Pages

Friday 1 September 2006

Al Risala | September 2006 (الرسالہ،ستمبر)

2

- رمضان کا مہینہ

3

- فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

7

- سب کچھ امتحان

10

- جنت کس کے لیے

13

- شناخت کا مسئلہ

16

- مقبول دعا

19

- جذبات کو ٹھیس پہنچنا

23

- ٹیم کی اہمیت

26

- سی پی ایس انٹرنیشنل

41

- ذہنی تناؤ کا مسئلہ

43

- سادہ فارمولا


رمضان کا مہینہ

رمضان میں ایک مہینے کے لیے روزہ رکھا جاتا ہے۔ یعنی دن کے اوقات میں کھانے اور پینے کو پوری طرح چھوڑ دینا۔ دوسرے لفظوں میں آدمی سال کے گیارہ مہینے تک کھانے اور پینے کا تجربہ کرتا ہے اور سال کے ایک مہینے میں وہ یہ تجربہ کرتا ہے کہ نہ کھانا کیا ہے اور نہ پینا کیا۔ یہ با خوراک زندگی کے بعد بے خوراک زندگی کا تجربہ ہے۔ یہ آزاد زندگی کے بعد پابند زندگی کا تجربہ ہے۔
غذا کی حیثیت ایک علامت کی ہے۔ غذا علامتی طورپر یہ بتاتی ہے کہ خدا نے اِس دنیا میںاستثنائی طورپر انسان کے لیے وہ عظیم سسٹم بنایا ہے جس کو لائف سپورٹ سسٹم کہا جاتا ہے۔ وسیع کائنات میں اَن گنت ستارے اور سیّارے ہیں لیکن کہیں بھی وہ لائف سپورٹ سسٹم نہیں جو صرف ہماری زمین میں خصوصی طورپر پایا جاتا ہے۔
رمضان کا مہینہ دراصل اِسی عظیم نعمت کی یاد دہانی ہے۔ رمضان کا مہینہ یہ یاد دلاتا ہے کہ اگر زمین پر لائف سپورٹ سسٹم موجود نہ ہو تو انسان کا کیا حال ہوگا۔ لائف سپورٹ سسٹم کے بغیر انسان بے یارومددگار ہو کر رہ جائے گا۔ وہ عجز کے آخری مقام پر پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد زمین پر پانی نہ ہوگا جس کو وہ پیے۔ خوراک نہ ہوگی جس کو وہ کھائے۔ آکسیجن نہ ہوگا جس میں وہ سانس لے۔ سورج کی روشنی نہ ہوگی جس میں وہ چلے پھرے۔ زمین میں قوتِ کشش نہ ہوگی جس کے اوپر وہ اپنے تمدّن کی تعمیر کرے،وغیرہ۔
قرآن میں رمضان کے فائدے کو بتانے کے لیے دو لفظ استعمال کیے گیے ہیں۔ لعلکم تتقون، لعلکم تشکرون (البقرہ) اِس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان، آدمی کو لائف سپورٹ سسٹم کی اہمیت یاد دلاتا ہے، تاکہ وہ شکرِ خداوندی کے احساس میں غرق ہوجائے۔ اِسی طرح وہ یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ اگر یہ لائف سپورٹ سسٹم نہ ہو تو اس کی پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔ رمضان کا مہینہ ایک اعتبار سے تقویٰ کا مزاج پیدا کرتا ہے، اور دوسرے اعتبار سے شکر کا مزاج۔ اور بلا شبہہ انھیں دونوں قسم کے احساسات میں جینے کا نام اسلام ہے۔
واپس اوپر جائیں

فتویٰ ایکٹوزم یا ایجوکیشنل ایکٹوزم

آج کل مختلف قسم کے ایکٹوزم (activism) کا چرچا ہے۔ مثلاً پولٹکل ایکٹوزم، سوشل ایکٹوزم، ملّی ایکٹوزم اور میڈیا ایکٹوزم، وغیرہ۔ انھیں میں سے ایک وہ ہے جس کو جوڈیشیل ایکٹوزم (judicial activism) کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ پبلک انٹرسٹ (مفادِ عامہ) کے کاموں میں عدالت سے رجوع کرکے اس کا حکم حاصل کرنا، قانون کی مدد سے مفادِ عامّہ سے تعلق رکھنے والے مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔ جوڈیشیل ایکٹوزم کا یہ طریقہ سیکولر طبقے کے لوگوں کے یہاں رائج ہے۔
اِسی طرح مسلمانوں کے کچھ مذہبی طبقے نے کچھ عرصے سے وہ طریقہ اختیار کر رکھا ہے جس کو فتویٰ ایکٹوزم کہا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کی اصلاح کے مقصد کے لیے فتوے کا طریقہ اختیار کررہے ہیں۔ مثلاً کسی لباس کو غیر دینی لباس بتا کر اس کے خلاف فتویٰ دینا، کسی مشروب کو غیر اسلامی مشروب بتا کر اس کے حُرمت کا فتویٰ جاری کرنا، کسی مذہبی مقام پر عورتوں کے جانے کو ممنوع قرار دینے کے لیے فتویٰ جاری کرنا، کسی کو پیغمبر کی شان میں گستاخی کرنے والا بتا کر اس کے قتل کا فتویٰ صادر کرنا، کسی مصنف کو متنازعہ قرار دے کر یہ فتویٰ جاری کرنا کہ اس کی کتابیں نہ پڑھو، کسی کو مرتد قرار دے کر اس کے خلاف بائکاٹ کا فتویٰ جاری کرنا، ٹیلی ویژن یا اسی قسم کی اور چیزوں کو حرام قرار دے کر ان سے اجتناب کرنے کا فتویٰ دینا، بینکنگ اور اسی طرح دوسری نئی چیزوں کو غیر اسلامی قرار دے کر اس کے عدم استعمال کا فتویٰ دینا، وغیرہ۔
اِس قسم کے فتوے موجودہ زمانے میں ہزاروں کی تعداد میں دیے گیے ہیں مگر سب کے سب بے اثر ثابت ہوئے ہیں۔ اِن میں سے ہر فتوے کا صرف یہ انجام ہوا کہ وہ مطلوب نتیجہ پیدا نہ کرسکا۔ پورے جدید دو رمیں مجھے صرف ایک واقعہ معلوم ہے جب کہ مفتی نے استفتا کے باوجود فتویٰ دینے سے انکار کردیا۔ یہی طریقہ میرے نزدیک صحیح طریقہ تھا۔
برٹش دَور میں، دہلی میں، ایک عالم تھے ان کا نام مولانا عبد الحق حقّانی (وفات ۱۸۳۱)تھا۔ انھوں نے قرآن کی ایک تفسیر لکھی تھی جو ’’تفسیر حقّانی‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے زمانے میں انگریزی حکومت نے سونا چاندی کے سکّے کی جگہ کاغذی نوٹ جاری کیے۔ یہ کاغذی نوٹ روایتی فقہی مسئلے کے اعتبار سے بظاہر غیر اسلامی تھے۔ مولانا عبد الحق حقّانی سے یہ فتویٰ پوچھا گیا کہ کاغذی نوٹ کا طریقہ اسلامی نقطۂ نظر سے جائز ہے یا ناجائز۔ انھوں نے اِس استفتا پر کوئی فتویٰ نہیں دیا،انھوں نے صرف یہ کہا کہ — میرا فتویٰ نہیں چلے گا اور نوٹ چل جائے گا۔ اس طرح کے معاملے میں یہی صحیح اسلامی طریقہ ہے۔
فتویٰ کا لفظی مطلب رائے (opinion) ہے۔ فتویٰ کی دو صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص خود اپنے بارے میں پوچھے کہ مجھے فلاں معاملہ درپیش ہے۔ میں اس میں کیا کروں۔ مثلاً ایک خاتون کھلاڑی اپنے ڈریس کے بارے میں پوچھے کہ کھیل کے دوران مجھے اسلامی نقطۂ نظر سے کون سا ڈریس استعمال کرنا چاہیے۔ ایسی حالت میں فتویٰ دینا درست ہے۔ یہ وہ حالت ہے جب کہ فتویٰ پوچھنے والاخود اپنے بارے میں حکم کی پیروی کی نیت سے مفتی سے سوال کرے۔ ایسی حالت میں مفتی کو فتویٰ پوچھنے والے کا جواب دینا چاہیے۔ فتوے کا صحیح استعمال اور اس کا درست محل یہی ہے۔
د وسری صورت یہ ہے کہ سماج میں ایک بُرائی موجود ہے۔ اس کے بارے میں خود سماج کی طرف سے کوئی سوال نہ کیا جارہا ہو۔ ایک شخص ذاتی طور پر اُس سماجی مسئلے کو لے کر اس کے متعلق، استفتاء مرتب کرے اور اس کے بارے میں مفتی سے فتویٰ پوچھے۔ اِس صورت میں اگر مفتی فتویٰ دیتا ہے تو وہ فتوے کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ایسا فتویٰ مثبت معنوں میں کوئی اصلاح تو پیدا نہیں کرے گا، البتہ وہ اسلام کی بدنامی کا سبب بن جائے گا۔
مثال کے طور پر کئی سماجی برائیاں ہیں جن کے خلاف مفتی صاحبان نے موجودہ زمانے میں فتوے دیے ہیں۔ مگر مولانا عبد الحق حقانی کی زبان میں، یہ ہوا کہ ان کافتویٰ تو نہیں چلا، البتہ برائیاں بدستور جاری رہیں۔ مثلاً بدعات کے خلاف فتویٰ، مشرکانہ رسموں کے خلاف فتویٰ، شادیوں میں جہیز کے خلاف فتویٰ، ٹی وی اور سینما کے خلاف فتویٰ، لاؤڈاسپیکر کے خلاف فتویٰ، بینک انٹرسٹ کے خلاف فتویٰ، داڑھی نہ رکھنے کے خلاف فتویٰ، مغربی لباس کے خلاف فتویٰ، انگریزی تعلیم کے خلاف فتویٰ، وغیرہ۔ جیسا کہ معلوم ہے، یہ تمام فتوے بے نتیجہ ہو کر رہ گیے، معاشرے کے اوپر ان کا کوئی اثر نہیں پڑا۔
میرے مطالعے کے مطابق، اِس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ صرف صاحبِ معاملہ کو اپنے بارے میں استفتا کا حق ہے، اور اِسی طرح کے معاملے میں مفتی کو فتویٰ دینا چاہیے۔ مثلاً اگر کوئی شخص مفتی کے پاس اِس قسم کا استفتا بھیجے کہ فلاں مسجد کے امام کی داڑھی چھوٹی ہے، تو کیا ایسے امام کے پیچھے مقتدیوں کی نماز ہوتی ہے یا نہیں۔ اِس قسم کا استفتا ایک فتنہ ہے نہ کہ حقیقتاً کوئی استفتا۔ مفتی کو چاہیے کہ وہ ایسے استفتا کا جواب نہ دے۔ استفتا کا تعلق، فتویٰ پوچھنے والے کے ذاتی معاملے سے ہے نہ کہ اس کی ذات کے باہر دوسروں کے معاملے سے۔
اب سوال یہ ہے کہ عمومی اصلاح یا معاشرتی اصلاح کے بارے میں اسلام کا طریقہ کیا ہے۔ یہ طریقہ تذکیر اور نصیحت کا طریقہ ہے نہ کہ فتوے کا طریقہ۔ یعنی تحریر اور تقریر کے ذریعے لوگوں کو سمجھانا۔ سمجھانے کا یہ کام ’’قولِ بلیغ‘‘ کی زبان میں ہوناچاہیے۔ یعنی ایسی زبان اور دلیل جو سننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ یہاں تک کہ وہ اس کی صداقت کا اعتراف کرلے۔
نصیحت اور تذکیر کے اِس طریقے کو آج کل کی زبان میںایجوکیشنل ایکٹوزم کہا جاسکتا ہے۔ یعنی تعلیم اور تربیت کے ذریعے لوگوں کی اصلاح کرنا، لوگوں کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرنا۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اصلاحِ معاشرہ کے بارے میں اسلام کا اصول ایجوکیشنل ایکٹوزم پر مبنی ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم پر۔
اِس معاملے میںایک رہنما مثال وہ ہے جس کا ذکر صحیح البخاری میںآیا ہے۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں قرآن کی جو آیتیں اُتریں ان میں جنت اور جہنم کا ذکر تھا۔ تاکہ لوگوں کے دلوں میں اسلام کے بارے میںنرم گوشہ پیداہو اور لوگوں کے اندر ذہنی آمادگی آجائے۔ اِس طرح جب قبولیت کی استعداد پیدا ہوگئی تو اس کے بعد قرآن میں اترا کہ زنا چھوڑ دو، اور شراب چھوڑ دو۔ ایسا حکم اگر پہلے اُترتا تو لوگ اس کی تعمیل نہ کرتے بلکہ وہ یہ کہتے کہ ہم تو زنا نہ چھوڑیں گے، ہم تو شراب نہ چھوڑیں گے۔(لاندع الزنا أبداً ولا ندع الخمرأبداً)
اِس سے معلوم ہوا کہ عمومی اصلاح کا کام فتویٰ یا حکم جاری کرنے سے نہیں ہوتا، بلکہ اِس کام کے لیے سب سے پہلے لوگوں کے اندر قبولیت کی استعدادپیدا کی جاتی ہے اِس کے بعد ان کو حکم دیا جاتا ہے۔ استعداد پیدا کیے بغیر حکم دینا کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔
جب بھی کسی معاشرے میں بگاڑ آتا ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا کہ لوگوں کو حُکم یا قانون کا علم نہیں ہے، اس لیے لا علمی کی بنا پر لوگ غلط کاموں میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ معاشرتی بگاڑ کا سبب لوگوں کے اندر اسپرٹ کی کمی ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ حکم اور قانون سے بے خبر ہیں۔
ایسی حالت میں سماج سُدھار یا معاشرے کی اصلاح کا نقطۂ آغاز یہ نہیں ہے کہ قانونی حکم کو لے کر فتویٰ صادر کیا جائے، بلکہ اس کا نقطۂ آغاز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر اسپرٹ کو جگایا جائے، لوگوں کے اندر شعور کو زندہ کیا جائے، لوگوں کے اندر مادّۂ قبولیت پیدا کیا جائے۔ جب یہ کام قابلِ لحاظ حد تک ہوجائے اس کے بعد وہ وقت آتا ہے جب کہ لوگوں کو حکم اور قانون کی زبان میں مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ داخلی استعداد پیدا کرنے سے پہلے، خارجی احکام کا اعلان کرنا ایک غلط ترتیب ہے۔ یہ گھوڑے کے آگے گاڑی باندھنا ہے جو کہ یقینی طورپر قابلِ عمل نہیں۔
فتویٰ ایکٹوزم ہو یا دوسرا کوئی ایکٹوزم، ہر ایک کو جانچنے کا طریقہ صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ عملی طورپر اس کا نتیجہ کیا نکلنے والا ہے۔ کسی عمل کی درستگی کو جاننے کا ذریعہ صرف اس کا صحیح نتیجہ ہے۔ یہ ایک مسلّم اصول ہے کہ عمل کو ہمیشہ نتیجہ رُخی عمل (result-oriented action) ہوناچاہیے۔ اور فتویٰ ایکٹوزم بلا شبہہ اِس اصول عام سے مستثنیٰ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ امتحان

قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولنبلونکم بشیٔ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشّر الصابرین (البقرہ: ۱۵۵)
اس آیت میں بتایاگیا ہے کہ خدا ہر انسان کو خوف، بھوک، جانی ومالی نقصان، اور فوائد میں گھاٹے کے ذریعہ آزماتا ہے۔ ایسی حالت میں اُن لوگوں کے لیے بشارت ہے جو ان نقصانات پر صبر کریں اور یہ کہہ دیں کہ ہم خدا کے لیے ہیں اور ہم کو خدا کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ نقصانات براہِ راست طورپر آسمان سے نازل ہوتے ہیں۔ بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خدا نے موجودہ دنیا کو امتحان کے مقصد سے بنایا ہے۔ اِس بنا پر انسان کو آزادی دی ہے۔ یہ انسانی آزادی طرح طرح کے مسائل پیدا کرتی ہے۔ اسی آزادی کی بنا پر ایک انسان کو دوسرے انسان سے تلخ تجربات پیش آتے ہیں۔ اِن تجربات کے دوران اپنے آپ کو مؤمنانہ حالت پر برقر ار رکھنا، یہی امتحان پر پورا اترنا ہے اور ایسے ہی لوگوں کے لیے جنت کا وعدہ ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ اس امتحان میں بیش تر لوگ ناکام ہوجاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ پیش آنے والا ناخوش گوار تجربہ بظاہر کسی انسان کی طرف سے پیش آتا ہے۔ اِس ظاہری مشاہدے کی بنا پر آدمی اس کو کسی انسان کی طرف منسوب کردیتا ہے جس کی طرف سے اس کو یہ تجربہ پیش آیا تھا۔ اِس غلط انتساب کی بنا پر وہ اِس تجربے سے صرف غصہ وانتقام اور نفرت کی غذا لیتا ہے۔ وہ ساری عمر منفی نفسیات میں مبتلا رہتا ہے۔
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ آدمی پیش آنے والے ناپسندیدہ واقعے کو خدا کی طرف منسوب کرے۔ وہ اس کو خدا کے قائم کردہ تخلیقی نظام کا نتیجہ قرار دے۔ ایسا کرنے کی صورت میں آدمی منفی نفسیات کا شکار نہ ہوگا۔ وہ اس کو نظامِ فطرت کا نتیجہ سمجھ کر اس پر راضی رہے گا، اور اِسی راضی رہنے کا دوسرا نام صبر ہے۔
کوئی شخص راستہ چل رہا ہو اور اچانک بارش آجائے جس میں اولے ہوں تو وہ کبھی اس پر غصہ نہیں ہوگا بلکہ وہ فوراً کسی قریبی جگہ میں جاکر پناہ لے گا۔ لیکن اسی انسان کو اگر کوئی شخص پـتھر مار دے تو وہ فوراً غصہ، انتقام اور نفرت کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ آدمی اولے کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے اور پـتھر کو انسان کی طرف سے۔ یہی فرق اِس طرح کے معاملے میں انسان کی نفسیات کو بدل دیتا ہے۔ وہ اولے کے معاملے میں مثبت رد عمل کا مظاہرہ کرتا ہے اور پتھر کے معاملے میں منفی رد عمل کا مظاہرہ۔
اِس مثال سے زندگی کے معاملے کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کامیاب اسلامی زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی ہر نقصان یا ہر ناخوش گوار تجربے کو خدا کی طرف سے سمجھے۔ ایسا سمجھنا اس کے اندر مثبت احساسات کی تعمیرکرے گا۔ وہ اس کو منفی نفسیات میں مبتلا ہونے سے بچائے گا۔ ایسے ہی لوگ خدا کے نزدیک صبر کرنے والے لوگ ہیں، یعنی خدا کے قائم کردہ نظام پر راضی رہنے والے۔ ایسے ہی انسان کو قرآن میں نفسِ مطمئنہ کہاگیا ہے، اور جنت انھیں لوگوں کے لیے مقدر ہے جونفس مطمئن کے ساتھ آخرت تک پہنچیں۔
ایک حدیثِ قدسی میں آیا ہے کہ: أنا عند المنکسرۃ قلوبہم۔ میں ٹوٹے ہوئے دلوں کے پاس رہتا ہوں۔ کون لوگ ہیں جو اِس ٹوٹے ہوئے دل کا شکار ہوتے ہیں— یہ وہ لوگ ہیں جن کے ساتھ مصیبتیں پیش آتی ہیں۔ جو نقصان اور محرومی کا تجربہ کرتے ہیں۔ جن کی زندگی غم میں گذرتی ہے۔ اِس صورت حال کی روشنی میںاِس حدیث پر اور غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ مصیبت اپنی حقیقت کے اعتبار سے مصیبت نہیں ہے بلکہ وہ ایک رحمت ہے۔ یہ زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کا معاملہ ہے۔
اِس پہلو سے غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہ چیز جس کو فلاسفہ اور مفکرین خرابی کا مسئلہ (problem of evil) کہتے ہیں، وہ در اصل غلط تسمیہ (wrong nomenclature) کا معاملہ ہے۔ لوگ جس چیزکو خرابی کہتے ہیں وہ در اصل اِس لیے ہے تاکہ انسان سب سے بڑی حقیقت کا تجربہ کرے، یہ سب سے بڑی حقیقت عجز ہے۔ خدا کے مقابلے میں بندے کی حیثیت ایک عاجز مخلوق کی ہے۔ لیکن ہر آدمی کے چھپی ہوئی انا(ego) اس کو اپنے بارے میں دھوکے میں رکھتی ہے۔ مصیبت کا مقصد یہ ہے کہ آدمی انا کے فرضی خول سے باہر آئے اور اِس حقیقت کی دریافت کرے کہ وہ صرف ایک عاجز مخلوق ہے، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
عجز کا یہی احساس انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ عجز کا احساس آدمی کو متواضع (modest) بناتا ہے۔ اس کے اندر حقیقت پسندانہ سوچ پیدا ہوتی ہے۔ وہ مفروضات سے باہر آکر حقائق کا ادارک کرنے لگتا ہے۔ گویا کہ مصیبت ہی وہ چیز ہے جو اِس دنیا میں اعلیٰ انسانی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے۔ اعلیٰ انسانی شخصیت کی تعمیر کا دوسرا کوئی کورس یہاں موجود نہیں۔
انسانی زندگی کو سمجھنے کا اصل سرا یہ ہے کہ آدمی یہ جانے کہ خدا کے تخلیقی نقشے کے مطابق‘ انسان کی پوزیشن موجود ہ دنیا میں کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ آدمی اِس دنیا میںامتحان کے لیے آباد کیاگیا ہے۔ اِس دنیا کی خوشی اور غم‘ کامیابی اور ناکامیابی‘ پانا اور کھونا‘ سب کچھ امتحان کے لیے ہے۔ یہاں طاقت ور آدمی بھی امتحان کی حالت میںہے، اور کمزور آدمی بھی امتحان کی حالت میں۔
اِس دنیا میں کامیابی کا راز یہ نہیں ہے کہ آدمی مادّی سازوسامان اپنے گرد اکھٹا کرلے۔ یہاں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کو امتحان کاجو پرچہ دیاگیا ہے اس پرچے کو حل کرنے میں وہ کامیاب ٹھہرے۔
یہ نظریہ آدمی کو حقیقت پسند بناتا ہے۔ وہ آدمی کے اندر تواضع کی نفسیات پیدا کرتا ہے۔ وہ اس کو صبر و تحمل والا آدمی بنادیتا ہے۔ زندگی کا یہ نظریہ جس کے دل میں بیٹھ جائے وہ ہر قسم کی منفی نفسیات سے خالی ہوجائے گا۔ اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ وہ دوسروں کے بارے میں سوچنے کے بجائے خود اپنے بارے میں سوچے۔ وہ دوسروں کی غلطیاں بتانے کے بجائے خود اپنی غلطی پر دھیان دینے لگے۔ فخر و غرورکی نفسیات کا اس کے اندر مکمل خاتمہ ہوجائے۔ سچائی کا اعتراف کرنے میںاس کے لیے کوئی چیز روک نہ بن سکے۔ وہ مصنوعی انسان کے بجائے ایک حقیقی انسان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کس کے لیے

ایک تعلیم یافتہ غیر مسلم نے کہا کہ میں لوگوں کے درمیان اچھے اخلاق کے ساتھ رہتا ہوں، کبھی کسی کو تکلیف نہیں دیتا۔ میری کوشش یہ رہتی ہے کہ میں اپنے سماج کا اچھا ممبر بنوں۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ موت کے بعد مجھ کو جنت ملے گی۔ جب میں ایک اچھا انسان ہوں تو خدا مجھے جہنم میں کیوں ڈال دے گا۔
میں نے کہا کہ صرف اچھے اخلاق کی بنا پر کوئی شخص جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت کیا ہے، جنت دراصل خدا کے پڑوس کا نام ہے۔ خدا اپنے پڑوس میں صرف ان لوگوں کو رہنے کی جگہ دے گا جو خدائی اخلاقیات کے حامل ہوں، صرف سماجی اخلاقیات کی بنا پر کوئی شخص جنت میں داخلے کا مستحق نہیں بن سکتا۔
اصل یہ ہے کہ ایک اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ انسان (man versus man) کی نسبت سے پیداہوتا ہے، اور دوسرا اخلاق وہ ہے جو انسان بمقابلہ خدا (man versus God) کی نسبت سے پیدا ہوتا ہے۔ دونوں قسم کے اخلاق کا محرّک بالکل الگ الگ ہے۔ انسان کی نسبت سے جو اخلاق کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ دراصل سماجی اخلاق ہوتا ہے۔ اس کا محرّک یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنے سماج کے اندر بے ضرر زندگی حاصل کرسکے۔ وہ لوگوں کی نظر میں اچھا بنا ہوا ہو۔ لوگ اس کو سماج کا اچھا ممبر سمجھیں۔
اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاق پیدا ہوتا ہے اس کا سرچشمہ دراصل معرفتِ خداوندی ہوتا ہے۔ ایک آدمی جب اپنے خالق کو دریافت کرتا ہے ،تو یہ دریافت اس کے ذہن کو بالکل بدل دیتی ہے۔ اس کی ربّانی فطرت جاگ اٹھتی ہے۔ اس کے نتیجے میں اس کے اندر وہ تمام صفات پیدا ہوجاتی ہیں جن کواعلیٰ انسانی اخلاق کہاجاتا ہے۔
انسان کی نسبت سے جواخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ سماجی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے سماج سے رشتہ ٹوٹنے کے بعد ان کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ایسا اخلاق وقتی مقصد کے لیے ہوتا ہے اور وقت گذرنے کے ساتھ ہی وہ ختم بھی ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں خدا کی نسبت سے جو اخلاقیات پیدا ہوتی ہیں وہ ابدی محرک کے تحت پیدا ہوتی ہیں۔ ان کا رشتہ خدا کی ابدیت کے ساتھ جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اِس لیے ایسا انسان اِس قابل ٹھیرتا ہے کہ وہ خدا کی ابدی جنت میں جگہ پائے۔
خدائی اخلاقیات دراصل خدا کی معرفت سے پیدا ہونے والے کردار کا نام ہے۔ مثلاً خدا خالق ہونے کی حیثیت سے اپنے بندوں کے ساتھ محبت کرتا ہے۔ اس لیے ایسا انسان دوسرے انسانوں سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خدا یوم الحساب کا جج ہے۔ یہ عقیدہ ایسے آدمی کے اندر شدید محاسبہ (accountability) کا احساس پیدا کردیتا ہے۔ وہ ہر ایسے قول یا فعل سے بچنے لگتا ہے جس میں یہ اندیشہ ہو کہ خدا اس کو پکڑے گا اور اس کو سخت سزا دے گا۔ ایسے انسان کا ذہن یہ بن جاتا ہے کہ دینے والا بھی خدا ہے اور چھیننے والا بھی خدا۔ یہ احساس اس کے اندر کبر کی نفسیات کو مکمل طورپر ختم کردیتا ہے۔ کسی انسان کو کم سمجھنا اس کے لیے ایک ایسی روش بن جاتی ہے جس کا وہ تحمل نہ کرسکے۔
پہلی قسم کے انسان کا اخلاق آزادانہ اخلاق ہوتا ہے، جب کہ دوسری قسم کے انسان کا اخلاق خدا کے ساتھ عبدیت کا تعلق قائم کرنے کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ پہلی قسم کے انسان کا اخلاق دُنیوی اخلاق ہوتا ہے، اور دوسری قسم کے انسان کا اخلاق جنّتی اخلاق۔ سماجی اخلاق ہمیشہ ایک حد پر پہنچ کر ختم ہوجاتا ہے۔ جب کہ خدائی اخلاق کا معاملہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی کبھی اور کسی حال میں کوئی حد نہیں آتی۔
ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے اور جنت کی قیمت خدا کی معرفت ہے۔ معرفتِ خداوندی سے کم تر درجے کی کوئی چیز جنت کی قیمت نہیں بن سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جنت کی تصغیر ہے کہ معرفتِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز کو جنت کی قیمت سمجھا جائے۔
معرفت کیا ہے، معرفت (realization) دراصل خدا کی دریافت (discovery) کا نام ہے۔ یہ نہ دکھائی دینے والے خدا کو بصیرت کی آنکھ سے دیکھ لینا ہے۔ یہ اعلیٰ شعور کا ایک ایسا درجہ ہے جب کہ آدمی کے لیے خدا کے سوا ہر چیز غیر اہم بن جائے، جب کہ خدا کے سوا ہر چیز اپنی کشش کھودے۔ جب کہ خدا ہی انسان کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بن جائے۔
یہ معرفت کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفت کے اوپر شبہات (doubts) کے ہزاروں پردے پڑے ہوئے ہیں۔ جو آدمی شبہات کے اِن پردوں کو پھاڑ سکے وہی اُس اعلیٰ یقین کے درجے تک پہنچتا ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔ معرفت کے متلاشی کو بہر حال اس امتحان میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ جو آدمی شبہات کے پردے کو پھاڑنے کے اِس امتحان میں پورا اُترے وہی معرفتِ خداوندی کا تجربہ کرسکتا ہے۔
حصولِ معرفت کی حقیقی پہچان صرف ایک ہے، اور وہ داخلی ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی خدا کو اِس طرح پائے کہ وہ کامل طورپر اس کی فطرت کی آواز بن جائے۔ آدمی پیدائشی طورپر ایک متلاشی انسان ہے۔ آدمی پیدائشی طورپر حقیقتِ اعلیٰ کو دریافت کرنا چاہتا ہے۔ معرفت اسی تلاش کا جواب ہے۔ ایک بچّہ اپنی ماںکی تلاش میں ہو تو اپنی ماں کو پاکر وہ اپنے پورے وجود کے ساتھ اُس سے لپٹ جاتا ہے۔ یہی معاملہ صاحبِ معرفت کا ہے۔ جب کسی انسان کو حقیقی معنوں میں خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے تو وہ اس کو پانے کے بعد اِس طرح کامل طورپر اپنے خدا کے ساتھ جُڑ جاتا ہے جس طرح ایک چھوٹا بچہ اپنی ماں کے ساتھ۔
معرفت کے معاملے میں کوئی بھی عُذر (excuse) قابلِ قبول نہیں۔ جوآدمی موجودہ دنیا میں معرفت کے حصول میں اندھا ثابت ہو وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ معرفت جب اپنے دلائل اور اپنی نشانیوں کے ساتھ سامنے آتی ہے تو کسی بینا انسان کے لیے ناممکن ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ اس کے وجود میں چھپا ہوا احساسِ معرفت کافی ہوجاتا ہے کہ وہ اس کو پہچاننے سے محروم نہ رہے۔
ایک بچے کی ماں غائب ہو اور پھر وہ اس کے سامنے آجائے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ بچہ اپنی ماں کو پہچاننے میں ناکام رہ جائے۔ بچّے کے اندر ماں کی معرفت اتنی زیادہ قوی ہوتی ہے کہ اس کے لیے یہ ناممکن ہوجاتا ہے کہ اس کی ماں اس کے سامنے آجائے اور وہ اس کو پہچاننے سے قاصر رہے۔ اسی طرح جب دلائل اور نشانیوں کے ذریعے خدا کی معرفت کسی آدمی کے سامنے کھل جائے تو وہ اس کا تحمّل نہیں کرسکتا کہ وہ اس کو نہ پہچانے۔ جو بچہ اپنی ماں کو نہ پہچانے وہ بلا شبہہ اندھا ہے، وہ اپنی باہر کی آنکھ سے بھی محروم ہے اور اپنی اندر کی آنکھ سے بھی محروم۔
واپس اوپر جائیں

