Pages

Saturday 2 January 2010

Al Risala | January 2010 (الرسالہ،جنوری)


پولینڈ کا سفر

ویٹکن (Vatican) کی سرپرستی میں ایک انٹرنیشنل مسیحی تنظیم قائم ہے۔ یہ تنظیم اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی تنظیم ہے۔ وہ 1986 میں قائم ہوئی۔ اِس کا نام کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (Community of St. Egidio) ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر روم (اٹلی) میں ہے۔ اِس تنظیم کی طرف سے ہر سال دنیا کے مختلف مقامات پر اجتماعات کئے جاتے ہیں۔ اِس میں ہر مذہب کے نمائندے شرکت کرتے ہیں۔ اِس سال یہ اجتماع پولینڈ کے شہر کریکو (Krakow) میں 6-8 ستمبر 2009 کو منعقد کیا گیا۔ اِس کی دعوت پر پولینڈ کا سفر ہوا۔ اِس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
70 Years After World War II Faiths and Cultures in Dialogue
پولینڈ کا نام سب سے پہلے 1939 میں میرے علم میں آیا۔ اُس وقت میں اعظم گڑھ (باقی منزل) میں رہتا تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے ایک ہندو پرنسپل تھے۔ اُن کا نام مسٹر سَکَل دیپ سنگھ تھا۔ 18 ستمبر 1939 کی صبح کو وہ ایک انگریزی اخبار لے کر ہمارے یہاں آئے۔ یہ غالباً ڈیلی پانئر (Pioneer) تھا جو اُس وقت الٰہ آباد (یوپی) سے نکلتا تھا۔ انھوںنے کہا کہ یورپ میںایک بہت بڑی لڑائی چھڑ گئی ہے۔ جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کرکے اُس پر قبضہ کرلیا ہے۔ میں نے دیکھا تو انگریزی اخبار کی پہلی سرخی یہ تھی:
Poland in German Hand
اُس زمانے میں یوپی کے علاقے میں پانئر اخبار کی بہت دھوم تھی۔ مشہور شاعر اکبر الٰہ آبادی (وفات: 1921 ) نے اپنے ایک شعر میں کہا تھا :
بات وہ ہے جو پانئر میں چھپے
یہ دوسری عالمی جنگ کا آغاز تھا۔ یہ جنگ6 سال (1939-1945) تک جاری رہی اور پھر ہولناک تباہی کے بعد ختم ہوئی۔ اِس جنگ میںتقریباً 6ملین انسان مارے گئے۔
میںاُس وقت مدرسۃ الاصلاح (سرائے میر، اعظم گڑھ) میں پڑھتا تھا۔ اُس وقت مجھے ٹکٹ (postage stamp) جمع کرنے کا شوق ہوا۔ غالباً پہلا بیرونی ٹکٹ پولینڈ کا تھا۔ٹکٹ جمع کرنے کا یہ شوق مدرسے کی زندگی میں بالکل اجنبی تھا، لیکن مجھے اُس سے بہت فائدہ ہوا۔ ٹکٹ جمع کرنے کا شوق میرے لیے جغرافیہ اور تاریخ کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بن گیا۔
یہ جنگ جرمنی کے ڈکٹیٹر ہٹلر (Adolf Hitler) نے شروع کی تھی۔ اُسی زمانے میں ہٹلر کی خود نوشت سوانح عمری کا ترجمہ اردو میں ’’میری جدوجہد‘‘ کے نام سے چھپا تھا۔ میںنے اس کو پڑھا۔ بعد کو بھی میں ہٹلر کے بارے میں بہت کچھ پڑھتا رہا۔
میرا اندازہ ہے کہ ہٹلر غیر معمولی صلاحیتوں کا آدمی تھا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ ہٹلر کو آخری زمانے میں یہ احساس ہوگیا تھا کہ جنگ چھیڑنا اس کی غلطی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ نئے ہتھیاروں کے وجود میں آنے کے بعد اب جنگ بے فائدہ ہوچکی ہے۔ اگرتیسری جنگ ہوئی تو اُس میںکسی کو جیت حاصل نہ ہوگی، بلکہ صرف یہ ہوگا کہ کچھ لوگ عام تباہی سے بچ جائیں گے:
No victors, only survivors
ہٹلر کے اندر بے پناہ حد تک قوتِ ارادہ (will power) موجود تھی۔ میرا اندازہ ہے کہ ہٹلر اگر زندہ رہتا تو شاید وہ امن کے لیے کوئی بڑا کام کرتا۔ مگر اس کو ڈر تھا کہ الائڈ پاورس (Allied Powers) کی طرف سے اُس پر جنگی مجرم کی حیثیت سے مقدمہ چلایا جائے گا اور اس کو پھانسی دے دی جائے گی۔ اِسی اندیشے کی بنا پر اس نے ایک بنکر میں 30 اپریل 1945 کوخود کشی کرلی۔
پولینڈ کی یہ کانفرنس تین دن کے لیے تھی۔ اِس کا انعقاد ایک مسیحی تنظیم کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو (Community of Saint Egidio)کی طرف سے کیاگیا تھا۔ اِس تنظیم کا مقصد یہ ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں کے درمیان امن اور دوستانہ تعلقات کو فروغ دیاجائے۔
سینٹ ایجی ڈیو (Saint Egidio) یونان کے ایک قدیم مسیحی راہب تھے۔ وہ 650 ء میں پیدا ہوئے اور 710 ء میں ان کی وفات ہوئی۔ اُنھیں کے نام پر یہ تنظیم قائم کی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے 70 ملکوں میں ان کے 70 ہزار ممبران موجود ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک تنظیم ہے۔ مسٹرآندریہ رکاردی (Andrea Riccardi) اِس تنظیم کے بانی ہیں۔ عالمی اداروں کی طرف سے کمیونٹی کو مختلف قسم کے انعامات دئے گئے۔ مثلاً یونیسکو کی طرف سے 1999 میں اس کو پیس پرائز (Peace Prize) ملا، اور 2002میں اس کو نوبل پیس پرائز (Noble Peace Prize) دیاگیا۔
جس زمانے میں مجھے پولینڈ کا سفر کرنا تھا، اُس زمانے میں سوائن فلو (swine flu) کی خبریں بہت زیادہ آرہی تھیں۔ اِس بنا پر مجھے سفرکرنے میں تردد تھا۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کیا فیصلہ کیا جائے۔ اِس بارے میں میرے ایک ساتھی نے استخارہ کیا۔ اس کے بعد ان کو رات میں ایک خواب آیا۔ یہ خواب خود اُن کے قلم سے میری ڈائری میں اِس طرح موجود ہے:
’’10 اگست 2009 کی رات کو میںنے ایک خواب دیکھا۔ میںنے دیکھا کہ راقم
الحروف اور مولانا وحیدالدین خاں صاحب ایک جگہ فرش پر قعدہ کی حالت میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اِس دوران دو عامل مولانا کے پاس آتے ہیں۔ مولانا اُن سے کہتے ہیں کہ آپ لوگ جو چاہیں پڑھ کر میرے اوپر پھونکیں، ان شاء اللہ مجھ پر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوگا۔ چناںچہ دونوں عامل کافی دیر تک کچھ پڑھ کر مولانا کے اوپر پھونکتے رہے، مگر مولانا کے اوپر اس کا کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ کافی دیر کے بعد مذکورہ عامل جب پھونک کر فارغ ہوئے تو میں نے دیکھا کہ مولاناکے چہرے پر شکر کے گہرے آثار نمایاں تھے۔ مولانا کہہ رہے تھے کہ یہ سب خدا کی رحمت ہے کہ مجھ پر اِن لوگوں کے عمل کا کوئی منفی اثر نہیں ہوا۔ آخر میںاُن عاملوں نے کہا کہ ہم لوگوں نے ایسی ایسی چیزیں پڑھ کر پھونکی تھیں کہ آدمی کا بدن چھلنی ہوجائے، مگر تعجب ہے کہ مولانا کے اوپر اِس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ اِس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ یہ فجر سے پہلے کا وقت تھا‘‘۔ (محمد ذکوان ندوی)
ہر بار سفر کے موقع پر میرا معمول رہا ہے کہ میں سفر کے موقع پر یہ دعاء کرتا ہوں: اللہم أنت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الأہل والمال (أبو داؤد، کتاب الجہاد) مگر پولینڈ کے سفر میں میری زبان سے ایک نئی دعاء نکلی۔ میںنے ایک پائنٹ آف ریفرنس کو لے کر دعا کی۔ کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے ایک ممبر ہیں ۔ اُن کانام ڈاکٹر لونارڈ و(Leonardo Palombi) ہے۔
کمیونٹی کے پچھلے سالوں کے ایک پروگرام میں ان کا ٹیلی فون آیا تو میںنے کہا کہ میں صرف ایک شرط پر آسکتا ہوں، اور وہ ہے — ائر پورٹ سے ائر پورٹ تک آپ کی موجودگی:
Your availibility from airport to airport
انھوں نے اِس کا وعدہ کیا۔ چناںچہ جب میں رومانیہ کے ائر پورٹ پر اترا تو وہ برابر میرے ساتھ رہے، یہاںتک کہ واپسی میں ائر پورٹ تک وہ ہمیں پہنچانے آئے۔
موجودہ سفر میں میرے اوپر عجز کا احساس غالب تھا۔ اِس احساس کے تحت میری زبان سے دعاء نکلی کہ یا اللہ، تو اِس سفر میں دہلی سے دہلی تک (from Delhi to Delhi) میرا ساتھی بن جا۔ یہ سفر میں صرف تیرے لئے کررہا ہوں، تو ہی اِس سفر میں میرا مددگار بن سکتا ہے۔
عجیب بات ہے کہ یہ دعاء کامل طورپر قبول ہوئی۔ پورے سفر میں اِس کا مشاہدہ ہوتا رہا۔ یہ پورا سفر اتنا آسان بن گیا کہ واپسی کے بعد میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ سفر ہمارے لیے گویا ایک خواب جیسا سفر (dream journey) تھا۔ ہم ابھی دہلی میں تھے کہ اس کے آثار دکھائی دینے لگے۔ ہمارے قافلے میں چارافراد شامل تھے— راقم الحروف، مسٹر رجت ملہوترا، سعدیہ خان، مولانا محمدذکوان ندوی۔ نئی دہلی میں پولینڈ کے سفارت خانے نے نہایت آسانی سے ہم کو ویزا دے دیا اور ہم سے ویزا کی فیس نہیں لی جس کی مجموعی رقم 16 ہزار روپئے تھی۔
4 ستمبر 2009 کی شام کو دہلی سے پولینڈ کے لیے روانگی ہوئی۔ آج کے اخباروں میں سب سے زیادہ نمایاں خبر یہ تھی کہ آندھرا پردیش کے چیف منسٹر ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی کا انتقال ہوگیا۔ وہ ایک ہیلی کاپٹر میں سفر کررہے تھے۔ ان کا ہیلی کاپٹر بارش کے طوفان میں پھنس گیا اور ایک پہاڑی سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔
راج شیکھر ریڈی کی موت کے بعد لوگوں کے تاثرات اِس قسم کے الفاظ میں سامنے آئے— ایک کریسمیٹک لیڈر (charismatic leader)چلا گیا، ایک کامیاب چیف منسٹر چلا گیا، ایک مقبولِ عام لیڈر چلا گیا، وغیرہ۔ میں نے حیدرآباد کے حبیب بھائی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ آندھرا پردیش کے مسلمانوں کو یہ کہنا چاہیے کہ ایک مدعو چلا گیا۔آندھرا پردیش کے مسلمانوں کی یہ ذمے داری تھی کہ وہ اپنے اِس لیڈر تک خدا کا پیغام پہنچائیں، لیکن وہ اپنی اِس ذمے داری کو ادا نہ کرسکے اور جانے والا ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔ اِس کوتاہی کی پچاس فی صد ذمے داری اگر جانے والے لیڈر پر ہے تو پچاس فی صد ذمے داری وہاں کے رہنے والے مسلمانوں پر ہے۔
4 ستمبر 2009 کی رات کو 10 بجے ہم لوگ ایک قافلے کی صورت میں ائر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔راستے میں حسب معمول کاروں کی بھیڑ نظر آئی۔ میںنے سوچا کہ ہمارے ملک میں سڑکیں تو چوڑی نہیں کی گئیں، البتہ موٹر کار بنانے والی کمپنیوں نے تنگ سڑکوں پر کاروں کی بھرمار کردی۔ اب اُس میں مزید اضافہ یہ ہوا ہے کہ ایک بڑی کمپنی نے سستی کار بنائی ہے جس کا نام نینو (Nano) ہے۔ نینو کے آنے کے بعد سڑکوں پر کاروں کی بھیڑ اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ انڈیا کے شہروںمیں سفر کرنا ہی مشکل ہوجائے گا۔ کوئی کار بنانے والی کمپنی اگر کار بنانے کے بجائے جدید قسم کی بائیسکل بناتی تو یہ غالباً قوم کی زیادہ بڑی خدمت ہوتی۔
جب ہم لوگ ائر پورٹ کے سامنے پہنچے تو وہاں بہت زیادہ بھیڑ دکھائی دی۔ ہمارے ساتھ دو گاڑیاں تھیں۔ اپنی عادت کے مطابق، میںنے کہا کہ اِس بھیڑ میں کہاں گاڑی کھڑی کریں گے اور کس طرح کتابوں کے یہ کارٹن اندر لے جائیں گے۔ یہ سوچ کر میں پریشان ہورہا تھا۔ لیکن ہمارے ساتھی مسٹر رجت ملہوترا بالکل مطمئن تھے۔ انھوں نے اطمینان کے ساتھ کہا:
Maulana, it is angel’s problem.
اور واقعۃً ایسا ہی ہوا۔ تمام مراحل اتنی آسانی سے طے ہوگئے، جیسے کہ ہمارے بدلے فرشتے سارا کام کررہے ہوں۔
ہمارے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ دس کارٹن میں موجود تھا۔ دہلی کے اندرا گاندھی انٹرنیشنل ائر پورٹ پر جب اس کو چیک ان (check in) کیا جارہا تھا تو بکنگ آفس پر بیٹھی ہوئی خاتون نے اس کو وزن کرنے کے بعد کہا کہ اِس کا وزن پندرہ کلو زیادہ ہے۔ خاتون نے پہلے کہا کہ یہ پندرہ کلو زیادہ ہے، اس کو آپ کم کیجئے۔ ہمارے ساتھی سوچنے لگے کہ کس طرح اس کو کم کیا جائے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد خاتون نے دوبارہ خود ہی کہا کہ کوئی بات نہیں، جانے دیجئے۔ چناں چہ ہمارے ساتھیوں نے کتابوں کے پیکٹ کو چیک ان کردیا۔
عجیب بات یہ ہے کہ عین اُسی وقت ایک اور مسافر آیا۔ اس کا سامان بھی زیادہ تھا۔ ائرپورٹ کی خاتون نے اس کا سامان صرف اُس وقت چیک اِن کیا جب کہ اُس نے کچھ سامان نکال کر اُس کا وزن کم کیا۔ اِس طرح کے واقعات پورے سفر میں پیش آتے رہے جن کا ذکر ان شاء اللہ اِس سفر نامے کے دوسرے مقامات پر آئے گا۔
ہمارے ساتھیوں کے بیگ میں دعوتی لٹریچر موجود تھا۔ چناں چہ انھوںنے ائر پورٹ ہی سے اُسے لوگوں کو دینا شروع کردیا۔ ائر پورٹ کے عملہ کی ایک خاتون کو ’’ریلٹی آف لائف‘‘ کی ایک کاپی دی گئی۔ بھیڑ کی وجہ سے خاتون نے عجلت کے ساتھ پمفلٹ لے کر رکھ لیا۔ ہم لوگ پملفٹ دے کر امیگریشن کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد ہم نے دیکھا کہ وہ خاتون تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی ہماری طرف آرہی ہے۔ اس نے قریب آکر کہا کہ — آپ کے اِس خوب صورت پمفلٹ کے لیے آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ:
Thank you very much for this beautiful pamphlet!
