Pages

Tuesday 1 April 2003

Al Risala | April 2003 (الرسالہ،اپریل)

2

- موت کے قریب

3

- گمراہ نہ ہونا

5

- معاشی کامیابی کا اصول

6

- گھرایک تربیت گاہ

8

- ایمان کے ذائقے

9

- اسوۂ رسول

10

- اخلاص کی اہمیت

11

- دعا عبادت ہے

12

- ایمان کی شاخیں

13

- خدا کا تجربہ

14

- تعبیر کا مسئلہ

15

- سب سے زیادہ خطرناک

16

- اعتدال کا طریقہ

17

- طلبہ کے نام

18

- کامیاب زندگی کا اصول

20

- سوال وجواب

33

- ایک اخباری انٹرویو

39

- خبر نامہ اسلامی مرکز


موت کے قریب

۲ فروری ۲۰۰۳ کو تمام دنیا کے اخباروں کی پہلی خبر صرف ایک تھی۔ وہ یہ کہ—امریکہ کا خلائی شٹل کولمبیا دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے (disintegrate)ہوگیا۔ یہ کولمبیا کا ۲۸واں خلائی سفر تھا۔ یہ امریکی شٹل (US space shuttle Columbia) اپنے ۱۶ دن کے سفر کے بعد زمین پر اترنے والا تھا۔ وہ تقریباً دو لاکھ فٹ کی بلندی پر ۱۹ ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے زمین کی طرف بڑھ رہا تھا کہ اچانک زمینی کنٹرول سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا اور وہ دھماکے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ اس وقت اس میں ۷ مسافر تھے جو سب کے سب مر گئے۔ اس خبر کا عنوان نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا نے ان الفاظ میں قائم کیا ہے—گھر سے صرف ۱۶ منٹ دور:
ـJust 16 minutes from home.....
میں نے اس خبر کو پڑھا تو میںنے سوچا کہ یہی اس دنیا میں ہر انسان کا آخری انجام ہے۔ ہر انسان اپنا ایک خوابوں کا گھر (dream home) بناتا ہے جس میں وہ پُر مسرت زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ لیکن ابھی وہ اس گھر سے صرف ۱۶ منٹ دور ہوتا ہے کہ اچانک اس کی موت آجاتی ہے۔ وہ اپنے بنائے ہوئے دنیوی گھر میں داخلہ کے بجائے آخرت کی عدالت میں پہنچا دیا جاتا ہے۔
اس خلائی شٹل میں ایک ہندستانی نژاد خاتون کلپنا چاؤلہ (۴۱ سال) بھی تھیں جو کرنال میںپیدا ہوئیں۔ سارا ہندستان ان کی واپسی کا انتظار کررہا تھا ۔ ان کے دوست اور رشتہ دار سفر کرکے امریکہ پہنچ چکے تھے تاکہ اسپیس شٹل کے اترنے کے بعد وہ کلپنا چاؤلا کو براہ راست مبارکباد دے سکیں۔ کلپنا چاؤلہ اگر حفاظت کے ساتھ واپس آگئی ہوتیں تو ان کا ہیروانہ استقبال ہوتا۔ مگر موت نے درمیان میں حائل ہوکر ایک کمیڈی کو ایک ٹریجڈی میں تبدیل کردیا۔
یہ واقعہ کلپنا چاؤلہ کے لئے ایک ذاتی تجربہ تھا اور دوسروں کے لئے وہ ایک سبق ۔ اس واقعہ کو جاننے والا وہی ہے جو اس کے اندر خود اپنی تصویر دیکھ لے، جو اس کے اندر اپنی ذات کے لئے سبق حاصل کرلے۔
واپس اوپر جائیں

گمراہ نہ ہونا

امت محمدی کے بارے میںایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ان امتی لا تجتمع علی ضلالۃ (ابن ماجہ، کتاب الفتن) یعنی بے شک میری امت کبھی کسی گمراہی پرجمع نہ ہوگی۔اس حدیث کامطلب عام طورپر یہ لیا جاتا ہے کہ پوری کی پوری امت ہمیشہ ہدایت پر رہے گی۔ وہ کبھی ضلالت پر جمع نہ ہوگی۔ حالاں کہ حدیث کایہ مطلب نہیں۔ حدیث کا مطلب صرف یہ ہے کہ امت محمدی پر ایسا وقت کبھی نہیں آئے گا کہ دوسری امتوں کی طرح،ساری امت ضلالت پر مجتمع ہوجائے۔ بلکہ ہمیشہ ایسا ہوگا کہ ضلالت عام کے باوجود کچھ لوگ ضلالت سے بچے رہیں گے اور لوگوں کو ہدایت کا راستہ دکھاتے رہیں گے۔ اس حدیث میں ایک تاریخی حقیقت کو بتایا گیا ہے، نہ کہ دوسری امتوں کے مقابلہ میں امت محمدی کی فضیلت کو۔
اصل یہ ہے کہ یہ کوئی فضیلت کا معاملہ نہیں۔ بلکہ وہ ایک سادہ فطری حقیقت کا بیان ہے۔ پچھلی امتوں میں عمومی بگاڑ کا سبب یہ تھا کہ ان کا آسمانی متن محفوظ نہ رہا۔ اس بنا پر ان کے یہاں صحیح اور غلط کو جانچنے کاکوئی معیار باقی نہ تھا۔ یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ رہا کہ خدا کی مستند ہدایت کیا ہے۔ اور کوئی چیز غلط ہے تو کیوں غلط ہے۔ کتاب ہدایت کے غیر محفوظ ہونے کی وجہ سے ان کی حالت اندھیرے میں بھٹکے ہوئے مسافر کی ہوگئی۔مگر امت محمدی اس نوعیت کے بگاڑ سے محفوظ ہے۔ پچھلی امتوں میں کتاب ہدایت کے گم یا غیر محفوظ ہونے کی بنا پر بعد کے زمانہ میں دین کو معلوم کرنے کا ذریعہ لوگوں کا عمل یا لوگوں کی اپنی تشریحات ہی باقی رہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ صحیح اور غلط کو پرکھنے کی جو آسمانی یا خدائی کسوٹی ہے وہی موجود نہ رہی۔ مستند ہدایت کے گم ہونے کی وجہ سے لوگ ہدایت سے دور ہوگئے۔ مگر امت محمدی میں چونکہ کتاب ہدایت اصل حالت میںموجود ہے، اس لئے حق کے طالب اس سے ہدایت معلوم کرتے رہیں گے۔ اور لوگ کبھی عمومی گمراہی میںمبتلا نہ ہوں گے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ایک مثال لیجئے۔
حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: من قال لا الہ الا اللّٰہ دخل الجنۃ۔ اس حدیث کے الفاظ کو لے کر کچھ لوگوں نے یہ مسئلہ بنایا کہ کلمہ گو کے لئے جنت ہے۔ یعنی کلمہ کے الفاظ میںکچھ ایسی پر اسرار فضیلت موجود ہے کہ زبان سے اس کاتلفظ کرلینا ہی جنت میں داخلہ کے لئے کافی ہوجائے گا۔ یہ تشریح درایت کے نقطۂ نظر سے بظاہر قابل فہم معلوم نہیںہوتی۔ کیوں کہ جنت جیسی قیمتی چیز کسی آدمی کو حقیقی عمل کی بنیاد پر ملنی چاہئے، نہ کہ محض کچھ الفاظ کی لسانی ادائیگی سے۔ اب اگر قرآن خدانخواستہ محفوظ حالت میں نہ ہو توہمارے پاس وہ مستند معیار (criterion) ہی موجود نہ ہوگا جس پر جانچ کر اس کے صحیح یا غلط ہونے کو معلوم کیا جاسکے۔
اب اگر اس نظریہ کو قرآن کے معیار پر جانچا جائے تو قرآن میںہمیں اس کا واضح جواب مل جاتا ہے۔ اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے سورہ المائدہ ۸۳۔۸۵ کا مطالعہ کیجئے۔ قرآن کی اس آیت میں بھی وہی بات کہی گئی ہے جو مذکورہ حدیث میںہے، یعنی قول پر جنت کا انعام (فاثابہم اللہ بما قالوا جنٰت) مگر اسی کے ساتھ قرآن کی اسی آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قول سے کیا مراد ہے۔ اس سے مراد قول معرفت ہے، نہ کہ مجرد قول لسانی۔اس سے مراد معرفت حق ہے (مما عرفوا من الحق)۔ یعنی یہ بشارت اس انسان کے لئے ہے جس کو سچائی کا گہرا عرفان حاصل ہو۔ یہ عرفان اتنا گہرا تھا کہ اس کے اثر سے اس کی آنکھیں بہہ پڑیں۔ اس نے سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے ایک زندگی کو چھوڑا اور دوسری زندگی کو اختیار کیا۔ کلمہ کی گواہی اس کی اندرونی شخصیت میںایک مکمل انقلاب کا اظہار تھی۔ وہ اس بات کا اعلان تھی کہ کلمہ کی دریافت نے اس کو ایک نیا انسان بنا دیا ہے۔ نیت اور قول اور عمل، ہر اعتبار سے اب وہ ایک بدلا ہوا انسان ہے، نہ کہ وہ انسان جو کلمہ کے اقرار سے پہلے تھا۔
قرآن اگر خدانخواستہ محفوظ حالت میں نہ ہو تو ’’کلمہ گو‘‘ کے نظریہ کی صحت اور غلطی کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ ہمارے پاس نہ ہوگا۔ جب کہ قرآن کے محفوظ ہونے کی بنا پرہم اس حیثیت میں ہیں کہ اس نظریہ کی صحت و غلطی کو مستند طورپر جان سکیں۔ یہی وہ فرق ہے جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ پچھلی امتیں مجموعی طورپر گمراہی کا شکار ہوگئیں۔ جب کہ امت مسلمہ کے لیے محفوظ کتاب الٰہی اس بات کی ضامن ہے کہ وہ کبھی بھی عمومی گمراہی کا شکار نہ ہوسکے۔
واپس اوپر جائیں

معاشی کامیابی کا اصول

رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اذا سبب اللہ لأحدکم رزقا من وجہٍ فلا یدعہ حتی یتغیر لہ أو یتنکر لہ (مسند احمد)۔ یعنی جب اللہ تم میں سے کسی کے لیے رزق کا ایک ذریعہ پیدا کرے تو وہ اُس کو نہ چھوڑے، یہاں تک کہ اُس میں تغیر آجائے یا وہ اُس کے لیے بہتر نہ رہے۔جب کوئی شخص ایک معاشی کام کررہا ہو اور اُس کے ذریعہ اُس کا رزق مل رہا ہو تو اُس کے لیے یہ درست نہیں کہ وہ کسی معقول سبب کے بغیر اُس کو چھوڑ دے۔ مثلاً اُس کو اپنے صاحب معاملہ سے کوئی شکایت پیدا ہوجائے یا صاحب معاملہ کے کسی سلوک سے اُس کے جذبات کو ٹھیس پہنچے تو یہ معاشی تعلق توڑنے کے لیے کافی سبب نہیں۔ اس طرح لگے ہوئے ذریعۂ رزق کو چھوڑنا اُس کے لیے درست نہ ہوگا۔ آدمی کو چاہئے کہ وہ صبر و برداشت کا طریقہ اختیار کرے۔ وہ منفی ردّ عمل کے تحت کوئی فیصلہ نہ لے۔ بلکہ تحمل کی روش اختیار کرے۔ کیوں کہ ایسے اسباب فطری ہیں اور وہ ہمیشہ پیش آتے ہیں۔
البتہ اگر حالات میں ایسی کوئی تبدیلی آجائے جو آدمی کے لیے کوئی حقیقی مسئلہ پیدا کردے یا ایسی کوئی صورت پیدا ہوجائے جس میںاُس کے کام کی معاشی افادیت غیر تسلّی بخش ہو جائے تو ایسی صورت میں آدمی نیا فیصلہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ گویا معاشی ذریعہ کو بدلنا واقعی معنوں میں کسی حقیقی عذر کی بنا پر ہونا چاہئے۔اس قسم کا فیصلہ محض وقتی جذبہ کے تحت نہیں کیا جاسکتا۔ جذباتی فیصلہ کسی بھی معاملہ میں درست نہیں، خواہ وہ معاشی معاملہ ہو یا اور کوئی معاملہ۔
ایک معاشی کام کو چھوڑنا صرف اُس وقت درست ہے جب کہ آدمی کو دوسرا بہتر معاشی کام مل گیا ہو۔ اگر وہ اپنے موجودہ کام سے مطمئن نہیں ہے تو اُس کو اپنے موجودہ کام پر باقی رہتے ہوئے نیا کام ڈھونڈھنا چاہئے۔ اُس کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ دوسرا بہتر کام حاصل کیے بغیر وہ اپنے پہلے کام کوچھوڑ دے۔ اس کو چاہئے کہ وہ نا پسندیدگی کے باوجود اس وقت تک اپنے پہلے کام پر قائم رہے جب تک کہ اُس کو دوسرا زیادہ بہتر کام نہ مل جائے۔
واپس اوپر جائیں