شناخت کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ ان سے میرے ساتھی نے CPS International کا تعارف کرایا اور کہا کہ اِس تنظیم کے تحت، ہم غیر مسلموں میں دعوت کا کام کررہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ میں نے الرسالہ میں اس کا ذِکر پڑھا ہے، مگر میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ جو لوگ اسلام کو اپناتے ہیں آپ ان کا نام نہیں بدلتے۔ ان کو اسلامی لباس اور اسلامی وضع قطع اختیار کرنے کے لیے نہیں کہتے۔ ان کے قدیم تشخص کو بدل کر انھیں اسلامی تشخص پر لانے کی کوشش نہیں کرتے۔ آپ کا یہ طریقہ درست نہیں۔ ایسا آپ کیوں کررہے ہیں۔
میںنے کہا کہ مذکورہ تشخص(identity) نہ صرف غیر ضروری ہے بلکہ وہ ایک نقصان کی بات ہے۔ اسلام قبول کرنے والوں کی آئی ڈنٹٹی کو بدل کر آپ یہ کرتے ہیں کہ ان کا دعوتی رول ختم کردیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو کہ اس کا دل اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن ہو اور وہ اپنا نام نہ بدلے تو وہ اپنی سوسائٹی سے کٹتا نہیں۔ اِس طرح وہ اِس قابل رہتا ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کے لوگوں میں اسلام کی دعوت کو پھیلا سکے۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا ظاہری تشخص بدل لے تو اچانک ہی وہ اپنی سوسائٹی سے کٹ جاتا ہے۔ اس کے بعد فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ وہ داعی کا رول ادا کرنے کے قابل نہیں رہتا۔
اِس معاملے میں قرآن کے اندر واضح رہنمائی موجود ہے۔قرآن کی سورہ نمبر ۴۰ میں حضرت موسیٰ کے ہم زمانہ مصری حکمراں فرعون کا ذکر ہے۔ حضرت موسی کی دعوت سننے کے بعد اس نے ارادہ کیاکہ وہ حضرت موسی کو قتل کردے۔ اس وقت فرعون کے دربار کے ایک ممبر نے مداخلت کی اور اس طرح بادشاہ کو قتل کے اِس ارادے سے روک دیا، اور حضرت موسی کو یہ موقع مل گیا کہ وہ حکومت کے تشدد سے محفوظ رہ کر اپنا پُرامن دعوتی کام جاری رکھ سکیں۔
دربارِ فرعون کے اس شخص کے بارے میں قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وقال رجل مؤمن من آلِ فرعون یکتم ایمانہ (المؤمن: ۲۸) یعنی آلِ فرعون میں سے ایمان لانے والے ایک شخص نے کہا جو کہ اب تک اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون کے شاہی حلقے کا ایک آدمی ایمان لاچکا تھا لیکن فرعون کو یا اس کے درباریوں کو اس کا کوئی علم نہ تھا۔ اِس شخص کا نام تفسیروں میںشمعان یا خبرک آیاہے ۔ سوال یہ ہے کہ اِس آدمی کو ایمان کا پیغام کیسے پہنچا۔ ظاہر ہے کہ وہ ہوا کے ذریعے نہیں پہنچا۔ یقینی طور پر وہ وقت کے پیغمبر حضرت موسیٰ کے ذریعہ پہنچا۔ اُس سے حضرت موسی کی ملاقات ہوئی۔ حضرت موسی نے اس کو حق کا پیغام پہنچایا اور پھر اس نے حضرت موسیٰ کے اوپر ایمان قبول کرلیا۔
یہاں واضح قرینے کے طورپر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ نے اس کے ایمان کو تو قبول کر لیا لیکن آپ نے اس کا نام نہیں بدلا۔ آپ نے اس کی وضع قطع نہیں بدلی، آپ نے اس کو اس کے سابقہ تشخص پر باقی رہنے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آدمی ایک نازک موقع پر ایک بے حد اہم رول ادا کرسکا۔ حضرت موسیٰ پر ایمان لاتے ہی اگر اس کا نام بدل دیا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ تم اپنے قدیم تشخص کو چھوڑو اور موسی کے تشخص کو اختیار کرلو۔ اگر ایسا کیا جاتا تو مذکورہ رجُل مؤمن فوراً فرعون کے حلقے سے کٹ جاتا۔ اس کے بعد وہ اِس قابل نہ رہتا کہ وہ فرعون کے دربار میں وہ اہم رول اداکرسکتا جو اس نے قرآن کے بیان کے مطابق، بعد کو ادا کیا۔
اِس واقعے سے ایک عظیم پیغمبرانہ سنت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ داعی کا کام آدمی کے دل کوبدلنا ہے نہ کہ اس کے ظاہری تشخص کو بدلنا۔ اِس عظیم حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے موجودہ زمانے میں بڑے بڑے نقصانات ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی میں بہت سے اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد نے اسلام قبول کیا۔ مسلمانوں کی طرف سے کسی حقیقی دعوتی کوشش کے بغیر ان لوگوں نے قرآن کا مطالعہ کیا۔ ان کا دل اس پر مطمئن ہوگیا، اور پھر انھوں نے اسلام کو اپنا دین بنا لیا۔ ایسے افراد ہر ملک میں پائے جاتے ہیں۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ اسلام قبول کرتے ہی ان کا دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس کا سبب یہ ہوا کہ اسلام قبول کرنے کے بعد جب وہ مسلمانوں سے ملے تو مسلمانوں نے فوراً ان کا نام بدلوایا، اور ان کے لباس اور وضع قطع کو بدل کر انھیں موجودہ مسلم معاشرے کا ایک فرد بنا لیا۔ ایسا کرتے ہی ان کا مطلوب دعوتی رول ختم ہوگیا۔ اس نام نہاد اسلامائزیشن کے بعد مسلمان تو خوش ہوگیے لیکن اسلامی دعوت کا عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
مثلاً ہندستان میں ایک تعلیم یافتہ بنگالی ڈاکٹر نِشی کانت چٹوپادھیانے ذاتی مطالعے کے تحت اسلام قبول کیا۔ اس کے بعد فوراً مسلمانوں نے ان کانام بدل کر انھیں مسلم معاشرے کا ایک ممبر بنا لیا۔ وہ مشہور ہندو خاتون مسز سروجنی نائڈو کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ بہت بڑا دعوتی کام کرسکتے تھے مگر ظاہری تشخص کو بدلنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مطلوب انداز میںاپنا دعوتی رول ادا کرنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اِسی طرح ہنگری کے عبدالکریم جُرمانوس، آسٹریا کے محمد اسد، برطانیہ کے یوسف اسلام، امریکا کے حمزہ یوسف اور اِس طرح کے بہت سے لوگ ہیں جن کا انجام وہی ہوا جو ڈاکٹر نشی کانت کا ہوا۔ ان میں سے کوئی بھی ’’رجل مؤمن‘‘ کا رول ادا کرنے کے قابل نہ رہا۔ ہر ایک بس مسلم معاشرے کا ایک فرد بن کر رہ گیا۔
یہ انسانی نفسیات ہے کہ آدمی جب تک اپنا نام اور اپنا تشخص نہ بدلے وہ اپنی قوم کا ایک فرد شمار کیا جاتا ہے۔ وہ عقیدے یا نظریے کے معاملے میں الگ بات کہنے کے باوجود اپنی اِس حیثیت کو باقی رکھتا ہے کہ وہ جو کچھ کہے اس کو اس کی قوم کے افراد کسی توحّش کے بغیر سنیں۔ وہ اس کو اپنی ہی قوم کا ایک فرد سمجھ کر اس کی باتوں پر غور کریں۔ لیکن جب وہ اپنا نام اور اپنا تشخص بدل دے تو اس کے اور اس کی قوم کے درمیان ایک دوری قائم ہوجاتی ہے۔ وہ اس کو غیر کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ اس کی باتوں کو سننے کے لیے ان کے اندر آمادگی باقی نہیں رہتی۔ اِس لیے یہ روش سراسر غیر حکیمانہ ہے کہ اسلام قبول کرتے ہی آدمی کا نام اور حلیہ بدل دیا جائے۔ کچھ نادان لوگ اِس سے خوش ہو سکتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک وہ کوئی پسندیدہ بات نہیں، جیسا کہ آلِ فرعون کے ایک رجل مؤمن کی مثال سے واضح ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

مقبول دعا

دعا آدمی کی پوری ہستی سے نکلتی ہے نہ کہ محض زبانی الفاظ سے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خدا سے مانگنے والا کبھی محروم نہیں ہوتا۔ مگر مانگناصرف کچھ لفظوں کو دہرانے کا نام نہیں ہے۔ مانگنا وہی مانگنا ہے جس میں آدمی کی پوری ہستی شامل ہوگئی ہو۔ ایک شخص زبان سے کہہ رہا ہو ’’خدایا! مجھے اپنا بنالے‘‘ مگر عملاً وہ اپنی ذات کا بنا رہے، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس نے مانگا ہی نہیں۔ اس کو جو چیز ملی ہوئی ہے، وہی دراصل اس نے خدا سے مانگی تھی۔ خواہ زبان سے اس نے جو لفظ بھی ادا کئے ہوں۔
ایک بچہ اپنی ماں سے روٹی مانگے تو یہ ممکن نہیں کہ ماں اس کے ہاتھ میں انگارہ رکھ دے۔ خدا اپنے بندوں پر تمام مہربانوں سے زیادہ مہربان ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ خدا سے خشیت مانگیں اور وہ آپ کو قساوت دے دے۔ آپ خدا کی یاد مانگیں اوروہ آپ کو خدا فراموشی میں مبتلا کردے۔ آپ آخرت کی تڑپ مانگیں اور خداآپ کو دنیا کی محبت میں ڈال دے۔ آپ کیفیت سے بھری ہوئی دین داری مانگیں اور خداآپ کو بے روح دین داری میں پڑا رہنے دے۔ آپ حق پرستی مانگیں اور خدا آپ کو شخصیت پرستی کی کوٹھری میں بند کردے۔
آپ کی زندگی میں آپ کی مطلوب چیز کا نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ نے ابھی تک اس کو مانگا ہی نہیں۔ اگر آپ کو دودھ خریدنا ہو اور آپ چھلنی لے کر بازار جائیں تو پیسے خرچ کرنے کے بعد بھی آپ خالی ہاتھ واپس آئیں گے۔ اسی طرح اگر آپ زبان سے دعا کے کلمات دہرارہے ہوں مگر آپ کی اصل ہستی کسی دوسری چیز کی طرف متوجہ ہو تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ نہ آپ نے مانگا تھا اور نہ آپ کو ملا۔ جو مانگے وہ کبھی پائے بغیر نہیں رہتا۔ یہ مالک کائنات کی غیرت کے خلاف ہے کہ وہ کسی بندے کو اس حال میں رہنے دے کہ قیامت میں جب خدا سے اس کا سامنا ہو تو وہ اپنے رب کو حسرت کی نظر سے دیکھے۔ وہ کہے کہ خدایا، میں نے تجھ سے ایک چیز مانگی تھی مگر تونے مجھے نہ دی۔ بخدا ،یہ ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ یہ ناممکن ہے۔ کائنات کا مالک تو ہر صبح وشام اپنے تمام خزانوں کے ساتھ آپ کے قریب آکر آواز دیتا ہے—’’کون ہے جو مجھ سے مانگے تاکہ میں اسے دوں‘‘ مگر جنھیں لینا ہے وہ اس سے غافل اور اندھے بنے ہوئے ہوں تو اس میں دینے والے کا کیا قصور۔
’’میرے لیے ایک بائیسکل خرید دیجئے‘‘ بیٹے نے باپ سے کہا۔ با پ کی آمدنی کم تھی۔ وہ بائیسکل خریدنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ اس نے ٹال دیا۔ لڑکا بار بار کہتا رہا اور باپ بار بار منع کرتا رہا۔ بالآخر ایک روز باپ نے ڈانٹ کر کہا ’’ میں نے کہہ دیا کہ میں بائیسکل نہیں خریدوں گا۔ اب آئندہ مجھ سے اس قسم کی بات مت کرنا‘‘۔
یہ سن کر لڑکے کی آنکھوں میںآنسو آگئے۔ وہ کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد روتے ہوئے بولا: ’’آپ ہی تو ہمارے باپ ہیں۔ پھر آپ سے نہ کہیں تو اور کس سے کہیں‘‘۔ اس جملے نے باپ کو تڑپا دیا۔ اچانک اس کا انداز بدل گیا۔ اس نے کہا: اچھا بیٹے اطمینان رکھو میںتمہارے لیے بائیسکل خریدوں گا، اور کل ہی خریدوں گا‘‘۔ یہ کہتے ہوئے باپ کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اگلے دن اس نے پیسے کا انتظام کرکے بیٹے کے لیے ایک نئی بائیسکل خرید دی۔
لڑکے نے بظاہر ایک لفظ کہا تھا۔ مگر یہ ایک ایسا لفظ تھا جس کی قیمت اس کی اپنی زندگی تھی، جس میں اس کی پوری ہستی شامل ہوگئی تھی۔ اس لفظ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے اپنے آپ کو اپنے سرپرست کے آگے بالکل خالی کردیا ہے۔ یہ لفظ بول کر اس نے اپنے آپ کو ایک ایسے نقطے پر کھڑا کر دیا جہاں اس کی درخواست اس کے سرپرست کے لیے بھی اتنا ہی بڑا مسئلہ بن گئی جتنا کہ وہ خو د اس کے لیے تھی۔
اس واقعے سے سمجھا جاسکتا ہے کہ دعا کی وہ کون سی قسم ہے جس کے بعد خدا کی رحمتیں بندے کے اوپر امنڈ آتی ہیں۔ یہ رٹے ہوئے الفاظ کی تکرار نہیں ہے۔ نہ اس کا کوئی ’’نصاب‘‘ ہے۔ یہ دعا کی وہ قسم ہے جس میں بندہ اپنی پوری ہستی کو انڈیل دیتا ہے۔ جب بندے کی آنکھ سے عجز کا وہ قطرہ ٹپک پڑتا ہے جس کا تحمل زمین اور آسمان بھی نہ کرسکیں۔ جب بندہ اپنے آپ کو اپنے رب کے ساتھ اتنا زیادہ شامل کردیتا ہے کہ ’’مانگنے والا‘‘ اور ’’دینے والا‘‘ دونوں ایک ترازو پر آجاتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہے جب کہ دعا ،محض لغت کا ایک لفظ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک شخصیت کے پھٹنے کی آواز ہوتا ہے۔ اس وقت خدا کی رحمتیں اپنے بندے پر ٹوٹ پڑتی ہے۔ بندگی اور خدائی دونوں ایک دوسرے سے راضی ہوجاتے ہیں۔ قادر مطلق ،عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے۔
حدیث میںآیا ہے کہ : لا یردّ القضاء إلا الدعاء (الترمذی، کتاب القدر، ابن ماجہ) یعنی قضا و قدر کے فیصلے کو صرف دعا بدل سکتی ہے۔ خدا نے اِس دنیا کا نظام اسباب و علل کی بنیاد پر قائم کیا ہے، اور پھر انسان کو مکمل آزادی دے دی ہے۔ اب انسان اپنی آزادی کے مطابق، عمل کرتا ہے اور خدا کے قائم کردہ نظام اسباب و علل سے مطابقت یا مخالفت کی بنیاد پر اس کا اچھا یا برُا نتیجہ اس کے سامنے آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ نظام بالکل حتمی ہے۔ کوئی آدمی خواہ مخلص ہو یا غیر مخلص اُس کو بہر حال اِس نظام کو بھُگتنا ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے اِس نظام کو منسوخ نہیں کیا جاتا۔
اِس معاملے میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ دعا کا ہے۔ کوئی آدمی جب سچی دعا کرتا ہے اور اُس وقت اگر خدا اس کی دعا قبول کرلیتا ہے تو وہ اسباب کے نظام میں مداخلت کرکے اس کا راستہ ہموار کردیتا ہے۔ یہی مطلب ہے اِس بات کا کہ دعا، قضا وقدر کو بدل دیتی ہے۔
لیکن دعا الفاظ کی تکرار کا نام نہیں ہے۔ حتی کہ قرآنی دعائیں یا ماثور دعائیں بھی اگر صرف رَٹے ہوئے الفاظ کی تکرار ہوں تو وہ بھی مؤثر نہیں ہوسکتیں۔ نظامِ قضا کو بدلنے کے لیے وہ دعا درکار ہے جو دل کو پھاڑ کر کی جاتی ہے۔ جو دل کی پھٹن کی آواز ہوتی ہے۔ جس میںآدمی کی پوری شخصیت شامل ہوجاتی ہے۔
اِس قسم کی دعا کی قبولیت کی ایک اور شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا ذہنی تزکیہ اتنا زیادہ ہوچکا ہو کہ اس کی سوچ خدا کی سوچ بن جائے۔ ایسا آدمی وہی دعا کرے گا جو خدا کے نزدیک قابلِ قبول ہوتی ہے۔ اس کی زبان سے ایسی دعا نہیں نکلے گی جو خدا کی سنّت کے مطابق، قابلِ قبول ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

