Pages

Wednesday 1 September 2004

Al Risala | September 2004 (الرسالہ،ستمبر)

2

- عرب امارات کا سفر


عرب امارات کا سفر

الہدیٰ انٹرنیشنل کی دعوت پر امارات کا سفر ہوا۔ یہ سفر ۵ مئی ۲۰۰۴ کو شروع ہوا اور ۱۰ مئی ۲۰۰۴ کو ختم ہوا۔ اس سفر میں مختلف قسم کے مشاہدات اور تجربات پیش آئے۔ یہاں اس سفر کی مختصر روداد درج کی جاتی ہے۔
۵ مئی ۲۰۰۴ کی شام کو مسٹر رجت ملہوترا کے ساتھ نظام الدین سے ائرپورٹ کے لئے روانہ ہوا۔ مسٹر رجت ایک بڑی کمپنی میں مینیجر ہیں۔وہ خود اپنی گاڑی چلارہے تھے۔ درمیان میں بار بار ان کے موبائل کی گھنٹی بجتی اور وہ اس پربات کرتے رہتے۔ میں نے سوچا کہ قرآن میں جس دابّہ (النمل ۸۲) کا ذکر ہے وہ شاید یہی موبائل ہو۔ دابّہ کے لفظی معنیٰ ہیں رینگنے والا۔ دابّۃ متکلم کا مطلب ہے، رینگ کر کلام کرنے والا۔ موبائل ٹکنالوجی نے پہلی بار یہ ممکن بنایا ہے کہ کوئی آدمی چل رہا ہو اور عین اسی وقت اس کا تکلم (conversation) جاری رہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ دور آخر میں اللہ ایک دابّہ (رینگنے والی زمینی مخلوق) پیدا کرے گا۔ وہ بول کر لوگوں کو بتائے گا کہ لوگ خدا کی نشانیوں پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ جس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں سال سے خدا کی نشانیاں موجود تھیں۔ مگر یہ غیر ناطق نشانیاں تھیں۔ قدیم روایتی دور میں ستارے اور سیارے، دریا اور پہاڑ، غرض تمام مظاہر فطرت غیر ناطق انداز میں خدا کی نشانیوں کو بتا رہے تھے۔ اس کے بعد جب صنعتی دور آیا تو طرح طرح کی مشینوں نے خدا کی نشانیوں کو ظاہر کرنا شروع کردیا۔ مگر یہ بھی غیر ناطق انداز میں تھا۔ آخر میں موبائیل ٹیلی فون ظاہر ہوا۔ اس نے ہرجگہ انسانوں کے پاس پہنچ کر ان کوناطق انداز میں خدائی قدرت کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ اس نے بتایا کہ تمہارے ارد گرد کیسی عجیب خدائی نشانیاں تھیں مگر تم اس سے سبق لینے میں ناکام رہے۔
دہلی کے انٹرنیشنل ائرپورٹ پر رسمی کارروائیوں سے گزرنے کے بعدہم انتظار گاہ میں پہنچے۔ یہاں بہار (سیوان) کے ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ دبئی میں الکٹریشین کی حیثیت سے کام کرتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انڈیا کے مقابلہ میں دبئی میں کتنے گنا زیادہ تنخواہ آپ کو ملتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ تقریباً پانچ گنا۔ انھوں نے بتایا کہ دوسال میں ایک بار ہماری کمپنی انڈیا آنے کے لئے ٹکٹ کا انتظام کرتی ہے۔
دہلی سے ائر انڈیا کی فلائٹ نمبر ۷۴۷ سے روانگی ہوئی۔ دہلی سے دبئی کا فاصلہ ۲۴۰۰ کیلومیٹر ہے۔ جہاز کے ذریعہ یہ فاصلہ سوا تین گھنٹہ میں طے ہوتا ہے۔ ائر پورٹ پراور جہاز میں میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ جہاز دہلی سے دبئی کتنی دیر میں پہنچتا ہے۔ یہ لوگ وہ تھے جو دہلی سے دبئی بار بار سفر کرتے ہیں۔ مگر ان میں سے کوئی صحیح وقت نہ بتا سکا۔ کسی نے کہاکہ دو گھنٹہ، کسی نے کہا کہ ڈھائی گھنٹہ، کسی نے کہا کہ ۳ گھنٹہ، کسی نے کہا کہ ۴ گھنٹہ۔ صحیح وقت کا علم مجھے صرف اس وقت ہوسکا جب کہ جہاز کے انائونسر نے اپنے روٹین کے اعلان میں اس کو بتایا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگ اپنے مخصوص پروفیشن کے سوا دوسری باتوں کے بارے میں کتنا کم جانتے ہیں۔
پرواز کے دوران ائر انڈیا کی فلائٹ میگزین نمسکار (اپریل، مئی ۲۰۰۴) دیکھا۔ اس میں ایک مضمون پرتیش نندی (Pritish Nandy) کے بارے میں تھا۔ وہ ہندستان کے ایک معروف رائٹر ہیں۔ اب وہ فلم پروڈیوسر بن گئے ہیں۔ مضمون کے ساتھ ان کی ایک تصویر چھپی ہوئی تھی۔ اس تصویر میں دکھائی دے رہا تھا کہ وہ اپنے دونوں پیروں کو پھیلا کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے پیروں کے درمیان ان کا کُتّا زمین پر زبان نکالے ہوئے بیٹھا ہے۔ میرے مزاج کے مطابق، یہ ایک بد ذوقی کا فعل تھا۔ اس قسم کی چیزوں کو دیکھ کر اکثر میں سوچتاہوں کہ موجودہ زمانہ کے اعلیٰ ذہن (top intellectuals) آخر اس قسم کی سطحیت کا کس طرح تحمل کرتے ہیں۔ ذاتی معلومات کے اعتبار سے میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ تمام اعلیٰ ذہن کے لوگ ایک سنگین نفسیاتی مسئلہ سے دوچار ہوتے ہیں۔ اور وہ تنہائی (loneliness) کا احساس ہے۔ اس تنہائی کی تلافی کے لئے وہ کتے کو اپنا ساتھی بنالیتے ہیںجو بے زبان بھی ہے اور اسی کے ساتھ وفادار بھی۔
اس مضمون میں ایک بات یہ بتائی گئی تھی کہ آج کے انڈیا میں سب سے زیادہ بڑھتا ہوا بزنس انٹرٹینمنٹ (entertainment) کا بزنس ہے۔ باصلاحیت لوگ تیزی سے دوسرے شعبوں سے نکل کر اس بزنس میں آرہے ہیں۔ پرتیش نندی نے جرنلزم کو چھوڑ کر فلم پروڈیوسنگ کا کام شروع کردیا ہے۔ انھوں نے ایک کمپنی بنائی ہے جس کا نام یہ ہے:
پرتیش نندی کمیونیکیشنز (Pritish Nandy Communications)
اس رجحان کا سبب کیاہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ ہندستان میں تیزی سے ایسا ہورہا ہے کہ عوام اب بھی غریب ہیں لیکن ایک محدودطبقہ کے پاس بہت زیادہ دولت آگئی ہے۔ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اپنی تمام ذاتی ضرورتوں کو تعیش کی حد تک پورا کرنے کے بعد بھی ان کے پاس بہت زیادہ دولت بچ جاتی ہے۔ اس فاضل دولت کا ایک استعمال یہ تھا کہ اس کو اجتماعی فلاح کے کاموں میں خرچ کیا جائے۔ مگر لوگوں کے اندر چونکہ اس قسم کا انسانی جذبہ موجود نہیں اس لئے ان کے پاس اس فاضل دولت کا ایک ہی استعمال رہ جاتا ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ اس کو تفریح کے کاموں میں خرچ کریں۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں خوش حالی کے بعد فسق کرنا بتایا گیا ہے۔ (الاسراء ۱۶)
سوا تین گھنٹہ کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز دبئی کے ہوائی اڈہ پر اترا۔ جہاز سے باہر آتے ہی دو آدمی مرحبا سروسز (Marhaba Services) کا بینر لئے ہوئے کھڑے تھے۔ دبئی کے ائرپورٹ پر یہ ایک خصوصی انتظام ہے۔ یہاں مرحبا کے نام سے ایک مستقل سروس قائم ہے۔ یہ لوگ پروفیشنل طور پر یہ خدمت انجام دیتے ہیں کہ جو لوگ ان سے ربط قائم کرتے ہیں وہ ان کے مہمان کو ہوائی جہاز کے دروازہ ہی پر ریسیو (receive) کرتے ہیں اور پھر ائر پورٹ کے سارے مراحل سے گزر کر ان کو ان میزبانوں تک پہنچا دیتے ہیں جو ائر پورٹ کے باہر ان کے انتظار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ مرحبا سروسز خود ائر پورٹ کا ہی ایک شعبہ ہے۔
مرحبا والوں کی رہنمائی میں ائر پورٹ سے باہر آیا تو یہاں حسب ذیل لوگ موجود تھے: ڈاکٹر فرحت نسیم ہاشمی، مسٹر شکیل احمد خاں، ڈاکٹر وسیم، یٰسمین خاکوانی، قدسیہ سید، عاطف اقبال، رُبابہ عبدالرحمن، سمیر صمدانی، ڈاکٹر محمد ادریس زبیر، سعدیہ الطاف، نازیہ الطاف، کرن، وغیرہ ۔
ائر پورٹ سے روانہ ہوکر دبئی کے ہوٹل رالا ریزیڈنس (Rolla Residence) میں پہنچا۔ یہاں کمرہ نمبر ۵۱۱ میں میرا قیام تھا۔ ائر پورٹ سے ہوٹل تک کا سفر کرتے ہوئے دبئی کا ایک منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ دبئی کا ائرپورٹ دنیا کے چند بہترین ائر پورٹ میں شمار ہوتا ہے۔ وہ انتہائی منظم، انتہائی خوبصورت، اور بے حد وسیع تھا۔ اس کی ہر چیز نہایت شاندار تھی۔ اس کے مقابلہ میں دہلی کا اندرا گاندھی انٹر نیشنل ائر پورٹ معمولی نظر آتا ہے۔ یہ احساس اس وقت ہوا جب کہ میں ائرپورٹ سے روانہ ہوا اور دبئی کے مختلف حصوںسے گزرتے ہوئے ہوٹل تک پہنچا۔
ہندستان کے مقابلہ میں دبئی ایک بے حد چھوٹا ملک ہے۔ دبئی کا کل رقبہ ۹۰۰ مربع کیلومیٹر ہے جب کہ ہندستان کا رقبہ ۳۲۶۸۰۹۰ مربع کیلومیٹر ہے۔ لیکن دبئی کا شہر ہندستان کے شہروں سے بہت زیادہ ترقی یافتہ نظر آیا۔ دونوں ملکوں کے درمیان سب سے بڑا فرق دو چیزوں میں ہے۔ ایک کرپشن اور دوسرا انفراسٹرکچر۔
دبئی ایک چھوٹی ریاست ہے۔ وہ عرب امارات کی سات ریاستوں میں سے ایک ریاست ہے۔ خلیج فارس کی طرف اس کا ساحلی رقبہ ۴۵ میل ہے۔ دبئی شہر عرب امارات کاسب سے بڑا شہرہے۔ ریاست کی آبادی کا تقریباً ۹۰ فی صد سے زیادہ حصہ اس شہر میں رہتا ہے۔ دبئی کی آبادکاری ۱۷۹۹ میں شروع ہوئی۔ اس کے بعد ۱۸۲۰ میں دبئی کے شیخ نے انگریزوں کی سرپرستی میں قائم شدہ جنرل ٹریٹی آف پیس (General Treaty of Peace) پر دستخط کئے۔ اس کے بعد سے دبئی کی وہ ترقی شروع ہوئی جو آج اپنے نقطۂ عروج پر پہنچ چکی ہے۔
۱۷۹۹ وہ تاریخی سال ہے جب کہ ہندستان کے سلطان ٹیپو نے انگریزوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان دے دی تھی۔ ان کے نزدیک انگریز ایک مسلم دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ مگراسی مسلم دشمن قوم کی سرپرستی میں دبئی نے اتنی زیادہ ترقی کی کہ آج ہر مسلمان یہ کہتے ہوئے فخر محسوس کرتا ہے کہ میرا بیٹا دبئی میں ہے یا میرے داماد دبئی میں کام کر رہے ہیں— اس دنیا میں ترقی کا راز ایڈجسٹمنٹ ہے۔ مگر سلطان ٹیپو سے لے کر یاسر عرفات تک تمام مسلم رہنما زندگی کی اس حقیقت سے بے خبر رہے۔
دبئی کی تاریخ ۱۷۹۹ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے جب کہ برطانیہ کے نو آبادکار لوگ اس علاقہ میں پہنچے۔ ۱۸۲۰ میں برٹش طاقتوں کے ساتھ دبئی کا معاہدۂ امن ہوا۔ ۱۸۳۵ میں دبئی نے انگریزوں کے ساتھ بحری معاہدہ پر دستخط کئے۔ ۱۸۵۳ میں اس معاہدہ کی دوبارہ توثیق ہوئی۔ ۱۸۹۲ کے معاہدہ کے تحت دبئی کے خارجہ تعلقات پر انگریزوں کا کنٹرول قائم ہوگیا۔ ۱۹۷۱ میں جب انگریزوں نے خلیج فارس کو چھوڑا تو دبئی عرب امارات کا ایک با نی ممبر (founding member) بن چکا تھا۔
دبئی میں تیل کی دولت زیادہ نہ تھی۔ چنانچہ دبئی کے شیخ نے دبئی کو تجارتی حیثیت سے ترقی دینا شروع کیا۔ بیسویں صدی کے شروع میں دبئی ایک اہم ائرپورٹ بن چکا تھا۔ بہت سے غیر ملکی تاجر، خاص طور پر ہندستانی تاجر، دبئی میں مقیم ہوگئے۔ ۱۹۳۰ اور اس کے بعد تک دبئی موتیوں کی برآمد کے لئے مشہور تھا۔ مگر بعد کو دبئی مغربی مصنوعات کے لئے سب سے بڑا بندرگاہ بن گیا۔ عرب امارات کے اکثر بینکوں اور انشورنش کمپنیوں کی ہیڈ کوارٹر دبئی میں واقع ہیں۔ دبئی میں فری ٹریڈ کا اصول اختیار کیا گیا ہے اور یہی اس کی ترقی کا سب سے بڑا سبب ہے۔
دبئی کو نہایت اعلیٰ درجہ پر موڈرنائز کیا گیا ہے۔ یہاں بجلی، جدید ہوٹل، ٹیلی کمیونیکیشن، اسپتال اور انٹرنیشنل ائرپورٹ وغیرہ اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ ۱۹۷۲ میں یہاں گہرے پانی والی بندرگاہ (deep water harbour) بنائی گئی ہے۔ اس کی وجہ سے بحری جہاز رانی کو بہت زیادہ ترقی حاصل ہوئی ہے۔ دبئی کے ساحلی علاقہ کو پاٹ کر اس کے رقبہ کو کافی بڑھا لیا گیا ہے۔
شام کو ہوٹل کے کمرہ میں کئی لوگ اکھٹا ہوگئے۔ ڈاکٹر فرحت ہاشمی، مسٹر عاطف سعید، قدسیہ سید، ربابہ عبدالرحمن، وغیرہ وغیرہ۔ ان لوگوں سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ یہ لوگ الہدیٰ انٹرنیشنل کے تحت بہت بڑا کام کر رہے ہیں۔
ہوٹل موجودہ زمانہ میں ایک عظیم انڈسٹری کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ قدیم زمانہ میں ہوٹل کی جگہ وہ چیز ہوا کرتی تھی جس کو سرائے کہا جاتا تھا۔ یہ سرائے صرف وقتی پڑائو کے لئے ہوتی تھی۔ اس میں جدید سہولتیں نہیں ہوتی تھیں۔ انیسویں صدی کے آخر میں جب انسان نے پانی کو اسٹیم پاور میں تبدیل کیا اور اسٹیم انجن سے چلنے والی ریلیں دوڑنے لگیں تو اس کے بعد ہوٹل کی صنعت میں بھی ترقی شروع ہوئی۔ یہ ہوٹل ریلوے اسٹیشن کے قریب ہوا کرتے تھے۔ اس کے بعد پٹرول کی طاقت دریافت ہوئی اور موٹر کار اور ہوائی جہاز چلنے لگے تو ہوٹل کی صنعت میں مزید ترقی ہوئی۔ اب ہوٹل کا تصور صرف وقتی پڑائو کے معنیٰ میں نہیں ہے۔ آج کے ایک ہوٹل میں وہ تمام جدید انتظامات موجود ہوتے ہیں جو زندگی کی اعلیٰ سرگرمیوں کے لئے مددگار ہیں۔ آج ہوٹل کی انڈسٹری نے ہر انسان کے لئے اس چیز کو ممکن بنادیا ہے جس کو قدیم زمانہ کے فارسی شاعر نے استثنائی طور پر صرف کسی خوش قسمت دولت مند کے لیے ممکن بتایا تھا۔