گھرایک تربیت گاہ

ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیرکم خیرکم لأہلہ و أنا خیرکم لأہلی(ابن ماجہ کتاب النکاح، الدارمی کتاب النکاح) یعنی تم میں سب سے اچھا وہ ہے جواپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو اور میںتم میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہوں۔
گھر کسی سماج کا ایک ابتدائی یونٹ ہے۔جوکچھ زیادہ بڑے پیمانہ پر پورے سماج میں پیش آتا ہے وہی گھر کے اندر چھوٹے پیمانہ پر پیش آتا ہے۔ آدمی کے اچھے یا برے ہونے کافیصلہ باہمی تعلقات کے درمیان ہوتاہے۔ ہر گھر گویا انہی تجربات کا ایک چھوٹا ادارہ ہے اور ہر سماج انہی تجربات کا ایک بڑا ادارہ ۔
ہر عورت یا مرد جب اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ زندگی گذارتے ہیں تو اُن کو کبھی خوش گوار تجربہ پیش آتا ہے اور کبھی ناخوشگوار تجربہ، کسی معاملہ میں اُن کے اندر نفرت کے جذبات بھڑکتے ہیں اور کبھی محبت کے جذبات، کبھی وہ خوشی سے دوچار ہوتے ہیں اور کبھی ناخوشی سے، کبھی اُن کی انا کو تسکین ملتی ہے اور کبھی اُن کی اَنا پر چوٹ لگتی ہے، کبھی وہ اعتراف کی صورت حال میں ہوتے ہیں اور کبھی بے اعترافی کی صورت حال میں، کبھی حقوق کی ادائیگی کا موقع ہوتاہے اور کبھی حقوق کے انکار کا موقع، وغیرہ۔
گھر کے اندرپیش آنے والی یہ مختلف حالتیں ہر عورت اور ہر مرد کے لیے اپنی تیاری کے مواقع ہیں۔ جو لوگ ایسا کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے شعور ایمان کو زندہ رکھیں، وہ اپنا احتساب کرتے ہوئے زندگی گذاریں، اُن کو ہمیشہ آخرت کی پکڑ کا احساس لگا ہوا ہو۔ ایسے لوگوں کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی مذکورہ بالا قسم کا کوئی موقع اُن کے سامنے آئے گا تو وہ متنبہ ہوجائیں گے اور صحیح اسلامی روش کو اختیار کریں گے۔
جو عورت اور مرد اپنے گھر کے اندر اس قسم کی ہوش مندانہ زندگی گذاریں، اُن کے لیے اُن کا گھر ایک تربیت گاہ بن جائے گا۔ اُن کے گھر کا ماحول اُنہیں ہر صبح و شام تیار کرتا رہے گا۔ اُن کی یہ زندگی اُن کے لیے اس بات کی ضمانت بن جائے گی کہ جب وہ گھر کے باہر سماجی زندگی میںآئیں تو وہ سماج کے اندر بھی اُسی طرح ایک حق پرست انسان ثابت ہوں جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر حق پرست انسان ثابت ہوئے تھے۔
ایک آدمی جواپنے گھر کے اندر لڑتا جھگڑتا ہو وہ اسی طرزِ زندگی کا عادی بن جائے گا۔ جب وہ اپنے گھر سے باہر آئے گا تو یہاں بھی وہ لوگوں سے لڑنے جھگڑنے لگے گا۔ اپنے آفس میں، اپنے کاروبار میں ، روز مرہ کی زندگی میںوہ دوسروں کے ساتھ بھی اُسی طرح غیر معتدل انداز میں رہے گا جس طرح وہ اپنے گھر کے اندر غیر معتدل انداز میں رہ رہا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اُس کے گھر کے معاملات بھی بگڑ جائیں گے اور اُس کے باہر کے معاملات بھی۔
اسی طرح کچھ ایسے لوگ ہیں جو اپنے گھر کے اندر تو غیر مہذب انداز میں رہتے ہیں لیکن جب وہ باہر آتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ اُن کا رویّہ تہذیب اور شائستگی کا رویّہ بن جاتا ہے۔ اس طرح وہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں اچھے بنے رہیں۔ مگر یہ ایک منافقت ہے، اور اللہ کو منافقت پسند نہیں۔
کسی مسلمان پر جو دینی ذمہ داری ہے وہ صرف اس طرح ادا نہیں ہوجاتی کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھ لے، رمضان کے روزے رکھ لے اور مکہ جاکر حج کرلے۔ اسی کے ساتھ ضروری ہے کہ لوگوں کے ساتھ اُس کا اخلاق اچھا ہو۔ انسانوں کے ساتھ سلوک میںوہ خدائی احکام کی پابندی کرتاہو، لوگوں کے درمیان وہ اس احساس کے ساتھ رہے کہ اُس کو اپنے ہر قول اور ہر فعل کاجواب خدا کو دینا ہے۔
موجودہ دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے۔ ایک طرح کی زندگی انسان کو جنت کی طرف لے جاتی ہے۔ اور دوسری طرح کی زندگی اُس کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے۔زندگی کی اس امتحانی نوعیت کا تعلق گھر کے اندر کے معاملات سے بھی ہے اور گھر کے باہر کے معاملات سے بھی۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کے ذائقے

حدیث میں آیا ہے کہ: ذاق طعم الایمان من رضی باللہ رباً (صحیح مسلم کتاب الایمان، مسند احمد) یعنی ایمان کا ذائقہ چکھا اُس شخص نے جو اللہ کو اپنا رب بنانے پر راضی ہوگیا۔ معلوم ہوا کہ ایمان ایک ذائقہ ہے۔ یہ ذائقے مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔خدا نے ہماری دنیا میں طرح طرح کے مادی پھل پیدا کئے۔ ہر پھل کا ذائقہ الگ الگ ہے۔ جو ذائقہ کھجور میں ہے وہ انجیر میںنہیں۔ جو ذائقہ انگور میں ہے وہ سیب میں نہیں۔ جو ذائقہ آم میں ہے وہ کیلے میں نہیں۔ اسی طرح ہر پھل کے الگ الگ ذائقے ہیں۔ جب آدمی کسی پھل کو کھاتا ہے تو وہ اس کے انفرادی ذائقہ کو پاتا ہے۔ یہی معاملہ ایمانی ذائقوں کا بھی ہے۔ خدا نے اہل ایمان کے لئے ایک ذائقہ خوشی میں رکھا ہے جو اس نے غم میں نہیں رکھا۔ ایک ایمانی ذائقہ محرومی میں ہے جو یافت میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ تنگی میںہے جو آسودگی میں نہیں۔ایک ایمانی ذائقہ بیماری میں ہے جو صحت میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ جو مشکل میں ہے وہ آسانی میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ مقتدی بننے میںہے وہ امام بننے میںنہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ گم نامی میںہے جو شہرت میں نہیں۔ ایک ایمانی ذائقہ بے اختیاری میں ہے جو اختیار میںنہیں۔ جو ایمانی ذائقہ عجز میں ہے وہ قدرت میںنہیں، وغیرہ۔
تاہم مختلف احوالمیں مختلف ایمانی ذائقے ملنا اس پر منحصر ہے کہ آدمی کے اندر سچا ایمانی شعور زندہ ہو۔ کوئی ذائقہ اپنے آپ نہیں ملتا بلکہ ایمان کی بیداری کی شرط کے ساتھ ملتا ہے۔ جس طرح مادی پھلوں کے ذائقے اس آدمی کو ملتے ہیں جس کی زبان میں ذائقہ خانے (taste buds) زندہ ہوں۔ اسی طرح مختلف احوال میں چھپے ہوئے ایمانی ذائقے اسی کے حصہ میں آتے ہیں جو اپنے ایمانی احساس کو پوری طرح زندہ کئے ہوئے ہو۔ جو لوگ اپنے ایمانی احساس کو زندہ رکھیں اُنہی کے لیے اُن کے احوال مختلف ایمانی ذائقوں کا تجربہ کرائیں گے۔ اس کے برعکس جو لوگ اپنے ایمانی احساس کو کُند کرلیں، اُن پر مختلف قسم کے حالات گذریں گے مگر یہ حالات اُن کے لیے ایمانی ذائقوں کا تجربہ نہیں بنیں گے۔ وہ ایمان کے گلستاں میںرہ کر بھی ایمان کی خوشبو سے محروم رہیں گے۔
واپس اوپر جائیں

اسوۂ رسول

قرآن میں مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ اللہ کے رسول میںتمہارے لیے بہترین نمونہ (اسوۂ حسنہ) ہے، اس کے لیے جو اللہ کی اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرے (الاحزاب ۲۱)۔رسول سے نمونہ اخذ کرنے کے معاملہ کو اس پر کیوں منحصر کیا گیا ہے کہ آدمی اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والا ہو اور وہ آخرت میں اللہ کے فضل کا امید وار ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نمونہ اخذ کرنے کا معاملہ کوئی مشین جیسا معاملہ نہیں ہے کہ ایک سوئچ دبایا اور مطلوب نتیجہ اپنے آپ نکل آیا۔ بلکہ اس میں بہت زیادہ دخل اس انسانی ذہن کا ہوجاتا ہے جس کو رسول اللہ کی زندگی سے اپنے لئے نمونہ حاصل کرنا ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ آزادانہ طورپر سوچنے اور آزادانہ رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب چونکہ رسول اللہ کے ہر قول یا عمل میں تاویل(interpretation) کی گنجائش رہتی ہے۔ اس لئے آدمی کے لئے ہمیشہ موقع رہتا ہے کہ وہ جس انداز پر چاہے اس کی تشریح کرے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا ذاتی رجحان کام آتا ہے۔ اگر وہ سنجیدہ ہے تو وہ احتیاط کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کی تشریح کرے گا۔ اور اگر وہ سنجیدہ نہیں ہے تو غیر ذمہ دارانہ طورپر کوئی بھی ایسی تشریح اختیار کرلے گا جو اس کی پسند سے مطابقت رکھتی ہو۔آخرت کی فکر اور اللہ کا خوف آدمی کے اندر جواب دہی کا احساس ابھارتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ آخری حد تک سنجیدہ انسان بن جاتا ہے۔ وہ جب رسول اللہ کے قول و عمل کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ اپنے ذاتی رجحان کو بالکل الگ رکھ دیتاہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ وہ معاملہ کی اصل تہہ تک پہنچے، وہ آپ کے قول یا عمل کو عین اسی مفہوم میں لے جو کہ فی الواقع اس کا مفہوم ہے۔
جہنم کا اندیشہ اور آخرت کی فکر آدمی کو سنجیدہ بنا تے ہیں اور ایک سنجیدہ آدمی ہی سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ کسی معاملہ کو سمجھنے میں کوئی انحراف نہ کرے۔ وہ رسول کی بات کو خود رسول کے مفہوم میں لے، نہ کہ اپنے ذاتی مفہوم میں۔
واپس اوپر جائیں

اخلاص کی اہمیت

کوئی بھی دینی عمل ، خواہ وہ روزہ ہو یا اور کوئی عبادت ہو، ہر ایک اللہ تعالیٰ کے یہاں اٍُسی وقت قبول ہوتا ہے جب کہ اس میں اخلاص کی روح پائی جائے۔ جو عمل اخلاص سے خالی ہو، اللہ کے یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں۔قرآن میں ہے کہ وما اُمروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء۔ یعنی اللہ نے اپنے بندوں کو جو حکم دیا ہے وہ یہی ہے کہ وہ اخلاص اور یکسوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں۔ یہ بات قرآن میں مختلف انداز میں بار بار کہی گئی ہے۔
امام مسلم نے ایک حدیث ان الفاظ میںنقل کی ہے کہ ان اللہ تعالی لا ینظر الی اجسامکم و لا الی صورکم ولکن ینظر الی قلوبکم (اللہ تمہارے جسم کو اور تمہاری صورت کو نہیں دیکھتاہے ، وہ صرف تمہارے دل کو دیکھتا ہے۔اس قسم کی اور بھی بہت سی حدیثیں ہیں جن میں یہ بات مختلف انداز سے واضح کی گئی ہے۔
اسی طرح روزہ کے بارے میں حدیث میں آیا ہے کہ من صام رمضان ایمانا و احتسابا غُفر لہ ما تقدم من ذنبہ (جو شخص رمضان کے مہینہ کا روزہ ایمان کے ساتھ اوراللہ کی رضا کے لئے رکھے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے) روزہ بہت بڑی عبادت ہے۔ مگراللہ تعالی کے یہاں صرف اسی روزہ کی قیمت ہے جو خالص اللہ کی رضا کے لئے رکھا جائے۔ جس میں اخلاص کی روح پوری طرح پائی جاتی ہو۔ جو روزہ اخلاص کے بغیر ہو تو ایسا روزہ اللہ تعالیٰ کو مطلوب نہیں۔حدیث کے الفاظ میں، وہ ایک قسم کا فاقہ ہے،نہ کہ حقیقی معنوں میں روزہ۔
یہی معاملہ ان تمام اعمال کا ہے جن کا حکم اسلامی شریعت میں دیا گیا ہے۔ ہر عمل کا ایک ظاہر ہے۔ مگر یہ تمام اعمال اپنے ظاہر کے اعتبار سے مطلوب نہیں ہیں بلکہ اپنی اسپرٹ کے اعتبار سے مطلوب ہیں۔ کسی عمل کی قیمت اس وقت ہے جب کہ اس میں خوف خدا کی روح پائی جائے ، جب کہ وہ ریا سے پاک ہو اور صرف اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہو۔ اسی کا نام اخلاص ہے، اور اخلاص کے بغیر کسی عمل کی کوئی قیمت نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دعا عبادت ہے

حدیث میں آیا ہے کہ دعا عبادت کا مغز ہے (الدعاء مخ العبادۃ) بلکہ دعا ہی اصل عبادت ہے(الدعاء ہی العبادۃ)یہ بات قرآن و حدیث میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے۔ دعا کا اصل عبادت ہونا عین فطری ہے۔ کیوں کہ آدمی جب خدا کے وجود کو اس کی صفات کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ یہ بھی دریافت کرتاہے کہ خدا کے مقابلہ میں میں بالکل بے حقیقت ہوں۔
خدا آقا ہے، میں بندہ ہوں۔ خدا دینے والا ہے، میں پانے والا ہوں۔ خدا قادر ہے، میں عاجز اور محتاج ہوں۔ یہ احساس اس کو فوراً ہی خدا کے سامنے دعا گو بنا دیتا ہے۔ دعا وہ سب سے بڑا رشتہ ہے جس کے ذریعہ بندہ اپنے رب سے مربوط ہوتا ہے۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہے۔انسان جو کچھ پاتاہے، دعا سے پاتا ہے، اورتمام اعمال کا مقصد آدمی کو خدا سے دعا کرنے والا بنانا ہے تاکہ وہ خدا سے پانے والا بن جائے۔ مثال کے طورپر قرآن میں رمضان کے روزہ کا حکم دینے کے بعد یہ آیت آئی ہے: اور جب میرے بندے تم سے میری بابت پوچھیں تو میں قریب ہوں، پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں، توچاہیے کہ وہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر یقین رکھیں تاکہ وہ ہدایت پائیں (البقرہ ۱۸۶)
یہی بات حضرت مسیح نے ان لفظوں میں کہی: مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ ڈھونڈو تو پاؤ گے۔ دروازہ کھٹکھٹاؤ تو تمہارے واسطے کھولا جائے گا۔ کیوں کہ جو کوئی مانگتا ہے اسے ملتا ہے،اور جو ڈھونڈتا ہے وہ پاتا ہے، اور جو کھٹکھٹاتا ہے اس کے واسطے کھولا جاتا ہے۔
دعاصرف کچھ الفاظ کی تکرار نہیںہے، دعا ایک عمل ہے، بلکہ دعا سب سے بڑا عمل ہے۔ جس طرح حقیقی عمل کبھی بے نتیجہ نہیں رہتا اسی طرح حقیقی دعا کبھی بے نتیجہ نہیں رہتی۔
جب کوئی بندہ حقیقی دعا کرتا ہے تو وہ گویا اپنے معاملہ کو خدا کا معاملہ بنادیتا ہے اور جب کوئی معاملہ خدا کا معاملہ بن جائے تو کوئی بھی نہیں جو اس کوپورا ہونے سے روک سکے۔
واپس اوپر جائیں

