Pages

Thursday 2 December 2010

Alrisala December 2010 (الرسالہ دسمبر)

2

-قرآن میں تدبر

3

- شعورِ فطرت، وجودِخدا

4

- ہر چیز عارضی

5

- جنت کا تعارف

6

- دورِ زوال کا ظاہرہ

7

- سکنڈری رول

8

- حج کا فائدہ

10

- ذکر ِ کثیر

11

- بولنے پر کنٹرول

12

- مذہبی آزادی کا دور

13

- مطالعہ قرآن کی اہمیت

14

- بعد کے زمانے کا فتنہ

15

- شیطان کا پردہ

16

- قیامت کی ایک نشانی

17

- بعثت ِ نبوی اور قیامت

21

- معرفت کی پہچان

22

- انوکھی تخلیق

23

- قرآن کے انگریزی تراجم

24

- فکری انقلاب کی ضرورت

25

- بابری مسجد کا مسئلہ

30

- غیر دعوتی ذہن

31

- جذباتی قیادت

32

- نظریۂ ارتقاء پر شبہات

33

- خاتمۂ تاریخ کا الارم

34

- قیامت قریب آگئی

35

- سننے کی عادت ڈالیے

36

- نادانی کی چھلانگ

37

- خودکشی حرام کیوں

38

- ڈکشنری کافی نہیں

39

- سوال وجواب

39

- خبر نامہ اسلامی مرکز


قرآن میں تدبر

قرآن کی سورہ ص میں نزولِ قرآن کا مقصد بتاتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ: یہ ایک مبارک کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر تدبر کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں (38: 29)۔
تدبر سے کیا مراد ہے۔ تدبر کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آپ اس کو دھیان کے ساتھ پڑھیں اور اس کے مفہوم کو سمجھتے ہوئے اس کی تلاوت کریں۔ یہ طریقہ بھی بلاشبہہ مفیدہے، لیکن قرآن کے اعلیٰ معانی تک رسائی کے لیے یہ طریقہ کافی نہیں۔
قرآن میں تدبر کے بنیادی طورپر دو پہلو ہیں— غور وفکر، اور دعا۔ غوروفکر کیا ہے، اس کو میں نے ایک واقعہ سے سمجھا۔ ایک بار میری ملاقات ایک مسلم ادیب سے ہوئی۔ اُن کے ساتھ مجھے کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں غالب کا عاشق ہوں‘‘۔ میںنے پایا کہ وہ غالب کے اشعار کے نہایت گہرے معانی بتاتے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ غالب کے دیوان کو صرف پڑھتے نہیں، بلکہ وہ اسی میں جیتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں، ’’غالب کے اشعار ہر وقت میرے ذہن میں گھومتے رہتے ہیں‘‘۔
یہی تدبر ہے۔ تدبر کا مطلب صرف یہ نہیں کہ تلاوت کے وقت قرآن کے معانی پر دھیان دیتے ہوئے اس کی تلاوت کریں۔ تدبر یہ ہے کہ قرآن آپ کے دماغ پر چھایا ہوا ہو۔ قرآن کی آیتیں ہر وقت آپ کے ذہن میں گھومتی رہیں۔ آپ قرآن کی آیتوں کو لے کر سوئیں اور قرآن کی آیتوں کے ساتھ جاگیں۔ قرآن سے اِس طرح کے فکری تعلق پیدا ہوجانے کا نام تدبر ہے۔ تدبر کی دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی برابر اللہ سے دعا کرتا رہے ۔ دعا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’رب زدنی علماً‘‘ جیسے الفاظ اپنی زبان سے دہراتے رہیں۔ دعا کا آغاز اپنے عجز کی دریافت سے ہوتا ہے۔ جس آدمی نے دریافت کے درجے میں اپنے عجز کو نہیں جانا،وہ گویا کہ اللہ سے دعا کرنے کا اہل بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

شعورِ فطرت، وجودِخدا

قرآن کی سورہ الذاریات میں ارشاد ہوا ہے: ومن کل شییٔ خلقنا زوجین، لعلکم تذکرون (51: 49)یعنی خالق نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا بنایا ہے، تاکہ تم اس سے سبق لو۔ اِس آیت کے مختلف پہلو ہیں۔ اس کا ایک پہلو خود خالق کی ذات سے تعلق رکھتا ہے۔ اِس اصول کی رہنمائی میں غور کیا جائے تووہ آدمی کے لیے خدا کے وجود پر ایمان کا ذریعہ بن جائے گا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر آدمی اپنے اندر ایک اعلیٰ حقیقت کو پانے کا بے پناہ جذبہ رکھتا ہے۔ ہر انسان اِس اعتبارسے ایک متلاشی (seeker) انسان ہے۔ جب انسان کی تلاش کامیاب ہوتی ہے اور وہ خدا کی دریافت کرتا ہے تو اچانک اس کو محسوس ہوتا ہے کہ اس نے اپنی فطری تلاش کا جواب پالیا۔ اِس اعتبار سے، فطرت کا شعور گویا کہ داخلی حصہ (part)ہے اور خدا کا وجود اس کا خارجی مثنی (counter part)۔ یہی خدا کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
خدا کے وجود پر بہت سے فلسفیانہ دلائل اور سائنسی دلائل موجود ہیں۔ یہ دلائل صرف پچاس فی صدکی حد تک کام کرتے ہیں۔ یہ دلائل خدا کے وجود پر صرف عقلی قرینہ (rational probability) فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یقین والا ایمان کسی آدمی کو صرف اُس وقت حاصل ہوتا ہے، جب کہ وہ اپنے شعور کی سطح پر خدا کو پالے۔ عقلی دلائل آدمی کو امکان (probability) تک پہنچاتے ہیں اور آدمی کا داخلی شعور اس کو یقین (conviction) عطا کرتا ہے۔
فطری شعور کی سطح پر خدا کو پانا ایسا ہی ہے جیسے ایک چھوٹا بچہ جدائی کے بعد اپنی ماں کو پالے۔ اُس وقت بچے کو بلاشبہہ یہ یقین ہوتا ہے کہ یہی خاتون میری ماں ہے۔ لیکن اُس کے اِس یقین کی بنیاد کسی عقلی تجزیہ پر نہیں ہوتی، بلکہ داخلی شعور کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ جس شخص نے خدا کو اپنے داخلی شعور کی سطح پرپایا، وہی دراصل خود کو پانے والا ہے۔ حقیقی ایمان وہ ہے جو داخلی یقین سے حاصل ہو ۔ صرف عقلی دلیل کے ذریعے حاصل ہونے والا ایمان مطلوب ایمان نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ہر چیز عارضی

قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ جب کسی انسان کو کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اس کو اکرام کے معنی میں لے لیتا ہے۔وہ اپنے آپ کو ایک باعزت انسان سمجھنے لگتا ہے (89:15) ۔ اس احساس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے اندر فخر اور بڑائی اور سرکشی کامزاج پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اُس سب سے زیادہ قابلِ قدر چیز کو کھو دیتا ہے جس کو تواضع (modesty) کہا جاتا ہے۔
کسی نعمت کو پاکر اس قسم کا غیر مطلوب ذہن کیوں بنتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ آدمی اس نعمت کو مستقل (permanent) سمجھ لیتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ نعمت جو مجھ کو ملی ہے، وہ کبھی ختم ہونے والی نہیں۔اِس دنیا میں انسان کو مختلف قسم کی نعمتیں دی جاتی ہیں۔ مثلاً صحت، جوانی، دولت، اقتدار، عزت وغیرہ۔ یہ تمام نعمتیں ہر شخص کے لیے صرف وقتی ہیں۔ اگر آدمی اِن نعمتوں کو صرف وقتی سمجھے تو کبھی اس کے مزاج میں بگاڑ نہ آئے۔ مگر انسان کا حال یہ ہے کہ جب بھی اس کو کوئی نعمت ملتی ہے تو وہ اس کو شعوری یا غیر شعوری طورپر ابدی سمجھ لیتا ہے۔ یہی بگاڑ کی اصل جڑ ہے۔
نعمت کو وقتی سمجھنا، اِس معاملے میں ایک چیک (check) کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب آدمی ایک نعمت کو وقتی سمجھے تو وہ اِس اندیشے میں مبتلا رہے گا کہ کچھ نہیں معلوم کہ کب اس سے یہ نعمت چھن جائے۔ زوالِ نعمت کا یہ احساس آدمی کے اندر فخر اور گھمنڈ کا مزاج پیدا ہونے نہیں دیتا۔ زوالِ نعمت کا احساس اس کو ہمیشہ کٹ ٹو سائز (cut to size) بنائے رہتا ہے۔ اس کا حال یہ ہوجاتاہے کہ وہ آج کے لیے اللہ کا شکر ادا کرتاہے اور کل کے لیے وہ خدا سے عافیت کا طلب گار بنا رہتا ہے۔ اِس کے برعکس، جس آدمی کے اندر یہ احساس پیدا ہوجائے کہ اس کو جو نعمت ملی ہے، وہ اس کو ہمیشہ حاصل رہے گی، اس کا یہ احساس اس کے اندر اکڑ کا مزاج پیدا کردے گا۔ وہ اپنے آپ کو مصنوعی طورپر بڑا سمجھنے لگے گا۔ اس کا یہ مزاج صرف اُس وقت ختم ہوگا جب کہ اس کو ملی ہوئی نعمت اس سے چھن جائے اور اس کے پاس اکڑ کے لیے کچھ بھی باقی نہ رہے۔
واپس اوپر جائیں

جنت کا تعارف

قرآن کی سورہ نمبر السجدہ میں ارشاد ہواہے: فلا تعلم نفس ما أخفی لہم من قرّۃ أعین جزائً بما کانوا یعملون (21: 17)یعنی کسی کو خبر نہیں کہ اِن لوگوں کے لیے آنکھوں کی کیا ٹھنڈک چھپا رکھی گئی ہے۔
اس آیت کے مطابق، جنت اِس دنیا میں ایک لا معلوم چیز ہے۔ لیکن قرآن کی ایک اور آیت میں کہاگیا ہے : یدخلہم الجنۃ عرّفہا لہم (47: 6)یعنی خدا ان کو جنت میں داخل کرے گا جس کی اُنھیں پہچان کرا دی ہے۔ دوسری آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جنت کی پہچان اِسی دنیا میں ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں دونوں آیتوںکے درمیان تطبیق کی صورت کیا ہے۔
اصل یہ ہے کہ پہلی آیت میں جنت کی عملی یافت کو بتایا گیا ہے اور دوسری آیت میں جنت کی فکری دریافت کا بیان ہے۔ جنت بلا شبہہ اپنے پورے مفہوم کے اعتبار سے صرف آخرت میں معلوم ہوگی، لیکن موجودہ دنیا میں انسان جنت کو بالقوہ طور پر (in terms of potential) جان لیتا ہے، اور آخرت میں وہ جنت کو بالفعل طورپر (in terms of actual) حاصل کرلے گا۔
جو انسان جنت کے بارے میں حساس ہو، جو خدا کے تخلیقی نقشہ پر غور کرتا ہو، جو دنیا اور آخرت کی حکمتوں میں تدبر کرتا ہو، وہ اِسی دنیا میں جنت کی جھلک کو پالیتاہے۔ وہ اِس حقیقت کو دریافت کرلیتا ہے کہ موجودہ دنیا اِس انداز میں بنائی گئی ہے کہ وہ جنت کا تعارف بن گئی ہے۔
آخرت کی جنت ایک کامل (perfect) جنت ہے اور موجودہ دنیا گویا کہ غیر کامل (imperfect)جنت۔ آخرت کی جنت میںآدمی جن آسائشوں کو اپنی آئیڈیل صورت میں پائے گا، اُن آسائشوں کا تجربہ اس کو اِسی دنیا میں آئڈیل سے کم تر درجے میں ہوجاتا ہے، اِس فرق کے ساتھ کہ آخرت کی جنت ابدی جنت ہے اورموجودہ دنیا اس کا صرف وقتی اور جزئی تعارف۔
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کا ظاہرہ

قرآن کی سورہ الحشر میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: ولا تکونوا کالذین نسوا اللہ فأنساہم أنفسہم، أولئک ہم الفاسقون (59: 19) یعنی تم اُن لوگوں کی طرح نہ بن جاؤ جنھوں نے اللہ کو بھلا دیا، تو اللہ نے بھلا دئے اُن کو خود اُن کے نفس۔ یہی لوگ ہیں نافرمان:
(Believers!) Do not be like those who forgot God, so that He caused them to forget themselves.
اِس آیت میں اُس قانون کو بیان کیا گیا ہے جو اہلِ کتاب گروہ سے متعلق ہے۔ اِس میں اہلِ اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ تم یہود جیسے نہ ہو جانا،ورنہ تمھارا انجام بھی یہود جیسا ہوگا، یعنی خدا کے احکام سے غفلت کے نتیجے میں خود اپنے بارے میں فراموشی میں مبتلا ہوجانا۔
اِس آیت میں مخصوص قرآنی اسلوب میں اُس واقعے کو بتایا گیا ہے جس کو دوسرے الفاظ میں زوال (degeneration) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جب کوئی اہلِ کتاب گروہ اپنے بعد کے زمانے میں زوال کا شکار ہوتا ہے تو اُ س کا حال یہ ہوجاتا ہے کہ وہ حقیقی دینی اسپرٹ سے خالی ہوجاتا ہے۔ ابتدائی دور میں اس کا دین خوفِ خدا پر مبنی ہوتا ہے، لیکن دورِ زوال میں اس کا دین عملاً قومی فخر (pride) کے ہم معنیٰ بن جاتا ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں جس معاملے کا ذکر ہے، وہ دورِ زوال میں پیدا ہونے والے اِسی قومی فخر کا معاملہ ہے۔
ایک سیکولر گروہ کی قومی پالیسی عقل (reason)پر مبنی ہوتی ہے۔ اِس کے برعکس، زوال یافتہ اہلِ کتاب کی پالیسی قومی فخر پر۔ فخر کی اِس نفسیات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسا گروہ عقلی غور وفکر اور حقیقت پسندانہ مزاج سے محروم ہوجاتا ہے۔ عام سیکولر گروہ اپنی عقلیت کی بنا پر اپنی دنیا کو درست کرسکتا ہے، لیکن زوال یافتہ اہلِ کتاب اپنے فخر پسندی کے مزاج کی بناپر اپنی دنیا کے بارے میں بھی صحیح رویّے سے محروم ہوجاتے ہیں اور نتیجتاً وہ خَسِرَ الدنیا والآخرۃ کا مصداق بن جاتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سکنڈری رول

قرآن کی سورہ الزخرف میں فطرت کا ایک قانون اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: ورفعنا بعضہم فوق بعض درجاتٍ، لیتّخذ بعضُہم بعضاً سُخریّاً (43: 32)یعنی ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے، تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔
قرآن کی اِس آیت میں سادہ طورپر طبقاتی تفاوت یا طبقاتی امتیاز کی بات نہیں کہی گئی ہے، بلکہ اِس آیت میں طبقاتی حکمت کی بات کہی گئی ہے۔ اِس دنیا میں کوئی بڑا کام صرف اجتماعی کوشش سے ہوسکتا ہے، اور اجتماعی کوشش مفید طورپر صرف اُس وقت وجود میں آتی ہے، جب کہ افرادِ اجتماع کسی ایک شخص کو اپنا لیڈر بنانے پر پوری طرح راضی ہوجائیں۔ اجتماعی کوشش نام ہے— لیڈر کا ماتحت بن کر کوشش کرنے کا۔ جو لوگ اِس اصول پر راضی نہ ہوں، وہ کبھی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتے۔
قرآن کی اِس آیت سے سکنڈری رول (secondary role) کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔ اگر ایک سو آدمیوں کا اجتماع ہے تو اس میں 99 لوگوں کو سکنڈری رول پر راضی ہونا پڑتا ہے، اس کے بعد ہی یہ ممکن ہوتا ہے کہ ایک شخص لیڈر بن کر اپنا قائدانہ رول ادا کرسکے۔ اِس اصول کا مظاہرہ روزانہ نمازِ باجماعت کی شکل میں کیا جاتا ہے۔ نماز باجماعت یہ پیغام دیتی ہے کہ— اپنے میں سے ایک شخص کو آگے کھڑا کرکے سب کے سب بیک سیٹ (back seat) پر چلے جاؤ، ایک شخص کو امام بنا کر سب کے سب اس کے مقتدی بننے پر راضی ہوجاؤ۔
سکنڈری رول کا معاملہ صرف ایک عملی بندوبست کا معاملہ ہے۔ جہاں تک اہمیت کی بات ہے، سکنڈری رول کی اہمیت قائدانہ رول سے بھی زیادہ ہے۔ قائدانہ رول ادا کرنے والے کو اگر ایک کریڈٹ ملے گا تو سکنڈری رول ادا کرنے والے کو ڈبل کریڈٹ دیا جائے گا۔ کیوں کہ سکنڈری رول ادا کرنے والا شخص، اپنا رول ادا کرنے کے ساتھ مزید یہ کرتا ہے کہ وہ اپنی انا کو قربان کردیتا ہے۔ انا کی قربانی کے بغیر سکنڈری رول کی ادائیگی ممکن نہیں، اور اناکی قربانی بلا شبہہ تمام قربانیوں میں سب سے بڑی قربانی ہے۔
واپس اوپر جائیں