منعم بہ کوہ ودشت و بیاباں غریب نیست
ہرجاکہ رفت خیمہ زد وبارگاہ ساخت
میرا سفر الہدیٰ انٹرنیشنل کی دعوت پر ہوا۔ الہدیٰ انٹرنیشنل والوں کا کام خاص طور پر تعلیم اور دعوت کے میدان میں ہورہا ہے۔ ایک خاتون رُبابہ عبدالرحمن جو بنگلہ دیش سے تعلق رکھتی ہیں وہ بھی یہاں کے پروگرام میں شرکت کے لئے خصوصی طور پر آج ہی ہوائی جہاز کے ذریعہ دبئی پہنچی تھیں۔ وہ بنگلہ دیش کے سب سے بڑے انڈسٹریل ہائوس سے تعلق رکھتی ہیں۔ بنگلہ دیش کی امیر ترین خاتون ہونے کے باوجود اُن کی زندگی بالکل سادہ تھی۔ اُنہوں نے میری انگریزی کتابیں پڑھی ہیں۔
ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ جب بھی کوئی اصلاح کا کام کیا جائے، خاص طور پر جب کہ وہ گہری بنیادوں پر کیا جارہا ہو تو میڈیا میں اس کا چرچا یقینی ہے۔ میڈیا کے مزاج کے مطابق، یہ چرچا تقریباً ہمیشہ منفی انداز سے ہوتاہے۔ اصلاح و دعوت کے میدان میں کام کرنے والے مردوں اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ میڈیا کی اس منفی رپورٹنگ کی پروا نہ کریں۔ منفی رپورٹنگ کے اندیشہ کی بنا پر وہ ایسا نہ کریں کہ میڈیا سے اعراض کرنے لگیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر مائنس پوائنٹ کا ایک پلس پائنٹ ہوتا ہے۔ یہی حال میڈیا کا بھی ہے۔ میڈیا کی ناقص رپورٹنگ پھر بھی ایک مفید کام کرتی ہے اور وہ آپ کے کام کی پبلسٹی ہے۔ پبلسٹی کے بغیر کوئی بھی کام آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پبلسٹی لوگوں کے اندر تجسس پیدا کرتی ہے اور تجسس پیغام کے اشاعت کا ذریعہ بنتا ہے۔
۶ مئی کی صبح کو فجر کی نماز ہوٹل میں پڑھی۔ میں نے اپنے کمرہ کے ائر کنڈیشنر کو بند کرکے کمرہ کی بڑی کھڑکی کو کھول دیا۔ باہر سے ہوا کے خوشگوار جھونکے کمرہ کے اندر داخل ہونے لگے۔ یہ جھونکے گویا خدا کی قدرت کو یاد دلارہے تھے۔ تازہ ہوا ایک ایسی عجیب و غریب چیز ہے کہ اس میں زندہ شعور کے ساتھ سانس لینا بھی ایک عبادتی تجربہ کے ہم معنیٰ ہے۔ میں نے سوچا کہ کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جو ائر کنڈیشنڈ کمروں کی مصنوعی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ حالاںکہ عین ان کمروں کے باہر فطرت کی زیادہ بہتر دنیا ان کے لئے پوری طرح موجود ہوتی ہے۔
۶ مئی کی صبح کو ۷ بجے ہوٹل کے مطعم میں اپنے میزبانوں کے ہمراہ ناشتہ کیا۔ اس کی ایک طرف کی پوری دیوار میں بڑے بڑے شیشے لگے ہوئے تھے۔ اس بنا پر ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کہ ہم لوگ کھلے مطعم میں فطرت کی دنیا میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
ناشتہ کے بعد دوبارہ میرے کمرے میں ایک طویل نشست ہوئی جس میں الہدیٰ انٹرنیشنل کے لوگ شریک ہوئے۔ جدید حالات کی نسبت سے اسلام اور مسلمانوں پر گفتگو ہوتی رہی۔
ایک خاتون نے کہا کہ اولاد کی اسلامی تربیت کے لئے کیا کیا جائے۔ کیوںکہ آج کل کی تعلیم اور ماحول بچوں کو بگاڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ اکثر والدین اس قسم کی شکایت کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک بچوں کے بگاڑ کا سب سے بڑا سبب خود ان کے والدین ہیں۔ یہ دراصل خود والدین کالاڈ پیار (pampering) ہے جس نے بچوں کو بگاڑ رکھا ہے۔ میں نے کہا کہ بچوں کی تربیت کے لئے سب سے زیادہ موثر چیز والدین کی ہیمرنگ (hammering) ہے۔ یہ ہیمرنگ کامل شفقت سے ہوتی ہے اس لئے وہ ہمیشہ مثبت تاثیر کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر والدین اس پر عمل نہیں کرپاتے۔ وہ بچوں کی ہر خواہش پوری کرتے رہتے ہیں۔ اور اس کے بعد دوسروں کو الزام دے کر کہتے ہیں کہ میرا بچہ فلاں خارجی اسباب کی بناپر بگڑ گیا۔
میرے اور میرے ساتھی کے سفر کا پورا اسپانسرشپ (sponsorship) دبئی کے ایک تاجر شیخ عبدالرحمن الشرفی نے کیا تھا۔ وہ ۶ مئی کی دوپہر کو ملاقات کے لئے آئے۔ ان سے دیر تک باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ میں دعوت کا کام کرتا ہوں اور اس مقصد کے لئے اسلامی کتابیں غیر مسلموں کو دیتا رہتا ہوں ۔ مگر ابھی تک اس کا کوئی خاص اثر سامنے نہیں آیا۔ حاضرین میں سے ایک خاتون نے کہا کہ آپ جن لوگوں کو کتابیں دیتے ہیں، کیا آپ ان لوگوں کے لیے دعا بھی کرتے ہیں۔ انھوں نے عربوں کے مخصوص سادہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ نہیں:
I have not prayed for them.
وہ عربی کے علاوہ اچھی انگریزی زبان بھی جانتے تھے۔ شیخ عبدالرحمن الشرفی نے بتایا کہ اُنھوں نے راقم الحروف کی کتاب گاڈ ارائزز (God Arises) بڑی تعداد میں منگوا کر تعلیم یافتہ مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تقسیم کیا ہے۔
دبئی کا انگریزی اخبار خلیج ٹائمس کا شمارہ ۶ مئی ۲۰۰۴ دیکھا۔ اس کے صفحہ ۳ پر ایک خبر تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ شارجہ کی حکومت ایسے اقدامات کررہی ہے جو ماحولیات کو بگڑنے سے بچانے والے ہوں۔ اس خبر کا عنوان یہ تھا—شارجہ ایکو فرینڈلی پروجکٹ چلانے والا ہے:
Sharjah to launch eco-friendly project
آج کل ایکو فرینڈلی منصوبوں کا بہت چرچا ہے۔ خود مسلم ملکوں میں بھی اس کی کافی دھوم ہے۔ میں نے سوچا کہ اس سے بھی زیادہ ضروری کام یہ ہے کہ مدعو فرینڈلی منصوبے جاری کئے جائیں۔ مگر ساری دنیا میں نہ کوئی مسلم حکومت، نہ کوئی مسلم گروہ اس قسم کی بات سوچنے کے لئے تیار ہے۔ مسلمانوں نے برعکس طور پرایسے ہنگامے جاری کر رکھے ہیں جو مدعو کو دشمن بنائے ہوئے ہیں۔ مگر مدعو کو دوست بنانے کی شعوری کوشش پوری مسلم دنیا میں کہیں نظر نہیں آتی۔ حالاںکہ مسلم دنیا میں اگر ایکو فرینڈلی منصوبہ نہ چلایا جائے تو اس سے مسلمانوں کی صرف دنیا خطرہ میں پڑے گی۔ جب کہ مدعو فرینڈلی منصوبہ نہ چلانے کی صورت میں یہ شدید تر اندیشہ موجود ہے کہ ان کی آخرت خطرے میں پڑ جائے۔
ڈاکٹر فرحت نسیم ہاشمی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون ہیں۔ وہ ایک یونیورسٹی میں استاد تھیں اور اب وہ یونیورسٹی کو چھوڑ کر تعلیم و دعوت کا کام کر رہی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے میری تقریباً ساری کتابیں بار بار پڑھی ہیں۔ ان کو میرے خیالات سے پورا اتفاق ہے۔ وہ نہایت باصلاحیت خاتون ہیں۔ انھوں نے اپنے آپ کو پوری طرح دعوت کے کام کے لئے وقف کردیا ہے۔ ڈاکٹر فرحت اور ان کے شوہر پروفیسر ادریس اسلام آباد کی یونیورسٹی میں اُستاد تھے۔ دونوں نے یونیورسٹی کی سروس سے استعفادے کر الہدیٰ انٹرنیشنل کا کام شروع کیا۔ یہ تنظیم اب ماشاء اللہ ایک مقبول تنظیم بن چکی ہے۔ لوگ بڑی تعداد میں اس کے ساتھ وابستہ ہوتے جارہے ہیں۔ ڈاکٹر فرحت کے آڈیو کیسٹ کافی دلچسپی کے ساتھ سنے جاتے ہیں۔
۶ مئی کو دوپہر بعد سے لے کرشام تک دوبارہ میرے کمرے میں نشست ہوئی۔ اس میں خواتین کی تعداد کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ میں نے ہر ایک سے اسلام کے بارے میں اس کے خیالات جاننے کی کوشش کی اور پھر آخر میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میںنے کہا کہ دعوہ ورک کوئی سادہ چیز نہیں۔ دعوہ ورک کے لئے کچھ لازمی شرطیں ہیں۔ اس میں سب سے اہم شرط یہ ہے کہ داعی اپنے مدعو کا مکمل طور پر خیر خواہ ہو۔ وہ یک طرفہ طور پر مدعو کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرے۔ حتیٰ کہ وہ مدعو کی زیادتیوں پر صبر کرے۔ میں نے کہا کہ داعی اور مدعو کا رشتہ اسی قسم کا ایک رشتہ ہے جیسا کہ تاجر اور کسٹمر کے درمیان ہوتاہے۔ ہر تاجر جانتا ہے کہ اس کو اپنے کسٹمر کے ساتھ آخری حدتک خیر خواہی کا معاملہ کرناہے۔ داعی کا فارمولا تاجر کی طرح یہ ہونا چاہئے:
We are always Mad‘u friendly
مغرب کی نماز کے بعد لوگ دوبارہ میرے کمرہ میں جمع ہوگئے۔ دیر تک گفتگو کاسلسلہ جاری رہا۔ اس مجلس میں میں نے چند مسئلوں کی وضاحت کی۔ مثلاً یہ کہ اسلام کے مطابق، اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ پہلے شعوری بیداری، اور اس کے بعد تنفیذِ احکام۔ اس کے بجائے تنفیذِ احکام سے اسلامی تحریک کا آغاز کرنا گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے۔ ایسے سفر کا کوئی انجام نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح فقہی اختلاف کے معاملہ میں میں نے کہا کہ یہ اختلافات اس لیے پیدا ہوئے کہ خود صحابہ کی روایت کردہ حدیثوں میں اختلاف موجود تھا۔ یہ اختلاف دراصل توسّع کی بنا پر تھا۔ اس کو ختم کرنے کی کوشش ایک غیر فطری روش ہے۔ فقہی اختلافات میں توحّد کی کوشش انتہا پسندی ہے۔ اس سے اختلافات میں مزید شدت پیدا ہوتی ہے۔ جب کہ ان اختلافات کو توسّع اور تنوع پر محمول کرنا اختلافات کے مسئلہ کو ختم کردیتا ہے۔ اس موضوع کی تفصیل میری کتاب تجدید دین میں دیکھی جاسکتی ہے۔
دبئی کے لئے میرا یہ سفر ایک الگ نوعیت کا سفر تھا۔ عام طور پر میرا سفر کانفرنسوں میں شرکت کے لئے ہوتا ہے۔ مگر دبئی میں ایسی کوئی نیشنل یا انٹر نیشنل کانفرنس نہ تھی۔ اس سفر کی نوعیت یہ تھی کہ یہاں لمبے عرصے سے میری کتابیں پھیل رہی ہیں۔ بہت سے لوگ کتابوں کے ذریعہ ہمارے مشن سے متعارف ہوتے ہیں۔ ان میں عورتیں بھی ہیں اور مرد بھی۔ انہی لوگوں کی دعوت پر میں دبئی آیا تھا۔ یہاں زیادہ تر یہ ہوا کہ لوگ میرے کمرے میںاکھٹا ہوجاتے اور ان سے گفتگو اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہتا۔ یہ لوگ میری باتوں کو مسلسل طور پر محفوظ کرتے رہے، تحریر کے ذریعہ بھی اور ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ بھی۔ یہ سب تعلیم یافتہ لوگ تھے اور بہت دھیان کے ساتھ میری باتیں سنتے تھے۔
مغرب کی نماز کے بعددوبارہ لوگ میرے کمرے میں اکھٹا ہوگئے۔ دیر رات تک ان سے بحث و مذاکرہ کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک تعلیم یافتہ مسلمان جن کی پیدائش پاکستان میں ہوئی وہ اپنے بزنس کے سلسلہ میں اکثر دبئی آتے رہتے ہیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے پاکستان اور دبئی دونوں ملکوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ آپ بتائیے کہ دونوں میں آپ نے کیا فرق پایا۔ انھوں نے کہا کہ دبئی میں پیس ہے مگر یہاں فریڈم نہیں۔ پاکستان میں فریڈم ہے مگر وہاں پیس نہیں۔
میں نے کہا کہ دنیا میں ۵۷ مسلم ملک ہیں۔ ہر ملک کا حال کم و بیش وہی ہے جو آپ نے دبئی کا بتایا۔ ایسی حالت میں ہندستان ہمارے لیے ایک نعمت ہے۔ کیوںکہ ہندستان میں بیک وقت یہ دونوںچیزیں موجود ہیں۔ وہاں پیس بھی ہے اور فریڈم بھی۔ ان کو یہ بات عجیب معلوم ہوئی۔ کیوںکہ وہ سمجھتے تھے کہ ہندستان ایک اینٹی مسلم ملک ہے۔ وہاں مسلمان ستائے جارہے ہیں۔ وہاں مسلمان طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سب میڈیا کے پروپیگنڈے ہیں۔ آپ لوگ کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل میڈیا میں اسلام کو بگاڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔ ٹھیک یہی معاملہ ہندستان کے ساتھ ہوا ہے۔ چنانچہ مسلم میڈیا میں ہندستان کی تصویر بگڑی ہوئی صورت میں پیش کی جاتی ہے۔ اس کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ انڈیا کامسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر عبدالکلام انڈیا کا پریزیڈنٹ ہے۔ دوسری طرف پاکستان کا مسلم سائنٹسٹ ڈاکٹر عبدالقدیر پاکستان میں قید کی حالت میں زندگی گذار رہا ہے۔
