Pages

Friday 1 October 2004

Al Risala | October 2004 (الرسالہ،اکتوبر)

2

- قرآن خدا کا کلام

3

- صبر خدا کے لی

4

- روحانی ترقی

5

- سادگی کی اہمیت

6

- شکستِ تاریخ

7

- ایک خط

10

- سوال وجواب

37

- خبر نامہ اسلامی مرکز


قرآن خدا کا کلام

ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی دنیا میں انسان صرف یہ جانتا تھا کہ زندہ اجسام، بال اور چمڑا اور ہڈی اور گوشت اور ناخن جیسی بظاہر ٹھوس چیزوں کا مجموعہ ہیں۔ ایسے زمانہ میں قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام زندہ چیزوں کا جسم پانی سے بنایا گیا ہے جو ایک انتہائی رقیق چیز ہے: وجعلنا من الماء کل شیئٍ حی (الانبیاء ۳۰) واللہ خلق کل دابۃ من مائٍ (النور ۴۵)
قرآن کے نزول کے وقت کسی انسان کو یہ معلوم نہ تھا کہ زندہ چیزوں کے جسم کا بیشتر حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ چنانچہ اُس زمانہ میں کچھ لوگوں نے اس آیت کا مطلب یہ سمجھا کہ زندہ چیزوں کا غذائی انحصار پانی پر ہے۔ کچھ لوگوں نے وجعلنا من الماء سے ماء الصلب مراد لیا۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، الجزء الحادی عشر، صفحہ ۲۸۴)۔ایسی دنیا میں، تاریخ میں پہلی بار قرآن میں یہ اعلان کیا گیا کہ تمام زندہ اجسام کی تخلیق پانی سے ہوئی ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک یہ آیت صرف عقیدہ کا حصہ بنی رہی۔ یہاںتک کہ جدید سائنسی دور اور خوردبین (microscope) ایجاد ہوئی۔
خورد بین نے تاریخ میں پہلی بار اس کو ممکن بنایا کہ انسانی جسم کا تجزیہ کرکے اُس کا مشاہدہ اُس کے آخری اجزاء کی حد تک کیا جاسکے۔ جدید تجزیاتی مشاہدہ نے بتایا کہ انسانی جسم آخر کار بہت چھوٹے چھوٹے بنیادی اجزاء یا خلیہ کا مجموعہ ہے جس کو علم حیاتیات میں سائیٹوپلازم (sytoplasm) کہاجاتا ہے۔ اب سائیٹو پلازم کے خوردبینی مطالعہ سے معلوم ہوا کہ اُس کا اسّی فیصد سے زیادہ حصہ پانی پر مشتمل ہے۔ سائیٹوپلازم اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ اُس کو خالی آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا ۔
قدیم زمانہ کی تمام کتابوں کا یہ حال ہوا ہے کہ جدید سائنسی تحقیقات نے ان کے بہت سے بیانات کو بے بنیاد ثابت کردیا ۔ صرف قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کے بیانات کی جدید سائنس نے استثنائی طورپر تصدیق کی۔ یہ حقیقت قرآن کے کلامِ الٰہی ہونے کا ایک زندہ ثبوت ہے۔ اس کی ایک مثال قرآن کا مذکورہ بیان ہے۔
واپس اوپر جائیں

صبر خدا کے لیے

قرآن میں بار بار صبر کی تلقین کی گئی ہے۔ ایک جگہ پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ واصبرو ما صبرک الا باللہ(النحل ۱۲۷) یعنی تم صبر کرو اور تمہارا صبر صرف خدا کے لیے ہے۔ تم جو صبر کررہے ہو وہ بظاہر انسان کے مقابلہ میں صبر کرنا ہے۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے تمہارا صبر صرف اللہ کے لیے ہے۔
خدا کے لیے صبر کرنے کا مطلب اس دینی اور دعوتی مقصد کے لیے صبر کرنا ہے جس کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ جب بھی حق کی دعوت اٹھتی ہے تو اس میں ایک طرف داعی ہوتا ہے اور دوسری طرف مدعو۔ دعوت کے نتیجہ میں مدعو کی طرف سے منفی ردّ عمل پیش آتا ہے۔ اس بنا پر داعی اور مدعو کے درمیان طرح طرح کے مسائل ابھر آتے ہیں۔ ایسے موقع پر داعی اگر جوابی رد عمل کا طریقہ اختیار کرے تو داعی اور مدعو کے درمیان تعلقات بگڑ جائیں گے اور دعوتی عمل کو جاری رکھنے کے لیے ضروری معتدل حالت قائم نہیں رہے گی۔
خدا کے لیے صبر کا مطلب یہ ہے کہ یکطرفہ برداشت کے ذریعہ یہ کوشش کی جائے کہ معتدل حالات قائم رہیں۔ تاکہ خدا کی یاد اور خدا کی عبادت کا ماحول برقرار رہے، تاکہ دعوت کا عمل بلا روک ٹوک جاری رہے، تاکہ مدعو کے اندرضد اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہو سکے، تاکہ تعلیم اور تعمیر کا کا م کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
صبر فطرت کا ایک قانون ہے۔ ہر منصوبہ بند تعمیری عمل کے لیے صبر ضروری ہے۔ صبر کوئی منفعل روش نہیں، صبر خدائی تعلیمات کا مرکزی اصول ہے۔ خدا کا ایک سچا بندہ اس کا تحمل نہیں کرسکتا کہ وہ صبر کی روش کوچھوڑ دے۔ کیوں کہ صبر کی روش سے ہٹنے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس سے تواضع کی صفت چھن جاتی ہے۔ وہ نفرت اور انتقام کی نفسیات میں جینے لگتا ہے۔ وہ انسانی مجموعہ کو اپنے اور غیر میں بانٹ دیتا ہے۔ اس کے اندر سے انسانی ہمدردی کا وہ جذبہ نکل جاتا ہے جو دعوتی عمل کے لیے ضروری ہے۔ وہ ماحول ختم ہوجاتا ہے جس میں شکر خدا وندی کے جذبات پرورش پائیں۔
واپس اوپر جائیں

روحانی ترقی

روحانی ترقی کیا ہے۔ روحانی ترقی اپنی داخلی شخصیت میں ربّانی بیداری لانے کا دوسرا نام ہے۔ مادی خوراک انسان کے جسمانی وجود کو صحت مند بناتی ہے۔ اسی طرح انسان کا روحانی وجود ان لطیف تجربات کے ذریعہ صحت مند بنتا ہے جن کو قرآن میں رزقِ رب (ربّانی خوراک) کہا گیا ہے۔
۱۶ جولائی ۲۰۰۴ کا واقعہ ہے۔ اس دن دہلی میں سخت گر می تھی۔ دوپہر بعد دیر تک کے لیے بجلی چلی گئی۔ چھت کا پنکھا بند ہوگیا۔ میں اپنے کمرے میں سخت گرمی کی حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ دیر تک میں اسی حالت میں رہا یہاں تک کہ بجلی آگئی اور پنکھا چلنے لگا۔
یہ ایک اچانک تجربہ کا لمحہ تھا۔ پنکھا چلتے ہی جسم کو ٹھنڈک ملنے لگی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے اچانک مصیبت کا دور ختم ہوگیا اور اچانک راحت کا دوسرا دور آگیا۔ اس وقت مجھے پیغمبر اسلام کی وہ حدیثیں یاد آئیں جن میں بتایا گیا ہے کہ دنیا مومن کے لیے مصیبت کی جگہ ہے۔ جب مومن کی موت آئے گی تو اچانک وہ اپنے آپ کو جنت کے باغوں میں پائے گا۔ دنیوی زندگی کا پر مصیبت دور اچانک ختم ہوجائے گا اور عین اسی وقت پُر راحت زندگی کا دور شروع ہوجائے گا۔
جب یہ تجربہ گز را تو میری فطرت میں چھپے ہوئے ربّانی احساسات جاگ اٹھے۔ مادی واقعہ روحانی واقعہ میں تبدیل ہوگیا۔ میرے دل نے کہا کہ کاش، خدا میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ فرمائے۔ جب میرے لیے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آئے تو وہ ایک ایسا لمحہ ہو جو اچانک دور مصیبت سے دور راحت میں داخلہ کے ہم معنٰی ہوجائے۔
روحانیت در اصل ایک ذہنی سفر ہے، ایک ایسا سفر جو آدمی کو مادیت سے اوپر اُٹھا کر معنویت تک پہنچا دے۔ یہ سفر داخلی سطح پر ہوتا ہے۔ دوسرے لوگ بظاہر اس سفر کو نہیں دیکھتے لیکن خود مسافر انتہائی گہرائی کے ساتھ اس کو محسوس کرتا ہے۔ روحانیت انسان کو انسان بناتی ہے۔ جس آدمی کی زندگی روحانیت سے خالی ہو اُس میں اور حیوان میں کوئی فرق نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سادگی کی اہمیت

سادگی کی اہمیت کسی انسان کے لیے اتنی زیادہ ہے کہ اس کا کوئی بدل نہیں۔ سادگی اعلیٰ کامیابی کا زینہ ہے۔ جو شخص سادگی کو اختیار نہ کرسکے وہ یقینی طورپر کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
سادگی محض ایک اخلاقی صفت نہیں۔ سادگی ایک مکمل طرز حیات ہے۔ سادگی آدمی کو اس سے بچاتی ہے کہ وہ اپنی طاقت کا کوئی حصہ بے فائدہ طورپر ضائع کرے۔ سادہ آدمی اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنے مال اور اپنے وقت کو زیادہ مفید طورپر استعمال کرے۔ سادگی دوسرے لفظوں میں، وقت اور مال کو زیادہ بہتر طورپر مینج (manage) کرنے کا فن ہے۔
سادگی کا تعلق ہر چیز سے ہے۔ لباس، کھانا، فرنیچر، سواری، مکان، تقریبات، وغیرہ۔ زندگی کی ہر سرگرمی میںآدمی کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب رہتا ہے۔ یا تو وہ تعیش اور نام و نمود کے پہلو کو سامنے رکھے اور اپنا مال ان میں خرچ کرتا رہے۔ یا وہ صرف اپنی ناگزیر ضروریات کو دیکھے اور اپنے مال کو صرف حقیقی ضرورت کی مدوں میں خرچ کرے۔
غیر ضروری مدوں میں اپنا مال خرچ کرنے کا نقصان صرف یہ نہیں ہے کہ اس میںآپ کا مال غیر ضروری طورپر ضائع ہوتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ بڑا نقصان یہ ہے کہ جو لوگ ایسا کریں وہ مادی نمائش کی چیزوں میں الجھے رہتے ہیں۔ ان کا فکر سطحی چیزوں سے اوپر نہیں اٹھ پاتا۔ اس کا نقصان اسے اس شدید صورت میں بھگتنا پڑتا ہے کہ اس کا ذہنی ارتقاء(intellectual development)رک جاتا ہے۔ ایسا انسان بظاہر زرق برق چیزوں کے درمیان دکھائی دیتا ہے ۔ مگر اپنے ذہن کے اعتبار سے وہ حیوان کی سطح پر جینے لگتا ہے۔ وہ اعلیٰ ذہنی ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔
سادگی روحانیت کا لباس ہے۔ سادگی روحانی انسان کا کلچر ہے۔ سادگی ربانی انسان کی غذا ہے۔سادگی فطرت کا اصول ہے، سادگی سنجیدہ انسان کی روش ہے، سادگی ذمہ دارانہ زندگی کی علامت ہے، سادگی بامقصد انسان کا طرزِ حیات ہے۔
واپس اوپر جائیں