حج کا فائدہ

صحیح البخاری (کتاب الحج) کی ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک مومن جب حج ادا کرکے اپنے گھر واپس لوٹتا ہے تو وہ اس دن کی طرح ہوجاتا ہے جب کہ اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا (رجع کیوم ولدتہ أمہ)۔
He returns after Hajj like a newborn child.
اِس حدیث کو سمجھنے کے لیے ایک اور حدیث کو دیکھئے۔ ایک اور روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر پیدا ہونے والا فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اس کو یہودی اور مجوسی اور نصرانی بنا دیتے ہیں(صحیح البخاری، کتاب الجنائز)
ان دونوں حدیثوں پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتاہے کہ حجکی عبادت اگر صحیح اسپرٹ کے ساتھ کی جائے تو وہ حاجی کے لیے وہی چیز بن جاتی ہے جس کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ (de-conditioning) کہا جاتاہے۔
اصل یہ ہے کہ اپنے ماحول کے اعتبار سے ہر آدمی کی کنڈیشننگ ہوتی رہتی ہے۔ حج کی عبادت اس کنڈیشننگ کو توڑنے کا ذریعہ ہے۔ حج ایک ایسا کورس ہے جو ہر آدمی کی کنڈیشننگ کو ختم کرکے اس کو دوبارہ اس کی اصل فطرت پر پہنچا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ جو شخص اس سے پہلے مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. conditioned) تھا، وہ اب مسٹر نیچر (Mr. nature) بن جاتاہے۔
حج کا یہ فائدہ صرف اس شخص کو ملتا ہے جو حج کی پوری اسپرٹ کے ساتھ حج کی عبادت انجام دے۔ جو آدمی صرف حج کے ظاہری مراسم ادا کرے، اس کے لیے حج صرف ایک آؤٹنگ (outing) ہے، اس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
حج کے بعد
پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری حصہ میں حج ادا فرمایا۔ اس موقع پر تمام صحابہ عرفات کے میدان میں اکھٹا ہوئے۔ یہاں آپ نے اونٹ پر بیٹھ کر ایک خطبہ دیا۔ یہ خطبہ حجۃ الوداع کے نام سے مشہور ہے۔اِس خطبہ میں آپ نے اپنے اصحاب (معاصر اہلِ ایمان) کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: إن اللّٰہ بعثنی کافۃً للناس فأدوا عنی (اللہ نے مجھ کو تمام انسانوں کے لیے بھیجا ہے، تم میری طرف سے اس کو تمام لوگوں تک پہنچا دو)۔
اس کے بعد جو ہوا وہ یہ تھا کہ راوی کے بیان کے مطابق، جس صحابیٔ رسول کی سواری جس رخ پر کھڑی ہوئی تھی، اُسی رخ پر وہ روانہ ہوگئے۔ اس کے بعد تمام لوگ دعوت الی اللہ کے پیغمبرانہ کام میں لگ گئے۔ انھوں نے اس وقت کی آباددنیا کے بڑے حصہ میں دین کا پیغام پہنچا دیا۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حج کا خاتمہ دراصل ایک نئے عمل کا آغاز ہے۔ جہاں حج کے مراسم ختم ہوتے ہیں، وہاں سے ایک اور زیادہ بڑا حج شروع ہوجاتا ہے۔ یہ دعوت الی اللہ ہے۔ گویا کہ حج ایک ٹریننگ ہے اور دعوت الی اللہ اس ٹریننگ کا عملی استعمال۔
ایک حدیث کے مطابق، حج کے مراسم حضرت ابراہیم کی زندگی کے مختلف مراحل کا علامتی اعادہ ہیں۔ حضرت ابراہیم کی پوری زندگی دعوت الی اللہ کی زندگی تھی۔ یہی طریقہ ہر مومن کو اپنی زندگی میں اختیار کرنا ہے۔ مثلاً احرام کیا ہے۔ وہ سادہ زندگی کی علامت ہے۔ طواف سے مراد ڈیڈیکیشن (dedication) ہے۔ سعی اس بات کا پیغام ہے کہ مومن کی دوڑ دھوپ خدا کی طرف ہونی چاہیے۔ جانور کا ذبیحہ قربانی والی زندگی کی تعلیم ہے۔ رمی جمرات کا مطلب یہ ہے کہ آدمی شیطان کو اپنے آپ سے دور بھگائے۔ لبیک لبیک کہتے ہوئے عرفات کے میدان میں پہنچنا خدا کے سامنے حاضری کو یاد دلاتا ہے، وغیرہ۔
حج بڑا حج ہے اور عمرہ چھوٹا حج۔ دونوں کا پیغام ایک ہے۔ شریعت کی یہ منشا نہیں کہ لوگ بار بار حج اور عمرہ کرتے رہیں۔ شریعت کی منشا یہ ہے کہ لوگ ایک بار حج اور عمرہ کرنے کے بعد اس کی اسپرٹ کے مطابق زندگی گزاریں اور اس کے پیغام کو ساری دنیا میں پہنچائیں۔
واپس اوپر جائیں

ذکر ِ کثیر

مچھلی پانی سے باہر خشکی میں ہوتو وہ مسلسل تڑپتی ہے۔ یہ تڑپنا اس کی حالتِ فطری کا ایک خود بخود اظہار ہوتا ہے۔ یہی معاملہ ذکر کثیر کا ہے۔ ذکر کثیر دراصل تجربۂ کثیر کے ایک اظہار کا نام ہے۔ مچھلی کی مثال میں یہ اظہار مجبورانہ تجربہ کے تحت ہوتا ہے۔ اِس کے برعکس، مومن کی زندگی میں یہ اظہار ایک تجربہ کی شعوری دریافت کی صورت میں پیش آتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کے مقابلے میں کامل طورپر ایک عاجز مخلوق ہے۔ انسان کی بے شمار ضرورتیں ہیں۔ ان ضرورتوں کی تکمیل کے لیے وہ ہر لمحہ خدا کی مدد کا محتاج ہوتا ہے۔ خدا کے مقابلے میں اس حیثیتِ عجز کی دریافت کے بعد فطری طورپر انسان ہر لمحہ خدا کی یاد میں جینے لگتا ہے۔ اِسی کا نام ذکر کثیر ہے، یعنی ایک مسلسل تجربہ کا ایک مسلسل یاد میں ڈھل جانا۔ ذکر کسی قسم کے لفظی تکرار کا نام نہیں، ذکر ایک مسلسل احساس کا مسلسل اظہار ہے۔
اگر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اس کے بعد وہ ہر لمحہ اس کے درد کو محسوس کرتا رہے گا۔ اِسی طرح انسان کو ہر لمحہ خدا کی کسی نہ کسی رحمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ صبح وشام کا کوئی لمحہ بھی اِن تجربوں سے خالی نہیں ہوتا۔ جس آدمی کو خدا کی شعوری معرفت حاصل ہوجائے، وہ ہر لمحہ اِن ربانی تجربات کو محسوس کرتا رہے گا۔ یہ تجربہ ہر لمحہ خدا کی یاد میں ڈھلنے لگے گا۔ وہ اُسی کو لے کر سوچے گا، اسی کے مطابق احساسات اس کے اندر ابلیں گے، یہی تجربات اس کی زبان سے الفاظ بن کر ظاہر ہوتے رہیں گے۔ خدا کی اسی دوامی یاد کا نام ذکر کثیر ہے۔
جس آدمی کو ذکر کثیر کی توفیق حاصل ہوجائے، اس کو وہ سب سے بڑی چیز حاصل ہو گئی جو اِس قابل ہے کہ اِس دنیا میں آنے والا انسان اُس کو پائے اور ہر لمحہ وہ اپنے منعم کی یاد میں جینے لگے۔ خدا کی یادوں میں جینے والا انسان اپنے محسن کی یادوں میں جینے والا انسان ہے، اور کسی انسان کا سب سے بڑا شرف یہی ہے کہ وہ اپنے محسنِ حقیقی کی یادوں میں جینے والا انسان بن جائے۔
واپس اوپر جائیں

بولنے پر کنٹرول

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِسراء کے سفر میں جزاوسزا کے معاملے کو تمثیل کے روپ میں دکھایا گیا۔ اُن میں سے ایک تمثیلی واقعہ یہ تھا: مرّ بثور عظیم یخرج من ثقب صغیر یرید أن یرجع فلا یستطیع۔ قال: ہذا الرجل یتکلم بالکلمۃ فیندم فیرید أن یردہا فلا یستطیع۔ (رواہ الطبرانی والبزّار، بحوالہ فتح الباری، جلد 7، صفحہ 63، باب حدیث الإسراء) یعنی معراج کے دوران رسول اللہ ایک عظیم الجثہ بیل کے پاس سے گزرے۔ آپ نے دیکھا کہ وہ ایک چھوٹے سوراخ سے نکلتا ہے، پھروہ چاہتا ہے کہ وہ واپس جائے، مگر وہ واپس نہیں جاسکتا۔ آپ کو بتایا گیا کہ یہ اُس انسان کی مثال ہے جو ایک بات کہتا ہے، پھر اس پر شرمندہ ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے لے، مگر وہ اس کو واپس لینے پر قادر نہیںہوتا۔
یہ اُس انسان کی مثال ہے جو غیر ذمے دارانہ طورپر کسی کے خلاف ایک منفی بات کہہ دیتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ اس کی منفی بات سے ایک بڑا فتنہ پیدا ہوگیا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی بات کو واپس لے، مگر وہ اس پر قادر نہیں ہوتا۔ اس کی منفی بات ایک فتنے کو جگا دیتی ہے۔ وہ ایک ایسے فتنے کا باعث بن جاتی ہے جس کو کہنے والے نے کبھی سوچا بھی نہ تھا۔
اِس حدیث کا مدعا یہ ہے کہ آدمی کو بولنے کے معاملے میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔ اگر آدمی کوئی مثبت بات بولے تو اس میں کسی فتنے کا اندیشہ نہیں ہے۔
لیکن منفی بات کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ منفی بات ہمیشہ بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور پھیلنے کے وقت اس میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ ابتدا میں وہ بظاہر ایک چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے، لیکن لوگوں کے درمیان پھیلنے کے بعد وہ نہایت سنگین صورتِ حال اختیار کر لیتی ہے، یہاں تک کہ آخر کار اس کے نتیجے میں نفرت اور تشدد کا جنگل اگ آتا ہے۔ ایسی حالت میں آدمی کے اوپر فرض ہے کہ وہ نتیجہ (result)سے پہلے سوچے، وہ بولنے سے پہلے اس کے نتیجے پر غور کرے۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی آزادی کا دور

خباب بن الاَرتّ ایک مشہور صحابی ہیں۔ 37 ہجری میں 73 سال کی عمر میں کوفہ (عراق) میںان کا انتقال ہوا۔ مکی دور کے آخر کا واقعہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت کعبہ کے سائے میں ایک کمبل کے تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ میں نے آپ سے کہا: اے خدا کے رسول، کیا آپ اللہ سے ہمارے لیے دعا نہیں کرتے۔ آپ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ سرخ ہورہا تھا۔ آپ نے فرمایا: تم سے پہلے کی امتوں کا یہ حال تھا کہ ان کے اوپر لوہے کی کنگھی کی جاتی تھی جو اُن کے گوشت سے گزر کر ان کی ہڈیوں تک پہنچ جاتی تھی، مگر یہ چیز ان کو ان کے دین سے پھیرتی نہیں تھی۔ اِسی طرح اُن کے سر پر آرا چلایا جاتا تھا جو اُن کے جسم کے دو ٹکڑے کردیتا تھا، مگر یہ چیز ان کو ان کے دین سے پھیرتی نہیں تھی۔ اور اللہ اس امر کو ضرورپورا کرے گا، یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا اور اس کو اللہ کے سوا کسی اور چیز کا خوف نہ ہوگا (لیتمّنّ اللہ ہذا الأمر حتی یسیر الراکب من صَنعاء إلی حضر موت، ما یخاف إلاّ اللہ) صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار۔
اِس حدیث میں در اصل تاریخِ دعوت کے دو دور کو بتایا گیا ہے، پہلا دور وہ ہے جب کہ دعوت الی اللہ کا کام مذہبی تعذیب (religious persecution) کے حالات میں ہوتا تھا۔ دوسرا دور وہ ہے جب کہ یہ ممکن ہوجائے گا کہ دعوت الی اللہ کا کام مذہبی آزادی (religious freedom) کے حالات میں انجام دیا جانے لگے۔ رسول اور اصحاب رسول کے ذریعہ ساتویں صدی عیسوی میں جو انقلابی عمل شروع ہوا، وہ دونوں کے درمیان حد فاصل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ انقلابی عمل (revolutionary process) اب اپنی تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ اب پوری طرح یہ ممکن ہوگیا ہے کہ دعوت الی اللہ کا کام پوری آزادی کے ساتھ کسی روک ٹوک کے بغیر انجام دیا جاسکے، صرف اِس واحد شرط کے ساتھ کہ داعی، تشدد (violence) سے مکمل طورپر پرہیز کرے، وہ کامل طورپر پر امن طریقِ کار پر قائم رہے۔ یہ تبدیلی اب پیشین گوئی نہیں ہے، بلکہ وہ اب پوری طرح واقعہ بن چکی ہے۔
واپس اوپر جائیں

مطالعہ قرآن کی اہمیت

عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما: من قرأ القرآن لم یُرَدّ إلی أرذل العمر( صحیح الترغیب للألبانی، رقم الحدیث: 1435 )یعنی جس نے قرآن کو پڑھا، وہ کبھی ناکارہ عمر تک نہیں پہنچے گا۔
اِس حدیث میں قرآن پڑھنے سے مراد قرآن کا مطالعہ ہے۔ جو آدمی قرآن کا گہرا مطالعہ کرے گا، اس کو قرآن سے مسلسل فکری غذا (intellectual food) ملتی رہے گی۔یہ فکری غذا آدمی کو مسلسل توانائی دیتی رہے گی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ ناکارہ عمر (abject old age) تک نہیں پہنچے گا۔ اس کا ذہن مسلسل طورپر بیدار اور متحرک (active) رہے گا۔ ایسے آدمی کا جسم بوڑھا ہوگا، لیکن اس کا دماغ کبھی بوڑھا نہیں ہوسکے گا۔
ریسرچ کے ذریعے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسان کے جسم اور دماغ میں ایک فرق ہے۔ خالص حیاتیاتی اعتبار سے جسم پر بڑھاپا آتا ہے، لیکن دماغ یا برین (brain)پر بڑھاپا نہیں آتا۔ کوئی آدمی اگر اپنے دماغ کو منفی سوچ (negative thinking سے بچائے ، وہ مکمل طورپر اس کو مثبت سوچ (positive thinking) کا حامل بنائے تو اس کے دماغ پر بڑھاپا نہیں آئے گا۔ کوئی شخص قرآن کا گہرامطالعہ کرے تو اس کو ہر دن قرآن سے تخلیقی افکار کی غذا ملتی رہے گی۔اس کو کبھی ذہنی فاقہ (intellectual starvation) کا تجربہ نہیں ہوگا۔ اس کا دماغ مسلسل طورپر سرگرم رہے گا، وہ مسلسل طورپر تخلیقی فکر سے بھرا رہے گا۔
مادی غذا جس طرح جسم کو طاقت دیتی ہے، اُسی طرح فکر ی دریافتیں انسان کو توانائی عطا کرتی ہیں۔ انسان کے لیے سب سے زیادہ پرجوش تجربہ، دریافت (discovery) کا تجربہ ہوتا ہے۔ قرآن کا گہرا مطالعہ کرنے والے کو مسلسل طورپر اِس قسم کا تجربہ ہوتا رہتاہے۔ یہی تخلیقی تجربہ کسی آدمی کے لیے اِس امر میں مانع بن جاتا ہے کہ وہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچے اور عملاً ناکارہ ہو کر رہ جائے۔
واپس اوپر جائیں