ایک تعلیم یافتہ خاتون (قدسیہ سید) کی باتوں سے میں نے اندازہ کیا کہ ان کا حافظہ اچھا ہے اور طرح طرح کی باتیں ان کے دماغ میں موجود رہتی ہیں۔ اس بنا پر وہ اپنی زندگی میں ترجیحات (priorities) کا تعین نہیں کرپاتیں۔ میں نے کہا کہ انسانی حافظہ دو قسم کاہوتا ہے۔ ایک وہ جس کو تصویری حافظہ (photographic memory) کہا جاتاہے۔ اور دوسرا وہ جس کو انتخابی حافظہ (selective memory) کہا جاسکتا ہے۔ میں ماضی اور حال کے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جن کے اندر تصویری حافظہ کی صلاحیت تھی۔ چنانچہ ان کا دماغ معلومات کا جنگل بن گیا۔ وہ مختلف معلومات کا انبار تو پیش کرسکتے تھے مگر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صلاحیت ان میں نہیں تھی۔ چنانچہ معلومات کی فراوانی کے باوجود وہ دنیا کو کوئی واضح پیغام نہ دے سکے۔
میں نے کہا کہ میرے ساتھ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مجھے تصویری حافظہ تو نہیں دیا گیا مگر انتخابی حافظہ میرے اندر پوری طرح موجود ہے۔ مجھے اللہ کے فضل سے اپنی زندگی کی بہت سی باتیں یاد ہیں، ۵ سال کی عمر سے اب تک کی ہزاروں باتیں۔ مگر یہ تمام باتیں انتخابی انداز کی ہیں۔
دبئی میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ عربی اور انگریزی دونوں زبانیں جانتے ہیں۔ وہ دس سال سے زیادہ مدت سے لوگوں میں قرآن اور حدیث کا درس دیتے رہے ہیں۔ ان کادرس کافی مقبول ہے۔ لوگ ان کے درس کے کیسٹ تیار کرکے اپنے گھروں میں ان کو سنتے ہیں۔ وہ دبئی کے زمانۂ قیام میں برابر میری مجلسوں میں شریک رہے۔ تاہم میں دبئی میں ان سے ان کا تأثر پوچھ نہ سکا۔
۱۵ مئی ۲۰۰۴ کو دہلی میں میرے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ ریسیور اٹھایا تو وہی صاحب دبئی سے بول رہے تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ وہاں آپ میری مجلسوں میں شریک رہے۔ میں نے وہاں جو کچھ کہا اس کے بارے میں آپ اپنا تاثر بتائیے۔ انھوں نے کہا کہ میں خود اگرچہ لمبی مدت سے قرآن و حدیث کی باتیں کرتا رہا ہوں۔ مگر آپ نے جس طرح قرآن و حدیث کی تشریح کی اس سے مجھے ایک نیا اورینٹیشن (orientation) ملا۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو ایک حقیقت کے اعتراف پر مجبور پاتا ہوں۔
اصل یہ ہے کہ میرا پورا کام متوسط درجہ کے لوگوں کے درمیان ہوا۔ آپ ان کو عوام کہہ سکتے ہیں۔ اس بنا پر ایسا ہوا کہ میں قرآن و حدیث کی تشریح عوامی انداز میں کرنے لگا۔ آپ کی مجلسوں میں شرکت کے بعد پہلی بار مجھے شعوری طور پر یہ محسوس ہوا کہ قرآن و حدیث کی تشریح کی ایک برتر سطح بھی ہے، ایک ایسی سطح جو اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو زیادہ اپیل کرنے والی ہو۔ میرے کام کے دوران متوسط درجہ کے لوگ تو بڑی تعداد میں مجھ سے جڑ گئے مگر اعلیٰ ذہن کے لوگ مجھ سے زیادہ قریب نہ ہوسکے۔
میں سمجھتا تھا کہ یہ متعصبانہ ذہن کا نتیجہ ہے ۔ مگر آپ سے ملاقات کے بعد میری غلط فہمی دور ہوگئی۔ اصل یہ ہے کہ آپ کو خوش قسمتی سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں میں کام کرنے کا موقع ملا اس لئے آپ کا اسلوب تشریح بھی اعلیٰ درجہ کا بن گیا۔ میں نے طے کیا ہے کہ میں اب اپنے انداز کو اپ گریڈ (upgrade) کروں گا اور قرآن و حدیث کو اعلیٰ ذہن کے لوگوں کے لئے قابل فہم بنائوں گا۔
خلیج ٹائمس کا میگزین ویکنڈ (weekend) دیکھا۔ اس پر ۶ مئی ۲۰۰۴ کی تاریخ چھپی ہوئی تھی۔ یہ ۶۶ صفحات کا خوبصورت چھپا ہوا میگزین تھا۔ اس کے لکھنے والوں میں زیادہ تر ہندوئوں کے نام تھے۔ یہ دبئی کی عام زندگی کی ایک علامتی تصویر ہے۔ دبئی میں ۵۰ فیصد سے زیادہ دوسرے ملکوں کے لوگ آباد ہیں، خاص طور پر ہندستان اور پاکستان کے لوگ۔ یہاں تک کہ اس اختلاط کی بنا پر مقامی عرب لوگ بھی اردوسیکھ گئے ہیں۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ ہر شعبہ میںمسلمان نسبتاً چھوٹے کاموں میں ہیں اور جہاں تک بڑے بڑے کاموں کا تعلق ہے اس میںزیادہ تر ہندو لوگ چھائے ہوئے ہیں۔ اس بارے میں میں نے لوگوں سے پوچھا اور اس فرق کا سبب معلوم کرنا چاہا۔ میرے اندازے کے مطابق، اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ہندو لوگ پروفیشنل انداز میں کام کرنا جانتے ہیں جب کہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ابھی تک ان کے یہاں پروفیشنلزم (professionalism) کا تصور ہی شعوری طور پر نہیں آیا۔
انڈیا کے مسلمان یہ شکایت کرتے ہیں کہ انڈیامیں ’’ہندو حکومت ‘‘ ہے۔ وہاں مسلمانوں کے ساتھ تعصب کیا جاتا ہے۔ اس بنا پر انڈیا کے مسلمان دوسروں سے پیچھے ہیں۔ مگر دبئی تو ایک مسلم ملک ہے۔ پھر کیوں ایسا ہے کہ یہاں بھی مسلمان اقتصادیات میں ہندوئوں سے پیچھے ہیں۔ اس فرق کا سبب یقینی طور پر یہ ہے کہ مسلمان بے فائدہ سیاست میں مشغول ہونے کی بنا پر اپنے آپ کو دور جدید کی نسبت سے تیار نہ کرسکے۔ اس لیے وہ ہرجگہ دوسروں سے پیچھے ہوگئے۔ اس فرق کا سبب خود مسلمانوں کی اپنی کمی ہے، نہ کہ دوسروں کی زیادتی۔ یہ ایک ہی سبب ہے جو ہندستان اور غیر ہندستان دونوں جگہوں پر پایا جاتاہے۔
روزنامہ نوائے وقت (۶مئی ۲۰۰۴) کے صفحۂ اول پر یہ خبر تھی کہ پاکستانی مسلم لیگ کے صدر اور پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اہلیہ بیگم نصرت شہباز اور ان کے بچے گذشتہ روز لندن سے ابو ظبی پہنچ گئے ہیں۔ جب کہ میاں شہباز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پی آئی اے کی کسی پروازکے بجائے گلف ائر لائنز سے ۱۱ مئی کی شام چھ بج کر بیس منٹ پر لندن سے براستہ ابوظبی لاہور ائرپورٹ پرپہنچیں گے۔ان کے ساتھ مختلف بین اقوامی نشریاتی اداروں کے نصف درجن سے زائد نمائندے بھی آرہے ہیں۔ جن میں بی بی سی، سی این این اوراے آر وائی وغیرہ کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
اسی اخبار میں لاہور کی ڈیٹ لائن کے ساتھ دوسری خبر یہ تھی کہ مسلم لیگ اور شہباز شریف سیکریٹریٹ کی جانب سے شہباز شریف کی آمد کے حوالہ سے چلو چلو ائر پورٹ چلو، کے عنوان سے پوسٹرز اورہینڈبل ہزاروں کی تعداد میں چھپواکر اس کی تقسیم شروع کردی گئی ہے۔ پوسٹرز اور ہینڈبل کی تقسیم کے لیے خصوصی طور پر اندرون شہرکو ٹارگٹ بنایا گیا ہے۔
اس ہنگامہ خیز سفر کا متوقع انجام صرف یہ ہوا کہ مسٹر شہباز شریف جب لاہور کے ہوائی اڈہ پر پہنچے تو وہاں انہیں کسی سے ملنے نہیں دیا گیا۔ انہیں ایک خصوصی ہوائی جہاز میں بٹھا کر فوراً ہی جدّہ بھیج دیا گیا۔ جب وہ جدہ ائرپورٹ پر اترے تو وہاں ان کے استقبال کے لیے نہ کوئی پاکستانی موجود تھا اور نہ کوئی غیر پاکستانی۔ اس ڈرامائی سفر میں بہت بڑی رقم خرچ کی گئی۔ جب کہ مثبت معنوں میں اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا۔
مجھے وہ حدیث یاد آئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن بندہ کے قدم اس وقت تک آگے نہیں بڑھیں گے جب تک اس سے پوچھ نہ لیا جائے کہ تم نے مال کہاں سے کمایا اور اس کمائے ہوئے مال کو کہاں خرچ کیا: من این اکتسبہ وفیم انفقہ (الترمذی، کتاب القیامۃ) آدمی اگر اس ایک حدیث کو یاد رکھے تو اس کی اکثر مالی سرگرمیاں اپنے آپ رک جائیں۔
۷ مئی ۲۰۰۴ کی صبح کو مولانا انیس لقمان ندوی سے ملاقات ہوئی۔ اُن سے بہت سے موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ایک سوال میں نے یہ کیا کہ سابق عراقی صدر صدام حسین کا زوال کوئی مقامی واقعہ نہ تھا۔ اس کا اثر پوری عرب دنیا پر پڑا۔ آپ خود عرب دنیا میں رہتے ہیں، مجھے بتائیے کہ اس حادثہ کے بعد عربوں کی سوچ میں کس قسم کی تبدیلی آئی ہے۔
انہوں نے اس کاجواب دیتے ہوئے کہا کہ مابعد صدام کی عرب دنیا (post-Saddam Arab world) میں اب وہ الفاظ کثرت سے استعمال ہونے لگے ہیں جن کا استعمال ماقبل صدام کی عرب دنیا میں سیاسی بغاوت کے ہم معنیٰ تھا اور جن کے بولنے والے اکثر جیل میں بند کردیے جاتے تھے۔ مثلاً سیاسی اصلاح، جمہوری نظامِ حکومت کا قیام، حکام کے مالی اور قانونی احتساب کا مطالبہ، منتخب پارلیمنٹ کی تشکیل، عدلیہ اور قانون ساز ادارہ کی آزادی، وغیرہ وغیرہ۔ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بتدریج انتظامی شفافیت (administrative transparency) کو فروغ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعہ اختلاف رائے کو برداشت کرنے اور اظہار رائے کی آزادی کو عام کرنے کی تلقین کی جارہی ہے۔ اگرچہ اس کا آغاز واضح طور پر ۱۱ستمبر ۲۰۰۱ کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعہ کے معاً بعد ہوچکا تھا۔ مگر عراق میں صدام حسین کی ڈکٹیٹر شپ کے عبرت ناک خاتمہ کے بعدیہ رجحانات مزید شدت اور سرعت کے ساتھ سیاسی اور غیر سیاسی دونوں دائروں میں پھیلتے جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ عرب دنیا کے اندازِ فکر میںاس تبدیلی کا ایک سنگین پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ اب اسلامی مدارس اور اسلامی تحریکوں کو مغربی دنیا کی طرح عرب ورلڈ میں بھی دہشت گردی کا سرچشمہ سمجھا جانے لگا ہے۔ اس بنا پر سعودی عرب سمیت تمام عرب ملکوں میں ’’اصلاحِ تعلیم‘‘ کی مہم حکومتی سطح پر چلائی جارہی ہے۔ پچھلے ایک برس میں عرب سربراہان کی تمام کانفرنسوں کے ایجنڈے میں یہ مسئلہ سرِ فہرست رہا ہے۔ دوسری طرف مسلم دنیا کی دینی تحریکیں اور دینی مدارس کے نمائندوں کے حق میں اب تعاون اور ہمدردی کا جذبہ باقی نہیں رہا۔ وہ خیراتی ادارے جو دینی مدارس اور تنظیموں کو ملینوں ڈالر کی سالانہ امداد دیا کرتے تھے وہ یا تو بند کردیے گئے ہیں یا انہوں نے اپنی امداد روک دی ہے۔
اس سال مولانا انیس لقمان ندوی نے فریضۂ حج ادا کیا ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے اپنا تاثر مختصراً یوں بیان کیا —حج کا سفر، عدم تیقن کے ہجوم میں یقین کو دریافت کرنے کی کوشش کا نام ہے ۔ مولانا موصوف کے اس جملہ کا مطلب غالباً یہ تھا کہ حج کی مختلف سرگرمیوں کے دوران انسان کو اپنے عجز کا تجربہ ہوتا ہے۔ عین اُسی وقت حج میں شعائر اللہ کے درمیان صبح و شام گذارتے ہوئے حاجی کو خدائے ذوالجلال کے وجود کا غیر معمولی احساس ہوتا ہے۔ گویا حج انسان کے لیے ایک طرف اپنے کمالِ عجز کا تجربہ ہے اور دوسری طرف خدا کے کمالِ قدرت کا مشاہدہ۔
مولانا انیس لقان ندوی پچھلے آٹھ سال سے ابوظبی میں رہتے ہیں۔ ان کا تعلق اسلامیہ انگلش اسکول سے ہے۔ دبئی اور ابو ظبی کے درمیان تقریباً ۱۸۰ کیلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ میرے قیام دبئی کے دوران وہ دوبار ابوظبی سے ملاقات کے لیے آئے۔
ابوظبی کی ریاست امارات کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ اس کا رقبہ ۶۷۳۵۰ مربع کیلومیٹر ہے۔ اگرچہ اس کی بین اقوامی سرحد ابھی تک متنازع ہے:
Its international boundaries are disputed
ابو ظبی کا رقبہ عرب امارات کے کل رقبہ کا تین چوتھائی ہے۔ ابوظبی میں تیل کے کافی ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اس بنا پر وہ اس علاقہ کی سب سے زیادہ دولت مند ریاست بن گئی ہے۔
انیسویں صدی میں ابوظبی کی ریاست کی نزاع، مسقط اور عمان سے پیدا ہوئی۔ اسی کے ساتھ سعودی عرب سے بھی اس کی نزاع پیدا ہوئی۔ اس کا سبب زیادہ تر وہابی تحریک کی بڑھتی ہوئی طاقت تھی۔ اس کے نتیجہ میں سرحدی نزاعات پیدا ہوئے جو اب تک غیر حل شدہ ہیں۔ ان میں سے البُریمی کے نخلستان کا معاملہ سب سے زیادہ سنگین ہے۔
ابوظبی نے برٹش اقتدار کے ساتھ (۱۸۲۰) میں اس معاہدہ پر دستخط کیے جس کو برٹش اسپانسرڈ جنرل ٹریٹی آف پیس کہا جاتا ہے:
British-sponsored General Treaty of Peace.