شکستِ تاریخ

گورنمنٹ سروس میں ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے جس کو شکست ملازمت (break in service) کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ دس سال سے ملازت میں ہیں اور ایک دن چھٹی لیے بغیر دفتر میں حاضر نہ ہوں تو آپ کی مدت ملازمت کا شمار ازسرِ نواگلے دن سے ہوگا۔ پچھلے دس سال کی مدت حذف قرار پائے گی۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ آپ کی سینیریٹی کا تعین پچھلے دس سال کو چھوڑ کر کیا جائے گا۔ یہ سرکاری ملازمین کے لیے ایک سخت سزا ہے۔ وہ کسی ایسی غلطی کا تحمل نہیں کرسکتا جو اس کے لیے شکست ملازمت کا سبب بن جائے۔اس لیے ہر ملازم آخری حد تک یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ شکستِ ملازمت کے اس قانون کی زد میں نہ آئے۔
اسی طرح ایک اور چیز ہے جس کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے۔ ہر آدمی جب کوئی کام کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ ایک تاریخ بناتا ہے۔ اگر درمیان میں وہ اپنے پیشہ یا اپنے مقام کو بدل دے تو یہ اس کے لیے شکست تاریخ کے ہم معنٰی ہوگا۔ ایسی تبدیلی کے بعد وہ اپنی بنائی ہوئی تاریخ سے کٹ جائے گا۔ حالاں کہ عملی اعتبار سے زندگی کی کامیابی میں تاریخ کی بہت اہمیت ہے۔
آدمی کو چاہیے کہ وہ بہت زیادہ سوچ کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کرے۔ وہ جب ایک کام شروع کردے تو اس کے بعد وہ اس کو ہر گز نہ چھوڑے۔ وہ اتار اور چڑھاؤ کو برداشت کرتے ہوئے اپنے کام میں لگا رہے۔ اسی استقلال کے نتیجہ کا نام کامیابی ہے۔ جو لوگ بار بار اپنے کام کو بدلیں وہ اپنی زندگی میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتے۔
آدمی کی تاریخ اس کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اسی تاریخ سے سماج کے اندر اس کی پہچان بنتی ہے۔ اسی تاریخ سے اُس کی قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔ اسی تاریخ سے لوگوں کے نزدیک اُس کا درجہ متعین ہوتا ہے۔ اسی تاریخ کے مطابق، لوگ اس سے معاملہ کرتے ہیں۔ یہ تاریخ لازمی طورپر تسلسل چاہتی ہے۔ جس تاریخ میں تسلسل نہ ہو وہ تاریخ ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۸ جون۲۰۰۴ کو میں دہلی کے ایک ٹی وی پروگرام میں تھا۔ـ یہاں میری ملاقات ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلمان سے ہوئیــ ۔ گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر حسین (۱۸۹۷۔۱۹۶۹) کے فین ہیں۔ آج کل وہ ان کی مشہور کہانی ’’ابو خاں کی بکری‘‘ کا ترجمہ انگریزی زبان میں کررہے ہیں۔ اچانک میری زبان سے نکلا کہ وہ تو اسٹون ایج کی کہانی ہے۔ آج کے حالات میں اس کا کیاریلونس۔ اس پر وہ غصہ ہوگئے اور کہا کہ ابوخاں کی بکری تو ایک ادبی شاہکار ہے۔ اس کے اندر ایک ابدی پیغام ہے، وغیرہ۔
آپ نے شاید ڈاکٹر ذاکر حسین کی یہ کہانی پڑھی ہوگی۔ اس میں کہانی کے روپ میں آزادی اور بہادری کی اہمیت کو بتایا گیا ہے۔ اس کا پیغام یہ ہے کہ آزادی کے لیے بڑی سے بڑی طاقت سے لڑجاؤ، خواہ اس راہ میںتم کو اپنی جان دینی پڑے۔
کہانی کا خلاصہ یہ ہے کہ الموڑا کے ایک شخص، ابو خاں کی بکری آزادی کی تلاش میں اپنے مالک سے بھاگ کر پہاڑ وں میں چلی جاتی ہے۔ وہاں اس کو ایک بھیڑیا ملتا ہے۔ بکری خوب جانتی تھی کہ میں بھیڑیے کو نہیں مارسکتی مگر اس نے مقابلہ کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ ضروری ہے، خواہ اس راہ میں جان دینی پڑے۔ کہانی کے مطابق، بکری ساری رات بھیڑیے سے لڑتی رہی یہاں تک کہ وہ لہو لہان ہوگئی۔صبح ہوئی تو قریب کی مسجد سے مؤذن کی اللہ اکبر کی آواز آرہی تھی۔ بکری نے کہاکہ اللہ تیرا شکر ہے اور پھر وہ سخت زخمی ہو کر زمین پر گرگئی اور مر گئی۔ اس وقت پاس کے درخت پر کچھ چڑیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ اکثر چڑیوں نے کہا کہ بھیڑیا جیت گیا۔ مگر ایک بوڑھی چڑیا نے کہا کہ نہیں، بکری کی جیت ہوئی۔
بکری کی یہ لڑائی بلاشبہہ بے مقصد بھی تھی اور بے فائدہ بھی۔ کہانی کے مطابق، بظاہر اس لڑائی کا کوئی واقعی مقصد نہ تھا۔ مزید یہ کہ اس لڑائی سے کوئی فائدہ نکلنے والا نہ تھا۔ کہانی اس لڑائی کا کوئی مثبت فائدہ نہیں بتاتی۔ گویا کہ یہ لڑائی برائے لڑائی تھی، اور ظاہر ہے کہ اس قسم کی لڑائی کوئی قابل تعریف کام نہیں۔
حقیقت کے اعتبار سے دیکھئے تو مذکورہ قسم کی لڑائی بکری کی فطرت کے بالکل خلاف ہے۔ کوئی بکری کبھی اس طرح بھیڑیے سے لڑ کر اپنی جان نہیں دیتی۔ بکری کا طریقہ بھیڑیے سے ٹکراؤ کو اوائڈ کرنا ہے نہ کہ جان بوجھ کر اس سے لڑ جانا۔ اس فرضی کہانی کو اس کے مصنف نے الموڑا کے ایک واقعہ کے طور پر پیش کیا ہے مگر اس کا تعلق نہ حقیقت سے ہے اور نہ اسلام سے۔
کسی بکری نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ وہ رات بھر بھیڑیے سے لڑے اور اس طرح جان بوجھ کر اپنے کو ہلاک کردے۔ کہانی کی مذکورہ بکری ڈاکٹر ذاکر حسین کی مفروضہ بکری ہے، وہ نہ کسی ابو خاں کی بکری تھی اور نہ خدانے کبھی کسی ایسی بکری کو پیدا کیا۔
اسلامی نقطۂ نظر سے دیکھئے تو اس قسم کی لڑائی سراسر ناجائز ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص اچانک کسی طاقتور دشمن کی زد میں آجائے اور قتل کرنے والا اس کو قتل کردے۔ مگر جان بوجھ کر ایک ایسے دشمن سے ٹکرانا بلاشبہہ غلط ہے جس سے مقابلہ کرنے کی طاقت آدمی کے اندر نہ ہو اور جس کا یقینی نتیجہ یک طرفہ تباہی ہو۔حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لا تتمنوا لقاء العدو واسئلوا اللہ العافیۃ (تم اپنے دشمن سے مڈ بھیڑ کی تمنا نہ کرواور تم اللہ سے عافیت مانگو)۔
اپنی حقیقت کے اعتبار سے اس قسم کا ٹکراؤ خود کشی ہے اور خود کشی اسلام میں جائز نہیں۔لوگ اکثر ایک مہلک غلطی میں مبتلا رہتے ہیں۔ وہ بطور خود ایک مفروضہ ماڈل بناتے ہیں اور پھر اس مفروضہ ماڈل کے ذریعہ ایک ایسے عمل کو جسٹی فائی(justify)کرنے لگتے ہیں جو حقیقۃً قابل جواز (justifiable) نہیں۔
اس کی ایک مثال امام حسین کے معاملہ میں ملتی ہے۔ خطیبوں اور شاعروں نے امام حسین کا ایک خود ساختہ ماڈل بنایا۔ وہ ماڈل یہ تھا کہ امام حسین نے اپنا سر کٹوادیا مگر وہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کے لیے تیار نہیں ہوئے:
سرداد مگر نداد دست در دست یزید
یہ شاعروں اور خطیبوں کا اپنا بنایا ہوا ماڈل ہے ورنہ تاریخ میں جو تصویر ملتی ہے وہ برعکس طورپر یہ ہے کہ امام حسین جب مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے تو ان کا کوئی ارادہ لڑائی کا نہ تھا۔ اس وقت یزید دمشق میں تھا اور امام حسین اس سے بہت دور کوفہ کی سرحد پر تھے۔ کوفہ میں متعین فوج نے یزید کے حکم کے بغیر بطور خود امام حسین کو گھیر کر ان کو لڑنے پر مجبور کردیا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اس وقت امام حسین نے وہاں کے فوجی افسر سے کہا کہ تم مجھ کو جنگ پر مجبور نہ کرو بلکہ مجھے یزید کے پاس لے چلو، اور میں یزید کے ہاتھ پر خلافت کی بیعت کرلوں گا (واما ان اضع یدی فی ید یزید بن معاویۃ) تاریخ طبری، ۴؍۳۱۳۔
معلوم ہوا کہ امام حسین کا وہ ماڈل فر ضی ماڈل ہے جس کو نام نہاد مجاہدین اپنی جنگی کارروائیوں کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے پاکستان میں اسلام کے نام پر ٹکراؤ کی سیاست چلائی جو یقینی طورپر غیر اسلامی سیاست تھی۔ اس کے لیے انہوں نے امام حسین کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر حسین کے نمونہ کو چھوڑ دیا جائے تو نمونہ کہاں سے آئے گا۔ اس اصول کے مطابق، شاید ڈاکٹر ذاکر حسین بھی یہ کہیں کہ اگر ابو خاں کی بکری نہ ہوتی تو لڑکر مر جانے کا نمونہ کہاں سے آتا۔
فرضی ماڈل کو اپنے غلط اقدام کے لیے جواز بنانا ایک عام برائی ہے۔ مگر وہ ایک مہلک عمل ہے۔ جو لوگ اس قسم کا طریقہ اختیار کریں ان کے اندر ایک بے حد کمزور شخصیت پرورش پاتی ہے۔ ایسے لوگ کبھی اعلیٰ ربانی حقائق کا تجربہ نہیں کرسکتے۔
فرضی ماڈل کو نمونہ بنانے کی ایک مثال حضرت ابراہیم کے بارے میں اقبال کا یہ شعر ہے:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اصل واقعہ کے مطابق، حضرت ابراہیم خود سے آگ میں نہیں کودے تھے بلکہ ان کے مخالفین نے جارحیت کرکے خود سے انہیں آگ میں ڈالا تھا (الأنبیاء ۶۸) ۔مگر اقبال نے حضرت ابراہیم کا ایک فرضی ماڈل بنایا اور پھر اس فرضی ماڈل کے حوالہ سے قوم کو للکارتے ہوئے کہا:
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا
نئی دہلی، ۱۷ جولائی ۲۰۰۴ دعا گو وحیدالدین
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
میں الرسالہ دس سال سے پڑھ رہی ہوں اور آپ کی کئی کتابیں بھی پڑھ چکی ہوں۔ میں آپ کے مشن سے پورا اتفاق کرتی ہوں۔ آپ کی تحریریں پڑھنے سے پہلے میری سوچ یہ تھی کہ دنیا میں سب کچھ مال و دولت ہے۔ مگر آپ کی تحریریں پڑھنے کے بعد میری سمجھ میں آیا کہ سب سے بڑی دولت عقل کا صحیح استعمال اور صبر ہے۔ آپ کی تحریروں میں صبر کی بہت اہمیت ہے۔ صبر سے وہ چیز ملتی ہے جو جلد بازی سے نہیںملتی۔
میں ’’الہُدیٰ کراچی‘‘ میں قرآن کی کلاسیز لینے جاتی ہوں۔ ہماری اُستاد ڈاکٹر فرحت ہاشمی صاحبہ ہیں۔ قرآن کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ہمیں آپ کی کتاب ’’پیغمبر انقلاب‘‘ پڑھائی۔ یہ بہت اچھی کتاب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشن کو آگے لے جانے کی توفیق دے، آمین۔
اب سوال یہ ہے کہ دعوتِ اسلام کا کام میں کس طرح کرسکتی ہوں۔ کیا مجھے پہلے یہ کام اپنے گھر سے شروع کرنا چاہیے یا باہر جاکر لوگوں کو بتاؤں۔ دعوت کا اصل کام تو غیر مسلموں میں ہوگا۔ مگر گھر والے بھی تو صرف اس لیے مسلمان ہیں کہ وہ مسلمان گھر میں پیدا ہوگئے۔ پہلے اپنی اصلاح، پھر گھر والوں کی اصلاح، پھر گھر سے باہر دوسرے لوگوں کی۔دوسرا سوال یہ کہ دین و دنیا میں کس طرح بیلینس (balance) قائم کیا جائے۔ جب سے دین کی طرف رجحان ہوا ہے دنیا سے بے رغبتی ہونے لگی ہے۔ مگر دنیا کو چھوڑنا بھی صحیح نہیں ہے۔ میں کنفیوزڈرہتی ہوں کہ کس سے ملوں اور کس سے نہ ملوں۔ کہاں جاؤں اور کہاں نہ جاؤں۔ (فرزانہ فیصل ، کراچی)
جواب
۱۔ دین کا کام مسلم اور غیر مسلم دونوں کے درمیان کرنا ہے۔ تاہم دونوں کی نوعیت ایک دوسرے سے الگ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان کیے جانے والے کام کا عنوان اصلاح ہے، اور غیر مسلموں کے درمیان کیے جانے والے کام کا عنوان دعوت ہے۔ یہ دونوں ہی کام ضروری ہیں۔ ہمیشہ اور ہر حال میں دونوں کام کو ایک ساتھ انجام دیا جائے گا۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کی جائے گی اور اس کے بعد غیر مسلموں میں دعوت و تبلیغ کا کام کیا جائے گا۔ میرے نزدیک اس قسم کا قول خدا کے احکام کو بدلنے کے ہم معنٰی ہے۔ کچھ لوگ ایسا تو کرسکتے ہیں کہ وہ دین کے حکم پر عمل نہ کریں۔ مگر یہ سخت گناہ کی بات ہے کہ خود حکم کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔
تاہم کسی بھی شخص یا گروہ پر جو ذمہ داری ہے وہ اس کی استطاعت کے بقدر ہے۔ آپ کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنے حالات کے لحاظ سے اپنے لیے ایک کام کا انتخاب کریں اور اپنی طاقت کے بقدر اس کی انجام دہی میں لگ جائیں۔ اور بقیہ کام کے لیے یہ اعتراف کریں کہ اپنے حالات کے اعتبار سے ہم اُس کو نہیں کرسکتے۔ مثلاً آپ اگر مسلمانوں کی اصلاح کے کام میں مشغول ہوں تو آپ کو یہ کہنا چاہیے کہ غیر مسلموں میں دعوتی کام بھی اگر چہ یکساں طورپر ضروری ہے۔ مگر عدمِ استطاعت کی بنا پر میں اس کو نہیں کرسکتی۔ اس کے برعکس اگر آپ یہ کہنے لگیں کہ ابھی تو ہمیں مسلمانوں کی اصلاح کرنا ہے۔ جب مسلمانوں کی اصلاح ہوچکی ہوگی تو اس کے بعد غیر مسلموں میں دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے۔ یا یہ کہ پہلا کام اسلامی حکومت قائم کرنا ہے۔ اسلامی حکومت کے قیام کے بعد ہی غیر مسلموں میں دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے۔ اس قسم کی بات کہنا میرے نزدیک سخت گناہ کی بات ہے۔ کیوں کہ وہ احکامِ دین میں تبدیلی کے ہم معنٰی ہے۔
۲۔ مادی دنیا میں بے رغبتی ایک اچھی علامت ہے۔ اس کو حدیث میں زہد فی الدنیا کہا گیا ہے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ مادی دنیا کو چھوڑ دیا جائے۔ مومنانہ طریقہ یہ ہے کہ مادی دنیا کو اپنا مقصدِ حیات نہ بنایا جائے۔ مادی دنیا ہماری ضرورت ہے، وہ ہمارا مقصد نہیں۔
اس معاملہ کا دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ اسلام کا اصل نشانہ متقیانہ شخصیت کی تعمیر ہے۔ یہ عمل دنیا کے اندر رہتے ہوئے انجام پاتا ہے، نہ کہ دنیا کو چھوڑ کر۔جنت میں صرف اُسی عورت یا مرد کو داخلہ ملے گا جس نے دنیا میں اپنے اندر متقیانہ شخصیت کی تعمیر کی ۔تعمیر کا یہ کام تمام تر مادی دنیا کے اندر رہ کر انجام پاتا ہے، وہ کسی علیٰحدہ مقام پر انجام نہیں پاتا۔ مادی سرگرمیوں کے دوران جو مختلف تجربات پیش آتے ہیں، اُن تجربات اور مشاہدات سے رزقِ رب کی غذا لیتے رہنا، یہی اصل مومنانہ زندگی ہے۔