جذبات کو ٹھیس پہنچنا

موجودہ زمانے کے مسلمانوں میں ایک نئی اصطلاح ظہور میں آئی ہے۔ وہ ہے جذبات کو ٹھیس پہنچنا۔ اکثرایسا ہوتا ہے کہ کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو مسلمانوں کے قومی جذبات کے خلاف ہوتا ہے۔ ایسے موقعے پر مسلمان بھڑک اٹھتے ہیں‘ اور مظاہرہ اور تشدد کی کارروائی کرنے لگتے ہیں۔ مسلم دانش ور یہ کہہ کر اس کو جائز بتاتے ہیں کہ اس واقعے سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی اور جب ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچے گی تو فطری طورپر وہ مشتعل ہوجائیں گے۔ اور مظاہرے کریں گے‘ خواہ وہ تشدد تک پہنچ جائے۔
یہ دلیل بلا شبہہ غیر اسلامی ہے۔ مسلمان اگر اِس قسم کے پُر شور مظاہرے اپنے قومی جذبات کے اظہار کے نام پر کریں تو اِس پر کسی کو اعتراض نہ ہوگا۔ لیکن مسلمان اِس قسم کے پر شور مظاہروں کو اسلامی حمیت اور اسلامی غیرت کے نام پر کرتے ہیں۔ اِس بنا پر وہ ایک غلط فعل قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ اس معاملے میں اسلام کی تعلیم سراسر اِس کے خلاف ہے۔
قرآن کی واضح تعلیم کے مطابق‘ یہ خود مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں۔ جہاں تک دوسروں کی اشتعال انگیزی کا تعلق ہے تو اس پر مسلمانوں کے لیے صبر اور اعراض کا حکم ہے‘ نہ کہ بھڑک کر اس کے خلاف ہنگامہ آرائی کرنا۔ اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی دو آیتوں کا مطالعہ کیجئے۔ اِن دونوں آیتوں کا ترجمہ یہاں نقل کیا جاتا ہے:
پہلی آیت
’’اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں تم ان کو گالی نہ دو‘ ورنہ یہ لوگ حد سے گذر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔ اِسی طرح ہم نے ہر گروہ کی نظر میں اس کے عمل کو خوش نُما بنا دیا ہے۔ پھر اُن سب کو اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے۔ اُس وقت اللہ انھیں بتا دے گا جو وہ کرتے تھے‘‘۔ (الانعام : ۱۵۹)
دوسری آیت
’’جب انکار کرنے والوں نے اپنے دلوں میں حمیت پیدا کی‘ جاہلیت کی حمیت۔ پھر اللہ نے اپنی طرف سے سکینت نازل فرمائی اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر‘ اور اللہ نے ان کو تقویٰ کی بات پر جمائے رکھا اور وہ اس کے زیادہ حق دار اور اس کے اہل تھے۔ اور اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۶)
پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے بچائیں کہ وہ دوسروں کے معبودوں یا اُن کے مقدس شعائروں کو بُرا بھلا کہیں اور اس کے نتیجے میں ایسا ہو کہ وہ ردّ عمل کا شکار ہوجائیں اور جواب میں مسلمانوں کے دین اور شعائر کو بُرا بھلا کہنے لگیں۔ اس آیت میں واضح طورپر مسلمانوں کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ اُنھیں اپنے جذبات پر کٹرول کرنا ہے۔ انھیں ایسی کوئی بات لکھنا یا بولنا نہیں ہے جو دوسروں کے لیے اشتعال انگیز ثابت ہو‘اور جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ بھڑک اٹھیں اور مسلمانوں کے دین کے خلاف منفی باتیں بولنے لگیں۔ اس آیت میں مسلمانوں کو اس سے روکا گیا ہے کہ وہ دوسروں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائیں۔
دوسری آیت صلح حُدیبیہ کے موقع کی ہے۔ اس موقع پر فریقِ مخالف نے سخت اشتعال انگیز باتیں کیں‘ مثلاً انھوں نے معاہدے کی تحریر میں رسول اللہ کے لفظ پر سخت اعتراض کیا اور رسول اور اصحابِ رسول کو معاہدے کی تحریر سے اس کو مٹانے پر مجبور کیا‘ وغیرہ۔ اِن باتوں سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی تھی۔ لیکن خدا کی تعلیم کے مطابق‘ اُنھوں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ مذکورہ آیت کے مطابق‘ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خود اپنے آپ کو ایمان اور تقویٰ کی روش پر قائم رکھیں۔ یہ کوئی صحیح بات نہیں ہے کہ مسلمان دوسروں سے یہ مطالبہ کریں کہ تم ہمارے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچاؤ۔ یہی اسلام کا اصول ہے اور یہی عقل کا تقاضا بھی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میںایسی تعلیم کیوں دی گئی ہے جو بظاہر نابرابری کی تعلیم معلوم ہوتی ہے۔ یعنی مسلمانوں کو مشتعل ہونے سے روکنا‘ اور دوسروں کی اشتعال انگیزی پر مسلمانوں کو صبر اور اعراض کی تلقین کرنا‘ یک طرفہ اخلاقیات کا یہ اصول اسلام میں کیوں رکھا گیا ہے۔ اس کا جواب قرآن کی دوسری آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔
قرآن میں باربار یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم صبر کی روش اختیار کرو۔ تم صبر سے مدد لو (استعینوا بالصبر) اسی طرح فرمایا کہ تم ان کی ایذارسانی سے اعراض کرو اور اللہ پر بھروسہ رکھو۔ (دع اذا ہم وتوکّل علی اللہ)۔ قرآن میں اِس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں جو یہ تعلیم دیتی ہیں کہ اہلِ اسلام فریقِ مخالف کے مقابلے میں ردّعمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، وہ یک طرفہ طورپر اپنے آپ کو صبر وتحمل کی روش پر قائم رکھیں۔
اِس یک طرفہ اخلاقیات کی معنویت قرآن کی ایک اور آیت سے معلوم ہوتی ہے۔ فرمایا کہ: وترجون من اللہ مالا یرجون (النساء : ۱۰۴) یعنی صابرانہ روش کی اہمیت فریقِ مخالف کو معلوم نہیں۔ کیوں کہ وہ موجودہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ اس کے برعکس‘ تمہارا معاملہ یہ ہے کہ تم آخرت پر عقیدہ رکھتے ہو۔ تم کو یقین ہے کہ تمھاری صابرانہ روش کا انعام بے حساب مقدار میں آخرت میں ملے گا (إنما یُوفّی الصابرون أجرہم بغیر حساب)
یہ معاملہ کوئی پُراسرار معاملہ نہیں ۔ اصل یہ ہے کہ اہلِ اسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عالمی مشن دیا گیا ہے۔ اِسی عالمی مشن کی ادائیگی پر اُن سے جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ مشن‘ دعوت الی اللہ ہے۔ اِس دعوتی عمل کے لیے طرفین کے درمیان معتدل تعلقات ناگزیر طورپر ضروری ہیں۔ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات کے بغیر دعوت کا عمل مؤثر طورپر جاری نہیں رہ سکتا۔
یک طرفہ طورپر صابرانہ روش کی حکمت یہی ہے۔ صابرانہ روش کے ذریعہ ہی یہ ممکن ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان نارمل تعلقات قائم ہوں‘ اور مسلمان وہ دعوتی عمل انجام دے سکیں جس کی انجام دہی پر مسلمانوں کے لیے دنیا میںکامیابی اور آخرت میں جنت کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ انجام صرف اہلِ ایمان کے لیے مقدّر کیاگیا ہے۔ اس لیے اہلِ ایمان ہی کو یہ کرنا ہے کہ وہ فریقین کے درمیان نارمل تعلقات کو برقرار رکھنے کی ذمّے داری لیں۔ تاکہ وہ اللہ کے وعدے کے مطابق‘ بطور نتیجہ‘ عظیم خدائی انعامات سے بہرہ ور ہوسکیں۔
یہاں جس دوطرفہ روش کا ذکر کیاگیا وہ کوئی سادہ بات نہیں‘ یہ دراصل بامقصد انسان کا طریقہ ہے۔ بامقصد انسان یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی روش کا تعین دوسروں کی روش کو دیکھ کر بطور ردّ عمل نہیں کرتا‘ اس کے بجائے اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کی ناپسندیدہ باتوں سے غیر متاثر رہ کر یہ سوچتا ہے کہ اس کے مقصد کے اعتبار سے اس کے لیے صحیح روش کیا ہے۔ وہ کون سی روش ہے جو اس کے مستقبل کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہے۔ یہ سوچ بامقصد انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ محض جذباتی اشتعال کے تحت کوئی اقدام نہ کرے بلکہ سوچے فیصلے کے تحت‘ اپنے عمل کا تعین کرے۔ اِسی کا نام منصوبہ بند عمل ہے‘ اور منصوبہ بند عمل با مقصد انسان کی ایک لازمی صفت ہے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ جذباتی رد عمل ہمیشہ نقصان کا باعث ہوتا ہے اور منصوبہ بند عمل ہمیشہ مفید ثابت ہوتا ہے۔ جذباتی رد عمل میں آدمی کا رہنما اس کے منفی احساسات ہوجاتے ہیں۔ اِس کے برعکس‘ منصوبہ بند عمل میں اس کا رہنما اس کا مثبت ذہن ہوتا ہے۔ اِس فرق کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں میں سے ایک تخریب کاری کا عمل بن جاتا ہے اور دوسرا مکمل معنوں میں تعمیر کاری کا عمل۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ایسے واقعات ہمیشہ ہوتے رہتے ہیں جن سے آدمی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے۔ لیکن حقیقت پسندانہ بات یہ ہے کہ آدمی ایسے واقعات کو نظر انداز کرے۔ وہ اپنے آپ کو اپنے جذبات کے بجائے اپنی عقل کے تابع بنائے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ جذبات کی پیروی کرنے والا ہمیشہ ناکام ہوتا ہے۔ اور عقل کی پیروی کرنے والا ہمیشہ کامیاب رہتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ٹیم کی اہمیت

