی کے ناکام ہونے کا سب سے بڑا سبب لڑکی کے ماں باپ کا غلط رول ہے۔ میںنے پایا ہے کہ ماں باپ شادی کے وقت تو خوب دھوم مچاتے ہیں۔ وہ اپنی استطاعت سے زیادہ پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ فضول خرچی کا وہ کام کرتے ہیں جس کو قرآن میں شیطانی کام بتایا گیا ہے (الإسراء: 27 )۔ لیکن لڑکی کے ماں باپ کے لیے اِس سے زیادہ ضروری ایک اورکام ہے، اس کو وہ بالکل انجام نہیں دیتے۔ اور وہ ہے لڑکی کو اِس اعتبار سے تیار کرنا کہ وہ شادی کے بعد خوش گوار زندگی گزار سکے۔ تقریباً تمام ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کے ساتھ لاڈ پیار تو خوب کرتے ہیں، لیکن وہ حقیقی محبت کے معاملے میں ناکام رہتے ہیں۔
ماں باپ کو یہ جاننا چاہیے کہ وہ اپنی لڑکی کو ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنے خاندان سے باہر کے ایک مرد سے اس کا نکاح کریں گے اور اس کے ساتھ رہنے کے لیے لڑکی کو بھیج دیں گے۔ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جس ماحول میں لڑکی رہتی ہے، وہ اُس سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو بعد کو شوہر کے ساتھ رہنے کی صورت میں اُسے پیش آتا ہے۔ یہ بھی ایک واضح بات ہے کہ لڑکی کا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا عارضی ہوتا ہے اور شوہر کے ساتھ مستقل۔ ایسی حالت میں ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی لڑکی کووہ آداب سکھائیں جو اُس کے لیے بعد کی زندگی میںکام آنے والے ہیں۔ وہ اُس کو تربیت دے کر شوہر کی رفیقِ حیات بنائیں، نہ کہ محض والدین کی نورِ نظر۔
میرا تجربہ ہے کہ ننانوے فی صد سے زیادہ ماں باپ اِس معاملے میںاپنی ذمے داری کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ اُن کی اِس کوتاہی کی سزا اُن کی لڑکی کو ساری عمر اپنی بعد کی زندگی میںبھگتنی پڑتی ہے۔ مثلاً عورت اپنی غیر حقیقی تربیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے میکے کو اپنا گھر سمجھتی رہتی ہے، حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ وہ شادی کے بعد اپنی سُسرال کو اپنا گھر سمجھے۔ اِسی طرح والدین شادی کے بعد بھی اپنی لڑکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور غیر ضروری مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ والدین کا یہ رویّہ محبت کے نام پر دشمنی ہے۔ وہ صرف نادان دوستی ہے اور نادان دوستی ہمیشہ اُلٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک واقعہ

ایک روز انڈیا کے ایک شہر سے میرے پاس ٹیلی فون آیا۔ ایک مسلم خاتون ٹیلی فون پر بول رہی تھیں۔ انھوںنے کہا کہ میری بہن اور ان کے شوہر کے درمیان شادی کے بعد اختلافات پیدا ہوگیے جو حل نہ ہوسکے۔ اب آخری طورپر یہ طے کیاگیا ہے کہ دونوں کے درمیان طلاق کرادی جائے۔ آج شام کو طلاق نامے پر دستخط ہونے والے ہیں۔ آپ دعا کیجیے کہ طلاق کے بعد میری بہن کی زندگی خوش گوار رہے۔
میںنے کہا کہ آپ اپنی بہن سے کہیے کہ وہ مجھ سے بات کریں۔ اِ س کے بعد اُن کی بہن سے ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ میںنے پوچھا کہ آپ کے اور آپ کے شوہر کے درمیان کیا اختلافات ہیں۔ انھوںنے کچھ باتیں بتائیں۔ میںنے کہا کہ آپ جو کچھ بتارہی ہیں، وہ کوئی اہم بات نہیں۔ وہ اختلاف کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ یہ آپ کی بڑھی ہوئی حساسیت کا مسئلہ ہے۔ بعض چیزوں کے بارے میں آپ غیر ضروری طورپر حساس ہوگئی ہیں۔ آپ اپنی اس حساسیت پر کنٹرول کیجیے۔ آپ یہ ذہن ختم کردیجیے کہ —’’میں ہی کیوں اُن کی بات مانوں، ان کو بھی میری بات ماننا چاہیے‘‘۔
میںنے کچھ واقعات بتاتے ہوئے اُن سے کہا کہ زندگی دو طرفہ (bilateral) بنیاد پر نہیں چلتی، بلکہ زندگی ہمیشہ یک طرفہ (unilateral) بنیاد پر چلتی ہے۔ آپ اس معاملے میں کوئی استثنا نہیں ہیں۔ اِسی اصول کو قرآن میںقوّامیت(النّساء: 34 ) سے تعبیر کیاگیا ہے۔ یعنی جس طرح ہر کمپنی میں اور ہر اجتماعی ادارے میں ایک ناظم یا باس (boss) ہوتا ہے،اِسی طرح گھر کے اندر بھی ایک فرد کو ناظم، یا باس (boss) کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک فطری اصول ہے۔ اس کا تعلق صِنفی برابری یا صنفی نا برابری سے نہیں۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو گھر کے اندر نظم قائم نہ ہوسکے گا۔ اور نظم کے بغیر کسی ادارے میں ترقی ممکن نہیں۔
مذکورہ خاتون نے میری بات مان لی اور باہم مل کر رہنے کا فیصلہ کیا۔انھوں نے طلاق کے مطالبے کو واپس لیتے ہوئے اپنے شوہر سے کہہ دیا کہ— میں آپ کو اپنا باس مانتی ہوں اور کسی شرط کے بغیر آپ کے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہوں۔ اِس کا نتیجہ مثبت شکل میں نکلا۔ اب وہ دونوں اپنے گھر میں خوش گوار زندگی گزار رہے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

برابری میںنکاح

عام طورپر سمجھا جاتا ہے کہ نکاح ہمیشہ کُفو میںہونا چاہیے، غیر کفو میں نہیں۔یعنی برابری کے رشتوں میں نکاح ہو تو دونوں کے درمیان آسانی کے ساتھ نباہ ہوگا، اور اگر دونوں میں معاشی اور خاندانی اعتبار ے نابرابری ہو تو شوہر اور بیوی دونوں ہمیشہ پریشان رہیں گے۔مگر یہ صرف ایک مفروضہ ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے دیکھاگیا ہے کہ نام نہاد کفو کے درمیان شادی بھی اتنا ہی مسائل کا شکار رہتی ہے جتنا کہ نام نہاد غیر کفو کے درمیان شادی۔ اصل یہ ہے کہ کامیاب شادی کا تعلق کفو یا غیرکفو سے نہیں ہے، بلکہ اس کا تعلق اِس بات سے ہے کہ طرفین شادی شدہ زندگی کو گزارنے کا آرٹ جانتے ہوں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ زوجین میں سے ایک نے اگر مشرقی تعلیم پائی ہے اور دوسرے کو اگر مغربی تعلیم ملی ہو، یا ایک امیر فیملی کا ہو اور دوسرا غریب فیملی کا، یا ایک گاؤں کا ہو اوردوسرا شہر کا، ایک اسمارٹ ہو اور دوسرا غیر اسمارٹ، ایک سفید فام ہو اور دوسرا سیاہ فام، ایک کی عمر زیادہ ہو اور دوسرے کی عمر کم، وغیرہ۔زوجین کے درمیان اگر اس قسم کا فرق پایا جائے تو یہ نابرابری کی شادی ہے اور ایسی شادی کا ناکام ہونا مقدر ہے۔
مگر یہ ایک غلط مفروضہ ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ گھر کی حیثیت ایک مکمل ادارہ (institute) کی ہے۔ عام ادارے کی طرح، گھر کے ادارے کے بھی مختلف شعبے ہوتے ہیں۔ مذکورہ نابرابری کو مینج (manage) کرنے کا نہایت آسان طریقہ یہ ہے کہ عورت اور مرد دونوں تقسیم کار کے اصول کو اپنا لیں۔ ہر ایک اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ایک شعبے کو لے لے اور اس کو اپنی صلاحیت کے مطابق، آزادانہ طورپر چلائے۔
تقسیم کار کے اِس اصول کی کامیابی کی شرط صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ دونوں فریق یہ بات طے کرلیں کہ انھیں اپنے آپ کو صرف اپنے شعبے تک محدود رکھنا ہے، کسی ایک کو دوسرے کے شعبے میں مداخلت نہیں کرنا ہے۔ نابرابری کے نکاح کا حل تقسیم کار ہے۔ اس کے سوا کوئی اور فارمولا اِس مسئلے کا حل نہیں۔
واپس اوپر جائیں

Monday 1 October 2007

Al Risala | October 2007(الرسالہ،اکتوبر)

2

- پیغمبر ِ انقلاب

5

- دین اور منہاج

12

- نسخ کیا ہے

16

- اسلام کی سیاسی تعبیر کا فتنہ

24

- جامع تصور یا تخریبی تصور

27

- نظریاتی تشدّد

28

- جہادکیا ہے

30

- عقیدہ اور سیاست

32

- سیکولرازم کیا ہے

34

- فتویٰ کا غلط استعمال

37

- بدلتی ہوئی دنیا میں مسلمانوں کا لائحۂ عمل

42

- نشانیوں سے سبق نہ لینا

44

- مسلم مسلک کیا ہے


پیغمبر ِ انقلاب

قرآن میں پچیس پیغمبروں کا ذِکر ہے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک ہر زمانے میں جاری رہا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔ قرآن کے مطابق، آپ خدا کے رسول بھی تھے اور نبیوں کے خاتم بھی۔
پیغمبروں کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ تمام پیغمبر مشترک طورپر توحید کا پیغام لے کر آئے ، لیکن پچھلے پیغمبروں کے زمانے میں یہ پیغام زیادہ تر فکری مرحلے میں رہا، وہ عملی انقلاب کے درجے تک نہیں پہنچا۔ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ آپ کو اپنے اصحاب کی صورت میں ایک مضبوط ٹیم مل گئی۔ اِس طرح یہ ممکن ہوگیا کہ توحید کی دعوت کو فکری مرحلے سے آگے بڑھا کر عملی انقلاب کے درجے تک پہنچا دیا جائے۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کے زمانے میں یہ انقلاب عملی طورپر پیش آیا اور پھر وہ تاریخِ بشری کا ایک معلوم اور مسلّم حصہ بن گیا۔
پیغمبرآخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ صرف آپ کے پیروؤں کے ایک ’’روایتی عقیدہ‘‘ کی حیثیت نہیں رکھتی، بلکہ وہ ایک مسلمّہ تاریخی واقعہ ہے۔ پیغمبر آخرالزماں سے پہلے جو انبیا آئے، اُن کی زندگی مدوّن تاریخ کا جُز نہ بن سکی، مگر پیغمبر اسلام کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ آپ کی حیثیت ایک مسلّم تاریخی پیغمبر کی ہے، آپ کی نبوت پورے معنوں میں ایک ثابت شدہ نبوت ہے۔انسانی زندگی کے جس پہلو کو بھی دیکھا جائے، اُس میں پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ابدی تعلیم کے اثرات نمایاں طورپر دکھائی دیں گے۔ وہ تمام بہترین روایات اور وہ تمام اعلیٰ قدریں جن کو آج اہمیت دی جاتی ہے، وہ سب پیغمبر اسلام کے لائے ہوئے عظیم انقلاب کے براہِ راست نتائج ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہہ تاریخ کے سب سے بڑے انسان کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انسانِ کامل بنا کر انسانی نسل پر اپنا سب سے بڑا احسان فرمایا ہے۔ خدا نے پیغمبرآخرالزماں کی شکل میں تاریخ میں ایک ایسا بلند ترین مینارکھڑا کردیا ہے کہ آدمی جس طرف بھی نظر اُٹھائے، وہ آپ کو دیکھ لے۔ جب وہ اپنے رہ نُما کی تلاش میں نکلے تو اُس کی نظر سب سے پہلے آپ پر پڑے۔ جب وہ حق کا راستہ جاننا چاہے تو آپ کا روشن اور بلند و بالا وجود اُس کو سب سے پہلے اپنی طرف متوجہ کرلے۔ آپ ساری انسانیت کے لیے ہادیٔ اعظم اور رہبرِ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِسی لیے خدا نے آپ کو نبیوں کے خاتم (الأحزاب: 40 ) کی حیثیت سے مبعوث فرمایا۔ دوسرے انبیا صرف اللہ کے رسول تھے، اور آپ اللہ کے رسول ہونے کے ساتھ خاتم النبیین بھی۔
میری کتاب ’پیغمبر انقلاب‘ پہلی بار 1982 میں چھپی۔ اس وقت میں نے اِس کتاب میں پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق جو الفاظ لکھے تھے، وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ غیر مسلموں کے لیے بھی نشانِ راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
قرآن کے مطابق، اللہ تعالیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو محمودیت کے مقام پر کھڑا کیا ہے(الإسراء: 79 )۔ چناں چہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ عام مصنفین اور مورخین نے آپ کی عظمت کو کھلے طورپر تسلیم کیا ہے۔
بارھویں اور تیرھویں صدی عیسوی میں مسلم قوموں اور مسیحی قوموں کے درمیان لڑائیاں پیش آئیں، جن کو صلیبی جنگ (crusades) کہاجاتا ہے۔ اِن جنگوں میں مسیحی قوموں کو شکست ہوئی۔ اُس کے بعد مسیحی مصنفین نے اسلام کے خلاف ایک قلمی جنگ چھیڑ دی۔ کثرت سے ایسی کتابیں لکھی گئیں جن میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی تصویر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا تھا۔ یہ سلسلہ لمبی مدت تک جاری رہا۔
اِس سلسلے کو توڑنے والا پہلا قابلِ ذکر شخص اسکاٹ لینڈ کا ایک مصنف ٹامس کارلائل (وفات: 1881 ) ہے۔ اُس نے جرأت مندانہ طورپر اِس رجحان کو بدلا۔ اُس کی مشہور کتاب ہیروورشپ(On Heroes, Hero Worship) پہلی بار1841 میں چھپی۔ اِس انگریزی کتاب میں اُس نے پیغمبر اسلام کی مثبت تصویر پیش کی۔ اُس نے پیغمبر اسلام کو دوسرے تمام پیغمبروں کے مقابلے میں ’’ہیرو‘‘ کا درجہ دیا۔
اِس کے بعد کثرت سے مختلف زبانوں میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کتابیں شائع ہوئیں۔ اِن کتابوں میں تاریخ میں آپ کے انقلابی رول کا کھلے طورپر اعتراف کیا گیا۔ مثلاً انڈیا کے ایک اسکالرایم این رائے (وفات: 1954 ) کی کتاب (Historical Role of Islam) 1939 میں پہلی بار دہلی سے چھپی۔ اِس میں انھوں نے لکھا کہ پیغمبر اسلام، تمام پیغمبروں میں سب سے بڑے پیغمبر تھے۔ انھوںنے سب سے بڑا تاریخی معجزہ دکھایا:
Every prophet establishes his pretentions by the performance of miracles. On that token, Muhammad must be recognised as by far the greatest of all prophets, before or after him. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن میں یہ پیشین گوئی آئی ہے کہ آپ کو مقامِ محمود کا درجہ عطا کیا جائے گا(الإسراء:79 )۔ مقامِ محمودیت کا ایک پہلو وہ ہے جو آخرت میں ظاہر ہوگا۔ دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق، موجودہ دنیا سے ہے۔ موجودہ دنیا کی نسبت سے مقامِ محمود یہ ہے کہ آپ کو تاریخی اعتبار سے ایک مسلّم نبوت (established prophethood) کا درجہ حاصل ہوگا۔
آپ سے پہلے جو انبیا آئے، وہ مدوّن تاریخ میں ریکارڈ نہ ہوسکے۔آپ کے سوا ہر ایک کی حیثیت، اعتقادی نبوت کی ہے نہ کہ تاریخی نبوت کی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ آپ کو خدا نے آخری پیغمبر بنایا ـتھا۔ آپ کے بعد کوئی دوسرا پیغمبر آنے والا نہ تھا۔ اِس لیے ضروری تھا کہ آپ کی لائی ہوئی کتاب اور آپ کی پیغمبرانہ زندگی کامل طورپر محفوظ ہوجائے، وہ تسلیم شدہ تاریخی ریکارڈ کی حیثیت حاصل کرلے۔ کیوں کہ قانونِ الٰہی کے مطابق، جب پیغمبر مستند تاریخی ریکارڈ کادرجہ حاصل کرلے تو اس کے بعداُس کی لائی ہوئی کتاب اور اُس کی تعلیمات کا یہی ریکارڈ پیغمبر کا قائم مقام بن جاتا ہے، اِس کے بعد کسی نیے پیغمبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
واپس اوپر جائیں