۱۸۹۲ میں ہونے والے معاہدہ کی دفعات کے تحت ابوظبی کے خارجی معاملات برٹش حکومت کے کنٹرول میں آگئے۔ ابوظبی کے سابق حاکم شیخ زاید ابن خلیفہ (۱۹۰۸-۱۸۵۵) کے زمانہ میں ابوظبی اس علاقہ کی بڑی طاقت کی حیثیت رکھتا تھا۔ جب ۱۹۶۸ میں برطانیہ نے خلیج فارس سے واپسی کا فیصلہ کیا تو ابوظبی نے گفت و شنید کا سلسلہ شروع کیا۔ اس گفت و شنید کا مقصد یہ تھا کہ بحرین اور قطر کو ملاکر نو ریاستوں کا ایک کنفیڈریشن قائم کیا جائے۔ مگر ان دو ریاستوں (قطر اوربحرین) نے علیٰحدگی کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ بقیہ سات ریاستوں پر مشتمل فیڈریشن قائم ہوئی جس کو متحدہ عرب امارات کہا جاتا ہے۔ ابوظبی کا شہر ۱۹۷۱-۱۹۷۶ میں اس ریاست کی راجدھانی بنایا گیا۔
ابوظبی کی اقتصادیات کا انحصار تقریباً تمام تر تیل کی پیداوار پر ہے۔ یہاں پٹرول کی دریافت ۱۹۵۸ میں ہوئی۔ ابوظبی کے تیل کے ذخائر کے بارہ میں اندازہ کیا گیا ہے کہ وہ 40,371,000,000 بیرل ہے۔
ابوظبی کے حاکم شیخ زائد زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ مگر ان کو ایک مدبر حکمراں مانا جاتا ہے۔ وہ اپنی تقریروں میں اس طرح کے الفاظ بولتے ہیں:
واجبنا أن نعمل المستحیل (ہمارا فرض ہے کہ ہم ناممکن کے لیے عمل کریں)
اس قسم کے الفاظ سے ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابوظبی میں انقلابی انداز میں تعمیری کام کریں۔ مثلاً انھوں نے اس نظریہ کے تحت ابوظبی کے صحرائوں کو زرخیز بنادیا ہے اور ایسے علاقوں میں کھجور کے شاندار باغات اگائے ہیں جہاں اس سے پہلے کچھ نہیں تھا۔ شیخ زائد کی زندگی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ابوظبی میں آزادیٔ خیال کی وہ بالکل اجازت نہیں دیتے۔ مثلاً ابوظبی کا ایک دولت مند باشندہ تھا جس نے اپنے ایک خطبہ میں امریکا کو بُرا کہہ دیا۔ اس کے بعد اس کو فوراً ہی ابوظبی سے ڈی پورٹ کردیا گیا۔ اس کو یہ اجازت بھی نہیں ملی کہ وہ اپنی دولت کو اپنے ساتھ باہر لے جائے۔
۷ مئی کو جمعہ کا دن تھا۔ صبح کی چائے کے بعد ہم لوگ حسب معمول ہوٹل کے کمرہ میں بیٹھ گئے۔ دوپہر تک مذاکرہ کے روپ میں ہماری مجلس جاری رہی۔ اس مجلس میں زیادہ تر خواتین تھیں جو عرب رواج کے مطابق مکمل طور پر سیاہ برقع میں ملبوس تھیں۔ اس برقع میں صرف آنکھ کھلی رہتی ہے اور بقیہ پورا جسم بشمول چہرہ ڈھکا رہتا ہے۔ یہ سب تعلیم یافتہ خواتین تھیں۔ ان میں سے بعض نے ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ میری باتوں کو ریکارڈ کیا۔ بعض خواتین قلم کاغذ کے ذریعہ اس کو لکھتی رہیں۔
ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ جو تحریکیں احیاء اسلام کا کام کررہی ہیں ان میں سے کوئی بھی زیادہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہی ہیں۔ ان میں سے ہر تحریک کا مشترک اصول ہے:
نوا را تلخ تر میزن چو ذوق نغمہ کم یابی
حودی را تیز تر می خواں کہ محمل را گراں بینی
اس کے مطابق، ہر رہنما نے یہ کیا کہ ملت جہاں کھڑی ہوئی تھی وہیں جوش دلاکر وہ اس کو دوڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ حالاںکہ اصل کام یہ تھا کہ زوال کے حقیقی اسباب کا جائزہ لیا جاتا۔ زمانہ کی تبدیلیوں کو سمجھاجاتا۔ حالات کے لحاظ سے پورے معاملہ کی نئی منصوبہ بندی کی جاتی اور پھر الاقدم فالا قدم کے اصول پر ملی سفر کا آغاز کیا جاتا۔ مگر کسی نے بھی اس طریقہ پر عمل نہیں کیا۔ اسباب کی اس دنیا میں اس قسم کا عمل اتنا ہی بے معنیٰ ہے جتنا کہ بے عملی۔
گلف نیوز (Gulf News) دبئی کا انگریزی روزنامہ ہے۔ ۷ مئی کو اس کے ڈپٹی ایڈیٹر مسٹر محمود صابری نے ہوٹل میں مجھ سے ملاقات کی اور اپنے اخبار کے لئے تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق اسلام اور مسلمانانِ ہند سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ اسلام کی متشددانہ تصویر میڈیا کی تصویر ہے۔ میڈیا کامعاملہ یہ ہے کہ وہ ایک انڈسٹری ہے۔ اس کو نیوز فروخت (sell) کرنا ہے۔ چوںکہ عوام ہاٹ نیوز کو پسند کرتے ہیں اس لئے میڈیا اپنا بزنس چلانے کے لئے سیلیکٹیو بیسس (selective basis) پر خبریں لیتا ہے، یعنی سافٹ نیوز کو چھوڑ دینا اور ہاٹ نیوز کو نمایاں کرنا۔ میں نے کہا کہ ہم میڈیا کے اس مزاج کو بدل نہیں سکتے۔ ہم صرف یہ کرسکتے ہیں کہ مسلمانوں کو کہیں کہ یا تو ہاٹ نیوز وجود میں لانے سے پرہیز کریں یا ایسا کریں کہ مسلمانوں کے ذمہ دار لوگ ایسے مسلمانوں سے برأت کا اظہار کریں جو ہاٹ نیوز پیدا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ اعلان کریں کہ یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے۔ اس طرح کم از کم یہ ہوگا کہ اسلام کی اصل تصویر بگڑنے نہیں پائے گی۔ اس کے بعد لو گ اسی نیوز کو مسلمانوں کے ساتھ منسوب کریں گے نہ کہ دینِ اسلام کے ساتھ۔ یہ انٹرویو گلف نیوز کے شمارہ ۹ مئی ۲۰۰۴ میں شائع ہوا ہے(صفحہ۷)
آج جمعہ کا دن تھا۔ جمعہ کی نماز ہوٹل کے قریب ایک مسجد میں پڑھی۔ نماز میں زیادہ تر غیرعرب لوگ نظر آئے۔ مجھے بتایا گیا کہ دبئی میں تقریباً ۸۰ فی صد غیر عرب ہیں۔ ایک بات یہ دکھائی دی کہ تمام لوگ صف میں شامل ہوکر بیٹھ گئے۔ جب تکبیر ہوئی اور جماعت کھڑی ہوئی تو کسی شور کے بغیر صفیں قائم ہوگئیں۔ اپنی جگہ پر کھڑے ہوجانا ہی صف بندی کے لئے کافی تھا۔ دن میں لوگ حسب معمول میرے کمرے میں آتے رہے اور مجلس کی صورت میں بات چیت جاری رہی۔
ایک خاتون جو کھانے وغیرہ کے انتظام میں رہتی تھیں اور ان کو میری بات سننے کا موقع کم ملتا تھا۔ ان سے میں نے کہا کہ آپ کو دیکھ کر میری سمجھ میں آیا کہ سادہ زندگی اور اونچی سوچ (simple living, high thinking) کا کیا مطلب ہے۔
اصل یہ ہے کہ سادہ زندگی اور اونچی سوچ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ سادہ زندگی دراصل وقت کو بچانے کی ایک تدبیر ہے۔ سادہ زندگی کا یہ فائدہ ہے کہ آدمی کی توجہ غیر ضروری چیزوں سے ہٹ کر صرف ضروری چیز کی طرف لگ جاتی ہے۔ سادہ زندگی کامطلب یہ ہے کہ مادی چیزوں پر کم پرراضی ہوجائو تاکہ تم فکری اور روحانی چیزوں میں زیادہ کو حاصل کرسکو۔
میں نے کہا کہ میں نے شروع ہی میں آپ کو تاکید کی تھی کہ آپ کھانے کے معاملہ میں انتہائی سادگی اختیار کریں۔ میں نے یہ بات نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہی تھی مگر آپ اس پر عمل نہ کرسکے۔ اگر آپ اس پر عمل کرتے تو آپ کا سارا ٹائم بچ جاتا اور آپ ہماری مجلس میں برابر شریک رہتے۔
ایک اور صاحب سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب وہ کوئی شاندار مکان یا شاندار موٹر کار جیسی کوئی مادی عظمت کی چیز دیکھتے ہیں تو وہ اس پر رشک کرتے ہیں۔ یہ چیزیں ان کو بہت پرکشش معلوم ہوتی ہیں۔ وہ سوچنے لگتے ہیں کہ کاش ہمارے پاس بھی ایسی چیز ہوتی۔ مگر صحیح ایمانی جذبہ یہ ہے کہ آدمی ایسی چیزوں کو دیکھ کر کانپ اٹھے۔ وہ سوچنے لگے کہ یہ چیزیں اگر میرے پاس ہوتیں تو میری ساری توجہ انہی چیزوں کی طرف لگ جاتی اور نتیجہ یہ ہوتا کہ میں خدا کی اس زیادہ بڑی نعمت سے محروم ہوجاتا جو کہ خوش قسمت انسان کے لئے آخرت میں مقدر کی گئی ہے، یعنی خدا کی یاد اور آخرت کی فکر۔
ایک مجلس میں کچھ عرب حضرات تھے۔ انہوںنے میرے تصنیفی پروگرام کے بارہ میں دریافت کیا۔ میں نے کہا کہ اب عمر کے آخری حصہ میں میں نے حدیث کی شرح لکھنے کا کام شروع کیا ہے۔ یہ ایک لمبا کام ہے۔ اس میںکئی سال لگ سکتے ہیں۔ اس مجموعہ میں انشاء اللہ چھ ہزار سے زیادہ حدیثیں شامل ہوں گی۔ فی الحال میں اس کتاب کو اردو میں تیار کر رہا ہوں، ہر حدیث کے متن کے بعد اس کا ترجمہ اور پھر اس کی مختصر تشریح۔ بعد کو دوسری زبانوں میں اس کا ترجمہ ہوسکتا ہے۔
اس موضوع کی مزید وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ تدوینِ حدیث کے بعد حدیث کی بہت سی شرحیں عربی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ جامع شرح ابن حجر کی فتح الباری کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر یہ شرحیں زیادہ تر حدیث کے فنّی پہلوئوں کی وضاحت کے طور پر لکھی گئی ہیں۔ ان شرحوں میں حدیث کی معنوی حکمت بیان نہیں ہوسکی ہے۔
پھر میں نے کہا کہ یہ کوئی کمی کی بات نہیں۔ اصل یہ ہے کہ حدیث کی خدمت کے دو دور ہیں۔ پہلے دور میں ضرورت تھی کہ حدیث کے فنّی پہلوئوں کی وضاحت کرکے اس کے استناد کو ثابت شدہ بنایا جائے ۔ تاکہ بعد کی نسلیں کسی شبہہ کے بغیر یہ یقین کرسکیں کہ یہ حدیثیں غیر مشتبہ طور پر خدا کے رسول کاکلام ہیں۔ یہ ابتدائی کام اللہ کے فضل سے قدیم شرحوں کے ذریعہ مکمل طور پر انجام پاچکا ہے۔
اب ضرورت ہے کہ حدیث کی حکمت اور اس کی گہری معنویت کو واضح کیاجائے۔ تاکہ موجودہ زمانہ کا انسان پیغمبر کی رہنمائی کو اس کی گہری معنویت کے ساتھ سمجھے اور اس کو اپنی زندگی میں اپناسکے۔ میں یہی کام کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میری اس بات کو سن کر عرب حضرات کافی متاثر ہوئے۔ انہوں نے فوراً پیش کش کی کہ کتاب خواہ کتنی ہی جلدوں پرمشتمل ہو، اس کی طباعت کا پورا خرچ ہمارے ذمہ ہوگا۔ آپ جیسے ہی ہم کو یہ مطلع کریں گے کہ کتاب تیار ہوگئی، ہم فوراً ہی اُس کی طباعت کی مطلوب رقم آپ کے ادارہ کو فراہم کردیں گے۔
یہاں کے انگریزی اخبار گلف نیوز (۸ مئی ۲۰۰۴ )کا شمارہ دیکھا۔ اس کی پہلی خبر یہ تھی کہ کراچی میں جمعہ (۷ مئی) کوایک مسجد میں بم پھٹا۔ یہ بم اس وقت پھٹا جب کہ لوگ نماز پڑھنے جارہے تھے۔ یہ خودکش بمباری (suicide bombing) کا ایک واقعہ تھا۔ ایک صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ اسلام میں خود کش بمباری جائز ہے یا ناجائز۔ میں نے کہا کہ اسلام میں خودکشی ہرحال میں ناجائز ہے۔ کوئی بھی عذر خودکش بمباری کو جائز ثابت نہیں کرسکتا۔ جو لوگ خودکش بمباری کرتے ہیں اور جولوگ اس کے جائز ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں، دونوں ہی سے خدا کے یہاں سخت باز پرس ہوگی۔
۸ مئی ۲۰۰۴ کی دوپہر کو عجمان کی جامعہ پرستون (Preston University) میں لکچر تھا۔ اس کا موضوع تھا: اسلام اینڈ پیس۔ میں نے تقریر میں بتایا کہ اسلام امن کا مذہب ہے، نہ کہ تشدد کا مذہب۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ضرور ایسا کررہے ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر متشددانہ جنگ چھیڑتے ہیں۔ مگر اسلام میں اس قسم کی جنگ کا کوئی جواز نہیں۔ اسلام میں جنگ کی بہت سی شرطیں ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ایک قائم شدہ مسلم حکومت ہی جنگ کا اعلان کرسکتی ہے۔ غیرحکومتی تنظیموں کو بطورِ خود ہرگز جنگ کی اجازت نہیں۔ مزید یہ کہ اسلام میںجنگ صرف دفاع کے لیے ہے۔ گوریلا وار، پراکسی وار، ایگریسیو وار، بلا اعلان وار، سب کے سب اسلام میں ناجائز ہیں۔ یہ پوراپروگرام انگریزی زبان میں تھا۔
یہاں ڈاکٹر وسیم احمد سے ملاقات ہوئی۔ وہ اس یونیورسٹی میں عربک اور اسلامک اسٹڈیز کے شعبہ کے ہیڈ ہیں۔ وہ اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں بخوبی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ اس بات کی ایک مثال ہیں کہ انسان محنت سے بڑی بڑی کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
یونیورسٹی میں لکچر کے بعد حاضرین کی طرف سے مختلف سوالات کیے گئے۔ یہ تمام سوالات تحریری صورت میں تھے۔ ان سوالات کا میں نے مختصر جواب دیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ وہ لوگ جو اسلامی جہاد کے نام پر خود کش بمباری کرتے ہیں، وہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ مرکر جنت میں جائیں گے۔ کیا یہ صحیح ہے:
Those who do suicidal bombing in the name of Islamic Jihad, believe they will go to heaven, is it true? (Shakeel Ahmad Khan)
میں نے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ آج کل مسلمان جو خود کش بمباری کررہے ہیں وہ جہاد نہیں۔ وہ بلاشبہ اسلام میں حرام ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، کسی بھی حال میں اور کسی بھی عذر کی بنا پر خودکشی جائز نہیں۔ میں نے کہا کہ کچھ عرب علماء نے خودکش بمباری کو استشہاد (طلب شہادت) کا عمل بتایا ہے اور اس کو جائز قرار دیا ہے۔ مگر یہ فتویٰ بلاشبہ ایک بے بنیاد فتویٰ ہے۔ عمل شہادت تو درکنار وہ جائز موت بھی نہیں۔
ایک عرب عالم ہیں جنھوں نے خود کُش بمباری کو جائز قرار دیا ہے۔ وہ یورپ کے علاقہ اسکینڈی نیویا (Scandinavia) میں گئے۔ وہاں ایسا ہے کہ کبھی رات چھوٹی ہوتی ہے اور دن لمبا اور کبھی دن چھوٹا ہوتا ہے اور رات لمبی۔ کچھ مسلمانوں نے عرب عالم سے پوچھا کہ یہاں نماز کے اوقات کانظام کس طرح بنایا جائے۔ عرب عالم نے وہاں تیسیر الفتویٰ (فتویٰ میں آسانی) کے اصول پر اس سوال کا جواب دیا۔ مگر یہی عالم جہاد کے معاملہ میں تعسیر الفتویٰ (فتویٰ میں سختی) کے اصول پر سوال کا جواب دیتے ہیں اور اس کی حمایت میں پُرجوش تقریر کرتے ہیں۔ موجودہ زمانہ کے علماء کا یہ تضاد بھی کیسا عجیب ہے۔
