Pages

Friday 1 December 2006

Al Risala | December 2006 (الرسالہ،دسمبر)

2

- مسلم تاریخ ایک جائزہ

8

- انسان کی دریافت

19

- مذہب اور سائنس

26

- نقطۂ آغاز

31

- رمضان اور جنگ

34

- احساس محرومی کیوں

37

- خبرنامہ الرسالہ ۱۷۷


مسلم تاریخ ایک جائزہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ۵۷۰ عیسوی میں پیدا ہوئے۔ آپ پر پہلی وحی ۶۱۰ عیسوی میں نازل ہوئی۔ یہی وہ سال ہے جب کہ اسلام کا آغاز ہوا۔ مبصرین کا اِس پر اتفاق ہے کہ آغاز کے بعد جس طرح اسلام کی عالمی توسیع ہوئی، وہ انسانی تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ تھا۔ مثال کے طور پر انڈیا کے ایک بنگالی اسکالر ایم این رائے (وفات ۱۹۵۴) کی ایک کتاب دہلی (اَجنتا پبلکیشنز) سے پہلی بار ۱۹۳۹ میں چھپی۔ اس کتاب کا نام یہ تھا:
The Historical Role of Islam
اِس کتاب میں مصنف نے اسلام کے اِس تاریخی پہلو کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ— اسلام کی توسیع تمام معجزات میں سب سے بڑا معجزاتی واقعہ ہے:
The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles (p. 4)
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آغاز کے بعد اسلام اور اہلِ اسلام کو بہت کم مدّت میں عالمی غلبہ حاصل ہوگیا۔ یہ غلبہ تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ اِس واقعے کو بیان کرتے ہوئے ایک شاعر نے بجا طور پر کہا ہے:
ہمیںچھائے ہوئے تھے شرق سے تا غرب دنیا میں نہ تھا پَلّہ کسی ملّت کا دنیا میں گراں ہم سے
اسلام کی یہ توسیع رومن ایمپائر اور برٹش ایمپائر کی طرح محض ایک سیاسی توسیع نہ تھی، توسیع کا یہ معاملہ مکمل طورپر ایک خدائی معاملہ تھا، وہ ایک خدائی منصوبے کے تحت پیش آیا۔ چنانچہ وہ اس خدائی منصوبے کی تکمیل تک باقی رہا، اور جب یہ منصوبہ مکمل ہو گیا اور اس کی براہِ راست ضرورت نہ رہی تو مسلمانوں کا پورا سیاسی محل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا۔
اس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی اِس آیت پر غور کیجئے: إنّا نحن نزّلنا الذکر وإنّا لہ لحافظون (الحجر۹) یعنی وہ خدا ہے جس نے اِس قرآن کو اتارا اور خدا ہی یقینی طورپر اس کی حفاظت کرے گا۔
اِس قرآنی آیت کا پس منظر یہ ہے کہ انسانوں کی رہنمائی کے لیے خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے بار بار اپنا کلام اُتارا ، مگر یہ خدائی کلام تاریخ میں محفوظ نہ رہ سکا۔ خدا نے پیغمبر آخر الزماں کے ذریعے انسان کی اِس محرومی کو ختم کرنا چاہااور یہ فیصلہ فرمایا کہ قرآن آخری خدا ئی کلام کے طورپر محفوظ ہوجائے تاکہ اس کے بعد دوبارہ کوئی پیغمبر اور کوئی کتاب بھیجنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔
سنت اللہ کے مطابق، یہ کام معجزاتی طورپر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ چنانچہ اِس مقصد کے لیے ملکِ عرب میں ایک لمبی منصوبہ بندی کی گئی۔ اِس منصوبے کا آغازاُس وقت ہوا جب کہ چار ہزار سال پہلے ہاجرہ کو اپنے چھوٹے بچے اسماعیل کے ساتھ مکّہ کے صحرا میںآباد کردیاگیا۔ اُس کے بعد ڈھائی ہزار سالہ تاریخی عمل کے نتیجے میں وہ ٹیم بنی جس کو ایک مستشرق اسکالر نے ہیروؤں کی قوم (a nation of heroes) کہا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس گروہ کے اندر پیدا ہوئے۔ آپ پر قرآن اتارا گیا۔ آپ نے قرآن کی بنیاد پر تحریک چلائی۔ اِس قرآنی تحریک کی بنیاد پر انسانوں کی ایک جماعت بنی، پھر ایک غیر معمولی جدوجہد کے ذریعے اسلامی اقتدار کا وہ نظام بنا جس کو خلافت کا نظام کہاجاتا ہے۔
زمین کے تقریباً تمام آباد حصے براہِ راست یا بالواسطہ طورپر خلافت کے اِس نظام کے زیرِ اثر آگیے۔ خلافت کا یہ تصور خود قرآن سے اخذ کیا گیا تھا، کیوں کہ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ایمان اور عملِ صالح کی صفات سے متصف ہوں گے، ان کو خدا زمین میں خلافت عطا فرمائے گا (النور ۵۵)
اب فطری طورپر ایسا ہوا کہ قرآن کا تصور اِس نظامِ خلافت کی اساس بن گیا۔ یہ قرآن سے اخذ کردہ تصور، نظامِ خلافت کے قیام کے لیے وجہِ جواز فراہم کرتاتھا۔ یہ قرآن کا تصور تھا جس پر عقیدہ رکھنے والوں کی حمایت، یا مین ڈیٹ (mandate) کے ذریعے کوئی خلیفہ اقتدار کی سیٹ پر بیٹھتا تھا۔ اِسی کی ایک علامت وہ چیز تھی جس کو بیعت کہاجاتا ہے۔
قرآن کی اس حیثیت کا نتیجہ یہ ہوا کہ قرآن کے اندر ایک سیاسی اہمیت، یا سیاسی قدر (political value) پیدا ہوئی۔ اب قرآن، خلافت کے تصور کے تحت قائم شدہ سیاسی ادارے کا اپنا انٹر سٹ بن گیا۔ اب خود سیاسی اقتدار کے لیے ضروری ہوگیا کہ وہ قرآن کا سرپرست بن کر اس کی مسلسل حفاظت کرتا رہے۔ قرآن کے محفوظیت ، سیاسی ادارے کی محفوظیت تھی اور قرآن کا غیر محفوظ ہونا یہ معنی رکھتا تھا کہ خود سیاسی ادارہ بھی غیر محفوظ ہوجائے۔
قدیم زمانے کے سماج میں صرف سیاسی ادارہ ہی واحد طاقت ور ادارہ ہوا کرتا تھا۔ اُس زمانے میں کوئی بھی دوسرا ادارہ نہیں ہوتا تھا جو کوئی مؤثر سماجی رول ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو۔ قرآن سے پہلے جو کتابیں آئیں وہ قدیم روایتی دور میں آئیں۔ اِن کتابوں میں سے کسی کتاب کی حمایت میں سیاسی ادارے کا زور شامل نہ ہوسکا۔ عالمِ اسباب کے لحاظ سے یہی سبب تھا جس کی بنا پر قدیم کتابیں محفوظ نہ رہ سکیں۔
قرآن کے ساتھ استثنائی طورپر ایساہوا کہ اس کی حفاظت کے لیے مسلسل طورپر سیاسی ادارے کی طاقت حاصل رہی۔ عالمِ اسباب کے اعتبار سے یہی سب سے بڑی وجہ ہے جس کی بنا پر قرآن استثنائی طورپر ایک محفوظ کتاب بن گیا۔اسی کا ایک مظہر یہ تھا کہ حکمراں طبقے کے افراد بھی قرآن کو حفظ کرنے اور قرآن کی کتابت کرنے کو اپنے لیے فخر کی چیز سمجھتے تھے۔
قرآن کی حفاظت کا یہ سیاسی انتظام آغازِ اسلام کے بعد تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا۔ یہ نظام صرف اُس وقت ختم ہوا جب کہ دنیا میں پرنٹنگ پریس کا زمانہ آگیا۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد نے قرآن کی حفاظت کے لیے سیاسی اقتدار کی اہمیت ختم کردی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ قرآن کا ہر نسخہ الگ الگ تیار کرنا پڑتا تھا، مگر پرنٹنگ پریس نے اِس بات کو ممکن بنادیا کہ قرآن کی ایک کاپی نہایت صحیح طورپر لکھ کر تیار کی جائے اور پھر چھاپ کر اس سے ملین اور بلین کاپیاں تیار کر لی جائیں۔ اِس زمانی تغیرنے قرآن کی حفاظت کو سیاسی دائرے سے نکال کر صنعتی دَور میں پہنچا دیا۔ اِس تبدیلی کے بعد یہ ناممکن ہوگیا کہ کوئی مخالف قوّت، قرآن کو ایک غیر محفوظ کتاب بنا سکے۔
پرنٹنگ پریس کے ظہور کے ساتھ نَو آبادیاتی دَور (colonialism) کا بھی ظہور ہوا۔ اِس نَو آبادیاتی دَور نے خلافت، یا مسلمانوں کی سیاسی بالا دستی کا خاتمہ کردیا۔ اُنیسویں صدی عیسوی میں خلافت کا یہ محل تاش کے پتّوں کی طرح بکھر گیا۔ اس کے بعد سے مسلمان تمام دنیا میں کسی نہ کسی عنوان سے احیائِ خلافت کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر انھیں اِس معاملے میں ایک فیصد کے بقدر بھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ راقم الحروف کے تجزیے کے مطابق، نظامِ خلافت کا انہدام اتفاقی نہیں تھا، اور نہ وہ کسی کی سازش کے تحت انجام پایا۔ یہ واقعہ مکمل طورپر خدا کی منصوبہ بندی کے تحت تھا۔ مسلمانوں کے ہزار سالہ سیاسی اقتدار کا اصل مقصدصرف ایک تھا، اور وہ ہے قرآن کی حفاظت۔ بقیہ چیزیں جو اِس مدت میں مسلمانوں کو حاصل ہوئیں، وہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے ضمنی تھیں۔ قرآن کی حفاظت جب تک سیاسی اقتدار پر منحصر تھی، اُس وقت تک مسلمانوں کو سیاسی اقتدار حاصل رہا، اور جب اِس حفاظت کی ذمّے داری پرنٹنگ پریس نے لے لی تو اب سیاسی اقتدار نے اپنی اہمیت کھودی۔ چنانچہ خدا نے اُس سے اپنی مدد واپس لے لی۔ یہی اصل سبب ہے جس کی بنا پر مسلمانوں کا سیاسی اقتدار اپنی قدیم شکل میں باقی نہ رہا۔
خلافت کے سیاسی اقتدار کے ٹوٹنے کا ایک اورپہلو بھی تھا۔ اصل یہ ہے کہ آغازِ اسلام کے بعد ہزار سال تک جو سیاسی اقتدار قائم تھا، وہ روایتی دور میں قائم ہوا تھا۔ اس روایتی دور کی نسبت سے اسلامی فکر اور اسلامی عمل کا ایک ماڈل بن گیا تھا۔ اِس ماڈل کی تشکیل روایتی ماحول میں ہوئی تھی۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک عارضی ماڈل تھا، مگر وہ لمبی مدّت تک باقی رہا۔ اِس بنا پر شعوری یا غیر شعوری طورپر عوام اور خواص دونوں نے یہ سمجھ لیا کہ یہی ماڈل اسلام کا حقیقی ماڈل ہے۔ حالاں کہ اس کے حق میں قرآن اور حدیث میں کوئی بنیاد موجود نہ تھی۔
مغربی نو آبادیات کا دَور اپنے ساتھ سائنسی انقلاب کا دور لے آیا تھا۔جدید سا ئنسی حالات نے قدیم روایتی نظام کو آج کے لیے مکمل طورپر غیر متعلق (irrelevant) بنا دیا تھا۔ ماقبل سائنس دَور(pre-scientific era) میں بننے والا ماڈل اب مابعد سائنس دور (post-scientific era) میں کار آمد نہیں رہا تھا۔ ضرورت تھی کہ اب اس کی نئی تشکیل کی جائے اور روایتی فریم ورک میں بننے والے ماڈل کی جگہ سائنسی فریم ورک میں نیا ماڈل بناجائے۔
قُرونِ وسطیٰ کے مسلمان اپنے عمل سے ثابت کررہے تھے کہ وہ تشکیلِ نَوکے اِس کام کے لیے بالکل نااہل ہیں۔ اِس طرح مسلمان عملاً اسلام کی راہ میں ایک رُکاوٹ بن گیے۔ وہ اسلام کو دَور جدید میں داخل کرنے کے لیے نااہل ثابت ہوئے۔
یہی وہ موقع تھا جب کہ خدا نے انیسویں صدی عیسوی میں مغربی قوموں کو یہ موقع دیا کہ وہ روایتی دور میں بنے ہوئے مسلمانوں کے قدیم ڈھانچے کو توڑ دیں اور اسلامی فکر اور اسلامی عمل کا نیا ڈھانچہ بنانے کی راہ ہموار کریں۔
مگر پچھلے دو سوسال کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمان اِس منصوبۂ الٰہی کو سمجھ نہ سکے۔ مسلمانوں کی تمام طاقت پچھلے دو سو سال سے اِس بے نتیجہ کام میں لگی ہوئی ہے کہ وہ قدیم کھنڈر کی اینٹوں کو اکھٹا کرکے دوبارہ قدیم روایتی انداز کا ڈھانچہ کھڑا کریں، مگر ایسا کرنا غیر مفید بھی ہے اور غیر ممکن بھی۔ اس لیے وہ کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔ پچھلے دو سو سال کی ناکام کوشش اِس کے ثبوت کے لیے کافی ہے۔
مسلمان پچھلے دوسو سال سے سیاسی اقتدار کی بازیابی کے لیے لڑ رہے ہیں، مگر وہ اپنے اِس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ یہ اِس بات کا اشارہ ہے کہ اسلام میں سیاسی اقتدار کی وہ اہمیت ہی نہیں جو مسلم رہنماؤں نے بطور خود سمجھ لیا تھا۔ قدیم زمانے میں مسلمانوں کو طویل مدّت تک سیاسی اقتدار اس لیے ملاکیوں کہ قدیم زمانے میں آخری کلامِ الٰہی (قرآن) کی کامل حفاظت کے لیے سیاسی اقتدار کی حمایت ضروری تھی۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد خود پرنٹنگ پریس قرآن کی حفاظت کا ضامن بن گیا، اس کے بعد سیاسی اقتدار کی حیثیت اِس پہلو سے ایک اضافی (relative)چیز بن گئی۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ سیاسی اقتدار کے حق میں خدا کی خصوصی حمایت باقی نہ رہی۔
اب سیاسی اقتدار کا معاملہ اُسی طرح صرف مسابقت کا معاملہ ہے، جس طرح اقتصادیات کا معاملہ مسابقت کا معاملہ۔ تاریخ میں اِس تبدیلی کے بعد اب ایسا ہونے والانہیں کہ سیاسی اقتدار کے قیام و بقا کے لیے مسلمانوں کو خصوصی خدائی مدد ملے۔ اب اِس پہلو سے مسلمانوں کا معاملہ دوسری قوموں جیسا ہے۔ اب مسلمانوں کا معاملہ بھی دوسری قوموں کی طرح اسباب و علل کے تحت ہے۔ جو قوم بھی اسباب و علل کے اعتبار سے اپنے کو اہل ثابت کرے گی وہی سیاسی اقتدار کی مالک ہوگی۔
اب قانونِ فطرت کے تحت، مسلمانوں کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ اقتدار کی لڑائی لڑنا چھوڑ دیں، وہ اُس نیے امکان سے فائدہ اٹھائیں جس کو موجودہ زمانے میں اداراتی دَور(institutionalization) کہاجاتا ہے۔ یہ نیا امکان قدیم دَور سے بھی زیادہ بڑا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ پہلے جس طرح سیاسی اقتدار کو قائم کرنے کے لیے وہ اپنی ساری طاقت لگا دیتے تھے، اُسی طرح اب وہ مختلف غیر سیاسی شعبوں میںادارہ بنانے میں اپنی ساری طاقت لگا دیں ۔ مثلاً تعلیم، دعوت، سماجیات، صحافت، پبلشنگ، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
موجودہ زمانے کے مسلمان اگر اِس جدید تقاضے کو سمجھیں اور اداراتی تنظیم کے میدان میں پُرامن طورپر سرگرم ہوجائیں تو وہ غیر سیاسی میدان میں زیادہ بڑے پیمانے پر اُس مقصد کو حاصل کرلیں گے، جس کو وہ سیاسی میدان میں صرف ناکام طورپر حاصل کرنے کی کوشش کررہے تھے اور جس میں انھیں یک طرفہ تباہی کے سوا اور کچھ حاصل نہ ہوسکا۔
واپس اوپر جائیں