دین اورمنہاج

قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایاگیا ہے کہ خدا کا جو ’الدّین‘ہے، اُس کو خدا نے تمام پیغمبروں کو یکساں طورپردیا ہے (الشوریٰ:13 )۔ الدّین سے مراد، خدا کے دین کی ابدی تعلیمات ہیں۔ یہ تعلیمات ہمیشہ یکساں رہتی ہیں، اِس میںحالات یا زمانے کے تغیر سے کوئی فرق نہیں ہوتا۔ دین کی یہ ابدی تعلیمات تمام پیغمبروں کو یکساں طورپر دی گئی ہیں۔ اِن ابدی تعلیمات کے اعتبار سے ایک اور دوسرے کے درمیان کوئی فرق نہیں (لانفرّق بین أحدٍ من رّسُلہ، البقرۃ: 285 )
دوسری طرف، قرآن کی سورہ نمبر پانچ میں بتایاگیا ہے کہ ہر پیغمبر کو خدا نے الگ الگ منہاج دیے : لکلٍّ جعلنا منکم شِرعۃً ومنہاجاً (المائدۃ:48 )۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دینِ خداوندی کے دو حصے ہیں۔ ایک، الدین اور دوسرا، منہاج۔ الدین ابدی طور پر ایک ہی رہتا ہے، لیکن منہاج یا طریقِ کار (method) کا تعلق وقت کے حالات سے ہوتا ہے، اِس لیے حالات کی تبدیلی کے تحت اُس میں فرق ہوتا رہتا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے (الأحزاب: 40 ) 570 عیسوی میں آپ مکہ میں پیداہوئے۔ 610 عیسوی میں آپ پرپہلی وحی اُتری۔ 632 عیسوی میں مدینہ میںآپ کی وفات ہوئی۔ آپ خدا کے آخری نبی تھے۔ آپ پر اُترنے والی کتاب(قرآن) کو خدا نے ہمیشہ کے لیے محفوظ کردیا۔ آپ کو جو الدین دیاگیا، وہ کامل بھی ہے اور ابدی بھی ہے۔ ہر زمانے کے انسانوں کے لیے خدا کے دین کو جاننے کا یہی واحد مستند ماخذ ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا دوسرا حصہ وہ ہے، جس کا تعلق منہاج یا طریقِ کار سے ہے۔ اِس معاملے میں آپ نے رہ نما اصول مقرر فرمادیے ہیں، لیکن جہاں تک عملی طریقے کا تعلق ہے، وہ علمائِ امت کا کام ہے۔ ہر زمانے کے علماء حالات کے اعتبار سے اُس منہاج یا طریقِ کار کو اختیار کریں گے جو اُن کو حالات کے اعتبار سے موثر اور مفید نظر آئے۔
دین اور منہاج کا فرق
دوسرے پیغمبروں کی طرح، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دو چیزیں دی گئیں— الدین اور منہاج۔ الدین سے مراد آپ کی تعلیمات کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق، عقیدہ اور عبادت اور اخلاق جیسی اساسی چیزوں سے ہے۔ آپ کی تعلیمات کا یہ حصہ ابدی ہے۔ وہ اِس طرح کامل ہوچکا ہے کہ اُس میں اب کسی کمی یا اضافے کی گنجائش نہیں۔ یہی وہ بات ہے جو قرآن کی سورہ نمبر پانچ میںاِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الیوم أکملتُ لکم دینَکم وأتممتُ علیکم نعمتی، ورضیت لکم الإسلام دیناً (المائدۃ: 3)
دین کا دوسرا حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں ’مِنہاج‘ کہا گیا ہے۔ اِس بارے میں قرآن کی سورہ نمبر پانچ کی اِس آیت سے رہ نمائی ملتی ہے: لکلّ جعلنا منکم شرعۃً ومنہاجا (المائدۃ: 48 ) منہاج کا مطلب، طریقِ کار (method) ہے۔ طریقِ کار کا معاملہ ’’الدین‘‘ سے مختلف ہے۔ الدین، ابدی طورپر ایک ہی رہتا ہے، لیکن طریقِ کار کا تعلق حالات سے ہے۔ طریقِ کار، وقت کی صورتِ حال کی مناسبت سے بنتا ہے، نہ کہ کسی ابدی معیار کے تحت۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں اور اسلام کے بعد کی تاریخ میںاس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ الدین کے معاملے میں پیغمبر اسلام کا اُسوہ،ابدی طور پر اور غیر متغیر طورپر ایک ہے اور ایک رہے گا، لیکن جہاں تک منہاج کا معاملہ ہے، اُس کا تعلق حالات سے ہے۔ ہر زمانے میں جو طریقہ حالات کے مطابق ہوگا، اُس کو اختیار کیا جائے گا۔
چند مثالیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوۂ بدر (2 ہجری) کے لیے اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے کوچ فرمایا تو آپ نے اپنی صواب دید کے مطابق ،ایک مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ آپ کے ساتھیوں میں سے ایک ساتھی حبّاب بن مُنذر بن جموح نے آپ سے پوچھا کہ کیا یہ جگہ جہاں آپ نے پڑاؤ ڈالا ہے، یہ خدا کی وحی کی بنیاد پر ہے، آپ نے فرمایا کہ نہیں۔ انھوںنے کہا کہ پھر تو یہ کوئی پڑاؤ ڈالنے کی جگہ نہیں (فإنّ ہٰذا لیس بمنزل)۔ اِس کے بعد آپ نے اُن کے مشورے کے مطابق، پڑاؤ کی جگہ کو بدل دیا۔
اِسی طرح کی ایک مثال وہ ہے جو غزوۂ اَحزاب (5 ہجری) کے موقع پر پیش آئی۔ اُس وقت آپ کے مخالفین ایک بڑی فوج لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔ اُس وقت اہلِ ایمان مقابلے کی پوزیشن میں نہ تھے، اِس لیے آپ نے چاہا کہ کسی تدبیر کے تحت جنگ کو ٹال دیا جائے۔ آپ نے لوگوں سے مشورہ کیا۔ اُس وقت سلمان فارسی کھڑے ہوئے۔ انھوںنے کہا کہ ایران کے بادشاہ جب جنگ سے اعراض کرنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے اور مخالف فوج کے درمیان خندق (trench) کھود دیتے ہیں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رائے کو پسند کیا اور ایرانی طریقے کے مطابق، مدینہ کے باہر ایک خندق کھوددی۔ اِس لیے اِس غزوے کو ’غزوۂ خندق‘ کہاجاتا ہے۔
اِسی طرح کا ایک معاملہ وہ ہے جو کھجور کے درختوں کی زرخیزی (pollination) سے تعلق رکھتا ہے۔ سیرت کی کتابوں میں اِس کو ’تأبیرِ نخل‘ کا نام دیاگیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کرکے مدینہ آئے تو وہاں کے لوگ کھجور کے درختوں کی زرخیزی کے لیے تأبیر نخل کا طریقہ اختیار کیے ہوئے تھے۔ آپ نے اُس کو دیکھا تو آپ نے اُس سے اپنے عدم اتّفاق کا اظہار کیا۔ چناںچہ لوگوں نے اُس کے بعد تأبیر یا تلقیح کے عمل کو چھوڑ دیا۔ مگر اِس کانتیجہ یہ ہوا کہ اُس سال کھجور کی فصل کم ہوئی۔ آپ نے کمی کا سبب پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ آپ کے کہنے کے مطابق، ہم نے تأبیر اور تلقیح کا عمل نہیںکیا، اِس لیے ایسا ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ جو کرتے تھے، وہ کرو۔ کیوں کہ دنیا کے معاملے میں تم زیادہ جانتے ہو (أنتم أعلم بأمر دنیاکم) ۔
اِس قسم کے واقعات بتاتے ہیں کہ جہاں تک الدین کا تعلق ہے، اِس معاملے میں پیغمبر اسلام کا اسوہ ایک کامل اور ابدی اسوہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ لیکن جہاں تک منہاج یا طریقِ کار کا تعلق ہے، اِس میں حقیقی حالات کی نسبت سے یہ متعین ہوگا کہ کس وقت کون سا طریقہ اختیار کیا جائے۔
پیغمبراسلام کا اُسوہ
اسلامی عقیدے کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم انسانی زندگی کے لیے ایک عملی نمونے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ عملی نمونہ، زندگی کے ہر پہلو سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پیغمبراسلام کی عملی زندگی ہر اعتبار سے، انسان کے لیے ابدی رہ نما کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی رحمت ہے کہ اُس نے پیغمبر آخر الزّماں کی زندگی کو آخری طورپر محفوظ کردیا۔ ورنہ جہاں تک پچھلے پیغمبروں کا معاملہ ہے، ان کی تاریخ پورے طور پر محفوظ حالت میں موجود نہیں۔
لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے نمونہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے یہاں انسانی زندگی کے ہر معاملے کے لیے ایک مقرر مثال (set pattern) یا ایک پیشگی نمونہ (prototype) موجود ہے اور ہمیں، حقیقی صورتِ حال کا لحاظ کیے بغیر، صرف یہ کرنا ہے کہ اِن پیشگی نمونوں کو لے کر ہمیشہ اُن کو اپنے ہر معاملے میں منطبق کرتے رہیں۔ اگر ایسا مانا جائے تو اسلام ایک جامد مذہب بن جائے گا، جس میں مزید ترقی کی کوئی گنجائش نہ ہو۔ یہ بات پیغمبر اسلام کے زمانے کے لیے بھی درست ہے اور آپ کے بعد کے زمانے کے لیے بھی۔ اِس سلسلے میں چند مثالیں اوپر آچکی ہیں۔ یہاں مزید کچھ مثالیں درج کی جاتی ہیں۔
چند مزید مثالیں
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تھے تو اُس وقت کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے، مگر آپ نے کبھی اُن بتوں کو توڑنے کی کوشش نہیں کی۔ کیوں کہ اُس وقت کی صورتِ حال یہ تھی کہ مکہ میں مسلم اور غیر مسلم دونوں موجود تھے۔ لیکن ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہوا تو مکہ کے تمام لوگ اسلام میں داخل ہوگیے۔ اُس وقت صورتِ حال مکمل طور پر بدل گئی۔ چناں چہ آپ نے تمام بتوں کو کعبہ سے نکال دیا۔ یہ دو مختلف طریقے آپ نے صورتِ حال کے فرق کی بنا پر اختیار فرمائے۔
ایک اور مثال یہ ہے کہ مدینہ میںآپ نے ایک خطاب میں فرمایا کہ: نحن أمّۃٌ أمّیَّۃٌ، لا نکتب ولا نَحسِب (صحیح البخاری، مسلم، مسند احمد) یعنی ہم اُمّی لوگ ہیں۔ ہم نہ لکھتے ہیں اور نہ ہم حساب کرتے ہیں۔ یہ ابتدائی زمانے کی بات تھی۔ بعد کو ایرانی ایمپائر اور رومی ایمپائر اسلام کے علاقے میں داخل ہوئے تو صورتِ حال بدل گئی۔ اب بڑھی ہوئی ضرورتوں کی بنا پر سرکاری معاملات کا حساب رکھنا ضروری ہوگیا۔چناں چہ خلیفۂ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اسلامی سلطنت کے دفتروں کو ایرانی ایمپائر اور رومی ایمپائر کے نمونے پر قائم کیا۔ انھوںنے ایرانیوں اور رومیوں کے ماہر افرادکو اسلامی دفاتر میں رکھا، جو ایرانی اور رومی نقشے پر سرکاری معاملات کا حساب درج کرتے تھے۔
طریقِ کار کے معاملے میں یہی عمل آپ کے بعد بھی جاری رہا۔ بنو اُمیّہ کے زمانے میں بحری بیڑا تیار کیا گیا، حالاں کہ اِس سے پہلے اسلام میں ایسا نہیں کیاگیا تھا۔ بنو عبّاس کے زمانے میں بغداد میں رسدگاہ (observatory) بنائی گئی، جو اسکندریہ کے رومی دَور میں بنائی جانے والی رسد گاہ کی نقل تھی۔ خوارزم شاہ کے زمانے میں سمر قند میں کاغذ کا کارخانہ بنایاگیا، جس کا نمونہ چین سے لیاگیا تھا۔ اَندلس کی مسلم حکومت کے زمانے میں آب پاشی کے نیے طریقے اختیار کیے گیے ، جس کا نمونہ غیر مسلم قوموں سے لیاگیا تھا، وغیرہ۔
یہی معاملہ موجودہ زمانے کی تمام مسلم سرگرمیوں کا ہے۔ آج ہر معاملے میں قدیم طریقے کو چھوڑ کر جدید مغربی طریقہ اختیار کیا جارہا ہے۔ مثلاً فلسطین اور دوسرے مقامات پر مسلمان جو مسلّح جہاد کررہے ہیں اُس میں قدیم نمونے کے مطابق، تلوار اور گھوڑے کو جہاد کا ذریعہ نہیں بنایا گیا ہے، بلکہ گَن اور بم کو جہاد کا ذیعہ بنایا گیا ہے، وغیرہ۔
خلاصہ یہ کہ اسلام کا ایک حصہ وہ ہے جس کو قرآن میں ’’الدین‘‘ کہاگیا ہے۔ یہ اسلام کا وہ حصہ ہے جس کا تعلق، عقیدہ اور عبادت اور اخلاقی نظام جیسی اساسی چیزوں سے ہے۔ یہی اسلام کا اصل حصہ ہے، اور یہ حصہ ابدی طورپر ایک ہے اور ایک ہی رہے گا۔ یہ حصہ اُسی طرح انسان کی رہ نمائی کے لیے ابدی سر چشمہ ہے، جس طرح آفتاب ابدی طور پر روشنی کا سرچشمہ بناہوا ہے۔
مگر منہاج یا طریقِ کار کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ طریقِ کارکا تعلق وقت کے حالات سے ہوتا ہے۔ طریقِ کار کے معاملے میں ہمیشہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ حالات کے مطابق، کون سا طریقہ زیادہ مؤثر ہے اور پھر اُس کو اختیار کرلیا جاتا ہے۔
مثلاً پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مکہ میں 610 عیسوی میں نبوت ملی توآپ نے اُس وقت اعلان کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ آپ مکہ کے قریب صَفا پہاڑی پر کھڑے ہوئے اور وہاں سے لوگوں کو بلند آواز سے پکارا۔ جب لوگ وہاں اکھٹا ہوئے تو آپ نے اُن کو توحیدکا پیغام دیا۔ مگر آج کا ایک داعی اِس کے بجائے یہ کرتا ہے کہ وہ ٹیلی ویژن کے اسٹوڈیو میں بولتا ہے اور وہاں سے اُس کی آواز تمام انسانوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اِس مثال میں پیغامِ دعوت کا تعلق، دین سے ہے اور صَفا، یا ٹیلی ویژن کا تعلق، طریقِ کار سے۔
اُسوۂ حسنہ
اسلام کے انھیں دونوں حصوں میں فرق کو واضح کرنے کے لیے قرآن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُسوۂ حسنہ (الأحزاب:21) بتایاگیا ہے۔ اگر اس موقع پر قرآن میں ’اُسوۂ کاملہ‘ کا لفظ استعمال کیاجاتا تو لوگ غلط فہمی میں پڑ سکتے تھے، اور یہ سمجھ سکتے تھے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے الدّین میں آپ کے ذریعے انسان کو کامل رہ نمائی عطا فرمائی ہے، اُسی طرح منہاج کے معاملے میں بھی ابدی طورپر ہمیں آپ کے طریقے کی پیروی کرنا ہے۔ ایسا سمجھنا،بلا شبہہ ایک غلط فہمی ہوتی اور نتیجۃً طریقِ کار کے اعتبار سے اسلام جُمود کا شکار ہوجاتا۔
مثلاً طریقِ کار کو ابدی سمجھنے کے بعد یہ ہوتا کہ ہم کار اور ہوائی جہاز کے زمانے میں بھی اونٹ پر بیٹھنا ضروری سمجھتے۔ جدید فنِ تعمیر کے ظہور میںآنے کے بعد بھی ہم مسجد ِ نبوی کو کھجور کے تنوں اور پتّوں کے ذریعے بناتے رہتے ۔پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ظہور کے بعد بھی ہم قرآن کو درخت کی چھالوں اور جانور کی جھِلّیوں پر بدستور لکھتے رہتے۔ جدید طرز کے دور مار ہتھیاروں کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم قدیم نمونے کے مطابق، دستی تلوار کے ذریعے جہاد کرتے رہتے۔ جدید سائنسی دلائل کے ظہور میں آنے کے بعد بھی ہم قدیم روایتی معقولات کو اپنے علمِ کلام کا واحد سرمایہ سمجھتے۔ جدید کمیونی کیشن اور ٹیلی فون کے زمانے میں بھی ہم پرندوں اور جانوروں سے پیغام رسانی کا کام لیتے رہتے۔جدید الیکٹری سٹی کے ظہور کے بعد بھی ہم چراغوں اور دِیوں کے ذریعے اپنے گھروں کو روشن کرتے رہتے۔ زرعی ٹریکٹروں کے ظہور میں آنے کے بھی ہم ہَل اور بیل کے ذریعے زراعت کا کام جاری رکھتے، وغیرہ۔
اللہ تعالیٰ کی یہ ایک عظیم حکمت تھی کہ اُس نے قرآن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی رہ نمائی کو بتانے کے لیے اُسوۂ حسنہ کا لفظ استعمال کیا۔ اگر اِس آیت میں اسوۂ کاملہ کا لفظ ہوتا تو لوگ یقینی طورپر غلط فہمی میں پڑ جاتے۔ لوگ الدین اور منہاج میں فرق کرنے سے قاصر رہتے۔ وہ غلط فہمی کی بنا پر یہ سمجھ لیتے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم، جس طرح الدین کے بارے میں ابدی اور کامل نمونہ ہیں، اِسی طرح منہاج اور طریقِ کار کے معاملے میں بھی آپ کا طریقہ ابدی ہے۔ اِس غلط فہمی کا یہ نتیجہ ہوتاکہ اسلام جمود کا شکار ہوجاتا۔ دوسری قومیں جدید ترقیاتی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ جاتیں اور مسلمانوں کا قافلہ اُن سے بہت زیادہ پیچھے ہوجاتا۔
اِس غلط فہمی اور اس کے غیر مطلوب نتائج کی ایک مثال تُرکی میں ملتی ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عثمانی خلافت کا فوجی نظام، قدیم طرز کے مطابق چلا آرہا تھا، یعنی اُن کی فوجی تیاری تلواروں اور گھوڑوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ پھر نشاۃِ ثانیہ کے بعد مغربی یورپ کی مسیحی قوموں نے سامانِ جنگ کے لیے نئی ٹکنک اور نیے ہتھیار دریافت کیے۔ اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ تُرکوں اور اِن مسیحی قوموں کے درمیان فوجی توازن بگڑ گیا۔ جدید ہتھیاروں سے مسلح مغربی فوجوں کے مقابلے میں ترکوں کی فوج شکست کھانے لگی۔ ترکی کے مسلمانوں کے لیے یہ ایک چشم کشا واقعہ تھا۔ چناں چہ بحث ومباحثے کے بعد یہ طے ہوا کہ ترکی کی فوج کو جدید ہتھیاروں کے ذریعے مسلح کیا جائے۔ چناں چہ وہاں ایسا ہی کیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

