Pages

Tuesday 1 June 2004

Al Risala | June 2004 (الرسالہ،جون)

2

-چند احادیث

19

- سوچنے کا طریق

23

- ماہنامہ جام نور دہلی کے سوالنامہ کے جوابات

- خبر نامہ اسلامی مرکز

37

- خطوط

48

- روحانیت کیا ہے

49

- قناعت واحد حل

50

- جہادِ اکبر کیا ہے

52

- معلومات اور تجزیہ

54

- سب سے زیادہ مبغوض چیز

56

- سید جمال الدین افغانی

59

- تاریخ پرستی

60

- خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۶۳


چند احادیث

حدیث کی کتابوں میں کوئی کتاب النساء جیسا چیپٹر نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف موضوعات کے تحت عورتوں کے بارہ میں کثرت سے ایسی روایتیں آئی ہیں جو عورتوں کے بارہ میں اسلام کی تعلیم کو بتاتی ہیں۔ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کا درجہ انسانی سماج میں کیا ہے۔ یہاں حدیث کی مختلف کتابوںسے اس قسم کی کچھ روایتیں نقل کی جاتی ہیں۔ یہ روایتیں بتاتی ہیں کہ اسلام کے نقشۂ حیات میں عورت کا مقام کیا ہے۔
۱۔ عورت نصف انسانیت
پیغمبر اسلام کی اہلیہ عائشہ صدیقہ سے ایک مسئلہ پوچھا گیا۔اُنہوں نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کا ایک سوال کیاگیا تھا۔ اس مسئلہ کا جواب دیتے ہوئے آپ نے مزید فرمایا: عورتیں بلاشبہہ مرد کا شقیقہ ہیں (انما النساء شقائق الرجال) ابوداؤد، کتاب الطہارۃ، الترمذی، کتاب الطہارۃ، مسند احمد ۶؍۲۵۶۔
شقیق یا شقیقہ عربی زبان میں ، کسی چیز کے درمیان سے پھٹے ہوئے دوبرابر بر ابر حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے دردِ شقیقہ بولا جاتا ہے۔ یعنی وہ درد جو سر کے آدھے حصہ میں ہو۔ اوپر کی روایت میں اسی مفہوم میں عورت کو مرد کا شقیقہ کہا گیا ہے۔ یہ عورت کی حیثیت کی نہایت صحیح تعبیر ہے۔ اسلام کے مطابق، عورت اور مرد دونوں ایک کُل کے دو برابر بر ابر اجزاء ہیں۔ اس کُل کا آدھا عورت ہے اور اُس کا آدھا مرد۔ اس اعتبار سے یہ بات عین درست ہوگی کہ عورت کو نصفِ انسانیت کا لقب دیا جائے۔
۲۔ اخلاق کا معیار
عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہو۔ اور میں اپنے گھر والوں کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔ اور جب تمہارا ساتھی انتقال کر جائے تو تم اُس کے لیے دعا کرو (خیرکم خیرکم لأہلہ و أنا خیرکم لأہلی و اذا مات صاحبکم فدعوہ) الترمذی، الدارمی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۷۱ (رقم الحدیث ۳۲۵۲)
گھر کی زندگی میں شوہر اور بیوی مستقل طور پر ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں بار بار ایک کو دوسرے سے شکایت پیدا ہوتی ہے۔ غصہ اور نفرت کے جذبات جاگتے ہیں۔ ایسی حالت میں حُسن اخلاق کا سب سے بڑا آزمائشی مقام اُس کا اپنا گھر ہے۔ جو مرد اپنے گھر کے اندر بہتر سلوک کا ثبوت دے وہ اخلاقی امتحان میں کامیاب ہوگیا۔ اسی طرح جو عورت اپنے گھر کے اندر حُسن سلوک پر قائم رہے اُس نے آزمائش میں کامیابی حاصل کی۔ ایسے عورت یا مرد باہر کی زندگی میں بھی کامیاب رہیں گے۔
گھر کی زندگی میں جب ایک ساتھی کو موت آجائے اور دوسرا ساتھی زندہ رہے تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ زندہ کے دل میں وفات یافتہ کے بارہ میں غم اور ماتم کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ایسے حادثہ کے موقع پر اپنے جذبات کا رُخ دعا کی طرف کردیا جائے۔ جو کچھ دنیا میں کھویا گیاہے اُس کو آخرت میں پانے کی کوشش کی جائے۔
۳۔ شرافت کی پہچان
ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کی عزت وہی شخص کرے گا جو شریف ہو اور عورتوں کو وہی شخص بے عزت کرے گا جو کمینہ ہو (مااکرم النساء الا کریم و ما اہانہن الا لئیم)
عزت اور مرتبہ کے لحاظ سے عورت اور مرد دونوں برابر کا درجہ رکھتے ہیں۔ مگر زندگی کے نظام میں دونوں کے درمیان تقسیمِ کار کا اُصول رکھا گیا ہے۔ مرد پر نسبتاً سخت کام کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے اور عورت کو مقابلۃً نرم کام کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس تقسیمِ کار کی بنا پر عورت اور مرد کی جسمانی بناوٹ میں فرق رکھا گیا ہے۔ مرد جسمانی اعتبار سے زیادہ قوی ہے اور عورت جسمانی اعتبار سے نسبتاً غیر قوی ہے۔
اس فرق کی بنا پر مرد کو یہ موقع ملتا ہے کہ وہ عورت کو اپنی چیرہ دستی کا شکار بنا سکے۔ مگر خدا کے نزدیک یہ مرد کے لیے ایک امتحان کا پرچہ ہے۔ مرد کو چاہیے کہ وہ جسمانی اعتبار سے قوی ہونے کے باوجود عورت کا پورااحترام کرے۔ خدا کی شریعت کا اُصول یہ ہے کہ شریف انسان وہ ہے جو کمزور کے مقابلہ میں شریف ثابت ہو۔ وہ انسان ایک کمینہ انسان ہے جو کسی کو کمزور پاکر اُس کو اپنی زیادتی کا نشانہ بنانے لگے۔
۴۔ ہر حال میں خیر
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مومن مرد کسی مومن عورت سے نفرت نہ کرے اگر اس کی کوئی خصلت اس کو ناپسند ہوگی تو کوئی دوسری خصلت اس کی پسند کے مطابق ہوگی۔ (لایفرک مومن مومنۃ۔ ان کرہ منہا خلقاً رضی منہا آخر)
صحیح مسلم، کتاب الرضاع
فطرت کی تقسیم کا عام اُصول یہ ہے کہ کسی ایک عورت یا کسی ایک مرد کو ساری خوبیاں نہیں دی جاتیں۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر کسی کو ایک خوبی زیادہ ملتی ہے تو دوسری خوبی میں اُس کے ساتھ کمی کردی جاتی ہے۔ مثال کے طورپر ایک عورت کواگر ظاہری جسمانی خصوصیات میں زیادہ حصہ ملا ہو تو داخلی خصوصیات میں وہ اُس نسبت سے کم ہوگی۔ اسی طرح اگر ایک عورت داخلی سیرت میں زیادہ بڑھی ہوئی ہو تو ظاہری صفات کے اعتبار سے وہ نسبتاً کم ہوگی۔ یہ فطرت کا ایک عام اُصول ہے جس میں بہت کم استثناء پایا جاتا ہے۔
مذکورہ حدیثِ رسول میں اسی فطری حقیقت کی طرف اشارہ کیاگیا ہے۔ کسی مرد کی بیوی اگر ایسی ہو جو ظاہری صورت کے اعتبار سے زیادہ پُرکشش نہ ہو تو اُس کو بد دل ہونے کی ضرورت نہیں۔ فطرت کے قانون پر اعتماد کرتے ہوئے اُس کے اندر یہ یقین ہونا چاہیے کہ اُس کی بیوی سیرت کے اعتبار سے یقینی طورپر زیادہ بہتر ہوگی۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ حقیقی زندگی میں صورت کے مقابلہ میںسیرت کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
۵۔ بہتر اخلاق کی پہچان
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومنین میں سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جو اخلاق میں سب سے اچھا ہے۔ اور تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنی عورتوں کے لیے اچھا ہو۔ (اکمل المؤمنین ایماناً احسنہم خلقاً وخیارکم خیارکم لنسائہم)۔
الترمذی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۷۳ (رقم الحدیث ۳۲۶۴)
یہ حدیث بظاہر مرد کے لیے ہے۔مگر اپنے توسیعی مفہوم کے اعتبار سے وہ مرداور عورت دونوں کے لیے ہے۔ ایک مرد اور ایک عورت جب شادی شدہ زندگی اختیار کرکے ایک ساتھ رہتے ہیں تو بار بار دونوں کے درمیان اختلاف اور شکایت کی صورتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس کے نتیجہ میں غصہ اور نفرت اور انتقام کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ یہ موقع دونوں کے لیے امتحان کا موقع ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر دونوں صبر اور تحمل کا طریقہ اختیار کرکے اپنے آپ کو اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر مرد اور زیادہ بہتر عورت ثابت کرسکتے ہیں۔ وہ صحیح اسلامی رویہ اختیار کرکے خدا کے یہاں اپنا درجہ بلند کرسکتے ہیں۔
۶۔ بہتر خاتون کون
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ عورتوں میں سب سے بہتر عورت کو ن ہے۔ آپ نے فرمایا کہ وہ عورت کہ مرد جب اُسے دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے۔ اور مرد جب کسی کام کے لیے کہے تو وہ اس کی اطاعت کرے اور اپنے نفس اور اپنے مال میں وہ مرد کی مرضی کے خلاف کچھ نہ کرے (عن ابی ہریرۃ قال: سئل رسول اللہ ﷺ ای النساء خیر قال: الذی تسرہ اذا نظر وتطیعہ اذا أمر و لا تخالفہ فیما یکرہ فی نفسہا ومالہ)۔
مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۲۵۱
یہ حدیث اپنے توسیعی مفہوم کے اعتبار سے عورت اورمرد دونوں کے لیے ہے۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے زندگی کے ساتھی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ ہر معاملہ میں ایک دوسرے کے رازداں ہیں۔ زندگی کا کاروبار چلانے کے لیے وہ ایک دوسرے کے مددگار ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک گاڑی کے دو پہئیے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ایسی حالت میں انسانیت کا تقاضا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے سچے رفیق ثابت ہوں۔ وہ ایک دوسرے کو خوش رکھنے کا اہتمام کریں۔ وہ ایک دوسرے کی رعایت کرنے والے ہوں۔ وہ غیر موجودگی میں بھی ایک دوسرے کے خیر خواہ بنے رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے وہ کریں جو رفیقِ حیات کی حیثیت سے اُصولی طورپر اُنہیں ایک دوسرے کے لیے کرنا چاہیے۔
۷۔ عورت سرمایۂ حیات
عبد اللہ بن عمرو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی ہر چیز سامان ہے۔ اور دنیا کا سب سے اچھا سامان نیک عورت ہے (عن عبد اللہ بن عمرو قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : الدنیا کلہا متاع، وخیر متاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ)
صحیح مسلم، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۲۷ (رقم الحدیث ۳۰۸۳)
عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے زندہ متاع یا زندہ سرمایۂ حیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں زندگی گذارنے کے لیے عورت اور مرددونوں کو بہت سی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ شوہر اور بیوی کی صورت میں دونوں کو جو سرمایہ ملتا ہے وہ دوسری تمام چیزوں سے زیادہ قیمتی ہے۔
یہ حقیقت اگر دونوں کے دل میں بیٹھ جائے تو عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے سے بے حد محبت کرنے والے بن جائیں گے۔ دونوں یہ محسوس کرنے لگیں گے کہ وہ ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے کا تحمل نہیں کرسکتے۔ دونوں کا یہ خیال ہوجائے گا کہ انہوں نے اگر ایک دوسرے کی قدر نہ کی تو خود ان کی اپنی زندگی ہی بے معنٰی ہو کر رہ جائے گی۔ دونوں ایک دوسرے کو اس طرح اپنی ضرورت سمجھیں گے جس کی تلافی کسی اور صورت میں ممکن نہیں۔
۸۔ سب سے بہتر خزانہ
عبد اللہ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ آدمی کے لیے بہتر جمع کرنے والا مال کیا ہے۔ نیک عورت کہ جب وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے۔ اور جب وہ اس کو حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور جب وہ موجود نہ ہو تو وہ اس کی حفاظت کرے (عن ابن عباس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: ألا اخبرک بخیر ما یکنز المرأ المرأۃ الصالحۃ اذا نظر الیہا سرتہ واذا امرہا اطاعتہ و اذا غاب عنہا حفظتہ)۔
سنن ابی داؤد، کتاب الزکاۃ
اس حدیث میں عورت کی جو صفات بتائی گئی ہیں وہ کوئی سادہ صفات نہیں ہیں۔ اس حدیث کو پوری طرح اُس وقت سمجھا جا سکتا ہے جب کہ اُس کو اُس کے ظاہری الفاظ سے اوپر اُٹھ کر دیکھا جائے۔ جب کہ اُس کو زندگی کے زیادہ گہرے پہلوؤں کے ساتھ جوڑکر سمجھا جائے۔
مرد کے لیے عورت صرف اس کی گھریلو ساتھی نہیں ہے بلکہ وہ اُس کے لیے سب سے بڑے خزانہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انسان ایک سوچنے والی مخلوق ہے۔ انسان کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ کوئی ہو جو سوچنے کے عمل میںاُس کے ساتھ شیئر (share) کرسکے۔ جو پورے معنوں میں اس کا فکری رفیق (intellectual partner) بن جائے۔ عورت کسی مرد کی اسی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ وہ اُس کی ایک قابل اعتماد ذہنی رفیق ہے۔ کسی مرد کی بیوی ہی اس کی وہ ساتھی ہے جو اُس کو ہر صبح و شام حاصل رہتی ہے۔
مرد کو چاہیے کہ وہ اپنی رفیقۂ حیات کو اس اعتبار سے تیار کرے۔ تعلیم و تربیت کے ذریعہ وہ عورت کو اس قابل بنائے کہ وہ حقیقی معنوں میں اپنے شوہر کی ذہنی رفیق (intellectual partner) بن سکے۔ اس قسم کی ذہنی رفاقت کے جو فائدے ہیں اُنہی میں سے کچھ فائدوں کا ذکر علامتی طورپر مذکورہ حدیث میں کیا گیا ہے۔
۹۔ زندگی کی مددگار
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قرآن میںجب یہ آیت اُتری کہ جو لوگ سونا او رچاندی جمع کرتے ہیں اُن کے لیے وعید ہے تو بعض صحابہ نے کہا کہ اگر ہم یہ جانتے کہ کون سا مال بہتر ہے تو ہم اسی کو لیتے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سب سے افضل چیز خدا کی یاد کرنے والی زبان ہے۔ اور خدا کا شکر کرنے والا دل ہے۔ اور مومن بیوی ہے جو اس کے ایمان پر اُس کی مدد کرے(عن ثوبان قال لما نزلت (والذین یکنزون الذہب والفضۃ) کنا مع النبیﷺ فی بعض اسفارہ فقال بعض اصحابہ نزلت فی الذہب والفضۃ لو علمنا ای المال خیر فنتخذہ۔ فقال افضلہ لسان ذاکر وقلب شاکر و زوجۃ مؤمنۃ تعنیہ علی ایمانہ۔
احمد، الترمذی، ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۷۰۴ (رقم الحدیث ۲۲۷۷)
مادی دولت صرف دنیا کی عارضی زندگی میں کچھ راحت دے سکتی ہے۔ مگر ذکر اور شکر اور ایمان کی دولت وہ دولت ہے جو آخرت کی ابدی زندگی میں زیادہ بڑی راحت کا ذریعہ بنے گی۔ ذکر کا مطلب یہ ہے کہ آدمی خدا کو یادکرے، اس کا ذہن خدا کی سوچ میں لگا رہے۔ شکر یہ ہے کہ آدمی کو خدا کی نعمتوں کا گہرا احساس ہوجائے۔ وہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ خدا کے انعامات کا اعتراف کرنے لگے۔ ایمان سے مراد خدا کی معرفت ہے۔ خدا کی شعوری دریافت کے نتیجہ میں آدمی کے اندر جو عقیدہ بنتا ہے اُسی کا نام ایمان ہے۔
کسی مرد کے لیے عورت ان پہلوؤں سے سب سے بڑی مددگار ہے۔ مرد اور عورت اپنی روزانہ کی زندگی میں جب ایک دوسرے سے فکری تبادلہ (intellectual exchange) کرتے ہیں تو دونوں کو اس سے یہ فائدہ ملتا ہے کہ وہ خدا کی یاد کا گہرا روحانی تجربہ کرتے ہیں۔ وہ خدا کے عطیات کا تذکرہ کرکے ایک دوسرے کے اندر شکر کے جذبات کو بڑھاتے ہیں۔ وہ خدا کی ذ۱ت وصفات میں باہمی غور و فکر کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں دونوں کی معرفت (realization) میںاضافہ ہوتا ہے۔
۱۰۔ قابل اعتماد ساتھی
ابو امامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ اللہ کے تقویٰ کے بعد سب سے بہتر چیز جو ایک مومن پاتا ہے وہ نیک بیوی ہے۔ اگر وہ اس کو کوئی حکم دے تو وہ اس کی اطاعت کرے۔ اور اگر وہ اس کی طرف دیکھے تو وہ اس کو خوش کردے اور اگر وہ اس پر قسم کھالے تو وہ اس کو پورا کرے اور اگر وہ اس سے غائب ہو تو وہ اپنے نفس اور اُس کے مال میں اس کی خیر خواہی کرے (عن ابی امامۃ عن النبیﷺ انہ یقول: ما استفاد المؤمن بعد تقوی اللہ خیراً لہ من زوجۃ صالحۃ ان امرہا اطاعتہ و ان نظر الیہا سرّتہ و ان أقسم علیہ ابرّتہ و ان غاب عنہا نصحتہ فی نفسہا و مالہ)۔
ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۳۰ (رقم الحدیث ۳۰۹۵)
یہ بات اپنے وسیع تر مفہوم میں عورت اور مرد دونوںکے اوپر منطبق ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے بہترین جوڑا اُسی وقت بن سکتے ہیںجب کہ دونوں اپنے اندر مذکورہ صفات پیدا کرلیں۔
مرد اور عورت دونوں ایک دوسرے کے لیے تکملہ(complement) کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے وجود کو مکمل کرتا ہے۔ عورت کے بغیر مرد کی زندگی نامکمل ہے اور اسی طرح مرد کے بغیر عورت کی زندگی نامکمل ہے۔
عورت اور مرد دونوں اپنی زندگی کا یہ فریضہ صرف اس طرح ادا نہیں کرسکتے کہ وہ نکاح کرکے ایک دوسرے کے ساتھ ازدواجی رشتہ میں منسلک ہوجائیں۔ اسی کے ساتھ اُنہیں ایک اور کام کرنا ہے۔ اس اعتبار سے وہ اپنے شعور کو بیدار کریں۔ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لیے دونوں اپنے آپ کو ذہنی طورپر تیار کریں۔ دونوں کے لیے اُن کا گھر ایسا مدرسہ بن جائے جس میں شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے ٹیچر بھی ہوں اور اسی کے ساتھ ایک دوسرے کے اسٹوڈنٹ بھی۔ اس دوسرے پہلو سے دونوں کے درمیان رشتہ کی مضبوطی ان کی ازدواجی زندگی کی کامیابی کی ضمانت ہے۔
حدیث کے یہ الفاظ بے حد اہم ہیں کہ وہ اس کے مال میں خیر خواہی کرے۔ اس کو دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہترین عورت وہ ہے جو گھر کی آمدنی کو صحیح طورپر خرچ کرے۔ وہ انتظام مال (money management) میں پوری طرح اپنے شوہر کی مددگارہو۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مال دنیا کی زندگی میں انسان کے لیے قیام کا ذریعہ ہے(النساء ۵) مال کا بہترین استعمال یہ ہے کہ اس کو حقیقی ضرورت کی مد میں خرچ کیا جائے۔ مال کے معاملہ میں فضول خرچی کرنا اتنا برا کام ہے کہ جو مرد اور عورت ایسا کریں ان کو قر آن میں شیطان کا بھائی اور بہن بتایا گیا ہے (الاسراء ۲۷)
مال کے معاملہ میں فضول خرچی کا تعلق عورتوں سے بہت زیادہ ہے۔ قرآن کے مطابق، عورت اپنے مزاج کے اعتبار سے تزئین اور نمائش جیسی چیزوں کو بہت زیادہ پسند کرتی ہے(الزخرف ۱۸) اس بنا پر اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گھروں میں تقریبات اور فرنیچر اور کپڑے اور دوسری مدوں میں مال کا جو غیر ضروری خرچ ہوتا ہے وہ زیادہ تر عورتوں کے ذوق کی وجہ سے ہوتا ہے۔ مال کا صحیح خرچ اور اس کا غلط خرچ دونوں کا انحصار زیادہ تر عورت کے اوپر ہوتا ہے۔
اس بات کو مثبت انداز میں اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کسی گھر کی کامیابی کاراز سادگی کلچر میں ہے، اور سادگی کلچر کا معاملہ تمام تر عورت کے اوپر منحصر ہوتاہے۔ سادگی بظاہر ایک معمولی چیز ہے مگر عملی اعتبار سے دیکھیے تو وہ زندگی کی اہم ترین قدر کی حیثیت رکھتی ہے۔ جہاں سادگی ہوگی وہاں ہر دوسری چیز اپنے آپ موجود ہوگی۔کسی نے بہتر زندگی کا فارمولا درست طورپر ان الفاظ میں پیش کیا ہے—سادہ زندگی اور اونچی سوچ:
Simple living, high thinking
سادگی اور اونچی سوچ دونوں ایک دوسرے سے لازمی طورپر جڑے ہوئے ہیں۔ جہاں سادگی ہوگی وہاں اونچی سوچ ہوگی۔ اور جہاں اونچی سوچ ہوگی وہاں سادگی بھی ضرور پائی جائے گی۔ سادگی کا مطلب ہے، حقیقی ضرورت اور غیر حقیقی ضرورت میںفرق کرنا۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ غیر حقیقی ضرورت کو اپنی ضرورت سمجھ لینا اور اسی کے لیے مال خرچ کرنا ایک ایسی بری عادت ہے جو آدمی کے اندر ذہنی ارتقاء (intellectual development) کے عملکو روک دیتی ہے۔ اس کے برعکس غیر حقیقی ضرورت کو نظر انداز کرنااور صرف حقیقی ضرورت پر اپنامال خرچ کرنا آدمی کو یہ موقع دیتا ہے کہ وہ ذہنی ترقی کے عمل میں مصروف ہو۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ فضول خرچی اور اعلیٰ انسانیت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔ اعلیٰ انسانیت کے لیے سادہ زندگی ضروری ہے۔
کسی گھر کو سادگی کے اصول پر چلانا صرف عورت کا کام ہے۔ عورت اگر صرف یہی ایک کام کرے کہ مال کے حسن انتظام کے ذریعہ وہ گھر کے اندر سادگی کلچر کو رائج کردے تو یہ اتنا بڑا کام ہوگا کہ اسی ایک کارنامہ کی بنا پر اس کو معمار انسانیت کا لقب دیا جاسکتا ہے۔
سادگی بااصول زندگی کی علامت ہے۔ اسی طرح انتظام مال(money management) منصوبہ بند زندگی کی علامت ۔ جو لوگ ایسا کریں وہ گویا زندگی میں ترجیحات (priorities) کو جانتے ہیں۔ انہوں نے بے مقصد زندگی کا طریقہ چھوڑ کر بامقصد زندگی کے طریقہ کو اختیار کیا۔ انہوں نے حیوانی سطح کی زندگی سے اوپر اٹھ کر انسانی سطح کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کو دنیا میں بھی خدا کا انعام ملتا ہے اور آخرت میں بھی وہ خدا کے انعام کے مستحق قرار پائیںگے۔قرآن کے الفاظ میں وہ حسنات دنیا کے بھی حصہ دار ہیں اور حسنات آخرت کے بھی حصہ دار۔
۱۱۔ زندگی کی عظیم نعمت
عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار چیزیں ہیں جن کو وہ دی گئیں تو اس کو دنیا اور آخرت کی تمام بھلائی دے دی گئی۔ شکر کرنے والا دل اور ذکر کرنے والی زبان اور مصیبتوں پر صبر کرنے والا بدن اور ایسی بیوی جس کے نفس اور اپنے مال میں اس کو کوئی ڈر نہ ہو(عن ابن عباس ان رسول اللہ ﷺ قال: اربع من أعطیہن فقد اعطی خیر الدنیا والآخرۃ قلب شاکر ولسان ذاکر و بدن علی البلاء صابر و زوجۃ لا تبغیہ خوفا فی نفسہا ولا مالہ)
البیہقی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۷۶ (رقم الحدیث ۳۲۷۳)
ایسی بیوی جس کے نفس اور اپنے مال میں اس کو کوئی ڈر نہ ہو—اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی بیوی جس کے اوپر آدمی کو پورا اعتماد ہو۔یہ اعتماد ہمیشہ دو طرفہ ہوتا ہے۔ جب شوہر اور بیوی دونوں ایک دوسرے کو آخری حد تک اپنا سمجھ لیں تو اُس وقت دونوں کے درمیان غیریت کا فرق بالکل مٹ جاتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو اس طرح دیکھنے لگتے ہیں کہ جیسے کہ دونوں کے درمیان ’’میں اور وہ‘‘ کا فرق مٹ گیا ہو۔ دونوں کی شخصیت ایک دوسرے میں ضم ہو کر ایک زندہ کُل بن گئی ہو۔
عورت اور بیوی کے درمیان اپنا پن کا یہی ماحول دونوں کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے۔ جب دونوں کے درمیان اس طرح کا تعلق قائم ہوجائے تو دونوں یہ محسوس کرنے لگتے ہیں کہ دنیا میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ گویا پوری انسانیت اُن کے ساتھ ہے۔ ہر ایک یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ میرے باہرکا پورا عالم میرے ساتھ زندگی کے سفر میں شریک ہوگیا ہے۔ یہ احساس دونوں کے اندر اتنا زیادہ حوصلہ پیدا کردیتا ہے کہ اس کے بعد انہیں کوئی بھی چیز ناممکن نظر نہیں آتی۔
عورت کسی مرد کے لیے سب کچھ اُس وقت بنتی ہے جب کہ وہ محسوس کرے کہ مرد بھی اُس کے لیے اُس کا سب کچھ بن گیا ہے۔ باہمی اعتماد کا یہ معاملہ بلاشبہہ دو طرفہ ہے۔ فطری قوانین کے تحت یہ معاملہ یک طرفہ طورپر قائم نہیں ہوسکتا۔
۱۲۔ رعایت کا معاملہ
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھ اس کے اوپر کے حصہ میں ہوتی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنے لگو تو تم اس کو توڑ دو گے اور اگر تم اس کو چھوڑ دو تو وہ ویسی ہی رہے گی۔ پس تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی میری نصیحت قبول کرو (عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: استوصوا بالنساء خیراً فان المرأۃ خلقت من ضلع وانَّ اعوج شیٔ فی الضلع اعلاہ فان ذہبت تقیمہ کسرتہ وان ترکتہ لم یزل اعوج فاستوصوا بالنساء)۔
صحیح البخاری، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۲، صفحہ ۹۶۷ (رقم الحدیث ۳۲۳۸)
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ خاتونِ اول حوّا کے طریقِ تخلیق کے بارہ میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ عورت کے عام مزاج کو بتاتی ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، پسلی کی ہڈی کسی قدر ٹیڑھی ہوتی ہے۔ اس کا ٹیڑھا ہونا اس کا نقص نہیں ہے بلکہ یہی اس کی موزونیت ہے۔ پسلی کی ہڈی کو اگر آپریشن کرکے سیدھا کردیا جائے تو وہ جسم انسانی میں اپنی کارکردگی کو صحیح طورپر ادا نہ کرسکے گی۔
ایک اور روایت میں یہ لفظ ہے کہ المرأۃ کا لضلع (عورت پسلی کی ہڈّی کی مانند ہے)۔ یہ تمثیل کی زبان ہے۔ اور یہ تمثیل در اصل عورت کی ایک صفت کو بتانے کے لیے ہے۔ اور وہ یہ کہ عورت نسبتاً جذباتی (emotional) ہوتی ہے۔ مرد کے مقابلہ میں عورت کو کسی قدر جذباتی اس لیے بنایا گیا ہے کہ چیزوں سے اس کو ایک جذباتی تعلق ہوجائے اور اس بنا پر وہ اپنی مخصوص ذمہ داریوں کو بہتر طورپر ادا کرسکے۔ اسی مخصوص مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ عورت کو اپنے بچّہ کے ساتھ انتہائی جذباتی تعلق ہوتا ہے۔ اگر یہ جذباتی تعلق نہ ہو تو عورت اپنے بچہ کے سلسلہ میں اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کرسکے۔
۱۳۔ فطرتِ انسانی کا تقاضا
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا کی چیزوں میں سے خوشبو اور عورتیں محبوب بنائی گئی ہیں اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی ہے(حبب الی من دنیاکم الطیب والنساء وجعلت قرۃ عینی فی الصلٰوۃ)
احمد، النسائی، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد۳، صفحہ ۱۴۴۸ (رقم الحدیث ۵۲۶۱)
اس حدیث میں ضمیر متکلم کے اسلوب میں در اصل انسانی فطرت کو بتایا گیا ہے۔ انسان کے اندر فطری طورپر یہ مزاج ہے کہ وہ اپنے زوج (جوڑے) کی طرف خصوصی میلان رکھتاہے۔ وہ اپنے جوڑے کو اپنا تکمیلی حصہ سمجھتا ہے۔ اس کا پورا وجود محسوس کرتا ہے کہ اس جوڑے کے بغیر اُس کی ہستی مکمل نہیں۔ یہ فطرت کی تخلیق کا ایک حصہ ہے۔ اس کا تعلق ہر انسان سے ہے۔
مرد اور عورت دونوں کو مل کر دنیا میں جو کام کرنا ہے وہ بے حد صبر آزما کام ہے۔ وہ ایک پُرمشقت جدوجہد ہے۔ اس پُرمشقت جدوجہد کو خوشگوار بنانے کے لیے عورت اور مرد کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت رکھ دی گئی ہے۔ یہی الفت اورمحبت کسی انسانی سماج کو مستحکم سماج بناتی ہے۔ اجتماعی زندگی میں الفت اور محبت کی حقیقت چپکانے والے مادہ (adhesive) کی ہے۔ اگر یہ الفت اور محبت ختم ہوجائے تو خاندان اور سماج دونوں انتشار کا شکار ہو کر رہ جائیں۔
۱۴۔ سب سے افضل متاع
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو۔ دنیا کی چیزوں میں سے کوئی چیز نیک بیوی سے بہتر نہیں (اتقوا اللہ فی النساء لیس من متاعِ الدنیا شیٔ افضل من المرأۃ الصالحۃ)
سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح
مرد اپنی تخلیق کے اعتبار سے ایک ادھوری شخصیت کی حیثیت رکھتا ہے۔ عورت کے ساتھ مل کر اُس کی شخصیت مکمل ہوتی ہے۔ یہی معاملہ خود عورت کا بھی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو ہر عورت اور ہر مرد خود اپنے تجربہ کے ذریعہ سمجھ سکتا ہے۔
اس اعتبار سے عورت اور مرد کی باہمی رفاقت زندگی کی ایک لازمی ضرورت ہے۔ مگر اس رفاقت کو نباہنے کے لیے کوئی مجبورانہ بندھن موجود نہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جو دونوں کے درمیان باہمی رفاقت کو نباہنے کے لیے خدا کے خوف کو ضروری بنا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس رفاقت کی کامیابی کے لیے ضرورت ہے کہ دونوں کے اندر اُس کی اُصولی اہمیت کا شعور زندہ ہو۔ خدا کا خوف اسی شعور کو بیدار کرتا ہے۔ اور پھر یہ شعور اس بات کی ضمانت بن جاتا ہے کہ غیر موافق اسباب کے باوجود دونوں کے درمیان رفاقت کا تعلق کبھی ٹوٹنے نہ پائے۔
۱۵۔ عورت ماں کی حیثیت سے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جان لو، جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ (الجنۃ تحت اقدام الامہات)
عورت ماں کی حیثیت سے اپنی اولاد کی سب سے بڑی محسن ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے انسان کے اوپر ماں کا درجہ سب سے زیادہ ہے۔ اس حدیث میں در اصل اس حقیقت پر زور دیا گیا ہے کہ محسن کے احسان کا اعتراف سب سے بڑی نیکی (virtue) ہے۔ اس نیکی کی اسپرٹ جس کے اندر ہو اُس کے اندر بیک وقت دو صفتیں موجود ہوں گی—انسان کی نسبت سے اُس کے حسنِ سلوک کا گہرا اعتراف اور خدا کی نسبت سے اُس کے احسان کا گہرا شکر۔ یہی صفت کسی انسان کے لیے جنت میں داخلہ کا سب سے بڑا استحقاق ہے۔
۱۶۔ لڑکیوں کی تربیت
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے تین لڑکیوں کی پرورش کی۔ پھر ان کو ادب سکھایا اور اُن کی شادی کی اور اُن کے ساتھ اچھا سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے (من عال ثلاث بنات فادبہن و زوجہن و احسن الیہن فلہ الجنۃ)
سنن ابی داؤد، کتاب الادب
عام مزاج یہ ہے کہ اگر کسی باپ کے یہاں کئی لڑکیاں ہوں اور کوئی لڑکا نہ ہو تو وہ لڑکیوں کو بے قدر کردیتا ہے۔ اس حدیث میں اسی ذہن کی تردید کی گئی ہے۔ کسی باپ کے یہاں لڑکا پیدا ہو یا لڑکی، دونوں حالتوں میں باپ کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دے۔ وہ اُن کو ایسی تربیت دے جو اُن کے لیے زندگی گذارنے میں مدد گار بنے۔
باپ کا رجحان اکثر اپنی اولاد کے لیے یہ ہوتا ہے کہ وہ اُن کے لیے زندگی کی راحتیں فر اہم کرے۔ وہ کما کر اُنہیں زیادہ سے زیادہ مال دے سکے۔ مگر یہ نظریہ درست نہیں۔ اولاد کے لیے باپ کا سب سے بہتر عطیہ مال نہیں ہے بلکہ تعلیم ہے۔ باپ کا کمایا ہوا مال اولاد کے لیے بلا محنت کی کمائی (easy money) کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایسا مال اکثر آدمی کو خراب کردیتا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آدمی اپنی اولاد کو تعلیم دے۔ اور اس طرح اُنہیں اس قابل بنائے کہ وہ خود محنت کرکے زیادہ بہتر طورپر اپنی زندگی کی تعمیر کریں۔
۱۷۔ لڑکیوں کے ساتھ حسن سلوک
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کے یہاں لڑکی ہو۔ پھر وہ نہ اُس کو زمین میں گاڑے اور نہ اس کی تحقیر کرے اور نہ اُس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ اُس کو جنت میں داخل کرے گا۔ (من کانت لہ انثیٰ فلم یئدہا ولم یہنہا و لم یوثر ولدہ علیہا (یعنی الذکور) ادخلہ اللہ الجنۃ)۔
سنن ابی داؤد، کتاب الأدب
حسن سلوک ایک ایسی نیکی ہے جو ہرمرد اور عورت کے ساتھ مطلوب ہے۔ مگر لڑکیوں کے سلسلہ میں اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ غریب طبقہ کے لوگ لڑکیوں کو اپنے اوپر بوجھ سمجھ لیتے ہیں۔ اس بنا پر وہ اُن کے معاملہ میں اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی طورپر ادا نہیں کر پاتے۔ دولت مند طبقہ اپنے مخصوص لائف اسٹائل کی بنا پر خود اپنے لیے زندگی کی خوشیوں کو تلاش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ وہ اپنی لڑکیوں کو آزاد چھوڑ دیتا ہے۔ اس آزادی کے نتیجہ میں لڑکیاں اپنی ابتدائی عمر ہی میں تباہ کن غلطیوں کا شکار ہو کر رہ جاتی ہیں۔
ایسی حالت میں لڑکیاں اپنے سر پرستوں کے لیے نازک ذمہ داری کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنا اسلام کی تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کیے بغیر کوئی شخص اپنے رب کے یہاں بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
۱۸۔ بے سہارا لڑکیوں کی خدمت
سراقہ بن مالک کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ افضل صدقہ کیا ہے۔ تمہاری لڑکی جو (بیوگی یا طلاق کی وجہ سے) تمہاری طرف لوٹا دی جائے۔ تمہارے سوا کوئی اس کے لیے کمانے والا نہ ہو(عن سراقۃ بن مالک ان النبی ﷺ قال: الا ادلکم علی افضل الصدقۃ ابنتک مردودۃ الیک لیس لہا کاسب غیرک)
سنن ابن ماجہ، بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح، جلد ۳، صفحہ ۱۳۹۳ (رقم الحدیث ۵۰۰۲)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت طلاق کی وجہ سے یا بیوہ ہو جانے کی وجہ سے اپنے سسرال میں نہیں رہ سکتی اور وہاں سے واپس ہوکر اپنے باپ کے پاس آجاتی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسی عورت سماج میں بے سہارا بن جاتی ہے۔ لیکن اس کا بے سہارا ہونا اس کے والدین کے لیے اخلاقی خدمت کا ایک اعلیٰ موقع عطا کرتا ہے۔ اگر اس کے والدین ایسی خاتون کو دوبارہ قبول کرلیں، اُس کے لیے نئی زندگی کے مواقع تلاش کریں، اُس کو پھر سے سماج کا ایک باعزت ممبر بنانے کی کوشش کریں، اُس کو ازسرِ نو ایک کامیاب زندگی گذارنے کے قابل بنائیں تو اُن کا یہ عمل خدا کے یہاں ایک عظیم عمل شمار کیا جائے گا اور وہ اپنے اس عمل کی بنا پر آخرت کی دنیا میں خدا کے عظیم تر انعام کے مستحق قرار پائیں گے۔
۱۹۔ نجات کا ذریعہ
عائشہ صدیقہ کی ایک طویل روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ اللہ جس شخص کو لڑکیوں کے ذریعہ کچھ آزمائے پھر وہ اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرے تو وہ اس کے لیے آگ سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی (من ابتلی من البنات بشیٔ فأحسن الیہن کن لہ سترا من النّار)
فتح الباری لابن حجر العسقلانی، جلد ۳، صفحہ ۳۳۴ (رقم الحدیث ۱۴۱۸)
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کسی سبب سے ایک لڑکی اپنے والدین کے لیے سرمایہ (asset) کے بجائے بوجھ (liability) محسوس ہونے لگتی ہے۔ مگر اسلام کی تعلیم کے مطابق، ایسی لڑکی اپنے ماں باپ کے لیے ایک اور پہلو سے بہت بڑی نعمت ہے۔ وہ والدین کے لیے آخرت کے زیادہ بڑے انعامات حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
تاہم یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ یہ در اصل عُسر میں یسر کی ایک صورت ہے۔ والدین اگر ایسی لڑکی کے لیے اچھی تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں اور اُس کو زندگی کی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے قابل بنائیں تو عین ممکن ہے کہ وہ لڑکی تیار ہو کر اپنے خاندان کے لیے ایک نعمت بن جائے۔ اُس کے ذریعہ سے خاندان میں مثبت طرزِ فکر پروان چڑھے۔ اُس کے ذریعہ سے گھر میں تعمیری ماحول پیدا ہو۔ وہ لڑکی اپنے خاندان کی ایک صحت مند ممبر بن کر خاندان کی ترقی کا ذریعہ بنے۔
اس قسم کا کام ابتدائی طورپر اگرچہ اخروی انعام کے جذبہ کے تحت شروع کیا جاتا ہے مگر اپنے نتیجہ کے اعتبارسے وہ خود دنیا کی تعمیر کا بہترین ذریعہ بن جاتا ہے۔ وہ ہر اعتبار سے خاندان کے لیے مفید ہوتا ہے، دین کے اعتبار سے بھی اور دنیا کے اعتبار سے بھی۔
۲۰۔ عورتوں سے مشورہ
حسن بصری تابعی نے ستّر سے زیادہ صحابہ کو دیکھا تھا اور اُن سے سُنا تھا۔ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں بتاتے ہیں کہ آپ کا طریقہ تھا کہ آپ کثرت سے مشورہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ عورت سے بھی مشورہ کرتے تھے، اور عورت کبھی ایسی رائے دیتی تھی جس کو آپ قبول کرلیتے تھے (کان النبی ﷺ یستشیر حتی المرأۃَ فتشیر علیہ بالتی فیاخذ بہ)۔
عیون الاخبار لابن قتیبۃ، جزء ا، صفحہ ۲۷
پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ اُسوہ محدود معنوں میں نہیں ہے۔ وہ وسیع معنوں میں ہے۔ اُس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے۔ کسی کو مشیر کا درجہ دینا اس کو ایک با عزت درجہ دینا ہے۔ ایسی حالت میں عورت کو مشیر بنانے کا مطلب یہ ہے کہ عورت کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کی جائے کہ وہ معاملات میں مشورہ دینے کے قابل ہوسکے۔ مشورہ لینے میں مشورہ دینے کے قابل بنانا اپنے آپ شامل ہے۔ سماجی اعتبار سے دیکھا جائے تو کوئی عورت (یا مرد) اپنے آپ مشیر نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس کی تعلیم و تربیت اُس کے مطابق ہو۔
اس اصول کی روشنی میں دیکھا جائے تو پیغمبر اسلام کا مذکورہ أسوہ اپنے اندر ایک مکمل تصور حیات لیے ہوئے ہے۔ اُس کے اندر سماج کا ایک ایسا نقشہ نظر آتا ہے جس میں تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ایسی سرگرمیاں جاری ہوں جو عورتوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ سماج کا ایک صحت مند حصہ بن سکیں۔ وہ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل ہوں کہ معاملات میں صحیح مشورہ دیں۔ وہ کسی معاملہ میں بحث و تبادلہ (discussion) کے وقت اپنا مفید کردار ادا کرسکیں۔
واپس اوپر جائیں

