Pages

Thursday 2 September 2010

Al Risala | September 2010 (الرسالہ،ستمبر)

2

-اللہ کے منتخب بندے

3

- تقدیر انسانی

4

- شرک کیا ہے

6

- اخراجِ اوّل، اخراجِ ثانی

7

- شہادت علی الناس، متبادل ظام

8

- دعوت الی اللہ

9

- قتل ِ دجال

10

- نماز حقیقت کا اعتراف

11

- معرفت– مقصد ِانسانیت

23

- وحدتِ وجود

24

- مہمان داری کلچر

26

- نیک وبد کی تمیز

28

- موت کا تجربہ

29

- ایک باس درکار ہے

33

- امن اور انصاف

34

- ذہنی تفریح یا ایمانی غذا

35

- ٹنشن کے مسئلے کا حل

36

- عقل کی اہمیت

37

- صبر کی اہمیت

38

- ایک عمومی مسئلہ

39

- سوال وجواب

43

- خبرنامہ اسلامی مرکز

45

- القرآن مشن


اللہ کے منتخب بندے

تخلیقِ آدم کے وقت ابلیس نے جب آدم کے آگے جھکنے سے انکار کردیا، اُس وقت ابلیس نے جو کچھ کہا، اُن میں سے ایک یہ تھا: فبعزّتک لأغوینّہم أجمعین۔ إلا عبادک منہم المخلَصین (صٓ: 82-83 ) یعنی تیری عزت کی قسم، میں اُن سب کو گمراہ کرکے رہوںگا، بجز تیرے اُن بندوں کے جنھیں تو نے خالص کرلیاہے۔
’’مخلَص‘‘ کا لفظ قرآن میں 9 بار آیا ہے۔ یہ مخلص اور منتخب بندے کون ہیں۔ اِس سے مراد وہ انسان ہے جو اپنے شعور کو اتنازیادہ بیدار کرے کہ وہ ابلیس کی ہر تزئین کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکے۔ ابلیس جب بھی کوئی وسوسہ اس کے ذہن میں ڈالے تو وہ اپنے بیدار ذہن کی بنا پر فوراً ہی اس کا تجزیہ کرلے اور اِس بنا پر وہ ابلیس کے فتنے کا شکار ہونے سے بچ جائے۔
اِس معاملے کی ایک مثال سورہ یوسف میں مذکور ہے۔ اس کے مطابق، ایک مصری عورت نے جب حضرت یوسف کو بہکانا چاہا، تو انھوںنے یہ کہہ کہ اپنے آپ کو اس سے بچا لیا: معاذ اللہ، إنّہ ربّی أحسن مثوای (یوسف:23 )۔ کسی انسان کے اندر اس قسم کی شعوری بیداری لانے کا ذریعہ کیا ہے، وہ یہ ہے کہ آدمی قرآن وسنت کا مطالعہ کرے، وہ اپنا محاسبہ کرتا رہے، وہ قول وعمل سے پہلے اس کے بارے میں غور کرے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ مسلسل طور پر اللہ سے دعا کرتا رہے، وہ اپنے معاملے کو اللہ کے حوالے کردے۔
جو شخص اِس طرح اپنی سوچ کو بیدار رکھے، وہ فرشتوں کا ہم نشیں بن جاتا ہے۔ اس کو خدا کا فیضان (inspiration) ملنے لگتا ہے، اس کے اندر مسلسل طورپر ذہنی ارتقا کا عمل جاری ہوجاتا ہے۔ اللہ کی توفیق سے وہ اتنا زیادہ باشعور ہوجاتا ہے کہ فرشتے کی آوازاور شیطان کی آواز کو ممیّز کرکے پہچان سکے۔ ایسا آدمی کبھی شیطان کی تزئین کا شکار نہیں ہوتا، اور اگر کبھی وقتی طورپر وہ اس سے متاثر ہوجائے تو بہت جلد وہ اس کو سمجھ لیتا ہے اور اِس طرح اپنے آپ کو اس کا شکار بننے سے بچا لیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

تقدیر انسانی

قرآن کی سو رہ نمبر 95 کا نام التین ہے۔ پوری سورت کا ترجمہ یہ ہے — گواہ ہے تین، اور گواہ ہے زیتون، اور گواہ ہے طورِ سینین، اور گواہ ہے بلدِ امین۔ ہم نے یقینا پیدا کیا انسان کو احسنِ تقویم پر۔ پھر ہم نے اُس کو ڈال دیا اسفل درجے میں، سوا اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے عمل صالح کیا، اُن کے لیے ہے غیر منقطع اجر۔ پھر (اے انسان) کیا چیز تجھ کو تکذیب پر آمادہ کرتی ہے۔ کیا اللہ احکم الحاکمین نہیں۔
اِس سورہ میں تین، زیتون، اور بلد امین سے مراد مقاماتِ پیغمبر ہیں، یعنی وہ مقامات جہاں خدا کے پیغمبر آئے اور انسان کو اللہ کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے آگاہ کیا۔
اس کے بعد فرمایا کہ انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا گیا ہے۔ انسان کو دوسرے تمام عطیات کے ساتھ یہ عطیہ دیاگیا کہ انسان کو عمل کی پوری آزادی دی گئی۔ اس کو یہ اختیار دیاگیا کہ وہ چاہے تو خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، صراطِ مستقیم پر چلے، اور چاہے تو اس سے انحراف کرے۔
آزادی کے نتیجے میں دو صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ انسان اپنی آزادی کا غلط استعمال کرے اور وہ صراطِ مستقیم کو چھوڑ کر خود ساختہ راہوں پر چلنے لگے۔ اور اِس طرح وہ عملاً اسفل ترین درجے میں پہنچ جائے۔
دوسرے انسان وہ ہیں جو خدا کے بتائے ہوئے تخلیقی پلان پر یقین کریں جس کو ایمان کہا گیا ہے، اور اس کے مطابق، عملاً اپنی زندگی گزاریں جس کو عمل صالح کہاگیا ہے۔
اللہ کا احکم الحاکمین ہونا یہ تقاضا کرتاہے کہ دونوں کا یکساں انجام نہ ہو۔ اِس لیے آخرت کی دنیا میں ایک گر وہ کے حصے میں ابدی ناکامی آئے گی، اور دوسرے گروہ کے حصے میں ابدی کامیابی۔ ایسا معاملہ خدا کے اُس تخلیقی نقشہ کے مطابق ہوگا جس کا اعلان بار بار پیغمبروں کے ذریعے کیاگیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

شرک کیا ہے

قرآن کی سورہ نمبر 2کی ایک آیت یہ ہے: ومن الناس مَن یتخذ مِن دون اللہ أنداداً یحبونہم کحبّ اللہ، والذین آمنوا أشد حباً للّٰہ، ولو یری الذین ظلموا إذ یرون العذاب أن القوۃ للہ جمیعاً، وأن اللہ شدید العقاب (البقرۃ: 165 ) یعنی کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا برابر ٹھہراتے ہیں۔ وہ ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں جیسی محبت اللہ سے رکھنا چاہئے۔ اور جو اہلِ ایمان ہیں، وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھنے والے ہیں۔ اور اگر یہ ظالم اس وقت کو دیکھ لیں جب کہ وہ عذاب سے دوچار ہوںگے تو وہ سمجھ لیتے کہ زور سارا کا سارا اللہ کا ہے اور اللہ بڑا سخت عذاب دینے والا ہے۔
اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی کو اللہ کا نِدّ ٹھہرایا جائے۔ ند کے معنی مِثل (equal) کے ہیں۔ اللہ کے سوا، کسی اور کو اُس کا ند ٹھہرانا شرک ہے، خواہ وہ کلی معنی میں ہو یا جزئی معنی میں۔
اللہ کا ند ٹھہرانا کن پہلوؤں سے ہوتا ہے، مذکورہ آیت میںاِس کے دو پہلو بیان کئے گئے ہیں— محبت، اور قوت۔ قرآن کی ایک اور آیت کے مطابق، اِس کا تیسرا پہلو خشیت (التوبۃ:18 ) ہے۔ بنیادی طورپر یہی تین چیزیں ہیں جو شرک کی پہچان ہیں۔ مذکورہتینوں معاملے میں جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو شریک کیا، اس نے شرک کا ارتکاب کیا۔ حتی کہ اگر کسی شخص نے خود اپنے آپ کو اِس قسم کا درجہ دیا تو اس کا کیس بھی شرک کا کیس بن جائے گا (الجاثیۃ:23 )۔
اِس بات کو دوسرے لفظوں میں اِس طرح کہا جاسکتا ہے کہ— توحید کا مطلب ہے ہر اعتبار سے، صرف ایک اللہ کو اپنا واحد کنسرن (sole concern) بنانا، اور شرک کا مطلب ہے — جزئی یا کلی طورپر کسی غیر اللہ کو اِس کنسرن میں شریک کرنا۔
جب کوئی شخص اللہ کو اِس حیثیت سے دریافت کرے کہ یہ اللہ ہے جس نے اس کو عدم سے وجود بخشا، جس نے اس کو اعلیٰ درجے کی شخصیت عطا فرمائی، جس نے اس کو زمین جیسے نادر سیارے پر آباد کیا، جس نے اُس کے لیے لائف سپورٹ سسٹم کا انتظام کیا، وغیرہ۔ اِس طرح کا احساس آدمی کے اندر اللہ کے ساتھ بے پناہ تعلق پیدا کرتا ہے، وہ اللہ کو اپنا سب کچھ سمجھنے لگتا ہے۔ یہی اللہ کے ساتھ شدید محبت کی بنیاد ہے۔
پھر جب وہ اللہ کی اِس حیثیت کو دریافت کرتا ہے کہ یہ تمام چیزیں اس کا یک طرفہ عطیہ ہیں، کسی بھی وقت اللہ اس کو چھین سکتا ہے۔ پھر یہ کہ ہر عطیہ کے ساتھ جواب دہی (accountability) جڑی ہوئی ہے۔ یہ احساس اس کو مزید اِس اندیشے میں مبتلا کردیتا ہے کہ اگر میںنے ان عطیاتِ الٰہی کا حق ادا نہ کیا تو اللہ کے یہاں میری سخت پکڑ ہوگی۔ یہ احساسات آدمی کے اندر وہ کیفیت پیدا کردیتے ہیں جس کو قرآن میں خوفِ شدید (التوبۃ:18 ) کہا گیا ہے۔
اِسی کے ساتھ آدمی یہ دریافت کرتا ہے کہ اِس دنیا میں سارا اختیار صرف ایک اللہ کو حاصل ہے، اللہ کے سوا کسی اور کو جزئی درجے میں بھی کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اللہ ہی دینے والا اور اللہ ہی محروم کرنے والا ہے۔ یہ احساس اُس کو اپنے عجز ِ کامل کی یاد دلاتا ہے۔ وہ اِس کے سوا کوئی اور راستہ نہیں پاتا کہ وہ اللہ کے آگے اپنے آپ کو پوری طرح سرینڈر کردے۔
اِسی دریافت کا نام معرفت (realization) ہے۔ اِس دریافت سے جس کے اندر وہ شخصیت بنے جب کہ ایک اللہ ہی اس کے لیے سب کچھ بن جائے، وہ اُسی کی یاد میں جئے اور یہی سوچ اس کی غالب سوچ بن جائے، ایسا انسان شریعت کی اصطلاح میں مؤحد ہے۔ اِس کے برعکس، اللہ جس کا واحد کنسرن نہ ہو، بلکہ اس کے ساتھ وہ دوسری چیزوں کو بھی اپنا کنسرن بنائے ہوئے ہو، ایسا نسان شریعت کی اصطلاح میں شرک میں مبتلاہے۔ موحد کی شخصیت انٹگریٹیڈ پرسنالٹی (integrated personality) ہوتی ہے، اور مشرک کی شخصیت اسپلٹ پرسنالٹی(split personality) ۔
شریعت کے مطابق، اللہ انسان کی اصل غایت ہے، اور دوسری چیزیں صرف اس کی ضرورت۔ توحید اور شرک دونوں کا تعلق حقیقت سے ہے، نہ کہ صرف مظاہر سے۔
واپس اوپر جائیں

اخراجِ اوّل، اخراجِ ثانی

آدم پہلے انسان تھے۔ آدم کو پیدا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کو جنت میں بسایا۔ اللہ تعالیٰ نے اُن سے کہا کہ اے آدم، تم اور تمھاری بیوی اِس جنت میں رہو اور اس میں کھاؤ پیو، مگر تم اِس شجرِ ممنوعہ کے پاس مت جانا، ورنہ تم ظالم قرار پاؤگے (البقرۃ: 35)
اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو جنت میں آزادی حاصل تھی، مگر اِس کے ساتھ وہاں ایک پابندی بھی شامل تھی، یہ کہ وہ نفس کی ترغیب (temptation) کے تحت کوئی کام نہ کرے، بلکہ وہ خدا کے مقرر کردہ طریقے کے مطابق، با اصول زندگی گزارے۔
انسان اِس طریقے پر قائم نہ رہ سکا، اِس لیے ایک عرصے کے بعد اس کو جنت سے نکال دیاگیا۔ یہ انسان کی تاریخ کا پہلا اخراج (first expulsion) تھا۔
اِس کے بعدانسان کو موجودہ زمین پر بسایا گیا ۔ یہاں بھی انسان کے لیے وہی شرط تھی۔ چناں چہ آغاز ہی میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمادیا کہ میرے پیغمبر تمھارے پاس آئیںگے۔ تم اِن پیغمبروں کی پیروی کرنا۔ جو لوگ اِن پیغمبروں کی پیروی کریں گے، ان کو خدا کی رحمت حاصل ہوگی (البقرۃ:38 ) جو لوگ پیغمبروں کی پیروی نہ کریں، ان کو دوبارہ اِس زمین سے نکال دیا جائے گا، جو کہ مثلِ جنت ہے (البقرۃ:25 )۔ یہ انسان کے لیے دوسرا اخراج (second expulsion) ہوگا۔ یہ دوسرا اخراج قیامت کے وقت پیش آئے گا۔
موجودہ دنیا میں انسان آزمائش (test) کے لیے رکھا گیا ہے۔ خدا کے غیر مرئی (invisible) فرشتے ہر عورت اور ہر مرد کا ریکارڈ تیار کررہے ہیں، اِس بات کا ریکارڈ کہ کون شخص آزادی پانے کے باوجود پابند زندگی کے طریقے پر قائم رہا، اور وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا، جو صراطِ مستقیم سے ہٹ کر منحرف راستوں پر چلنے لگے — قیامت کے بعد آنے والی اگلی دنیا میں ، پہلے گروہ کے لیے جنت ہے اور دوسرے گروہ کے لیے جہنم۔
واپس اوپر جائیں