اس قسم کا فتویٰ کسی صحت مند ذہن کی علامت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قسم کا فتویٰ ہمیشہ اپنی تخریبی سیاست کے حق میں اسلامی جواز فراہم کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم کو بیان کرنے کے لیے نہیں ہوتا۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ منفی ذہنیت کی پیداوار ہے، نہ کہ مثبت ذہنیت کی پیداوار۔
جامعہ پرستون عجمان کے علاقہ میں واقع ہے۔ عجمان کی ریاست عرب امارات کی سات ریاستوں میں سب سے چھوٹی ریاست ہے۔ عجمان شہر ریاست کا واحد آباد حصہ ہے۔ عجمان نے اس علاقہ کی دوسری ریاستوں کی طرح برٹش اقتدار کے ساتھ ۱۸۹۲ میں ایک معاہدہ پر دستخط کیے۔ اس معاہدہ کے مطابق، عجمان کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر برٹش کنٹرول میں چلی گئی۔ ۱۹۶۸ میںبرٹش حکومت نے اعلان کیا کہ وہ خلیج فارس میں اپنی موجودگی ختم کردے گی۔ اس کے بعد برٹش حکومت سے یہ گفتگو شروع ہوئی کہ نو ریاستوں کوملاکر ایک فیڈریشن بنایا جائے۔ مگر دو ریاستیں اس فیڈریشن میں شریک نہیں ہوئیں اور وہ صرف سات ریاستوں کے مجموعہ کی صورت میں وجود میں آسکا۔
۸مئی کو دوپہر کے کھانے کا انتظام مسٹر شکیل احمد خان انجینئر کے گھر پر تھا۔ یہاں مسٹرمسعود احمد سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک کامیاب تاجر ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اپنی زندگی کاکوئی تجربہ بتائیے۔ انہوں نے کہا کہ پیسہ آدمی کو قسمت سے ملتا ہے مگر پیسہ کو خرچ کرنے کے لئے عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۹۹ فی صد لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح پیسہ تو کما لیتے ہیں مگر وہ اپنے پیسہ کو بے جا انداز میں خرچ کرتے رہتے ہیں، یہاں تک کہ مرکر دنیاسے چلے جاتے ہیں۔
اس مجلس میں ایک اور صاحب (مسٹر شاہد) بھی موجود تھے۔ وہ یہاں ایک کامیاب بزنس کر رہے ہیں۔ ان سے میں نے کہا کہ پیسہ ہر ایک کے لیے آخر کار ایک مصیبت ہے۔ کم پیسہ اگر مسئلہ ہے تو زیادہ پیسہ بھی ایک مسئلہ ہے۔ چنانچہ اکثرلوگ جو زیادہ دولت کماتے ہیں وہ آخر کار مایوسی کے شکار ہوجاتے ہیں۔ میں نے کہا کہ اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ آدمی تنظیم مال کے فن (art of money management) کو جانے۔
جناب عاطف سید انور علی کاظم (۳۸ سال) سے ۹ مئی کی صبح کو ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنی زندگی کے کچھ انوکھے واقعات بتائے۔ اپنا ایک تجربہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا ملنا جلنا دبئی کے ایک مسیحی سے تھا۔ وہ کسی قدر اسلام کی طرف مائل تھا۔ پھرانھوں نے کہا کہ میں ایک عالم سے ملا اور ان سے کہا کہ آپ میرے ساتھ چل کر اس مسیحی سے ملیں اور اس کی تالیف قلب کے طور پر آپ کی طرف سے اسے ایک تحفہ پیش کیا جائے۔ اس عالم نے کہا کہ العلم یؤتٰی ولا یأتی (علم کے پاس جایاجاتا ہے علم خود نہیں آتا)
یہ قول دراصل سعید ابن مسیب تابعی کا ہے۔ خلیفہ ہارون رشید نے چاہا تھا کہ اپنے بیٹے کی تعلیم کے لئے سعید بن مسیب اس کے محل میں آئیں۔ مگر سعید بن مسیب نے خود محل میںجانا پسند نہ کیا اور کہا کہ آپ کے شہزادوں کو خود میرے پاس آنا چاہئے۔ کیوںکہ طالب کو چاہئے کہ وہ خود چل کر علم کے پاس جائے نہ کہ علم اس کے پاس آئے۔
عاطف صاحب نے اس جملہ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ اصول مسلمانوں کے لئے ہے۔ یہ اصول غیر مسلموں کے لیے نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ غیر مسلم تک علم پہنچانا دراصل دعوت کا عمل ہے اور دعوت ہمارا اپنا فریضہ ہے۔ جب ہم اسلام کا علم کسی غیر مسلم تک پہنچاتے ہیں تو ہم خود اپنا فریضہ انجام دیتے ہیں اور فریضہ ادا کرنا خود اس کا کام ہے جس پر وہ چیز فرض ہورہی ہو۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے مجھے نماز کا فرض ادا کرنا ہے تو مجھے خود مسجد جانا پڑے گا۔ مسجد میرے پاس اٹھ کر نہیں چلی آئے گی۔
عاطف صاحب نے اس کے بعد تبلیغی جماعت کے بعض افراد سے رابطہ قائم کیا اور مذکورہ مسیحی کے بارے میں انہیں بتایا۔ وہ لوگ فوراً وہاں جانے کے لیے تیارہوگئے کیوںکہ ان کے اندر پہلے ہی سے یہ مزاج تھا کہ دین کو چل کر پہنچانا چاہئے۔ چنانچہ تبلیغ کے ۳ آدمی وہاں گئے۔ انھوں نے کچھ تحفہ (عطر، دعا کی کتاب اور کیسٹ) اس مسیحی کو پیش کیا اور اس سے نرمی اور محبت کے ساتھ بات کی اور اس کو دین کا ابتدائی پیغام پہنچایا۔
عاطف صاحب نے مزید بتایا کہ تبلیغی لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر کم از کم تین آدمی کی جماعت بناتے ہیں۔ ان میں سے ایک امیرہوتا ہے اور دوسرا متکلم اور تیسرا ذاکر۔ امیر گویا اس جماعت کا قائد ہوتا ہے۔ متکلم کا کام یہ ہے کہ وہ ضرورت کے وقت بولے اور وضاحت کرے۔ ذاکر کا کام یہ ہے کہ وہ دل ہی دل میں اللہ کو یاد کرتا رہے اور دعا کرتا رہے کہ یہ مشن کامیاب ہو۔ یہ سن کر میں نے کہا کہ یہ طریقہ نہایت فطری ہے۔ وہ اسلام کی اسپرٹ کے عین مطابق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی ہر مجلس میں یہی طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے۔ اس طریقہ کو مسلم کلچر کا ایک جزء بن جانا چاہیے۔
عاطف صاحب نے ایک اور بات بتائی۔ انھوں نے کہا کہ حق کے داعی کے اندر تین صفت ہونی چاہیے۔ یہ تین صفتیں انھوں نے قرآن کی ایک آیت سے اخذ کی ہیں۔ وہ آیت یہ ہے: ومن احسن قولاً ممن دعا الی اللّٰہ وعمل صالحاً وقال اننی من المسلمین۔ (فصلت ۳۳) انھوں نے کہا کہ داعی کے اندر پہلی مطلوب صفت یہ ہے کہ دعوتی کام پر مکمل یقین ہو، اور دوسرا یہ کہ جو چیز داعی دوسروں کو بتارہا ہے وہ خود بھی اس پر عمل کرنے والا ہو، تیسرا یہ کہ آدمی کے اندر تواضع (humbleness) کی صفت پائی جائے۔ ایک سچے داعی کے اندر یہ تین صفتیں ہونی چاہئیں۔ میں نے کہا کہ آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے۔ یہی مزاج پوری امت میں ہونا چاہیے۔
۹مئی کی صبح ہوئی تو فجر کی نماز کے بعد دوبارہ مجلس کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرے کمرے میں عورتیں اور مرد اکھٹا ہوگئے۔ ان لوگوں سے دیر تک دینی موضوعات پر باتیں ہوتی رہیں۔ ایک مسئلہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ جنت کی قیمت دو چیزیںہیں— عمل یا اعتراف بے عملی۔ یعنی یا تو آدمی عمل صالح کا ذخیرہ لے کر خدا کے یہاں پہنچے یا ایسا ہوکہ عمل صالح کے ساتھ اس سے کچھ خطائیں بھی سرزد ہوئیں، مگر ان خطائوں پر وہ بے حد شرمندہ تھا اور پوری طرح اپنی غلطی کااعتراف کیا تھا۔
میں نے مزید کہا کہ میرے مطالعہ کے مطابق، شخصیت کی تعمیر میں باعمل ہونے کا احساس اتنا زیادہ مددگار نہیں ہے جتنا کہ اپنی بے عملی کا احساس۔ صحابۂ کرام کے بعد اسلام کی تاریخ میں سب سے زیادہ ممتاز دینی شخصیت عمر بن عبدالعزیز کی ہے۔ جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، ان کی یہ شخصیت تمام تر احساسِ خطا سے بنی تھی، نہ کہ احساس عمل کے تحت۔
اصل یہ ہے کہ کسی شخصیت میں انقلابی تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کو کوئی زبردست جھٹکالگا ہو۔ احساسِ خطا آدمی کو اسی قسم کا جھٹکا پہنچاتا ہے۔ وہ اس کو اندر سے بے چین کردیتا ہے۔ یہی بے چینی انسانی شخصیت میںکسی بڑی تبدیلی کا اصل محرک ہے۔ مگر خطا کا احساس کوئی سادہ چیز نہیں۔ صدمہ ہر ایک کو پہنچتا ہے۔ مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں جو صدمہ کے بعد تڑپ اٹھیں اور اپنی اصلاح کے لیے بے چین ہوجائیں۔
ایک مجلس میں جنت کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ اس مجلس میں محمد احمد دادا بھائی بھی شریک تھے۔ انھوںنے کہا کہ کیا ایسی جنت میں آدمی اکتا (bore) نہیں جائے گا جہاں ہر وقت شہد کھانا اور دودھ پینا ہو۔ انھوں نے جنت کے بارے میں اسی طرح کے غیر سنجیدہ ریمارک دیے۔ وقتی طور پر مجھ کو ان کی بات ناپسند ہوئی۔ مگر میں چپ رہا۔ میں اندر ہی اندر دعا کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ ان کو کس طرح مطمئن کرنا چاہئے۔ آخر کار ایک بات سمجھ میں آئی۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ جنت کیا ہے تو قرآن میں اس کا جواب موجود ہے۔ قرآن میں ایک سچی خدا پرست خاتون کی دعا ان الفاظ میں نقل کی گئی ہے: ربّ ابن لی عندک بیتاً فی الجنۃ (التحریم ۱۱)
اس دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت خدا کے پڑوس میں رہنے کا نام ہے۔ یہ سن کر اچانک ان کا موڈ بدل گیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ دعا مجھے لکھ کر دیجئے۔ چنانچہ میرے ساتھی مولانا انیس لقمان ندوی نے اس دعا کو ایک کاغذ پر پہلے عربی میں لکھا اور پھر اس کاانگریزی ترجمہ کیا۔ یہ کاغذ انہیں دے دیا گیا۔ وہ اتنا متاثر ہوئے کہ جاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ میرے سر پر اپناہاتھ رکھ دیجئے۔ چنانچہ میں نے ان کے سرپر ہاتھ رکھا اور ان کے لیے دعا کی۔
اس واقعہ پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ پہلے ان کے ذہن میں جنت کا تصور مبہم (abstract) انداز میں تھا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ جنت کیا چیز ہے۔ لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ جنت خدا ئے برتر کے پڑوس میں رہنے کا نام ہے تو ان کے ذہن میںجنت کا ایک واضح تصور آگیا۔ یہ انہیں پہلے سے معلوم تھا کہ خدا کائنات کا خالق ہے۔ وہ پھول جیسی خوبصورت چیزوں کو بنانے والا ہے۔ اس نے ستاروں اور سیاروں اور شمسی نظام کو وجود دیا ہے۔ اس نے جنگل اور پہاڑ اور دریا جیسی تمام چیزیں بنائی ہیں۔ جنت کو خدا کے ساتھ جوڑنے کے بعد انھوں نے اس کو سمجھ لیا۔
اس پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ جنت خدائے عظیم وبرتر کے پڑوس میںجینے کا نام ہے تو گویا انہیں ایک معلوم فریم ورک (framework) مل گیا جس کے نقشہ میں وہ جنت کو سمجھ سکیں۔ اب جنت ان کے لیے ایک قابلِ فہم (understandable) چیز بن گئی۔ یہ وہی چیز ہے جس نے ان کے رویہ میں فرق پیدا کردیا۔
آج کی مجلس میں مولانا انیس لقمان ندوی نے ایک دلچسپ لطیفہ سنایا جو ایک دیہاتی عرب اور بچوں کے ایک ڈاکٹر (child specialist) کے درمیان عربی مکالمہ کی شکل میں یوں ہے:
أعرابی: ما وظیفتک یا دکتور؟ (ڈاکٹر، آپ کا پیشہ کیا ہے؟)
ڈاکٹر: أنا طبیب أطفال (میں بچوں کا ڈاکٹر ہوں)
أعرابی: لِماذَا لَمْ تَسْتَکْمِلْ دِرَاسَتَکَ یا دکتور؟(ڈاکٹر صاحب آپ نے اپنی تعلیم مکمل کیوں نہیں کی؟)
اس مثال سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے کیا چیز ضروری ہے۔ وہ یہ کہ آدمی سنی ہوئی بات میں اپنی طرف سے کچھ اضافہ کرسکے۔حقیقت یہ ہے کہ ہر بات اپنے ظاہر کے اعتبار سے ادھوری ہوتی ہے۔ کسی بات کو مکمل طور پر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو ذہنی اعتبار سے اتنا تیار ہو کہ وہ غیرمذکور پہلو کا اضافہ کرکے بات کو مکمل کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ کہی ہوئی بات کو صرف سنناکافی نہیں۔ بلکہ یہ ضروری ہے کہ آدمی کے پاس وہ مزید عقل ہو جس سے وہ کہی ہوئی بات کو اس کی پوری صورت میں سمجھ سکے۔
دبئی میں ایک علاقہ ہے جہاں امریکی لوگ رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہاں کے نظام میں کسی نہ کسی اعتبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ وہ بڑے بڑے دفتروں میں کام کرتے ہیں اور یہاں اپنے گھروالوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہ علاقہ بقیہ دبئی سے ممتاز طور پر مختلف ہے۔ دبئی کا شہر خود بھی شاندار شہر ہے۔ انڈیا کے لیے تو شائننگ انڈیا ایک لفظی نعرہ ہے۔ مگر دبئی کے لیے شائننگ دبئی ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دیکھتے ہی آدمی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوجائے۔
مگر جہاں تک دبئی کے امریکی علاقہ کا تعلق ہے وہ اتنا زیادہ شاندار ہے کہ خود امریکا میں بھی ایسی شاندار جگہ کم دیکھنے کو ملے گی۔ یہاں کے مسلمان اس امریکی علاقہ کی شان و شوکت کو دیکھ کر اس پر سخت اعتراض کرتے ہیں۔ میں نے ایک مقامی مسلمان سے کہا کہ موجودہ شکل میں آپ لوگوں کے اعتراض کے پیچھے صرف حسد کا جذبہ کام کررہا ہے۔ مگر کسی حاسد کو اس قسم کے اعتراض کا کوئی حق نہیں کیوںکہ وہ خود بھی اپنے لیے یہی چاہتا ہے۔ اس پر اعتراض کا حق صرف اس شخص کو ہے جو خود اس قسم کی چمک والی دنیا کا خواہش مند نہ ہو۔ جو خالص آخرت کے جذبہ کے تحت اس کے بارہ میں بولے۔ جس کا اعتراض حسد کے جذبہ کا اظہار نہ ہو بلکہ صرف اس تڑپ کا اظہار ہو کہ لوگ کس طرح موت اور آخرت کو بھولے ہوئے ہیں۔ حالاںکہ آخر کار محل والے اور جھونپڑی والے دونوں کے لیے یہی مقدر ہے کہ وہ اس کو چھوڑ کر وہاں چلے جائیں جہاں نہ کسی کا محل اس کے کام آئے گا اور نہ کسی کا جھونپڑا۔
میں نے جب دبئی کے اس شاندار حصہ کو دیکھا تو مجھے یاد آیا کہ ۱۹۳۶ میں انگریزوں نے نئی دہلی میں ایک شاندار دنیا بنائی جس کا مرکز وائس ریگل لاج تھا۔ یہ اب راشٹر پتی بھون کہا جاتا ہے۔ جب یہ شاندار علاقہ تعمیر ہوا تو اسی زمانہ میں فرانس کا ایک بڑا لیڈر ہندستان آیا۔ اس نے اس کو دیکھ کر کہا —انھوں نے کیسی شاندار دنیا بنائی ہے، صرف اس لیے کہ وہ ایک دن اس کو چھوڑ کر چلے جائیں:
What a magnificent world they built to leave.