سوچنے کا طریقہ

ماہنامہ الفرقان (لکھنؤ) کے شمارہ اپریل ۲۰۰۴ میں ایک رپورٹ چھپی ہے جس کا عنوان یہ ہے: ’’ادارہ الفرقان کی زندگی کا ایک یادگار دن‘‘۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ۲۷ فروری ۲۰۰۴ کو ندوہ (لکھنؤ) کے شبلی ہال میں ایک جلسہ ہوا جس میں علماء اور طلباء بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ یہ جلسہ مولانا محمد منظور نعمانی کے درس قرآن کی اشاعت کے سلسلہ میں تشکر اور تعارف کے موضوع پر ہوا تھا۔
اس جلسہ کے صدر مولانا سید رابع حسنی ندوی تھے۔ اس روداد کے مرتب مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی ہیں۔ اس جلسہ کے موقع پر شبلی ہال مکمل طورپر بھرا ہوا تھا۔ اس میں مختلف علماء نے تقریریں کیں۔ ان مقررین میں سے ایک ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی تھے۔ وہ دینی تعلیمی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں جو باتیں کہیں ان میں سے ایک ان کا ذاتی مشاہدہ تھا۔ ان کی تقریر کے اس حصہ کو الفرقان سے لے کر یہاں نقل کیا جاتا ہے:
’’ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے، مولانا محمد منظور نعمانی کے طرز کلام کی خصوصیات اور ان کی تقریروں کا جو غیر معمولی اثر سننے والوں پر پڑا کرتاتھا، اس پر روشنی ڈالتے ہوئے ۱۹۵۳ میں بستی کے ایک اجلاس میںجس میں بڑی تعداد میں غیر مسلم خواص بھی مدعو کیے گئے تھے، توحید کے موضوع پر ان کی ایک تقریر کا ذکر، بطور مثال کیا اور کہا کہ اس تقریر کے سننے والوں میں انٹرکالج میں ہندی کے ایک لکچرر جناب گنیش پرشاد سریواستوا صاحب بھی تھے۔ رات میں تقریر سن کر وہ چلے گئے اور رات بھر روتے رہے۔ دوسرے دن صبح کو ایک مخصوص نشست رکھی گئی تھی اس میں بھی وہ آئے۔ مولانانعمانی کی ان پر نظر پڑی۔ مولانا نے ان کو اپنے پاس بلا لیا۔ دونوں میں تعارف ہوا اور پھر ہم لوگوں نے دیکھا کہ گنیش پرشاد سریواستوا اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکے، وہ زاروقطار رونے لگے۔ ہم نے اُنہیں یہ کہتے ہوئے سُنا کہ مولانا! جس طرح کی تقریر آپ نے توحید کے موضوع پر کی ہے۔ اگر اس کا سلسلہ ہندستان میں شروع ہوجائے تو کم ازکم ہم جیسے لوگ تو اسلام سے بہت قریب آجائیں گے۔ بعد میں بستی میں یہ بھی مشہور ہوا کہ عمر کے آخری حصے میں انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا، واللہ اعلم۔ بہر حال عجیب و غریب اثر رکھا تھا اللہ نے مولانا محمد منظور نعمانی کی تقریر اور تحریر میں۔‘‘ (صفحہ ۱۵)
مذکورہ واقعہ پچاس سال سے بھی زیادہ پہلے ۱۹۵۳ میں پیش آیا۔ یہ واقعہ ہندستان میں عظیم دعوتی امکان کو بتارہا تھا۔ اس اعتبارسے اس میں علماء کے لیے یہ اہم رہنمائی موجود تھی کہ اس ملک میں انہیں کیا کرنا چاہیے۔ اُس وقت ملک میں بڑے بڑے علماء موجود تھے مگر اس پہلو سے کچھ بھی نہ کیا جاسکا۔ اس کا سبب سوچنے کا ایک غلط طریقہ تھا۔ جیسا کہ اقتباس سے واضح ہے، لوگوں نے اس واقعہ کو صرف مقرر کی شخصی تعریف کے معنٰی میںلیا۔ وہ یہ سوچ کر خوش ہوگئے کہ ہمارے فلاں عالم عجیب وغریب قسم کی تقریر کرتے ہیں۔ اُن کی تقریر میں سحر انگیز اثر پایا جاتا ہے۔
اس معاملہ میں سوچنے کا دوسرا زیادہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ اُس کو دعوتی امکان کے پہلو سے لیا جاتا۔ یعنی یہ کہ اس ملک میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو دین حق کو اپنے دل کی آواز سمجھ کر اُس کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد ہندستان کے بڑے بڑے علماء کا ایک جلسہ کسی مرکزی شہر میں کیا جاتا۔ اس جلسہ میں یہ بتایا جاتا کہ واقعات کی روشنی میں ضروری ہوگیا ہے کہ ہندستان میں دینی کام کے لیے ہم اپنے پورے نقشہ کو بدل دیں۔ اب یہاں کام کا نیا منصوبہ بنایا جائے۔
اس جلسہ میں بتایا جاتا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلے مسلمانوں کی اصلاح کرو، اس کے بعد ہی دوسروں میں دعوت کا کام کیا جاسکتا ہے، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ وہ اعلان کریں کہ ہم غلطی پر تھے۔ مسلمانوں کی موجودہ اخلاقی حالت ہی میں یہاں دعوت کے غیر معمولی امکانات موجود ہیں جن کو ہمیں استعمال کرنا چاہیے۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پہلے مکمل اسلامی نظام قائم کرکے دکھاؤ، اس کے بعد ہی دوسرے لوگ اسلام کی طرف راغب ہوں گے، ایسے لوگوں کی سوچ بھی سرتا سر غلط ہے۔ کیوں کہ واقعات بتاتے ہیں کہ ’’مکمل اسلامی نظام‘‘ کے نفاذ سے پہلے ہی خدا کے بندے اسلام کو اپنانے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اس ملک کا اکثریتی طبقہ اسلام کا دشمن بن چکا ہے، وہ ہمارا حریف ہے، نہ کہ مدعو، ایسے لوگوں کو بھی کھلے طورپر ماننا چاہیے کہ یہ سوچ بالکل غلط تھی۔ اس ملک کے اکثریتی فرقے کے اندر آج بھی اسلام کے لیے نرم گوشہ موجود ہے جس کو ہم حکمت کے ساتھ استعمال کرسکتے ہیں۔
اسی طرح ہندستان میں بہت سے مسلمان ہیں جو آزادی (۱۹۴۷) کے بعد طرح طرح کے ناموں سے جزئی مقاصد کے لیے جماعتیں اور تنظیمیں بنائے ہوئے ہیں۔ ان سب کو کھُلے طورپر یہ اعلان کرنا چاہیے کہ ہماری سوچ درست نہ تھی۔ اسلام کا سب سے بڑا کام دعوتی کام ہے۔ اور جب دعوتی کام کے روشن امکانات موجود ہوں تو ضروری ہوجاتا ہے کہ ہر دوسرے کام کو چھوڑ کر اپنی ساری طاقت دعوت کے محاذ پر لگا دی جائے۔
اسی طرح جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کا جان ومال محفوظ نہیں، ان کی دینی اور ملّی شناخت کو مٹایا جارہا ہے۔ ایسے لوگوں کو بھی یہ کھلا اعلان کرنا چاہیے کہ مفروضہ یا غیر مفروضہ خطرہ کے باوجود اس ملک میں اسلام پوری طرح محفوظ ہے اور ہمارے لیے یہ امکان موجود ہے کہ ہم اسلام کے پیغام کو لے کر آگے بڑھیں اور پھر یقینی طورپر یہاں وہ منظر دکھائی دے گا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: فاذا الذی بینک و بینہ عداوۃ کانہ ولی حمیم۔
مگر عجیب بات ہے کہ اس کے بعد ان میں سے کوئی بھی کام نہ ہوسکا۔ کسی اعلان کرنے والے نے اس قسم کا اعلان نہیں کیا۔۱۹۵۳ کے بعد سے اب تک سینکڑوں کی تعداد میں مسلمانوں کے بڑے بڑے جلسے ہوئے۔ ان جلسوں میں پُر جوش الفاظ میں یہ کہاگیا کہ اس ملک میں اسلام خطرہ میں ہے۔ مگر کسی بھی جلسہ میں مسلم رہنماؤں نے یہ زیادہ اہم بات نہیں بتائی کہ تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں اسلام پیش قدمی کی پوزیشن میں ہے۔ حتیٰ کہ یہاں کے باشندے اس فارسی شعر کا مصداق ہیں:
ہمہ آہوانِ صحرا سر خود نہادہ برکف بہ امید آں کہ روزے بہ شکار خواہی آمد
یہ فرق کیوں ہوا۔ یہ سوچ میں فرق کا نتیجہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ سوچنے کے دو طریقے بالکل الگ الگ ہیں۔ ایک ہے، فخر کے جذبہ کے تحت سوچنا اور دوسرا ہے، دعوت کے جذبہ کے تحت سوچنا۔ فخر کے جذبہ کے تحت سوچنے والوں کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنی محبوب شخصیت کا کمال بتا کر مطمئن ہوجائیں اور اس کو بیان کرکے اپنے آپ کو خوش کرتے رہیں۔
سوچ کا دوسرا طریقہ وہ ہے جو دعوتی مقصد پر مبنی ہو۔ ایسے لوگ اس قسم کے معاملہ کو دعوتی امکان کے روپ میں لیں گے۔ وہ اس میں اپنے لیے مستقبل کا نقشۂ کا ر دریافت کرلیں گے۔ اُن کی سوچ اُنہیں یہ بتائے گی کہ جب زیادہ دوررس کام کے مواقع ہوں توچھوٹے چھوٹے کاموں میں وقت ضائع کرنا نادانی ہے۔ جب اسلام دلوں کو فتح کرنے کی پوزیشن میں ہو تو چھوٹی چھوٹی شکایتوں کو لے کر احتجاجی مہم چلانا صرف دیوانگی ہے۔ جب دین اسلام کے لیے نیا مستقبل پیدا کرنے کا موقع ہو تو شخصی کمال کو لے کر خوش ہونا اس شعر کا مصداق ہے کہ:
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کرگیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگیٔ داماں بھی ہے
واپس اوپر جائیں