بعد کے زمانے کا فتنہ

حضرت علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سیخرج قومٌ فی آخر الزّمان ، أحداث الأسنان، سُفہاء الأحلام، یقولون من خیر قولٍ البَریَّۃ۔ یقرؤن القرآن، لا یجاوز إیمانہم حناجرہم، یمرقون من الدین کما یمرق السہم من الرّمیۃ (صحیح البخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب قتل الخوارج)یعنی آخری زمانے میں کچھ لوگ نکلیں گے، کم عمر والے، کم عقل والے۔ بظاہر وہ اچھی باتیں کریں گے۔وہ قرآن کو پڑھیںگے، مگرایمان اُن کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ وہ دین سے اِس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جس طرح تیر شکار کے اوپر سے نکل جاتا ہے۔اِس حدیث میںایک چیز مابین السطور (between the lines) ہے۔ اس کو شامل کرنے کے بعد ہی یہ حدیث پوری طرح سمجھی جاسکتی ہے، وہ مابین السطور یہ ہے کہ آئندہ ایسے حالات پیدا ہوں گے جو لوگوں کو یہ موقع دیں گے وہ علم اور تجربہ کی کمی کے باوجود نمایاں ہوجائیںگے، وہ لوگوں کے درمیان بڑے بڑے درجے حاصل کرلیں گے۔
موجودہ زمانہ وہی زمانہ ہے جس کی پیشین گوئی حدیث میں کی گئی تھی۔موجودہ زمانے کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بعد کو پیدا ہونے والے حالات سے کیا مراد ہے۔ وہ ہے میڈیا، اسٹیج، آزادی، جمہوریت، دولت کی فراوانی، مظاہرہ کی سیاست ، مسلمانوں کی عظیم اکثریت، وغیرہ۔آج صاف نظر آتا ہے کہ اِن نئی چیزوں نے کس طرح لوگوں کو یہ موقع دے دیا ہے کہ وہ بے صلاحیت ہونے کے باوجود خوش نما الفاظ بول کر لوگوں کے درمیان اونچا مقام پالیں ، جو داخلی اعتبار سے سطحی ہونے کے باوجود ظاہری نمائش کے ذریعے عوامی مقبولیت حاصل کرلیں، جو قرآن کی روح سے خالی ہونے کے باوجود محض اپنی خوش الحانی کے ذریعے شہرت حاصل کرلیں، جو خدا کے خوف اور آخرت سے غافل ہونے کے باوجود عوامی تقریریں کرکے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالیں۔ یہ سب صنعتی دور میں پیدا ہونے والے نئے مواقع کی بناپر پیش آئے گا۔ افراد ہمیشہ حالات سے پیدا ہوتے ہیں، نہ کہ حالات کے بغیر۔
واپس اوپر جائیں

شیطان کا پردہ

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک طویل حدیث مروی ہے۔ اُس کا ایک حصہ یہ ہے: ہذہ الشیاطین یحومون علی أعیُنِ بنی آدم أن لا یتفکروا فی ملکوت السماوات والأرض۔ ولو لا ذلک لرأوا العجائب(مسند احمد، جلد 2 ، صفحہ 353) یعنی یہ شیاطین، بنی آدم کی آنکھ کے سامنے منڈلاتے رہتے ہیں، تاکہ وہ آسمان و زمین میں خدا ئی قدرت پر غور نہ کریں۔ اگر ایسا نہ ہو تو یقینا وہ عجائب کو دیکھیں۔
ہمارے گردوپیش جو کائنات ہے، اس کو علمی اصطلاح میں فطرت (nature) کہا جاتا ہے۔ اِس وسیع عالم فطرت میں بے شمار واقعات یا مظاہر ہیں جو ہر وقت انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں۔ ہر آنکھ والا انسان اُن کو دیکھتا ہے اور اُن کا تجربہ کرتا ہے، لیکن بیش تر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ اِس آیت کا مصداق بنے رہتے ہیں: وکأین مِن آیۃٍ فی السماوات والأرضِ یمرّون علیہا، وہم عنہا معرضون (12: 105)
یہ کائناتی واقعات دراصل خدائی نشانیاں (divine signs) ہیں، وہ تخلیق (creature)کی صورت میں اپنے خالق (Creator)کا تعارف ہیں۔ انسان اگر کھلی آنکھ سے دیکھے تو وہ اِن واقعات میں عجائب قدرت کا مشاہدہ کرے گا۔ لیکن شیطان آدمی کے ذہن میں ایسی باتیں ڈالتا ہے کہ وہ اِن کائناتی واقعات کو صحیح زاویۂ نظر سے نہ دیکھ سکے۔شیطان، آدمی کے ذہن میں یہ تصور ڈالتا ہے کہ یہ سب واقعات خود کار قوانین کا نتیجہ ہیں،نہ کہ خدائی قدرت کا نتیجہ۔ شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی اِن واقعات کو نصیحت کے پہلو سے نہ دیکھے، بلکہ وہ صرف اِس نظر سے دیکھے کہ کس طرح اُن کے مادّی فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں۔ شیطان یہ کوشش کرتا ہے کہ آدمی اپنے اردگرد کے واقعات کو فارگرانٹیڈ (for granted) طورپر لیتا رہے، وہ اُن کے بارے میں زیادہ غور وفکر نہ کرے۔ یہی وہ شیطانی وسوسے ہیں جو انسان کو حقائق کی صحیح معرفت سے محروم کردیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

قیامت کی ایک نشانی

حدیث میں قربِ قیامت کی بہت سی علامتیں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے ایک طویل روایت میں اس کی ایک علامت اِن الفاظ میں بیان کی گئی ہے: أمورکم إلیٰ نسائکم (الترمذی، کتاب الفتن) یعنی اُس زمانے میں لوگوں کے معاملات اُن کی عورتوں کے سپرد ہوجائیںگے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ساتویں صدی عیسوی میں کہی تھی، اُس وقت ساری دنیا میں عورت اور مرد کے درمیان تقسم کار (division of work) کا اصول رائج تھا۔ داخلی امور بنیادی طورپر عورتوں سے متعلق ہوتے تھے، اور خارجی امور بنیادی طورپر مردوں سے تعلق رکھتے تھے۔ پیغمبر اسلام نے پیشین گوئی کے طورپر فرمایا کہ ایک وقت آئے گا، جب کہ یہ حد بندی ٹوٹ جائے گی۔ عورتیں بھی اُسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں دکھائی دیں گی جس طرح مرد دکھائی دیتے ہیں۔
موجودہ زمانے میں صنفی مساوات (gender equality) اور فیمن ازم (feminism) کی تحریکوں نے تاریخ میں پہلی بار یہ صورتِ حال پیدا کی ہے کہ عورت اور مرد د دونوں صنفوں کے درمیان تقسیم کار کا اصول ٹوٹ گیا۔ زندگی میں جو شعبے روایتی طور پر مردوں سے متعلق ہوتے تھے، اُس میں اب عورتیں بڑے پیمانے پر دخیل ہوگئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں عورتیں نہ صرف مقامِ عمل (work place) میں مشترک طورپر دکھائی دیتی ہیں، بلکہ وہ فیصلہ کرنے والے شعبوں (decision-making) میں برابری کے ساتھ شرکت کی دعوے دار ہیں۔عملی نتائج کے اعتبار سے اِس صورتِ حال کی حقیقت کیا ہے، اِس سے قطعِ نظر، اِس پیشین گوئی کا موجودہ زمانے میں واقعہ بننا ایک بے حد سنگین الارم کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت غالباً اب بہت قریب آچکی ہے۔ انسانی تاریخ اب اپنے خاتمے پر پہنچنے والی ہے۔ یعنی وہ وقت جب کہ فرشتہ اسرافیل اپنا صور پھونک دے اور دنیا کا موجودہ نظام ٹوٹ پھوٹ جائے۔ اس کے بعد تمام انسان دوبارہ زندہ ہو کر میدانِ حشر میں اکھٹا ہوں، اور خدا کی طرف سے تمام عورتوں اور مردوں کے مستقبل کا آخری فیصلہ کردیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

بعثت ِ نبوی اور قیامت

ایک روایت کے مطابق ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بُعثتُ أنا والساعۃ کہاتین (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب قول النبی بُعثت أنا والساعۃ) یعنی میں اور قیامت دونوں ایک ساتھ بھیجے گئے ہیں، پھر آپ نے اپنی دونوں انگلیوں کی طرف اشارہ فرمایا، یعنی جس طرح یہ دو انگلیاں ایک دوسرے کے قریب ہیں، اُسی طرح میںاور قیامت ایک دوسرے سے بہت قریب ہیں۔
اِس حدیث میں دراصل ایک تاریخی پراسس (process) کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے ذریعے سے انسانی تاریخ میں ایک پراسس کا آغاز ہوا ہے جس کی تکمیل پر قیامت ہے:
I have initiated a process in human history the culmination of which is Qayamah (Doomsday)
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے جو تاریخی پراسس جاری ہوا، اس کے چار بڑے مرحلے ہیں— اظہارِ دین، حفاظتِ وحی، تبیینِ حق، ادخالِ کلمہ۔ یہ چاروں مرحلے قیاسی نہیں، بلکہ وہ قرآن اور حدیث کے مطالعے سے واضح طور پر معلوم ہوتے ہیں۔
1 - پہلا مرحلہ وہ ہے جس کو قرآن میں اظہاردین (48: 28)یا استیصالِ فتنہ (8: 39) کہاگیا ہے۔ اِس سے مراد ہے مذہبی جبر (religious persecution) کا خاتمہ اور کامل معنوںمیں مذہبی آزادی (religious freedom) کے دور کو لانا۔ اصحابِ رسول نے اِس کام کو انجام دیا۔ انھوں نے اپنی قربانیوں کے ذریعے شرک کو سیاسی اقتدار سے جدا کردیا۔ اصحابِ رسول کا یہی کارنامہ ہے جس کو قرآن میں وقاتلوہم حتی لا تکون فتنۃ ویکون الدین کلہ للہ کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
2 - دوسرا مرحلہ حفاظتِ وحی کا ہے، وحی متلو بھی اور وحی غیر متلو بھی۔ اِس مرحلے کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 15 میں اس طرح آیا ہے: إنا نحن نزلنا الذکر وإنا لہ لحافظون (15: 9)اِس آیت میں ’’الذکر‘‘سے مراد قرآن ہے۔ آیت میں حفاظتِ وحی کے عمل کو براہِ راست اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ اپنے فرشتے بھیجے گا اور وہ اس کام کو انجام دیں گے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کچھ لوگوں کو توفیق دے گا اور وہ اللہ کی خصوصی مدد سے اس کام کو انجام دیں گے۔
حفاظت کا یہ کام بنیاد ی طورپر عباسی دور میں انجام پایا۔ اُس زمانے میں قرآن اور قرآنی علوم کو حفاظت کے آخری درجے تک پہنچا دیاگیا۔ اِس زمانے میں حدیث کی تدوین کا کام بھی اعلیٰ سطح پر انجام دیاگیا، نیز دوسرے متعلق علوم پر اتنا زیادہ تحریری کام ہوا کہ اُن سے ایک پورا کتب خانہ تیار ہوگیا۔
3 - اِس سلسلے میں تیسرا کام وہ ہے جس کو قرآن میں تبیینِ حق (41: 53)کہا گیا ہے، یعنی آفاق اور انفس میں چھپی ہوئی خدائی نشانیوں کو کھولنا، تاکہ دینِ خداوندی کے حقائق خود علمِ انسانی کی سطح پر ثابت شدہ بن جائیں۔ یہ کام ساتویں صدی اور آٹھویں صدی عیسوی میں مسلم سائنس دانوں نے شروع کیا، پہلے بغداد میں اور پھر اندلس میں۔ اُس زمانے کے مسلم سائنس دانوں نے علومِ فطرت کی تحقیق میں کافی کام کیا، لیکن وہ اُس کو تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ مسلمان مذہبی عقیدہ اور سائنسی تحقیق کو ایک دوسرے سے الگ نہ کرسکے۔ چناں چہ مسلمانوں کا مذہبی طبقہ اور ان کے سائنسی علماء کے درمیان مسلسل نزاعات پیش آتے رہے، جس کی وجہ سے یہ کام زیادہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اِس کی تفصیل درج ذیل کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے:
تاریخ اسلام، از: اکبر شاہ نجیب آبادی، جلد سوم
History of the Arabs, by Philip K Hitti
اِن نزاعات کی بنا پر مسلمان تبیین حق بالفاظِ دیگر علوم فطرت کے انکشاف کو تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ اِس کام کی تکمیل نشاۃ ثانیہ (Renaissance) کے بعد یورپ میں انجام پائی اور پھر وہ امریکا میں جاری رہی۔ اِس معاملے کی تفصیل درج ذیل کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے:
The Conflict between Science and the Religion, by J W Draper (1882)
اس کا سبب یہ ہے کہ مغربی قوموں نے مذہبی عقیدہ اور سائنسی تحقیق کے کام کو ایک دوسرے سے الگ کردیا، یہاں تک کہ بیسویں صدی کے آخر میں تبیین حق کا یہ کام اپنے آخری مرحلے تک پہنچ گیا۔ اب زیادہ تر فطرت کی اِن دریافتوں کو دینِ حق کے لیے استعمال کرنا ہے اور ان کی بنیاد پر دینِ حق کو خود انسانی علم کی سطح پر ثابت شدہ بنانا ہے۔
4 - اِس سلسلے کا چوتھا کام وہ ہے جس کو حدیث میں ’ادخالِ کلمہ، کہاگیا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زمین کے اوپر کوئی بھی چھوٹا یا بڑا گھر نہیں بچے گا جس کے اندر اسلام کا کلمہ نہ پہنچ جائے (مسند احمد، جلد ، 6 ، صفحہ 4)
واقعات بتاتے ہیں کہ چار مطلوب مرحلوں میں سے تین مرحلے گزر چکے ہیں۔ اب اظہارِ دین بھی ہوچکا ہے اور حفاظتِ دین کا کام بھی انجام پاچکا ہے۔ اِسی طرح تبیین حق کا کام بھی بقدر ضرورت انجام پاچکا ہے۔ اب اکیسویں صدی میں اہلِ ایمان کو جو کام انجام دینا ہے، وہ ادخالِ کلمہ ہے، یعنی خدا کی کتاب کو دنیا کے تمام لوگوں تک پہنچا دینا۔ جدید ٹکنالوجی اور کمیونکیشن کے ذرائع اِس بات کا اشارہ ہیں کہ اب اہلِ ایمان کا یہی واحد کام ہے کہ وہ اِن جدید مواقع کو استعمال کرتے ہوئے خداکے کلام اور اس سے متعلق تشریحی لٹریچر کو تمام انسانوں تک پہنچا دیں۔گلوبل وارمنگ کے نئے ظاہرہ کے بعد جو حالات پیدا ہوئے ہیں، وہ مزید یہ بتارہے ہیں کہ قیامت اب بہت قریب آچکی ہے۔ اِس کاتقاضا ہے کہ اہلِ ایمان اپنی ساری توانائی کو اِس آخری کام میں لگا دیں، اِس سے پہلے کہ صورِ اسرافیل پھونک دیا جائے اور اُن کے لیے کچھ کرنے کا موقع باقی نہ رہے۔
آج اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اس کو اظہارِ دین کے عمل کا کریڈٹ ملے تو اب یہ ناممکن ہوچکا ہے۔ اِسی طرح حفاظتِ دین کا کریڈٹ بھی لینے والے لے چکے، اب آج کے لوگوں کے لیے اس کا کریڈٹ لینے کا موقع باقی نہیں رہا۔ اِسی طرح آج اللہ کی توفیق سے ایسا لٹریچر تیار ہوچکا ہے جس نے تبیینِ حق کے کام کو ضروری حد تک انجام دے دیا ہے۔ اِس کام کا کریڈٹ (credit) لینے کا موقع بھی اب کسی کے لیے باقی نہیں رہا۔
اب اکیسویں صدی عیسوی میں اصلاً ایک ہی کرنے کا کام ہے جس کا کریڈٹ آج کے لوگوں کو مل سکتاہے، اور وہ ہے ادخالِ کلمہ کا کام، یعنی پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اللہ کے پیغام کو تمام لوگوں تک پہنچانا۔ جدید کمیونکیشن کے ذرائع کو بھر پور استعمال کرتے ہوئے اس کو تکمیل کے مرحلے میں داخل کردینا۔ اکیسویں صدی کے اہلِ ایمان کو جاننا چاہیے کہ ابتدائی تین کریڈٹ کولینے کا وقت اب اُن کے لیے باقی نہیں رہا، کیوں کہ اللہ کے کچھ بندے اِس کام کو انجام دے چکے ہیں۔ اب جس کام کا کریڈٹ لینے کا موقع باقی ہے، وہ صرف ادخالِ کلمہ ہے۔ یا تو اِس کام کو انجام دیجئے اور اللہ کے یہاں اس کا انعام حاصل کیجئے، یا پھر اس کام سے غافل رہیے اور قیامت میں اُن لوگوں کے ساتھ اللہ کے حضور پہنچئے جن کو اللہ کی آخری عدالت میں محرومی کے سوا کچھ اور ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

