Pages

Tuesday 2 March 2010

Al Risala | March 2010 (الرسالہ،مارچ)


قطر کا سفرنامہ

قطر ایک خلیجی ملک ہے۔ قطر کی منسٹری آف فارین افئرس (Ministry of Foreign Affairs) کے تحت ایک ادارہ قائم ہے۔ اُس کا نام یہ ہے: مرکز الدوحۃ الدُولی لحوار الأدیان:
Doha International Center for Interfaith Dialogue
اِس ادارے کے تحت، دوحہ (قطر) میں ساتویں سالانہ انٹرنیشنل کانفرنس 20-21 اکتوبر 2009 کو ہوئی۔ اس کانفرنس کا متعین موضوع یہ تھا:
التضامن الإنسانی(Human Solidarity)
اِس کانفرنس میں شرکت کے لیے دوحہ انٹرنیشنل سنٹر کے صدر الدکتور ابراہیم صالح النعیمی کے دستخط سے ایک دعوت نامہ مورخہ 14 جولائی 2009 ملا۔ اِس کے مطابق، د وحہ کا سفر ہوا۔ میرے ساتھ مددگار کے طورپر میرے دو اور ساتھی اِس سفرمیں شریک تھے۔
باہر کے سفروں میں پہلا مرحلہ ویزا (visa) کا ہوتا ہے۔ عام طورپر ویزا آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن اِس بار میرے ایک ساتھی کے ویزا کے حصول میںکافی مشکل پیش آئی، یہاں تک کہ آخری دن آگیا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ قطر کا سفر نہ ہوسکے گا۔ چناں چہ قطر میں مقیم ہمارے ایک ساتھی مولاناعبدالباسط عمری کو اطلاع دے دی گئی کہ اب میرا سفر نہ ہوسکے گا۔ وہ میرے سفر کے بہت زیادہ مشتاق تھے، اِس لیے وہ مایوس نہیں ہوئے، چناں چہ انھوں نے مسجد میں جاکر نماز پڑھی اور دعاء کی اور تھوڑی دیر کے اندر ای میل کے ذریعے ہمارے ساتھی کا ویزا دہلی میں موصول ہوگیا۔
یہ نماز کے ذریعے استعانت کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ اِس قسم کی نماز کو عام طور پر صلاۃ الحاجۃ کہاجاتا ہے۔ صلاۃ الحاجہ کا ایک انوکھا واقعہ ابھی حال میں میں نے پڑھا۔ یہ ہمالیہ ڈرگ کمپنی (بنگلور) کے فاؤنڈر حکیم محمد منال الدین (وفات: 1986 ) کا واقعہ ہے۔ اِس واقعے کو مختصراً ان کے صاحب زادہ محمد معراج الدین منال کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ایک مرتبہ والد محترم پر سخت وقت آیا۔ آپ کے کام اور کمپنی کی تاریخ میں یہ نہایت پریشان کن مرحلہ تھا۔ یہ مشکل اتنی شدید نوعیت کی تھی کہ ہمالیہ کمپنی اپنی بقا کے لیے اندیشوں میں آگئی تھی۔ در اصل گورنمنٹ کی طرف سے کمپنی کے خلاف ایک نوٹس آیا تھا، اس میں جو اعتراضات تھے، اس کے مطابق، کمپنی کے لیے بند ہوجانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ اِس موقع پر بمبئی میں ممتاز ماہرین قانون کو جمع کیاگیا تھا، مگر ان کے ساتھ طویل مشاورت بھی کسی حل کی طرف لے جانے میں ناکام ثابت ہوئی۔ مگر ٹھیک اُس وقت جب کہ امید کے تمام دروازے بند ہوگئے تھے، ابا جان نے ایک ایسا دروازہ پالیا جہاں صرف امید ہی امید تھی۔ آپ نے ہر بات کا انکار کیا اور نماز میں مشغول ہوگئے۔ آپ نماز سے فارغ ہو کر اُس آفس کو گئے جہاں سے نوٹس آیا تھا۔ آفس کے پاس زینے پر چڑھتے ہوئے ایک دوست سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تعجب ظاہر کیا کہ منال صاحب آپ یہاں کیسے۔ ابا نے جواب میں وہ نوٹس دکھایا۔ اس دوست نے کہا یہ آفیسر میرا دوست ہے اور میرے بازو میں بیٹھتا ہے۔ میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں، پھر انھوں نے آفیسر کو بتایا کہ یہ ایسے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ یہ اچھے آدمی ہیں، خواہ مخواہ کیوں ان کو پریشان کرتے ہو۔ اِس گفتگو اور متعلقہ تحقیق کے بعد اُس وقت آفیسر نے مذکورہ نوٹس کینسل کیا اور دوسرا نوٹس جاری کیا جو کمپنی کے مفاد میں تھا۔ اِس طرح کمپنی پرابلم سے نکل گئی اور الحمد للہ آج بھی کمپنی ترقی کررہی ہے‘‘۔ (ایک قابلِ تقلید اور مثالی شخصیت، صفحہ 21)
یہ طریقہ پیغمبر اسلام ﷺکی سنت کے عین مطابق ہے۔ روایات میں آپ کے بارے میں آیا ہے کہ: إذا حزبہ أمر صلّی (أبو داؤد، کتاب الصلاۃ) یعنی جب آپ کے ساتھ کوئی سخت معاملہ پیش آتا تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے۔ اِس قسم کی نماز کو عام طور پر صلاۃ الحاجۃ کہاجاتا ہے۔ اِس کی روح یہ ہے کہ آدمی مشکل وقت میںاللہ کو یاد کرے اوراُس سے اپنے لیے مدد مانگے۔
پروگرام کے مطابق، 19 اکتوبر 2009 کی صبح کو روانگی ہوئی۔ سفر کے آغاز میں میںنے یہ دعاء کی کہ خدایا، میں تیرے راستے میں یہ سفر کررہا ہوں، تو اِس سفر میں سی 29 سے سی 29 تک (from C-29 to C-29) میرا ساتھی بن جا۔ یہ دعاء اللہ تعالی نے قبول فرمائی۔ میںنے بہت سے اسفار کئے ہیں، مگر اس سفر میں غالباً پہلی بار ایسا ہوا کہ گھر سے ائر پورٹ تک مسلسل گاڑی چلتی رہی اور تقریباً 25 کلو میٹر کے اِس راستے میں کہیں رکنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
روانگی سے پہلے دہلی میں حبیب بھائی (حیدرآباد) کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ ایک چیز مجھے سخت پریشان کرتی ہے۔ جب میں کہیں گفتگو کرتا ہوں یا تقریر کرتا ہوں تو لوگ اکثر غیر متعلق (irrelevant) قسم کے سوالات کرنے لگتے ہیں۔ اِس قسم کا سوال سن کر مجھے اکثر غصہ آجاتا ہے۔ میںنے کہا کہ ایسے موقع پر غصے کی کوئی ضرورت نہیں۔ جب بھی آپ بولتے ہیں تو اُس وقت وہاں ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ مخاطب اوّل (first audience) کے طورپر فرشتے موجود رہتے ہیں، اور مخاطب ثانی (second audience) کے طورپر انسان وہاں موجود ہوتے ہیں۔ آپ کسی انسان کے ناپسندیدہ رد عمل پر دھیان مت دیجئے۔ آپ صرف یہ سوچئے کہ اِن حاضرین کی وجہ سے آپ کو یہ موقع ملا کہ آپ ایک ایسا ذکرِ اجتماعی کریں جو فرشتوں کے ریکارڈ میں درج ہوجائے۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت سیاحت بتائی گئی ہے (التوبۃ: 112 )۔ قرآن کے مطابق، مومن ایک سیّاح انسان ہوتا ہے۔ سیاحت یا سیاحی کے لفظی معنی سفر کے ہیں۔ مومن ایک بامقصد انسان ہوتا ہے، اِس لیے مومن کا سفر یقینی طور پر وہی ہے جو بامقصد سفر ہو۔ مومن کے مقصد کو قرآن میں دعوت الی اللہ کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اِس لحاظ سے، مومن کا سفر وہ ہے جو دعوتی سفرہو، جس کے سفر میں دعوت ایک لازمی جز کی حیثیت سے شامل ہو۔
واشنگٹن (امریکا) کے ایک ادارہ (Pew Forum on Religion and Public Life) کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیاہے کہ اِس وقت دنیا کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ بلین سے زیادہ (1.57 billion) ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ— موجودہ انسانی آبادی میں ہر چار میں سے ایک شخص مسلمان ہے:
World over, 1in 4 persons is a Muslim.
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان اگر یہ فیصلہ کرے کہ وہ کم ازکم چار غیر مسلموں تک خدا کی کتاب (قرآن) پہنچائے گا تو نہایت محدود مدت میں قرآن دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں تک پہنچ جائے گا۔ جدید کمیونکیشن کے دور سے پہلے یہ ایک بے حد مشکل کام تھا، لیکن اب جدید کمیونکیشن کے ذرائع نے عالمی سفر کو ممکن بنا دیا ہے۔ عالمی سفر دراصل عالمی انٹر یکشن کا دوسرا نام ہے۔ موجودہ زمانے میں یہ ممکن ہوگیا ہے کہ عالمی سفر کو عالمی دعوت کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ مسلمانوں کے اندر اگر دعوت کا جذبہ موجود ہو تو یہ ہوگا کہ ہر مسلمان ون مین، ون مشن (one man, one mission) کا کیس بن جائے گا۔ وہ ایک طرف سفر کرے گا، اور دوسری طرف وہ عالمی سطح پر قرآن کو پھیلانے کا کام کرے گا۔ ’’ادخالِ کلمہ‘‘ کی جو پیشین گوئی حدیث میں آئی ہے، وہ آج پوری طرح قابل عمل بن چکی ہے۔
World over, 1 in 4 persons is a Muslim
Washington: The global Muslim population stands at 1.57 billion, meaning that nearly 1 in 4 people in the world practice Islam, according to a report on Wednesday billed as the most comprehensive of its kind. The Pew Forum on Religion and Public Life report provides a precise number for a population whose size has long been subject to guesswork, with estimates ranging anywhere from 1 billion to 1.8 billion. The project, three years in the making, also presents a portrait of the Muslim world that might surprise some. For instance, Russia has more Muslims than Jordan and Libya combined. “This whole idea that Muslims are Arabs and Arabs are Muslims is really just obliterated by this report,” said Amaney Jamal, a professor of politics at Princeton University. The report also sought to pinpoint the world's Sunni-Shia breakdown, but difficulties arose because so few countries track sectarian affiliation. As a result, the Shia numbers are not as precise; the report estimates that Shias represent between 10% and 13% of the Muslim population.The report provides further evidence that while the heart of Islam might beat in the Middle East, its greatest numbers lie in Asia: More than 60% of the world’s Muslims live in Asia. About 20% live in the Middle East and North Africa, 15% live in Sub-Saharan Africa, 2.4% are in Europe and 0.3% in the Americas. Three-quarters of Muslims living as minorities are concentrated in five countries: India (161 million), Ethiopia (28 million), China (22 million), Russia (16 million) and Tanzania (13 million).
India's immense size is underscored by the fact that it boasts the third-largest Muslim population of any nation - yet Muslims account for just 13% of the population. AP (The Times of India, New Delhi, October 9, p. 21)
ہم لوگ تین آدمی تھے۔ کانفرنس میں لوگوں کو دینے کے لیے ہم قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دوسرے اسلامی لٹریچر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ائر پورٹ پر پہنچ کر ہمارے ساتھیوں نے اس کو چیک ان (check-in) کردیا۔قطر کے اِس سفر میں غیر معمولی قسم کی سہولیات کا تجربہ ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ قطر کے اِس چار روزہ سفر میں ہم کو غیر متوقع طور پر اتنی زیادہ سہولتیں (facilities) حاصل رہیں کہ ان کو اگر شاہانہ سفر کہا جائے تو یہ مبالغہ نہ ہوگا۔
دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر ہم لوگ داخل ہوئے تو فوراً ہی ائرلائن کی ایک خاتون نے آگے بڑھ کر ہمارا استقبال کیا اور ہم کو ضروری رہنمائی دی۔ یہ منظر دیکھ کر دل سے دعا ء نکلی کہ خدایا، جب میں آخرت کے گیٹ پر پہنچوں تو وہاں بھی رحمت کا ایک فرشتہ اِس عاجزانسان کے استقبال کے لیے موجود ہو۔
ہم لوگ ائر پورٹ کے اندر داخل ہوئے تو حسب معمول یہاں بہت سے مسافر ہر طرف دکھائی دے رہے تھے، ہندستانی بھی اور غیر ہندستانی بھی۔میںنے اُن کو دیکھا تو میںنے محسوس کیا جیسے کہ ہرایک خاموش زبان میں یہ کہہ رہا ہے کہ— میرا واحد کنسرن اپنی دنیا کی زندگی کو بہتر بنانا ہے، میری زندگی کا فارمولا صرف یہ ہے:
Right here, Right now!