نَسخ کیا ہے

قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم وہ ہے جس کو نسخ کہاجاتا ہے۔ نسخ کا مطلب اُردو مفہوم کے لحاظ سے منسوخی نہیں ہے۔ عربی زبان میں نسخ کا مطلب ہے ہٹانا، یعنی ایک چیز کو ہٹا کر اس کی جگہ دوسری چیز لانا (replacement) ۔ مشہور عربی لغت، لسانُ العرب میں نسخ کا مفہوم اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے:النَّسخ، تبدیل الشیٔ من الشیٔ (جلد 3، صفحہ 61 )، یعنی ایک چیز کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری چیز لانا۔
نسخ کا یہ مفہوم خود قرآن کی دوسری آیت سے واضح ہورہا ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 16میں ارشاد ہوا ہے: وإذا بدّلنا آیۃً مکانَ آیۃ (النّحل: 101 )، یعنی جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری آیت۔ اِس آیت میںایک چیز کو بدل کر اُس کی جگہ دوسری چیز لانے سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو پہلی آیت میں نسخ کہاگیا ہے۔
مفسرین نے بھی دونوں آیتوں میں نسخ کا تقریباً یہی مفہوم لیا ہے۔ قرطبی کے الفاظ یہ ہیں: النّسخ والتّبدیل: رفعُ الشّیٔ مع وضع غیرہِ مکانہ (القرطبی، جلد 10 ، صفحہ 176 ) یعنی نسخ اور تبدیلی کا مطلب کسی چیز کو اُس کی جگہ سے ہٹانا، اور وہاں دوسری چیز کو لے آنا ہے۔
نسخ کے معاملے کو عام طور پر یہود سے، یا یہود کی شریعت سے جوڑا جاتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ اِس قانون کا تعلق بہت سے معاملات سے ہے۔ جب بھی کسی صورتِ حال میں تبدیلی ہو تو وہاں نسخ کی ضرورت پیش آتی ہے۔ نسخ جب بھی ہوتا ہے، ظاہری صورت میں ہوتا ہے، معنوی حقیقت کے اعتبار سے کسی حکم میں نسخ واقع نہیں ہوتا۔
چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم نے مکہ میں کعبہ کی تعمیر کی۔ یہ کعبہ حج کا مرکز تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کو اِن الفاظ میںاس کا حکم دیا : اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔ وہ تمھارے پاس آئیں گے پَیروں پر چل کر اور دُبلے اونٹوں پر سوار ہوکر جو کہ دور دراز راستوںسے آئیں گے (الحج: 27 )
موجودہ زمانے میں ہمیشہ سے زیادہ لوگ حج کے لیے مکہ جاتے ہیں، مگر اب یہ لوگ موٹر اور ہوائی جہاز سے اُس کا سفر کرتے ہیں۔ بظاہر دیکھیے تو یہ بھی نسخ کی ایک صورت ہے۔ اِس نسخ میں حقیقت نہیں بدلی ہے، بلکہ اس کی ظاہری صورت بدلی ہے۔ اِس معاملے کی اصل حقیقت سواری ہے۔پہلے زمانے میں سواری کی عملی صورت اونٹ ہوتے تھے۔ اِس لیے لوگ اونٹ پر سفر کرتے تھے۔ اب سواری کی عملی صورت ہوائی جہاز ہے۔ اس لیے اب لوگ ہوائی جہاز کے ذریعے یہ سفر طے کرتے ہیں۔
اسی طرح دفاعی جنگ کی تیاری کے لیے قرآن میں یہ حکم دیاگیا تھا کہ: اور اُن کے لیے جس قدر تم سے ہوسکے، تیار رکھو قوّت اور پَلے ہوئے گھوڑے کہ اِس سے تمھاری ہیبت رہے اللہ کے دشمنوں پر اور تمھارے دشمنوں پر (الأنفال: 60 )
جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے کی مسلم حکومتیں دفاعی تیّاری کے لیے جدید ہتھیار کا سہارا لیتی ہیں، یہ بھی گویا کہ نسخ کی ایک صورت ہے۔ غور کیجیے تو اِس حکم کی اصل حقیقت دفاعی تیاری ہے۔ اِس دفاعی تیاری کی ظاہری شکل پہلے زمانے میں گھوڑا ہوتا تھا، اب اُس کی ظاہری شکل مشینی ہتھیار بن گیے ہیں۔
یہی معاملہ قتال (جنگ) کا بھی ہے۔ قرآن کی چند آیتوں میں دفاع کے لیے قتال کی اجازت دی گئی ہے۔ فقہا نے کہا ہے کہ اسلام میں قتال حَسن لِذاتہ نہیں ہے، بلکہ وہ حسن لِغیرہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ قتال، نماز کی طرح مطلق طورپر مطلوب نہیں ہے بلکہ اُس کی مطلوبیت اضافی ہے، یعنی ضرورت کے وقت قتال، اور جب ضرورت نہیں تو قتال بھی نہیں۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسو ل اور اصحابِ رسول کو قتال کا جو حکم دیاگیا تھا، اُس کا مقصد ’فتنۃ‘کو ختم کرنا تھا۔ قرآن کی سورہ نمبر آٹھ میں ارشاد ہوا ہے: اوراُن سے لڑو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے۔ اور دین سب اللہ کا ہوجائے (الأنفال: 38 ) اِس آیت میں فتنہ سے مرادمذہبی جبر (religious persecution) ہے۔
قدیم بادشاہت کے نظام میں ہر جگہ یہ مذہبی جبر قائم تھا۔ بادشاہ لوگ اسٹیٹ کے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب کے اختیار کرنے کو اپنے خلاف بغاوت سمجھتے تھے، اِس لیے ایسے مذہب کو وہ ہمیشہ کچل دیتے تھے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اوّل میںہوئی۔ اُس وقت قدیم بادشاہت کے تحت، ہر جگہ مذہبی جبر کا نظام قائم تھا۔ پیغمبر اسلام نے مذہبِ توحید کا اعلان کیا تو وہ اُس وقت کے تمام اَربابِ اقتدار کے اختیار کردہ مذہب کے خلاف تھا، اِس لیے وہ اس کو کچلنے کے لیے سرگرم ہوگیے۔
سب سے پہلے عرب مشرک سرداروں نے اُس کو ختم کرنا چاہا، لیکن خدا کی خصوصی نصرت سے چند مقابلوں کے بعد ان کے اوپر فتح حاصل ہوگئی۔ اِس طرح خود پیغمبر اسلام کے زمانے میں اُس وقت کے دو بڑے ایمپائر، ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر، آپ کے مشن کے دشمن بن گیے۔ پیغمبر اسلام کی وفات کے بعد خلافتِ راشدہ کے زمانے میں اِن شہنشاہیتوں کی جارحیت کے نتیجے میں اُن سے لڑائی پیش آئی۔ اِس لڑائی میں دوبارہ دونوں شہنشاہیتوں کو شکست ہوئی اور اہلِ توحید کو فتح حاصل ہوئی۔
یہی وہ واقعہ ہے جس کو قرآن میں فتنہ کے خلاف لڑ کر اُس کو ختم کرنا بتایا گیاہے۔ جب یہ نظامِ اقتدار ختم ہوا تو اس کے نتیجے میں مذہبی جبر کا نظام بھی ختم ہوگیا اور اس کے بجائے مذہبی آزادی کا نظام آگیا۔ تاہم اِس قسم کی تبدیلی اچانک پیش نہیں آتی، بلکہ وہ لمبے تاریخی عمل کے بعد اپنی منزل تک پہنچتی ہے۔ رسو ل اوراصحابِ رسول کے ذریعے جو واقعہ ہوا، وہ یہ تھا کہ مذہبی جبر کا نظام ٹوٹ گیا اور مذہبی آزادی کا پراسس شروع ہوگیا۔ اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) یورپ میںہوا، جب کہ ہر انسان کے لیے مذہبی آزادی کو ناقابلِ تنسیخ حق کے طورپر تسلیم کرلیا گیا۔
اب ہم اِسی دور میں جی رہے ہیں۔ آج کی دنیا میں آزادی کوخیر ِاعلیٰ (summum bonum) سمجھا جاتاہے۔ اقوامِ متحدہ کے ڈکلیریشن آف ہیومن رائٹس میں اس کو درج کیا گیا اور دنیا کی تمام قوموں نے اُس پر اپنے دستخط ثبت کیے۔ اور ہر ملک کے دستور میں مذہبی آزادی کو مطلق انسانی حق کا درجہ دیاگیا۔ آج کی دنیا میں کسی انسان کو صرف تشدد کا حق نہیں ہے، اِس کے سوا ہر چیز کی آزادی اُس کو حاصل ہے۔
قتال کی حیثیت گویا کہ وائلنٹ ایکٹوزم (violent activism) کی ہے۔ اِس کے مقابلے میں دوسرا طریقِ کار وہ ہے جس کو پیس فُل ایکٹوزم(peaceful activism) کہاجاتا ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ آج کی دنیا میں وائلنٹ ایکٹوزم منسوخ ہوگیا ہے اور اُس کی جگہ پیس فل ایکٹوزم نے لے لی ہے۔ اب پیس فل ایکٹوزم کے تحت ہر قسم کی سرگرمیوں کا حق انسان کو مل چکا ہے، صرف ایک استثنا کے ساتھ کہ وہ تشدد نہ کرے۔ اب ہمارے لیے بلا استثنا ہر قسم کی جدوجہد کے لیے راستے کھل چکے ہیں۔ اِن میں بھی سب سے بڑی چیز تعلیم اور دعوہ ورک ہے۔ ہم کو چاہیے کہ تعلیم اور دعوہ ورک کے میدان میں نیے مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مکمل جدوجہد جاری کردیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج آزادی کے نتیجے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہم جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے اپنا دعوہ ایمپائر اور ایجوکیشنل ایمپائر قائم کرسکیں۔ اور یہ سب کچھ خالص غیر سیاسی دائرے میںجدوجہد کرتے ہوئے ممکن ہے۔
واپس اوپر جائیں