معرفت کی پہچان

ماہ نامہ الرسالہ، ستمبر 2010 میں 12 صفحات پر مشتمل ایک طویل مقالہ چھپا ہے۔ اس کا عنوان یہ ہے: معرفت —مقصدِ انسانیت۔ اس کو پڑھ کر ایک صاحب کا ٹیلی فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ الرسالہ کا یہ مضمون مجھ کو بہت پسند آیا۔ اب یہ سوال ہے کہ معرفت کی پہچان کیا ہے، یعنی کوئی شخص کیسے یہ سمجھے کہ اس کو وہ چیز حاصل ہوئی ہے جس کو دین میں معرفت کہا جاتا ہے۔
میں نے کہا کہ قرآن میںاس کی پہچان بتا دی گئی ہے، اور وہ ذکر کثیر (33: 41) ہے، یعنی بہت زیادہ خدا کو یاد کرنا۔ معرفت دراصل رب العالمین کی ڈسکوری ہے۔ جب رب العالمین کی ڈسکوری (دریافت) کسی کو معرفت کے درجے میں حاصل ہوجائے تو اس کے بعد اس کے اندر ایک گہرا ذہنی انقلاب آجاتا ہے۔ اب خدا ہی اس کی سوچ کا مرکز ومحور بن جاتا ہے۔ ایسا انسانصبح وشام خدا کو یاد کرتا ہے، وہ ہر لمحہ اس کے بارے میں سوچتا ہے، وہ اسی کا چرچا کرتا ہے۔ یہی اس کے وجود کی سب سے زیادہ نمایاں پہچان بن جاتی ہے۔
یہ انسانی فطرت ہے کہ کسی شخص کو اگر کوئی ایسی چیز مل جائے جس کو وہ بہتبڑی چیز سمجھتا ہو تو وہ خود اپنے فطری تقاضے کے تحت اس کا بہت زیادہ چرچا کرتا ہے۔ اس کو اُس چیز کی یاد میںاتنی لذت ملتی ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ وہ اُسی کے بارے میں سوچتا اور بولتا رہے۔
یہی معاملہ خداوند عالم کی معرفت کا ہے۔ جب کسی شخص کو دریافت کے درجے میں اللہ کی معرفت ہوجائے تو یہ معرفت اس کے ذہن پر چھا جاتی ہے۔ اپنے فطری تقاضے کے تحت، وہ اُسی کے بارے میں سوچتا ہے، اسی کے بارے میں بولتا ہے، حتی کہ اپنی تنہائیوں میں وہ اسی کے تصور میں غرق رہتا ہے۔ اس کا ہر تجربہ اس کے لیے خدا کی معرفت میں ڈھل جاتاہے۔ جب کسی انسان کا یہ حال ہوجائے تو یہ اِس بات کی پہچان ہے کہ اس کو وہ ربانی رزق عطا ہوا ہے جس کو معرفت کہا جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انوکھی تخلیق

شَمسینظام (solar system)اور اس کے اندر استثنائی نوعیت کاسیارہ زمین (Planet earth) ایک انوکھی تخلیق ہے۔ یہاں انسان کے لیے اس کی ضرورت کی تمام چیزیں اعلیٰ معیار کے ساتھ موجود ہیں۔لیکن اِسی کے ساتھ یہاں ایک اور چیز بھی ہے جس کو قرآن میں کبد (90:5) کہاگیا ہے، یعنی یہاں اگر چہ انسان کے لیے ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں، لیکن اِسی کے ساتھ یہاں انسانی زندگی کے ہم راہ مشقت (distress) شامل کردی گئی ہے۔ انسان کچھ بھی کرے، لیکن وہ اپنی زندگی کو کسی بھی حال میں درد وکرب سے بچا نہیں سکتا۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہوں گے اور وہاں کے ماحول کا تجربہ کریں گے تو ان کی زبان سے نکلے گا: الحمد للہ الذی أذہب عنّا الحزن (35: 34) یعنی اُس اللہ کا شکر ہے جس نے خوف وحزن کو ہم سے دو رکردیا :
Praise be to God who has taken away all sorrow from us.
اہلِ جنت کا یہ کلمہ دراصل دریافت کا ایک کلمہ ہوگا۔ وہ جنت کی صورت میںایک نئے اور انوکھے تخلیقی کرشمہ کی دریافت کریں گے، یہ دریافت ک جو خالق کبد والی دنیا کی تخلیق کرسکتا تھا، وہ اِس طاقت کا بھی حامل تھا کہ ایک اور دنیا کی تخلیق کرے جہاں خوف اور حُزن کی کوئی صور ت نہ پائی جائے۔ ایسی ایک جنت بنانے کے لیے ایک اور دنیا تخلیق کرنے کی ضرورت تھی اور خدا نے جنت کی صورت میں اُس نئی دنیا کی تخلیق کردی۔
اہل جنت جب ایک ایسی انوکھی دنیا کو پائیں گے تو کمالِ استعجاب سے وہ کلمہ ان کی زبان پر جاری ہوجائے گا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے: وقالوا الحمد للہ الذی أذہب عنا الحزن۔ خوف وحزن سے خالی دنیا کی تخلیق ایک ایسا انوکھا واقعہ ہے جس کو ظہور میں لانا، قادر مطلق خدا کے سوا کسی اور کے لیے ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کے انگریزی تراجم

سعودی عرب (مدینہ) میں قرآن کی اشاعت کے لیے ایک بڑا ادارہ قائم ہے۔ اس کا نام یہ ہے: مجمع الملک فہد لطباعۃ المصحف الشریف۔ اِس ادارے کے تحت 2007 میں انگریزی زبان میں ایک کتاب چھاپی گئی ہے۔اِس کتاب میں قرآن کے انگریزی تراجم وتفاسیر کا تعارف اور تجزیہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 474 صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کے مصنف پروفیسر عبد الرحیم قدوائی ( مسلم یونی ورسٹی، علی گڑھ) ہیں۔ اس کتاب کا پورانام یہ ہے:
Bibliography of the Translations of the Meanings of the Glorious Quran into English: (1649-2002) A Critical Study
اِس کتاب میں قرآن کے 47 انگریزی تراجم وتفاسیر کا ذکر ہے۔ یہ تراجم پچھلے ساڑھے تین سو سال کے درمیان کئے گئے ۔ اِن کے مترجمین میں مسلم نام بھی ہیں اور غیر مسلم نام بھی۔ کتاب میں درست طورپر یہ اعتراف کیاگیا ہے کہ یہ انگریزی تراجم مغربی دنیا میں یا انگلش اسپیکنگ دنیامیں مقبول نہ ہوسکے۔ یہ ترجمے اگر چہ لوگوں کے درمیان تقسم کئے گئے، لیکن مطالعے کے اعتبار سے وہ عملاً مقبول نہ ہوسکے۔ یہ بات بجائے خود واقعہ ہے، لیکن کتاب میں اِس کی نشان دہی موجود نہیںکہ اِس غیرمقبولیت کا اصل سبب کیا تھا۔
انگریزی ترجموں کی اِس غیر مقبولیت کا اصل سبب یہ تھا کہ یہ ترجمے قرآنی اسلوب کی اصل خصوصیت سے محروم تھے، وہ خصوصیت قرآن کی اِس آیت میں بتائی گئی ہے: ولقد یسَّرنا القرآن للذکر (54: 17) یعنی ہم نے قرآن کو نصیحت کے لیے آسان کردیا ہے۔ اس آیت میں آسانی سے مراد وضوح ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کے اسلوب میں سادگی اور وضوح بدرجۂ اتم (par excellence) پایا جاتا ہے۔ اِسی امتیازی خصوصیت کی بنا پر قرآن نے عربوں کے ذہن کو مسخر کرلیا۔ مگر عجیب بات ہے قرآن کے انگریزی ترجموں میں قرآنی اسلوب کی یہی امتیازی خصوصیت موجود نہیں۔ یہی خاص وجہ ہے جس کی بنا پر قرآن کے انگریزی تراجم، انگریزی دانوں کے درمیان زیادہ مقبول نہ ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

فکری انقلاب کی ضرورت

پرنٹنگ پریس کا زمانہ آنے کے بعد مسلمانوں میں اصلاح کی بے شمار تحریکیں اٹھیں۔ ہر ملک میں اسلام کے نام پر دھوم دکھائی دینے لگی، لیکن نتیجہ تقریباً صفر ہے۔ اِس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے لوگ شکایت کی زبان بول رہے ہیں۔ اگر اسلام کے نام پر کی جانے والی دھوم درست ہو تو آج لوگوں کو اعتراف کی زبان میں بولنا چاہیے تھا، نہ کہ شکایت کی زبان میں۔
اصل یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں مسلم ملت کا مسئلہ فقدانِ عمل کا مسئلہ نہیں ہے، بلکہ فقدانِ نتیجہ کا مسئلہ ہے۔ ہمارے پچھلے رہنماؤں نے عمل کا طوفان کھڑا کیا، لیکن آج اُن کی طوفانی سرگرمیوں کا کوئی حقیقی نتیجہ نظر نہیں آتا۔ موجودہ زمانے میں مسلم ملت کا سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے۔ کیوں ایسا ہوا کہ اُن کے رہنماؤں نے کھیتی کی، مگر مسلمانوں کو اُس سے فصل نہیں ملی۔ ہمارے رہنماؤں نے باغ لگائے، لیکن مسلمان اس کے پھل سے محروم رہے۔اِس المیہ کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جو مسلم رہنما اٹھے، اُن سب کا نقطۂ آغاز غلط تھا۔ وہ اِس مفروضہ پر کھڑے ہوئے کہ مسلم ملت موجود ہے، اب اس کو صرف متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلم نام سے صرف ایک بھیڑ موجود تھی، نہ کہ حقیقی معنوں میں امت۔ ایسی حالت میں اصلاح امت کے کام کا نقطۂ آغاز لوگوں کے ذہن کی تشکیل نو تھا، نہ کہ جذباتی باتیںکرکے اُنھیں متحرک کرنا۔ موجودہ زمانے میں مسلم رہنماؤں نے جو طریقِ کار اختیار کیا، اُس کی ایک مثال ڈاکٹر محمد اقبال کا یہ مصرعہ ہے: ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی ۔ اقبال کا حسب ذیل شعر موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کے فکر کی ترجمانی کرتاہے:
نوا را تلخ تر می زن، چو ذوقِ نغمہ کم یابی حُدی را تیز تر می خواں، چو محمل راگراں بینی
مسلم رہنماؤں نے مٹی کو صرف نم نہیں کیا، بلکہ اُس کو جل تھل کردیا، مگر عمل کے اعتبار سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں۔ اِس صورتِ حال کا تقاضا ہے کہ اپنی غلطی کا اعتراف کیا جائے اور امت کی اصلاح کی نئی منصوبہ بندی کی جائے۔
واپس اوپر جائیں