ائرپورٹ کی رسمی کارروائی کے بعد ہم لوگ وہاں کے لاؤنج (lounge)میں چلے گئے۔ اِس میں مسافروں کے لیے ہر قسم کا اعلیٰ انتظام موجود تھا۔ لاؤنج میں میری ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔ وہ مسقط (عمان) سے تعلق رکھتے تھے۔ گفتگو کے دوران انھوںنے بتایا کے وہ یہاں ’’تبلیغ‘‘ میں آئے تھے۔ وہ عربی زبان کے علاوہ کچھ انگریزی بھی جانتے تھے۔ اُن سے میںنے گفتگو کی کوشش کی، مگر معلوم ہوا کہ وہ سادہ قسم کے آدمی ہیں اور زیادہ علمی بات کے عادی نہیں، ہمارے ساتھیوں نے ان کو سی پی ایس کا دعوتی لٹریچر دیا۔مجھے اِس قسم کے کئی تجربات پیش آئے ہیں۔ اِن تجربات کی بنا پر میرا احساس یہ ہے کہ عرب کے جو لوگ یہاں تبلیغ میںآتے ہیں، وہ دراصل عرب کے ’’میواتی‘‘ ہوتے ہیں، نہ کہ وہاں کے اہلِ علم۔
حبیب بھائی (حیدر آباد) سے دوسری بار ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ گفتگو کے دوران میںنے کہا کہ دین میں سب سے زیادہ اہمیت شکر کی ہے۔ ہماری زندگی میں بار بار ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو شکر کے جذبے کوگھٹانے والے ہوتے ہیں۔ ایسے موقع پر مومن کو بہت زیادہ با شعور ہونا چاہئے۔ مومن کے لیے شکر کا ایروژن (erosion) ناقابلِ برداشت ہونا چاہئے۔
اصل یہ ہے کہ اگر کسی معاملے میں 99 فی صد شکر کی بات ہو اور صرف ایک فی صد منفی بات تو شیطان یہ کرتا ہے کہ وہ ایک فی صد منفی بات کو اتنا زیادہ بڑھاتا ہے کہ 99 فی صد مثبت بات آدمی کی نظر سے اوجھل ہوجاتی ۔ وہ شکر کے سمندر میں رہتے ہوئے بھی ناشکری کے احساس میں جینے لگتا ہے۔ ایسے موقع پرآدمی کو چاہیے کہ وہ فوراً یہ کہے کہ: اللہم إنی أعوذ بک من ہمزات الشیاطین۔ اِس کے بعد ان شاء اللہ، شیطان بھاگ جائے گا۔ یہ صرف عقیدہ کی بات نہیں، بلکہ یہی میرا تجربہ ہے۔
میں نے کہا کہ ناشکری کی کوئی بات دماغ میں آئے تو آدمی کو چاہئے کہ وہ اس کو سرتاسر بے اصل سمجھے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ اس کو اپنے دماغ میں جگہ نہ دے۔ وہ اس کو بداہۃً قابلِ رد (prima facie its stands rejected)سمجھتے ہوئے فی الفور اپنے دماغ سے نکال دے۔
دہلی ائر پورٹ پر میں نے قدم قدم پر خدا کی نصرت اور رحمت کے ایسے مناظر دیکھے کہ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے— خدایا، اگر میں دنیا کی تمام زبانیں جانتا اور تمام زبانوں کی ڈکشنریوں کے تمام الفاظ مجھ کو یاد ہوتے اورمیں تیری حمد اور تیرا شکر ادا کرتا تو میں اس کا حق ادا نہیں کرسکتا تھا۔ خدایا، اگر دنیا کے تمام درخت میرے لیے قلم بنا دئے جاتے اور تمام سمندر میرے لیے سیاہی ہوتے اور میں تیرے احسانات کو لکھنے بیٹھتا تو یقینا ایسا ہوتا کہ تمام قلم ختم ہوجائے اور تمام سمندر خشک ہوجاتے، تب بھی تیری حمد کا بیان ختم نہ ہوتا۔
یہ الفاظ جب میری زبان پر آئے تو اُس وقت میںنے سوچا کہ قرآن (لقمان:27 ) میں جو یہ بات کہی گئی ہے ، بظاہر وہ خدا کی طرف سے ہے، لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ انسانی جذبات کا اظہار ہے۔ وہ علمِ الٰہی کا بیان نہیں، بلکہ وہ بندۂ مومن کا احساس ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ کائنات میں تدبر کرکے آلائِ خداوندی کو اِس طرح دریافت کرے کہ واقعۃً اس کو یہ محسوس ہونے لگے کہ تمام درختوں کے قلم اور تمام سمندروں کی سیاہی بھی اس کے جذباتِ حمد کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
سفر کے دوران میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا، بہت سے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں ۔ ان میں ہر مذہب کے لوگ شامل تھے۔ اِس تجربے سے میرے اندر ایک عجیب احساس پیدا ہوا، وہ یہ کہ تمام لوگ خدا کی پکڑ سے بالکل بے خوف ہو چکے ہیں۔ ہر مذہبی گروہ نے ایسے فلسفے گھڑ لیے ہیں جس میں سب کچھ ہے، لیکن خدا کی پکڑ (accountability) کا ذکر اس کے اندر موجود نہیں— پنر جنم کے فلسفے نے ہندوؤں کو بے خوف کر دیا، کفّارے کے عقیدے نے عیسائیوں کو بے خوف کردیا، شفاعت کے عقیدے نے مسلمانوں کو بے خوف کردیا، منتخب گروہ (chosen people) کے عقیدے نے یہود کو بے خوف کردیا، شیطان کا سب سے بڑا حربہ اِسی قسم کے مغالطہ آمیز عقائد اور فلسفے ہیں۔
اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ غسل (bath) کو مسلمان عام طور پر صرف طہارت کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، حالاں کہ غسل، نظافت(cleanness) کا ایک حصہ ہے۔
ایک بار میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہندوؤں کی ایک مجلس میںشریک تھا۔ گفتگو کے دوران ایک ہندو نے کہا کہ مسلمان تو صرف جمعہ جمعہ نہاتے ہیں۔ مسلمانوں کے یہاں صفائی کا کوئی تصور نہیں۔ میںنے کہا کہ یہ بات آج کل کے مسلمانوں کے بارے میں درست ہوسکتی ہے، مگر یہ بات دورِ اوّل کے مسلمانوں کے بارے میں درست نہیں۔ میںنے کہا، خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفّان کے ایک خادم اُن کے بارے میں کہتے ہیں کہ: کان یغتسل کلّ یوم مرّۃ أو مرّتین (وہ ہر دن ایک بار یا دو بار غسل کرتے تھے)۔ اِس کو سن کر سارے ہندو بہت خوش ہوگئے۔ حاضرین میں سے ایک سوامی چیدانند (رشی کیش) نے کہا کہ ہم کو معلوم نہیں تھا کہ اسلام میں اتنی اچھی اچھی باتیں ہیں۔ آپ ہم کو اسلام اِن ڈیلی لائف (Islam in Daily Life) کے موضوع پر تین سو صفحات کی ایک کتاب تیار کرکے دیجئے۔ ہم اس کو دس زبانوں میں چھاپیں گے اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائیں گے۔
19 اکتوبر 2009 کی صبح کو ہم لوگ قطر ائر لائنز کی فلائٹ (QR 233) میں داخل ہوئے۔ دہلی سے قطر کی دوری تقریباً 3 ہزار کلو میٹر ہے۔ یہ سفر تین گھنٹے میں طے ہوا۔ قطر ائرلائنز ایک ٹاپ کی ہوائی کمپنی سمجھی جاتی ہے۔ اس کے اندر جب میں بیٹھا ہو ا تھا تو ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کہ ایک فلائنگ پیلیس (flying palace)ہے اور میں اس کے اندر ایک تخت نما کرسی پر بیٹھا ہوا پرواز کر رہا ہوں۔ یہ منظر دیکھ کر میری زبان پر یہ دعاجاری ہوگئی— خدایا، دنیا میںتو نے مجھ کو سب کچھ دیا، آخرت میں بھی تو مجھ کو سب کچھ دے دے۔ کوئی شریف انسان دینے کے بعد نہیں چھینتا۔ تو تمام شریفوں سے زیادہ اعلیٰ اور عظیم ہے۔ تجھ سے میں یہی امید رکھتا ہوں کہ تو آخرت میں اِس عاجز بندے کے ساتھ اُس سے زیادہ بہتر معاملہ فرمائے گا جو دنیا میں تو نے اس کے ساتھ کیا ہے۔
جہاز کے اندر مختلف قسم کے میگزین اور اخبار مطالعے کے لیے موجود تھے۔ ان میں مختلف قسم کی تصویریں چھپی ہوئی تھیں۔ اِن تصویروں کو دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ آئے— خدایا، تو نے کچھ لوگوں کو انسانِ قوی بنایا اور کچھ لوگوں کو انسان ضعیف۔ جو انسانِ قوی تھا، وہ ’’ربّی أکرمن‘‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوگیا۔ جو انسانِ ضعیف تھا، وہ ’’ربّی أہانن‘‘ کی نفسیات میں جینے لگا۔ قوت اور ضعف دونوں امتحان کی حالتیں تھیں، لیکن قوی اور ضعیف دونوں قسم کے انسان اپنے امتحان میں فیل ہوگئے۔ دونوں کا یہ حال ہوا کہ وہ خدا کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر زندگی گزارتے رہے، اور آخر کار وہ مر کر اِس دنیا سے چلے گئے۔
جہاز کے اندر نیویارک ٹائمس کے گلوبل ایڈیشن کا شمارہ 17-18 اکتوبر 2009 دیکھا۔ اِس شمارے میں ایک امریکی جنرلسٹ ڈیسٹر فلکنس (Dexter Filkins) کا لکھا ہوا انٹرویو چھپا تھا۔ یہ انٹرویو انھوںنے افغانستان میں مقیم امریکا کے فوجی افسر جنرل میک کرسٹل (Mc Chriystal) سے لیا تھا۔ اِس میں بتایا گیا تھا کہ اِس وقت افغانستان میں امریکا کے 65,000 فوجی موجود ہیں۔ مگر جنرل میک کرسٹل نے مزید 40,000 فوجیوں کا مطالبہ کیا ہے۔ انٹرویو میں امریکا کے مذکورہ فوجی افسر نے اپنی کسی کامیابی کا ذکر نہیں کیا تھا۔ البتہ آخر میں انھوں نے عراق کی حالیہ جنگ کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ — عراق کا ایک سبق یہ ہے کہ ہمیں کسی بھی حال میں اپنا اعتماد نہیں کھونا چاہیے:
One of the big takeaways from Iraq was that, you have to not lose confidence in what you are doing. (p. 4)
دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہمیں مایوسی میں بھی امید پر قائم رہنا چاہیے— عجیب بات ہے کہ اِس سے پہلے سوویت روس نے افغانستان میں فوجی اقدام کرکے اپنے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو کھو دیا تھا۔ اب امریکا اِسی علاقے میں فوجی اقدام کرکے دوبارہ اُسی انجام سے دوچار ہورہا ہے۔ شاید تاریخ کا سب سے زیادہ انوکھا سبق یہ ہے کہ کسی نے تاریخ سے سبق نہیں سیکھا۔
فلائٹ کے اندر دوحہ (قطر) سے نکلنے والا ایک اور اخبار (The Peninsula)کا شمارہ 19 اکتوبر 2009 موجود تھا۔ اس کی ایک خبر کا عنوان یہ تھا:
Vodafone Qatar Celebrates Diwali
خبر میں بتایا گیا تھا کہ کمپنی نے دوحہ کے ایک رزورٹ (Sealine Beach Resort) میں دیوالی کا تیوہار منایا۔ اِس رزورٹ کو انڈیا کے انداز میں سجایا گیا اور اس کا نام لٹل انڈیا (Little India) رکھ دیا گیا۔کمپنی نے دوہزار دیوالی گفٹ باکس، برلا پبلک اسکول کے بچوں کو دیا، اور چھ ہزار دیوالی گفٹ باکس وہاں کے سُوق ایریا میں کام کرنے والوں کے درمیان تقسیم کیا۔ اِس موقع پر کمپنی نے اعلان کیا کہ:
Vodafone aims to ‘make a world of difference for all people in Qatar’
قطر ایک مسلم ملک ہے، لیکن وہاں پچاس فی صد سے زیادہ غیر ملکی آباد ہیں۔ یہ لوگ قطر میں اپنے تیوہار مناتے رہتے ہیں۔ یہ جدید گلوبلائزیشن کا ایک ظاہرہ ہے۔ مسلم مبصرین عام طورپر اِس ظاہرے کو منفی معنوں میں لیتے ہیں، لیکن اِس ظاہرے کا ایک عظیم مثبت پہلو ہے، اور وہ دعوت کا پہلو ہے۔ موجودہ زمانے میں گلوبلائزیشن کی وجہ سے ایساہوا ہے کہ مدعو خود داعی کے پاس پہنچ گیاہے۔ اِس لحاظ سے، گلوبلائزیشن بلاشبہہ ایک عظیم نعمت ہے۔
اپنے ایک ساتھی سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ زندگی کی کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو ساری عمر بھگتنا پڑتا ہے، کچھ ناخوش گوار چیزوں کو آخری حد تک برداشت کرنا ہوتا ہے۔ کیوں کہ قانونِ فطرت کے مطابق، اُن کاخاتمہ ممکن نہیںہوتا۔ مثلاً ترکی کی عثمانی خلافت 1929 ختم ہوئی تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، تقسیم کے بعد 1947میں پاکستان نے کشمیر کو کھودیا تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، 1948 میں فلسطین کی تقسیم ہوئی تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، 1992 میں بابری مسجد ڈھادی گئی تو اس کو برداشت ہی کرنا تھا، وغیرہ۔ مگر ہمارے رہنما اِن واقعات کو برداشت کے خانے میں نہ ڈال سکے۔ اِس کے نتیجہ میں مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہیںملا۔
تقریباً تین گھنٹے کی پرواز کے بعد ہمارا جہاز دوحہ (قطر) کے ائر پورٹ پر اترا۔ مجھے چوں کہ وھیل چیئر استعمال کرکے باہر جانا تھا، اِس لیے مجھ سے کہاگیا کہ آپ سیٹ پر بیٹھے رہیں۔ اِس کے بعد ہوائی جہاز کا ایک مخصوص دروازہ کھولا گیا۔اس دروازے کے پاس وہ گاڑی لائی گئی جس کو ہائی لفٹ (highlift) کہا جاتا ہے۔ ہائی لفٹ اوپر اٹھ کر ہوائی جہاز کے دروازے کے برابر آگئی۔ میں ہوائی جہاز سے نکل کر اس کے اندر داخل ہوگیا اور وھیل چیئر پر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد ہائی لفٹ نیچے آئی اور وہاں سے روانہ ہو کر ائر پورٹ کے لاؤنج میں پہنچی۔ یہ منسٹری لاؤنج (ministry lounge) تھا۔ وہ اپنے آپ میں ایک چھوٹے محل کے مانند تھا۔ یہاں ہم لوگوں کو آرام دہ نشستوں پر بٹھا دیا گیا۔ ائر پورٹ کی بقیہ کارروائی اسٹاف کے لوگوں نے انجام دی۔ ائر پورٹ پر ہم لوگوں کو رسیو کرنے کے لیے کانفرنس کے لوگوں کے علاوہ، مولانا عبد الباسط عمری اپنے ساتھیوں کے ہم راہ موجود تھے۔ائر پورٹ سے بذریعہ کار روانہ ہو کر ہم لوگ ہوٹل شیریٹن (Sheraton) پہنچے۔ یہ غیر معمولی طورپر ایک بہت بڑا ہوٹل ہے۔ وہ یہاں کا ٹاپ کا ہوٹل سمجھا جاتا ہے۔
ہوٹل پہنچنے کے بعد پہلے مجھ کو رسپشن (reception) کے ایک حصے میں بٹھا دیاگیا۔ یہ ہوٹل شاہی محل کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ وہاں بیٹھتے ہی خصوصی تواضع شروع ہوگئی۔ اس منظر کو دیکھ کر میری زبان پر یہ الفاظ جاری ہوگئے — خدایا، تجھ سے میں نے اپنے عجز کی تلافی کی دعاء کی تھی۔ تو نے اکرام کے درجے میں میرے ساتھ معاملہ فرمایا۔
رسپشن کی ضروری کارروائی کے بعد ہم لوگ ہوٹل کی پانچویں منزل پر واقع تین کمروں میں پہنچا دئے گئے۔ دو عام کمرے اور ایک سوئٹ (Suite 512) ۔ میں نے سوئٹ میں داخل ہوتے ہی فوراً اے سی بند کروادیا۔ یہ ہوٹل بحر عرب کے کنارے بنایا گیا ہے اور سوئٹ بحرِ عرب کے بالکل کنارے واقع تھا۔ سوئٹ کی بالکنی میں بیٹھ کر دور تک سمندر کے مناظر دکھائی دیتے تھے۔
ہوٹل میں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوںنے ٹنشن کی شکایت کی۔ میں نے کہا کہ ٹنشن ایک غیر فطری چیز ہے۔ ٹنشن فری لائف کا واحد فارمولا یہ ہے کہ آدمی ٹنشن کے ساتھ جینے کا آرٹ جان لے، وہ ناقابلِ اصلاح مسائل کے ساتھ موافقت کا راز سیکھ لے، وہ ٹنشن کو زندگی کے ایک مثبت حصے کے طوپر دریافت کرلے۔ ایسا کرنے کے بعداُس کا ٹنشن ٹنشن نہ رہے گا، بلکہ وہ نارمل لائف کا ایک فطری حصہ بن جائے گا۔
ہوٹل میں کچھ اہلِ علم جضرات سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب فضائل أصحاب النبی) اِس حدیث کے مطابق، اسلام کی تاریخ میں تین اَدوار مستند ادوار کی حیثیت رکھتے ہیں— دورِ رسالت، دورِ صحابہ، دورِ تابعین۔ اِن تین ادوار (periods) کو ’’قرون مشہود لہا بالخیر‘‘ کہا جاتا ہے، یعنی وہ دور جن کے برسرِ خیر ہونے کی گواہی دی گئی ہے۔
اِس معیار کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو وہ تمام شخصیتیں جن کو بعد کے مسلمانوں نے اکابر کا درجہ دے دیا، وہ سب کے سب غیر اکابر تھے۔ کیوں کہ وہ قرونِ مشہود لہا بالخیر کے بعد آنے والے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس معیار کے مطابق، صرف رسول، اصحابِ رسول اور تابعین، امت میں اکابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ بعد کے تمام لوگ، امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق، ہم رجالٌ و نحن رجال کا مصداق ہیں۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو ’’اکابر‘‘ کا تصور امت میںایک تباہ کن بدعت نظر آئے گا۔ کیوں کہ اِس تصور کے مطابق، یہ ہوتا ہے کہ غیر معیاری انسان معیارکا درجہ حاصل کرلیتے ہیں، قابلِ تنقید انسان، تنقید سے بالاتر قرار پاجاتے ہیں۔