اقبال (وفات ۱۹۳۸ء) نے اپنی آخری عمر میں کہا تھا :
سُرودِ رفتہ باز آید کہ ناید
نسیمے از حجاز آید کہ ناید
سرآمد روزگارِ ایں فقیرے
دگر دانائے راز آید کہ ناید
اقبال اپنے آپ کو دانائے راز سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے مشن کو آئندہ جاری رکھنے کے لیے ضرورت ہے کہ اقبال کی طرح ایک اور دانائے راز پیدا ہو۔ مگر یہ ایک خیالی بات ہے جو فطرت کے قانون کے مطابق نہیں۔ فطرت کے قانون کے مطابق، کوئی تخلیقی انسان ایک ہی بار پیدا ہوتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار میں سعودی عرب میں تھا۔ شیوخ کی ایک مجلس تھی۔ اس میں ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ نے عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر اور دعوت کا جو کام شروع کیا ہے وہ بہت قابلِ قدر ہے۔ لیکن آپ کے بعد اس کام کو کون جاری رکھے گا۔ ایک اور عرب شیخ نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا: وحیدالدین لا یکون إلا وحیداً(یعنی وحید الدین صرف ایک ہی ہوتا ہے) یہی بات اقبال اور اِس قسم کے دوسرے لوگوںکے لیے درست ہے۔
اِس دنیا میں کسی مشن کو جاری رکھنے کا فطری طریقہ یہ نہیں ہے کہ اقبال کے بعد ایک اور اقبال پیدا ہو۔ اِس قسم کی سوچ قانونِ فطرت کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں صحیح طریقہ وہ ہے جس کو سورہ صف کی آخری آیت میں بتایا گیا ہے۔ یعنی اپنی زندگی میںایک ایسی ٹیم تیار کرنا جو آدمی کے بعد اس کے مشن کے تسلسل کو جاری رکھ سکے۔ اِس ٹیم کو حضرت مسیح کے یہاں حواری کہاگیا ہے اور پیغمبر اسلام کے یہاں انصار۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دونوں مثالوں میں دراصل صاحبِ مشن کی تیار کی ہوئی ٹیم تھی جس نے ان کے بعد ان کے مشن کو زندہ رکھا۔
میں خدا کی توفیق سے یہی کام کررہا ہوں۔میں نے اِس غیر عملی فارمولے کو اختیار نہیں کیا کہ ایک دانائے راز کے بعد دوسرے دانائے رازکا فرضی خواب دیکھوں۔ میںنے مسلسل جدوجہد کے ذریعے ایک ٹیم تیار کرنے کی کوشش کی۔ جو میرے بعدالرسالہ مشن کو آئندہ جاری رکھے۔ یہ ٹیم اللہ کے فضل سے تقریباً تیار ہوچکی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ٹیم میرے بعد مزید متحرک ہو کر حواریین اور انصاراللہ کی تاریخ کو زندہ کرے گی اور الرسالہ مشن کو ساری دنیا میں پہنچا دے گی۔
انصار اللہ جیسی ٹیم کو بنانا بلا شبہہ ممکن ہے۔ البتہ اس کو بنانے کے لیے ایک قیمت درکار ہے۔ وہ قیمت یہ ہے کہ ٹیم کو بنانے والا اپنے آپ کو قربانی کی اعلیٰ سطح پر پہنچائے۔ وہ اِس محرومی پَر راضی ہو کہ اس کو عوامی مقبولیت نہ ملے۔ اس کی زندگی میں اس کے گِرد بھیڑ اکھٹا نہ ہو۔ وہ دنیا میں شہرت اور ترقی کے مواقع کو رد کرکے ٹیم بنانے میں پوری طرح لگارہے۔
ٹیم بنانے کا یہ کام افراد سازی کا کام ہے۔ یہ کام اِس طرح نہیں ہوسکتا کہ عوام کی بھیڑ اکھٹا کرکے اسٹیج سے اس کے سامنے تقریریں کی جائیں۔ یہ طریقہ ٹیم بنانے کے لیے بالکل غیر مفید ہے۔ ٹیم بنانے کا کام فرد فرد کو مخاطب کرکے ہوتا ہے۔ ایک ایک فرد سے محبت کرنا، ایک ایک فرد کے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ کرنا، ایک ایک فرد پر لگاتار ذہنی تعمیر کی کوشش کرنا، ایک ایک فرد کو نشانہ بنا کر خاموش جدوجہد کرنا۔ اِس طرح کا کام بلاشبہہ ایک مشکل ترین قربانی کا طالب ہے ۔ مگر اِس قربانی کے ذریعے ہی کوئی ٹیم تیار ہوتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ یہ فطرت کا ایک نظام ہے کہ کچھ لوگ پیدا ہوتے ہیں، پھر وہ جوان ہوتے ہیں اور پھر بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر وہ مرجاتے ہیں۔ اِس طرح نسل درنسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ نظام اِس لیے ہے کہ پچھلی نسل کا تجربہ اگلی نسل کے لوگوں تک پہنچتا رہے۔ زیادہ عمر کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ صرف اپنی اولاد کے لیے زندہ نہ رہیں بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ انسانیت کے لیے زندہ رہیں۔ وہ انسانیت کے خیر خواہ بن کر لوگوں کو اپنے علم اور اپنے تجربے کا سرمایہ منتقل کرتے رہیں۔ دوسری طرف نئی نسل کے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ بے جا خود اعتمادی میں مبتلا نہ ہوں بلکہ پچھلے لوگوں سے زندگی کا درس لے کر اپنے سفرِ حیات کو زیادہ با معنٰی بنائیں۔
رواں دریامیں یہی عمل فطری قانون کے تحت ہوتا ہے۔ رواں دریا میں ہر لمحہ پہاڑیوں کی بلندی سے نیا پانی آتا ہے۔ پُرانا پانی بہہ کر آگے چلا جاتا ہے اور نیا پانی آکر اس میں شامل ہوجاتا ہے۔ یہ روانی مسلسل جاری رہتی ہے۔ اس لیے دریا کا پانی ٹھیرے ہوئے پانی کی طرح خراب نہیں ہوتا ۔ یہی عمل شعوری طورپر انسانی نسل کے اندر انجام پانا ہے۔ دریا میں یہ عمل فطری قانون کے تحت خود بخود انجام پاتا ہے۔ انسانی زندگی میں یہ عمل شعوری منصوبہ بندی کے تحت انجام پائے گا۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’اور یہ ممکن نہ تھا کہ اہلِ ایمان سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔ تو ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا، تاکہ وہ دین میں گہری سمجھ پیدا کرتا، اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا، تاکہ وہ بھی پر ہیز کرنے والے بنتے۔‘‘ (التوبہ ۱۲۲)
قرآن کی اِس آیت سے پیغمبرانہ عمل کی ایک حکمت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ہر مشن کی ایک کورٹیم (core team)ہوتی ہے۔ یہی کورٹیم بعد میںمشن کو لے کر آگے بڑھتی ہے۔ عوام کی بھیڑ یہ کورٹیم نہیں بناتی۔ کورٹیم بنانے کی صورت صرف یہ ہے کہ کچھ افراد کو منتخب کرکے ان کے اوپر خصوصی محنت کی جائے۔ ان کی فکری تطہیر کرکے انھیں تیار کیا جائے۔
یہی لوگ ہیں جو بعد کو تربیت یافتہ گروپ کا درجہ حاصل کریں گے اور کام کو آگے بڑھائیں گے۔ میں اللہ کے فضل سے سی پی ایس کی ٹیم کی صورت میں یہی کام کررہا ہوں۔
واپس اوپر جائیں

سی پی ایس انٹرنیشنل (CPS International)