شہادت علی الناس، متبادل نظام

قرآن میں دو جگہ یہ بات آئی ہے کہ اہلِ ایمان شہداء علی الناس (البقرۃ: 143 ، الحج: 78 ) ہیں۔ شہادت علی الناس سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دوسرے مقامات پر انذار وتبشیر کہاگیا ہے، یعنی اللہ کے تخلیقی پلان (creation plan of God) سے انسان کو باخبر کرنا، انسان کو معرفتِ رب سے آشنا کرنا، انسان کے اندر مواخذۂ آخرت کی فکر پیدا کرنا، انسان کے اندر اس احساسِ ذمے داری کو جگانا کہ وہ اِس دنیا میں اپنے آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ سمجھے اور اس کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ شہادت علی الناس کی تحریک کامل طورپر ایک غیر سیاسی تحریک ہے۔ اس کا سیاست اور اقتدار سے کوئی تعلق نہیں۔
یہ تصور ایک بے بنیاد تصور ہے کہ اسلام ایک متبادل نظام (alternative order) ہے، اور دعوت اور شہادت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کو دنیا کے سامنے ایک متبادل نظام کے طورپر پیش کیا جائے۔ اِس فکر کی کوئی بنیاد قرآن اور حدیث میں موجود نہیں۔ یہ تمام تر مضاہاۃ (التوبۃ: 30 ) کا ایک معاملہ ہے، یعنی اسلام کو اغیار کی پسندیدہ اصطلاح میں بیان کرنا۔ موجودہ زمانے میں کچھ سیکولرمفکرین نے معاشی نظام اور سیاسی نظام کی اصطلاحوں میں کلام کرنا شروع کیا، اِس سے متاثر ہو کر مسلم رہنما بھی اِسی قسم کی بولی بولنے لگے۔ وہ اسلام کو ایسی اصطلاحوں میں بیان کرنے لگے جن کا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اسلام کوئی متبادل نظام نہیں۔ البتہ یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلام ایک متبادل فکر یا متبادل آئیڈیالوجی (alternative ideology) ہے، یعنی وہ شرک کے مقابلے میں توحید کا نظریہ پیش کرتاہے، وہ الحاد کے مقابلے میں ایمان کا نظریہ پیش کرتا ہے، وہ آزادی کے مقابلے میں محاسبہ کا نظریہ پیش کرتا ہے، وہ خواہش پرستی کے مقابلے میں جواب دہی کا نظریہ پیش کرتا ہے، وہ ناشکری کے مقابلے میں شکر گزاری کا نظریہ پیش کرتا ہے، وہ خودرخی زندگی (Self-oriented life)کے مقابلے میں خدا رخی زندگی (God-oriented life) کا نظریہ پیش کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت الی اللہ

سورہ الفرقان میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر پر قرآن نازل کیا، تاکہ وہ تمام عالم کے لیے نذیر بنے (24:1 )۔ واقعات بتاتے ہیں کہ عملاً ایسا نہیں ہوا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کے ہر فرد تک قرآن یا اس کا پیغام پہنچا دیں، پھر یہ ذمے داری کس طرح ادا ہوئی۔
اِس پر غور کرتے ہوئے ایک اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ پیغمبر کے مخاطب اول وہ لوگ ہوتے ہیں جو کسی زمانے میں اَعیان یا خواص کا درجہ رکھتے ہوں۔ اعیان یا خواص تک اگر حق کا پیغام پہنچ جائے تو اس کے بعد یہ ان کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اِس پیغام کو عوام تک پہنچائیں۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ہرقل کے نام اپنے دعوتی خط میں اِسی حقیقت کو اِن الفاظ میں بیان کیا تھا: فإن تولیتَ فإنّ علیکم إثم الأریسیّین(صحیح البخاری)۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دعوت کا کام سب سے پہلے گر اس روٹ لیول (grass root level) میں کیا جانا چاہیے، مگر یہ درست نہیں۔ دعوت الی اللہ میں گراس روٹ کادرجہ خواص کو حاصل ہے، گویا کہ دعوت کا اسلوب یہ ہے کہ خواص سے عوام تک پہنچا جائے ، نہ کہ عوام سے خواص تک۔
اسلامی دعوت اپنے نشانے کے اعتبار سے فکر ی انقلاب کے ہم معنی ہے۔ فکر کا سرچشمہ انسان کا دماغ ہے، خاص طور پر وہ لوگ جو ذہین ہوں اور تعلیم یافتہ ہوں۔ اسلامی انقلاب حقیقۃً یہ ہے کہ اولاً خواص میں فکری انقلاب لایا جائے۔ اس کے بعد عوام میں تبدیلی لائی جائے۔خواص میں فکری تبدیلی لائے بغیر، عوام میں فکری تبدیلی نہیں لائی جاسکتی۔ کیوںکہ عوام ہمیشہ خواص کے تابع ہوتے ہیں۔ اِس کے برعکس، خواص کبھی عوام کے تابع نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ جو لوگ صرف عوام کو اپنے دعوتی عمل کا نشانہ بناتے ہیں، وہ عملاًصرف ایک قسم کی بھیڑ اکھٹا کرپاتے ہیں۔ ان کی سرگرمیوں سے وہ ربانی شخصیات نہیں بنتیں جو اسلامی دعوت کا اصل مطلوب ہیں۔
بھیڑ جمع کرنے کا طریقہ کسی محدود سیاسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کار آمد ہوسکتا ہے، لیکن وہ اسلامی دعوت کا مقصد حاصل کرنے کے لیے بالکل کار آمد نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قتل ِ دجال

صحیح مسلم میں قتلِ دجال کے بارے میں دو روایتیں آئی ہیں۔ یہ دونوں روایتیں بظاہر ایک ہی حدیث کے دو حصے ہیں۔ تفصیلات سے قطعِ نظر، اِن روایتوں کا خلاصہ یہ ہے قیامت سے پہلے دجال ظاہر ہوگا۔ اس کو ایک شخص قتل کرے گا۔ اِس شخص کے لیے ایک روایت میں ’’امرئٌ من المؤمنین‘‘ کا لفظ آیا ہے، اور دوسر روایت میں ’’رجلٌ من المؤمنین‘‘ کا لفظ۔ امتِ محمدی کا یہ شخص قتلِ دجال کا جو کام انجام دے گا، اُس کے لیے ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں: ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین (کتاب الفتن وأشراط الساعۃ، باب ذکر الدجال) یعنی یہ رب العالمین کے نزدیک سب سے بڑی شہادت ہوگی۔
یہاں شہادت کا مطلب دعوت ہے۔ شہادت اعظم کا مطلب دعوت اعظم ہے، نہ کہ موتِ اعظم۔ جیسا کہ ایک روایت میں آیا ہے، یہ شہادت یا دعوت بذریعہ حجت انجام پائے گی۔ دجال کو قتل کرنے والے کے لیے مذکورہ روایت میں ’حجیج‘ کا لفظ آیا ہے، یعنی دلیل کے ذریعے غالب آنے والا۔ حدیث میں جس شہادتِ اعظم یا دعوتِ اعظم کا ذکر ہے، وہ کوئی سادہ بات نہیں۔ اس کام کی انجام دہی کے لیے اللہ کی خصوصی توفیق درکار ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہادتِ اعظم کا یہ کام ایک ایسا شخص انجام دے گا جس کو اللہ کی خصوصی توفیق سے بنیادی طورپر دو مددگار چیزیں حاصل ہوں گی — معرفتِ اعظم، اور نصرت اعظم۔
دجال یا دجالیت سے مراد دراصل ایک نظریاتی فتنہ ہے۔ اس کو جوابی نظریے ہی کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے۔ گویا کہ مذکورہ رجل مومن، دجال کا جسمانی قتل (physical murder) نہیں کرے گا، بلکہ وہ اس کا نظریاتی قتل (ideological murder) کرے گا۔ دجال نظریاتی مغالطُوں پر کھڑا ہوگا، اور رجلِ مومن نظریاتی دلائل کے ذریعے اس کو بے اصل ثابت کرے گا۔ یہی وہ واقعہ ہے جس کو حدیث میں قتلِ دجال کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

نماز حقیقت کا اعتراف

ایک صاحب نے کہا کہ آپ لوگ نماز اور عبادت کو فرض بتاتے ہیں اور اس کو اللہ کے حقوق میں شمار کرتے ہیں، مگر سوال یہ ہے کہ اللہ کو اس کی کیا ضرورت ہے کہ انسان اُس کی عبادت کرے۔
میں نے کہا کہ نماز دراصل حقیقت کا اعتراف ہے، وہ اللہ کی کسی ضرورت کی تکمیل نہیں۔ کسی انسان کو جب اللہ کی دریافت ہوتی ہے تو یہ اُس کے لیے ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے۔ وہ حقیقت کے اعتراف کے طورپر اپنے خالق کے آگے سجدے میں گرجاتا ہے۔ اِسی کی ایک منظم صورت کا نام صلاۃ یا نماز ہے۔
انسان ہر اعتبار سے اللہ کا عطیہ ہے۔ اس کا وجود اور زمین جیسا موافق سیارہ، سب کچھ اُس کو اللہ کے یک طرفہ عطیہ کے طورپر ملاہے۔ ایک باشعور انسان جب اِس حقیقت کو دریافت کرتا ہے تو بے اختیارانہ طورپر وہ چاہتا ہے کہ اللہ کے سامنے وہ اس کا اظہار کرے۔ یہی اظہار جب عملی صورت اختیار کرلیتاہے تو اِسی کا نام صلاۃ یا نماز ہے۔
نماز کوئی رسمی عمل (ritual)نہیں۔ نماز اپنی حقیقت کے اعتبار سے، مُنعم کے انعام کا اعتراف ہے۔ جو آدمی منعم کے انعام کا اعتراف نہ کرے، اس کو انعام کے استعمال کا حق بھی نہیں۔ یہی احساس آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اللہ کی حمد کرے، وہ اللہ کے آگے جھکے، وہ اللہ کے آگے سجدہ کرے۔ اِنھیں اعمال کے مجموعے کا نام صلاۃ یا نماز ہے۔
ایک انسان کو جب اپنے منعم کی دریافت ہوتی ہے تو فطری طورپر وہ منعم کو اس کا رٹرن (return) دینا چاہتا ہے، لیکن اس کو محسوس ہوتا ہے کہ میرے پاس خالق کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں۔ اِسی احساسِ عجز کے کامل اظہار کا نام سجدہ ہے۔ نماز خود انسانی فطرت کی آواز کے طورپر ظاہر ہوتی ہے، وہ منعم کے مطالبے کا نتیجہ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنے خالق کو اعتراف کے سوا کچھ اور نہیں دے سکتا، اور نماز بلاشبہہ اِسی اعتراف کی اعلیٰ ترین صورت ہے۔
واپس اوپر جائیں