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے ابھی دبئی کے امیر لوگوں کو دیکھا ہے۔یہاں غریب لوگ بھی ہیں۔ ان غریب لوگوں سے آپ کی ملاقات نہ ہوسکی۔ اگر آپ ان کو دیکھتے تو آپ جانتے کہ یہاں معاشی فراوانی کے ساتھ معاشی عدم مساوات بھی موجود ہے۔
میں نے کہا کہ میں دیکھے بغیر اس حقیقت کو جانتا ہوں۔ مجھ کو معلوم ہے کہ نہ صرف دبئی بلکہ ہر ملک میں، حتیٰ کی لندن اور نیویارک میں بھی ’’غریب‘‘ لوگ موجود ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشی فرق فطرت کا ایک قانون ہے۔ وہ کسی سرمایہ دار یا کسی حکومت کا پیدا کردہ نہیں، بلکہ خود خالقِ فطرت کا پیدا کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کارل مارکس اور اس کے انقلابی ساتھی ہر قسم کی اکھیڑ پچھاڑ کے باوجود دنیا میں معاشی مساوات نہ لاسکے۔
قرآن سے ثابت ہے کہ خدانے تقسیمِ رزق میں ایک دوسرے کے درمیان فرق رکھا ہے۔ اس فرق کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ اسی فرق سے انسانی سماج میں مسابقت اور چیلنج کا ماحول قائم رہتا ہے۔ اسی فرق کی بنا پر یہ ممکن ہوتا ہے کہ دنیا میںحالتِ امتحان قائم رہے اور لوگوں کی جانچ ہوتی رہے۔ اسی فرق کی بنا پر لوگوں کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ صبر اور شکر جیسی نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں درج کرواسکیں۔ اسی فرق کی بنا پر سماجی فلاح اور انسانی خدمت جیسی سرگرمیاں برابر جاری رہتی ہیں۔ اسی فرق کی بنا پر وہ تجربات پیش آتے ہیں جو لوگوں کو عمل کی زبان میں بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں امیری اور غریبی دونوں وقتی بھی ہیں اور اسی کے ساتھ اضافی بھی۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر دنیا میںمعاشی فرق نہ رہے تو تمام سرگرمیاں ٹھپ ہوجائیں گی۔ اس کے بعد معاشی اور اقتصادی ترقی رُک جائے گی۔ روحانی اور فکری ارتقاء کا عمل جاری نہ رہے گا۔ انسانی دنیا زندہ انسانوں کے بجائے مردہ مجسموں کی ایک دنیا بن کر رہ جائے گی۔ ایسی حالت میں لوگ عروج وزوال اور ترقی و تنزل کے واقعات کا مشاہدہ نہ کرسکیں گے، جب کہ اسی مشاہدہ سے انسان کو وہ عظیم چیز حاصل ہوتی ہے جس کو تاریخ کے اسباق کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر فرحت نسیم ہاشمی کی تقریروں کے کیسٹ بہت مقبول ہیں۔ لوگ اپنی کاروںمیں اس کو سنتے رہتے ہیں۔ دبئی میں میں اپنے ایک عزیز شکیل احمد خاں انجینئر کے گھر گیا۔ ان کی اہلیہ سلمہ نے بتایا کہ وہ روزانہ رات کو ڈاکٹر فرحت کے کیسٹ پابندی کے ساتھ سنتی ہیں۔ موجودہ زمانہ میں آڈیوکیسٹ اور ویڈیو کیسٹ کا طریقہ گویا ایک دعوتی نعمت ہے۔ اس جدید طریقہ نے اس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ داعی ایک مقام پر رہ کر ساری دنیا میں اپنی آواز پہنچا سکے۔
ڈاکٹر فرحت کا وزن کافی بڑھ گیا ہے، جب کہ پہلے ایسا نہ تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ زیادہ وزن طبّی اعتبار سے اچھی چیز نہیں۔ آپ کو واک کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے پہلے میں اسلام آباد میں رہتی تھی۔ وہاں میں برابر واک کرتی تھی۔ اس وقت میرا وزن اتنا زیادہ نہ تھا۔ اب میں کراچی میں رہتی ہوں۔ کراچی میں گھر سے باہر نکلنا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے میں نے کراچی میں واک کرنا بند کردیا۔ اس کے بعد میرا وزن بڑھ گیا۔
میں نے کہا کہ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ پاکستان کے حامیوں کا یہ کہنا تھا کہ مسلمان متحد ہندستان میں محفوظ نہیں رہ سکتے، اس لیے ہم کو پاکستان کی صورت میں ایک محفوظ علاقہ چاہئے اور اب یہ حال ہے کہ پاکستان خود مسلمانوں کے لیے غیر محفوظ ہورہا ہے۔ یہ کیسی عجیب بات ہے جو اس بات کی دعوت دیتی ہے کہ ہم اپنے ماضی کی سیاست پر نظر ثانی کریں۔
ایک عرب تاجر ملاقات کے لیے آئے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا قدیم وطن یمن تھا۔ ان کے باپ یمن کو چھوڑ کر دبئی آگئے اور اب ہم لوگ یہاں کے شہری ہیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کی پیدائش یمن میں ہوئی یا دبئی میں۔ انھوں نے کہا : الحمد للہ، میری پیدائش دبئی میں ہوئی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ الحمد للہ کا کوئی صحیح استعمال نہیں۔ کیا ایسا ہے کہ آدمی اگر دبئی میں پیدا ہو تو یہ الحمد للہ کی بات ہے، اور اگر وہ ہندستان یا یمن جیسے کسی ملک میں پیدا ہو تو وہ الحمد للہ کی بات نہیں۔ میں نے کہا کہ دبئی اور یمن اور ہندستان سب خدا کے ملک ہیں۔ سب یکساں حیثیت رکھتے ہیں۔ پیدا ہونا یا زندگی کا ملنا تو ضرور الحمدللہ کی بات ہے، مگر ایک خطۂ زمین اور دوسرے خطۂ زمین میں فرق کرنا کوئی صحیح اسلامی ذہن نہیں۔
ایک غیر مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میں نے روحانیت کے انداز میں کچھ باتیں کہیں۔ وہ میری باتوں کو سن کر متاثر نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ میں سچائی کا متلاشی (seeker) ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ کو میں ایک دعا بتاتاہوں۔ آپ اس کو پابندی کے ساتھ روزانہ پڑھیں۔ پھر میں نے یہ قرآنی دعا ایک کاغذ پر لکھی اور اس کو انہیں دیا۔ میں نے کہا کہ آپ اس دعا کو روزانہ پڑھیں۔ وہ دعا یہ تھی: رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر (خدایا، جو خیر تو نے میری طرف اُتارا، میں اس کا محتاج ہوں)انہوں نے کہا کہ میں اس دعا کو روزانہ پڑھوں گا۔
۹ مئی کو شارجہ ٹی وی میں انٹرویو تھا۔ اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ میں وہاں پہنچا۔ میں نے دیکھا کہ صاف ستھری سڑک کے کنارے خوبصورت آہنی فصیل کے اندر ایک بہت بڑی شاندار دنیا آباد ہے۔ اس کے اندر داخل ہوا تو اس کا ہر حصہ منظم اور ممتاز دکھائی دیا۔ شارجہ ایک بے حد چھوٹا ملک ہے اور ہندستان اس کے مقابلہ میں بہت بڑا ملک۔ مگر شارجہ کے مقابلہ میں دہلی کا ٹی وی اسٹیشن بہت معمولی نظر آتا ہے۔
شارجہ ٹی وی کے اسٹوڈیو میں دو انٹرویو ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں سے ہر ایک ۴۵ منٹ کا تھا۔ انٹرویور مولانا عبدالقیوم بستوی تھے۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام اور امن کے موضوع سے تھا۔ میرے جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں جنگ ایک استثناء ہے، نہ کہ کوئی عمومی حکم۔ اسلام میں جنگ صرف دفاع کے لیے جائز ہے۔ اسی کے ساتھ اس کی بہت سی شرطیں ہیں۔ مثلاً جنگ صرف ایک قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے، غیر حکومتی تنظیموں کے لیے جنگ کرنا جائز نہیں۔ ان کے لیے پُر امن جدوجہد ہے، نہ کہ مسلّح جہاد۔ پھر میں نے کہا کہ اسلام میں گوریلا وار اور پراکسی وار قطعاً حرام ہے۔ خود کُش بمباری بلاشبہ اسلام میں حرام ہے۔ اسی طرح ایک جائز جنگ میں بھی صرف مقاتِل پر حملہ کیا جاسکتا ہے، غیر مقاتِل پر حملہ کرنا کسی حال میں جائز نہیں۔
اس پروگرام کے انتظامی ڈائرکٹر مسٹر خورشید احمد تھے۔ ان کو میری باتیں بہت پسند آئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بار ہم نے آپ کا پروگرام بہت جلدی میں بنایا۔ آئندہ انشاء اللہ ہم آپ کا پروگرام زیادہ باقاعدہ صورت میں کریں گے۔
کئی مردوں اور عورتوں نے آٹوگراف کے لیے کہا۔ میں نے ہر ایک کی نوٹ بک پر کچھ نصیحت آمیز کلمات لکھ دیے۔ قدسیہ سید کی نوٹ بک پر میں نے یہ الفاظ لکھے: خدا سے محبت کی منزل انسان سے محبت کے راستہ سے گذرتی ہے۔ اس جملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ آج کل کے مسلمان انسان سے نفرت کرتے ہیں اور بطور خود یہ سمجھتے ہیں کہ وہ خدا اور اُس کی جنت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان مسلمانوں پر سعدی شیرازی کایہ شعر صادق آتا ہے:
تَرسَم نَرَسی بہ کعبہ ائے اعرابی
کیں رہ کہ تومی روی بہ ترکستان است
ایک مجلس میں میں نے کہا کہ لوگ عام طور پر غلطی کا اعتراف کرنے سے گھبراتے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر وہ دل سے مان لیں کہ اُن سے غلطی ہوگئی تب بھی وہ زبان سے یہ نہیں کہہ پاتے کہ میں غلطی پر تھا (I was wrong) ۔غلطی کا اعتراف وہی معتبر ہے جو کھلے طور پر زبان سے ہو۔ دل سے ماننا اور منھ سے نہ بولنا، ایک قسم کی منافقت ہے اور منافقت کا کوئی فائدہ نہ دنیا میںکسی کو ملنے والا ہے اور نہ آخرت میں۔
مزید یہ کہ غلطی کا اعتراف کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ خود اپنے شخصی ارتقاء کے لیے بے حد اہم ہے۔ اس دنیا میں کسی مرد یا عورت کے لیے سب سے بڑی چیز اپنی شخصیت کا ارتقاء ہے، اور شخصیت کاارتقاء سب سے زیادہ جس چیز کے ذریعہ ہوتا ہے وہ اپنی غلطی کا سچااعتراف کرنا ہے۔
ایک باریش بزرگ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ہندستان کے ایک مدرسہ میں تعلیم پائی ہے۔ اور اب وہ کسی سروس کے تحت عرب امارات میں رہتے ہیں۔ ملاقات کے وقت انھوں نے بتایا کہ جب میں ہندستان میں تھا تو میں آپ کا ماہنامہ الرسالہ پڑھتا تھا۔ پھر انہوں نے کہا کہ کیا الرسالہ ابھی نکل رہا ہے۔ ان کے اس سوال پر مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ میں نے اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا کہ اگرمیں آپ سے پوچھوں کہ کیا آپ کے فرزند ابھی تک زندہ ہیں تو آپ کا جواب کیا ہوگا۔ اس سوال کا جو جواب آپ کے پاس ہو، اُسی کو آپ میری طرف سے اپنے سوال کاجواب سمجھ لیجیے۔
ایک ہندستانی عالم سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے یہاں کے ایک تعلیمی ادارہ میں اُصول فقہ پر تخصص کیا ہے اور اُس پرمقالہ لکھا ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ اگر آپ کی ملاقات کسی غیر مسلم سے ہو اور وہ پوچھے کہ قرآن کی تعلیمات کا خلاصہ ایک جُملہ میں بتائیے تو آپ اس کا کیا جواب دیں گے۔ وہ اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اگر کوئی مسلمان آپ سے کہے کہ اسلام کی کوئی آفاقی تعلیم بتائیے تو آپ اس کو کیا جواب دیں گے۔ عجیب بات ہے کہ اس سوال کا بھی کوئی جواب ان کے پاس نہ تھا۔ پھر میں نے کہا کہ اب میں آپ کے اپنے موضوع تحقیق کے بارہ میں ایک سوال کرتا ہوں۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ اجتہادِ مطلق کیا ہے اور اجتہادِ مقید کیا ہے۔ انھوں نے کہاکہ اجتہادِ مطلق کی بہت سی شرطیں ہیں اور آج کسی میں یہ شرطیں نہیں پائی جاتیں۔ البتہ جزئیات میں مطلق اجتہاد کیا جاسکتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ موجودہ زمانہ میں ہزاروں مشہور علماء ہیں۔ کیا ان میں سے کوئی شخص آپ کے نزدیک اجتہادِ مطلق کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ نہیں۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ امریکا میں رہتے ہیں۔ گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ امریکا میں بہت زیادہ اسلامی کام ہورہا ہے۔ میں نے کہا کہ میں ایک درجن سے زیادہ بار امریکا گیا ہوں۔ میں نے امریکا میں بہت کچھ پڑھا ہے اور اس کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جس چیز کو آپ لوگ اسلامک ورک کہتے ہیں وہ دراصل کمیونٹی ورک (community work) ہوتا ہے نہ کہ اسلامک ورک۔
اصل یہ ہے کہ امریکا اور دوسرے مغربی ملکوں میں جہاں مسلمان روزگار کے لئے رہتے ہیں وہ وہاں کی مقامی سوسائٹی سے کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ انسان ایک سوشل انیمل (social animal) ہے وہ سوسائٹی چاہتا ہے۔ اس ضرورت کے تحت امریکا وغیرہ میں کچھ اجتماعی سرگرمیاں جاری ہوتی ہیں جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے سوشلائزیشن (socialization) کے مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہیں۔ البتہ مسلمان اپنے مخصوص کلچرل بیک گرائونڈ کی بنا پر ان کو اسلام کا نام دے دیتے ہیں۔ اس قسم کا کمیونٹی ورک ہر مذہبی گروہ میں دیکھا جاسکتا ہے، مثلاً ہندوئوں میں اور سکھوں میں اور جینیوں میں۔
اسلامک ورک حقیقتہً وہ ہے جو دعوہ ورک ہو۔ یعنی غیر مسلموں کو اسلام کا خدائی پیغام پہنچانا۔ مگر یہ دعوہ ورک وہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔ کیوںکہ دعوت کا کام انسانی محبت کے جذبہ کے تحت ہوتا ہے۔ دعوت دراصل محبت اور خیر خواہی کا اظہار ہے۔ مگر موجودہ مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ دوسری قوموں سے نفرت کرتے ہیں، وہ ان کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں وہ اس قابل ہی نہیں کہ وہ دوسری قوموں کے درمیان دعوت کا کام کرسکیں۔
ایک صاحب سے ہندستان میں ہونے والے الیکشن (۲۰۰۴) کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ میں نے کہا کہ اس وقت ہندستان میں زور و شور کے ساتھ چودھویں لوک سبھا کے الیکشن کی مہم چل رہی ہے۔ بنیادی طور پر یہ مقابلہ دو بڑی پارٹیوں کے درمیان ہے، بی جے پی اور کانگریس۔ مگر یہ طے شدہ ہے کہ اس الیکشن میں خواہ کوئی بھی پارٹی جیتے مگر انڈیا کے لئے موجودہ حالات میں ہار کے سوا کچھ اور مقدر نہیں۔
میں نے کہا کہ انڈیا کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ آزادی (۱۹۴۷) کے بعد وہاں صحیح رخ پر قومی تعمیر کا آغاز نہ ہوسکا۔ ابتدائی قومی لیڈرزیادہ تر سوشلسٹ تھے۔ چنانچہ انھوں نے سوشلسٹ ماڈل کو سامنے رکھ کر تعمیری کام شروع کیا۔ انھوں نے پرائیویٹ سیکٹر پر اتنی پابندیاں لگائیں کہ وہ ابھر نہ سکا۔ دوسرے یہ کہ پبلک سیکٹر کے نام پر بہت بڑے بڑے اقتصادی ادارے قائم کئے۔ یہ پبلک سیکٹر، ایک ہندو جرنلسٹ ارون شرما کے بقول، اقتصادی ترقی میں تو معاون نہ ہوسکا البتہ اس نے دو برائیاں پیدا کردیں۔ ایک سرکاری انتظامیہ کا کرپشن اور دوسرے کروڑوں ملازمین کی صورت میں لیتھارجی (lethargy) کا مسئلہ، یعنی کام کئے بغیر تنخواہ لینا۔