دعوت حق کی تاریخ میں دوگروپ کے لیے دو بڑا رول مقدرتھا۔ ایک وہ گروپ جس کو اصحابِ رسول کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جس کے لیے حدیث میں اخوانِ رسول کے الفاظ آئے ہیں۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول ساتویں صدی عیسوی میں پوری طرح ادا کردیا، اخوانِ رسول کا رول باقی ہے جس کو بعد کے زمانے میں انجام پانا ہے۔ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دور میں انجام دیا تھا۔ اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے—سی پی ایس کی ٹیم اسی دوسرے رول کے لیے امیدوار گروپ کی حیثیت رکھتی ہے۔
واقعات بتاتے ہیں کہ اب وہ وقت پوری طرح آچکا ہے جب کہ دوسرے دَور کا دعوتی رول عالمی سطح پر انجام دیا جائے۔ تمام قرائن اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ کسی بھی سنجیدہ انسان کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل کام نہیں۔
سی پی ایس انٹرنیشنل ایک خالص غیر سیاسی تنظیم ہے۔ کسی بھی مادّی یا قومی اشو سے اس کا کوئی تعلق نہیں، نہ براہِ راست طور پر اور نہ بالواسطہ طورپر۔ سی پی ایس کا واحد کنسرن یہ ہے کہ تمام انسانوں کو اُن کے حقیقی مقصدِ حیات سے باخبر کیا جائے۔ سی پی ایس کا نشانہ ہے—سائنسی دَور میں خدائی سچائی کا اعلانِ عام:
Proclamation of divine truth in modern scientific age.
انسانی تاریخ دو دوروں میں تقسیم ہے۔ ابتدائی زمانے سے لے کر پندرہویں صدی تک، سولھویں صدی سے لے کر موجودہ زمانے تک۔ (۱) پہلا زمانہ وہ ہے جب کہ دنیا میں توہّم پرستی (superstition) کا غلبہ تھا۔ (۲) دوسرے زمانے میں ساری دنیا میں سائنسی فکر کا غلبہ ہوگیا ہے۔پہلے دور کو قبل سائنس دَور (pre-scientific age) کہا جاسکتا ہے۔ اور دوسرے دَور کو عام طور پر بعدسائنس دَ ور (post-scientific age) کہا جاتا ہے۔
قبل سائنس دور میں انسان کو سب سے زیادہ بڑی چیز وہ دکھائی دیتی تھی جس کو مظاہر فطرت کہا جاتا ہے۔ چنانچہ اس زمانے کے انسان نے ہر اُس چیز کو معبود سمجھ کر اس کو پوجنا شروع کردیا جو بظاہر بڑی اورنمایاں دکھائی دیتی تھی۔ مثلاً چاند، سورج، ستارے، پہاڑ اور دریا، وغیرہ۔یہی وہ زمانہ ہے جب کہ ساری دنیامیں بت پرستی رائج ہوئی۔ اس زمانے میں بُت، انسان کے لیے توحید کا مدّ مقابل بن گیے۔
ابراہیم بن آزر خدا کے ایک پیغمبر تھے۔ وہ چار ہزار سال پہلے عراق میں ظاہر ہوئے۔یہ زمانہ وہی تھا جس کو توہم پرستی کا زمانہ کہاجاتا ہے۔ اس زمانے میں تمام لوگ سورج، چاند اور ستارے جیسی نمایاں چیزوں کو معبود سمجھ کر ان کو پوجنے لگے تھے۔ قرآن (ابراہیم ۴) کے بیان کے مطابق، پیغمبر نے اُس دَور کے انسانوں کے بارے میں یہ تبصرہ کیا تھا: ربّ إنہنّ أضللن کثیراً من الناس(اے میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو بھٹکا دیا) یعنی لوگوں نے ان مظاہرِ فطرت کی ظاہری چمک کو دیکھ کر انھیں معبود سمجھ لیا۔
پچھلے ہزاروں سال کے دَوران خدا نے بہت سے پیغمبر بھیجے۔ ان پیغمبروں کا مشترک مشن یہ تھا کہ وہ انسانوں کو مظاہر فطرت کی پرستش سے نکالیں اور اُن کو حقیقی خدا جو صرف ایک ہے، اس کا پرستار بنائیں۔ مگر انسان مظاہر پرستی کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہوا۔ چھٹی صدی عیسوی کے آخر تک یہی صورت حال باقی رہی۔
آخر کار پیغمبرِ اسلام محمد بن عبد اللہ پیدا ہوئے۔ ۶۱۰ عیسوی میں خدا نے ان کو اپنا پیغمبر بنایا۔ ان کو یہ مشن سپرد کیا گیا کہ وہ خدا کی خصوصی مددسے قدیم بت پرستی کے دور کا خاتمہ کردیں۔آپ کے اِس مشن کا ذکر قرآن میں اس طرح کیا گیا ہے: ’’وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ وہ اس کو تمام دین پر غالب کردے۔ اور اللہ گواہی کے لیے کافی ہے‘‘۔ (الفتح: ۲۸)
اِس آیت میں جس غلبہ (اظہار) کا ذکر ہے اس سے مراد فکری غلبہ ہے، یعنی دینِ شرک کو دلیل کی طاقت سے محروم کردینا اور دینِ توحید کو دلیل کی طاقت سے قائم کردینا۔ اس کام کو پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے پوری طرح انجام دے دیا یہاں تک کہ قدیم دور کا خاتمہ ہوگیا اور شرک ایک غالب تہذیب کی حیثیت سے باقی نہ رہا۔
مابعد سائنس دور میں حالات بالکل بدل گیے ہیں۔ سائنس کے بطن سے جدید صنعتی دَورپیدا ہوا۔ اِس صنعتی دور نے بے شمار قسم کے دل کش سامان حیات پیدا کیے۔ ان سامانوں کو حاصل کرنے کے لیے مال کی ضرورت تھی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ موجودہ زمانے میں پہلی بار مال کی اہمیت ہمیشہ سے زیادہ ہوگئی۔ یہی وہ حقیقت ہے جس کو پیغمبر اسلام نے اِس طرح بیان کیا ہے: لکلّ أمۃ فتنۃ و فتنۃ امتی المال (الترمذی، کتاب الزہد،مسند احمد) یعنی ہر امت کا ایک فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ یہاں امت سے مراد امت کا زمانہ ہے ۔ یعنی میری امت کے زمانے میں مال سب سے زیادہ فتنے کا سبب بن جائے گا۔
شرک یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی اور چیز کو عظیم سمجھ کر اس کو اپنا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا لیا جائے۔ پچھلے زمانے میں مظاہر فطرت سب سے بڑی چیز دکھائی دیتے تھے اس لیے انسان مظاہرِ فطرت کو سب سے بڑی چیز سمجھ کر ان کو پوجتا رہا۔ اب دَور سائنس میں مظاہرِ فطرت کی الہیاتی عظمت ختم ہوگئی ہے۔ اب نیے حالات نے مال کو سب سے زیادہ اہم اور سب سے زیادہ بڑی چیز بنا دیا ہے۔ چنانچہ اب بت پرستی (Idol worship) کی جگہ دولت پرستی (money worship) نے لے لی ہے۔ اِس نیے دور کو دوسرے الفاظ میں مادیت(materialism) کہا جاتا ہے۔
مذاہب کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر مذہب میں یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں ایک نیا دورِ انقلاب آئے گا جب کہ خدائی سچائی ازسرِ نو ظاہر اور غالب ہوجائے گی۔یہ اظہار یا غلبہ فکری اعتبار سے ہوگا نہ کہ سیاسی اور معجزاتی اعتبار سے۔
مذاہب میں دورِ آخر کے جس انقلاب کی پیشین گئی کی گئی ہے اس سے مراد سائنسی دَور کا انقلاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سائنسی دور میں ایک تحریک اٹھے گی جو خدائی سچائی کو نیے حقائق کی روشنی میں ازسرِ نو مُبَرہن کردے گی۔ اس سے مراد کسی قسم کا سیاسی یا مادّی غلبہ نہیں ہے بلکہ اس سے مراد صرف یہ ہے کہ نظری دلائل کا زور دوبارہ خدائی سچائی کے حق میں ہوجائے گا۔ نیے حالات میں خدائی سچائی دوبارہ ایک ثابت شدہ سچائی بن جائے گی۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں اگر مظاہر شرک، توحید کا مدّ مقابل بنے ہوئے تھے تو اب دورِ حاضر میں مال کو توحید کے مدّ مقابل کی حیثیت حاصل ہوگئی ہے۔ پچھلے زمانے میں یہ ہوا کہ توحید کے حق میں دلائل فراہم کیے گیے اور مظاہرِ فطرت کی پرستش کو دلائل کے ذریعے رد کردیا گیا۔ اب بعد کے زمانے میں یہ ہوگا کہ توحید کو وقت کے دلائل کے ذریعے مدلّل کیا جائے گا اور مال پر مبنی مادّی تہذیب وقت کے دلائل کے ذریعے غلط قرار پاجائے گی۔
ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔اس کے الفاظ یہ ہیں: وددتُ انّا قدرأینا إخواننا، قالوا اولسنا اخوانک یا رسول اللہ۔ قال أنتم أصحابی وأخواننا الذین لم یأتو بعد۔(صحیح مسلم ، کتاب الطہارۃ، جلد ۳، صفحہ ۱۳۸) یعنی میری خواہش ہے کہ ہم اپنے اخوان کو دیکھیں۔ انھوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، کیا ہم آپ کے اخوان نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ تم میرے اصحاب ہو، اور ہمارے اخوان وہ ہیں جو ابھی نہیں آئے۔
اِس حدیث میں دو خاص گروہوں کا ذکر ہے— اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول۔ اصحابِ رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو پیغمبر اسلام کے ہم عصر ساتھی تھے۔ جنھوں نے آپ کے ساتھ مل کر دور اول میں خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کیا۔ اور اخوان رسول سے مراد وہ لوگ ہیں جو آپ کے بعد آنے والے زمانے میں اٹھیں گے اور اُس وقت خدائی سچائی کا اعلان اور اظہار کریں گے۔ اصحابِ رسول کا تعلق قبل سائنس دور سے ہے اور اخوانِ رسول کا تعلق بعد سائنس دور سے۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک اسی بعد کے زمانے میں انجام پانے والے کام کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس کے لوگ گویا کہ اُس گروہ میں شمولیت کے امیدوار ہیں جس کو مذکورہ حدیث میں اخوانِ رسول کہاگیا ہے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کا مشن بعدسائنس دور میں خدائی سچائی کے اُس مطلوب اظہار کے لیے اٹھا ہے جس کا ذکر پچھلی تمام مذہبی کتابوں میں کیا گیا تھا۔
اخوان رسول کی پہچان کیاہوگی۔ اخوان رسول کی سب سے زیادہ واضح پہچان یہ ہوگی کہ وہ بعدکے زمانے میں ٹھیک وہی کام انجام دیں گے جو اس سے پہلے اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں انجام دیا تھا۔ دونوں گروہوں کے درمیان زمانی فرق تو ضرور ہوگا لیکن دونوں کے درمیان کام کے اعتبار سے کوئی فرق نہ ہوگا۔
یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ اصحاب رسول نے اپنے زمانے میں جو کام انجام دیا وہ دعوت الی اللہ کا کام ہے۔ اس کام کو قرآن میں خدا کی طرف سے گواہی دینا کہاگیا ہے۔ قرآن میں اصحاب رسول کے لئے شہداء علی الناس (الحج : ۷۸) کے الفاظ آئے ہیں۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: انتم شہداء اللہ فی الارض (البخاری، کتاب الجنائز)
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں مسلمانوں کے اندر بہت سی سیاسی اور غیر سیاسی تحریکیں اٹھیں لیکن خالص دعوت الی اللہ کے لیے اصحاب رسول کے بعد اُن کے اندر کوئی بھی تحریک نہیں اٹھی۔ بعد کے زمانے میں ایسے لوگ تو پائے جاتے ہیں جنھوںنے دعوت اور تبلیغ کا لفظ استعمال کیا لیکن ان کے یہاں دعوت کا کوئی حقیقی تصور نہ تھا اور نہ انھوں نے عملی اعتبار سے وہ کام کیا جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت (غیر مسلموں میں تبلیغ) کا تصور شعوری طورپر حذف ہوگیا۔ حتی کہ مسلمانوں کی داخلی اصلاح کے کام کو دعوت کا کام سمجھا جانے لگا۔حالانکہ مسلمانوں میںکئے جانے والے کام کمیونٹی ورک ہیں نہ کہ دعوہ ورک۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سی پی ایس کی ٹیم اصحاب رسول کے بعد بننے والی پہلی ٹیم ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے لیے اٹھی ہے۔ سی پی ایس بعد کی تاریخ میں بننے والی پہلی ٹیم ہے جو مکمل طورپر دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر اٹھی ہے۔ جس کی ذہنی تربیت یا فکری تشکیل خالص دعوتی لٹریچر کی بنیاد پر ہوئی ہے۔ سی پی ایس کی ٹیم ایک ایسی تحریک کے نتیجے میں بنی ہے جس تحریک میں پہلی بار قرآن کی دعوتی تفسیر تیار ہوئی۔ جس میں پہلی بارحدیث کی دعوتی شرح لکھی گئی۔ جس میں پہلی بار پیغمبر اسلام کی دعوتی سیرت مرتب ہوئی۔ جس میں پہلی باراصحاب رسول کے دعوتی رول کو نمایاں کیاگیا۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ اسلام کی سب سے بڑی طاقت اس کی دعوت ہے۔ جس میں پہلی بار وقت کے فکر ی مُستویٰ کے مطابق، اسلامی لٹریچر تیار کیا گیا۔جس میں پہلی بار جدید سائنسی تحقیقات سے مدلل کرتے ہوئے دعوتی اسلوب پر علم کلام تیار کیا گیا۔ جس میں پہلی بار اس حقیقت کا انکشاف کیاگیا کہ جدید دور اپنے تمام اجزاء کے ساتھ موافقِ دعوت دور ہے۔ جس میں پہلی بار یہ انکشاف کیا گیا کہ غیر مسلم قومیں مسلمانوں کے لیے مدعو کی حیثیت رکھتی ہیں، وہ دشمن یا حریف کی حیثیت نہیں رکھتیں۔جس میں پہلی بار یہ تصور پیش کیاگیا کہ غیر مسلم ممالک ہمارے لیے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ امتِ مسلمہ کی اصل ذمے داری یہ ہے کہ وہ ہر قوم اور ہر زبان میں دعوت الی اللہ کے کام کو آخری حد تک انجام دے ۔ جس میں پہلی بار یہ بتایا گیا کہ مسلمانوں کے تمام ملّی مسائل کا حل غیر مسلموں کے اوپر دعوتی ذمے داری کو انجام دینا ہے، کسی بھی دوسری تدبیر سے ان کے ملی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔
اصحابِ رسول کی حیثیت ایک دعوتی ٹیم کی تھی۔ یہ ٹیم ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں بنی۔ اس کا آغاز اس وقت ہوا جب کہ ہاجرہ اور اسماعیل کو خدا کے حکم سے صحرا میں بسا دیا گیا۔ اصحاب رسول دراصل اِسی ڈھائی ہزار سالہ تاریخی پراسس کاculmination تھے۔ یہ بات قرآن میں اشارے کے طورپر اور حدیث میں تفصیل کے ساتھ موجودہے۔ مگر اصحابِ رسول کے بارے میں اس تاریخی منصوبہ بندی سے تمام تحریکیں بے خبر رہیں۔ اسلام کے بعد کی تاریخ میں بننے والے لٹریچر میں کہیں بھی اس کی نشاندہی نہیں ملتی۔ سی پی ایس کی پشت پر پیدا ہونے والا لٹریچر ہی وہ پہلا لٹریچر ہے جس نے اصحابِ رسول کے متعلق، اس تاریخی منصوبۂ خداوندی کی حقیقت کو نمایاں کیا اور سی پی ایس کی ٹیم کی ذہنی تشکیل کے لیے پہلی بار ایک تاریخی پس منظر فراہم کیا۔
جس طرح اصحاب رسول ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں بنے تھے۔ سی پی ایس کی ٹیم کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد تاریخ میں ایک نیا عمل(process) شروع ہوا۔ اسی عمل کا کلمنیشن (culmination) سی پی ایس کی ٹیم ہے۔ اصحابِ رسول کے دعوتی عمل کے نتیجے میں جو انقلاب آیا اور اس کے نتیجے میں فکری ارتقا کاجو عمل شروع ہوا وہ سب اس لٹریچر میں پایا جاتا ہے جو سی پی ایس کی ٹیم کے وجود میں آنے کی بنیاد بنا۔ گویا اصحابِ رسول اگر قدیم زمانے میں ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کا کلمنیشن(culmination) تھے تو سی پی ایس کی ٹیم بعد کے تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ عمل کا کلمنیشن ہے۔ اصحابِ رسول کے بعد بننے والی طویل تاریخ کے تمام مثبت عناصر سی پی ایس کی ٹیم میں جمع ہوگئے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ میں پہلی بار اس کو یہ حیثیت ملی ہے کہ وہ دور حاضر میں اخوانِ رسول کا رول کرسکے۔
ساتویں صدی عیسویں میں اصحابِ رسول کا جو گروہ بنا تھا وہ کسی قسم کے کرشمے کے ذریعے نہیں بنا تھا۔ اصحابِ رسول در اصل اعلیٰ ذہنی ارتقاء کا نتیجہ تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جن پر پچھلی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی تھی۔ وہ قبل سائنس دور کی تمام بہترین روایات کے امین تھے۔ وہ اُس اعلیٰ خدائی منصوبے کا اظہار تھے جو حضرت ابراہیم سے شروع ہوا اور حضرت محمد پر ختم ہوا۔
یہی معاملہ اخوانِ رسول کا ہے۔ یہ وہ لوگ ہوں گے جن پر ظہور ِ محمدی کے بعد بننے والی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ منتہی ہوئی ہو۔ جن کی شخصیت کی تعمیر دورِ سائنس کے تمام بہترین اجزاء کے ذریعے ہوئی ہو۔جو دینِ حق کے سائنسی اظہار کے نمائندہ بن گیے ہوں۔ ایسے ہی لوگ اخوانِ رسول کا درجہ پانے کے مستحق ٹھیریں گے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول دونوں میں ایک بات مشترک ہے۔ اور وہ معرفت (realization) ہے۔ اصحابِ رسول کا دین گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول کا دین بھی گہرے شعورِ معرفت کے اوپر قائم ہوگا۔ گہرے شعورِ معرفت سے مراد ہے سچائی کی ذاتی دریافت، وہ دریافت جو آدمی پر تمام حقیقتوں کے دروازے کھول دے۔ کائنات کا ہر جز جس کے لیے اس کی معرفت کی تصدیق بن جائے۔
خدا کو یہ مطلوب ہے کہ معرفت کی سطح پر خدا کے دین کا اظہار کیا جائے۔قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اِس اظہار حق کے دو دور ہیں۔ پہلا دور وہ تھا جب کہ حق کا اظہار سادہ فطری منطق (natural logic) کی بنیاد پر کیاگیا۔ اس کا بیان قرآن میں اِس طرح ملتا ہے:
’’آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںاور رات اور دن کے باری باری آنے میں عقل والوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔ جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش میںغور کرتے رہتے ہیں۔ وہ کہہ اٹھتے ہیں اے ہمارے رب، تو نے یہ سب بے مقصد نہیں بنایا‘‘۔ (آل عمران ۹۴ــ ۹۵)
یہ معرفتِ حق کی وہ سطح ہے جب کہ آدمی تخلیق کی سادہ سطح پر مطالعہ کرکے خالق کو پالیتا ہے۔ وہ کائنات کے سادہ مطالعے کے ذریعے خدا کے تخلیقی منصوبہ (creation plan of God) کو دریافت کرلیتا ہے۔ وہ فطرت کی سادہ سطح پر تخلیق کی معنویت کو جان لیتا ہے۔ اور اپنے آپ کو خدا کے حوالے کرکے زندگی گزارنے لگتا ہے۔
معرفت حق کی دوسری سطح وہ ہے جو قرآن کے مطابق، بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والی تھی۔ اس لیے اس کو استقبال کے صیغے میں بیان کیا گیا۔ زمانۂ نزولِ قرآن کے لحاظ سے یہ ایک مستقبل کی بات تھی لیکن اب وہ حال کی بات ہوچکی ہے۔ یہ تاریخی حقیقت قرآن کے درج ذیل بیان سے واضح ہوتی ہے:
’’عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے آفاق میں بھی اور خود ان کے اندر بھی۔ یہاں تک کہ ان پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ قرآن حق ہے‘‘۔ (حٰم السجدہ ۵۳)
قرآن کی اس آیت میں جس واقعے کا ذکر کیاگیا ہے اس کو دوسرے لفظوں میں تاریخِ دعوت کا دوسرا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔ مزید غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوسرا مرحلہ وہی ہے جس کو عام طورپر سائنسی انقلاب (scientific revolution) کہاجاتا ہے۔ پہلے دور میں فطری مشاہدے کی سطح پر انسان نے تخلیقِ خداوندی کو دیکھا تھا اور اس سے معرفت کی روشنی حاصل کی تھی۔ دوسرے مرحلے میں دور بینی اور خورد بینی مشاہدے کے ذریعے وہ تخلیقِ خداوندی کے گہرے رازوں کو دریافت کرے گا۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ پہلے دور میںفطرت کے فریم ورک (natural framework) میں خدا کی معرفت حاصل کی گئی۔ دوسرے مرحلے میں انسان اس قابل ہوجائے گا کہ وہ سائنسی فریم ورک(scientific framework) کے ذریعے خدا کی گہری اور برتر معرفت حاصل کرسکے۔ معرفتِ حق کے اِن دو اَدوار کو حدیث میں ایک تمثیل کی صورت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا: مثل امتی مثل المطر لایدری اولہ خیر ام آخرہ ( الترمذی، کتاب الأدب، مسند احمد، جلد ۳،صفحہ ۱۳۰)
یعنی میری امت کی مثال بارش جیسی ہے۔ نہیں معلوم کہ اس کا پہلا حصہ زیادہ اچھا ہوگا یا اس کا دوسرا حصہ ۔اس حدیث میں دراصل تاریخِ معرفت کے مذکورہ دونوں دوروں کو بتایا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اصحاب ایمان پہلے دور میں فطرت کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں گے اور دوسرے دور کے اہلِ ایمان کو یہ موقع حاصل ہوجائے گا کہ وہ سائنس کے فریم ورک یا علم انسانی کے فریم ورک میں حق کی معرفت حاصل کریں اور دوسروں کے سامنے اس کو پیش کریں۔ ان دونوں دوروں میںایسے لوگ اٹھیں گے جو اپنے زمانے کے اعتبار سے حق کا اظہار کریں گے۔
پہلے زمانے کے لوگ فطری فریم ورک کے ذریعے یہ کام انجام دیں گے اور دوسرے زمانے کے لوگ انسانی علم کے فریم ورک کو استعمال کرتے ہوئے اظہار حق کے اس کام کو انجام دیں گے، یعنی جدید اصطلاح کے مطابق، سائنٹفک فریم ورک کے ذریعے— حدیث میں پہلے دور کے گروہ کو اصحاب رسول کہاگیا ہے اور دوسرے دور کے گرو ہ کے لیے اخوان رسول کے الفاظ آئے ہیں۔
اصحاب رسول اور اخوانِ رسول کا زمانہ اگر چہ دو مختلف زمانہ ہوگا لیکن دونوں کا رول پوری طرح یکساں ہوگا، صرف اِس فرق کے ساتھ کہ اصحابِ رسول نے اپنا رول روایتی دو رمیں انجام دیا تھا اور اخوانِ رسول اپنا رول سائنسی دور میں انجام دیں گے۔
اصحابِ رسول کا خصوصی رول کیا تھا، اس کو بتانے کے لیے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں: وکذلک جعلناکم امّۃً وسطاً لتکونوا شہداء علی الناس ویکون الرسول علیکم شہیداً۔ (البقرہ ۱۴۳) یعنی اور اِس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔اِسی طرح حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: أنتم شہداء اللہ فی الأرض (البخاری، کتاب الجنائز) یعنی تم زمین پر خدا کے گواہ ہو۔
اِس کے مطابق، اصحابِ رسول کی حیثیت ایک درمیانی گروہ (middle group) کی ہے۔ انھوںنے یہ کیا کہ انسانیت کے نام خدا کا پیغام رسول سے لیا اور اس کو دوسرے انسانوں تک بے کم وکاست پہنچا یا۔ اب اخوانِ رسول کی حیثیت بھی ایک درمیانی گروہ کی ہوگی۔ رسول کے ذریعے ملنے والا پیغام جو قرآن اور سنت کی شکل میں محفوظ ہے، اس کو بے کم و کاست لینا اور بعد کے زمانے کی انسانی نسلوں تک اس کو پہنچانا۔ اِس معاملے میںاصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کے درمیان اصلاً لسان (ابراہیم ۴) کا فرق ہوگا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے اسلوب اور زبان میںیہ دعوتی کام انجام دیا تھا۔ اسی طرح اخوانِ رسول اپنے زمانے کے عصری اسلوب میں اِس دعوتی کام کو انجام دیں گے۔
بعد کے زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکوں میں صرف سی پی ایس انٹرنیشنل وہ تحریک یا گروپ ہے جو استثنائی طورپر اِس معیار پر پوری اترتی ہے۔ قرآن اور حدیث کی صراحت کے مطابق، اصحابِ رسول کی امتیازی صفت یہ تھی کہ وہ پورے معنوں میں ایک داعی گروہ بنے۔ مگر بعد کو بننے والے گروہوں میںکسی بھی گروہ کو حقیقی معنوں میں داعی گروہ کا درجہ نہیں دیا جاسکتا۔
دعوت کیا ہے۔ دعوت سے مراد وہی چیز ہے جس کے لیے قرآن میں شہادت اور انذار وتبشیر کے الفاظ آئے ہیں۔ یعنی خدا کے تخلیقی نقشے سے لوگوں کو باخبر کرنا۔ دعوت کا لفظ قرآن میں صرف غیر مسلموں میں خدا کا پیغام پہنچانے کے لیے آیا ہے۔ کوئی شخص مسلمانوں میں کام کرے تو اس کو اصلاح اور تذکیر کہاجائے گا۔ ایسے کام کو دعوت اور تبلیغ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں جب اسلامی علوم کی تدوین ہوئی تو اس میں دعوت اور تبلیغ کا باب حذف ہوگیا۔ چنانچہ پچھلے ہزار سال میں لکھی جانے والی کتابوں میں سے کسی بھی کتاب میں غیر مسلموں میں دعوتی ذمے داری ادا کرنے کے پہلو سے اس کا ذکر موجود نہیں۔ ایسا کیوں ہوا۔ غالباً اس کا سبب یہ تھا کہ آٹھویں صدی عیسوی میں مسلمان اپنے دورِ حکمرانی میں پہنچ گیے۔ اس کے بعد سیاست اور حکومت یا اس سے متعلق ابواب ہی ان کی توجہ کا مرکز بن گیے۔ یہاںتک کہ یہ ذہن اتنا عام ہوا کہ اب دوسرے ملّی مقاصد پر تحریکیں اٹھائی جاتی ہیں اوراس کو دعوت و تبلیغ کی تحریک سمجھ لیا جاتا ہے۔
یہ بات بڑی عجیب ہے کہ بعد کے زمانے میں تیار ہونے والے اسلامی لٹریچر میں دعوت کا تصور حذف ہوگیا۔ تاہم یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اِس کے پیچھے ایک معلوم سبب کام کررہا ہے۔ اصل یہ ہے کہ عباسی دَور میں جب فقہ کی تدوین عمل میں آئی، اُس وقت مسلمان دنیا کے بڑے حصے میں سیاسی حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اُس زمانے میں مسلمانوں کا سیاسی امپائر قائم تھا۔
جب بھی اِس قسم کا کوئی سیاسی امپائر قائم ہوتا ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ دوسری قوموں سے اس کی رقابت (rivalry) قائم ہوجاتی ہے۔ بار بار دونوں کے درمیان چھوٹی یا بڑی لڑائیاں پیش آتی رہتی ہیں۔ اِس سیاسی پس منظر میں حالات کے تقاضے کے تحت، ایسا ہوا کہ فقہاء کے ذہن میں شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ تقسیم قائم ہوگئی کہ جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم ہے وہ علاقہ دارالاسلام ہے، اور جس علاقے میں مسلمانوں کی حکومت قائم نہیں وہ علاقہ دارالحرب ہے۔
فقہ کی کتابوں میں بالکل محدّد انداز میں دارالحرب کی تعریف نہیں ملتی۔ تاہم عمومی طورپر یہ کہاجاسکتا ہے کہ دارلحرب سے مراد وہ ملک ہے جس سے مسلمان یا تو عملاً بر سرِ جنگ ہوں یا وہ اُس ملک سے امکانی طورپر برسرِ جنگ (potentially at war) ہوں۔ یہی وہ ذہن ہے جس نے مسلمانوں کے عوام اور خواص کے ذہن سے دعوت کا تصور حذف کردیا۔ اب وہ غیر مسلموں کو حریف اور رقیب کی نظر سے دیکھنے لگے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلم اور غیر مسلم کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ اِس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج ۳) کے الفاظ میںبیان کیا گیا ہے۔ لیکن غیرمسلم علاقے کو دارالحرب قرار دینے کا یہ فطری نتیجہ تھا کہ اُن علاقوں میں بسنے والے لوگ، مدعو کا درجہ نہ پاسکے۔
پچھلے ہزار سال میں پہلی بار ایسا ہوا کہ سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت تیار ہونے والے لٹریچر میں بتایا گیا کہ غیر مسلم ہمارے لیے مدعو اور تمام غیر مسلم علاقے اسلامی نقطۂ نظر سے دارالدعوہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پچھلے ہزار سال کے دوران مختلف زبانوں میں جو اسلامی کتابیں لکھی گئیں وہ اِس تصوّر سے پوری طرح خالی ہیں۔
تاہم جہاں تک دعوتی عمل (Dawah Process) کا تعلق ہے، وہ ہر زمانے میں خاموش طور پر جاری رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر طالبِ حق پیدا ہوتا ہے۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر حق کا متلاشی ہے۔ دوسری طرف قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ خدائی کلام کی حیثیت سے دنیا میں موجود ہے، چنانچہ فطرت اور کلامِ الٰہی کے باہمی تعامل کی بنا پر دعوت کا عمل خود اپنے زور پر ہمیشہ جاری رہا، اور اسی طرح وہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبروں کا پہلا خطاب ہمیشہ اپنے ہم عصر خواص سے ہوتا ہے۔ اِن خواص کے لیے قرآن میں مَلائِ قوم (الاعراف ۶۰)کا لفظ آیا ہے۔ اِس پیغمبرانہ نمونے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں میں دعوت کا عمل کس طرح کیا جائے۔ اس کا طریقہ ہمیشہ یہ ہوگا کہ غیر مسلم قوم کے خواص کو اپنا اوّلین مخاطب بنایا جائے گا۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے وہ بالواسطہ طورپر اس کے مخاطب بنتے چلے جائیں گے۔ یہی پیغمبرانہ طریقہ ہے۔ اِس کے بجائے عوام سے دعوت کے کام کا آغاز کرنا پیغمبرانہ نمونے سے انحراف کے ہم معنیٰ ہے۔
اِس ترتیب کی ایک خاص حکمت ہے۔ وہ یہ کہ خواص اپنے علم اور اپنے ذہنی مرتبے کے اعتبار سے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ اعلیٰ حقائق کو سمجھ سکیں۔ اِس بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ جب داعی، خواص کی نسبت سے اسلام کو پیش کرتا ہے تو اپنے آپ اسلام کی ترجمانی اعلیٰ سطح پر ہونے لگتی ہے۔ اب اسلام اپنی برتر سطح پر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور لوگوں کے لیے اعلیٰ سطح کے ایمان اور معرفت کے حصول کا سبب بنتا ہے۔
اِس کے برعکس، جب داعی نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائے تو فطری طورپر ایسا ہوتا ہے کہ داعی کا طرزِ خطاب بدل جاتا ہے۔ اب اسلام کی نمائندگی نچلی سطح پر ہونے لگتی ہے۔ مثلاً اگر خواص آپ کے مخاطب ہوں تو آپ کہیں گے کہ اسلام کا آغاز سچائی کی دریافت (discovery) سے ہوتا ہے۔اِس کے برعکس، اگر آپ نچلی سطح کے لوگوں کو اپنا مخاطب بنائیں تو وہاں آپ کاطرزِ خطاب بدل جائے گا۔ اب آپ یہ کریں گے کہ ان کو کلمہ پڑھوائیں گے اور کلمہ کے الفاظ کی صحیح تلفظ کے ساتھ ادائیگی کے بعد یہ سمجھ لیں گے کہ آپ نے دعوت کا کام انجام دے دیا ۔
وہ چیز جس کو بدعت کہا جاتا ہے وہ زیادہ تراسی کا نتیجہ ہے۔ بدعت دراصل کم تر سطح پر اسلام کے اظہار کا نتیجہ ہوتی ہے۔ عرب اور برصغیر ہند میں فر ق کا یہی سبب ہے۔ عرب میں دعوت کا آغاز خواصِ قوم سے کیا گیا۔ چنانچہ وہاں بدعات کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔ اِس کے برعکس، برصغیر ہند میں صوفیاء نے عوام کو اپنا نشانہ بنایا۔ اسی کا براہِ راست نتیجہ وہ دینی خرابی ہے جس کو بدعت کہا جاتا ہے۔
مطالعہ بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں دعوت الی اللہ کا تصور ہی لوگوں کے ذہن سے حذف ہوگیا ۔ چنانچہ قرآن کی کوئی بھی تفسیر دعوتی انداز پر نہیں لکھی گئی۔ حدیث کی شرحوں میں سے کوئی بھی شرح دعوتی انداز پر لکھی جانے والی شرح نہیں ہے۔فقہ کو دیکھیے تو وہ بھی مکمل طورپر دعوت کے ابواب سے خالی ہے۔ علمِ کلام کی تدوین بھی دعوت کے انداز پر نہ کی جاسکی۔ پچھلی صدیوں میں جو بڑی بڑی کتابیں لکھی گئیں مثلاً الغزالی کی احیاء علوم الدین، ابن قیّم کی اعلام الموقعین، شاہ ولی اللہ کی حجۃ اللہ البالغۃ، اقبال کی تشکیل جدید الہیاتِ اسلامیہ(Reconstruction of Religious Thought in Islam) وغیرہ، کسی بھی کتاب کا موضوعِ بحث دعوت الی اللہ نہیں ہے۔
اسلامی لٹریچر کی تاریخ کا یہ منفی پہلو بتاتا ہے کہ بعد کے زمانے میں امت کے اندر وہ دعوتی فکر ہی نہیں بنا جس کی زمین پر حقیقی معنوں میں کوئی دعوتی تحریک اٹھے اور اس کے ذریعے کوئی دعوتی گر وپ بنے۔ بعد کی تاریخ میں سی پی ایس انٹرنیشنل واحد تحریک ہے جو خالص دعوت الی اللہ کے اصول پر اٹھی اور پھر اس کی زمین پر خالص دعوتی مقاصد کے لیے ایک گروپ بن کر تیار ہوا جس کو سی پی ایس کی ٹیم کہا جاتا ہے۔
اصحابِ رسول اور اخوانِ رسول کا معاملہ ایک تقابلی مثال سے بخوبی طورپر واضح ہوجاتا ہے۔ یہ ایک تاریخی واقعہ ہے جس کا تعلق افریقہ میں مسلم فتوحات سے ہے۔
عُقبہ بن نافع تابعی ۶۲۱عیسوی میں پیدا ہوئے اور ۶۸۳میں ان کی وفات ہوئی۔ وہ پیغمبر اسلام کے آخری زمانے میں پیدا ہوئے لیکن آپ سے ان کی ملاقات نہ ہوسکی۔
عقبہ بن نافع تابعی یزید بن معاویہ کے دَور خلافت میں افریقہ کی مسلم فوجوں کے سپہ سالار تھے۔ وہ مغربی افریقہ کے ملکوں کو فتح کرتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گیے۔ شہرِ اَسفیٰ ان کی آخری منزل تھی۔ وہاں انھوں نے اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا اور اس کے پانی میںکھڑے ہو کر کہا:
اللہم إنی لو أعلم وراء ہٰذا البحر بلداً لخضتہ إلیہ حتی لا یعبد أحد دونک (خدایا، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کوئی ملک ہے تو میں سمندر میں گھس کر وہاں جاتا۔ یہاں تک کہ تیرے سوا کسی کی عبادت نہ کی جائے۔)
جیسا کہ معلوم ہے، افریقی ساحل کے دوسری طرف امریکا ہے۔ دونوں کے درمیان اٹلانٹک کا وسیع سمندر حال ہے۔ عقبہ بن نافع کے زمانے میں امریکا دریافت نہیں ہوا تھا۔ وہ بعد کو دریافت ہوا چنانچہ اس کو نئی دنیا کہا جاتا ہے۔
اِس واقعے کو علامتی طور پرلے کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے گروہ نے ’’قدیم دنیا‘‘ میں اپنا دعوتی رول ادا کیا تھا، اب کمیونکیشن کے نیے دَور میں دوسرے گروہ کو ’’نئی دنیا‘‘ کے درمیان اپنا دعوتی رول ادا کرنا ہے۔ پہلے گروہ نے روایتی دور میںاپنا دعوتی رول ادا کیا تھا اب دوسرا گروہ سائنسی دور میں اپنا دعوتی رول ادا کرے گا۔ پہلے گروہ نے زمین کے مخصوص حصّے میںاپنادعوتی رول انجام دیا تھا۔ اب دوسرا گروہ زمین کے پورے حصے میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا۔ پہلے گروہ نے قدیم اسلوب میںاپنا دعوتی رول انجام دیا تھا، اب دوسرا گروہ جدید اسلوب میں اپنا دعوتی رول انجام دے گا، وغیرہ۔
سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوتی کام جنوری ۲۰۰۱ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اِس تنظیم کے صدر نے اِس دعوتی کام کو اِس سے بہت پہلے ۱۹۵۰ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارۂ اشاعتِ اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ کام مسلسل بلا انقطاع جاری رہا۔ ۱۹۷۰ میں اِسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیام عمل میں آیا۔ ۱۹۷۶ میں اس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹر نیشنل (۲۰۰۱) اسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدّت کے بعد اب خداکے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔
ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طورپر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوانِ رسول کا لقب دیا تھا۔ اصحابِ رسول کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ تھے بلکہ وہ عام انسانوں کی طرح انسان تھے۔ اِسی طرح اخوانِ رسول بھی کوئی عجیب الخِلقت لوگ نہ ہوں گے بلکہ وہ بھی عام انسانوں کی طرح انسان ہوں گے۔ ان کی پہچان یہ نہ ہوگی کہ وہ انوکھے جسم والے ہوں گے یا یہ کہ وہ کرامتیں دکھائیں گے۔ ان کی پہچان صرف یہ ہوگی کہ وہ دعوتِ حق کے اُس ربّانی مقصد کے لیے کھڑے ہوں گے جس پر رسول اور اصحابِ رسول کھڑے ہوئے تھے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے د رمیان بہت سی تحریکیں اٹھیں ہیں مگر وہ اخوانِ رسول کا درجہ نہیں پاسکتیں۔ اس لیے کہ اخوانِ رسول کا درجہ صرف وہ لوگ پاسکتے ہیں جو ما أنا علیہ وأصحابی کا مصداق ہوں۔ موجودہ زمانے میں اٹھنے والی تمام تحریکیں ردّ عمل کی تحریکیں تھیں، ان میں سے کوئی بھی تحریک ایسی نہیں جس کا یہ کیس ہو کہ اس کے رہنما نے ردّ عمل کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو کر قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا، اور پھر خالص مثبت بنیادوں پر اپنی تحریک کا آغاز کیا۔ یہ خصوصیت صرف سی پی ایس انٹرنیشنل کی تحریک میں پائی جاتی ہے۔
تاریخ میں اہلِ حق کے لیے جو بڑے بڑے امکانات رکھے گیے تھے، اب وہ سب امکانات ختم ہو چکے ہیں— پیغمبروں کا ساتھ دینا، مسیح کا حواری بننا، پیغمبرِ آخر الزماں کے اصحاب میں شامل ہونا۔ اب صرف ایک بڑا درجہ باقی رہ گیا ہے، یہ درجہ اخوانِ رسول کے گروپ کا حصہ بننا ہے۔ اس کے بعد جو چیز ہے وہ تاریخ کا خاتمہ(end of history) ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہ تاریخ کا آخری مبارک موقع ہے۔ جس نے اِس موقع کو پالیا اس نے سب کچھ پالیا۔ اور جس نے اس موقع کو کھودیا اس نے سب کچھ کھودیا۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تناؤ کا مسئلہ