انسان کی دریافت

ایک فلسفی نے کہا ہے کہ—انسان کی تاریخ اندھیرے میں بھٹکنے کی تاریخ ہے۔ یہ تبصرہ بالکل درست ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان پوری تاریخ میں بے خبری کے اندھیروں میں بھٹکتا رہا ہے۔ انسان کی اِس بے خبری کو تین عنوان کے تحت بیان کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ آئڈیل ازم(Idealism)
۲۔ بہیویر ازم(Behaviourism)
۳۔ یوٹلیٹرین ازم (Utilitarianism)
یہاں میںنے آئڈیل ازم کا لفظ اس کے کلاسکل معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، بلکہ اس کے لغوی معنی میں اس کو استعمال کیا ہے۔ انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر انسان پیدائشی طورپر اپنے اندر آئڈیل کا ایک تصور لیے ہوئے ہے، ہر انسان اس آئڈیل کو پانا چاہتا ہے۔ اِس معاملے میں عوام اور خواص کا کوئی فرق نہیں۔ عوام کی اکثریت اپنی غفلت کی بناپر آئڈیل کی تلاش کے بارے میں شعوری طورپر باخبرنہیں ہوگی، تاہم غیر شعوری طورپر اس کا کیس پوری طرح یہی ہے۔ البتہ خواص، یعنی فلسفی اور مفکر اور رفارمر سب کے سب اِس میں مبتلا رہے ہیں۔
مگر دوسری طرف تاریخ یہ بتاتی ہے کہ تمام لوگ، بلا استثناء آئڈیل کے بارے میں اپنی تلاش میںناکام رہے ۔ آئڈیل سماج، آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل ادارہ، آئڈیل نظام، یہی ہر ایک کا محبوب نشانہ رہا ہے۔ مگر واقعات بتاتے ہیں کہ ہر ایک اپنے نشانے کو پورا کرنے میں ناکام رہا، اور آخر کار وہ مایوسی کے عالم میں مرگیا۔
۱ — قدیم یونان کا مشہور فلسفی افلاطون(Plato) ۴۲۷ قبل مسیح میں پیدا ہوا، اور ۳۴۷ قبل مسیح میں اس کی وفات ہوئی۔ اس نے سُقراط (Socrates) سے تعلیم و تربیت حاصل کی تھی۔ مشہور فلسفی ارسطو(Aristotle) اس کا شاگرد تھا۔ افلاطون کو اپنے زمانے میں اتنا بڑا درجہ ملا کہ وہ اُس زمانے کے شاہی خاندان کامعلم بن گیا۔ لیکن اس کی سوانح عمری میںہمیں یہ الفاظ لکھے ہوئے ملتے ہیں کہ— وہ ایک مایوس انسان کی طرح مرا:
He died as a disappointed person.
ایسا کیوں ہوا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ افلاطون نے یونان میں آئڈیل اسٹیٹ قائم کرنے کو اپنا مقصد بنایا۔ اس نے اِس موضوع پر کتاب لکھی۔ اس نے وقت کے شاہی خاندان کی اپنے آئڈیل نظریے کے مطابق، تعلیم و تربیت کی۔ اُس کے نزدیک اس کا آئڈیل اسٹیٹ اتنا کامل تھا کہ اس نے اِس موضوع پر اپنی کتاب میں سزا (punishment) کا قانون شامل نہیںکیا۔
مگر عملاً یہ ہوا کہ اس کا آئڈیل اسٹیٹ سرے سے قائم ہی نہ ہوسکا، نہ کسی شہر میں اور نہ پورے ملک میں۔ آخر کار وہ سخت مایوسی میں مبتلا ہوا، اور اِسی مایوسی کے عالم میں حسرت کے ساتھ مر گیا۔
یہی انجام، بلا استثناء ہر فلسفی اور ہر مفکر اور ہر رفارمر کا ہوا ہے۔ ہر ایک نے اپنے ذہن میںایک آئڈیل دنیا بنانے کا خواب دیکھا۔ مگر کوئی بھی شخص اپنی آئڈیل دنیا نہ بنا سکا۔ آپ کسی بھی مشہور آدمی کی سوانح عمری پڑھیے تو آخر میں ہر ایک کے بارے میں یہ لکھا ہوا ملے گا کہ وہ اپنے نشانے کو پانے میں ناکام رہا اور آخر کار مایوسی کے عامل میں مرگیا—روسو، مارکس، ڈارون، جان آسٹن، لارڈ کرزن، وغیرہ ہر ایک کا خاتمہ محرومی کے احساس کے ساتھ ہوا۔
انسان کی اِس عمومی ناکامی کا سبب یہ تھا کہ ہر ایک نے یہ غلطی کی کہ اس نے خدا کی تخلیقی اسکیم (creation plan) کو سمجھے بغیر خود اپنے ذہن سے اپنا ایک آئڈیل نقشہ بنایااور وہ اس کو حاصل کرنے کے لیے دوڑ پڑا۔ حالاں کہ خالق کے تخلیقی پلان کو سمجھے بغیر اِس قسم کی کوشش سراسر عبث تھی۔ ایسی کوشش کبھی اِس دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اسی ناکام تجربے کی بنا پر لوگوں میںعمومی طورپر وہ تصور رائج ہوگیا جس کو ایک جملے میں اِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ— آئڈیل کبھی حاصل نہیں ہوسکتا:
Ideal can't be achieved.
مگر حقیقتِ واقعہ کے اعتبارسے یہ قول درست نہیں۔ انسان کے دماغ میں جو آئڈیل بسا ہوا ہے وہ یقینی طورپر قابلِ حصول ہے، مگر موت سے پہلے کی دنیا میں نہیںبلکہ موت کے بعد کی دنیا میں۔ خالق کے تخلیقی پلان کے مطابق، یہ آئڈیل دنیا جنت ہے، اور وہ مستحق افراد کو صرف موت کے بعد کی زندگی میں حاصل ہوگی۔ انسان کی غلطی یہ ہے کہ وہ آئڈیل دنیا کو موت سے پہلے کی زندگی میں پانا چاہتا ہے۔ حالاں کہ خدا کے تخلیقی منصوبے کے مطابق، یہ آئڈیل دنیا صرف موت کے بعد کی زندگی میں حاصل ہونے والی ہے۔
خدا کے تخلیقی پلان سے اِس بے خبری کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر انسان کا یہ کیس بن گیا کہ وہ امید کے ساتھ اپنی زندگی کا آغاز کرے اور محرومی کا احساس لے کر مرجائے۔ حالاں کہ اگر وہ خدا کے تخلیقی پلان کو جانے اور اس کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے موت سے قبل کی زندگی میں بھی امید ہے اور موت کے بعد کی زندگی میں بھی امید۔ ایسا آدمی فطری طورپر کبھی ذہنی تناؤ(tension) میں مبتلا نہیںہوگا اور وہ اِس المیے سے بھی بچ جائے گا کہ محرومی کے احساس پر اس کا خاتمہ ہو۔
تاریخ میں بہت سے مفکر اور رفارمر گذرے ہیں جو یہ چاہتے تھے کہ موجودہ دنیا میں آئڈیل اسٹیٹ، آئڈیل نظام، آئڈیل سماج، آئڈیل ادارہ بنے، مگر بلا استثنا ہر ایک اپنے مقصد میںناکام رہا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موت سے پہلے کی یہ موجودہ دنیا اِس مقصد کے لیے بنائی ہی نہیں گئی۔
اصل یہ ہے کہ خالق نے اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، ہر انسان کو مکمل آزادی دی ہے۔ اِس دنیا میں ایسا کوئی میکانزم نہیں جو لوگوں کو مجبور کرے کہ وہ اپنی آزادی کاغلط استعمال نہ کریں۔ چنانچہ پوری تاریخ میں ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ افراد نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے پورے نظام کو غلط رُخ پر ڈال دیا اور ابتدائی مُصلح کے پورے نقشے کو تباہ کرڈالا۔
فلسفی افلاطون نے اپنے زمانے کے بادشاہ سکندر اعظم(Alexander the Great) کو شہزادگی کے زمانے میں تربیت دے کر تیار کیا کہ وہ افلاطون کے آئڈیل اسٹیٹ کو قائم کرے۔ لیکن سکندر اعظم جب بڑا ہوا تو اس نے افلاطون کی تعلیم کو چھوڑ کر اپنی پسند کا راستہ اختیار کر لیا۔ جرمن فلسفی کارل مارکس (وفات ۱۸۸۳) کے اقتصادی نظریات کی بنیاد پر کمیونسٹ پارٹی بنی۔ لینن اور اسٹالن کی قیادت کے تحت، کمیونسٹ پارٹی کی حکومت بھی زمین کے بڑے رقبے پر قائم ہوگئی۔ لیکن یہ حکومت مکمل طورپر ناکام رہی۔ کمیونسٹ لیڈر ٹراٹسکی (Trotsky leon) نے کمیونسٹ نظام کی اِس ناکامی کو خود کمیونسٹ لیڈروں کی غدّاری کا نتیجہ قرار دیا ہے۔ اِس موضوع پر ٹراٹسکی نے ایک کتاب شائع کی جس کا ٹائٹل یہ تھا: Revolution — Betrayed
جرمن سائنس داں آئن سٹائن(Albert Einstein) نے جوہری توانائی (atomic energy)کو دریافت کیا۔اِس دریافت میں عظیم مثبت فائدہ چھپا ہوا تھا، لیکن پولٹکل لیڈروں نے جوہری توانائی کی دریافت کو لے کر ایٹم بم بنا ڈالا اور ساری دنیا میں جنگی تیاری کا جنون پیدا کردیا۔
انڈیا کے لیڈر مہاتما گاندھی نے زبردست جدوجہد کے ذریعے انڈیا کوانگریزوں سے آزاد کرایا۔ان کا نظریہ یہ تھا کہ آزادی کے بعد انڈیا میں ایسا سماج بنایا جائے گا جوانسانی خدمت اور سیوا پر مبنی ہوگا۔ اِس مقصد کے لیے انھوںنے ایک ماڈل بستی کے طور پر مہاراشٹر میں ’’سیوا گرام‘‘بنایا۔ مگر آزادی کے بعد مہاتما گاندھی کے تمام ساتھی، سیوا کے نظریے کو چھوڑ کر سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی طرف دوڑ پڑے۔ انھوں نے گاندھی کی نصیحتوں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا۔ چنانچہ اِس منظر کو دیکھ کر مہاتما گاندھی نے کہا—اب میری کون سنے گا
اِس قسم کے واقعات تمام مصلحین کے ساتھ پیش آئے۔ اِن تمام واقعات کا مشترک سبب یہ تھا کہ انسان نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کرکے ہر اصلاحی اسکیم کو تہہ وبالا کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ کبھی بھی کوئی اصلاحی اسکیم اپنے مطلوب معیاری معنوں کامیاب نہ ہوسکی۔
۲ — انسان کا دوسرا المیہ یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے تحت، ہر انسان کنڈیشننگ کا کیس ہے۔ اِس بنا پر ہر انسان درست سوچ (right thinking) سے محروم رہتاہے۔ وہ کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ جیتا ہے اور کنڈیشنڈ شخصیت کے ساتھ ہی مرجاتا ہے۔ اپنی عدم واقفیت کی بنا پر اس کو کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیںہوتی کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ ہر آدمی اپنی سوچ اور اپنے جذبات کے اعتبارسے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے، مگر اپنی بے خبر کی بنا پر وہ اِسی مصنوعی شخصیت کو اصل شخصیت سمجھ لیتا ہے۔
بیسویں صدی کے آغاز میں پہلی بار انسان نے کنڈیشننگ کے اِس معاملے کو جانا۔ امریکا کے پروفیسر جے بی واٹسَن (John Broadus Watson)نے لمبی تحقیق کے بعد ۱۹۲۵ میں اپنی کتاب بہیویر ازم(Behaviourism) شائع کی۔ اِسی کتاب کے نام پر نفسیات میں بہیویر سٹ اسکول(Behaviourist School) قائم ہوا، جو اتنا عام ہوا کہ عرصے تک دنیا کی تمام یونیورسٹیوں میں وہ علم النفس کے نصاب کے طورپر پڑھایا جاتا رہا۔
لیکن پروفیسر واٹسن کی یہ دریافت صرف ایک ادھوری دریافت تھی۔ اِس دریافت کے مطابق، کنڈیشنڈ انسان ہی اصل انسان تھا۔ اِس نفسیاتی اسکول میں یہ مان لیاگیا کہ جو چیز انسان کی شخصیت کی تشکیل کرتی ہے وہ اس کا پیدائشی نیچر نہیں ہے، بلکہ وہ بعد از پیدائش اس کے ماحول کا نرچر (nurture) ہے،مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ کنڈیشننگ کا یہ معاملہ انسان کے لیے ایک امتحان ہے۔ ہر انسان کو اپنی تعمیرشخصیت کے لیے یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے کنڈیشنڈ مائنڈ کی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ قدرت نے پیاز کی صورت میں اِس معاملے کا ایک نمونہ انسان کے لیے رکھ دیا ہے ۔ جیسا کہ معلوم ہے، پیاز میں ایک کے بعد ایک پرتیں(layers) ہوتی ہیں۔ اِن پرتوں کو ہٹایا جائے تو آخر کار اس کا اصل مغز سامنے آجائے گا۔
ایسا ہی معاملہ انسان کا ہے۔ انسان کی اصل شخصیت وہ ہے جو فطرت کی طرف سے اس کو پیدائشی طورپر ملتی ہے، پھر خارجی ماحول سے اس کے اوپر کنڈیشننگ کی پرت چڑھتی رہتی ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ باشعور ہونے کے بعد اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے وہ ان خارجی پرتوں کو ہٹائے، یہاں تک کہ فطری انسان سامنے آجائے۔
ہر انسان پیدائشی طور پر مسٹر نیچر ہے، لیکن ماحول کے اثر سے وہ مسٹر کنڈیشنڈ بن جاتا ہے۔ ایسا خدا کے تخلیقی نظام کے تحت ہوتا ہے۔ انسان کو خدا نے شعور اور آزادی کی صلاحیت بخشی ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اپنے شعوری فیصلے کے تحت، اپنی ڈی کنڈیشننگ کرے۔ وہ اپنے آپ کو دوبارہ انسانِ فطری (Mr. Nature) بنائے۔ یہی انسان کا امتحان ہے، اور اِس امتحان میں کامیاب ہونے والوں ہی کے لیے خدا نے اپنے ابدی انعامات کا اعلان کیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کی کنڈیشننگ ہوتی ہے، مگر پوری معلوم تاریخ میں ڈی کنڈیشننگ کا نظریہ کبھی موجود نہیں رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانونِ فطرت کے تحت، ہر زمانے میں لوگوں کی کنڈیشننگ ہوتی رہی، لیکن عدم واقفیت کی بنا پر وہ اپنی ڈی کنڈیشننگ نہ کرسکے۔ ایسی حالت میں محفوظ طورپر کہا جاسکتا ہے کہ پوری تاریخ ایسے افراد سے خالی ہے جو اپنی ڈی کنڈیشننگ کرکے اپنے آپ کو مسٹر نیچر بنا سکے ہوں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ تاریخ کے تمام مفکرین اور فلاسفہ اپنے اصلاحی یا فکری کردار کو ادا کرنے کے لیے نااہل تھے۔ وہ اِس مقصد کے لیے تیار ذہن (prepared mind) کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