معرفت — مقصد ِ انسانیت

علماء نے معرفت کو واجبِ اوّل بتایا ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ معرفت مقصدِ انسانیت ہے۔ موت سے پہلے کی زندگی آغازِ معرفت کی زندگی ہے، اور موت کے بعد کی زندگی تکمیلِ معرفت کی زندگی۔ موجودہ دنیا میں ایک انسان ابتدائی دریافت کے درجے میں خدا کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ آخرت کی دنیا میں وہ کامل دریافت کے درجے میں خدا کی معرفت حاصل کرے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ معرفتِ خداوندی ایک فکری عمل (intellectual process) ہے۔ یہ فکری عمل موجودہ دنیا میں شروع ہوتا ہے اور پھر وہ ابدی طورپر آخرت کی دنیا میں جاری رہے گا۔
قرآن کی سورہ نمبر 51 میں بتایا گیا ہے کہ جن اور انس کو صرف اللہ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے (الذاریات: 56)۔ اِس آیت میں عبادت سے مراد معرفتِ الٰہی ہے۔ آیت کی یہ تفسیر عبداللہ بن عباس اور علی بن ابی طالب کے قول پر مبنی ہے۔یہی جن وانس کا مقصد تخلیق ہے۔ اِس مقصد کا تقاضا تھا کہ جن وانس کو وہ صلاحیت کمال درجے میں عطا کی جائے جس کے ذریعے وہ اعلیٰ درجے میں معرفتِ خداوندی کو حاصل کرسکیں۔ چناں چہ جن وانس کو ایک طرف وہ اعلیٰ دماغی صلاحیت دی گئی جو اِس عظیم مقصد کے لیے مطلوب تھی۔ اور اِسی کے ساتھ خارجی اعتبار سے، اُن کو وہ وسائل دئے گئے جو اِس مقصد کی تکمیل میں مدد گار بن سکیں۔
معرفت کے لفظی معنی ہیں — اِدراک (realisation) ، یعنی کسی چیز کو کامل درجے میں پہچاننا۔معرفت کو دوسرے لفظوں میں شعوری دریافت (intellectual discovery) کہہ سکتے ہیں۔ یہ دریافت کسی وقتی واقفیت کا نام نہیں ہے، یہ ایک لمبے سفر کا نام ہے۔ انسان کو جس خدا کی معرفت حاصل کرنا ہے، اس کی صفت قرآن میں یہ بتائی گئی ہے کہ اگر تمام درخت قلم بنا دئے جائیں اور تمام موجود سمندروں اور مزید سات سمندروں کو روشنائی (ink) بنا دیا جائے اور پھر خدا کے کلمات کو لکھنا شروع کیا جائے تو تمام سمندر ختم ہوجائیں گے، لیکن خدا کے کلمات ختم نہ ہوں گے (لقمان: 27 )۔ جس خدا کے کمالات اتنے زیادہ ہوں، اس کی دریافت ایک وقتی واقفیت نہیں ہوسکتی، یہ بلا شبہہ دریافت کا ایک لامتناہی سفر ہے جس کا آغاز تو متعین ہوسکتا ہے، لیکن اس کا اختتام متعین نہیں۔
خدا کی معرفت کا یہ مطلب نہیں کہ مراقبہ (meditation) کرکے تصور کی دنیا میں ذاتِ الٰہی کی جھلکیاں دیکھنے کی کوشش کی جائے۔ اِسی طرح وجد (ecstasy) بھی معرفت کے ہم معنیٰ نہیں۔ معرفت ایک اعلیٰ شعوری حالت ہے جو تخلیقاتِ الٰہیہ میں غور وفکر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن کے مطابق، معرفت کی تعریف (definition) یہ ہے کہ ایک بندہ، رب العالمین کو اُن عظمتوں کے ساتھ دریافت کرے کہ وہی اُس کے لیے اس کی ساری محبتوں کا مرکز بن جائے (البقرۃ:165 )، اور اس کی خشیت کے جذبات تمام تر اُسی کے ساتھ وابستہ ہو جائیں (التوبۃ:18 )۔
محبت اور خشیت دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ایک بندہ جب تدبر اور تفکر کے ذریعے خالقِ کائنات کو اس کی صفاتِ کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اس کے دل میں بے پناہ حدتک اپنے رب کا اعتراف پیدا ہوجاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ جب وہ اِس حقیقت کو دریافت کرتا ہے کہ دینے والا خدا ہے، اُس کے سوا کوئی اور دینے والا نہیں تو اس کے دل کی گہرائیوں میں یہ اندیشہ پیدا ہوجاتا ہے کہ اگر میں خدا کی رحمتوں سے محروم ہوجاؤں تو زمین وآسمان میں میرا کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسنِ تقویم (التین:4 ) کے ساتھ پیدا کیا۔ اس کو وہ تمام دماغی صلاحیت عطا کردی جس کے ذریعے وہ رب العالمین کی معرفت حاصل کرسکے۔ دوسری طرف، خارجی دنیا (nature) کے اندر معرفت کے تمام اَجزا مخفی صورت میں رکھ دئے۔ اب انسان کا یہ کام ہے کہ وہ معرفت کے اِن چھپے ہوئے اجزا کو دریافت کرے اور اعلیٰ معرفت کا تجربہ کرکے اپنے اندر ربانی شخصیت (divine personality)بنائے۔
معرفت کا یہ عمل ایک مسلسل دریافت کا عمل تھا۔ اِس کے لیے ضرورت تھی کہ ایک پوری تہذیب (civilization) وجود میں آئے، جو معرفت کے چھپے ہوئے حقائق کو انسان کے لیے کھول دے۔ آج تہذیب کے نام سے ہم جس تاریخی واقعے کو جانتے ہیں، وہ اگرچہ مادّی تہذیب (material civilization) ہے، لیکن اپنی حقیقی نوعیت کے لحاظ سے یہ دراصل ربانی تہذیب (divine civilization) ہے۔ موجودہ تہذیب دراصل اُس واقعے کا ظہور ہے جس کو قرآن کی سورہ نمبر 41 میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتّی یتبیّن لہم أنہ الحق (حٰمٓ السجدۃ: 53 )
معرفت کا یہ سفر بہت پہلے جنات کی تخلیق سے شروع ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کائنات بنائی اور اس کے انتظام (management) کے لیے فرشتوں کو پیدا کیا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس مخلوق کو پیدا کیا جس کو جن کہاجاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، جن کی تخلیق آگ سے ہوئی (الحجر: 27) جن کوآگ سے پیدا کرنے کا مطلب غالباً یہ ہے کہ جن کی سرگرمیوں کا دائرہ سیاروںکی دنیا سے لے کر ستاروں کی دنیا تک پھیلا ہواہے۔ اِس کے مقابلے میں، بعد کو انسان کی تخلیق مٹی سے ہوئی (الأعراف: 21)۔ اِس کا مطلب غالباً یہ ہے کہ انسان کی سرگرمیوں کا مرکزبنیادی طورپر سیارۂ زمین (planet earth)ہوگا۔
معرفتِ خداوندی کا حصول دراصل تخلیق میں چھپے ہوئے ربانی اسرار کی دریافت پر مبنی تھا۔ یہی دریافت وہ چیز ہے جو انسان کو خالق کائنات کا تعارف کراتی ہے۔ اِس سے بندہ اور خدا کے درمیان وہ اعلیٰ شعوری تعلق قائم ہوتا ہے جس کو معرفت کہاگیا ہے۔ دریافت کا یہی تاریخی عمل ہے جس کو ہم نے تہذیب (civilization) کا نام دیاہے۔
اِس تہذیبِ معرفت کو وجود میں لانے کا کام سب سے پہلے جن کے سپرد کیا گیا۔ مگر جیسا کی روایات میں آیا ہے، جن کے گروہوں نے آپس میں لڑائیاں کیں اور بہت زیادہ فساد برپا کیا۔ وہ تہذیبِ معرفت کا عمل شروع کرنے میں ناکام رہے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے ان کو معزول کردیا۔ اور ان کی جگہ انسان کو زمین پر بسایا گیا، تاکہ وہ تہذیبِ معرفت کو وجود میں لانے کا مطلوب عمل شروع کرسکیں۔
تہذیبِ معرفت کو عمل میں لانا مکمل طورپر علم و آگہی کا عمل ہے۔ وہ شعور کی سطح (intellectual level) پر انجام پاتا ہے۔ تمام سمندروں کو سیاہی بنانا اور تمام درختوں کو قلم بنانا، جس کا ذکر قرآن میں کیاگیا ہے، اس میں غالباً اِسی کی طرف اشارہ ہے۔ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ ’’مطالعہ اور کتابت‘‘ کے ذریعہ اِس عمل کو شروع کرے۔ پیغمبروں نے انسان کو اِس عمل کی طرف متوجہ کیا۔ اِس کا ذکر غالباً قرآن کی اُس آیت میں موجود ہے جس میں تعلیم بالقلم کو رب کی معرفت کا ذریعہ بتایا گیا ہے (القلم: 4)۔ مگر انسانیت کا قافلہ پیغمبروں کی ہدایت پر چلنے میں ناکام رہا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ایک بڑی امت برپا کی۔ اِس امت کا اولین کام یہ تھا کہ وہ تہذیبِ معرفت کے اِس مطلوب عمل کو جاری کرے۔ امت کی طویل تاریخ بتاتی ہے کہ امتِ محمدی بہت جلد سیاسی اقتدار کے راستے پر چل پڑی۔ امت کے افراد نے مسلم ایمپائر قائم کیا، لیکن وہ ربانی تہذیب کا مطلوب ایمپائر قائم نہ کرسکے۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلم صوفیا نے معرفت کے حصول کا یہ کام انجام دیا، لیکن یہ ایک غلط فہمی ہے۔ صوفیا نے جو کام کیا، وہ تصوف کا کام تھا، اورتصوف اور معرفت دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف چیزیں ہیں۔ تصوف ایک مبنی بر قلب (heart-based) عمل ہے، جب کہ معرفت ایک مبنی بر ذہن (mind-based) عمل ہے۔ صوفیا کی یہ اجتہادی غلطی تھی کہ انھوںنے قلب کو معرفت کا خزانہ سمجھ لیا اور وہ قلب پر مفروضہ محنت کرتے رہے، جب کہ قلب صرف گردشِ خون کا مرکز ہے، نہ کہ معرفت کا مرکز۔
اِس اجتہادی غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفیا کا گروہ خدا کی شعوری معرفت کی دریافت سے محروم رہا۔ انھوں نے بطور خود جس وجد یا دیدارِ الٰہی کو دریافت کیا، وہ صرف ایک واہمہ تھا، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی دریافت۔ بدقسمتی سے بعد کے زمانے کے اکثر مسلم علماء بھی اِسی صوفیانہ نظریے سے متاثر ہوگئے۔وہ بھی متصوفانہ اشغال کو معرفت کا ذریعہ سمجھتے رہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صوفیا اور علماء دونوں حقیقی معرفت سے بے خبر رہے۔ اِ س کا ثبوت یہ ہے کہ پوری مسلم تاریخ میں غالباً کوئی عالم یا صوفی معرفت کے موضوع پر کوئی قابلِ ذکر کتاب تیار نہ کرسکا۔ جن کتابوں کو لوگ معرفت کی کتاب سمجھتے ہیں، وہ حقیقۃً تصوف کی کتابیں ہیں، نہ کہ معرفت کی کتابیں۔
معرفت کے بنیادی اصول خدا کی کتاب میں دئے گئے تھے اور اس کے تائیدی شواہد (supporting evidences) فطرت(nature) میں رکھ دئے گئے تھے۔ اب یہ انسان کا کام تھا کہ وہ فطرت کے شواہد کو دریافت کرے اور اُس کو لوگوں کے لیے ایک معلوم واقعہ بنائے۔
مگر تاریخ بتاتی ہے کہ اہلِ ایمان (believers) اِس کام کو انجام نہ دے سکے۔ پیغمبروں کے معاملے میں یہ ہوا کہ اُن کے ساتھ کوئی مضبوط ٹیم نہ بن سکی جو اِس کام کو انجام دیتی۔ پیغمبر ِ آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن پھیلا اور ایک پوری امت آپ کے مشن سے وابستہ ہوگئی، لیکن یہاں بھی ایسا ہوا کہ امتِ محمدی بہت جلد سیاسی اقتدار میں مشغول ہوگئی۔ پہلے انھوں نے اپنا سیاسی ایمپائر بنایا اور جب یہ ایمپائر ٹوٹا تو وہ جہاد کے نام پر اُس کو دوبارہ حاصل کرنے میں لگ گئے۔ اِس طرح لمبی تاریخ گزر گئی اور اہلِ ایمان اِس ضروری کام کو انجام نہ دے سکے۔
آیاتِ معرفت کو کھولنے کے کام کے لیے اہلِ ایمان فرسٹ آپشن(first option) کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن جب انھوں نے یہ کام مطلوب طورپر انجام نہیں دیا تو اس کے بعد غیر اہلِ ایمان (non-believers) کو سکنڈ آپشن (second option) کے طورپر منتخب کیا گیا۔ یہ سکنڈ آپشن مغربی قوموں کا تھا۔غالباً اِنھیں قوموں کو قرآن میں یاجوج اور ماجوج (الأنبیاء: 96) کہاگہا ہے۔ اِس معاملے میں غیر اہلِ ایمان کو بطور سکنڈ آپشن منتخب کرنے کا اشارہ غالباً صحیح البخاری کی ایک روایت میں ملتا ہے۔ اِس روایت کے الفاظ یہ ہیں: إنّ اللہ لیؤیّد ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والیسر، باب إن اللہ یؤیّد الدین بالرجل الفاجر) یعنی بے شک، اللہ اِس دین کی تائید فاجر انسان سے کرے گا۔
ربانی معرفت: ایک مطالعہ
ایک حدیثِ قدسی اِن الفاظ میں بیان ہوئی ہے: کنتُ کنزاً، فأحببتُ أن أُعرف، فخلقتُ خلقاً، فعرّفتہم بی، فعرفونی (میں ایک خزانہ تھا بغیر پہچانا ہوا، پھر میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، پھر میں نے ایک مخلوق کو پیدا کیا، پھر اُن کو میں نے اپنی پہچان کرائی، تو انھوں نے مجھے پہچان لیا)۔
اِس روایت کو تقی الدین احمد بن تیمیہ (وفات: 728 ھ) اور اُن کے ہم فکر علماء نے ضعیف یا بے اصل بتایا ہے۔ لیکن کچھ دوسرے علماء کا کہناہے کہ اس کو معنی کے اعتبار سے بے اصل نہیں کہا جاسکتا۔ علی بن محمد نور الدین الملا القاری (وفات: 1014 ھ) نے لکھا ہے: معناہ صحیح مستفاد من قولہ تعالیٰ (وما خلقت الجنّ والإنس إلا لیعبدون) أی لیعرفونی، کما فسّرہ ابن عباس رضی اللہ عنہا( کشف الخفاء، 2/1011) یعنی اِس روایت کا مفہوم درست ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اِس قول سے مستفاد ہے کہ ’’میں نے پیدا کیا جن اور انس کو صرف اپنی عبادت کے لیے‘‘۔ یعنی وہ میری معرفت حاصل کریں، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس نے اِس آیت کی تفسیر میں کہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی معرفت کسی انسان کی سب سے بڑی دریافت ہے۔ بلا شبہہ معرفت کا حصول ہی کسی انسان کا سب سے بڑا گول (goal) ہے۔ اِس کے سوا، کوئی بھی دوسری چیز اتنی بڑی نہیں کہ وہ انسان کا گول بن سکے۔ دوسری مطلوب چیزیں اِس معرفت کے تقاضے کے طورپر پیدا ہوتی ہیں۔ معرفت اصل ہے، اور بقیہ تمام چیزیں اِسی اصل کا نتیجہ۔
معرفت کا یہ سفرانسانِ اول کی پیدائش کے ساتھ شروع ہوا، اور وہ ابدتک مسلسل جاری رہے گا۔ اِس سفر کا آغاز ہے، لیکن اِس کی کوئی انتہا نہیں۔ آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی۔ آدم کو پیغمبر کا درجہ دے کر، اللہ تعالیٰ نے آدم کو معرفت کا علم بھی دے دیا۔ اِس کے بعد یہ علم نسل درنسل انسانیت کے درمیان جاری رہا۔
خدا کے تمام پیغمبر اِسی کام میں انسان کی رہنمائی کے لیے آئے۔ پیغمبر گویا کہ معرفت ِ الٰہی کے مستند گائڈ(authentic guide) کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم زمانے میں ہزاروں سال تک پیغمبر آتے رہے، مگر بہت کم افراد ایسے تھے جو پیغمبر سے ہدایت لیں یا پیغمبر کا ساتھ دیں۔ لوگ نہ دکھائی دینے والے خدا (unseen god) کی معرفت حاصل نہیں کرپاتے تھے، اِس لیے وہ دکھائی دینے والے خدا (seen god) کو پوجتے رہے۔ انسان کی یہی کمزوری ہے جس نے قدیم زمانے میں فطرت پرستی (nature worship) کا کلچر پیدا کیا۔ یہ معرفت کا پہلا دور تھا جو حضرت آدم سے لے کر حضرت ابراہیم تک جاری رہا۔ اِس قدیم دور کی طرف اشارہ قرآن کی اِس آیت میں موجود ہے: ربّ إنّہنّ أضللن کثیراً (ابراہیم:36 )۔
دوسرا مرحلہ
معرفت کا دوسرا مرحلہ پیغمبر ابراہیم علیہ السلام (وفات:1985 ق م) سے شروع ہوتا ہے۔ وہ قدیم عراق کے شہر اُر (Ur) میں پیدا ہوئے۔ اللہ کی ہدایت کے مطابق، ان کے ذریعے ایک نیا منصوبہ شروع کیا گیا۔ وہ منصوبہ تھا، ایسی نسل تیار کرنا جو ماحول کی کنڈیشننگ سے پاک ہو۔ اِس مقصد کے لیے انھوں نے عرب کے صحرا میں اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسایا۔ یہاں صحرائی ماحول میں تقریباً ڈھائی ہزار سال تک توالد وتناسل کا سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ وہ نسل تیار ہوئی جس کو بنو اسماعیل کہاجاتا ہے۔ اِسی نسل میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبدالمطلب 570 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ اِس واقعے کا اشارہ قرآن میں اِن الفاظ میں آیا ہے: کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس (آل عمران:110 )
ایک مستشرق پروفیسر ڈی ایس مارگولیتھ (وفات: 1940 ) نے اِس اسماعیلی نسل کو ہیروؤں کی نسل (a nation of heroes) کہاہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو اسماعیل کے درمیان کام کرکے ان کو تیار کیا اور ان کے ذریعے ایک بڑی ٹیم بنائی۔ یہی وہ ٹیم ہے جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔ اِس ٹیم نے ساتویں صدی عیسوی میں اگلے دورِ معرفت کا آغاز کیا۔
تیسرا مرحلہ
اصحابِ رسول نے غیر معمولی قربانیوں کے ذریعے تاریخ میں ایک نیا انقلاب برپا کیا۔ اِس انقلاب کو ایک لفظ میں، دورِ شرک کا خاتمہ اور دورِ توحید کا آغاز کہاجاسکتا ہے۔ انھوں نے نہ صرف عرب میں، بلکہ عرب کے باہر دنیا کے دو بڑے ایمپائر، ساسانی ایمپائر اور بازنطینی ایمپائر کا خاتمہ کیا جو انسانی فکر کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ انھوںنے فطرت (nature) کو معبودیت کے مقام سے ہٹایا اور اکتشافِ فطرت کا دروازہ کھولا، جس کے نتیجے میں آخر کار جدید سائنسی دور ظہور میں آیا۔
اصحابِ رسول کا دوسرا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے وحیِ الٰہی (قرآن) کو ایک محفوظ کلام کی حیثیت دے دی جو کہ اِس سے پہلے کبھی کسی آسمانی کتاب کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ امتِ محمدی کا یہ ایک اہم کارنامہ ہے کہ اس نے ایک ہزار سال تک قرآن کو مستند ترین اندازمیں محفوظ رکھا اور اس کو انیسویں صدی عیسوی تک پہنچا دیا۔ انیسویں صدی میں پرنٹنگ پریس ایجاد ہوگیا اور یہ ممکن ہوگیا کہ قرآن کے نسخے کامل صحت کے ساتھ بڑی تعداد میں چھاپ کر ساری دنیا میں پھیلا دئے جائیں۔ اب اشاعتِ قرآن کا یہ کام اتنے بڑے پیمانے پر ہوچکا ہے کہ اُس میں اب نہ ضیاع کا اندیشہ ہے اور نہ کسی قسم کی تبدیلی کا اندیشہ۔
چوتھا مرحلہ
تہذیبِ معرفت کا چوتھا مرحلہ دراصل تیسرے مرحلے میں پیش آنے والے انقلابی پراسس کی تکمیل (culmination) ہے۔ یہ تکمیل مغربی قوموں کے ذریعے انجام پائی، جن کو قرآن میں یاجوج اور ماجوج (الأنبیاء:96 ) کہاگیا ہے۔ سفرِ معرفت کے تیسرے مرحلے کے ہیرو اہلِ ایمان (believers) تھے۔ معرفت کے چوتھے مرحلے کو انجام دینے کا کام غیر اہلِ ایمان (non-believers) سے لیاگیا۔ اِس واقعے کی طرف اشارہ ایک حدیثِ رسول میں موجود ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: إنّ اللہ لیؤید ہذا الدین بالرجل الفاجر (صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب إنّ اللہ یؤید الدین بالرجل الفاجر)
اِس حدیثِ رسول میں ’’فاجر‘‘ سے مراد غیر اہلِ ایمان (non-believers) ہیں۔ غالباً یہی غیر اہلِ ایمان تھے جن کو قرآن اور حدیث میں یاجوج اور ماجوج کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ غیر اہلِ ایمان وہ مغربی قومیں ہیں جو یورپ کی نشاۃِ ثانیہ (Renaissance) کے بعد ابھریں۔ مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کروسیڈس (Crusades) کی طویل جنگ میں مغربی قوموں کی ہار کے نتیجے میں پیدا ہوئی۔ کروسیڈس کی طویل جنگ چودھویں صدی عیسوی میں ختم ہوئی۔ اور اِسی چودھویں صدی میں مغرب کی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز ہوا۔
کروسیڈس کی طویل جنگ میں ایک طرف مسلم حکومتیں تھیں اور دوسری طرف تقریباً پورا مسیحی یورپ اِس طویل جنگ میں مسیحی قوموں کو ذلت آمیز شکست (humiliating defeat) ہوئی۔ یہ شکست اُن کے لیے ایک عظیم شاک (super shock) کے ہم معنی تھی۔ اِس کے بعد مغربی قوموں میں یہ ذہن پیدا ہوا کہ اُنھیں اپنے عمل کا میدان مسلّح کروسیڈس (armed crusades) کے بجائے، اسپریچول کروسیڈس (spiritual crusades) کی طرف موڑ دینا چاہیے۔ یہ اسپریچول کروسیڈس دھیرے دھیرے فطرت (nature) کی تسخیر تک پہنچ گئی۔
اِس کے نتیجے میں مسیحی قوموں کو سائنس اور صنعت کے میدان میں غیر معمولی طاقت حاصل ہوئی۔ وہ دوبارہ نئی طاقت کے ساتھ نہ صرف مسلم، بلکہ پوری دنیا پر چھاگئے — اکتشافِ معرفت کے پراسس کا آغاز اہلِ ایمان نے کیا تھا، اِس آغاز میں غیر اہلِ ایمان نے تائیدی رول ادا کیا اور اس کو تکمیل کے مرحلے تک پہنچا دیا۔
پچھلے چند سوسالوں میں مغربی محققین اور مغربی سائنس دانوں نے جو کام انجام دیا ہے، وہ سائنس برائے سائنس کے جذبے کے تحت انجام دیاگیا ہے۔ وہ اپنے آپ میں اور براہِ راست طورپر حق کی معرفت نہیں ہے۔ اِس کام کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے طالبینِ معرفت کے لیے بنیادی معلومات (data) فراہم کردیا ہے۔ اِن معلومات کو لے کر معرفت کی ایک پوری انسائکلو پیڈیا تیار کی جاسکتی ہے، جس کے ذریعے دینی حقائق انسان کے اپنے علمی مسلّمہ کی سطح پر مدلل ہوسکیں۔
موجودہ زمانے میں جو سائنسی دریافتیں ہوئی ہیں، وہ حقیقۃً تخلیقِ خداوندی میں چھپے ہوئے قوانین کی دریافتیں ہیں۔ اِن دریافتوں کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ اسلامی عقائد کا نظام جو پہلے وحی والہام پر مبنی سمجھا جاتا تھا، اب وہ انسان کے خود اپنے علمی مسلّمہ کی بنیاد پر قائم ہوگیا ہے۔
چوتھے دور میں معرفت کا جو سفر طے ہوا، اس کے کئی پہلو تھے — اِکتشافِ فطرت کے ذریعے آفاق وانفس کی نشانیوں کی دریافت، کمیونکیشن کے ذرائع کا ظہور میں آنا، لوگوں میں تجسس کی اسپرٹ (spirit of enquiry) کا پیدا ہونا، عالمی انٹریکشن کا وہ عمل جس کو گلوبلائزیشن کہا جاتا ہے، مذہبی جبر (religious persecution) کا ختم ہونا اور ساری دنیا میں مذہبی آزادی(religious freedom) کا دور شروع ہونا، تاریخی تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوجانا کہ دوسری تمام الہامی کتابیں غیر محفوظ اور غیر مستند ہوچکی ہیں، محفوظ اور مستند کتاب کی حیثیت صرف قرآن کو حاصل ہے، ساری دنیا میں مذہبی مفاہمت (religious understanding) کی فضا کا قائم ہونا،قرآن اور اسلام کا بڑے پیمانے پر نیوز(news)میں آنا، پولٹکل ایمپائر نہ ہوتے ہوئے، زیادہ بڑے پیمانے پر فکری ایمپائر (ideological empire) کا قیام ممکن ہوجانا، وغیرہ۔
پانچواں دور
معرفت کا پانچواں دور وہ ہے جب کہ پیدا شدہ انقلابی مواقع کو استعمال کرکے ایک طرف اعلیٰ درجۂ معرفت حاصل کیا جائے اور دوسری طرف اللہ کا پیغام ساری دنیا میں پہنچا دیا جائے۔ یہ کام قیامت سے پہلے آخری دورِ انسانیت میں انجام پائے گا۔ اِس دور کی پیشین گوئی ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں آئی ہے: لا یبقی علیٰ ظہر الأرض بیت مدر ولا وبر إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الاسلام (مسند احمد، جلد 4، صفحہ 6 ) یعنی زمین کے اوپر کوئی گھر یا خیمہ نہیں بچے گا، مگر اللہ اُس کے اندر اسلام کا کلمہ داخل کردے گا۔
آخری دور کا یہ واقعہ غالباً دو طریقے سے انجام پائے گا۔ ایک، یہ کہ کلمۂ اسلام یا کلامِ الٰہی (word of God) کے اندر اقتصادی مفاد(commercial interest) پیدا کیا جائے گا۔ لوگ عمومی طورپر خدا کی بات کو پھیلانے لگیں گے، حتی کہ اشاعتِ اسلام کے اِس عمل میںغیر مسلم بھی شریک ہوجائیںگے۔موجودہ زمانے میں یہ واقعہ بالفعل پیش آرہا ہے۔ پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ظہور میں آنے کے بعد ساری دنیا میں مختلف صورتوں سے اسلام کے پیغام کی اشاعت ہورہی ہے۔ بڑے بڑے پبلشر اسلام کا لٹریچر چھاپ کر پھیلا رہے ہیں، اور ٹی وی کے بڑے بڑے ادارے اسلام کے پروگرام نشر کررہے ہیں۔ سیمناروں اور کانفرنسوں کی صورت میں پوری دنیا میں ہر جگہ بہت بڑے پیمانے پر اسلام کا چرچا ہورہا ہے، وغیرہ۔
کلمۂ اسلام کی اشاعت کا دوسرا ذریعہ امتِ محمدی ہے۔ امتِ محمدی کے افراد جدید معیار پر اشاعتِ اسلام کا کام انجام دیں گے۔ اِس دور میں امت کا ایک منتخب گروہ خصوصی طورپر اشاعتِ اسلام کے اِس عمل کی توفیق پائے گا۔ غالباً یہی وہ گروہ ہے جس کو حدیث میں ’اخوانِ رسول‘ (صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ) کا لفظ دیاگیا ہے۔
پانچویں دور میں اعلیٰ معرفت کے حصول کی طرف قرآن میں اشارہ موجود ہے۔ یہ اشارہ قرآن کی اِس آیت میں پایا جاتا ہے: سنریہم آیاتنا فی الآفاق وفی أنفسہم حتی یتبین لہم أنہ الحق (حم السجدۃ:53 ) یعنی آئندہ ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، آفاق میں بھی اور انفس میں بھی، یہاں تک کہ اُن پر بخوبی یہ امر واضح ہوجائے گا کہ یہ (قرآن) حق ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں جدید سائنس کی اُن دریافتوں کی طرف اشارہ ہے جو خاص طور پر انیسویں صدی اور بیسویں صدی میں سامنے آئی ہیں۔ یہ دریافتیں فطرت میں چھپے ہوئے قوانینِ الٰہی کی دریافت ہیں۔ اِن دریافتوں نے اِس بات کو ممکن بنا دیا ہے کہ انسان کے خود اپنے علمی مسلمہ (scientific criterion) پر خدائی سچائی کو مدلل کیا جاسکے۔
چھٹا دور
معرفت الٰہی کا چھٹا دور آخرت کا دور ہے۔خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسانی زندگی کے دو دور ہیں — قیامت سے پہلے کا دور، اور قیامت کے بعدکا دور۔ قیامت سے پہلے کا دور عارضی دورِ حیات ہے۔ اور قیامت کے بعد کا دورِ حیات ابدی دورِ حیات۔ قیامت سے پہلے کے دور میں انسانوں کا انتخاب کیاجارہا ہے۔ قیامت کے بعد کے دور میں تمام انسانوں کو اُن کے پچھلے ریکارڈ کے مطابق، آخرت کی دنیا میں آباد کیا جائے گا۔
قیامت سے پہلے کے دور میں معرفت کے حصول کا جو پراسس شروع ہوا، اس کی تکمیل آخرت کے دور میں انجام پائے گی۔ موجودہ دنیا میں معرفت کا حصول صرف زمان ومکان (space and time) کے اندر محدود طورپر انجام پاسکتا تھا۔ لیکن آخرت کی دنیا میں معرفت کا سفر زمان ومکان سے ماورا (beyond space and time) لامحدود طورپر انجام پائے گا۔ موجودہ دنیا میں یہ عمل صرف غیرمعیاری (imperfect) درجے میں انجام پاسکتا تھا، آخرت کی دنیا میں یہ عمل معیاری (perfect) طورپر تکمیل کے درجے میں انجام پائے گا۔
معرفت کا حصول انسان کی زندگی کا اصل مقصد ہے۔ اِس سفرِ معرفت کا آغاز موجودہ دنیا میں ہوا، اِس سفرِ معرفت کی تکمیل آخرت میں جنت کی دنیا میں انجام پائے گی۔ موجودہ دنیا میں انسان کو ہر چیز بقدر ضرورت دی گئی تھی (ابراہیم: 34 )، آخرت کی جنت میں انسان کو تمام چیزیں بقدر اشتہاء دی جائیں گی (حم السجدۃ:31 )۔
اِس جنت کی وسعت کو بتاتے ہوئے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں: وسارعوا إلی مغفرۃ من ربکم وجنۃ عرضہا السموات والأرض، أعدّت للمتقین (آل عمران:133 ) یعنی دوڑو اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اُس جنت کی طرف جس کی وسعت آسمان اور زمین جیسی ہے۔ وہ تیار کی گئی ہے اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے۔ (30 جنوری 2010 )
واپس اوپر جائیں