بابری مسجد کا مسئلہ

اجودھیا کی بابری مسجد کو مغل دور کے گورنر میر باقی نے 1528 میں بنوایا تھا۔اس معاملے میں مسلمانوں کو پہلا شاک (shock) اُس وقت لگا جب کہ 23 دسمبر1949 کی رات کو کچھ ہندوؤں نے مسجد کے اندر تین مورتیاں رکھ دیں۔ اس کے بعد دوسرا بڑا شاک اُس وقت لگا، جب کہ 6دسمبر 1992 کو بابری مسجد ڈھادی گئی اور اُس کی جگہ ایک عارضی مندر (make-shift temple) بنا دیاگیا۔ اِس کے بعد اِس معاملے میں تیسرا شاک مسلمانوں کو 30ستمبر 2010 کو لگا۔ یہ وہ تاریخ ہے جب کہ تقریباً 60 سالہ عدالتی کارروائی کے بعد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کے بارے میں اپنا فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کے نزدیک، ان کی امیدوں کے مطابق نہیں تھا، اِس لیے دوبارہ وہ ذہنی صدمہ کا شکار ہوگئے۔
اِس طرح کے بحران (crisis) کے معاملے میں اسلام کی رہنمائی کیا ہے۔ کیا اسلام میں صرف نماز، روزہ کے احکام ہیں یا اُس میں بابری مسجد جیسے حادثے کے بارے میں بھی واضح رہنمائی موجود ہے۔ میرے نزدیک، بلا شبہہ یہ رہنمائی اسلام میں موجود ہے۔ ذیل میں مختصر طورپر اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔
1 - بابری مسجد کے معاملے میں اسلامی تعلیمات سے انحراف کا پہلا واقعہ 1528 میں پیش آیا، جب کہ اجودھیا میں یہ مسجد بنائی گئی۔ اُس وقت وہاں ’’رام چبوترہ‘‘ کے نام سے ایک چبوترہ موجود تھا، یہاں رام اور سیتا کی کچھ یادگاریں مثلاً سلوٹا اور بیلن جیسی چیزیں موجود تھیں اور ہندو اس کو سیتا کے رسوئی گھر کے طور پر مقدس سمجھتے تھے۔ بابر کے گورنر میر باقی نے مسجد بناتے ہوئے اِس رام چبوترہ کو اس کے صحن میں شامل کردیا ۔ یہ طریقہ اسلام کی تعلیم کے سراسر خلاف تھا۔
اس کی ایک متعلق مثال یہ ہے کہ اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق اپنے زمانہ ٔ خلافت (636 ء)میں مدینہ سے چل کر یروشلم (فلسطین) گئے۔ وہاں یروشلم کے بطریق (بشپ) سے گفتگو کرکے دونوں کے درمیان ایک صلح نامہ طے ہوا۔ اُس وقت حضرت عمر فاروق یروشلم کے کنیسۃ القیامہ (Church of Resurrection) میں تھے۔ عصر کی نماز کا وقت آگیا اور آپ نے نماز پڑھنا چاہا تو مسیحی بطریق نے کہا کہ آپ یہیں چر چ کے اندر نماز پڑھ لیجئے۔ حضرت عمر نے کہا کہ نہیں، میں رمیۃ الحجر،یعنی پتھر پھینکنے کی دوری (stone’s throw) پر جاؤں گا اور وہاں نماز پڑھوں گا۔ اِس کی حکمت انھوں نے یہ بتائی کہ اگر میں چرچ کے اندر نماز پڑھ لوں تو بعد کے زمانے کے مسلمان کہیں گے کہ یہاں ہمارے خلیفہ نے نماز پڑھی ہے، اِس لیے ہم یہاں مسجد بنائیں گے۔ اِس طرح یہاں چرچ اور مسجد کا جھگڑا کھڑا ہوجائے گا۔
بابری مسجد کے معاملے میں حضرت عمر کے مذکورہ نمونے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پہلی غلطی خود میر باقی نے کی۔ انھوں نے ہندوؤں کے مقدس استھان سے ملا کر مسجد بنائی۔ اِس طرح انھوںنے پہلے ہی دن اِس معاملے میں نزاع کی بنیاد رکھ دی۔
2 - دسمبر 1949 میں جب بابری مسجد کے اندر تین مورتیاں رکھ دی گئیں، اُس وقت بھی مسلمانوں نے اِس معاملے میں اسلام کی تعلیمات سے رہنمائی حاصل نہیں کی اور نتیجہ یہ ہوا کہ مسئلہ بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ ناقابلِ حل مسئلہ بن گیا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں جب توحید کا مشن شروع کیا، اُس وقت وہاں کی ابراہیمی مسجد کعبہ کے اندر مشرکین نے 360 بت رکھ دئے تھے۔پیغمبر اسلام نے ان بتوں کی موجودگی سے اعراض فرمایا اور اپنی ساری کوشش وہاں کے انسانوں پر شروع کردی۔ آپ نے کعبہ کی عمارت کے اندر سے بتوں کو نکالنے کے بجائے لوگوں کے دلوں سے بتوں کے نکالنے کو اپنا نشانہ بنایا۔ یہ طریقہ نہایت کامیاب ہوا، یہاں تک کہ 18 سال کی دعوتی کوشش کے بعد مکہ کے مشرکین نے بت پرستی کو ترک کردیا اور خود کعبہ کی عمارت سے تمام بتوں کو ہٹا دیا۔ اِس کے برعکس، موجودہ زمانے کے مسلمان اِس پیغمبرانہ حکمت کو اختیار کرنے میں مکمل طورپر ناکام رہے۔ چناں چہ انھوں نے اِس معاملے میں رد عمل کا طریقہ اختیار کیا جس کا نتیجہ صرف الٹی صورت میں برآمد ہوا۔
3 - ستمبر1991میں پی وی نرسمہا راؤ (وفات:2004 ) ہندستان کے وزیر اعظم تھے۔انھوں نے ہندستانی پارلیمنٹ سے ایک قانون منظور کرایا جس کا نام یہ تھا:
Places of Worship (Special Provisions) Act-1991
اِس قانون میں یہ متعین کیاگیا تھا کہ گورنمنٹ آف انڈیا کی یہ ذمے داری ہوگی کہ وہ ملک کے تمام عبادت خانوں کو اُس حالت پر برقرار رکھے جو کہ آزادی کے وقت 15 اگست 1947 میں ان کی حالت تھی۔ اِس قانون میں یہ کہا گیا تھا کہ چوں کہ بابری مسجد کا کیس عدالت میںہے، اِس لیے اِس معاملے میں حکومت عدالتی فیصلے کا انتظار کرے گی اور فیصلہ آنے کے بعد اس کے مطابق، اس کی تعمیل کی جائے گی، لیکن مسلمانوں نے اِس ایکٹ کو نہیں مانا،انھوں نے اِس معاملے کو جلسہ جلوس کا معاملہ بنادیا۔ اِس کے بعد فطری طور پر ہندوؤں میں جوابی ہنگامہ آرائی کا ذہن بنا، یہاں تک کہ ہندوؤں کے ایک پرجوش ہجوم نے 6 دسمبر 1992 کو اجودھیا میں میں داخل ہو کر بابری مسجد کو ڈھا دیا۔ اُس وقت میں نے کہا تھا کہ — بابری مسجد کو ہندوؤں نے توڑا، اور مسلمانوں نے اس کو توڑوایا۔
4 - 30 ستمبر 2010 کو عدالت کا جو فیصلہ آیا ہے، مسلمان عام طورپر اس کو اپنے حق میں ناانصافی سمجھتے ہیں۔ ان کا رجحان یہ ہے کہ وہ اِس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جائیں اور وہاں سے منصفانہ فیصلہ حاصل کرنے کی کوشش کریں، مگر یہ طریقہ بابری مسجد کے مسئلے کو حل کرنے والا نہیں۔
اِس مسئلے میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی صورت میں بالفرض اگر ایسا ہو کہ سپریم کورٹ اِس کیس کا فیصلہ مسلمانوں کی موافقت میں کردے، تب بھی ہندوؤں کے لیے مزید کارروائی کا دروازہ کھلا رہے گا۔ جیسا کہ معلوم ہے، شاہ بانو کیس (1985)میں سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا تھا۔ یہ فیصلہ مسلمانوں کو اپنے خلاف نظر آیا اور انھوں نے اس کو ماننے سے انکار کردیا۔ چناںچہ اس کے خلاف پورے ملک میں مسلمانوں کی طرف سے مظاہرے شروع ہوگئے، یہاں تک کہ اُس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی (وفات: 1991 ) کو پارلیمنٹ سے ایک نیا ایکٹ بنوانا پڑا۔ یہ دروازہ بلاشبہہ ہندوؤں کے لیے بھی کھلا ہوا ہے۔ وہ یہ کہہ کر سپریم کورٹ کے فیصلے کو رد کرسکتے ہیں کہ یہ فیصلہ ہمارے مذہبی جذبات کے خلاف ہے، اِس لیے ہم اس کو قبول نہیں کرسکتے۔
5 - بابری مسجد کے معاملے میں اسلام اور دانش مندی دونوں کا تقاضا یہ ہے کہ اب اِس معاملے میں کاما (comma) نہ لگایا جائے، بلکہ فل اسٹاپ (full stop) لگادیا جائے۔ دوسرا کوئی بھی طریقہ صرف مسئلے کو مزید پیچیدہ کرے گا، وہ اِس مسئلے کو حل کرنے والا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اب اِس معاملے میں مسلمانوں کے لیے عملاً ایک ہی ممکن انتخاب (option) باقی رہاہے اور وہ مسجد کا ری لوکیشن (re-location) ہے۔ یہ وہی طریقہ ہے جس کو پٹرول کے ظہور کے بعد عرب ملکوں میں بڑے پیمانے پر اختیار کیا گیا ہے، یعنی سٹی پلاننگ (city planning) کے لیے قدیم مسجدوں کو ری لوکیٹ کرنا۔
موجودہ حالات کے اعتبار سے، اب مسلمانوں کے لیے عملاً صرف دو میں سے ایک کا انتخاب باقی رہ گیا ہے — یا تو وہ اِس معاملے میں خود غیر جانب دار ہو کر مزید کارروائی کے لیے اس کو حکومت کے حوالے کردیں، جیسا کہ دوسرے عدالتی فیصلوں کے معاملے میں ہوتا ہے، یا اگر وہ چاہتے ہیں کہ بابری مسجد کو وہ ایک تاریخی یادگار کے طورپر باقی رکھیں تو وہ ایسا کرسکتے ہیں کہ وہ اس کے ری لوکیشن (re-location) پر راضی ہوجائیں، یعنی کسی دوسرے غیر نزاعی مقام پر اُسی شکل کی مسجد تعمیر کرنا۔ سابق مقام پر دوبارہ بابری مسجد کی تعمیر ایک ایسا غیر حقیقت پسندانہ تصور ہے جو کبھی واقعہ بننے والا نہیں۔
6 - اجودھیا کے متنازع مقام پر عدالتی فیصلہ آنے کے بعد عام طورپر مسلمان یہ کہہ رہے ہیں کہ اِس فیصلے میں ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا ہے۔ یہی موجودہ زمانے میں مسلمانوں کا عام ذہن ہے۔ ہر جگہ مسلمانوں کو دوسرے فریق سے یہی شکایت ہے۔ مگر یہ شکایت یقینی طورپر غیر حقیقت پسندانہ ہے۔ یہ شکایت صرف یہ بتاتی ہے کہ مسلمان معاملات کو صرف جذباتی اعتبار سے دیکھتے ہیں، نہ کہ عقل وفہم کے اعتبار سے۔ اسلام کا اصول یہ ہے کہ فرد اور اجتماع کے درمیان فرق کیا جائے۔ قرآن اور حدیث میں اِس بات کی سخت تاکید کی گئی ہے کہ فرد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ انصاف کے راستے پر چلے، وہ اِس معاملے میں کسی چیز کو عذر (excuse) نہ بنائے۔ لیکن اجتماع کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ جب کسی اجتماعی معاملے میں دو فریقوں کے درمیان نزاع پیدا ہوجائے تو اُس وقت یہ ممکن نہیں ہوتا کہ خالص نظری بنیاد (theoretical reason) پر ایسا فیصلہ کیا جائے جو دونوں فریقوں کو منصفانہ فیصلہ نظر آئے۔ ایسے موقع پر صرف یہی ممکن ہوتا ہے کہ عملی تقاضے (practical reason) کو دیکھا جائے اور عملی طورپر جو ممکن ہو، اس کے مطابق، فیصلہ کردیا جائے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بہت سی ایسی مثالیں ہیں جو اِس اصول کی تصدیق کرتی ہیں۔ آپ نے اجتماعی نزاع کے معاملے میں ہمیشہ عملی بنیاد پر فیصلہ کیا، نہ کہ نظری انصاف کی بنیاد پر۔ اِس معاملے کی ایک نمایاں مثال صلح حدیبیہ ہے۔
7 - اگر نزاعی معاملے میں یہ صورت پیدا ہوجائے کہ اس میں تبدیلی ممکن نظر نہ آتی ہو، ایسی حالت میں عقل اور اسلام دونوں کا یہ تقاضا ہے کہ موجودہ صورت حال (status quo) کو مان کر مسئلے کو ختم کردیا جائے۔ کیوں کہ کوئی نزاعی معاملہ جب اِس نوبت کو پہنچ جائے تو انتخاب (option) صحیح اور غلط کے درمیان نہیں ہوتا، بلکہ اُس وقت انتخاب ممکن اور ناممکن کے درمیان ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں عقل اور اسلام دونوں کا یہ تقاضا ہے کہ ناممکن کے پیچھے مزید وقت ضائع نہ کیا جائے، بلکہ جو ممکن ہے اُس کو قبول کرلیاجائے۔ اِس کا فوری فائدہ یہ ہوگا کہ حالات نارمل ہوجائیں گے اور تعمیر وترقی کی سرگرمیاں کسی رکاوٹ کے بغیر جاری ہوجائیں گی۔
خلاصہ بحث
خلاصہ یہ کہ لمبی مدت کی ناکام جدوجہد کے بعد اب اجودھیا کا معاملہ نظر ثانی (reassessment) کا معاملہ بن چکا ہے۔ اب وہ وقت گزر چکا ہے جب کہ اُن تدبیروں کو دہرایا جائے جن کو اس سے پہلے بار بار بڑے پیمانے پر عمل میں لایا گیا، مگر وہ مکمل طور پر ناکام ثابت ہوا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ 30 ستمبر 2010 کے پہلے کی تاریخ کو بھلا دیا جائے اور 30 ستمبر 2010 کے بعد سامنے آنے والے حقائق کو ملحوظ رکھتے ہوئے از سرِ نو اِس معاملے میں فل اسٹاپ لگا دیا جائے۔ اِس مسئلے میں مزید کاما لگانا، اب صرف اپنی تباہی میں اضافے کا باعث ہوگا، وہ کسی بھی درجے میں مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ اِس معاملے میں اب اگر کوئی کاما لگایا جائے تووہ یقینی طور پرمسلمانوں کے احساسِ ناکامی میں احساسِ ذلت کے اضافے کے ہم معنی ہوگا، اِس سے زیادہ اور کچھ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غیر دعوتی ذہن

نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (5 اگست2010 ) میں ایک خبر اِس عنوان کے تحت چھپی ہے۔ پاکستان کے ایک ہندو نوجوان کے تابوت پر ’’کافر‘‘ کا ٹیگ لگایا گیا :
Pak Hindu youth’s coffine tagged 'Kafir'.
خبر میں بتایا گیا ہے کہ 28 جولائی 2010 کو پاکستان کا ایک ہوائی جہاز گر کر تباہ ہوگیا۔ اِس جہاز میں کُل 152 مسافر تھے، جو سب کے سب مر گئے۔ اِن مسافروں میں پاکستان کا ایک ہندو نوجوان پریم چند (25سال) تھا۔ وہ بھی اِس حادثے میں ختم ہوگیا۔ مردہ لاشوں کا جب تابوت تیار کیاگیا تو اُن میں سے ایک تابوت مذکورہ ہندو نوجوان کا بھی تھا۔ عام اصول کے مطابق، اِس تابوت پر ہندو نوجوان کا صرف نام لکھنا چاہیے تھا، لیکن پیک کرنے والوں نے اس کے تابوت پر نمایاں حروف میں ’’کافر‘‘ لکھ دیا:
The coffin of a promising young Pakistani Hindu social worker, killed in the recent airliner crash here, has been marked as 'kafir' or infidel, causing anguish and revulsion among his friends and netizens. Prem Chand, 25, a bright spark from the minority Hindu community, was a member of the National Youth Parliament and was heading to Islamabad from Karachi to attend the organisation's last session when the Airblue flight crashed into the Margallah Hills on July 28, killing all 152 people on board. Ehsan Naveed Irfan, a youth parliamentarian who identified Prem Chand's body, said the coffin was first marked in black with the word 'kafir' and this was then highlighted in red. (p. 13)
پاکستانی فضائیہ کے ذمے داروں کے اندراگر انسانی ہمدردی کا جذبہ ہوتا تو وہ تابوت پر صرف ہندو نوجوان کا نام لکھتے۔ اور اگر ان کے اندر دعوتی جذبہ ہوتا تو وہ درد مندی کے ساتھ یہ سوچتے کہ ہمارے ملک کا ایک شخص کم عمر ی میں اس دنیا سے چلا گیا اور ہم یہ نہ کرسکے کہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرتے ہوئے اُس کو خدا کا پیغام پہنچا دیں — کیسے عجیب ہیں وہ لوگ جن کے اندر نہ انسانی ہمدردی ہے اور نہ دعوتی تڑپ۔ اِس کے باوجود وہ اپنے آپ کو اسلام کا سب سے بڑا نمائندہ سمجھتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