ایمان کی شاخیں

عن ابی ہریرۃ، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: الایمان بضعٌ وسبعون شعبۃ۔ فافضلہا قولُ لا الٰہ الا اللہ و ادناہا اماطۃ الاذیٰ عن الطریق والحیاء شعبۃ من الایمان (متفق علیہ)۔حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں۔ ان میں سب سے اعلیٰ لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے۔ اوراس کا ادنیٰ درجہ راستہ سے تکلیف دہ چیز کوہٹا دینا ہے اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔
اس حدیث کو کچھ لوگوں نے حسابی معنٰی میں لے لیا اور گنتی کے لحاظ سے اس کی تشریح کرنے لگے۔ مثلاً ابو عبد اللہ الحلیمی (م۴۰۳ھ) جو بخارا میں شوافع کے امام تھے، انہوں نے المنہاج فی شعب الایمان کے نام سے ایک مفصل کتاب اس حدیث کی تشریح میں لکھی ہے۔ انہوں نے ایمان کے ۷۷ شعبے شمار کئے ہیں اور اسی نسبت سے کتاب میں ۷۷ باب قائم کئے ہیں۔ اسی طرح حافظ ابو بکر البیہقی (م ۳۵۸ھ) کی کتاب اس موضوع پر بہت مشہور ہے جس کا نام ’الجامع المصنف فی شعب الایمان‘ ہے۔ حافظ ابن حجر نے قلبی اعمال، لسانی اعمال اور بدنی اعمال کی تقسیم کرکے اس کی ۶۹ شاخیں شمار کی ہیں، وغیرہ وغیرہ۔
مگراس حدیث کی شماریاتی تشریح درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح ایک بڑے درخت کی شاخوں کی گنتی نہیں کی جاسکتی، اسی طرح ایمان کی شاخوں کی بھی کوئی گنتی نہیں۔ ایمان کا آغاز اللہ کی معرفت سے ہوتا ہے۔ جب ایک انسان پر اللہ رب العالمین کی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے تو گویا اس کی روحانی زمین میں ایک ربّانی بیج بودیا جاتا ہے۔ یہ بیج بڑھتاہے، وہ شاخیں نکالتا ہے۔ آدمی کی سوچ سے لے کر اس کے قول و فعل تک ہر چیز میں اس کا رنگ شامل ہوجاتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حدیث میں ایمان کی شاخوں سے مراد ایمان کے مظاہر (manifestations) ہیں۔ ایمان جب کسی آدمی کے قلب و دماغ میں شامل ہوجاتا ہے تو اس کی ہر ادا میں اس کا ظہور ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ ان گنت حد تک پہنچ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

خدا کا تجربہ

صحیح مسلم میںایک حدیث نقل ہوئی ہے اس کا ایک حصہ یہ ہے:
ان اللہ عزو جلّ یقول یوم القیٰمۃ یابن آدم مرضت فلم تعدنی قال یا رب کیف اعودک وانت ربُّ العٰلمین قال ماعلمت انّ عبدی فلانا مرض فلم تعدہ اَما علمتَ انّک لو عدتہ لوجدتنی عندہ (صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب فضل عیادۃ المریض ۱۶؍۱۲۶)اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا اے ابن آدم، میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا کہ اے میرے رب ،میںکس طرح تیری عیادت کرتا جب کہ تو سارے عالم کا رب ہے۔ اللہ تعالیٰ کہے گا، کیا تم نے نہیں جانا کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا مگر تم نے اس کی عیادت نہ کی۔ کیا تم نے نہیں جانا کہ تم اگر اس کی عیادت کرتے تو یقینا تم مجھ کو اس کے پاس پاتے۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی آدمی خالص رضائے الٰہی کے لئے ایک کام کرتا ہے تو کام کے درمیان اس پر ایسی کیفیات گزرتی ہیں جب کہ وہ لقاء رب کا تجربہ کرتا ہے۔ اس وقت اس کا یہ حال ہوتا ہے گویا کہ وہ خدا کو دیکھ رہا ہے۔
مریض کی ایک عیادت وہ ہے جس میں رضاء الٰہی کا جذبہ شامل نہ ہو۔ جس کو آدمی نمائش کے لئے یا کسی فائدہ کے لئے کرے۔ ایسی عیادت صرف دنیوی مقصد کے لیے ہوتی ہے۔ وہ آدمی کے اندر ربّانی کیفیات پیدا نہیں کرتی۔دوسری عیادت وہ ہے جب کہ خدا کا ایک بندہ کسی انسان کی بیماری کو سن کر تڑپ اٹھتا ہے۔ اس کو خدا کا یہ حکم یاد آتا ہے کہ تم دوسرے انسانوں پر رحم کرو میں قیامت کے دن تمہارے اوپر رحم کروں گا۔ وہ خالص رضاء الٰہی کے جذبہ کے تحت مریض کی طرف روانہ ہوتاہے اور مریض کے حق میں دعائیں کرتا ہوا اس کے پاس پہنچتا ہے۔
بندۂ مومن خدا کا تجربہ دنیا میں بھی کرتا ہے اور آخرت میں بھی۔ فرق یہ ہے کہ دنیا میں یہ تجربہ بالواسطہ انداز میں ہوتا ہے اور آخرت میں وہ زیادہ مکمل صورت میں براہ راست انداز میںہوگا۔
واپس اوپر جائیں

تعبیر کا مسئلہ

مسند امام احمد میںایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تم کو ایک روشن راستہ پر چھوڑا ہے۔ اس کی رات بھی اس کے دن کی طرح ہے۔ اس سے کوئی شخص کج روی میں مبتلا نہیں ہوگا، مگر صرف وہ جو ہلاک ہونے والا ہے (لقد ترکتُکم علی المحجّۃ البیضاء لیلہا کنہارہا لا یزیغ عنہا الا ہالک)۔
اس سے معلوم ہوا کہ خدا کا دین اتنا زیادہ واضح ہے کہ اس کی راتیں بھی اس کے دنوں کی طرح روشن ہیں۔ اس کے باوجود پھر بھی یہ امکان باقی ہے کہ آدمی اس سے بھٹک جائے، وہ دین کے نام پر بے دینی میں پڑ جائے۔ ایسا حادثہ اس کے ساتھ پیش آئے گا ، جو ہالک ہو۔ یعنی وہ ہلاکت خیز نفسیات میں مبتلا ہوجائے۔اصل یہ ہے کہ کوئی بات خواہ کتنی ہی زیادہ واضح ہو، اس میں تعبیر کی گنجائش بہر حال باقی رہے گی۔ یہ موجودہ امتحانی حالت کا تقاضا ہے۔ متن میں اس طرح تعبیر کا امکان ہونا اس کے اندر زیغ اور بھٹکاؤ کا امکان پیدا کردیتاہے۔
قرآن میں نہایت واضح لفظوں میں ہے کہ اللہ احد، مگر کچھ لوگوں نے اس کو وحدت ذ۱ت کے معنٰی میں لینے کے بجائے وحدت وجود کے معنٰی میں لے لیا۔ قرآن میں انفرادی نجات کا تصور ہے، مگر کچھ لوگوں نے اس کو گروہی نجات کے ہم معنٰی بنادیا۔ قرآن میں دشمن کو دوست بنانے پر زور دیا گیا ہے، مگر قرآن ہی سے دشمنکو مارو کا نظریہ برآمد کر لیا گیا۔ قرآن کے مطابق، رسول کو رحمت کا دین دیا گیا ہے، مگر خود ساختہ تعبیر کے ذریعہ اس کو جنگ کا دین بنا دیا گیا۔ قرآن میں زیادتیوں پر یک طرفہ صبر کا حکم ہے، مگر تشریح کرنے والوں نے کہا کہ زیادتی پر چپ رہنا غیرت اسلامی کے خلاف ہے، وغیرہ۔
اسلام بلا شبہہ ایک روشن دین ہے۔ مگر انسان کا ذہن روشن نہیں ہوتا۔ انسان اپنے غیر روشن ذہن کی بنا پر اسلام کو اس کی اصل صورت میں دیکھ نہیں پاتا۔ وہ اپنے ناقص ذہن کے تحت اسلام کی ناقص تشریح کرنے لگتاہے۔ یہاں تک کہ وہ ہلاکت کے گڑھے میں جاگرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سب سے زیادہ خطرناک

حدیث میں آیا ہے کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لا یدخُل الجنۃ من کان فی قلبہ مثقال ذرۃ من کبر (مشکوۃ المصابیح جلد ۳؍۱۴۱۳) یعنی وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا جس کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی کبر ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنت سے محرومی کا اندیشہ سب سے زیادہ اس انسان کے لیے ہے جو کبریا ذاتی بڑائی کے احساس میں مبتلا ہو۔ جس کے اندر وہ برائی ہو جس کو انانیت (arrogance) کہا جاتاہے۔
اس معاملہ کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ جس آدمی کے اندر کبر ہو تو اس کو خود یہ اندازہ نہیں ہوتا کہ میں کبر کی برائی میں مبتلا ہوں۔ ایک شخص نماز اور روزہ کو ترک کردے یا وہ زکوٰۃ نہ دے اور حج نہ کرے تو اس کو پوری طرح معلوم رہتا ہے کہ میں فلاں عبادت ادا نہیں کر رہا ہوں۔ کوئی شخص شراب پئے یا خنزیر کا گوشت کھائے تب بھی وہ اپنے اس گناہ سے باخبر رہتا ہے۔ حتی کہ اگر کوئی شخص شرک و بت پرستی میں مبتلا ہو تب بھی وہ جانتا ہے کہ میں کون سا گناہ کررہا ہوں۔ لیکن کبر ایک ایسا گناہ ہے جس کا احساس آدمی کو خود نہیں ہوتا ۔
پھر کوئی شخص کبر کے گناہ سے کس طرح بچے۔ اس کا سب سے زیادہ آسان طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو دوسروں کی نظر سے دیکھنے لگے۔ کبر کی برائی سے آدمی اگر چہ خود تو بے خبر ہوتا ہے مگر دوسرے لوگ اس کو اچھی طرح جان لیتے ہیں۔ دوسرے لوگ پہلے ہی تجربہ میں سمجھ لیـتے ہیں کہ فلاں شخص کبر کی نفسیات میں مبتلا ہے۔ اس لئے جو آدمی جنت سے محرومی کا رِسک نہ لینا چاہتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس برائی کو جاننے کے لئے دوسروں کو ذریعہ بنائے۔ جب کوئی دوسرا شخص اس کو بتائے کہ تمہارے اندر کبر کی برائی ہے تو وہ اس کو سنجیدگی کے ساتھ سنے اور غیر جانب دارانہ انداز سے اپنے اوپر نظر ثانی کرے۔ وہ دوسرے آدمی کی بات کو ٹھیک اسی طرح لے جس طرح وہ اپنے چہرہ پر لگے ہوئے دھبہ کے بارے میں آئینہ کی اطلاع کو کسی ناگواری کے بغیر قبول کرلیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اعتدال کا طریقہ

حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگوں کو چاہئے کہ تم توسط و اعتدال کا طریقہ اختیار کرو (قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: علیکم القصد) مسند احمد ۴؍۴۰۶۔
قصد یا توسط و اعتدال کا تعلق کسی ایک معاملے سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ مثلاً جب آدمی چلے تو وہ اعتدال کے ساتھ چلے۔ بولے تو وہ اعتدال کے انداز میں بولے۔ عبادات میںوہ اعتدال کا طریقہ اختیار کرے۔ انفاق اوراعانت میںبھی وہ معتدل رویہ اختیار کرے، وغیرہ۔
اسی طرح جب کسی سے اختلاف ہوجائے تو اختلاف میں بھی فریقین کو چاہئے کہ اعتدال پر قائم رہیں۔ وہ اختلاف کے وقت اعتدال کی حد سے باہر نہ چلے جائیں۔
مثلاً جب دو آدمیوں میں کسی معاملہ میںاختلاف ہوتو اولاً ان کو ایسا کرنا چاہئے کہ وہ سنجیدہ گفت وشنید کے ذریعہ اپنے اختلاف کو ختم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر اس طرح اختلاف ختم ہوجائے تو بہت اچھا ہے اور اگر اختلاف ختم نہ ہو تو انہیں اختلاف کے باوجود اتحاد کے اصول پر عمل کرنا چاہئے۔ ان کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے سے یہ کہہ دیںکہ آؤ ہم اس پر اتفاق کرلیں کہ ہمارے درمیان اختلاف ہے:
Let's agree to disagree.
قصد واعتدال متانت اور وقار کی روش کا دوسرا نام ہے۔ یہ کسی آدمی کے سنجیدہ مزاج ہونے کی ایک علامت ہے۔ جو آدمی اپنے قول و فعل میںاعتدال پر قائم ہو وہ اس بات کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ جذباتیت سے پاک ہے۔ وہ جب بولتا ہے تو سوچ کر بولتا ہے اور جب کرتا ہے تو وہ سوچ سمجھ کر کرتا ہے، وہ سطحیت پسندی سے پاک ہے۔ اس کا کردار اس کی عقل کے تابع ہے نہ کہ اس کے جذبات کے تابع۔
واپس اوپر جائیں

طلبہ کے نام

صحیح ابن حبان میںحضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ایک روایت آئی ہے۔ اس میں مسلم عاقل کی صفات بیان کی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ کہ اس کو اپنے زمانہ سے باخبر ہونا چاہئے۔ (ان یکون بصیرا بزمانہ)۔
یہ ایک بے حد اہم ہدایت ہے۔ آپ کو چاہئے کہ آپ صرف واقفِ دین نہ بنیں، بلکہ اسی کے ساتھ واقفِ زمانہ بھی بنیں۔ اس کے بعد ہی آپ موجودہ زمانہ میں دین کی صحیح خدمت کر سکتے ہیں۔
واقف زمانہ بننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنی کمیونٹی کے خلاف ہونے والے ’’ظلم اور سازش‘‘ کو جاننے والے بن جائیں۔ یہ میرے نزدیک سطحیت ہے نہ کہ علم۔ یہ ظواہر کو جاننا اور حقائق سے بے خبر رہنا ہے۔ اور علم بلا شبہہ یہ ہے کہ آدمی اصل حقیقت کو جانے، نہ یہ کہ اس کی نگاہ ظاہری چیزوں پر اٹک کر رہ جائے۔اگریہ مان لیا جائے کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خلاف سازش اور ظلم میںمصروف ہیں، تب بھی اصل جاننے کی بات یہ ہے کہ وہ کیا اسباب ہیں جنہوں نے ان قوموں کو یہ حیثیت دے دی کہ وہ ہمارے خلاف کامیاب سازشیں کرسکیں۔ وہ ہمارے خلاف اپنے ظالمانہ منصوبوں کی کامیاب تعمیل کریں اور ہمارے تمام اعاظم و اکابر اس کو روکنے میں مکمل طورپر عاجز ثابت ہوں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ عصر حاضر سے ناواقف ہیں۔ وہ ماضی کو جانتے ہیں، مگر حال کی انہیں مطلق خبر نہیں۔ ان میںسے کوئی شخص اگر کچھ جانتاہے تو وہ بھی کچھ ظاہری چیزوں کو جانتا ہے، نہ کہ گہرے معنوں میں حقیقی حالات کو۔
دینی مدرسوں کے طلبہ اگر صرف ’’حیوان کا سب‘‘ بن کر نہیں رہنا چاہتے، بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو اسلام اور ملت اسلام کے احیاء میں مفید طورپر لگائیں تو ان پر لازم ہے کہ وہ عصر حاضر کو اس کی گہرائیوں کے ساتھ جانیں، وہ موجودہ زمانہ کی ان تبدیلیوں سے واقفیت حاصل کریں جنہوں نے ہمارے مروجہ طریقوں کو عملی اعتبار سے بالکل غیر موثر بنا دیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