’’تھینک یو‘‘ کہنا جدیدکلچر کا ایک لازمی حصہ ہے۔ کوئی آدمی اگر تھینک یو نہ کہے تو جدید معیار کے مطابق، اُس کو پس ماندہ شخص کہا جائے گا۔ اگرآپ کسی کو ایک ایسی کتاب دیں جو اُس کے اپنے مذہب کے علاوہ کسی اور مذہب سے تعلق رکھتی ہو تو جدید مذہب کے مطابق، اُس آدمی کا فرض ہے کہ وہ آپ کو تھینک یو کہے، خواہ وہ اس سے اتفاق رکھتا ہو یا اختلاف۔ یہ ایک نیا دعوتی امکان ہے جو موجودہ زمانے میں ساری دنیا میں پیدا ہواہے۔
ائرپورٹ کے رسمی مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ اندر داخل ہوگئے۔یہاں اوپر کی منزل میں شان دار لاؤنج (lounge) موجود تھا۔ یہاں آرام دہ نشست گاہوں کے درمیان کھانے پینے کی مختلف چیزیں موجود تھیں۔ ہم لوگ تقریباً ایک گھنٹہ یہاں بیٹھے۔
دہلی سے زیورک (Zurich) کے لیے ہماری فلائٹ رات کو ڈیڑھ بجے تھی۔ یہاں میرے ساتھیوںنے عملہ کے لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا اور پھر لاؤنج کے ایک حصے میں بیٹھ کر ہم لوگ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کرتے رہے۔ یہاں مجھے فارسی شاعر کا ایک شعر یاد آیا۔ میں نے سوچا کہ فارسی شاعر نے جو بات اپنے زمانے کی نسبت سے کہی تھی، وہ موجودہ زمانے میں مزید اضافے کے ساتھ ممکن ہوگئی ہے۔ فارسی کا مذکورہ شعر یہ ہے:
منعم بہ کوہ ودشت وبیاباں غریب نیست ہر جا کہ رفت، خیمہ زد وبارگاہ ساخت
اِس موقع پر لاؤنج میں بیٹھ کر جو باتیں ہوئیں، اُن میں سے ایک بات یہ تھی کہ میں نے ریڈیو کے ایک انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک سیاسی لیڈر نے روزے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزہ رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ میںنے کہا کہ مشکل (difficult) ایک اضافی لفظ ہے۔ ہر چیز مشکل بھی ہوتی ہے اور آسان بھی۔ یہ آپ کا اپنا ذہن ہے جو کسی چیز کو مشکل سمجھتا ہے اور کسی چیز کو آسان۔
لاؤنج میں ہر طرف لوگ شان دار طورپر چلتے پھرتے دکھائی دے رہے تھے۔ اِس منظر کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے کہا کہ انسان اپنے پورے وجود کے ساتھ ایک خصوصی مخلوق ہے۔ اس کی ہر چیز سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ پورے معنوں میں ایک جنتی وجود ہے۔ خدا نے انسان کو اصلاً جنت کے لیے پیدا کیا ہے۔ ایسی حالت میں اگر وہ جہنمی راستے پر چلتا ہے تو یہ اس کا اپنا انتخاب (choice)ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان کے مطابق، انسان کا اصل مقام جنت ہے۔ جہنم خود انسان کا اپنا چوائس ہے۔
ایک سوال کے جوا ب میں میںنے کہا کہ یہ ایک عام بات ہے کہ لوگوں کو اپنے کارکنوں یا ساتھیوں سے شکایت رہتی ہے۔ ہر ادارے میں، ہر کمپنی میں، حتی کہ ہر گھر میں اِس کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ ذہن ہے۔ ہم کو جاننا چاہیے کہ اِس دنیا میںہم کو صرف اضافی اعتبار سے بہتر شخص مل سکتا ہے، نہ کہ معیاری اعتبار سے:
We can find only a relatively better person, and not an ideally better person.
اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے میں نے کہا کہ ایک شخص کو دوسرے شخص سے کچھ ملے تو اس کا اعتراف کرنا بہت بڑی نیکی ہے، خواہ یہ ملنا فکری اعتبار سے ہو یا مادّی اعتبار سے۔ مگر بہت کم انسان ہیں جو اعتراف کی اہمیت کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں۔
اِس عام بے اعترافی کا سبب کیا ہے، اس کا سبب یہ ہے کہ ہر آدمی إنما أوتیتہ علیٰ علم عندی (القصص: 78) کی نفسیات میں جیتا ہے، یعنی جو کچھ آدمی کو ملتا ہے، اس کو وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر خود اپنا کارنامہ سمجھ لیتا ہے، نہ کہ کسی اور سے ملا ہوا عطیہ۔ وہ دوسرے کے کنٹری بیوشن (contribution) کو بھلا دیتا ہے اور جو کچھ اس کو ملتا ہے، وہ خود اس کو اپنے خانے میں ڈال لیتا ہے۔
دہلی ائر پورٹ پر جب ہم لوگ آخری چیکنگ کے مقام پر پہنچے تو وہاں ایک علاحدہ کیبن بنا ہوا تھا۔ میرے بقیہ ساتھی تو سادہ طورپر گزر گئے، لیکن مجھ سے اُس کیبن میں جانے کے لیے کہا گیا۔یہ کیبن اسکریننگ (screening) کے لیے تھا۔ اِس علاحدہ کیبن میں میری جانچ کی گئی۔
اِس امتیازی جانچ کو میں نے ایک نارمل چیز سمجھا۔ مطالبے کے بغیر میںنے اسکریننگ کے لیے اپنا جوتا بھی اتار دیا اور پھر تھینک یو کہتے ہوئے باہر آگیا۔ میرے ایک ساتھی فوراً آگے بڑھے اور اُس آدمی کو قرآن کے انگریزی ترجمہ کی ایک کاپی پیش کی جس کو اس نے خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔
یہی سادہ واقعہ ہے جو انڈیا کے بعض وی آئی پی (VIP)افراد کے ساتھ پیش آیا تو انڈیا میںایک ہنگامہ کھڑا کردیا گیا۔ یہ ہنگامہ بلا شبہہ سرتاسر لغو تھا— اِس طرح کی چیزیں ہمیشہ رُٹین کے طورپر ہوتی ہیں۔ اُن کو ہمیشہ معتدل انداز میں لینا چاہیے۔
نفرت اور کشیدگی اور تشدد کے واقعات ہمیشہ اِس لیے ہوتے ہیں کہ لوگ کسی سے ایک منفی بات سنتے ہیں اور اس کو ویسا ہی مان لیتے ہیں، جیسا کہ کہنے والے نے کہا تھا۔ مگر یہ ایک شدید قسم کی غلطی ہے۔ اِس طرح کے واقعات کو جب بھی کوئی شخص بیان کرتاہے تو وہ اصل واقعہ (actual event) کو نہیں بیان کرتا، بلکہ وہ اپنے ذاتی احساس (personal feeling) کو بیان کرتا ہے۔ لوگ اِس فرق کو نہیں سمجھتے، اِس لیے وہ نفرت اور تشدد میںمبتلا ہوجاتے ہیں۔
سننے والا اگر ایسا کرے کہ وہ اصل واقعہ اور رپورٹ کرنے والے کے ذاتی احساس میں فرق کرکے دیکھے تو وہ منفی رد عمل کا شکار نہ ہو۔ کیوں کہ رپورٹ کرنے والا کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وہ اپنے احساس کو الگ رکھ کر صرف اصل واقعہ کو بیان کرے۔ یہ غلطی یکساں طورپر شخصی رپورٹ میں بھی پائی جاتی ہے اور میڈیا کی رپورٹ میں بھی۔
ائرپورٹ کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ سوئس انٹرنیشنل ائرویز (Swiss International Airways) کی فلائٹ نمبر LX 147 تھی۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سواری کے ذریعے سفر کرنا انسان کی ایک امتیازی صفت ہے (الإسراء: 70 )۔ انسان نے پہلے حیوان کی پیٹھ پر بیٹھ کر سفر کرنا سیکھا، پھر اس نے پہیہ (wheel) ایجاد کی اور وہ پہیہ دار گاڑی پر بیٹھ کر سفر کرنے لگا، پھر اس نے کشتیاں بنائیں، تاکہ وہ دریاؤں اور سمندروںکی سطح پر سفر کرسکے، پھر اس نے موٹر کار اور ہوائی جہاز جیسی سواریاں ایجاد کیں۔
قدیم کہانیوں میں ’’اُڑن کھٹولہ‘‘ کا ذکر ہوتا تھا۔ مگر اُس زمانے میں اڑن کھٹولہ محض ایک خیالی چیز تھی،اس کا کوئی واقعی وجود نہ تھا۔ امریکا کے دو انجینئر جن کو رائٹ بردرس (Wright Brothers) کہا جاتا ہے، انھوںنے لمبی کوشش کے بعد 1903 میں پہلا ہوائی جہاز بنایا۔ وہ اُس پر بیٹھ کر ہوا میں اڑے۔ اِس طرح انھوںنے عملی طور پر ثابت کیا کہ انسان کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ ہوائی سواری کے ذریعے فضا میں پرواز کرسکے— ہوائی جہازخدا کی نسبت سے ایک غیر معمولی معجزہ ہے، اور انسان کی نسبت سے خدا کی دی ہوئی عقل کا غیر معمولی استعمال۔
دہلی سے روانگی کے بعد ہماری اگلی منزل زیورک تھی۔ زیورک سوئزر لینڈ کا ایک شہر ہے۔ دہلی سے زیورک کی مسافت 6155 کلومیٹر تھی۔ دہلی سے زیورک کا سفر 8 گھنٹے میں طے ہوا۔
سفر کے دوران مختلف اخبارات دیکھے۔ نیویارک ٹائمس (5 ستمبر2009) کے گلوبل ایڈیشن کے صفحہ 3 پر ایک خبر تھی۔ یہ خبر چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ (xinjiang) کے بارے میں تھی۔ چین کے اِس علاقے میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔یہ لوگ زیادہ تر ترکی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ اِس علاقے کے مسلم لیڈر عرصے سے یہ تحریک چلا رہے ہیں کہ اِس کو بقیہ چین سے الگ کرکے ایک آزاد مسلم ریاست کا درجہ دیا جائے۔
علاحدگی پسندی کی اس سیاست کو پاکستانائزیشن (Pakistanization) کہاجاتاہے۔ اِس قسم کی علاحدگی پسند تحریکیں مختلف ملکوں میں چل رہی ہیں۔ مثلاً برما اور فلپائن، وغیرہ۔ مگر اِن تحریکوں کا نتیجہ صرف مزید تباہی کی صورت میں برآمد ہوا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ’’پاکستانائزیشن‘‘ اپنے نتیجے کے اعتبار سے ایک قسم کی سیاسی خود کشی (political Suicide) ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ موجودہ دنیا کے تقریباً تمام مسلم رہنما اِس میں شریک ہیں، کچھ لوگ عملاً اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور کچھ لوگ لفظی طورپر اس کی حمایت کررہے ہیں۔
جہاز کے اندر مختلف مسافروں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ او رلٹریچر دیاگیا۔ اُن میں سے ایک ڈاکٹر لوزیوز(Luzius Wasescha) تھے۔ وہ اگر چہ خدا اور مذہب کے بارے میں لبرل تھے، لیکن انھوںنے شکریہ کے ساتھ قرآن کا انگریزی ترجمہ لیا۔ وہ سوئزر لینڈ کے رہنے والے تھے۔ مولانا محمد ذکوان ندوی کو انھوں نے اپنا جو وزیٹنگ کارڈ دیا، اُس پر یہ الفاظ درج تھے:
Ambassador Permanent Repersentative of Switzerland
Switzerland Deputy director general, Federal Office of Foreign Economic Affairs, Ministry of Economy, Berm. In charge of coordination of WTO affairs in Switzerland, negotiations between Switzerland and the European Union, and coordination of Swiss governmental information policy in the field of biotechnology. Head of the Swiss Delegation in several WTO forums, and the conference of the European Energy Charta Treaty.