وحدتِ وجود

شیخ محی الدین ابن العربی اندلس میں 560 ھ میں پیداہوئے اور 638ھ میں دمشق میں وفات پائی۔ وہ صوفی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ ان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ: کان ظاہریًا فی العبادات، باطنیًا فی الاعتقاد(وہ عبادات میں ظاہری تھے اور عقیدہ میں باطنی تھے)۔ ان کے بارے میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ: قدوۃ القائلین بوحدۃ الوجود (وہ وحدۃ الوجود کے ماننے والوں کے پیشوا ہیں)۔ ابن العربی نے قرآن کی آیت: واعبد ربک حتی یاتیک الیقین(15: 99)کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے: حتی یأتیک حق الیقین، منتہی عبادتک بانقضاء وجودک فیکون ہذا العابد والمعبودجمیعاً لا غیر۔یعنی یہاں تک کہ تجھے حق الیقین حاصل ہو، اور تیرے وجود کے ختم ہونے سے تیری عبادت بھی ختم ہوجائے، پھر عابد ومعبود سب ایک ہوں گے، غیر نہیں۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتاہے کہ وحدۃ الوجود کا نظریہ کن بے بنیاد دلائل پر قائم کیا گیا ہے، قرآن کی آیت کی مذکورہ تفسیر جو ابن العربی نے کی ہے، وہ بلاشبہہ ایک بے اصل تفسیر ہے، علمی اعتبار سے اُس کی کوئی حیثیت نہیں، یہ تفسیر بالرائے کی ایک بدترین قسم ہے۔ اس طرح کی تفسیر کو اگر درست سمجھا جائے تو اس سے ہر بات ثابت کی جاسکتی ہے، حتی کہ قرآن سے غیر قرآنی نظریہ بھی۔
وحدتِ وجود اصلاً ایک فلسفیانہ نظریہ ہے۔ فلسفیوں نے خدا اور موجودات کو ایک ثابت کرنے کے لئے وحدتِ وجود کا نظریہ پیش کیا۔ اس کو فلسفیانہ اصطلاح میں مانزم (Monism) کہا جاتاہے۔ بعد کو یہ نظریہ آرین مذاہب میں داخل ہوگیا۔ اس کے بعد اکثر مسلم صوفیا نے اس کو اختیار کرتے ہوئے اسلام میں داخل کردیا۔ شیخ احمد سرہندی بظاہر وحدتِ وجود کے خلاف تھے، مگر انھوں نے وحدتِ شہود کے نام سے جو نظریہ پیش کیا ہے، وہ بھی وحدتِ وجود ہی کی ایک بدلی ہوئی شکل ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ وحدتِ وجود (monism)کا نظریہ قرآن اور حدیث میں سرتاسر اجنبی ہے۔ وحدتِ وجود کا نظریہ ایک غیر اسلامی نظریہ ہے، وہ کوئی اسلامی نظریہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مہمان داری کلچر