کامیاب زندگی کا اصول

۲۶ جنوری ۲۰۰۳ کو میں دہلی سے احمد آباد گیا۔ راستہ میں انڈین ائرلائنز کی فلائٹ میگزین Swagat کا شمارہ جنوری ۲۰۰۳ دیکھا۔ اس میں ایک مضمون کا عنوان یہ تھا—خواب پورا ہوگیا:
A Dream Comes True
اس میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکٹر ودیا ساگر تعلیم کے میدان میں خدمت کا جذبہ رکھتے تھے۔ ان کا شوق یہ تھا کہ نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے ذریعہ اس قابل بنائیں کہ وہ کامیاب زندگی گزار سکیں۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے راجستھان کے شہر الور میں ایک اسکول قائم کیا۔ اس اسکول کا نام ساگر اسکول ہے۔ مضمون نگار (Aditi Bishnoi) نے اسکول کی visit کی۔ ان سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ودیا ساگر نے کہا —ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اچھے انسان بنائیں، جن میں یہ صلاحیت ہو کہ وہ زندگی میںہر صورت حال کا سامنا آسانی اور خود اعتمادی کے ساتھ کر سکیں:
Our aim is to produce good human beings capable of tackling all situations in life with ease and confidence (p. 88)
میں سمجھتا ہوں کہ ایجوکیشن خواہ وہ فارمل ایجوکیشن ہو یا انفارمل ایجوکیشن، دونوں ہی کا سب سے اہم نشانہ یہی ہونا چاہئے۔ اسکول اورمیڈیا دونوں کا کام یہ ہونا چاہئے کہ وہ لوگوں کے اندر وہ شعور پیدا کرے جس کے ذریعہ وہ زندگی کے مسائل کا سامنا کامیابی کے ساـتھ کرسکیں۔
اس سلسلہ میں کلیدی بات یہ ہے کہ یہ دنیا لین دین کے اصول پر قائم ہے۔ جیسادینا ویسا پانا۔ اس دنیا میں کامیابی کا سب سے یقینی فارمولا یہ ہے کہ دوسروں کے ساتھ آپ وہی سلوک کریں جو آپ خود اپنے لئے چاہتے ہیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ کو کبھی کسی سے شکایت نہیں ہوگی۔
بزنس میںکہا جاتا ہے کہ کسٹمر فرنڈلی(customer friendly) بنو، تمہارا کاروبار ترقی کرے گا۔ جو اصول تجارت میںکامیابی کے لئے مفید ہے وہی پوری زندگی کے لئے مفید ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ ہر ایک کے لئے کامیاب زندگی کا عمومی فارمولا یہ ہے کہ —تم ہمیشہ انسان دوست بن کررہو:
Be always insan friendly.
دوسروں کے ساتھ دوستانہ رویہ رکھنے کا فائدہ یہ ہے کہ ہر ایک آپ کے لئے مددگار (cooperative) بن جاتا ہے اور جب پورا سماج آپ کے لئے مددگار بن جائے تو فطری طورپر یہ ہوگا کہ آپ کا ہر کام آسانی کے ساتھ ہونے لگے گا۔ یہ احساس آپ کے اندر خود اعتمادی پیدا کرے گا کہ آپ جو کام بھی کریں اس میںدوسروں کی طرف سے آپ کے لئے کوئی غیر ضروری رکاوٹ پیش نہیں آئے گی۔
دوستانہ رویہ کا کوئی محدود مفہوم نہیں ۔ کسی سے میٹھی بات بولنا بھی دوستانہ رویہ ہے۔ راستہ سے رکاوٹ ہٹادینا بھی دوستانہ رویہ ہے۔ کسی کو ایک اچھا مشورہ دینا بھی دوستانہ رویہ ہے۔ کسی کو اچھے الفاظ میں یاد کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے—کسی کے خلاف اپنے دل میں برا خیال نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے، کسی سے شکایت کے باوجود دل میں تلخی نہ رکھنا بھی دوستانہ رویہ ہے۔ خیر خواہی کے جذبہ کے تحت کسی کے لئے دعا کرنا بھی دوستانہ رویہ ہے۔ ضرورت کے وقت کسی کے کام آنا بھی دوستانہ رویہ ہے، وغیرہ۔
کسی کو دکھ نہ پہنچائیے، آپ کو بھی کسی سے دکھ کا تجربہ نہیں ہوگا۔ ہر ایک کے لئے نفع بخش بن جائیے، آپ کو بھی ہر ایک سے نفع ملنا شروع ہوجائے گا۔
تعلیم کا مقصد ملازمت نہیں، تعلیم کا مقصد لوگوں کو با شعور بنانا ہے۔ یعنی ایسا انسان جو معاملات کو زیادہ گہرائی کے ساتھ جانے، جو حالات کا تجزیہ کرکے صحیح نتیجہ تک پہنچ سکتا ہو۔ باشعور انسان کے اندر یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ جذباتی اقدام نہ کرے۔ وہ صحیح اور غلط اور ممک اور ناممکن کے درمیان فرق کرسکے۔ ایسا انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ استحصالی لیڈروں کے بہکاوے میں نہ آئے۔ وہ خود اپنی عقل کے تحت درست فیصلہ کرے۔ ایسا ہی انسان وہ انسان ہے جس کو حقیقی معنوں میں تعلیم یافتہ انسان کہا جاسکے۔ اسکول اور میڈیا دونوں کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے انسان پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