یہ رات کا وقت تھا۔ اِس لیے زیادہ وقت سونے میں گزرا۔ یہ سفر بظاہر لمبا تھا، لیکن نیند کی وجہ سے وہ آسانی کے ساتھ طے ہوگیا۔ ہمارا جہاز 40 ہزار فٹ کی بلندی پر اڑ رہا تھا۔ اوپر ستارے جگ مگ کرتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے اور نیچے سیاہ بادل تھے جن کے درمیان بجلی چمک رہی تھی۔ اُس وقت ہم بادلوں کے اوپر تھے اور آسمان کے نیچے۔
یہ منظر بڑا عجیب تھا۔ اِس منظر کو دیکھ کر ہمارے ایک ساتھی نے کہا کہ ہماری زمین پر پائے جانے والے مسائل محض اضافی مسائل (relative problems) ہیں۔ یہاں صرف ایک مسئلہ ہے جس کی حیثیت حقیقی مسئلہ (real problem) کی ہے، اور وہ ہے آخرت کا مسئلہ۔ مگر عجیب بات ہے کہ اِسی سب سے بڑے مسئلہ کے متعلق لوگ بے خبری کا شکار ہیں۔
آٹھ گھنٹے کی مسلسل پرواز کے بعد 5 ستمبر 2009 کی صبح کو ہم لوگ مقامی ٹائم کے اعتبار سے ساڑھے چھ بجے زیورک (Zurich) ائر پورٹ پر اتر گئے۔ یہ سوئزر لینڈ کا انٹرنیشنل ائرپورٹ ہے۔ زیورک ائرپورٹ کو کلاٹین ائر پورٹ (Kaloten Airport) بھی کہا جاتاہے۔ کلاٹین یا کینٹن (Canton) ایک صوبہ ہے جو سوئزر لینڈ کے شمال مشرقی حصے میں واقع ہے۔ زیورک اِسی صوبے کا کیپٹل ہے۔ یہاں سے دنیا کے 77 مقامات کے لیے پروازیں روانہ ہوتی ہیں۔
5 ستمبر 2009کو ہم لوگ زیورک (سوئزر لینڈ) کے ائر پورٹ پر تھے۔ اسی دن سوئزر لینڈ کے دوسرے شہر جنیوا میںورلڈ کلائمیٹ کانفرنس ہورہی تھی۔ اِس میں مقررین گلوبل وارمنگ اور اس کے نتیجے میں موسمی تبدیلی کے موضوع پر تقریریں کررہے تھے اور اس کے نقصانات بتارہے تھے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اِس کانفرنس پر کروروں روپئے خرچ ہوں گے، لیکن پیشگی طورپر یہ بات معلوم ہے کہ عملاً اِس کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں۔ اِس طرح کی کانفرنسیں پچھلے برسوں میں بار بار ہوچکی ہیں، لیکن وہ سب کی سب بے سود ثابت ہوئیں۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں پیداہونے والے مسائل کا براہِ راست تعلق جدید انسان کے لائف اسٹائل (life style) سے ہے۔ لائف اسٹائل میں تبدیلی کے لیے کوئی شخص تیار نہیں، اِس لیے یہ مسئلہ بھی کبھی حل ہونے والا نہیں۔ مثال کے طورپر ائر کنڈیشنربنانے کے کارخانے نہایت مضر گیس پیدا کرتے ہیں۔ لوگ ائر کنڈیشننگ کا طریقہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اِس لیے ائرکنڈیشننگ کے کارخانے بھی بند ہونے والے نہیں۔ اِس طرح کاروں کے ذریعے جو کاربن امیشن (carbon emmission) ہوتا ہے، وہ بے حد مضر ہے۔ مگر لوگ ایسا کرنے والے نہیں کہ وہ کار کو چھوڑکر بائسکل پر سفر کرنے لگیں۔ اِس لیے یہ مسئلہ بھی حل ہونے والا نہیں۔ اِس معاملے میں کوئی جبر کام کرسکتا تھا، لیکن بظاہر اِس معاملے میں جبر کا بھی کوئی امکان نہیں۔
زیورک ائرپورٹ پر اگلی فلائٹ لینے کے لیے میں نے وھیل چئر کا استعمال کیا۔ میری وھیل چئر چلانے والا ایک سوئس نوجوان تھا۔ بات چیت کے درمیان معلوم ہوا کہ یہاں وھیل چئر چلانے والے کو اسپیشل اسسٹنٹ (special assistant) کہاجاتا ہے۔ نوجوان نے بتایا کہ وہ یونی ورسٹی میں ایم اے (اکنامکس) کا اسٹوڈنٹ ہے۔ وہ اپنی معاشی ضرورت کے لیے فارغ اوقات میں وھیل چئر چلاتا ہے۔ ہمارے ساتھیوں نے اِس نوجوان کو اور ائر پورٹ کے عملہ کے مختلف افراد کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ اِن لوگوں نے تھینک یو کے ساتھ اس کو قبول کیا۔
زیورک سے دوسرا جہاز وارسا (Warsaw) کے لیے تھا۔ زیورک سوئزرلینڈ کا ایک شہر ہے اور وارسا پولینڈ کا ایک شہر۔ زیورک سے وارسا کا فاصلہ تقریباً ڈیڑھ ہزار کلو میٹر ہے، جو سوئس ائرویز کی فلائٹ نمبر LX 1342 کے ذریعے دو گھنٹے میں طے ہوا۔
جہاز میں پرواز کرتے ہوئے سوئزرلینڈ کا ایک طائرانہ منظر دکھائی دیا۔ سوئزر لینڈ پہاڑوں سے گھرا ہوا ملک ہے۔ یہ پہاڑ خشک پہاڑ نہیں ہیں، بلکہ سرسبز پہاڑ ہیں۔ اِس بنا پر سوئزرلینڈ مثالی خوب صورتی کا ملک بن گیا ہے۔ یہاں دور تک پہاڑی سلسلہ پھیلا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔ ہمارے نیچے پہاڑی مناظر تھے اور ہم اس کے اوپر تیز رفتار جہاز کے ذریعے پرواز کررہے تھے۔
میں نے سوچا کہ جہاز اپنی اصل کے اعتبار سے صرف مادّہ (matter) ہے، لیکن یہ مادّہ انسان کے لیے متحرک ہوگیا ہے۔ انسانی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں حیوان متحرک ہو کر سواری کا کام دیتے تھے۔ اب مادہ متحرک ہو کر زیادہ بہتر طورپر انسان کے لیے سواری کا کام کررہا ہے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب ہے کہ انسان اگر اس کو حقیقی طورپر محسوس کرے تو وہ چاہے گا کہ میں ساری عمر خدا کے آگے سجدۂ شکر میں پڑا رہوں۔
5 ستمبر 2009 کی صبح کو 9 بجے ہم لوگ وارسا (Warsaw) پہنچے۔ یہاں ہم کو اگلا جہاز لینے کے لیے تقریباً چار گھنٹے ٹھہرنا تھا۔ میں اور میرے ساتھی جہاز سے اتر کر وارسا ائر پورٹ کے لاؤنج میں پہنچے۔ اُس وقت یہاں ہلکی بارش ہورہی تھی۔ لاؤنج میںہرطرح کا انتظام تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء بھی وافر مقدار میں موجود تھیں۔ ہم لوگوں نے یہاں چار گھنٹے کا وقت گزارا۔ یہاں ہمارے ساتھیوں نے ائرپورٹ اور لاؤنج کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ ان لوگوں نے شکریہ کے ساتھ اس کو لیا اور اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
یہاں ائر پورٹ پر ایک واقعہ پیش آیا۔ ہمارے ایک ساتھی نے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے چند نوجوانوں کو انگریزی میں چھپا ہوا دعوتی پمفلٹ(The Road to Paradise) دیا۔ اِس کو انھوںنے شکریہ کے ساتھ لیا۔ اس کے بعد اُن میں سے ایک نوجوان نے پمفلٹ کے ٹائٹل کو دیکھتے ہوئے کہا:
We are already in Paradise
جدید مادّی ترقیوں نے جو دنیا بنائی ہے، وہ اتنی پرکشش ہے کہ ہر آدمی اس میں گم ہوگیا ہے، ہر آدمی کی کوشش صرف ایک ہے— زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا اور دنیا میں اپنے لیے ایک جنت بنانا ۔ موجودہ زمانے میں یہ حال تقریباً تمام عورتوں اور مردوں کا ہے، حتی کہ اُن لوگوں کا بھی جو بظاہر جنت پر عقیدہ رکھتے ہیں، لیکن اب ان کا عقیدہ محض ایک رسمی عقیدہ بن چکا ہے۔ عملی طورپر دیکھئے تو جنت کا عقیدہ رکھنے والوں اور جنت کا انکار کرنے والوں کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا۔
میں نے اپنے ساتھیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگ گفتگو اور تقریر کا فرق نہیں سمجھتے۔ مثلاً ایک شخص اگر اسٹیج پر دھوم سے تقریر کرتا ہے تو وہ بات چیت (conversation) میں بھی اِسی طرح دھوم کے ساتھ بولنے لگتا ہے۔ وہ تقریر اور گفتگو کے فرق کو ملحوظ نہیں رکھتا ، حالاں کہ تقریر اور گفتگو کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔
ایک شخص جب اسٹیج پر تقریر کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو اُس وقت ایک بولنے والا ہوتا ہے اور دوسرا سننے والا۔ یہ گویا کہ یک طرفہ بات (monologue) کا معاملہ ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر اگر بولنے والا دھوم سے بولے تو اس میںکوئی حرج نہیں، لیکن جب وہ کسی موضوع پر ایک شخص سے بات کرتا ہے تو وہ دو طرفہ بات (dialogue) کا معاملہ ہوتا ہے۔ یہ ایک تبادلۂ خیال ہے جس میں آدمی کو سنانا بھی ہے اور سننا بھی ہے۔ اِس لیے دوطرفہ گفتگو کے موقع پر آدمی کو نہ تو دھوم سے بولنا چاہیے اور نہ اُس کو ایسا کرنا چاہیے کہ وہ اتنی لمبی گفتگو کرے کہ دوسرے کو اپنی بات کہنے کا موقع ہی نہ ملے۔
وارسا (Warsaw) سولھویں صدی عیسوی سے پولینڈ کی راجدھانی ہے۔ دوسری عالمی جنگ (1939-1945) میں یہ شہر تقریباً پورا تباہ ہوگیا تھا۔ بعد کو اُسے قدیم طرز پر دوبارہ تعمیر کیاگیا:
Warsaw is the capital from 16th century, and largest city of Poland. It is located on the Vistula River, roughly 370 Kilometers from both the Baltic Sea coast and the Carpathian Mountains. Warsaw is the 8th largest city in the European Union by population. Warsaw was severely damaged in World War II, rebuilt on old pattern.
وارسا کی تباہی کے بعد دوبارہ قدیم طرز (old pattern) پر اس کی تعمیر اِس لیے کی گئی تا کہ وارسا کی تاریخی حیثیت کو باقی رکھا جاسکے۔ یورپین قوموں میں تاریخی ذوق کامل طورپر موجود ہے۔ بدقسمتی سے مسلمانوں میں یہ تاریخی ذوق پیدا نہ ہوسکا۔ اِس کا آخری نمونہ یہ ہے کہ بعض انتہا پسند علماء اور رہنماؤں نے ’’ازالۂ بدعت‘‘ کے نام پر حجاز کے ان مقدس تاریخی مقامات کو ڈھا دیا جو بعد کی نسلوں کے لیے ایک عظیم پوائنٹ آف ریفرنس کی حیثیت رکھتے تھے، جو زائرین کے لیے ایک ربانی نقطۂ فیضان (point of inspiration) کے ہم معنیٰ تھے۔
اسلام میں تاریخی مقامات کی اہمیت کا اندازہ حسب ذیل واقعے سے کیا جاسکتا ہے:
عطاء خراسانی ایک تابعی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے گھر دیکھے ہیں۔ وہ کھجور کی ٹہنیوں کے تھے۔ ان کے دروازوں پر ٹاٹ کے پردے پڑے ہوئے تھے جو کالے بال سے تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد خلیفہ ولید بن عبد الملک اموی کی طرف سے مدینہ کے حاکم کے پاس خط آیا۔ اس خط میں مسجد نبوی کی نئی تعمیر کا حکم تھا اور یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ازواجِ رسول کے حجرے توڑ کر ان کو مسجد نبوی میں شامل کر دیا جائے۔
اِس حکم کو معلوم کرکے مدینہ کے بہت سے لوگ روپڑے۔ حضرت ابو امامہ انصاری نے کہا — کاش ، یہ حجرے اسی طرح چھوڑ دئے جاتے اور گرائے نہ جاتے، تاکہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنانے سے رک جاتے، اور وہ یہ دیکھ لیتے کہ اللہ اپنے نبی سے کس چیز پر راضی ہوا، حالاںکہ دنیا کے خزانوں کی چابیاں اس کے ہاتھ میں تھیں (لیتہا تُرکت فلم تُہدم حتی یقصر الناس عن البناء، ویروا ما رضی اللہ لنبیہ، ومفاتیح خزائن الدنیا بیدہ۔ طبقات ابن سعد، جلد 1،صفحہ 499)
5 ستمبر2009 کی دوپہر کو دو بجے وارسا سے کریکو (Krakow) کے لیے روانگی ہوئی۔ وارسا سے کریکو کا فاصلہ تقریباً ڈھائی سو کلومیٹر ہے۔ یہ سفر پولش ائرلائنز (Lot Polish Airlines) کی فلائٹ نمبر 3913 کے ذریعے طے ہوا۔ یہ صرف پچاس منٹ کی پرواز تھی اور اس کا جہاز بھی چھوٹا تھا۔ پرواز کرتے ہوئے جب ہمارا جہاز کریکو کے انٹرنیشنل ائر پورٹ جان پال دوئم (John Paul II) پر اترا تو مسافروں نے تالیاں بجائیں۔ اُس وقت میرا دل بھی جذباتِ شکر سے بھرا ہوا تھا، لیکن میرے ہاتھ دوسروں کی طرح تالی بجانے کے لیے نہیں اٹھے۔
میں نے اِس فرق پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ دوسرے لوگ جہاز کے اِس طرح منزل پر پہنچنے کو صرف ایک مادّی واقعہ سمجھتے ہیں، اِس لیے وہ اِس پر مادّی سطح کا رسپانس (response) دے رہے ہیں۔ لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ خالص ایک خدائی واقعہ ہے جو فرشتوں کے مدد سے اپنی کامیابی تک پہنچا۔ میںنے محسوس کیا کہ جس وقت لوگ تالیاں بجارہے تھے، اُس وقت میں خاموش ہو کر خدا کی یاد میں مشغول تھا اور انسان پر خدا کی رحمتوں کو یاد کرکے شکرِ خداوندی کے جذبات سے مغلوب تھا۔
کریکو ائرپورٹ پر ہم کو ریسیو (receive) کرنے کے لیے کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے تین افراد موجود تھے۔ ان کے ساتھ سواریاں تھیں۔وہ ہم کو ائر پورٹ سے لے کر چلے اور شہر کے مشہور ہوٹل (Sheraton Krakow) تک پہنچایا۔ یہاں ہمارے لیے اور ہمارے ساتھیوں کے لیے جدید طرز کے دو کمرے پہلے سے رِزرو تھے۔ یہاں دوسری تمام سہولتیں موجود تھیں۔
اِس تجربے سے میرا دل بھر آیا۔میںنے روتے ہوئے کہا — خدایا، اِسی طرح میری زندگی کا جہاز ایک اورمنزل پر پہنچنے والا ہے۔ یہ آخرت کی منزل ہے۔ وہاں بھی تو میرے ساتھ یہ احسان فرماکہ جب میںآخرت کی ابدی منزل پر پہنچوں تو وہاں رحمت کے فرشتے میرا اور میرے ساتھیوں کا استقبال کرنے کے لیے موجود ہوں۔ وہ ہم کو اپنے ساتھ لے کر چلیں اور ہم کو جنت کی ابدی رہائش گاہوں میں پہنچادیں۔
کریکو ائر پورٹ پر جب ہم نے کنویئر بیلٹ (conveyer belt) سے اپنا سامان حاصل کیا تو معلوم ہوا کہ ہمارے پانچ پیکیٹ زیورک ائرپورٹ پر چھوٹ گئے ہیں۔ وہ کریکو آنے والے جہاز کے ذریعے یہاں نہیں پہنچے۔ کریکو ائرپورٹ کے عملہ کو یہ بات بتائی گئی تو انھوں نے کہا کہ ہم آپ کے سامان کو دوسرے جہاز سے منگارہے ہیں اور وہ شام کو سات بجے تک آپ کے ہوٹل میں پہنچا دیا جائے گا۔ چناں چہ ایسا ہی ہوا، شام کو سات بجے یہ پانچ پیکٹ ہمارے ہوٹل کے کمرے میں موجود تھے۔
یہ بلا شبہہ خدا کی خصوصی مدد تھی۔ ہوائی سفر میں سامان چھوٹنے کے واقعات بہت ہوتے ہیں، لیکن اِس طرح ٹھیک وقت پر اس کا واپس ملنا ایک انوکھا واقعہ تھا جو خدا کی خصوصی مدد سے پیش آیا۔ خدا کی خصوصی مدد کے بغیر ایسا ہونا ممکن نہیں۔
کریکو، پولینڈ کا ایک تاریخی شہر ہے۔ کریکو گیارھویں صدی سے سولھویں صدی عیسوی تک پولینڈ کا دارالسلطنت رہا ہے۔ کیتھولک چرچ کے سب سے بڑے مذہبی عہدے دار کو پوپ کہاجاتا ہے۔ پوپ ہمیشہ اٹلی کے کسی مسیحی کو بنایا جاتا رہا ہے۔ جان پال دوئم پہلے غیر اطالوی پوپ ہیں، وہ پولینڈ کے اِسی قدیم شہر کریکو میں پیدا ہوئے تھے ۔ ذیل میں کریکو کے متعلق مختصر معلومات دی جارہی ہے:
Krakow is one of the largest and oldest cities in Poland. Situated on the Vistula river. Krakow has traditionally been one of the leading centres of Polish academic, cultural and artistic life, and is one of Poland's most important economic centres. It was the capital of Poland from 1038 to 1596. After the invasion of Poland by Nazi Germany at the start of the Second World War, Krakow was turned into the capital of Germany’s General Government. Karol Wojtyla, Archbishop of Krakow, was elevated to the papacy as John Paul II, the first non-Italian pope in 455 years, and the first ever Slavic pope.