تمام فکری نظاموں میں اسلام اِس معاملے میں ایک استثناکی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں سے ایک بنیادی تعلیم وہ ہے جس کو تزکیہ(purification) کہاجاتا ہے۔ تزکیہ کسی پُراسرار چیز کا نام نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تزکیہ اُسی عمل کا نام ہے جس کے لیے ہم نے ڈی کنڈیشننگ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ تزکیہ سے مراد یہ ہے کہ آدمی اپنا محاسبہ(introspection) کرے۔ وہ اپنی فکری اور نظریاتی غلطیوں کو ڈھونڈ کر نکالے اور ان کی اصلاح کرے۔ یہ عمل تمام تر ایک ذہنی عمل ہے۔ آدمی بے لاگ طورپر اپنے اوپر نظر ثانی کرتا ہے۔ یہ عمل مسلسل طورپر ساری عمر جاری رہتا ہے۔ اِس طرح آدمی تزکیہ کے عمل کے ذریعے اپنی اصلاح کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ایک مزکّٰی اور مطہّر شخصیت (purified personality)بن جاتا ہے۔
موجودہ زمانے میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کے لفظ کو ڈی اسٹریسنگ (de-stressing) کے ہم معنیٰ لفظ کے طورپر استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس استعمال کے اعتبار سے ڈی کنڈیشننگ کا مطلب ہوتا ہے—ذہنی تناؤ کو ختم کرنا۔
مگر میرے نزدیک یہ ڈی کنڈیشننگ کے لفظ کا نادرست استعمال ہے۔ میرے نزدیک ڈی کنڈیشننگ سے مراد یہ ہے کہ پروفیسر واٹسن کے تصور کے مطابق، کنڈیشننگ کے ساتھ برعکس عمل کیا جائے۔ جس کنڈیشننگ کو پروفیسر واٹسن نے حتمی سمجھ لیا تھا، اس کو حتمی نہ سمجھتے ہوئے فکری عمل کے ذریعے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے ،اسی کانام ڈی کنڈیشننگ ہے۔ میرے علم کے مطابق، مفکرین نے اگر چہ ڈی کنڈیشننگ کو اِس مخصوص معنی میں استعمال نہیں کیا ہے، لیکن میرے نزدیک ڈی کنڈیشننگ کا صحیح ترین مفہوم یہی ہے۔
اِس موضوع پر ایک بار میری گفتگو ایک کمیونسٹ پروفیسر سے ہورہی تھی۔ انھوںنے کہا کہ ڈی کنڈیشننگ کو ہم بھی مانتے ہیں، مگر ہم اس کو ڈی کلاسنگ (de-classing) کہتے ہیں۔ میںنے کہا کہ ڈی کنڈیشننگ، اور ڈی کلاسنگ دونوں بالکل الگ الگ اصطلاحیں ہیں۔ ڈی کلاسنگ ایک سماجی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے— بے طبقاتی سماج(classless society) بنانا۔ مگر ڈی کنڈیشننگ مکمل طورپر ایک نفسیاتی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب ہے—ذہن کی فکری آلودگی کو دور کرکے ذہن کو دوبارہ خالص فطری حالت پر لے جانا۔
۳ — اِس معاملے میںتیسری چیز وہ ہے جس کو اِفادی نظریہ (Utilitarianism) کہا جاتا ہے۔ انسان ہمیشہ سے مادّی مفادات کا طالب رہا ہے۔ مگر موجودہ زمانے میں اِس تصور نے باقاعدہ فلسفے کی حیثیت اختیار کرلی ہے۔ اِسی فلسفے کو یوٹلٹیرین ازم کہاجاتا ہے۔ اِس افادی فلسفے کو پہلے برطانوی فلسفی بنتھم (Jeremy Bentham) نے پیش کیا تھا۔ بنتھم ۱۷۴۸ میں انگلینڈ میں پیدا ہوا، اور ۱۸۳۲ میںاس کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد اِس افادی فلسفے کو انیسویں صدی کے مشہور فلسفی جان اسٹوارٹ مِل (John Stuart Mill) نے، اور دوسرے فلسفیوں نے آگے بڑھایا، یہاں تک کہ عملاً یہ فلسفہ جدید دنیا کا سب سے بڑا فلسفہ بن گیا۔ آج شعوری یا غیر شعوری طورپر تمام انسان اِسی فلسفے کے تحت سوچتے ہیں اور عمل کرتے ہیں۔
یوٹلٹیرین اسکول میں بہت سے نام شمار کیے جاتے ہیں، اور ان کے درمیان بعض ظاہری اختلافات بھی ہیں، مگر عملاً یہی فلسفہ آج کی دنیا کا سب سے بڑا فلسفہ ہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر آج تمام دنیا کے لوگ اس فلسفے کو قبول کیے ہوئے ہیں۔ وہ چیز جس کو مادّیت (materialism) کہاجاتا ہے، وہ دراصل یوٹلیٹرین ازم ہی کا دوسرا نام ہے۔
یوٹلیٹرین اسکول، یامٹیریلسٹ اسکول کے مطابق، موجودہ دنیا ہی وہ جگہ ہے جہاں آدمی اپنی تمناؤں اور خواہشوں کو پورا کرسکتا ہے۔ ویبسٹر کے مطابق، اس نظریے کی سادہ تعریف یہ ہے:
The doctrine that the worth or value of anything is determined solely by its utility.
یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیز ہے جس کو عوامی زبان میںاِس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ— کھاؤ، پیو اور خوش رہو:
Eat, drink and be merry.
یہ تصور دنیا کی ہر زبان میں پایا جاتا ہے۔ اِسی تصور کو ہندستان کے شہنشاہ بابر (وفات ۱۵۳۰) نے اپنے ایک شعر میں اِس طرح بیان کیا تھا:
بابر بہ عیش کوش کہ عالَم دوبارہ نیست!
مگر پوری تاریخ کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ نشانہ قابلِ حصول نہیں ۔جیسا کہ معلوم ہے، ہر آدمی سوسال سے کم مدّت کے لیے موجودہ دنیا میں جینے کا موقع پاتا ہے۔ اِس محدود مدّت میںاس کے لیے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ اپنی آرزوؤں کے مطابق، یہاں اپنی مطلوب دنیا بنا سکے ، ایسی آرزوئیں جو کہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے لامحدود حیثیت رکھتی ہیں۔ طرح طرح کی رکاوٹیں اس کا راستہ روک دیتی ہیں۔ حادثات اور بیماری اور دوسرے ناموافق اسباب اس کے لیے اپنے منصوبے کی تکمیل میں فیصلہ کُن رکاوٹ بن جاتے ہیںاور اگر بالفرض کوئی شخص اپنی خواہشوں کا ایک محل بنا لے، تب بھی بہت جلد ایسا ہوتا ہے کہ اس کی مرضی کے بغیر موت آتی ہے اور یک طرفہ فیصلے کے تحت، اس کی خواہشوں کے محل کو ڈھا دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ فطرت کے مقرر نقشے کے مطابق، انسان کی زندگی دو دَورں میں تقسیم ہے— موت سے پہلے، اور موت کے بعد۔ موت سے پہلے کا زمانہ عمل کرنے کا زمانہ ہے اور موت کے بعد کا زمانہ اپنے عمل کے مطابق، اس کا انجام پانے کا زمانہ۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے کہ امتحان ہال، کسی اسٹوڈنٹ کے لیے ٹسٹ دینے کی جگہ ہے، اور امتحان ہال کے باہر کی دنیا جاب(job) حاصل کرنے کی دنیا۔ جو لوگ موت سے قبل کی دنیا میں اپنی تمناؤں کا محل بنانا چاہتے ہیں وہ اُس طالبِ علم کی مانند ہیں جو امتحان ہال کے اندر اپنے لیے جاب تلاش کرنے لگے، حالاں کہ ایسا ہونا کبھی ممکن نہیں۔
پہلی عالمی جنگ جب ہوئی تو اُس وقت انگریز، انڈیا کے اوپر حکومت کررہے تھے۔پہلی عالمی جنگ کے بعد انھوں نے نئی دہلی کے علاقے میں ایک شان دار دنیا تعمیر کی۔ اس میں وہ وسیع محل بھی شامل تھا جس کا نام اُس وقت ’’وائس رِگل لاج‘‘ رکھا گیا تھا، اور اب اس کو ’’راشٹرپتی بھون‘‘ کہا جاتا ہے۔ انگریزوں کا خیال تھا کہ وہ اِس شان دار دنیا میں ابدی طورپر پُر عیش زندگی گذار سکیں گے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ دوسری عالمی جنگ نے ان کے سنہرے خواب کو درہم برہم کردیا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ایک فرانسیسی مدبّر نئی دہلی آیا تھا۔ اس نے انگریزوں کی بنائی ہوئی اِس خوش نما دنیا کو دیکھا تو اس نے کہا کہ— انھوں نے کیسی شاندار دنیا بنائی، صرف اس لیے کہ ایک دن وہ اس کو چھوڑ دیں:
What a magnificent world they built to leave.
انگریزوں سے پہلے دہلی میں مغل خاندان کا راج تھا۔ ۱۸۵۷ء میں ان کی حکومت ختم ہوگئی۔ دہلی میں ان کی چھوڑی ہوئی شان دار عمارت ’’لال قلعہ‘‘ کی شکل میں موجود ہے۔ لال قلعہ کے ایک حصے میں میوزیم ہے۔ اِس میوزیم میں جو چیزیں موجود ہیں، اُن میں سے ایک وہ ٹوٹا ہوا پتھر ہے جس کے اوپر یہ فارسی شعر کَندہ ہے— آسمان کے نیچے ان کی سلطنت ہمیشہ باقی رہے:
ہمیشہ باد بہ زیرِ سپہر بُو قلموں!
اس ٹوٹے ہوئے پتھر کے ساتھ جو تشریحی عبارت لکھی ہوئی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ پتھر ایک قدیم محل میں نصب تھا۔ وہ محل اب بالکل مٹ چکا ہے۔ اس کا یہ پتھر یادگار کے طورپر لال قلعہ کے میوزیم میںرکھ دیا گیا ہے۔
یہی معاملہ پوری تاریخ میں تمام انسانوں کا ہوا ہے۔ ہر چھوٹے بڑے انسان نے اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے اپنا محل بنانے کی کوشش کی، مگر کسی کے لیے بھی اس کا محل آرزوؤں کی تکمیل کا محل نہ بن سکا۔ یہ تاریخی تجربہ بتاتا ہے کہ یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ ایک غیر فطری اور غیر واقعی نظریہ ہے۔ یہ ایک ناممکن کو حاصل کرنے کی کوشش ہے، جو موجودہ دنیا میں کبھی کسی کے لیے واقعہ نہیں بنی اور نہ آئندہ وہ کسی کے لیے واقعہ بن سکتی ہے۔
اصل یہ ہے کہ یوٹلیٹرین ازم کا نظریہ خدا کے تخلیقی نقشے کے خلاف ہے۔ خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا۔ پھر اس کی مدتِ حیات(life span) کو اس نے دو مختلف حصوں میں بانٹ دیا۔ اس کا مختصر حصہ، قبل از موت دنیا میں رکھا گیااور اس کا بقیہ تمام حصہ، بعد از موت کی زندگی میں رکھ دیا گیا ہے۔ قبل از موت کا عرصۂ حیات ٹسٹ کے لیے ہے اور بعداز موت کا عرصۂ حیات اپنی کارکردگی کے مطابق، انعام پانے کے لیے۔
یہ ٹسٹ کیا ہے۔ یہ ٹسٹ بنیادی طورپر یہ ہے کہ آدمی اختیار کے باوجود اپنے کو بے اختیار بنا لے، وہ آزادی کے باوجود اپنی آزادی کا غلط استعمال نہ کرے۔ وہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھنے کے باوجود خدا کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے۔
دنیا میں انسان کو اگرچہ کامل آزادی دی گئی ہے، لیکن اِسی کے ساتھ وہ ایک کمزور مخلوق کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثلاً وہ حادثے کا شکار ہوتا ہے، وہ بیمار ہوتا ہے، وہ بوڑھا ہوتا ہے، وہ لامحدود طور پر اپنی خواہشوں کو پورا نہیں کرپاتا۔ طرح طرح کے ناموافق حالات اس کے لیے رُکاوٹ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ آخر کار وہ بے بسی کے ساتھ مرجاتا ہے۔ یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر انسان، خواہ وہ کوئی بھی ہو، بیک وقت کمزوری اور آزادی دونوں کا مجموعہ بنا رہتا ہے۔ کوئی بھی ایسا نہیں کرپاتا کہ وہ اپنی آزادی سے اپنی کمزوری کو جدا کرسکے۔
جنت نہ صرف ابدی ہوگی بلکہ وہ ایک ایسی کامل جگہ ہوگی جہاں ہر قسم کی محدودیت (limitations) کو ختم کردیا گیا ہوگا، جہاں آدمی نہ صرف آزاد ہو بلکہ وہ اپنی ہر قسم کی آرزوؤں کو پورا کرنے کے مواقع بھی رکھتا ہو۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت کو جنت میں عظیم اقتدار (great kingdom) حاصل ہوگا (الدھر ۲۰) اسلامی تصور کے مطابق، جنت مکمل طورپر فساد سے پاک ہوگی۔ ایسی حالت میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جنت میں کوئی ایسا شخص جگہ نہیں پاسکتا جو اپنے اقتدار کو فساد کے لیے استعمال کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنت کے اِس ماحول میں صرف اُن لوگوں کو داخل کیا جائے گا جو موت سے پہلے کے عرصۂ حیات میں یہ ثابت کرچکے ہوں کہ وہ اتنے زیادہ با شعور ہیں کہ کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی انھیں اِس پر آمادہ نہیں کرسکتی کہ وہ اپنے اقتدار کو کسی معمولی درجے میں بھی فساد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے ہر لمحہ موجودرہتے ہیں جو اس کی زندگی کے ہر واقعے کو رکارڈ کرتے رہتے ہیں، خواہ وہ نیت ہو، یا قول، یا عمل۔ اس معاملے کو اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ فرشتے ہر لمحہ انسان کی نگرانی کررہے ہیں۔ اگر وہ صحیح کام کرتا ہے تو وہ اپنے رجسٹر پر اس کا حوالہ دیتے ہوئے لکھ دیتے ہیں کہ یہ شخص جنت کا مستحق ہے:
He is a deserving candidate for Paradise.
اس کے برعکس، اگر وہ دیکھتے ہیں کہ آدمی غلط کام کررہا ہے تو وہ اپنے رجسٹر میں یہ اندراج کرلیتے ہیں کہ— یہ شخص جنت میں داخلے کا استحقاق نہیں رکھتا:
He is not a deserving candidate for Paradise.
یہی تمام انسانوں کی کہانی ہے۔ ہر عورت اور مرد کا معاملہ اسی قانونِ الٰہی کے تحت ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اِس حقیقت کو ہر وقت اپنے سامنے رکھے اور دنیا میں انتہائی محتاط زندگی گذارے۔ اِس کے برعکس، وہ لوگ ناکام ہیں جو اِس حقیقت کو بھلا کر زندگی گذاریں اور نتیجۃًٌ ابدی تباہی میں مبتلا ہو کر رہ جائیں۔
واپس اوپر جائیں