جذباتی قیادت

ایک پاکستانی مسلمان جو پروفیشن کے اعتبار سے ڈپلومیٹ (diplomate)تھے، انھوں نے ایک امریکن لڑکی سے شادی کی جو کہ کرسچن تھی۔ اس سے ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام داؤد (David Coleman Headley) تھا۔
جیسا کہ اس کے چچا نے بتایا، نوجوانی کی عمر تک ہیڈلی ایک معتدل اور امن پسند مسلمان تھا،لیکن بعد کو وہ بہت بڑا ملٹنٹ بن گیا۔ 26 نومبر 2008 کو بمبئی پر حملے کا وہی ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس نے ڈنمارک کے کارٹونسٹ کے خلاف قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا۔ اس کی اِن متشددانہ کارروائیوں میں سیکڑوں آدمی ہلاک ہوگئے، وغیرہ۔
داؤد ہیڈلی کس طرح ایک ملٹنٹ مسلمان بن گیا، اِس کاراز اُس نے خود اپنے اُس بیان میں بتایا جو اُس نے شکاگو کی امریکی عدالت میں دیا تھا۔ اِس بیان میںاُس نے کہا کہ — پاکستان کے شعلہ بار مقرر جو انڈیا کے خلاف نفرت سے بھری ہوئی تقریریں کرنے کے لیے مشہور ہیں، ان کی تقریریں سن کر میں ملٹنٹ بن گیا۔ اس نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ حافظ سعید کی تقریروں سے متاثر ہوا:
Hafiz Mohammad Saeed the hate-spewing jihadi ideologue. But given that Headly has already acknowledged having been inspired by Saeed’s anti-India rehetoric and his testimony about the involvement of Lashkar commanders in the Mumbai plot. (The Times of India, March 20, 2010)
یہ مثال موجودہ زمانے میں پوری امتِ مسلمہ کی تصویر ہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے اندر ایسے جذباتی رہنما پیدا ہوئے جن کی پر شور خطابت (rhetoric) نے مسلمانوں کو دیوانہ بنادیا۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں الثرثارون (الترمذی، رقم الحدیث:2018 )کہاگیا ہے۔ یہی رہنما موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی تباہی کے اصل ذمے دار ہیں۔رہنمائی کا کام صرف اُس شخص کو کرنا چاہیے جو غیرجذباتی انداز میں سوچے اور غیر جذباتی بنیادوں پر فیصلے لے سکے۔
واپس اوپر جائیں

نظریۂ ارتقاء پر شبہات

انڈونیشیا کے ایک جزیرے میں 2003 میں کسی قدیم انسان کا ایک متحجرڈھانچہ (fossilized skeleton)ملا۔ ماہرین کی ایک انٹرنیشنل ٹیم نے گہرائی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا۔ اِس مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں، اُس سے معلوم ہوا کہ یہ ڈھانچہ 18 ہزار سال پرانا ہے۔ اِس مطالعے کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 مارچ 2010 ) میں چھپا ہے۔ماہرین کا خیال ہے کہ— یہ دریافت اچانک انسانی ارتقاء کے بارے میں سائنسی نظریات کے خلاف ایک بڑا چیلنج بن گئی ہے۔ انسانی ارتقاء کا عمل اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے، جیسا کہ پہلے سمجھ لیا گیا تھا:
Almost overnight, the find threatened to change science's understanding of human evolution. It would mean contemplating the possibility that not all the answers to human evolution lie in Africa, and that human development was more complex than thought (p. 23)
حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ دریافت نظریۂ ارتقاء کے لیے بڑا چیلنج (big challenge) نہیں، بلکہ یہ نظریہ ارتقاء کی ایک بڑی تردید ہے۔ اِس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسانی ارتقا ء کا نظریہ اُس سے زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ اس کو سمجھ لیا گیا تھا۔ اصل یہ ہے کہ انسانی زندگی کا واقعہ اِس سے زیادہ پیچیدہ ہے کہ نظریۂ ارتقاء کے ذریعہ اس کی توجیہہ ہوسکے:
Human development is complex enough to be explained by the evolution theory.
حقیقت یہ ہے کہ ارتقاء کا نظریہ صرف ایک مفروضہ ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی علمی نظریہ۔ جدیدتعلیم یافتہ لوگوں کے درمیان وہ صرف اِس لیے پھیل گیا کہ اُنھیں یہ نظر آیا کہ یہ اُن کے لیے ایک ورک ایبل (workable) نظریہ ہے۔ تاہم اِس نظریے کا ثابت شدہ واقعہ ہونا، ابھی تک اہلِ علم کے درمیان اختلافی مسئلہ بنا ہوا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خاتمۂ تاریخ کا الارم

امریکا میں مطالعۂ فطرت کا ایک ادارہ ہے جس کو عام طورپر انٹرنیشنل تھنک ٹینک کہاجاتا ہے۔ اس ادارے کا اصل نام حسب ذیل ہے:
Global Footprint Network
اِس ادارے نے عالمی ریسرچ کے بعد بتایا ہے کہ کرۂ ارض تیزی کے ساتھ انسان کے لیے ناقابل رہائش (inhabitable) بنتاجارہا ہے، اِس لیے کہ موجودہ زمین کے ذرائع اُس معیارِ حیات کے لیے ناکافی ہیں جو جدید تہذیب کے ظہور کے بعد انسان نے اختیار کیا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگر زمین کے تمام باشندے امریکا کے معیارِ حیات پر زندگی گزارنا چاہیں تو آج ہی ہم کو موجودہ زمین جیسی پانچ زمین کی ضرورت ہوگی۔ اِسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ دنیا میں ذرائع حیات اگر موجودہ صورتِ حال پر برقرار رہے، تب بھی موجودہ زمین کے ذرائع صرف 2030 تک کام آ سکتے ہیں:
Humans using resources at alarming rate- Humanity would need five earths to produce the resources needed, if everyone lived as profligately as Americans. We are demanding nature's services - resources and creating CO2 emissions- at a rate 44% faster than what nature can regenerate and reabsorb. That means, it takes the Earth just under 18 months to produce the ecological services, humanity needs in one year. And if humankind continues to use natural resources and produce waste at the current rate, we will require the resources of two planets to meet our demands by the early 2030s, a gluttonous level of ecological spending that may cause major ecosystem collapse (The Times of India, New Delhi, November 25, 2009, p. 24)
یہ صورت حال بے حد الارمنگ (alarming)ہے۔ مذکورہ سائنسی رپورٹ قیامت کی پیشگی اطلاع کے ہم معنیٰ ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ لوگ بیدار ہوجائیں۔ لوگ اپنے آپ کو اِس قابل بنائیں کہ وہ محفوظ طورپر قیامت کا سامنا کرسکیں۔ اِس بیداری کا تعلق مسلمانوں سے بھی اتنا ہی ہے جتنا کہ اُس کا تعلق غیر مسلموں سے ہے۔
واپس اوپر جائیں

قیامت قریب آگئی

ایس سی اے آر (Scientific Committee on Antarctic Research) کی ایک سروے رپورٹ میڈیا میں شائع ہوئی ہے۔ تیرہ ملکوں کے ایک سو انٹرنیشنل سائنس دانوں کے گروپ نے یہ سروے کیا ہے۔ اِس سروے میں بتایا گیا ہے کہ برف کے ذخائر (گلیشئر) کے پگھلنے سے سمندروں میں پانی کی سطح بڑھ رہی ہے۔ اکیسویں صدی عیسوی کے خاتمے تک سطحِ آب کا یہ اضافہ چار فٹ سے زیادہ ہوجائے گا۔ اگر یہ اندازہ درست ثابت ہوتا ہے توبہت سے سرحدی علاقے زیر آب ہو جائیں گے۔ مثلاًمالدیپ، ممبئی ، مدراس اور کلکتہ، وغیرہ:
Rise in sea levels could be double of estimates — a major study by a group of 100 international scientist has said that sea levels are likely to rise by as much as 1.4 metres (more than 4 feet) by the end of this century. If these projections come true, most low-lying island nations like the Maldive would go under the sea. The New study also significantly enhances the threat to the Indian coasts — and cities like Mumbai, Chennai and Kolkata. (The Times of India, New Delhi, December 2009, p. 1)
حدیث میں قیامت کی جو پیشین گوئیاں بتائی گئی ہیں، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ زمین پر پانی کی سطح بلند ہوجائے گی۔بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سطحِ آب میں اضافے کا یہ عمل تیزی سے شروع ہوچکا ہے۔ سائنس داں یہ بھی مانتے ہیں کہ اِس عمل کو روکنا، انسان کے بس سے باہر ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ انسان توبہ اور انابت میںاضافہ کرے۔ فطرت کے اِس عمل کو روکنے کے لیے کانفرنسیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
تمام قرائن یہ بتارہے ہیں کہ موجودہ زمین پرانسان کی تاریخ اب خاتمہ کے قریب پہنچ گئی۔ چناں چہ سائنس داں انسانی نسل کی بقا کے لیے زمین جیسے ایک اور کرہ کی تلاش میں ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ وسیع خلا میں زمین جیسا کوئی اور کرہ موجود نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سننے کی عادت ڈالیے

تجربہ بتاتا ہے کہ ملاقات کے وقت اکثر لوگ صرف اپنی بات سناتے رہتے ہیں، وہ دوسرے کی بات سننے کے حریص نہیں ہوتے۔ یہ بہت بڑی کمزوری ہے۔ اِس کمزوری کا براہِ راست نقصان خود زیادہ بولنے والے کے حصہ میں آتا ہے، اور وہ یہ کہ اس کا ذہنی ارتقا نہیں ہوتا۔
بسیار گوئی کی بنا پر یہ ہوتا ہے کہ ایسے آدمی کے اندر ذہنی ارتقا کا عمل جاری نہیں ہوتا۔ ایسے آدمی کا یقینی انجام یہ ہے کہ وہ ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہو کر رہ جائے۔
کسی نے درست طورپر کہا ہے کہ — جب میں بولتا ہوں تو میں سوچ نہیں رہا ہوں:
When I am speaking, I am not thinking.
ذہنی ارتقا کا تعلق تمام تر سوچ پر ہے۔ زیادہ بولنا، آدمی کے ذہن میں سوچنے کے عمل کو روک دیتا ہے، اور جس آدمی کے اندر سوچنے کا عمل رک جائے، اُس کا یہ حال ہوگا کہ وہ فکری اعتبار سے جہاں پہلے تھا، وہیں وہ بعد کے زمانے میں بھی باقی رہے گا۔
ہر آدمی کا الگ الگ میدان ہوتاہے، ہر آدمی مختلف قسم کے تجربات سے گزرتا رہتا ہے۔ اِس بنا پر ہر آدمی کے پاس کچھ ایسی بات ہوتی ہے جو دوسرے کے پاس نہیں ہوتی۔
اِس لیے جب بھی آپ کسی شخص سے ملیں تو آپ پیشگی طورپر یہ یقین کرلیجیے کہ اس کے پاس کوئی نئی بات ہوگی۔ اِس لیے سب سے پہلے چپ رہ کر اس کی بات سنئے۔ اس کے تجربات پوچھ کر اپنے علم میں اضافہ کیجئے۔
یہی ملاقات کا واحد صحیح طریقہ ہے۔ آج کل ہر آدمی سنانے کا ماہر بنا ہوا ہے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ سننے کے عادی بنیں۔ سنانا بھی ایک عادت ہے اور سننا بھی ایک عادت۔ بہتر یہ ہے کہ آپ سننے کی عادت ڈالیں، نہ کہ صرف سنانے کے عادی بنے رہیں۔ سننے کی عادت صحت کی علامت ہے اور سنانے کی عادت بیماری کی علامت۔
واپس اوپر جائیں

نادانی کی چھلانگ

19 فروری 2010 کے اخبارات میں ایک انوکھی خبر تھی۔ خبر کے مطابق، امریکا کے ایک 53 سالہ شخص جوزیف (Joseph Andrew Stack) نے امریکا کے شہر آسٹن (Texas) میں اپنا چھوٹا جہاز اڑایا اور اس کو لے جاکر فیڈرل ٹیکس آفس (federal tax office) کی سات منزلہ بلڈنگ کے دوسرے فلور سے ٹکرادیا۔ اس کے بعد جو واقعہ ہوا، اس کو بلڈنگ کے ایک شخص نے اِن الفاظ میں بیان کیا:
It was almost like an earthquake.
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مذکورہ امریکی شخص نے جس جہاز کو بلڈنگ سے ٹکرا کر خود کشی کی، وہ کوئی مسافر بردار جہاز نہ تھا، بلکہ وہ اُس کا اپنا ذاتی جہاز تھا:
The plane belonged to Joseph Andrew Stack. (The Guardian,February. 18, 2010)
جس امریکی شخص نے خود کشی کی، وہ کوئی غریب آدمی نہ تھا۔ اس کے پاس اپنا ذاتی جہاز تھا، اور اِسی کی نسبت سے یقینی طورپر دوسری بہت سی چیزیں اس کو ملی ہوئی تھیں۔ اِس کے باوجود اس نے کیوں خود کشی کرلی۔ اِس کا سبب یہ تھا کہ اُس کو موت سے پہلے کے مسئلے کی خبر تھی، لیکن اُس کو موت کے بعد کے مسئلے کی خبر نہ تھی۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جانتا تو وہ ہر گز خود کشی نہ کرتا۔
کہا جاتا ہے کہ مذکورہ امریکی شخص ٹیکس کے مسائل سے پریشان تھا اور اِس بنا پر اس نے خود کشی کرلی۔ لیکن ٹیکس کا مسئلہ بہر حال ایک چھوٹا مسئلہ تھا، جب کہ خود کشی کے بعد پیش آنے والا مسئلہ یقینی طورپر اس کے لیے ایک بڑے مسئلہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر وہ اِس حقیقت کو جانتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتا کہ ایک چھوٹے مسئلے سے گھبرا کر بڑے مسئلے کی طرف چھلانگ لگا دے — یہی نادانی آج تمام لوگ کررہے ہیں، کوئی ایک صورت میں کررہا ہے اور کوئی دوسری صورت میں۔
واپس اوپر جائیں

خودکشی حرام کیوں

یکم اکتوبر 2009 کا واقعہ ہے۔ تھنّہ منڈی (جموں وکشمیر) کے علاقے میں ایک گاؤں کے اندر ایک واقعہ ہوا۔ ایک ملٹنٹ کمانڈر اپنے دو ساتھیوں کے ہم راہ رات کے وقت ایک گھر میں داخل ہوا۔ اِن لوگوں نے گھر کے مرد اور عورت کو اتنا زیادہ مارا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے ۔ اُن کو شک تھا کہ یہ لوگ مخبری کا کام کرتے ہیں۔ ان کی 18 سالہ لڑکی رخسانہ اُس وقت گھر کے اندر موجود تھی۔ وہ اِس منظر کو دیکھ نہ سکی۔ اس نے فوراً ایک کلہاڑی لے کر پہلے ملٹنٹ کمانڈر کو مار کر گرادیا۔ اس کے بعد تیزی سے اس کی گن چھین کر اُسی گن سے اس کے اوپر کئی فائر کیے۔ ملٹنٹ کمانڈر اسی وقت ہلاک ہوگیا اور اس کے دونوںساتھی اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔
اِس واقعے میں بہت بڑا سبق ہے۔ انسانی دماغ کے اندر غیر معمولی توانائی موجود ہے، عام حالات میں وہ غیر متحرک رہتی ہے، لیکن جب کوئی شدید جھٹکا لگتا ہے تو دماغ کے اندر موجود یہ توانائی فی الفور جاگ اٹھتی ہے اور ایک لمحے کے اندر آدمی کو ہیرو بنادیتی ہے۔
مذکورہ لڑکی کے ساتھ ایسا ہی ہوا۔ اس کے والدین کے ساتھ جو ہولناک معاملہ پیش آیا، اس نے اس کے دماغ کے بند خانوں کو کھول دیا۔ ایک لمحے کے اندر اُس نے ناقابلِ تسخیر پلاننگ کی، چناں چہ اس نے پہلے کلہاڑی کے ذریعے کمانڈر کو مغلوب کیا اس کے بعد بجلی جیسی تیزی کے ساتھ کمانڈر کی گن کو چھینا اور فی الفور گن چلا کر اس کا خاتمہ کردیا۔
اِس موقع پر لڑکی اگر خودکشی کر لیتی تو وہ اِس بہادرانہ کارنامے کو انجام دینے سے محروم رہ جاتی۔ خود کشی کو اسلامی شریعت میں اِس لیے حرام کیا گیا ہے، تاکہ انسان کی زندگی کو بچایا جائے اور ا س کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ زندہ رہ کر مستقبل میںکوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے:
It is to save a life, so that he may play a greater role in future.
واپس اوپر جائیں