کوئی شخص اگر مادی دنیا کو چھوڑ دے تو یہ ایسا ہی ہوگا جیسے کوئی طالبِ علم امتحان ہال کو چھوڑ کر باہر چلاجائے۔ ایسے طالب علم کو کامیاب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ کیوں کہ طالب علم کے لیے اپنی کامیابی کا ثبوت امتحان ہال کے اندر دینا ہے، نہ کہ امتحان ہال کے باہر۔
سوال
میں تقریباً بیس سال سے الرسالہ کا قاری تھا۔ میں اس کو بہت پسند کرتا تھا اور اپنے دوستوں کو پڑھواتا تھا۔ مگر اب میں نے الرسالہ کو پڑھنا چھوڑ دیا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ حال میں اردو اخبارات میں میں نے آپ کے بارے میں کچھ مضامین پڑھے۔ ان مضامین اور رپورٹوں میں آپ کے بارہ میںایسی باتیں بتائی گئی تھیں جو درست نہیں۔ مثلاً یہ کہ آپ بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں، آپ پردہ کو ضروری نہیں سمجھتے، وغیرہ۔ آپ کو میں نے کئی خط لکھے مگر آپ کا عجیب حال ہے کہ آپ لمبے خط کا جواب چند سطروں میں دیتے ہیں۔ اگر کئی سوال ہیں تو آپ ایک شاطرانہ انداز اختیار کرتے ہیں۔ یعنی کمزور اعتراض کا جواب دینا اور طاقتور اعتراض کو چھوڑ دینا۔ آپ کے اخلاص پر مجھ کو شک ہوگیا ہے۔ آپ کی نیت مشتبہ نظر آتی ہے۔ آپ دین کے نام پر دنیا کمانا چاہتے ہیں۔ مجھے امید نہیں ہے کہ آپ میری ان باتوں کا جواب دیں گے۔ مگر الرسالہ کو پڑھنا تو میں نے بند کردیا ہے۔ (ایک قاری، الرسالہ)
جواب
اس طرح کے کئی خط ہم کو ملے ہیں۔ یہ ایک خطرناک علامت ہے۔ اختلاف ایک فطری چیز ہے۔ مگر قرآن کے الفاظ میں، اختلاف خواہ کتنا ہی شدید ہو آدمی کو عدل سے ہر گز نہیں ہٹنا چاہیے اور اختلاف کے معاملہ میں عدل یہ ہے کہ صرف ثابت شدہ بات پر تنقید کی جائے۔ ناقد جب تک کامل تحقیق کے بغیر پوری بات نہ جان لے اس کو ہر گز تنقید نہیں کرنی چاہیے۔
مثلاً اخباری مضامین اور رپورٹوں کی بنیاد پر میرے خلاف رائے قائم کرنا سراسر عدل کے خلاف ہے۔ میرے بارے میں کوئی رائے میری خود اپنی تحریروں کی بنیاد پر قائم کرنا چاہیے نہ کہ اخباری رپورٹوں کی بنیاد پر۔ کیوں کہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ اخبارات عام طور پرکسی کی بات کو بگڑی ہوئی صورت میں پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ مثلاً اخبارات اور میڈیا عام طورپر یہ بتاتے ہیں کہ مدرسہ اور مسجد متشددانہ تعلیم کا مرکز ہیں، حالانکہ یہ درست نہیں۔ کوئی بھی شخص جو میرے بارے میں اخبار کی بنیاد پر رائے قائم کرے وہ بلا شبہہ عدل کے راستہ سے ہٹ گیا اور غیر عادلانہ تنقید خود ناقد کے لیے ایک خطرناک کھیل ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ناقد کو صرف خارجی معلومات کی بنیاد پر علمی تجزیہ کرنا چاہیے۔ کسی بھی حال میں کسی ناقد کے لیے جائز نہیں کہ وہ زیر تنقید شخص کی نیت پر حملہ کرنے لگے۔ حدیث میں منافق کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ إذا خاصم فجر (جب مخاصمت ہو تو وہ تجاوز کرنے لگے)۔ اس کے مطابق، یہ منافقت کی ایک پہچان ہے کہ کسی مسئلہ پر اختلاف ہو تو آدمی علمی دلیل کی حد پر نہ ٹھہرے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ زیر تنقید شخص کی نیت اور اخلاص پر حملہ کرنے لگے۔ اس قسم کا فعل زیر تنقید شخص سے زیادہ خود ناقد کو اکسپوز کرتا ہے۔ علمی تنقید بلا شبہہ ایک جائز فعل ہے، مگر تنقیص اور کردار کشی بلا شبہہ حرام ہے۔
سوال
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس سے آپ کے گہرے سمبندھ ہیں۔ اس کے ثبوت میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ آپ بی جے پی اور آر ایس ایس کے جلسوں میں اکثر شرکت کرتے ہیں۔ جب کہ آپ کانگریس سے دور رہتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے۔ حالانکہ عام طورپر یہ مانا جاتا ہے کہ بی جے پی ایک تنگ نظر جماعت ہے اور کانگریس اُدّاروادی جماعت۔ آپ کے بارے میں یہ بات اکثر کہی جاتی ہے۔ براہ کرم اس کا جواب دیں (رجت ملہوترا، نئی دہلی)
جواب
میرے بارے میں یہ بات جو کہی جاتی ہے وہ سر تاسر بے بنیاد پروپیگنڈا ہے۔ انڈیا کی ۱۴ ویں لوک سبھا کا فائنل رزلٹ ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو آیا ہے۔ اس سے پہلے ۴ مئی ۲۰۰۴ کو نئی دہلی کے جین ٹی وی کے اسٹوڈیو میں ایک ڈسکشن تھا جس میں میرے سوا کانگریس کے سینئر لیڈر سی کے سید جعفر شریف تھے۔ اس موقع پر میں نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے صاف طورپر کہا تھا کہ میں کسی پولیٹکل پارٹی کا ایڈوکیٹ نہیں۔ میں اصلاً ایک داعی ہوں۔ میری پالیسی یہ ہے کہ کوئی بھی گروہ یا پارٹی جو مجھے اپنے جلسہ میں بلائے میں وہاں شرکت کرتا ہوں اور حسب موقع اپنی مثبت بات وہاں رکھتا ہوں۔ اگر آپ الرسالہ میں خبر نامہ اور سفر نامہ کے صفحات دیکھیں تو آپ اس میں اس کی تصدیق پاسکتے ہیں۔
مثال کے طورپر اردو ماہنامہ الرسالہ مارچ ۱۹۹۷ (شمارہ نمبر ۲۴۴) کو لیجئے۔ اس میں آپ دیکھیں گے کہ میں نے شملہ میں ہونے والے ایک سیمینار میں باقاعدہ شرکت کی۔ یہ سیمینار ۵۔۶ جولائی ۱۹۹۴ کو اندرا گاندھی میموریل ٹرسٹ کی طرف سے ہوا تھا۔ اس کی کارروائیاں شملہ کے راشٹرپتی نواس (قدیم وائس ریگل لاج) میں انجام پائیں۔ اس سیمینار کا موضوع یہ تھا:
Redefining the good society.
اس سیمینار میں کانگریس کے بڑے بڑے لیڈر شریک تھے۔ مثلاً سونیا گاندھی، ڈاکٹر منموہن سنگھ، ارجن سنگھ، نٹور سنگھ وغیرہ۔ ۶ جولائی کی نشست میں مجھ کو اس کا صدر بنایا گیا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ میں حق کا داعی ہوں۔ داعی دو چیزوں کو اَفورڈ (afford) نہیں کرسکتا۔ ایک یہ کہ و ہ اپنے مدعو سے کوئی مادی انٹرسٹ وابستہ کرے۔ خدا کے فضل سے میں ہمیشہ اس پرقائم رہا ہوں۔ اخباروں میں یہ بات آچکی ہے کہ پچھلی حکومت کے زمانہ میں مجھ کو گورنر کا عہدہ پیش کیا گیا مگر میں نے اس کو لینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح مجھے راجیہ سبھا کا ممبر نامزد کیا گیا مگر میں نے اس کو بھی قبول نہیں کیا۔
دوسری چیز جس کو داعی افورڈ نہیں کرسکتا وہ یہ ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے اور غیر میں بانٹے۔ وہ اپنے خیر خواہانہ جذبہ کے تحت مجبور ہے کہ ہر ایک کو یکساں طورپرانسان سمجھے، وہ یکساں طورپر ہر ایک کی فلاح کا خواہش مند ہو۔ خدا کا فضل ہے کہ اس معاملہ میں بھی میرا مسلک اسی اصول کے مطابق ہے۔ چنانچہ اپنی چالیس سالہ دعوتی زندگی میں میں ہر جماعت اور ہر گر وہ کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے ان کے پروگراموں میں شرکت کرتا رہا ہوں۔ ۲۹ نومبر ۱۹۵۹ کو میں نے آریہ سماج کے ایک جلسہ میں شرکت کی تھی جو بجنور (سیوہارہ) میں ہوا تھا۔ اس موقع پر میں نے جو تقریر کی تھی وہ اسی زمانہ میں اسلام کا تعارف کے نام سے چھپی تھی۔ اس کے بعد سے اب تک میں ہزاروں کی تعداد میں چھوٹے اور بڑے جلسوں میں شریک رہا ہوں۔ یہ جلسے ہر مذہب اور ہر پارٹی اور ہر گروہ کی طرف سے ہوتے رہے ہیں۔ یہ وہ واقعات ہیں جن کا چھپا ہوا ریکارڈ موجود ہے اور اب بھی ان کو الجمعیۃ ویکلی اور الرسالہ منتھلی کے صفحات میں دیکھا جاسکتا ہے۔
سوال
دو سوالات کے جواب مطلوب ہیں، اُمید کہ آپ جواب دیں گے۔ ایک سوال یہ ہے کہ ثواب کیا چیز ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے۔ اکثر لوگوں کو یہ کہتے سناگیا ہے کہ قرآن شریف کے معنٰی نہ سمجھنے کے باوجود صرف تلاوت سے ثواب ملتا ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ داڑھی رکھنے کا رواج عربوں میں کب سے ہوا۔ کیا اسلام سے پہلے لوگ داڑھی نہیں رکھتے تھے۔داڑھی سنت رسول ہے یا یہ عادت انسانی کے قبیل سے ہے۔ (احساس آفاقی، بمبئی)
جواب
ثواب کوئی پر اسرار (mysterious) چیز نہیں۔ وہ مکمل طورپر ایک معلوم چیز کا نام ہے۔ ثواب کے لفظی معنٰی بدلہ کے ہوتے ہیں۔ اعمال کے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ کسی عمل کا مطلوب نتیجہ انسان کو ملے۔ اسلام میں زندگی کے جو طریقے بتائے گئے ہیں ان کو شعور کے ساتھ اپنانے سے انسان کی شخصیت میں ایک مثبت تبدیلی آتی ہے۔ اس مثبت تبدیلی کا انعام جنت کی صورت میں ملتا ہے۔ اس لیے اس کو ثواب کہا جاتا ہے۔
داڑھی رکھنا فرض نہیں ہے مگر وہ یقینی طورپر سنت ہے۔ سنت ہونے کی وجہ سے داڑھی کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ فرض اور سنت کی تقسیم نظری اعتبار سے کسی عمل کا قانونی درجہ متعین کرنے کے لیے ہے۔ مگر جہاں تک عملی اہمیت کی بات ہے تو عملی اعتبارسے سنت بھی اتنی ہی اہم ہے جتنا کہ فرض۔ حقیقت یہ ہے کہ داڑھی اس سنجیدگی اور اخلاص کی علامت ہے جو ایمان کے بعد آدمی کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ کسی چیز کی علامت اگر چہ ایک ظاہری چیز ہے مگر اس اعتبار سے اس کی بے حد اہمیت ہے کہ وہ بتاتی ہے کہ اندرونی حقیقت آدمی کے اندر موجود ہے یا نہیں۔
جیسا کہ معلوم ہے، ہر عمل جس کی تعلیم اسلام میں دی گئی ہے وہ اسی وقت اسلامی عمل ہے جب کہ وہ اخلاص کے ساتھ ہو۔ اگر وہ عمل ریاء یعنی دکھاوا کے لیے ہو تو ایسے عمل کی کوئی قیمت نہیں اور داڑھی بھی بلا شبہہ اس حکم عام سے مستثنٰی نہیں ہے۔
سوال
امریکا میں ہماری دوستی ہندو، عیسائی، بہائی یعنی مختلف مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ہے۔اگر کسی ہندو یا عیسائی کے گھر میں کوئی فرد مرجائے تو بحیثیت مسلمان کس طرح تعزیت کرنی چاہیے۔ امید ہے، آپ تفصیل سے جواب دیں گے۔ (ریاض احمد خاں، امریکا)
جواب
عیادت یا غیر مسلم کی تعزیت کا مسئلہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک سماجی مسئلہ ہے۔ اس کو عرف کے مطابق انجام دینا چاہیے۔ یعنی اس معاملہ میں سماج کے اندر جو طریقہ انسانی شرافت کا طریقہ سمجھا جاتا ہو اس کے مطابق ہمیں بھی عمل کرنا چاہیے۔ اس معاملہ کو غیر ضروری طورپر ملی شناخت کا مسئلہ بنانا درست نہیں۔
صحیح البخاری کی ایک روایت میں آیا ہے کہ مدینہ میں ایک بار رسول اللہ نے دیکھا کہ سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزر رہا ہے۔ اس وقت آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ جنازہ کو دیکھ کر آپ کھڑے ہوگئے۔ یہ سماجی عرف کاایک معاملہ تھا۔ چونکہ عرف عام میں یہ طریقہ تھا کہ لوگ جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ اس لیے آپ بھی کھڑے ہوگئے۔ حالانکہ یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا نہ کہ کسی مسلمان کا جنازہ۔
سوال
الرسالہ مئی ۲۰۰۴ میں آپ سے حبیب اشرف صاحب نے سوال پوچھا تھا کہ آپ کی تصنیف تذکیرالقرآن کا اجتماعی طور پر ہم مطالعہ کررہے ہیں، لیکن تبلیغی جماعت کے حضرات روک رہے ہیںاور وہ فضائل اعمال کا مطالعہ کرنے کو کہہ رہے ہیں۔ آپ نے جواب میں فضائل اعمال کی کتاب کو کہانیوں کی کتاب کہا ہے مگر اس میں رسول اللہ کی حدیثیں بھی ہیں۔ آپ کا ایسا کہنا غلط ہے۔ فضائل اعمال کا مطالعہ کرنے والے حضرات کو آپ نے زوال یافتہ قوم کہا ہے۔ میں آپ کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہوں۔ برائے مہربانی اس سوال کا جواب تفصیل سے دیں (وحید الدین شیخ، مہاراشٹر)
جواب
میں تبلیغی جماعت کا قدر داں ہوں۔ الرسالہ میں بار بار ایسے مضامین چھپے ہیں اور چھپتے رہتے ہیں جن میں تبلیغی جماعت کا اعتراف پایا جاتا ہے۔ تاہم پیغمبر کے سوا کوئی بھی فرد یا جماعت ایسا نہیں جس میںصد فی صد صرف خوبیاں ہوں اور کوئی کمی اس میں موجود نہ ہو۔
خود تبلیغی جماعت والوں کی روش اس کا ثبوت ہیں۔ مثلاً تبلیغی جماعت کے لوگ علماء کا اعتراف کرتے ہیں مگر وہ تبلیغی جماعت کے باہر کسی عالم کو کبھی اپنے اسٹیج پر بولنے کا موقع نہیں دیتے۔ تبلیغی جماعت کے لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں مگر وہ اس کی اجازت نہیں دیتے کہ ان کے اجتماعات میں کسی مفسر کا ترجمہ پڑھ کر سنایا جائے۔ تبلیغی جماعت کے لوگ میری قدر کرتے ہیں اور میری تحریروں کو ذاتی طور پر پڑھتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ وہ میری تفسیر تذکیر القرآن کو پڑھنے سے منع کرتے ہیں۔ پھر جو روش تبلیغی جماعت والوں کے لیے جائز ہے وہی روش دوسروں کے لیے جائز کیوں نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی فرد یا جماعت پیغمبر والا کام نہیں کرسکتا۔ پیغمبر کے بعد جو بھی دینی کام کیا جائے گا اس میں کچھ نہ کچھ کمیاں رہیں گی۔ اس لیے نہ تو کسی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کا مشن مکمل معنوں میں پیغمبرانہ مشن ہے اور نہ ایسا ہونا چاہیے کہ اس سے کوئی اختلاف کیا جائے کہ وہ اُس پر سوچے بغیر فوراً برہم ہو جائے۔
سوال
ایک بات اس وقت یہ معلوم کرنی ہے کہ بی جے پی کی حمایت کھلے عام کرنے میں کیا مصلحت تھی اور کیا چیزیں آپ کے ذہن میں تھیں۔ تفصیل سے لکھیں تو ہم سب کا انشراح صدر ہوجائے۔ ورنہ آپ کے نظریات کے بارے میں ایک طرح کی کھٹک جو بہت سوں کے اندر پیدا ہوگئی ہے، باقی رہ جائے گی۔ (نیاز احمد، بنگلور)
جواب
آپ نے میرے بارہ میں بی جے پی کی حمایت کی جو بات کہی ہے وہ آپ کو کہاں سے معلوم ہوئی۔ آپ نے لکھا ہے کہ آپ پابندی کے ساتھ ماہنامہ الرسالہ پڑھتے ہیں۔ ایسی حالت میں آپ کو اس سلسلہ میں الرسالہ کے صفحات سے کوئی حوالہ دینا چاہیے۔ جب ہم ایک مشن چلا رہے ہیں اور اُس کے ترجمان کے طور پر ماہنامہ الرسالہ ۱۹۷۶ سے مسلسل جاری ہے تو آپ کو ہمارے خیالات کا علم الرسالہ کے مضامین سے حاصل کرنا چاہیے، نہ کہ سنی ہوئی باتوں یا اخباروں سے۔ اگر آپ پابندی کے ساتھ الرسالہ پڑھتے ہیں تو یقینا آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ الرسالہ کے صفحات میں کبھی وہ چیز شائع نہیں کی گئی جس کو آپ بی جے پی کی حمایت کہتے ہیں۔