سوال
عام طور پر یہ سوال کیا جاتا ہے کہ اسلام نے جس طرح سود کو منسوخ کیا اُسی طرح اسلام نے غلامی کو کیوں منسوخ نہیں کیا۔ انسان کو غلام بنانا اور انسان کی خرید و فروخت کرنا پیغمبر اسلام ﷺکے زمانہ میں جاری تھا۔ مگر قرآن وحدیث میں کوئی ایسا صریح حکم نہیں ملتا جس میں یہ اعلان کیا گیا ہو کہ انسان کو غلام بنانا جائز نہیں۔ خطبۂ حجۃ الوداع میں، وقت کی دوسری سماجی برائیوں کی طرح، یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ آج سے غلامی کا مکمل خاتمہ کردیا گیاہے۔ ایسا کیوں ہے۔ (ساجد خاں، میرٹھ)
جواب
اس معاملہ میں سب سے پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ غلامی ہے کیا۔ غلامی دراصل زرعی دور (agricultural period) کے ایک ناگزیر تقاضے کے طورپر پیدا ہوئی۔ زرعی دور میں زمین معاش کا واحد ذریعہ تھی، اور زمین صرف چند لوگوں کے پاس ہوا کرتی تھی۔ خرید و فروخت کی چیزیں بھی اُس زمانہ میں بہت کم تھیں۔ اس بنا پر سماج کے وہ لوگ جن کے پاس زمین نہ ہو ،مجبور تھے کہ مزدوری کرکے اپنارزق حاصل کریں۔ تاہم یہ بھی عملاً ناکافی تھا اس لیے اُس زمانہ میں محدودمعاشی ذرائع کی تلافی اس طرح کی گئی کہ انسان بھی تجارت کا ایک مال بن گیا۔
جب یہ حالات پیدا ہوگئے تو غلامی کے ادارے کے خاتمہ کا اچانک اعلان مسئلہ کا حل نہ تھا، بلکہ ایسے اعلان کا مطلب یہ تھا کہ ایک نیاسماجی مسئلہ پیدا ہو جائے۔ اس قسم کے اعلان کا نتیجہ صرف یہ ہوتا کہ بہت سے لوگ بے روزگار ہوجاتے اور عملاًغلامی سے بھی زیادہ بد تر حالت میں زندگی گذارنے پر مجبور ہوجاتے۔
اس بنا پر اسلام نے غلامی کے خاتمہ کی ابتدا کرتے ہوئے اس برائی کے کلی خاتمہ کے لیے تدریج کا طریقہ اختیار کیا۔ اس تدریجی طریقہ میں دوسری باتوں کے علاوہ اہم ترین بات یہ تھی کہ اُس دور کو بدل دیا جائے جس میں غلامی جیسے مجبورانہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ معاملہ کے اس پہلو کو میں نے اپنی کتاب ’’اسلام دور جدید کا خالق‘‘ میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھا ہے۔
دو راول کے اسلامی انقلاب نے ایسے حالات پیدا کیے جو آخر کار صنعتی انقلاب کا سبب بنے۔ یعنی انسانی تاریخ زرعی دور سے نکل کر موجود ہ صنعتی دور میں پہنچ گئی۔ صنعتی دور میں یہ ہوا کہ زمین پر مبنی معاشی ذرائع کی محدودیت ختم ہوگئی۔ اب معاشی حصول کے ان گنت نئے ذرائع پیدا ہوگئے۔ زرعی دور میں اگر معاش کا صرف ایک ذریعہ پایا جاتا تھا تو اب معاش کے لاکھوں نئے ذرائع پیدا ہوگئے۔
اس کے بعد یہ ہوا کہ خود حالات کے زور پر غلامی کا خاتمہ ہو گیا۔ اب ایک طرف تاجروں کو نئی نئی زیادہ نفع بخش چیزیں حاصل ہوگئیں جن کی تجارت کرکے وہ اور زیادہ بڑے منافع حاصل کرسکیں۔ دوسری طرف عام انسان کے لیے بھی اپنی معاش کمانے کے لیے اس کی ضرورت نہ رہی کہ وہ کسی زرعی آقا کی غلامی قبول کرے تاکہ وہ اپنی ضروری معاش حاصل کرسکے۔ بلکہ اُس کے سامنے اَن گنت نئے ذرائع معاش کھل گئے جن میں محنت کرکے وہ اپنے لیے باعزت روٹی حاصل کرسکے۔
یہ بلا شبہہ اسلامی انقلاب کے نتائج میںسے ایک نتیجہ تھا کہ دنیا سے زرعی دورکا خاتمہ ہوا اور صنعتی دور آیا۔ زرعی دور میں معاشی ذرائع بہت محدود تھے مگر صنعتی دور میں معاشی ذرائع غیر محدود حد تک بڑھ گئے۔ اس تبدیلی کے نتائج میں سے ایک نتیجہ یہ تھا کہ غلام بننے اور غلام بنانے کے حالات عملاً ختم ہوگئے۔ یہاں تک کہ غلامی کے ادارہ نے اس تبدیلی کے بعد اپنا جواز کھو دیا۔ کہا جاتا ہے کہ غلامی کا خاتمہ انیسویں صدی کے آخر میںامریکہ کے قانونِ انسداد غلامی نے کیا۔ مگر زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ امریکہ کے قانون نے غلامی کو ختم نہیں کیا، غلامی تو اپنے آپ ختم ہوچکی تھی۔ اس قانون نے صرف یہ کیا کہ اُس نے ایک ختم شدہ واقعہ کا باقاعدہ اعلان کردیا۔
سوال
اقلیتی کمیشن کی طرف سے نئی دہلی میں جولائی ۲۰۰۲ میں ایک ہندو۔مسلم سیمینار ہوا تھا۔ جس میں آپ بھی مسلمانوں کی جانب سے شریک ہوئے۔ اس سلسلہ میں آپ کے بارے میں مسلم اُردو پریس میں کچھ عجیب باتیں شائع ہوئی ہیں۔ مثلاً دہلی کے ماہنامہ افکار ملی (اگست ۲۰۰۲) میں آپ کی نسبت سے یہ الفاظ چھپے ہیں: ’’جن دو قابل ذکر شخصیات نے ان مذاکرات میں حصہ لیا ان میں سے ایک مولانا وحید الدین خاں صاحب ہیں۔ خان صاحب کے خیالات سے مسلمان اچھی طرح واقف ہیں۔ اُن کے نزدیک ہر مسئلہ مسلمانوں کا اپنا ہی پیدا کردہ ہے، سنگھ پریوار کے لوگ تو معصوم عن الخطاء ہیں، یہ مسلمان ہی ہیں جوملک میں انتشار اور بدامنی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق، مسلمان ہندوؤں کو بالفاظ دیگر سنگھ پریوار کے افراد کو اپنا بڑا بھائی سمجھ کر بابری مسجد اور دیگر متنازعہ امور کے تعلق سے اپنی ضد و ہٹ دھرمی چھوڑ دیں۔ ایسا کرکے ہی مسلمان اس ملک میں ’’عزت‘‘ کی زندگی گذار سکتے ہیں‘‘۔ (صفحہ ۶۔۷) برائے کرم اس معاملہ کی وضاحت فرمائیں۔ (ڈاکٹر ایس اے صدیقی، نئی دہلی)
جواب
۱۔ کوئی مسئلہ آدمی کوپیش آتا ہے، وہ آدمی کا خود اپنا پیدا کیا ہوا ہوتا ہے، یہ راقم الحروف کی بات نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ کی بات ہے۔ قرآن میں اس سلسلہ کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم (الشوریٰ ۳۰)۔ اس آیت کا ترجمہ مولانا اشرف علی تھانوی نے اس طرح کیا ہے: اور تم کو جوکچھ مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کے کئے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے۔
مفسر القرطبی نے اس آیت کی تشریح میں ایک حدیث نقل کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: یا علی ما أصابکم من مرض او عقوبۃ او بلاء فی الدنیا فبما کسبت ایدیکم (الجامع لأحکام القرآن، الجزء ۱۶، صفحہ ۳۰)۔ یعنی اے علی، جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے، خواہ وہ بیماری ہو یا عقوبت ہو یا کوئی دنیوی مصیبت ہو تو وہ تمہارے اپنے ہاتھوںکی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔
قرآن و حدیث کی اس تعلیم کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی اہلِ ایمان کے ساتھ کوئی مسئلہ پیش آئے تو اس کے بعد اُن کے اندر احتساب خویش کا جذبہ اُبھرنا چاہئے، نہ کہ احتسابِ غیر کا۔ خدائی شریعت کے مطابق، یہی مسئلہ کا حل ہے۔
۲۔ مذکورہ عبارت میں راقم الحروف کے نقطۂ نظر کو بگاڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے نقطۂ نظر کو بار بار الرسالہ میں واضح کیا ہے۔ وہ یہ کہ اسلامی تعلیم کے مطابق، مسلمان کی حیثیت داعی کی ہے اور غیر مسلم کی حیثیت مدعو کی۔ اس رشتہ کا تقاضا ہے کہ مسلمان یک طرفہ صبر و تحمل کے ذریعہ دونوں گروہوں کے درمیان معتدل فضا قائم کریں تا کہ دعوت کا عمل موافق فضا میں جاری ہوسکے۔ یہ دعوتی اُصول قرآن میں واضح طورپر موجود ہے۔ مثلاً قرآن میں پیغمبروں کی زبان سے یہ الفاظ نقل کئے گئے ہیں: ولنصبرن علی ماآذیتمونا (ابراہیم ۱۲) یعنی ہم ضرور صبر کریں گے تمہاری ایذاؤں پر۔
۳۔ افکار ملی نے میری طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ ’’یہ مسلمان ہی ہیں جو ملک میں انتشار اور بد امنی پیدا کرتے ہیں‘‘۔ یہ بات بلا شبہہ خلافِ واقعہ ہے۔ وہ لغویت کی حد تک بے بنیاد ہے۔ میںنے ایسا کبھی نہیں کہا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ میری زبان ہی نہیں۔ افکار ملی کے مضمون نگار کے اندر اگر ادبی شعور ہوتا تو وہ اس جملہ کی ساخت ہی کو دیکھ کر کہہ دیتے کہ یہ صاحب الرسالہ کی زبان ہی نہیں۔ اس طرح کی زبان میں وہ کبھی کلام نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ مذکورہ ماہنامہ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت میںمیرا کوئی اقتباس پیش نہیں کیا۔
یہاں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ ہندستان میں برٹش حکومت کے زمانہ میں ایک بار وائسرائے کی مشاورتی کونسل میں ایک انگریزی خط پیش کیا گیا۔ اس خط کے لکھنے والے مشہور مسلم لیڈر محمد علی جوہر تھے۔ یہ خط امیر کابل کے نام لکھاگیا تھا۔ خط کے مضمون کے مطابق، محمد علی جوہر نے امیر کابل کو لکھا تھا کہ تم اپنی فوج کو لے کر ہندستان پر حملہ کردو، اندر سے ہم بغاوت کردیں گے۔ اس دو طرفہ دباؤ کے نتیجہ میں انگریز ہندستان کو چھوڑ نے پر مجبور ہوجائیں گے اور ہندستان آزاد ہوجائے گا۔
یہ خط وائسرائے ہند کی جس کونسل میں برائے غور پیش کیاگیا اُس کا ایک ممبر مشہور ’’ظالم‘‘ جنرل ڈائر تھا۔ جنرل ڈائر نے مذکورہ بظاہر غدارانہ خط کو پڑھا تو اس نے صرف اسلوبِ تحریر کی بنیاد پر یہ کہہ کر اُس کو رد کر دیا کہ یہ محمد علی کی زبان ہی نہیں۔
میرے مخالفین اکثر اس طرح کی باتیں میری طرف منسوب کرتے ہیں جو اپنے اسلوب کے اعتبار سے بالکل غیر معیاری ہوتی ہیں۔ میرا ایک معروف اسلوب تحریر ہے۔ ان مخالفین کے اندر اگر جنرل ڈائر کے بقدر بھی علمی اور ادبی ذوق ہوتا تو وہ ان عبارتوں کو دیکھ کر فوراً ہی اُسے رد کردیتے اور کہتے کہ یہ تو صاحب الرسالہ کی زبان ہی نہیں۔
سوال
ہمارے یہاں ایک صاحب پروپیگنڈہ کررہے ہیں کہ میںنے مولانا وحید الدین کو ٹی وی میں دیکھا۔ ایک شخص نے اُن سے ایک سوال کیا تو وہ ہنس پڑے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہنسنا ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے۔ آپ ایک دینی مشن چلارہے ہیں اور دینی مشن ایک سنجیدہ مشن ہوتا ہے، اس لحاظ سے ہنسنا آپ کے شایانِ شان نہیں۔ (ایک قاری الرسالہ، سہارنپور)
مجھے یاد نہیں کہ میںکب اور کس موقع پر کسی کے سوال پر ہنس پڑا تھا۔ تاہم اگر کسی اُلٹے سوال پر مجھے ہنسی آگئی ہو تو یہ کوئی غلط یا ناجائز بات نہیں۔ خواہ مخواہ قہقہہ لگانا بلا شبہہ ایک غیر سنجیدہ حرکت ہے اور اللہ کے فضل سے مجھے اس قسم کی عادت نہیں۔ البتہ بعض اوقات کوئی شخص ایسا غیر متعلق سوال کرسکتا ہے جس پر ایک سنجیدہ آدمی کو بھی ہنسی آجائے۔
قرآن و حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔ قرآن میںآیا ہے کہ ایک موقع پر حضرت سلیمان؈ کو ہنسی آگئی۔ حضرت سلیمان کے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے قرآن میںیہ الفاظ آئے ہیں: فتبسم ضاحکاً من قولہا (النمل ۱۹) یعنی سلیمان اُس کی بات سے مسکرا کر ہنس پڑے۔
اسی طرح حدیث کی کتابوں میںبہت سے ایسے واقعات کا ذکر ہے جب کہ رسول اللہ ﷺ کو کسی بات پر ہنسی آگئی۔ مثلاً بخاری میںایک صحابی کا واقعہ نقل کیا گیا ہے۔ راوی بتاتے ہیں کہ صحابی کی بات سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ کے دانت ظاہر ہوگئے۔ فضحک النبی صلی اللہ علیہ وسلم حتی بدت نواجذہ(فتح الباری، جلد ۱۱، صفحہ ۶۰۴)
سوال
اگست ۲۰۰۲ کا الرسالہ نظر سے گزرا۔ احادیث کو جب آپ عربی میں درج کرتے ہیں تو اس کا ترجمہ ضرور لکھئے۔ بعض اوقات اردو ترجمہ نہیں ہوتا تو اس کے مفہوم کو سمجھتے وقت دقت محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً اگست کے شمارے میں صفحہ ۱۱ پر امام رازی کا خیال صرف عربی میں درج ہے۔ صفحہ ۱۵ کے آخری پیراگراف میں بھی حدیث کا ترجمہ ندارد۔ آئندہ سے اس کا خیال رکھیںتو مناسب ہوگا۔ (ظہیر الحق ایم اے، حیدرآباد)
جواب
ماہنامہ الرسالہ صرف ایک پرچہ نہیں، بلکہ وہ ایک مشن ہے۔ مشن ہمیشہ پھیلاؤ چاہتا ہے۔ مشن میں اپنے آپ اشاعت کا مفہوم شامل ہے۔ ایسی حالت میں الرسالہ کے قاری کے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ وہ الرسالہ کا مطالعہ مل کر کرے۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ الرسالہ میں جب کوئی ایسا عربی حوالہ ہو جو قاری کی سمجھ میں نہ آئے تو اُس کو چاہئے کہ وہ کسی مقامی عالم سے ربط قائم کرے اور اُس سے مل کر عربی عبارت کو حل کرے۔ اسی طرح اگر الرسالہ کا کوئی انگریزی حوالہ سمجھ میں نہ آئے تو یہاں بھی قاری کو یہ کرنا چاہئے کہ وہ کسی انگریزی داں سے ملے اور اس سے بات کرکے انگریزی عبارت حل کرے۔
ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کے لیے الرسالہ کا مطالعہ صرف مطالعہ نہ رہے بلکہ وہ ربط بڑھانے کا ایک ذریعہ بن جائے۔ یہ بلا شبہہ ربط بڑھانے کا ایک فطری طریقہ ہے۔ اس طریقہ کے اور بھی بہت سے فائدے ہیں۔ مثلاً اس سے تواضع کی تربیت ہوتی ہے۔ سیکھنے کا مزاج پیدا ہوتا ہے۔ ایک اور دوسرے کے درمیان مذاکرہ (dialogue) کا ماحول قائم ہوتا ہے، وغیرہ۔
سوال
ستمبر ۲۰۰۲ کے الرسالہ کے صفحہ۲۳ پر آپ نے حضرت معاویہ کو اچھا منتظم کار بتایا ہے۔ حالانکہ آپ کو معلوم ہے کہ اردو کی بعض کتابوں میں ان پر خیانت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ آپ کی یہ بات معقول نظر نہیں آتی (مقبول احمد، کلکتہ)
جواب
معاویہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے۔ اُن کے اوپر خیانت کا الزام ایک بے بنیاد الزام ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، محدثین نے حضرت معاویہ کی روایت کو قبول کیا ہے اور یہی ایک واقعہ ان کی دیانت اور ثقاہت کے لیے کافی ثبوت ہے۔ معاویہ اگر خدانخواستہ خائن ہوتے تو محدثین ہر گز اُن کی روایت کو قبول نہ کرتے۔
جن لوگوں نے حضرت معاویہ پر خیانت کا الزام لگایا ہے، اُن کا الزام علمی اعتبار سے سراسر بے بنیاد ہے۔ مثلاً آپ کی ذکر کردہ کتاب میں لکھاگیا ہے کہ حضرت معاویہ سرکاری اموال کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اُس کاایک ثبوت ایک تاریخی کتاب کے حوالہ سے یہ دیا گیا ہے کہ ایک بار جب کچھ سرکاری اموال آئے تو حضرت معاویہ نے اُس کے آدھے حصہ کو لوگوں میں تقسیم کیا اور اُس کا آدھا حصہ خود اپنے لیے لے لیا۔ اس بیان کی بنیاد مذکورہ تاریخی کتاب کا یہ جملہ ہے: واخذ النصف لنفسہ (اور آدھا اپنے لیے لے لیا)۔
مگر اس حوالہ کی بنیاد پر خیانت کاالزام درست نہیں۔ کیوں کہ تاریخ کی دوسری زیادہ معتبر کتاب میںاس واقعہ کے ذیل میںیہ الفاظ آئے ہیں: وأخذالنصف لبیت المال (یعنی آدھا مال لوگوں میں تقسیم کیا اور آدھا مال بیت المال کے لیے لے لیا)۔ یہ دوسرا حوالہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلے حوالہ میں لنفسہ سے مراد لبیت المال ہے۔ ایسی حالت میں یہ سراسر غیر علمی بات ہے کہ زیادہ صحیح حوالہ کو نظر انداز کرکے مشتبہ حوالہ کی بنیاد پر اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ رائے قائم کی جائے۔