کوئی شخص اگر یہ کہے کہ ختم نبوت کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے تو تمام علماء اس کی تکفیر و تضلیل میں سرگرم ہوجاتے ہیں، مگر جن لوگوں نے حدیث میں مذکورہ تین مستند ادوار کے بعد ایک نئے مستند دور (دور اکابر) کا اضافہ کیا، اُن کے خلاف بولنے والا کوئی نہیں۔
20اکتوبر 2009 کی شام کو عشاء کے بعد قطر میں مقیم علماء تقریبا ایک درجن کی تعداد میں میرے کمرے میں اکھٹا ہوئے۔ یہ سب عمری علماء تھے، یعنی جامعہ دار السلام ، عمر آباد (تمل ناڈو) کے فارغین۔ قطر میں تقریباً ڈیڑھ سو کی تعداد میں عمری علماء موجود ہیں۔یہاں ان لوگوں کی ایک باقاعدہ تنظیم قائم ہے۔ ہر عمری عالم ہر ماہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ اپنی تنظیم کو دیتا ہے۔ یہ رقم دینی اور دعوتی ضرورت کے لیے خرچ کی جاتی ہے۔ یہاں اِن عمری حضرات کا ماہانہ اجتماع ہوتا ہے۔ اِس طرح وہ لوگ آپس میں جڑے رہتے ہیں۔ ہر ایک پابندی کے ساتھ اور رضاکارانہ طورپر اپنی ذمے داری کو ادا کرتا ہے۔ ان کے درمیان مکمل اتحاد ہے۔ مختلف مدارس کے فارغین بڑی تعداد میں مختلف ملکوں میں رہتے ہیں، لیکن میرے علم کے مطابق، کہیں بھی ان کے درمیان اِس قسم کااتحاد موجود نہیں۔
ان حضرات سے دیر تک مختلف موضوعات پر باتیں ہوئیں۔ ایک سوال کے جواب میں میںنے کہا کہ میرا اصل موضوع تحدیاتِ عصریہ ہے، یعنی جدید فکر ی چیلنج کے مقابلے میں اسلام کے نقطۂ نظر کی جدید علمی سطح پر وضاحت۔ اِسی بنا پر مصر کے ایک عالم نے میری کتاب ’’الإسلام یتحدّی‘‘کا سب ٹائٹل (sub title) اِن الفاظ میں مقرر کیا تھا: مدخل علمی إلی الإیمان۔
گفتگو کے دوران ایک عمری عالم نے کہا کہ آپ صبر اور ایڈجسٹمنٹ کی بات بہت زیادہ کرتے ہیں، آخر کب تک ایسا کیا جائے۔ میںنے کہا کہ صبر اور ایڈجسٹ مینٹ (adjustment) کی اہمیت تو آپ خود اپنے تجربے سے سمجھ سکتے ہیں۔ آپ یہاں ایک خلیجی ملک میں ہیں۔ یہاں یقینی طورپر آپ کے لیے ایسے مسائل ہوں گے جن کو آپ پسند نہ کرتے ہوں، لیکن آپ ان کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے یہاں رہ رہے ہیں۔ اِس لیے کہ آپ جانتے ہیں کہ ایڈجسٹ کرنے میں آپ کو فائدہ ہے۔ اپنے اِسی تجربے کی بنا پر آپ میرے نقطۂ نظر کی اہمیت سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایڈجسٹ مینٹ ایک عمومی فطری اصول ہے۔ یہ اصول جس طرح آپ کے لیے مفید ہے، اُسی طرح وہ دوسرے تمام لوگوں کے لیے مفید ہے۔
میںنے کہا کہ عرب ملکوں میںباہر کے جو مسلمان رہتے ہیں، وہ عملاً یہاں سکنڈ کلاس کے شہری (second class citizen) بن کررہتے ہیں، جب کہ یہی مسلمان ہندستان میں یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہم کو سکنڈ کلاس شہری بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ حالاں کہ میرے تجربے کے مطابق، یہ بات عرب ملکوںکے بارے میں تو ضرور صحیح ہے، مگر وہ ہندستان کے بارے میں یقینی طورپر درست نہیں۔ مثال کے طورپر میں ہندستان میں مہاتما گاندھی اور یہاں کے دوسرے ہندو لیڈروں پر تنقید کرتا ہوں۔ میری یہ تنقید یہاں کے ہندی اور انگریزی اخباروں میں چھپتی ہے، لیکن اِس بنا پر یہاں میرے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا، جب کہ اگر کوئی شخص عرب ملکوں میں وہاں کے سربراہِ سلطنت پر تنقید کرے تو وہاں اس کا رہنا ہی سرے سے ناممکن ہوجائے گا۔اِس سلسلے میں ایک واقعہ یہاں قابلِ ذکر ہے۔ یہ واقعہ میں نے اپنی ڈائری میں 25 جولائی 2009 کو اِن الفاظ میں نقل کیا تھا:
’’میرے ایک ساتھی مولانا ابو صالح انیس لقمان ندوی ابو ظبی (امارات) میں رہتے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ ابو ظبی میںکئی ہزار پاکستانی مسلمان غیر قانونی طورپر مقیم تھے۔ حکومت نے اُن کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ انیس لقمان صاحب نے اِس سلسلے میں حکومت سے استرحام (plea for mercy) کی بنیاد پر حکم کو واپس لینے کی کوشش کی۔ آخر کار، حکومت نے اپنے حکم کو واپس لے لیا۔ ابو ظبی میں پاکستان کے سفیر اِس واقعے پر بہت خوش ہوئے۔ انھوں نے انیس لقمان صاحب سے کہا کہ آپ کو ہم اعزازی طورپر پاکستان کی شہریت (citizenship) دینا چاہتے ہیں۔ انیس لقمان صاحب نے کہا کہ میںاس کو دو شرطوں پر قبول کر سکتا ہوں— ہم انڈیا کے فادر آف دی نیشن مہاتما گاندھی پر تنقید کرتے ہیں اور وہاں ہماری کوئی پکڑ نہیں ہوتی۔کیا آپ اِس کی اجازت دیںگے کہ میں پاکستان میں وہاں کے فادر آف دی نیشن مسٹر محمد علی جناح پر تنقید کروں اور میری کوئی پکڑ نہ ہو۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ نہیں۔ انیس لقمان صاحب نے دوسری بات یہ کہی کہ انڈیا میںایک مسلمان ’’مسلم انڈیا‘‘ کے نام سے میگزین نکالتا ہے۔ کیا آپ پاکستان میں ہندو کو اجازت دیں گے وہ پاکستان میں ’’ہندو پاکستان‘‘ کے نام سے میگزین نکالے۔ پاکستانی سفیر نے کہا کہ نہیں۔ انیس لقمان صاحب نے کہا کہ پھر مجھے ایسے ملک کی شہریت بھی قبول نہیں‘‘۔
ایک عمری عالم نے سوال کیا کہ آپ کا ایک دینی اور دعوتی مشن ہے، پھر آپ سیاسی موضوعات پر کیوں بولتے ہیں۔ میں نے کہا کہ میرا اصل موضوع تحدیاتِ عصریہ ہے، یعنی جدید ذہن کے مطابق، علمی سطح پر اسلام کی تبیین۔ میری تمام تحریریں براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اِسی موضوع سے تعلق رکھتی ہیں۔ میںنے کہا کہ اِسی قسم کا اعتراض اِس سے پہلے سرسید پر کیا گیا تھا۔ اُس وقت اِس کا جواب دیتے ہوئے مولانا شبلی نعمانی نے لکھا تھا کہ جو لوگ سرسید کی بعض باتوں پر اعتراض کرتے ہیں، انھوں نے سرسید کے شاہ نامہ میں سے صرف ’’مُنیژہ مَنم‘‘ کو یاد کررکھا ہے۔
آج عرب ملکوں کے شہر مادی ترقی کے اعتبار سے یورپ کا نمونہ معلوم ہوتے ہیں، لیکن اب سے صرف چالیس سال پہلے ایسا نہ تھا۔ اُس وقت عرب کے لوگ معاشی اعتبار سے نہایت پس ماندہ سمجھے جاتے تھے۔ اُس وقت برصغیر ہند کے دولت مند لوگ عربوں کو مالی مدد بھیجا کرتے تھے۔ حیدر آباد دکن میں مدینہ کے نام پر ایک وقف قائم کیاگیا تھا جس کے وقف نامے میںلکھا ہوا تھا کہ اس کی آمدنی مدینہ کے غرباء کے لیے بھیجی جائے گی۔
مولانا شبلی نعمانی (وفات: 1914 ) نے 1892ء میں مصر کا سفر کیا تھا۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اسکندریہ میں سڑک کے کنارے عرب لوگ معمولی سامان بیچتے تھے اور اپنے سامان کو بیچنے کے لیے کہتے ـتھے: برأس سیدنا الحسین۔
اِس سلسلے میں مجھے خود اپنا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ میری نوجوانی کے زمانے میں عرب کے فقراء ’’مسافر‘‘ کے نام پر ہندستان آیا کرتے تھے، تاکہ وہ یہاں سے اپنے لیے کچھ تعاون حاصل کرسکیں۔ اِسی قسم کے ایک عرب مسافر ایک بار اعظم گڑھ یوپی میں میرے گاؤں آئے تھے۔ یہ غالباً 1940 کا واقعہ ہے۔ میںنے اُن کو اپنے گھر ٹھہرایا ۔ شام کا کھانا کھانے کے بعد وہ میرے گھر کے مردانہ حصے میں سوگئے۔ اگلے دن صبح کو جب میں اُن سے ملا تو اُنھوں نے کہا کہ: ماکان النوم معنا باللیل (رات کو میں سو نہ سکا)۔ اُن کا مطلب یہ تھا کہ مچھروں کی وجہ سے مجھ کو نیند نہیں آئی۔ صبح کے ناشتے کے بعد وہ پھر کہیں دوسری جگہ چلے گئے۔
اِسی طرح کے ایک عرب مسافر کا واقعہ میرے چچا زاد بھائی مولانا اقبال احمد خاں سہیل (وفات: 1955 ) نے بتایا تھا۔ جس زمانے میں وہ علی گڑھ میں زیر تعلیم تھے، وہاں ایک عرب مسافر آیا۔ اُن لوگوں نے عرب مسافر کو کچھ کھانے کی چیز پیش کی۔ اِس کے بعد مذکورہ عرب مسافر نے کچھ کہا جو اِنھیں اِس طرح سنائی دیا: جِبْ شیطان۔ سہیل صاحب کو اور ان کے ساتھیوں کو اِس کا مطلب سمجھ میں نہ آیا۔ بار بار پوچھنے پر معلوم ہوا کہ عرب مسافر یہ کہہ رہا تھا: جئی بشیٔ ثان،یعنی کوئی دوسری چیز کھانے کے لیے لے آؤ۔
قطر کے بارے میں مجھے بتایاگیا کہ قطر کے حاکم (امیر دولتِ قطر) چالیس سال پہلے خچر پر سواری کرتے تھے۔ یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر یہاں زمین کے نیچے گیس کے ذخیرے دریافت ہوگئے۔ اِس گیس کے ذریعے تقریباً ایک درجن مختلف چیزیں بنتی ہیں۔ قطر گیس کے معاملے میں دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ گیس کی دریافت کے بعد صرف چند سالوں کے اندر قطر مغرب جیسا ترقی یافتہ ملک بن گیا۔ دوحہ یہاں کا دار السلطنت ہے۔ دوحہ شہر کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ یورپ کے کسی انتہائی ترقی یافتہ علاقے میں پہنچ گئے ہیں۔
ایک عالم سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ اسلام کے موضوع پر جو قدیم عربی کتابیں ہیں، صرف اُنھیں کو پڑھنا چاہیے۔ موجودہ زمانے میں اسلام کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کو پڑھنا غیر ضروری ہے۔ انھوں نے اپنے بارے میں کہا کہ میں صرف قدیم عربی کتابیں پڑھتا ہوں۔ آج کل اسلام کے بارے میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں، میں اُن کو پڑھتا ہی نہیں۔ انھوںنے یہ بھی بتایا کہ وہ غیر مسلموں میں دعوت کا کام کرتے ہیں۔
میں نے کہا کہ اسلام اگر صرف تاریخ کا موضوع ہو تو آپ کی یہ روش درست قرار پائے گی۔ لیکن اسلام صرف تاریخ کا موضوع نہیں ہے۔ اسلام کی یہ منشا ہے کہ ہر دور کے لوگ اسلام کو ایک ابدی سچائی کے طورپر دریافت کریں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ زمانہ ایک بدلا ہوا زمانہ ہے۔ قدیم دور اگر روایتی دور تھا تو موجودہ دور سائنٹفک دورہے۔موجودہ دور کے ذہن کو اگر آپ اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو جدید اسلوب (modern idiom) میں بولنا پڑے گا۔ ایسی حالت میں آپ پر لازم ہے کہ آپ جدید افکار (modern thought) سے واقفیت حاصل کریں، تاکہ آپ جدید انسان کو اس کی قابلِ فہم زبان میں ایڈریس کرسکیں۔
میںنے کہا کہ ایک کام ہے مسلمانوں کو نماز، روزہ کے مسائل بتانا۔ دوسرا کام ہے جدید ذہن کو اسلام کی صداقت پر مطمئن کرنا۔ مسلمانوں کو نماز، روزہ کے مسائل بتانے کے لیے قدیم کتابوں کا مطالعہ کافی ہوسکتا ہے، لیکن اسلام کی دعوت کو موثر اسلوب میں پیش کرنے کے لیے جدید افکار سے واقفیت لازمی طور پر ضروری ہے۔
ایک صاحب جو قطر کی ایک مسجد میںامام ہیں اور اپنی فیملی کے ساتھ یہاں رہتے ہیں، انھوں نے کھانے کے لیے اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ میںنے کہا کہ میں صرف اِس شرط پر آؤں گا کہ آپ بالکل سادہ کھانے کھلائیں۔ پھر میںنے کہا کہ سادہ کھانے کی تعریف یہ ہے کہ آپ روزانہ جو کھانا کھاتے ہیں، وہی کھانا ہم کو کھلائیں۔ اس میں کسی اور آئٹم کا اضافہ نہ کریں۔
انھوں نے کہا کہ مگر حدیث میں آیا ہے کہ:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ(صحیح البخاری، رقم الحدیث 6018) مَن کان یؤمن باللہ والیوم الآخر فلیکرمیفہ۔ اِس حدیث کے مطابق، مہمان کا اکرام کرنا بھی مومن کی ایک صفت ہے۔ میںنے کہا کہ اکرامِ ضیف دل سے ہوتا ہے، نہ کہ پُر تکلف کھانا کھلانے سے، جس کا آج کل عام رواج ہے۔ اکرامِ ضیف کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے مہمان سے محبت کے ساتھ ملیں، اس کی سچی محبت کریں، اس کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ کریں۔ ضیف کا اکرام دل سے ہوتا ہے، نہ کہ انواع واقسام کا کھانا کھلانے سے۔
آج کل مسلمانوں میں ایک بات بہت زیادہ کہی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ — اسلاف کی پیروی کرو۔ یہ بات بظاہر درست معلوم ہوتی ہے، لیکن عملی اعتبار سے دیکھئے تو اِس میں پوری امت کے لیے کوئی واضح رہنمائی پائی نہیں جاتی۔ پیروی کا لفظ ایک واحد نقطۂ اتحاد(point of unity) چاہتا ہے، لیکن ’’اسلاف کی پیروی ‘‘ کے لفظ میں کوئی واحد نقطۂ اتحاد موجود نہیں۔
حدیث کی ایک پیشین گوئی موجودہ زمانے میں واقعہ بن چکی ہے، وہ یہ کہ امت مختلف گروہوں میں بٹ گئی ہے۔ مثلاً سلفی گروہ، حنفی گروہ، بریلوی گروہ، شیعہ گروہ، اسی طرح ندوی گروہ، دیوبندی گروہ، وغیرہ۔ اِن میں سے ہر گروہ کے اپنے اپنے اکابر ہیں۔ ہر ایک کے اکابر اس کے لیے اپنے اسلاف کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً اہلِ حدیث کے اکابر امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم ہیں، احناف کے اکابر امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف ہیں۔ اِسی طرح دیوبندیوں کے اکابر مولانا محمد قاسم نانوتوی اور مولانا حسین احمد مدنی ہیں، اور ندویوں کے اکابر مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا سید ابو الحسن علی ندی ہیں، وغیرہ۔
ایسی حالت میں اگر یہ کہا جائے کہ ’’اسلاف کی پیروی کرو‘‘ تو اِس اصول کو جاننے کے باوجود اس کامفہوم ایک نہیں ہوگا، بلکہ کئی ہوجائے گا، ہر ایک اپنے اکابر سلف کو الگ الگ اپنا مقتدا سمجھے گا۔ اِس طرح امت بدستورمختلف گروہوں میں بٹی رہے گی، جیسا کہ وہ اِس وقت بٹی ہوئی ہے۔
اِس کے بجائے اگر لوگوں کو یہ بتایا جائے کہ رسو ل اور اصحابِ رسول کی پیروی کرو تو لوگوں کو واحد نقطۂ پیروی مل جائے گا، کیوں کہ اِس معاملے میں امت کے مختلف گروہوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں۔ ایک ہی رسول ہر ایک کے لیے رسول ہے اور ایک ہی جماعتِ صحابہ ہر ایک کے لیے جماعتِ صحابہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسا کہنے کی صورت میںہر ایک کو مشترک طور پر ایک ہی نقطۂ پیروی مل جائے گا، اور وہ ہے رسول اور اصحابِ رسول کی پیروی۔ یہی طریقہ قرآن اور سنت کے مطابق ہے، اور اِس طریقے کے ذریعے امت کے اندر صحیح ذہن اور اتحاد پیدا ہوسکتا ہے۔
ایک صاحب نے حجر اسود کے بارے میں سوال کیا۔ اُن کا سوال ان کے الفاظ میں یہ تھا:
In the last lecture (18 Oct. 2009) you said that Black Stone (Hajar al Aswad) is just a stone and Prophet Ibrahim took from one of the mountains, that it is just a starting point for Tawaf. Why did Prophet Muhammad kiss it and all Muslims want to kiss it, if this is just a stone taken from a mountain?