اسلام کی سیاسی تعبیر کا فتنہ

پرنٹنگ پریس کا زمانہ آنے کے بعد مسلم دنیا میں کچھ انقلابی مفکرین اٹھے۔ یہ لوگ اسلام کی سیاسی حاکمیت قائم کرنے کے نام پر جہاد اور قتال کی پُرزور تبلیغ کرنے لگے۔ اب مسلم دنیا، اِس قسم کے انقلابی مفکرین کی تیسری نسل کو دیکھ رہی ہے۔ پہلی نسل کے مفکرین میں سید جمال الدین افغانی اور ڈاکٹرمحمد اقبال کا نام لیا جاسکتا ہے۔ دوسری نسل کے مفکرین میں سید قطب اور سید ابوالاعلیٰ مودودی کے نام شامل ہیں۔ تیسری نسل کے مفکرین میں اسامہ بن لادن اور ڈاکٹر اسرار احمد کے نام معروف ہیں۔
یہ انقلابی ذہن در اصل ایک طرف خلافتِ عثمانیہ کے زوال اور دوسری طرف مسلم دنیا کے بڑے حصے پر نو آبادیاتی نظام کے غلبے کا ردّعمل تھا۔ ابتدائی دور میں یہ لوگ صرف مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی واپسی پر زور دیتے تھے، پھر دھیرے دھیرے یہ ذہن ایک مکمل نظریے اور فلسفے کی روپ میں ابھرا۔اب یہ کہا جانے لگا کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے (الإسلام دین شامل وکامل)، اِس لیے ضروری ہے کہ اسلام کو ایک کامل ریاست کے طورپر قائم کیا جائے، اِس کے بغیر اسلام ناقص رہے گا، اور ناقص اسلام ہمارے لیے دنیا میں بھی خسارے کا سبب ہے اور آخرت میں بھی خسارے کا سبب۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اسلام کی سیاسی تعبیر کا ذہن تدریجی طورپر بنا۔ پہلی نسل کے مسلم رہ نماؤں کا نشانہ زیادہ تر زمین کی واپسی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم علاقوں پر مغربی قوموں نے غلبہ حاصل کرلیا ہے، اب ہمیں اِس غلبے کو ختم کرکے مسلم علاقے کو دوبارہ آزاد کرانا ہے۔ سید جمال الدین افغانی نے اِسی بات کو’ الشّرقُ للشّرقیین‘کے الفاظ میں بیان کیا تھا، یعنی مشرق کے مسلم ممالک سے مغربی غلبے کو ختم کرکے دوبارہ اُس کو مشرق کے مسلمانوں کے قبضے میں دینا۔
بعد کو شعوری یا غیر شعوری طورپر مسلم رہ نماؤں کے اندر یہ ذہن بنا کہ مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد کو وہ اپنا حامی بنا سکیں، چناں چہ عالمی اسلامی اتحاد (Pan-Islamism) کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انھوں نے یہ کیا کہ سیاسی مسئلے کو اعتقادی مسئلے کی حیثیت سے پیش کرنا شروع کردیا، یعنی انھوں نے مسلمانوں کو یہ تاثّر دینا چاہا کہ اُن کی مہم صرف ایک قومی مہم نہیں ہے، بلکہ وہ خالص مذہبی مہم ہے۔ اِس طرح انھوںنے ایک سیاسی مسئلے کو اعتقادی مسئلہ بنا دیا۔ انھوںنے اپنی تقریر اور تحریر کے ذریعے مسلمانوں کو یہ تاثر دینا شروع کیا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے، جس میں سیاست بھی لازماً شامل ہے۔اگر مسلمان، اسلام کو ایک مکمل نظام کے طورپر غالب اور نافذ نہ کریں تو ان کا اسلام ہی ادھورا رہ جائے گا۔
اس مقصدکے لیے بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اِن کتابوں میں اسلام کی تعبیر ایک مکمل نظامِ حیات کے طورپر کی گئی۔ اسلام کی سیاسی تعبیر کے طورپر جو لٹریچر تیار کیا گیا، اُن میں سے قر آن کی دو مکمل تفسیریں بھی تھیں۔ سید قطب کی چھ جلدوں میں عربی تفسیر ’’فی ظِلال القرآن‘‘ اِسی فکر کے تحت لکھی گئی۔ اِسی طرح سید ابوالاعلیٰ مودودی کی چھ جلدوں میں لکھی جانے والی تفسیر ’’تفہیم القرآن‘‘ بھی خاص اِسی نظریے کے تحت تیار کی گئی۔جو آدمی اِن دونوں تفسیروں کو پڑھتا ہے، اُس کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ اسلام ایک مکمل سیاسی نظام ہے اور اس کو زمین پر غالب اور نافذ کرنا، یہی امتِ مسلمہ کا اصل مشن ہے۔
اِن مسلم رہ نماؤں نے اپنے نقطۂ نظر کی بنا جن آیتوں اور حدیثوں پر رکھی، وہ سب کی سب بلاشبہہ بے بنیاد تھیں۔ ان کی یہ تشریحات یا تو تفسیر بالرائے ہیں، یا وہ تحریف کی نوع سے تعلق رکھتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اِن حضرات نے یہ کام غیر شعوری طورپر کیا ہو، لیکن جہاں تک اُن کے استدلال کی علمی حیثیت کا تعلق ہے، وہ بلاشبہہ مکمل طورپر غلط اور غیر اسلامی ہیں۔ یہاں ہم ان کے بعض دلائل کا تجزیہ کریں گے۔
چند مثالیں
1 - قرآن کی سورہ نمبر بارہ میںآیا ہے کہ حضرت یوسف نے جیل میںاپنے رفیق پر تبلیغ کرتے ہوئے کہا: إن الحکم إلاّ للّٰہ، أمر أن لاّ تعبدوا إلاّ إیّاہ (یوسف: 40) اِس آیت کو لے کر کہا جاتا ہے کہ یہاں ’حکم‘ سے مراد سیاسی اقتدار ہے، حضرت یوسف یہ کہہ رہے ہیں کہ سیاسی اقتدار صرف خدا کا حق ہے، اِس لیے خدا ہی کی حکومت زمین پر قائم ہوناچاہیے۔
یہ تفسیر بلاشبہہ ایک باطل تفسیر ہے۔ اِس آیت کا پورا سیاق بتا رہا ہے کہ یہاں حُکم سے مراد فوق الفطری اقتدار ہے، یعنی وہی بات جس کو قرآن میں دوسرے مقام پر ربّ العالمین کہاگیا ہے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان کا خالق و مالک صرف خدا ہے، نہ کہ تمھارے مفروضہ معبود۔ اِس لیے تم کوچاہیے کہ تم اَصنام کی پوجا چھوڑ دو اور صرف ایک خدا کی عبادت کرو۔ خود حضرت یوسف کی عملی روش سے یہی بات ثابت ہوتی ہے، کیوں کہ حضرت یوسف نے مصر کے معاصر بادشاہ کے تحت ایک سرکاری عہدہ قبول کرلیا، حالاں کہ یہ بادشاہ مشرک تھا اور وہ اپنے قومی مذہب کے مطابق، اصنام پرستی میں مبتلا تھا۔
2 - اِس معاملے میں ایک استدلال ایک صحابی کے قول کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہ صحابی رَبعی بنِ عامر تھے۔ وہ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں مسلم فوج کے ساتھ ایران گیے، وہاں ان کی گفتگو ایرانی سپہ سالار رستم سے ہوئی۔ اُس نے پوچھا کہ تم لوگ کیوں ہمارے ملک میںآئے۔ ربعی بن عامر نے جواب دیا کہ ہم یہاں اِس لیے آئے ہیں تاکہ خدا کے بندوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر خدا کی عبادت میں لائیں (لنُخرج مَن شاء مِنْ عبادۃ العبادِ إلی عبادۃ اللہ، تاریخِ طبری) صحابی کے اِس قول کو لے کر یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اسلام کا مشن ’تحریر الانسان‘ ہے، یعنی انسان کو انسانی جبر اور انسانی استحصال سے آزاد کرانا۔
یہ تشریح سرتاسر غیر علمی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے رسول اور اصحابِ رسول کو جو مشن سپرد کیا تھا، وہ ان کے زمانے ہی میں انجام پاگیا۔ اُس زمانے میں ساری دنیا میںبادشاہت کا نظام تھا اور بادشاہ لوگ اپنے سیاسی مفاد کے لیے مذہبی جبر (religious persecution) قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ نظامِ جبر، خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف تھا، اِس لیے خدا نے حکم دیا کہ اِس جبر کا خاتمہ کردو۔ چناں چہ پہلے عرب میںاِس کو ختم کیا گیا، اس کے بعد ایرانی شہنشاہیت اور رومی شہنشاہیت کا خاتمہ کرکے ایک ایسے دَور کا آغاز کیاگیا جس کے نتیجے میں ساری دنیا میں مذہبی جبر کے بجائے، مذہبی آزادی کا دَور دَورہ ہو۔
اِسی حقیقت کو صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عمر نے اِن الفاظ میںبیان کیا تھا: فعلنا علیٰ عہد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فتح الباری، جلد 8، صفحہ 32)، یعنی وہ تو ہم نے عہدِرسالت ہی میں آخری طورپر انجام دے دیا۔ اب اہلِ اسلام کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ مذہبی آزادی کے مواقع کو استعمال کرکے دعوت الی اللہ کا کام کریں، نہ کہ جھوٹی لڑائی چھیڑ کر دوبارہ دنیا میں جبر کا ماحول قائم کردیں۔
3 - ایک حدیثِ رسول، ابنِ ماجہ، الترمذی اور مسند احمد میں آئی ہے۔ اس کو مشکاۃ المصابیح میں حدیث نمبر 29 کے تحت دیکھا جاسکتا ہے۔ اِس روایت کے مطابق، ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھ کو جنت میں داخل کردے اور مجھ کو جہنم سے دور کردے۔اِس کے جواب میں آپ نے اُن کو عبادتِ خدا، روزہ، نماز، حج، زکوٰۃ، ذِکر اللہ، صدقہ (انفاق)اور حفظِ لسان کی تلقین کی۔ آپ نے جو جواب دیا، اُس میں ایک جملہ یہ تھا: وذِروَۃُ سَنامِہ الجہاد (اور اُس کی چوٹی جہاد ہے)۔
’وذروۃُ سَنامہ الجہاد‘ کے جملے کو لے کر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں خیرِاعلیٰ (summum bonum)گردن کٹانا ہے، یعنی جہاد اور قتال کرکے ساری دنیا میں اسلام کی حکومت قائم کرنا، اور خدا کی زمین پر خدا کے احکام نافذ کرنا۔
حدیث کی یہ تشریح سخت غیر علمی اور غیر منطقی ہے۔ اِس میں جہاد کا لفظ ہے، نہ کہ قتال کا لفظ۔ سیاق کے مطابق، یہاں جہاد سے مراد جہادِ نفس ہے، جیسا کہ دوسری حدیث میںآیا ہے: المجاہد من جاہد نفسَہ فی طاعۃ اللہ (مسند احمد، جلد 6 ، صفحہ 21) بالفرض اگر اِس حدیث میں جہاد کو قتال کے معنیٰ میں لیا جائے، تب بھی وہ صرف بوقتِ جارحیت قتال کے معنی میں ہوگا، پھر بھی اِس سے یہ خود ساختہ مفہوم نہیں نکلتا کہ اسلام ایک مکمل نظام ہے اور اس کو لڑکر ساری دنیا میں نافذ کرنا ہے۔
اسلام کی سیاسی تعبیر کے موضوع پر جو کچھ اُردو، یا عربی، یا انگریزی میں لکھا گیا ہے، اُس کا بڑا حصہ میں نے پڑھا ہے۔ذاتی مطالعے کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ تعبیر کسی نص کی بنیاد پر قائم نہیں ہے،وہ صرف قیاس اور استنباط کی بنیاد پر قائم ہے۔ اوریہ ایک مسلّم بات ہے کہ اساسی امور میں منصوص استدلال درکار ہوتا ہے، قیاسی اور استنباطی استدلال اِس طرح کے معاملے میں کبھی بنائِ استدلال نہیں بن سکتا۔
اِن حضرات کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ غلط استنباط کے ذریعے ایک سادہ آیت، یا حدیث میں سیاسی مفہوم شامل کردیتے ہیں۔ مثلاً دین کو اسٹیٹ کے ہم معنیٰ بتانا، نماز یا جماعت کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ عسکری ٹریننگ ہے، روزے کو فوجی مشقت کی تربیت بتانا، وغیرہ۔ اِس قسم کا استدلال سخت غیرعلمی استدلال ہے۔ اگر اِس قسم کے استدلال کو جائز استدلال قرار دیا جائے تو دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن اور حدیث سے ثابت نہ کی جاسکے، حتی کہ اِس قسم کے استنباطی استدلال کے ذریعے اسلام کو ایک منسوخ دین بھی ثابت کیا جاسکتاہے۔
اِس سلسلے میں غیر علمی استدلال کی ایک اور قسم وہ ہے جس میں حرفِ عطف (واو) کی مدد سے بے بنیاد طورپر ایک غیر متعلق چیز کو اسلام کی کسی تعلیم میں شامل کردیا جاتا ہے۔ مثلاً کچھ لوگوں نے اِسی طریقے کے مطابق یہ کہا کہ شرکِ اعتقادی اور شرکِ عملی کے ساتھ شرک کی ایک اور قسم ہے اور وہ شرکِ سیاسی ہے۔ لا معبودَ إلاّ اللہ کے ساتھ اُس کا ایک اور جز ہے اور وہ لا حاکمَ إلا اللہ ہے۔ اِسی طرح کہا گیا کہ عبادت کے لفظ میں پرستش کے سوا ایک اور مفہوم شامل ہے اور وہ اطاعت ہے، وغیرہ۔ مگر اِس قسم کے تمام اضافے بلاشبہہ بے حقیقت اور بے بنیاد ہیں۔
تعلیماتِ اسلام کے دو پہلو
مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے دوبڑے پہلو ہیں۔ قدیم اصطلاح میں اِن دونوں پہلوؤں کو ’حَسَن لذاتہ‘ اور ’حَسَن لِغیرہ‘ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے، یعنی کچھ چیزیں وہ ہیں جو اپنے آپ میں مطلوب ہوتی ہیں، اور کچھ چیزیں وہ ہیںجو کسی اور چیز کی نسبت سے مطلوب ہوتی ہیں۔ اِس تقسیم کے مطابق، ذکر اللہ ’حسن لذاتہ‘ ہے اور قتال ’حسن لغیرہ‘۔
اِس فرق کو دوسرے الفاظ میں اِس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ اسلام میںکچھ چیزیں وہ ہیں جو میٹر آف پرنسپل (matter of principle) کی حیثیت رکھتی ہیں، اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کی حیثیت میٹر آف کنوی نینس (matter of convenience) کی ہے۔ اِس تقسیم کے مطابق، سیاسی اقتدار کا معاملہ دوسری نوعیت کے حکم سے تعلق رکھتا ہے۔
چناں چہ جہاں تک پہلی نوعیت کے احکام کا تعلق ہے، اُن کے بارے میں قرآن میں براہِ راست زبان میںاحکام دیے گیے ہیں۔مثلاً توحید کے بارے میں فرمایا کہ: قل ہو اللّٰہ أحد (الإخلاص: 1)، عبادت کے بارے میں فرمایا کہ: لا إلٰہ إلاّ أنا فاعبدنِی (طٰہٰ: 14 ) ، عدل اور انصاف کے بارے میں فرمایا: إنّ اللّٰہ یأمرکم بالعدل والإحسان (النّحل: 95) ،مگر جہاں تک سیاسی اقتدار کا تعلق ہے، اس کے بارے میں کہیں بھی اِس طرح براہِ راست حکم نہیں دیاگیا، یعنی کہیں بھی اِس طرح کے الفاظ نہیں آئے کہ تم لوگ اسلامی حکومت قائم کرو، یا زمین میں اسلامی قوانین کو نافذ کرو، یہی امت کی حیثیت سے تمھارا نصب العین ہے۔ اِس معاملے میں سیاست پسند افراد کی طرف سے جو دلائل دیے گیے ہیں، وہ سب کے سب قیاسی اور استنباطی ہیں، مگر اِس قسم کے اساسی معاملے میں مبنی بَر نص استدلال درکار ہے، نہ کہ مبنی برقیاس استدلال۔
حاکم کا تقرر
تمام دنیا کے سیاسی نظاموں میں واضح طورپر یہ موجود رہتا ہے کہ حاکم کا تقرر کس طرح کیا جائے، مگر قرآن میں اِس معاملے میں کوئی واضح حکم موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائی زمانے کے مثالی دَور میں جن خلفائے اسلام کا تقرر ہوا، اُن میں سے ہر ایک کا تقرر الگ الگ ڈھنگ سے ہوا، گویا کہ ان کا تقرر حالات کے مطابق ہوا، نہ کہ کسی مستقل اصول کے مطابق۔
اسلام کے دورِ اوّل کو ہر معاملے میں ایک معیاری دَور مانا جاتا ہے۔ اُس زمانے میں چھ خلفاء ایسے تھے جن کو اسلام میں مثالی حکم راں کا درجہ حاصل ہے— ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان بن عفّان، علی بنِ ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان، عمر بن عبد العزیز۔ اِن میں سے ابتدائی پانچ خلفاء اصحابِ رسول میں شامل تھے۔ چھٹے خلیفہ عمر بن عبد العزیز کا شمار اجلّۂ تابعین میں سے ہوتا ہے۔ علماء نے بالاتفاق ان کو ’خلیفۂ راشد‘ کا درجہ دیا ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اِن تمام خلفاء کا تقرر الگ الگ طریقے سے کیاگیا نہ کہ کسی ایک مقرر طریقے کے مطابق، کیوں کہ اس معاملے میںکوئی ایک متعین طریقہ موجود ہی نہ تھا۔ یہ واقعہ واضح طورپر بتاتا ہے کہ سیاسی اقتدار کا معاملہ اسلام میں نماز او رروزے کی طرح اصولی معاملہ نہیں ہے، اگر وہ اصولی معاملہ ہوتا تو توحید اور عبادت کی طرح اُس کے لیے بھی متعین احکام موجود ہوتے۔ یہ واقعہ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کا معاملہ میٹرآف کنوی نینس (matter of convenience) کی قسم سے تعلق رکھتا ہے، وہ عقیدے اور اصول کا معاملہ نہیں۔
خیرِ اعلیٰ: معرفتِ خداوندی
اسلام میں خیرِ اعلیٰ (summum bonum) کا درجہ صرف ایک چیز کو حاصل ہے، اور وہ معرفت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفتِ خداوندی کے سوا، کسی اور چیز کو خیرِ اعلیٰ کا درجہ دینا، خدا کی بھی تصغیر ہے اور خدا کے دین کی بھی تصغیر ۔ جو لوگ سیاسی نظام کو خیر اعلیٰ سمجھتے ہیں، ان کے بارے میں کم سے کم جو بات کہی جاسکتی ہے، وہ یہ ہے کہ انھوں نے معرفتِ خداوندی کی عظمت کو دریافت نہیں کیا۔ اگر وہ معرفتِ خداوندی کی عظمتوں سے واقف ہوتے تو انھیں یہ بات سخت مضحکہ خیز معلوم ہوتی کہ معرفتِ خداوندی کے بجائے، ایک سیاسی نظام کو خیر اعلیٰ کا درجہ دیا جائے۔
قرآن کی سورہ نمبر تین میں ارشاد ہواہے: کونوا ربّانییّین (آل عمران: 79 ) یعنی تم لوگ ربّانی بنو۔ اِسی طرح قرآن میں ایسی آیتیں ہیں جن میں تلقین کی گئی ہے کہ تم لوگ ذاکرین بنو، تم لوگ خاشعین بنو، تم لوگ مخبتین بنو، تم لوگ عارفین بنو، تم لوگ خائفین بنو، تم لوگ متقین بنو، تم لوگ قانتین بنو، وغیرہ۔ یہ تصور سارے قرآن میں پھیلا ہوا ہے۔ ایک امریکی اسکالر نے اسلام کے گہرے مطالعے کے بعد ایک کتاب شائع کی ہے۔ اِس میں وہ بجا طورپر لکھتا ہے کہ:
The greatest concern of Islam is Allah.
اِس کے برعکس، قرآن میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا ہے کہ اے اہلِ ایمان، تم لوگ سیاسی بنو، تم لوگ زمین کے حاکم بنو، اِس قسم کی بات قرآن میں کہیں بھی موجود نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کتابِ معرفت ہے، نہ کہ کتابِ سیاست۔ یہی بات قرآن کے موضوع کے مطابق ہے۔ قرآن کا موضوع خدائے برتر کا تعارف ہے۔ اور زمین و آسمان کے خالق و مالک کا تعارف جس کتاب میں بیان کیا جائے، اس کا سب سے زیادہ اہم موضوع بلا شبہہ معرفت ہوگا، نہ کہ سیاست۔
سیاسی تعبیر کا نقصان
اسلام کی سیاسی تعبیر کوئی سادہ بات نہیں، یہ خود اسلام کی نفی کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس قسم کی تعبیر فطری طور پر لوگوں کا ذہن سیاسی بنا دیتی ہے۔ سیاسی موضوعات ہی اُن کے لیے سب سے زیادہ اہم موضوعات بن جاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ معرفت ایک ایسا موضوع ہے جس کا نشانہ خود آدمی کا اپنا وجود ہوتا ہے۔ ایسے آدمی کی توجہ ہمیشہ اپنی اصلاح پر لگی رہتی ہے، اپنی شخصیت کی تعمیر اور اپنے آپ کو خدا سے وابستہ کرنا، یہی اس کا سپریم کنسرن بن جاتا ہے۔
اِس کے مقابلے میں سیاست کا موضوع بالکل برعکس ذہن بناتا ہے۔ معرفت کی صورت میں سوچ کا نشانہ اگر داخلی تھا، تو سیاست کی صورت میں سوچ کا نشانہ خارجی بن جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِس خارجی نشانے کی حیثیت آدمی کے لیے حریف کی ہوتی ہے۔ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے کہ اُس کی اصل کامیابی یہ ہے کہ وہ اپنے سیاسی مدّ ِمقابل کو شکست دے اور اُس کے اوپر غلبہ حاصل کرے۔
معرفت کا نشانہ آدمی کے باطن کو خدا کی روشنی سے بھر دیتا ہے، اس کے اندر ہر قسم کی مثبت صفات پیداہونے لگتی ہیں۔ اِس کے برعکس، سیاست کا نشانہ آدمی کے باطن کو ظلمات سے بھر دیتا ہے۔ اُس کا وجود ہر قسم کی منفی نفسیات کا جنگل بن جاتا ہے۔ یہاں پہنچ کر آدمی کا یہ حال ہوتا ہے کہ وہ بظاہر ’مکمل اسلام‘ کی بولی بولتا ہے، لیکن عملاً اس کا وجود ’جزئی اسلام‘ سے بھی خالی ہوکر رہ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جامع تصور یا تخریبی تصور