یہ ایک معلوم بات ہے کہ اخباروں میںاکثر ہر ایک کے بارہ میں اُلٹی باتیں چھپتی رہتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ مسلمان ملک کے غدار ہیں۔ دینی مدارس دہشت گردی کی تعلیم دیتے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایجنٹ ہے۔ تبلیغی جماعت خفیہ عسکری اڈّے چلا رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ آپ یا دوسرے حضرات اخباروں میں اس قسم کی چیزیں پڑھ کر فوراً کہہ دیتے ہیں کہ یہ سب بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔ اسی طرح بی جے پی کی حمایت والی بات جب ماہنامہ الرسالہ میں موجود نہیں تو اخباروں میں پڑھ کر یہاں بھی آپ کو یہ کہہ دینا چاہیے کہ: سبحنک ما ہذا الا بہتان عظیم۔
واضح ہو کہ اخبار کے حوالہ سے میری طرف جو بات منسوب کی جارہی ہے وہ خود بھی درست نہیں۔ مثلاً نئی دہلی کے روزنامہ راشٹریہ سہارا میں اس معاملہ کی جو رپورٹ چھپی ہے اُس میں یہ جملہ موجود ہے: البتہ مولانا نے واضح لفظوں میں بی جے پی کی حمایت سے انکار کیا۔ (راشٹریہ سہارا، ۲۶مارچ ۲۰۰۴)
سوال
میں نے اپنے ایک عزیز سے سنا ہے کہ آپ نے الیکشن کی مہم میں وزیر اعظم واجپئی جی کے ساتھ شاید یوپی کا دورہ کیا۔ کیا یہ بات سچ ہے۔ آپ نے گورنری کا عہدہ بھی تسلیم نہیں کیا۔ میری سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ آپ نے کن وجوہات پر ساتھ دیا ہے۔ مہربانی کرکے تفصیل سے مجھے اس بارے میں الرسالہ کے ذریعہ سمجھائیے۔ (غلام رسول، سری نگر)
جواب
آپ کے عزیز نے جو بات آپ سے کہی وہ بلا شبہہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ میں نے ہر گز کسی وزیر اعظم کے ساتھ یوپی یا غیر یوپی کا دورہ نہیں کیا۔ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو یہ ضرور میڈیا میں آتا اور آپ اپنے عزیز کے بتائے بغیر اس کو جان لیتے۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس بات کو سن کر فوراً یہ کہہ دیں کہ یہ جھوٹی بات ہے۔ کیوں کہ اس قسم کے دورے اتنا زیادہ میڈیا میں آتے ہیں کہ ہر آدمی ان کو جان لیتا ہے۔ مزید یہ کہ میرے بارے میں جاننے کے لیے آپ کو یا کسی کو الرسالہ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جو بات الرسالہ میں نہ ہو اس کے متعلق پیشگی طور پر یہ مان لینا چاہیے کہ وہ واقعہ ہی نہیں۔
جب آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ مجھے حکومت نے گورنر کا عہدہ دیا لیکن میں نے اس کو قبول نہیں کیا تو آپ کو اسی سے سمجھ لینا چاہیے کہ آپ کے عزیز کی بات غلط ہے۔ کیوں کہ کوئی آدمی حکومت نواز اس لیے بنتا ہے کہ وہ اس سے مادی فائدہ حاصل کرے۔ کوئی شخص ایسا دیوانہ نہیں ہوسکتا کہ وہ صرف اپنے کو بدنام کرنے کے لیے کسی حکومت کا ساتھ دے۔ جب میں نے عہدہ قبول نہیں کیا تو اسی سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ میں حکومت نواز نہیں ہوں۔ کسی حکومت کی طرفداری میرے لیے خارج از بحث ہے۔ آپ کو میرا مشورہ ہے کہ آپ ہر سنی ہوئی بات کو سب سے پہلے اپنے کامن سنس سے جانچئے اور جو چیز کامن سنس پر پوری نہ اترے اس کو تحقیق کے بغیر مان لیجئے کہ وہ غلط ہوگی۔
سوال
میں آپ کے الرسالہ کا مطالعہ بہت شوق سے کرتی ہوں۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا مرد اور عورت کے نماز پڑھنے کے طریقے الگ الگ ہیں۔ کچھ حدیثیں اس بات کی تائید کرتی ہیں اور کچھ اس کی مخالفت کرتی ہیں۔ آخر کیا صحیح ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن سے ایسی کوئی بات ثابت نہیں ہوتی جس سے مسلمان برادری کے نام پر فرقہ بنائیں۔ پھر بھی ہر مسلمان اس سماجی برائی پر بہت اہمیت دیتا ہے۔ وہ اپنے نام کے آگے ولدیت نہ لگا کر caste name لگانا بہتر سمجھتا ہے۔ آخر ہر مسلمان اپنی پہچان caste سے کیوں کرانا چاہتا ہے۔ اس وجہ سے lower caste کے لوگ احساس کمتری کے شکار رہتے ہیں۔ کیوں کہ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔آخر اس سماجی برائی کو کس طرح دور کیا جاسکتا ہے۔
آپ یہ بھی بتانے کی مہربانی کریں کہ گھر میں ٹیلی ویزن (T.V.) کو رکھنا اور دیکھنا کیسا ہے۔ (غزالہ شاہد، کمال گنج، فرخ آباد)
جواب
۱۔ عورت اور مرد کے لیے نماز پڑھنے کا طریقہ ایک ہے۔ دونوں کے درمیان اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔ عورت کی نماز کے لیے بعض جزئی فرق جو حدیث میں ملتے ہیں وہ صرف سہولت یا رعایت کی بنا پر ہے نہ کہ مسئلہ میں فرق کی بنا پر۔ نماز میں اصل اہمیت خشوع کی ہے اور خشوع عورت اور مرد دونوں سے یکساں طورپر مطلوب ہے۔ دونوں ہی کو سب سے زیادہ توجہ خشوع پر دینا چاہیے کیوں کہ خشوع کے بغیر نماز ،نماز نہیں (لا صلوۃ لمن لم یتخشع)۔
۲۔ ذات کا مسئلہ کوئی دینی معاملہ نہیں، وہ صرف ایک سماجی معاملہ ہے۔ یہ وہی چیز ہے جس کو قرآن میں شعوب و قبائل کہا گیا ہے۔ قرآن کے مطابق، یہ صرف تعارف یا پہچان کے لیے ہے(الحجرات ۱۳) اس قسم کا فرق ایک فطری فرق ہے اور وہ بہر حال باقی رہتا ہے۔ مثلاً مغربی ملکوں میں کوئی اپنے آپ کو خان یا سید نہیں لکھتا مگر وہاں رنگ کے فرق کی بنا پر اس سے بھی زیادہ امتیاز پایا جاتا ہے جو ہندستان میں نظر آتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ ہر چیز کا ایک صحیح استعمال ہے اور ایک اس کا غلط استعمال۔ مذکورہ فرق کو تعارف کے معنٰی میں لیا جائے تو یہ اس کا صحیح استعمال ہوگا۔ لیکن اگر اس فرق کو امتیاز کے معنٰی میں لیا جانے لگـے تو یہ اس کا غلط استعمال ہو جائے گا۔ غلط استعمال سے بچنے کی صورت یہ نہیں ہے کہ آپ یہ مانگ کریں کہ لوگ اس قسم کے الفاظ کو لکھنا چھوڑ دیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امتیاز کا تعلق سوچ سے ہے۔ اس مقصد کے لیے آپ کو لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ سوچ کو بدلے بغیر ظاہری علامتوں کو ختم کرنے سے اصل برائی ختم ہونے والی نہیں۔
۳۔ ٹیلی ویژن اپنے آپ میں کوئی بری چیز نہیں۔ ٹیلی ویژن در اصل فطرت کی تسخیر کا ایک حصہ ہے۔ خدا نے فطرت کے نظام میں بہت سے امکانات رکھے ہیں۔ انہیں امکانات میں سے ایک امکان کا نام ٹیلی ویژن ہے۔ مثلاً قدیم زمانہ میں جب انسان نے گھوڑے اور اونٹ کو سواری کے لیے استعمال کیا تو یہ بھی فطرت کے قانون کو استعمال کرنے کی ایک صورت تھی۔ پھر جب انسان نے پانی کو اسٹیم پاور میں تبدیل کیا تو یہ بھی فطرت کے قانون کو استعمال کرنے کی ایک مثال تھی۔ اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو بھی استعمال کرنا فطرت کے قانون کو استعمال کرنے کی ایک مثال ہے۔
یہ صحیح ہے کہ آج کل ٹی وی کو اکثر غلط کام کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ٹی وی بذات خود ایک غلط چیز ہے۔ آپ کو ٹی وی کے صحیح استعمال پر زوردیناچاہئے نہ یہ کہ آپ ٹی وی کو بذات خود حرام چیز قرار دیں۔ آج کل تو حال یہ ہے کہ جہاد کو بھی غلط طورپر استعمال کیا جارہا ہے۔ بہت سے لوگ جہاد کو اُس غلط کام کے لیے استعمال کررہے ہیں جس کو قرآن میں فساد کرنا اور خون بہانا بتایا گیا ہے۔ مگر اس بنا پر ایسا کرنا درست نہیں کہ خود جہاد کو غلط قرار دیا جائے۔ ہم جہاد کے غلط استعمال کی مذمت کریں گے نہ کہ خود جہاد کو غیر مطلوب بتائیں گے۔ یہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔ یہاںانسان کسی بھی چیز کا غلط استعمال کرسکتا ہے۔ ہمیں غلط استعمال کو روکنا چاہیے نہ کہ خود استعمال کو۔
سوال
اگر کوئی غیر مسلم کسی مسلمان سے السلام علیکم کہتا ہے تو اس کے جواب میںمسلمان کو کیا کہنا چاہیے۔ براہِ کرم اس کا جواب دیں۔ (خلیل الرحمن، ناگپور)
جواب
کوئی غیر مسلم اگر ملاقات کے وقت آپ کو السلام علیکم کہے تو آپ کو بھی اسے السلام علیکم کہنا چاہیے۔ یہی انسانی اخلاق ہے اور یہی اسلام کی تعلیم ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن کی ایک آیت سے واضح رہنمائی ملتی ہے۔ وہ آیت یہ ہے: واذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منہا أو ردوہا (النساء ۸۶) یعنی اور جب کوئی تم کو تحیت وسلام کہے تو تم بھی تحیت وسلام کرو اس سے بہتر یا الٹ کر وہی کہہ دو۔
قرآن میں ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک باپ سے جدائی کے وقت اس کو رخصتی سلام کرتے ہوئے کہا کہ تم پر سلامتی ہو (قال سلامٌ علیک) قرآن میں منافق کو کافر کے ساتھ بریکیٹ کیاگیا ہے (التوبہ ۷۳)۔ پھر جس طرح منافق کے سلام کا جواب سلام کی صورت میں دینا جائز ہے، اسی طرح غیر مسلم کے سلام کا جواب سلام سے دینا یقینی طورپر جائز ہے۔یہی اسلام کا عام حکم ہے۔ بعض حدیثوں میں اس سلسلہ میں جو محتاط روش کی تلقین کی گئی ہے وہ صرف بعض معلوم افراد سے متعلق ہے، ان کی حیثیت اس معاملہ میں عمومی حکم کی نہیں۔
سوال
آپ کے اُس بیان پر میں سوال کرتا ہوں جو کہ آپ نے ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو فکی آڈیٹوریم ہال، نئی دہلی میں مسٹر اٹل بہاری واجپئی کی حمایت میں منعقد ایک میٹنگ کے دوران تقریر کرتے ہوئے کہا تھا۔ اس کی روداد دیگر اخباروں کے ساتھ ساتھ قومی تنظیم میں بھی شائع ہوئی۔
۲۶ مارچ کے قومی تنظیم (پٹنہ) کے مطابق، آپ نے کہا کہ سیاست کوئی مذہبی عقیدہ نہیں ہے۔ اس میں حالات کے تحت تبدیلی لانی پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ بیان صرف مسلمانوں پر عائد ہوگا یا ہندستان کے تمام شہر یوں پر۔ دوسری بات آپ نے یہ کہی کہ مسلمانوں کو ایک تعمیر پسند اقلیت بن کر رہنا چاہیے۔ تو سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان تخریب پسند ہیں۔ تعجب ہوتا ہے آپ کے اس مضحکہ خیز بیان پر۔ کیا آپ اس کی تردید میں ایک لفظ بھی کہہ سکتے ہیں۔ آپ جیسے نامور عالم دین کے منھ سے ایسے الفاظ نکلنے کی امید نہیںتھی۔(شاہ عمران حسن، دلاور پور)
جواب
مجھے ان لوگوں پر تعجب ہے جو میرے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے میڈیا کی رپورٹوں کو بنیاد بناتے ہیں۔ جب کہ میڈیا کے بارے میں ہر شخص جانتا ہے کہ میڈیا حقیقت کو صحیح صورت میں پیش نہیں کرتا۔ یہی میڈیا عام مسلمانوں کے بارے میں تشدد پسند کمیونٹی کی تصویر پیش کرتا ہے تو تمام لکھنے اور بولنے والے مسلمان اس کو جھوٹ بتاتے ہیں۔ لیکن یہی میڈیا جب میرے بارے میں کوئی الٹی بات پیش کرتا ہے تو اس کو آپ جیسے لوگ بالکل درست مان لیتے ہیں۔یہ تضاد کیوں۔
آپ نے ایک اردو اخبار کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اس نے میری مذکورہ تقریر کے بارے میں یہ رپورٹ شائع کی ہے کہ ’’مسلمانوں کو ایک تعمیر پسند اقلیت بن کر رہنا چاہیے‘‘۔ یہ بات غلط ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں تخلیق کا لفظ استعمال کیا تھا، نہ کہ تعمیر کا لفظ۔یہ وہی بات ہے جس کو میں الرسالہ میں بار بار لکھ چکا ہوں۔ وہ یہ کہ ہندستان کے حالات مسلمانوں کو یہ موقع دے رہے ہیں کہ وہ یہاں ایک تخلیقی اقلیت (creative minority) بن کر ابھریں اور پھر ان کے حق میں فطرت کا وہ قانون صادق آئے گا جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیاگیا ہے: کتنے اقلیتی گروہ ہیں جو اکثریتی گروہ پر غالب آئے، خدا کے اذن سے (البقرہ ۲۴۹)۔
سوال
مجھے الرسالہ کے ایک قاری نے بتایاکہ آپ کسی کے سوال کا جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ ہی آپ سوال کو الرسالہ میں شائع کرتے ہیں۔ یہ اس لیے ہے کہ آپ ذرا الگ ٹائپ کے مولانا ہیں۔
اس قاری کی بات میں کہاں تک سچائی ہے، یہی جاننے کے لیے میںآپ سے یہ سوال کررہی ہوں۔ آخر آپ ایک مولانا ہوتے ہوئے کسی کے سوال کا جواب کیوں نہیں دیتے ہیں۔ برائے مہربانی بتائیں ۔(رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
میرے بارے میں یہ غلط پروپیگنڈہ ہے کہ میں جواب نہیں دیتا۔ اصل یہ ہے کہ لوگ عمومی رواج کے مطابق، اپنی غلطی کا الزام دوسرے کے اوپر ڈالتے ہیں۔ سوال کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ سوال کے ساتھ اپنا پورا نام لکھا جائے، پتہ لکھا جائے اور تاریخ لکھی جائے۔ جو سوال ان شرائط کے مطابق ہوتا ہے میں ضروراُن کا جواب دیتا ہوں۔ مگر جوسوال ان شرائط پر پورا نہیں اترتا میں اس کا جواب نہیں دیتا۔ اس کا ایک نمونہ خود آپ کا یہ خط ہے جس میں آپ کا پورا پتہ درج نہیں۔ آپ نے اپنا پتہ اس طرح لکھا ہے:رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار۔ میرے خیال کے مطابق، یہ مکمل پتہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں گھر کا نمبر اور محلہ مذکور نہیں۔ تاہم میں اس خط کو الرسالہ کے سوال و جواب کے کالم میں شامل کررہا ہوں تا کہ آپ کی شکایت ختم ہوجائے۔
سوال
الرسالہ مئی ۲۰۰۴ میں ایک قاری کے سوال کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ زندگی ایک آرٹ ہے۔ زندگی میں کامیابی کا راز یہ ہے کہ آدمی کانٹوں سے بچتے ہوئے پھولوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ میرے خیال سے آپ کا یہ کہنا صحیح نہیں کیوں کہ زندگی صرف پھولوں کی سیج نہیں وہ کانٹوں کا بستر بھی ہے اور بنا کانٹوں سے الجھے کوئی بھی انسان پھول کو کیسے پاسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پھول پانے کے لیے کانٹوں سے اُلجھنا بے حد ضروری ہے، تبھی انسان کامیاب ہوسکتا ہے۔ (رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