مذہب اور سائنس

مذہب کیا ہے۔ مذہب زندگی کی سائنس ہے۔ اس کے مقابلے میں معروف سائنس، طبیعیات کی سائنس ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، طبیعیات کی سائنس یا فزیکل سائنس میں پچھلے پانچ سو سال کے اندر بہت ترقی ہوئی ہے، جب کہ اِس مدت میں مذہب میں کوئی ترقی نہ ہوسکی۔
مثلاً پانچ سوسال پہلے انسان سادہ قسم کی اونٹ گاڑی یا گھوڑا گاڑی پر سفر کرتا تھا، مگر پچھلے کئی سو سال کی مسلسل ترقی کے نتیجے میںاب انسان، سواری کے میدان میں بہت زیادہ ترقی کر چکا ہے—بائسکل، اسٹیم شِپ، موٹر کار، ہوائی جہاز، وغیرہ، اِس ترقی کے نمونے ہیں۔
اس کے مقابلے میں مذہب کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ مذہب پر جُمود کا عالم طاری ہے۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مذہب، پانچ سو سال پہلے جہاں تھا وہیں وہ آج بھی پایا جاتا ہے۔ مذہب میں کوئی حقیقی ترقی دکھائی نہیں دیتی۔ یہ حالت ہر مذہب کی ہے۔ اس معاملے میں کسی مذہب کا کوئی استثنا نہیں۔ طبیعیاتی ترقیوں کے سیلاب میں مذہب ایک غیر ترقی یافتہ ڈسپلن بنا ہوا ہے۔
اس کا سبب یہ ہے کہ طبیعیات کی دنیا میںپچھلے پانچ سو سال سے انکوائری(inquiry) کا عمل جاری ہے۔ ہر چیز کی تحقیق ہورہی ہے۔ ہر چیز کھلے ڈائلاگ کا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں طبیعیات کے شعبوں میں ردّوقبول کا عمل جاری ہے۔ مثلاً پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے، مگر مشاہدہ اور تحقیق کے ذریعے معلوم ہوا کہ ایسا نہیں، بلکہ سورج درمیان میں ہے اور زمین اور دوسرے سیّارے وسیع خلا میں اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ جب یہ نئی دریافت ہوئی تو اس کے فوراً بعد علما ئے فلکیات نے قدیم روایتی نظریے کو ترک کرکے جدید سائنسی نظریے کو اختیار کرلیا۔
یہی انکوائری کا عمل ترقی کا اصل سبب ہے۔ لیکن مذہب کے میدان میں انکوائری کا یہ عمل جاری نہ ہوسکا۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ مذہب کی دنیا میں جُمود آگیا۔ مذہب کا عمل ایک مقام پررُک کر رہ گیا۔
موجودہ زمانے میں مذہب کو ٹریڈیشن (tradition) کہاجاتا ہے۔ مثلاً مذہب یہودیت کو یہودی ٹریڈیشن، مذہب عیسائیت کو عیسائی ٹریڈیشن اور مذہب اسلام کو اسلامی ٹریڈیشن، وغیرہ۔ ایسا اس لیے ہوا کہ مذہب کو ایک جامد روایت مان لیا گیا، ایک ایسی روایت جو نسل در نسل ایک ہی حالت پر چلی جارہی ہے، حالاں کہ سائنس میں ایسا نہیں ہوا۔ سائنس کی دنیا میں ایسا نہیں ہوا کہ برٹش سائنس کو برٹش ٹریڈیشن، جرمن سائنس کو جرمن ٹریڈیشن اور امریکن سائنس کو امریکن ٹریڈیشن کہا جانے لگے۔
حقیقت یہ ہے کہ جس طرح معروف سائنس ایک سائنس ہے، اسی طرح مذہب بھی ایک سائنس ہے۔ مذہب کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ مذہب میںبھی آزادانہ انکوائری اور کھُلا ڈائلاگ اُسی طرح جاری کیا جائے جس طرح وہ سائنس میںعملاً جاری ہے۔ اِس طرح کی انکوائری یا ڈائلاگ جاری نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا کہ مذہب میں قدیم زمانے میں کم تر واقفیت کی بنا پر جو باتیں مان لی گئیں، وہی بدستور آج تک جاری ہیں۔ ضرورت تھی کہ بعد کی تحقیقات کو لیتے ہوئے قدیم بے اصل نظریات کو ترک کردیا جائے اور ان کی جگہ اُن باتوں کو مان لیا جائے جو بعد کی تحقیقات سے انسان کے علم میں آچکی ہیں۔
مذاہب کے حلقے میں باشعور لوگوں کے اندر خود بھی اس کا احساس پایا جاتا ہے۔ چنانچہ ان کے درمیان بار بار اِس قسم کی تحریکیں اٹھتی رہی ہیں، اگر چہ موافق فضا نہ ہونے کی وجہ سے یہ تحریکیں زیادہ کامیاب نہ ہوسکیں۔ مثلاً ہندو ازم میں آریہ سماج کی تحریک، جو مورتی پوجا کے خلاف اٹھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ مورتی پوجا ویدوں میں نہیں ہے، یہ بعد کا اضافہ ہے۔ اِسی طرح بھکتی موومنٹ، جو ہندوازم میں بڑھی ہوئی ریچول ازم (Ritualism) کے خلاف اٹھی۔ اُس نے رسمی اعمال کے بجائے ڈووشن (devotion) پَر زور دیا۔ اِسی طرح بُدھ ازم میں، نیو بدھ ازم(neobuddhism) کی تحریک ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے رسم ورواج سے پاک کرکے بدھ ازم کو ابتدائی دور کے بدھ ازم کی طرف واپس لے جانا۔
یہی معاملہ مسیحیت کا ہے۔ ۳۲۵ء میں ہونے والی نیقیا کاؤنسل (Nicaea Council) کے بعد مسیحیت میں کافی تبدیلی آئی۔ اب مسیحی تعلیمات کے بجائے چرچ کی روایات، مسیحیت کا ماخذ بن گئیں۔ اس کے بعد مسیحی حلقے میں سولھویں صدی میں رفارمیشن (Reformation) کی تحریک اٹھی جو گویا چرچ سے بائبل کی طرف واپسی کی تحریک تھی، مگر وہ زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔ اس طرح، ڈی ہیلی نائزیشن(Dehellenization) کی تحریک، جو انیسویں صدی کے آخر میں اٹھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ یونانی اور رومی اثرات سے مسیحیت کو پاک کیا جائے، اگرچہ یہ تحریک زیادہ کامیاب نہ ہوسکی۔
اس معاملے میں اسلام کا معاملہ مختلف ہے۔ دوسرے مذاہب کے برعکس، اسلام میں اصل متن کامل طورپر محفوظ ہے۔ یہاں جو بگاڑ آتا ہے وہ مسلم قوم میں آتا ہے نہ کہ خود اسلام میں۔ اس لیے اسلام میں رفارمیشن جیسی تحریک کی ضرورت نہیں۔ البتہ اسلام میں احیاء (Revivalism) کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ مسلم اضافوں سے پاک کرکے اسلام کو اس کی اصل صورت میں سامنے لایا جائے۔
مثلاً مانزم(monism) کے عقیدے کو لیجئے، جس کو اَدوئت واد ،یا وحدت الوجود کہا جاتا ہے۔ یعنی حقیقت کو ایک سنگل وحدت کے روپ میں دیکھنا۔ پانچ ہزار سال پہلے یونانی فلسفیوں نے آئڈنٹٹی کرائسس کے سوال پر غور کرنا شروع کیا۔انھوں نے یہ فرض کیا کہ انسان ایک کُلی حقیقت کا حصہ ہے۔ وہ صرف اِس لیے اُس سے الگ ہوا ہے کہ ایک دن دوبارہ وہ اس سے مل جائے۔ انسان ایک الگ وجود کی حیثیت سے اپنی شناخت نہیں پارہا تھا، لیکن جب اس نے یہ مان لیا کہ وہ ایک عظیم تر حقیقتِ کُلّی کا ذاتی جُز ہے، تو اس نے گویا اپنی شناخت پالی۔ کائنات کے اندر اس کو اپنی پہچان معلوم ہوگئی۔ یہ نظریہ بہت بڑے پیمانے پر پھیلا۔
مگر اب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مانزم کا نظریہ صرف ایک فلسفیانہ تخیل تھا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ بیسویں صدی میں فلکیاتی سائنس میں جو تحقیق ہوئی ہے، اس نے اِس مفروضے کو بے بنیادثابت کردیا ہے۔ بِگ بینگ(Big Bang) کا نظریہ جو سائنسی حلقے میں اب ایک مسلّمہ بن چکا ہے، وہ ثابت کرتا ہے کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک نہیں ہوسکتے۔ خالق بلا شبہہ تخلیق سے الگ ہے، اسی لیے وہ تخلیق کا واقعہ ظہور میںلا سکتا ہے۔ اگر خالق خود تخلیق کا حصہ ہو تو تخلیق کا واقعہ کبھی وجود ہی میں نہ آئے اور تخلیق ہمیشہ کے لیے غیر موجود بنی رہے۔
بگ بینگ کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ تیرہ بلین سال پہلے پوری کائنات ایک واحد سپر ایٹم کی صورت میں تھی۔ پھر خارجی مداخلت کے ذریعے اس کے اندر انفجار (explosion) ہوا۔ اِس انفجارکے بعد سپر ایٹم کے ذرّات خلامیں پھیل گیے اور موجودہ دنیاوجود میں آئی۔ سپر ایٹم کے اندر یہ انفجار، داخلی سبب کے ذریعے نہیںہوا، بلکہ وہ واضح طورپر ایک خارجی مداخلت کار (intervener) کے ذریعے ہوا۔ اور جب یہ مان لیا جائے کہ زیرِ مداخلت(entervened) سپر ایٹم الگ تھا اور مداخلت کار (intervener) الگ، تو اپنے آپ ادوئت واد یا مانزم کا نظریہ ختم ہوجاتا ہے۔
قدیم زمانے میں انسان نے چاند کو چمکتا ہوا دیکھا تو اس نے فرض کرلیا کہ چاند ایک دیوتا ہے۔ اِس طرح چاند کو ایک آسمانی دیوتا مان لیا گیا اور اس کی پرستش کی جانے لگی۔ بعد کو جب مزید تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ چاند کوئی روشن وجود نہیں۔ وہ سورج کی روشنی پڑنے سے چمکتا ہے۔ بعد کو جب خلائی سفر میںترقی ہوئی تو انسان چاند کی طرف پرواز کرنے کا منصوبہ بنانے لگا۔ یہاں تک کہ امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ(Neil Armstrong) ۲۱جولائی ۱۹۶۹ کو چاند کی سطح پر اتر گیا۔ یہ پہلا انسان تھا جو چاند کی سطح پر اُترا۔
اِس براہِ راست مشاہدے کے بعد معلوم ہوا کہ چاند صرف ایک خشک چٹان ہے، وہ نہ تو روشن ہے اور نہ گول، اور نہ اس کے اندر کوئی امتیازی صفت ہے۔ اِس دریافت نے چاند کے تقدّس کا نظریہ علمی طورپر ختم کردیا۔ ضرورت تھی کہ اس کے بعد چاند کو دیوتا سمجھنے کے عقیدے کو مکمل طورپر ترک کر دیا جائے، لیکن ابھی تک ایسا نہ ہوسکا۔
یہی معاملہ آوا گَون(cycle of life) کے نظریے کا ہے۔ یہ نظریہ اِس تصور پر قائم ہے کہ آدمی اپنے پچھلے جنم کے اعمال کے مطابق، دوبارہ زمین پر پیدا ہوتا ہے اور پھر اپنے کَرم کی سزا بھُگت کر مر جاتا ہے، تاکہ اسی طرح دوبارہ پیدا ہو اور اپنے کرم کا نتیجہ بھُگتے۔ یہ سلسلہ ۸۰ لاکھ سال سے بھی زیادہ مدت تک بار بار جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ نِروان (نجات) کے درجے تک پہنچ جاتا ہے۔
یہ عقیدہ ہزاروں سال پہلے ایک فلسفیانہ نکتے کے طورپر لوگوں کے سامنے آیا۔ فلسفی نے دیکھا کہ لوگ پیدا ہوتے ہیں تو اُن میںسے کوئی امیر ہوتا ہے اور کوئی غریب، کوئی محروم ہوتا ہے اور کوئی پائے ہوئے ہوتا ہے۔ اس معاملے کو اس نے انسان کے’’ کرم‘‘ سے جوڑ کر آواگون کا فلسفہ بنا لیا۔ دھیرے دھیرے یہ فلسفیانہ نکتہ ایک باقاعدہ مذہبی عقیدہ بن گیا اور کروڑوں لوگ اِس کو درست سمجھنے لگے۔
مگر موجودہ زمانے میں جو تحقیقات ہوئی ہیں، انھوں نے بتایا ہے کہ محروم اور غیر محروم (haves and have nots) کا فرق انسانی عمل (کرم) کا نتیجہ نہیں ہے، بلکہ وہ ایک قانونِ فطرت ہے۔ فطرت کے نظام میں عدم مساوات (inequality) کا طریقہ رکھا گیا ہے۔ اِس کی وجہ سے انسانی سماج میں چیلنج اور کامپٹیشن کا ماحول قائم ہوتا ہے۔ تمام ترقیاں اِس چیلنج اور کامپٹیشن کی وجہ سے وجود میںآئی ہیں۔ (ملاحظہ ہو—آرنلڈ ٹائن بی کی ضخیم کتاب: دی اسٹڈی آف ہسٹری)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان امیر اور غریب، پس ماندہ اور ترقی یافتہ کا فرق کوئی برائی کی بات نہیں، بلکہ وہ ایک مطلوب فطری نظام ہے، وہ تمام انسانی ترقی کا ضامن ہے۔ اِس تحقیق کے سامنے آنے کے بعد ضرورت ہے کہ آواگون کے مفروضے کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے۔ اور یہ مان لیا جائے کہ آواگون کا نظریہ محض ایک فلسفیانہ لطیفہ (joke) تھا، نہ کہ کوئی حقیقی نظریہ۔
اِسی طرح روحانیت کے میدان میں ہزاروں سال سے یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انسان کا دل(heart) رُوحانی معرفت کا خزانہ ہے۔ دل کا مراقبہ (meditation) کرکے اِس روحانی خزانے کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہ نظریہ اتنا پھیلا کہ تمام روحانی اسکول نے اس کو اختیار کرلیا۔ مگر موجودہ زمانے میں انسانی جسم پر جو تحقیقات ہوئی ہیں، اُن سے یقینی طورپر ثابت ہوجاتا ہے کہ دل کسی بھی قسم کے معارف کا خزانہ نہیں، وہ صرف گردشِ خون (cirulation of blood) کا ذریعہ ہے۔ فکر اور جذبات دونوں کا مرکز یکساں طورپر انسان کا ذہن (mind) ہے۔ اب اہلِ علم کے درمیان اِس معاملے میں کوئی اختلاف نہیں۔
اِس تحقیق کے بعد اب ضروری ہوگیا ہے کہ اِس پورے معاملے پر نظر ثانی کی جائے، اور پھر مبنی بَر قلب روحانیت(heart-based spirituality) کے نظریے کو مکمل طورپر ترک کردیا جائے اور اس کے بجائے مبنی بَر ذہن روحانیت(mind-based spirituality) کے نظریے کو اختیار کرلیا جائے۔
قدیم زمانے میں مذہب کو ایک مقدس چیز سمجھا جاتا تھا۔ اِس بنا پر مذہب کا تنقیدی جائزہ ایک امرِ ممنوع بنا ہوا تھا، مگر موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے اثر سے یہ ہوا کہ جس طرح دوسرے تمام شعبوں کا تنقیدی جائزہ لیاجارہا تھا، اسی طرح مذہب کا بھی تنقیدی جائزہ لیا جانے لگا۔ اِس شعبۂ تحقیق کو اب تاریخی انتقاد (historical criticism) کہاجاتا ہے۔ اِس تحقیق و تنقید کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام مذاہب بعد کی تبدیلیوں کے نتیجے میں اب غیر تاریخی بن چکے ہیں، ہر مذہب گویا کہ ایک میتھا لوجی ہے۔ جس کے پیچھے کوئی تاریخی سند(historical credibility) موجود نہیں۔
مذاہب کے اِس عموم میں صرف ایک استثنا ہے، اور وہ مذہبِ اسلام کا ہے۔ خالص علمی جائزے سے یہ ثابت ہوا ہے کہ تمام مذاہب میں صرف اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس کو پورے معنوں میں تاریخی مذہب کہاجاسکتا ہے۔ ایسی حالت میں علم کا تقاضا ہے کہ دوسرے مذاہب کو قابلِ احترام اثاثہ سمجھتے ہوئے یہ مان لیا جائے کہ عملی طورپر صرف اسلام قابلِ اعتبار مذہب ہے، الہامی سچائی کو جاننے کے لیے اسلام ہی واحد مستند ذریعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
مسیحی پوپ(Pope Benedict XVI) نے ۱۲ستمبر ۲۰۰۶ کو ویسٹ جرمنی کی یونیورسٹی ریجنس برگ(Regensburg) میںایک لکچر دیا۔ یہ لکچر سات صفحات پر مشتمل تھا۔سات صفحے کے اِس لکچر کا عنوان یہ تھا:
Faith and Reason
مسیحی پوپ نے اپنے اِس لکچر میں چودھویں صدی عیسوی کے بازنطینی کنگ، مینویل دوم (Manual II) کے ایک قول کو نقل کیا تھا۔ وہ قول یہ تھا—مجھے محمد کی لائی ہوئی کوئی ایسی بات بتاؤ جو نئی ہو:
Show me just what Muhammad brought that was new.
بازنطینی کنگ کی یہ بات پوپ نے کسی تنقید کے بغیر نقل کی ہے۔ مگر بلا شبہہ یہ ایک ایسی بات ہے جو خلافِ واقعہ بھی ہے اور غیر سنجیدہ بھی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دعویٰ نہ تھا کہ وہ کوئی نئی چیز لائے ہیں، یا انھوں نے کوئی نیا مذہب پیش کیا ہے۔انھوں نے جو کیا وہ صرف یہ تھا کہ پچھلے مذاہب، جو ملاوٹ کا شکار ہوگیے تھے اور اِس بنا پر اصل خدائی مذہب ان کے یہاں گم ہوکر رہ گیا تھا، پیغمبر اسلام نے اس کی تصحیح کی۔ انھوںنے خدا کی مددسے خدا کے دین کا اصل ورژن(version) دنیا کے سامنے پیش کیا۔ یہی پیغمبرِ اسلام کا اصل کنٹری بیوشن ہے۔ یہ کنٹری بیوشن اتنا بڑا ہے کہ اس سے بڑا ور کوئی کنٹری بیوشن نہیںہوسکتا۔
خدا نے پچھلے زمانوں میں بہت سے پیغمبر بھیجے۔ یہ تمام پیغمبر ایک ہی خدائی دین کو لے کر آئے، لیکن قدیم زمانے میں کسی متن (text) کو اس کی اصل صورت میں محفوظ رکھنے کاکوئی باقاعدہ نظم نہ تھا۔ اس لیے پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا دین، تبدیلی اور ملاوٹ کا شکار ہوگیا۔ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کی وحی کے مطابق، خدا کے اصل دین کو جانا اور اس کو اس کی اصل صورت میں محفوظ کردیا۔
خدائی مذہب کا محفوظ متن نہ ہونے کی وجہ سے انسان گمراہی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔ تلاش کے باوجود اس کو سچائی نہیں ملتی تھی۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت الٰہی نے تاریخ بشری کے اِس خلا کو پُر کردیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ کوئی مُتلاشی روح جب حق کی دریافت کرنا چاہے تو وہ اس کو یقین کے ساتھ دریافت کرسکے۔ یہ ایک عظیم خدائی تحفہ ہے جو پیغمبرِ اسلام کے ذریعے انسانیت کو ملا۔
واپس اوپر جائیں