سوال
نئی دہلی کے اردو ماہنامہ زندگی نو (ستمبر ۲۰۰۲) کے شمارہ میںایک امام صاحب کا خط چھپا ہے۔ یہ خط ’’رسائل ومسائل‘‘ کے عنوان کے تحت ہے۔اس خط میں مکتوب نگار نے زندگی نو کے مدیر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے: آپ جماعت اسلامی کے آدمی ہیں۔ ’’زندگی نو‘‘ جماعت کا آرگن ہے۔ مگر نہ جانے کیوں آپ نے فروری ۲۰۰۲ کے اشارات (زندگی نو) میں یہ لکھ دیا کہ ’’مگر ریاست اس کی بنیاد نہیں ہے‘‘ (صفحہ ۱۰، سطر: ۱۸)۔ سات الفاظ کا یہ مختصر سا جملہ جماعت کی پالیسی کے خلاف ہے اور یہ وہی بات ہوئی جو کہ جناب مولانا وحید الدین خاں صاحب کہتے ہیں۔(صفحہ ۷۲)
مکتوب نگار کے اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے زندگی نو کے مدیر نے لکھا ہے—ریاست کے قیام کے بغیر احکام الٰہی کے نفاذ کی تکمیل نہیں ہوسکتی۔ لیکن ریاست کا قیام، دین حق کی بنیاد کیسے بن سکتا ہے۔ دین حق کی بنیاد تو توحید، رسالت اور آخرت پر ایمان ہے اور وہ تمام عبادات اور اخلاق فاضلہ ہیں جن کا قرآن میں ذکر ہے۔ اقامت دین کی جدوجہد، مومن کی زندگی کا مقصد ہے۔ قیام ریاست اس کا جزء ہے، لیکن بنیادی ہے۔ اس فرق کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے (صفحہ ۷۲)
زندگی نو کے مدیر کا یہ جواب اگر چہ اردو زبان میں ہے جو کہ میری مادری زبان ہے۔ اس کے باوجود یہ جواب میری سمجھ میں نہیں آیا۔ چونکہ اس میںآپ کا نام بھی آگیا ہے اس لیے آپ سے گذارش ہے کہ آپ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (ایس اے آفاق، نئی دہلی)
جواب
مذکورہ جواب بلاشبہہ ایک مبہم جواب ہے۔ کسی بھی شخص کے لیے اس جواب کو سمجھنا ممکن نہیں۔ آپ اس جواب کے الفاظ پر غور کیجئے۔ اس میں ریاست کے تصور کو بنیادی بھی بتایا گیا ہے اور اسی کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریاست کی حیثیت دین میں بنیادی کیسے ہوسکتی ہے۔ اس جواب میں ایک طرف ریاست کے قیام کو جزئی کام کی حیثیت دی گئی ہے اور عین اُسی کے ساتھ یہ بھی لکھا گیا ہے کہ لیکن وہ بنیادی ہے۔ یہ متضاد بیان کسی کے لیے بھی قابلِ فہم نہیںہوسکتا۔ آخر وہ کلام کی کون سی قسم ہے جس کے مطابق ایک چیز بیک وقت جزئی بھی ہو اور عین اُسی وقت وہ بنیادی بھی ہو۔
اس شتر گُربہ کلام کاسبب یہ ہے کہ زندگی نو کے ایڈیٹر اپنی فکری غلطی کا کھلا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی کے بانی نے دین کا جو تصور پیش کیا اُس میں ریاست کی حیثیت بنیادی تھی۔ یہ بات اُن کے پورے لٹریچر میںنمایاں ہے۔ مثلاً اُنہوں نے مبینہ طورپر اقامت ِدین کو حکومت الٰہیہ کے قیام کے ہم معنٰی بتایا۔ اُنہوں نے لکھا کہ: دین کا لفظ قریب قریب وہی معنیٰ رکھتا ہے جو زمانۂ حال میں ’’اسٹیٹ‘‘ کے معنٰی ہیں۔
بانیٔ جماعت کی پیش کردہ دین کی یہ سیاسی تعبیر دلائل کے ذریعہ مکمل طورپر رد ہو چکی ہے۔اب جماعت کے افراد اگر اپنی غلطی کو کھلے طورپر مان لیں تو اُن کے کلام میںتضاد نہ رہے گا۔ لیکن اُن کے اندر غلطی کے اعتراف کی جرأت نہیں۔ اُن کی یہی کمزوری ہے جس نے اُنہیں مذکورہ قسم کی تضاد فکری میںمبتلا کردیا ہے۔ یعنی ایک چیز کو ماننا اوراُسی کے ساتھ اُس کی تردید کرنا۔
زندگی نو کے مذکورہ جواب میں مزید یہ کہا گیا ہے کہ: ریاست کے قیام کے بغیر احکام الٰہی کے نفاذ کی تکمیل نہیں ہوسکتی (صفحہ ۷۲)۔ یہ ایک مغالطہ آمیز بات ہے۔ اگر یہ اُصول درست ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی پیغمبر کے زمانہ میں دین کا تکمیلی نفاذ نہیں ہو ا جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے۔ حتیٰ کہ خود پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی نہیں۔ اس کی ایک دلیل ربا کے بارے میں خلیفۂ ثانی عمر فاروق کا وہ مشہور قول ہے جو ابن ماجہ (کتاب التجارات) اور احمد بن حنبل نے نقل کیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
عن سعید بن المسیب قال: قال عمر رضی اللہ عنہ: ان آخر ما نزل من القرآن آیۃ الربا و ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبض ولم یفسّرہا فدعوا الربا والریبۃ۔ (مسند احمد ۱؍۳۶)
ترجمہ: سعید بن مسیب روایت کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قرآن میں سب سے آخری آیت جو اُتری وہ ربا کے بارے میں تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (جلد ہی) وفات ہوگئی اور آپ نے اُس کی تفسیر نہیں کی۔ پس تم لوگ ربا کو چھوڑ دو اور جس میںربا کا شبہہ ہو اُس کو بھی چھوڑ دو۔
اصل یہ ہے کہ دین کی تکمیل کا تحقق ہمیشہ حالات کے اعتبار سے ہوتا ہے، نہ کہ شرعی احکام کی فہرست کے اعتبار سے۔ قرآن میںیہ اصول بتایاگیا ہے کہ اللہ کسی کو صرف اُس کے وسع کے بقدر مکلف کرتا ہے (البقرہ ۲۸۶) ایسی حالت میں کوئی فرد یا گروہ اگر حالات کے اعتبار سے اپنے وسع (capacity) کے بقدر عمل کرتا ہے تو اُس کا دین اس کے لئے بلا شبہہ مکمل ہوگیا۔ اللہ کے یہاں وہ کامل دین پر عمل کرنے والا قرار پائے گا، نہ کہ ناقص یا نامکمل دین پر۔
سوال
قرآن میںکئی آیتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں سے کہتی ہیں کہ کافروں کو قتل کرو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہادی ہوگئے ہیں اور غیر مسلموں کو قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ مثلاً قرآن (البقرہ ۱۹۱) میں یہ آیت ہے: واقتلوہم حیث ثقفتموہم واخرجوہم من حیث اخرجوکم والفتنۃ أشد من القتل ولاتقٰتلوہم عندالمسجد الحرام حتی یقٰتلوکم فیہ فان قٰتلوکم فاقتلوہم کذالک جزاء الکٰفرین(اور قتل کرو اُن کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو اُن کو جہاں سے اُنہوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور فتنہ زیادہ سخت ہے قتل سے۔ اوراُن سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس میں جنگ نہ چھیڑیں۔ پس اگر وہ تم سے جنگ چھیڑیں تو اُن کو قتل کرو۔ یہی سزا ہے کافروں کی)۔ قرآن میں جب تک اس طرح کی آیتیں موجودہیں۔ مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ شانتی سے رہنا ممکن نہیں(اشوک سنگھل، نئی دہلی)
جواب
یہ آیت خود ہی یہ بتا رہی ہے کہ جنگ کا حکم کافر کے خلاف نہیں ہے بلکہ مقاتل (حملہ آور) کے خلاف ہے۔ جیسا کہ خوداسی آیت میں کہا گیا ہے: فان قٰتلوکم فاقتلوہم (پس اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی دفاع میں اُن سے جنگ کرو) اسی طرح اسی سورہ میں اس سے پہلے یہ آیت ہے: وقاتلوا فی سبیل اللہ الذین یقاتلونکم ولا تعتدوا (البقرہ ۱۹۰) یعنی جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں اُن سے تم دفاع میں جنگ کرو، اللہ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے، اور تم خود جارحیت نہ کرو۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں جن چند مقامات پر کافر کا لفظ آیا ہے، اُس سے مراد پیغمبر اسلام کے معاصر منکرین ہیں۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق، کافر کوئی نسل یا قوم نہیں اور نہ یہ لفظ ابدی طورپر ہر غیر مسلم گروہ کے لیے بولا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اہل اسلام نے بعدکے زمانہ کے لوگوں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ کافر یا کفار نہ تھے بلکہ یہ وہی الفاظ تھے جو کہ قومیں خود اپنے لیے استعمال کررہی تھیں۔ مثلاً ہنود، یہود، نصاریٰ، مجوس، بودھ (بوذا) وغیرہ۔ اسلامی اصول کے مطابق، کسی قوم کو اسی لفظ سے پکارا جائے گا جو لفظ اُس نے خود اپنے لیے اختیار کیا ہو۔
قرآن میںبتایا گیا ہے کہ پیغمبروں نے جب اپنے زمانہ کے غیر مومن لوگوں کو پکارا تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے کافرو، بلکہ یہ کہا کہ اے میری قوم کے لوگو۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے پچاس بار یہ الفاظ آئے ہیں: یا قومی، یا قومِ (اے میری قوم)۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک پیغمبر کو اُس کے مخالفین نے پتھر مارا اور ان کے خون بہنے لگا، اُس وقت پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نکلے: رب اہد قومی فانہم لا یعلمون۔ (اے میرے رب، میری قوم کو ہدایت دے کیوں کہ وہ لوگ نہیں جانتے۔ اسی طرح قرآن میں پیغمبروں کے ہم زمانہ غیر مومنین کو اُن کی قوم کا نام دیا گیا ہے۔ مثلاً: قوم لوط، قوم صالح، قوم ہود، قوم نوح، وغیرہ۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کا نظریہ دو قومی نظریہ نہ تھا، بلکہ وہ ایک قومی نظریہ تھا۔ یعنی جو قومیت پیغمبر کی تھی وہی قومیت پیغمبر کے مخاطبین کی تھی۔ پیغمبر اوراُس کے مخاطبین کے درمیان جو فرق تھا، وہ قومیت کا فرق نہ تھا بلکہ عقیدہ اور مذہب کا فرق تھا۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: لکم دینکم ولی دین (۱۰۹:۶)
قرآن میں الانسان (واحد) کا لفظ ۶۵ بار آیا ہے اورالناس (جمع) ۲۴۰ بار آیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کافر کا لفظ صرف پانچ بار قرآن میں آیا ہے اور اُس کی جمع الکفار ، الکافرون اور الکافرین کے الفاظ ۵۰ بار آئے ہیں—اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس معاملہ میں قرآن کا تصور کیا ہے۔ قرآن کی نظر میں یہ زمین دارالانسان ہے، نہ کہ دارالکفار۔
سوال
تمام مساجد میں اذان کے لئے لاؤڈاسپیکر کا استعمال ہوتا ہے۔ اذان کی آواز بعض وقت نہایت گراں محسوس ہوتی ہے۔ جب یہ گرانی افراد ملت کو ہے تو دیگر بندگان خدا کو کس قدر ہوگی۔ اس معاملہ کی وضاحت فرمائیں۔ (حکیم انور علی صدیقی، میرٹھ)
جواب
عرض یہ کہ لاؤڈاسپیکر کا تعلق فتویٰ سے نہیں ہے بلکہ ضرورت سے ہے۔ بوقت ضرورت حسب حالات لاؤڈاسپیکر کا استعمال کیاجاسکتا ہے۔ مگر جہاں لاؤڈاسپیکر کی ضرورت نہ ہو، نیزاُس سے کوئی غیرضروری مسئلہ پیدا ہوتا ہو تو لاؤڈاسپیکر کے استعمال سے احتراز کرنا چاہئے۔ یورپ، امریکہ میں بسنے والے مسلمان، ٹھیک اسی اصول پر عمل کررہے ہیں۔
سوال
الرسالہ دسمبر ۲۰۰۲ ء کے صفحہ ۴۳ پر لکھے گئے خط سے متاثر ہوکر اپنے تاثرات آپ تک پہنچانے کی اس قدر ترغیب ہوئی کہ لکھے بغیر نہ رہ سکا۔
مذکورہ خط آپ نے عبد السلام اکبانی کے نام لکھا ہے۔ اس میں آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلم لیڈران کرام اور اکابرین زمانہ کے بارے میں لکھا ہے۔ میںاس سے حرف بہ حرف متفق ہوں۔ کیوں کہ ہم بد قسمت کشمیریوں پر ایسے ہی خود ساختہ لیڈروں کی ایک فوج سوار ہوگئی ہے جنہوں نے کروڑوں کی دولت بنائی ہے اور یہ لوگ ناقابل یقین عیش وعشرت کی زندگی بسر کرکے عام غریب اور بے سہارا، نادار اور سادہ لوح عوام کا استحصال کرکے اُنہیں کٹواتے مرواتے ہوئے اپنے لیے زیادہ سے زیادہ سامان عیش بناتے ہیں۔ یہ لوگ ’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو‘‘ کے مصداق ایک دوسرے کو بڑے بڑے آداب و القاب دے دے کر عام لوگوں کا استحصال کرکے یہاں کشمیر میں قتل و غارت گری کا دور روا رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بتائیں کہ ہم کشمیریوں کی قسمت کس طرح بدل سکتی ہے۔اس وادی گُل پوش میں کوئی ایسا شخص پیدا ہو جو واقعی قوم کی رہنمائی کرے اور جس کا اندر و باہر ایک ہو اور ایک صادق القول مسلمان ہوتے ہوئے اس پریشان حال قوم کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ (ایک کشمیری مسلمان، اننت ناگ)
جواب
یہ کہنا صحیح نہیں کہ کشمیریوں پر استحصالی لیڈروں کی فوج سوار ہوگئی ہے۔ زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ کشمیریوں نے خودسے ایسے لیڈروں کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے۔ کشمیر میں جہاد کے نام پر متشددانہ تحریک خود کشمیری عوام کی مرضی سے اکتوبر ۱۹۸۹ میں شروع ہوئی۔ اُس سے صرف ایک مہینہ پہلے میں کشمیر گیا تھا۔ اُس وقت کشمیریوں کے درمیان مسلّح جہاد کا چرچا شروع ہوچکا تھا۔ سری نگر کے ٹیگور ہال میں میری تقریر ہوئی۔ میں نے کہا کہ جہاد کے نام پر جو مسلّح تحریک آپ چلانے جارہے ہیں وہ صرف کشمیر کے مسائل میںاضافہ کرے گی۔ میںنے اپنی تقریرمیں رسول اللہ ﷺکے ایک واقعہ کی مثال دی۔
آپ کے زمانہ میں مدینہ کی مسجدنبوی میںایک دیہاتی شخص مسجد کے اندر آیا اور اس کو گندہ کردیا۔ لوگ اُس کو مارنا چاہتے تھے مگر آپ نے منع کردیا۔ آپ نے کہا کہ اُس مقام پر پانی بہادو، وہ صاف ہوجائے گا۔ اس سلوک کے بعد وہ شخص اور اُس کا پورا قبیلہ اسلام میں داخل ہوگیا۔
میںنے کہا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مقصد پانی بہا کر حاصل کیا تھا اُس کو آپ خون بہا کر حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ اللہ کی توفیق سے میںنے جو کچھ پیشگی طورپر کہا تھا وہ حرف بہ حرف پورا ہوا ۔اگر چہ اس وقت کشمیریوں نے میری بات پر دھیان نہیںدیا تھا۔ اب کشمیریوں کے لیے صرف ایک ہی صورت ہے۔ وہ توبہ کریں اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے پُر تشدد جدوجہد کو چھوڑ کر پُر امن تعمیر کا کام کریں۔
سوال
میں آپ کے الرسالہ کا برابر مطالعہ کرتا ہوں۔ آپ کی بات ہمیشہ دلائل پر مبنی ہوتی ہے۔ مجھے آپ سے ایک سوال کا جواب چاہئے۔ مجھے بچے رکھنے میں زبردست دشواری محسوس ہوتی ہے۔میںنے اپنے دل میں ٹھان لیا ہے کہ میں شادی کے بعد پوری زندگی بے اولاد رہوں گا ۔ اس معاملہ میں آپ اپنے مشورہ سے آگاہ فرمائیں۔ (ڈاکٹر عمر علی، مہاراشٹر)
جواب
اولاد مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اولاد سے غیر معتدل محبت کی بنا پراپنے خرچ کو غیر ضروری طورپر بڑھالیا جائے۔ خرچ کو اپنی آمدنی کے دائرہ میں رکھا جائے تو کبھی اس قسم کا مسئلہ پیدا نہ ہوگا۔ اصل ضرورت خرچ پر کنٹرول کرنے کی ہے، نہ کہ اولاد پر کنٹرول کرنے کی۔
واپس اوپر جائیں