آپ نے میرے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے۔میری ہی بات کو آپ نے بدلے ہوئے الفاظ میں دہرا دیا ہے۔ میں سمجھ نہ سکا کہ میری بات اور آپ کی بات میں کیا فرق ہے۔
میں نے جوبات الرسالہ میں لکھی ہے وہ دراصل دو صحابی کے مکالمہ سے لی گئی ہے۔ عمرفاروق نے ایک بار ایک صحابیٔ رسول سے پوچھا کہ تقویٰ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ائے امیر المؤمنین کیا آپ کبھی ایسے راستے سے گزرے ہیں جس میں جھاڑیاں ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ صحابی نے دوبارہ پوچھا کہ پھر آپ نے کیا کیا۔ عمر نے کہا کہ میں نے اپنا دامن سمیٹ لیا اور بچتا ہوا راستہ سے گزر گیا۔ صحابی نے کہا کہ یہی تقویٰ ہے۔ (ذٰلک التقوٰی)
یہ فطرت کا اصول ہے۔ یہ اصول اس دنیا میں متقیانہ زندگی کے لیے ضروری ہے اور عام انسانی زندگی کے لیے بھی۔ اس کے سوا کامیاب زندگی کا کوئی اور قابل عمل اصول نہیں۔
سوال
ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ مولانا وحید الدین خان بہت عظیم شخصیت ہیں اور یہ کہ وہ ایک پہنچے ہوئے بزرگ ہیں۔ وہ جو بھی دعا کرتے ہیں ضرور پوری ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اُنہوں نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں۔ آپ سے گذارش ہے کہ آپ ہمارے لیے بھی خدا سے خاص طورسے دعا کردیجئے کہ مجھے زندگی میں ہمیشہ کامیابی و کامرانی عطا ہو۔ (رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد فرمائے۔ آپ کو اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت حاصل ہو۔ تاہم ایک اصولی بات یہ ہے کہ دعا کوئی مطلق چیز نہیں۔ دعا کی قبولیت ہمیشہ فطرت کے اصول کے تحت ہوتی ہے، فطرت کے اصول کے خلاف نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے جس تخلیقی نقشہ کے مطابق، اس دنیا کو بنایا ہے اس میں یہ مقدر کردیا ہے کہ انسان کو مشکلات بھی پیش آئیں (لقد خلقنا الانسان فی کبد)انسان کو آسانی بھی پیش آئے اور مشکل بھی(إن مع العسر یسرا) انسان کو دوستی کا تجربہ بھی ہو اور دشمنی کا تجربہ بھی (بعضکم لبعض عدو)۔ یہ فطرت کا نظام ہے۔ اس لیے صحیح یہ ہے کہ آپ یہ دعا کریں: رب یسر و لا تعسر و تمم بالخیر۔ کسی پیغمبر یا صحابی نے کبھی یہ دعا نہیں کی کہ مجھ کو دنیا میں ہمیشہ کامیابی حاصل ہو اور کبھی بھی ناکامی نہ ہو۔
سوال
اسلام کی روشنی میں بتائیں کہ بدعت کسے کہتے ہیں۔ (رخشاں ہاشمی، مونگیر، بہار)
جواب
بدعت کے لفظی معنٰی نئی چیز کے ہیں۔ بدعت در اصل یہ ہے کہ عبادتی یا تعبدی امور میں کوئی نئی چیز نکالی جائے۔ مثلاً اذان میں کوئی شخص اللہ اکبر کے بجائے اللہ الصمد کہنے لگے۔ تعبدی امور میں صرف تقلید ہے۔ تعبدی امور میں کوئی بھی نئی چیز نکالنا جائز نہیں۔ حدیث میں آیا ہے کہ جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی نئی چیز نکالی تو وہ قابل رد ہے۔
تاہم غیر تعبدی امور میں ضروریات زمانہ کی رعایت سے نئی چیز نکالنا جائز ہے۔ مثلاً چھپر کی مسجد کے بجائے پختہ مسجد بنانا۔
سوال
کلام پاک کی بہت ساری باتیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ مثلاً قرآن میں ایک جگہ ہے کہ خدا جس کو چاہتا ہے بے شمار روزی دیتا ہے (آل عمران ۳۷) جب کہ خود قرآن ہی میں ایک دوسری جگہ ارشاد باری ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جس کی وہ کوشش کرتا ہے (النجم ۳۹) (ایم اے خاں، کلکتہ)
جواب
سورہ النجم کی آیت (لیس للانسان الا ماسعی) کا تعلق دنیا سے نہیں ہے بلکہ آخرت سے ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آخرت کے انعام کا تعلق آدمی کے اپنے دنیوی عمل سے ہوگا، جیسا عمل ویسا انعام۔ نہ تو کوئی شخص عمل کے بغیر آخرت کے انعام کو پاسکتاہے اور نہ کسی دوسرے کا عمل کسی شخص کے لیے نفع بخش بن سکتاہے ۔ اس آیت میں آخرت کا قانون بیان کیا گیا ہے نہ کہ دنیا کا قانون۔ پہلی آیت (ان اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب) کا تعلق دنیا کی معاشی تقسیم سے ہے۔خدا کے قانون کے مطابق، دنیا کے معاشی وسائل ہر ایک کو برابر نہیں ملتے، کسی کو کم ملتا ہے اور کسی کو زیادہ۔ یہ فرق انعام یا سزا کی بنا پر نہیں ہے بلکہ وہ قانونی امتحان کی بنا پر ہے۔ دنیا کی زندگی آزمائش کے لیے ہے۔ یہاں کسی کو جو کچھ ملتا ہے وہ اس کے لیے امتحان کا ایک پرچہ ہوتا ہے۔ ہر ایک کے حالات کے لحاظ سے اس کو کوئی امتحانی پرچہ دیا جاتا ہے۔ اس معاملہ میںفرق کو امتحان کی مصلحت کے تحت سمجھنا چاہیے نہ کہ کسی اور نظریہ کی روشنی میں۔
سوال
۱۔ آپ نے الرسالہ جون ۲۰۰۴ کے صفحہ ۳۹ پر لکھا ہے کہ ’’اجودھیا کا معاملہ اتنا زیادہ نازک بن چکا ہے کہ اگر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ بابری مسجد کے متعلق فیصلہ مسلمانوں کے حق میں بھی دے دے تب بھی اس سے اصل مسئلہ حل ہونے والا نہیں‘‘۔ اس جملے کا آخر کیا مقصد ہے۔ در پردہ اور بالواسطہ طورپر آپ ہندوؤں کو شہہ دے رہے ہیں کہ اگر کورٹ بابری مسجد کے متعلق فیصلہ مسلمانوں کے حق میں بھی دے دے تو تم اس کو نہ ماننا بلکہ اس پر قبضہ جمائے رکھنا۔ کیا یہ اسلام دشمنی نہیں ہے۔ کیا یہ مسلمانوں کے حق میں منافقت والا رول نہیں ہے۔ آخرکیا ضرورت ہے کہ آپ ایک نزاعی معاملہ میں اتنا بڑا اور وہ بھی غلط قدم اٹھائیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لوگ آپ کو ہندو نواز کہتے ہیں اور حکومت بھی آپ کو شو پیس (show piece) کے طور پر استعمال کرتی ہے۔ آخر آپ کیوں ہندوؤں کی فرقہ پرست جماعت کو شہہ دے رہے ہیں۔ کیا اس سے آپ کا ذاتی مفاد وابستہ ہے۔ وضاحت کریں تاکہ ہم قارئین کو اصل حقیقت کا پتہ چل سکے۔
۲۔ قرآن و حدیث اور فقہ اور تاریخ کی روشنی میںایک مسجد کے امام کی کیا حیثیت ہے۔ کیا کوئی امام ملت کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اگر کر سکتا ہے تو کیا ملت اسلامیہ کو اس کی پیروی کرنی چاہیے، وضاحت کریں۔
۳۔ افسانہ نگاری اور شاعری کرنا اسلام میں کہاں تک درست ہے۔ واضح ہو کہ افسانہ نگاروں کی دلیل یہ ہے کہ ہم در پردہ طور پر زندگی کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ تفریح کے سامان بھی۔ تاکہ عام لوگ جو زندگی سے مایوس ہوچکے ہوںان کو اس سے کچھ فائدہ پہنچ سکے۔ (شاہ عمران حسن، دلاور پور، بہار)
جواب
اجودھیا کے مسئلہ کے بارے میں، میں نے جو بات کہی ہے وہ نئی بات نہیں ہے، وہ تقریباً تمام سنجیدہ لوگ کہتے رہے ہیں۔ عدالت خود اس معاملہ میں اپنی محدودیت کو سمجھتی ہے۔ اسی لیے اس نے لمبی مدت کے با وجود اپنا فیصلہ دینے سے احتراز کیا ہے۔ مثلاً دُوارکا پیٹھ کا شنکر آچاریہ سوروپ آنند سرسوتی مہاراج نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ: یہ کام عدالت کے فیصلہ پر بھی نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ عدالت کے فیصلہ سے ایک فرقہ ضرور ناراض ہوگا اور اس مسئلہ پر ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی برقرار رہے گی (راشٹریہ سہارا، نئی دہلی، ۲۴ مئی ۲۰۰۴)
بنیادی بات یہ ہے کہ یہ معاملہ جب نازک صورت اختیار کرلے اور اس کے ساتھ ضد اور ساکھ کا سوال جڑ جائے تو اس کا فیصلہ صحیح اور غلط کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ صورت موجودہ میں کیا چیز قابل عمل ہے اور کیا چیز قابل عمل نہیں ہے۔ اس پہلو سے غور کیجئے تو یہ معاملہ برسوں کی جذباتی سیاست کے نتیجہ میں اتنا نازک بن چکا ہے کہ صرف قانون اور عدالت اس کے حل کے لیے کافی نہیں ہے۔
مثلاً عدالت اگر اجودھیا کے نزاع کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرے تو ہندو پیشگی طورپر یہ اعلان کرچکے ہیں کہ وہ اس معاملہ میں عدالت کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے شاہ بانو کے کیس پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا مگر مسلمانوں نے اس فیصلہ کو نہیں مانا اور اس کے خلاف مولانا علی میاں کی قیادت میں ایک ہنگامہ خیز تحریک چلائی۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ کے ذریعہ اس فیصلہ کو رد کر دیا گیا۔ ہندوؤں کا کہنا ہے کہ اجودھیا کے معاملہ میں ہم بھی یہی کریں گے اور مسلمانوں کو خود اپنی قائم کردہ نظیر کی بنیاد پر اس معاملہ میں ہمارے موقف کو ماننا چاہیے۔
یہ امید رکھنا کہ اگر عدالت مسلمانوں کے حق میں یہ فیصلہ دے تو حکومت اس کو طاقت کے زور پر نافذ کرے گی۔ یہ بلا شبہہ ایک فرضی امید ہے۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حکومت کی بھی محدودیتیں ہیں۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ۶دسمبر ۱۹۹۲ کو دن کے اجالے میں ہندو انتہا پسندوں کی ایک بھیڑ اجودھیا میں داخل ہوئی اور وہ سارے دن بابری مسجد کو توڑتی رہی اور حکومت اس کو روکنے میں پوری طرح ناکام رہی۔ جب کہ اس وقت مرکز میں کانگریس کی حکومت تھی جس کے پرائم منسٹرمسٹر نرسمہا راؤ تھے۔ اس واقعہ سے صرف ایک سال پہلے اسی کانگریسی حکومت نے عبادت گاہوں کا قانون (places of worship act 1991) پارلیمنٹ میں پاس کرایا تھا۔ اس قانون میں کہا گیا تھا کہ حکومت بابری مسجد کی حالت موجودہ (status quo) کو باقی رکھنے کی پابندہوگی۔ یہاں تک کہ اس معاملہ میں عدالت کا فیصلہ آگیا۔ مگر انتہا پسندوں کی بھیڑ نے علی الاعلان بابری مسجد کو ڈھادیا اور حکومت اپنے قانونی فرض کو ادا کرنے میں ناکام رہی۔ ایسی حالت میںحکومت سے امید رکھنا آزمودہ را آزمودن جہل است کے ہم معنٰی ہے۔
۲۔ مسلم دنیا میں جب خلافت کا باقاعدہ نظام قائم تھا تو خلیفہ یا اس کا مقرر کردہ نمائندہ مسجد کی نماز کی امامت کرتا تھا۔ اس وقت خلافت اور امامت دونوں ایک ہی ذمہ داری کے دو حصے تھے۔ مگر اب جب کہ خلافت کا نظام ٹوٹ چکا ہے۔ اب مسجد کا امام صرف مسجد کا امام ہے۔ اب اگر کوئی امام مسجد کی امامت کے دائرہ سے باہر آکر سیاسی سرگرمی دکھائے تو یہ ایک انحرافِ امامت کی بات ہوگی نہ کہ فرائض امامت ادا کرنے کی بات۔ نماز کی امامت سے باہر مسجد کے امام کی ذمہ داری اس وقت ہے جب کہ اس کو معاشرہ میں باقاعدہ اقتدار حاصل ہو۔ بے اقتدار امام کا کام صرف نماز پڑھانا ہے۔ سیاسی نوعیت کی سرگرمیوں میں حصہ لینا اس کے لیے ایک گناہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ مثبت سیاسی رول کے لیے اقتدار ضروری ہے۔ بے اقتدار امام اگر سیاسی رول ادا کرنے کے لیے اٹھے گا تو وہ ملت کے اندر صرف انتشار پیدا کرے گا۔ اس کا ارادہ بظاہر نیک ہو تب بھی عملاً وہ فتنہ کا سبب بنے گا اور جس عمل کا نتیجہ فتنہ ہو اس سے پر ہیز کرنا فرض کے درجہ میں ضروری ہے۔ بے اقتدار امام کے لیے صرف امامت ہے نہ کہ لیڈری۔
۳۔ افسانہ نگاری اور شاعری کوئی ناجائز چیز نہیں مگر یقینی طورپر وہ بے فائدہ ہے۔ اور اسلام کی ایک تعلیم یہ بھی ہے کہ آدمی بے فائدہ چیزوں سے پرہیز کرے (من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ)۔
قدیم زمانہ میں عام رواج تھا کہ باتوں کو تمثیل یا فرضی حکایت(parable) کی زبان میں بیان کیا جاتا تھا۔ ہندو لٹریچر یا عیسائی لٹریچر اس قسم کی حکایتوں سے بھرا ہوا ہے۔ قرآن عین اسی زمانہ میں اترا۔ مگر قرآن میںحکایت اور تمثیل کے اسلوب سے مکمل طورپرپرہیز کیاگیا ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ افسانہ یا کہانی کا انداز کوئی مطلوب انداز نہیں۔ اسی طرح عرب میں اسلام کا نزول ہوا تو وہاں شاعری کا عام رواج تھا۔ اکثر صحابہ اسلام سے پہلے شاعری کیا کرتے تھے مگر اسلام قبول کرنے کے بعد ان کی شاعری چھوٹ گئی۔ عرب شاعر لبید نے جب اسلام قبول کیا تو انہوں نے بھی شاعری چھوڑ دی۔ کسی نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا أبعد القرآن۔
أصل یہ ہے کہ تحریر کے دو الگ الگ مقصد ہیں۔ ایک ہے ،تفریح کا مواد فراہم کرنااور دوسرا ہے، انسان کے اندر فکری انقلاب لانا۔ افسانہ یا شاعری فنون لطیفہ کی چیز یں ہیں۔ وہ انسان کو صرف سستی تفریح فراہم کرسکتی ہیں۔ مگر اسلام کا مقصد یہ ہے کہ انسان کا طرز فکر بدلے، وہ ربانی انداز میں سوچنے لگے۔ یہ دوسرا مقصد صرف سنجیدہ نص کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔
سوال
بمبئی کے ایک روزنامہ میں آپ کے خلاف ایک مضمون چھپا ہے۔ اس مضمون کا عنوان یہ ہے: مولانا وحیدالدین صاحب، صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان بھی ہے۔مضمون میں بتایا گیا ہے کہ مولانا وحیدالدین صاحب مسلمانوں کو صلح حدیبیہ کی نصیحت کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان ہوئی تھی جس میں صحابہ نے جہاد پر بیعت کی تھی۔ اس کے بارہ میں آپ کیا فرماتے ہیں۔ یہ سوال یہاں کئی لوگوں کے ذہن میں آرہا ہے(فاروق فیصل، بمبئی)
جواب
بیعت رضوان اگر بالفرض بیعت جہاد ہو تب بھی میری بات ثابت شدہ ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’بیعت جہاد‘‘ کے باوجود صُلح حدیبیہ کو قبول فرمایا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس سے پہلے کی بیعت، اگر بالفرض وہ جہاد کی بیعت ہو، تب بھی وہ سنتِ رسول کے مطابق منسوخ قرار پائے گی۔ کیوں کہ اس موقع پر آپ کا جو آخری عمل تھا وہ جہاد کا نہ تھا بلکہ صلح کا تھا۔