دہلی میں اتوار کی صبح کو ہمارا ہفتہ وار کلاس ہوتا ہے۔ جو لوگ اس میں برابر شریک ہوتے ہیں، ان سب کا یہ کہنا ہے کہ دعوتی اور روحانی غذا کے لئے یہ کلاس بہت مفید ہے۔ مگر بعض اوقات ایسا ہوتاہے کہ کوئی شخص اس میں شریک نہ ہوگا۔ بعد میں جب پوچھا جائے کہ آپ اتوار کی کلاس میں کیوں نہیں آئے تو وہ کہے گا کہ گھر میں مہمان آگئے تھے۔
یہ مہمان داری کلچر ہے۔ اور آج کل ہر گھر میں اس کلچر کی مثال دیکھی جاسکتی ہے۔ بہت سے لوگ اس کو سنت کا نام دیتے ہیں، مگر یہ غلطی پر سرکشی کا اضافہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مہمان داری بطور کلچر نہ تھی، بلکہ بطور ضرورت تھی۔
آج کل مہمانوں کا آنا جانا، ان کے کھانے پینے کی دھوم مچانا ایک رواج بنا ہوا ہے۔ قدیم زمانہ میں اس قسم کا رواج ہر گز نہیں تھا۔ قدیم زمانہ میں مہمان کا مطلب صرف یہ تھا کہ اگر اتفاقاً کوئی مہمان اپنی ضرورت کے تحت آجائے تو سادہ طورپر اس کو اپنے یہاں ٹھرایا جائے۔ کھانے پینے کا کوئی اہتمام نہ کیا جائے، یہاں تک کہ مہمان اپنی ضرورت پورا کرنے کے بعد واپس اپنے مقام پر چلا جائے۔
آج کل یہ حال ہے کہ مہمان بطور کلچرل رواج کے آتے ہیں۔ گھر والے ان کے کھانے پینے کی دھوم کرتے ہیں۔ پھر مہمان اور گھر والے بیٹھ کر دیر دیر تک ادھر اُدھر کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ بلاشبہہ مہمان داری نہیں ہے بلکہ شیطان داری ہے۔ کیوں کہ اس طرح کی مہمان داری میں دل کھول کر فضول خرچی کی جاتی ہے، اور فضول خرچی کو قرآن میں ایک شیطانی کام کہاگیا ہے(17:27) ۔
مہمان داری کو اگر فطری دائرہ میں رکھا جائے تو مہمان داری کلچر اپنے آپ ختم ہوجائے۔ آنے والوں کو انتہائی سادہ کھانا کھلایا جائے۔ ان کے لئے گھومنے پھر نے کا پروگرام نہ بنایا جائے۔گھر میں بیٹھ کر گھنٹوں گھنٹوں تفریحی باتیں نہ کی جائیں، وغیرہ۔ اگر ایسا کیا جائے تو کوئی مہمانی کرنے کے لئے آپ کے یہاں نہیں آئے گا۔ کسی کو منع کئے بغیر مہمان داری کا کلچر اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
حقیقت یہ ہے کہ مہمان داری کلچر اپنے نتیجے کے اعتبار سے قاتل کلچر ہے۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ ہمارے گھروں میں علم اور دین کا چرچا ہو، جنت اور جہنم کی باتیں ہوں، خدا کو زیادہ سے زیادہ یاد کیا جائے۔ لیکن مہمان داری کلچر نے ہمارے گھروں سے ان چیزوں کا خاتمہ کردیا ہے۔ یہ بلاشبہہ سنت کے نام پر سنت کا قتل ہے۔
موجودہ مہمان داری کلچر کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ ہمارے گھر روحانیت کے بجائے مادیت کا کارخانہ بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے گھروں میں شیطانی ماحول ہے، نہ کہ ملکوتی ماحول۔ہمارے گھروں میں خدا کا چرچا نہیں۔ ہمارے گھروں میں جنت اور جہنم کا تذکرہ نہیں۔ ہمارے گھروں میں قرآن اور حدیث کی خوشبو نہیں۔ ہر گھر بظاہر بھیڑ بھاڑ کا گھر ہے، لیکن روحانی اعتبار سے ہر گھر ایک سُونا قبرستان بنا ہوا ہے۔
مومن کا گھر وہ گھر ہے جہاں داخل ہونے کے بعد فرشتوں کی صحبت ملے، جہاں ایمان میں اضافے کا سامان ہو، جس کے اندر جینا ایمان میںترقی کا سبب بنتا ہو۔ جہاں خدا اور رسول کی گونج سنائی دیتی ہو۔ ایسا ہی گھر دینی گھر ہے۔ جو گھر ایسا نہ ہو، وہ ایک شیطان خانہ ہے، نہ کہ ایمان خانہ۔
واپس اوپر جائیں

نیک وبد کی تمیز

امریکا میں ایک انٹرنیشنل سائنسی ادارہ قائم ہے۔ اِس ادارے کا مقصد بچوں کے معاملات کی سائنسی تحقیق کرنا ہے۔ اس ادارے کا نام یہ ہے:
Infant Cognition Center, Yale University, Connecticut.
اِس ادارے کے تحت حال میں ایک رسرچ ہوئی ہے۔ یہ رسرچ نفسیات کے پروفیسر پال بلوم (Paul Bloom) کی رہنمائی میں ہوئی ہے۔ اِس رسرچ کے نتائج اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ اِس کی تفصیل انٹرنیٹ پر دیکھی جاسکتی ہے۔ مقابل کے صفحے پر اِس رسرچ کا وہ خلاصہ شائع کیا جارہا ہے جو نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (11 مئی 2010 ) میں چھپا ہے۔
قدیم زمانے سے یہ تصور چلا آرہا تھا کہ انسان کی فطرت میں نیک اور بدکی تمیز موجود ہے۔یہ بات قرآن کی ایک آیت میں اِس طرح بیان ہوئی ہے: فألہمہا فجورہا وتقواہا (الشمس :8 )۔ موجودہ زمانے میں مغرب میں کچھ مفکرین پیدا ہوئے جنھوں نے اِس کے برعکس نظریہ پیش کیا۔ مثال کے طورپر سگمنڈ فرائڈ (وفات:1939 )، وغیرہ۔ اِن لوگوں نے اپنے خود ساختہ نفسیاتی مطالعہ کے حوالے سے بتایا کہ انسان کی فطرت پیدائشی طورپر ایک سادہ پلیٹ کی مانند ہوتی ہے۔ اس کے اندر کسی چیز کو اچھا اور کسی چیز کو برا سمجھنے کا کوئی شعور موجود نہیں ہوتا۔ اِس قسم کاشعور تمام تر سماج کے اثر (social conditioning) سے پیدا ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں یہی نظریہ تعلیم یافتہ طبقے پر چھایا رہا۔
مگر اکیسویں صدی میں جو نفسیاتی تحقیقات ہوئی ہیں،انھوں نے اِس نظریے کو بے بنیادثابت کردیا ہے۔ اِس سے یہ ثابت ہوا ہے کہ انسان اپنے اعمال کے لیے جواب دہ ہے۔ کیوںکہ جب وہ کوئی خلافِ عدل کام کرتا ہے تو وہ اپنے شعورِ فطرت سے انحراف کرکے ایسا کرتا ہے۔ اِس تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان کا اخلاقی احساس اس کی داخل فطرت پر مبنی ہے، وہ محض خارجی اثرات کا نتیجہ نہیں— اِس طرح اِس معاملے میں مذہبی نقطۂ نظر دوبارہ تاریخ میں واپس آگیا ہے۔
Infants Can Make Value Judgments, Finds American Research
Contrary to the Freudian theory that humans start their lives with a moral “blank slate”, children may be born with the ability to tell good from bad, according to a new study. Newly born babies apparently start making moral judgments by the time they are six months old, claims a team of psychologists at the infant cognition centre at Yale University in Connecticut. The scientists used the ability to tell helpful from unhelpful behaviour as an indication of moral judgment. Infants can even act as judge and jury in the nursery. Researchers who asked one-year-old babies to take away treats from a “naughty” puppet found they were sometimes also leaning over and smacking the figure on the head. As part of the study, they conducted multiple tests on infants, less than a year old. Firstly, an animated film of simple geometric shapes was screened for the kids to watch. It showed a red ball, with eyes, trying to climb a hill. A yellow square helped, pushing it up, while a green triangle forced it back down. Later, the children were asked to “choose” between the “good guy” square, and the “bad guy” triangle. In 80% of cases the infants chose the square over the triangle. In a second study, the children were shown a toy dog trying to open a box. One teddy bear helped him, while another sat on it to stop him getting inside. The observers found that most babies opted for the friendly teddy bear. To further confirm that the babies were responding to niceness and naughtiness the scientists devised another test. A toy cat played with a ball while a cuddly rabbit puppet stood on either side. When the cat lost the ball, the rabbit on the right side returned it to him, while the rabbit on the left side picked it up and ran away with it. The children were asked to handle anyone one puppet. Most picked the naughty rabbit and smacked it on the head. Paul Bloom, professor of psychology who led the study, said the research counters theories of psychologists such as Sigmund Freud who believed humans began life as “amoral animals” and William James who described a baby’s mental life as “one great, blooming, buzzing confusion”. “There is a growing body of scientific evidence that supports the idea that perhaps some sense of good and evil is bred in the bone,” the Times quoted Bloom as saying. Kiley Hamlin, author of the team’s Infant Morality report, said: “We spend a lot of time worrying about teaching the difference between good guys and bad guys in the world but this might be something that infants come to the world with.” Peter Willatts, a lecturer in psychology at Dundee University, said: “You cannot get inside the mind of the baby. You cannot ask them. You have to go on what most attracts their attention.” “We now know that in the first six months babies learn things much quicker than we thought possible. What they are born with and what they learn is difficult to divide,” he added. (The Times of India, New Delhi, Page 17 May 11, 2010)
واپس اوپر جائیں

موت کا تجربہ

مشہور ٹینس کھلاڑی مارٹینا (Martina Navratoliva) طبی مشورے کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس گئی۔ ڈاکٹر نے اس کا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ تمھارے پھیپھڑے میں کینسر ہوچکا ہے اور وہ اگلے اسٹیج میں ہے۔ ڈاکٹر کی تشخیص (diagnosis)کو بتاتے ہوئے مذکورہ خاتون نے کہا کہ یہ خبر میرے لیے نائن الیون کے برابر ہے:
It was such a shock for me. It was my 9/11.
خاتون نے یہ بات اِس لیے کہی کہ موت اُس کو بالکل قر یب دکھائی دینے لگی۔ لیکن موت کے بعد کا جو مرحلہ ہے، وہ اِس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ موت، قرآن کے الفاظ میں، اسباب کے کامل تقطّع (البقرۃ: 166) کا نام ہے۔ موت کے بعد اچانک آدمی ایک اور دنیا میں پہنچ جاتاہے جو موجودہ دنیا کے مقابلے میں ہر اعتبار سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ موت کے بعد اچانک انسان پر دو سنگین حقیقتیں کھل جاتی ہیں— ایک یہ کہ اب موت سے پہلے والے دو رمیں واپسی ممکن نہیں، جہاں اس نے اپنی ایک دنیا بنائی تھی۔ دوسرے یہ کہ موت کے بعد والے دور میں وہ اپنے لیے ایک اور دنیا نہیں بناسکتا۔ یہ احساس آدمی کو ابدی مایوسی اور ابدی حسرت میں مبتلا کردے گا، اور بلاشبہہ ابدی مایوسی اور ابدی حسرت سے زیادہ اذیت ناک تجربہ اور کوئی نہیں۔
موجودہ دنیا کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں اگر ایک چانس کھویا جائے تو اس کے بعد اس کو دوسرا چانس (second chance) مل جاتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ہاری ہوئی بازی کو دوبارہ جیت میں تبدیل کرسکے۔ لیکن آخرت میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ آخرت میںایسا نہیں ہوسکتا کہ آدمی اپنے لیے دوسرا چانس پالے۔ آخرت میں کسی انسان کے لیے دوبارہ کوئی چانس نہیں۔ پہلے چانس یا دوسرے چانس یا تیسرے چانس کا معاملہ صرف موجودہ دنیا میں پیش آتا ہے۔ آخرت کی دنیا مکمل طورپر اِس سے مختلف ہے۔ آخرت میں صرف انجام ہے، وہاں کسی کو دوبارہ نیا آغاز ملنے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک باس درکار ہے