ماہنامہ جام نور دہلی کا سوالنامہ برائے جہاد نمبر

۱۔ قرآن و احادیث کی روشنی میں نظریۂ جہاد کی وضاحت فرمائیں۔
۲۔ مختلف ملکوں میں جو تنظیمیں جہاد کے نام پر جد وجہد کررہی ہیں ان سے جزوی یا کلّی طورپر آپ کہاں تک متفق ہیں۔
۳۔ جہادی جدوجہد کے تحت عام شہریوں کو جو نشانہ بنایا جارہا ہے کیا یہ عمل اسلامی نظریۂ جہاد سے ہم آہنگ ہے۔
۴۔ کیا جہاد کے نام پر اسلام خود کش حملے کی اجازت دیتا ہے۔
۵۔ استعماری قوت سے اپنی آزادی یا اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ یا مسلم ممالک کے قدرتی وسائل کو استحصال سے بچانے کے لیے یا باطل قوتوں کی نا انصافیوں اور ظلم و تغلّب کے خلاف جو تنظیمیں جہاد کے نام پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ان کے نتائج اب تک کتنے مثبت اور کتنے منفی ہوئے۔
۶۔ جن مقاصد کے حصول و تحفظ کے لیے جہادی تنظیموں نے جو طریقے اپنائے، کیا ان مقاصد کے حصول کے لیے یہی ایک راہ ہے۔ یا دوسرے طریقے بھی اپنائے جاسکتے ہیں۔
۷۔ حکم جہاد کے نفاد اور اس کو عملی طورپر شروع کرنے کے لیے کسی امام، خلیفہ یا قائد کے تعین کا اسلامی طریقہ کیا ہے اور اس کے تقاضے کیا ہیں۔
۸۔ جہاد کو غلط طورپر پیش کرکے مسلمانوں کے خلاف عالمی پیمانے پر جو سازشیں رچی جارہی ہیں اور ان پر ہر طرح کے ظلم اور ناانصافی کو روا رکھا جارہا ہے اس کا دفاع کس طرح ممکن ہے۔
۹۔ مستشرقین اور یورپ کے منصوبہ سازوں نے اسلام کے پاکیزہ نظریۂ جہاد کے خلاف امت مسلمہ کے دانشوروں اور نئی نسلوں کو ذہنی طورپر جو متاثر کیا ہے اس کی صفائی کس طرح ہوسکتی ہے۔
۱۰۔ اگر کسی جگہ اپنی شرائط کے پیش نظر جہاد صحیح ہو تو اس کے نفاذ کی ذمہ داری عوام پر عائد ہوتی ہے یا اسلامی مملکتوں کے سربراہوں پر۔ اگر جہاد کے نام پر شروع کی گئی سرگرمیاں صحیح نہ ہوں تو مملکتوں کے سربراہوں پر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
۱۱۔ سماجی سطح پر ہندستان میں مدارس اسلامیہ کا فکری رجحان کیا رہا ہے۔
۱۲۔ اب تک ہندستان کے مدارس میں دہشت گردی کی فکری یا عملی تعلیمات کا کوئی ثبوت نہ ملنے کے باوجود ملکی سطح پر کچھ حلقے سے مدارس اسلامیہ پر مسلسل دہشت گردی کے فروغ کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں، آخر اس کے اسباب و عوامل کیا ہوسکتے ہیں اور اس ڈھٹائی کے پیچھے ان کے کیا مقاصد پنہاں ہیں۔
۱۳۔ مدارس اسلامیہ کو اپنے وقار کے تحفظ اور ان سازشوں کے نتائج سے بچنے کے لیے کیا کرنا چاہئے۔
جوابات
۱۔ قرآن او رحدیث میں جہاد کا لفظ اصلاً پر امن جدوجہد کے لیے آیا ہے۔ جہاں تک مسلّح جنگ کا تعلق ہے ، اس کے لیے قرآن اور حدیث میں قتال کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جہاد کا لفظ اگر کہیں جنگ کے معنٰی میں استعمال ہوا ہے تو وہ اس لفظ کا ایک توسیعی مفہوم ہے، نہ کہ اس کا اصل مفہوم۔
۲۔ غیرحکومتی تنظیموں کی طرف سے جہاد (بمعنٰی قتال) کا عمل جو آج کل مختلف مسلم گروہوں کی طرف سے جاری ہے وہ بلا شبہہ غیر اسلامی ہے۔ یہ سب جہاد کے نام پر فساد کا عمل ہے۔ کیوں کہ جہاد (بمعنٰی قتال) سر تا سر حکومت کی ذمّہ داری ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کے لیے پر امن دعوت ہے نہ کہ مسلّح جہاد۔
۳۔ عام شہریوں کو تشدد کا نشانہ بنا نا کسی حال میں جائز نہیں، حتیٰ کہ کسی مسلم حکومت کے تحت ہونے والے جائز جہاد میں بھی نہیں۔ جائز جہاد میں بھی صرف مقاتل پر وار کیا جاسکتا ہے، غیر مقاتل پر وار کرنے کی گنجائش اسلام کے اصولِ جنگ میں نہیں ہے ۔
۴۔ خود کشی یا خودکش حملہ کرنا یقینی طور پر حرام ہے۔ جہاد کا نام دینے سے کوئی حرام کبھی حلال نہیں ہوسکتا۔ موجودہ زمانہ کے نام نہاد مجاہدین مختلف مقامات پر جو خود کش بمباری (suicide bombing) کررہے ہیں وہ بلا شبہہ حرام ہے۔ خود کشی کسی بھی عذر کی بنا پر اسلام میں جائز نہیں۔ مزید یہ کہ یہ خودکش بمباری عام طورپر غیر مقاتلین(non-combatants)کے اوپر کی جاتی ہے۔کیونکہ وہ سافٹ ٹارگٹ (soft target) سمجھے جاتے ہیں۔ یہ دوسرا پہلو اس حرمت کو اور بھی زیادہ سنگین بنا دیتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں اسلام کی جو بدنامی ہورہی ہے وہ تمام نقصانات میں سب سے زیادہ بڑا نقصان ہے۔
۵۔ پانچویں سوال میں جن مقاصد کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی بھی مقصدکے لیے غیرحکومتی تنظیموں کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ مفروضہ دشمن کے خلاف مسلّح جہاد چھیڑ دیں۔ ان مقاصد کے نام پر موجودہ زمانہ میں جو مسلّح جہاد کیا گیا وہ ایک غیر اسلامی فعل تھا یہی وجہ ہے کہ وہ خدا کی نصرت حاصل نہ کرسکا۔ اور اس بنا پر وہ اپنے مقصد کے حصول میں مکمل طورپر ناکام رہا۔
۶۔ چھٹے سوال میں جن مقاصد کا ذکر ہے ان کے حصول کی تدبیر صرف ایک ہے اور وہ پرامن جدوجہد ہے۔ تشدد پر مبنی جدوجہد کے ذریعہ ان مقاصد کا حصول سرے سے ممکن ہی نہیں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
ان مقاصد کے لیے موجودہ زمانہ میں جو کوششیں کی گئی ہیں وہ زیادہ تر جہاد یا ٹکراؤ کے اصول پر مبنی ہیں۔ مگر موجودہ دنیا میں جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو وہ ہمیشہ د و طرفہ ہوتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے جذبات کے ساتھ خارجی حالات کا بے لاگ جائزہ لیں۔ خارجی حالات کی رعایت کرنے کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ ہماری کوشش کا میاب ہوسکے۔ موجودہ قسم کی جہادی سرگرمیوں میں یہ خارجی رعایت مفقود ہے۔ جب تک یہ صورت حال باقی رہے گی، ہماری کوششیں ناکامی کے سوا کسی اور انجام تک نہیں پہنچ سکتیں۔
جہاد در اصل ایک پر امن جدوجہد ہے جو گہری منصوبہ بندی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ جہاد کی عملی طور پر دو قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک ہے، کھوئے ہوئے پر جہاد اور دوسرا ہے، ملے ہوئے پر جہاد۔ میرے مطالعہ کے مطابق، موجودہ زمانہ میںمسلم رہنماؤں کے درمیان جہاد کے نام پر بے شمار ہنگامے جاری رہے۔ مگر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ جہاد کے نام پر کی جانے والی یہ تمام سرگرمیاں کھوئے ہوئے پر جہاد کے ہم معنٰی تھیں نہ کہ ملے ہوئے پر جہاد کے ہم معنٰی۔
امیر کا بل کے تعاون سے شاہ ولی اللہ کا جہاد، سلطان ٹیپو کا جہاد، شہیدین کا جہاد، علماء دیوبند کا جہاد، علی برادران کا احیاء خلافت کے نا م پر جہاد۔ قیام پاکستان کے لیے جہاد، آر ایس ایس کے خلاف جہاد، بابری مسجد کے لیے جہاد، وغیرہ وغیرہ، سب کے سب کھوئے ہوئے پر جہاد کی صورتیں ہیں۔ اس لیے یہ تمام جہادی قربانیاں حبط اعمال کا شکار ہوگئیں۔
یہی معاملہ دیگر مقامات پر کیے جانے والے جہاد کا ہے۔ مثلاً فلسطین کا جہاد، بوسنیا کا جہاد، چیچنیا کا جہاد، فلپائن کا جہاد، اراکان کا جہاد، کشمیر کا جہاد وغیرہ، سب کے سب کھوئے ہوئے پر جہاد کے ہم معنٰی تھا۔ اس لیے امت کو ان کے ذریعہ تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوا۔ میرے علم کے مطابق، اس پوری مدت میں پوری مسلم دنیا میں جہاد کے نام پر کیا جانے والا کوئی بھی عمل ایسا نہیں جس کو ملے ہوئے پر جہاد کا نام دیا جاسکے۔
اس معاملہ میں اب اصل ضرورت پورے معاملہ پر نظر ثانی (reassessment) کی ہے، نہ یہ کہ اپنی ناکامی کو دوسروں کے خانہ میں ڈال کرمفروضہ دشمنوں کے خلاف شکایت اور احتجاج کی مہم چلائی جائے۔ زندگی کی ایک سنگین حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں ہر انسان کو اپنی غلطی کی قیمت خود بھگتنی پڑتی ہے، ایک کی غلطی کی قیمت کوئی دوسرا شخص کبھی بھگتنے والا نہیں۔ یہ اس دنیا میں کامیاب زندگی کی الف ب ہے، اور عجیب بات ہے کہ ساری مسلم دنیا کے مسلم رہنماؤں میں غالباً کوئی ایک شخص نہیں جو اس حقیقت کو شعوری طورپر جانتا ہو، خواہ وہ عربی داں مسلمان ہو یا انگریزی داں مسلمان۔
۷۔ اسلام میں جہاد (بمعنٰی قتال) کی صرف ایک صورت ہے، اور وہ برائے دفاع ہے۔ دفاع کے سوا کسی بھی دوسرے مقصد کے لیے جنگ چھیڑنا اسلام میں جائز نہیں۔ اور دفاع کی یہ جنگ اعلان کی لازمی شرط کے ساتھ صرف ایک قائم شدہ مسلم حکومت ہی کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں گوریلا جنگ، پراکسی جنگ، جارحانہ جنگ، بلا اعلان جنگ سب ناجائز ہیں۔
۸۔ آٹھویں سوال کے بارے میں میں کہوں گا کہ اس کے دفاع کی صورت صرف ایک ہے، اور وہ یہ کہ مسلمان خود اپنی طرف سے ان تمام پر تشدد سرگرمیوں کو یکسر بندکردیں جو موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر چل رہی ہیں۔ مذکورہ مسئلہ صرف مسلمانوں کے خود ساختہ جہاد کی وجہ سے پیدا ہوا ہے۔ اس خود ساختہ جہاد کے ختم ہوتے ہی مذکورہ مسئلہ بھی اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔
۹۔ اسلام کے پاکیزہ نظریہ جہاد کو داغ دار کرنے والے خود مسلمان ہیں۔ یہ دراصل مسلمان ہیں جنہوں نے اسلامی جہاد کی تصویر کو اپنی غلط روش سے بگاڑا ہے۔ اس مسئلہ کا حل بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنی غلط روش کو بند کردیں۔ اس کے بعد دوسروں کو کسی سازش کا موقع ہی نہ ملے گا۔
۱۰۔ میرے نزدیک موجودہ زمانہ میں کسی بھی مقام پر جہاد( بمعنٰی قتال) کی شرائط پوری نہیں ہو رہی ہیں۔ او ر اگر بالفرض کسی مقام پر یہ شرائط پوری ہو رہی ہوں تب بھی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے جہاد کرنا ہرگز جائز نہیں۔ کسی کے نزدیک اگر مسلم حکومتیں اپنا فرض پورا نہ کررہی ہوں تب بھی اس عذر کو لے کر کسی کے لیے بطور خود جہاد چھیڑ دینا جائز نہ ہوگا۔ ایسی حالت میں عام مسلمانوں کے لیے صبر ہے نہ کہ خود سے جنگ چھیڑنا۔
قرآن کے مطابق، جہاد وہ ہے جو فی سبیل اللہ ہو۔ مگر موجودہ زمانہ میں مسلمان جو جہاد کررہے ہیںوہ سب کا سب فی سبیل القوم ہے۔ وہ منفی جذبہ کے تحت کیا جانے والا عمل ہے نہ کہ مثبت جذبہ کے تحت کیا جانے والا عمل۔ یہی واقعہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ جہاد نہیں ہے بلکہ فساد ہے۔
۱۱۔ سماجی مسائل کے بارے میں مدارس اسلامیہ کا بظاہر کوئی فکری رول براہ راست طورپر نہیں ہے۔ اس کا کوئی واضح ثبوت نہیں کہ مدارس اسلامیہ کے سامنے شعوری طور پر سماجی فلاح کا کوئی نقشہ موجود تھا۔ تاہم اس سلسلہ میں بالواسطہ طور پر ان کی خدمات کا حوالہ دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً فتاویٰ کے ذریعہ رہنمائی۔ مساجد میں خطباتِ جمعہ، عوامی جلسہ میں خطاب، مختلف تقریبات کے دوران اساتذہ اور طلبہ کا عوام سے انٹر ایکشن، شادی بیاہ جیسی رسموں میں شرکت کے دوران وعظ و نصیحت اور رسالوں کے ذریعہ تعلیم و نصیحت، وغیرہ۔ سماجی اعتبار سے ایک مستقل کام سوشل سروس ہے۔ مگر مدارس میں غالباً سوشل سروس کا کوئی باقاعدہ تصور موجودہ نہیں۔
۱۲۔ یہ صحیح ہے کہ مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم و تربیت نہیں دی جاتی۔ اس اعتبار سے مدارس پر الزام لگانا غلط ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ صحیح ہے کہ مدارس کے نظام میں عین وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے۔ مدارس کے لوگوں کو امت مسلمہ کے مسائل کے سلسلہ میں پر امن عمل کا کوئی شعور نہیں۔ وہ دور جدید کے اس امکان سے بے خبر ہیں کہ ہر میدان میں حصہ داری(sharing) کے اصول پر کام کیا جانا چاہیے۔ مدارس کے لوگ اب تک شعوری یا غیر شعوری طورپر یہی سمجھتے ہیں کہ غیر مسلم لوگ کافر ہیں۔ غیر مسلم ممالک دار الکفر یا دار الحرب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ لوگ عام طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری قومیں مسلمانوں کے خلاف دشمنی اور سازش میں مشغول ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کی طرف سے اب تک جہاد کے نام پر متشددانہ سرگرمیوں کی کھلی مذمت نہیں کی گئی اور نہ یہ اعلان کیا گیا کہ یہ سرگرمیاں جہاد نہیں ہیں بلکہ فساد ہیں۔ ایسی حالت میں مدارس کو اس معاملہ میں مکمل طورپر بے قصور نہیں کہا جاسکتا۔
۱۳۔ میرے نزدیک سازش کا تصور محض ایک مفروضہ ہے۔ اسی طرح وقار کے تحفظ کا سوال بھی ایک فرضی سوال ہے۔ اس کا سادہ سا ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد ہر مدرسہ نے غیر معمولی ترقی کی ہے۔ اگر مذکورہ مفروضہ درست ہوتا تو مدارس کی یہ ترقیاں ہر گز ممکن نہ ہوتیں۔ اس معاملہ میں مدارس کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ سازش کے فرضی وہم سے باہر آجائیں اور معتدل ذہن کے تحت اپنا کام کریں۔
مدارس اسلامی تعلیم کا مرکز ہیں۔ اسلامی تعلیم اپنے آپ میں پرکشش ہے۔ وہ یہ طاقت رکھتی ہے کہ خود اپنے زور پر انسان کو اپنا گرویدہ بنا سکے۔ ایسی حالت میں موجودہ زمانہ میں مدارس کے بارے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں وہ اصلاً خود مدارس کی اپنی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ اس کمی کا ایک سبب یہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کے لوگ اپنی روایات کے تحت بند ماحول میں رہتے ہیں۔ وہ خارجی دنیا سے اختلاط نہیں کرتے۔ اس بنا پر ان کا حال یہ ہوگیا ہے کہ وہ نہ آج کی دنیا کو جانتے ہیں اور نہ جدید حالات کے مطابق اپنے ذہن کو تیار کرتے ۔ اس علیٰحدگی پسندی کی بنا پر ان کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ کا حقیقی حل صرف یہ ہے کہ مدارس کے ماحول کو بدلا جائے۔ اور قدیم کے ساتھ جدید کو شامل کرنے کی کوشش کی جائے۔
مدارس کو یا امت مسلمہ کو موجودہ زمانہ میں جو مسائل در پیش ہیں ان کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ ان کا سبب در اصل اس بنیادی خامی تک جاتا ہے کہ مدارس میں جو سوچ دی جاتی ہے وہ بجائے خود درست نہیں۔ اسی فکری خامی کے نتیجہ میں وہ تمام چیزیں پیدا ہوئی ہیں جن کو مسائل کا نام دیا جاتا ہے۔ مسائل کا لفظ بظاہر خارجی اسباب کی طرف اشارہ کرتا ہے حالانکہ ہمارے مسائل تمام تر داخلی اسباب کا نتیجہ ہیں۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں ملّت کے موضوع پر ہزاروں کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ عرب دنیا کے امیر شکیب ارسلان کی کتاب لما ذا تأخر المسلمون و تقدم غیرہم اور بر صغیر ہند کے مولانا ابو الحسن علی ند وی کی کتاب ماذا خسر العالم بانحطاط المسلمین جیسی بے شمار کتابیں مختلف زبانوں میں چھپی ہیں۔ ان سب کا مشترک انداز یہ ہے کہ ان میں مسلمانوں کے مسئلہ کا مطالعہ عروج اور زوال کی اصطلاحوں میں کیا گیا ہے۔
مطالعہ کا یہ طریقہ بلا شبہہ غیر قرآنی ہے۔ قرآن کے مطابق، عروج اور زوال دونوں اضافی ہیں۔ قرآن کے نزدیک دونوں حالتیں ابتلاء کی حالتیں ہیں۔ یہ دونوں ہی کسی قوم کے لیے امتحان (test) کے پرچے ہیں۔ خدا کبھی کسی قوم کوغالب کرتا ہے اور کبھی اُس کو مغلوب کردیتا ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ دیکھنا مقصود ہوتا ہے کہ قوم جب کسی حالت میں مبتلا ہوئی تو اُس نے کس قسم کا رسپانس پیش کیا۔ (۱۷مارچ ۲۰۰۴)
واپس اوپر جائیں

خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۲

۱ ہرمن روبنگھ (Herman Robongh) ایک برطانی اسکالر ہیں۔ آج کل وہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے تحت ریسرچ کررہے ہیں۔ اُن کی ریسرچ کا موضوع مولانا حمید الدین فراہی کا اصول تفسیر ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ۵ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے اور مذکورہ موضوع پر تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی نے بعض پہلوؤں سے قرآن کی خدمت کی ہے مگر اُن کا یہ کہنا کہ نظم قرآن قرآن فہمی کی اصل کلید ہے، قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ یہ تصور نہ قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہے، نہ صحابہ کے اقوال سے اور نہ مفسرین کے اُصول تفسیر میں وہ ملتا ہے۔ مولانا فراہی کی یہ اجتہادی غلطی ہے کہ اُنہوں نے قرآن فہمی کے سلسلہ میں ایک جزئی پہلو کو کلّی اہمیت دے دی۔
۲ دہلی پیس سمٹ (Delhi Peace Summit) کی طرف سے نئی دہلی میں چنمیا مشن کے آڈیٹوریم میںایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں انڈیا کے علاوہ باہر کے ملکوں کے لوگ شریک ہوئے۔ اُس کا موضوع انٹرفیـتھ ڈائیلاگ تھا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس کے ۸ دسمبر ۲۰۰۳ کے سِشن میںشرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ مختلف مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس کا فارمولا اسلام کی روشنی میں یہ ہے کہ —ایک کی پیروی کرو اور بقیہ کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
اگر بالفرض دو مذہبوں کے درمیان کسی وجہ سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو اُس کو ہمیشہ امن کے دائرہ میں ہونا چاہئے۔ اُس کو کسی بھی حال میں یا کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہئے ۔ اس کانفرنس کی کارروائی پوری کی پوری انگریزی زبان میںہوئی۔
۳ چنمیا مشن آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں ۱۸۔۲۱ دسمبر کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Religions in the Indic Civilisation
یہ کانفرنس سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈولپنگ سوسائٹیز، انٹرنیشنل اسوسی ایشن فار دی ہسٹری آف ریلجنز اور انڈیا انٹرنیشنل سنٹر کے تعاون سے کی گئی۔ ۲۱ دسمبر کے سشن میں اس کا موضوع تھا: مختلف مذاہب میں خدا کا تصور۔ اس سشن میں صدر اسلامی مرکز کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ پروگرام کے مطابق، انہوں نے گاڈ ان اسلام (God in Islam) کے موضوع پر نصف گھنٹہ خطاب کیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ خدا کا تصور اسلام میں کیا ہے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔ اس کانفرنس میں انڈیا اور باہر کے تقریباً ۵۰۰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ خواہش مند افراد کو انگریزی کتابیں برائے مطالعہ دی گئیں۔
۴ رام کرشنا مشن (نئی دہلی) میں ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اُس کا موضوع تھا: انٹرریلیجس فیلوشپ (Inter-Religious Fellowship) ۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور وہاں اسلام کے نقطۂ نظر سے مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اُس کی تمام تعلیمات امن اور انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن وحدیث کے دوسرے حوالوں کے علاوہ اُنہوں نے ایک مسنون دعا سنائی اور اس کا انگریزی ترجمہ بتایا جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وہ دعا یہ ہے: اللہم انت السلام و منک السلام والیک یرجع السلام۔ حیّنا ربنا بالسلام و ادخلنا دارک دار السلام۔ تبارکت ربنا وتعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔
۵ ای ٹی وی (Enadu T. V.) کے اسٹوڈیو (Noida) میں ۲۸ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ٹی وی انٹرویو ریکارڈ کیا گیا۔ یہ آدھ گھنٹہ کے لیے تھا۔ اُس میں سوال وجواب کی صورت میں ’’حج کی حقیقت‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیاگیا۔ آخر میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ حج کے سلسلہ میں گورنمنٹ کی سبسڈی میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ تمام مسلم ملکوں میں حاجیوں کو سفر حج پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ علماء نے اس کو درست مانا ہے۔ اس طرح سبسڈی موجودہ زمانہ میں ایک عُرف بن چکی ہے۔ اس عُرف کے مطابق، انڈیا کی گورنمنٹ اگر حاجیوں کو سبسڈی دیتی ہے تو یہ بھی اُسی طرح درست ہے جس طرح مسلم ملکوں میں سبسڈی درست ہے۔ مزید بتایا گیا کہ ہندستان کی حکومت غیر مسلم حکومت نہیں ہے وہ ایک قومی حکومت ہے۔ انڈیا کے مسلمان یکساں بنیاد پر اس قومی اور جمہوری حکومت میں شریک ہیں۔
۶ ہندی روزنامہ دینک بھاسکر (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر جیندر کمار چودھری نے ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس میں ہندو۔ مسلم تعلقات اور انڈیا اور پاکستان کے تعلق کے حوالہ سے بہت سے موضوعات زیر بحث آئے۔ اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ برصغیر ہند میں پچھلے سو سال کے اندر کوئی بھی صحیح معنوں میں تعمیری لیڈر پیدا نہیں ہوا جو مثبت معنوں میں کوئی گہرا کام کرے۔ آج ہم اسی کمی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ یہ بات ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے درست ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ علم کو صرف علم کے روپ میں دیکھنا چاہئے، علم کو ہندو اور مسلمان بنانا درست نہیں۔ اس لیے صحیح یہ ہے کہ ہندو یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی دونوں سے ہندو اور مسلم کا لفظ نکال دیا جائے اور اُس کو صرف بنارس یونیورسٹی اور علیگڈھ یونیورسٹی کہا جائے۔
۷ بی بی سی لندن(bbc.co.uk) کی طرف سے مسٹر طفیل احمد کے دستخط سے ایک خط مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ صدر اسلامی مرکز کے نام ملا۔ اس میں ایک مضمون کی فرمائش کی گئی تھی جس کو وہ بی بی سی لندن کے ویب سائٹ پر شائع کریں گے۔ یہ مضمون انگریزی میں ایک ہزار لفظ میں مطلوب تھا۔ اُس کا عنوان یہ تھا:
Relevance of Sufism in the Post -9/11 World
خط میںکہا گیا تھا کہ مضمون میں یہ بتایا جائے کہ کیا صوفی ازم مغرب اور اسلام کے درمیان دوری کو ختم کرسکتا ہے:
If Sufism has the possibility to bridge the widening gulf between the Islamic world and the west.
اس موضوع پر مطلوب مضمون تیار کرکے اُنہیں ۷ جنوری ۲۰۰۴ کو بھیج دیا گیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دوری نام نہاد سیاسی اسلام نے پیدا کی ہے اور صوفی اسلام بلا شبہہ اس دوری کو ختم کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ صوفی ازم کو جدید تقاضوں کے ساتھ سامنے لایا جائے۔ اس آرٹیکل کو بی بی سی کی ویب سائٹ (bbc.co.uk) پر شائع کیا گیا۔
۸ ست سری، نئی دہلی میں ۱۵ ہزار گز کے ایریا میں جدید طرز پر ایک ہولسٹک سنٹر (Holistic Centre) بنایا گیا ہے۔ اس کے چئر مین ڈاکٹر بی کے مودی ہیں۔ اس کے افتتاح کے طورپر ۲ جنوری ۲۰۰۴ کو بڑے پیمانہ پر اس کے ہال میں ایک فنکشن کیاگیا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں اسلام کے نمائندہ کے طورپر بلایاگیا۔ وہاں انہوں نے مختلف مذہب کے لوگوں سے ملاقاتیں کیںاور ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے اسلام کے ریفرنس میں امن اور روحانیت کی اہمیت بیان کی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ اسلام مکمل معنوں میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام کے نام پر تشدد کرنے سے کوئی تشدد اسلامی نہیں بن جاتا۔ تشدد ہر حال میں برا ہے۔ تشدد سے کبھی کوئی بہتر نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
۹ اٹلی کی ایک مذہبی تنظیم ہے۔ اُس کا نام یہ ہے: Association Culture Yogarmonia ۔ اس کا صدر دفتر نوالے(Noale)میں ہے۔ اس کے چیر مین ایٹمبری ماریو (Atombri Morio) ہیں۔ اس تنظیم کے سات ذمہ داروں کا ایک وفد اپنے چیر مین کی قیادت میں۵جنوری ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز آیا اور تقریباً دو گھنٹہ رہا۔ اُنہوں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی بات کی۔ آخر میں اُنہیں ایک مسنون دعا سنائی گئی۔ اس کو اُنہوں نے بہت پسند کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس دعا کو ہم اپنے اجتماعات میں پڑھیں گے۔ اُن کی فرمائش کے مطابق، یہ دعا تین طریقہ پر لکھ کر اُنہیں دی گئی۔ عربی متن، عربی الفاظ کو رومن رسم الخط میںاور پوری دعا کا انگریزی ترجمہ۔ وہ دعا یہ تھی: اللہم انت السلام و منک السلام و الیک یرجع السلام۔ ربنا حیّنا بالسلام و ادخلنا دارک دارالسلام۔ تبارکت ربنا و تعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔
۱۰ اسلامی مرکز کے تحت کچھ نئی کتابیں چھپی ہیں۔ ایک انگریزی کتاب کا نام ہے: اِن سرچ آف گاڈ۔ اور ایک اردو کتاب کا نام ہے:مطالعۂ حدیث۔
۱۱ ایک نئی کتاب تیار ہوئی ہے جو جلد ہی شائع ہوگی۔ تقریباً دو سو صفحہ کی اس کتاب کا نام حکمت اسلام ہے۔ اس میں قرآن اورحدیث کے حوالہ سے اسلام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔
۱۲ ایک نئی کتاب تیار ہو کر زیر طبع ہے۔ یہ کتاب دو سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کا نام یہ ہے—عورت معمارِ انسانیت۔
واپس اوپر جائیں

خطوط

ایک خط
برادر محترم اے۔ ایس شیخ صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۱۱ مارچ ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر آپ سے بات ہوئی۔ آپ نے کہا کہ اجودھیا کے مسئلہ کاحل کیا ہے۔ آپ نے بتایا کہ آج کل مسلمان اس معاملہ کی وجہ سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ان کی جان اور مال اور عزت سب داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے لے کر اب تک ہزاروں مسلمان مارے جاچکے ہیں۔ مال اور جائداد کا نقصان اتنا زیادہ ہوا ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہے۔ ان سب تباہیوں کے باوجود یہ مسئلہ اب تک ختم نہ ہوسکا بلکہ وہ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ ان حالات میںاسلام ہماری کیا رہنمائی کرتا ہے۔ اس ایک مسئلہ کی وجہ سے دس سال سے زیادہ مدت سے یہاں کے مسلمان سخت تباہی سے دوچار ہیں مگر ابھی تک کسی عالم نے اس مسئلہ کا شرعی حل نہیں بتایا۔
میں عرض کروں گا کہ اصل مسئلہ شرعی حل کی موجودگی کا نہیں ہے بلکہ شرعی حل کو قبول کرنے کا ہے۔ آج کل کے مسلمان اس مسئلہ پر اتنا زیادہ جذباتی ہوگئے ہیں کہ وہ شرعی حل کو سننے اور قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ حالانکہ دوسرے تمام مسائل کی طرح اس مسئلہ کا بھی شرعی حل موجود ہے اور عملاً عرب دنیا میں اس کو اختیار کیا جاچکا ہے۔
اس سلسلہ میں میں دو باتیں عرض کروں گا۔ پہلی بات یہ کہ کسی مسئلہ کا حل عملی حالات کے اعتبار سے متعین ہوتا ہے، نہ کہ نظری معیار کے اعتبار سے۔۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے کے حالات میں اس مسئلہ کا ایک سادہ حل موجود تھا اور وہ حل حضرت عمر کے الفاظ میں یہ تھا: أمیتوا الباطل بالصمت عنہ (باطل کو ہلاک کرو اس کے بارے میں چپ رہ کر)۔ ۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے اگر مسلمان یہ کرتے کہ بابری مسجد کے مسئلہ کو سڑکوں پر نہ لاتے۔ وہ اس مسئلہ پر جلسہ جلوس، ریلی اور مارچ کا طریقہ اختیار نہ کرتے۔ ان کے جذباتی لیڈر اس قسم کی تقریریں نہ کرتے کہ بابری مسجد کو چھوکر تو دیکھو۔ اگر مسلمان اس وقت یہ سب نہ کرتے اور خاموشی کی سیاست اختیار کرتے تو بابری مسجد کا مسئلہ ایک بستی کا صرف چھوٹا سا مسئلہ رہتا۔ ایسا کبھی نہ ہوتا کہ وہ پورے ملک کا مسئلہ بنے اور سارے ہندوؤں کے لئے قومی انا کا سوال بن جائے۔ بابری مسجد کے مسئلہ پر اگر اس قسم کی حکیمانہ سیاست چلائی جاتی تو بابری مسجد کبھی نہ ٹوٹتی جیسا کہ اس سے پہلے ساڑھے چار سو سال تک وہ نہیں ٹوٹی ـتھی۔
مگر اب جب کہ ہمارے جذباتی لیڈروں کی غیر حکیمانہ سیاست کے نتیجہ میں ۶ دسمبر ۱۹۹۲ کو بابری مسجد ڈھادی گئی۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کا ملبہ ہٹا کر وہاں ایک عارضی مندر بنادیا گیا۔ ایسی حالت میں صورت حال مکمل طورپر بدل چکی ہے۔ اب ہمیں بدلے ہوئے حالات کے اعتبار سے اس معاملہ میں شریعت کا حکم دریافت کرنا چاہئے۔
۶ دسمبر ۱۹۹۲ سے پہلے اس معاملہ میں یہ معمول کا ایک مسئلہ تھا۔ مگراب وہ ایک غیر معمولی مسئلہ بن چکا ہے۔ اور اب صرف غیر معمولی قانون کی روشنی میںاس مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔ اس غیرمعمولی صورت حال کو قرآن میں إضطرار (البقرہ ۱۷۳) کہا گیا ہے، یعنی مجبور ی کی حالت ۔ متفقہ شرعی مسئلہ کے مطابق، جب مجبوری کی حالت آجائے تو حرام بھی اہل اسلام کے لئے حلال ہو جاتا ہے۔
اسی شرعی اصول کی بنا پر اسلامی فقہ میں وہ مشہور مسئلہ بنا ہے جس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔ اس کو عام طورپر ان الفاظ میںبیان کیا جاتا ہے: تتغیر الأحکام بتغیر الزمان والمکان (زماں اور مکاں کے بدلنے سے احکام بدل جاتے ہیں) اسی طرح فقہ کا یہ مسلمہ اصول ہے : الضرورات تبیح المحظورات۔یہ ایک عالمی اصول ہے اور جدید قانون میںاس کو قانونِ ضرورت (law of necessity) کہا جاتا ہے۔ اسی قانون ضرورت کے تحت موجودہ زمانہ میں سعودی عرب، مصر اور دوسرے عرب ملکوں میںسیکڑوں کی تعداد میں مسجدیں اپنی اصل جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ بنائی گئی ہیں، جس کو عام طور پر ری لوکیشن (re-location) کہا جاتا ہے۔
عرب ملکوں میں مسجد کی تبدیلی ٔ مقام کا یہ عمل زیادہ تر شہری منصوبہ بندی (city planning) کی ضرورت کے تحت کیا گیا ہے۔ ایسی حالت میں ہندستان کا مسئلہ اور بھی زیادہ شدید ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں جان ومال کی تباہی کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے جو تمام ضرورتوں سے زیادہ شدید ضرورت ہے۔ ایسی حالت میں علماء کو چاہئے کہ وہ متفقہ طورپر یہ اعلان کردیں کہ اس معاملہ میں ضرورت شدیدہ کی صورت پیدا ہوگئی ہے اور اب شرعی طورپر یہ جائز ہوگیا ہے کہ اجودھیا کی مسجد کا مقام تبدیل کردیا جائے تا کہ مسلمانوںکی جان و مال اور عزت محفوظ ہو سکے اور ملک میںامن و امان قائم ہوسکے۔
کچھ مسلم دانشوروں کی طرف سے اس نزاع کا یہ حل پیش کیا گیا ہے کہ بابری مسجد کو ری لوکیٹ (re-locate) کردیا جائے۔ اس طرح یہ نزاع اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ مگر مسجد کا مسئلہ ایک خالص دینی اور شرعی مسئلہ ہے۔ اس لئے یہ مسئلہ صرف اس وقت ختم ہوسکتا ہے جب کہ اس کے اس حل کو علماء کی طرف سے پیش کیا جائے۔ غیر علماء کے بیانات اس مسئلہ کا قابل قبول حل نہیں بن سکتے۔
یہاں اس معاملہ کا ایک اور پہلو قابل ذکر ہے۔ قرآن میں اضطرار کا حکم جس سیاق میں آیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی موقع پر آدمی کو حلال خوراک حاصل نہ ہو اور اس کے لئے بھوک سے موت کا خطرہ لاحق ہو جائے تو وہ حرام مثلاً خنزیر یا مردار کا گوشت کھا سکتا ہے۔ علماء تفسیر نے لکھا ہے کہ ایسے موقع پر جان بچانے کے لئے اکل حرام کا معاملہ رخصت نہیں ہے بلکہ وہ عزیمت ہے۔ ایسے موقع پر نہ کھانا ایک گناہ کا فعل ہے۔ ایسے اضطرار کے موقع پر اکل حرام واجب ہوجاتا ہے۔ ایسے موقع پر نہ کھانا اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے جو کسی کے لئے جائز نہیں۔ ایسے موقع پر اگروہ نہ کھائے تو یہ اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے جو گناہ کبیرہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جب اکل حرام ضروری ہو جائے تو وہ آدمی کے لئے رخصت نہیں بلکہ عزیمت بن جاتا ہے۔ اگر ایسے موقع پر وہ نہ کھائے تو وہ گنہگار ہوگا۔ مسروق تابعی نے کہا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ جو شخص مردار کھانے پر مجبور ہو جائے اور وہ اس کو نہ کھائے اور اسی حالت میں مرجائے تو وہ جہنم میںجائے گا:
بَل رُبمَا یأثم بترک التناول (روح المعانی) وَھٰہُنا یَتَحقَّقُ معنی الوُجوب (تفسیر الرازی) ولا خلاف انّہ لَا یَجُوزُ لَہ قَتلُ نَفْسِہٖ بامساک عن الأکل و انہ مامور بالأکل علی وجہ الوجوب (تفسیر القرطبی) لو ترک الأکل تلف نفسہ تلک أکبر المعاصی (تفسیر القرطبی) وقال الطبری لیس عند الضرورۃ رخصۃ بل ذلک عزیمۃ واجبۃ و لَو امتَنَع مِنَ الاکل کانَ عَاصِیاً (البحر المحیط) و قال مَسْروقٌ بَلَغَنِی أنَّہ مَنِ اضطُرَّ الَی المَیْتَۃِ فلم یأکل حتی مات دخل النار کأنہ اشار الی أنہ قاتِلُ نفسِہ بِتَرکِہ مَا اَباحَ اللّٰہُ لہ (البحر المحیط)ھذا یقتضی أن أکل المیتۃ للمضطر عزیمۃ لا رخصۃ (تفسیر ابن کثیر)
اس شرعی مسئلہ کا انطباق اگر بابری مسجد کے مسئلہ پر کیا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ یہ مسئلہ اس ضرورت شدیدہ کی حد تک پہنچ چکا ہے جہاں اب تبدیلی ٔ مقام صرف ایک جواز کا درجہ نہیں رکھتا بلکہ وہ وجوب کے درجہ کو پہنچ چکا ہے۔ ایسا نہ کرنا مسلمانوں کو مسلسل جان اور مال کے عظیم خطرہ میں مبتلا کرنا ہے۔ جب نقصان اس سنگین حالت تک پہنچ جائے تو اس وقت اس مسئلہ کا مذکورہ حل اختیار نہ کرنا شریعت سے انحراف ہوگا ،نہ کہ اس کو اختیار کرنا۔
اجودھیا کے مسئلہ کے معاملہ میں قانونی انصاف اور قانونی بے انصافی کی بحث نکالنا کوئی دانشمندی کی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی معاملہ جب سنگین نزاکت کے اس مرحلہ تک پہنچ جائے جیسا کہ اجودھیا کا معاملہ پہنچ چکا ہے تو قانونی انصاف کا حصول عملاً ممکن نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں انتخاب (choice) قانونی بے انصافی اور جان ومال کی حفاظت کے درمیان بن جاتا ہے، نہ کہ قانونی انصاف اور قانونی بے انصافی کے درمیان۔ یہ معاملہ جس انتہائی شدید حالت تک پہنچا دیا گیا ہے، اب مسلمانوں کو فیصلہ کرنا ہے کہ وہ ایک قانونی بے انصافی کو گوارا کریں یا پوری قوم کی جان ومال کو انتہائی سنگین خطرہ میں ڈال دیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر شخص اپنے ذاتی معاملہ میں یہی کرتا ہے کہ اس طرح کے موقع پر وہ جان ومال کی حفاظت کو ترجیح دیتے ہوئے قانونی یا منطقی بے انصافی کو برداشت کرلیتا ہے۔ پھر اس عمومی مسلک کو اجودھیا کے معاملہ میں بھی کیوں نہ اختیار کر لیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو صلح حدیبیہ کی گئی وہ اس معاملہ میں ایک رہنما مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ معاہدہ فریقِ ثانی کی جن یک طرفہ شرطوں پر ہوا وہ واضح طورپر ایک ناانصافی کا معاملہ تھا۔ مگر آپ نے اس ناانصافی کو چھوٹی برائی (lesser evil) سمجھ کر قبول فرمالیا۔ کیونکہ اگر آپ اُس وقت اس بظاہر نا انصافی کو قبول نہ فرماتے اور نظری انصاف پر اصرار کرتے تو قتل وخون کی نوبت آتی جو یقینا زیادہ بڑی برائی (greater evil) کی حیثیت رکھتی تھی۔ یہ ایک سنت رسول ہے جووقتی نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لیے ہے۔ اس سنت میں اگلے زمانہ کے تمام مسلمانوں کے لیے رہنمائی موجود ہے۔
اس سلسلہ میں یہ اندیشہ ایک بے بنیاد اندیشہ ہے کہ اگر ایک مسجد کے معاملہ میں سمجھوتہ کر لیا گیا تو بقیہ مسجدوں کے معاملہ میں بھی اسی قسم کے سمجھوتے کا دروازہ کھل جائے گا۔ قرآن اس قسم کے اندیشہ کو بے بنیاد بتاتا ہے (الأنفال ۶۲)ملک کے حالات بھی اس اندیشہ کی تائید نہیں کرتے۔ عبادت گاہوں کے تحفظ کے ایکٹ (Places of Worship Act 1991) میں یہ قانونی ضمانت دی گئی ہے کہ بابری مسجد کو چھوڑ کر بقیہ تمام مسجدوں کو ان کی ۱۹۴۷ کی حالت (statusquo) پر باقی رکھا جائے گا۔ بنارس اور متھرا اور دوسری جگہ کے ہندوؤں نے متفقہ طورپر یہ تجاویز منظور کی ہیں کہ مندر ۔مسجد تحریک کو ان کے شہروں میں نہ لایا جائے۔ بابری مسجد ڈھانے کے غیر قانونی فعل کو ہندو عوام نے پسند نہیں کیا۔ اس کاایک ثبوت یہ ہے کہ ۱۹۹۳ اور پھر۲۰۰۲ کے اتر پردیش کے ریاستی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہندوؤں کے ووٹ اتنے کم ملے کہ وہ دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہی، وغیرہ۔
اجودھیا کا معاملہ اتنا زیادہ نازک بن چکا ہے کہ اگر ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ صد فی صد مسلمانوں کے حق میں فیصلہ دے دے تب بھی اس سے اصل مسئلہ حل ہونے والا نہیں ،بلکہ اندیشہ ہے کہ وہ شدید تر نہ ہوجائے ۔ سخت اندیشہ ہے کہ اس کے بعد عام ہندوؤں کا ذہن یہ بن جائے کہ انڈیا کا سیکولرزم مسلمانوںکے موافق ہے اور ہندوؤں کے خلاف۔ اس لئے جس طرح پاکستان کو اسلامی ریاست بنا دیا گیا اسی طرح انڈیا میں بھی ہندو ریاست کا اعلان کر دیا جائے۔ اگر ہندوؤں میں اس طرح کا عمومی ذہن بنا دیا گیاتو اس کے بعد ہندستان میں مسلمانوں کا وہی حال ہو جائے گا جو پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کا عملاً ہوچکا ہے (لا قدّر اللّٰہ )
آخری بات یہ کہ ہندستان میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ کسی ایک مسجد کی تعمیر نو کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ وسیع تر معنوں میں وہ خود اسلام کی تعمیر نو کا مسئلہ ہے۔ پہلے مسئلہ کے مقابلہ میں دوسرا مسئلہ ہزاروں گنا زیادہ بڑا اور اہم ہے۔ اس بارے میں یقینی طورپر دو رائے نہیں ہوسکتی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام کی نئی تعمیر صرف معتدل حالات میں ہو سکتی ہے۔ نزاع اور ٹکراؤ کے ماحول میں اس قسم کا مثبت کام نہیں ہوسکتا ــــہندستان کے مسلمانوں کو ہمیں تعلیم یافتہ بنانا ہے۔ ہمیں ان کے اندر اتحاد کی فضا قائم کرنا ہے۔ ہمیں دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق، نئی تعلیم گاہیں قائم کرنا ہے۔ ہمیں جدید معیار کے مطابق، اسلامی صحافت وجود میں لانا ہے۔ ہمیں برادرانِ وطن تک ان کی اپنی زبانوں میں اسلام کا پیغام پہنچانا ہے۔ ہمیں اسلامی خطوط پر مسلم معاشرے کی اصلاح کرنا ہے۔ ہمیں مسلمانوں کے معاشی پچھڑے پن کو دور کرنا ہے۔ ہمیں مسلم نوجوانوں کے اندر مثبت طرز فکر لانا ہے، وغیرہ۔
ہندستان کے مسلمانوں کی تعمیر و استحکام کے لئے اس قسم کے بہت سے ضروری کام ہیں جو ابھی تک اپنی ابتدائی حالت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ۱۹۴۷ کے بعد مسلمانوں کو وہ معتدل حالات نہ مل سکے جس میں مثبت تعمیر کا کام کیا جاتا ہے۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم اس معاملہ میں پوری طرح باشعور ہوجائیں ۔ ہم یک طرفہ طورپر ذمہ داری لیتے ہوئے ٹکراؤ اور نزاع کے ماحول کو ختم کردیں تاکہ تعمیر و استحکام کا وہ کام ہوسکے جو اب تک نہ ہوسکا۔
ہندستان میں مسلمانوں کی موجودہ تعداد ۲۲کروڑ ۶۴ لاکھ ہے (دینک بھاسکر ، بھوپال ، ۱۷ اکتوبر ۲۰۰۱ )۔ اس کے مطابق، ہندستان میں اس وقت کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ مسلمان آباد ہیں ،حتیٰ کہ انڈونیشیاسے بھی زیادہ۔مسلمانوں کی اتنی بڑی تعداد ابھی تک ایک غیر اہم ملت بنی ہوئی ہے۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ انہیں کام کرنے کا معتدل ماحول اب تک حاصل نہ ہوسکا۔اب مسلمانوں کو خود اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے یک طرفہ بنیاد پر نارملائزیشن کا عمل جاری کرنا چاہئے۔ اس قسم کا ماحول سب سے زیادہ مسلمانوں کے لئے مفید ہے۔اس لئے تنہا انہی کو یہ کام کرنا ہے۔ یہ کام صبر اور تحمل اور اعراض کی پالیسی کے ذریعہ ہی انجام دیا جاسکتا ہے، اس کے بغیر سازگار ماحول کا قیام ممکن نہیں۔
۱۴ مارچ ۲۰۰۲ دعا گو وحیدالدین
ایک خط
برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
مولانا اقبال اعظمی قاسمی (۶۵ سال) لِسٹر (برطانیہ) میں رہتے ہیں۔ ۳۱ مئی ۲۰۰۳ کو ان سے اور ان کے ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔اس ملاقات میں یہ مسئلہ زیر بحث آیا کہ کیا وجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل (directionless) قوم بن گئے ہیں۔ آخر اس کا سبب کیا ہے۔ اس سوال کا جواب میں نے قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں دینے کی کوشش کی۔ پھر یہی موضوع یکم جون ۲۰۰۳ کو ہمارے ہفتہ وار درس میں بھی زیر بحث رہا۔ اس گفتگو کاخلاصہ یہاں درج ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۹ میں ایک نہایت اہم ہدایت دی گئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور یہ تو نہ تھا کہ سارے اہل ایمان نکلتے تو ایسا کیو ںنہ ہوا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک حصہ نکل کر آتا تاکہ وہ دین میں سمجھ پیدا کرتا اور واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو آگاہ کرتا تاکہ وہ بھی پرہیز کرنے والے بنتے (التوبہ ۱۲۲)
اس آیت کا مصداق بوقت نزول یہ تھا کہ مختلف قبیلوںسے منتخب افراد نکل کر مدینہ آئیں اور کچھ دن پیغمبر کی صحبت میں رہ کر تفقہ فی الدین کا ملکہ پیدا کریں۔ پھر واپس جاکر وہ اپنے لوگوں میں دعوت و اصلاح کا کام کریں۔
اس قرآنی ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں یہ مطلوب ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ایک غیر سیاسی قسم کی مرکزی دینی شخصیت یا غیر سیاسی مرکزی ادارہ موجود ہو۔ یہ شخصیت یا ادارہ لوگوں کے لیے تفقہ فی الدین کا مرجع ہو۔ لوگ اس سے رجوع ہو کر دینی بصیرت حاصل کریں۔ اور یہ کہ اس کے تحت تربیت پا کر ایسے اصحاب بصیرت تیار ہوں جو پیش آمدہ امور میں مسلمانوں کی صحیح دینی رہنمائی کریں۔ اس قرآنی آیت سے واضح طورپر معلوم ہوتا ہے کہ امت کے درمیان ایک فقیہ المسلمین ہونا چاہئے۔ فقیہ المسلمین کا یہ تصور گویا کہ زیادہ بہتر طورپر اس اجتماعی مقصد کو حاصل کرنا ہے جو دوسرے مذہبوں میں پوپ، اور گرو یا امام معصوم کی صورت میں پایا جاتا ہے۔ پوپ یا گرو یا امام معصوم کی تعلیم کو مقدس عقیدہ کی حیثیت دے دی گئی ہے، جب کہ قرآن کے مطابق، فقیہ المسلمین کے ادارہ کی اہمیت عقیدہ کے اعتبار سے نہیںہے بلکہ اس کی اہمیت عملی ضرورت کے اعتبار سے ہے۔
فقیہ المسلمین کا یہ ادارہ اہل اسلام کے لیے فکری اعتبار سے ابدی رہنما کی حیثیت رکھتا تھا مگر بعد کے زمانہ میں یہ سیاسی غلطی ہوئی کہ فقیہ المسلمین کے بجائے خلیفۃ المسلمین کو اجتماعی ادارہ سمجھ لیا گیا۔ اور جب خلیفۃ المسلمین کا سیاسی ادارہ مسلمانوں میں موجود نہ رہا تو خلیفۃ المسلمین کے ادارہ کو دوبارہ قائم کرنے کے لیے لڑائی شروع ہوگئی جو آج تک ختم نہ ہوئی۔
اس سلسلہ میں دوسری غلطی یہ ہوئی کہ عباسی خلافت کے زمانہ میں علماء نے تفقہ کا عمل شروع کیا تو تفقہ کے تصور کو گھٹا کر اس کو جزئی شرعی مسائل کی تحقیق کے ہم معنٰی بنا دیا گیا۔ جزئی مسائل کی یہ بحث بجائے خود اہم ہوسکتی ہے مگر وہ تفقہ فی الدین کے مدعا کی تکمیل ہر گز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تفقہ فی الدین کے اسی ادارہ کی غیر موجودگی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمان ایک بے منزل اور بے نشان قوم بن گئے ہیں۔ ہر جگہ وہ بے مقصد جدال و قتال میںمصروف ہیں۔ ان کے درمیان کوئی ایسا فکری ادارہ نہیں جو انہیں ان کے مسائل میں صحیح اور بروقت رہنمائی دے اور ان کی سرگرمیوں کو نتیجہ خیز رخ کی طرف موڑ دے۔ تفقہ فی الدین کے ادارہ کو دوسرے لفظوں میں اسلامک تھنک ٹینک کہا جاسکتا ہے۔
مثال کے طورپر ۲۰۰ سال پہلے مسلمانوں کو نو آبادیاتی قوموں کے مقابلہ میں شکست ہوئی۔ اس وقت اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ حالت میںموجود ہوتا تو وہ انہیں بتاتا کہ یہ سازش اور دشمنی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ طاقت کا توازن بدل جانے کا مسئلہ ہے اس لیے تم نئے معیار کے مطابق اپنے آپ کو مستحکم بنانے کی کوشش کرو۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام پر بہت سی تباہ کن سرگرمیاں جاری ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ جہاد حکومت کا کام ہے وہ عوام کا کام نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان دوسری قوموں کو دشمن قرار دے کر ان سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کا ادارہ زندہ ہوتا تو وہ مسلمانوں کو بتاتا کہ یہ غیر مسلم تمہارے مدعو ہیں اور مدعو سے نفرت کرنا جائز ہی نہیں۔ اسی طرح موجودہ زمانہ کے مسلمان مغربی تہذیب کو اسلام کے حریف کے طورپر دیکھتے ہیں۔ اگر فقیہ المسلمین کاادارہ زندہ ہوتا تو وہ بتاتا کہ مغربی تہذیب اسلام کی حریف نہیں، وہ نئے مواقع کی نقیب ہے۔ تم ان مواقع کو پہچانو اور ان کو اسلام کے حق میں استعمال کرو۔
ضرورت ہے کہ فقیہ المسلمین کے ادارہ کو ایک غیر سیاسی ادارہ کی حیثیت سے دوبارہ زندہ کیا جائے اور خلیفۃ المسلمین کے سیاسی ادارہ سے الگ کرکے اس کو ڈیولپ (develop) کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے احیاء (revival) کا یہی واحد نقطۂ آغاز ہے۔
قرآن کی سورہ نمبر ۴ کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: اور جب اُن کو کوئی بات امن یا خوف کی پہنچتی ہے تو وہ اُس کو پھیلادیتے ہیں۔ اور اگر وہ اُس کو رسول تک یا اپنے ذمّہ دار اصحاب تک پہنچاتے تو اُن میں سے جو لوگ تحقیق کرنے والے ہیں وہ اس کی حقیقت جان لیتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اُس کی رحمت نہ ہوتی تو تھوڑے لوگوں کے سوا تم سب شیطان کے پیچھے لگ جاتے (النساء ۸۳)
قرآن کی اس ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہم اجتماعی امور میں ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ ہر آدمی اُن پر اظہار خیال کرنا شروع کردے۔ بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کے معاملہ کو ذمہ دار افراد تک پہنچایا جائے اور وہ غور و فکر کے بعداُس پر اپنے فیصلہ کا اعلان کریں۔ یہی معاملات کی درستگی اور اصلاح کا واحد یقینی طریقہ ہے۔
قرآن کے مطابق، خلافت یا سیاسی اقتدار ایک امتحان کی چیز ہے، وہ کسی ایک گروہ کے پاس ہمیشہ نہیں رہتا اورنہ رہ سکتا ۔ اس لیے مذکورہ قسم کی فکری تنظیم کے لیے سیاسی ادارہ پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ ضروری ہے کہ اس کے لیے غیر سیاسی ادارہ ہو جو مستقل طورپر اور ہر حال میں باقی رہے۔ فقیہ المسلمین کا ادارہ اسی قسم کاایک مستقل ادارہ ہے۔ وہ ہمیشہ اورہر حال میں مسلمانوں کی فکری رہنمائی کا ضامن ہے۔ اس لیے فقیہ المسلمین کے ادارے کے قیام کی کوشش سیاسی ادارہ کے قیام سے بھی زیادہ کی جانی چاہئے۔
نئی دہلی ، ۲جون ۲۰۰۳ دعاگو وحید الدین
ایک خط
برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اﷲ