میںنے اِس سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ حجرِ اسود کوئی پُراسرار پتھر نہیں۔ ایسی کوئی حدیث موجود نہیں جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظاًیہ کہا ہو کہ تم لوگ حجر اسود کو بوسہ دو۔ حجر اسود کی حیثیت صرف طواف کے لیے ایک نقطۂ آغاز (starting point) کی ہے۔ ایک حاجی اگر حجر اسود کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرکے اپنا طواف شر وع کرے تو یہ بھی عین درست ہوگا، اِس سے اُس کے حج میں کوئی کمی واقع نہ ہوگی۔ خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق کے بارے میں روایات میں آیا ہے کہ: أنہ جاء إلی الحجر الأسود فقبّلہ فقال: إنّی أعلم أنّک حجرٌ، لا تضر ولا تنفع، ولولا أنّی رأیتُ النّبیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یُقبّلُک، ما قبّلتک (صحیح البخاری، کتاب الحج، باب ما ذُکر فی الحجر الأسود) یعنی عمر فاروق طوافِ کعبہ کے وقت حجر اسود کے پاس آئے۔ انھوں نے اس کو بوسہ دیا، پھر انھوںنے کہاکہ میں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے، تو نہ نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھ کو ہر گز بوسہ نہ دیتا۔
حضرت عمر فاروق کے اِس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ حجر اسود کوئی پراسرار پتھر نہیں۔اس کے ساتھ یہ عقیدہ وابستہ نہیں کہ وہ کوئی نقصان یا فائدہ پہنچانے کی طاقت رکھتا ہے، جیسا کہ بتوں کے متعلق سمجھا جاتا ہے۔ وہ صرف آغازِ طواف کا ایک نشان ہے، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
اب یہ سوال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا بوسہ کیوں دیا۔ اس کا سبب یہ تھاکہ حجر اسود پیغمبر ابراہیم کی ایک یادگار (momento) ہے، وہ ایک عظیم پیغمبرانہ تاریخ کی یاد دلاتا ہے۔ حجر اسود کو بوسہ دینا دراصل پیغمبر ابراہیم کے لیے اپنے جذباتِ محبت کا اظہار ہے، نہ کہ کسی بت کے لیے جذباتِ پرستش کا اظہار۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی کوئی چیز ملے توآدمی اس کو لے کر مختلف طریقے سے اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے، وہ کبھی اس کو چومتا ہے، کبھی اس کو اپنے سر پر رکھتا ہے، کبھی اس کو اپنے سینے سے لگاتا ہے، حجر اسود کو بوسہ دینا اِسی طرح حضرت ابراہیم کے لیے اپنے جذباتِ محبت کا اظہار ہے، اِس سے زیادہ اورکچھ نہیں۔
قطر کے زمانۂ قیام میں مجھے ہر قسم کی سہولیات (facilities) اعلیٰ معیار پر حاصل تھیں، مگر ایک لمحہ کے لیے وہاں مجھے سکون حاصل نہ تھا۔ اس کا ایک سبب یہ تھا کہ میرے جیسے انسان کو سکون صرف مادّی سامان سے حاصل نہیں ہوسکتا، میرے جیسے انسان کو سکون فکری خوراک سے ہوتا ہے اور وہ یہاں مجھے حاصل نہ تھی۔عربوں کا معاملہ یہ ہے کہ اُن سے صرف رسمی انداز کی بات ہوسکتی تھی۔ عربوں کے ساتھ اعلیٰ نوعیت کا فکری تبادلۂ خیال ممکن نہیں تھا، اور دوسرے ملکوں کے جو لوگ قطر میں آباد ہیں، اُن کا واحد کنسرن پیسہ کمانا ہے۔ عرب دنیا کا سب سے بڑا خلا یہ ہے کہ یہاں فکری آزادی نہیں پائی جاتی۔ فکری آزادی ہی سے علمی ترقی ہوتی ہے۔ جہاں لوگوں کو فکری آزادی حاصل نہ ہو، وہاںکبھی علمی ارتقاء کا ماحول نہیں بن سکتا۔
قطر میںجو ہندستانی ہیں، ان میں زیادہ تر کیرلا کے لوگ ہیں۔ ان میں مسلم بھی ہیں اور غیر مسلم بھی۔ یہ اتفاقی بات نہیں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کیرلا کے لوگ، بلکہ ساؤتھ انڈیاکے لوگ، ہر جگہ آسانی سے قابلِ قبول بن جاتے ہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ان کے اندر پروفیشنل ازم (professionalism) ہوتا ہے۔ پروفیشنل ازم کا مطلب سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ —اپنے کام سے کام رکھنا۔ شمالی ہند کے لوگوں کا مزاج سیاسی ہوتا ہے۔ وہ بہت جلد اپنی سیاست شروع کردیتے ہیں۔ اِس کے برعکس، جنوبی ہند کے لوگوں کا مزاج ’’اپنے کام سے کام‘‘ والا ہوتا ہے۔ ان کی اِس صفت نے اُن کو ہر جگہ مقبول بنادیا ہے۔
ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے میںنے کہا کہ آپ لوگ اسرائیل کے بارے میں صرف یہ جانتے ہیں کہ وہ فلسطینیوں پر تشدد کرتا ہے۔ اسرائیل کے بارے میں اس کے سوا کوئی اور بات آپ نہیں جانتے۔ میں نے کہا کہ آپ لوگوں کو اس معاملے میں عدل سے کام لینا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل یک طرفہ طورپر تشدد نہیں کرتا۔ فلسطینی اُن کو پتھر مارتے ہیں تو اسرائیل اِس کے جوا ب میں اُن کو بم مارتا ہے۔ یہ دو طرفہ معاملہ ہے، نہ کہ یک طرفہ معاملہ۔ مگر عربوں کو یا مسلمانوں کو اسرائیل میں پیش آنے والے اِس واقعے کی کوئی خبر نہیں۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ مسلم میڈیا میںاِس کا کوئی چرچا نہیں ہوتا۔
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میںنے کہا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسلاف کا لٹریچر ہمارے لیے کافی ہے، ہم کو مزید لٹریچر کی ضرورت نہیں۔ میں نے کہا کہ یہ صرف ایک غیر عملی بات ہے۔ خود ایسا کہنے والے بھی اس پر عمل نہیں کرسکتے۔
میںنے کہا کہ اسلاف کی کتابوں کے دو حصے ہیں— ایک، وہ جو نمازروزہ جیسی عبادات سے متعلق ہیں۔ دوسرے، وہ جو ملی پالیسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ نماز روزہ جیسی عبادات کے معاملے میں آپ اسلاف کی پیر وی کرسکتے ہیں، کیوںکہ یہ مسائل اپنی نوعیت کے اعتبار سے ابدی ہیں۔ لیکن جہاں تک اُن باتوں کا تعلق ہے جن کو ملی پالیسی کہا جاتا ہے، ان کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ ان میں حالاتِ زمانہ کی رعایت بہت ضروری ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملی پالیسی والا شعبہ اُس مشہور فقہی اصول کے تحت آتا ہے جس کو اِن الفاظ کے تحت بیان کیا جاتا ہے: تتغیّر الأحکام بتغیّر الزمان والمکان۔ اگر آپ ایسا نہ کریں تو آپ کے ملی معاملات بگڑ کر رہ جائیں گے۔
خود ہمارے اسلاف نے یہ فقہی اصول مقرر کیا ہے کہ: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان۔ اب سوال یہ ہے کہ اسلاف کا مقرر کیے ہوئے اِس اصول کا انطباق کیا ہے، عملی طورپر اس کو کن حالات میں منطبق کیا جائے گا۔ جب بھی زمان ومکان بدلیں گے اور مذکورہ اصول کے مطابق، احکام میں تغیر کیا جائے گا تو یہ تغیر یقینی طورپر اسلاف کا اعادہ نہیں ہوگا، بلکہ وہ اسلاف کی کہی ہوئی باتوں کے علاوہ کوئی بات ہوگی۔
20 اکتوبر 2009 کو میری تقریر تھی ۔ تقریر کا موضوع ’’امن اور اسلام‘‘ تھا۔ میری تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ میںنے اپنی تقریر میںجو باتیں کہیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کا ذہن واضح نہیں ہے۔ وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ ہم امن چاہتے ہیں۔ لیکن ہم انصاف کے ساتھ امن (السلام مع العدل) چاہتے ہیں۔ یہ سوچ غیر فطری ہے۔ اِس سوچ کے تحت کسی کو نہ کبھی امن ملے گا اور نہ انصاف۔ انصاف امن کا حصہ نہیںہے، بلکہ وہ خود اپنی جدوجہد سے کسی کوملتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ آپ پہلے یک طرفہ بنیاد(unilateral basis) پر امن قائم کیجئے۔ امن قائم ہوتے ہی ہر قسم کے مواقع (opportunities) کھل جائیں گے۔ اِن موقع کا بھر پور استعمال کرکے آپ انصاف کو حاصل کرسکتے ہیں۔
ایک عالم سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ عربی زبان میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئی ہیں، وہ عام طورپر شانِ نزول یا اسبابِ نزول کی روایتوں کو لے کر لکھی گئی ہیں۔ اِس طرزِ تفسیر نے قرآن کو بہت محدود کردیا ہے۔ اسبابِ نزول کی حیثیت ایک وقتی حوالہ (immediate reference) کی ہوتی ہے۔ صرف اسی کو بنائِ تفسیر قرار دینا، قرآن کو محدود کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔
مثال دیتے ہوئے میںنے کہا کہ قرآن (الکہف: 71) میں بتایاگیا ہے کہ خضر نے ایک کشتی کے تختہ کو نکال کر اس کو عیب دار بنادیا۔ شانِ نزول کے مطابق، مفسرین نے اِس واقعے کو صرف ایک مخصوص کشتی کے ساتھ متعلق سمجھا ہے، مگر یہ تفسیر قرآن کو محدود کرنے کے ہم معنیٰ ہے۔ اِس کا مطلب دراصل یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں بار بار ایسا ہوتاہے کہ کسی آدمی کی زندگی میں ایک ایسا واقعہ پیش آتا ہے جو بظاہر ناگوار واقعہ ہوتا ہے، لیکن اِس واقعے کے پیچھے اللہ تعالیٰ کا گہرا منصوبہ ہوتا ہے۔ فوری طورپر ایسے واقعے کی توجیہہ سمجھ میں نہیں آتی، لیکن آدمی اگر انتظار کرے تو کچھ دن کے بعد وہ خود سمجھ لے گا کہ ایسا ہونا اس کے حق میں بہتر تھا۔ ایسا واقعہ اس کے لیے زحمت میں رحمت (blessing in disguise) کے ہم معنی تھا۔
20 اکتوبر 2009 کی صبح کو میں ہوٹل کی بالکنی پر بیٹھا ہوا تھا۔ سامنے کی سڑک پر چمک دار کاریں دوڑ رہی تھیں۔ اوپر کی فضا میں کبھی کبھی ہوائی جہاز کے اڑنے کی آواز آتی تھی۔ ہوٹل کے ایک طرف شان دار عمارتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ اِس منظر کو دیکھ کر میںنے اپنے ایک ساتھی سے کہا کہ میرا یہ حال ہے کہ جب میں خوب صورت کاروں کو سڑکوں پر دوڑتے ہوئے دیکھتاہوں ، جب میں ہوائی جہاز کو فضا میں اڑتے ہوئے دیکھتا ہوں، جب میں پُر رونق شہروں کو دیکھتا ہوں، تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ خدا کی قدرت کتنی عجیب ہے اُس نے مادّی دنیا کے اندر ایسے امکانات رکھے جن کو دریافت کرکے ایک شان دار تہذیب وجود میں لائی جاسکے۔
پھر خدا کی یہ قدرت کتنی عجیب ہے کہ اُس نے انسان کو دماغ عطا کیا جس کو استعمال کرکے انسان یہ تمام کارنامے انجام دے سکے۔ میںنے کہا کہ ہوائی جہاز خدا کی قدرت کا اڑتا ہوا نشان ہے۔ ٹیلی فون خدا کی قدرت کا بولتا ہوا نشان۔ حقیقت یہ ہے کہ پوری تہذیب خدا کی قدرت کا ایک زندہ نشان ہے۔ مگر معرفت سے محرومی کی بنا پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ تہذیب کی ترقیوں کو انسان کا کرشمہ سمجھتے ہیں، نہ کہ خدا وند ِ ذوالجلال کا کرشمہ۔
قرآن کی سورہ نمبر 47 میں جنت کے بارے میں کہاگیا ہے: یُدخلہم الجنۃ عرّفہا لہم (محمد: 6 )۔ جنت اگلی دنیا میں انسان کے سامنے آئے گی، لیکن اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کا ابتدائی تعارف موجودہ دنیا ہی میںکردیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جدید ٹکنالوجی نے یہی کام انجام دیا ہے۔ جدید ٹکنالوجی نے جو تہذیب پیدا کی ہے، وہ ایک اعتبار سے، آنے والی جنت کا ابتدائی تعارف ہے۔
مولانا ابو صالح انیس لقمان ندوی کا حافظہ بہت اچھا ہے۔ اُن کو واقعات بہت زیادہ یاد رہتے ہیں۔ انھوں نے ایک مصری لطیفہ بتایا۔ انھوںنے بتایا کہ مصری لوگ لطیفہ بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ مصر کے سابق شاہ فار وق (وفات: 1965 )نے ایک فورڈ کار منگائی۔ وہ خود ا س کو چلانے لگے۔ اُن کا مصاحب بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھا۔ شاہ فاروق کو ڈرائیونگ کا زیادہ تجربہ نہ تھا۔ گاڑی چلاتے ہوئے انھوں نے گاڑی کو ایک درخت سے ٹکرادیا۔ اُن کا مصاحب اِس کے بعد فوراً گاڑی سے اترا اور اس نے مودبانہ انداز میں شاہ فاروق سے کہا: الخطأ لیس فی قیادتک، وإنما الخطأ فی مَن غرس ہٰذا الشجرۃ فی ہٰذا المکان۔ (جناب، غلطی آپ کی ڈرائیونگ میں نہیں ہے، بلکہ غلطی اُس شخص کی ہے جس نے اِس مقام پر یہ درخت لگایا)۔
اِس لطیفے کا ایک پہلو یہ ہے کہ عرب دنیا میںآزادیٔ فکر نہ ہونے کا یہ عظیم فقدان ہوا ہے کہ عربوںمیں فکری ارتقا(intellectual development) کا عمل جاری نہ ہوسکا۔ لطیفہ بنانا تو وہ جانتے ہیں، لیکن وہ تخلیقی معنوں میں کوئی علمی بات نہیں کہہ سکتے۔ سعودی عرب کے بارے میں ایک شیخ نے کہا تھا: السعودیۃ مقبرۃ لعلماء المسلمین (سعودیہ مسلم علماء کا قبرستان ہے)۔ مذکورہ شیخ نے یہ بات دینی زوال کے معنوں میں کہی تھی، لیکن یہ بات فکری زوال کے بارے میں زیادہ صحیح ہے۔