6 ستمبر 2009 کی شام کو 5 بجے کانفرنس کا افتتاحی اجلاس (opening assembly) تھا۔ یہ اجلاس کریکو شہر کے آڈی ٹوریم میکسمم (Auditorium Maximum) میں ہوا۔ یہ ایک وسیع اور شان دار آڈی ٹوریم تھا۔ اِس پروگرام میں کانفرنس کے شرکاء کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں مقامی لوگ موجود تھے۔ اِس اجلاس کے مقررین حسب ذیل تھے:
PART I
Chairperson
Frncoise Riviere
Assistant Director-General for Culture of UNESCO, France
Welcome greetings
Karol Musiol
Rector of the Jagiellonian University, Poland
Inaugral greetings
Stanislaw Dziwisz
Cardinal, Archbishop of Krakow, Poland
Radoslaw sikorski
Minister of Foreign Affairs, Poland
Keynote address
Andrea Riccardi
Community of Sant'Egidio, Italy
Contribution
Michel Camdessus
Honorary Governor of the Bank of France
PART II
Chairperson
Hanna Suchocka
Ambassador of Poland to the Holy See
Keynote address
Jose Manuel Barroso
President of the European Commission, Belgium
Contributions
Henri de Luxembourg
Grand Duke of Luxembourg
Filip Vujanovic
President of the Republic of Montenegro
Yona Metzger
Chief Rabbi of Israel
Walter Kasper
Cardinal, President of the Pontifical Council for Christian Unity, Holy See
Ahmad Al-Tayyeb
Rector of al-Azhar University, Egypt
اِس موقع پر پروفیسر احمد الطیب (ریکٹر، الازہر یونی ورسٹی، قاہرہ) نے مسلم مقرر کی حیثیت سے عربی زبان میں خطاب کیا، جس کو ہیڈ فون کے ذریعے مختلف زبانوں میں سنا گیا۔ انھوںنے اپنی تقریر میں اہلِ مغرب کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے ہر زمانے میں ان کے ساتھ اچھے سلوک کا معاملہ کیا ہے، لیکن اہلِ مغرب ابھی تک اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ انصاف کا معاملہ نہ کرسکے۔ انھوںنے مزید کہا کہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہری جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ مذکورہ مسلم مقرر نے اپنی تقریر میں اِس طرح کی متعدد منفی اور شکایتی باتیں کہیں، لیکن عجیب بات ہے کہ مسیحی حضرات نے اِن باتوں کو خاموشی کے ساتھ سن لیا اور اِس کے خلاف کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا۔
اِس جلاس کی صدارت ایک مسیحی خاتون (Hanna Suchoka) کر رہی تھیں۔ وہ پولینڈ کی طرف سے ویٹکن میں سفیر ہیں۔ انھوں نے پروفیسر احمد الطیب کی تقریر کے بعد اپنے مختصر ریمارک میں کہا کہ ہم پروفیسر صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انھوں ہماری کمی کی طرف ہم کو توجہ دلائی۔ ہم ان کی تنقید کا استقبال کرتے ہیں۔
عجیب بات ہے کہ مسلم مقررین کو بین اقوامی اسٹیج پر اظہار خیال کا موقع ملتا ہے، لیکن وہ اپنے منفی ذہن کی بنا پر اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں کرپاتے۔ مثلاً ایک بار مجھے ایک عرب شیخ کو سننے کا موقع ملا۔ وہ ایک بین اقوامی اسٹیج سے بول رہے تھے۔ انھوں نے اپنی تقریر میں، اسلام کی پالیسی کو بتاتے ہوئے قرآن کی اِس آیت کا حوالہ دیا: فما استقاموا لکم فاستقیموا لہم (التوبۃ: 7 ) یعنی جب تک وہ تم سے سیدھے رہیں، تم بھی اُن سے سیدھے رہو۔
عرب شیخ کا یہ حوالہ ایک غیر متعلق (irrelevant) حوالہ ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں جس مساویانہ سلوک کا ذکر کیاگیا ہے، وہ اُس صورتِ حال کے لیے ہے جب کہ مسلم سلطنت اور غیر مسلم سلطنت کے درمیان باقاعدہ جنگی حالت قائم ہوگئی ہو۔ جہاں تک عمومی زندگی کا تعلق ہے، اس کے لیے خلقِ عظیم (القلم: 4 ) کا طریقہ مطلوب ہے، یعنی برتر اخلاقیات کا طریقہ۔ اِسی روش کی بابت حدیث میںآیا ہے کہ: لاتکونوا إمّعۃ (الترمذی، کتاب البر )
افتتاحی اجلاس کے اِس موقع پر قرآن کا انگریزی ترجمہ بڑی تعداد میں لوگوں کو دیاگیا۔ جب ہمارے ساتھیوں نے لوگوں تک قرآن پہنچانے کا یہ کام شروع کیا تو وہاں بیٹھے ہوئے ایک بڑے مسیحی پادری نے ہماری ٹیم کی ایک ممبر سعدیہ کو ناراضگی کی نظر سے دیکھا ۔سعدیہ نے الفاظ میں ان کو کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ یہ کیا کہ پادری کے سامنے جاکر متواضعانہ انداز میں اپنا سر جھکاتے ہوئے کہا:
Bless me, father!
اِس کے بعد مذکورہ پادری کا لہجہ بالکل نرم پڑ گیا۔ انھوںنے کہا کہ — اوکے، اوکے (Ok, Ok) ۔
اِس مثال سے دعوت کا ایک اصول معلوم ہوتا ہے۔ دعوت کے دوران اگر کسی سے کوئی مسئلہ پیدا ہو تو اس کو ہر گز دلیل دینے کی کوشش مت کیجئے، بلکہ تواضع کا انداز اختیار کیجئے۔ تواضع، دعوت کے بند راستے کو کھولتی ہے اور غیر متواضعانہ روش دعوت کے کھلے دروازے کو بند کردیتی ہے۔
پولینڈ کے شہر کریکو میںہونے والی اِس کانفرنس میں 22 پینل (panel) بنائے گئے تھے۔ ہر پینل الگ الگ موضوع پر تھا۔ ہمارے ساتھی اِن پروگراموں میں دعوتی لٹریچر لے کر جاتے۔ وہ وہاں لوگوں سے انٹرایکشن کرکے انھیں مطالعے کے لیے قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیتے۔ لوگ اس کو خوشی سے لیتے اور شکریہ ادا کرتے۔یہاں پینل کے موضوعات نقل کئے جارہے ہیں:
1. Do Not Forget Auschwitz
2. Memory and Prophecy: The Legacy of John Paul II
3. 70 Years After World War II, War is not a Destiny
4. Europe's Mission in the World 20 Years After 1989
5. Latin America in a Globalized World
6. Market Society, Religions and the Challenge of Materialism
7. Dialogue of Faith and Culture
8. Faiths and the Value of Life
9. Fafith s in Asia: Building a World Without Violence
10. Xenophobia and Philoxenia: Europe at a Crossrads
11. Living Together in a Plural World
12. John Paul II and the “Spirit of Assisi”
13.Africa, Land of Opoorunity
14. 1989: A Peaceful Transition
15. Humankind’s Spiritual Quest in a Time of Economic Crisis
16. No to the Death Penalty: No Justice Without Life
17. Religions and Global Health of the World: The Rebirth of Africa
18. Christian Unity, for the World to Believe
19. The Power of Prayer Over History
20. Martyrdom and Resistance to Evil
21. The Scriptures in Monotheistic Faiths
22. Faith and Science
7ستمبر 2009 کو پینل 12میں میری تقریر تھی۔ اِس پینل کا موضوع یہ تھا:
John Paul II and the “Spirit of Assisi”
یہ پینل نسبتاً زیادہ بڑا تھا۔ اس کی کارروائی کریکو کے مشہور تھیئٹرسلوواک نیشنل تھیئٹر (Slovak National Theater) کے کشادہ ہال میں کی گئی۔
سینٹ فرانسس آف اسیسی (St. Francis of Assisi) ایک مشہور مسیحی راہب تھے۔ وہ 1182 ء میں پیدا ہوئے اور 1226 ء میں اٹلی میں ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے اپنی ایک دعاء میں کہا تھا کہ —اے خدا، مجھ کو تو امن کے قیام کا ذریعہ بنا:
O Lord, Make me an instrument of Your peace.
اِس دعاء کو میں نے اپنی تقریر میں کلمۂ سواء (آل عمران: 64 ) کے طورپر استعمال کیا۔ میںنے کہا کہ اسلام اور مسیحیت کے درمیان امن ایک مشترک قدر (common value) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسیسی پیغام بھی امن پر مبنی ہے اور اسلام کا پیغام بھی امن پر مبنی:
Spirit of Assisi and spirit of Makkah both are one and the same.
اِس کے بعد میںنے موقع کی مناسبت سے اسلام کی کچھ مثبت تعلیمات کو بیان کیا۔ یہ اندازِ خطاب بہت موثر ثابت ہوا۔ پینل کے چئر مین مسٹر راجر(Roger Etchegaray) نے بہت اچھے الفاظ کے ساتھ اس کا اعتراف کیا۔ سامعین کے اندر جو فضا بنی، اس کو استعمال کرتے ہوئے ہمارے ساتھیوں نے یہاں قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر لوگوں کو دیا۔ لوگوں نے بہت خوشی کے ساتھ اس کو لیا۔ اِس پینل میں تقریباً 500 لوگ شریک تھے۔ چناں چہ قرآن کے تمام نسخے فوراً ختم ہوگئے۔ہمارے ساتھیوں نے بقیہ لوگوں کا پتہ لکھ لیا، تاکہ دہلی سے اُنھیں بذریعہ ڈاک قرآن کی کاپیاں روانہ کی جاسکیں۔
پینل 12کے آغاز میںمیری طرف سے لوگوں کے درمیان حسب ذیل پیپر تقسیم کیاگیا:
Prayer means establishing a spiritual communion with God or higher reality. This kind of communion is most unique experience for a man or a woman. It is going to the deeper world of inner reality. Prayer is the greatest attainment of higher truth. Prayer is life for soul as well as man.
There is a well known saying that prayer is power. But according to my experience I would like to say that prayer is the greatest power. There are two kinds of power— physical power and spiritual power. Physical power is a limited power, it can work only in space and time. But prayer can go beyond space and time. Prayer is universal in nature. Prayer can engulf both, physical world and non-physical world.
There is a difference between physical power and spiritual power. Physical power is bound to create reaction. Newton’s well known formula applies here: every action has equal and opposite reaction. In other words, physical power always creates some new problem. Even it can prove to be counter-productive. It is not possible to use physical power without facing its reaction. Physical power solves the problem at the cost of creating some new problem.
But the power of prayer in terms of spiritual power is quite different. It is completely different. It is completely positive in nature, it solves the problem without creating any new problem or creating any new kind of reaction. There are ample examples of it in history as well as in the present times.
Prayer is the gist of all religions including Islam. Jesus Christ has said, love your enemy. This saying is the best definition of prayer.
Love can conquer the enemy. There is a verse in the Quran in this regard, it says, “Do good deeds in return for enemy’s bad deeds. And in result you will find that your enemy has become your dearest friend.” (Quran 41:34)
It means that your enemy is your potential friend. So turn this potential into actual.
The most important quality of prayer is that it inculcates positive thinking in your mind and builds a positive personality. Moreover, prayer enables you to convert negativity into positivity. Prayer is a boon for man in terms of theory as well as in practice.
Prayer is not only an individual behaviour, prayer includes the social domain also. Through prayer one can find peace in his mind. prayer can turn an immature person into a mature person.
Prayer has also the power to establish peace in social life as well as in international relationships. United Nations has issued a joint declaration called Universal Declaration of Human Rights. I think prayer can contribute to the humanity better than this and that will be, Universal Declaration of Human Duties. Prayer can build a duty conscious society and it is a fact that duty conscious society is far more important than the right-conscious society.
اِس کانفرنس کے موقع پر کئی گروپ نے انٹرویو لیے۔ ان میں سے ایک ویٹکن ریڈیو کاانٹرویو تھا۔ 7 ستمبر 2009 کو وہ شریٹن (Sheraton) ہوٹل کے میرے کمرے میں آئے اور تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور کا نام مسٹر اسٹیفینو (Stefano Leszczynsti) تھا۔
ان کا ایک سوال یہ تھا کہ آپ کا مشن کیا ہے۔ میںنے بتایا کہ ہمارا مشن پیس اور اسپریچویلٹی کو فروغ دینا ہے اور اسلام کی مثبت تعلیمات کو لوگوں تک پہنچانا اور اسلام کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔ ان کا ایک سوال یہ تھا کہ یورپ میں اسلام کی جو منفی تصویر بن گئی ہے، وہ کس طرح درست کی جائے۔ میںنے کہا کہ ہم اِس پہلو سے مسلسل کوشش کررہے ہیں۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ آپ اسلام اور مسلمانوں میں فرق کریں۔ آپ مسلمانوں کے کسی عمل کو لے کر اسلام کے بارے میں رائے قائم نہ کریں، بلکہ براہِ راست قرآن اور حدیث کی روشنی میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کریں:
You have to differentiate between Islam and Muslims, you have to judge Muslims in the light of Islamic teachings and not vice versa.