کچھ لوگ اسلام کا جامع تصور پیش کررہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ— اسلام ایک مکمل نظام ہے۔ اسلام میں صرف عقیدہ اور عبادت اور اخلاق شامل نہیں ہیں، بلکہ پولٹکل سسٹم بھی اس کا لازمی جز ہے۔ پولٹکل سسٹم کو قائم کیے بغیر اسلام ادھورا رہتا ہے، وہ مکمل نہیں ہوتا۔ یہ بظاہر اسلام کا جامع تصور ہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ صرف ایک تخریبی تصور ہے۔ موجودہ زمانے کی مسلم ملیٹنسی (Muslim militancy) اِسی نام نہاد جامع تصور کی براہِ راست پیداوار ہے۔
آپ اسلام کے عقیدے کو مانیں، اسلامی طریقے پر عبادت کریں، اسلام کے اخلاقی اصولوں کی پابندی کریں تو یہ آپ کا ایک ذاتی عمل ہوتا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے کسی اور کے ساتھ آپ کا ٹکراؤ پیش نہیں آتا، لیکن جب آپ اپنا نشانہ یہ بنائیں کہ مجھے زمین پر اسلامی حکومت قائم کرنا ہے تو یہ نشانہ فوراً آپ کو دوسرے سے ٹکرا دیتا ہے۔ اس لیے کہ پولٹکل اقتدار کوئی خالی سیٹ نہیں ہے جس پر جاکر آپ بیٹھ جائیں۔ پولٹکل اقتدار ہمیشہ کسی کے قبضے میں ہوتا ہے،اِس لیے پولٹکل گدّی کو حاصل کرنے کے لیے فوراً دوسروں سے ٹکراؤ پیش آتا ہے۔ اِس طرح آپ کا نشانہ آپ کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ آپ اقدام کرکے قابض لوگوں سے اقتدار کی کنجیاں چھین لیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ نظریہ قدرتی طورپر دو گروہوں کے درمیان تشدد اور ٹکراؤ کی صورت پیدا کردیتا ہے۔
پھر یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ جب آپ یہ دیکھتے ہیں کہ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کی کوشش میںآپ ایسا نہیں کرسکے کہ اربابِ اقتدار کو ان کی گدیوں سے ہٹا دیں، کیوں کہ اربابِ اقتدار کے پاس پولیس اور فوج کی طاقت ہوتی ہے، آپ اِس پوزیشن میں نہیں ہوتے کہ اُن سے براہِ راست ٹکراؤ کرکے سیاسی ادارے پر قبضہ کرلیں، چناں چہ آپ اپنے اِس اقدام میں ناکام رہتے ہیں۔
اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا یہ ناکام تجربہ آپ کے اندر ایک اور برائی پیدا کرتا ہے۔ اب آپ معصوم عوام پر گولیاں چلاتے ہیں، ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ کرتے ہیں، اسکول اور بازار میں بم مارتے ہیں۔ اِس منفی کارروائی کی آخری حد یہ ہوتی ہے کہ آپ خود کُش بم باری (suicide bombing) شروع کردیتے ہیں۔ اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کا جو اقدام دوسروں کے خلاف تشدد سے شروع ہوا تھا، وہ خود اپنے آپ کو ہلاک کرنے تک پہنچ جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مختلف مقامات پر جو مسلم ملیٹنسی جاری ہے، وہ براہِ راست طورپر اِسلام کے اِسی نام نہاد جامع تصور کا نتیجہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام اصلاً اپنے آپ کو خدا کے احکام کا پابند بنانے کا نام ہے۔ جہاں تک اجتماعی نظام میں اسلام کے سیاسی اور قانونی احکام کے نفاذ کا سوال ہے، وہ تمام تر حالات پر منحصر ہے۔ سماج اگر اِن احکام کو قبول کرنے کے لیے تیار ہوتو پُر امن کوششوں کے ذریعے اِن احکام کی بجا آوری کی جائے گی، ورنہ نہیں۔ اسلام کا اصول، تکلیف بقدرِ وسعت (البقرۃ: 286 ) کا اصول ہے۔ اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے اجتماعی ارادہ(social will) درکار ہے۔ گَن اور بم کی طاقت سے یہ کام کبھی انجام نہیں پاسکتا۔ گن اور بم کا طریقہ صرف تباہ کن تشدد پیدا کرتا ہے، اِس منفی انجام کے سوااس کا کوئی اور انجام نہیں۔
جامع تصور کی غلطی کو واضح کرنے کے لیے یہاں میںایک مثال دوں گا۔ چیزیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک، مکان اور دوسرے، درخت۔ اگر آپ مکان کا ایک جامع تصور دیں اور یہ کہیں کہ جامع مکان وہ ہے جس میں برآمدہ ہو،بیڈ روم ہو، ملاقات کا کمرہ ہو، کچن ہو، باتھ روم ہو، وغیرہ، تو مکان کے بارے میں آپ کا یہ بیان درست ہوگا، کیوں کہ مکان مختلف الگ الگ اجزا کا مجموعہ ہوتا ہے۔ جس مکان میں اس کا ہر جز موجود ہو، اس کو ایک جامع مکان کہاجائے گا۔
لیکن اگر آپ یہ کہیں کہ درخت کا جامع تصور یہ ہے کہ اس کے اندر جڑیں ہوں، تنا ہو، شاخیں ہوں، پتیاں ہوں، پھل اور پھول ہوں، تو یہ ایک غلط بات ہوگی، کیوں کہ درخت مختلف الگ الگ اجزا کو ملا کر نہیں بنتا، بلکہ وہ ایک بیج کے نشو ونُما (growth) سے وجود میں آتا ہے۔ اِس لیے درخت کے بارے میں جامع تصورنہیں پیش کیا جائے گا، بلکہ سارا زور اس پر دیا جائے گا کہ اس کا بیج ایک صحت مند بیج ہو، کیوں کہ صحت مند بیج کے ظہور ہی کا دوسرا نام درخت ہے۔
اسلام کی مثال درخت کی مانند ہے۔ چناںچہ قرآن میںایمان اور اسلام کی مثال شجرۂ طیّبہ (إبراہیم: 24) سے دی گئی ہے۔ جس طرح درخت ایک بیج سے ترقی کرکے درخت بنتا ہے، اِسی طرح اسلام ایک کلمہ سے ترقی کرکے پورا وجود بنتا ہے۔ اسلام کے بارے میں صحیح تشریح یہ ہے کہ اُس کو حقیقی تصور کی اصطلاح میں بیان کیا جائے، نہ کہ جامع تصور کی اصطلاح میں۔
درخت کی اصلاح کے لیے اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ اُس کی پتیوں کو کاٹے، اُس کی شاخوں پر محنت کرے، اُس کے تنے پر زور آزمائی کرے تو اِس قسم کی تمام چیزیں درخت میں کوئی اصلاح یا ترقی نہیں لائیں گی، بلکہ وہ درخت کی تباہی کا ذریعہ بنیں گی۔ اِس قسم کی کوششوں کے نتیجے میں درخت مزید شاداب نہیں ہوگا، بلکہ وہ سوکھ کر رہ جائے گا۔
یہی معاملہ دین کا ہے۔ دین کی اصل، تعلق باللہ ہے۔ اِسی کے ساتھ دین کے بہت سے ظواہر ہیں۔ اگر کوئی شخص ظواہر کو اہمیت دے کر اُس میں محنت کرے، یا پُر تشدد جدوجہد کرے تو اِس سے دین میں کوئی بہتری نہیں آئے گی، بلکہ دین کا معاملہ کچھ اور بگڑ جائے گا، حتیٰ کہ اگر اچھی نیت اور اخلاص کے ساتھ ایسا کیا جائے تب بھی دین یا اہلِ دین میں کوئی حقیقی اصلاح آنے والی نہیں۔
دین یا اہلِ دین میں ترقی کا کام یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر حقیقی معنوں میں تعلق باللہ پیدا کیا جائے۔ لوگوں کے اندر ربّانی شعور کو جگایا جائے۔ لوگوں کو خدا کی پکڑ سے ڈرنے والا بنایا جائے۔ یہی وہ چیز ہے جو دین یا اہلِ دین کے اندر حقیقی معنوں میں کوئی مثبت نتیجہ پیدا کرے گی۔ اِس بنیادی کام کے بغیر ہر گز مطلوب نتیجہ نکلنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نظریاتی تشدّد

تشدد ایک جذباتی عمل ہے۔ یہ بُرائی ہمیشہ انسانی زندگی میں پائی جاتی رہی ہے، مگر کمیونسٹ مفکر کارل مارکس (وفات: 1883 ) پہلا شخص تھا جس نے تشدد کو ایک باقاعدہ نظریہ بنایا۔ کارل مارکس نے اپنے اِس نظریاتی تشدد کو تاریخی ناگُزیریت(historical determinism) قرار دیا اور اُس کو جَدلیاتی مادّیت(dilectical materialism) کا نام دیا۔
موجودہ زمانے میں کچھ مسلم مفکرین پیدا ہوئے، جنھوں نے اِس نظریاتی تشدد کو اسلامائز کیا اور اُس کو جہاد کے نام سے اسلام میں داخل کردیا۔اِس معاملے میں وہ اِس انتہا تک گیے کہ انھوں نے کہا کہ باطل سے اقتدار کی کنجیوں کو چھیننے کے لیے ہتھیار کا استعمال ضروری ہے، اور یہ کہ گردن کٹانا، اسلام میں خیرِ اعلیٰ(summum bonum) کی حیثیت رکھتا ہے۔یہ متشددانہ فلسفہ اتنا لغو ہے کہ وہ اسلام جیسے مذہب کے لیے اِزالۂ حیثیتِ عُرفی کا درجہ رکھتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاد پُر امن جدوجہد کا نام ہے۔ جہاد کے نام پر تشدد کرنا بلا شبہہ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔
تشدد ایک منفی کارروائی ہے اور منفی کارروائی کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ کبھی نہیں نکلتا۔ چناں چہ موجودہ زمانے میں مسلم ملکوں میں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ اِس نظریے کے حاملین نے پہلے خود ساختہ طورپر ’’باطل‘‘ کو ہٹانے کے نام پر متشددانہ جہاد کیا اور جب قانونِ فطرت کے مطابق، اُن کا مفروضہ باطل نظام نہیں ہٹا تو اِس کے بعد وہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف تشدد کرنے لگے۔ گویا کہ اُن کا وہ حال ہوا جس کی پیشین گوئی حدیث میں اِن الفاظ میں کی گئی تھی: لا ترجعوا بَعدی کُفّاراً، یضرب بعضکم رقابَ بعض۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی)
مسلمانوں کے متشددانہ جہاد کا یہ آخری انجام کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کو مارنے لگیں، یہ اپنے آپ میں اِس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کا جہاد جہاد نہ تھا، بلکہ وہ جہاد کے نام پر فساد تھا۔ ورنہ اُس کا یہ الٹا نتیجہ کبھی نہ نکلتا۔
واپس اوپر جائیں