مہاراشٹر کے سفر کے دوران ۲۷ نومبر ۲۰۰۳ کو میں ناگپور پہنچا تھا۔ ۲۹ نومبر کو واپسی ہوئی۔ اس دوران کئی قیمتی قسم کے سبق آموزتجربے ہوئے۔آپ ان تجربات کا ذریعہ بنے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
۱۔ آپ نے ناگپور شہر دکھایا۔ چار سال پہلے میں ناگپور آیا تھا۔ اب اس سفر میں اندازہ ہوا کہ اس مدت میں ناگپور شہر کے اندر بہت سی ترقیاں ہوئی ہیں۔ وہاں کی سڑکیں چوڑی کی گئی ہیں۔ صفائی کا خصوصی اہتمام ہے۔ ہر طرف ہریالی نظر آتی ہے۔ اس ترقیاتی کام سے ہر فرقہ کو غیر معمولی فائدہ حاصل ہوا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ ترقی کے سلسلہ میں اصل اہمیت اچھے انفراسٹرکچر کی ہوتی ہے اور ناگپور کے لوگوں کو یہی چیز حاصل ہوئی۔
معلوم ہوا کہ یہ سارا کام ایک کمشنر نے انجام دیا ہے۔ اس نے نہایت حکمت کے ساتھ متعلقہ ذمہ داروں کو اپنے ساتھ لیا اور عوام کی تائید حاصل کی۔ اس کام کے لیے ورلڈ بینک سے مالیاتی امداد ملی تھی۔ اس طرح تین سال کی قلیل مدت میں ناگپور کا نقشہ بدل گیا۔ ضرورت ہے کہ ہندستان کے ہر شہر میں اسی طرح انفراسٹرکچر کو بہتر بنایا جائے۔ یہی قومی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان خود اپنی فطرت کے زور پر ترقی کی طرف دوڑنا چاہتا ہے۔ ضرورت صرف یہ ہے کہ اُس کو کھلا راستہ فراہم کردیا جائے۔
۲۔ میں اس سے پہلے کئی بار ناگپور گیا ہوں ۔ مگر ایک بات کا مجھے اب تک اندازہ نہ ہو سکا تھا۔ آپ نے اس باراسے دکھایا۔ وہ یہ کہ ناگپور میں وہاں کے مسلمانوں کا ایک ایجوکیشنل ایمپائر موجود ہے۔ انجمن حامئی اسلام کے تحت قائم شدہ بڑے بڑے تعلیمی ادارے اسی کا حصہ ہیں جس کے موجودہ صدر جناب جسٹس ایم ایم قاضی ہیں۔ یہ سب چیزیں بلا شبہ خوشی کا باعث تھیں۔
۳۔ ایک اور قابل ذکر چیز جو میں نے اس سفر میں پائی وہ خود آپ کی فیملی تھی۔ میں نے پایا کہ آپ کی فیملی میں ساس اور بہو جیسے جھگڑے نہیں ہیں۔ آپ کی فیملی ایک پرسکون فیملی ہے۔ آپ کی اہلیہ سے میں نے پوچھا تھا کہ کامیاب خاندانی زندگی کا راز کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ:صبرو برداشت۔ میں سمجھتا ہوں کہ کامیاب خاندانی زندگی گزارنے کے لئے یہی واحد کارگر فارمولا ہے۔
۴۔ چوتھی چیز وہ ہے جو آپ کے صاحب زادہ زبیر احمد اکبانی کے ذریعہ معلوم ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اپنے کاروبار کو مینجیبل لمٹ (Manageable limit)کے اندر رکھیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب سے ہم نے یہ فیصلہ لیا ہے ہم کو ذہنی سکون بھی ملا ہے اور کاروباری ترقی بھی۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فارمولا ہر کاروباری آدمی کے لئے یکساں طور پر مفید ہے۔
۵۔ آپ کے گھر کی دیوار پر ایک قرآنی آیت لکھی ہوئی نظر آئی: ھٰذا من فضل ربی لیبلونی ئَ اَشکر اَم اکفر (النحل ۴۰)میں نے دیکھا ہے کہ عام طور پر لوگ جب گھر بناتے ہیں تو وہ اپنے گھر پر اس آیت کا صرف ایک حصہ(ھٰذا من فضل ربی) لکھتے ہیں۔ آپ نے اس کے برعکس پوری آیت لکھی ہے۔آیت کا صرف ایک حصہ لکھنا قرآن کے اصل مفہوم کو واضح نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق، گھر یا مادّی نفع جو اس دنیا میں کسی کو ملتا ہے وہ نوازش کے طور پر نہیں ہوتا بلکہ جانچ کے طور پر ہوتا ہے۔ اس دنیا میں ہر مادی چیز امتحان کا ایک پرچہ ہے ۔اُس کے ذریعہ خدا یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ آدمی اُس کو پا کر خدا کا شکر گذار بنایا وہ سرکش ہوگیا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان پر خدا کا یہ سب سے بڑا حق ہے کہ وہ ہر ملی ہوئی چیز کو خدا کا عطیہ سمجھے اور اُس پر اس کا شکر ادا کرے۔ جو آدمی دل سے خدا کا شکر ادا کرے وہ امتحان میں کامیاب ہوا اور جس کے دل میں شکر کا جذبہ نہیں اُمڈا وہ اپنے امتحان میں نا کام ہو گیا۔ میرے تجربہ کے مطابق، آپ کا گھروہ گھر تھا جہاں میںنے لوگوں کی زبان پر شکر کا چرچا پایا۔ جہاں افرادِ خانہ کے اندر یہ زندہ شعور موجود تھا کہ اگر نہ ملے ہوئے کو پانا چاہتے ہو تو پہلے ملے ہوئے پر دینے والے کا شکر ادا کرو۔ شکر در اصل مزید عطیہ کے لیے استحقاق کی حیثیت رکھتا ہے۔
نئی دہلی، ۹ دسمبر ۲۰۰۳ دعا گو وحیدالدین
واپس اوپر جائیں

روحانیت کیا ہے

ایک مجلس میں ایک صاحب نے یہ سوال کیا کہ اسلام میں روحانیت کا تصور کیا ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے روحانیت کو پانے کا کیا اصول ہے۔ اس معاملہ کی وضاحت کرتے ہوئے میں نے کہا کہ روحانیت (spirituality) کا لفظ بعد کی تاریخ میں بولا جانے لگا۔ قرآن میں اس مفہوم کے لئے جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ربانیت ہے۔ روحانیت بلاشبہ ایک مطلوب چیز ہے۔
عام تصور یہ ہے کہ روحانیت کا مقام پانے کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ترک دنیا (renunciation) ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ ترک دنیا سے جو چیز ملتی ہے وہ روحانیت نہیں ہے بلکہ وہ رہبانیت ہے اور رہبانیت اسلام میں نہیں (لا رہبانیۃ فی الاسلام)۔
روحانیت یا ربانیت یہ ہے کہ آدمی کی داخلی شخصیت ربانی شخصیت بن جائے۔ وہ خدا اور آخرت کے تصور میں جینے لگے۔ روحانیت کا یہ درجہ فکری انقلاب کے ذریعہ آتا ہے نہ کہ مادی دنیا کو چھوڑنے کے نتیجہ میں۔ یہ فکری انتقال کا ایک عمل ہے نہ کہ جسمانی انتقال کا کوئی عمل۔ قرآن کے مطابق، اس فکری انتقال کا ذریعہ توسم ہے۔ یہ روحانیت کسی کو اس ذہنی بیداری کے ذریعہ ملتی ہے جس کو قرآن میں ذکر کثیر (الجمعۃ ۱۰) کہا گیا ہے۔
یہ ذکر کثیر کوئی لسانی تکرار نہیں، وہ دراصل ایک فکری عمل ہے۔ یعنی مادی چیزوں میں خدا کی نشانیاں دیکھنا۔ مادی تجربات سے آخرت کا سبق نکالنا۔ دنیا کی ہر چیز میں یہ ربانی پہلو چھپا ہوا ہے۔ روحانیت یہی ہے کہ آدمی دنیوی یا مادی سرگرمیوں کے درمیان رہتے ہوئے ان نشانیوں کو دیکھے ۔وہ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرسکے۔ روحانیت دراصل کنورژن کی اسی ذہنی صلاحیت کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے۔ روحانیت نہ دنیا کو ترک کرنے سے ملتی ہے اور نہ الفاظ کی لسانی تکرار سے۔ روحانیت کا درجہ اُس کو ملتا ہے جو مادی دنیا کو اپنے لیے روحانی خوراک بنا سکے۔
واپس اوپر جائیں

قناعت واحد حل

خدا نے موجودہ دنیا کے نظام کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں کسی کو بھی تمام چیزیں نہیں مل سکتیں، خواہ وہ بڑا آدمی ہو یا چھوٹا آدمی۔ ولکم فیہا ما تشتہی انفسکم (فصلت ۳۱) کی دنیا کسی کو صرف اگلی زندگی میں جنت میں مل سکتی ہے۔ موجودہ دنیا میں کسی کے لئے بھی یہ ممکن نہیںکہ وہ اپنی ہر مطلوب چیز کو پالے، اس کی ہر خواہش پوری ہوجائے۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی مایوسی (frustration) کا شکار نظر آتا ہے، ہر آدمی ذہنی تنائو میں مبتلا ہے۔ اس کا سبب یہی ہے۔ آدمی کو سو میں سے ننانوے چیز مل جائے اور صرف ایک چیز نہ ملے تب بھی وہ پریشان رہتا ہے۔ انسان اپنے مزاج کے اعتبار سے سو چیزوں سے کم پر راضی نہیں ہوتا اور فطرت کے قانون کے مطابق سو چیز اس کو کبھی نہیں ملتی۔ خواہش اور واقعہ کے درمیان اسی تضاد نے تمام لوگوں کو ذہنی سکون سے محروم کررکھا ہے۔
اس مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ آپ الہٰکم التکاثر کی نفسیات میں مبتلا ہوجائیں۔ یہ نفسیات آپ کے لیے مزید پریشانی کا سبب بن جائے گی۔ اس مسئلہ کا حل صرف ایک ہے اور وہ قناعت ہے۔ قناعت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ آپ کو ملے اس کو آپ فطرت کی تقسیم کا نتیجہ سمجھ کر اس پر راضی ہوجائیں۔ حرص کا مطلب فطرت کی تقسیم پر راضی نہ ہونا ہے۔ اس کے مقابلہ میں قناعت کامطلب یہ ہے کہ آدمی فطرت کی تقسیم پر راضی ہوجائے۔ ذ ہنی سکون اور ذہنی بے سکونی کا سبب تمام تر یہی ہے۔ آدمی اگر جان لے کہ جو کچھ ہوا وہ فطرت کے قانون کے تحت تھا، وہ انسانی ظلم کی بنا پر نہ تھا، تو وہ غیرضروری پریشانیوں سے بچ جائے۔
یہی بات ایک حدیثِ رسول میں اس طرح کہی گئی ہے: قد افلح من أسلم و رزق کفافاً و قنعہ اللہ بما آتاہ (مسند احمد، جلد ۲، صفحہ ۱۶۸) یعنی وہ شخص کامیاب ہوگیا جس نے اسلام کو اپنایا اور اُس کو بقدرِ کفاف رزق ملا۔ اور اللہ نے اس کو اُس پر قانع بنا دیا جو اُس نے اُس کو دیا۔
واپس اوپر جائیں

جہادِ اکبر کیا ہے

روزنامہ نوائے وقت (۷ مئی ۲۰۰۴) میں ایک مضمون ’’جہاد کی اہمیت‘‘ کے عنوان سے نظر سے گذرا ۔ اس مضمون میں جہاد کے حوالہ سے کئی باتیں بتائی گئی تھیں۔ اس مضمون میں جہاد کو مسلّح قتال کے ہم معنیٰ بتایا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں کہا گیا تھا کہ:
’’جہاد کا مقصد دنیا میں امن، راحت اور سکون قائم کرنا ہے۔ جہاد حق اور سچائی کے لیے جنگ کرنے کو کہتے ہیں۔‘‘
مضمون سے بظاہر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ جہاد یہ ہے کہ لوگوں سے جنگ کرکے انسانی دنیا میں مذکورہ حالت قائم کی جائے۔ مگر یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ مذکورہ مقاصد کا کوئی تعلق جنگ سے نہیں۔ یہ مقاصد صرف پُر امن تبلیغ کے ذریعہ حاصل ہوتے ہیں۔ اس کا طریقہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کو بدلا جائے۔ لوگوں کو ایک خدا کا پرستار بنایا جائے۔ لوگوں کے اندر محاسبۂ آخرت کا ذہن پیدا کیا جائے۔ فکری جدوجہد کے ذریعہ لوگوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ بااُصول زندگی گذارنے کو اپنی کامیابی کا سب سے بڑا ذریعہ سمجھنے لگیں۔ یہ مقصد ذہن کی اصلاح کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے، نہ کہ قتل و خون کا میدان گرم کرنے سے۔
جہاد کے موضوع پر آج کل کثرت سے مضامین شائع کیے جارہے ہیں۔ ان مضامین یا کتابوں میں سب سے زیادہ جامع ان کو سمجھاجاتا ہے جن میں جہاد کی تین قسمیں بتائی گئی ہیں— نفس سے جہاد اور شیطان سے جہاد اور دشمن سے جہاد۔ مگر اس مقبول تعریف میں وہ چیز چھوٹ گئی ہے جس کو قرآن میں جہادِ اکبر کہا گیا ہے۔ اور یہ دعوت الی اللہ کی راہ میں کوشش کرنا ہے۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وجاہدہم بہٖ جھادا کبیرا (الفرقان ۵۲)
اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ان کے اوپر قرآن کے ذریعہ بڑا جہاد کرو۔ اس بڑے جہاد یا جہاد اکبر سے مراد یہ ہے کہ غیر مسلموں تک اسلام کا ربّانی پیغام پہنچانا۔ اسی کا نام دعوت و تبلیغ ہے اور یہی قرآن کے مطابق، سب سے بڑا جہاد ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ جہاد کے موضوع پر لکھنے اوربولنے والے لوگ اس سب سے بڑے جہاد سے اتنا زیادہ بے خبر ہیں کہ وہ جہاد کی فہرست میں اس کو اب تک شامل نہ کرسکے۔
اس سے معلوم ہوا کہ دعوت و اصلاح کی پُرامن کوشش بڑا جہاد ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہتھیار کے ذریعہ مسلّح کوشش چھوٹا جہاد۔ دونوں میں یہ فرق کیوں ہے۔ یہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک معلوم حقیقت ہے جس کو نفسیات اور تاریخ کے مطالعہ سے آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔
مسلّح جدوجہد یا مسلّح جہاد ایک دفاعی عمل ہے۔ کسی نے آپ کے اوپر حملہ کیا اورآپ نے بھی اُس کے اوپر جوابی حملہ کردیا۔ اس قسم کا عمل محدود دائرہ میں ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وہ ہر پہلو سے ایک چھوٹا عمل ہے۔ مثلاً رسول اللہ کے مکی دور میں دعوتی جہادکیا گیا اور وہ مسلسل تیرہ سال تک جاری رہا۔ جب کہ غزوۂ احد کے موقع پر مسلّح جہاد کیا گیا اور وہ صرف آدھے دن میں ختم ہوگیا۔
دعوتی جہاد کامل طورپر ایک پُر امن عمل ہے۔ دعوتی جہاد کا نشانہ یہ ہے کہ انسان کو بدلا جائے۔ انسان کو اخلاقی اور روحانی اعتبار سے ایک نیا انسان بنایا جائے۔ انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیدا کی جائے جس کو خدا کی معرفت کہا جاتا ہے۔ انسان کے دل و دماغ میں ایسی تبدیلی لائی جائے کہ وہ مادی دنیا سے اپنے آپ کو اوپر اُٹھائے اورآخرت کی جنت کو اپنا مرکزِ توجہ بنائے۔
یہ انسان کے اندر فکری انقلاب (intellectual revolution) لانے کا عمل ہے۔ اور انسان کے اندر فکری انقلاب لانا بلا شبہہ پہاڑوں کو توڑنے اور سمندروں کو خشک کرنے سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو بڑا جہاد کہاگیا ہے۔
جنگ یا مسلّح عمل کے ذریعہ ملک کو فتح کیا جاسکتا ہے۔ مگر دلوں اور دماغوں کو فتح کرنا صرف پُرامن کوشش کے ذریعہ ہوتا ہے۔ یہ پُر امن کوشش یا دعوتی عمل بلاشبہہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ خدا کے یہاں دعوتی عمل کے اوپر جو انعام مقرر کیا گیا ہے۔ وہ کسی بھی دوسرے عمل کے اوپر مقرر نہیں کیا گیا۔
واپس اوپر جائیں