اب مشکل یہ ہے کہ اگر پبلک سیکٹر کو ختم کرکے پرائیویٹ اکانومی کو فروغ دیا جائے تو اقتصادی ترقی تو ہوتی ہے مگر اسی کے ساتھ بے روزگاروں کی ایک فوج وجود میں آتی ہے جن کے جذبات کو بھڑکا کر ٹریڈ یونین کے لوگ لیڈری حاصل کرلیں اور پھر پورے ترقیاتی عمل پر روک لگا دیں۔
ایک صاحب سے ہندستان کے معاشی حالات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہندستان میں سب سے بڑا مسئلہ غریبی کا مسئلہ ہے۔ جو پولیٹکل پارٹی غریبی کا خاتمہ (eradication of poverty) کا ایشو لے کر اٹھے گی وہ کامیاب ہوگی۔
میں نے کہا کہ انڈیا میں ایک طبقہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ انڈیا میں جو غربت ہے وہ ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی بنا پر ہے جس کو پچھلے کچھ سالوں سے اختیار کیا گیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ درست نہیں۔ میں نے کہا کہ ہندستان کااصل مسئلہ کرپشن ہے۔ ہندستان میں غریبی کو ختم کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہے وہ کرپشن کا خاتمہ (eradication of corruption) ہے نہ کہ ایریڈکیشن آف پاورٹی (eradication of poverty)۔ ہندستان میں کرپشن اتنا بڑھ چکا ہے کہ منصوبہ بندی کے تحت بڑی بڑی رقمیں غریبوں کے نام پر جاری کی جاتی ہیں۔ مگراس کا بیشتر حصہ بیچ کے لوگ مختلف طریقوں سے لے لیتے ہیں اور عوام بدستور غریبی میں پڑے رہتے ہیں۔ موجودہ حالت میں ہندستان میں خواہ ایک گروہ کی حکومت ہو یا دوسرے گروہ کی حکومت، عملاً یہی ہوگا کہ غریبی کے نام پر بجٹ بنے گا مگر وہ امیروں کی جیب میں چلا جائے گا۔
میں نے کہا کہ میرے نزدیک ’’غریبی ہٹائو‘‘ کا نظریہ ہی غلط ہے۔ غریبی خود اپنے عمل سے ختم ہوتی ہے نہ کہ حکومت کی سرپرستی سے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ملک میں اقتصادی سرگرمیوں کی آزادی ہو تاکہ مسابقت کا ماحول قائم ہو۔ مسابقت کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ حکومت کو اصولی طور پر صرف دو کام کرنا چاہیئے۔ ایک ہے، کرپشن فری انتظامیہ اور دوسرے، پورے ملک میں عمدہ انفراسٹرکچر۔
ایک مجلس میں ایک صاحب نے ایک عربی مقالہ کا ذکر کیا۔ اس کے لکھنے والے ایک عرب عالم تھے۔ اس مقالہ کا عنوان یہ تھا: لماذا تأخرنا وتقدم غیرنا (ہم کیوں پیچھے ہوگئے اور ہمارے غیر کیوں ہم سے آگے بڑھ گئے) اس پر اظہار خیال کرتے ہوئے میں نے کہا کہ یہی سوال ۷۵ سال پہلے امیر شکیب ارسلان نے کیا تھا اور اس کا جواب بھی دیا تھا۔ انھوںنے اس مقصد کے تحت ایک کتاب شائع کی تھی جس کا عنوان یہ تھا: لماذا تأخر المسلمون وتقدم غیرہم (کیوں مسلمان پیچھے ہوگئے اور ان کے غیر کیو ںان سے آگے بڑھ گئے)
میں نے کہا کہ ۷۵ سال پہلے امیر شکیب ارسلان نے اس سوال کا ایک جواب دیا تھا۔ ٹھیک یہی جواب اس زمانہ کے تقریباً تمام علماء نے دیا۔ اور وہ جواب یہ تھا کہ مسلمان دوبارہ عروج کی حالت تک پہنچنے کے لئے جہاد کریں۔ امیر شکیب ارسلان نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کوجہاد کے لئے ابھارتے ہوئے ایک عربی شاعر کا شعر نقل کیا تھا کہ میں زندہ رہنے کے لئے (میدان جنگ سے) پیچھے رہا لیکن اس میں میں نے اپنے نفس کے لئے کوئی زندگی نہ پائی۔ زندگی تو صرف آگے بڑھنے والوں کے لئے ہے۔
تاخرت استبقی الحیاۃ فلم اجد
لنفسی حیاۃ مثل ان اتقدما
واقعات بتاتے ہیں کہ اس مشورہ کو مسلمانوں نے پوری طرح قبول کیا اور ساری دنیا میں جگہ جگہ مسلح جہاد شروع ہوگیا۔ اس جہاد کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ مگر بے شمار جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود اب تک کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ یہ ناکام تجربہ بتاتا ہے کہ یہ مشورہ سراسر غلط تھا۔ مگر عجیب بات ہے کہ لوگ اسی قدیم مشورہ کو بار بار دہرارہے ہیں۔ مثلاً ایک عربی مجلہ میں حال میں ایک عرب عالم کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: الجہاد ہو الحل الوحید (جہاد ہی واحد حل ہے) حالاںکہ اب لوگوں کو یہ لکھنا اور بولنا چاہیئے کہ ہمارا جہاد تو ناکام ہوگیا۔ اب مقصد کے حصول کے لئے دوسری کون سی تدبیر کی جائے۔
دبئی میں قیام کے دوران کراچی سے ایک خاتون کا خط موصول ہوا۔ اس خط پر ۶ مئی ۲۰۰۴ کی تاریخ درج تھی۔ یہ خط ایک صاحب دستی طور پر لے آئے تھے جو کراچی سے بذریعۂ ہوائی جہاز دبئی پہنچے تھے۔ اس خط کا ایک حصہ یہ تھا:
آپ کی تحریروں سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ خصوصاً پیغمبر انقلاب اور ڈائری پڑھ کر میری سوچ میں بہت تبدیلیاں آئی ہیں۔ آپ دعا کیجیے کہ میری سوچ کی تبدیلیاں میرے عمل میں بھی ڈھل جائیں۔ آپ کی کتاب پیغمبر انقلاب پڑھ کر میں نے تاریخ کو ایک بالکل نئے پہلو سے جانا۔ ہر نئے موضوع پر چونک اُٹھتی تھی اور سوچنے پر مجبور ہوتی تھی کہ کیا ہم کبھی صحابہ کی طرح ایمان لاسکتے ہیں۔ کیا کبھی ان جیسا عمل کرسکتے ہیں۔ یہ سب کیسے ممکن ہوسکتا ہے۔ پھر آپ ہی کی تحریر میں مجھے جواب مل گیا کہ صحابہ نے اسلام کو شعور کی سطح پر لیا تھا۔ اس دن سے کوشش کررہی ہوں کہ میں بھی اسلام کو شعور کی سطح پر لوں۔ (عصمت، کراچی)
حقیقت یہ ہے کہ صحابہ معجزہ نہیں، وہ ہمارے لیے اُسوہ ہیں۔ صحابہ کی حیثیت ناقابلِ تقلید شخصیت کی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہمارے لیے قابلِ تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اصحابِ رسول کو ہمیں اسی نظر سے دیکھنا چاہیے۔
پروفیسر محمد ادریس زبیر (۴۸ سال) انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی، اسلام آباد میں استاد تھے۔ پھر انھوں نے اس سے استعفا دے کر دعوت کا کام شروع کیا۔ وہ کامیابی کے ساتھ اس کو چلارہے ہیں۔ ایک گفتگو کے دوران انہوں نے تربیتِ اولاد کے معاملہ میں ماں کی اہمیت کو بتاتے ہوئے یہ عربی شعر پڑھا — ماں ایک مدرسہ ہے۔ اگر تم نے ماں کو تیار کردیا تو تم نے ایک بہترین نسل تیار کردی:
الأم مدرسۃ إن اعددتہا
أعددت شعبأ طیب الأعراقِ
پروفیسر ادریس صاحب نے کراچی میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ایک ادارہ (الہدیٰ انٹرنیشنل) قائم کیا ہے۔ اس ادارہ کے تحت وہ گویا مستقبل کی مائوں کو تیار کررہے ہیں۔ یہ یقینا ایک دور رس تعلیمی منصوبہ ہے۔ مسلم خواتین کو تعلیم یافتہ بنانا ایک عظیم کام ہے۔ پوری مسلم دنیا میں اس کام کی شدید ضرورت ہے۔
بعض اسباب سے موجودہ زمانہ میں ایسا ہوا کہ مسلم خواتین تعلیم میں پچھڑ گئیں ۔حالاںکہ تعلیم ہر مسلم مرد اور مسلم عورت کے لئے ضروری ہے۔ تعلیم کا تعلق نہ صرف مرد سے ہے اور نہ صرف عورت سے بلکہ اس کا تعلق انسان سے ہے۔ وہ دونوں ہی صنفوں کے لئے یکساں طور پر ضروری ہے۔
موجودہ زمانہ میں عورت اور اسلام کے موضوع پر کثرت سے ہرزبان میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔ مگر جہاں تک میرا تجربہ ہے، ان کتابوں میں عورت کے تعمیری کردار کو بہت کم نمایاں کیا گیا ہے۔ زیادہ تر دوسرے پہلو مصنفین کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ ایک عرصہ سے مجھے اس ضرورت کا احساس تھا چنانچہ میں نے اس موضوع پر ایک جامع کتاب تیار کی ہے۔ اس کتاب کا نام ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ہے۔ یہ کتاب اس وقت زیر طبع ہے۔ وہ تقریباً ۲۰۸ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب میں عورت کے مثبت رول کو بتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ ہندستان کی ہندو اکسٹریمسٹ پارٹی بی جے پی کو سپورٹ کرتے ہیں اور مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ وہ بی جے پی کو ووٹ دیں۔ میں نے کہا کہ یہ بات صد فی صد غلط ہے۔ میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ مسلمان بی جے پی کو ووٹ دیں۔ اس معاملہ میں میری جو رائے ہے اس کا تعلق انتخابی پالیسی سے ہے نہ کہ سیاسی پارٹی کو ووٹ دینے یا ووٹ نہ دینے سے۔
میں نے کہا کہ حال میں ۴ مئی ۲۰۰۴ کو نئی دہلی کے جین ٹی وی کے اسٹوڈیو میں ڈسکشن کا ایک پروگرام تھا۔ ڈسکشن کے اس پروگرام میں اینکر کے علاوہ دو آدمی شریک تھے۔ ایک میں، اور دوسرے کانگریس پارٹی کے سینیر لیڈر سید جعفر شریف۔ اس ڈسکشن کا موضوع تھا ’’مئی ۲۰۰۴ کا الیکشن او رمسلمان‘‘ اس موقع پر میں نے صاف لفظوں میں کہا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کا ایڈوکیٹ نہیں ہوں۔ میرا کہنا یہ نہیں ہے کہ مسلمان کس کو ووٹ دیں اور کس کو ووٹ نہ دیں۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ مسلمان نگیٹیو ووٹنگ (negative voting) کا طریقہ ختم کردیں۔ اس کے بجائے وہ پازیٹیو ووٹنگ (positive voting) کا طریقہ اختیار کریں۔ ہندستان ایک ڈیموکریسی ہے۔یہ طریقہ ڈیموکریٹک اسپرٹ کے خلاف ہے کہ سیاسی پارٹیوں کو پرو مسلم اور اینٹی مسلم کے خانوں میں بانٹا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر پارٹی انسان پارٹی ہے۔ مسلمان ایک داعی گروہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کو چاہیے کہ وہ تمام لوگوں کو انسان کی نظر سے دیکھیں۔ اس طرح وہ معتدل ماحول قائم رہتا ہے جس میں دعوت کا کام مؤثر طور پر کیا جاسکے۔ اس معاملہ میں میری جو رائے ہے وہ دعوتی نقطۂ نظر سے ہے نہ کہ انتخابی نقطۂ نظر سے۔ میرا اصل کنسرن دعوت ہے نہ کہ کوئی پالیٹکل پارٹی۔
ریاست عجمان کی رولنگ فیملی کے ایک اہم ممبر عبدالعزیز بن علی بن راشد نعیمی سے ملاقات ہوئی۔ وہ عجمان مؤسسۃ بن علی بن راشد کے مدیر عام بھی ہیں۔ ان کے ساتھ پروفیسر طیب علی ابوسن بھی تھے۔ وہ مذکورہ مؤسسۃ میں مستشار ثقافی ہیں۔ ان لوگوں سے تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ دونوں عربی کے علاوہ انگریزی زبان بھی اچھی طرح جانتے تھے۔
انھوں نے جو باتیں بتائیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ الشارقۃ (شارجہ) کے سلطان اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے تاریخ کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کیا ہے۔ انہوںنے سلطان کے دو نصیحت آمیز قول بتائے (۱) زندگی میںاکثر چیزیں وہ ہیں جو کوئی چیز ہی نہیں (۲) اپنے دشمن پر قابو پانے والا چھوٹا ہیرو ہے، اور اپنے آپ پر قابو پانے والا بڑا ہیرو ہے۔
‘‘The most things in life are not things.’’
‘‘Small heroes can master their enemies, but big heroes can master themselves’’
ان لوگوں سے گفتگو کے بعد میرا تأثر یہ تھا کہ آج کل عربوںمیں تعلیم کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ حسن البناء اور سید قطب کے زمانہ میں جو عرب رہنما اٹھے ان سب نے جہاد کی باتیں کیں۔ لیکن اب لمبے ناکام تجربہ کے بعد عربوں نے یہ سمجھ لیا کہ موجودہ زمانہ میں سب سے زیادہ اہمیت علم کی ہے۔ اب عربو ںکا ذہن تیزی سے جہاد علمی کی طرف آرہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ صرف ایک نسل میں صورت حال بالکل بدل جائے گی۔ جو عرب حسن البناء اور سید قطب کو مثالی رہنما سمجھتے تھے، وہ انہیں اجتہادی خطأ کا کیس قرار دے کر فراموش ماضی کے خانہ میں ڈال دیں گے۔ او رپر امن جدوجہد کے اصول پر اپنے مستقبل کی تعمیر کا نقشہ بنائیں گے۔
مقامی انگریزی روزنامہ گلف نیوز (Gulf News) کا شمارہ ۹؍مئی ۲۰۰۴ دیکھا۔ اخبار کے پہلے صفحہ پر عراق کے بارے میں ایک رپورٹ چھپی ہوئی تھی۔ اس رپورٹ کا عنوان تھا —الصدر کے آدمی جنگ کو توسیع دے رہے ہیں:
Al Sadr men widen battle
اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ مقتدی الصدر کی ملیشیا اور المہدی آرمی عراق میں مقیم امریکا اور برطانیہ کے فوجیوں پر مسلسل حملے کر رہے ہیں اور ان کو سخت نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایک سال پہلے یکم مئی ۲۰۰۳ کو امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ عراق میں ہمارا فوجی مشن مکمل ہوگیا ہے۔ مگر اس کے بعد سے اب تک مسلسل تقریباً ہر دن امریکی اور برطانوی سپاہی مارے جارہے ہیں۔ ابھی تک عراق کا معاملہ امریکا کے کنٹرول میں نہ آسکا۔
عراق ہمیشہ سے ایک سرکش ملک کی حیثیت سے جانا جاتا رہا۔ عراقی لوگ مشکل ہی سے کسی کی اطاعت قبول کرتے ہیں۔ چنانچہ عربی میں یہ مثل ہے کہ العراق لایطاق، یعنی عراق کو قابو میں نہیں لایا جاسکتا۔ عراق کی موجودہ صورت حال غالباً عراق کے بارے میں اسی قدیم مثل کی ایک مزید تصدیق ہے۔
اسی انگریزی اخبار کے صفحہ ۹ پر ایک کالم اوپینین (Opinion) کے عنوان کے تحت تھا۔ اس میں چند شہریوں کی رائے شائع کی گئی تھی۔ ڈاکٹر انور ایم گرگیش (Anwar M Gargash) کی تحریر اس عنوان کے تحت چھپی تھی — تشدد کا چیلنج (The Challenge of Violence) اس میں بتایا گیا تھا کہ پچھلے دو سال کے اندر سعودی عرب سے لے کر اردن تک مسلمانوں کے اندر تشدد کی ذہنیت پھیلی ہے۔ یہ ایک بری علامت ہے۔ ضرورت ہے کہ اس کو روکنے کی تدبیر کی جائے۔ آخر میں موصوف نے لکھا تھا کہ ضروری ہے کہ موجودہ تشدد کی لہر سے سختی کے ساتھ نپٹا جائے۔ طویل المیعاد حل کے اعتبار سے صرف سیکورٹی جیسی کارروائی مؤثر ثابت نہ ہوگی:
While the current spate of terrorism must be dealt with firmly, in the long term a purely security centred response is not enough and will not work.