جہاد کیا ہے

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم ایک غزوہ سے واپس ہو کر مدینہ پہنچے تو آپ نے فرمایا: رجعنا من الجہاد الأصغر إلی الجہاد الأکبر (ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں) اس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ ہم وقتی جہاد سے مستقل جہادکی طرف واپس آئے ہیں:
We have come back from temporary jihad to permanent jihad.
غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وقتی جہاد سے مراد دفاعی جہاد (defensive jihad) ہے، جو کبھی کبھی پیش آتا ہے، اور مستقل جہاد سے مراد اسپریچول جہاد(spiritual jihad) ہے، جو ہر آدمی کی زندگی میں مستقل طورپر جاری رہتا ہے۔ اِس بات کو ایک اور حدیث میں اِس طرح بیان کیا گیا ہے: جاہدوا أہوائَکم کما تجاہدون أعدائکم۔ یعنی اپنی خواہشات سے جہاد کرو، جس طرح تم اپنے دشمن سے جہاد کرتے ہو۔
دشمن کے خلاف جہاد انتہائی وقتی چیز ہے، جو اُس وقت پیش آتا ہے جب کہ کسی نے باقاعدہ طورپر ریاست کے اوپر حملہ کردیا ہو۔ یہ دفاعی جہاد ہے، اور اِس میں صرف کچھ تربیت یافتہ افراد حصہ لیتے ہیں، نہ کہ ساری مسلم کمیونٹی۔ اِس کے برعکس، اپنے نفس کے خلاف جہاد ایک انفرادی نوعیت کی چیز ہے اور وہ ہر مومن کی زندگی میں جاری رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا امتحان کی دنیا ہے۔ اِس لیے اس دنیا میں ہر عمل کو کرنے کے لیے اپنے نفس کے ساتھ مقابلہ پیش آتا ہے۔ اپنے نفس سے کامیاب مقابلے کے بغیر کوئی آدمی جہادِ نفس کے کام کو انجام نہیں دے سکتا۔ مثال کے طور پر یہ ایک ثواب کا کام ہے کہ آپ جب کسی شخص سے ملیں تو کہیں’السلام علیکم‘ (تمھارے اوپر سلامتی ہو) ۔ یہ کلمہ اتنا بڑاعمل ہے کہ اِس کے کہنے پر حدیث میں جنت کی بشارت دی گئی ہے۔ مگر موجودہ دنیا میں جب آدمی لوگوں کے ساتھ رہتا ہے تو بار بار اُس کو دوسروں کی طرف سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِس بنا پر ہر آدمی کے دل میں دوسروں کے خلاف شکایت کے جذبات موجود رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں حقیقی معنوں میں ’السلام علیکم‘ صرف وہ شخص کہہ سکتا ہے جو اس سے پہلے اپنے دل کو ہر قسم کے منفی جذبات سے پاک کرے اور اس کے بجائے اپنے دل کو لوگوں کے لیے خیر خواہی کے جذبات سے بھردے۔غور کیجئے تو یہ کام اتنا مشکل ہے کہ اِس کے لیے وہی زبردست کوشش کرنی پڑے گی جس کو جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ: الحمد للّٰہ تملأ المیزان (الحمد للہ کا کلمہ میزان کو بھر دیتا ہے) غور کیجئے تو یہ بھی کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ سچا الحمد للہ کہنے کے لیے بہت بڑا ذہنی عمل درکار ہے۔ الحمد للہ کہنا، خدا کی نعمتوں پر شکر کا اظہار کرنا ہے۔ خدا کی یہ نعمتیں آدمی کو مسلسل طورپر لاتعداد صورتوں میں ملتی رہتی ہیں۔ یہ نعمتیں ہر آدمی کو اپنے آپ ملتی ہیں۔ چناں چہ آدمی ان کا عادی ہوجاتا ہے اور عادی ہونے کی بنا پر شعوری طورپر ان کو بطور نعمت محسوس نہیں کرتا۔ایسی حالت میں الحمد للہ کہنے کے لیے ایک فکری جہاد کرنا پڑتا ہے۔ اُس کو یہ کرنا پڑتا ہے کہ وہ اپنی تفکیری قوتوں کو عمل میں لاکر غیر شعور کو اپنے شعور میں لائے، اپنے جذبات کی نئی رُخ بندی کرے، وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرنے کے لیے مجاہدبن جائے۔ اِس کے بعد ہی اس کی زبان سے وہ کلمۂ حمد نکلتا ہے جو میزان کو بھر دینے والا کلمہ ہے۔
آدمی کے اندر طرح طرح کی خواہشیں ہیں— حرص، علو پسندی، دوسرے کو حقیر سمجھنا، بے صبری، غصہ اور انتقام، وغیرہ۔ آدمی ہر وقت اِن منفی جذبات کے تابع رہتا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ کچھ چیزوں کو اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ مثلاً دولت، شہرت اور اولاد، وغیرہ۔ آدمی کی یہ بے پناہ خواہش ہوتی ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کو بھر پور طور پر حاصل ہوجائیں۔
نفرت اور محبت کے یہ مختلف جذبات، آدمی کے اوپر ہر وقت چھائے رہتے ہیں، وہ جو کچھ سوچتا ہے، اِنھیں جذبات سے مغلوب ہوکر سوچتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر انھیں جذبات کے تحت اپنی زندگی کا نقشہ بناتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ بلا شبہہ ایک جہادی عمل ہے کہ آدمی خدا کو مسلسل طورپر اپنا مرکزِ توجہ بنائے، وہ صراطِ مستقیم سے اپنے آپ کو ہٹنے نہ دے— یہی وہ پُر مشقت عمل ہے جس کو حدیث میں جہادِ نفس کہاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقیدہ اور سیاست

دینِ اسلام کے دوبڑے حصے ہیں۔ ایک حصہ وہ ہے جس کا تعلق ابدی عقیدے سے ہے، اور دوسرا حصہ وہ ہے جو حالات کے تابع ہوتا ہے، اس لیے اس میں تغیر ہوسکتا ہے۔ پہلا حصہ حقیقی (real) ہے، اور دوسرا حصہ اضافی (relative)۔ پہلے حصے کو میٹرآف بلیف (matter of belief) کہیں گے، اور دوسرے حصے کو میٹر آف کنوی نینس (matter of convenience) کہیں گے۔
عقیدے سے مراد، توحید اور رسالت اور آخرت کا عقیدہ ہے، عبادت بھی اِسی میں شامل ہے۔ میٹر آف کنوی نینس میں جو چیزیں شامل ہیں، اُن میں سے ایک سیاست اور حکومت ہے۔ عقیدہ اور عبادت میںابدیت (eternity) ہے، ان کی مطلوبیت دائمی ہے۔ لیکن سیاست اور حکومت کا معاملہ اُس سے الگ ہے۔ جیسے حالات ہوں گے اُسی کے مطابق، سیاست اور حکومت کے معاملات بھی ہوں گے۔
اسلام میں سیاست کو عقیدے کا مسئلہ نہیں بنایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قائم شدہ حکومت کے خلاف خروج (revolt) کرنا حرام ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جب ایک حکومت قائم ہو جائے تو اُس کے خلاف ہر گز باغیانہ کارروائی نہ کی جائے، بلکہ اس کے ساتھ معتدل تعلقات قائم رکھتے ہوئے غیر سیاسی دائروں میں کام کیا جائے، مثلاً دعوت، تعلیم اور اصلاحی کام ، وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلام میں خلیفہ کے تقرر کا کو ئی متعین اصول موجود نہیں۔ اِس معاملے میں قرآن میں کوئی ہدایت نہیں دی گئی۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ کو معیاری زمانہ مانا جاتا ہے ۔ اِس زمانے میں چھ برحق خلیفہ، یا حکم راں ہوئے— ابوبکر صدیق ، عمر فاروق، عثمان بن عفّان، علی ابن ابی طالب، معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم اور عمر بن عبد العزیزؒ۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِن میں سے ہر خلیفہ یا حکم راں کا تقرر الگ الگ ڈھنگ سے کیا گیا۔ یہ واضح طورپر اِس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں سیاسی ادارے کے متعلق کوئی متعین نقشہ موجود نہیں۔ حالاں کہ ہر سیاسی دستور میں اس کا واضح ڈھانچہ موجود ہوتا ہے۔
اِس صورت حال کا سبب یہ ہے کہ اسلام کا سب سے بڑا کنسرن خدا ہے۔ اسلام کے نزدیک سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان خدا کی معرفت حاصل کرے۔ وہ خدا کا سچا عبادت گزار بنے۔ وہ اعلیٰ اخلاق کے ساتھ لوگوں کے درمیان رہے۔ اِسی کے ساتھ وہ لوگوں کو خدا کے دین کی طرف بلائے۔ وہ خالص غیر سیاسی انداز میں اسلام کا داعی بن جائے۔ وہ اصلاح اور تعلیم کے دائرے میں لوگوں کی خدمت کرے۔
سیاسی اقتدار کا قیام اسلام کا نشانہ نہیں۔ قرآن کے مطابق، سیاسی اقتدار کی حیثیت پرچۂ امتحان کی ہے، اُس کا معاملہ مال جیسا ہے۔ مال انسان کے لیے امتحان کا پرچہ ہے، اس لیے مال کبھی ایک انسان کے پاس ہوتا ہے اور کبھی دوسرے انسان کے پاس۔ کیوں کہ خدا کو ہر انسان کا ٹیسٹ لیناہے۔ اگر مال و دولت کو ابدی طورپر کسی ایک فرد یا گروہ کا حصہ بنادیا جائے تو مال کی نسبت سے دوسرے لوگوں کی آزمائش نہ ہوسکے گی، حالاں کہ ایسا ہونا خدا کے تخلیقی پلان کے خلاف ہے۔
یہی معاملہ سیاسی اقتدار کا ہے۔ سیاسی اقتدار بھی امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ سیاسی اقتدار کسی کو اِس لیے دیا جاتا ہے کہ اُس کو آزما کر دیکھا جائے کہ وہ اقتدار پاکر کیسا رہا۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی اقتدار کسی ایک فرد یا گروہ کے ہاتھ میں نہیں رہتا، بلکہ وہ مختلف لوگوں کے درمیان گردش کرتا رہتا ہے۔ اِس اصول کو قرآن میں اِن الفاظ میں بتایا گیا ہے: تلک الأیّام نداولھا بین الناس (آل عمران: 140 )
اسلام میں سیاسی اقتدار کا مطلق طورپر مطلوب نہ ہونا کوئی کمی کی بات نہیں، یہ انسانی فلاح کے لیے بے حداہم اصول ہے۔ انسانوں کے درمیان تمام بڑے بڑے جھگڑے سیاسی اقتدار کو لے کر ہوتے ہیں۔ اِس لیے سیاسی اقتدار کے معاملے میں اسلام نے اسٹیٹس کوازم (statusquoism) کا اصول اختیار کیا ہے۔ اِس اصول کا فائدہ یہ ہے کہ سماج میں امن قائم رہتا ہے۔ لوگ جنگ اور تشدد سے بچ کر اصلاح اور تعمیر کے کام میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہتے ہیں۔ اِس بات کودوسرے لفظوں میں اِس طرح بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسلام میں بالواسطہ سیاست ہے، نہ براہِ راست سیاست۔
واپس اوپر جائیں

سیکولرازم کیا ہے

سیکولرازم کے بارے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کے لیے دو چیزوں میں فرق کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ ایک ہے سیکولر فلاسفی، اور دوسری چیز ہے سیکولرپالیسی۔ دونوں کے درمیان واضح فرق ہے۔ جو لوگ اِس فرق کو نہ سمجھیں، وہ سیکولرازم کے بارے میں صحیح رائے قائم نہیں کرسکتے۔
سیکولرفلاسفی ابتداء ً اُن لوگوں کے ذہن کی پیداوار تھی جو ملحدانہ سوچ کا شکار تھے۔ مگر بعد کو فلسفے سے الگ ہوکر سیکولرازم، جمہوری نظام کی عملی پالیسی بن گیا۔عملی پالیسی کی حیثیت سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ— مذہبی اُمور کو لوگوں کی انفرادی آزادی کا معاملہ قرار دے دینا، اور مشترک مادّی مفادات کو اسٹیٹ کے دائرے کی چیز سمجھنا۔
قدیم زمانہ مذہبی جبر کا زمانہ تھا۔ موجودہ زمانے میں مذہبی آزادی کو لوگوں کا ایک ناقابلِ تنسیخ حق قرار دے دیا گیا ہے۔ سیکولر پالیسی دراصل لوگوں کی اِسی مذہبی آزادی کا ایک حصہ ہے۔ پہلے زمانے میں یہ طریقہ تھا کہ ایک مذہبی گروہ دوسرے مذہبی گروہ کو آزادی دینے کے لیے تیار نہ ہوتا تھا۔ وہ ان کو مذہبی تعذیب (religious persecution) کا شکار بناتا تھا۔ جدید جمہوریت میںاِس کے برعکس، سیکولر پالیسی کو اختیار کیا گیا، یعنی مشترک مادی امور کو ریاست کے دائرے میں رکھنا اور مذہب اور کلچر کے معاملے میں لوگوں کو کامل آزادی عطا کرنا۔
ہر معاشرے کے لیے ضرورت ہوتی ہے کہ وہاں امن کا ماحول ہو۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔ سیکولر ازم ایک عملی پالیسی کی حیثیت سے قیامِ امن کی یہی تدبیر ہے۔ اِسی تدبیر نے موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں کو قدیم طرز کی مذہبی لڑائیوں سے بچایا ہے۔ چناں چہ انڈیا سے لے کر امریکا اور برطانیہ تک سیکولر اسٹیٹ کے اصول کو اختیار کیاگیا۔ اِس کا مطلب مذہبی مخالفت نہیں، بلکہ مذہبی عدم مداخلت ہے۔ چناںچہ اِن ملکوں میں ہر مذہبی گروہ کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ اِن ملکوں میں جو چیز ممنوع ہے، وہ صرف تشدد ہے نہ کہ اپنے مذہب پر عمل۔
سیکولر ازم کے معاملے میں جو لوگ منفی ذہن رکھتے ہیں، اُس کا سبب یہ ہے کہ وہ دو چیزوں میں فرق نہیں کرتے۔ وہ سیکولر فلاسفی اور سیکولر پالیسی، دونوں کو ایک کرکے دیکھتے ہیں۔ حالاں کہ اِس معاملے میں درست رائے قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا جائے۔
سیکولرازم کے بارے میں منفی ذہن رکھنے والے لوگ ایک اور غلط فہمی کا شکار ہیں۔ وہ سیکولر پالیسی کو صرف مشترک مادی امور تک محدود نہیں رکھتے، بلکہ وہ اس کو مذہبی مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیتے ہیں۔ حالاں کہ موجود زمانے میں سیکولر حکومت کا مطلب مخالفِ مذہب حکومت نہیں ہے، بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ حکومت مذہبی امور میں عدم مداخلت (non-interference) کی پالیسی کی پابند ہے۔ اِس معاملے میں ساری غلط فہمی اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ ان لوگوں نے عدم مداخلت کو مخالفت کے ہم معنیٰ سمجھ لیا۔
اِس معاملے کا ایک پہلو اور ہے، وہ یہ کہ مذہبی آزادی کے اصول میں بیک وقت دو قسم کی آزادی شامل ہے— مذہبی عمل اور مذہبی تبلیغ۔ موجودہ زمانے کے تمام سیکولر ملکوں میں یہ دونوں قسم کی آزادی لوگوں کو مکمل طورپر ملی ہوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مذہبی گروہ انفرادی طورپر اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے دوسرے مذہبی گروہوں کے درمیان اپنے مذہب کی پُرامن تبلیغ پوری طرح جاری رکھ سکتا ہے۔ یہ آزادی اِس حد تک حقیقی ہے کہ اِن ملکوں میں بہت سے لوگ اپنا مذہب بدل لیتے ہیں اور ان پر حکومت کی طرف سے کوئی پابندی عائد نہیں کی جاتی ہے۔ مثلاً حال میں انڈیا میں پست طبقے کے ایک لاکھ ہندوؤں نے بدھ ازم کو قبول کرلیا۔ اِسی طرح امریکا میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ امریکی، اسلامی مذہب کو اختیار کرتے ہیں۔
اس اعتبار سے دیکھیے تو سیکولر پالیسی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مذہبی گروہ بَر وقت انفرادی دائرے میں اپنے مذہب پر عمل کرتے ہوئے یہ کوشش کرسکتا ہے کہ وہ دوسروں کے فکر اور عقیدے کو بدل سکے۔ یہ تبدیلی اگر بڑے پیمانے پر ہوجائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ آئندہ ملک کی اکثریت اپنے فکر اور عقیدے کو بدل لے۔ اِس طرح ایسا ہو کہ جو مذہبی فکر، حال میں انفرادی دین کی حیثیت رکھتا ہے، وہ مستقبل میں اجتماعی دین کا درجہ حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ کا غلط استعمال