معلومات اور تجزیہ

ایک صاحب نے ایک جریدہ دکھایا۔ اس میں سید جمال الدین افغانی کے بارے میں ایک مفصل مضمون تھا۔ اس مضمون کا خاتمہ اس طرح ہوا تھا: سید جمال الدین افغانی نے زندگی کے آخری ایام استنبول میں سخت ذہنی اذیت میں گزارے۔ ان کی زندگی کا واحد مقصد عالم اسلام کا اتحاد تھا جو یہاں پورا ہوتا نظر نہ آتا تھا۔ خفیہ طور پر ان کی جاسوسی بھی کی جاتی۔ آخر اسی کرب میں ۱۸۹۷ کو بعمر اٹھاون برس سرطان کے عارضہ میں انھوں نے استنبول میں وفات پائی۔
سید جمال الدین افغانی کو اپنے زمانہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ افغانستان، مصر، ایران، ترکی وغیرہ میں ان کو بہت زیادہ مواقع ملے۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ ہر ملک سے نکال دیئے جاتے کیوں کہ وہ جہاں پہنچتے وہاں وہ حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر شروع کردیتے۔ سیدجمال الدین افغانی کی شخصیت کے بارے میں لوتھروپ سٹوڈراڈ نے درست طور پر لکھا ہے کہ: ان کے خیال کے مطابق، مغرب مشرق کا دشمن ہے۔ یوروپ کے سینے میں آج بھی وہی صلیبی روح کام کررہی ہے جو راہب پطرس کے زمانہ میں مصروف کار تھی۔ اہل مغرب میں اب بھی وہی تعصب جاری وساری ہے۔ یہ ہر طریقہ سے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کی تحریکات کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ان حالات میں عالم اسلام پر واجب ہے کہ وہ اپنی بقاء کے لئے متحد ہوجائے۔
سید جمال الدین افغانی اپنی غیر معمولی مقبولیت کے باوجود مکمل طور پر ناکام رہے۔ اس کا سبب تلاش کرتے ہوئے ایک بنیادی بات میری سمجھ میں یہ آتی ہے کہ ان کے اندر غیر معمولی حافظہ تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی کتاب ایک بار پڑھنے کے بعد ان کے سینے میں محفوظ ہوجاتی تھی مگر میرے علم کے مطابق وہ تدبر کی صفت سے خالی تھی۔ جن لوگوں کا حافظہ بہت اچھا ہو وہ ہر مجلس میں معلومات کا انبار بکھیرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ لوگ ان کی معلومات سے متاثر ہوکر ان کو بڑا عالم مان لیتے ہیں۔ مگر حقیقی عالم وہ ہے جس کے اندر تجزیہ اور تحلیل (analysis) کی صفت ہو اور میرے علم اور تجربہ کے مطابق فطرت کا یہ اصول ہے کہ جس کے اندر غیر معمولی حافظہ ہوتا ہے اس کے اندر تجزیہ کی صلاحیت موجود نہیں ہوتی۔
کسی شخص کو حافظہ کی قوت حاصل ہوتو اس کے دماغ میں معلومات کا بہت بڑا ذخیرہ اکھٹا ہو جائے گا۔ اُس کی گفتگو اور اس کی تقریر و تحریر میں معلومات کی کثرت دکھائی دینے لگے گی۔ عام لوگ اس کو ایک قابل انسان سمجھنے لگیں گے۔ مگر اس کی معلوماتی بارش سے کوئی فصل نہیں اُگے گی۔ حتی کہ اگر آپ سننے والوں سے پوچھیں کہ جس کی تقریر کی تم تعریف کررے ہو اُس کی تقریر کا خلاصہ کیا تھا تو یہ لوگ اُس کا کوئی خلاصہ بتانے میں ناکام رہیں گے۔
تجزیہ کے بغیر معلومات کی حیثیت ایک جنگل کی ہے۔ تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ یہ ہے کہ مختلف معلومات کاگہرا مطالعہ کرکے اُس کا نتیجہ نکالا جائے۔ مثلاً ہندستان کی آزادی سے پہلے ایک سیاسی لیڈر کی تقریر بہت مقبول ہوئی۔ اُن کا حافظہ اتنا زبر دست تھا کہ وہ محض اپنی یادداشت سے انگریزی حکومت کے خلاف زبردست معلوماتی تقریر کرتے اور پھر یہ کہہ کر لوگوں کو مسحور کردیتے کہ:
Slavery or freedom, choose between the two.
حالاں کہ اگر انہیں بصیرت کی نظر حاصل ہوتی اور وہ حقیقی واقعات کی روشنی میں فیصلہ کرپاتے تو اس کے بجائے شاید وہ یہ کہتے کہ:
Non-corrupt British rule or corrupt Indian rule—choose between the two.
وہ تمام لیڈر جنہوں نے قوموں کو تباہی سے دوچار کیا، وہ وہی لوگ تھے جن کے پاس حافظہ تو تھا مگر اُن کے پاس تجزیہ کی طاقت موجود نہ تھی۔ اس بنا پر وہ حالات کو گہرائی کے ساتھ سمجھ نہ سکے۔ حافظہ بھیڑ اکھٹا کر سکتا ہے۔ مگر تجزیہ اور تحلیل کے بغیر کسی نتیجہ خیز جدوجہد کا ظہور ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب سے زیادہ مبغوض چیز

نوائے وقت کے شمارہ (۷ مئی ۲۰۰۴) میں ایک مضمون ’’فکر و عمل کی گھڑی‘‘ کے عنوان کے تحت تھا۔ اس مضمون میں پاکستان کے ریٹائرڈ جنرل مرزا اسلم بیگ کا یہ خیال نقل کیا گیا تھا کہ جنرل بیگ کے مطابق، دوسری عالمی جنگ بیسویں صدی کا ایک عظیم واقعہ ہے۔ اس تاریخی سانحہ نے جتنا اس دنیا کو بدلا ہے کسی اور واقعہ نے نہیں بدلا۔ دوسری جنگ عظیم کے طفیل دنیا میں مسلم ملکوں کی تعداد تین سے بڑھ کر ستّاون ہوگئی ہے۔
یہ بات بطور واقعہ درست ہے۔ آزاد مسلم ملکوں کی اسی کثرت کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میںمسلم ملکوں کی تعداد کسی بھی دوسرے گروپ سے زیادہ ہوگئی ہے۔ مگر مضمون نگار (کے ایم اعظم) نے اس نقطۂ نظر پر شک ظاہر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ (آج یہ صورت حال ہے کہ) ہر طرف مسلمان ہی لڑ رہے ہیں۔ ہرجگہ مسلمان ہی شہید ہورہے ہیں۔
یہ کہنا درست نہیں کہ ہر طرف مسلمان ہی مارے جارہے ہیں۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ ہر طرف مسلمان ہی اپنے آپ کو مروا رہے ہیں۔ آج کل نام نہاد مجاہدین کے ساتھ مختلف مقامات پر جو کچھ پیش آرہا ہے وہ یقینی طور پر جہاد نہیں ہے بلکہ وہ ’’آبیل مجھے مار‘‘ کاواقعہ ہے۔ یہ اس حدیث رسول کی خلاف ورزی ہے کہ : لا تتمنوا لقاء العدو واسئلوا اللّٰہ العافیۃ (تم خود دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو بلکہ تم اللہ سے ہمیشہ عافیت مانگو)۔
موجودہ زمانہ کے مسلمان اس حدیث کو تو جانتے ہیں کہ: أبغض الحلال الی اللّٰہ الطلاق۔ مگر ان مسلمانوں کو یہ نہیں معلوم کہ اللہ کے نزدیک طلاق سے بھی زیادہ مبغوض چیز جنگ ہے۔ بعد کے مسلمانوں کی روش پر تنقید کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عمر نے بجا طور پر فرمایا تھا کہ اصحابِ رسول نے جنگ کو ختم کرنے کے لیے جنگ کی، اور تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ نئے عنوان کے ساتھ جنگ دوبارہ شروع ہوجائے۔
قرآن میں ارشاد ہوا ہے—اور جب وہ پیٹھ پھیرتا ہے تو وہ اس کوشش میں رہتا ہے کہ زمین میں فساد پھیلائے اور کھیتی اور نسل کو ہلاک کرے۔ حالاں کہ اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔ (البقرہ ۲۰۵)
فساد کا الٹا صلاح ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ فساد اور صلاح کا معیار کیا ہے۔ اور کس طرح دونوں کو الگ الگ پہچانا جاسکتا ہے۔ وہ معیار نتیجہ (result) ہے آیت کے مطابق، وہ عمل فساد ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ انسانی سماج میںتخریبی سرگرمی بڑھے۔ زراعت اور اقتصادیات میں تباہی آئے۔ انسانی جانیں قتل ہونے لگیں۔ سماج میں امن کی جگہ بد امنی پیدا ہوجائے۔ ہر وہ عمل فساد ہے جو انسانی سماج میں اس قسم کا منفی نتیجہ پیدا کرے خواہ بظاہر اُس کو جہاد کے مقدس نام سے شروع کیا گیا ہو۔
اس کے مقابلہ میں وہ عمل صلاح وہ فلاح کا عمل ہے جس کا نتیجہ یہ ہو کہ زمین کے اوپر مثبت سرگرمیاں جاری ہوں۔ جس کے نتیجہ میں زراعت و باغبانی ترقی کرے جس کے ذریعہ اقتصادیات کو فروغ حاصل ہو۔ جس کے نتیجہ میں لوگوں کی جانیں محفوظ ہوں اور صحت عامہ (health sciences) کو ترقی حاصل ہو۔ جو انسانوں کے درمیان دوری کو ختم کرکے اُنہیں ایک دوسرے سے قریب کردے۔
خدا کی نظر میں جنگ سب سے زیادہ مبغوض چیز ہے، اور امن سب سے زیادہ پسندیدہ چیز۔ اس کا سبب یہ ہے کہ جنگ ماحول میں نفرت اور تشدد کو پھیلاؤ ملتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں امن کے ماحول میں محبت اور تعمیر وترقی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔
ایک ایسا اقدام جس کا نتیجہ تخریب کی صورت میں نکلے، وہ اسلام میں بلا شبہہ ایک غیر مطلوب فعل ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی بے شعوری کی بنا پر اس قسم کا اقدام کرے تو اقدام شروع کرنے کی حد تک اُس کو معذور قرار دیا جاسکتا ہے۔ مگر ایسے کسی عمل کو میزد جاری رکھنے کے لیے کوئی وجہ جواز نہیں۔ آدمی کے لیے فرض کے درجہ میں ضروری ہے کہ تخریبی نتیجہ نکلنے کی صورت میں فوراً ہی یوٹرن لے کر وہ اپنے اقدام کو روک دے اوراپنی سابقہ حالت کی طرف واپس چلا جائے۔
واپس اوپر جائیں

سید جمال الدین افغانی

روزنامہ نوائے وقت کا شمارہ ۷ مئی ۲۰۰۴ دیکھنے کو ملا۔ اس میں ایک مضمون سید جمال الدین افغانی کے بارہ میں تھا۔ اس کے لکھنے والے ڈاکٹر خواجہ عابد نظامی تھے۔ اس میں بتایا گیا تھا کہ سید جمال الدین افغانی جب مصر آئے تو یہاں ان کا بہت استقبال کیا گیا۔ یہاں وہ تقریباً ۹ سال تک رہے۔ ’’قاہرہ کے زمانۂ قیام میں انھوں نے جامعہ الازہر میں فقہ، حدیث، فلسفہ اور تصوف پر لیکچر دینا شروع کیا۔ یہ لیکچرز انتہائی ذوق و شوق سے سنے جاتے اور ایک ایک لفظ قلم بند کیا جاتا۔ سید جمال الدین افغانی قدیم علوم کے ساتھ ساتھ جدید علوم کی بنیادی باتو ںسے بھی طلبہ کو روشناس کراتے۔ ان انقلابی اقدام کے باعث بعض قدامت پرست علماء ناک بھوں چڑھاتے اور ان کی جدت پسندی کو بدعت سے تعبیر کرتے۔ مثلاً جغرافیہ کا لیکچر دیتے وقت سید جمال الدین افغانی گلوب (globe) کا استعمال کرتے اور اس کے ذریعہ طلبہ کو سمجھاتے۔ یہ چیز ان علماء کے لئے بالکل نئی تھی۔ تاہم وہ علّامہ کی علمی عظمت کے سامنے خاموش رہتے اور یہ بدعتیں برداشت کرلیتے۔‘‘
سید جمال الدین افغانی ۱۸۳۸ میں اسعد آباد میں پیدا ہوئے اور ۱۸۹۷ میں ان کی وفات ہوئی۔ اُس زمانہ میںمسلم علماء کا حال کیا تھا، اُس کی ایک مثال مذکورہ واقعہ میں ملتی ہے۔ اُس زمانہ میںمسلم علماء کی فکری محدودیت اتنی زیادہ بڑھی ہوئی تھی کہ وہ گلوب جیسی چیز کے تعلیمی استعمال کو بھی ایک بدعت سمجھتے تھے۔ حالاںکہ جغرافی گلوب جیسی چیز کا بدعت سے کوئی تعلق نہیں۔ بدعت دراصل تعبدی امور میں نئی چیز نکالنے کا نام ہے۔ جہاں تک دنیوی امور (مثلاً جغرافی گلوب) کا تعلق ہے وہ ضروریاتِ انسانی کے تابع ہے۔ ان معاملات میں جو چیز بھی انسان کے لیے مفید ہو اس کو اختیارکرنا عین جائز ہوگا۔
میں نے ایک صاحب سے کہا کہ سید جمال الدین افغانی نہایت ذہین آدمی تھے۔ وہ کئی زبانیں جانتے تھے۔ انھوںنے بہت سے ملکوں کاسفر کیا تھا۔ مگر اس تمام مطالعہ اور مشاہدہ کا نتیجہ صرف یہ نکلاکہ وہ انگریزوں کے دشمن بن گئے جو اس زمانہ میں نو آبادیاتی توسیع کے گویا امام بنے ہوئے تھے۔ سید جمال الدین افغانی نے اپنی پوری زندگی اس مقصد کے لیے وقف کردی کہ وہ مسلم دنیا سے انگریزکے سیاسی کنٹرول کا خاتمہ کردیں۔
منفی سوچ کسی گہری حقیقت کو سمجھنے میں مانع بن جاتی ہے۔ اس اصول کی ایک واضح مثال سیدجمال الدین افغانی ہیں۔ وہ نو آبادیاتی دور کے مثبت پہلو کو سمجھ نہ سکے۔ اصل یہ ہے کہ یہ قانون فطرت کا ایک معاملہ تھا۔ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کی سیاسی توسیعات کا دور شروع ہوا جو کئی صدی تک جاری رہا۔ یہ اس دور کے لیے ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) تھا جس نے دنیا کو جھنجھوڑا اور اس کو توہماتی دور سے نکال کر آزادی کے دور میں پہنچایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہزار سال پہلے اگر مسلمانوں کی سیاسی توسیعات کا واقعہ پیش نہ آتا تودنیا بند ماحول سے نکل کر کھلے ماحول تک نہ پہنچتی۔
اسی طرح نشأۃ ثانیہ (renaissance) کے بعد مغرب کی نو آبادیاتی توسیع کا جو دور شروع ہوا وہ بھی فطرت کی اسکیم کے مطابق تھا۔ دوبارہ یہ ایک شاک ٹریٹمنٹ تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ دنیا کو روایتی دور سے نکال کر اس کو سائنسی دور میںپہنچایاجائے۔ فطری قانون کے زور پر یہ کام بہر حال انجام پایا۔ مگر جہاں تک مسلم رہنمائوں کا تعلق ہے وہ فطرت کی اس اسکیم سے مکمل طور پر بے خبر رہے۔ انھوںنے انتہائی بے خبری اور بے شعوری کے تحت ان مغربی طاقتوں سے نفرت کی اور ان کے خلاف ایک بے معنیٰ جنگ چھیڑ دی۔ یہ جنگ فطرت کی اسکیم کے خلاف تھی۔ چنانچہ وہ حبط اعمال کا شکار ہوگئی۔ جان و مال کی بے شمار قربانیوں کے باوجود اس کاکوئی مثبت فائدہ مسلمانوں کے حصہ میں نہیں آیا۔
مزید عبرت کی بات یہ ہے کہ انہی مغربی قوموں کی بنائی ہوئی دنیا میں جاکر آج کی مسلم نسلیں ہر قسم کے مادی فائدے حاصل کر رہی ہیں۔ جب کہ ان کے باپ اور دادا ان مغربی قوموں کو اسلام کا دشمن بتاکر اس کو ایمان کے منافی سمجھتے تھے کہ ان سے کسی قسم کی قربت یا تعاون کیا جائے۔ غلط رہنمائی کی جو مثال موجود ہ زمانے کے مسلم رہنمائوں نے پیش کی ہے اس کی کوئی دوسری مثال پوری انسانی تاریخ میں نظر نہیں آتی۔ اس قسم کی غیر حقیقت پسندانہ رہنمائی کا انجام اولاً تباہی ہوتاہے اور آخر میں منافقت۔
مجھے اپنی نوجوانی کی عمر کا تجربہ یا د آتا ہے۔ اُتر پردیش میں ہمارے گاؤں کے قریب سے ریلوے لائن گذرتی تھی۔ یہ ریلوے لائن میری پیدائش سے پہلے ۱۹۰۱ میں انگریزوں نے بچھائی تھی۔ اُس وقت وہ میٹر گیج تھی جو اب براڈ گیج ہوچکی ہے۔ یہ ریلوے لائن ہمارے گاؤں سے اتنا زیادہ قریب تھی کہ وہ ہمارے گھر کی چھت سے دکھائی دیتی تھی۔ رات کے وقت ایسا معلوم ہوا تھا جیسے بہت سے روشن ڈبّے سیٹی بجاتے ہوئے زمین پر دوڑ رہے ہیں۔
ریلوے لائن کا یہ واقعہ اس بات کا ایک مظاہرہ تھا کہ موجودہ زمانہ میں ایک نیا علم وجود میںآیا ہے جس کے ذریعہ یہ ممکن ہوگیا ہے کہ غیر متحرک مادہ کو متحرک سواری میں تبدیل کیا جاسکے۔ مگر مجھے یاد ہے کہ ۱۹۴۷ سے پہلے میں اس حقیقت سے شعوری طورپر آگاہ نہ ہوسکا تھا۔ کیوں کہ اس وقت کے لیڈروں اور رہنماؤں نے مجھے صرف یہ بتایاتھا کہ یہ ریلوے لائن در اصل لوہے کی زنجیریں ہیں جن کے ذریعہ انگریز ہم کو اپنی غلامی میںجکڑ دینا چاہتا ہے۔
۱۹۴۷ ک بعد جب میں نے براہِ راست جدید علوم کا مطالعہ کیا ۔ اُس وقت میں نے یہ دریافت کیا کہ ریلوے کا نظام اس بات کی ایک علامت ہے کہ جدید انسان نے کس طرح نیچر کی طاقتوں کو دریافت کیا ہے اور اس کو انسانیت کی خدمت کے لیے استعمال کررہا ہے۔ ۱۹۴۷ سے میری اس بے خبری کا نتیجہ صرف یہ تھا کہ اُس وقت کے رہنماؤں کی تقریر اور تحریریں میرے لیے صحیح پر سوچنے میں رکاوٹ بن گئیں۔
قوموں کو بنانے والے در اصل اُن کے رہنماہوتے ہیں۔ رہنما حالات کا جس طرح مطالعہ کرتے ہیں اُسی طرح عوام اُن کا مطالعہ کرتے ہیں۔ عوام کی سوچ ہمیشہ اپنے رہنماؤں کی سوچ کے تابع ہوتی ہے۔ بہت کم ایسے خوش قسمت لوگ دنیا میں پیدا ہوئے ہیں جو رہنماؤں کی باتوں سے اوپر اٹھ کر سوچیں۔ جو خود اپنے مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعہ اپنی سوچ کا نقشہ بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ پرستی

پچھلی قوموں کی تاریخ دیکھی جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر قوم کا یہ حال ہوا کہ اس نے ماضی کے پیغمبر کو مانا مگر اس نے اپنے ہم زمانہ پیغمبر کا انکار کردیا۔ مثلاً یہودی حضرت موسیٰ کو مانتے تھے مگرجب حضرت مسیح آئے تو انھوںنے مسیح کو ماننے سے انکار کردیا۔ اسی طرح عیسائیوں نے حضرت مسیح کو مانا مگر انھوں نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے سے انکار کردیا۔ یہی تقریباً تمام قوموں کی گمراہی کا حال رہا ہے۔
یہی قوموں کااصل امتحان ہوتا ہے۔ ہر قوم اسی نفسیات میں مبتلا رہتی ہے۔ ہر قوم کا امتحان یہ ہے کہ وہ اپنی اس نفسیات سے باہر آئے، وہ اس معاملہ میں اپنی کنڈیشننگ کو توڑے، وہ مصلحین کو ان کے جوہر (merit) کی بنیاد پر پہچانے، نہ یہ کہ وہ ماضی سے تعلق رکھتے ہیںیا حال سے۔ موجودہ مسلمان بھی مکمل طور پر اسی کمزوری میں مبتلا ہیں۔ وہ اپنے ماضی کے اکابر کی خوب تعریف کرتے ہیں، ان پر سیمینار کرتے ہیں، ان پر مضامین اور کتابیں شائع کرتے ہیں۔ ان کے نام پر ادارے بناتے ہیں وہ بڑے بڑے القاب کے بغیر ان کا نام نہیںلیتے۔ مگر یہی مسلمان حال کے مصلحین کو رد کردیتے ہیں۔ وہ اپنے معاصر دعاۃ اور مصلحین کو حقیر سمجھتے ہیں۔ وہ ان کا ساتھ دینے کے بجائے ان کو بدنام کرتے ہیں۔ یہی نفسیات مسلمانوں کی بربادی اور ناکامی کا اصل سبب ہے۔ مسلمان جب تک اپنے آپ کو اس نفسیات سے باہر نہیں لائیں گے ان کو نہ خالص سچائی ملے گی اور نہ وہ حقیقی معنوں میں کوئی بڑا کام کرسکیں گے۔
خدا پرست انسان وہ ہے جو اس قسم کی نفسیات سے بُلند ہو۔ خدا پرست آدمی کسی انسان کو اُس کی میرٹ کی بنیاد پر پہچانتا ہے، نہ کہ تاریخی روایات کی بنیاد پر۔ خدا پرست آدمی کی نظر معانی پر ہوتی ہے اور تاریخ پرست آدمی کی نظر صرف ظواہر پر۔ خدا پرست انسان چیزوں کو خدا کی نسبت سے دیکھتا ہے، اور غیر خدا پرست انسان چیزوں کو غیر خدا کی نسبت سے۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز ۱۶۳