آج کل ساری دنیا میں ایک نئی انڈسٹری وجود میں آئی ہے۔ اس کو ڈی اسٹرسنگ (de-stressing) کہاجاتا ہے۔ مشرق سے مغرب تک ہر ملک میں ایسے ادارے قائم ہوئے ہیں، اور ایسے ماہرین پیدا ہوئے ہیں جو لوگوں کے ذہنی تناؤ یا اسٹریس کو ختم کرنے کا کام بطور پروفیشن کررہے ہیں۔ یہ دَور جدید کا ایک کامیاب پروفیشن بن چکا ہے، اور ساری دنیا میں کروروں لوگ اِس سے وابستہ ہیں۔
ذہنی تناؤ یا اسٹریس کیا ہے، یہ دراصل خواہش اور واقعے کے درمیان پیدا ہونے والے بُعد (gap) کے نتیجے کانام ہے۔ یعنی آدمی جو کچھ چاہتا ہے، اور جو کچھ اس کو ملا ہوا ہے دونوں کے درمیان یکسانیت نہ ہونا۔ آدمی چاہتا ہے کہ اس کو اپنی خواہش کے مطابق، تمام چیزیں مل جائیں ۔ لیکن عملاً ایسا ہوتا ہے کہ اس کو جو چیز ملتی ہے وہ اس کی خواہش سے بہت کم ہوتی ہے۔ اِس سے آدمی کے اندر محرومی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اِسی احساسِ محرومی کا دوسرانام ذہنی تناؤ یا اسٹریس ہے۔
یہ تناؤ یا اسٹریس موجودہ زمانے کا ایک ظاہرہ ہے۔ قدیم زمانے میں انسان عام طورپر خوش رہتا تھا پھر کیوں ایسا ہوا کہ موجودہ زمانے میں وہ ذہنی تناؤ کا شکار ہوگیا۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب سائنس کا ظہور ہوا اور جدید صنعت اور ٹکنالوجی کے ذریعے بہت سی ایسی نئی چیزیں ظہور میں آئیں جن کا انسان نے پہلے تصور نہیں کیا تھا۔ مثلاً قدیم کہانیوں میںاُڑن کھٹولہ ایک خیالی سواری کے طور پر بتایا جاتا تھا۔ اب ہوائی جہازکی صورت میں ہر آدمی کے لیے مشینی اڑن کھٹولے پر بیٹھنا ممکن ہوگیا، وغیرہ۔
جدید صنعتی دَور کے ظہور کے بعد انسان یہ سمجھنے لگا کہ اب وہ وقت آگیا ہے جب کہ وہ اپنی تمام خواہشوں کو مکمل طورپر پورا کرسکے۔ چنانچہ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ کمانے کے لیے دوڑنے لگا۔ ہر آدمی زیادہ سے زیادہ سامانِ حیات اکھٹا کرنے میں لگ گیا۔ مگر سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی خواہشیں پوری نہ ہوسکیں۔اب بھی اس کے لیے بورڈم کا سوال باقی تھا۔ بیماری، حادثہ اور موت جیسے مسائل بدستور اس کی پریشانی کے لیے موجود تھے۔ یہ احساس اب بھی اس کو ستارہا تھا کہ واقعات اس کے کنٹرول میںنہیں ہیں۔ اس کی ہر خواہش صرف جُزئی طورپر پوری ہورہی تھی، کُلّی طورپر نہیں۔
اس کا سبب یہ تھا کہ انسان فطری طورپر لامحدود خواہشیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔ لیکن وہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتاہے وہ صرف ایک محدود دنیا ہے۔ انسان پیدائشی طورپر ایک معیار پسند (perfectionist) مخلوق ہے، لیکن یہ دنیا جس کے اندر وہ اپنی زندگی گذارتا ہے وہ ایک غیر معیاری دنیا ہے۔ طلب اور واقعے کے درمیان یہی فرق ہے جو ذہنی تناؤ کا سبب بنتا ہے۔ اس کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے حقیقت کا اعتراف۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے موجودہ دنیا کو صرف مقام امتحان کے طور پر بنایا ہے۔ اس بنا پر موجودہ دنیا کی ہر چیز محدود ہے، وہ اعلیٰ معیار سے کم ہے۔ کوئی بھی صنعتی ترقی محدود خواہشوں کو پورا نہیں کرسکتی۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ انسان اپنی خواہش کے اعتبار سے کامل ہے، لیکن موجودہ دنیا ایک غیر کامل دنیا ہے۔ انسان سب کچھ چاہتا ہے لیکن اس کو صرف کچھ ملتا ہے۔ محرومی کی یہی صورت حال، ذہنی تناؤ کا اصل سبب ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو جانے کہ کوئی بھی ترقی یا کوئی بھی کامیابی اپنی محدودیت کی بنا پر اس کو وہ سب کچھ نہیں دے سکتی جس کو وہ پانا چاہتا ہے۔ غیر کامل دنیا میں کامل یافت ممکن ہی نہیں۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اگلی دنیا کو اپنی طلب کی منزل بنائے۔ وہ یہ جانے کہ جو کچھ وہ آج کی دنیا میں پانا چاہتا ہے وہ صرف کَل کی دنیا میں ملنے والی ہے۔ کسی طالبِ علم کو امتحان ہال میں جاب نہیں مل سکتا۔ اِسی طرح کسی انسان کو موجودہ امتحانی دنیا میں اس کا تمام مطلوب حاصل نہیں ہوسکتا۔
ذہنی تناؤ کو دور کرنے کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی خدا کے تخلیقی نقشے پر راضی ہوجائے۔ وہ اپنی خواہش کے مطابق جینے کے بجائے خدا کے منصوبے کے مطابق جینے لگے۔ وہ اپنی سوچ کو خدا کی سوچ کے تابع کردے۔ یہی ڈی اسٹریسنگ کا واحد کامیاب فارمولا ہے۔ یہی وہ واحدتصور ہے جو ذہنی تناؤ کو مکمّل طورپر ختم کرنے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سادہ فارمولا