اِس معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ میڈیا کی رپورٹ کے مطابق، یکم اگست 2009 کو پاکستانی پنجاب کے شہر گوجرہ میں ’’قرآن کی بے حرمتی‘‘ کے نام پر وہاں کے مشتعل گروہ نے ایک مسیحی آبادی پر حملہ کردیا۔ اِس موقع پر مسیحیوں کے تقریباً 40 گھر نذر آتش کردئے گئے تھے جس میں کئی مسیحی افراد ہلاک ہوگئے۔ ویٹکن آرک بشپ آف کینٹربری اور ورلڈ کونسل آف چرچز (WCC) نے اِن واقعات کی مذمت کی تھی۔
میںنے کہا کہ ’’قرآن کی بے حرمتی‘‘ کے نام پر اِس طرح کا کام بلا شبہہ ایک مجرمانہ کام ہے، وہ کوئی دینی کام نہیں۔ قرآن اور حدیث میںکہیں یہ تعلیم نہیں دی گئی ہے کہ جو لوگ بظاہر قرآن کی بے حرمتی کریں، ان کو مارو اور ان کے گھروں کو جلاؤ۔ قرآن اور حدیث میں اگر کسی کام کو قابلِ سزا قراردیاگیا ہو، تب بھی یہ سزا ایک باضابطہ عدالت دے سکتی ہے۔ عوام کو کسی بھی حال میں اورکسی بھی عذر کی بنا پرقانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔ جو لوگ ایسا کریں، وہ فساد برپا کرنے والے لوگ ہیں، نہ کہ اسلام کو ماننے والے لوگ۔
دوسری بات یہ کہ اِس طرح کے واقعات کے اصل ذمے دار عوام نہیں، بلکہ علماء ہیں۔ علماء نے مسلسل ایسا کیا ہے کہ وہ ’’قرآن کی بے حرمتی‘‘ اور ’’رسول کی گستاخی‘‘ جیسے موضوعات پر جذباتی تقریر کرکے یا جذباتی تحریریں شائع کرکے لوگوں کو مشتعل کررکھا ہے۔ یہی اشتعال مذکورہ قسم کے واقعات کی شکل میں ظاہر ہوتاہے۔ علماء کی دوسری غلطی یہ ہے کہ وہ اِس قسم کے مسلمانوں کو کھلے طورپر کنڈم نہیں کرتے، وہ ان کا ہاتھ نہیں پکڑتے۔ یہی وہ علماء ہیںجن کو حدیث میں علمائِ سوء کہا گیا ہے۔
انٹرویور کا ایک سوال یہ تھا کہ انڈیا میں فرقہ وارانہ ذہنیت کی موجودگی میں ڈائلاگ کس طرح ممکن ہے۔ اِس کے جواب میں بتایاگیا کہ اختلافات فطری ہیں۔ اصل مسئلہ اختلاف کا ہونا نہیںہے، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ اختلاف کے بارے میں رواداری (tolerance) کا ذہن لوگوں کے اندر موجود نہیں۔میںنے کہا کہ یورپ میں بھی اس طرح کے اختلافات ہیں، لیکن وہاں اختلافات سنگین مسئلہ نہیں بنتے، کیوں کہ وہاں ڈائلاگ کلچر ہے، جب کہ انڈیا میں ڈبیٹ کلچر(debate culture) ہے۔ میں اور میرے ساتھی یہ کوشش کررہے ہیں کہ انڈیا میں بھی لوگوں کے درمیان ڈائلاگ کلچر آجائے۔
انٹرویو کے دوران ایک بات یہ کہی گئی کہ اصلاح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ مسلم کمیونٹی کے افراد خود اپنی کمیونٹی کی غلطیوں کے خلاف بولیں، اور ہندو کمیونٹی کے افراد ہندو کمیونٹی کے غلطی پر تنقید کریں۔ مسلمان اگر ہندو کمیونٹی کے خلاف بولیں یا ہندو، مسلم کمیونٹی کے خلاف بولیں تواصلاح کے نقطۂ نظر سے اِس کا کوئی فائدہ نہیں۔
میں نے ایک بات یہ کہی کہ سیاسی اعتبار سے ویٹکن میں مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ تقلید نمونہ موجود ہے۔ انیسویں صدی عیسوی میں پوپ اور اسٹیٹ کے درمیان وہی مسئلہ پیداہوا جو ترکی میں خلیفہ اور سیکولر گورنمنٹ کے درمیان پیدا ہوا۔ پوپ نے دانش مندی سے کام لیتے ہوئے ٹکراؤ کو ختم کردیا اور اُس حکیمانہ فارمولے کو اختیار کیا جس کو کم پر راضی ہونا کہاجاتاہے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ویٹکن کے نام سے ان کی ایک چھوٹی سی ریاست قائم ہوگئی اور اِس طرح پوپ کا تاریخی ٹائٹل باقی رہا۔
اِس کے برعکس، ترکی کے معاملے میں یہ ہوا کہ ساری دنیا کے علماء اور غیر علماء خلافت کو اس کی مکمل صورت میں باقی رکھنے پر اصرار کرتے رہے۔ اِس کا اندوہ ناک انجام یہ ہوا کہ ’’خلیفہ‘‘ کا تاریخی ٹائٹل ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا۔ بدقسمتی سے موجودہ زمانے کے مسلم علماء نے مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے نزاعی معاملات میں صرف منفی رول ادا کیا، اِس طرح کے کسی بھی معاملے میں وہ مثبت رول ادا نہ کرسکے۔
موجودہ زمانے کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے علماء، عرب اور غیر عرب دونوں، صرف روایتی مسائل سے واقف تھے، وہ جدید دور کے مسائل سے بے خبر تھے۔ اِس بنا پر یہ ہوا کہ جب بھی کوئی نیا مسئلہ پیش آیا تو انھوں نے فوراً ردّ عمل کا اظہار کیا۔ حالاں کہ صحیح یہ تھا کہ نئے مسائل پیش آنے کے بعد وہ ری ایڈجسٹ مینٹ (re-adjustment) کا طریقہ اختیار کریں۔ مثلاً انھوںنے موجودہ زمانے میں سیکولرازم کو لادینیت کہہ کر رد کردیا، اور جمہوریت کو غیر اسلامی بتا کر وہ اس کے خلاف ہوگئے۔ حالاں کہ اِن دونوں کے معاملے میں علماء کو ری ایڈجسٹ مینٹ کا طریقہ اختیار کرنا چاہیے تھا، نہ یہ کہ وہ اِن جدید نظریات کو غیر اسلامی بتا کر اُن کے مخالف بن جائیں۔
مغربی دنیا کا سفر کرتے ہوئے ایک احساس یہ ہوتاہے کہ اہلِ مغرب ہی وہ لوگ ہیں جن کو قرآن میں یاجوج اور ماجوج (الأنبیاء: 96 ) کہاگیا ہے۔ مغربی قوموں نے جس طرح فطرت میں چھپے ہوئے رازوں کو کھولا اور جدید تہذیب بنائی، وہ تاریخ کا ایک انوکھا واقعہ ہے۔ بظاہر ایسامحسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب کو ایک اہم کام کا ذریعہ بنایا، وہ ہے— موجودہ دنیا میں جنت کا تعارف جس کا ذکر قرآن میںاِن الفاظ میں کیاگیا ہے: ویُدخِلہم الجنۃ عرّفہا لہم (محمد: 6 )۔
پُر رونق مغربی تہذیب کے ظہور سے پہلے جنت زیادہ تر ایک اعتقادی چیز تھی۔ اب وہ ایک متعارف چیز بن چکی ہے۔ یہ کام بلاشبہہ اللہ تعالیٰ نے اہلِ مغرب سے لیا ہے۔ مثال کے طورپر قدیم زمانے میںکہا جاتا تھا کہ: السفر کالسقر (سفر جہنم کے مانندہے) جب کہ آج کا مسافر، حدیث کے الفاظ میں، کالملوک علی الأسرّہ (تخت پر بیٹھے ہوئے بادشاہوں کے مانند) ہوتاہے۔
جنت کے بارے میں قرآن میں آیا ہے کہ جنتیں دو ہیں (الرحمن: 46 )۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر جنت کی دو کیٹگری (category) ہے۔ ایک، وہ جس کو قرآن میں خدا کا پڑوس (التحریم:11 ) کہاگیا ہے۔ جنت کے اِس درجے کو ’’عند اللہ کیٹگری ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ اہلِ جنت کی دوسری قسم وہ ہے جو خدا کے پڑوس میں توجگہ نہیں پائیں گے، لیکن وہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رہیںگے (الأنبیاء: 101)۔ جنت کے اِس درجے کو قرآن کے الفاظ میں ’’مبعد عن النارکیٹگری ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
پولینڈ کی یہ کانفرنس ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی۔ اِس کانفرنس میںکئی عرب علماء آئے ہوئے تھے۔ ایک عرب عالم نے اِس کانفرنس کے بارے میں کچھ شکایتی بات کہی۔ میں نے کہا کہ آپ اِس طرح سوچئے کہ کیا آپ کسی عرب ملک میں اِس طرح کی منظم کانفرنس اتنے بڑے پیمانے پر کرسکتے ہیں۔ انھوںنے کہا کہ نہیں۔ میںنے کہا کہ پھر آپ اِس پہلو پر غور کیجئے اور اِس سے سبق لیجئے۔ یہ ایک انٹرنیشنل کانفرنس تھی، لیکن ہر پہلو سے وہ نہایت منظم تھی۔ ایسا منظم اجتماع کسی بھی مسلم ملک میں نہ میںنے دیکھا اور نہ میں نے سنا۔
یہاں میں نے دیکھا کہ کمیونٹی آف سینٹ ایجی ڈیو کے کئی عورت اور مرد روانی کے ساتھ عربی زبان بول رہے تھے۔ ہمارے ایک ساتھی نے ان سے پوچھا کہ آپ نے عربی زبان کیسے سیکھی۔ انھوںنے کہا کہ ہمارا سابقہ بار بار عربوں کے ساتھ پیش آتا ہے، اِس لیے ہم نے باقاعدہ کوشش کرکے عربی زبان سیکھی، تاکہ ہم براہِ راست عربوں سے تعلق قائم کرسکیں۔
قرآن اور حدیث دونوں میں بتایا گیا ہے کہ مسیحی لوگوں میںخصوصی طورپر رافت اور رحمت کی صفت پائی جاتی ہے۔ خود میں نے بار بار اِس کا تجربہ کیا ہے۔ قرآن میں اُن کے متعلق، رافت اور رحمت (الحدید: 27 ) کا لفظ آیا ہے۔ اورحدیث میں اِس معاملے کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: إنّہم لأحلم الناس عند فتنۃ، وأجبر الناس عند مصیبۃ، وخیر الناس لمساکینہم وضعفائہم (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعۃ)
میں سمجھتا ہوں کہ اِس کا سبب غالباً حضرت مسیح کی ایک استثنائی تعلیم ہے۔ حضرت مسیح نے اپنے ایک بیان میں حواریین سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ —اپنے دشمن سے محبت کرو:
Love your enemies (Luke 6: 35)
میرے علم کے مطابق، مذکورہ الفاظ میں ’’دشمن سے محبت‘‘ کی تعلیم استثنائی طورپر صرف مسیحیت میں پائی جاتی ہے۔ غالباً اِسی تعلیم کا یہ نتیجہ ہے کہ مسیحیوں میں رافت اور رحمت کلچر بہت زیادہ عام ہوا، حتی کہ وہی ان کی پہچان بن گیا۔ مسیحی حضرات کی اِس استثنائی صفت کا تجربہ مجھے اِس کانفرنس کے دوران بھی بار بار ہوا۔
مسلمانوں کی نفسیات اور مسیحی لوگوں کی نفسیات کے تقابلی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کے درمیان بہت زیادہ فرق پایا جاتاہے۔ بعد کے زمانے میں مسلمانوںکی جو سیاسی تاریخ بنی اور ان کے یہاں جو لٹریچر تیار ہوا، اُس کے نتیجے میں مسلمانوں کا ذہن یہ بنا کہ — دشمن سے لڑو:
Fight your enemy
اِس کے برعکس، مسیحی لوگوں کا ذہن ان کی روایات کے مطابق، یہ بنا کہ— دشمن سے محبت کرو:
Love your enemy
یہی نفسیات دونوں قوموں کے اندر عمومی طورپر پائی جاتی ہے۔ جہاںتک صلیبی جنگوں، یا پہلی عالمی جنگ اور د وسری عالمی جنگ کا معاملہ ہے، وہ مسیحی عوام کی نفسیات کا مظاہرہ نہ تھا، بلکہ وہ کچھ مسیحی لیڈروں کی سیاسی معرکہ آرائی اور کشور کشائی کا نتیجہ تھا۔
کمیونٹی کے ایک ذمے دار ڈاکٹر فیڈرکو (Federico Di Leo) نے مجھ سے کہا کہ آپ چند ایسے مسلم اسکالر کے نام ہمیں دیجئے جو آپ کے نزدیک امن کی واقعی اہمیت کو جاننے والے ہوں۔میںنے اپنے ساتھی کو چند نام بتائے۔ میرے ساتھی نے مسٹر فیڈرکو سے کہا کہ مولانا نے کچھ نام بتائے ہیں، لیکن اِس وقت ہمارے پاس ان لوگوں کا مکمل ایڈریس موجود نہیں ہے۔ ہم انڈیا پہنچ کر آپ کو ان کا پورا ایڈریس روانہ کردیں گے۔
مسٹر فیڈرکو نے کہا کہ نہیں، ہم لوگ لیت ولعل (procrastination) کو پسند نہیں کرتے۔ اگر آپ کو ان لوگوں کے نام معلوم ہیں تو آپ اِس وقت ہم کو صرف ان کے نام لکھوا دیجئے۔ بعد کو ہم آپ سے ان کا مکمل ایڈریس حاصل کرلیں گے۔ کیا معلوم ہم لوگ یہاں سے واپس جاکر بھول جائیں اور یہ اہم کام پورا ہونے سے رہ جائے۔
6 ستمبر 2009 کی شام کو کانفرنس کے شرکاء کو ایک خصوصی رسپشن (reception) دیاگیا۔ یہ رسپشن کریکو کے میئر (Mayor of Krakow) کی طرف سے تھا۔ یہ دعوت نامہ انگریزی اور پولش (Polish) زبان میں تھا۔ اس کے انگریزی الفاظ یہ تھے:
Jacck Majchrowski
Mayor of Krakow
Has the honor of inviting you to a reception on the international meeting for Peace-People and Religions The Spirit of Assisi in Krakow.