مگر اصل حقیقت یہ ہے کہ بیعتِ رضوان کے نام پر حدیبیہ کے مقام پر جو بیعت ہوئی وہ جہاد یا قتال کی بیعت نہ تھی بلکہ وہ صرف عدمِ فرار کی بیعت تھی۔ چنانچہ بیعت میں شامل ہونے والے صحابی کہتے ہیں کہ بایعنا ان لا نفر (ہم نے اس پر بیعت کی کہ ہم فرار اختیار نہیں کریں گے)۔ یعنی اگر فریقِ ثانی کی طرف سے عملی جارحیت کی صورت پیش آجائے تو ہم مقابلہ کا طریقہ اختیار کریں گے، نہ کہ فرار کاطریقہ۔ اس معاملہ میں اگر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو اس کے سوا کوئی اور مطلب اس کا نہیں نکلتا۔ یعنی اگر فرار اور عدم فرار کے درمیان انتخاب(option) کا معاملہ ہو تو فرار کو چھوڑ کر عدم فرار کے طریقہ کو اختیار کیا جائے گا۔ اسی طرح اگر جنگ اور صلح کے درمیان انتخاب ہو تو صلح کا طریقہ اختیار کیاجائے گا، نہ کہ جنگ کا طریقہ۔
سوال
آج کل یہ بحث چھڑی ہوئی ہے کہ عقیدہ کے حدود کیا ہیں۔ اجودھیا کے مسئلہ کے حوالہ سے یہ سوال اُٹھایا جارہا ہے کہ مسجد اور مندر کا ایشو عقیدہ کا مسئلہ ہے یا عدالت کا مسئلہ۔ یہ وقت کا ایک اہم سوال ہے۔ آپ اس مسئلہ کی وضاحت کریں (مستقیم احمد، دہلی)
جواب
اس معاملہ میں جہاں تک رام مندر کی بات ہے تو میں کہوں گا کہ اس مسئلہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ ہندو عقیدہ کے مطابق، رام بھگوان کے اوتار تھے یا نہیں۔ یہ بلا شبہہ عقیدہ کا ایک مسئلہ ہے۔ اگر کچھ لوگ اپنے مذہب کے مطابق یہ سمجھیں کہ رام بھگوان کے اوتار تھے تو یہ اُن کے ذاتی عقیدہ کا مسئلہ ہوگا۔ اس معاملہ میں قانون یا عدالت کو تعرض کرنے کا کو ئی اختیار نہیں۔ یہ کسی فرد کا ایک ذاتی معاملہ ہے اور فرد ہی اُس کے بارے میں جو فیصلہ چاہے کرسکتا ہے۔
مگر جب یہ کہا جائے کہ رام فلاں متعین جغرافی مقام پر پیدا ہوئے تو یہ بلاشبہہ عدالت کا ایک مسئلہ بن جاتا ہے اور تاریخی دستاویزات یا خارجی شہادتوں کی بنیاد پر عدالت یہ فیصلہ دے گی کہ یہ دعویٰ صحیح ہے یا نہیں کہ رام فلاں متعین جغرافی خطّہ میں پیدا ہوئے۔
جہاں تک مسجد کا معاملہ ہے، مسجد کے مسئلہ کے بھی دو پہلو ہیں۔ ایک اعتبار سے مسجد ایک عقیدہ کی بات ہے۔ مسجد ایک مقدّس چیز ہے اور عبادت گاہ کی حیثیت سے اُس کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ضروری ہے۔
مگر اسی کے ساتھ مسجد کے معاملہ کا ایک اور پہلو ہے۔ اور اس دوسرے پہلو کے اعتبار سے مسجد کا تعلق قانون اور عدالت کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ وہ یہ کہ مسجد اگر دوسروں کے لیے کسی اعتبار سے ضرر رساں بن جائے۔ مثلاً مسجد میں تیز لاؤڈاسپیکر لگا کر صوتی کثافت (noise pollution) پیدا کرنا، سڑک پر نماز کی صفیں قائم کرکے ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنا، مسجد میں سیاسی اور جوشیلی تقریریں کرکے جھگڑا کھڑا کرنا، غصب کی زمین پر مسجد بنانا، اس قسم کا کوئی معاملہ ہو تو اس پہلو کے اعتبار سے مسجد کا معاملہ قانون اور عدالت کا معاملہ بن جائے گا اور عدالت مجاز ہوگی کہ وہ اس پہلوسے اپنا عادلانہ فیصلہ دے۔
سوال
میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان میں فیکلٹی شریعہ اینڈ لاء کا اسٹوڈنٹ ہوں، اور آپ کے الرسالہ کا مستقل قاری ہوں۔ آپ کی کتابیں پڑھ کر آپ کی فکر سے آشنائی ہوئی اور حقیقتاً فکروعمل میںایک انقلاب لانے والی فکر سے آشنا ہو کر قلبی سکون ہواکہ ابھی امت کے علماء اپنے نور بصیرت سے اعتدال کی راہ پر چلتے ہوئے صبح انقلاب کی نوید مسرت سُنا سکتے ہیں اور خدا کی فطرت سے سیکھ سکتے ہیں۔ آپ نے اب مجھے سوچنے کی عادت ڈال ہی دی تو میری رہنمائی بھی فرمائیں اور پلیز مجھے مندرجہ ذیل باتوں سے آگاہ فرمائیں۔
۱۔ آج کے دو رمیں جہاں علوم کی کثرت آسمان کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور تمام معلومات کااحاطہ ممکن نہیں تو ایک علم کا پیاسا کس طرز عمل کو اختیار کرے کہ وہ اس دنیا میں کامیاب ہو اور اُس کا ایجوکیشنل کیریربھی بہتر ہو۔ ورنہ سفر زیادہ اور زاد راہ کم ہے۔
۲۔ آپ کی رائے کے مطابق، ایک مسلم نوجوان تعلیم کے میدان سے فارغ ہونے کے وقت کس قسم کے اسلحہ سے لیس ہو۔ اس کی شخصیت کس چیز کی آئینہ دار ہو۔ موجودہ دورمیں کامیابی کے لیے اور دین اسلام کی فہم کے لیے نصاب تعلیم کس قدر اور کس کو محیط ہو۔ بچہ ونوجوان کے لیے ابتدائی، ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا نصاب کیسا ہو جو فکری و عملی تربیت کے ساتھ زمانے کے تقاضے پورے کرتا ہوا قائدانہ کردار ادا کرے۔ (محمد احمد، اسلام آباد، پاکستان)
جواب
۱۔ مطالعہ کا مقصد تمام مطبوعہ کتابوں کو پڑھنا نہیں ہے۔ مطالعہ کا مقصد صرف یہ ہے کہ آدمی زمانہ کے بنیادی افکار کو جان لے۔ بقیہ چیزوں کو جاننے کا ذریعہ آدمی کی خود اپنی فطرت یا اُس کا کامن سنس ہے۔ اپنی فطرت کو مثبت اُصول پر زندہ کیجئے، اور آپ کے لیے انتخابی (selective) مطالعہ ہی صاحب علم اور صاحب بصیرت بننے کے لیے کافی ہوجائے گا۔
۲۔ میرے نزدیک طالب علمی کے زمانہ میںایک شخص کو صرف اپنی تعلیم پر دھیان دینا چاہیے۔ طالب علمی کے زمانہ میںاُس کا نظریہ تعلیم برائے تعلیم ہونا چاہیے۔ آج کل یہ رواج ہوگیا ہے کہ طلباء سیاسی اور قومی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ وہ میرے نزدیک مہلک ہے، طالب علم کے لیے بھی اور وسیع تر معنوں میں پوری قوم کے لیے بھی۔
۳۔ موجودہ زمانہ میںمسلم نوجوان کا سب سے بڑا مسئلہ منفی طرز فکر ہے۔ تقریباً ساری دنیا میں مسلم نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ وہ منفی ذہن کے تحت سوچنے لگے ہیں۔ اُنہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ غیر مسلم قومیں اُن کی دشمن ہیں۔وہ اُن کے خلاف سازشیں کررہی ہیں۔ وہ اُن کو مٹانے کے درپے ہیں۔ اس قسم کے نظریات سراسر بے بنیاد ہیں۔ کیوں کہ قرآن میں واضح لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ اُن کی داخلی کمزوری ہے، نہ کہ خارجی سازش۔
میرے نزدیک مسلم نوجوانوں کے لیے سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ اس غلط طرز فکر سے نکلیں۔ وہ دنیا کے تمام لوگوں کو انسان سمجھیں۔ وہ میری قوم اور غیر قوم کی اصطلاحوں میں سوچنا بند کریں۔ وہ دنیا کی قوموں کو مسلم دشمن اور مسلم نواز کے خانوں میں تقسیم نہ کریں۔ وہ مکمل طورپر مثبت طرز فکر کو اپنائیں، حتیٰ کہ اُن لوگوں کے معاملہ میں بھی جن کو اُنہوں نے خود ساختہ مفروضہ کے طورپر مسلم دشمن کا لقب دے رکھا ہے۔
ماہنامہ الرسالہ میں ہم بار بار ہر قسم کے دلائل کے ذریعہ یہ بتاتے رہے ہیں کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ شکایت اور احتجاج کا ذہن ختم کریں۔ وہ اپنی منفی سرگرمیوں کو یک لخت بند کردیں۔ جہاد کے نام پر متشددانہ سرگرمیوں کو پوری طرح چھوڑدیں۔ اس کے بجائے وہ اپنی طاقت کو تعلیم، دعوت، اصلاحِ معاشر ہ اور تعمیر و ترقی کے غیر سیاسی میدانوں میںاستعمال کریں۔
اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ علماء اور جماعتیں مکمل طورپر سیاسی سرگرمیوں سے علیٰحدہ ہوجائیں۔ وہ مسجد اور مدرسہ اور ادارہ جیسے شعبوں میں پُرامن طورپر تعمیری اصلاح کا کام کریں۔ موجودہ زمانہ میں ترکِ سیاست حقیقی ملّی کام کا آغاز ہے۔ جب تک اس راز کو نہ سمجھا جائے، ملت کے اندر کسی نتیجہ خیز کام کا وجود میں آنا ممکن نہیں۔
سوال
الرسالہ مارچ ۱۹۹۸ میں آپ نے صحیح البخاری کی روایت کے مطابق، یہ لکھا ہے کہ رسول اللہ کا طریقہ اختیار اعسر کے مقابلہ میں اختیار ایسر کا تھا۔ یہ حدیث بلاشبہہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم ترین صفت کو بتاتی ہے۔ لیکن قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طرزِ فکر و عمل دوسرے تمام پیغمبروں کا نہ تھا۔ مثال کے طور پر قرآن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں آیا ہے کہ انہوں نے ایک بڑے بت خانے میں داخل ہو کر وہاںکے تمام بتوں کو توڑ ڈالا اور صرف ایک بڑے بت کو اپنی حالت پر چھوڑ دیا (الانبیاء ۵۸)
ان حالات میں ان کا بتوں کو توڑنا مذکورہ حدیث میں بتائی گئی سنت سے مختلف عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ حالاں کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے زیادہ آسان عمل یہی تھا کہ وہ بت شکنی کے بجائے دعوت و تبلیغ کا طریقہ اختیار کریں مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو ان کی یہی بت شکنی کی ادا پسند آئی اور آپ کو آگ سے صحیح و سلامت بچایا۔ (غلام نبی کشافی، سرینگر)
جواب
آپ کا سوال غلط تقابل کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔ آپ نے استثناء کا تقابل عموم سے کیا ہے جو درست نہیں۔ صحیح البخاری کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے تمام پیغمبروں کی عمومی پالیسی کو بتاتی ہے۔ جہاں تک حضرت ابراہیم کے مذکورہ واقعہ کا تعلق ہے، وہ اتمام حجت کے بعد کا ایک واقعہ ہے جو دعوت کے عمل کی تکمیل کے بعد آخری مرحلہ میں کیا گیا۔ اتمامِ حجت کے بعد اس قسم کا استثنائی واقعہ ہر پیغمبر بشمول پیغمبر اسلام کی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ مثلاً پیغمبر اسلام کا یہ ارشاد کہ: أمرت ان اقاتل الناس حتی یقولوا لا الٰہ الا اللہ، اتمام حجت کے بعد کا کلمہ ہے، وہ آپ کے عمومی انداز دعوت کا بیان نہیں۔
آپ کا یہ ارشاد صحیح نہیں کہ حضرت ابراہیم نے پُر امن دعوت کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ یہ ایک غلط جنرلائیزیشن ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، حضرت ابراہیم نے ۱۷۵ سال کی عمر پائی۔ اس طویل عمر میں ہمیشہ آپ پُر امن دعوت ہی کاکام کرتے رہے۔ مذکورہ واقعہ صرف ایک دن کا واقعہ ہے، وہ اُن کی پوری عمر کا عمومی طرز عمل نہیں۔ آپ کا یہ ارشاد بھی درست نہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کو اُن کی بت شکنی کی ادا پسند آئی...‘‘۔یہ جو کچھ حضرت ابراہیم کے ساتھ پیش آیا وہ براہ راست خدا کے حکم سے تھا۔ ہر پیغمبر کے ساتھ اتمام حجت کے بعد اسی قسم کا واقعہ مختلف صورتوں میں پیش آیاہے۔
سوال
I have gone through your book The Concept of God written by Maulana W. Khan, which gave a vivid and brief encounter about the supernatural fact called God. But lastly an unseemly question appeared in my mind which says that 'What was the necessity for the infinite power, called God to create the universe and living organism?'
Thus I will be highly obliged if you please convey my question to the author.
(Soujatya Ghosh, student of Collage Leather Tech.)
جواب
میرے نزدیک اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے کائنات کو اپنی ضرورت کے لیے نہیں بنایا بلکہ اس کو ہماری ضرورت کے لیے بنایاہے۔ اس تخلیق کے ذریعہ خدا نے ہمارے لیے ایک عظیم امکان (great opportunity) کھولی ہے۔ وہ یہ کہ ہم سو سال یا اس سے کم کی مختصر زندگی میں حسن عمل کا ثبوت دیں اور موت کے بعد ابدی جنت میں داخلہ پاکر ابدی راحت کی زندگی گذاریں۔ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر آئیڈیل ورلڈ کی تلاش میں ہے۔ جنت اسی تلاش کا جواب ہے۔ موجودہ دنیا میں ہم آئیڈیل ورلڈ کو نہیں پاسکتے البتہ موجودہ محدود زندگی میں آئیڈیل کیرکٹر کا ثبوت دے کر اپنے آپ کو اس کا مستحق بنا سکتے ہیں کہ جنت کی ابدی دنیا میں ہم کو داخلہ ملے۔
سوال
موجودہ دور کی روشنی میں دعوت کی ذمہ داری جو ہم پر ڈالی گئی ہے اس کی شکل کیا ہونی چاہیے۔ کیا ہم یک طرفہ اپنی اصلاح کرتے رہیں اور اقوام عالم کی نظروں میں انتہا پسند اور دہشت گرد قرار دیے جائیں۔ کیا ملّت کے لیے یہ خودچیلنج نہیں ہے۔ پُر تشدد طریقِ کار کو استعمال کرنا سنّتِ رسول کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اور جو افراد ملّت سنت کی خلاف ورزی کریں وہ کیا فلاح پانے والے ہیں۔ اپنے حق یا آزادی کے نام پر ظلم کرنا اور بے گناہوں کا خون کرنا کون سی شہادت یا کارخیر ہے۔ (ابرار حسین قریشی، دھار، مدھیہ پردیش)
جواب
۱۔ دعوت سے مراد غیر مسلموں تک اسلام کا مثبت پیغام پہنچانا ہے۔ یہ مسلمانوں کے اوپر ایک لازمی فریضہ ہے۔ کسی بھی عذر کی بنا پر وہ مسلمانوں کے اوپر سے ساقط نہیں ہوتا۔
۲۔ موجودہ زمانہ میں مسلم تنظیمیں جگہ جگہ جہاد کے نام پر متشددانہ کارروائیاں کررہی ہیں۔ یہ بلا شبہہ اسلام میں ناجائز ہیں۔ مسلح جہاد صرف قائم شدہ حکومت کا حق ہے۔ غیر حکومتی افراد یا تنظیموں کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ جہاد کے نام سے کسی کے خلاف مسلح کارروائی شروع کردیں۔ مزید یہ کہ جو مسلمان عملاً اس میں حصہ نہیں لیتے مگر وہ تحریر اور تقریر کے ذریعہ اس کو جہاد بتاتے ہیں وہ بھی اسلامی اصول کے مطابق، اس ناجائز فعل میں برابر کے شریک ہیں۔ حتیٰ کہ وہ لوگ بھی اس میں شریک مانے جائیں گے جو اس برائی کو جانیں مگر وہ اس پر خاموش رہیں، وہ اس کے بارے میں غیر جانبدار بن جائیں۔
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۵