۱۔ سہارا سمے (ٹی وی چینل) کی ٹیم نے ۳۰ اکتوبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ٹی وی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویور مسٹر ضمیر ہاشمی تھے۔ سوالات کا تعلق اسلام کے مختلف موضوعات سے تھا۔ مثلاً روزہ کے سماجی فوائد، اسلام میں جہاد کا حکم، وغیرہ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں تمام سوالات کے جواب دئے گئے۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ اسلام کی تعلیمات صرف ثواب و عذاب کی اصطلاح میں بیان کرنا کافی نہیں۔ علماء کو یہ کرنا چاہیے کہ وہ جدید ذہن کو سمجھیں اور اسلام کی تعلیمات کو ایسے انداز میں بیان کریں جو آج کے انسان کے لیے قابل فہم ہو۔ جس کو سن کر آج کا انسان یہ سمجھے کہ اسلام موجودہ زمانہ سے بھی اتنا ہی تعلق رکھتا ہے جتنا کہ وہ پچھلے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا۔
۲۔ جوہانسبرگ میں چینل اسلام انٹرنیشنل کے پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز نے ۱۵ منٹ کی ایک تقریر یکم نومبر ۲۰۰۳ کو انگریزی میں کی۔ یہ تقریر دہلی سے ٹیلی فون پر کی گئی جو جوہانسبرگ میں ریڈیو پر نشر کی گئی۔ اس کا موضوع اسلام اور پیس تھا۔
۳۔ انٹر ریلیجس اور انٹرنیشنل فیڈریشن فارورلڈپیس (IIFWP) کے زیر انتظام ایک تین روزہ سیمنار (۷۔۹ نومبر ۲۰۰۳) ہوا جس کا موضوع ’’لیڈرشپ‘‘ تھا۔ یہ سیمینار گڑگاؤں کے رزورٹ بسٹ ویسٹرن کورٹ کنٹری کلب میں منعقد کیاگیا۔ اس کا پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر مختصر اظہار خیال کیا۔
۴۔ اے آر وائی گولڈ (ریڈیو چینل) دبئی کے تحت مسٹر پرویز ہاشمی نے ۲۰ نومبر ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامک سنٹر کا ایک انٹرویو دبئی سے ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر دو موضوع سے تھا— رویت ہلال اور جہاد۔ رویت ہلال کے بارے میں بتایاگیا کہ قرآن میں فمن شہد منکم الشہر فلیصمہ کا لفظ آیا ہے۔ اس سے یہ استنباط ہوتا ہے کہ رصدگاہ کی شہادت شرعی طورپر معتبر ہے۔ اس کو مان لیا جائے تو تمام نزاع اپنے آپ ختم ہوجائے گی۔ جہاد کے بارے میں بتایاگیا کہ جہاد اسلام میں صرف دفاع کے لیے ہے اور اس کا حق صرف باقاعدہ حکومت کو حاصل ہے۔ موجودہ زمانہ میں جہاد کے نام سے جو غیر حکومتی سرگرمیاں جاری ہیں ان میں سے کوئی بھی شرعی جہاد نہیں ہے۔
۵۔ واردھا میں قائم شدہ انسٹی ٹیوٹ آف گاندھین اسٹڈیز کے تحت مختلف مذاہب کا ایک سیمینار ہوا۔ یہ پانچ دن (۲۳۔۲۷نومبر ۲۰۰۳) تک جاری رہا۔ اس میں ہر مذہب کے لیے ایک دن خاص کیاگیا تھا۔ ۲۶ دسمبر کا دن اسلام کے لیے مخصوص تھا۔صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ ۲۶ دسمبر کے اس پروگرام میں تفصیل کے ساتھ اسلام کا تعارف پیش کیا گیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ اس کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۶۔ اہنسا ٹی وی (نئی دہلی) نے ۵ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کاتعلق زیادہ تر اہنسا کے نظریہ سے تھا۔ جوابات میں بتایاگیا کہ اہنسا یا عدم تشدد فطرت کا ایک اُصول ہے۔ اس دنیا میں پُرامن طریق کار کے ذریعہ کام بنتے ہیں اور متشددانہ طریقِ کار کے ذریعہ کام بگڑ جاتے ہیں۔ اسلام میں تشدد کا استعمال صرف ناگزیر دفاع کے لیے جائز ہے۔ دفاع کے سوا کسی اور مقصد کے لیے تشدد ہر گز جائز نہیں۔ اسلام میں اصل اہمیت امن کی ہے۔
۷۔ اہنسا ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم ۵ دسمبر ۲۰۰۳ کو مرکز میں آئی۔ اُس نے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس انٹرویو کا موضوع اہنسا (عدم تشدد) تھا۔ سوالات کے جواب میں بتایا گیا کہ اسلام کی تمام تعلیمات عدم تشدد کے اصول پر مبنی ہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اور فطرت تشدد کو پسند نہیں کرتی۔ اس لیے اسلام میں بھی تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اسلام میں جارحیت کی صورت میں ناگزیر ضرورت کے طورپر دفاعی جنگ جائز ہے۔ جب پُر امن طریقِ کار کا اُصول قابلِ عمل ہو تو ہر گز تشدد کا طریقہ استعمال نہیں کیا جائے گا۔ چنانچہ اسلام میں گوریلا وار، پراکسی وار، اعلان کے بغیر وار اور جارحانہ وار یہ سب سراسر ناجائز ہیں۔
۸۔ ہرمن روبنگھ(Herman Robongh) ایک برطانی اسکالر ہیں۔ آج کل وہ علی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے تحت ریسرچ کررہے ہیں۔ اُن کی ریسرچ کا موضوع مولانا حمید الدین فراہی کا اصول تفسیر ہے۔ اس سلسلہ میں وہ ۵ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز سے ملے اور مذکورہ موضوع پر تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مولانا حمید الدین فراہی نے بعض پہلوؤں سے قرآن کی خدمت کی ہے مگر ان کا یہ کہنا کہ نظم ، قرآن فہمی کی اصل کلید ہے، قابلِ قبول نہیں ہوسکتا ۔اس لیے کہ یہ تصور نہ قرآن و حدیث سے ثابت ہوتا ہے، نہ صحابہ کے اقوال سے اور نہ مفسرین کے اُصول تفسیر میں وہ ملتا ہے۔ مولانا فراہی کی یہ اجتہادی غلطی ہے کہ انہوں نے قرآن فہمی کے سلسلہ میں ایک جزئی پہلو کو کلّی اہمیت دے دی۔
۹۔ دہلی پیس سمٹ (Delhi Peace Summit) کی طرف سے نئی دہلی میں چنمیا مشن کے آڈیٹوریم میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوئی۔ اس میں انڈیا کے علاوہ باہر کے ملکوں کے لوگ شریک ہوئے۔ اُس کا موضوع انٹرفیتھ ڈائیلاگ تھا۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس کے ۸ دسمبر ۲۰۰۳ کے سیشن میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک تقریر کی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ مختلف مذاہب کے درمیان اختلافات ہیں۔ اس کا فارمولا اسلام کی روشنی میں یہ ہے کہ —ایک کی پیروی کرو اور بقیہ کا احترام کرو: (Follow one and respect all) اگر بالفرض دو مذہبوں کے درمیان کسی وجہ سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوجائے تو اُس کو ہمیشہ امن کے دائرہ میں ہونا چاہیے۔ اُس کو کسی بھی حال میں یا کسی بھی عذر کی بنا پر تشدد کا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ اس کانفرنس کی کارروائی پوری کی پوری انگریزی زبان میں ہوئی۔
۱۰۔ چنمیا مشن آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں ۱۸۔۲۱ دسمبر ۲۰۰۳ کو ایک کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس کا موضوع یہ تھا:
Religions in the Indic Civilisation
یہ کانفرنس سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈولپنگ سوسائٹیز ، انٹرنیشنل ایسوسی ایشن فار دی ہسٹری آف ریلیجنس اور انڈیا انٹر نیشنل سنٹر کے تعاون سے کی گئی۔ ۲۱ دسمبر کے سشن میں اس کا موضوع تھا: مختلف مذاہب میں خدا کا تصور۔ اس سشن میں صدر اسلامی مرکز کو خطاب کی دعوت دی گئی۔ پروگرام کے مطابق، انہوں نے گاڈ ان اسلام (God in Islam) کے موضوع پر آدھ گھنٹہ خطاب کیا۔ تقریر کے بعد سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں بتایا گیا کہ خدا کا تصور اسلام میں کیا ہے۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔ اس کانفرنس میں انڈیا اور باہر کے تقریباً ۵۰۰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ خواہش مند افراد کو انگریزی کتابیں برائے مطالعہ دی گئیں۔
۱۱۔ رام کرشنا مشن (نئی دہلی) میں ۲۶ دسمبر ۲۰۰۳ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے۔ اُس کا موضوع تھا: انٹرریلیجس فیلوشپ (Inter-Religious Fellowship)۔ اُس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اُس میں شرکت کی اور وہاں اسلام کے نقطۂ نظر سے مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ اُن کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام امن کا مذہب ہے۔ اُس کی تمام تعلیمات امن اور انسانیت سے تعلق رکھتی ہیں۔ قرآن وحدیث کے دوسرے حوالوں کے علاوہ اُنہوں نے ایک مسنون دعا سنائی اور اس کا انگریزی ترجمہ بتایا جس کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ وہ دعا یہ ہے: اللہم انت السلام و منک السلام والیک یرجع السلام ، حینا ربنا بالسلام و ادخلنا دارک دارالسلام، تبارکت ربنا و تعالیت یا ذا الجلال و الاکرام۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں ہوا۔
۱۲۔ ای ٹی وی (Enadu T.V.) کے اسٹوڈیو(Noida) میں ۲۸ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ٹی وی انٹرویو ریکارڈ کیاگیا۔ یہ آدھ گھنٹہ کے لیے تھا۔ اُس میں سوال و جواب کی صورت میں ’’حج کی حقیقت ‘‘ کے موضوع پر اظہار خیال کیاگیا۔ آخر میں ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ حج کے سلسلہ میں گورنمنٹ کی سبسڈی میں کوئی شرعی قباحت نہیں۔ تمام مسلم ملکوں میں حاجیوں کو سفر حج پر سبسڈی دی جاتی ہے۔ علماء نے اس کو درست مانا ہے۔ اس طرح سبسڈی موجودہ زمانہ میں ایک عُرف بن چکی ہے۔ اس عرف کے مطابق، انڈیا کی گورنمنٹ اگر حاجیوں کو سبسڈی دیتی ہے تو یہ بھی اُسی طرح درست ہے جس طرح مسلم ملکوں میں سبسڈی درست ہے۔ مزید بتایا گیا کہ ہندستان کی حکومت غیر مسلم حکومت نہیں ہے، وہ ایک قومی حکومت ہے۔ انڈیا کے مسلمان یکساں بنیاد پر اس قومی اور جمہوری حکومت میں شریک ہیں۔
۱۳۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکر (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر جیندر کمار چودھری نے ۲۹ دسمبر ۲۰۰۳ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ اس میں ہندو۔ مسلم تعلقات اور انڈیا اور پاکستان کے تعلق کے حوالہ سے بہت سے موضوعات زیر بحث آئے۔ اُس کا خلاصہ یہ تھا کہ ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ برصغیر ہند میں پچھلے سو سال کے اندر کوئی بھی صحیح معنوں میں تعمیری لیڈر پیدا نہیں ہوا جو مثبت معنوں میں کوئی گہرا کام کرے۔ آج ہم اسی کمی کی قیمت ادا کررہے ہیں۔ یہ بات ہندو اور مسلمان دونوں کے لیے درست ہے۔ ایک سوال کے جواب میں کہاگیا کہ علم کو صرف علم کے روپ میں دیکھنا چاہئے، علم کو ہندو اور مسلمان بنانا درست نہیں۔ اس لیے صحیح یہ ہے کہ ہندو یونیورسٹی اور مسلم یونیورسٹی دونوں سے ہندو اور مسلم کا لفظ نکال دیا جائے اور اُس کو صرف بنارس یونیورسٹی اور علیگڈھ یونیورسٹی کہا جائے۔
۱۴۔ بی بی سی لندن(bbc.co.uk) کی طرف سے مسٹر طفیل احمد کے دستخط سے ایک خط مورخہ ۳۱ دسمبر ۲۰۰۳ کو صدر اسلامی مرکز کے نام ملا۔ اس میں ایک مضمون کی فرمائش کی گئی تھی جس کو وہ بی بی سی لندن کے ویب سائٹ پر شائع کریں گے۔ یہ مضمون انگریزی میں ایک ہزار لفظ میں مطلوب تھا۔ اُس کا عنوان یہ تھا:
Relevance of Sufism in the Post -9/11 World
خط میںکہا گیا تھا کہ مضمون میں یہ بتایا جائے کہ کیا صوفی ازم مغرب اور اسلام کے درمیان دوری کو ختم کرسکتا ہے:
If Sufism has the possibility to bridge the widening gulf between the Islamic world and the west.
اس موضوع پر مطلوب مضمون تیار کرکے اُنہیں ۷ جنوری ۲۰۰۴ کو بھیج دیا گیا۔ اس کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ دوری نام نہاد سیاسی اسلام نے پیدا کی ہے اور صوفی اسلام بلا شبہہ اس دوری کو ختم کرسکتا ہے۔ بشرطیکہ صوفی ازم کو جدید تقاضوں کے ساتھ سامنے لایا جائے۔ اس آرٹیکل کو بی بی سی کی ویب سائٹ (bbc.co.uk) پر شائع کیا گیا۔
۱۵۔ ست سری، نئی دہلی میں ۱۵ ہزار گز کے ایریا میں جدید طرز پر ایک ہولسٹک سنٹر (Holistic Centre) بنایا گیا ہے۔ اس کے چئر مین ڈاکٹر بی کے مودی ہیں۔ اس کے افتتاح کے طورپر ۲ جنوری ۲۰۰۴ کو بڑے پیمانہ پر اس کے ہال میں ایک فنکشن کیاگیا۔ اس میں مختلف مذاہب کے نمائندوں نے شرکت کی۔ صدر اسلامی مرکز کو اس میں اسلام کے نمائندہ کے طورپر بلایاگیا۔ وہاں مختلف مذہب کے لوگوں سے ملاقاتیں کیںاور ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں انہوں نے اسلام کے ریفرنس میں امن اور روحانیت کی اہمیت بیان کی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ اسلام مکمل معنوں میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام کے نام پر تشدد کرنے سے کوئی تشدد اسلامی نہیں بن جاتا۔ تشدد ہر حال میں برا ہے۔ تشدد سے کبھی کوئی بہتر نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا۔
۱۶۔ اٹلی کی ایک مذہبی تنظیم ہے۔ اُس کا نام یہ ہے: Association Culture Yogarmonia ۔ اس کا صدر دفتر نوالے(Noale)میں ہے۔ اس کے چیر مین ایٹمبری ماریو (Atombri Morio) ہیں۔ اس تنظیم کے سات ذمہ داروں کا ایک وفد اپنے چیر مین کی قیادت میں۵جنوری ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز آیا اور تقریباً دو گھنٹہ رہا۔ اُنہوں نے اسلام اور روحانیت کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی بات کی۔ آخر میں اُنہیں ایک مسنون دعا سنائی گئی۔ اس کو اُنہوں نے بہت پسند کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس دعا کو ہم اپنے اجتماعات میں پڑھیں گے۔ اُن کی فرمائش کے مطابق، یہ دعا تین طریقہ پر لکھ کر اُنہیں دی گئی۔ عربی متن، عربی الفاظ کو رومن رسم الخط میںاور پوری دعا کا انگریزی ترجمہ۔ وہ دعا یہ تھی: اللہم انت السلام و منک السلام و الیک یرجع السلام۔ ربنا حیینا بالسلام و ادخلنا دارک دارالسلام۔ تبارکت ربنا و تعالیت یا ذا الجلال والاکرام۔
۱۷۔ ایک نئی کتاب تیار ہوئی ہے جو جلد ہی شائع ہوگی۔ تقریباً دو سوصفحہ کی اس کتاب کا نام حکمت اسلام ہے۔ اس میں قرآن اورحدیث کے حوالہ سے اسلام کی حکمتیں بیان کی گئی ہیں۔
۱۸۔ اسلامی مرکز کے تحت کچھ نئی کتابیں چھپی ہیں۔ ایک انگریزی کتاب کا نام ہے: اِن سرچ آف گاڈ۔ اور ایک اردو کتاب کا نام ہے:مطالعۂ حدیث۔
۱۹۔ آل انڈیا ریڈیو (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر اے ایم رضا نے ۱۴ جنوری ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ریڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ ’’صدائے سرحد‘‘ کے تحت تھا۔ سوال یہ تھا کہ حال میں ہند۔پاک تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے جو کوششیں ہوئی ہیں اور دونوں ملکوں کے درمیان بس اور ریل چلائی گئی ہے اُس پر کیا تاثر ہے۔ بتایا گیا کہ یہ کوششیں اچھی ہیں۔ مگر ان سے کسی بڑے نتیجہ کی امید نہیں۔ بڑے نتیجہ کے لیے زیادہ گہری بنیادوں پر فیصلہ لینا ہوگا۔
۲۰۔ ستیہ سائی انٹر نیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۱۴ جنوری ۲۰۰۴ کو ایک سیمینار تھا۔ اس میں ملک کے مختلف اسکولوں کے پرنسپل شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز کو یہ دعوت دی گئی کہ اس میں پانچ انسانی اقدار اسلام کی روشنی میں بتائیں۔ وہ اقدار یہ ہیں:
Truth, Right Conduct, Love, Peace, Non-violence.
اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو ایک گھنٹہ کا وقت دیا گیا تھا۔ اُنہوں نے تفصیل کے ساتھ مذکورہ موضوع پر قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کی۔
۲۱۔ آرنج، کیلی فورنیا (امریکا) میںایک اعلیٰ سطح کا ادارہ ہے۔ اُس کا نام یہ ہے:
Global Ethics and Religion Forum
اس ادارہ کی ایک ٹیم ۱۵ جنوری ۲۰۰۴ کو اسلامک سینٹر میں آئی۔ اُس میں ڈاکٹر جوسف رنزو(Joseph Runzo) اور ڈاکٹر نینسی ایم مارٹن(Nancy M. Martin) وغیرہ شامل تھے۔ وہ اسلام اور مسلمان کے بارہ میں صدر اسلامی مرکز کے خیالات جاننا چاہتے تھے۔ اُنہوں نے اپنے ٹی وی چینل کے لیے صدر اسلامی مرکز کی ایک ٹاک ویڈیو پر ریکارڈ کی۔ یہ پوری ٹاک انگریزی میں تھی اور تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہی۔ اس میں عصر حاضر کے حوالہ سے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تفصیلی اظہار خیال کیا گیا۔ ٹیم کے افراد نے اس کو سُن کر بہت زیادہ پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اس پوری ٹاک کے ویڈیو کیسٹ کی کاپی تیار کرکے وہ اسلامی مرکز کے لیے روانہ کریں اور اُس کو ایڈٹ کرکے اپنے ٹی وی چینل پر نشر کریں گے۔
۲۲۔ روزنامہ راشٹریہ سہارا (نئی دہلی) ک نمائندہ مسٹر ودود ساجد نے ۱۵ جنوری ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو زیادہ تر بابر ی مسجد کے مسئلہ پر تھا۔ اس سلسلہ میں مختلف حوالوں کی روشنی میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ اس معاملہ میں مسلمانوں کو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ ۱۹۴۹ سے لے کر اب تک اس سلسلہ میں جو کوشش کی گئیں وہ سراسر بے نتیجہ رہیں۔ اس لیے اب اس معاملہ میں از سرِ نو نئی پالیسی بنانے کی ضرورت ہے، ایسی پالیسی جو نتیجہ کو سامنے رکھ کر بنائی گئی ہو۔
۲۳۔ دور درشن (نئی دہلی) میں ۱۹ جنوری ۲۰۰۳ کو ایک خصوصی پروگرام ریکارڈ کیا گیا جو ۲۵ جنوری کو دور درشن پر نشر کیا گیا۔اس کے تحت دور درشن کے اسٹوڈیو میں ایک اجتماع کیا گیا۔ اس میں اسٹیج پر اینکر کے علاوہ وشنوہری ڈالمیا (چیر مین وشو ہندو پریشد) اور صدر اسلامی مرکز کو بٹھایا گیا تھا۔ سامنے کی بنچوں پر تقریباً چالیس کی تعداد میں مسلمان موجود تھے۔ اس پروگرام کا موضوع یہ تھا، عقیدہ کا تعلق عدالت سے ہے یا نہیں۔ اینکر کی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے بہت سے سوالات کیے گئے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ اجودھیا کے نزاعی معاملہ کے دو پہلو ہیں۔ ایک یہ کہ رام بھگوان کے اوتار تھے۔ یہ بلا شبہہ ایک عقیدہ کا مسئلہ ہے۔ اس میں عدالت کو دخل دینے کا کوئی اختیار نہیں۔مگر جب یہ کہا جائے کہ رام اجودھیا کے فلاں مخصوص مقام (spot) پر پیدا ہوئے تو یہ تاریخ کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ اب عدالت کو یہ حق حاصل ہوجاتا ہے کہ وہ اس نزاع کا فیصلہ تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر اُس کی بابت فیصلہ دے، اس سے قطع نظر کہ وہ کس کے خلاف ہے اور کس کے موافق۔
۲۴۔ ترکی کی باسفورس یونیورسٹی (استنبول) کے طلبہ کا ایک وفد ۷ فروری ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آیا۔ اس کے قائد پروفیسر مارک لنڈلے(Mark Lindley) تھے۔ یہ لوگ جدید سیاق میں اسلام کو سمجھنا چاہتے تھے۔ اس سلسلہ میں انہوں نے صدر اسلامی مرکز سے تفصیلی گفتگو کی۔ ان کے سوالات کا جواب قرآن و حدیث کی روشنی میں دیا گیا۔ مثلاً ان کا خیال تھا کہ جدید حالات میں اسلام کے قانون پر نظر ثانی کی جائے تاکہ اس کو جدید تقاضوں کے مطابق بنایا جاسکے۔ موجودہ زمانہ میں اس نسبت سے جو غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں وہ اسلام کی غلط تشریح کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں۔ اسلام کو براہ راست قرآن و حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ غلط فہمیاں بے بنیاد ثابت ہوں گی۔
۲۵۔ ۱۹ فروری ۲۰۰۴ کو بی بی سی لندن (ہندی) کی نمائندہ مسز ممتا گپتا نے صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ وہ لندن سے ٹیلی فون پربول رہی تھیں اور صدر اسلامی مرکز نے دہلی سے اس کا جواب دیا۔ ایک سوال یہ تھا کہ حضرت محمد سے پہلے مکہ اور مدینہ کا مذہب کیا تھا اور دوسرا یہ کہ قرآن کا مصنف کون ہے۔ دونوں سوالوں کا جواب اسلامی تعلیم کی روشنی میں دیاگیا۔
۲۶۔ ۲۲ جنوری ۲۰۰۴ کو ہندی روزنامہ دینک بھاسکر (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر بجیندر کمار چودھری نے ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق عید الاضحی اور حج سے تھا۔ مختلف پہلوؤں سے اس پہلو کی وضاحت کی گئی۔ ایک بات یہ کہی گئی کہ عید الاضحی اور حج دونوں کا مشترک پیغام یہ ہے کہ اپنے جذبات، اپنے اہنکار کو قربان کرکے لوگوں کے درمیان جینا سیکھو۔ لوگوں کے ساتھ شانتی سے رہو۔ پیغمبر والی زندگی کو اختیار کرو۔
۲۷۔ ہمالیہ پریوار کی طرف سے ۲۲ فروری ۲۰۰۴ کو کانسٹی ٹیوشن کلب، نئی دہلی میں ایک سیمنار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: ہمالیہ کے علاقہ میں امن کس طرح قائم کیا جائے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اور اسلام کی روشنی میں موضوع پر اظہار خیال کیا۔ مقررین میں دوسرے مقررین کے علاوہ مسٹر بلراج مدھوک بھی تھے۔ اسلام محبت کی تعلیم دیتا ہے۔ نفرت کی تعلیم نہیں۔
۲۸۔ ۲۶ فروری ۲۰۰۴ کو ٹائمس آف انڈیا کی نمائندہ مسز سکینہ یوسف خان نے صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ٹیلیفون پر ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو آنے والے الیکشن کے حوالہ سے مسلم پالیٹکس کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ مسلم عوام سادہ اور انّوسنٹ ہیں۔ مسلم معاملات کو بگاڑنے والے مسلم عوام نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کے نااہل لیڈر ہیں۔ تاہم اب مسلم عوام اُنہیں چھوڑتے جارہے ہیں۔ مسلم عوام میں اب قدیم طرز کی منفی سیاسی سوچ ختم ہورہی ہے، اب اُن کے اندر مثبت سیاسی سوچ اُبھر رہی ہے۔ اور یہ ایک صحت مند علامت ہے۔
۲۹۔ امریکا سے خواجہ کلیم الدین صاحب کا ایک ای میل ملا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
Recently I was browsing throug the internet under the name of Maulana Sahab. To my surprise I found Maulana's referemce over 400 to 700 times under various search engines. I collected various articles and interviews by Maulana Sahab. (January 28, 2004)
خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۶۴
۱۔ کناڈا سے مسٹر آصف کا خط مورخہ ۱۴؍فروری ۲۰۰۴ موصول ہوا۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:
Last Sunday Feb. 8th. Noor Cultural Centre in Toronto had organized a lecture by Dr. Scott Kugle, a research scholar, Duke University, North Carolina. His Email address: Skugle1@swarthmore.edu
His topic of the lecture was: Non-violence in Qur'an. It was a very interesting and informative lecture. The audience thoroughly enjoyed it. From his lecture I assumed that Dr. Scott is a Muslim and has embraced Islam.
In his discourse he talked about the various personalities of India and Pakistan who preached the idea of Non-Violence in their struggles to remove British from India. He talked in detail about the lives and struggles of Maulana Abul Kalaam Azad and Abdul Gaffar Khan.
Then to my pleasant surprise he said, "There is a present day Muslim Scholar-Maulana Wahiduddin Khan-who is also in his books advocates non-violence. He said that Maulana Wahiduddin Khan has written many good books."
After the lecture I went to him and introduced myself. I said I teach Arabic once a week here at the Noor Cultural Centre and that we import books and sell them at cost price so that every one can easily afford them. I said that we import from Goodword Books almost all the books written by Maulana Wahiduddin Khan and they are always available with us and at the prices which are so affordable to everyone.
He was quite surprised to learn this. He has taken my email address. He said that when he comes to Toronto next time Insha Allah he will visit the new NON-PROFIT BOOKSTORE. (Asif, Cananda)