قبرص کی کانفرنس (16-18 نومبر 2008) ایک عالمی امن کانفرنس تھی۔ وہاں دنیا بھر کے تعلیم یافتہ لوگ اکھٹا ہوئے اور امن کے موضوع پر پُرجوش تقریریں کیں۔ اِن میں کئی ایسے افراد تھے جنھوں نے امریکا کو امن کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا۔ یہ تعلیم یافتہ طبقے کی عام بولی ہے۔ مگر یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ طرزِفکر کا نتیجہ ہے۔ اِس قسم کی باتوں سے کبھی دنیا میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔
قبرص کی کانفرنس سے واپسی کے جلد ہی بعد 26 نومبر 2008 کی شام کو انڈیا کی کمرشیل راجدھانی بمبئی میں بم دھماکے کی خبریں گونجنے لگیں۔ بمبئی میں تین بڑی عمارتیں، تاج ہوٹل، آبرائے ہوٹل، اور نریمن ہاؤس آگ کی نذر ہوگئے۔ سیکڑوں لوگ یا تو مر گئے یا زخمی ہوگئے۔ اربوں ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بم دھماکہ پاکستان کے مسلم انتہا پسندوں کی طرف سے کیا گیا۔ مجھ کو جب یہ خبر معلوم ہوئی تو میں بے اختیار روپڑا۔ میں نے کہا کہ خدایا، تیرے لوگ انسان کے دشمن بن گئے۔ اِس قسم کا تشدد بلا شبہہ شیطان کے کام سے بھی زیادہ براکام ہے۔ شیطان، انسانوںکا دشمن ہے۔ لیکن شیطان صرف بہکانے کا کام کرتاہے، اِس لیے اس کی دشمنی ایک منفعل دشمنی (passive enmity) ہے، جب کہ اِس قسم کا تشدد فعّال دشمنی (active enmity) کی حیثیت رکھتا ہے۔
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (29 نومبر 2008) کے ایڈی ٹوریل پیج پر ایک مضمون چھپا ہے۔ اِس کے لکھنے والے مسٹر گوتم ادھکاری (Gautam Adhikari) ہیں۔ اِس مضمون کا عنوان یہ ہے— پاکستان کو بچاؤ، سب کو بچانے کے لیے:
Save Pakistan to Save us All
میں نے اِس مضمون کو پڑھا تو مجھے محسوس ہوا کہ یہ صرف ایک سطحی سوچ ہے۔ زیادہ گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی ’’چودھری‘‘ نہیںرہا، جب کہ عالمی امن کے قیام کے لیے ایک عالمی چودھری کا ہونا ضروری ہے۔
یہ سوچ کر میرے ذہن میں ایک متبادل عنوان آیا جو کہ یہ تھا:
Accept the principle of bossism to save the world.
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ ہر گھر میں ایک قوّام (النساء: 34 ) ہونا چاہئے۔ قوام سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں باس (boss) کہاجاتا ہے۔ قانونِ فطرت کے مطابق، موجودہ دنیا کا نظام قوامیت (bossism) کے اصول پر قائم کیاگیا ہے — گھر کا قوام ، کمپنی کا قوام، سماج کا قوام، یہاں تک کہ قوموں کا قوام۔ جہاں قوام نہ ہو، وہاں نظم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اِس معاملے میں ہمارے لیے جو انتخاب ہے، وہ قوام (boss) اور بے قوام (no-boss) کے درمیان نہیں ہے، بلکہ قوام اور انارکی (anarchy) کے درمیان ہے۔ جہاں قوام نہ ہوگا، وہاں انارکی ہوگی، نہ کہ سادہ طورپرصرف بے قوامی کی حالت۔
معیار پسند (idealist) افرادیقینا اِس سے اختلاف کریں گے۔ لیکن یہ مسئلہ نظریاتی اختلاف کا نہیں ہے، بلکہ عملی امکان کا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی اور انتخاب نہیں۔ حقیقت پسندی (realism) کا تقاضا ہے کہ ہم قوامیت (bossism) کے اصول کو فطرت کے ایک قانون کے طورپر مان لیں۔ عملی اعتبار سے اِس معاملے میں ہمارے لیے کوئی دوسرا انتخاب (choice) سرے سے ممکن نہیں۔
اجتماعی زندگی میں کسی کو قوام ماننے کے بھی بعض مائنس پوائنٹ ہیں، مگر یہ مائنس پوائنٹ چھوٹے شر (lesser evil) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فطرت کا یہ بھی ایک لازمی قانون ہے کہ اگر ہم چھوٹی برائی کو نہ مانیں، تو ہم کو بڑے شر (greater evil) کو ماننا پڑتا ہے۔ اِس معاملے میں ہمارے لیے دانش مندی یہ ہے کہ ہم چھوٹی برائی کو مان لیں، تاکہ ہم کو بڑی برائی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اِس اعتبار سے تاریخ کا ایک جائزہ لیجئے۔ ساتویں صدی عیسوی سے پہلے دنیا کے بڑے حصے پر رومن ایمپائر قائم تھا۔ یہ رومن ایمپائر اُس وقت کا سپر پاور تھا۔ اصولِ عام کے مطابق، رومن ایمپائر میں کئی کمیاں تھیں، لیکن اِسی کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ رومن ایمپائر کے دبدبے سے دنیا میں امن کا ماحول قائم تھا۔ مورخین اِس کو پیکس رومانا (Pax Romana) کہتے ہیں۔
ساتویں صدی عیسوی میں اسلامی دور آیا ۔ اِس کے بعد دنیا کے بڑے حصے میں مسلم ایمپائر قائم ہوگیا۔ اِس دور میں بھی بعض کمیاں تھیں، لیکن اِسی کے ساتھ اس کا یہ فائدہ بھی تھا کہ اس کے دبدبے کے تحت، دنیا میں امن قائم ہوگیا۔ اِس کو پیکس اسلامکا (Pax Islamica) کہاجاسکتا ہے۔ اِس دور کا ایک علامتی واقعہ یہ ہے کہ عباسی خلافت کے زمانے میں ایک بار ایک سرحدی مقام کے لوگوں میں مرکز سے بغاوت کا رجحان پیدا ہوا۔ اِس موقع پر خلیفہ نے بغاوت کو فرو کرنے کے لیے ایک فوج بھیجنا چاہی۔ لیکن خلیفہ کے وزیر نے کہاکہ آپ فوج نہ بھیجیں، بلکہ دھمکی کا ایک خط (warning letter) بھیج دیں، وہی بغاوت کو فرو کرنے کے لیے کافی ہوجائے گا۔ چناں چہ خلیفہ نے اِس قسم کا ایک خط باغی لیڈر کے پاس بھیجا اور بغاوت ختم ہوگئی۔ اِس واقعے پر ایک عرب شاعر نے یہ شعر کہا کہ — جہاں دوسرے لوگ دشمنوں کے خلاف فوج بھیجتے ہیں، وہاں ہم صرف ایک خط بھیج دیتے ہیں:
إذا ما أرسل الأمراء جیشاً إلی الأعداء، أرسلنا الکتابا
اٹھارھویں صدی عیسوی کے بعد وہ دور آیا، جب کہ برطانیہ سپر پاور بن گیا۔ برطانوی اقتدار اتنا وسیع تھا کہ یہ کہا جانے لگا کہ اُس میں سورج نہیںڈوبتا :
The Sun never sets on British Empire.
بیسویں صدی عیسوی کے وسط تک برطانیہ دنیا کا قوام (international boss) بنا رہا ۔ بعض کمیوں کے باوجود اِس دور میں عمومی سطح پر امن قائم تھا۔ اِس امن کو مورخین کے یہاں پیکس بریٹانکا (Pax Britannica) کہاجاتا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد ایٹمی طاقت کا دور آیا۔ اب امریکا کو دنیا میں سپر پاور کی حیثیت حاصل ہوگئی۔ جغرافی اعتبار سے اگر چہ امریکا کے زیر اقتدار رقبہ بہت زیادہ بڑا رقبہ نہ تھا۔ لیکن جدید ترقیاتی ذرائع نے امریکا کو یہ موقع دیا کہ وہ بیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں دنیا کا قوام بن سکے۔ یہی وہ دور ہے جب کہ 1962 میں سوویت روس نے کیوبا (Cuba) میں اپنا میزائل اڈہ (missile installation) بنانے کی کوشش کی۔ اُس وقت امریکا کے صدر جان ایف کینڈی (وفات:1963 ) نے دھمکی دی کہ اِس اڈے کو تباہ کردیاجائے گا۔ اِس کے فوراً بعد فوجی سامانوں سے لدے ہوئے روسی جہاز کیوبا کے ساحل کو چھوڑ کر روس واپس چلے گئے۔
اِس طرح امریکی دور میں جو دبدبہ قائم ہوا، اس کے تحت دنیا میں ہر جگہ امن قائم ہوگیا۔ اِس امن کو عام طورپر پیکس امریکانا (Pax Americana) کہاجاتا ہے۔ اب جو مسئلہ ہے، وہ یہ کہ خلیج جنگ (2003) میں امریکا کی بظاہر ناکامی نے امریکا کے سپر پاور ہونے کی حیثیت کو غیر موثر کردیا ہے۔ اِس جنگ میں امریکا کو پانچ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ امریکا کی اقتصادی حالت ناقابل تلافی حد تک بگڑ گئی۔ جدید دنیا کا جو مسئلہ ہے، وہ یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کوئی عالمی قوام (international boss) موجود نہیں۔ اِس کے نتیجے میں ہر طرف انارکی پھیلی ہوئی ہے۔ اب کوئی ایسی بڑی طاقت نہیں جو اِس انارکی کو کنٹرول کرسکے۔
عالمی قوامیت (international bossism) کا یہ اصول عملاً دو طریقوں سے قائم ہوتا ہے — ایک، یہ کہ باس اتنا طاقت ور ہو کہ وہ بزور لوگوں کو اطاعت پر مجبور کرسکے۔ پیکس بریٹانکا اِسی کی ایک مثال ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ماتحت قوم اتنی دانش مند ہو کہ وہ خود اپنے فیصلے سے، باس کی ماتحتی کو قبول کرلے۔ حضرت سلیمان کے مقابلے میں، قدیم یمن کی ملکہ سبا کا رویہ اِس کی ایک تاریخی مثال ہے۔(27 نومبر2008)
واپس اوپر جائیں

امن اور انصاف

11-12 اپریل 2010 کو نئی دہلی میں ایک انٹرنیشنل سیمنار ہوا۔ اِ س سیمنار کا انتظام حسب ذیل تین تنظیموں کے اشتراک سے کیاگیا تھا:
Indo-Iran society, New Delhi. World Peace Forum, Tehran. Iran Culture House, New Delhi
اِس سیمنار کا موضوع یہ تھا: Justice, Peace: A Common Universal Discourse۔ دو دن کے اِس سیمنار میں40 مقالات پیش کئے گئے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، اِس سیمنار میںجو باتیں کہی گئیں، ان کا خلاصہ یہ تھا — امن اور انصاف دونوں ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ انصاف، امن کی شرط ہے۔ جب تک انصاف قائم نہ ہو، امن کا قیام نہیں ہوسکتا:
Peace and justice both go hand in hand with each other, justice is the pretext of the peace, unless justice is established, peace can not be restored or implemented.
یہ اُسی قدیم نظریے کا اعادہ ہے جس کو مسلمان لمبی مدت سے پیش کرتے رہے ہیں۔ اِس کو عرب مسلمان ’’السلام مع العدل‘‘(peace with justice) کہتے ہیں، یعنی تم ہم کو انصاف دو، پھر ہم تم کو امن دیں گے۔
یہ بلا شبہہ ایک غیر فطری اور غیر شرعی نظریہ ہے۔ اِسی لیے یہ نظریہ عملاً کبھی کامیاب نہ ہوسکا۔ اِس معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ ڈی لنکنگ پالیسی (de-linking policy) اختیار کی جائے، یعنی انصاف کے سوال کو امن کے سوال سے الگ کردینا۔ پہلے یہ کیا جائے کہ مصالحانہ انداز اختیار کرتے ہوئے امن قائم کیا جائے۔ جب امن قائم ہوگا تو مواقع (opportunities)کھلیں گے اور پھر مواقع کواستعمال (avail) کرکے انصاف کو حاصل کرنا ممکن ہوجائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ انصاف براہِ راست طورپر امن کا حصہ نہیں ہے، بلکہ وہ استعمالِ مواقع کا حصہ ہے۔ یہی اِس معاملے میں دانش مندی کی بات ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ زمانے کے تمام رہنما اور دانش ور اِس دانش مندی سے کامل طورپر بے خبر ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تفریح یا ایمانی غذا

ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے کہا کہ پہلے میںالرسالہ پڑھتا تھا۔ اُس سے مجھے ایمانی غذا ملتی تھی، مگر اب کچھ عرصے سے وہ میرے مطالعے میں نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ اِس کا کوئی خاص سبب نہیں۔ غالباً میرا زرِ تعاون ختم ہوگیا اور دفتر والوں نے اس کو میرے نام بھیجنا بند کردیا۔ اس کے بعد میں دوبارہ اس کی خریداری کی تجدید نہ کراسکا۔
اِس طرح کی اور بھی کئی مثالیں میرے علم میں آئی ہیں۔میں نے سوچا کہ اگر سچ مچ کسی کے لیے الرسالہ اس کی ’’ایمانی غذا‘‘ بن چکا ہو، تو وہ ہر گز اِس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ ایک مہینہ بھی الرسالہ کے مطالعے سے محروم رہے۔ جو چیز آدمی کے لیے غذا کا درجہ حاصل کرلے، وہ اس کو چھوڑنے کا تحمل نہیں کرسکتا، خواہ یہ غذا آکسیجن کی طرح مادّی ہو، یا الرسالہ کی طرح ایمانی۔ غذا ہمیشہ موت کے ساتھ ترک ہوتی ہے، کوئی شخص حالتِ زیست میں غذا کو ترک کرنے کا تحمل نہیں کرسکتا۔
غور کرنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ یہ لوگ اگر چہ ’’ایمانی غذا‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، مگر اِس سے ان کی مراد ایک قسم کی ذہنی تفریح (intellectual luxury) ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ الرسالہ میں، دوسرے جرائد کے مقابلے میں، مواد اور اسلوب کے اعتبار سے ایک نیا پن ہوتا ہے۔ یہ نیا پن قارئین کو متاثر کرتا ہے۔ لیکن اِس قسم کے لوگ الرسالہ کے اصل قاری نہیں ۔ الرسالہ کا اصل قاری وہ ہے جس کا مائنڈ سیٹ (mindset) الرسالہ کے مطالعے سے پوری طرح بدل گیا ہو، جو روایتی خول سے باہر آکر الرسالہ کو سمجھ سکے، جو الرسالہ میںاپنے رسمی ایمان کو زندہ ایمان میں تبدیل کرنے کا راز پالے، جس کو الرسالہ کے مطالعے کے دوران خدا کی قربت کا تجربہ ہونے لگے، جس کے لیے الرسالہ حقیقتِ اعلیٰ کی شعوری دریافت کا ذریعہ بن جائے، جس نے الرسالہ کے دعوتی مشن کو اپنی زندگی کا واحد مشن بنا لیا ہو، جس کے لیے الرسالہ کا مطالعہ مثبت شخصیت کی تعمیر کا ذریعہ بن گیا ہو۔ جو لوگ الرسالہ کو جنت کی گائڈ بُک اور معرفتِ الٰہی کے خزانے کی حیثیت سے دریافت کریں، وہی الرسالہ کے اصل قاری ہیں۔
واپس اوپر جائیں

ٹنشن کے مسئلے کا حل

خلیفہ چہارم حضرت علی بن ابی طالب (وفات:661 ء) ایک بلند پایہ صحابی رسول ہیں۔ اُن کے بہت سے حکیمانہ اقوال مشہور کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ میں مذکور ہیں۔ ان کا ایک قول یہ ہے: الخیر فیما وقع، یعنی خیراُسی میں تھا جو واقع ہوا:
Whatever happened, happened for good.
ہر عورت اور مرد کی زندگی میں بار بار ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آتا ہے، کوئی ایسا تجربہ گزرتا ہے جو ہمارے لیے غیر مطلوب تھا۔ ایک طرف یہ تجربہ ہوتاہے اور دوسری طرف ہم کو یہ محسوس ہوا ہے کہ اِس صورتِ حال کو بدلنا بظاہر ہمارے بس میں نہیں۔
یہی وہ ناخوش گوار صورتِ حال ہے جو لوگوں کے اندر منفی سوچ پیدا کرتی ہے اور لوگوں کو ٹنشن یا اسٹریس میں مبتلا کردیتی ہے۔
مذکورہ قول اِس مسئلے کا سادہ حل ہے کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ جو کچھ ہوا، وہ محکم قانونِ فطرت کے تحت ہوا۔ اور جو واقعہ وسیع تر قانونِ فطرت کے تحت پیش آئے، وہ یقینا مجموعی خیر کے لیے ہوا ہے، اور جو چیز مجموعی خیر کے تحت ہو، ہمارا انفرادی خیر بھی بہر حال اس میں شامل ہوگا۔
’’جو ہوا وہی خیرتھا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ جو ہوا، وہی ممکنہ طورپر بہتر ـتھا۔ اسباب وعلل کی اِس دنیا میں اس کے سوا کسی اور چیز کا امکان ہی نہ تھا۔ یہی حقیقت پسندانہ نقطۂ نظر ہے۔یہ واحد نقطۂ نظر ہے جو کسی عورت یا مرد کو ٹنشن سے بچا سکتا ہے۔ یہی واحد نقطۂ نظر کسی عورت یا مرد کو اِس قابل بناتا ہے کہ وہ موجودہ دنیا میں پر سکون ذہن (peaceful mind) کے ساتھ رہ سکے۔
اِس مسئلے کے حل کے لئے کوئی دوسرا فارمولا یا تو قابل عمل نہیں یا وہ صرف ایک وقتی قسم کانفسیاتی ریلیف (temporary relief) دیتا ہے، نہ کہ اصل مسئلے کا کوئی واقعی حل— حقیقت یہ ہے کہ ٹنشن ایک فکری مسئلہ ہے اور فکری سطح کی تدبیر کے ذریعے ہی اس کو حل کیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