۱۔ کناڈا سے مسٹر آصف کا خط مورخہ ۱۴؍فروری ۲۰۰۴ موصول ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:
Last Sunday Feb. 8th. Noor Cultural Centre in Toronto had organized a lecture by Dr. Scott Kugle, a research scholar, Duke University, North Carolina. His Email address: Skugle1@swarthmore.edu
His topic of the lecture was: Non-Violence in Qur’an. It was a very interesting and informative lecture. The audience throughly enjoyed it. From his lecture I assumed that Dr. Scott is a Muslim and has embraced Islam.
In his discourse he talked about the various personalities of India and Pakistan who preached the idea of non-violence in their struggles to remove British from India. He talked in detail about the lives and struggles of Maulana Abul Kalam Azad and Abdul Gaffar Khan.
Then to my pleasant surprise he said, "There is a present day Muslim Scholar-Maulana Wahiduddin Khan-who is also in his books advocates non-violence. He said that Maulana Wahiduddin Khan has written many good books."
After the lecture I went to him and introduced myself. I said I teach Arabic once a week here at the Noor Cultural Centre and that we import books and sell them at cost price so that every one can easily afford them. I said that we import from Goodword Books almost all the books written by Maulana Wahiduddin Khan and they are always available with us and at the prices which are so affordable to everyone.
He was quite surprised to learn this. He has taken my email address. He said that when he comes to Toronto next time Insha Allah he will visit the new NON-PROFIT BOOKSTORE. (Asif, Canada)
۲۔ ویکلی سہارا (نئی دہلی) کے سب ایڈیٹر محمد اصغرفریدی نے ۲ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر الیکشن اور مسلمان کے موضوع سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ الیکشن کے موقع پر کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے اور کس پارٹی کو ووٹ نہ دیا جائے، اس کاتعلق عقیدہ یا مذہب سے نہیں ہے بلکہ ملّی مفادات سے ہے۔ یہ مفادات بھی ابدی نوعیت کے نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں احتجاجی سیاست بالکل بے معنٰی ہے:
Politics is an art of bargaining, rather than an art of protesting and complaining.
ایک بات یہ کہی گئی کہ جمہوری نظام میں کسی پارٹی کو سیاسی اچھوت بنانا کوئی مفید پالیسی نہیں۔ مزید یہ کہ الیکشن کے موقع پر لمبی مدّت کے لیے کسی ملّی مفاد کا حصول ممکن نہیں۔ ایسے موقع پر صرف محدود نوعیت کا کوئی مفاد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کی اس نوعیت کو لوگ اپنے ذاتی مفاد کے معاملہ میں خوب جانتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ ملّی مفاد کا ہو تو ہر آدمی بڑی بڑی تقریر کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی تقریریں صرف مقرر کی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہیں۔
۳۔ مسٹر عرفان احمد، ایم اے ایمسٹرڈم یونیورسٹی میں سوشل سائنس ریسرچ کے تحت ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین کے نظریات و افکار کا مطالعہ کررہے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں اپنا مقالہ مرتب کریں۔ اس سلسلہ میں وہ ۲ مارچ ۲۰۰۴ کو نئی دہلی میں صدر اسلامی مرکز سے ملے اور موضوع سے متعلق اُن کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین مثبت طرزِ فکر کے حامل نہ تھے، اُن کا فکر وقت کے سیاسی حالات کے ردّ عمل میں بنا۔ اس لیے یہ لوگ اسلام کی مثبت ترجمانی میںکامیاب نہ ہوسکے۔ سیاسی حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ صحیح اسلامی تفکیر وہ ہے جو وقتی حالات سے متاثر ہوئے بغیر اسلام کی دوامی تعلیمات کی روشنی میں بنائی جائے۔ اپنے اسی منفی فکر کی بنا پر موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین اسلام کی کوئی مثبت خدمت نہ کرسکے۔
۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ جو مسلمان بندے ماترم میں شریک ہوں یا بی جے پی کا ساتھ دیں وہ خارج از اسلام ہیں۔اس کے جواب میں صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ اس قسم کا فتویٰ لا نکفر من اہل القبلہ کے خلاف ہے۔ کیوں کہ اہل قبلہ کی تکفیر جائز نہیں۔
۵۔ دہلی پریس پرکاشن لمیٹڈ (نئی دہلی) کی طرف سے ایک انگریزی میگزین اَلائیو (Alive) کے نام سے نکلتا ہے (اس کا سابقہ نام کارواں تھا) اس میگزین کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر رام بلاس کمار نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم پالیٹکس سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ برصغیر ہند میں بد قسمتی سے ۱۰۰ سال سے بھی زیادہ مدت سے ایسے رہنما اٹھے جو صرف حالات کے رد عمل کی پیداوار تھے۔ چنانچہ ان کی سوچ منفی سوچ تھی۔ وہ ملت کو کوئی مثبت ایجنڈا نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب تک شکایت اور احتجاج کے احساس میں جیتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر وہ ہمیشہ نگیٹیو ووٹنگ کرتے ہیں۔ یعنی کسی پارٹی کو اینٹی مسلم پارٹی فرض کرکے اس کے خلاف ووٹ دینا۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ لائیں۔ دوسروں کی شکایت کے بجائے خود تعمیری کا مزاج پیدا کریں۔
۶۔ ایران کلچر ہاؤس اور ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) کے تعاون سے ۱۲ مارچ ۲۰۰۴ کو قرآنی علوم (Qur'anic sciences) پر ایک سیمینار ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس میں ایک بات یہ بتائی کہ سائنسی تعلیم کی اہمیت صرف مادی ترقی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ قرآن کو جدید تناظر میں سمجھنا اور جدید نسلوں کے لیے اسلام کو زیادہ قابل فہم بنانا، اس سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔
۷۔ انجمن امن دوست انسان دوست(نئی دہلی) کے تحت راشٹر شکتی فاؤنڈیشن کا سالانہ جلسہ ۱۴ مارچ ۲۰۰۴ کو میر درد روڈ (مہندیان) میں ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ اس جلسہ میں وہ بعض اسباب سے نہ جاسکے۔ البتہ انہوں نے ایک تحریری پیغام ان کے لیے بھیج دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ آج کے ماحول میں انسان دوستی اور امن دوستی کا پیغام بے حد اہم ہے۔ تعمیری سماج بنانے کے لیے یہ دو بنیادی نکتے ہیں۔
۸۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اُن کا خاص سوال یہ تھا کہ اخبارات (مثلاً ٹائمس آف انڈیا ۲۱ مارچ ۲۰۰۴) میں یہ خبر چھپی ہے کہ بی جے پی کے لیڈر مسٹر پرمود مہاجن کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں پرائم منسٹر کے اسپیشل سکریٹری مسٹر کُلکرنی بھی موجود تھے۔ اس میں آپ نے شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ آپ کی اس شرکت کو بی جے پی کی حمایت کے معنٰی میں لیا جارہا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ یہ شرکت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہ الرسالہ مشن کا ایک حصہ تھا۔ الرسالہ کا مشن یہ ہے کہ ہندستان میں ہندو۔ مسلم اتحاد پیدا کیا جائے۔ مسلمانوں میں دو قومی نظریہ کا ذہن ختم کیا جائے اور اس سوچ کو ختم کیا جائے کہ ہندستان دارالکفر یا دار الحرب ہے۔ بلکہ لوگوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جائے کہ ہندستان دار الانسان ہے۔ کسی کو اینٹی مسلم قرار دے کر اُس سے کٹنا داعی کے لیے جائز نہیں۔ داعی ہر ایک کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ ہر ملک کو دار الدعوہ سمجھتا ہے۔ یہی الرسالہ کا مشن ہے اور یہ مشن پچھلے تیس سال سے یہاں چلایا جارہا ہے۔
۹۔ بی بی سی انگریزی (اسکاٹ لینڈ) کی ٹیم ۲۳ مارچ ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آئی۔ اس کی قیادت مارک رچرڈ (Mark Richards) کررہے تھے جو کہ بی بی سی میں سینئر پروڈیوسر فیچرس ہیں۔ انہوں نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈکیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر صوفی اسلام اور اس سے تعلق رکھنے والے موضوعات سے تھا۔ مثلاً اسلام میں روحانیت کا تصور۔ اسلام میں میوزک اور قوالی کا تصور وغیرہ۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ روحانیت اسلام کی اصل اسپرٹ ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر روحانیت اور ربانیت پیدا کی جائے۔ جہاں تک میوزک اور قوالی کا تعلق ہے اس کو کچھ صوفیاء نے رواج دیا۔ اس سے صوفیاء کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اس کے ذریعہ سے اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔ تاہم اس کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے وہ میوزک اور قوالی وغیرہ کو پسند نہیں کرتے ۔ مگر صوفیاء اس کو روحانیت پیدا کرنے کے لیے ایک مددگار ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (Tel.: 0141-3382721)
۱۰۔ رائٹر نیوز ایجنسی کی نمائندہ مز ماریہ ابراہام نے بمبئی سے بذریعہ ٹیلی فون صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کی انتخابی پالیسی سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں میںاب بڑے پیمانہ پر نئی سوچ آئی ہے۔ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو زیادہ منصوبہ بند انداز میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انٹرویو ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو لیا گیا۔
۱۱۔ فکّی آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو ایک عمومی جلسہ ہوا۔ اس میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اس جلسہ کا موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کی الیکشن پالیسی کیا ہو۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ مسلمان اب تک زیادہ تر نگیٹیو ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ وہ پازیٹیو ووٹنگ کریں اور ملک میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں اور اپنے آپ کو تخلیقی اقلیت ثابت کریں۔
۱۲۔ ہندی روزنامہ دینک جاگرن (نئی دہلی) کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر راج کشور نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ مسلمانوں کی انتخابی پالیسی کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی انتخابی پالیسی اب کسی قدر بدلی ہے۔ مگر ابھی بہت زیادہ نہیں بدلی ہے۔ مسلمانوں کے اندر منفی سیاست کا رجحان ختم کرکے مثبت سیاست کا رجحان لانے کے لیے لمبے کام کی ضروت ہے۔
۱۳۔ انگر یزی میگزین ٹائم (Time) کے کرسپانڈنٹ مسٹر اروند ادیگا (Aravind Adiga) نے ۴ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر جدید دنیا اور مسلمان سے تھا، مثلاً اجتہاد اور ریفارم اور جہاداور مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات اور مغربی دنیا کے بارے میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر، وغیرہ۔ سوالات کے جواب میں انہیں بتایاگیا کہ بہت سی چیزیں جن کو مغربی میڈیا میں منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ در اصل مسلمانوں کا اپنا فعل ہے نہ کہ اسلام کی اصولی تعلیم ۔ دوسری قوموں سے مسلمانوں کی نفرت سراسر غیر اسلامی ہے کیوں کہ اس قسم کی نفرت اسلام میں جائز ہی نہیں۔ آج کل جہاد کے نام پر جو تشدد کیا جارہا ہے وہ بھی غیر اسلامی ہے کیوں کہ اسلام میں مسلح جہاد صرف حکومت کا حق ہے نہ کہ عوام کا حق ۔دوسرے ممالک ہمارے لیے دار الحرب یا دار الکفر نہیں ہیں بلکہ وہ دار الانسان ہیں۔
۱۴۔ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) کے ایک پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز نے اس کے ایک پینل ڈسکشن میں حصہ لیا۔ اس کا موضوع الیکشن کے حوالہ سے مسلمان اور پالیٹکس تھا۔ اس میں چار افراد نے حصہ لیا۔ یہ پروگرام ۱۶ اپریل ۲۰۰۴ کو ہوا۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایاگیاکہ مسلمانوں میں اب ایک نئی سیاسی سوچ اُبھررہی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ نگیٹیو ووٹنگ کا طریقہ صحیح نہیں۔ نیز یہ بھی صحیح نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو مسلم دشمن اور مسلم نواز کے اعتبار سے بانٹا جائے۔الیکشن میں جمہوریت کی اسپرٹ کے تحت حصہ لینا چاہیے۔ اسی میں ملک کا بھی فائدہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کا فائدہ بھی۔
۱۵۔ اچاریہ سوشیل کمار آشر م (نئی دہلی) میں ۱۸ اپریل ۲۰۰۴ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ مختلف مذاہب میں امن کے اشو پر تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور موضوع پر اظہار خیال کیا۔ ان اللّٰہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف کی روشنی میں بتایا کہ خدا کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں صرف امن کا طریقہ ہی موثر اور نتیجہ خیز ہے۔ تشدد کا طریقہ کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا۔
۱۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۴ اپریل ۲۰۰۴ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں کئی لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ مسلمان اور جدید میڈیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا سے شکایت کرنا بے فائدہ ہے۔ میڈیا ایک انڈسٹری ہے۔ اپنے انٹرسٹ کے تحت وہ سافٹ نیوز کو چھوڑتا ہے اور ہارڈ نیوز کو لیتا ہے۔ خود مسلمان ان مسلم افراد کی مذمت کریں جو اسلام کے نام سے تشدد کرتے ہیں اور میڈیا کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں۔