قطر میں شیریٹن ہوٹل (Sheraton) میں مجھ کو ٹھیرنے کے لیے کافی بڑی جگہ دی گئی تھی۔ میرے دو ساتھیوں کے لیے دو الگ الگ روم تھے۔ میرے قیام کے لیے ماڈرن انداز کا ایک بڑا سوئٹ (Suite) تھا۔ کھانے کا نہایت اعلیٰ انتظام تھا۔ یہ ہوٹل بحرِ عرب کے کناے بنایا گیا ہے۔ اِس طرح میرا سوئٹ ساحل کے بالکل کنارے تھا۔ یہاں کے خارجی مناظر بھی کافی شان دار تھے، مگر مجھے مسلسل طورپر ایک نامعلوم قسم کی بے سکونی لاحق تھی۔ مجھے ایک لمحہ بھی یہاں خوشی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
میں نے سوچا کہ اِس کا سبب کیا ہے۔ میری سمجھ میں آیا کہ اِس کا سبب غالباً یہ ہے کہ یہ دنیا ایک محدود اور غیر کامل دنیا ہے، جب کہ انسان ایک لامحدود ذہن لے کر پیدا ہوتا ہے۔ اِس لیے اس دنیا کی کوئی بھی چیز انسان کو کامل معنوں میں مسرت نہیں دے سکتی۔ اِس دنیا میں ہر صورت حال کے ساتھ حزن (sorrow) لازمی طورپر لگا ہوا ہے۔ جنت کی سب سے بڑی نعمت یہ ہوگی کہ وہاں حزن کا خاتمہ ہوجائے گا۔ چناں چہ قرآن میں آیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں پہنچیں گے تو وہ کہیں گے: الحمد للہ الذی أذہب عنّا الحزَن (فاطر: 34 ) ۔
اِس آیت سے بلاغت کا ایک نکتہ معلوم ہوتا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں ’’حزَن‘‘ کا لفظ آیا ہے۔ قرآن کی ایک اور آیت میں اِس کے بجائے حُزْن (یوسف: 86 ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یہ کوئی پراسرار بات نہیں۔ لغوی اعتبار سے حُزن اور حزن دونوں بالکل ہم معنیٰ الفاظ ہیں۔ مذکورہ دونوں آیتوں میں اُن کا استعمال اصولِ بلاغت کی بنا پر ہے، کیوں کہ صوتی آہنگ کے اعتبارسے، ایک جگہ حُزن کا لفظ زیادہ مناسب ہے اور دوسری جگہ حزَن کا لفظ۔ یہ فرق صرف صوتی آہنگ کی بنا پر ہے، نہ کہ کسی پراسرار سبب کی بنا پر۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے اپنی ماں کی بہت تعریف کی۔ میں نے کہا کہ یہ آپ کی ماں کی بات نہیں، ہر آدمی اپنی ماں کے ساتھ اُسی طرح حبِّ شدید کا تعلق رکھتا ہے، جس طرح آپ کو اپنی ماں کے ساتھ حب شدید کا تعلق ہے، لیکن میں اِس کو صرف بے خبری کا ایک کیس سمجھتا ہوں۔
میںنے کہا کہ لوگوں کو اپنی ماں کے ساتھ حب شدید کا تعلق کیوں ہوتاہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کی ماںکے پیٹ سے ان کا جنم ہوا، پھر وہ دیکھتے ہیں کہ پیداہونے کے بعد ان کی ماں نے ان کو پالا پوسا۔ مگر یہ ایک بے بصیرتی کی بات ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ حب شدید کا تعلق آدمی کو صرف خدا سے ہونا چاہیے۔خدا کے آپ کے اوپر جو احسانات ہیں، وہ بلین ٹریلین سے بھی زیادہ ہیں۔ آپ کو پیدا کرنے والی آپ کی ماں نہیں ہے، یہ دراصل خدا ہے جس نے آپ کی تخلیق کی۔ خدا نے آپ کو صوّرکم فأحسن صُورکم (المؤمن: 64 ) کا درجہ دیا۔ پیدا ہونے کے بعد بھی یہ دراصل خدا ہے جو اِس کی پرورش یا تربیب (upbringing)کرتا ہے۔ یہ خدا ہے جس نے آپ کو لائف سپورٹ سسٹم دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی زندگی میں 99 فی صد سے زیادہ حصہ خدا کا ہے اور ایک فی صد سے بھی کم حصہ آپ کی ماں کا۔ ایسی حالت میں آپ کے اندر حب شدید کا تعلق خدا سے ہوناچاہئے، نہ کہ اپنی ماں سے۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِس معاملے میں تمام دنیا کے لوگ اندھے پن کی حد تک بے خبری میں مبتلا ہیں۔
یہاں مجھ پر عجز کا ایک تجربہ گزرا۔ اس کے بعد میری زبان سے یہ دعاء نکلی— خدایا، تو نے انسان کو عجز کے ساتھ پیدا کیا۔ ساری قدرت تیری طرف اور سارا عجز انسان کی طرف۔ ایسی حالت میں تو انسان کے معاملے میں غیر جانب دار(indifferent) نہیں ہوسکتا۔ یہ تیری شانِ خداوندی کے خلاف ہے کہ تیرے اور انسان کے درمیان عجز اور غیر جانب داری (indifference) کا تعلق ہو۔ ایسا تعلق ’’قسمۃ ضیزیٰ‘‘ کا مصداق بن جائے گا۔ ضروری ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان محروم اور معطی کا تعلق ہو۔ یہی تعلق خدائے رحمان اور رحیم کی شان کے مطابق ہے۔
ایک حدیث میں ایک لمبی دعا آئی ہے، اُس کا ایک حصہ یہ ہے: اللہم إنّی أسئلک بحقِّ السائلین علیک (مسند احمد، جلد 3 ، صفحہ 21)۔ اِس پیغمبرانہ دعا ء سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل اگر حقیقی سائل ہے تو اس کا بھی کچھ حق ہوتا ہے، جس طرح بندوں کے اوپر اللہ کے حقوق ہیں، اُسی طرح بندوں کا بھی اللہ کے اوپر کچھ حق ہے۔ تاہم یہ ایک بے حد نازک بات ہے۔ اِس حقیقت کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جو معرفت کے اعلیٰ درجے پر پہنچ چکے ہوں۔
کئی لوگوں سے قیامت کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ سیکولر لوگ جو سائنس کا علم رکھتے ہیں، وہی اِس بارے میں سوچتے ہیں۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے، وہ قیامت کے معاملے میں بالکل بے خوف ہیں۔ مسلمانوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ ان کے خیال کے مطابق، مہدی اور مسیح تو ابھی آئے نہیں، پھر اِس سے پہلے قیامت کیسے آجائے گی۔ اور اگر قیامت آتی ہے تب بھی مسلمانوں کے لیے وہ کوئی مسئلہ نہیں، کیوں کہ مسلمان امتِ مرحومہ سے نسبت رکھتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ ہالی وڈ(Hollywood) نے ایک فلم بنائی ہے۔ اس کا نام یہ ہے:
2012 End of the world
اِس انگریزی فلم میں قیامت کے مناظر دکھائے گئے ہیں۔ اس فلم میں بتایا گیا ہے کہ قیامت 21 دسمبر 2012 کو آئے گی۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ مشہور سائنس داں آئن سٹائن (وفات: 1955) نے بھی کہا تھا کہ 2012 تک قطبین (South Pole, North Pole)کی برف پگھلنے کی وجہ سے زمین پر پول شفٹ (pole shift)کا واقعہ پیش آئے گا۔ اِس فلم میںایک سائنس داں بول کر کہتا ہے کہ — قیامت قریب آرہی ہے، کیوں کہ انسان خدا کے قانون پر نہیں چلا:
Doomsday is coming because man does not follow the path of God.
قرآن میں بتایاگیا ہے کہ قیامت اچانک (بغتۃً) آئے گی (الأعراف:187 ) ۔ اِس لیے 21 دسمبر2012کی محدّد پیشین گوئی درست نہیں ہوسکتی، البتہ یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ قیامت بہت زیادہ قریب آچکی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ اکیسویں صدی عیسوی کے ربع اوّل ہی میں آجائے۔
ایک مجلس میں مسلمانوں کی موجودہ عالمی حالت پر گفتگو ہوئی۔ میںنے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، عرب اور غیر عرب دونوں، ایک ذہنی واہمہ (obsession) میں مبتلا ہیں اور وہ ہے، عظمتِ رفتہ کی واپسی۔ میں نے کہا کہ یہ ایک جاہلی مزاج ہے۔ وسیع تر پہلو سے دیکھا جائے تو انسان کا کیس جنتِ رفتہ کی واپسی کا کیس ہے، نہ کہ دنیوی معنوں میں عظمتِ رفتہ کی واپسی کا کیس۔
ایک عرب خاتون لیما نبیل نے اسپین کا سفر کیا۔ وہاں مسلم عہد کی قدیم عمارتوں میں اُن کو عرب کی عظمتِ رفتہ نظر آئی۔ اس کو دیکھ کر وہ روپڑیں۔ انھوں نے کہا : إلی متی سیستمر ہٰذا اللیل العربی (عرب کی یہ تاریک رات آخر کب تک باقی رہے گی)۔
یہی موجودہ زمانے کے تمام مسلمانوں کا حال ہے۔ ہر ایک قدیم سیاسی عظمت کے تصور میں گم ہے۔ اسپین کی عرب سلطنت1492 میں ختم ہوئی، انڈیا کی مغل سلطنت 1857 میں ختم ہوئی، ترکی کی عثمانی خلافت 1929 میں ہوئی۔ یہ مسلم ایمپائر کے دور کی باتیں ہیں ۔ ساری دنیا کے مسلمان اِن واقعات کو پڑھتے ہیں اور اس کی واپسی کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔
یہ بلا شبہہ ایک جاہلیت ہے۔ نہ صرف مسلمان، بلکہ تمام انسانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کے بعد اس کو جنت میں رکھا گیا، پھر اس کو وہاں سے نکال دیا گیا۔ اب مسلمان سمیت تمام انسانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کو جنت میں دوبارہ واپسی ملے، مگر شیطان نے ہر ایک کو بھٹکا کر ان کو اصل مسئلے سے غافل بنا رکھا ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ اپنے کام کو دعوت الی اللہ کا کام بتاتے ہیں، لیکن مجھے بتایاگیا ہے کہ آپ کلمہ نہیں پڑھاتے۔ آخر یہ کیسی دعوت ہے جس میں کلمۂ شہادت کی ادائیگی نہیں۔ انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک داعی تھے۔ آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ لوگوں کو کلمہ پڑھا کر اسلام میں داخل کرتے تھے، پھر یہ آپ کی کون سی دعوت ہے جس میں کلمہ پڑھانا نہیں۔
میں نے کہا کہ آپ کو یہ غلط فہمی سلیکٹیو رپورٹنگ (selective reporting) کی بنا پر ہے، یعنی کچھ اجزا کو بتانا اور کچھ اجزا کو نہ بتانا۔ میں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مشن میں کلمہ پڑھانے سے دعوت کا آغاز نہیں کرتے تھے، بلکہ شعوری بیداری سے آغاز کرتے تھے جس کو معرفت کہاجاتا ہے۔ رسول اللہ کی دعوت تمام تر قرآن پر مبنی تھی۔ آپ افراد کے سامنے بھی اور مجمع میں بھی یہی کرتے تھے کہ آپ لوگوں کو قرآن پڑھ کر سناتے تھے (عرض علیہم الإسلام، وقرأ علیہم القرآن)۔ آپ کا اصل دعوتی کام یہی تھا۔ اِس کے بعد جن لوگوں کا ذہن بدل جاتا اور وہ دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی خواہش ظاہر کرتے توآپ کلمہ شہادت کی ادائیگی کے بعد ان کو دائرہ اسلام میں داخل کرلیتے۔یہی وجہ ہے کہ سارے قرآن میں دعوت کی باتیں تو ہیں، لیکن قرآن میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ لوگوں سے کلمہ شہادت پڑھوا کر ان کو دائرہ اسلام میں داخل کرو۔
قطر کے زمانۂ قیام میں جو دعوتی کام ہوئے، اُن میں سے ایک یہ تھا کہ پروفیسر ابراہیم صالح النعیمی کو ہمارے ساتھیوں نے تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن (التذکیر القویم فی تفسیر القرآن الحکیم) کا ایک سیٹ بطور ہدیہ پیش کیا۔ اس کو انھوںنے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ پروفیسر صالح النعیمی مرکز الدوحۃ الدولی لحوار الأدیان کے ڈائریکٹر ہیں۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ایڈیشن تین جلدوں پر مشتمل ہے۔ وہ 2008 میں دار الوفاء (المنصورہ، مصر) سے چھپا ہے۔ اِس ادارے نے راقم الحروف کی ایک اور کتاب ’’خاتونِ اسلام‘‘ کا عربی ترجمہ (المرأۃ بین شریعۃ الإسلام وحضارۃ الغربالال) شائع کیا ہے۔ ادارے کا مکمل پتہ یہ ہے:
دار الوفاء للطباعۃ والنشر والتوزیع، جمہوریۃ مصر العربیۃ، المنصورۃ
ش الإمام محمد عبدہ المواجہۃ لکلیۃ الآداب، ص ب: 230
Tel: +2050 22 56 230, Fax: +20502260 974
e.mail: darelwafa@hotmail.com
www.darelwafaa.com
دار الوفاء (مصر) کا اپنا ویب سائٹ ہے۔ اِس ویب سائٹ پر تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کا تعارف اِن الفاظ میں دیکھا جاسکتا ہے:
ں إن الغرض الرئیسی من ہذا التفسیر بصفۃ خاصۃ، ہو (التذکیر بالقرآن) ومن حیث أن القرآن نفسہ إنما جاء من أجل تحقیق ہذہ الغایۃ، أی التذکیر و الموعظۃ، فإن الجانب الذی أولاہ المؤلف القسط الاوفر من إتمامہ، فی طرح مضامین ہذا التفسیر ہو أن یجد فی القاری منہلا فیاضا أومرتعا خصبا یضمن لہ اشباع حاجتہ إلی التذکیر والاعتبار والاتعاظ۔
ں وحاول المؤلف اتباع اسلوب الفقرات فی طرح مضامین ہذا التفسیر أی أنہ عمد إلی فقرۃ من فقرات القرآن، ثم تناول ما یندرج تحتہا من فکرۃ أو توجیہ معنوی بالتفسیر والإیضاح کموضوع متسلسل، وذلک حرصا منہ علی ألاتنقطع من القاریٔ سلسلۃ المعانی والمفاہیم المطروحۃ خلال قراء تہ فی فقرۃ تفسیریۃ معینۃ، ولکی یتمکن من التزود المستمر المتواصل (بالغذاء التذکیری) للقرآن الکریم۔
ں ولقد توخی المؤلف الشیخ وحید الدین خان فی إعداد (تذکیر القرآن) من الحکمۃ، ما جعل کل فقرۃ من فقراتہ، مستقلۃ بذاتہا، وذلک لاحتوائہا علی فکرۃ قرآنیۃ واضحۃ محدّدۃ، فسواء قرأ القاری صفحۃ واحدۃ من التفسیر، أم قرأ مجموعۃ کبیرۃ من الصفحات، فإنہ لا یکد ینتہی من قراء تہ إلا ویکون قد ظفر بنصیب من (الموعظۃ القرآنیۃ) علی أیۃ حال۔