ریاست جموں اورکشمیرمیں اکثر،فوج اور تشدد پسندوں کے درمیان ٹکراؤ ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر تشدد پسند لوگ عموماً ایسا کرتے ہیں کہ وہ مذہبی عمارتوں میں داخل ہو کر وہاں پناہ لے لیتے ہیں اور وہاں سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں دونوں طرف سے گولیاں چلتی ہیں اور فطری طورپر مذہبی عمارت کو نقصان پہنچتا ہے۔ یہ صورتِ حال وادی کے مدرسے اور مسجد اور درگاہ، وغیرہ میں عرصے سے جاری ہے۔
ہندستانی فوج نے اِس صورتِ حال کے پیش نظر عرصے سے کشمیر میں ’سد بھاؤنا آپریشن‘ کے نام سے ایک مہم چلا رکھی ہے۔ اُن کے پاس گورنمنٹ آف انڈیا کا فنڈ ہوتا ہے۔ وہ لوگ اس کی مدد سے مسجد اور مدرسہ ا ور خانقاہ کی عمارتوں میں ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتے ہیں اور اُس کو پھر سے درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کام کشمیر میں کئی سالوں سے جاری ہے۔
جون 2007 میں سری نگر کے علاقہ راجوری کدَل میں علما کی ایک کانفرنس ہوئی۔ اِس میں کشمیری مسلمانوں کے مذہبی رہ نما 350 کی تعداد میںشریک ہوئے۔ یہاں انھوں نے فتویٰ یا بیان کی صورت میں متفقہ طورپر ایک ریزولوشن پاس کیا۔ اِس میں کہاگیا تھا کہ مسجد کی مرمّت غیر مسلموں کے ہاتھ سے کرنا، اسلام میں حرام ہے۔ اِس لیے سَد بھاؤنا آپریشن کا یہ کام دین میں مداخلت کی حیثیت رکھتا ہے، گورنمنٹ آف انڈیا کو چاہیے کہ وہ اِس کام کو فوراً بند کرے۔
یہ فتویٰ یا بیان سرتاسر بے بنیاد ہے، یہ اسلام کو اپنے سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنا ہے، اُس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام کی تاریخ میں، اور خود ہندستان میںایسا برابر ہوتا رہا ہے کہ غیر مسلم لوگوں کے تعاون سے مسجدیں بنائی گئی ہیں یا اُن کی مرمّت کاکام ہوا ہے، مگر علما نے کبھی اِس کام کو غلط نہیں بتایا۔
اِس معاملے میں سب سے بڑی مثال خود کعبہ کی ہے، جو گویا کہ تمام مسجدوں کا نمائندہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، کعبہ یا بیت ُ اللہ کو مکہ میں چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بنایا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ساتویں صدی عیسوی کے رُبعِ اوّل میں ہوئی۔ اُس وقت وہاں کعبہ کی جو سنگی عمارت تھی، وہ ابراہیمی تعمیر کے مطابق نہ تھی۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کعبہ کی ابراہیمی عمارت بارش کی وجہ سے ڈھ گئی تھی۔ اُس وقت مکہ کے لوگوں نے کعبہ کی دوبارہ تعمیر کی۔ مکہ کے یہ لوگ مشرک اور بت پرست تھے۔ گویا کہ رسول اللہ کی بعثت کے وقت مکہ میں خانۂ کعبہ کی جو عمارت تھی، وہ مشرکین کے ہاتھوں بنائی گئی تھی، مگر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اُس پر اعتراض نہیں کیا، یہاں تک کہ ہجرت کے آٹھویں سال جب مکہ فتح ہوگیا اور رسول اللہ کو وہاں کا اختیار حاصل ہوگیا، تب بھی آپ نے ایسا نہیں کیا کہ آپ مشرکین کے بنائے ہوئے کعبہ کو ڈھائیں اور دوبارہ اس کو اہلِ ایمان کے ذریعے تعمیر کرائیں۔
تاریخ مزید بتاتی ہے کہ فتحِ مکہ کے وقت کعبہ کے اوپر جو غلاف تھا، وہ مشرکین کا بنایا ہوا تھا۔ اُس کو بنانے میں بت پرستوں کا مال استعمال ہوا تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ پر فتح حاصل کرنے کے باوجود اُس قدیم غلاف کو نہیں بدلا۔ بعد کو ایسا ہوا کہ ایک عورت کی غلطی سے یہ غلاف جل گیا۔ اِس کے بعد آپ نے نیا غلاف تیار کرکے اُس کے اوپر ڈالا۔ گویا کہ غلاف کی تبدیلی صرف اُس وقت کی گئی، جب کہ یہ تبدیلی ایک ناگُزیر ضرورت بن گئی تھی۔
تاریخ میں اِس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جو واضح طورپر یہ بتاتے ہیں کہ مسجد یا مدرسے میں غیر مسلم کا تعاون لینا عین جائز ہے، اس میں کسی بھی قسم کا کوئی حرج نہیں۔ ایسے فعل کو دین میں مداخلت کہنا، سرتاسر غلط ہے، بلکہ وہ فتنہ انگیز ہے۔ کیوں کہ اِس سے مسلم اور غیر مسلم کے درمیان تعلقات غیر ضروری طور پر بگڑ سکتے ہیں۔
کسی مسجد یا مدرسے کی بلڈنگ بذاتِ خود مسجد یا مدرسہ نہیں ہے، وہ صرف مسجد یا مدرسے کا ظاہری ڈھانچہ ہے۔ مسجد اصلاً عبادت کا مقام ہے، اِسی طرح مدرسہ اصلاً تعلیم کا مقام ہے۔ ظاہری ڈھانچے کے بارے میں اِس قسم کے فتوے یا بیانات، اسلام کی روح کو سخت نقصان پہنچانے والے ہیں۔ اِس سے غیر ضروری طورپر ساری اہمیت ڈھانچے کی بن جاتی ہے۔ حالاں کہ صحیح یہ ہے کہ عبادت اور تعلیم کو اہمیت دی جائے۔ سارا زور اور تاکید بہتر عبادت اور بہتر تعلیم پر ہو۔ ڈھانچے کے بارے میں اِس قسم کی باتیں کرنا، لوگوں کے ذہن کو بگاڑنا ہے۔ اور ذہن کو بگاڑنا، اسلام میں ایک جرم کی حیثیت رکھتا ہے۔
اِس قسم کا منفی ذہن مسلمانوں کے اندر کیوں پیدا ہوا، اُس کا سبب صرف ایک ہے۔ اور وہ یہ کہ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں دعوت کا مزاج کھو دیا۔ دوسری اقوام ان کے لیے مدعو نہ رہیں، بلکہ وہ اُن کی حریف اور رقیب بن گئیں۔ اِسی منفی مزاج کا نتیجہ ہے جو کہ مذکورہ قسم کی نامحمود چیزوں کی صورت میں برآمد ہورہا ہے۔
صحیح مسلم مزاج وہ ہے جس کو دعوتی مزاج کہا جاتا ہے۔ اِس کے مقابلے میں مسلمانوں کا جو موجودہ مزاج ہے، وہ قومی مزاج ہے نہ کہ دعوتی مزاج۔ دعوت، دوسرے انسانوں تک خدا کا ابدی پیغامِ رحمت پہنچانے کانام ہے۔ اِس قسم کا مشن اپنے آپ داعی کو دوسرے انسانوں کا ہمدرد اور خیر خواہ بنا دیتا ہے۔ یہ مشن آدمی کے اندر دوسرے انسانوں کے لیے محبت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ یہ مشن آدمی کودوسرے انسانوں کے حق میں نرم او رشفیق بنادیتا ہے۔
قومی مزاج کا معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ قومی مزاج آدمی کے اندر دوسروں کے خلاف رقیبانہ مزاج پیدا کردیتا ہے۔ قومی مزاج ہمیشہ مادّی مفادات کی بنیاد پر بنتا ہے۔ اِس قسم کے مزاج میں دوسروں کے لیے شکایات ہوتی ہیں، نہ کہ ہمدردی اور خیر خواہی۔ آج کل مسلمانوں کے اندر عام طورپر یہی قومی مزاج بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں منفی نفسیات میں مبتلا ہوگیے ہیں۔ یہ منفی مزاج اُن کے تمام مسائل کا اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں

بدلتی ہوئی دنیا میں مسلمانوں کا لائحۂ عمل

5 اگست 2007 کی شام کو راقم الحروف نے ایک کشمیری اجتماع کو خطاب کیا۔ یہ ٹیلی فون پر ہونے والا ایک خطاب تھا۔ میںنے دہلی سے اپنے ٹیلی فون پر تقریر کی اور سری نگر میں اکھٹا ہونے والے کشمیری مسلمانوں نے اسپیکر ٹیلی فون پر اُس کو سنا۔ یہ خطاب کسی قدر اضافے کے ساتھ یہاں نقل کیا جاتاہے۔
مجھ سے اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے لیے لائحۂ عمل کیا ہے۔ میں کہوں گا کہ اُن کے لائحۂ عمل کا پہلا نکتہ ری اسیس مینٹ(re-assessment) ہے، یعنی ماضی میں اپنی کوششوں کا تنقیدی جائزہ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں نے اپنے ماضی میں جان ومال کی غیرمعمولی قربانیاں دی ہیں۔ یہ قربانیاں اب تک جاری ہیں۔ ایسی حالت میں پہلا سوال یہ ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں مسلمانوں نے کیا پایا اور کیا کھویا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کہنے کے لیے کسی دلیل کی ضرورت نہیں کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے مسلّح جدوجہد کے باوجود اپنے مقصد کو کسی بھی درجے میں نہیں پایا، بلکہ انھوںنے صرف اپنی تباہی میں مزید اضافہ کیا ہے۔
ایسی حالت میں موجودہ مسلمانوں کے لیے کرنے کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ جہاد کے نام پر کی جانے والی موجودہ مسلّح جدوجہد کو فوراً بند کردیں، تاکہ کم ازکم ایسا ہو کہ وہ اپنے آپ کو مزید تباہی سے بچالیں۔ جہاد (بمعنیٰ قتال) کا مقصد اپنے آپ کو ہلاک کرنا نہیں ہے، بلکہ کسی مطلوب فائدے کو حاصل کرنا ہے۔ جب مطلوب فائدہ حاصل نہ ہو رہا ہو تو ٹکراؤ کی سیاست حرام کے درجے میں قابلِ ترک ہوجاتی ہے۔ یہی اب مسلمانوں کو کرنا چاہیے۔
میں جون1989 میں سری نگر گیا تھا۔ وہاں میں نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ اگر آپ شہر سے باہر جائیں تو آپ دیکھیں گے کہ پہاڑ سے گھری ہوئی وادیوں میں ہر طرف پانی کے چشمے بہہ رہے ہیں۔ یہ چشمے آپ کو خدا کا ایک پیغام دے رہے ہیں۔ اِن چشموں کا حال یہ ہے کہ وہ مسلسل بہہ رہے ہیں۔ اُن کے راستے میں بار بار پتھر آتے ہیں۔ یہ پتھر بظاہر چشمے کے لیے ایک رکاوٹ ہیں، لیکن چشمہ پتھروں سے نہیں ٹکراتا، بلکہ وہ ٹکراؤ کو اوائڈ کرتے ہوئے پتھر کے دائیں یا بائیں سے نکل جاتا ہے اور اِس طرح وہ اپنے سفر کو آگے کی طرف مسلسل جاری رکھتا ہے۔
میں نے کہا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے قریب بہتے ہوئے چشموں سے سبق لینا چاہیے۔ انھوں نے انڈیا سے یا انڈیا کی آرمی سے غیر ضروری ٹکراؤ کار استہ اختیا رکیا ہے۔ یہ ٹکراؤ اُنھیں تباہی کے سوا کچھ اور دینے والا نہیں۔ میرا یہ انتباہ اب آخری طورپر درست ثابت ہو چکا ہے۔ اب کشمیری مسلمانوں کے لیے آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ ٹکراؤ یا مسلّح جدوجہد کا طریقہ مکمل طورپر چھوڑ دیں۔ وہ پُرامن میدان میں اپنی تعمیر کے کام میں لگ جائیں۔
آج کل نہ صرف کشمیر کے مسلمان، بلکہ ہر جگہ کے مسلمان ٹکراؤ کی سیاست کو اختیار کیے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ عملاً ٹکراؤ کی سیاست چلارہے ہیں۔ جو لوگ ٹکراؤ کی سیاست میں عملاً شامل نہیں ہیں، وہ بھی اِسی انداز میں سوچتے ہیں۔ اُن کے پاس بھی سوچنے کاکوئی اور فریم ورک موجود نہیں۔
اِس معاملے پر غور کرنے سے یہ سمجھ میںآتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان بد قسمتی سے اُس چیز سے محروم ہیں جس کو بصیرتِ زمانہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ زمانہ ایک نیا زمانہ تھا۔ اب ہر چیزبدل چکی تھی۔ ایسی حالت میں ضروری تھا کہ سب سے پہلے زمانے کو سمجھا جائے اور پھر زمانے کی رعایت سے اپنے عمل کی نئی منصوبہ بندی کی جائے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ ہمارے تمام رہ نما ردّ ِعمل کی نفسیات کا شکار ہوگیے۔ انھوں نے ردّ عمل کے تحت، مفروضہ دشمنوں کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ اِس قسم کی جنگ زمانے سے بے خبری کا نتیجہ تھی، اِس لیے وہ مکمل طورپر ناکام ہو کر رہ گئی۔
قدیم زمانے کو زرعی دَور کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں ہر جگہ بادشاہت کا رواج تھا۔ اِس نظام کے تحت سب سے زیادہ اہمیت پالٹکس کی ہوگئی تھی۔ اِس طرزِ فکر کے تحت لوگوں کے پاس سوچنے کا فریم ورک صرف ایک تھا، اور وہ تھا پولٹکل ایکٹوزم۔ موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں کا ذہن اِسی فکری تسلسل کے تحت بنا، چناںچہ جب موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے مسائل پیدا ہوئے تو انھوںنے اپنے متاثّر ذہن (conditioned mind) کے تحت، فوراً پولٹکل ایکٹوزم کا طریقہ اختیار کرلیا۔
یہی وہ مقام ہے جہاں بصیرتِ زمانہ کی ضرورت تھی۔ ہمارے رہ نماؤں کو جاننا چاہیے تھا کہ اب پولٹکل ایکٹوزم کا دور ختم ہوگیا۔ اب مکمل معنوں میں پیس فُل ایکٹوزم کا زمانہ آچکا ہے۔ اب ایسے مواقع پیدا ہوچکے ہیں کہ پُرامن طریقِ کار کے ذریعے وہ سب کچھ مزید اضافے کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے جس کی امید پہلے صرف سیاسی جدوجہد سے کی جاسکتی تھی۔
موجودہ زمانے میں جو تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں، اُس کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اُس نے مواقع (opportunities) کو ہر ایک کے لیے یکساں طورپر کھول دیا ہے۔ قدیم زمانے میں مواقعِ کار صرف اونچے طبقے کے کچھ لوگوں کو حاصل ہوتے تھے، اب مواقعِ کار عام انسانوں کی دست رس تک پہنچ گیے ہیں۔ پچھلا زمانہ ہر اعتبار سے محدودیت کا زمانہ تھا، اب جدید اسباب نے تمام حد بندیاں توڑ دی ہیں۔ اب ہر آدمی ہر کام کرنے کی پوزیشن میں ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں علم کے نام سے آدمی بہت کم چیزوں کو جانتا تھا، اب علمی انفجار(knowledge explosion) کا زمانہ ہے۔ پہلے زمانے میں سیاسی طاقت سب سے بڑی طاقت سمجھی جاتی تھی، اب تعمیری اداروں اور غیر سیاسی تنظیموں نے سب سے بڑی طاقت کا درجہ حاصل کرلیا ہے، وغیرہ۔
موجودہ زمانے میں سیکولرازم نے حکومتوں کو پابند کردیا ہے کہ وہ لوگوں کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی اختیار کریں۔ اب دنیا میں جمہوریت کا زمانہ ہے، جو عوام کی سیاسی حصے داری (power sharing) پر مبنی ہے۔ پہلے اقتصادیات کا تعلق صرف زراعت سے تھا، اب جدید صنعت نے اقتصادیات کو ہر ایک کی دست رس تک پہنچا دیا ہے۔ پہلے مذہبی جبر کا زمانہ تھا، اب دنیا میں مکمل طورپر مذہبی آزادی کا زمانہ ہے۔ پہلے کوئی بڑا کام صرف بادشاہ کرسکتا تھا، اب اِداروں (institutions) اور غیر سیاسی تنظیموں کے ذریعے ہر کام کرنا ممکن ہوگیا ہے۔ پہلے زمانے میں صرف پولٹکل ایمپائر بن سکتا تھا، اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ غیر سیاسی سطح پر عالمی دعوہ ایمپائر بنایا جاسکے۔ پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف تلوار میں طاقت ہے، اب پُرامن ذرائع کا دائرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ آج تقریباً ہر چیز پُرامن ذرائع سے حاصل کی جاسکتی ہے، وغیرہ۔
اِن حالات میں متشددانہ طریقِ کار یا لڑائی کا طریقہ اختیار کرنا، ایک قسم کا خلافِ زمانہ عمل (anachronism) بن چکا ہے۔جدید اصولوں کے مطابق، آدمی اگر تشدد نہ کرے تو وہ ہر کام کے لیے آزاد ہے۔ ایسی حالت میں اب تشدد کا طریقہ اختیار کرنا، ایک قسم کی دیوانگی ہے۔ کیوں کہ تشدد کا طریقہ اختیار کرتے ہی آدمی غیر ضروری طور پر اپنے آپ کو محروم بنا لیتا ہے۔ وہ اِس قابل نہیں رہتا کہ وہ جدید مواقع کار سے فائدہ اٹھائے اور اپنے مستقبل کی عظیم تعمیر کرے۔
یہاں یہ سوال ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے یہ تباہ کُن طریقہ کیوں اختیار کیا کہ انھوںنے سیاسی غلبے کو اپنا نشانہ بنا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہت جلد انھوںنے جہاد کے نام سے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار کرلیا اور آخر کار استشہاد (طلبِ شہادت) کے نام پر وہ خود کُش بم باری کی تباہ کُن حد تک پہنچ گیے۔
اِس بھیانک غلطی کا سبب موجودہ زمانے میں پیش کی جانے والی اسلام کی سیاسی تعبیر تھی۔ اسلام کی سیاسی تعبیر بلا شبہہ ایک بے بنیاد تعبیر تھی، لیکن موجودہ سیاسی حالات نے اِس تعبیر کو موافق فضا دے دی۔ اِس بنا پر بہت سے لوگ، خاص طور پر نوجوان طبقہ، اِس مغالطہ آمیز سیاسی تعبیر کے زیرِ اثر آگیا اور اسلام کی عالمی حکومت قائم کرنے کے نام پر ایک پُر شور سیاسی تخریب کا عمل جاری کردیا۔
موجودہ زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ عین خدا کی منشا کے مطابق تھا۔ وہ اِس لیے تھا کہ اہلِ اسلام، سیاسی نزاع اور متشددانہ ٹکراؤ سے بچ کر اسلامی دعوت کا ایک عالمی ایمپائر بنا سکیں۔ موجودہ زمانے میں ایسا کرنا عین ممکن بن چکا تھا، لیکن ٹکراؤ کی متشددانہ سیاست نے سارے امکانات کو تباہ کردیا۔
سیاسی اقتدار کی اصطلاحوں میں سوچنے کے بہت نقصانات ہوئے۔ اُن میں سے ایک نقصان یہ تھا کہ موجودہ زمانے کے کئی امکانات کو مسلم رہ نما بالکل سمجھ نہ سکے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں ایک جدید ظاہرہ وہ پیدا ہوا ، جس کو گلوبل ولیج اور گلوبلائزیشن کہاجاتا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک عظیم نعمت تھی۔ خصوصاً اسلامی دعوت کے لیے اُس نے عالمی مواقع کھول دیے، مگر بگڑے ہوئے ذہن کی بنا پر مسلم رہ نما اِس حقیقت کو سمجھ نہ سکے اور غیر ضروری طور پر وہ اُس کے مخالف بن گیے۔
اِسی منفی ذہن کی بنا پر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں نے جگہ جگہ علاحدگی پسندی اور سپریشن کی تحریک چلا دی۔آج کا زمانہ یونی ورسلائزیشن کا زمانہ تھا، مگر انھوںنے مسلمانوں کو محدودیت کے خول میں بند کرنے کی ناقابلِ فہم غلطی کا ارتکاب کیا۔ یہ اتنی بڑی غلطی تھی کہ اس کے بعد ان رہ نماؤں کا کوئی بھی کارنامہ اِس غلطی کی تلافی نہ کرسکا۔
خلاصہ یہ کہ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے کسی موثر ملّی عمل کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ وہ یہ اعتراف کریں کہ انھوں نے ماضی میں غلط نشانہ بنایا۔ اِس غلطی کا کھُلا اعتراف کرنے کے بعد دوسرا کام یہ ہے کہ مسلمان موجودہ سیاسی ٹکراؤ اور جہاد کے نام پر مسلّح عمل کو مکمل طوپر ترک کردیں۔ اُس کے بعد مسلمانوں کے لیے عمل کا جو نشانہ بنے گا، وہ دو نکاتی فارمولے پر مشتمل ہوگا— اپنی نئی نسلوں کو اعلیٰ تعلیم میں آگے بڑھانا، اور دعوہ ورک کو اپنا نشانہ قرار دینا۔ اِس کے سوا کوئی اور لائحۂ عمل، مسلمانوں کو اعلیٰ کامیابی تک پہنچانے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