اِس کی دعوت پر ہمارے ساتھیوں نے میئر آف کریکو کے پیلیس (Wielopolski Palace) میں رکھے گئے اِس رسپشن میں شرکت کی۔ یہاں شرکائِ کانفرنس کے علاوہ، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اور مختلف ملکوں کے اعلیٰ عہدے داران موجود تھے۔ ہمارے ساتھیوں نے ان لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔ شرکاء نے اس کو نہایت خوشی کے ساتھ قبول کیا اور شکریہ ادا کیا۔
اِس تجربے کے بعدمیرے ایک ساتھی نے کہا کہ قدیم مذہبی جبر کے زمانے میں حاکمِ وقت خود اپنی طرف سے داعی کو اپنے محل میں نہیں بلاتا تھا۔ داعی کو خوف (طٰہٰ: 45 ) کی نفسیات کے تحت وہاں جانا پڑتا تھا۔ اب زمانہ اتنا زیادہ بد ل چکا ہے کہ خود حاکمِ وقت داعی کو اپنے محل میں بلاتا ہے اور وہاں اس کے ساتھ عزت واکرام کا معاملہ کرتا ہے۔ اِس طرح داعی کو یہ موقع ملتاہے کہ وہ خدا کے کلام کو حاکمِ وقت اور اس کے دوسرے ساتھیوں کے سامنے پیش کرے جس کو وہ خوشی کے ساتھ قبول کریں۔
پولینڈ کی یہ کانفرنس تین دن تک جاری رہی۔ اس کے ہر پینل میں ہمارے ساتھیوں نے کھلے طورپر قرآن کا انگریزی ترجمہ لوگوں کو مطالعے کے لیے دیا اور لوگوں نے اس کو شوق سے لیا اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا۔ خود کمیونٹی کے افراد نے ہمارے ساتھیوں کے ساتھ اِس سلسلے میں تعاون اور حوصلہ افزائی کا معاملہ کیا۔
کانفرنس کے ایک ذمے دار ڈاکٹر فلپو (Philippo Sbrana) نے ہمارے یہاں سے چھپے ہوئے انگریزی ترجمہ قرآن کو اپنے ہاتھ میں لیا اور سب کے سامنے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ — یہ قرآن کا پیس فل ترجمہ ہے:
It is a peaceful translation of the Quran.
اِس تجربے سے معلوم ہوا کہ جدید ذہن یا مسیحی ذہن کو نفسِ قرآن سے کوئی الرجی نہیں ہے۔ ان کی الرجی کا سبب مسلم علماء کے اپنے اضافے ہیں جو انھوںنے قرآن کی تفسیر میں یا اپنی کتابوں میں کررکھے ہیں۔ اِن اضافوںسے الگ کرکے اگر قرآن کو اس کی خالص شکل میں پیش کیا جائے تو وہ اس کو خوشی کے ساتھ قبول کریں گے۔
8 ستمبر 2009 کی صبح کو ہم لوگوںکو کریکو شہر کے باہر اُس مقام پر لے جایاگیا جس کو کنسنٹریشن کیمپ (Concentration Camp) کہاجاتاہے۔ یہ کیمپ جس ایریا میں واقع ہے، اس کا نام آشو ِز (Auschsitz Birkenau) ہے۔ کار کے ذریعے یہ تقریباً ایک گھنٹے کا راستہ تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران پولینڈ پر قبضہ کرنے کے بعد ہٹلر نے یہ کیمپ بنوائے تھے۔ اِس کو عام طورپر کنسنٹریشن کیمپ(Concentration Camp) کہا جاتا ہے۔ اِس سے مراد وہ مقام ہے جہاں کوئی حکومت اپنے نا پسندیدہ عناصر کو بند کردے، یا ان کو سزا دے کر انھیں ختم کرنے کی کوشش کرے:
Concentration Camp: Institution for detention of undesirable elements of population deemed dangerous by regime.
یہ اصطلاح پہلی بار برٹش ایمپائر کے ذریعے بوئر جنگ (Boer War-1899-1902) کے زمانے میں استعمال کی گئی۔ اس کے بعد دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں ہٹلر نے اپنے ناپسندیدہ عناصر (undesirables) کے لیے اس کو استعمال کیا۔مثلاً یہود اور پولینڈ کے کچھ باشندے۔ کہاجاتا ہے کہ ان کیمپوں میں تقریباً 4 ملین انسان گیس چیمبر میں ڈال کر ختم کردئے گئے۔ اِن مرنے والوں میں تقریباً نوے فی صد لوگ یہودی تھے جو مختلف ملکوں سے یہاں لائے گئے تھے۔ یہ گیس چیمبر اب بھی وہاں سیاحوں کی زیارت کے لیے موجود ہیں۔
ہٹلر (Adolf Hitler) اپنے مزاج کے اعتبار سے، ایک غالی نسل پرست (racist) تھا۔ اِسی کے ساتھ وہ ایک شعلہ بیان خطیب (rabble-rouser) تھا۔ مشہور اقتصادی بحران کے زمانے میں اُس کو یہ موقع ملاکہ وہ جذباتی تقریریں کرکے اپنے گرد ایک بھیڑ اکھٹا کرلے اور جرمنی میں سیاسی اقتدار پر قابض ہوجائے:
Economic depression after 1929, brought mass support, making Nazis largest party in Reichstag. Hitler was appointed chancellor and established dictatorship in 1933.
ہٹلر کی سیاسی پارٹی کا نام نازی پارٹی تھا۔ یہ پارٹی 1923 میں قائم ہوئی۔ یہ پارٹی یورپ میں نسلی پیوریٹی کے نام پر بنائی گئی تھی۔ یہ لوگ جرمن آرین نسل کو سب سے بڑا درجہ دیتے تھے۔ اُن کو یہ شکایت تھی کہ غیر آرین لوگ ہمارے لیے غیر وفادار ہیں۔ اِس کا ایک اظہار وہ تھا جو فرسٹ انٹرنیشنل (1866) کے بعد ہوا:
Nazi party was founded on principles of ‘racial purity’, (Aryans representing ‘master race’), allgiance to führer (leader).
ہٹلر نے اپنے اِن نظریات کو اپنی کتاب — میری جدوجہد (Mein Kampf) میں لکھ دیا تھا۔ جرمنی میں سیاسی اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد ہٹلر نے اپنے اِن انتہا پسندانہ نظریات کے تحت یہودی نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی، لیکن دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کی شکست نے ہٹلر کی اِس تحریک کا خاتمہ کردیا۔
آشو ِز کا یہ وسیع کیمپ دو حصوں میں بٹا ہوا ہے۔ شروع میں ہم لوگ کیمپ کے پہلے حصہ (Auschwitz I) میں گئے۔ یہاں دور تک سرخ اینٹ کی پختہ عمارتیں پھیلی ہوئی تھیں۔ یہعمارتیں قیدیوں کے لیے بطور جیل استعمال کی جاتی تھیں۔ جنگ کے بعد 1947 میں یہاں ایک میوزیم (Auschwitz-Birkenau State Museum) بنا دیاگیا ہے، جہاں سیاح کثرت سے آتے ہیں۔ بتایاجاتاہے کہ اِن سیاحوں کی سالانہ تعداد تقریبا 70 ہزار ہوتی ہے۔
یہ پہلا کیمپ میوزیم اور گیس چیمبرس پر مشتمل ہے۔ اِس میوزیم میں یہاں مارے گئے لوگوں (victims) کی چیزیں مثلاً بال، جوتے، کنگھے، عینک، اور تصاویر وغیرہ موجود ہیں۔ ایک وسیع ہال میں یہاں لائے گئے مردوں اور عورتوں کے سر کے بال شیشہ کے کیس میں رکھے ہوئے تھے، اِسی طرح اور دوسری چیزیں بھی۔
8 ستمبر 2009 کو جب کنسنٹریشن کیمپ میں ہم لوگ گیس چیمبر (gas chambers) دیکھ کر باہر آئے تو وہاں ویٹکن ٹی وی (Rai) کے نمائندہ مسٹر رابرٹو(Roberto Olla) نے مجھ سے پوچھا کہ کنسنٹریشن کیمپ کو دیکھنے کے بعد آپ کا تاثر کیا ہے۔ میںنے کہا کہ یہ ایک دہشت ناک تجربہ تھا۔ اِس تجربے کو بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ ایک انسان دوسرے انسان کے ساتھ اتنا زیادہ بے رحمانہ سلوک کرسکتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میںآنسو آگئے۔ میری یہ حالت دیکھ کر انٹرویور بھی رونے لگے۔
میںنے کہا کہ اِس وقت میں اپنے آپ کو اسپیچ لیس (speechless) پارہا ہوں۔ میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ خدا ہماری مدد کرے اور اِس قسم کا سفاکانہ واقعہ دوبارہ تاریخ میں نہ پیش آئے۔
یہاں میوزیم میںجو مختلف سبق آموز چیزیں تھیں، اُن میں سے ایک یہ تھی کہ ایک جگہ دیوار پر ایک کالا بورڈ لگا ہوا تھا۔ اِس بورڈ پر سفید حروف میں مشہور فلسفی جارج سنٹیانا (وفات: 1952 ) کا ایک قول اِن الفاظ میں لکھا ہوا تھا— جو شخص تاریخ کو یاد نہیں رکھتا، وہ ضرور اس کا اعادہ کرے گا:
“The one who does not remember history, is bound to live through it again.” (George Santayana)
اِس کے بعد ہم کو کیمپ کے دوسرے حصہ (Auschwitz II)میں جانا تھا جو ایک میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ یہاں جو پروگرام تھا، اس کی بابت گائڈ بک میںیہ الفاظ درج تھے:
Memorial Ceremony: Ceremony at the Execution wall, silent March along the rail tracks and Memorial ceremony at the Monument for the victims of Nazi-facism
پروگرام کے مطابق، پہلے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ایک وفد نے الگ الگ مقامات پر پھول ڈالا۔ اسلام کے نمائندہ کے طورپر راقم الحروف نے عرب علماء کے ایک وفد کے ساتھ ایک یادگار مقام پر پھول ڈالا۔ یہاں کئی لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔ اِن میں سے اکثر لوگ وہ تھے جو دوسری عالمی جنگ کے موقع پر کنسنٹریشن کیمپ میں پکڑ کر لائے گئے تھے، لیکن وہ کسی وجہ سے زندہ بچ گئے۔ اِن مقررین میں سے ایک سابق ربائی مسٹر اسرائیل (Israel Meir Lau) تھے جو اُس وقت آٹھ سال کی عمر میں تھے۔ اب وہ یروشلم میں رہتے ہیں۔ وہاں سے وہ کانفرنس میںشرکت کے لیے آئے تھے۔
اِس موقع پر انھوں نے انگریزی زبان میں تقریرکی۔ہمارے ساتھیوں نے اُن کو انگریز ی ترجمہ قرآن کا ایک نسخہ دیا۔ انھوںنے اس کو خوشی کے ساتھ لیااور کہا کہ آپ لوگوں کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے مجھ کو قرآن کا نسخہ دیا۔ میںقرآن کو پڑھنا چاہتا تھا مگر میں ابھی تک اس کا کوئی نسخہ حاصل نہ کرسکا تھا۔انھوں نے اپنی تقریر میںجو کچھ کہا، اس کو انھیں کے الفاظ میں یہاں نقل کیا جاتاہے:
In September 1993, this week 16 years ago, I had a long talk with Pope John Paul II in Castelgandolfo, in Italy. At the beginning of our long talk he said to me, “I remember your grandfather in the city of Krakow, where I served as a bishop, during World War II. I remember your grandfather, Rabbi Frankel … walking to the synagogue, on Shabbat, on Saturday, surrounded by very many children. [The Pope] asked, “How many grandchildren do you have?” He answered, “47.” So the Pope asked me, “How many survived the Holocaust?” My answer was, “only 5.” Forty-two, including my brother, who was 13 years old, and all my cousins, perished during Holocaust. He lifted up his face to the ceiling and the Pope said to me: “I was visiting already a hundred States. Wherever I go I emphasize that we, all mankind, are obliged and committed for the future and the continuity of our senior brothers, the Jewish people.” I will finish my words very personal, as I have started, with the memories of the Pope. He asked me “Chief Rabbi, do you have children?” I said, “Yes I do.” “Do they live in Israel?” “Yes all of them, my grandchildren as well live in Israel.” He said to me, “This is the way to promise what I spoke about, the future and the continuity of the Jewish people.” When I was, in ’95, at the concentration camp of Buchenwald, in the city of Weimar in Germany, where I was liberated at less than 8 years old, I saw in a window, the wall of the window of the torture room, you can see it today, one word, written with a nail of one of the prisoners, a Jewish one, because it was in Yiddish, in the Jewish language, the word was necume, take revenge. This was the last word of a man tortured in that room, a victim in Buchenwald. Revenge. What revenge can we take?
Amazing. I am a believer, I believe in the Lord almighty, not only because I am a Rabbi or because I am Jewish, but because I am a man, a human being.
I believe from heaven it happened: two or three hours ago, here in the city of Krakow, I arrived last night only for this ceremony, I received a phone call from my granddaughter. “Grandfather — she said — half an hour ago I brought you a great grandchild.” She gave birth to a son at seven o’ clock in the morning today in Israel.
This is my revenge. This is my answer. This is my solution. Live and let live. Live together, in friendship, in love, in peace. Thank you.