ں وقد توخی الایجاز إلی الحد الممکن، غیر عارض للتفاصیل المتصلۃ بالجانب اللغوی، أو الجانب الفقہی أو الجانب الکلامی، أو ما إلی ذلک من الجوانب والوجوہ الأخری للمدلول القرآنی، وإنما الشیٔ الذی جعلہ نصب عینیہ، ہو أن یتسم تفسیر القرآن بطابع من البساطۃ التی یتمیز بہا القرآن نفسہ، فإن القرآن، من جہۃ یعکس جلال اللہ وعظمتہ، ومن جہۃ أخری، ہو مراٰۃ تنعکس علیہ عبودیۃ الإنسان بجمیع نواحیہا، وہذہ ہی النقاط الجوہریۃ التی یتمحور حولہا ہذا التفسیر، ویحاول تجلیتہا بأسلوب موجز وبسیط، بعیدا عن التعقیدات الفنیۃ۔
تذکیر القرآن کا یہ عربی ترجمہ مولانا ابوصالح انیس لقمان ندوی نے کیا ہے۔ وہ مالے گاؤں (مہاراشٹر)میں 1965 میں پیدا ہوئے۔ اب وہ ابو ظبی (عرب امارات) میں رہتے ہیں۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو عربی زبان سے عشق ہے۔ عربی کے علاوہ، وہ انگریزی زبان میں بھی لکھنے پڑھنے اور بولنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں عام طور پر عربوں کا مزاج یہ ہے کہ وہ لکھنے میں تو فصیح عربی لکھتے ہیں، لیکن بولنے میں اکثر وہ غیر فصیح زبان بولتے ہیں۔ مولانا انیس لقمان ندوی کو عربوں کا یہ مزاج پسند نہیں۔ انھوں نے بتایا کہ 22 جون 1998 کو ابو ظبی میں ڈاکٹر عز الدین ابراہیم سے ان کی ملاقات ہوئی۔ اِس دوران اُن سے مختلف موضوعات پر گفتگو ہوئی۔ ابتدا ہی میں میں نے اُن سے درخواست کی کہ وہ مجھ سے صرف فصیح عربی میں بات کریں، کیوں کہ میں فصیح عربی کے معاملے میں اُس سے زیادہ غیور ہوں جتنا غیور کوئی مرد اپنی بیوی کے معاملے میں ہوتاہے۔ اگر آپ مجھے فصحیٰ میں گالی دیں تو یہ بات مجھے اس سے زیادہ پسند ہے کہ آپ عامی زبان میں میری تعریف کریں (کلّمنی من فضلک بالعربیۃ الفُصحیٰ، فإنّی واللہ أغار علی اللغۃ العربیۃ الفصحیٰ أکثر مما یغار الرجل علی زوجتہ۔ ولو شتمتنی بالفصحیٰ، فإنّہ أحبّ إلیّ من أن تمدحنی بالعامیۃ)۔ اِس بات کو سن کر ڈاکٹر عز الدین ابراہیم بہت محظوظ ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بات آپ نے اتنے خوب صورت پیرائے میں کہی ہے کہ وہ اِس قابل ہے کہ ضرب المثل بن جائے (إنّ کلامک ہٰذا مصوغ صیاغۃ رائعۃ لدرجۃ أنہ لیکاد أن یکون مضرب المثل)۔
ریاض، کویت، بیروت اور قاہرہ سے راقم الحروف کی مختلف عربی کتابوں کے ترجمے شائع ہوچکے ہیں جن کی مجموعی تعداد تقریباً 40 ہوتی ہے۔ تذکیر القرآن کا عربی ترجمہ المنصورہ (مصر) سے چھپا ہے۔ اِس عربی ترجمہ کی تحریک ابتداء ً ایک عرب عالم محمد سلیمان القائد نے کی تھی۔ اس کے بعد مولانا انیس لقمان ندوی نے اس کا عربی ترجمہ کیا اور پھر دو عرب شخصیتوں، استاد صالح شوکات اور دکتور عبد الحلیم عویس، کی کوششوں سے وہ چھپ کر شائع ہوا۔
شیخ سلیمان القائد کا خیال تھا کہ عالمِ عرب میں راقم الحروف کی کتاب ’’الإسلام یتحدّی‘‘ کی اشاعت سے اسلام اور سائنس کے متعلق میرے افکار پھیلے، لیکن ابھی تک وہاں میرے دعوتی افکار عام نہ ہوسکے۔ تذکیر القرآن کے عربی ایڈیشن کی اشاعت ان شاء اللہ دعوتی افکار کی اشاعت میں معاون ہوگی۔ الرسالہ کے دعوتی مشن سے شیخ سلیمان القائد کی گہری وابستگی کا اندازہ ان کے حسب ذیل اقتباس سے کیا جاسکتا ہے۔ یہ اقتباس اسلامی مرکز (نئی دہلی) میں 31 اگست 1984 میں کی گئی ان کی ایک تقریر سے ماخوذ ہے:
’’ولعلک تسئل بعد ہذا، لماذا أحببتَ وحید الدین۔ الحقیقۃ أن اکتشاف الشیخ وحید الدین أعظم اکتشاف فی حیاتی۔ فالفضل یرجع إلی اللہ أوّلاً، ثمّ إلی وحید الدین خان فی اکتشاف حقیقۃ الدعوۃ إلی اللہ۔ فہو أضاء لی الطریق الذی جعل بہ حیاتی ذات معنیٰ۔ وأ کثر من ہٰذا، فإنّنی أحسب نفسی بکلّ تواضع أنّنی مجرّد تلمیذ صغیر جداً فی مدرسۃ ہٰذا لعالم الربانی۔ والمسلمون حالیاً لایعرفونہ، وہٰذا أعظم مأساۃ۔ فالمسلمون یعیشون فی وَہم الشخصیات ذات البریق التاریخی والبہرجۃ الدُنیویۃ فہم ینظرون إلی کثرۃ الأتباع، والشہرۃ، وفخامۃ المؤسسات۔ ولکن ہنیئا لکل امریٔ مَن عرفہ وأدرک قیمۃ رسالتہ۔وإنہا لرحمۃ ربّانیۃ نادرۃ جدا أن یخرج فینا الآن مثلہ فی وقتٍ نحن فی أشدّ الحاجۃ إلی مَن یُبصرنا طریق النجاۃ، فہو المجدد بحق لدین اللہ الذی انتظرناہ منذ مئات السنین۔ واللّٰہ وحدہ یشدہ علی صدق ماأقول، وإنّی أعلن شہادتی ہذا متحدیا بہا العصر الحاضر ومستقبل التاریخ الإسلامی والإنسانی بأسرہ‘‘۔ (محمد سلیمان القائد، المرکز الثقافی الإسلامی بکیجالی، إفریقیا)
ایک صاحب سے گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ بیماری اور صحت انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، مگر یہ کوئی سادہ بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے کا ایک بڑا مثبت پہلو ہے۔ ایک شدید بیماری کے بعد جب آدمی کو صحت حاصل ہوتی ہے تو یہ جزئی معنوں میں اُس حقیقت کا تجربہ ہوتا ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وقد خلقتُک من قبل ولم تک شیئا (مریم: 9)۔
یہ ہر انسان کا معاملہ ہے کہ پیدائش سے پہلے وہ غیر موجود تھا۔ پیدائش کے بعد وہ وجود میں آگیا۔ یہ ایک حیرت ناک واقعہ ہے۔ مگر آدمی اپنے بارہ میں اِس طرح سوچ نہیں پاتا۔ وہ اپنے وجود کو فارگرانٹیڈ (for granted) طورپر لئے رہتا ہے۔ اِسی بنا پر انسان کو شدید بیماری میں مبتلا کیا جاتاہے اور پھر اس کو صحت دی جاتی ہے۔یہ انسان کے ساتھ رحمت کا ایک معاملہ ہے۔ اِس تجربے کی صورت میں خدا یہ چاہتاہے کہ انسان اپنے بارے میںخدا کی اِس عنایت کو دریافت کرے کہ اُس نے ایک غیرموجود انسان کو موجود انسان بنا دیا۔ اِس رحمتِ خداوندی کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی شکر ِخداوندی کا گہرا احساس کرے، وہ شکر کے جذبے سے سرشار ہوجائے۔
ایک صاحب سے میں نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی اپنی تخلیق کو لے کر سوچا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کیسا عجیب معاملہ ہے کہ میں ایک غیر موجود شخص تھا، پھر میں وجود میں آگیا۔ میں اچانک ایک ایسا زندہ انسان بن کر زمین پر چلنے پھرنے لگا جو سوچتاہے، جو دیکھتا ہے، اور دوسرے بہت سے کام کرتا ہے۔ انھوںنے کہا کہ اِس طرح میں بہت کم سوچتا ہوں۔
میں نے کہا کہ اِس طرح کے معاملے میں کم سوچنے کا مطلب ہوتا ہے نہ سوچنا۔ ایک انسان کی حیثیت سے وجود میں آنا اتنا بڑا واقعہ ہے کہ اُس پر کم درجے میں سوچا نہیں جاسکتا۔ جب بھی کوئی شخص اِس پر سوچے گا تو وہ بڑے درجے میں سوچے گا۔ مثلاً ایک فقیر کو کوئی شخص اچانک ایک بلین ڈالر دے دے اور آپ اُس سے اس کا احساس پوچھیں تو وہ یہ نہیں کہے گا کہ ہاں، تھوڑاتھوڑا محسوس ہورہا ہے، بلکہ وہ سرشاری کے انداز میں اپنی لغت کے تمام الفاظ استعمال کرڈالے گا۔
میںنے کہا کہ ایک مرتبہ میںنے امریکی میگزین ریڈر ڈائجسٹ میںایک مضمون پڑھا تھا۔ اُس میں بتایاگیا تھا کہ سعودیہ میں جب تیل نکلا تو ایک عرب بدو کو اچانک بہت زیادہ دولت حاصل ہوگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے پیسے سے سوئزر لینڈ میں اس کے لیے شان دار مکان خریدا، پھر وہ اِس عرب کو ہوائی جہاز کے ذریعے سوئزر لینڈ لے گیا اور اُس عرب کو اِس نئے مکان میں داخل کرکے کہا کہ یہ تمھارا مکان ہے۔ اُس وقت اُس عرب کا عجیب حال ہوا۔ مضمون میں بتایاگیا تھا کہ وہ عرب بار بار اپنے آپ کو چھوکر دیکھتا تھا اور پھر اس مکان کو چھوکر دیکھتا تھا اور کہتا تھا کہ کیا واقعی یہ میں ہوں اور یہ مکان میرا مکان ہے۔
زیادہ بڑی معرفت یہ ہے کہ آپ کو خود اپنے بارے میں اِسی قسم کا انوکھا احساس ہونے لگے۔ آپ اپنے آپ کو دیکھیں اور اپنے آس پاس کی دنیا کو دیکھیں اور حیرت کے ساتھ سوچیں کہ کیا یہ واقعی میں ہوں اور کیا یہ دنیا میری دنیا ہے جس میں مجھے رہنے کا موقع دیاگیا ہے— لوگوں کے اندر اعلیٰ معرفت نہیں، اِس لیے لوگوں کے اندر اعلیٰ شکر ِ خداوندی کا جذبہ بھی نہیں۔
قطر کے حوالے سے ایک خبر نگاہ سے گزری۔ اِس خبر میں بتایاگیا تھا کہ تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کے بیان کے مطابق، تاجکستان کے دار الخلافہ (دوشنبہ) میں دنیا کی سب سے بڑی مسجد تعمیر کی جائے گی۔ بیان کے مطابق، اِس مسجد کو اٹھارہ ایکڑ زمین پر تعمیر کیا جائے گا۔ اِس مسجد میں بیک وقت ڈیڑھ لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہوگی۔ آئندہ سال اِس مسجد کی تعمیر کا آغاز کیاجائے گا۔ اِس مسجد کی تکمیل پر پانچ سال درکار ہوں گے۔ اِس مسجد کی تعمیر کے تمام اخراجات دبئی اور قطر کی حکومت نے اداکرنے کا وعدہ کیا ہے۔
آج کل ہر جگہ شان دار مسجدیں تعمیر کی جارہی ہیں۔ فخر کے ساتھ ان کا تذکرہ کیا جارہا ہے، حالاں کہ حدیث کی پیشین گوئی کے مطابق، یہ کوئی فخر کی چیز نہیں۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ما اُمرتُ بتشیید المساجد (أبو داؤد، کتاب الصلاۃ، با ب فی بناء المساجد) یعنی مجھ کو بلند وبالا مسجدیں بنانے کا حکم نہیں دیاگیاہے۔ ایک اور روایت کے مطابق، حضرت انس کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میری امت پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگ مسجدوں پر فخر کریں گے، مگر وہ اس کو (ذکر اور نمازسے) بہت کم آباد کریں گے (یأتی علیٰ أمتی زمان یتباہون بالمساجد، ثم لا یعمّرونہا إلاّ قلیلاً) فتح الباری، جلد 1، صفحہ 642۔
بلند وبالا عمارت اگر آدمی کو جنت کی یاد دلائے، وہ یہ سوچے کہ جب دنیا میں اِس قسم کی خوب صورت عمارت بن سکتی ہے تو جنت کی عمارتیں کتنی زیادہ خوب صورت ہوں گی۔ اگر ایسا ہو تو یہ ایک قابلِ قدر بات ہوگی۔ لیکن اگر بلند و بالا عمارت آدمی کے مادی ذہن میں اضافہ کرے تو وہ بلا شبہہ آدمی کے لیے ایک وبال بن جائے گی۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے: کلّ بناء وبالٌ علی صاحبہ إلاّ مالا، إلاّ مالا (أبو داؤد، کتاب الأدب، باب ما جاء فی البناء)۔
کرنل شیخ عیسیٰ (77 سال) انڈیا میں پیدا ہوئے، پھر وہ پاکستان چلے گئے۔ آج کل وہ قطر میں رہتے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ وہ دینی مزاج کے آدمی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں بہت دن سے مختلف انگریزی ترجموں کی مدد سے قرآن کو پڑھتا تھا، لیکن مجھے کسی ترجمے پر اطمینان نہیں ہوتا تھا۔ اِن ترجموں میں دو چیزیں مجھے پسند نہ تھیں— ایک، ان کی زبان اور دوسرے، ان میں وضوح (clarity) کا نہ ہونا۔ انھوں نے کہا کہ آپ کے ادارے سے قرآن کا جو انگریزی ترجمہ چھپا ہے، وہ اِس معاملے میں ایک استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس ترجمے کی زبان بھی وقت کے مطابق ہے، اور اس کے اندر وضوح (clarity) بھی پوری طرح پایا جاتا ہے۔
کرنل شیخ عیسی سے پاکستان کے بارے میں گفتگو ہوئی۔ انھوںنے کہا کہ پاکستان میں قیادت کا فقدان ہے، اور لیاقت علی خاں کے بعد کوئی صحیح لیڈر وہاں پیدا نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ اصل مسئلہ قیادت کے فقدان کا نہیں ہے، بلکہ اصل مسئلہ قبولیت (acceptance) کے فقدان کا ہے۔ پاکستان میں جنرل ایوب خاں بہترین لیڈر تھے، مگر پاکستانی عوام نے ان کو قبول نہیں کیا۔
20 اکتوبر 2009 کی صبح کو ہوٹل کے ایک بڑے ہال میں کانفرنس کے افتتاح کی کارروائی ہوئی۔ یہ ایک بہت بڑا اور شاہانہ انداز کا ہال تھا۔ ہر طرف کیمرے والے دوڑتے ہوئے نظر آتے تھے۔ عربی لباس کے لوگ ہر طرف چلتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ہر طرف السلام علیکم ورحمۃ اللہ، کیف الحال، متی القدوم، أہلاً و سہلاً اور بارک اللّٰہ فیکمجیسے الفاظ سنائی دے رہے تھے۔ اِس پروگرام کی کوآرڈنیٹر ایک سینئر عرب خاتون تھیں۔ اُن کا پورا بدن برقعہ سے ڈھکا ہوا تھا۔ ان کا نام یہ ہے: الأستاذۃ الدکتورۃ عائشۃ یوسف المنّاعی، عمیدۃ کلیۃ الشریعۃ بجامعۃ قطر۔
افتتاحی تقریر قطر کے ایک منسٹر احمد بن عبد اللہ المحمود نے کی۔ انھوں نے اپنی عربی تقریر میں جن باتوں پر زور دیا، وہ مختلف ادیان کے درمیان قدرِ مشترک کی تلاش تھی۔ انھوں نے کہا کہ قرآن اور حدیث وحدانیتِ خلق پر متفق ہیں۔حدیث میں ارشاد ہوا ہے: إنّ ربکم واحد، وإنّ أباکم واحد۔
دوسرے مقررین نے عام طورپر رسمی انداز کی باتیں کیں۔ ایک مقرر نے کہا کہ ادیانِ سماوی کی یہ خصوصی ذمے داری ہے کہ وہ موجودہ زمانے کے انسانی مسائل میں ان کو رہنمائی دیں۔ انھوں نے کہاکہ ادیانِ سماوی سے وابستہ لوگ موجودہ عالمی آبادی کا 60 فی صد حصہ ہیں۔ ان کو چاہئے کہ وہ سب مل کر موجودہ مسائل پر سوچیں اور اس کا حل نکالنے کی کوشش کریں۔