نقطۂ آغاز

ایک سفر میں میری ملاقات ایک عرب شیخ سے ہوئی۔ گفتگو کے دوران انھوںنے کہا کہ موجودہ زمانے میں اسلام کا کام کرنے کے لیے سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ: من أین نبدأ (عمل کا آغاز کہاں سے کیا جائے)۔
یہ سوال مجھ سے کئی بار کیا گیا ہے۔ اِس سوال کا جواب پانے کے لیے میں نے تقابلی مطالعے کا طریقہ اختیار کیا۔ میںنے سوچا کہ اصحابِ رسول نے کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا سوال نہیں کیا تھا۔ اوّل دن سے انھیں معلوم تھا کہ ان کو کیا کرنا ہے اور آخر وقت تک وہ اس پر یقین کے ساتھ کار بند رہے۔ موجودہ زمانے میں پورا قرآن ہمارے سامنے موجودہے اس کے باوجود کیوں لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ عمل کا آغاز کہاں سے کیاجائے۔
غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آیا کہ دورِ اول میں قرآن کی خود ترتیبِ نزول ہی یہ بتانے کے لیے کافی تھی کہ کہاں سے شروع کرنا ہے اور پھر کیا کام کرتے ہوئے آگے بڑھنا ہے۔ موجودہ زمانے میں صورتِ حال یہ ہے کہ تیئس سال میں نجماً نجماً اترنے والا قرآن ایک کامل مجموعے کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔ ایسی حالت میں یہ ضروری ہوگیاہے کہ ہم خود دریافت کریں کہ اپنے زمانے میں ہم کو اپنے عمل کا آغاز کس طرح کرنا چاہیے۔ گویا کہ دورِاول میںبغیر تحقیق کیے ہوئے ہر قدم پر ہم کو فطری طورپر بتایا جارہا تھا کہ اب ہمیں کیا کرنا ہے، جب کہ آج یہ صورت حال ہے کہ تقریباً ساڑھے چھ ہزار آیتوں کے مجموعے میں ہم کو خود یہ دریافت کرنا ہے کہ اِن آیتوں میں نقطۂ آغاز کی آیت کون سی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ بعد کے زمانے میں طالبِ حق کو بہت سے انتخابات(options)میں سے کسی ایک انتخاب (option)کو ڈھونڈھ کر نکالنا ہے، جب کہ دورِ اوّل میں ایک کے سوا کوئی اور انتخاب سِرے سے موجو ہی نہ ہوتا تھا۔
یہی مسئلہ ہے جس کی بنا پر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بہت سے مسلم گروہ ہیں اور ہر ایک قرآن کے حوالے سے اپنی تحریک چلا رہا ہے، مگر سب ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ کسی کے نزدیک احیائِ اسلام کے عمل کا آغاز یہ ہے کہ فضائل کی کہانیاں سُنا کر لوگوں کو نمازی بنایا جائے ۔ کوئی سمجھتا ہے کہ اقتدار حاصل کرکے اسلامی قوانین کو نافد کیا جائے۔ کسی کا خیال ہے کہ قومی فخر کا احساس پیدا کرکے مسلمانوں کو بیدار کیا جائے۔ کسی کا ماننا یہ ہے کہ قرآن کی آیتوں اور سورتوں کے اندر چھپے ہوئے نظم کو کھولا جائے۔ کسی کا کہنا یہ ہے کہ جغرافی تقسیم کرکے مسلمانوں کا علیٰحدہ پاکٹ بنایا جائے، اِس طرح مسلمان خیرِ امت کا کردار اداکرنے کے قابل ہوجائیں گے۔ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عشقِ رسول کی دھوم مچائی جائے اور پھر سارا مسئلہ اپنے آپ حل ہوجائے گا۔ اسی طرح کچھ لوگ مسائلِ اسلام اور مظاہرِ اسلام کو اصل سمجھ کر اس کی دھوم مچائے ہوئے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہی نجات کا واحد ذریعہ ہے۔ کچھ اور لوگ ہیں جو حصولِ برکت کو سب سے زیادہ اہم چیز سمجھتے ہیں اور اسی کو تمام سعادتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ کمیونٹی ورک یا ملّی خدمت کو اصل کام سمجھے ہوئے ہیںاور اس کو نجات کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔ کچھ لوگ شوکتِ اسلام کے نام پر تقریر اور تحریر کی سرگرمیاں جاری کیے ہوئے ہیںاور اس کو دنیا اور آخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ جہاد کی آیت کا حوالہ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ جہادی سرگرمیاںجاری کرنا ہی اسلام کا سب سے زیادہ مطلوب کام ہے، وغیرہ۔
حدیث میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ بعد کے زمانے میں امتِ مسلمہ میںتہتّر فرقے ہوجائیں گے (ابوداؤد، کتاب السنّۃ) میرا خیال ہے کہ یہ تہتر فرقے، دراصل وہ تہتر گروہ ہوں گے جو قرآن کی تہتر آیتوں سے اپنے لیے الگ الگ نقطۂ آغاز دریافت کریں گے اور پھر امتِ واحدہ کو امتِ متفرقہ میں تبدیل کردیں گے۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ نقطۂ آغاز کا فرق پورے معاملے میں فرق پیدا کردیتا ہے۔
اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ترتیبِ کار کے سوال کا جواب اصحابِ رسول کی تاریخ میں تلاش کیاجائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طورپر اپنے اصحاب کو کیا نقطۂ آغاز دیا اور کس رخ پر انھیں چلایا، یہی اِس مسئلے کاواحد حل ہے۔ نقطۂ آغاز یا ترتیب کار کا سوال ایک عملی سوال ہے، اور اس کو عملی تاریخ ہی کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے۔
حدیث میںآیاہے کہ: إنّ اللہ یبعث لہذہ الأمۃ علیٰ رأس کلّ مائۃ سنۃ من یجدّد لہا دینہا (ابوداؤد، کتاب الملاحم) اور دوسری طرف حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ خیر القرون قرنی، ثم الذین یلونہم، ثمّ الذین یلونہم(صحیح البخاری)۔ اِس دوسری حدیث کے مطابق، ابتدائی تین زمانوں (عہدِ رسالت، عہدِ صحابہ، عہدِ تابعین) کو قرونِ مشہود لہا بالخیر کہاگیا ہے۔
اِس قسم کی حدیثوں پر غور کرتے ہوئے میری سمجھ میں آتا ہے کہ پہلے دَور سے مراد وہ دور ہے جب کہ صحیح نقطۂ آغاز کو لے کر کام کیا گیا اور اس کے مطابق، ایک نسل تیار ہوئی۔ فطرت کے قانون کے مطابق، دوسری نسل پہلی نسل سے گہرے طورپر متاثر ہوتی ہے۔ یہ اثر تیسری نسل تک کم و بیش باقی رہتا ہے۔ اس کے بعد حالات بدل جاتے ہیںاور ضرورت ہوتی ہے کہ صحیح نقطۂ آغاز سے کام شروع کرکے دوبارہ پہلے گروہ کے مانند ایک گروہ بنایا جائے۔
اِس سلسلے میں حدیث میں ’سَو سال‘ کا ذکر کیاگیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ سو سال سے مراد مذکورہ تین نسلوں کا زمانہ ہے۔ سوسال کے اندر تربیت یافتہ تین نسلوں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد ضرورت ہوتی ہے کہ دوبارہ پہلے کی طرح ایک تربیت یافتہ نسل بنائی جائے ۔تربیت یافتہ نسل بنانے کے اِسی کام کو حدیث میں ’تجدید‘ کہا گیا ہے۔ حدیث کے مطابق، تجدید کا یہ کام بار بار سوسالہ وقفے کے ساتھ جاری رہے گا، یہاںتک کہ قیامت آجائے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانے میں امتِ مسلمہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جس کو المہدی کا نام دیاگیا ہے۔ المہدی کوئی سیاسی لیڈر نہیںہوگا۔ وہ حکومت قائم کرنے کے لیے نہیں اٹھے گا، بلکہ اس کا کام یہ ہوگا کہ دورِ آخر کے زیادہ بدلے ہوئے حالات میں از سرِ نو صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت کرے اور اس کے مطابق، اصلاح اور دعوت کا عمل جاری کرکے اسلام کو دوبارہ اس کی اصل صورت میں قائم کردے۔
صحیح نقطۂ آغاز سے مراد صحیح ترتیبِ کار ہے۔ صحابہ کے حالا ت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا آغاز سچائی کی تلاش سے ہوا۔ ابتداء ً وہ سچائی کی تلاش میںسرگرداں ہوئے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ ان کو سچائی کی ڈسکوری ہوئی۔ اس کے بعد ان کی زندگی میںایک اور عمل جاری ہوا جس کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ تزکیہ سے مراد کوئی پُر اسرار چیز نہیں۔اس کا مطلب ہے ذہن کی ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) ، ذہن کی ری انجینئرنگ(re-engineering) ، اور وہ چیز جس کو تزکیۂ نفس (purification of soul) کہا جاتا ہے۔
اسی کے ساتھ ہر صحابی کی زندگی میں دعوت کا عمل شامل ہوگیا۔ معرفت اور دعوت دونوں باہم اس طرح جُڑے ہوئے ہیں کہ ان کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ معرفت اور دعوت دونوں اپنی حقیقت کے اعتبارسے وہی کام ہیں جو دورِ اول میں پیش آئے تھے، لیکن جدید سائنسی دور میں جو نیے فکری مواقع ظہور میں آئے ہیںوہ بھی حسبِ امکان اس کا حصہ بنتے چلے جائیں گے۔ گویا کہ موجود زمانے میں حق کی اعلیٰ معرفت کسی کو سائنسی فریم ورک میں حاصل ہوگی، اور اسی طرح دعوت کا کام بھی سائنسی فریم ورک کے مطابق، انجام پائے گا۔ سائنسی فریم ورک سے مراد عین وہی چیز ہے جس کو قرآن میں لسانِ قوم، یعنی لسانِ عصر کہاگیا ہے (ابراہیم ۴)۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ قدیم اور جدید کا امتزاج نہیں ہوگا بلکہ وہ قدیم کا صرف ایک نیا اظہار ہوگا، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جب کوئی آدمی ایک بڑی سچائی کو دریافت کرے تو فوراً وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو وہ اس سچائی میں حصے دار بنائے۔ عین فطری تقاضے کے طورپر اس کے اندر یہ تڑپ جاگ اٹھتی ہے کہ وہ چیز جو اس نے اپنے نسخٔہ نجات کے طورپر دریافت کی ہے، اس سے کوئی بھی عورت اور مرد محروم نہ رہے، اس طرح دعوت ، معرفت کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ گویا کہ دعوت، معرفت ہی کی توسیعی صورت ہے۔ جہاں معرفت ہوگی وہاں دعوت ضرور ہوگی۔ اگر کوئی شخص حصولِ معرفت کا دعویٰ کرے، لیکن اس کی زندگی میں دعوت شامل نہ ہو تو یقینی طور پر یہ سمجھا جائے گا کہ وہ ابھی تک معرفت سے آشنا نہیںہوا۔
حقیقت اپنی ذات میں ایک ناقابلِ تقسیم اکائی ہے۔ حقیقت کے مختلف مظاہر ہوسکتے ہیں، لیکن خود حقیقت ہمیشہ ایک ہی رہتی ہے۔ یہی معاملہ معرفت حق کا ہے۔ جب ایک آدمی کو لمبی مدت تک سنجیدہ تلاش کے بعد سچائی کی دریافت ہوتی ہے تو وہ یونانی فلسفی اَرشیمیدس (Archimedes) کی طرح چیخ کر بھاگتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو بتائے کہ اس کی دریافت کے مطابق، سچائی کیا ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ معرفت اور دعوت دونوں ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں۔ معرفت اپنے داخل کے اعتبار سے معرفت ہے، اور اپنے خارج کے اعتبار سے دعوت۔
دین کا نقطۂ آغاز دریافت کرنے کا تعلق، بیک وقت دو چیزوں سے ہے۔ ایک، خود اپنی دینی زندگی کی تعمیر اور دوسرے، قرآن کو صحیح طورپر سمجھنا۔
نقطۂ آغاز جاننے کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ جب تک آدمی کو نقطۂ آغاز معلوم نہ ہو، اُس وقت تک وہ بظاہر جاننے کے باوجود کچھ بھی جاننے سے محروم رہے گا، وہ بے یقینی اور کنفیوژن میں جیے گا، وہ بے نتیجہ کام اور نتیجے والے کام میں فرق نہ کرسکے گا، اس کی روح سچے یقین سے محروم رہے گی، وہ فارم والے دین کو جانے گا لیکن حقیقت والے دین کو وہ نہ جان سکے گا، دین اس کے لیے ایک قسم کا خارجی کلچر ہوگا نہ کہ وہ گہری حقیقت جو اس کی زندگی کا جز بن جائے، وہ سطح کی کچھ باتوں کو جانے گا، لیکن وہ گہری باتوں کو جاننے سے بے خبر رہے گا۔
یہی معاملہ قرآن فہمی کا ہے۔ وہ قرآن کے مرکزی تصور کو نہ جان سکے گا، اور جو آدمی قرآن کے مرکزی تصور سے بے خبر ہو اس کو اعلیٰ سطح پر قرآن کی بصیرت بھی حاصل نہ ہوگی۔ بظاہر وہ قرآن کو پڑھے گا، لیکن وہ اس کی گہرائی میں نہ اتر سکے گا، وہ گہرے معنوں میں قرآن کی تفسیر و تشریح نہ کرسکے گا۔
واپس اوپر جائیں