ڈکشنری کافی نہیں

اگر آپ گہرا علم نہیں رکھتے اور صرف ڈکشنری کی مدد سے قرآن کو پڑھنا چاہتے ہیں تو یقین ہے کہ آپ غلطیاں کریں گے۔ گہرے علم کے بغیر آدمی صرف ڈکشنری یا لغت کی مدد سے نہ قرآن کو سمجھ سکتا، نہ کسی اور کتاب کو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ الفاظ کے معانی اس کے سیاق (context) سے متعین ہوتے ہیں۔ اِسی طرح ہر لفظ کا ایک لغوی مفہوم ہوتا ہے، اور ایک اس کا استعمالی مفہوم۔ اِسی طرح صِلہ (preposition) کے فرق سے بھی الفاظ کے معانی بدل جاتے ہیں۔ جو لوگ اِس طرح کی بصیرت نہ رکھتے ہوں، وہ کسی کتاب کو درست طور پر نہیں سمجھ سکتے۔
مثلاً انگریزی کی مثال لیجیے۔ کسی گھر میں آگ لگ جائے تو کہا جائے گا:
The house cought fire.
اِس جملے میں فائر (fire) کے معنی آگ کے ہیں۔ دوسری طرف، اگر کسی آدمی کو سروس سے برخاست کردیا جائے تو کہا جائے گا:
He was fired.
اِس جملے میں ’’فائر‘‘ کے معنی آگ کے نہیں ہیںاور نہ گولی مارنے کے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سروس ختم کردی گئی ہے۔ الفاظ کا یہ فرق صرف گہرے علم کے بعد آدمی کو حاصل ہوتا ہے۔ یہی معاملہ قرآن کا ہے۔ مثلاً قرآن کی ایک آیت ہے: أقیموا الدین (42: 13)اِس آیت کا لفظی ترجمہ ہے: دین کو قائم کرو۔ جو آدمی صرف لغت کو جانتا ہو اور اس کے اندر علمی بصیرت نہ ہو، وہ اِس کا مطلب یہ لے لے گا کہ دین کو غالب کرو، شرعی احکام کو نافد کرو، حالاں کہ آیت کا یہ مطلب نہیں۔ اِس آیت میں دین کی اقامت کا مطلب دین کی پیروی کرنا ہے، نہ کہ دین کو خارجی دنیا میں نافذ کرنا۔ جو آدمی گہری علمی بصیرت نہ رکھتا ہو، اُس کو چاہیے کہ وہ کسی کو اپنا رہنما بنا لے۔ وہ اُس پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی نصیحت پر عمل کرے، نہ یہ کہ وہ اپنا رہنما آپ بن جائے ۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
9 اکتوبر 2010 کو نئی دہلی کے اردو اخبار ’’راشٹریہ سہارا‘‘ میں بابری مسجد کے موضوع پر آپ کا ایک مضمون شائع ہوا۔ اِس مضمون کو دیکھنے کے بعد دو مسلمانوں کے درمیان جوگفتگو ہوئی، وہ اِس طرح تھی۔ ایک نے کہا: کیا مولانا نے بابری مسجدہندوؤں کو دے دی ۔ دوسرے مسلمان نے جواب دیا: وہ تو بہت پہلے دے چکے ہیں۔ براہِ کرم، اِس تبصرہ پر روشنی ڈالیے۔ (محمد شارق ، نئی دہلی)
جواب
یہ تبصرہ محض بے شعوری کا ثبوت ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ تمام مسلمان بابری مسجد کو عملاً چھوڑچکے ہیں، بابری مسجد اب اُن کا حقیقی کنسرن (concern) نہیں۔ اب ہر مسلمان، بشمول مذکورہ تبصرہ نگار، مکمل طورپر مادّی ترقی کو حاصل کرنے میں مشغول ہے۔ وہ اگر بابری مسجد کا ذکر کرتا ہے تو وہ صرف لپ سروس(lip service) کے طور پر ہوتا ہے۔
اِس حقیقت پر غور کیجئے تو راقم الحروف اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان جو فرق ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ میںنے بابری مسجد کو دے دیا اور بقیہ مسلمانوں نے نہیں دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’دینے‘‘ کے واقعے کا تعلق دونوں طرف سے ہے، فرق صرف یہ ہے کہ میںنے اِس معاملے میں جو رویہ اختیار کیا ہے، وہ شعوری طور پر ایک اصول کے تحت اختیار کیا ہے، جب کہ دوسرے مسلمانوں نے اپنا رویہ ذاتی انٹرسٹ (مفاد) کے تحت بنایا ہے، یعنی زبانی طورپر بابری مسجد کا نام لینا اور عملاً اُس سے پوری طرح غیر متعلق ہو کر اپنے دنیوی بہبود کے لیے مصروف رہنا۔
مزید یہ کہ راقم الحروف نے کبھی وہ لفظ استعمال نہیں کیا جو مذکورہ تبصرہ میں میری طرف منسوب کیاگیا ہے۔ اگر کسی کو اِس معاملے میں میرا نقطہ نظر بتانا ہے تو اس کو خود میرا لفظ استعمال کرنا چاہیے، نہ کہ اپنا لفظ۔ 6 دسمبر 1992کو میں نے جو کچھ کہا تھا، وہ یہ تھا — ایک مسجد پر مسلمان چپ ہوجائیں، اور ایک کے بعد دوسری مسجدوں پر ہندو چپ ہوجائیں۔ اُس وقت تمام مسلمان اِس پر غصہ ہوگئے تھے، لیکن آج حالات کے دباؤ کے تحت، تمام مسلمان اس کو عملاً اختیار کرچکے ہیں۔ اِ س دنیا کا قانون یہ ہے کہ اگر آپ ایک بات کو اصول کے تحت نہ مانیں تو آپ کو اُسے دباؤ کے تحت ماننا پڑے گا، اور اِسی کا دوسرا نام منافقت ہے۔
بابری مسجد کے معاملے میں دوسرے لوگ جو رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں، وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے صرف منافقت ہے، نہ کہ اصول پسندی۔ جو آدمی بابری مسجد کے منہدم کئے جانے کے واقعے کو ظلم کا معاملہ سمجھتا ہے، اُس کو جاننا چاہیے کہ اِس معاملے میں صرف الفاظ بولنا کافی نہیں ہے، بلکہ اُس کو ’’مجاہد‘‘ بن کر اجودھیا پہنچ جانا چاہیے۔ اپنے کاروبار میںمشغول رہتے ہوئے صرف زبان سے مذکورہ قسم کے الفاظ بولنا، واضح طور پر منافقانہ رویہ ہے اور منافقت سے زیادہ بُری کوئی چیز اسلام میں نہیں (4: 145)۔ اِس قسم کی بولی بلا شبہہ منافقانہ بولی ہے، نہ کہ مومنانہ بولی۔
سوال
آج ساری دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کے جذبات ابھارے جارہے ہیں۔ کہیں کارٹون بنانے کے واقعات پیش آرہے ہیں تو کہیں قرآن کریم کی بے حرمتی کی جارہی ہے۔ایسی صورت میں امتِ مسلمہ کا کیا رول ہونا چاہیے (جیسا کہ ظلم وستم کو روکنے کا حکم ہے اور نہ روک سکیں تو دعا کرنے کا حکم) برائے مہربانی قرآن وحدیث کی روشنی میںجواب دیں، جیسا کہ آپ کرتے ہیں۔ یہ بتائیں کہ مسلمان روکنے کی پوزیشن میں ہیں یا صرف دعا کرنے کی پوزیشن میں۔آپ کی بات اور آپ کا انداز سب سے جدا ہے اور مجھے مطمئن کرنے والا ہوتا ہے۔ (حماد احمد، نئی دہلی)
جواب
یہ کہنا درست نہیں کہ مسلمانوں کے جذبات ابھارے جارہے ہیں، یا اُن کو مشتعل کیا جارہا ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ مسلمان بعض واقعات پر غیر ضروری طورپر مشتعل ہو رہے ہیں، وہ غیر ضروری طور پر ان واقعات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں صبر وتحمل پر بہت زیادہ زور دیاگیا ہے، حتی کہ نماز سے پہلے صبر کا حکم ہے: استعینوا بالصبر والصلاۃ (2: 45) ۔ مگر مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ وہ نماز تو دھوم سے پڑھتے ہیں، لیکن وہ صبر کو پوری طرح چھوڑے ہوئے ہیں۔ اِس مسئلے کا حل صرف یہ ہے کہ مسلمان خود اپنے رویے کو بدلیں۔
آپ نے لکھا ہے کہ اِس معاملے میں مسلمان کیا کریں، وہ اِن واقعات کو روکیں یا وہ اُس کے لیے دعا کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس معاملے میں مسلمانوں کو خود اپنے آپ کو روکنا ہے اور خود اپنے لیے دعا کرنا ہے۔ کارٹون کا واقعہ یا قرآن کی بے حرمتی جیسی خبریں سن کر بھڑک اٹھنا، یہی مسلمانوں کی اصل غلطی ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ جب وہ ایسی کوئی خبر سنیں تو وہ فوراً متعلق افراد سے ملیں اور اُن کو اسلامی لٹریچر پڑھنے کے لیے دیں۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا میں ہر انسان کو مصلحتِ امتحان کی بنا پر آزادی دی ہے۔ مذکورہ قسم کا کوئی واقعہ خدا کی دی ہوئی آزادی کا صرف ایک غلط استعمال ہوتا ہے۔ چوں کہ آپ آزادی کو ختم نہیں کرسکتے، اس لیے اُس کے خلاف لڑنا بھی آپ کے لیے درست نہیں۔ آپ صرف یہ کرسکتے ہیں کہ تبلیغ ونصیحت کے ذریعے اُس آدمی کی سوچ کو بدلیں، اسلام کے صحیح تعارف کے ذریعے اُس کے ذہن کو درست کریں اور اس کی اصلاح کے لیے اللہ سے دعا کریں۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز— 207