یہاں اسلام کے نمائندے کے طورپر پھول ڈالنے کا کام مجھے سونپا گیا۔ جب میں پھول لے کر آگے بڑھ رہا تھا تو میرے ساتھ چلنے والے ایک عرب عالم نے مجھ سے کہا: یا شیخ ، المسیحیون قتلوا الیہود، والیہود قتلوا المسیحیین، ونحن علی طرف (مسیحیوں نے یہود کو قتل کیا اور یہود نے مسیحیوں کو قتل کیا، ہمارا اِس سے کوئی تعلق نہیں)۔ اُس وقت کچھ کہنے کا موقع نہیں تھا۔ بعد کو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہاکہ یہ یہودی اور مسیحی کی بات نہیں ہے، بلکہ یہ انسان کی بات ہے اور ہمیں دکھ ہونا چاہیے کہ انسان نے انسان کے ساتھ ایسا سفاکانہ سلوک کیا۔
یہاں میرے پاس جامعۃ الازہر کے ایک استاد دکتور حسن حنفی بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے فلسطین کے مسئلے پر بات شروع کی۔ میںنے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے، عرب علماء اور رہنما مسئلۂ فلسطین کا کوئی حل دریافت کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب ایک فریق کھلے طور پر جارحیت کر رہا ہو تو پھر ایسی حالت میں اِس مسئلے کا کوئی حل کیسے نکل سکتاہے۔
میںنے کہا کہ مسئلہ فلسطین کاکوئی حل اُس وقت نہیں نکل سکتا، جب تک فلسطین تحریک اپنی مسلم جدوجہد کو یک طرفہ طورپر ختم (disarmed) کرنے کے لیے تیار نہ ہوجائے۔ انھوںنے کہا کہ یہ تو فریقِ مخالف کے سامنے سرینڈر کرنا ہے۔ اِس طرح کے یک طرف سرینڈر کے ذریعے کیسے کوئی حل نکل سکتاہے۔ میںنے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اِس کا واضح نمونہ صلح حدیبیہ کی صورت میں موجود ہے۔ حدیبیہ کے موقع پر رسول اور اصحابِ رسول نے اِس یک طرفہ صلح کے ذریعے وہ کامیابی حاصل کی جس کو قرآن میں ’’فتحِ مبین‘‘ کہاگیا ہے۔ ایسی حالت میں یہ ناجنگ معاہدہ فتحِ مبین (الفتح: 1 ) کے دروازے کو کھولنے کے ہم معنیٰ ہے، نہ کہ مفروضہ طورپر دشمن کے سامنے سرینڈر کرنے کے ہم معنی۔ میری بات سن کر وہ خاموش ہوگئے۔
کنسنٹریشن کیمپ سے میں بذریعہ کار سیدھے ہوٹل (Sheraton) لوٹ آیا۔ لیکن دوسرے شرکائِ کانفرنس کو کمیونٹی کی طرف سے آشوز(Austhwitz) کے ایک رسٹورنٹ میںسادہ رسپشن دیا گیا۔ اس میں معروف لنچ(lunch) کے بجائے لوگوں کو صرف جوس اور فروٹ (snack) دیاگیا تھا۔ ایسا انھوں نے رمضان کے احترام میں کیا تھا۔ یہ گویا ترکِ طعام کے بجائے تقلیلِ طعام کا ایک مظاہرہ تھا۔
میںنے اپنے ساتھیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہٹلر کے عروج وزوال میںبہت بڑا سبق ہے۔ ہٹلر کی کتاب میری جدوجہد (My Struggle) پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اپنے سیاسی حوصلے میں سرشار ہے۔ اس کو یقین ہے کہ وہ پورے یورپ میںنازی ازم (Nazism) کو غالب کردے گا۔ اِسی تصور کے تحت اس نے 1939 میں دوسری عالمی جنگ چھیڑ دی، لیکن اس کا انجام صرف یہ ہوا کہ جرمنی تباہ ہوگیا اور خود ہٹلر نے ایک بنکر (bunker) کے اندر خودکشی کرلی۔
یہی انجام اِس قسم کے دوسرے لوگوں کا بار بار ہوا ہے۔ مثلاً اسکندر اعظم، چنگیز خاں، نادر خاں، نپولین، اسٹالن، وغیرہ۔ جب کسی آدمی کو بڑی سیاسی طاقت مل جائے تو وہ شعوری یا غیرشعوری طور پر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں سب کچھ کرسکتا ہوں۔ اِس قسم کے لوگ اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرکے اکثر بڑی بڑی سیاسی چھلانگ لگاتے ہیں جس کا نتیجہ ہمیشہ منفی صورت میں نکلتا ہے۔
ایک گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ تاریخ کا ایک عجیب المیہ ہے کہ لوگ ہمیشہ ادارہ (institution) کو اہمیت دیتے ہیں، نہ کہ فرد(individual) کو، حالاں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ تمام بڑے بڑے کام افراد نے انجام دئے ہیں، نہ کہ کسی ادارے نے۔
اِس کا سبب کیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ کسی بڑے کام کے لیے بہت بڑے محرک (incentive) کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ دراصل بڑا محرک ہے جو کسی بڑے کام کا سبب بنتاہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑا محرک ایک فرد کے دماغ میں پیدا ہوتا ہے، نہ کہ کسی ادارے کے مجموعی دماغ میں۔ چناں چہ کہاجاتا ہے کہ کوئی بڑا آرٹ ہمیشہ انفرادی دماغ (individual mind) نے تخلیق کیا ہے۔ کبھی ایسا نہیںہوا کہ کئی لوگوں کے مجموعی دماغ (collective mind) نے کسی بڑے آرٹ کی تخلیق کی ہو۔
سوویت یونین میں بعد کے زمانے میں جب کہ اُن کے یہاں کوئی بڑا لیڈر موجود نہ رہا تو ان کے یہاں ایک نیا تصور پیداہوا جس کو وہ لوگ اجتماعی قیادت (collective leadership) کہتے تھے۔ لیکن یہ ’’اجتماعی قیادت‘‘ سوویت یونین کے زوال کو بچا نہ سکی۔ سوویت یونین کا عظیم ادارہ اب بھی موجودتھا، لیکن لینن (وفات: 1924 ) اور اسٹالن (وفات: 1953 ) جیسا کوئی فرد نہ ہونے کی وجہ سے ظاہری اعتبار سے بڑا سیاسی ادارہ ہونے کے باوجود سوویت یونین منہدم ہو کر رہ گیا۔
8 ستمبر 2009 کی دوپہر کو ہم لوگ آشوز (Auschwitz) سے لوٹ کر اپنی قیام گاہ پر واپس آگئے۔ آج شام کو کانفرنس کا آخری پروگرام تھا۔ یہ پروگرام بہت بڑے پیمانے پر ہوتا ہے۔ اس کو دعائِ امن (prayer for peace) کہاجاتاہے۔
اِس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے لوگ مختلف مقامات پر اکھٹا ہو کر اپنے مذہب کے مطابق، عبادت کرتے ہیں۔ وہاں وہ امن کی دعاء کرتے ہیں۔ اِس کے بعد یہ تمام لوگ یکجا ہو کر جلوس کی شکل میں چلتے ہیں۔ سڑک کے دونوں طرف مقامی لوگ بڑی تعداد میںاستقبال کے لیے کھڑے رہتے ہیں، پھر یہ قافلہ چلتا ہوا ایک مقام تک پہنچتا ہے جہاں بہت بڑا اسٹیج بنا ہوا ہوتا ہے۔ یہاں کانفرنس کے لوگ بلند اسٹیج پر بنی ہوئی مخصوص نشستوں پر بیٹھتے ہیں۔ یہاں امن کے موضوع پر تقریر یں ہوتی ہیں، امن کی مشعل جلائی جاتی ہے، امن کے ڈیکلریشن پر دستخط کئے جاتے ہیں، وغیرہ۔ آخر میں پیس پیس (peace, peace) کہتے ہوئے سب لوگ ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔
کانفرنس کا یہ آخری اجلاس (final ceremony) جس مقام پر ہوا، اس کو مارکیٹ اسکوائر (Market Square) کہتے ہیں۔یہ ایک وسیع اورکشادہ جگہ ہے۔ یہاں چاروں طرف بڑے بڑے چرچ (Cathedral) اور بڑی بڑی عمارتیں ہیں۔ یہاں لوگ بہت بڑی تعداد میں اکھٹا ہوئے تھے۔ میرے ساتھیوں نے یہاں قرآن کا انگریزی ترجمہ بڑے پیمانے پر لوگوں کو دیا۔
آخری اجلاس کے موقع پر جن لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا گیا، ان میں سے ایک مسٹریوشع(Joshua P. Du Bois) تھے۔ وہ صدر امریکا براک اوباما کے خصوصی معاون ہیں۔ میرے ساتھیوں نے مسٹر یوشع کو قرآن کے انگریزی ترجمے کی مزید کاپیاں دیتے ہوئے کہا کہ براہِ کرم، اِس کو آپ صدر امریکا اور وائٹ ہاؤس کے دیگر افراد تک پہنچانے میں ہمارا تعاون فرمائیں۔ مسٹر یوشع نے خوشی کے ساتھ اِس درخواست کو قبول کیا اور کہا کہ ہم ضرور اِس کو صدر اوبامہ تک پہنچا دیں گے۔ مسٹریوشع نے اپنا جو وزٹنگ کارڈ دیا، اس میں ان کے بارے میں یہ الفاظ درج تھے:
Special Assistant to the President Obama and Executive Director, White House Office of Faith-Based and Neighborhood Partnerships, The White House, Washington, D.C.
اِس اجلاس کے بعد کانفرنس کی رسمی کارروائی ختم ہوچکی تھی۔ آج شام کے کھانے کا انتظام کریکو کے ایک تاریخی مقام (Gardens of the Archeological Museum) پر کیاگیا تھا۔ اِس کا جو دعوت نامہ ہم لوگوں کو ملا، اس کے اوپر یہ الفاظ درج تھے:
The Marshal of the Voivodship of Matopolska is privileged to invite you to a dinner.
یہاں میوزیم کے خوب صورت پارک کے اندر خاص انداز سے سفید کپڑوں کے ذریعے بنایا ہوا ایک بہت بڑا ہال تیار کیاگیا تھا۔ اِسی ہال میں ہم لوگوں کے کھانے کا انتظام تھا۔ اِس موقع پر ہمارے ساتھیوں نے ایک میز پر قرآن کے انگریزی ترجمے کی کاپیاں رکھ دیں۔ وہ حاضرین سے مل کر انھیں قرآن کا انگریز ی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دے رہے تھے۔
عجیب بات ہے کہ اِس کانفرنس میںجو عرب آئے ہوئے تھے، انھوں نے اِس دعوتی کام سے کوئی دل چسپی نہیں لی، بلکہ کانفرنس کے دوران انھوںنے ہمارے ساتھیوں کی اِس دعوتی جدوجہد کی حوصلہ شکنی کی۔ ان لوگوں سے بات کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ ان کے اندر دعوت الی اللہ کا کوئی جذبہ موجود نہیں۔ اسلام کے نام پر جس چیز سے وہ باخبر ہیں، وہ صرف اُن کا قومی فخر ہے، اِس کے سوا کچھ اور نہیں۔
یہاں جن لوگوں سے ملاقات ہوئی، اُن میں سے ایک مز کیتھرین تھیں۔ وہ سویڈن کے شہر اُپسالا (Uppsala) کے چرچ کی نمائندہ تھیں۔ میرے ساتھی مولانا محمد ذکوان ندوی نے اُن سے سویڈش (Swedish)زبان میں بات کی اور اُن کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔ وہ بہت خوش ہوئیں۔ مولانا محمد ذکوان ندوی اِس سے پہلے سویڈن (یورپ) کے دار السلطنت اسٹاک ہوم (Stockholm) میں چار سال تک رہ چکے ہیں۔ مز کیتھرین نے کہا کہ مجھ کو اِس ترجمہ قرآن کی ایک مزید کاپی چاہیے۔ میںاُسے اپنے ساتھی کو مطالعے کے لیے دوں گی۔ مز کیتھرین کے کارڈ پر اُن کے متعلق یہ الفاظ درج تھے:
Ann-Cathrin Jarl
PhD, Reverend, Chaplain to the Archbishop
وارسا کے ایک ڈیلی نیوز پیپر (Rzeczpospolita)کی نمائندہ مزایوا (Ewa Czaczkowska) نے کانفرنس سے متعلق میرے تأثرات پوچھے۔ میں نے حسب ذیل الفاظ میں اپنے تأثرات کا اظہار کیا:
According to my experience, the International meeting at Kracow organized by the community of St. Egidio, is very important. I see it in term of a process. Karacow meeting is a part of a continued process. It is like reviving the spirit of Assisi. The Community of St. Egidio is trying to mobilize people on the spirit of peace. Such mibilization itself is very important. I have participated in some meeting of this kind. I have found that it always yields positive result, specially in terms of peace and brotherhood. I hope that Kracow meeting will surely boost this peace process.