رمضان اور جنگ

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رمضان کا مہینہ شہر الفرقان ہے، یعنی یہ مہینہ فتح کا مہینہ ہے۔ اُن کے نزدیک رمضان کے مہینے میں اگر جہاد (بمعنی قتال) کیا جائے تو فتح یقینی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ پچھلے برسوں میں کچھ لوگوں نے اس خیال کو لے کر رمضان کے مہینے میں اپنے مفروضہ دشمن کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ لیکن یہ جنگ یک طرفہ طورپر’’مجاہدین‘‘ کی تباہی پر ختم ہوئی۔ عجیب بات ہے کہ اِس معکوس تجربے کے باوجود لوگوں کے نظریے میں فرق نہیں آیا۔ وہ اب بھی رمضان کے مہینے میں جنگ کی باتیں کررہے ہیں۔
رمضان کے مہینے کو فتح کا مہینہ سمجھنے کا ماخذ کیا ہے۔ اس کا ماخذ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جنگِ بدر پیش آئی۔ یہ جنگ ۱۷ رمضان ۲ ہجری کو ہوئی۔ اِس جنگ میں رسول اور اصحابِ رسول کو فتح حاصل ہوئی۔ اس لیے یہ سمجھ لیا گیا کہ رمضان کا مہینہ فتح کا مہینہ ہے،مگر یہ ایک بے اصل بات ہے۔ بدر کی لڑائی کا رمضان کے مہینے میں پیش آنا، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا انتخاب(choice) نہ تھا۔ بدر کی جنگ ایک دفاعی جنگ تھی۔ وہ رمضان کے مہینے میں اس لیے پیش آئی کہ فریقِ مخالف کا لشکر اسی مہینے میں اقدام کرکے مدینے کے قریب بدر کے مقام پر پہنچا۔ یہ فریقِ مخالف کی طرف سے یک طرفہ اقدام تھا او راس مسلّح اقدام کی بنا پر بدر کی دفاعی جنگ پیش آئی۔
اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں بدر کی لڑائی کے علاوہ بھی کچھ اور لڑائیاں پیش آئی ہیں۔ مثلاً غزوۂ اُحد اور غزوۂ حُنین۔ مگر یہ د وسری لڑائیاں رمضان کے مہینے میں نہیںہوئیں۔ احد کی لڑائی مدینہ کے پاس ۶شوال ۳ ہجری میں پیش آئی، اورحنین کی لڑائی ۱۱ شوال ۸ ہجری میں ہوئی۔ اگر ایسا ہوتا کہ بدر کی لڑائی کا رمضان کے مہینے میں پیش آنا، پیغمبر اسلام کا اپنا انتخاب ہوتا تو احد اور حنین کی لڑائیاں بھی رمضان کے مہینے میں پیش آتیں۔ مگر جب ایسا نہیں ہوا تو یہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ رمضان کے مہینے کا کوئی تعلق قتال اورجنگ سے نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جنگ کبھی بھی اہلِ اسلام کا اپنا انتخاب (choice) نہیں ہوتا۔ اسلام میں جب بھی کوئی جنگ پیش آتی ہے تو وہ فریقِ مخالف کے مسلّح اقدام کے نتیجے میں صرف دفاعی طورپر پیش آتی ہے۔ اور یہ واضح بات ہے کہ اقدام کرنے والے کے لیے تو تاریخ کا تعین اس کا اپنا انتخاب ہوتا ہے، مگر دفاع کرنے والے کے لیے تاریخ کا تعین اس کا اپنا انتخاب (choice) نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا تتمنّوا لقاء العدوّ وسئلوا اللہ العافیۃ( صحیح البخاری) یعنی تم لوگ دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو اور اللہ سے عافیت (امن) مانگو۔ اِس حدیثِ رسول سے جنگ کے بارے میں اسلام کا بنیادی اصول معلوم ہوتا ہے۔ اسلام میں امن کی حیثیت عموم (rule) کی ہے اور جنگ کی حیثیت استثنا (exception) کی۔ اسلام میں جنگ ایک مجبورانہ فعل ہے نہ کہ اختیارانہ فعل۔ اسلام میں جنگ کی صورتِ حال خود اسلام کی طرف سے پیدا نہیں کی جاتی۔ یہ دراصل فریقِ مخالف ہے جو جنگ کی صورتِ حال پیدا کرکے اہلِ اسلام کو دفاعی طورپر مسلّح ٹکراؤ کے لیے مجبور کرتا ہے۔
جہاں تک رمضان کے مہینے کی بات ہے تو حدیث میں رمضان کو شہر الصبر (البیہقی) کہاگیا ہے، یعنی صبر کا مہینہ۔ رمضان کا مہینہ اِس بات کی تربیت کا مہینہ ہے کہ لوگ اپنے آپ پر کنٹرول کرکے رہنا سیکھیں۔ وہ اپنی خواہشوں پر لگام لگائیں۔ وہ اشتعال کے باوجود مشتعل نہ ہوں۔ وہ بھوک اور پیاس کی شدت برداشت کرکے اپنے اندر روحانیت پیدا کریں۔ ذکر اور تلاوت اور نماز کی کثرت سے وہ خدا کی قربت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ رمضان کے مہینے کا مقصد یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو آخری حد تک خدا سے قریب کرے۔ اور یہ قربت اُسی وقت ممکن ہے جب کہ آدمی اپنے آپ کو انسانوں کی دنیا سے دور لے جائے اور اپنے آپ کو خدا کی دنیا سے قریب کرے۔
اِن حقیقتوں کو سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رمضان کا مہینہ امن کا مہینہ ہے، وہ جنگ کا مہینہ نہیں۔ رمضان کا مہینہ اپنی داخلی فطرت کو جگانے کا مہینہ ہے، وہ خارجی نزاعات میں سرگرم ہونے کا مہینہ نہیں۔ رمضان کا مہینہ خدا کی یاد میں گم ہونے کا مہینہ ہے، وہ انسانوں سے الجھنے اور خون بہانے کا مہینہ نہیں۔حدیث میں آتا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آیا اور رمضان کا نیا چاند آسمان پر دکھائی دیا تو پیغمبر اسلام کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: اللہمّ أہلّہ علینا بالأمن والإیمان، والسّلامۃ والاسلام۔ (الترمذی:کتاب الدعوات، الدارمی:کتاب الصوم، مسند احمد)یعنی اے خدا، تو رمضان کے چاند کو ہمارے اوپر امن اور ایمان کے ساتھ اور سلامتی اور اسلام کے ساتھ ظاہر فرما۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے کا استقبال اس احساس کے ساتھ فرمایا کہ وہ اہلِ اسلام کے لیے امن اور سلامتی کا پیغام لے کر آئے اور اہلِ اسلام کے درمیان امن اور سلامتی کا ماحول بنائے۔ پیغمبر اسلام کے یہ الفاظ اِس بات کا قطعی ثبوت ہیں کہ رمضان کے مہینے کا کوئی تعلق قتال اور جنگ سے نہیں، بلکہ وہ اس لیے ہے کہ لوگوں کے اندر امن کے جذبات پیدا کرے اور سماج میں امن کو فروغ دے۔
قرآن میں روزے کا حکم دیتے ہوئے اس کا یہ فائدہ بتایاگیا ہے کہ: لعلکم تتّقون (البقرہ: ۱۸۳)یعنی رمضان کے مہینے کا روزہ اس لیے فرض کیاگیا ہے تاکہ لوگوں کے اندر تقویٰ پیدا ہو۔ لوگ متّقیانہ زندگی گذارنا سیکھیں، وہ برائیوں سے بچ کر زندگی گذارنے کی تربیت حاصل کریں۔
تقویٰ کیا ہے۔ اس کی وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے۔ خلیفۂ ثانی عمر فاروق نے ایک سینئر صحابی اُبی بن کعب سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین، کیا آپ کسی ایسے راستے سے گذرے ہیں جہاں دونوں طرف کانٹے دار جھاڑیاںہوں۔ انھوںنے کہا کہ ہاں۔ ابی بن کعب نے پوچھا کہ اُس وقت آپ نے کیا کیا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے کپڑے سمیٹ لیے اور بچتا ہوا اُس سے گذر گیا۔ ابی بن کعب نے کہا : ذلک التّقویٰ ۔ یعنی اِسی روش کا نام تقویٰ ہے۔ (القرطبی، جلد اوّل، صفحہ ۱۶۲)
رمضان کا مہینہ تقویٰ کا مہینہ ہے۔ اب مذکورہ قولِ صحابی کی روشنی میں اس معاملے کی وضاحت کی جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ رمضان کا مہینہ کانٹوں سے نہ الجھنے کا مہینہ ہے۔ ایسی حالت میں کتنا عجیب ہوگا کہ رمضان کے مہینے کو کانٹوں سے الجھنے کا مہینہ بنا دیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

احساسِ محرومی کیوں

ایک آدمی کا قصہ ہے۔ وہ غریب گھر میں پیدا ہوا۔ سفر کرنے کے لیے اس کے پاس اپنے دو پیروں کے سوا کچھ اور نہ تھا۔ اس کو کہیںجانا ہوتا تو وہ پیدل سفر کرکے جاتا۔ وہ دیکھتا تھا کہ دوسرے لوگ سواریوں پر چل رہے ہیں۔ وہ اکثر سوچتا کہ کاش میرے پاس ایک بائسکل ہوتی تو میں بھی سواری پر چلنے کے قابل ہوجاتا۔
اس نے پیسہ اکھٹا کرکے اپنے لیے ایک بائسکل خریدی۔ اب وہ بائسکل پر سفر کرنے لگا۔ مگر کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ وہ دیکھتا کہ دوسرے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر سائکل ہے۔ اس نے سوچا کہ کاش، میرے پاس بھی موٹر سائکل ہوتی تو سفر کرنا زیادہ آسان ہوجاتا۔ اس نے دوبارہ کوشش کی۔ آخر کار اس کے پاس دو پہیوں والا اسکوٹر ہوگیا۔
شروع کے چند دن اس کے لیے بہت خوشی کے دن تھے۔ لیکن جلد ہی اس کے دل میںایک اور خواہش جاگ اٹھی۔ اس نے سوچا کہ دوسرے کئی لوگ ہیں جن کے پاس سفر کرنے کے لیے موٹر کار ہے، لیکن میرے پاس نہیں۔ اب اس نے ایک نئی کوشش شروع کردی۔ ایک عرصے کے بعد اس کی یہ کوشش کامیاب ہوئی، یہاں تک کہ اس نے ایک چھوٹی موٹر کار خریدلی۔
مگر اب بھی اس کی خواہشوں کی حد نہیں آئی۔ اب وہ بڑی موٹر کار کی تمنا کرنے لگا۔ آخر کار وہ دن آیا جب کہ اس کے گھر کے سامنے ایک بڑی کار آکر کھڑی ہوگئی۔ اِسی کے ساتھ اس کا کاروبار بھی بڑھا۔ یہاں تک کہ اس نے دوسری کار اور تیسری کار بھی خرید لی، مگر اب وہ بوڑھا ہوچکا تھا۔ آخر کار وہ بیمار ہو کر بستر پر پڑ گیا اور پھر اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر مرگیا۔
موت سے ایک دن پہلے اس کا ایک دوست اس سے ملا۔ وہ دیر تک اس کے پاس رہا۔ گفتگو کے دوران دوست نے اس سے کہا کہ تم ایک غریب خاندان میں پیدا ہوئے۔ پھر تم نے کاروبار کیا۔ تمھارا کاروبار ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ آج تمھہارے پاس مادّی اعتبار سے بہت سی چیزیں ہیں۔ کیا تم یہ کہہ سکتے ہو کہ دنیا میں میری سب خواہشیں پوری ہوگئیں۔ بسترِ مرگ پر لیٹے ہوئے آدمی نے کہا کہ نہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اب میںایک محرومِ تمنا آدمی کی حیثیت سے مررہا ہوں:
Now I am dying as a case of unfulfilled desires.
یہ کہانی صرف ایک انسان کی کہانی نہیں، بلکہ وہ ہر انسان کی کہانی ہے۔ ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ اپنی پوری عمر اِس کوشش میں گذار دیتا ہے کہ اس کے دل میں جو خواہشیں چھپی ہوئی ہیں وہ پوری ہوں۔ مگر ہر انسان اس احساس کے ساتھ مر جاتا ہے کہ اس کی خواہشیں پوری نہیں ہوئیں۔ اِس معاملے میں کسی بھی عورت یا مرد کا کوئی استثناء نہیں۔
دوسری طرف حیوانات کو دیکھیے۔ حیوانات بھی انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔ وہ بھی کچھ دن جیتے ہیں اور پھر مرجاتے ہیں، لیکن کوئی بھی حیوان اِس دنیا میں احساسِ محرومی کے ساتھ نہیںمرتا۔ وہ پیدا ہوکر کچھ دن جیتا ہے اور پھر اِس طرح مرجاتا ہے کہ اس کو اپنی زندگی کے بارے میں کسی بھی قسم کا غم یا افسوس نہیںہوتا۔
انسان اور حیوان میںیہ فرق کیوں ہے۔ اس کا سبب دونوں کے ذہنوں کے فرق میں پایا جاتا ہے۔ حیوان کا ذہن، انسان کے ذہن سے مکمل طورپر مختلف ہوتا ہے۔ حیوان خواہ کوئی بھی ہو، اس کا ذہن حال رُخی ذہن(present-oriented mind) ہوتا ہے۔ اِس بنا پر حیوان کو جو کچھ مل جائے اُسی کو وہ کافی سمجھتا ہے۔ ہر حیوان صرف آج میںجیتا ہے۔ حیوان کے ذہن میںکَل یا مستقبل کا کوئی تصور نہیں۔ اس لیے حیوان کو ملے ہوئے سے زیادہ کی کوئی فکر بھی نہیں۔
اِس کے مقابلے میں انسان کا ذہن مستقبل رُخی ذہن (future-oriented mind) ہے۔ وہ آج پر قانع نہیںہوتا، بلکہ وہ کَل کے بارے میں بھی فکر مند رہتا ہے۔ اور وہ حال کے ساتھ مستقبل تک کامیاب رہنا چاہتا ہے۔ چوں کہ موجودہ دنیا میں انسان کو یہ طویل کامیابی حاصل نہیں ہوتی، اس لیے ہر انسان کا مقدّر بن گیا ہے کہ وہ احساسِ محرومی کے ساتھ دنیا سے چلا جائے۔
تاہم یہ مسئلہ حقیقی نہیں، وہ صرف بے خبری کا نتیجہ ہے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان کا عرصۂ حیات(life span) ابد تک پھیلا ہوا ہے۔ جب آدمی مرتا ہے تو وہ ختم نہیںہوتا، بلکہ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںداخل ہوجاتا ہے۔خالق کے کریشن پلان (creation plan) کے مطابق، موت سے قبل کی زندگی ٹسٹ دینے کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی ٹسٹ کے مطابق، اپنا انجام پانے کی زندگی۔ انسان کا ذہنی تناؤ، یا اس کا احساس محرومی صرف اس لیے ہے کہ وہ خالق کے تخلیقی نقشے کو سمجھ کر اپنی رائے نہیں بناتا۔ وہ ایسا کرتا ہے کہ جو کچھ خالق نے اس کے لیے بعد ازموت مرحلۂ حیات میں مقدّر کیاہے، اس کو وہ قبل از موت مرحلۂ حیات میں پالینا چاہتا ہے۔
اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ آدمی حقیقتِ واقعہ کو سمجھے۔ وہ ایسا نہ کرے کہ جو کچھ اس کو کَل ملنے والا ہے، وہ اس کو آج ہی پالینا چاہے۔ جو آدمی درخت لگانے کے دن پھل کا طالب بن جائے اس کے حصے میں صرف مایوسی آئے گی۔ اس کے برعکس، جو آدمی درخت کی تکمیل پر اس کا پھل لینے پر راضی ہوجائے، اس کے لیے نہ کوئی تناؤ ہے اور نہ کوئی افسوس۔
ذہنی تناؤ دراصل چاہنے اور پانے کے درمیان فرق کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اِس فرق کو مٹا دیجئے اور پھر ذہنی تناؤ کا مسئلہ بھی ختم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۷