1 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے مدھیہ پردیش کے تاریخی شہر گوالیار میں 60واں نیشنل بک فئر منعقد ہوا۔ یہ بک فئر 4 اگست 2010 سے 9 اگست 2010 تک جاری رہا۔ اِس میں گڈورڈ بکس (نئی دہلی) نے حصہ لیا۔ یہاں یہ واحد اسلامک اسٹال تھا۔ لوگ بڑی تعداد میں اسٹال پر آئے اور صدر اسلامی مرکز کا ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ مقامی اخبارات نے اس کی خبریں شائع کیں۔ ہندی اخبار ’’پریوار ٹوڈے‘‘ (6 اگست 2010 ) نے صدر اسلامی مرکزکے کام کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
ekSykuk oghnqیhu [kku iqLrdksa ds ek/;e ls fiNys ipkl o"kZ ls 'kkfUr vkSj HkkbZpkjs dk lans'k ns jgs gSaA
2 - اگست- ستمبر 2010 (رمضان 1431 ہجری) میں جنوبی ہند کا سفر ہوا۔ یہ سفر 20 اگست 2010 کو شروع ہوا اور 5 ستمبر 2010 کو ختم ہوا۔ آندھرا پردیش کے حیدرآباد ، محبوب نگر، کریم نگر اور ریاست کرناٹک کے شہر گل برگہ میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ہمارے پاس ماہ نامہ الرسالہ کے 2000 شمارے اور ’’صوم رمضان‘‘ کی 8000 کاپیاں تھیں جو وہاں کے تعلیم یافتہ افراد کے درمیان تقسیم کی گئیں۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مقامی لوگوں نے اپنا بھر پور تعاون دیا۔ کافی لوگ الرسالہ کے ممبر بنے اور پرانے ممبروں نے اپنی خریداری کی تجدید کی -
3 - پستک میلہ سمیتی (نئی دہلی) کی جانب سے مہاراشٹر کے تاریخی شہر ناگ پور میں 62 واں نیشنل بک فئر منعقد ہوا۔ یہ بک فئر 24 ستمبر 2010 سے 3اکتوبر 2010 تک جاری رہا۔ اس میں گڈ ورڈ بکس نے حصہ لیا۔ یہاںیہ واحد اسلامک اسٹال تھا۔ دعوتی اعتبار سے یہ بک فئر بہت کامیاب رہا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے یہاں سے اسلامی مرکز کی کتابیں اور ہندی اور انگریزی ترجمہ قرآن حاصل کیا۔ بک فئر کے دوران 27 اگست 2010 کو ’’سمّان سماروہ‘‘ ہوا۔ پستک میلہ سمیتی کی طرف سے شہر ناگپور کے 16 لوگوں کو مختلف فیلڈ (لٹریچر وصحافت) میں نمایاں کام کرنے پر ایوارڈ دیا گیا۔ اِس موقع پر سبھی شرکاء کو خاص طورپر بک فئر کے سکریٹری چندر بھوشن اور سابق یونین منسٹر اور ایم پی مسٹر ولاس روا (Vilasroa Muttemwar) کو ہندی ترجمہ قرآن کی ایک ایک کاپی دی گئی۔ (شاہ عمران حسن)
4 - فرینکفرٹ (جرمنی) میں 6-10 ستمبر 2010 ایک انٹرنیشنل بک فئر ہوا۔ اِس میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔ یہاں صدر اسلامی مرکز کی کتاب ’’پرافٹ آف پیس‘‘ کو تین انٹرنیشنل پبلشرز نے مختلف زبانوں — جرمن، فرنچ، مَلے میں شائع کرنے کا وعدہ کیا۔ اس موقع پر حاضرین کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا گیا۔
-5 دور درشن (نئی دہلی) کے نیشنل چینل کے تحت اس کے آڈی ٹوریم میں 25 ستمبر 2010کو ایک پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام 2 اکتوبر کی نسبت سے مہاتما گاندھی کے بارے میں تھا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Non-violence and Relevance of Gandhian Principles.
یہ ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اِس میں ٹاپ کے پینلسٹ شامل تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اِس میں شرکت کی اور موضوع پر اظہار خیال کیا۔ اِس موقع پر سی پی ایس کی طرف سے شرکاء کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور ’’پرافٹ آف پیس‘‘ مطالعے کے لیے دی گئی جس کو لوگوں نے بہت شوق سے لیا۔
6 - نئی دہلی کے اسٹار ٹی وی اور این ڈی ٹی وی نیز کئی اخباروں نے 30 ستمبر 2010 کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو بابری مسجد کے حالیہ فیصلے کے بارے میں تھا۔ اِس میں بتایا گیا کہ عدالت کا فیصلہ آنے کے بعد مسلمان اب معاملے کو حکومت کے حوالے کردیں، تاکہ باہمی امن قائم ہو ا ور تعمیری کاموں کے مواقع کھل جائیں۔
7 - بابری مسجد ورڈکٹ (30 ستمبر2010) کے بعد صدر اسلامی مرکز نے اِس موضوع پر ایک مضمون تیار کیا جو اِس شمارے میں موجود ہے۔ یہ مضمون نئی دہلی کے اردو اخبار ’’راشٹریہ سہارا‘‘ (8 اکتوبر2010) اور ٹائمس آف انڈیا (12 اکتوبر 2010 ) میں شائع ہوا۔ ہندو مسلم دونوں طبقے کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگوں میں اس کو بے حد پسند کیا گیا۔ اِس سے اندازہ ہوتاہے کہ الرسالہ کا دعوتی فکر اب وقت کی آواز بن چکا ہے۔ اِس سلسلے میں لوگوں نے بڑے پیمانے پر اپنے تاثرات بھیجے۔ یہاں صرف دو تاثر نقل کیے جارہے ہیں:
ک The article is very well written. Maulana’s solution alone will lead to peace between the two communities and put an end to this issue. (Swami Nikhilananda, New Delhi)
ک This is to convey my appreciation of your fine essay, 'Babri Masjid Revisited' in 'The Times of India' of 12 October 2010.(Vasumathi Krishnasami, Bangalore)
8 - امریکا کے لیے 2 اکتوبر 2010 کی صبح کو صدر اسلامی مرکز نے ایک خطاب کیا۔ اِس کو ٹیلی کانفرنسنگ کے ذریعے امریکا کے مختلف شہروں میں سناگیا۔ یہ ایک گھنٹہ کا خطاب تھا جو انگریزی زبان میں ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا:
Establishing contact with God.
خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ یہ پروگرام آدھ گھنٹے تک جاری رہا۔
9 - جیسا کہ معلوم ہے، سی پی ایس انٹرنیشنل کے تحت 2-3 اپریل 2010 کو نئی دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میں الرسالہ مشن کے ممبران کا ایک دعوتی اجتماع (Dawah Meet) ہوا تھا۔ اِس اجتماع سے غیر معمولی طور پر دعوتی اور تربیتی فائدہ ہوا۔ اِس میں بہت سے ایسے افراد تھے جو الرسالہ مشن کے تحت لمبی مدت سے عملاً دعوتی کام کررہے ہیں،مگر انھوں نے کبھی صاحبِ مشن (مولانا وحیدالدین خاں صاحب) سے براہِ راست ملاقات نہیں کی تھی۔ اس کے باعث ان کے ذہن میں مختلف قسم کے سوالات تھے۔ اجتماع میں شرکت کے بعد انھوںنے بتایا کہ مولانا کو دیکھ کر ہی ہمارے تمام سوالات ختم ہوگئے اور دعوت کی نئی اسپرٹ ہمارے اندر پیدا ہوگئی۔ اِس سلسلے میں مختلف ساتھیوں کے کچھ تاثرات مختصراً یہاں اردو اور انگریزی زبان میں نقل کئے جاتے ہیں:
ک دعوہ میٹ واقعی معنوں میں Angels Meet تھی۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام جس درد و کرب کے ساتھ الرسالہ مشن سے وابستہ یہ افراد پہنچا رہے ہیں، وہ صحابہ کے دور کی یاد دلاتا ہے۔ دعوت الی اللہ کے میدان میں بیش بہا قربانیوں کے باوجود ان کو کوئی فخر نہیں، بلکہ احساس ذمہ داری سے ان کی آنکھیں نم تھیں۔ اہلِ جنت کی یہی نشانی ہے — ایمان باللہ، عمل صالح اور تواضع۔ اِس مجلس میں کلمہ شہادت کو پہلی بار شعوری طور پرمولانا کے ساتھ تجدید کرنے کا تاریخی موقع نصیب ہوا۔ مجھ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی۔ یہ منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ ہر آنکھ سے آنسو بہہ رہے تھے اور وجود لرز رہا تھا۔ مولانا نے جب روتے ہوئے کہا: ’’اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں، میری ہڈیاں پگھل چکی ہیں‘‘ تو میرے ایک ساتھی نے مجھ سے کہا کہ اِس بوڑھے آدمی نے اپنی ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتار کر ہم پر ڈال دیا ہے۔ یہ احساس مجھ پر اس قدر غالب رہا کہ میں رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ Dawah Meet نے مجھے وادی کشمیر میں میر سید علی ہمدانی کے دعوتی مشن کو دوبارہ زندہ کرکے اسے عالمی سطح تک پہنچانے کے عزائم دئے۔میٹنگ کے بعد جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تونئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر ایک جاپانی خاتون (Yukie Matsuoka) سے دلچسپ انٹریکشن ہوا۔ میں نے خاتون کو قرآن کا انگریزی ترجمہ gift کیا۔ اس کو سینے سے لگا کر وہ خوشی سے جھوم اٹھی: “This is for me!” جیسے ایک ماں اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پاکر خوشی اور مسرت کااظہار کرتی ہے۔ میرے ساتھی اشک بار آنکھوں سے کہہ رہے تھے: ’’ہم مجرم ہیں، ہم مجرم ہیں‘‘ (حمید اللہ حمید، ایم اے، بیروہ، کشمیر)
ک دعوہ میٹ میں مولانا وحیدالدین خاں صاحب نے اپنی خصوصی تقریر کے آغاز میں کہا کہ یہ دعوہ کانفرنس سادہ معنوں میں صرف الرسالہ ریڈرس کی کانفرنس نہیںہے، بلکہ وہ الرسالہ اینجلس (angels) کی کانفرنس ہے۔اِس تاریخی اجلاس نے بلا تشبیہ حجۃ الوداع کی یاد تازہ کردی۔ مولانا نے بتایا کہ انھوںنے ساٹھ سال پہلے ایک تنظیم جس کا نام ’’انصار اللہ‘‘ تھا، قائم کیاتھا۔ اِس ٹیم میں اس وقت صرف مولانا اکیلے تھے۔ آج ساٹھ سال کی مسلسل محنت اور دعاؤں کے نتیجے میں انتہائی سنجیدہ اور باشعور لوگوں کی ایک طاقت ور ٹیم وجود میں آچکی ہے۔ مولانا نے حاضرین کانفرنس سے یہ امید ظاہر کی کہ یہ ٹیم اخوان رسول کی مانند ادخالِ قرآن جیسے عظیم ترین کام کو بخوبی طورپرانجام دے گی۔مولانا نے مزید کہا کہ اب میں بوڑھا ہوچکا ہوں، ساٹھ سال کی مسلسل محنت کے بعد میری ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ میں جلد ہی اپنے رب کے پاس چلا جاؤں، لیکن آپ لوگوں کو آخری سانس تک اپنے آپ کو اس مشن سے وابستہ رکھنا ہے۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ اِس سچے مشن کو پانا سچ مچ خدائی مدد ہے۔ یہی وہ مشن ہے جس کی مدد کا خدا نے وعدہ کیا ہے۔ ٹیم کے ہر ممبر کے چہرے پر روحانیت اور سنجیدگی چھائی ہوئی تھی۔ بیش تر حاضرین اس موقع پر اپنے آنسو روک نہیں پارہے تھے۔ میرے ساتھ بھی کچھ یہی روحانی احساس گزرا۔میں نے 11 جنوری 2006 کو عرفات کے میدان میں خدا کے سامنے حاضری دی تھی۔ وہی ربانی کیفیت ہمیں آج یہاں محسوس ہورہی تھی۔ صاحب مشن کے ساتھ ہم ایک لامحدود روحانی دریا میں نہا رہے تھے ، ایسا محسوس ہورہا تھا،جیسے ہم فرشتوں کی صحبت میں بیٹھے ہوئے ہوں، جیسے ہم خداوند ذوالجلال کی ابدی رحمتوں کے سائے میں آگئے ہوں۔(ڈاکٹر محمد اسلم خان، سہارن پور)
ک دعوہ میٹ ایک عجیب اجتماع تھا۔ میںنے بہت سے مسلم اور غیر مسلم اجتماع میں شرکت کی ہے۔ مگرمذکورہ اجتماع کاپورا ماحول اور وہ کیفیتیں جو شرکاء پر طاری تھیں، اس کو میری آنکھوں نے نہ کبھی دیکھا اور نہ میرے جیسے انسان کے لیے اُس کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن ہے۔ یہ واحد اجتماع تھا جس میں ہر طرف میںنے صرف اللہ کی عظمت کا چرچا سنا، اللہ کی عظمت کے سوا دوسری کسی عظمت سے یہ اجتماع مکمل طورپر خالی تھا۔ یہ اجتماع غیر معمولی طورپر اثر انگیز تھا۔ سارے لوگ تڑپ رہے تھے اور رورہے تھے، اس فکر میں کہ کیسے تمام انسانوں تک خدا کا کلام (قرآن) پہنچادیاجائے۔ خود صدر اسلامی مرکز کا حال یہ تھا کہ ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو جاری تھے، جسم کانپ رہا تھا، اس احساس میں کہ ’’ہم سب سے بڑے ظالم ہیں، کیوں کہ ہم نے انسانوں سے ان کی جنت چھین رکھی ہے‘‘۔ اس اجتماع میں جن چیزوں نے مجھے ششدر کردیا، اس میں ایک دہلی سی پی ایس ٹیم کی تواضع (modesty) تھی۔ ڈاکٹر فریدہ خانم، ڈاکٹر ثانی اثنین خاں، مولانا محمد ذکوان ندوی، نغمہ صدیقی، استتھی ملہوترا، رجت ملہوترا، نودیپ کپور، وغیرہ ایسے انسان ہیں جنھوںنے اپنی انا کو کچل دیاہے۔ میری زندگی میں یہ پہلا اجتماع تھا جس میں چیئر کا کوئی مسئلہ نہیں تھا، جس میں خود منتظمین کے بڑے اور اہم افراد زمین پر اور سب سے پچھلی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ خود مولانا صاحب راؤنڈ میز کی ایک کامن چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے اور لوگوں کے دعوتی تجربات سن رہے تھے، اس طرح جیسے لوگ اُن کو گہرا علم دے رہے ہوں۔ کوئی شخص جس نے مولانا کو کبھی نہ دیکھا ہو، وہ یقینا اس روز مولانا کو نہیں پہچان سکتاتھا۔یہ بلا شبہہ الرسالہ اور مولانا کی تربیت کا ثمرہ ہے جس نے سی پی ایس دہلی کی ٹیم کو متواضع (modest) با مقصد اور بے غرض بنا دیا ہے۔ایک دوسرا واقعہ جس نے مجھے حیرت میں ڈال دیا، وہ اِس اجتماع میں علماء کی موجودگی تھی۔ میرے دماغ میں یہ بات تھی کہ الرسالہ زیادہ تر جدید حلقہ میں پڑھا جاتا ہے، علماء الرسالہ نہیں پڑھتے۔ مگر کانفرنس کا منظر کچھ اور ہی تھا۔ یہاںبڑی تعداد میں علماء موجود تھے۔ یہ سارے علماء نہایت سنجیدہ اور با صلاحیت ہیں۔ میں نے سارے علماء سے ملاقات کی۔ میںنے پایا کہ سارے علماء الرسالہ کے گہرے قاری ہیں اور الرسالہ مشن سے پوری طرح متفق ہیں۔ ان لوگوں نے یہ اعتراف کیا کہ مولانا نے قرآن اور سیرت کے ایسے پہلوؤں کو کھولا ہے جن کو ہمارے علم کے مطابق، مولانا سے پہلے کسی عالم نے نہیں کھولا۔ مثلاً دعوت الی اللہ کا بے آمیز تصور،خدا کی اعلیٰ شعوری معرفت، دنیا کے دار الانسان یا دار الدعوہ ہونے کی حیثیت، وغیرہ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان میں زیادہ تر علماء نوجوان ہیں جو علمی تحقیق میں لگے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ انتہائی سنجیدہ ہیں۔ میںنے اس سے پہلے کسی عالم کو نہیں پایا جو اتنا سنجیدہ ہو، جو مستقل دعوتی فکرمیں جیتا ہو اور بالکل کھلے طورپر ڈسکشن کا مزاج رکھتا ہو۔ الرسالہ مشن سے وابستہ یہ علماء اِس اعتبار سے ایک استثناء (exception) تھے۔ یہ یقینا خدا کی خصوصی نصرت ہے۔ یہ علماء ملک کے بڑے بڑے مدرسوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں ندوی، قاسمی، سلفی، عمری ہر طبقے کے علماء موجود تھے۔ (حافظ ابو الحکم محمد دانیال ،بی ایس سی، پٹنہ،بہار)۔
ک دعوہ میٹ میں شرکت کا دن میری زندگی کا ایک یادگار دن تھا۔ اِس میں مجھے دعوت کے موضوع پر مولانا کی ایمان افروز تقریریں سننے کا موقع ملا۔ اس میں لانچ کئے گئے ’القرآن مِشن‘ کے مقاصد اور اِدخالِ کلمہ کے مفہوم پر مولانا نے اظہارِ خیال کیا۔ ان کی باتوں سے محسوس ہوتا تھا کہ دعوت الی اللہ کا درد ان کے رگ وریشے میں سیرایت کرگیا ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ اسلام کی جدید تاریخ میں مولانا کا مقام ایک استثنائی مقام ہے۔ مولانا نے جس طرح دعوت الی اللہ کو اپنا supreme concern بنایا ہے، وہ بلا تشبیہ اسی پیغمبرانہ بصیرت کا حصہ ہے جس کا اظہار ہمیں حجۃ الوداع کے موقع پر ملتا ہے۔ جب پیغمبر اسلام نے میدان عرفات میں اپنے اصحاب سے خطاب کرتے ہوے پوچھا تھا کہ کیا تم لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میںنے خدا کا پیغام تم تک پہنچا دیا ، تو سب نے بیک زبان کہا تھا کہ ہاں، ہم گواہی دیتے ہیں۔ ہمارے دور کی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ خطبۂ حجۃ الوداع جو رسولِ خدا کی زندگی کا آخری خطبہ تھا، اس کے اندر چھپا ہوا دعوت کا پیغام اپنی بے آمیز صورت میں ہمارے اہلِ علم ودانش پر آشکارا نہ ہوسکا۔ خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مولانا وحید الدین خاں کے ذریعے اب اس پیغام اور اس حکمتِ ربانی کو دنیا پر افشا کردیا ہے۔ (احمد شناس، جموں وکشمیر)
ک I can say that the Dawah Meet-2010 was the third turning point in my life. The first, when I discovered the Truth sometime in 1993–1994 and the second, when I met Maulana Wahiduddin Khan for first time in Delhi in 1994.The meet gave me, for the first time, the clear and unambiguous mission of true Dawah. Now I have a very clear mission to spread the word of God to one and all without any exception. Maulana used the word of seven billion roohen (souls) as the target of our mission. This meet provided me again the first time the opportunity to meet so many daees at one place. The effect of interaction and exchange of ideas was overwhelming. The lectures by Maulana clarified many doubts related to a daee’s position as regards the mad’u. The importance of talif-e-qalb was explained beyond any doubt. The urgency of purpose and nearness of the Day of Judgment was more than explained by Maulana Sb's heart-touching lectures. Now the only purpose of our lives, till the end, will be to communicate the word of God to all the souls inhabiting the earth, Insha Allah. (Sajid Anwar Roorki, UP)
ک I consider myself extremely lucky in getting a chance to attend the Dawah Meet 2010. Listening to the Maulana Wahiduddin Khan and so many “Al-Risala angel” (and interacting with some of them)was a hugely enriching experience. Yet again, the importance of discovering Allah and sharing the discovery with people around was driven home to us. We got to learn that dawah is not just about delivering the Quran and other material to the madu, it's about having true love and deep sympathy in your heart for them as well as praying for them. Any negligence in this regard would be at the cost of Jannah, the ultimate cost indeed. And the price to pay for meaningful dawah work is to change one’s lifestyle, behavior and character. Another very important thing we learnt was that one has to discover the starting point to do dawah work and start with what is possible. The dai can't afford to wait any longer as the alarm of qayamat has already been sounded.Taleef-e-qalb of the madu is of the utmost importance. There is no limit to it. One has to be prepared to go to great lengths to please the madu and make a place in their heart. The da‘is work may appear difficult but it can be made easy with dua and tawakkul.When the Maulana told us that he hoped we were the Ikhwan-e-Rasul (brothers of the messenger) mentioned in a hadith we couldn’t but feel thrilled and exhiliarated. (Anwar Imam Ghazali, Patna, Bihar)
ک As far my impressions of Da‘wah meet 2010 is concerned, I would say I fail to find words for it. Ever since I was first introduced to Maulana’s literature in 1976, it has always served as a great source of inspiration and motivation. His writing awakened me to the greater purpose of my own life: Da‘wah work. It has become my primary mission and one that I wish to continue to work for tirelessly for the rest of my life. However, no matter how much self-motivation we may have, we all need a battery charge now and then. The Da‘wah Meet provided this recharge for me. Listening to Maulana’s words, and also meeting and hearing from so many others who are engaged in this work in India and around the world, provided me with new motivation and reinvigorated the Da‘wah. The Prophet mentioned that towards the end of time, there will emerge a group known as the “Ikhwan-e-Rasul” that will do this work. It is my sincere hope that those engaged in this work under Maulana’s leadership can become eligible to be part of that group that the Prophet spoke of so highly. (Khaja Kaleemuddin, USA)
واپس اوپر جائیں

Al Risala | December 2010 (الرسالہ،دسمبر)