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔نماز کا وقت ہواتو وہ ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوگیے۔ نماز کے دَوران ان کے موبائل ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ نماز ختم ہونے تک بار بار گھنٹی بجتی رہی۔ اس کی وجہ سے نمازی ڈسٹرب ہوتے رہے۔معلوم ہوا کہ یہ اُن کے نوجوان بیٹے کا ٹیلی فون تھا۔ وہ کہیں باہر گیے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو انھوں نے اپنے باپ کو گھرپرنہ پایا۔ انھیں پریشانی ہوئی کہ والد صاحب کہاں چلے گیے۔ اِس پریشانی میں وہ بار بار ٹیلی فون کی گھنٹی بجاتے رہے۔ انھوں نے ٹیلی فون کرکے اپنے بیٹے کو بتایا کہ میںاِس وقت یہاں ہوں اور کچھ دیر کے بعد آؤں گا۔
میںنے کہا کہ یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر آپ کے صاحب زادے بار بار آپ کو ٹیلی فون کریں اور اِس طرح اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کریں۔ آپ نے اپنے صاحب زادے کو لاڈ پیار تو خوب کیا ہوگا لیکن ان کو زندگی کا اصول نہیں بتایا۔میں نے کہا کہ انگریزی کا ایک مقولہ ہے۔ یہ مقولہ لمبے انسانی تجربے کے بعد بنا ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ—خبر نہ ہونا اچھی خبر ہے:
No news is good news.
میں نے کہا کہ میں نے زندگی میں بار بار سفر کیے ہیں۔ مگر میرے گھر والے کبھی ایسا نہیں کرتے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ میںنے اپنے گھر والوں کو بہت پہلے یہ مقولہ بتادیا تھا۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ اگر میرے بارے میں کوئی خبر نہ آئے تو سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی حادثہ پیش آئے تو فوراً اس کی خبر یہاںآجائے گی۔میری اِس بات پر مذکورہ بزرگ صرفمسکرا دیے۔ انھوںنے ایسا نہیںکیا کہ وہ اپنے بیٹے کو ٹیلی فون کرکے بتائیں کہ آج ایک بہت قیمتی اصول مجھ کومعلوم ہوا ہے۔ اس کو تم پکڑ لو۔ وہ اصول یہ کہ جب تک کوئی بُری خبر نہ آئے سمجھ لو کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔
انھوںنے کیوں اپنے بیٹے کو یہ بات نہیں بتائی۔اس کا سبب یہ تھا کہ وہ اپنے بیٹے کی محبت میںاتنا زیادہ سرشار تھے کہ وہ سوچ نہیں سکتے تھے کہ میرے بیٹے نے کوئی غلطی کی ہے۔ اِس قسم کی محبت کوئی سادہ چیز نہیں۔ وہ محبت کرنے والے کے لیے ایک عظیم نقصان کا باعث ہے۔ اِس کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کے اندر واضح فکر پیدا نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ کنفیوژن میں مبتلا رہتا ہے۔
فکری وُضوح اور کنفیوژن کیا ہے۔ وہ دراصل سارٹنگ کا عمل ہے، یعنی ایک چیز سے دوسری چیز کو الگ کرنا۔ اسی سے ذہن کے اندر فکری وضوح آتا ہے۔ جب آدمی کسی وجہ سے سارٹنگ کا یہ کام نہ کرسکے تو اسی کے نتیجے کا نام وہ چیز ہے جس کو کنفیوژن کہاجاتا ہے۔
موصوف کو ’’نو نیوز از گڈ نیوز‘‘ کا فارمولا بظاہر پسندآیا۔ مگر بیٹے کی محبت کی وجہ سے وہ یہ نہ کرسکے کہ وہ دو چیزوں کو ایک دوسرے سے الگ کریں۔ یعنی اپنے بیٹے کی روش کو غلط قرار دیں اور میں نے جو فارمولا بتایا اس کو صحیح سمجھیں۔ اِس عدم سارٹنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کا ذہن کنفوژن میںپڑا رہا۔ انھوںنے شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ مان لیا کہ—یہ بھی ٹھیک ہے اور وہ بھی ٹھیک۔
پھر میں نے کہا کہ یہ کمیونیکیشن کا زمانہ ہے۔ آدمی کو تھوڑی دیر میں دور دور کی خبریں مل جاتی ہیں۔ اِس لیے موجودہ زمانے میں یہ فارمولا ہمیشہ سے زیادہ درست بن گیا ہے۔ اب تو منٹوں میںکوئی خبر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتی ہے۔ انھوںنے کہا کہ ایسا نہیں ہے۔ فلاں شخص کے ساتھ دور کے شہر میںایک حادثہ پیش آیا۔ وہ دو دن تک اسپتال میںرہا مگر ہمارے پاس اس کی خبر اس وقت آئی جب کہ اس کا انتقال ہوچکا تھا۔
میںنے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہمیشہ آپ کو کنفوژن میں مبتلا رکھے گی۔ کیوں کہ آپ خیالات کی سارٹنگ کاکام کرنا نہیں جانتے۔ میںنے کہا کہ اس معاملے میں آپ کی غلطی یہ ہے کہ آپ ایک استثناء (exception) کو جنرلائز کررہے ہیں۔ ہر دن ہزاروں خبریں منٹوں میںایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ رہی ہیں۔ آپ نے اس کو چھوڑ کر ایک استثنائی واقعہ لے لیا اور اسی سے اپنی رائے بنانے لگے۔
یہی بیش تر لوگوں کا حال ہے۔ لوگ کسی نہ کسی وجہ سے ایسا کرتے ہیں کہ وہ خیالات کی سارٹنگ کا کام نہیں کرتے۔ اِس بنا پر ان کا ذہن مختلف قسم کے خیالات کا جنگل بنا رہتا ہے۔ ان کے اندر نہ وضوحِ فکر پیدا ہوتا ہے اور نہ وہ اِس قابل ہوتے ہیںکہ تجزیہ وتحلیل کا کام انجام دے سکیں۔
واپس اوپر جائیں