۱۔ بی بی سی (لندن) کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین زَین نے ۴؍اگست ۲۰۰۶ء کوصدر اسلام مرکز کا ایک انٹرویو رکارڈ کیا ۔ سوالات کا تعلق، اس مسئلے سے تھا کہ اسلام میں انٹر کاسٹ شادی کے بارے میں کیا حکم ہے۔ جوابات کے دوران بتایا گیا کہ یہ شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ سماجی مسئلہ ہے۔ اسلام میں مذہبی بنیاد پر کوئی کاسٹ سسٹم نہیں ہے۔ ایک کاسٹ اور دوسری کاسٹ کے درمیان شادی بالکل جائز ہے۔ فقہِ حنفی میں کُفو کی بنیاد پر جو مسئلہ ہے وہ بھی کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے بلکہ وہ سماجی ضرورت کے تحت بنا ہے۔ انڈیا کے مشہور عالم مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب کُفو کے مسئلہ کے سخت مخالف تھے۔
۲۔ اٹلی (روم) سے ۵۵ عورتوں اور مَردوں کی ایک ٹیم نئی دہلی آئی۔ دوسری مصروفیات کے علاوہ انھوں نے کنا ٹ پلیس (نئی دہلی) میں ۵؍اگست ۲۰۰۶ کو ایک خصوصی اجتماع کیا۔ یہ اجتماع پارک ہوٹل کے ہال میں ہوا۔ ان کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اور تقریباً ایک گھنٹہ امن اور اسلام کے موضوع پر خطاب کیا۔ اس کے بعدآدھ گھنٹہ سوال اور جواب کا پروگرام تھا۔ اِس خطاب میں اسلام کا تعارف پیش کیا گیا۔ سوال جواب کے دوران،اسلام کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی گئی۔ تقریر کے بعد ان لوگوں نے خود سے یہ کیا کہ ترانے کے انداز میں ان کے لیڈر مسٹر ماریہ یہ کہتے— بسم اللہ الرحمن الرحیم، اللہ، اللہ، اور لا الٰہ الا اللہ اور مجمع میں بیٹھے ہوئی تمام اطالوی عورت اور مرد اس کو بلند آواز سے دہراتے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ اور پورے پروگرام کی ویڈیو رکارڈنگ کی گئی۔ اس کا کیسٹ ہمارے دفتر میں موجودہے۔ ان لوگوں نے اسلام کی تمام تعلیمات سے اتفاق ظاہر کرتے ہوئے آخر میں یہ سوال کیا کہ اسلام جب اتنا پُرامن اور فطری صداقتوں کا حامل مذہب ہے تو پھر مسلمان اسلامی تعلیمات کے برعکس کیوں ہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام اور مسلمانوں میں فرق ہے۔ اسلام کو جاننے کے لیے قرآن اور حدیث کا مطالعہ کرنا چاہیے نہ کہ موجودہ مسلم کمیونٹی کا۔
۳۔ نئی دہلی میں مقیم رٹائرڈ جنرل ڈاکٹر چھبّر نے اپنے طور پر اسلامی مرکز کی کتابیں پاکستان کے کچھ لوگوں کو بھجوائیں۔ ان میں سے ایک، جماعتِ اسلامی پاکستان کے امیر قاضی حسین احمد صاحب تھے۔ قاضی موصوف کو یہ کتابیں مل گئیں۔ ا س کے بعد انھوں نے جنرل چھبّر کے نام اپنے خط مؤرخہ ۵؍اگست ۲۰۰۶ میں اس کو اکنالیج کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں:
Kindly convey my heartly gratitude to Maulana Wahiduddin Khan sahib for sending his scholarly piece "Mutala-e-Seerat" to me, Indeed, this book is an invaluable addition to my reading shelf.
۴۔ جرمنی سے ایک خط اسلامی مرکز کے دفتر میں آیا ہے۔ وہ یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
I wrote you few years back and I wanted to translate the book “Moral Vision of Islam” in German. Today I found someone who wants to publish the book “Islam and Peace”. Could you kindly send me a detailed biodata of Maulana Wahiduddin Khan, so I can pass it to the publishers. The link, which says something about Maulana Wahiduddin Khan cannot be opened. Please could you pass this on, after asking Maulana Sahib, whether he wants me to translate his book “Islam and Peace” in German. Few years ago he gave me the authority to translate his book “Vison of Islam”.
I would be very thankful, if you could answer me as quick as possible. 8, August 2006
(Samina Khan (Germany)
۵۔ دہلی میں دوردرشن پر ایک اردو چینل کا افتتاح کیاگیا ہے ۔۱۶؍اگست ۲۰۰۶ کو اس کا پہلا پروگرام ریکارڈ کیاگیا۔ یہ رکارڈنگ خان پور مارکیٹ کے ایک اسٹوڈیو میں ہوئی۔ اس میں تین افراد کو بلایا گیا تھا۔ میرے سوا، مولانا جلال الدین عمری اور تیسرے ایک ہندو تھے جن کا نام موہن جی داس تھا۔ یہ ایک پینل ڈسکشن تھا جس کا عنوان یہ تھا: مسلمان اور دہشت گردی۔ اینکر کا فریضہ ماجد دیوبندی صاحب نے ادا کیا۔ میںنے جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی ایک حقیقی امیج ہے، اور دوسری میڈیا امیج۔ یہ مسلمانوں کی میڈیا امیج ہے کہ وہ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ مگر حقیقی امیج ایسی نہیں۔ کچھ لوگ تشدد کا طریقہ ضرور اختیار کرتے ہیں لیکن بقیہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ کھلے طورپر ان کی مذمت کریں۔ تاکہ تشدد کا فعل صرف چند مسلمانوں کا فعل سمجھاجائے نہ کہ پوری مسلم کمیونٹی کا۔
۶۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر شکیل اختر نے ۲۲؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترمسلم مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ ـتھا کہ مسلمانوں کے مسائل کی جڑ ان کی اپنی نااہل قیادت ہے۔ اور نااہل قیادت مسلمانوں کے اوپر اس لیے مسلط ہوئی کہ مسلمان تعلیم میں پچھڑ گئے۔ اس لیے وہ صحیح اور غلط میں فرق کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ وہ جذباتی نعروں کے پیچھے دوڑتے رہے۔ اِس مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھایا جائے، خاص طور پر جدید تعلیم میں۔
۷۔ سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں ۲۳؍ اگست ۲۰۰۶ کو ایک پروگرام ہوا۔ اس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ اِس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ خطاب کا موضوع یہ تھا:
Basic Human Values in Islam
اِس موضوع پر پہلے ۴۵ منٹ کا خطاب ہوا۔ اس کے بعد ۱۵ منٹ تک سوال وجواب ہوا۔ پروگرام کے آخر میں لوگوں کو اسلامی کتابیں تقسیم کی گئیں۔ اور یہ بتایا گیا کہ ویب سائٹ کے علاوہ آپ لوگ زی جاگرن ٹی وی پر روزانہ صبح کو سات بج کر بیس منٹ پر صدر اسلامی مرکز کی تقریر سن سکتے ہیں۔
۸۔ نئی دہلی کے ہندی روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر رمیش شرما نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ تفصیلی انٹرویو ۲۵؍ اگست ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر وندے ماترم کے مسئلے سے تھا۔ چوں کہ مختلف تنظیموں نے یہ اعلان کیا ہے کہ ۷ ستمبر ۲۰۰۶ کو پورے ملک میں وندے ماترم گایا جائے، اور ہر فرقے کے لوگ اس میں شریک ہوں۔ ۷ ستمبر ۲۰۰۶ کو اِس نظم کی اشاعت پَر سو سال پورے ہوجائیں گے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اِس معاملے میں ہندو اور مسلمان دونوں غلو کا شکار ہورہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وندے ماترم گانے کا نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ کوئی نقصان۔ اِس کے مؤیّدین یہ کہتے ہیں کہ وندے ماترم دیش بھگتی کی اسپرٹ جگانے کے لیے ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ وندے ماترم ایک سو سال سے برابر گایا جارہا ہے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اسکول اور جلسے ہر جگہ ،مگر نتیجہ برعکس ہے۔ اِس مدت میں دیش بھکتی تو نہیں بڑھی، البتہ دولت بھکتی خطرناک حدتک بڑھ گئی ہے۔ ایسی حالت میں ۷ستمبر کا دن اِس معاملے پر ری اسیس منٹ(reassessment) کے طور پر منایا جانا چاہیے نہ کہ خوشی کے طور پر۔
۹۔ نئی دہلی کے بہائی ہاؤس آف ورشپ (لوٹس ٹمپل میں ۲۷؍اگست ۲۰۰۶ کو ایک اجتماع ہوا جس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Human being: The Living Dwelling Place of the Divine
اس کی دعوت پر اسلام کے نمائندہ کی حیثیت سے صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اِس موضوع پر خطاب کیا۔ ایک بات انھوںنے یہ کہی کہ مذہبوں کے درمیان جھگڑا زیادہ تر کٹّر پن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس کو اسلام میں غلو کہاگیا ہے۔ غلو کا مطلب ہے انتہا پسندی(extremism) ۔
۱۰۔ دور درشن (نئی دہلی) کے اسٹوڈیو میں ۲۹؍ اگست ۲۰۰۶ کو ایک خصوصی پروگرام تھا۔ اس میں کئی لوگوں کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کا موضوع ’کمیونل ہارمنی‘ تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے بھی اس کی دعوت پر اس پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں بتایا کہ ہندستان میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کیسے لائی جاسکتی ہے۔ ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ کسی بھی سماج میں اختلاف کا پیدا ہونا بالکل فطری ہے۔ اس لیے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اختلاف سے ٹکرانے کے بجائے اس کو نظر انداز کریں۔ وہ ڈفرنس مینجمنٹ کے اصول پر اس مسئلے کو حل کریں۔ وہ کسی بھی حال میں احتجاج اور مظاہرہ اور تشدد کا طریقہ نہ اختیار کریں۔ اِس پروگرام میں سوامی اگنی ویش، تارا بھٹا چاریہ، پروفیسر کمار، وغیرہ شریک ہوئے۔
۱۱۔ جَن مت ٹی وی (نئی دہلی) کی نمائندہ مزورمانی (Jyoti Virmani) نے ۳۰؍اگست ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو اِس سوال پر تھا کہ انشورنس کروانا، مسلمان کے لیے جائز ہے کہ نہیں۔ جواب میں بتایا گیا کہ ہر چیز کو جائز اور ناجائز کا مسئلہ بنانا، یہ خود اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔ سب سے پہلے حالات کو دیکھا جاتا ہے۔ حالات کے مطابق، جو چیز قابل عمل ہو اس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ جو چیز قابل عمل نہ ہو اس پر فتویٰ دینا یہ خود اسلام کے خلاف ہے۔ کیوں کہ ایسا فتویٰ اپنے نتیجے کے اعتبار سے کوئی اصلاح کی بات نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی تصغیر کے ہم معنیٰ ہے۔
۱۲۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین نے ۳۱ ؍ اگست ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع ’حج سبسڈی، تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ حج سبسڈی، جو گورنمنٹ کی طرف سے دی جاتی ہے وہ بالکل جائز ہے، اس میں ناجائز کی کوئی بات نہیں ہے۔ تمام مسلم ملکوں میں یہ طریقہ رائج ہے۔ حالاں کہ مسلم رہنما ہر مسلم ملک کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہاں کے حکمراں اسلامی اصولوں پر حکومت کا نظام نہیں چلاتے۔ مسلمان اپنے دنیوی حقوق کے معاملے میں جمہوریت کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندستان کی حکومت اُسی طرح ہماری حکومت ہے جس طرح وہ ملک کے دوسرے باشندوں کی حکومت ہے۔ ایسی حالت میں حج سبسڈی کے بارے میں مسلم ممالک اور ہندستان کے درمیان فرق کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
۱۳۔ جَین ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کی شام کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ اِس اشو پر شور وغل کرنا اور اس کو شرعی مسئلہ بنانا درست نہیں۔ ڈاکٹر محمد اقبال نے اپنی ایک نظم میں برہمن کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
پتھر کی مورتی میں سمجھا ہے تو خدا ہے خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ دیوتا ہے
جب مسلمانوں سے کہا جاتا ہے کہ اقبال کا یہ شعر بھی اتنا ہی قابل اعتراض ہے جتنا کہ وندے ماترم، تو مسلمان کہتے ہیں کہ اقبال نے جو کہا تھا وہ تو شعر وشاعری کی بات ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ بنکم چندر چٹرجی نے اپنے ناول ’آنند مٹھ‘ میں وندے ماترم کی شکل میں جو گیت شامل کیا وہ بھی تو ناول اور شعر و شاعری کی بات ہے۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ یا تو دونوں کے خلاف ہنگامہ کریں یا دونوں کو نظر انداز کردیں۔
۱۴۔ شانتی گِری آشرم (نئی دہلی) کا سالانہ فنکشن ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کو تھا۔ شانتی گری آشرم کا مرکز کیرلا (تری وندرم) میں ہے۔ اس کے فاؤنڈر کُروناکراگرو ہیں۔ وہ ایک مسلم صوفی قریشیہ فقیر کے شاگرد مانے جاتے ہیں۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ یہاں کئی ممتاز افراد کی تقریر یں ہوئی۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں قرآن اور حدیث کی روشنی میںبتایا کہ امن اور انسانیت کے بارے میں اسلام کی تعلیمات کیا ہیں۔ اِس موقع پر تعلیم یافتہ افراد بڑی تعداد میں شریک تھے۔ ان لوگوں کے درمیان اسلامک لٹریچر اور دعوہ بروشر تقسیم کیا گیا۔ کئی لوگوں سے اسلام کے موضوع پر گفتگو ہوئی۔
۱۵۔ بی بی سی کے نمائندہ مسٹر عبد الباقی مرزا نے ۳ ستمبر ۲۰۰۶ کی شام کو ایک انٹرویو رکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو کار پر سفر کے دوران رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ جواب میں ایک بات یہ کہی گئی کہ وندے ماترم نہ گیتا میں آیا ہے اور نہ ویدوں میں۔ وہ صرف بنکم چندرچٹر جی کے ناول ’آنند مَٹھ‘ میں آیا ہے۔ اس لیے وہ کوئی مذہبی اِشو نہیں۔ یہ ایک پولٹکل اِشو ہے۔ ایسی حالت میں وندے ماترم پڑھنے کو مذہبی اہمیت دے کر اس کے خلاف ہنگامہ کرنا درست نہیں۔