یہاں ہر مقرر نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ صرف ایک صاحب نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اس کے علاوہ تمام تقریریں عربی زبان میں ہوئیں۔ اِس پروگرام میں مسئلہ فلسطین کا بھی ذکر آیا، مگر مقررین کی طرف سے اس کا کوئی متعین حل سامنے نہ آسکا۔
افتتاحی پروگرام کے موقع پرعرب دنیا کے اکثر بڑے بڑے لوگ موجود تھے۔ اِس کے علاوہ شاہی خاندانوں کے کچھ افراد بھی یہاں آئے ہوئے تھے۔ عرب حکومتوں سے متعلق بڑے بڑے افسران اور وزراء بھی اِس کانفرنس میں شریک تھے۔ میرے ساتھیوں نے اِن تمام لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ لوگوں نے اِس کو خوشی کے ساتھ قبول کیا۔
قطر کی اس کانفرنس میں تقریبا 15 پینل بنائے گئے تھے۔ ان کے عنوانات حسب ذیل ہیں:
ں Human Solidarity:
Human Action in Response to Wars and Disasters
ں Achieving Unity and Solidarity through Spiritual Values
ں Religious Responses to Natural Disasters and Famines
ں Religious Views on Human Solidarity in Response to Wars
ں Human Solidarity and Inter-dependence in Response to Wars
ں Solidarity and Economic Inter-dependence:
Religious Financial Systems and the Economic Crisis
ں Solidarity and Economic Inter-dependence:
Religious Analysis of the Economic Crisis and its Consequences
ں Solidarity in Defense of Religious Rights and Freedom
ں Solidarity in Support of Holy Sites
ں Solidarity and Economic Inter-Dependence:
Religious Responses to the Financial Crisis
ں Responses in Defense of Religious Rights and Freedom
ں Religious Responses for Supporting Holy Sites
ں Round Table Discussion
ں Closing Remarks & Recommendations
اِس کانفرنس میں ڈنمارک کے ایک نو مسلم سے ملاقات ہوئی۔ ان کا نام یہ تھا:
Abdul-Wahid Anderson, Muslim council of Denmark
انھوں نے بتایا کہ ڈنمارک میں کارٹون کا جو واقعہ پیش آیا تھا، اس سے لوگوں کے اندر تجسس پیدا ہوا اور لوگوں نے اسلام کامطالعہ کرنا شروع کردیا۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کارٹون کے واقعے کے بعد ڈنمارک میں 75 افراد نے اسلام قبول کرلیا۔
میں نے بتایا کہ کارٹون کے واقعہ کے بعد سعودی ٹی وی (عکاظ) کی ایک ٹیم ڈنمارک گئی تھی۔ یہ لوگ سیرتِ رسول کے موضوع پر راقم الحروف کی کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘ کا انگریزی ترجمہ (Muhammad A Prophet for All Humanity)اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ اس کو انھوں نے بڑے پیمانے پر ڈنمارک کے مقامی لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا۔
ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمہ قرآن کے بارے میں عام طورپر لوگوں نے مثبت رائے دی۔ فرانس کے ایک صاحب کو 20 اکتوبر 2009 کو ہمارے ساتھی مسٹر رجت ملہوترانے قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اس کو پڑھ کر اگلے دن انھوں نے میرے ساتھی مسٹر رامش صدیقی سے اس کے بارے میں اپناتاثر بتاتے ہوئے کہا کہ میں نے اِس سے پہلے قرآن کے دو انگریزی ترجمے پڑھے تھے، لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ مگر آپ کا یہ ترجمہ قرآن پوری طرح سمجھ میں آرہا ہے۔ ان کا نام یہ ہے:
Alain Micmel, Director General Mommes De Parole Faundation.
اگلے دن انھوں نے ترجمۂ قرآن کا ایک اور نسخہ طلب کیا جو انھیں دے دیا گیا۔
کانفرنس میں ترکی کے ایک پروفیسر الدکتور عبد الحمید براشقسے ملاقات ہوئی۔ قطر یونی ورسٹی میں وہ تفسیر کے پروفیسر ہیں۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں رہ چکے ہیں۔ اِس لیے وہ اچھی اردو جانتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہمارے یہاں دہلی میں ہر اتوار کو جو لیکچر ہوتا ہے اور جس کو لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جاتا ہے، اس کو وہ پابندی کے ساتھ انٹرنیٹ پر سنتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ہماری یونی ورسٹی کی لائبریری میں آپ کی اردو کتابیں موجود ہیں۔
ہمارے ایک ساتھی مسٹر رجت مہلوترا نے کہا جب میں دعوت الی اللہ کا کام کرتاہوں اور لوگوں سے مل کر انھیں دعوتی لٹریچر اور قرآن دیتا ہوں تو عجیب خوشی محسوس ہوتی ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فطری بات ہے۔ دعوت کا کام خدا کا کام ہے۔ اِس کام کو قرآن میں خدا کی نصرت کا کام بتایا گیا ہے۔ اور خدا کی نصرت سے بڑا کون سا کام ہوسکتا ہے۔ یہ احساس کہ میں خدا کے کام میںہوں، بلا شبہہ اِس سے بڑی خوشی اور کسی چیز سے نہیں ہوسکتی۔
یہاں قطر میں ملاقات کے دوران ایک واقعہ معلوم ہوا۔ ایک صاحب نے بتایا کہ ایک ہندستانی عالم جو قطر میں رہتے ہیں، ان کی بیوی نے ان کے بارے میں اپنی ماں سے کہا کہ میںاُن کے نکاح میں ایک سال سے تھی، مگر انھوںنے کبھی خدا اور آخرت کی بات نہیںکی، اگر چہ وہ مدرسہ کے پڑھے ہوئے تھے۔ جب سے انھوں نے الرسالہ مشن کی کتابیں پڑھی ہیں، وہ مجھ سے صرف خدا اور آخرت کی بات کرتے ہیں، جب کہ اِس سے پہلے وہ دوسری دوسری باتیں کیا کرتے تھے۔
یہی عام طورپر لوگوں کا حال ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ لوگوں نے اِس حقیقت کو نہیں جانا کہ عورت کا رول ان کی زندگی میں کیا ہے۔لوگ عام طورپر عورت کے صرف کم تر رول کو جانتے ہیں، وہ عورت کے برتر رول کو دریافت نہ کرسکے۔ مثلاً ایک صاحب نے اپنی بیوی کی تعریف کی۔ میں نے پوچھا کہ آپ اپنی بیوی میں کیا خاص بات پاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ روزانہ مجھ کو اچھے اچھے کھانے پکا کر کھلاتی ہے۔میںنے کہا کہ آپ نے عورت کو صرف کچن پارٹنر کی حیثیت سے جانا، مگر آپ عورت کو اپنے انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت دریافت نہ کرسکے۔
20 اکتوبر 2009 کو ہوٹل کے ’’سلویٰ ہال‘‘ میںایک سیشن کا موضوع یہ تھا:
القیم الروحیۃ وتحقیق الوحدۃ والتضامن:
Achieving Unity and Solidarity Through Spiritual Values
اِس سیشن میں جن لوگوں نے تقریر کی، ان میں ایک صاحب وہ تھے جو یوکے (U.K.)سے آئے ہوئے تھے۔ اُن کانام یہ تھا— ڈونالڈ (Rev.Donald Reeves) ۔ انھوں نے اپنی تقریر کا آغاز ساؤتھ افریقہ کے مشہور لیڈر نیلسن منڈیلا (Nelson Mandela) کے اِس قول سے کیا:
If you want peace, then talk to your enemies & not with your friends.
یعنی اگر تم امن چاہتے ہو تواپنے دشمن سے بات کرو، نہ کہ اپنے دوستوں سے۔
میں نے ایک صاحب سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ قول ایک غیر فطری قول ہے۔ اصل یہ ہے کہ ’’دوست اور دشمن ‘‘ کی اصطلاح میں سوچنا چھوڑ دیا جائے۔ انسان کو صرف انسان سمجھاجائے۔ میںنے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس کو آپ اپنا دشمن سمجھ لیتے ہیں، وہی عملی اعتبار سے آپ کا سب سے بڑا دوست ہوتا ہے۔
اِس معاملے کی ایک مثال خود نیلسن منڈیلا کا ملک ساؤتھ افریقہ ہے۔ ساؤتھ افریقہ کو ایک ترقی یافتہ ملک سمجھا جاتاہے۔ ساؤتھ افریقہ کو کس نے ترقی یافتہ ملک بنایا۔ یہ نیلسن منڈیلا یا ان کے ساتھی نہیں تھے، بلکہ وہ باہر سے آئے ہوئے انگریز تھے جن کو نیلسن منڈیلا اور ان کے ساتھی دشمن بتا کر اُن کے خلاف ’’آزادی ‘‘ کی لڑائی لڑتے رہے۔
ہمارے ساتھیوں نے مسٹر ڈونالڈ کو انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی دی۔ اس کو دیکھ کر انھوں نے کہا:
It looks very beautiful. It can fit into my pocket very easily.
20 اکتوبر 2009کو میری تقریر سننے کے بعدکانفرنس میں فرنچ زبان کی مترجم مز نفیسہ (Nefissa El Bakly) نے میرے ایک ساتھی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:
Maulana Wahiduddin Khan has a unique perspective of Islam.
اِس کانفرنس میںعربی، انگریزی اور فرنچ زبان رائج تھی۔ میںنے انگریزی میںتقریر کی۔ میںنے اپنی تقریر میں کہا کہ موجودہ زمانے میں ہر عورت اور مرد پیس (peace) کی بات کرتا ہے، مگریہ لوگ پولٹکل فارمولے کے ذریعے پیس کو حاصل کرنا چاہتے ہیں، جب کہ پولٹکل فارمولا اِس معاملے میں قابل عمل نہیں۔ یہاں اسپریچول فارمولا درکار ہے۔ یہ اسپریچول فارمولا قرآن میں دیاگیاہے، وہ الصلح خیر(النساء: 128) کا فارمولا ہے۔ اسپریچول فارمولے کا مطلب ہے— معاملے کو یک طرفہ بنیا پر حل کرنا:
To solve the problem on unilateral basis
میںنے کہا کہ نزاع کے موقع پر اسپریچول فارمولا ہی قابل عمل فارمولا ہے، نہ کہ پولٹکل فارمولا۔
ایک عرب اسکالر سے ملاقات ہوئی۔ وہ یہودیوں کے بارے میں بہت سخت الفاظ بولنے لگے— وہ ظالم ہیں، وہ سازشی ہیں، وغیرہ۔ میں نے کہا کہ موجودہ زمانے کے مسلمان، عرب اور غیرعرب دونوں، یہود کے بارے میں اِسی قسم کے منفی خیالات رکھتے ہیں، مگر آپ جیسے لوگ یہود کے بارے میں صرف اتنا ہی جانتے ہیں کہ 1948 میں وہ فلسطین میں داخل ہوگئے اور یہاں کے ایک حصے پر اسرائیلی حکومت قائم کرلی، وغیرہ۔
مگر یہ ایک ناقص رائے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہود نے بہت بڑے بڑے علمی کارنامے انجام دئے ہیں، قدیم مسلم اسپین میں بھی اور اِسی طرح موجودہ دور میں بھی۔ اِس وقت میں دورِ جدیدکی نسبت سے ان کے صرف ایک کارنامے کا حوالہ دوں گا۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جس کے برابر کارنامہ موجودہ زمانے میں کوئی مسلم عالم بھی انجام نہ دے سکا۔
یہ کام پہلی بار ایک یہودی سائنس داں نے کیا، یعنی آئن اسٹائن (Albert Eienstein) نے۔ آئن اسٹائن نے خالص سائنسی بنیاد پر یہ ثابت کیا کہ موجودہ دنیا میں انسان کسی بھی شعبے میں صرف اضافی علم (relative knowledge) تک پہنچ سکتا ہے، حقیقی علم (real knowledge) تک پہنچنا انسان کے لیے ممکن ہی نہیں۔ ایسی حالت میں انسان کے لیے صرف دو میں سے ایک کا آپشن ممکن ہے — ایک، یہ کہ وہ ہمیشہ تشکیک (scepticism) میں مبتلا رہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ علمی امکان (probability) پر اپنے یقین کی بنیاد رکھے۔ چوں کہ اِس دنیا میں تشکیک کوئی قابلِ عمل نظریہ نہیں، اس لیے انسان مجبور ہے کہ وہ علمی امکان کو اپنے یقینی علم کی بنیاد بنائے۔ قرآن کے مطابق، یہی کسی انسان کا ٹسٹ پر پورا اترنا ہے۔ میری بات سن کر مذکورہ عرب اسکالر نے کہا کہ میں نے اِس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا تھا، اب میں اِس پر غور کروں گا۔
قرآن میں مومن کی ایک صفت سیاحت (سفر) بتائی گئی ہے (التوبۃ: 112 )۔ مگر موجودہ زمانے میں عام طورپر سفر تفریحی سفر کے ہم معنی بن گیا ہے، جب کہ قرآنی سیاحت کا مطلب معرفت کی سیاحت ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلمان معرفت کے سفر سے تقریباً نا آشنا ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حج اور عمرہ کا سفر آج کل صرف آؤٹنگ (outing) کے ہم معنیٰ بن گیا ہے۔ مسلم جرائد میں اکثر مسلمانوں کے سفر نامے چھپتے رہتے ہیں، لیکن وہ جدید اصطلاح میں ٹورازم (tourism) کے ہم معنیٰ ہوتے ہیں۔مثال کے طورپر حال میں ایک معروف عالم کا سفر نامہ ایک ماہ نامہ میں نظر سے گزرا۔ یہ سفر ارضِ اُردن (عمّان) کے لیے تھا۔ اِس سفر نامے کا آغاز کچھ اِس طرح تھا:
’’یہ ایک چمکیلی شام تھی۔ میری بیٹی کے یہاں سب جمع تھے۔ میرے ایک عزیز ابھی ابھی اردن میں بحرِ میت کے کنارے ایک کانفرنس میں شرکت کے بعد واپس لوٹے تھے۔ ان کا بیگ یاد گاری تحائف بانٹنے کا منتظر تھا۔ بیگ کھلتا چلا گیا اور آخر میں پانی سے بھری ہوئی ایک بوتل نکلی۔ میرے عزیز نے کہا: اب کچھ تماشا ہوجائے — بچوں سمیت ہر شخص بحرِ میت کے اِس پانی کو چکھے گا اور اگر وہ اس کا ذائقہ سہار نہ سکا تو گلاس حاضر ہے، وہ اس میں تھوک دے۔ سب سے پہلے بچوں کی باری تھی۔ ایک کے بعد دوسرا اس پانی کا ایک ایک گھونٹ چکھتا گیا اور منہ بنا کر اسے اگلتا رہا۔ میرے بھائیوں میں سے ایک بھائی بھی مع اپنی اہلیہ کے حاضر تھے۔ وہ دونوں بھی اس تجربے سے محظوظ ہوئے۔ آخر میں گھر کے سب سے بزرگ فرد یعنی راقم کی باری تھی۔ میں نے تمغہ شجاعت کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے پانی کے دو گھونٹ غٹا غٹ چڑھا لیے۔ بحر مردار کے پانی میں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ اس کا پینا آفتِ جان ہوسکتا ہے۔ جوں ہی یہ پانی معدہ سے ٹکرایا تو پیٹ میںایک بھونچال برپا ہوگیا۔ اب ایسا معلوم ہوا کہ شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ اپنی بہت سی نادانیوں میں ایک اور کا اضافہ ہوگیا‘‘۔
اول یہ کہ یہ زبان مومنِ سائح کی زبان نہیں ہے۔ مومنِ سائح کے کلام میںجو سنجیدگی ہونی چاہیے، وہ اِس عبارت میں مفقود ہے۔ دوسری بات یہ کہ مومن کی سیاحت عبرت اور نصیحت کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ ’’تماشا‘‘ کے لیے۔ مذکورہ عبارت میں جس پانی کا ذکر ہے، وہ بحر مردار(Dead Sea) کا پانی تھا۔ بحرِ مردار اُس خدائی عذاب کے باقیات میں سے ہے جو قومِ لوط پر آیا تھا۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اِن آثار میںاہلِ ایمان کے لیے نشانیاں ہیں (الحجر:75-77 )۔ لیکن موجودہ زمانے کے مسلمان وہاں سے گزرتے ہیں اور وہاں انھیں تفریح اور تماشے کے سوا کچھ اور نظر نہیں آتا۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے گھرکا جو ماحول ہوتا ہے، اس کی ایک تصویر مذکورہ اقتباس میں نظر آتی ہے۔ اِس اقتباس سے اندازہ ہوتاہے کہ مسلمانوں کے گھروں کا ماحول بے حسی کا ماحول بن گیا ہے۔ یہی وہ ماحول ہے جو موجودہ زمانے میں بچوں کو بگاڑ رہا ہے۔
مسلمان اپنے بچوں کے بگاڑ کے لیے خارجی چیزوں کی شکایت کرتے ہیں، حالاں کہ یہ دراصل اُن کا اپنا گھر ہے جو اُن کے بچوں کے بگاڑ کا اصل ذریعہ ہے۔ بچوں کی اصلاح کے سلسلے میں سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ بچوں کے اندر آخرت کا احساس پیدا ہوجائے، جب کہ مذکورہ قسم کے گھر میں بچوں کے اندر احساسِ دنیا پیدا ہوتاہے، نہ کہ احساسِ آخرت۔ جو لوگ آخرت میں خدا کی رحمت سے محروم قرار پائیں گے، ان کے گھروں کی تصویر قرآن میں اِس طرح بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے گھروں میں خوش وخرم (الإنشقاق: 13) رہتے تھے— بچوں کی اصلاح کا تعلق خارجی ’’وعظ‘‘ سے نہیں ہے، بلکہ وہ تمام تر گھر کے داخلی ماحول پر منحصر ہے۔
میرے ساتھی اِس سفر میں رات دن صرف ایک کام کے لیے دوڑ رہے تھے، اور وہ ہے— قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر لوگوں تک پہنچانا۔ اِسی کا نام مشنری اسپرٹ ہے۔ مشنری اسپرٹ دراصل اِس احساس سے پیدا ہوتی ہے کہ آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کوئی چیز ہے۔ شاید اِس سے بڑی کوئی قوتِ محرکہ (incentive force) نہیں۔ یہ سادہ بات نہیں، اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو حدیث کے مطابق، ’’ادخال کلمہ‘‘ کا کام انجام دے رہے ہیں۔
قطر کی اِس کانفرنس میں ہر ملک کے مسلم علماء آئے ہوئے تھے۔ اِس کے علاوہ، ہر مذہب کے نمائندے بھی یہاں موجود تھے۔ مگر کسی بھی ملک کے مسلمان نے یہ نہیں کیا کہ وہ قرآن کا ترجمہ یا اسلامی لٹریچر حاضرین کو مطالعے کے لیے دے۔یہ صرف سی پی ایس کے لوگ تھے جو دوڑ دوڑ کر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دے رہے تھے۔ تمام لوگ اس کو بڑے شوق سے لے رہے تھے اور مزید نسخوں کا مطالبہ کرتے تھے،تاکہ وہ اسے دوسروں کو دے سکیں۔
ہمارے ساتھی ایک صاحب سے ملے۔ وہ مراکو سے آئے ہوئے تھے۔ وہ کئی ملکوں میں مراکو کے سفیر رہ چکے ہیں۔ اُن کو قرآن کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی دی گئی۔ انھوں نے تین اور کاپی مانگی۔ انھوں نے کہا کہ اِس کو میں شاہی محل میں پہنچاؤں گا۔ اِسی طرح ہر ایک نے نہایت شوق کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ لیا، جیسے وہ پہلے سے اس کے منتظر تھے۔
قدرتی گیس کی دریافت سے پہلے قطر ایک غریب ملک تھا۔ اب وہ یورپ اور امریکا کی مانند ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔ اِس کا تقاضا تھا کہ لوگوں کے دلوں میں شکر کا دریا موج زن ہوجائے، لیکن مجھے اپنے زمانۂ قیام میں کوئی ایسا شخض نہیں ملا جو حقیقی معنوں میں شکرِ خداوندی کی بات کرتا ہو۔
ایسا کیوں ہوتا ہے کہ انسان اسبابِ شکر کے درمیان ناشکرا بنا رہتا ہے۔ اس کا جواب ایک حدیث رسول میں ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ینزل بالعبد الأمر فیدعوا اللہ عزّوجل، فیصرفہ عنہ، فیأتیہ الشیطانُ فیضعّف شکرہ (الشکر لابن أبی الدنیا، رقم الحدیث: 25 ) یعنی جب اللہ کسی اسان کو اپنی نعمت عطا فرماتا ہے تو شیطان اس کے پاس آتا ہے اور وہ شکر کے احساس کو کم زور کردیتا ہے۔ یہ ’’تضعیف‘‘ یعنی شکر کے اروژن (erosion) کا عمل کس طرح ہوتا ہے۔ وہ اِس طرح ہوتا ہے کہ شیطان شعوری یا غیر شعوری طورپر انسان کے ذہن میں یہ ڈال دیتا ہے کہ یہ نعمت تم کو خدا کی طرف سے نہیں ملی، بلکہ وہ فلاں سبب سے تم کو ملی ہے۔ مثلاً کسی اتفاق سے، اپنی کسی قابلیت سے، خاندانی وراثت سے، وغیرہ۔ مثال کے طورپر جب عرب کی سرزمین کے نیچے تیل کے ذخائر برآمد ہوئے تو مغربی ’’ماہرین‘‘ نے کہا یہ جغرافی حادثہ (accident of geography) کا نتیجہ ہے، وغیرہ۔ یہی وہ باتیں ہیں جن کو حدیث میں شیطانی تضعیف کہاگیا ہے۔
20 اکتوبر 2009 کو دکتور عبد المجید عمر النجّار سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ وہ راقم الحروف کی کتاب ’’الاسلام یتحدی‘‘ پڑھ چکے ہیں۔ انھوںنے اپنی کتاب ’’الإیمان باللہ وأثرہ فی الحیاۃ‘‘ (صفحات: 225 ) دار الغرب الاسلامی، بیروت 1997 ) میں ’’الإسلام یتحدی‘‘ کو مصادر میں سے شمار کیا ہے۔ دکتور عمر النجّار کی ایک شاگرد مز آمال حمیدی کے ذریعے مجھ کو یہ کتاب ملی۔ دکتور عمرالنجّار پیرس (فرانس) میں اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے ڈائرکٹرہیں۔
دکتور النجار کی یہ کتاب قدیم علمِ کلام اور جدید علمِ کلام کی روشنی میں لکھی گئی ہے۔ قدیم علمِ کلام یونانیات کے رد عمل میں پیدا ہوا تھا۔ اِسی طرح مصنف نے لکھا ہے کہ دورِ جدید میں بعث وتجدید کی ایک نئی تحریک شروع ہوئی۔ اس کا محرک غالباً اسلامی عقیدے کے خلاف وہ شدید چیلنج تھا جو مغربی استعمار کے دو رمیں ظاہر ہوا جس نے امت اسلامیہ کو اپنا نشانہ بنایا تھا (منذ حل یقارب القرن من الزّمن بدأت تدبّ فی علم العقیدۃ حرکۃ بعث و تجدید۔ ربّما کان الدارع إلیہا شدّۃ التحدّی للعقیدۃ الإسلامیۃ من قِبل الغرب۔ صفحہ 23 )۔
قدیم علمِ کلام بلا شبہہ یونانیات کے رد عمل میں پیدا ہوا تھا، لیکن جدید علمِ کلام کی نوعیت اس سے مختلف ہے۔ جدید علمِ کلام کی ضرورت اصلاً کسی ’’استعماری حملہ‘‘ کے نتیجے میں نہیں پیدا ہوئی، بلکہ وہ خود علم کے نئے ارتقاء کے نتیجے میں پیداہوئی۔ جدید سائنسی علم اپنی حقیقت کے اعتبار سے اسلامی عقیدے پر کوئی حملہ نہیں ہے، بلکہ وہ اسلامی عقیدے کے لیے علمی تائید کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ ایک مثبت ظاہرہ ہے، نہ کہ منفی ظاہرہ۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جدید سائنس موجودہ زمانے میں اسلام کا علمِ کلام ہے۔ عباسی دور کا علمِ کلام ایک دفاعی علم کے طورپر پیدا ہوا تھا، لیکن دورِ جدید کے علمِ کلام کی حیثیت اِس سے مختلف ہے۔ دورِجدید میں علمِ کلام کا مطلب ہے— جدید علمی مسلّمات کی روشنی میں اسلامی عقیدے کا از سرِ نو اظہار۔
22 اکتوبر 2009 کی شام کو مولانا محمد شاہد خان ندوی اپنی اہلیہ کے ساتھ ہوٹل میں ملاقات کے لیے آئے۔ میںنے ان لوگوں سے کہا کہ آپ ہماری چھ کتابیں ضرور پڑھئے —خاتونِ اسلام، عورت معمارِ انسانیت، رازِ حیات، تعمیر ِ حیات، رہنمائے حیات، کتابِ زندگی۔ اس کے بعد میں نے دونوں سے کہا کہ عورت صرف گھر کی رفیقہ نہیںہے، بلکہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین انٹلکچول پارٹنر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ دونوں شعوری طورپر اِس کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں۔ دونوں بہت دیر تک ہوٹل میں ہمارے پاس رہے۔ ان سے دعوت الی اللہ کے موضوع پر بھی بات ہوئی۔
22 اکتوبر2009 کی شام کو قطر سے دہلی کے لیے واپسی ہوئی۔ ہوٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ قطر ائر پورٹ پہنچے۔ یہاں انتظار کے طورپر کچھ دیر ائر پورٹ کے لاؤنج میںہمارا قیام تھا۔ یہ لاؤنج محل کے انداز میں بنایا گیا ہے۔ دیگر سہولیات کے علاوہ، یہاں کھانے پینے کا بھی اعلیٰ انتظام تھا۔ لیکن اس کی ایک چیز میرے لیے پریشان کن تھی۔ یہ لاؤنج مکمل طورپر ائر کنڈیشنڈ تھا۔ ائر کنڈیشننگ میرے ذوق کے مطابق نہیں۔ لاؤنج کے باہر لان میں بیٹھنا ممکن تھا، لیکن انتظار کی مجبوری کی بنا پر ہمیں اِسی لاؤنج کے اندر ٹھیرنا پڑا۔
ائرپورٹ کے لاؤنج میں ایک خاص شخص سے ملاقات ہوئی۔ یہ حسن ادریسی الحمادی تھے۔ وہ ابو ظبی (امارات) میں منسٹر آف پریسیڈنشیل ایگزیکٹیو سکریٹری ہیں۔ میرے ساتھیوں نے ان کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ لاؤنج میں مزید کئی ٹاپ کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ ہمارے ساتھیوں نے سب کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیا۔
دورانِ پرواز قطر ائر لائنز کے میگزین بازار (Harper’s) کا شمارہ اکتوبر 2009 دیکھا۔ 300 صفحے کے اِس میگزین میں تقریباً تمام آئٹم فیشن سے تعلق رکھتے تھے۔ میگزین کے صفحہ 250 پر ایک لگزری رزورٹ (The Body Holiday) کا اشتہار اِن الفاظ میں چھپا تھا:
Give us your body for a week, And we will give you back your mind.
اِس عنوان کے تحت ساحل پر تفریحی پر وگرام کی تفصیل تھی۔ اس کے آخر میں یہ الفاظ درج تھے:
You are guaranteed a remarkable experience in the persuit of health and well being.
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اِس زمانے میں دماغ (mind) کو بھی جسم (body) کے ماتحت بنا دیا گیا ہے۔ جدید کلچر میں یہ ذہن بنا دیا جاتا ہے کہ وہ جسم ہی کو سب کچھ سمجھے۔ چناں چہ اِس زمانے میں پرسنالٹی ڈیولپ مینٹ (personality development) کا مطلب ہوتا ہے: فزیکل ڈیولپ مینٹ یا باڈی ڈیولپ مینٹ (physical development or body development)، ذہنی یا روحانی ارتقا (spiritual development) کا تصور جدید کلچر میں موجود نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جدید انسان اِس ارشادِ خداوندی کا کامل مصداق بنا ہوا ہے: یتمتّعون ویأکلون کما تأکل الأنعام (محمد: 12 )
23 اکتوبر 2009 کی صبح کو تین بجے ہمارے جہاز نے دہلی ائرپورٹ پر لینڈنگ کی۔ یہ تین گھنٹے کی ایک اسموتھ فلائٹ (smooth flight) تھی ۔ ائر پورٹ کی ضروری کارروائیوں سے فارغ ہو کر ہم لوگ باہر آئے۔ ائرپورٹ کے باہر ہمارے ڈرائیور پیشگی طورپر موجود تھے۔ پہلے زمانے میں ائرپورٹ پر اترنے کے بعد ڈرائیور کو پانا ایک مشکل کام ہوتا تھا، لیکن اب موبائل کی ایجاد نے اِس مسئلے کو بالکل آسان بنا دیا ہے۔ ائرپورٹ کے باہر ہمارے ڈرائیور پیشگی طورپر موجود تھے۔ ائر پورٹ پر اترکر آپ اپنے ڈرائیور کو بتا دیجئے اور باہر نکلتے ہی آپ اس کو گیٹ پر موجود پائیں گے۔ یہ سہولت بھی اُن بے شمار انعاماتِ الٰہیہ میں سے ہے جس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیاگیا ہے: واٰتاکم من کل ماسألتموہ (إبراہیم: 34 )۔
ائرپورٹ سے روانہ ہو کر بذریعہ کار ہم لوگ نظام الدین (ویسٹ) پہنچ گئے۔ دہلی سے قطر کا یہ سفر میرے لیے ایک خواب کی مانند تھا، ایک ایسا خواب جو دہلی سے شروع ہوا اور پھر دہلی پر ختم ہوگیا۔ سفر کے دوران جو کچھ پیش آیا، وہ گویا کہ کسی پر اسرار خارجی طاقت کے ذریعے پیش آیا۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس پورے سفر میں میری حیثیت صرف ایک معمول کی تھی، نہ کہ عامل کی۔
(یہ سفر نامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیاگیا)۔
واپس اوپر جائیں