مگر اس تحریر میں یہ بتایا نہیں گیا تھا کہ سیکورٹی کے اقدامات کے علاوہ اس مسئلہ کے حل کے لئے اور کیا کیا جانا چاہئے۔ میرے نزدیک اس مسئلہ کا مستقل حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے تعمیری خطوط پر جدید مسلم نسلوں کی ذہن سازی۔ تاہم یہ کوئی سادہ کام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملہ میں صرف امن کی اپیل کافی نہیں ہوسکتی۔ اصل یہ ہے کہ ایک سو سال سے بھی زیادہ لمبی مدت سے مسلمانوں کو یہ بتایا جاتا رہا ہے کہ دوسری قومیں مسلمانوں کی دشمن ہوچکی ہیں۔ وہ مسلسل طور پر مسلمانوں کے خلاف سازش کر رہی ہیں۔ خود مسلم ملکوں کا حکمراں طبقہ اس سازش کا شکار ہوچکا ہے اور یہ کہ اس مسئلہ کا واحد حل مسلّح جہاد ہے۔ اس قسم کی باتیں موجودہ زمانہ میں اتنی کثرت سے کہی گئی ہیں کہ تقریباً تمام مسلمانوں کے ذہن منفی سوچ سے بھر گئے ہیں۔ موجودہ تشدد اس کی ایک علامت ہے۔ ایسی حالت میں مؤثر نقطۂ آغاز کے لئے ضروری ہے کہ کھلے طور پر یہ اعلان کیا جائے کہ پچھلے مقررین اور محررین نے اس معاملہ میں جو کچھ کہا وہ غلط تھا۔ وہ وقتی رد عمل کی پیداوار تھا نہ کہ قرآن و سنت کے مثبت مطالعہ کا نتیجہ۔ نفی کے بغیر اثبات کا حصول ممکن نہیں۔
ایک صاحب کی ڈائری میں میں نے یہ الفاظ لکھے—دشمن سے برا سلوک کرنا دشمن کی دشمنی کو بڑھاتا ہے اور دشمن سے اچھا سلوک کرنا دشمن کی دشمنی کو ختم کردیتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ آپ کا یہ نظریہ بظاہر اچھا لگتا ہے، مگر اس نظریہ کی بنیاد کیا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ نظریہ دراصل فطرت کا ایک اٹل اصول ہے۔ اس اصول کو قرآن کی ایک آیت میں بتایا گیا ہے، اس آیت کا ترجمہ یہ ہے:
اور بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا۔ (حٰم السجدہ ۳۴)
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی آدمی پیدائش کے اعتبار سے مسٹر دشمن نہیں۔ پیدائشی طور پر ہر آدمی مسٹر دوست ہی ہے۔ کیوں کہ ہر آدمی کے اندر وہی فطرت ہے جو دوسرے آدمی کے اندر ہے۔ دشمنی دراصل ایک اوپری چیز ہے جو وقتی جذبہ کے تحت کسی کے دل میں مصنوعی طور پر آجاتی ہے۔ دوسرا فریق اگر رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ یک طرفہ طور پر نرمی اور حسن سلوک کا انداز اختیار کرے تو دشمن کا ظاہری پردہ ہٹ جائے گا اور اصل فطرت سامنے آجائے گی جو ہر ایک کے لئے دوست ہے، وہ کسی کے لئے دشمن نہیں۔
گویا کہ ہر دشمن انسان آپ کا ایک امکانی دوست (potential friend) ہے۔ ایسی حالت میں بہترین پالیسی یہ ہے کہ آپ اس امکان (potential) کو واقعہ (actual) بنائیں۔ آپ بظاہر دشمن کو اپنے دوستوں کی فہرست میں شامل کرلیں۔
متحدہ عرب امارات (United Arab Emirates) سات چھوٹی ریاستوں کا ایک مجموعہ ہے۔ یہ تمام ریاستیں جزیرہ نمائے عرب کے ساحلی مقامات کو کاٹ کر بنائی گئی ہیں۔ وہ سب خلیج عرب کے ساحل پر واقع ہیں۔ عرب امارات کا مجموعی رقبہ ۸۳۶۵۰ مربع کیلومیٹر ہے۔ عرب امارات کی سات ریاستوں کے نام یہ ہیں: ابوظبی، دبئی، عجمان، شارجہ، ام القیوان(Umm al qaiwain)، راس الخیمہ اور فجیرہ۔ اس یونین کا قیام ۱۹۷۱ میں ہوا۔ عرب امارات کے اس مجموعہ کی راجدھانی ابوظبی کا شہر ہے۔
عرب امارات کا بیشتر حصہ ریگستان ہے۔ یہاں کا موسم گرم اور خشک ہے۔ بارش کا اوسط سال میں صرف تین سے چار انچ تک ہے۔ گرمی کے موسم میں بعض مقامات پر درجۂ حرارت۴۶ ڈگری تک پہنچ جاتا ہے۔ یہاں کی شہری آبادی میں زیادہ تعداد ان لوگوں کی ہے جو انڈیا اور پاکستان اور ایران سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔ یہاں کی سرکاری زبان عربی ہے۔ مگر تعلیم یافتہ لوگوں میں انگریزی زبان کا بھی کافی رواج ہے۔
ایک مسافر نے بتایا کہ وہ دبئی ایرپورٹ پر کسی فلائٹ کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک عرب لڑکی آئی اور پاس کی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ مسافر نے اس سے ایک سوال پوچھا۔ مسافر نے اپنا سوال عربی زبان میں کیا تھا۔ مگر لڑکی نے اس کا جواب انگریزی زبان میں دیا۔ مسافر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم انگریزی زبان جانتی ہو۔ لڑکی نے فخریہ انداز میں کہا آف کورس (of course) عرب امارات کی آبادی زیادہ تر یہاں کے شہروں میں رہتی ہے۔ عرب امارات کی آمدنی کا زیادہ انحصار تیل کی دولت پر ہے۔ یہاں کی فی کس آمدنی بہت زیادہ ہے:
The United Arab Emirates has one of the highest levels of per capita income in the world. (18/862)
ابوظبی اس مجموعہ کی سب سے زیادہ دولت مند ریاست ہے۔ اس کا رقبہ سب سے زیادہ ہے۔ وہ امارات کے نیشنل بجٹ کا ۹۰ فی صد حصہ ادا کرتا ہے۔ اس علاقہ میں تیل کی دریافت ۱۹۵۸ میں ہوئی۔ ابوظبی میں آب پاشی کا نظام قائم کرکے بڑے پیمانے پر زراعت اور باغبانی کا کام ہورہا ہے۔ ابوظبی میں ۱۹۸۲ میں ریفائنری (تیل صاف کرنے کے کارخانے) کا قیام عمل میں آیا۔
متحدہ عرب امارات میں ریلوے لائن نہیں ہے۔ مگر سڑکوں کا نظام اتنا عمدہ ہے کہ اس معاملہ میں کسی کمی کا احساس نہیں ہوتا۔
عربی ہفت روزہ العالم الاسلامی (مکّہ) کے شمارہ ۱۰ مئی ۲۰۰۴ (۲۱ ربیع الاول ۱۴۲۵ھ) میں صفحۂ اول پر قاہرہ کی المجلس الاعلیٰ للشؤن الاسلامیۃ کے سالانہ ثقافتی اجتماع کی رپورٹ چھپی تھی۔ اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے شیخ الازہر ڈاکٹر سید محمد طنطاوی نے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ فلسطین میں اس وقت جو مسلّح جدوجہد ہورہی ہے وہ اسلامی جہاد ہے، وہ دہشت گردی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاد دہشت گردی نہیں ہے جیسا کہ اسلام کے دشمن اس کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ کیوںکہ دہشت گردی زیادتی ہے اور شرعاً ممنوع ہے۔ خواہ اس کاجو بھی مصدر ہو۔
ان الجہاد لیس ارہا باکما یحاول تصویرہ اعداء الاسلام، فالارہاب عدوان مرفوض شرعاً أیًّا کان مصدرہ۔
میرا تجربہ ہے کہ فلسطین کا مسئلہ پیدا ہونے کے بعد عرب علماء جہاد کے معاملہ میں سخت کنفیوزن کاشکار ہوگئے ہیں۔ مثلاً وہ انفرادی جہاد اور اجتماعی جہاد کے فرق کو سمجھ نہ سکے۔ اصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص پر انفرادی حملہ ہو تو اس کو اپنے ذاتی دفاع میں جوابی کارروائی کرنے کا پورا حق ہے۔ اگر وہ اس جوابی کارروائی میں مارا جائے تو وہ شہید قرا رپائے گا۔ مشہور حدیث من قتل دون مالہ فہو شہید کا تعلق اسی انفرادی صورت حال سے ہے۔
دوسری صورت وہ ہے جب کہ مسلمانوں کے کسی ملک پر دوسرا ملک حملہ کرے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کے لیے اجتماعی جہاد کا حق ہوجائے گا۔ مگر یہ اجتماعی جہاد صرف مسلم حکومت کا حق ہے، غیر حکومتی تنظیموں کا حق ہرگز نہیں۔ غیر حکومتی افراد حکومت کی طلب پر اس کا ساتھ دے سکتے ہیں مگر وہ بطور خود مسلح جہاد نہیں چھیڑ سکتے۔ اس دوسری صورت میں مسلم عوام کے لیے پُرامن جدوجہد (peaceful struggle) کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔ مثلاً اس نوعیت کی پرامن جدوجہد جو مہاتما گاندھی نے غیر منقسم ہندستان میںچلائی۔ مگر جہاں تک مسلح کارروائی کا تعلق ہے، جیسا کہ فلسطین وغیرہ میں کی جارہی ہے، وہ یقینی طور پر غیر اسلامی ہے۔ کیوں کہ ان مسلح کارروائیوں میں ۵۷ مسلم ملکو ںمیں سے کوئی بھی ملک اعلان کے ساتھ شریک نہیں۔ واضح ہو کہ حکومت کی بلا اعلان شرکت جس کو پراکسی وار کہا جاتا ہے، وہ اسلام میں سراسر ناجائز ہے۔
دبئی سے ۹ مئی ۲۰۰۴ کی شام کو واپسی ہوئی۔ یہ سفر ایرانڈیا کے ذریعہ طے ہوا۔
جہاز تیزی سے دہلی کی طرف آگے بڑھ رہا تھا۔ اور میرے ذہن میں خیالات کا طوفان امنڈ رہا تھا۔ ایک بات شدت سے ذہن میں گونج رہی تھی کہ جو مسلمان اپنے ملکوں سے نکل کر دبئی جیسی بیرونی جگہوں پر جاکر رہ رہے ہیں انھوں نے اس ’’ہجرت‘‘ سے کیا پایا اور کیا کھویا۔ غور کرنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ پانے کے اعتبار سے انہوں نے جو کچھ پایا وہ صرف پیسہ تھا۔ مگر کھونے کے اعتبار سے انہوں نے سب کچھ کھودیا۔
آدمی جہاں پیدا ہوتا ہے وہاں اس کی ایک مکمل تاریخ ہوتی ہے، ایک وہ تاریخ جو اس کو اپنے ماضی سے ملتی ہے، اور دوسری وہ تاریخ جو وہ خود اپنے عمل سے بناتا ہے۔ اس طرح اپنے وطن میںکسی آدمی کا وجود ایک بڑے درخت کی مانندہوجاتا ہے جو اصلہا ثابت وفرعہا فی السماء (ابراہیم ۲۴)کامصداق ہوتا ہے، مگر اپنے وطن کے باہر اس کی حیثیت اس درخت کی مانند ہوجاتی ہے جس کو اپنی جڑ سے اکھاڑ کر کسی اور جگہ ڈال دیاگیا ہو۔ یہ لوگ اپنی ایک تاریخ سے کٹے اور دوبارہ نئے مقام پر اپنی دوسری تاریخ نہ بناسکے۔ باہر کے ملکوں میں رہنے والے مسلمان دوسروں سے بالکل بے تعلق ہوجاتے ہیں۔ اس کی تلافی کے لئے وہ یہ کرتے ہیں کہ دعوتوں اور پارٹیوں کے نام پر ملنا جلنا بڑھا دیتے ہیں۔ مگر اس قسم کی سرگرمیاں صرف مزید نقصان کے ہم معنٰی ہیں۔ کیوںکہ وہ لوگوں کو بس کھانے پینے والے حیوان بنادیتی ہیں۔ ایسا سماج ایک قسم کا حیوانی سماج ہے نہ کہ حقیقی معنوں میں انسانی سماج۔
اس نقصان کی تلافی صرف ایک تھی اور وہ یہ کہ بیرونی مسلمان (Muslims in Diaspora) یہ کرتے کہ وہ ون مین ٹو مشن (one man two mission) کا طریقہ اختیار کرلیتے جیسا کہ اسلام کے دور اول میں صحابہ نے اختیار کیا تھا۔ یعنی اپنے وقت اور پیسہ کا نصف حصہ اپنی ذاتی ضرورت پر خرچ کرنا او راپنے وقت اور پیسہ کا بقیہ نصف حصہ دعوتی کام (dawah work) میںلگا دینا۔
اگر یہ مسلمان ایسا کرتے تو وہ نہ صرف ایک زیادہ بہتر تاریخ بناتے بلکہ خود اسلام کے لئے وہ ایک نئے تاریخی دور کے آغاز کا سبب بن جاتے، جیسا کہ اصحاب رسول نے کیا تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب کی اکثریت عرب کے باہر دوسرے ملکوں میں پھیل گئی۔ وہاں انھوں نے یہ کیا کہ وہ اپنی معاشی ضرورت کے لئے کوئی سادہ کام کرلیتے اور اپنے وقت اور اپنی طاقت کا بقیہ حصہ اسلام کے دعوتی عمل میںلگادیتے۔ یہی موجودہ زمانہ کے ان مسلمانوں کو کرنا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو یہ اندیشہ ہے کہ ان کی دنیا بھی تباہ ہوجائے اوران کی آخرت بھی۔ قرآنی الفاظ میں وہ، خسر الدنیا والآخرۃ کامصداق بن کر رہ جائیں۔
۱۰؍مئی ۲۰۰۴ کی صبح کو ہمارا جہاز دہلی کے ہوائی اڈہ پر اترا۔ ایرپورٹ کی ضروری کارروائیوں کو انجام دینے کے بعد باہر نکلا تو مسٹر خالد انصاری وغیرہ موجود تھے۔ ان کے ساتھ روانہ ہوکر نظام الدین پہنچا۔
واپس اوپر جائیں