۱۶۔ ۵ستمبر ۲۰۰۶ کو دور درشن (اردو) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کے تفصیلی انٹرویو کی ویڈیو رکارڈنگ کی۔ یہ انٹرویو تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا۔ انٹرویور مسٹر تحسین منور تھے۔ یہ پورا انٹرویو نظام الدین ویسٹ کے پارک میں رکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق، اسلام کے مختلف پہلوؤں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام اوردورِ جدید میںکوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ اسلام ایک ابدی مذہب ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو عصری اسلوب میںبیان کیا جائے۔
۱۷۔ ہندی اخبار کے نمائندہ مسٹر کرشن موہن مشرا نے ۷ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق، وندے ماترم سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ وندے ماترم کو پڑھانے پر اس لیے زور دیا جاتا ہے کہ اس سے ملک میں دیش بھکتی آئے گی۔ مگر سو برس سے وندے ماترم پڑھا جارہا ہے، مگر اب تک ملک میں دیش بھکتی کو فروغ حاصل نہ ہوسکا۔ ایسی حالت میں ضرورت ہے کہ اِس معاملے پر نظرِ ثانی کی جائے، نہ کہ اس کو پڑھانے کی دھوم مچائی جائے۔
۱۸۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو اسی دن صبح ۹ بجے کے لائیوٹیلی کاسٹ میںنشر کیاگیا۔ آج ہی ۱۴ ستمبر کے اخباروں میںیہ خبر آئی ہے کہ مسیحی پوپ نے اپنی تقریر میںکہا کہ اسلام کے پیغمبر نے یہ تعلیم دی ہے کہ اسلام کو تلوار کے ذریعے پھیلاؤ۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ اسلام میں تلوار کا استعمال صرف وقتی اور استثنائی طورپر دفاع کے لیے کیاگیا۔ اسلام کی اشاعت کے لیے کبھی تلوار کا استعمال نہیں کیا گیا۔ حضرت مسیح نے کہا تھا کہ: ’’یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں، بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں‘‘۔ (متّٰی: ۳۵) حضرت مسیح کے اِس قول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ تلوار کا مذہب لے کر آئے تھے۔ اسی طرح پیغمبر اسلام بھی تلوار کا مذہب لے کر نہیں آئے، بلکہ وہ امن کا مذہب لے کر آئے۔
۱۹۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو اسلامی مرکز کے دفتر میں آئی اور صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویور مسٹر شارق تھے۔ یہ انٹرویو پوپ کے اُس بیان سے متعلق تھا جو ۱۴ ستمبر کے اخبارات میں چھپا ہے۔ اس سلسلے میں بتایا گیا کہ پوپ کا بیان ایک کنفیوژن پر مبنی ہے۔ قرآن میں قتال کی بات ضرور کی گئی ہے مگر وہ صرف دفاع کے لیے ہے۔ پوپ نے یہ کیا کہ قتال کی بات کو اسلام کی تبلیغ سے جوڑ دیا۔
۲۰۔ بی بی سی لندن (اُردو سروس) کے نمائندہ مسٹر ثقلین امام نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسیحی پوپ کے اُس بیان سے تھا، جو ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو مختلف اخباروں میں شائع ہوا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کوئی نیا مذہب نہیں، وہ پچھلے مذاہب کا محفوظ ایڈیشن ہے۔ اسلام میں یہ اصول نہیں ہے کہ تلوار کے ذریعے اسلام کو پھیلایا جائے، بلکہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ— لاإکراہ فی الدین(البقرہ ۲۵۶) اسلام میں تلوار کا استعمال صرف دفاع کے لیے ہے، کسی اور مقصد کے لیے نہیں۔
۲۱۔ این ڈی ٹی وی (نئی دہلی) نے ’’مقابلہ‘‘ چینل پر ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو لائیو ٹیلی کاسٹ تھا ۔ ان کا موونگ اسٹوڈیو دفتر کے سامنے روڈ پر آیا اور اِس طرح انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع مسیحی پوپ کا بیان تھا جو ۱۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو میڈیا میں آیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ پوپ کا بیان ایک فکری چیلنج ہے، وہ کوئی مسلح حملہ نہیں۔ اس لیے اس کا جواب بھی فکری سطح پر دینا چاہیے۔ سڑکوں پر مظاہرہ کرنا، یا متشددانہ ردّ عمل ظاہر کرنا اس کا جواب نہیں۔
۲۲۔ ہندی روزنامہ دینک جاگرن (نئی دہلی) کے نمائندہ نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق مسیحی پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ اِس قسم کی باتوں کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ زمانہ آزادیٔ تقریر کا زمانہ ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے، لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ یہ زمانہ سائنٹفک استدلال کا زمانہ ہے۔ پوپ، یا اس قسم کے لوگ اپنی آزادیٔ رائے کے حق کو تو استعمال کرتے ہیں، لیکن وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہ زمانہ سائنٹفک استدلال کا زمانہ ہے۔ علمی دلیل کے بغیر رائے کا اظہار، زمانے کی اسپرٹ کے سراسر خلاف ہے۔
۲۳۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکرن کے نمائندہ مسٹر دویدی نے ۱۵ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق، پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جواب کے تحت بتایا گیا کہ پوپ نے یہ بات اپنی ایک تقریر میں کہی، جس کا عنوان تھا— فیتھ اینڈ ریزن:
Faith and Reason
یہ عجیب بات ہے کہ انھوں نے اپنے سات صفحے کے لکچر میں یہ کہا کہ مذہب کی تعلیمات کو عقلی دلائل کی روشنی میں بیان کرنا چاہیے، لیکن خود انھوں نے اسلام پر جو منفی ریمارک دیا اس کی کوئی علمی دلیل اپنے طویل لکچر میں انھوںنے پیش نہیں کی۔
۲۴۔ انگریزی روزنامہ دکن ، ہیرالڈ کی نمائندہ مز شو بھا مکھرجی نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کاانٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق ، زیادہ تر اِس سے تھا کہ پوپ بینڈکٹ نے اپنے بیان پر معافی مانگ لی ہے۔ اس کے بعد اس معاملے میں مسلمانوں کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ جواب میں بتایا گیا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اب پوپ کے خلاف اپنی احتجاجی مہم کوختم کردیں۔ البتہ یہ کام بدستور باقی ہے کہ پوپ نے اسلام کی نسبت سے جوسوالات اٹھائے ہیں ان کی مدلّل وضاحت کی جائے۔ مثلاً یہ کہ تشدد کا کوئی تعلق، اسلام سے نہیں۔ جو مسلمان متشددانہ تحریک چلاتا ہے وہ اسلام سے انحراف کرکے ایسا کررہا ہے۔
۲۵۔ زی نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق پوپ بینڈکٹ کے حالیہ بیان سے تھا جس میں انھوںنے کہا تھا کہ اسلام کا کوئی مثبت کنٹری بیوشن انسانی تاریخ میں نہیں۔ اس کے جواب میں یہ بتایا گیا کہ پوپ کا یہ دعویٰ بالکل بے اصل ہے۔ اپنے سات صفحے کے پیپر میں انھوں نے اس کی کوئی دلیل نہیںدی۔ ان کا ایک دعویٰ یہ تھا کہ اسلام تلوار کے ذریعے پھیلایا گیا۔ بتایا گیا کہ اصل واقعہ اس کے برعکس ہے۔ اسلام اپنی نظریاتی طاقت سے پھیلا، نہ کہ تلوار کی طاقت سے۔ خود مغربی مصنفین نے اس کا اعتراف کیا ہے۔ مثلاً ٹامس کارلائل، اور ٹی ڈبلو آرنلڈ، وغیرہ۔ اس کے انٹرویور مسٹر راجیو (Rajeev Ranjan) تھے۔
۲۶۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔سوال کا تعلق ، زیادہ تر اس مسئلے سے تھا کہ مسیحی پوپ نے اسلام کے خلاف جو ریمارک دیا تھا اس پر اس نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ ایسی حالت میں اب اِس معاملے میں مسلمانوں کی پوزیشن کیا ہونی چاہیے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کا طریقہ یہ ہے کہ معافی کو فوراً قبول کرلیا جائے اور معاملے کو بالکل ختم کردیا جائے۔
۲۷۔ اسٹار نیوز (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو رکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر رائے (Amritanshu Rai) تھے۔ سوالات کا تعلق اِس مسئلے سے تھا کہ شریعت میں فتویٰ کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فتویٰ کا مطلب ایک مفتی کی ذاتی رائے ہے۔ کوئی مفتی اپنی یہ ذاتی رائے اُس وقت دیتا ہے جب کہ کوئی شخص خود اپنے ذاتی معاملے سے متعلق، مفتی کی رائے جاننا چاہے۔ ۔ یہ طریقہ، فتویٰ کا غلط استعمال ہے کہ مسئلہ کسی اور کا ہو اور سوال کوئی اور شخص کرے۔ اِسی طرح یہ بھی فتویٰ کا غلط استعمال ہے کہ مفتی اپنی حد سے باہر جاکر ایسے مسئلے میں فتوے جاری کرے جس کا تعلق، عدالت اور حکومت سے ہو۔
۲۸۔ دہلی کے ٹی وی چینل ۷ نے ۱۶ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویور مسٹر جتارتھ (Jitarth) تھے۔ سوالات کا تعلق مسیحی پوپ کے حالیہ بیان سے تھا۔ جوابات کے تحت جو بات کہی گئی ان میں سے ایک بات یہ تھی کہ پوپ کے اِس بیان کے خلاف ویسا سخت رد عمل ہونے والا نہیں ہے جو ڈنمارک کے کارٹون کے خلاف ہوا تھا۔ ۱۵ ستمبر کو جمعہ کے عبادتی اجتماع کی وجہ سے وقتی طورپر کچھ مظاہرہ ہوگیا، لیکن الگ سے اِس اِشو پر کچھ ہونے والا نہیں۔
۲۹۔ الامین پبلک اسکول (کوچن) کے تحت، ۱۶ستمبر ۲۰۰۶ کو ایک انٹراسکول اسلامک کوئز (InterSchool Islamic Quiz) منعقد کیا گیا۔ اسکول کی فرمائش پر ان کو گُڈ ورڈ کی اسلامی کتابیں بھیجی گئیں۔ جو وہاں کامیاب طلبا کو بطور انعام دی گئیں ۔ اس سلسلے میں اسکول کی طرف سے ایک خط موصول ہوا ہے جو یہاں نقل کیا جاتا ہے:
We are gald to inform you that the Inter-School Religious Quiz, which was held on 16th Sept. 2006, was a grand success with three senior students from around 30 schools participating from various districts of Kerala. Al-Ameen Public School, Edappally, sponsored the individual trophies and the trophy for the winning schools along with cash prizes. Apart from these above prizes, all participants were given gift hampers consisting of the Quran with Malayalam translation, Islamic Books, World Atlas and Parker Pen. Escorting teachers of the various schools were given a set of Parker Pen.
Further an Islamic Quiz Competition was also held for the parents and escorting teachers of various schools and prizes were distributed for the winners.
We take this opportunity to thank your good self for your wholehearted contribution for this noble cause without which we would not have been able to make this programme a grand success.
May Allah Almighty reward you and give the best in this life and hereafter.
With regards,
(Mrs. Fahmida Fiaz) (Mrs. Jayaprabha Pradeep)
Religious Quiz Coordinator Principal
۳۰۔ بی بی سی لندن کے نمائندہ مسٹر صلاح الدین نے ۲۰ ستمبر ۲۰۰۶ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیاگیا۔ سوالات کا تعلق، فتویٰ اور شریعت کے مسئلے سے تھا۔ جواب میںبتایا گیا کہ آج کل جس طرح فتوے کا استعمال کیا جارہا ہے وہ درست نہیں۔ آج کل کی زبان میں یہ فتویٰ ایکٹوزم ہے، اور اسلام کی تعلیم کے مطابق، کرنے کا اصل کام ایجوکیشن ایکٹوزم ہے نہ کہ فتویٰ ایکٹوزم۔
۳۱۔ ۲۳ستمبر ۲۰۰۶ کو انڈیا ہبی ٹیٹ سنٹر (لودھی روڈ) میں ایک سیمنار ہوا۔ یہ سیمنار خدا کے موضوع پر تھا۔ اس سیمنار میںموضوع کے تین پہلو زیرِ بحث آئے— خدا کا وجود، خدا اورنیچر، عقیدۂ خدا کا اثر زندگی پر۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی، اور وہاں مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ یہ پورا پروگرام انگریزی زبان میں تھا۔ یہاں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ سی پی ایس کی ٹیم نے یہاں لوگوں سے دعوتی ملاقات کی اور ان کے درمیان دعوتی بروشر تقسیم کیے۔
۳۲۔ انڈیا ہیبی ٹیٹ سنٹر (نئی دہلی) میں لائف پازیٹیو کے تحت، ایک نمائش (Expo) منعقد کی گئی۔ وہ ۲۲ـ۲۴ ستمبر ۲۰۰۶ کو ہوئی۔ اِس موقع پر مختلف اداروں کے اسٹال وہاں لگائے گیے۔ سی پی ایس انٹرنیشنل کی طرف سے بھی یہاں اسٹال لگایا گیا۔ کتابوں کے ساتھ یہاں ایک ٹی وی سیٹ بھی رکھا گیا تھا جس میں صدر اسلامی کی تقریر مسلسل دکھائی جاری تھی۔ کافی لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا، اور اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔
۳۳۔ جھارکھنڈ کے ہندی روزنامہ ’’پربھات خبر‘‘ کے نمائندہ مسٹر نشانت بھاردواج نے اپنے اخبار کے لیے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ۲۸ ستمبر ۲۰۰۶ کو یہ انٹرویو ٹیلی فون پر رکارڈ کیاگیا۔ یہ انٹرویو مسٹر گُرائینم کی کتاب کے بارے میں تھا۔ اِس کتاب میں کئی باتیں مسلم نقطۂ نظر کے خلاف لکھی گئی ہیں، مثلاً کامن سوِل کوڈ اور وندے ماترم وغیرہ۔ جواب میں کہاگیا کہ موجودہ دستور کی موجودگی میں اِس طرح کی باتیں قابلِ عمل نہیں۔ اور جو بات قابلِ عمل نہ ہو اُس پر لکھنا اور بولنا، صرف منفی نتیجہ پیدا کرتا ہے۔ اس سے صرف لوگوں کی سوچ بگڑتی ہے، لیکن حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بعض اوقات یہ ضروری ہوتا ہے کہ آدمی بولنے کے بجائے چُپ رہے۔
واپس اوپر جائیں