پولینڈ نسبتاً یورپ کا ایک پس ماندہ ملک ہے، لیکن یہاں کا انفراسٹرکچر (infrastructure) تقریباً اُسی معیار کا نظر آیاجو یورپ کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں دکھائی دیتا ہے۔ مثلاً سوئزرلینڈ اور جرمنی، وغیرہ۔اِس کا سبب یہ ہے کہ مسیحی یورپ (بااستثنائِ ترکی) ہر جگہ یہ ذہن پایا جاتاہے کہ انفراسٹرکچر کے مطالعے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا ہے۔ یورپ میں دوسری کئی برائیاں پائی جاتی ہیں، لیکن انفراسٹرکچر کے معاملے میں سب کا ذہن ایک ہے، وہ یہ کہ انفراسٹرکچر کو اعلیٰ معیار پر باقی رکھنا ہے۔ وہاں کا کوئی کنٹریکٹر (contractor)اگر کوئی سڑک بنائے یا تعمیرات کرے تو وہ ایسا کبھی نہیں کرے گا کہ اپنے فائدے کے لیے وہ طے شدہ معیار میں کمی کردے۔
انڈیا اور پاکستان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہاں کی سپریم چیز صرف ایک ہے، اور وہ صرف پیسہ (money) ہے۔ یہاں کا انجینئر اور کنٹریکٹر کم تر معیار کی چیزیں بنائے گا، صرف اِس لیے کہ اس کی اپنی کمائی میںاضافہ ہوسکے۔
کریکو میںایک بار ایساہوا کہ ہم سڑک پر بذریعہ کار سفر کررہے تھے۔ درمیان میں ایک جگہ کار تقریباً 15 منٹ تک آہستہ آہستہ چلتی رہتی رہی۔ میں نے اپنے ساتھی سے پوچھا کہ ایسا کیوںہے۔ انھوںنے بتایا کہ ہماری کار کے آگے ایک گھوڑا گاڑی چل رہی ہے۔
اِس قسم کی گاڑی یہاں سیاحوں کی تفریح کے لیے چلائی جاتی ہے جس کو جوائے رائڈ (joy ride) کہاجاتاہے۔ انڈیا میںاِس طرح کے موقع پر کار کا ڈرائیور مسلسل ہارن بجائے گا، لیکن وہاں ایک بار بھی ڈرائیور نے ہارن نہیں بجایا۔ وہ صبر کے ساتھ چلتا رہا، یہاں تک کہ راستہ صاف ہوگیا، پھر اس نے اپنی گاڑی تیز چلائی۔
ہم لوگ پولینڈ میں تین دن تک رہے۔ ہمیں یہاںکی مختلف سڑکوں پر گزرنے کا موقع ملا، لیکن کہیں کوئی شور وغل یا ہارن کی آواز سنائی نہیں دی، کسی مقام پر ایسا نہیں ہوا کہ بھیک ماننے والے لوگ ہماری گاڑی کو گھیر کر کھڑے ہوجائیں۔ انڈیا میں گانے والے لوگ اِس قسم کے گیت گاتے ہیں:
مرے دیش کی دھرتی سونا اگلے، اگلے ہیرے موتی
لیکن پہلا موقع پاتے ہی وہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو یورپ اور امریکا بھیج دیتے ہیں— انڈیا کے سارے بگاڑ کا سبب صرف ایک ہے اور وہ کرپشن (corruption) ہے۔ بظاہر حالات انڈیا میں کرپشن کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔
ایک عرب عالم سے مجدد اور تجدید دین کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے کہا کہ مجدد کون ہے۔ مجدد کوئی پُر اسرار لفظ نہیں۔ مجدد دراصل وہ ہے جو بدلے ہوئے حالات میںاسلام کے ریلونس (relevance) کو دریافت کرے۔ مثلاً موجودہ زمانے میں سیکولرازم اور جمہوریت کے سیاسی نظریات سامنے آئے تو تمام مسلم رہنماؤں نے اس کے خلاف منفی رد عمل کا اظہار کیا، حالاں کہ تجدیدی نقطۂ نظر سے کرنے کا اصل کام یہ تھا کہ وہ سیکولر ازم اور جمہوریت کے مقابلے میں اسلام کی مثبت پوزیشن کو دوبارہ دریافت کریں۔
کریکو سے واپسی کا سفر 9ستمبر 2009 کو شروع ہوا۔ واپسی کا سفر بھی دوبارہ اُسی راستے سے طے ہوا جس راستے سے ہم لوگ دہلی سے کریکو گئے تھے۔ راستے میںایک انگریزی اخبار میں ایک خبر پڑھنے کو ملی۔ یہ خبر نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (8 ستمبر 2009) میں بھی چھپی ہے۔ اِس خبر کاعنوان یہ تھا — خدا کا عقیدہ انسان کے دماغ میں پیوست ہے:
Belief in God hardwired in our brain
خبر میں بتایا گیا تھا کہ انگلینڈ کی برسٹول یونی ورسٹی (Bristol University) میںایک رسرچ ہوئی ہے جس کے نتائج ٹائمس آن لائن (Times Online) میں چھپے ہیں۔ اِس رسرچ میں بتایاگیاہے کہ— خدا کا عقیدہ انسان کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتاہے۔ ارتقاء کے دوران انسان کی اِس طرح پروگریمنگ ہوئی ہے کہ وہ خدا پر عقیدہ رکھے، کیوں کہ اِس سے اُنھیں زندہ رہنے کا زیادہ بہتر موقع ملتاہے:
We are born believers. Human beings are programmed by evolution to believe in God, because it gives them a better chance to survival. (p. 17)
اِس بیان میں عقیدہ خدا کا فطری ہونا تو رسرچ کا حصہ ہے، لیکن ارتقاء (evolution) والی بات رسرچ کرنے والوں کا اپنا اضافہ ہے —حقیقی مشاہدات میںاِسی قسم کے مفروضات کے اضافے سے حیاتیاتی ارتقاء کا پورا نظریہ قائم کیاگیا ہے۔
9 ستمبر 2009 کو پولینڈ سے واپسی تھی۔ائرپورٹ جانے کے لیے ہمیں صبح سویرے چار بجے ہوٹل سے نکلنا تھا۔ کمیونٹی کے ایک ممبر نے کہا کہ میں آپ کو اپنی کار سے ائر پورٹ لے جاؤں گا۔ میںاپنے مزاج کی بنا پر متردد تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ٹھیک وقت پر ہماری قیام گاہ پرنہ پہنچ سکیں، کیوں کہ وہ کسی دوسری جگہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ لیکن صبح کو جب ہم لوگ ہوٹل کے رسپشن سے چیک آؤٹ (check-out) کرکے ہوٹل کے گیٹ پر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ مذکورہ نوجوان وہاں پیشگی طورپر اپنی گاڑی لے کر کھڑے ہوئے ہیں۔ خدمت کرنے والے یہ لوگ کوئی عام لوگ نہ تھے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے اور اچھے عہدوں سے تعلق رکھنے والے تھے۔
ہوٹل سے روانہ ہو کر ہم لوگ کریکو ائر پورٹ پہنچے۔ کریکو ائر پورٹ نسبتاً ایک چھوٹا ائر پورٹ ہے۔ ہم لوگوں نے فجر کی نماز ائر پورٹ پر ادا کی۔ ائر پورٹ کی رسمی کارروائی کے بعد ہم جہاز کی طرف بڑھے۔ یہاں ہمارے ساتھیوں نے کچھ مسافروں اور ائر پورٹ کے عملہ کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور دعوتی لٹریچر دیا۔
مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ہم لوگ جہاز کے اندر داخل ہوئے۔ یہ ایک چھوٹا جہاز تھا۔ کریکو سے وارسا کا یہ سفر پولش ائر لائنز کی فلائٹ نمبر 3910 کے ذریعے ہوا۔ صرف 50 منٹ کی پرواز کے بعد ہم لوگ وارسا ائرپورٹ پر اتر گئے۔ وارسا ائرپورٹ پر ہم لوگ یہاں کے لاؤنج میں چلے گئے۔ وہاں بیٹھنے کے علاوہ کھانے پینے کا بھی انتظام تھا۔
لاؤنج کے مختلف حصوں میں بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، لیکن وہاں کسی قسم کا کوئی شور نہ تھا۔ ہر عورت اور مرد خاموشی کے ساتھ اپنا اپنا کام کررہے تھے۔ مغربی دنیا میں جس طرح ورک کلچر ہے، اسی طرح یہاں خاموشی کلچر ہے۔ یہ لوگ یا تو چپ رہتے ہیں، یا وہ بہت آہستہ آہستہ بات کرتے ہیں، تاکہ آس پاس کے لوگ ڈسٹرب نہ ہوں۔ یہاں بھی ہمارے ساتھیوں نے لاؤنج میں بیٹھے ہوئے مختلف لوگوں کو قرآن کا انگریزی ترجمہ دیا۔
وارسا کے لاؤنج میں تقریباً 2 گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ہم لوگ دوپہر کے وقت اگلے جہاز پر سوار ہوئے۔ یہ جہاز وارسا سے زیورک جانے والا تھا۔ وارسا سے زیورک کا جہاز کسی وجہ سے آدھ گھنٹہ لیٹ ہوگیا۔ یہ ہمارے لیے ایک سنگین مسئلہ تھا۔ کیوں کہ زیورک ائرپورٹ پر اگلے جہاز کا وقت اِس طرح تھا کہ جب یہ جہاز وہاں پہنچے گا تو اُس وقت وہ جہاز زیورک سے دہلی کے لیے روانہ ہو چکاہوگا۔
لیکن اس موقع پر ہم لوگوں کے ساتھ خدا کی خصوصی مدد ہوئی۔ زیورک پہنچنے پر معلوم ہوا کہ زیورک سے دہلی جانے والا جہاز آدھ گھنٹہ لیٹ تھا۔ اِس تاخیر کی بنا پر ہم لوگوں کو زیورک ائر پورٹ پر مزید رکنا نہیں پڑا اور آسانی سے اگلا جہاز مل گیا۔ زیورک ائر پورٹ پر جب ہم کو یہ بات بتائی گئی تو ہمارے ساتھیوں نے اللہ تعالیٰ کا خصوصی شکر ادا کیا۔ مجھے ایسامحسوس ہوا کہ دہلی سے چلتے ہوئے میںنے دہلی سے دہلی تک (from Delhi to Delhi) کی جو دعا کی تھی، وہ اللہ تعالیٰ نے قبول فرمائی اور اسی کا یہ کرشمہ ہے کہ ہمیں زیورک میں اگلا جہاز آسانی کے ساتھ مل گیا۔
زیورک ائر پورٹ کی ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہاں ہمیں ائر پورٹ کی لمبی دوری طے کرکے فوراً جہاز تک پہنچنا تھا۔ اِس کے لیے مجھے یہاں ایک خصوصی وھیل چئر فراہم کی گئی۔ شروع میں ہماری وھیل چئر ائرپورٹ کی ایک خاتون چلا رہی تھیں۔ وہ بہت آہستہ آہستہ چلا رہی تھیں جس کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا اور اندر ہی اندر دعا کررہا تھا۔ اتنے میںائر پورٹ کے عملے کا ایک مرد آگیا اور تیزی سے وھیل چئرکو دوڑاتے ہوئے جہاز کے دروازے تک پہنچا دیا۔ ہمارے ساتھیوں نے یہاں بھی ائر پورٹ کے عملے کے لوگوں کو دعوتی لٹریچر دیا۔
زیورک سے دہلی کا یہ سفر 8 گھنٹے کا تھا۔ اِس دوران سوئس انٹرنیشنل ائرلائنز (Swiss International Air Lines) کا فلائٹ میگزین(Swiss Universe) دیکھنے کو ملا۔ یہ میگزین دو زبانوںمیں تھا — سوئس اور انگلش۔ 96 صفحے کے اِس میگزین میں صرف تین موضوعات شامل تھے— فیشن، بزنس، ٹریویل۔ اس کے دوصفحے میں خریداری کے لیے عورتوں کا چوائس اور مردوں کا چوائس الگ الگ بتایاگیا تھا۔ مردوںکا چوائس (Men’s Choice) خاص طورپر تین چیزیں تھیں— cellphone ، bicycle ، motorbike ۔ اِس کے برعکس، عورتوں کا چوائس (Ladies’ Choice) یہ بتایا گیاتھا— White-gold necklace, White-gold ring, Rose-gold watch ۔
قرآن میں عورتوں کے بارے میں آیا ہے: أو من یُنشَّأ فی الحلیۃ (الزّخرف: 18) یعنی عورت آرائش میں پرورش پاتی ہے۔ فلائٹ میگزین کے مذکورہ صفحے کو دیکھ کر میںنے سوچا کہ قدیم عورت کی جو نفسیات تھی، وہی جدید عورت کی بھی نفسیات ہے۔
وارسا کے لاؤنج میںکچھ اخبارات مطالعے کے لیے موجود تھے۔ اُن میں سے ایک لندن کا اخبار ٹائمس (The Times) تھا۔ یہ اخبار 90 صفحات پر مشتمل تھا۔ اخبار کے صفحہ 15 کی ایک سرخی یہ تھی— مسجد پر اسلام مخالف مظاہرہ کی صور ت میں تشدد کا اندیشہ:
Violence fears as anti-Islam protest targets mosque
خبر میں بتایا گیا تھا کہ کچھ شدت پسند عناصر 11 ستمبر 2001 کے واقعے کو لے کر لندن کی سنٹرل مسجد (Harrow Central Mosque) پر مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ اِس بنا پر یہ اندیشہ کیا جارہا ہے کہ ایسے موقع پر مظاہرین اور مسلمانوں کے درمیان تصادم (clash) ہوسکتاہے۔ مگر یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اِس قسم کے مظاہرے کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس کا جواب ہی نہ دیاجائے۔ ایسے مواقع پر یہ دراصل جوابی رد عمل ہے جو مسئلہ پیدا کرتاہے، نہ کہ خود عمل۔ یہی وہ حکمت ہے جس کو حضرت عمر فاروق نے اِن الفاظ میں بیان کیا تھا۔ أمیتوا الباطل بالصّمت عنہ (باطل کا خاتمہ کرو، اس کے معاملے میں چپ رہ کر)
اخبار کے صفحہ 32 پر کچھ اقوال نقل کئے گئے تھے۔ اُن میں ایک قول یہ تھا— اپنے بچوں کو دیانت کی تعلیم دینے سے پہلے ہمیں دنیاکو دیانت دار بنانا ہوگا:
‘We must make the world honest, before we can honestly say to our children that honesty is the best policy’. George Bernard Shaw
برنارڈ شا کا یہ قول ایک دل چسپ قول ہوسکتاہے، لیکن حقیقت کے اعتبار سے وہ ایک غیر عملی بات ہے۔ دنیا کے تمام لوگوں کو دیانت داربنانا ایک غیر عملی منصوبہ بنانا ہے۔ اِس قسم کا آئڈیل سماج اِس دنیا میں کبھی نہیں بن سکتا۔ لیکن افراد کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے آپ کو بقدر امکان دیانت دار بنائیں۔ دوسری بات یہ کہ دیانت داری صرف عملی برتاؤ کا نام نہیں ہے۔ دیانت داری سب سے پہلے دیانت دارانہ سوچ (honest thinking) کانام ہے، اور کسی فرد کے لئے دیانت دارانہ سوچ ہمیشہ اور ہر حال میں قابل عمل ہوتی ہے۔
جہاز کے اندر جب مسافروں کے لیے کھانا آیا تو میںنے دیکھا کہ اس کے پیکٹ کے اوپر یہ الفاظ درج تھے— کھانے کا لطف اٹھائیے: Enjoy your meal
یہ بات کھانے کے پیکٹ پر پانچ زبانوں میں لکھی ہوئی تھی۔ عربی زبان میں یہ الفاظ تھے:
بالہنا والشفا
یہ جدید مادّی کلچر کا ایک نمونہ ہے۔ زندگی کا مادّی نقطہ نظر (materialistic concept of life) پورا کا پورا تفریح (entertainment) کے اصول پر مبنی ہے۔ اِس کے مقابلے میں، مومنانہ نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر چیز میں خدا کی رحمت کو دیکھا جائے۔ کھانے کو الحمد للہ کہہ کر کھایا جائے۔ لیکن یہ الحمد للہ صرف لسانی تلفظ نہیںہے، بلکہ وہ شکر سے معمور قلب کا ایک گہرا اظہار ہے۔
9 ستمبر 2009 کی رات کو بارہ بجے ہم لوگ دہلی ائر پورٹ پر اترے۔ایر پورٹ کی طرف سے مجھ کو وھیل چئر مہیا کی گئی۔ میںاِس وھیل چئر پر بیٹھ کر چلا، مگر تھوڑی دیر میں مجھے سخت انقباض ہونے لگا۔ یہ وھیل چئر ایک انڈین آدمی چلا رہا تھا۔ وہ اتنے سست انداز میں وھیل چئر چلا رہا تھا جس کو عوامی زبان میں ’مارے باندھے‘ طریقے پر چلانا کہاجاتا ہے، جب کہ اِس سے پہلے وارسا اور زیورک ائر پورٹ پر یورپین آدمی پورے جوش و خروش کے ساتھ وھیل چئر چلا رہا تھا۔ مجھے یہ بات سخت ناگوار ہوئی اور میں پاؤ ںسے چل کر ائر پورٹ کے باہر آیا۔
دہلی ائر پورٹ پر پہنچنے کے بعد میرے ساتھی نے مسٹر اشوک ڈرائیور کو ٹیلی فون کیا۔ انھوںنے بتایا کہ میںائرپورٹ کے باہر موجود ہوں۔ یہ کرشمہ موبائل ٹیلی فون کا تھا۔ موبائل کے دورسے پہلے مسافر کو یہ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اس کی کار یا اس کو رسیو کرنے والے لوگ ائر پورٹ پر آئے ہوئے ہیں یا نہیں۔ اب موبائل کی بناپر یہ ممکن ہوگیا ہے کہ ہوائی جہاز کے لینڈ کرتے ہی یہ معلوم کرلیا جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب نعمت ہے۔ اِس نعمت کو بے شمار لوگ استعمال کررہے ہیں، ریلوے اسٹیشن پر بھی اور ائر پورٹ پر بھی، لیکن میں نے کسی کو نہیں دیکھاجو اس عظیم نعمت پر شکر ِ خداوندی کے جذبے سے سرشار ہورہا ہو۔
جب میں دہلی سے سفر کرکے پولینڈ گیا تھا تو وہاں بھی ائر پورٹ پر مجھ کو رسیو کرنے والے لوگ موجود تھے۔ جب میں وہاں سے دہلی آیا تو یہاں کے ائر پورٹ پر بھی ایسا ہی ہوا۔ میںنے دعا کی کہ خدایا، اِسی طرح میری زندگی کا جہاز ایک دن آخرت کے ائرپورٹ پر اترنے والا ہے۔ تو اپنے فرشتوں کو حکم دے دے کہ وہ وہاں میری مدد کے لیے موجود ہوں اور مجھے اپنے ساتھ لے کر اُس قیام گاہ تک پہنچا دیں جس کے بارے میں قرآن میں بتایا گیا ہے کہ جہاں نہ خوف ہوگا اور نہ حزن۔
(یہ سفرنامہ مولانا محمد ذکوان ندوی کے تعاون سے تیار کیا گیا)
زر تـعـــاون الــرســــالــہ
واپس اوپر جائیں