۱۷۔ ہندی روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے رپورٹر فضل غفران نے ۲۵ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلمان اور الیکشن سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ سیاست کوئی عقیدہ کی چیز نہیں۔ وہ عملی زندگی کا ایک مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملی اور مذہبی مقاصد کو خود اپنے اداروں کے تحت حل کریں۔ سیاست میں انہیں نیشنل اسپرٹ کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ وہ پولیٹکل پارٹی کو سپورٹ دیتے ہوئے پورے ملک کے مفاد کو سامنے رکھیں۔ ملک کے سیاسی اور اقتصادی مفاد ہی میں مسلمانوں کا سیاسی اور اقتصادی مفاد بھی ہے۔ کسی پولیٹکل پارٹی کو پرومسلم اور کسی پولیٹکل پارٹی کو اینٹی مسلم قرار دے کر اپنا سیاسی پروگرام بنانا جمہوریت میں قابل عمل نہیں۔
۱۸۔ نئی دہلی کے میگزین آؤٹ لک (ہندی ایڈیشن) کی نمائندہ مزگیتا شری نے ۲۷ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم سیاست سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا میں جو پولیٹکل پارٹیاں ہیں ان کو پرومسلم اور اینٹی مسلم میں بانٹنا درست نہیں۔ یہ جمہوری اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہر پارٹی کا اپنا سیاسی انٹرسٹ ہے۔ کوئی بھی پارٹی اینٹی مسلم پارٹی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ملک کے تمام لوگوں کو انسان سمجھیں۔ الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے میں وہ ملک کے انٹرسٹ کو سامنے رکھ کر ووٹ دیں۔ نہ کہ اس نظریہ کے تحت کہ فلاں پارٹی اینٹی مسلم ہے اور اس کو ہمیں ہرانا ہے۔
۱۹۔ انڈیا ٹوڈے (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر منوج ورما نے ۲۷ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر انتخابی سیاست اور مسلمان سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے حالات کے اعتبار سے اس قسم کی سیاست کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ ایک پولیٹکل پارٹی کو پرومسلم اور دوسری پولیٹکل پارٹی کو اینٹی مسلم ڈکلیر کریں اوراس کے مطابق اپنی سیاست چلائیں۔ انہیں ہر پولیٹکل پارٹی کو انسان پارٹی کی حیثیت سے لینا ہے۔ انہیں منفی سوچ کو چھوڑ کر مثبت سوچ کے تحت اپنی پالیسی بنانا ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ان کی تعلیمی پس ماندگی ہے۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھایا جائے۔ اس کے بغیر ان کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا۔ بیلٹ باکس سے ان کی قسمت بر آمد نہیں ہوسکتی۔
۲۰۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکر کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار ساہ (Sanjay Kumar) نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق عید میلاد النبی سے تھا۔ جواب میں بتایاگیا کہ عید میلاد النبی در اصل ہندوؤں کے تہوارجنم اسٹمی کی نقل ہے۔ اسلام میں صرف دو تہوار ہیں —عید الفطر اور عیدالاضحی۔ ان کے سوا جو اور تہوار مسلمان مناتے ہیں وہ ان کا اپنا رواج ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم نہیں۔(Tel. 9899237833)
۲۱۔ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمز کے نمائندہ مسٹر سنجے ورما نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر موجودہ الیکشن اور اس میں مسلمانوں کا حصہ کے بارے میں تھا۔ جوابات کے دوران بتایا گیا کہ آج کل بعض نام نہاد مسلم رہنما جو اپیل کررہے ہیں کہ مسلمان بی جے پی کوووٹ دیں اس کا کوئی اثر عملی طور پرہونے والا نہیں۔ اس لیے کہ یہ نام نہاد رہنما وہی ہیں جو اس سے پہلے برابر یہ کہتے رہے ہیں کہ بی جے پی مسلم دشمن پارٹی ہے اور مسلمانوں کو اسے ہرانا ہے۔ ایسی حالت میں ان کی یہ نئی بات اسی وقت موثر ہوسکتی ہے جب کہ وہ اپنی موجودہ اپیل سے پہلے یہ اعلان کریں کہ اس سے پہلے ہم نادانی میں مبتلا تھے، اب ہم کو سمجھ آئی ہے۔اپنی غلطی کا اعتراف کئے بغیر اس قسم کی اپیلوںکی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی بھی مسلمان موجودہ حالت میں اس کو سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔ اپیل کرنے والا جب اپنی اپیل کی کوئی معقول وجہ نہ بتار ہا ہو تو اس کوسننے والے کیوں کر اسے اہمیت دے سکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اندر منفی سیاست کا ذہن پیدا کیا ہے ۔ اب اسی ذہن کو مثبت سیاست پر لانے کے لیے کوئی معقول وجہ بتانی پڑے گی۔ محض موجودہ قسم کی اپیل اس معاملہ میں موثر نہیں ہوسکتی۔
۲۲۔ نئی دہلی کے ای ٹی وی (Enadu TV) کی ٹیم نے ۲مئی ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع عید میلاد النبی تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ عید میلادالنبی کو ئی اسلامی تیوہار نہیں وہ مسلمانوں کا اپنا ایک رواج ہے۔ دورِ اول میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ عرب ملکوں میں اب بھی اس قسم کا تیوہار نہیں منایا جاتا۔ یہ زیادہ تر ہندستان اور پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر جلوس وغیرہ کے جو ہنگامے کئے جاتے ہیں وہ تو درست نہیں البتہ اگر اس دن سیرت کے عنوان پر جلسہ کیا جائے اور پیغمبر اسلام ﷺ کا أسوہ لوگوں کو بتایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
۲۳۔ بی بی سی لندن سے ۳ مئی ۲۰۰۴ کو ایک ریڈیائی ڈسکشن کا پروگرام تھا۔ ایک صاحب (وسعت اللہ خاں) لندن سے بول رہے تھے، ایک صاحب (سید منور حسین ) کراچی سے بول رہے تھے۔ اور صدر اسلامی مرکز دہلی سے بول رہے تھے۔ موضوع تھا: دور جدید میں اجتہاد—تینوں ایک دوسرے کی آواز سن رہے تھے۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ اجتہاد ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کو کسی بھی حال میں موقوف نہیں کیا جاسکتا۔
۲۴۔ نئی دہلی کے جین ٹی وی (Jain TV) کے اسٹوڈیو میں ۴ مئی ۲۰۰۴ کی شام کو ایک ڈسکشن کا پروگرام ہوا۔ا س میں اینکر(Anchor) کے علاوہ دو آدمی شریک تھے، صدر اسلامی مرکز اور کانگریس کے سینئر لیڈر سید جعفر شریف۔ اس کا موضوع انڈیا کے جنرل الیکشن مئی ۲۰۰۴ میں مسلمانوں کی انتخابی پالیسی تھا۔موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کا ایڈوکیٹ نہیں۔ میرا ایک روحانی مشن ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کس کو ووٹ دیں اور کس کو ووٹ نہ دیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان نگیٹیو ووٹنگ کو چھوڑ دیں اور پازیٹیو ووٹنگ کا طریقہ اختیار کریں۔ مسلم مسائل کو انتخابات کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔ الیکشن میں نیشنل انٹرسٹ کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ سید جعفر شریف نے اپنی تقریر میں صدر اسلامی مرکز کے نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک بڑے عالم دین ہیں۔ہم سب لوگ ان کے قدر داںہیں۔ ان کو کسی ایک سیاسی حلقے سے جوڑنا صحیح نہیں۔ وہ سارے ملک کے لیے قابل احترام بزرگ ہیں۔
۲۵۔ الہدیٰ انٹرنیشنل کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دبئی (عرب امارات) کا سفر کیا۔ یہ سفر ۵مئی کو شروع ہوا اور ۱۰ مئی ۲۰۰۴ کو ختم ہوا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۶۔ کشمیر نیوز سروس کے نمائندے مسٹر ماجد جہانگیر اور ان کے ساتھی ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آئے اور ٹیپ ریکارڈر پر صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق ان موضوعات سے تھا:اسلام، مسلمان، کشمیر، تعلیم ۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ تعلیم میں ان کی پسماندگی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دیں۔
۲۷۔ کشمیر نیوز سروس (سری نگر) کی ٹیم مسٹر ماجد جہانگیر کی قیادت میں ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو مرکز میںآئی۔ انہوں نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ مسلمانوں کا مسئلہ خارجی نہیں داخلی ہے۔مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ موجودہ زمانہ میں تعلیم میں پیچھے ہوگئے اسی سے ان کے تمام مسائل پیدا ہوئے۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی آئیڈیلزم کے تحت طے نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملہ میں لوگوں کو حقیقت پسند بننا ہوگا اور اس معاملہ میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ جغرافی اعتبار سے اس کا جواسٹیٹس کو (status quo) بن گیا ہے اس کو مستقل حالت کے طورپر مان لیا جائے۔
۲۸۔ نئی دہلی کے میگزین لائف پوزیٹیو (Life Positive) کی خاتون ایڈیٹر مز سواتی چوپڑا (Swati Chopra) نے ۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع موت تھا۔ یعنی اسلام میں موت کا تصور ۔ یہ انٹرویو وہ اپنے میگزین کے خصوصی شمارہ میں شائع کریںگی۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ وہ عارضی زندگی سے نکل کر ابدی زندگی میں داخل ہونا ہے۔ اسلام کے مطابق موجودہ عارضی زندگی امتحان کے لیے ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد آدمی کو موت دی جاتی ہے تاکہ وہ اگلی زندگی میںاپنے عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل کیا جائے۔ مزید یہ بتایا گیا کہ موت کے ساتھ احتساب (accountability) کا تصور جڑا ہوا ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ اس کو صرف ایک محدود مدت تک کی آزادی ہے۔ اس کے بعد وہ خدا کی عدالت میں اپنے عمل کا حساب دینے کے لیے حاضر کردیا جائے گا۔ یہ تصور آدمی کے لیے برائی کے خلاف چیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ صحیح زندگی گزارے تاکہ وہ ابدی زندگی میں کامیابی سے محروم نہ ہو۔
۲۹۔ نوئڈا کے اسپورٹس اینڈ کلچرل کلب(Sports and Cultural Club) میں ۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو ایک ڈسکورس کا پروگرام ہوا۔ اس میں ایک سو کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا: مذہب کے دس آفاقی اصول۔ ہر مقرر کو دس منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سوامی گوکل آنند نے ہندوازم کے دس اصول بتائے۔ فادر ڈومینیک امینول نے مسیحیت کے دس اصول بتائے۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلام کے دس اصول بتائے۔ یہ دس اسلامی اصول یہ تھے—انسانی اخوت، مذہبی ٹالرینس ، صلح اور ایڈجسٹمنٹ، پڑوسی کو تکلیف نہ دینا، نرمی کا طریقہ، تواضع، لایعنی کام نہ کرنا، بڑے شر سے بچنے کے لیے چھوٹے شر کو گوارا کرنا، غصہ اور انتقام نہیں، پر امن طریقِ کار نہ کہ پرتشدد طریقِ کار۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں تھا۔ سامعین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ سامعین میں ہر مذہب کے لوگ شریک تھے۔ تقریر کے بعد سوال و جواب ہوا۔ حاضرین کو اسلام کے موضوع پر چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی دی گئیں۔
۳۰۔ نئی دہلی کے منداکنی انکلیو کے علاقہ میں این آرآئی کامپلیکس (N. R. I. Complex) میں ۲۳مئی ۲۰۰۴ کو تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں صدر اسلامی مرکز کو تقریر کے لیے یہ عنوان دیا گیا تھا:
How to strike a balance between materialism and spirituality.
انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مادی دنیا میں رہتے ہوئے روحانیت کو حاصل کیا جائے۔ اسلام میں روحانیت کا ذریعہ توسم ہے۔ یعنی مادی چیزوں سے روحانیت اور ربانیت کا سبق لینا۔ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرنا۔ توسم کی اس صلاحیت کے لیے آدمی کو اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔
۳۱۔ مرکزی سیاسی لیڈر پرمود مہاجن کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں زیادہ تر مسلم دانشور شریک ہوئے۔اس کو مسٹر سدھیندر کلکرنی کی طرف سے آرگنائز کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع الیکشن اور مسلمان تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستانی مسلمان عام طور پر الیکشن کے موقع پرنگیٹیو ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ انڈیا کی سیاسی پارٹیوں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم میں بانٹتے ہیں۔ یہ منفی سیاست مسلمانوں کے لیے تباہ کن ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر نظر ثانی کریں اور مثبت سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔
۳۲۔ ۲۷جون ۲۰۰۴ سے ایک نیا پروگرام شروع کیاگیا ہے۔ ہر دوسرے اتوار (alternate Sunday) کو صدر اسلامی مرکز دہلی سے ٹیلی فون پر خطاب کرتے ہیں جو امریکا (فلاڈلفیا کے ایک اجتماع میں سُنا جاتا ہے۔ یہ پروگرام تقریباً دوگھنٹہ کا ہوتا ہے۔ ایک امریکی سامع کا خط یہاں نقل کیا جاتا ہے۔
Respected Maulanan Sahab,
Assalaamu alaykum
Our Spiritual Class every other Sunday with you over telephone is very spiritually elevating for us. We are all grateful to Allah (SWT) for making this happen so easily. We are exploring further how we can make this program accessible to many people all over the world. Make Du’a, it is surely poosible with Allah's help.
I think it is helpful to put this news in Al-Risala Urdu, and ask US subscribers to contact me at 215-240-4298.
واپس اوپر جائیں