نشانیوں سے سبق نہ لینا

قرآن کی سورہ نمبر بارہ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور آسمانوں اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں جن پر اُن کا گزر ہوتا رہتا ہے اور وہ اُن پر دھیان نہیں کرتے‘‘۔ (یوسف: 105 )
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خدا کی طرف سے مسلسل انسانی تاریخ میں ایسی نشانیاں ظاہر کی جارہی ہیں جو انسان کو اپنی محدودیت یاد دلائیں اور اُس کو اِس حقیقت کی طرف متوجہ کریں کہ وہ خدا کی رہ نمائی کے بغیر اپنے لیے کامیاب زندگی کی تعمیر نہیں کرسکتا، لیکن انسان غفلت کا شکار ہو کر اِن نشانیوں سے سبق نہیں لیتا اور اپنی محرومی کا خاتمہ نہیں کرپاتا۔
پچھلے پانچ ہزار سال سے دنیا کے تمام بڑے بڑے دماغ اِس میں مشغول تھے کہ وہ فلسفیانہ غوروفکر کے ذریعے سچائی کو دریافت کرلیں، لیکن لمبی کوشش کے بعد صرف یہ معلوم ہوا کہ فلسفے کا طریقہ کسی یقینی منزل تک پہنچانے کے لیے سراسر ناکافی ہے۔
جدید سائنس کے ظہور کے بعد انسان نے یہ سمجھا کہ سائنسی میتھڈ کے ذریعے وہ سچائی کو دریافت کرسکتا ہے، لیکن آخر کار صرف یہ معلوم ہوا کہ سائنسی میتھڈ آدمی کو صرف چیزوں کے علم (knowledge of things) تک پہنچا سکتا ہے، وہ آدمی کو سچائی کے علم (knowledge of truths) تک پہنچانے والا نہیں۔
ہزاروں سال سے انسان یہ سمجھتا تھا کہ روحانی طریقوں کے استعمال سے وہ سچائی تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ فرض کرلیا گیا تھا کہ انسان کا دل تمام حقیقتوں کا خزانہ ہے۔ دل میں اپنے دھیان کو مرتکز کرکے سچائی کی دریافت کی جاسکتی ہے، لیکن آخر کار یہ ثابت ہوا کہ دل صرف گردشِ خون کا ذریعہ ہے، وہ حقائق و معارف کا خزانہ نہیں۔
اِسی طرح جدید تہذیب کی ترقیوں کو دیکھ کر یہ امید قائم کرلی گئی تھی کہ تہذیب کا سفر آخر کار انسان کو اس کی مطلوب دنیا تک پہنچادے گا، لیکن حال میں گلوبل وارمنگ (Global Warming) کا مسئلہ ظاہر ہوا اور یہ معلوم ہوا کہ موجودہ دنیا اب اپنے خاتمے کے قریب پہنچ گئی ہے، یہاں مطلوبہ تہذیب کا قیام سرے سے ممکن ہی نہیں۔
اِس قسم کی نشانیاں، فطرت میں اور تاریخ میں، مسلسل ظاہر ہورہی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کے لیے جو مدت مقرر کی تھی، وہ مدت اب تمام ہوچکی ہے۔ اور وہ وقت آگیا ہے کہ موجودہ دنیا کو ختم کر دیا جائے، تاکہ اس کے بجائے اگلی دنیا (world hereafter) شروع ہوسکے۔ قرآن کے یہ الفاظ شاید اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کررہے ہیں— ’’جس دن ہم آسمان کو لپیٹ دیں گے جس طرح طومار میں کاغذ لپیٹ دیے جاتے ہیں۔ جس طرح ہم نے تخلیق کی ابتدا کی تھی، اُسی طرح ہم پھر اُس کا اعادہ کریں گے۔ یہ ہمارے ذمّے وعدہ ہے اور ہم اُس کو کرکے رہیں گے‘‘ (الأنبیاء: 104)
اب آخری طورپر وہ وقت آگیا ہے جب کہ انسان بیدار ہو۔ وہ فطرت میں اور تاریخ میں ظاہر ہونے والی نشانیوں سے سبق لے اور اپنی زندگی کی اِس طرح منصوبہ بندی کرے جو اگلے مرحلۂ حیات (post-death period) میں اُس کے کام آسکے۔ جو آدمی اِس موقع کو کھو دے، اُس کو جاننا چاہیے کہ اُس کے لیے دوبارہ کوئی موقع آنے والا نہیں۔
انسان کو اپنے مستقبل کی تعمیر کے لیے صرف ایک ہی چانس دیا گیا ہے، یہ آدمی کے اوپر ہے کہ وہ اس کو استعمال کرتا ہے، یا اس کو ہمیشہ کے لیے کھودیتا ہے۔ جو لوگ اِس چانس کو استعمال کرسکیں، ان کے لیے ابدی جنت ہے اور جو لوگ اِس چانس کو استعمال کرنے میں ناکام رہیں، ان کا انجام بائبل کے الفاظ میں یہ ہے — ایسے لوگ آگ کی بھٹی میں ڈال دیے جائیں گے اور وہاں ان کے لیے ابدتک رونا اور دانت پیسنا ہوگا:
And will cast them into the furnace of fire. There will be wailing and gnashing of teeth. (Matthew 13: 42)
واپس اوپر جائیں

مسلم مسلک کیا ہے

مسلم مسلک کیا ہے۔ اِس سوال کے جواب میں اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مسلمان اپنی دشمن قوموں کی سازش کا شکار ہیں، یہ اغیار کی سازش ہے جس نے مسلمانوں کو موجودہ زمانے میں مسائل سے دوچار کررکھا ہے۔ یہ جواب، قرآن کی صراحت کے مطابق، یقینی طورپر بے بنیاد ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر3 میں ارشادہوا ہے کہ: وإن تصبروا وتتقوا لا یضرکم کیدُہم شیئًا (آل عمران: 120 ) یعنی تم اگر صبر کرو اور تقویٰ اختیار کرو تو دشمن کی سازش تم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی۔ صاحب مدارک التنزیل نے اِس آیت کی تشریح میںلکھا ہے : ہٰذا تعلیمٌ من اللہ وإرشادٌ إلیٰ أن یُستعان علیٰ کید العدوّ بالصبر والتقویٰ۔ (یہ اللہ تعالیٰ کی تعلیم ہے اور اس کی ہدایت ہے کہ دشمن کی سازش کے مقابلے میں صبر اور تقویٰ سے مدد حاصل کی جائے)
اِس پر آپ غور کیجیے تو معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ ایمان کے لیے جو مسئلہ ہے، وہ سازش کی موجودگی نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ صبر اور تقویٰ کی غیر موجودگی ہے۔ مذکورہ سوال کا یہ جواب قرآن کی براہِ راست نصّ سے ثابت ہے، اِس لیے اُس کے برحق ہونے پر کوئی شک نہیں کیا جاسکتا۔
اِس آیت میں مسئلۂ سازش کے حل کے طورپر دو لفظ کا ذِکر آیا ہے— صبر اور تقویٰ۔ صبر کا مطلب دراصل سیلف کنٹرول (self-control) ہے، یعنی پیش آمدہ صورتِ حال میں ردّعمل سے بچ کر اپنے اقدام کی مثبت منصوبہ بندی کرنا۔ کوئی صورتِ حال پیش آئے تو جذباتی تأثر کے تحت، جوابی کارروائی نہ کرنا بلکہ معاملے کے تمام مالہٗ وما علیہ (موافق اور غیر موافق پہلو) کا اندازہ کرکے سوچا سمجھا اقدام کرنا۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں دوسرا لفظ جو استعمال ہوا ہے، وہ تقویٰ ہے۔ یہاں تقویٰ کا مطلب خود قرآن کی ایک اور آیت سے واضح ہورہا ہے۔ دوسری جگہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولایجرمنکم شناٰن قومٍ علیٰ أن لا تعدلوا، إعدلوا ھو أقرب للتقویٰ (المائدۃ: 8) اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کا مطلب ہے— دشمنی کی حالت پیدا ہونے کے باوجود عدل پر قائم رہنا، اشتعال کی حالت میں بھی انصاف کی روش پر برقرار رہنا۔
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کے کیس پر غور کیجیے۔ یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلمان کسی بھی ملک میںاِس قرآنی معیار پر پورے نہیں اترتے۔ ہر جگہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ مخالفِ مزاج باتوں پر مشتعل ہو کر عاجلانہ اقدام کربیٹھتے ہیں۔ وہ صرف انتقام کا فارمولا جانتے ہیں، عدل اور انصاف کا فارمولا اُنھیں معلوم ہی نہیں۔
ایسی حالت میں مسلمانوں کے مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے اپنی پالیسیوں کے غلط ہونے کا اعتراف کرنا۔ دوسروں کو بُرا بتانے کے بجائے، خود اپنی کمزوریوں کو دریافت کرنا۔ اپنے سارے معاملے کا ری اسیس منٹ (reassessment) کرنا، اور پھر صبر اور تقویٰ کے اصول کی روشنی میںاپنے عمل کا نیا منصوبہ بنانا۔
میرے نزدیک، موجودہ زمانے کے مسلمانوں کو تین نُکاتی فارمولے پر عمل کرنا چاہیے۔ اِس کے سوا اُن کے لیے کوئی بھی دوسرا لائحۂ عمل مفید نہیں ہوسکتا۔ وہ تین نکاتی فارمولا یہ ہے:
1 - دوسروں کے خلاف منفی تقریر اور تحریر کو مکمل طورپر ترک کردینا۔
2 - پوری نسل کو تعلیم یافتہ بنانے کی کوشش کرنا۔
3 - غیر مسلموں میں عالمی پیمانے پر اسلام کا مثبت تعارف۔
کوئی بھی بڑا کام صرف مثبت ذہن کے لوگ انجام دیتے ہیں۔ نکتۂ اول کی اہمیت یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے اندر یہی مثبت ذہن پیدا کرتا ہے۔ موجودہ حالت میں مسلمانوں کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ وہ تمام انسانیت کے لیے، دوست اور دشمن کی تفریق کے بغیر، خیر خواہ بن جائیں۔ ان کا نظریہ صرف اکرامِ مسلم نہ ہو، بلکہ ان کا نظریہ وسیع تر معنوں میں اکرامِ انسان ہو۔ ان کا برتاؤ ہر ایک کے لیے انسان فرینڈلی برتاؤ (insan-friendly behaviour) بن جائے، نہ کہ صرف مسلم فرینڈلی برتاؤ۔
حدیث میں مومن کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ: أن یکون بصیراً بزمانہ، یعنی بصیرتِ زمانہ سے بہرہ وَر ہونا۔ تعلیم کا فائدہ یہی ہے۔ میرے نزدیک، تعلیم کا معیار یہ ہے کہ لوگ اپنی مادری زبان کے ساتھ عربی اور انگریزی زبانیں بھی بقدر ضرورت جانیں۔ تعلیم کا مقصد شعوری بیداری ہے، اور حقیقی معنوں میں شعوری بیداری کے لیے تین زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔
دعوت الی اللہ کا مقصد صرف دعوت کا اعلان کرنا نہیںہے، بلکہ اس کا اصل مقصد یہ ہے کہ غیرمسلموں کو یہ محسوس ہو کہ مسلمان، دنیا میں صرف لینے والے گروہ (taker group) نہیں ہیں، بلکہ وہ دینے والے گروہ (giver group) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اِس دنیا میں بڑی کامیابی صرف اُس کو ملتی ہے جو دسرے کے لیے نافع بن جائے۔ شکایت اور احتجاج کا ذہن لے کر کوئی گروہ کبھی کوئی بڑی ترقی حاصل نہیں کرسکتا۔
واپس اوپر جائیں