عقل کی اہمیت

کوئی کھیل جب کھیلا جاتا ہے تو بظاہر اُس میں بہت سی چیزیں شامل رہتی ہیں، لیکن اس میں سب سے بڑا حصہ انسانی دماغ (human mind) کا ہوتا ہے۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ — نوے فی صد کھیل دماغ میں کھیلا جاتا ہے:
Ninety percent of the game is played in the mind.
یہ معاملہ صرف کھیل کا نہیں ہے، بلکہ یہی زندگی کے تمام امور کا معاملہ ہے۔ جب آپ سوئی کے ناکے میںدھاگا ڈالتے ہیں، تو بظاہر آپ اپنے ہاتھ سے ایسا کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اِس عمل میں سارا حصہ دماغ کا ہوتا ہے۔ جب ایک انجینئر ایک مشین بناتا ہے تو بظاہر وہ اپنے اعضا کے ذریعے وہ کام انجام دیتا ہے، لیکن اپنی حیثیت کے اعتبار سے یہ دماغ کا ایک فعل ہوتا ہے۔جب آپ ایک کاغذ لے کر اس پر کچھ لکھتے ہیں تو بظاہر آپ قلم کے ذریعے لکھتے ہیں، لیکن یہاں بھی سب کچھ آپ کا دماغ انجام دیتا ہے، وغیرہ۔
یہی وجہ ہے کہ زندگی کی تعمیر میں سب سے بڑا دخل دماغ کا ہوتا ہے۔ لیکن دماغ پیدائشی طورپر تیار شدہ (prepared) حالت میں انسان کو نہیں ملتا۔ انسان کو اسے بنانا پڑتا ہے۔ کتابوں کا مطالعہ، واقعات سے تجربہ حاصل کرنا، آس پاس کی دنیا کا مشاہدہ، لوگوں سے تبادلۂ خیال (exchange) کرکے سیکھنا، اسفار کے ذریعے نئی نئی معلومات حاصل کرنا، تدبر اور تفکر سے کام لینا، وغیرہ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جو آدمی کے دماغ کو مسلسل تربیت دیتی ہیں، وہ پیدا ہونے والے دماغ کو ایک تیار شدہ (prepared) دماغ بناتی ہیں، وہ سادہ دماغ کو اعلیٰ دماغ بنادیتی ہیں۔
اِسی کے ساتھ ایک اور عمل بے حد ضروری ہے۔ وہ محاسبہ (introspection) کا عمل ہے۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ مسلسل اپنا محاسبہ کرتا رہے، وہ اپنے ہر قول وفعل پر محاسبہ کرے۔ یہی وہ عمل ہے جو انسانی دماغ کو حقیقی طورپر وہ دماغ بناتا ہے جو مقابلہ اور چیلنج کی دنیا میں انسان کو درکار ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر کی اہمیت

مارکسی لیڈر جوزف اسٹالن (Joseph Stalin) نے اشتراکی انقلاب (1917) سے پہلے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا: ہم کو انقلاب کے لیے تین چیزوں کی ضرورت ہے— اول ہتھیار، دوم ہتھیار، سوم ہتھیار، آخر میں پھر ہتھیار۔ یہ جھوٹے انقلاب کا فارمولاتھا۔سچے انقلاب کا فارمولا برعکس طورپر یہ ہے — اول صبر، دوم صبر، سوم صبر، آخر میں پھر صبر۔
صبر کیا ہے، صبر دراصل امن پر مبنی دانش مندانہ منصوبہ بندی (planning) کا نام ہے۔ صبر یہ ہے کہ وقت اور طاقت کا کوئی معمولی حصہ بھی بے فائدہ ٹکراؤ میں ضائع نہ کیا جائے، بلکہ ساری حاصل شدہ توانائی کو صرف ایک مقصد کے لیے استعمال کیا جائے، یعنی ٹکراؤ کو نظر انداز کرنا او ردستیاب مواقع کو بھرپور طور پر استعمال کرنا۔
صبر دراصل یہ ہے کہ آدمی رد عمل(reaction) سے اپنے آپ کو بچائے، وہ دانش مندانہ تدبیر کے ذریعے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔ صابرانہ منصوبہ بندی صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو حالات سے اوپر اٹھ کر سوچے، جو حالات کا عامل بن جائے، نہ کہ حالات کا معمول۔
تاریخ کے تمام تجربات بتاتے ہیں کہ ہتھیار یا جنگ صرف تخریب کاری کا سبب ہے۔ جب بھی کسی نے حقیقی معنوں میں کوئی کامیابی حاصل کی ہے تو وہ پرامن جدوجہد کے ذریعے حاصل کی ہے۔ اگر نتیجے کی بنیاد پر منصوبہ بنایا جائے تو کوئی بھی شخص مسلح عمل کا منصوبہ نہیں بنا سکتا۔ ہر شخص لازمی طورپر پرامن عمل کی بنیاد پر اپنا منصوبہ بنائے گا۔
صبر کا طریقہ ثابت شدہ طورپر بہتر طریقہ ہے۔ پھر کیوں ایسا ہے کہ لوگ صبر کا طریقہ اختیار کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اِس کا واحد سبب یہ ہے کہ صبر اپنے آپ پر سیلف کنٹرول کا تقاضا کرتا ہے۔ صبرکا طریقہ اختیار کرنے کے لیے اپنے جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہوتاہے۔ صبر دراصل سیلف ڈسپلن کا نام ہے، اور بلا شبہہ سیلف ڈسپلن سے زیادہ مشکل کوئی کام انسان کے لیے نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک عمومی مسئلہ

اردو شاعر اکبر الٰہ آبادی (وفات: 1921 ) کے زمانے میں حکومتِ برطانیہ نے ہندستان میں انگریزی تعلیم کو رائج کیا۔ اُس زمانے کے علماء عام طورپر انگریزی تعلیم کے بارے میں منفی خیال رکھتے تھے۔ اکبر الٰہ آبادی نے اِس خیال کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا:
ہم ایسی کُل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
یہ سو برس پہلے کی بات ہے۔ آج یہ معاملہ صرف کچھ درسی کتابوں تک محدود نہیں، بلکہ آج وہ ایک عمومی کلچر بن چکا ہے۔ آج جو لڑکیاں اور لڑکے انگریزی تعلیم حاصل کرتے ہیں، وہ اسی کے ساتھ مغربی کلچر سے شدید طورپر متاثر ہوتے ہیں۔ اِس کا نتیجہ بہت سنگین صورت میں برآمد ہوا ہے۔ ان کے دل سے اپنے والدین کی عظمت نکل جاتی ہے۔ وہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہمارے ماں باپ کچھ نہیں جانتے۔
اصل یہ ہے کہ اِن لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین خود تو عام طورپر انگریزی اسکولوں کے پڑھے ہوئے نہیں ہوتے، مگر وہ اپنے بچوں کو نہایت مہنگے قسم کے انگریزی اسکولوں میں پڑھاتے ہیں۔ اِس کا ایک خطرناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ بچے جب اسکولوں اور کالجوں سے تعلیم پاکر گھر لوٹتے ہیں تو ان کے اور ان کے والدین کے درمیان ایک واضح نابرابری پیدا ہوچکی ہوتی ہے۔ مثلاً بچے برٹش یا امریکن لہجے میںانگریزی بولتے ہیں، لیکن ان کے والدین یاتو انگریزی جانتے ہی نہیں، یا وہ ناقص لہجے میں انگریزی بولتے ہیں۔ اِس فرق کی بنا پر شعوری یا غیر شعوری طورپر ایساہوتا ہے کہ بچوں کے اندر اپنے بارے میں برتری کا احساس پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو زیادہ اور اپنے والدین کو کم سمجھنے لگتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں وہ صورتِ حال پیدا ہوتی ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میں پیشین گوئی کے طورپر اِس طرح بتایا گیا ہے کہ اولادخود اپنے آپ کو اپنے والدین کا آقا سمجھنے لگے گی (أن تلد الأمۃ ربَّتَہا)۔
یہ صورت حال مشرق سے لے کر مغرب تک، تمام مسلم خاندانوں میں پیدا ہوچکی ہے۔ اِس کا تقاضا ہے کہ لوگ اپنے آپ پر نظرثانی کریں اور اِس مسئلے کا موثر حل دریافت کریں۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
2003 میں جب عراق اور امریکا کے درمیان تنازع پیدا ہوا، اُس وقت آپ نے عراق کے سابق صدر صدام حسین (وفات:2006 ) کے نام ایک مفصل خط لکھا تھا، جو الرسالہ، جون 2003 میں ’’صدام حسین کے لیے انتخاب‘‘ کے عنوان سے چھپا تھا۔ اِس خط میں آپ نے دوسری باتوں کے علاوہ، صدام حسین کو وقتی طور پر دست برداری کا طریقہ اپنانے کی تلقین کی تھی۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا قرآن اور سیرت میں اِس معاملے کی کوئی مثال موجود ہے (خطیب اسرار الحسن عمری، تمل ناڈو)
جواب
قرآن کی سورہ نمبر 27 میں ملکۂ سبا کا واقعہ بیان ہوا ہے۔ حضرت سلیمان نے ملکہ سبا سے سیاسی دست برداری کا مطالبہ کیا۔ ملکہ سبا نے اِس مطالبے کو مان لیا۔ کیوں کہ مطالبہ نہ ماننے کی صورت میں ذلت اور فساد کا اندیشہ (النمل: 37 ) تھا، جب کہ مطالبہ ماننے کی صورت میں قومِ سبا کے تمام تجارتی مفادات بدستور محفوظ رہتے تھے۔ملکۂ سبا کی اِس روش کو قرآن میں ایک مثبت روش کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ گویا کہ اِس روش کو قرآن کی کھلی ہوئی تائید حاصل ہے۔ اِس سے یہ اصول ملتاہے کہ کسی وقت دست برداری سے اگر ایک بڑا فائدہ ملتاہو تو اس دست برداری کو قبول کرلینا چاہئے، کیوں کہ وہ حضرت عمر کے الفاظ میں، دوشر میں سے بہتر شر (خیر الشرَّین) کے انتخاب کے ہم معنی ہے۔
خود پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی سے اِس اصول کی تصدیق ہوتی ہے۔ مثلاً آپ نے مکہ میں توحید کی دعوت شروع کی تو وہاں کے سرداروں کی طرف سے آپ کے مشن کی سخت مخالفت کی گئی۔ جو لوگ آپ پر ایمان لاتے، اُن کو طرح طرح ستایا جاتا۔ اُس وقت آپ نے 5 نبوی میں اہلِ ایمان کو مشورہ دیا کہ وہ مکہ چھوڑ کر پڑوسی ملک حبش (Abyssinia) چلے جائیں۔ چناں چہ مجموعی طورپر 119 اہلِ ایمان مکہ سے حبش چلے گئے۔ اُس وقت آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مکہ ہمارا وطن ہے، اِس لیے ہم یہاں رہیں گے اور ہر قیمت پر اپنے حق کی لڑائی لڑتے رہیں گے۔
ہجرتِ مدینہ بھی اِسی اصول کی ایک مثال ہے۔ مکہ کے سرداروں نے جب دار الندوہ میں یہ فیصلہ کیاکہ آپ کو قتل کردیا جائے، اُس وقت آپ خاموشی کے ساتھ مکہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے گئے۔ آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مکہ میرا وطن ہے اور میں کسی بھی قیمت پر اپنے وطنی حق سے دست بردار ہونے والا نہیں۔ اِس اصول کی حکمت یہ ہے کہ ایک وقتی اور جزئی دست برداری کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ملک میں امن قائم رہتا ہے اور یہ امکا ن باقی رہتا ہے کہ مواقع (opportunites) کو استعمال کرکے اپنی ترقی کے سفر کو جاری رکھا جائے۔
موجودہ زمانے میں عراق اور افغانستان کے مسئلے کو بہت بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں مسئلے صرف اِس لیے پیدا ہوئے کہ وہاں کے مسلم لیڈروں نے دانش مندی کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ مذکورہ اصول کے مطابق، اگر عراق اورافغانستان میں ’’خیر الشّرَّین‘‘ کے اصول کو اختیار کیا جاتا تو یہ مسئلہ بہت پہلے ختم ہوچکا ہوتا، اور عراق اور افغانستان اپنی توانائی کو تخریب کے بجائے تعمیر میں استعمال کرنے کے قابل ہوجاتے۔
سوال
The Quran says: ‘Does God have daughters while you have sons?’ (51: 39) So, Maulana, does this mean that women are inferior than men? If not, what does the words of the Quran quoted above, signify? Our society considers women lowly, and accordingly is unjust to women. Maulana, is it just my misconception, or does God also place women inferior to men? If it is my misconception, please clarify it for me, so that I do not sin unknowingly. I just want to know the true interpretation of these verses, and I believe that only you can help me understand it clearly. As I have said earlier, you have given me a new life by erasing the myths about women I had since my childhood.
My other question lies in Chapter 2, verse 281-282 where it states that one man is equal to two women, as a witness. Is this ratio conditional according to the matter because this is the matter between two men where one is lender and another is borrower, here in this case a woman is nowhere in the scene because of this the reason lies behind this motto that two women will be equal to one man? Or will this ratio remain in each and every case? If only one woman is eye-witness to a crime like theft or murder, will she be counted as one evidence or she will be denied of being one evidence because she is the only one? What does our Islamic Shariah say about this? It is an important question for me, and in my surrounding no one can give me the perfect answer, and I am sure you will soothe my mental agony, by giving the answer. (Talat Qadri, Mumbai)
جواب
آپ نے قرآن کے حوالے سے دو سوالات کیے ہیں۔ اِس سلسلے میں آپ نے قرآن کے جو حوالے دئے ہیں، ان حوالوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کا درجہ مرد کے مقابلے میں کم ہے۔ اِس طرح اِن حوالوں کا یہ مطلب بھی نہیں کہ عورت کا ایمان مرد کے ایمان کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔ آپ کے اِن دونوں سوالوں کی یہاں وضاحت کی جاتی ہے۔
1 - قرآن کی سورہ الطّور اور سورہ النجم میں جو بات کہی گئی ہے، وہ مشرکین کے اپنے عقیدے کی نسبت سے ہے، نہ کہ حقیقتِ واقعہ کی نسبت سے۔ اِن آیتوں میں ایک سادہ منطق (simple logic) کے ذریعے مشرکین کے عقیدے کی تردید کی گئی ہے۔ مشرکین اپنے تصور کے مطابق، بیٹے کی پیدائش پر خوش ہوتے تھے اور بیٹی پیدا ہونے پر افسردہ ہوجاتے تھے۔ (النّحل:58 )، پھر یہی لوگ یہ مانتے تھے کہ فرشتے، خدا کی بیٹیاں ہیں (الزخرف:19 )۔
اِس کو لے کر کہاگیا کہ تم خود اپنے تصور کے مطابق، غیر سنجیدہ ثابت ہورہے ہو۔ اگر تم اِس معاملے میں سنجیدہ ہوتے تو تم ایسا کبھی نہ کہتے، کیوں کہ خدا بیٹا اور بیٹی دونوں کا خالق ہے، پھر ایسا کیوں کر ممکن تھا کہ خالق اپنی مخلوق کے لیے تو تمھارے تصور کے مطابق، بیٹیاں اور خود اپنے لیے بیٹی کا انتخاب کرے جس کی حیثیت تمھارے نزدیک کم تر ہے۔ قرآن کی یہ آیتیں اِس معاملے میں بیانِ واقعہ نہیں ہیں، بلکہ اس میں الزامی جواب کا طریقہ اختیار کیا گیا ہے، یعنی مخاطب کے اپنے مانے ہوئے عقیدے کی بنیاد پر اس کی تردید کرنا۔
جہاں تک عورت اور مرد کے درجے کا تعلق ہے، اس کا بیان قرآن کی سورہ آل عمران میںآیا ہے۔ آیت کے الفاظ یہ ہیں: بعضکم من بعض:
You are members, one of another (3:195)
2 - آپ کا دوسرا سوال عورت کی گواہی کے بارے میں ہے۔ اُس کا بیان قرآن کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 282 میں آیا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں عورت اور مرد کی گواہی کے درمیان جو فرق کیاگیا ہے، وہ امتیاز (discrimnation) کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ وہ ایک فطری حقیقت کی بنا پر ہے۔ اصل یہ ہے کہ عورت اور مرد درجے کے اعتبار سے، پوری طرح مساوی ہیں، لیکن زندگی میں رول کے درمیان دونوں کے درمیان فرق ہے۔اِسی مختلف رول (different role)کی بنا پر عورت اور مرد دونوں کی صلاحیتوں میں فرق رکھا گیا ہے۔
حیاتیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ عورت اور مرد کے دماغ کی بناوٹ ایک نہیںہے، بلکہ دونوں میں فرق ہے، وہ یہ کہ عورت کا دماغ متعدد رخی (multi focussed) دماغ ہے۔ اِس کے مقابلے میں، مرد کا دماغ واحد رخی (single focussed) ہے۔ یہ فرق روز مردہ کی زندگی کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن جب کوئی اتفاقی واقعہ پیش آئے تو وہاں یہ امکان رہتا ہے کہ مرد اپنی دماغی بناوٹ کے تحت مذکورہ واقعے کو پورے ارتکاز (concentration)کے ساتھ دیکھ سکے۔ اِس کے مقابلے میں عورت کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذہنی بناوٹ کی بناپر واقعے کو غیر ترکیزی انداز میں دیکھے، اس کا ذہن واقعے کے کسی جز کو ریکارڈ کرے اور اس کے کسی دوسرے جز کو ریکارڈ نہ کرسکے۔
اِسی لیے عورت کی گواہی کی صورت میں دو عورتوں کی شرط رکھی گئی ، تاکہ قرآن کے الفاظ میں، ایک عورت اگر بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا دے: أن تضلّ إحداہما فتذکر إحداہما الأخری:
So that if one of the two women should forget, the other can remind her. (2:282)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 205