ایک اخباری انٹرویو

س۔ ابھی آپ کا حیدر آباد کس سلسلہ میں آنا ہوا، اس کے بارے میں مختصر طورپر کچھ بتائیں۔
ج۔ آندھرا پردیش کی ایک تنظیم وگیان بھارتی مہارشی بھاردواج سوسائٹی کی طرف سے حیدر آباد میںتھنکرس میٹ کے نام سے ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع انڈیانائزیشن آف ایجوکیشن تھا۔ اس کو مرکزی وزیر مرلی منوہر جوشی اور آر ایس ایس کے چیف، کے ایس سدرشن نے خطاب کیا۔ اس سیمینار میں مجھے بھی خطاب کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ میں نے ۷ دسمبر ۲۰۰۲ کو اس میں ایک تقریر کی ۔ چونکہ وہاں ماحول انگریزی کا تھا اس لئے میںنے بھی انگریزی میں خطاب کیا۔
س۔ کانفرنس کا موضوع بہت اہم اور نازک تھا ،اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
ج۔ میںنے اپنی تقریر میںچند باتیں کہیں! چونکہ مجھے اُنہی لوگوں کے ساتھ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا اس لیے جلسہ گاہ کے علاوہ بھی اُن لوگوں سے کافی باتیں کرنے کا موقع ملا۔ میری تقریر اور گفتگو کا خلاصہ یہ ـتھا کہ ہمارا اصل مسئلہ صرف ایجوکیشن کو انڈیانائزیشن کرنا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہندستانی سماج کے اندر مثبت شعور اور تعمیری مزاج پیدا کیا جائے۔ مثلاً ہمارا سماج بہت زیادہ رائٹ کانشس ہوگیا ہے اس کو ڈیوٹی کانشس بنانا۔ اسی طرح ہمارے سماج میں ذاتی مفاد کا جذبہ بہت بڑھ گیا ہے اور قومی مفاد پس پشت چلا گیا ہے۔ ہمارے سماج میں گروہی اور علاقائی پارٹیاں بہت بڑھ گئی ہیں۔حتیٰ کہ اب کوئی پارٹی نیشنل پارٹی کی حیثیت سے نظر نہیں آتی۔ اسی طرح مادی سوچ عام ہوگئی ہے اور اخلاقی اورروحانی سوچ کا فقدان نظر آتا ہے۔ ہمارے سماج کی یہی وہ بنیادی کمزوریاں ہیں۔ اُن کی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔ بقیہ تمام چیزیں ضمنی اور اضافی ہیں۔
س۔ الرسالہ تحریک کی ابتدا ء ً تو مخالفت کی گئی تھی مگر اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک و بیرون ملک میں جو پڑھا لکھا طبقہ ہے وہ اس تحریک سے متفق بھی ہے اور متاثر بھی۔ اس پس منظر میںیہ بتائیں کہ اس تحریک کے بنیادی مقاصد اور کامیابی کے اسباب کیا ہیں۔
ج۔ الرسالہ مشن کا اصل مقصد اسلام کی اصولی تعلیمات کا احیاء ہے۔ یہ تعلیمات عین فطرت پر مبنی ہیں۔ اس دنیا میں فطرت کا نظام ہی قابل عمل نظام ہے۔ اگر کچھ لوگ غلط فہمی کی بنا پر اس کی مخالفت کریں تب بھی فطرت کا زور اُنہیں اس کی تائید پر مجبور کردے گا۔ یہی معاملہ الرسالہ مشن کے ساتھ ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے ابتداء میں الرسالہ مشن کی مخالفت کی مگر یہ مخالفت بلا شبہہ غلط فہمی پر مبنی تھی۔ چنانچہ اب اِن مخالفتوں کا تقریباً خاتمہ ہوچکا ہے۔ عام طور پر لوگ الرسالہ کا نام لے کر یا نام لئے بغیر اس کو اختیار کر چکے ہیں۔ جلد ہی انشاء اللہ وہ وقت بھی آنے والا ہے جب کہ لوگ پوری طرح الرسالہ کے حوالے سے اُس کو اختیار کرلیں گے۔
س۔ ملک میں پچھلے دنوں چند خطرناک فرقہ وارانہ فسادات ہوئے۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے فسادات ملک و قوم کی ترقی کے لیے بہت بڑی رُکاوٹ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں روکنے کے لئے بھارت کے سیکولر باشندے متفکر ہیں ۔ کیا آپ کے پاس اس کے سد باب کے لئے کوئی فارمولا ہے۔
ج۔ اس قسم کے ناخوشگوار واقعات کے سدّ باب کے لئے فطرت کا زیادہ طاقتور فارمولا بالفعل موجود ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم فطرت کے اس فارمولے کو عملاً ظہور میں آنے کاموقع دیں۔ ہم کوئی ایسا غیر موافق کام نہ کریں جس سے فطرت کے عمل میںرُکاوٹ پڑ جائے۔فطرت کا فارمولا یہ ہے کہ جب بھی اس طرح کا کوئی بھیانک واقعہ ہو تواُس کے بعد فوراً ایسا ہوتا ہے کہ انسانی ضمیر جاگ اُٹھتاہے۔ اس طرح وہ اس واقعہ کے ذمہ داروں کے اندر شرمندگی کا احساس پیدا کرتا ہے اور دوسری طرف بقیہ لوگوں کے اندر مذمت کا احساس۔ ایسی حالت میں ہمیں صرف یہ کرنا ہے کہ ہم جوابی رد عمل کا ہنگامہ نہ کھڑا کریں بلکہ خاموش رہ کر فطرت کو اپنا کام کرنے کا موقع دیں ۔یہی وہ حکمت ہے جس کو حضرت عمر فاروق نے ان الفاظ میں بیان کیا: امیتوا الباطل بالصمت عنہ۔
س۔ عام طورپر لوگوں کا خیال ہے کہ آپ نے بابری مسجد کو ہندوؤں کے حوالہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ مگر آپ کا کہنا ہے کہ یہ بات غلط ہے۔ بتائیں کہ آپ کا موقف کیا ہے۔
ج۔ بابری مسجد کے معاملہ میں میرا جو موقف ہے اس کو میں نے ۱۹۹۳ ہی میں ماہنامہ الرسالہ میںشائع کردیا تھا۔ میرا موقف ان شائع شدہ الفاظ کے مطابق ، یہ تھا کہ مسلمان بابری مسجد کے سوال پر جلسہ جلوس کی مہم ختم کردیں اور اس مسئلہ کو ملک کے ضمیر کے حوالہ کردیں۔ میرے علم و تجربہ کے مطابق ،یہی مسلک قرآن و سنت کے مطابق ہے اور عقل انسانی کے مطابق بھی۔
س۔ پچھلے دنوں آپ کو ترک اسلحہ اور ان سے متعلق دُنیا کے سب سے بڑے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کیا آپ اس کی تفصیل بتا سکتے ہیں۔
ج۔ یہاں اس کی تفصیل بتانا مشکل ہے۔ البتہ سوئزرلینڈ کے سفرنامہ کے تحت میں نے اس کو تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جوانشاء اللہ جلد ہی الرسالہ میں شائع ہوگا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جو ہری ہتھیاروں کے خاتمہ کی تحریک ۱۹۵۸ سے چل رہی تھی جس کو البرٹ آئنسٹائن اور برٹرینڈرسل نے شروع کیا تھا۔ مگر اس کے باوجود عملی نکات اب تک واضح نہیں ہوسکے تھے۔ میںنے اللہ کی توفیق سے اُن کو واضح کیا۔ اس طرح اس مشکل معاملہ کا دروازہ کھلا۔ لوگوں نے میرے اس کنٹری بیوشن کو بہت زیادہ پسند کیا اور اس کی وجہ سے مجھے انٹرنیشنل پیس ایوارڈ دیا گیا۔
س۔ ایوارڈ کی رقم کے بارے میں عام طورپر کافی تجسس پایا جاتا ہے۔ کیا آپ بتائیں گے کہ اس کا مصرف کیا ہے۔
ج۔ اس قسم کے بڑے بڑے ایوارڈ کے بارے میں انٹرنیشنل رواج یہ ہے کہ اُن کی رقم کو اُسی مقصد میں خرچ کیا جاتا ہے جس کے نام پر وہ ایوارڈ دیا گیا ہے۔ مجھ کو جو ایوارڈ ملا ہے وہ پیس کے نام پر ملاہے۔ میںانشاء اللہ اُس کو پیس (امن) کے فروغ پر استعمال کروں گا۔
س۔ ملک میں موجود شدت پسند تنظیموں کی ایک طویل فہرست ہے۔ جیسے آر ایس ایس، وشو ہندو پریشد، بحرنگ دل، شیوسینا اور سیمی، وغیرہ۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ان کی وجہ سے ملکی مفادات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور مستقبل میں حالات اور سنگین ہوسکتے ہیں۔
ج۔ انتہا پسند یا شدت پسند تنظیموں سے یقینا ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ مگر میں ان نقصانات کو ناقابل تلافی نہیں سمجھتا۔ کوئی تنظیم خواہ وہ کتنی ہی طاقتور ہو وہ فطرت کے اس قانون سے باہر نہیں جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ ولو لا دفع اللہ الناس بعضہم ببعض لفسدت الارض۔میرا یقین ہے اور ۱۹۴۷ سے لے کر اب تک کی تاریخ اس کی گواہ ہے کہ ہر شدت پسند لہر ایک حد تک ہی چلی۔ ایک حد کے بعد اس کو فطرت کے قانون دفع نے روک دیا۔ یہ قانون ابدی ہے اور وہ ہمیشہ جاری رہے گا۔
س۔ مسلمانوں سے بار بار یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ قرآن سے بعض آیتوں کونکال دیا جائے۔ اس کا مسلمانوں کی طرف سے کیا معقول جواب ہونا چاہئے۔
ج۔ ماہنامہ الرسالہ میں اس کا واضح جواب دیا جاچکا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس معاملہ میں یہ لوگ اس عربی مقولہ کا مصداق ہیں کہ: الناس اعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن بن جاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہوں) جو لوگ قرآن کی کچھ آیتوں کے بارہ میں یہ بات کہہ رہے ہیں وہ اِن آیتوں کے حقیقی مفہوم سے بے خبر ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان آیتوں کی صحیح تشریح کرکے لوگوں کی بے خبری کو توڑا جائے۔ اس کے بعد اُن کی مخالفت اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ مثلاً ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن کی تعلیمات کے مطابق، مسلمان ہم کو کافر سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں دونوں فرقوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کیسے قائم ہوسکتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن میں کافر کا لفظ پیغمبر کے ہم عصر منکرین رسالت کے بارے میں آیا ۔ جہاں تک برادران وطن کا تعلق ہے، اُن کو مسلمانوں نے ہی ہندو نام دیا تھا جس کو برادران وطن نے پسند کرتے ہوئے اختیار کرلیا۔ اب اسلامی نقطۂ نظر سے برادران وطن ہمارے نزدیک بھی اسی طرح ہندو ہیں جس طرح وہ خود اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں۔
س۔ جلد ہی دینی مدارس کے تعلیمی سال کا آغاز ہونے والا ہے، اُن کے لیے کوئی پیغام۔
ج۔ دینی مدارس کے بارے میں ماہنامہ الرسالہ میں ایک پورا نمبر شائع ہوچکا ہے۔ یہ طویل مضمون میری تازہ کتاب دین وشریعت میںشامل ہے۔ میرے نزدیک مدرسہ یا تعلیمی ادارہ کے دو مقاصد ہیں۔ ایک مسلم نسلوں کو مسلسل دینی شعور فراہم کرتے رہنا۔ یہ کام ہمارے دینی مدارس الحمد للہ بخوبی طورپر انجام دے رہے ہیں۔ مدارس کا دوسرا کام داعیان دین کی تیاری ہے تاکہ وہ غیر مسلموں میں ہر زمانہ کے مطابق، دین کا پیغام پہنچاتے رہیں۔ اس دوسرے اعتبار سے ہمارے موجودہ مدارس میں کمی ہے اور ضرورت ہے کہ اس کی تلافی کی جائے۔
س۔ جیسا کہ آپ واقف ہیں، حیدر آباد کے مسلمان مذہبی، تعلیمی اور معاشی، ہر میدان میں ترقی کررہے ہیں۔ آپ کی نظر میں اس کے کیا اسباب ہو سکتے ہیں۔
ج۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورے ہندستان کے مسلمانوں نے پچھلے پچاس سال میں غیر معمولی ترقی کی ہے۔ ملک کے تمام دینی ادارے ۱۹۴۷کے مقابلہ میں آج غیر معمولی ترقی کر چکے ہیں۔ حالاں کہ اس دوران ہمارے لکھنے اور بولنے والے لوگ شکایت اور احتجاج میں مشغول رہے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ مسلمانوں نے ٹھیک اسی مدت میںنمایاں ترقی حاصل کرلی۔ اس کا سبب زمانی تبدیلیاں ہیں۔ ۱۹۴۷ سے پہلے ہندستان میں جو اقتصادی نظام رائج تھا وہ زیادہ تر مبنی بر زمین نظام تھا۔ قدیم زراعتی نظام میں تمام وسائل زمین سے وابستہ ہوتے تھے اور زمین حکمرانوں یا کچھ جاگیرداروں اور زمینداروں کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ عوام صرف محنت و مزدوری کے ذریعہ اپنا رزق پاسکتے تھے۔ مگر ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں تیزی سے وہ دور آگیا جو صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے۔ اس جدید نظام میں ہزاروں کی تعداد میں نئے زیادہ طاقتور معاشی وسیلے پیدا ہوگئے ۔ اس طرح یہ ہوا کہ اعلیٰ اقتصادی وسائل ہر انسان کی دسترس میں آگئے۔ یہ تبدیلی اتنی ہمہ گیر تھی کہ کوئی بڑے سے بڑا مخالف بھی اس کے سیلاب کو روک نہیں سکتا تھا۔ یہی زمانی انقلاب ہے جس کا مفید نتیجہ آپ حیدر آباد میں اور پورے ملک میں واضح طور پر دیکھ رہے ہیں۔
س۔ چوں کہ الرسالہ تحریک ایک دعوتی تحریک ہے تو کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ اس قلمی مشن سے عملی طورپر کیا فائدہ ہوا ہے۔
ج۔ اللہ کا فضل ہے کہ اس مشن کے تحت مختلف زبانوں میں جو دعوتی لٹریچر تیار کیا گیاہے اس کے نتیجہ میں ساری دُنیا میں سیکڑوں لوگ دعوتی مہم میں لگ گئے ہیں، مختلف ملکوں میں خاموش دعوتی کام جاری ہے۔ اس دعوتی عمل کے نتیجہ میں اب تک کئی ہزار مرد اور عورتیں دین حق کو پورے اطمینان قلب کے ساتھ اپنا چکے ہیں۔ اس طرح کی مثالیں ہمارے وطن سمیت اکثر ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ یہاں اُن کا نام اور پتہ بتانا ممکن نہیں البتہ کسی صاحب کو فی الواقع اس معاملہ میں مزید جانکاری حاصل کرنا ہو تو ہم اس کی درخواست پر اُنہیں ایسے مرد اور عورت کے نام اور ٹیلیفون بتاسکتے ہیں جن سے رابطہ قائم کرکے وہ براہ راست معلومات حاصل کرسکیں۔
حیدر آباد، ۹ دسمبر ۲۰۰۲
انٹرویور: عمر عابدین قاسمی
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۵۷

۱ اسلامی مرکز (نئی دہلی) میںایک ریگولر کلاس ہوتی ہے۔ یہ جنوری ۲۰۰۱ سے برابر جاری ہے۔ یہ ہر ہفتہ سنیچر اور اتوار کو ہوتی ہے۔ اس میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ اس میں لکچراور گفتگو کا موضوع زیادہ تر امن اور روحانیت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ لوگوں کے ذہنی مسائل میں اُن کی کاؤنسلنگ (counselling) بھی کی جاتی ہے۔ صدر اسلامی مرکز اور دوسرے لوگ اس میں شریک ہوتے ہیں۔
۲ مودی انسٹی ٹیوٹ (نئی دہلی ) کے تحت اجودھیا پرییرمیٹ (Ayodhya Prayer Meet) کا پروگرام ۱۸۔۲۰ ستمبر ۲۰۰۲ کو ہوا۔ اس سلسلہ میں دہلی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک ٹیم اجودھیا گئی۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو بھی شامل کیا گیا۔ اجودھیا جاکر اُنہوں نے وہاں کے پروگرام میں شرکت کی اور مسئلہ پراظہار خیال کیا۔
۳ پیس انٹرنیشنل کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سوئزر لینڈ کاسفر کیا۔ یہ سفر اکتوبر ۲۰۰۲ کے دوسرے ہفتہ میں پیش آیا۔ وہاں دوسری کارروائیوں کے علاوہ اُن کو انٹرنیشنل پیس ایوارڈ دیا گیا۔ اس کی تفصیل انشاء اللہ سفر نامہ کے تحت الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۴ جین ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۰ اکتوبر ۲۰۰۲ کو پینل ڈسکشن ہوا۔ اُس کی دعوت پر صدراسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی۔ گفتگو کے دوران اُنہوں نے بتایا کہ اسلام کے مطابق، غیر مسلم لوگوں کو صرف انسان کہا جاسکتا ہے، نہ کہ کافر۔ ہندستان میں جوہندو ہیں، اسلام کے مطابق، ہم بھی اُن کو ہندو کہیں گے، ہم اُن کو کافر نہیں کہہ سکتے۔
۵ تہران ریڈیو نے ۲۵ اکتوبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ ترفلسطین کے مسئلہ سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ فلسطین کی تحریک اپنے نشانہ کے اعتبار سے درست ہے مگر طریقِ کار کے اعتبار سے فلسطینی لیڈروں کو اپنی تحریک کا ری اسس منٹ (reassessment)کرنا چاہئے۔ پچھلے پچاس سال کے دوران یہ تحریک پرتشدد طریقِ کار کے اصول پر چلائی گئی مگر وہ سراسر بے نتیجہ رہی۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ اس تحریک کو پر امن طریقِ کار کے اصول پر چلایا جائے۔ فلسطین کی تباہیوں کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا درست ہوگا کہ فلسطین میں پر امن طریقِ کار اب فلسطینیوں کے لیے صرف ایک انتخاب (choice) نہیں رہا ہے بلکہ وہ ان کے لئے لازمی ضرورت کے درجہ میں پہنچ چکا ہے۔
۶ جین ٹی وی (نئی دہلی) نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو ٹیلی کاسٹ کیا۔ یہ انٹرویو اینٹی کنورژن قانون کے بارہ میں تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ کنورژن ہندستانی دستور کے مطابق، ہر شہری کا جائز حق ہے۔ ایسی حالت میں کنورژن کے خلاف قانون بنانا دستور کی نفی ہے۔ جب تک موجودہ دستور باقی ہے، اینٹی کنورژن قانون جائز طورپر نہیں بنایا جاسکتا۔
۷ دور درشن (نئی دہلی) نے ۲۹ اکتوبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا تعلق سپریم کورٹ کے اُس فیصلہ سے تھا جو غیر امدادی تعلیمی ادارہ کے بارہ میں آیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میںکہا گیا کہ یہ فیصلہ اُصولی طور پر درست ہے اور عالمی نظام کے مطابق ہے۔
۸ ۱۰۔۱۲نومبر ۲۰۰۲ کو ہمالین انسٹی ٹیوٹ ہاسپٹل اور سادھنا مندر ٹرسٹ کی طرف سے رشی کیش میںایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں مغربی ملکوں کے لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ اس کا موضوع یہ تھا۔ سائنس اینڈ میڈیٹیشن(Science and Meditation) ۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اور وہاں موضوع پر کئی تقریریں کیں۔ ایک تقریر جس میں مغربی ملکوں کے لوگ شریک تھے اس میں انہوں نے بتایا کہ میڈیٹیشن اور روحانیت کا ذریعہ اسلام میںنماز ہے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے زبانی تشریح کے علاوہ لوگوں کے سامنے نماز کو عملی طور پرپڑھ کر دکھایا۔
۹ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۱۵ نومبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر گجرات کی وِجے یاترا سے تھا۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ انڈیا میں ہر فرقہ کو مذہبی آزادی حاصل ہے مگر ہر آزادی کی ایک حد ہوتی ہے۔ مذہبی آزادی کا حق کسی کو اس وقت تک ہے جب تک وہ دوسروں کے لئے مضر نہ بنے۔ دوسروں کے لیے مضر بنتے ہی اس کی آزادی کا حق ختم ہوجائے گا۔
۱۰ یونیسکو کی سرپرستی میںوومن کولیشن (Womens' Coalition) نے انڈیا انٹرنیشنل سنٹر میںایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ یہ سیمینار ۱۶ نومبر ۲۰۰۲ کو انٹر نیشنل ڈے آف ٹالرنس ۲۰۰۲ (International Day of Tolerance 2002) کے موقع پرکیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور ٹالرنس کے موضوع پراسلامی تعلیمات کی روشنی میںایک تقریر کی۔ اس سلسلہ میں انہوں نے جو باتیں کہیں ان میں سے ایک یہ تھی کہ ٹالرنس کوئی سرنڈر(Surrender)نہیں ہے۔ وہ پختگی کا اظہار ہے۔ٹالرنس یہ ہے کہ آدمی ان چیزوں کے ساتھ پر امن طورپر رہ سکے جن کو وہ بدل نہیں سکتا:
Tolerance is maturity. Tolerance is the ability to live in peace with things we cannot change.
۱۱ نئی دہلی کے انگریزی ماہنامہ لائف پازیٹیو(Life Positive) کی کرسپانڈنٹ سسمتا ساہا (Susmita Saha) نے ۲۲ نومبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ انٹرویو کا موضوع اسلامی میڈیٹیشن تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ میڈیٹیشن کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جس میں آدمی خود اپنے اندر دھیان لگاتا ہے۔ یہ میڈیٹیشن آنکھ بند کرکے کیا جاتا ہے۔ اس میں سوچ کو معطل کرکے خاموشی کی دنیا میںپہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ دوسرا میڈیٹیشن جو اسلامی میڈیٹیشن ہے وہ خدا پر مبنی ہے۔ اس میں سارا دھیان خدا کی طرف لگایا جاتا ہے۔ پہلی قسم کے میڈیٹیشن میں فائنڈر اور فائنڈنگ دونوں ایک ہوتے ہیں۔ مگر دوسری قسم کے میڈیٹیشن میں فائنڈر الگ ہوتاہے اور فائنڈنگ الگ۔ اس میں انسان فائنڈر ہوتا ہے اور خدا فائنڈنگ۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ صوفی ازم میںجو نئے طریقے شامل کئے گئے وہ اسلام میں ریفارم نہ تھا بلکہ صرف ایک قسم کا جزئی اضافہ تھا۔
۱۲ ڈیلی امریکی اخبار ایری زونا ری پبلک (Daily Arizona Republic) کی کالمنسٹ منتوشی دیوجی(Mantoshe Devji) نے ۳۰ نومبر ۲۰۰۲ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ اسلام کا کوئی نیا انٹرپریٹیشن (current interpretation) نہیں ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات ابدی ہیں۔ آج کل اسلامی جہاد کے نام پر مختلف مقامات پر جو کچھ ہورہا ہے وہ اسلام نہیں ہے۔ وہ اسلام کا خود ساختہ انٹرپریٹیشن ہے۔ اسلام مکمل طورپرپر امن طریقِ کار کی حمایت کرتا ہے۔ متشددانہ طریقِ کار کی اسلام میںکسی بھی حال میں گنجائش نہیں۔
۱۳ انڈین سنٹر فار فیلانتھرا پی کے تحت ۲ دسمبر ۲۰۰۲ کو انڈیا ھیبیٹٹ سنٹر نئی دہلی میںایک سیمینار ہوا۔اس کا موضوع Religion and Social Development تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور حسب ذیل موضوع پر اس میں ایک تقریر کی:
Role of Islam in Social Development
اس تقریر میں قرآن وحدیث کے حوالوں سے بتایا گیا کہ اسلام کی بنیاد انسانیت کی خیر خواہی پر ہے۔ توحید کے بعد اسلام میں سب سے زیادہ جس چیز پر زور دیا گیا ہے وہ یہی انسانی خیر خواہی ہے۔ اس انسانی خیر خواہی کی تکمیل کے لئے اسلام میںجو معاشرتی احکام دئے گئے ہیں ان کا ایک خاکہ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ یہ سارا پروگرام انگریزی میں تھا۔ اس موقع پر سوامی گولکانندا نے اس موضوع پر ہندو نقطۂ نظر پیش کیا اور فادر والسن تھمیو نے مسیحی نقطۂ نظر پیش کیا۔
۱۴ نئی دہلی کے ادارہ سمپردان (Sampradaan) کے تحت انڈین سینٹر فار فیلان تھراپی (Indian Centre for Philanthropy) میں ۳ دسمبر ۲۰۰۲ کو ایک پروگرام ہوا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور ریلیجیس چیریٹی(Religious Charity) کے موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔
۱۵ حیدر آباد میں ۷۔۸ دسمبر ۲۰۰۲ کو تھنکرس میٹ (Thinkers' Meet) کے نام سے ایک سیمینار ہوا۔ اس کا اہتمام وگیان بھارتی مہارشی بھاردواج سوسائٹی اے ۔پی کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ ۷ دسمبر کی صبح کو وہ حیدر آباد پہنچے اور ۱۱ دسمبر ۲۰۰۲ کو واپسی ہوئی۔ اس موقع پر سیمینار کے علاوہ مختلف اجتماعات میں شرکت کا موقع ملا۔ سیمینار کا موضوع انڈیا نائزیشن آف ایجوکیشن (Indianization of Education) تھا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو کچھ کہا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہمارے سماج میں جو بگاڑ آیا ہے اس کا حل انڈیانائزیشن نہیں ہے بلکہ اسپریچولائیزیشن (spiritualization) ہے۔ وسیع کوشش کے ذریعہ لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہے۔ لوگوں کے اندر اخلاقی اور روحانی انقلاب لانا ہے۔ اس کے بعد ہی ہمارے سماجی حالات درست ہوں گے۔
۱۶ آؤٹ لُک میگزین (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر رنجیت بھوشن نے ۱۹ دسمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ پالیٹکس میں آئیڈیل نہیں چلتا، پالیٹکس میں ہمیشہ پرکٹکل چلتا ہے۔ مسلمانوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ وہ پالیٹکس میں آئیڈیل چلانا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لمبی کوشش کے باوجود وہ کوئی سیاسی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا گیا کہ الیکشن کے وقت مسلمانوں کو مقامی حالات کی روشنی میںالیکشن پالیسی بنانا چاہئے، نہ کہ ملکی نقشہ کے مطابق۔
۱۷ نیشنل ڈیولپمنٹ اور اسلامی ریسرچ فاؤنڈیشن کی طرف سے سہارنپور میں ۲۲ دسمبر ۲۰۰۲ کو ایک آل انڈیا کانفرنس ہوئی۔ یہ پروگرام شہر کے پنجاب ہوٹل میں کیا گیا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے سہارنپور کا سفر کیا۔ وہاں کئی پروگرام ہوئے— پنجاب ہوٹل میں پریس کانفرنس، پنجاب ہوٹل کے عمومی جلسہ میں تقریر، خواتین کی تنظیم تیور (TEVOR) کی طرف سے کئے گئے ایک جلسہ میں تقریر، وغیرہ۔ ان تقریروں میں اسلام اور روحانیت کے پہلو سے وضاحت کی گئی۔
۱۸ گاندھی دھام (نئی دہلی) میں ۲۴ دسمبر ۲۰۰۲ کو عیدمِلن کا ایک پروگرام ہوا۔ اس میں بڑی تعداد میں سیاسی اور سماجی شخصیتیں شریک ہوئیں۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ عید ملن کا تصور بہت مفید تصور ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’ملن‘‘ کا اصول پوری کائنات میں جاری ہے۔ کائنات کی ہر چیز مختلف چیزوں کے ملنے سے بنتی ہے۔یہاں کی ہر چیز مجموعہ کے روپ میں ہے۔ گویا ملن کلچر ہی عالمی کلچر ہے۔ ملن کلچر کے اسی فطری طریقہ کو انسانی زندگی میں بھی اختیار کرنا چاہئے۔ ہر قسم کی ترقی ملن کلچر کے ماحول ہی میں ہو سکتی ہے۔ ملن کلچر امتزاج کا نام نہیں ہے بلکہ تنوع کو رواداری کے جذبہ کے ساتھ قبول کرنے کا نام ہے۔
۱۹ دہلی کے اُردو روزنامہ راشٹریہ سہارا کے نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے ۲۶ دسمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایاگیا کہ اسلام کے نام پر قتل کرنا بلا شبہہ ایک قابلِ مذمت کام ہے۔ برائی عام حالات میں بھی برائی ہے اور جو برائی اسلام کے نام پر کی جائے اُس کا جرم اور زیادہ بڑھ جاتاہے۔
۲۰ مودی ہاؤس (نئی دہلی) میں ۲جنوری ۲۰۰۲ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ جلسہ ڈاکٹر بی کے مودی کے جنم دن کی تقریب میں تھا۔ اس موقع پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کو بلایا گیا تھا کہ وہ اپنے مذہب کی روشنی میں مساوات اور انسانیت کے موضوع پر اظہار خیال کریں۔ صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پر اسلام کی روشنی میں موضوع پر ایک تقریر کی۔ موقع کے لحاظ سے یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔
۲۱۔ ای ٹی وی (Ernadu TV) نے ۶۔۷ جنوری ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو کمپنی کے نائڈا کے اسٹوڈیو میں ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر حج سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ کمبھ میلا اور حج میںکوئی مشابہت نہیں۔ کمبھ میلا گنگا کی معبودیت کے تصور پر قائم ہے۔ جب کہ حج صرف ایک اللہ کی پرستش کے تصور پر۔ ایک اور سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ حجر اسود اور شیو لنگ میںکوئی مشابہت نہیں ۔ شیو لنگ کو اس کے پرستار افزائش نسل کا دیوتا سمجھتے ہیں۔ جب کہ حجر اسود صرف ایک پتھر ہے۔ وہ کوئی قابل پرستش چیز نہیں۔ جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ظاہری شکل کے اعتبار سے اس میں کوئی مشابہت نہیں۔
۲۲ سعودی عرب (ریاض) میںہر سال المہرجان الوطنی کے نام سے بڑے پیمانہ پر تقاریر ہوتی ہیں۔اس سال یہ تقریب ۸ جنوری ۲۰۰۳ کو شروع ہوئی اور ایک ہفتہ تک جاری رہی۔ اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔وہاں اُن کو اظہار خیال کے لیے جو عنوان دیا گیا وہ یہ تھا: ہذا ہوالاسلام۔ سفر کے انتظامات مکمل کردیے گئے تھے مگر بعض وجوہ سے یہ سفر نہ ہوسکا۔ البتہ موضوع پر ایک پیپر اُنہیں بھیج دیا گیا۔
۲۳ مسٹر سلمان خورشید (سابق مرکزی منسٹر) کی صاحب زادی عائشہ (۱۷ سال) کا ۱۱جنوری ۲۰۰۳ کو انتقال ہوگیا۔ دہلی پبلک اسکول (آر کے پورم) میں اس موقع پر بہت بڑا فنکشن ہوا۔اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور زندگی اور موت کے موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔
۲۴ انجمن طلبۂ قدیم مدرسۃ الاصلاح کی طرف سے ۱۲ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک سمپوزیم ہوا۔ یہ سمپوزیم مولانا شبلی نعمانی اور مولانا حمید الدین فراہی کے نام پر تھا۔ اس کا انعقاد ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) کے کنونشن سینٹر میں کیاگیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں بحیثیت صدر شرکت کی اور موضوع پر ایک تقریر کی۔ اُنہوں نے اپنی تقریر میںمولانا شبلی اور مولانا حمید الدین فراہی کے کارنامے بتائے۔ نیز یہ بتایا کہ مدرسہ کاتعلیمی نظام کتنا عام ہے اوروہ نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ ملک کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہا ہے۔
۲۵ نئی دہلی کے روزنامہ راشٹریہ سہارا (ہندی) کے نمائندہ مسٹر نیراج نے ۱۳ جنوری ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا موجودہ ملکی مسائل پر انٹرویو لیا۔ ایک سوال کے جواب میںکہا گیا کہ ہندوتو کوئی welldefined نظریہ نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ ملک کی اکثریت کی حمایت اُس کو حاصل نہ ہوسکی۔ اس لیے ہندوتو ابھی تک ملک میں کوئی حقیقی مسئلہ نہیں ہے۔
۲۶ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے ہندی شعبہ میں ۱۶ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک پینل ڈسکشن ہوا۔ اس میں دہلی کے پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع تھا: ہندستانی جمہوریہ کے سامنے چُنوتیاں۔ اُنہوں نے کہا کہ سب سے بڑی چنوتی تعلیم میں پچھڑا پن ہے۔ تعلیم لوگوں کو باشعور بناتی ہے۔ مثلاً ہمارا سماج اسی بنا پر رائٹ کانشش ہوگیا ہے جب کہ اچھا سماج وہ ہے جس کے افراد ڈیوٹی کانشش ہوں۔ اسی کی وجہ سے ہمارے یہاں نعروں کی پولیٹکس عام ہوگئی ہے جب کہ ایشوز کی پالیٹکس ہونا چاہئے۔ اسی لیے ہمارے سیاست داں صرف جیت کو جانتے ہیں۔ حالاں کہ جمہوریت کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ لوگ ہار کو بھی ماننا جانتے ہوں۔
۲۷ تروینی کلا سبھا گار (منڈی ہاؤس) میں ۲۵ جنوری ۲۰۰۳ میں ایک پری سمواد ہوا ۔ یہ سمواد پترکار دین دیال اپادھیائے کے نام پر کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع کے بارے میں مختصراظہار خیال کیا۔
۲۸ سوسائٹی فار دی پروموشن آف ریشنل تھنکنگ (SPRAT) کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے احمد آباد کا سفر کیا۔ وہاں انہوں نے ۲۵۔۲۶ جنوری ۲۰۰۳ کے پروگرام میں حصہ لیا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۹ امریکہ سے جناب لئیق احمد صاحب نے اطلاع دی ہے کہ اُنہوں نے الرسالہ مطبوعات کو پھیلانے کے دوسرے طریقوں کے علاوہ یہ کیا کہ ہندستان کے ماہنامہ سائنس کو ’حل یہاں ہے اور ’فسادات کا مسئلہ‘ پانچ سو کی تعداد میں فراہم کیا۔ اور ’’سائنس‘‘ نے ان کتابوں کو اپنے ماہانہ شمارے میں رکھ کر اپنے تمام خریداروں کو بھیج دیا۔ اس طرح یہ کتابیں بیک وقت بہت سے لوگوں تک پہنچ گئیں۔ اس کام میں امریکہ کے مزید جن لوگوں نے تعاون کیا اُن کے نام یہ ہیں: جناب شاہد صاحب، جناب احمد صاحب، جناب ساجد ضیاء صاحب، جناب خالد خاں، جناب لئیق محمد خاں۔
واپس اوپر جائیں