1 - سی پی ایس برانچ (سہارن پور، یوپی) کے تحت 30 مئی 2010 کو القرآن مشن لانچ کیا گیا۔ سہارن پور کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر مسلم حضرت اِس پروگرام میں شریک ہوئے اور انھوں نے اِس مشن میں اپنا بھر پور تعاون دینے کا وعدہ کیا۔ ہندو لوگوں نے یہاں سے خرید کر قرآن حاصل کیا اور کہاکہ ہم اپنے اپنے حلقے میں ایسے لوگوں کو مطالعے کے لیے دیں گے۔ اِس موقع پر غیر مسلموں کو دعوتی لٹریچر اور قرآن کا انگریزی ترجمہ دیاگیا۔
2 - پہل گام (کشمیر) میں یکم جون 2010 کو آرمی آفیسرس کا ایک فنکشن ہوا۔ اِس موقع پر الرسالہ حلقۂ کشمیر کے ساتھیوں نے بڑے پیمانے پر انڈین آرمی افسران کو قرآن کا نگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
3 - انڈیا اور انڈیا کے باہر مختلف جیلوں میں الرسالہ مشن کے تحت دعوتی لٹریچر پہنچانے کا کام جاری ہے۔ اِس سلسلے میں یہاں ایک خط ملاحظہ ہو:
پارسل ملا۔ جزاک اللہ! (1) تذکیر القرآن (2) قرآن (انگلش) (3) قرآن ہندی خوبصورت کتابچہ (ہندی اور انگریزی) فولڈر۔ محترم، کتاب کا سرورق اور اس کا گٹ اَپ بہت ہی خوبصورت ہے اوراس کو پڑھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنا بہت قیمتی وقت برباد کردیا۔ اللہ ہم کو اپنے دین کی طرف لوگوں کو بلانے کی توفیق عطا فرمائے اور اس پر عمل کرنے کی بھی (محمد یعقوب عبد المجید، سنٹرل جیل، ناسک)
1976 -4 میں شروع کیا ہوا ’’الرسالہ‘‘ الحمد للہ آج ایک مینارۂ نور بن چکا ہے۔ صحت مند ثابت اور درست انداز کی سوچ کے ساتھ ساتھ موجودہ ملکی وغیر ملکی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے قارئین کی رہنمائی کے لئے آپ نے اپنے آپ کو وقف کررکھا ہے۔ وہ لوگ جو جوش ہی جوش سے سارے نظام کو خرابیوں کی طرف لے جاتے ہیں، انھیں ہوش اور صبر سے تمام امور کو صحیح طورپر انجام دیتے رہنے کے لیے آپ کی تحریریں ،نیز تقریریں بے مثال اور کارگر ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو سدا صحت مندرکھے۔ آمین(ایم عبد الحکیم، ملک پیٹ، حیدر آباد)
5 - القرآن مشن کے تحت غیر مسلم حضرات کو قرآن پہنچانے کا کام مسلسل طورپر جاری ہے، اِس سلسلے میں 30 مئی 2010 کو مشن کے کچھ ساتھیوں نے لودھی گارڈن (نئی دہلی) میں بڑے پیمانے پر لوگوں کو قرآن دیا۔ لوگوں نے اس کو شکریے کے ساتھ قبول کیا۔
6 - القرآن مشن کے تحت ہمارے ساتھی مسلسل طورپر غیر مسلم حضرات کو قرآن پہنچا رہے ہیں۔ آج کل ہمارے ساتھی دہلی کے پاش علاقوں کے بڑے بڑے پارک میں جاکر لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیتے ہیں۔ لوگ بہت شوق سے اس کو لیتے ہیں اور شکریہ ادا کرتے ہیں۔
7 - میں، محمد کاظم حکیم ،سورت (گجرات) کا باشندہ ہوں اور کئی سال سے سورت کی عدالتوں میں بطور ایڈووکیٹ وکالت کررہا ہوں۔ میں آپ کا پُرانا پرستار (amirer) ہوں۔ آپ کے تفہیم قرآن سے بہت متاثر ہوں اور آپ کے جو بھی انگریزی مضامین Times of India کے سورت۔ احمد آباد ایڈیشن میں اس سے قبل شائع ہوئے ہیں وہ پڑھتا رہا ہوں۔ آپ کی خوش بیان تحریروں کو پڑھ کر آپ کا معتقد بن گیا ہوں اور یہی میرا آپ سے غائبانہ تعارف ہے۔ اس وقت میرے پاس آپ کی صرف ایک کتاب ہے اور وہ ہے Goodword Books کی انگریزی میں شائع شدہ اور آپ کا ترجمہ کیا ہوا اورفریدہ خانم کا ایڈٹ کیا ہوا “The Quran” ۔ مختصر مگر بہت ہی جامع طریقہ سے لکھا گیا یہ انگریزی ترجمہ اتنا شاندار اور قابلِ تعریف ہے جسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آپ کو اس لاجواب ترجمہ کے لیے جتنی بھی مبارک باد دی جائے کم ہے۔ محترم، آج میں نے ایک خاص خبر آپ تک پہنچانے کے لئے یہ خط لکھنا ضروری سمجھا۔ ٹائمز آف انڈیا کے 17 مئی 2010 کے سورت۔ احمد آباد (گجرات) سے شائع ہونے والے ایڈیشن میں پہلے صفحہ پر ایک خبر شائع ہوئی ہے۔ وہ پہلا صفحہ میں آپ کو بھیج رہا ہوں۔ اس میں خاص طورسے آپ کی کتاب “True Jihad” کا ذکر ہے۔ اسلام میں ’’جہاد‘‘ کے مطلب کو سمجھانے کے ریفرنس میں گجرات ہائی کورٹ (احمد آباد) کے دو ججJustice Jayant Patel & Z. K. Saiyed) ( نے اپنے مشترکہ ججمینٹ میں آپ کی اِس کتاب کا خصوصی طور سے حوالہ دیا ہے۔ اصل الفاظ ملاحظہ ہوں:
The Judges cited Maulana Wahiduddin Khan’s book “True Jihad” to explain ‘Jihad’. Islam never permits “use of violence for taking revenge, but power is to be used only as a protective measure. It is only by way of self-defence, attack is permissible. Such principles are interwoven even in the Indian penal Code for invoking the right of self-defence,” the order states. (p. 1)
8 -ٹیلی فون کے ذریعے ٹیلی کانفرنس کا طریقہ دعوہ مشن کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اِس سلسلے میں 9 مئی 2010 کو ایک خصوصی پروگرام ہوا۔ 9مئی کی صبح 6 بجے امریکا کے مختلف شہروں سے لوگ ٹیلی فون کے ذریعے مربوط ہوگئے۔ اِس موقع پر دہلی سے صدر اسلامی مرکز نے ایک ٹیلی فونی خطاب کیا۔ اس کو امریکا کے مختلف شہروں میں لوگوں نے ٹیلی فون کے ذریعے سنا۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔ اس کا موضوع یہ تھا — امریکا میں دعوت کے کام کی اہمیت اور اس کا طریقِ کار۔ خطاب کے بعد سوال وجواب کا پروگرام ہوا۔6 جون 2010 کو بھی اِسی طرح کی ایک ٹیلی کانفرنس ہوئی۔اس کا موضوع یہ تھا— مغربی ممالک میں موثر دعوہ ورک کس طرح کیا جائے۔
9 -عمر آباد (تمل ناڈو) میں ایک بڑا دینی ادارہ قائم ہے۔ اِس کا نام جامعہ دار السلام ہے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے مولانا محمد ذکوان ندوی کے ہم راہ جنوبی ہند کا سفر کا کیا۔ یہ سفر 7 جون 2010 کو شروع ہوا اور 11 جون 2010 کو وہاں سے واپسی ہوئی۔ یہ سفر غیر معمولی طورپر کامیاب رہا۔ اس سفر کی روداد ان شاء اللہ الرسالہ میں سفرنامے کے تحت شائع کردی جائے گی۔
واپس اوپر جائیں

Al-Quran Mission

Quran Distribution Centres have started being formed
After the launch of the Al-Quran Mission dayees from India and all over the world have set up Quran Distribution Centres in their own areas. Their aim to spread the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan in English and Hindi and other dawah material.
Goodword, CPS International and dayees all over are receiving requests for more and more free copies of the Quran. Some of the requests received are:
ک Thank you so very much! We would love to have you send us 200 copies of the Quran translated by Maulana Wahiduddin Khan to Chaplaincy Services at Alta Bates Summit Medical Center. We will certainly use these resources not only with our patients and their families, but also as a valuable source of information and healing to the chaplains and hospital staff. Thank you again for your generosity, and may it return to you tenfold! ABSMC (Alta Bates Summit Medical Center, Berkeley, CA 94705)
ک I would like to thank you for this extremely useful website; it is very enlightening to listen to and read Maulana’s works. Jazak Allah khair! (Junaid Hassan, Weidenthal, Germany)
ک I like to read the Qur’an in modern language. (D Dasen, Bangalore, India.)
ک I love Quran. (Bobur Gafurov, Uzbekistan)
ک I Sankar O, completed my B.Ed in EFL university. I request you to send me a copy of Quran since I would like to know about the book. One of my friends cited this web address to me to read the Quran and I find it interesting (also enlightening) to read the simplest) version of Quran, which anybody can read and understand. I welcome your service of providing free copy of Quran; it really helps the students like me. Thanking you. (Sankar Oomaidurai, Hyderabad, India)
ک Hello I am interested in the Muslim faith, and therefore I would like to hear from you the Koran. Thanks! (Yuri Utyanskiy, Russia)
ک Hello, I the Crimean Tatar on a nationality, the Moslem. I wish to read, study the Quran, but unfortunately, I do not know the Arabian language. Send me please the Quran in English. Thankful in advance. (Tsurbin Alexey, Ukraine)
ک I am eager to learn about Islam and I am very impressed by Islam. I agree to the philosophy and Ideology of Maulana Wahiduddin Khan. So please send me a copy of the Quran. (Ramnath, Bangalore, India)
Quran and Dawah Material are being Distributed Worldwide
Dayees are also interacting with people and giving them copies of the Quran and other small dawah material. Some of the responses that have been received are:
ک I always have problem understanding the translation of Quran. It always seemed like it can not be understand without consulting an Alim. But the transliteration done by Maulana Wahiduddin Saheb seems to be the solution to my problem. (Imran Khan, Bangalore, India)
ک “After Gandhiji, it is you who impressed me.” (Bidhya Bhusan Singh)
Programs of Al-Quran Mission Members
ک Maulana Wahiduddin Khan had visited the Mewar Institute on 15th May, 2010 with some of his companions and delivered a lecture on “Islam-Its Teachings and Its Contribution to the Society”. Quran copies and dawah material was distributed after the lecture. The response to this was very positive. In fact Dr Maria from the Institute has responded with the following:
On behalf of Mewar Institute we express our profound gratitude to your good self for your kind visit and gracious presence in our Institute for a Guest Lecture on the topic: “Islam-Its Teachings and Its Contribution to the Society” on 15th May, 2010.” (Dr. Maria Haseen)
ک KIIPS organized a Dawah Camp at 8 Mata Kheer Bhawani Temple in Kashmir on 18th and 19th of June, 2010. While doing Talif-e-Qalb
through cold drinks, juices and biscuits, they distributed 600 copies of the Quran and 2000 leaflets. Booklets were also provided to devotees on the eve of the yearly mela. Adminstrators and Hindu devotees appreciated this gesture a lot. (Hamidullah Hamid, Srinagar)
واپس اوپر جائیں