۲۔ ویکلی سہارا (نئی دہلی) کے سب ایڈیٹر محمد اصغرفریدی نے ۲ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر الیکشن اور مسلمان کے موضوع سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ الیکشن کے موقع پر کس پارٹی کو ووٹ دیا جائے اور کس پارٹی کو ووٹ نہ دیا جائے، اس کاتعلق عقیدہ یا مذہب سے نہیں ہے بلکہ ملّی مفادات سے ہے۔ یہ مفادات بھی ابدی نوعیت کے نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں احتجاجی سیاست بالکل بے معنٰی ہے:
Politics is an art of bargaining, rather than an art of protesting and complaining.
ایک بات یہ کہی گئی کہ جمہوری نظام میں کسی پارٹی کو سیاسی اچھوت بنانا کوئی مفید پالیسی نہیں۔ مزید یہ کہ الیکشن کے موقع پر لمبی مدّت کے لیے کسی ملّی مفاد کا حصول ممکن نہیں۔ ایسے موقع پر صرف محدود نوعیت کا کوئی مفاد حاصل کیا جاسکتا ہے۔ الیکشن کی اس نوعیت کو لوگ اپنے ذاتی مفاد کے معاملہ میں خوب جانتے ہیں اور اس کو استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب معاملہ ملّی مفاد کا ہو تو ہر آدمی بڑی بڑی تقریر کرنے لگتا ہے۔ اس قسم کی تقریریں صرف مقرر کی غیر سنجیدگی کا ثبوت ہیں۔
۳۔ مسٹر عرفان احمد، ایم اے ایمسٹرڈم یونیورسٹی میں سوشل سائنس ریسرچ کے تحت ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھ رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں وہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین کے نظریات و افکار کا مطالعہ کررہے ہیں تاکہ اس کی روشنی میں اپنا مقالہ مرتب کریں۔ اس سلسلہ میں وہ ۲ مارچ ۲۰۰۴ کو نئی دہلی میں صدر اسلامی مرکز سے ملے اور موضوع سے متعلق اُن کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین مثبت طرزِ فکر کے حامل نہ تھے، اُن کا فکر وقت کے سیاسی حالات کے ردّ عمل میں بنا۔ اس لیے یہ لوگ اسلام کی مثبت ترجمانی میںکامیاب نہ ہوسکے۔ سیاسی حالات ہمیشہ بدلتے رہتے ہیں۔ صحیح اسلامی تفکیر وہ ہے جو وقتی حالات سے متاثر ہوئے بغیر اسلام کی دوامی تعلیمات کی روشنی میں بنائی جائے۔ اپنے اسی منفی فکر کی بنا پر موجودہ زمانہ کے مسلم مفکرین اسلام کی کوئی مثبت خدمت نہ کرسکے۔
۴۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ایک مفتی صاحب نے فتویٰ دیا ہے کہ جو مسلمان بندے ماترم میں شریک ہوں یا بی جے پی کا ساتھ دیں وہ خارج از اسلام ہیں۔اس کے جواب میں صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ اس قسم کا قتویٰ لا نکفر من اہل القبلہ کے خلاف ہے۔
۵۔ دہلی پریس پرکاشن لمیٹڈ (نئی دہلی) کی طرف سے ایک انگریزی میگزین اَلائیو (Alive) کے نام سے نکلتا ہے (اس کا سابقہ نام کارواں تھا) اس میگزین کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر رام بلاس کمار نے ۱۱ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم پالیٹکس سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ برصغیر ہند میں بد قسمتی سے ۱۰۰ سال سے بھی زیادہ مدت سے ایسے رہنما اٹھے جو صرف حالات کے رد عمل کی پیداوار تھے۔ چنانچہ ان کی سوچ منفی سوچ تھی۔ وہ ملت کو کوئی مثبت ایجنڈا نہ دے سکے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان اب تک شکایت اور احتجاج کے احساس میں جیتے ہیں۔ الیکشن کے موقع پر وہ ہمیشہ نگیٹیو ووٹنگ کرتے ہیں۔ یعنی کسی پارٹی کو اینٹی مسلم پارٹی فرض کرکے اس کے خلاف ووٹ دینا۔ ہمارا مشن یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر مثبت سوچ لائیں۔ دوسروں کی شکایت کے بجائے خود تعمیری کا مزاج پیدا کریں۔
۳۵۔ ایران کلچر ہاؤس اور ہمدرد یونیورسٹی (نئی دہلی) کے تعاون سے ۱۲ مارچ ۲۰۰۴ کو قرآنی علوم (Qur'anic sciences) پر ایک سیمینار ہوا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مذکورہ موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس میں ایک بات یہ بتائی کہ سائنسی تعلیم کی اہمیت صرف مادی ترقی کے اعتبار سے نہیں ہے بلکہ قرآن کو جدید تناظر میں سمجھنا اور جدید نسلوں کے لیے اسلام کو زیادہ قابل فہم بنانا، اس سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے۔
انجمن امن دوست انسان دوست(نئی دہلی) کے تحت راشٹر شکتی فاؤنڈیشن کا سالانہ جلسہ ۱۴ مارچ ۲۰۰۴ کو میر درد روڈ (مہندیان) میں ہوا۔ اس میں صدر اسلامی مرکز کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی۔ اس جلسہ میں وہ بعض اسباب سے نہ جاسکے۔ البتہ انہوں نے ایک تحریری پیغام ان کے لیے بھیج دیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ آج کے ماحول میں انسان دوستی اور امن دوستی کا پیغام بے حد اہم ہے۔ تعمیری سماج بنانے کے لیے یہ دو بنیادی نکتے ہیں۔
۸۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے ۲۲ مارچ ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا ویڈیو انٹرویوریکارڈ کیا۔ اُن کا خاص سوال یہ تھا کہ اخبارات (مثلاً ٹائمس آف انڈیا ۲۱ مارچ ۲۰۰۴) میں یہ خبر چھپی ہے کہ بی جے پی کے لیڈر مسٹر پرمود مہاجن کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر ایک میٹنگ ہوئی جس میں پرائم منسٹر کے اسپیشل سکریٹری مسٹر کُلکرنی بھی موجود تھے۔ اس میں آپ نے شرکت کی اور وہاں ایک تقریر کی۔ آپ کی اس شرکت کو بی جے پی کی حمایت کے معنٰی میں لیا جارہا ہے۔ جواب میں کہا گیا کہ یہ شرکت کوئی نئی بات نہیں تھی۔ یہ الرسالہ مشن کا ایک حصہ تھا۔ الرسالہ کا مشن یہ ہے کہ ہندستان میں ہندو۔ مسلم اتحاد پیدا کیا جائے۔ مسلمانوں میں دو قومی نظریہ کا ذہن ختم کیا جائے اور اس سوچ کو ختم کیا جائے کہ ہندستان دارالکفر یا دار الحرب ہے۔ بلکہ لوگوں کے اندر یہ ذہن پیدا کیا جائے کہ ہندستان دار الانسان ہے۔ کسی کو اینٹی مسلم قرار دے کر اُس سے کٹنا داعی کے لیے جائز نہیں۔ داعی ہر ایک کو مدعو کی نظر سے دیکھتا ہے۔ وہ ہر ملک کو دار الدعوہ سمجھتا ہے۔ یہی الرسالہ کا مشن ہے اور یہ مشن پچھلے تیس سال سے یہاں چلایا جارہا ہے۔
۹۔ بی بی سی انگریزی (اسکاٹ لینڈ) کی ٹیم ۲۳ مارچ ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آئی۔ اس کی قیادت مارک رچرڈ (Mark Richards) کررہے تھے جو کہ بی بی سی میں سینئر پروڈیوسر فیچرس ہیں۔ انہوں نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈکیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر صوفی اسلام اور اس سے تعلق رکھنے والے موضوعات سے تھا۔ مثلاً اسلام میں روحانیت کا تصور۔ اسلام میں میوزک اور قوالی کا تصور وغیرہ۔ جوابات کاخلاصہ یہ تھا کہ روحانیت اسلام کی اصل اسپرٹ ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر روحانیت اور ربانیت پیدا کی جائے۔ جہاں تک میوزک اور قوالی کا تعلق ہے اس کو کچھ صوفیاء نے رواج دیا۔ اس سے صوفیاء کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو اس کے ذریعہ سے اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔ تاہم اس کے بارے میں دو رائیں ہیں۔ جہاں تک علماء کا تعلق ہے وہ میوزک اور قوالی وغیرہ کو پسند نہیں کرتے ۔ مگر صوفیاء اس کو روحانیت پیدا کرنے کے لیے ایک مددگار ذریعہ سمجھتے ہیں۔ (Tel.: 0141-3382721)
۱۰۔ رائٹر نیوز ایجنسی کی نمائندہ مز ماریہ ابراہام نے بمبئی سے بذریعہ ٹیلی فون صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ہندستانی مسلمانوں کی انتخابی پالیسی سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں میںاب بڑے پیمانہ پر نئی سوچ آئی ہے۔ وہ اپنے ووٹ کی طاقت کو زیادہ منصوبہ بند انداز میں کرنا چاہتے ہیں۔ یہ انٹرویو ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو لیا گیا۔
۱۱۔ فکّی آڈیٹوریم (نئی دہلی) میں ۲۵ مارچ ۲۰۰۴ کو ایک عمومی جلسہ ہوا۔ اس میں مسلمان بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی۔ اس جلسہ کا موضوع یہ تھا کہ مسلمانوں کی الیکشن پالیسی کیا ہو۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ مسلمان اب تک زیادہ تر نگیٹیو ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ وہ پازیٹیو ووٹنگ کریں اور ملک میں اپنا تعمیری کردار ادا کریں اور اپنے آپ کو تخلیقی اقلیت ثابت کریں۔
۱۲۔ ہندی روزنامہ دینک جاگرن (نئی دہلی) کے اسپیشل کرسپانڈنٹ مسٹر راج کشور نے ۳۱ مارچ ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر اس سے تھا کہ مسلمانوں کی انتخابی پالیسی کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی انتخابی پالیسی اب کسی قدر بدلی ہے۔ مگر ابھی بہت زیادہ نہیں بدلی ہے۔ مسلمانوں کے اندر منفی سیاست کا رجحان ختم کرکے مثبت سیاست کا رجحان لانے کے لیے لمبے کام کی ضروت ہے۔
۱۳۔ انگر یزی میگزین ٹائم (Time) کے کرسپانڈنٹ مسٹر اروند ادیگا (Aravind Adiga) نے ۴ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ ان کے سوالات کا تعلق زیادہ تر جدید دنیا اور مسلمان سے متعلق تھا، مثلاً اجتہاد اور ریفارم اور جہاداور مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات اور مغربی دنیا کے بارے میں مسلمانوں کا نقطۂ نظر، وغیرہ۔ سوالات کے جواب میں انہیں بتایاگیا کہ بہت سی چیزیں جن کو مغربی میڈیا میں منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کو اسلام سے منسوب کیا جاتا ہے وہ در اصل مسلمانوں کا اپنا فعل ہے نہ کہ اسلام کی اصولی تعلیم ۔ دوسری قوموں سے مسلمانوں کی نفرت سراسر غیر اسلامی ہے کیوں کہ اس قسم کی نفرت اسلام میں جائز ہی نہیں۔ آج کل جہاد کے نام پر جو تشدد کیا جارہا ہے وہ بھی غیر اسلامی ہے کیوں کہ اسلام میں مسلح جہاد صرف حکومت کا حق ہے نہ کہ عوام کا حق ۔دوسرے ممالک ہمارے لیے دار الحرب یا دار الکفر نہیں ہیں بلکہ وہ دار الانسان ہیں۔
۱۴۔ سہارا ٹی وی (نئی دہلی) کے ایک پروگرام کے تحت صدر اسلامی مرکز نے اس کے ایک پینل ڈسکشن میں حصہ لیا۔ اس کا موضوع الیکشن کے حوالہ سے مسلمان اور پالیٹکس تھا۔ اس میں چار افراد نے حصہ لیا۔ یہ پروگرام ۱۶ اپریل ۲۰۰۴ کو ہوا۔ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے بتایاگیاکہ مسلمانوں میں اب ایک نئی سیاسی سوچ اُبھررہی ہے۔ وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ نگیٹیو ووٹنگ کا طریقہ صحیح نہیں۔ نیز یہ بھی صحیح نہیں کہ سیاسی پارٹیوں کو مسلم دشمن اور مسلم نواز کے اعتبار سے بانٹا جائے۔الیکشن میں جمہوریت کی اسپرٹ کے تحت حصہ لینا چاہیے۔ اسی میں ملک کا بھی فائدہ ہے اور اسی میں مسلمانوں کا فائدہ بھی۔
۱۵۔ اچاریہ سوشیل کمار آشر م (نئی دہلی) میں ۱۸ اپریل ۲۰۰۴ کو ایک جلسہ ہوا۔ یہ مختلف مذاہب میں امن کے اشو پر تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اس کی دعوت پر اس میں شرکت کی اور موضوع پر اظہار خیال کیا۔ ان اللہ یعطی علی الرفق ما لا یعطی علی العنف کی روشنی میں بتایا کہ خدا کے قانون کے مطابق، اس دنیا میں صرف امن کا طریقہ ہی موثر اور نتیجہ خیز ہے۔ تشدد کا طریقہ کبھی کوئی مثبت نتیجہ نہیں پیدا کرسکتا۔
۱۶۔ ای ٹی وی (نئی دہلی) میں ۲۴ اپریل ۲۰۰۴ کو ایک پینل ڈسکشن تھا۔ اس میں کئی لوگ شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ مسلمان اور جدید میڈیا پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا سے شکایت کرنا بے فائدہ ہے۔ میڈیا ایک انڈسٹری ہے۔ اپنے انٹرسٹ کے تحت وہ سافٹ نیوز کو چھوڑتا ہے اور ہارڈ نیوز کو لیتا ہے۔ خود مسلمان ان مسلم افراد کی مذمت کریں جو اسلام کے نام سے تشدد کرتے ہیں اور میڈیا کو یہ موقع فراہم کرتے ہیں۔
۱۷۔ ہندی روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے رپورٹر فضل غفران نے ۲۵ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر تعلق مسلمان اور الیکشن سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ سیاست کوئی عقیدہ کی چیز نہیں۔ وہ عملی زندگی کا ایک مسئلہ ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے ملی اور مذہبی مقاصد کو خود اپنے اداروں کے تحت حل کریں۔ سیاست میں انہیں نیشنل اسپرٹ کے ساتھ حصہ لینا چاہیے۔ ان کو چاہیے کہ وہ پولیٹکل پارٹی کو سپورٹ دیتے ہوئے پورے ملک کے مفاد کو سامنے رکھیں۔ ملک کے سیاسی اور اقتصادی مفاد ہی میں مسلمانوں کا سیاسی اور اقتصادی مفاد بھی ہے۔ کسی پولیٹکل پارٹی کو پرومسلم اور کسی پولیٹکل پارٹی کو اینٹی مسلم قرار دے کر اپنا سیاسی پروگرام بنانا جمہوریت میں قابل عمل نہیں۔
۱۸۔ نئی دہلی کے میگزین آؤٹ لک (ہندی ایڈیشن) کی نمائندہ مزگیتا شری نے ۲۷ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر مسلم سیاست سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ انڈیا میں جو پولیٹکل پارٹیاں ہیں ان کو پرومسلم اور اینٹی مسلم میں بانٹنا درست نہیں۔ یہ جمہوری اسپرٹ کے خلاف ہے۔ ہر پارٹی کا اپنا سیاسی انٹرسٹ ہے۔ کوئی بھی پارٹی اینٹی مسلم پارٹی نہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ملک کے تمام لوگوں کو انسان سمجھیں۔ الیکشن کے موقع پر ووٹ دینے میں وہ ملک کے انٹرسٹ کو سامنے رکھ کر ووٹ دیں۔ نہ کہ اس نظریہ کے تحت کہ فلاں پارٹی اینٹی مسلم ہے اور اس کو ہمیں ہرانا ہے۔
۱۹۔ انڈیا ٹوڈے (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر منوج ورما نے ۲۷ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو ٹیلی فون پر ریکارڈ کیا گیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر انتخابی سیاست اور مسلمان سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ مسلمان اپنے حالات کے اعتبار سے اس قسم کی سیاست کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ ایک پولیٹکل پارٹی کو پرومسلم اور دوسری پولیٹکل پارٹی کو اینٹی مسلم ڈکلیر کریں اوراس کے مطابق اپنی سیاست چلائیں۔ انہیں ہر پولیٹکل پارٹی کو انسان پارٹی کی حیثیت سے لینا ہے۔ انہیں منفی سوچ کو چھوڑ کر مثبت سوچ کے تحت اپنی پالیسی بنانا ہے۔ دوسری بات یہ کہی گئی کہ مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ ان کی تعلیمی پس ماندگی ہے۔ سب سے پہلا کام یہ ہے کہ مسلمانوں کو تعلیم میں آگے بڑھایا جائے۔ اس کے بغیر ان کا کوئی مسئلہ حل نہ ہوگا۔ بیلٹ باکس سے ان کی قسمت بر آمد نہیں ہوسکتی۔
۲۰۔ ہندی روزنامہ دینک بھاسکر کے نمائندہ مسٹر سنجے کمار ساہ (Sanjay Kumar) نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق عید میلاد النبی سے تھا۔ جواب میں بتایاگیا کہ عید میلاد النبی در اصل ہندوؤں کے تہوارجنم اسٹمی کی نقل ہے۔ اسلام میں صرف دو تہوار ہیں —عید الفطر اور عیدالاضحی۔ ان کے سوا جو اور تہوار مسلمان مناتے ہیں وہ ان کا اپنا رواج ہے۔ وہ اسلام کی تعلیم نہیں۔(Tel. 9899237833)
۲۱۔ ہندی روزنامہ نو بھارت ٹائمز کے نمائندہ مسٹر سنجے ورما نے ۲۸ اپریل ۲۰۰۴ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر موجودہ الیکشن اور اس میں مسلمانوں کا حصہ کے بارے میں تھا۔ جوابات کے دوران بتایا گیا کہ آج کل بعض نام نہاد مسلم رہنما جو اپیل کررہے ہیں کہ مسلمان بی جے پی کوووٹ دیں اس کا کوئی اثر عملی طور پرہونے والا نہیں۔ اس لیے کہ یہ نام نہاد رہنما وہی ہیں جو اس سے پہلے برابر یہ کہتے رہتے ہیں کہ بی جے پی مسلم دشمن پارٹی ہے اور مسلمانوں کو اسے ہرانا ہے۔ ایسی حالت میں ان کی یہ نئی بات اسی وقت موثر ہوسکتی ہے جب کہ وہ اپنی موجودہ اپیل سے پہلے یہ اعلان کریں کہ اس سے پہلے ہم نادانی میں مبتلا تھے، اب ہم کو سمجھ آئی ہے۔اپنی غلطی کا اعتراف کئے بغیر اس قسم کی اپیلوںکی کوئی اہمیت نہیں۔ کوئی بھی مسلمان موجودہ حالت میں اس کو سنجیدگی سے نہیں لے سکتا۔ اپیل کرنے والا جب اپنی اپیل کی کوئی معقول وجہ نہ بتار ہا ہو تو اس کوسننے والے کیوں کر اسے اہمیت دے سکتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے اندر منفی سیاست کا ذہن پیدا کیا ہے ۔ اب اسی ذہن کو مثبت سیاست پر لانے کے لیے کوئی معقول وجہ بتانی پڑے گی۔ محض موجودہ قسم کی اپیل اس معاملہ میں موثر نہیں ہوسکتی۔
۲۲۔ نئی دہلی کے ای ٹی وی (Eenadu TV) کی ٹیم نے ۲مئی ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ اس کا موضوع عید میلاد النبی تھا۔ اس سلسلہ میں بتایا گیا کہ عید میلادالنبی کو ئی اسلامی تیوہار نہیں وہ مسلمانوں کا اپنا ایک رواج ہے۔ دورِ اول میں اس کا کوئی وجود نہ تھا۔ عرب ملکوں میں اب بھی اس قسم کا تیوہار نہیں منایا جاتا۔ یہ زیادہ تر ہندستان اور پاکستان میں منایا جاتا ہے۔ اس موقع پر جلوس وغیرہ کے جو ہنگامے کئے جاتے ہیں وہ تو درست نہیں البتہ اگر اس دن سیرت کے عنوان پر جلسہ کیا جائے اور پیغمبر اسلام ﷺ کا أسوہ لوگوں کو بتایا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
۲۳۔ بی بی سی لندن سے ۳ مئی ۲۰۰۴ کو ایک ریڈیائی ڈسکشن کا پروگرام تھا۔ ایک صاحب (وسعت اللہ خاں) لندن سے بول رہے تھے، ایک صاحب (سید منور حسین ) کراچی سے بول رہے تھے۔ اور صدر اسلامی مرکز دہلی سے بول رہے تھے۔ موضوع تھا: دور جدید میں اجتہاد—تینوں ایک دوسرے کی آواز سن رہے تھے۔ صدر اسلامی مرکز نے بتایا کہ اجتہاد ایک لازمی ضرورت ہے۔ اس کو کسی بھی حال میں موقوف نہیں کیا جاسکتا۔
۲۴۔ نئی دہلی کے جین ٹی وی (Jain TV) کے اسٹوڈیو میں ۴ مئی ۲۰۰۴ کی شام کو ایک ڈسکشن کا پروگرام ہوا۔ا س میں اینکر(Anchor) کے علاوہ دو آدمی شریک تھے، صدر اسلامی مرکز اور کانگریس کے سینئر لیڈر سید جعفر شریف۔ اس کا موضوع انڈیا کے جنرل الیکشن مئی ۲۰۰۴ میں مسلمانوں کی انتخابی پالیسی تھا۔موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ میں کسی سیاسی پارٹی کا ایڈوکیٹ نہیں۔ میرا ایک روحانی مشن ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان کس کو ووٹ دیں اور کس کو ووٹ نہ دیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مسلمان نگیٹیو ووٹنگ کو چھوڑ دیں اور پازیٹیو ووٹنگ کا طریقہ اختیار کریں۔ مسلم مسائل کو انتخابات کے ساتھ جوڑنا درست نہیں۔ الیکشن میں نیشنل انٹرسٹ کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسی بنانی چاہیے۔ سید جعفر شریف نے اپنی تقریر میں صدر اسلامی مرکز کے نقطۂ نظر کی حمایت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک بڑے عالم دین ہیں۔ہم سب لوگ ان کے قدر داںہیں۔ ان کو کسی ایک سیاسی حلقے سے جوڑنا صحیح نہیں۔ وہ سارے ملک کے لیے قابل احترام بزرگ ہیں۔
۲۵۔ الہدیٰ انٹرنیشنل کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے دبئی (عرب امارات) کا سفر کیا۔ یہ سفر ۵مئی کو شروع ہوا اور ۱۰ مئی ۲۰۰۴ کو ختم ہوا۔ اس سفر کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔
۲۶۔ کشمیر نیوز سروس کے نمائندے مسٹر ماجد جہانگیر اور ان کے ساتھی ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو اسلامی مرکز میں آئے اور ٹیپ ریکارڈر پر صدر اسلامی مرکز کا ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق ان موضوعات سے تھا:اسلام، مسلمان، کشمیر، تعلیم ۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے تمام مسائل کی جڑ تعلیم میں ان کی پسماندگی ہے۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ سب سے زیادہ توجہ تعلیم پر دیں۔
۲۷۔ کشمیر نیوز سروس (سری نگر) کی ٹیم مسٹر ماجد جہانگیر کی قیادت میں ۱۳ مئی ۲۰۰۴ کو مرکز میںآئی۔ انہوں نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کیا۔ ان کے سوالات کا تعلق اسلام اور مسلمانوں سے تھا۔ ایک سوال کے جواب میں کہا گیا کہ مسلمانوں کا مسئلہ خارجی نہیں داخلی ہے۔مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ موجودہ زمانہ میں تعلیم میں پیچھے ہوگئے اسی سے ان کے تمام مسائل پیدا ہوئے۔ کشمیر کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا گیا کہ کشمیر کا مسئلہ کسی آئیڈیلزم کے تحت طے نہیں کیا جاسکتا۔ اس معاملہ میں لوگوں کو حقیقت پسند بننا ہوگا اور اس معاملہ میں حقیقت پسندی یہ ہے کہ جغرافی اعتبار سے اس کا جواسٹیٹس کو (status quo) بن گیا ہے اس کو مستقل حالت کے طورپر مان لیا جائے۔
۲۸۔ نئی دہلی کے میگزین لائف پوزیٹیو (Life Positive) کی خاتون ایڈیٹر مز سواتی چوپڑا (Swati Chopra) نے ۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو کا موضوع موت تھا۔ یعنی اسلام میں موت کا تصور ۔ یہ انٹرویو وہ اپنے میگزین کے خصوصی شمارہ میں شائع کریںگی۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے مطابق موت زندگی کا خاتمہ نہیں بلکہ وہ عارضی زندگی سے نکل کر ابدی زندگی میں داخل ہونا ہے۔ اسلام کے مطابق موجودہ عارضی زندگی امتحان کے لیے ہے۔ امتحان کی مدت پوری ہونے کے بعد آدمی کو موت دی جاتی ہے تاکہ وہ اگلی زندگی میںاپنے عمل کے مطابق جنت یا جہنم میں داخل کیا جائے۔ مزید یہ بتایا گیا کہ موت کے ساتھ احتساب (accountability) کا تصور جڑا ہوا ہے۔ موت آدمی کو یاد دلاتی ہے کہ اس کو صرف ایک محدود مدت تک کی آزادی ہے۔ اس کے بعد وہ خدا کی عدالت میں اپنے عمل کا حساب دینے کے لیے حاضر کردیا جائے گا۔ یہ تصور آدمی کے لیے برائی کے خلاف چیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ آدمی کو مجبور کرتا ہے کہ وہ صحیح زندگی گزارے تاکہ وہ ابدی زندگی میں کامیابی سے محروم نہ ہو۔
۲۹۔ نوئڈا کے اسپورٹس اینڈ کلچرل کلب(Sports and Cultural Club) میں ۲۱ مئی ۲۰۰۴ کو ایک ڈسکورس کا پروگرام ہوا۔ اس میں ایک سو کی تعداد میں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد شریک ہوئے۔ اس کا موضوع تھا: مذہب کے دس آفاقی اصول۔ ہر مقرر کو دس منٹ کا وقت دیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ سوامی گوکل آنند نے ہندوازم کے دس اصول بتائے۔ فادر ڈومینیک امینول نے مسیحیت کے دس اصول بتائے۔ صدر اسلامی مرکز نے اسلام کے دس اصول بتائے۔ یہ دس اسلامی اصول یہ تھے—انسانی اخوت، مذہبی ٹالرینس ، صلح اور ایڈجسٹمنٹ، پڑوسی کو تکلیف نہ دینا، نرمی کا طریقہ، تواضع، لایعنی کام نہ کرنا، بڑے شر سے بچنے کے لیے چھوٹے شر کو گوارا کرنا، غصہ اور انتقام نہیں، پر امن طریقۂ کار نہ کہ پرتشدد طریقۂ کار۔ یہ پورا پروگرام انگریزی میں تھا۔ سامعین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ سامعین میں ہر مذہب کے لوگ شریک تھے۔ تقریر کے بعد سوال و جواب ہوا۔ حاضرین کو اسلام کے موضوع پر چھوٹی چھوٹی کتابیں بھی دی گئیں۔
۳۰۔ نئی دہلی کے منداکنی انکلیو کے علاقہ میں این آرآئی کامپلیکس (N. R. I. Complex) میں ۲۳مئی ۲۰۰۴ کو تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ایک اجتماع ہوا۔ اس اجتماع میں صدر اسلامی مرکز کو تقریر کے لیے یہ عنوان دیا گیا تھا:
How to strike a balance between materialism and spirituality.
انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ اسلام میں رہبانیت کا تصور نہیں ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مادی دنیا میں رہتے ہوئے روحانیت کو حاصل کیا جائے۔ اسلام میں روحانیت کا ذریعہ توسم ہے۔ یعنی مادی چیزوں سے روحانیت اور ربانیت کا سبق لینا۔ مادی تجربہ کو روحانی تجربہ میں کنورٹ کرنا۔ توسم کی اس صلاحیت کے لیے آدمی کو اپنے آپ کو تیار کرنا پڑتا ہے۔
۳۱۔ مرکزی سیاسی لیڈر پرمود
مہاجن کی رہائش گاہ (نئی دہلی) پر ایک میٹنگ ہوئی۔ اس میں زیادہ تر مسلم دانشور شریک ہوئے۔اس کو مسٹر سدھیندر کلکرنی کی طرف سے آرگنائز کیا گیا تھا۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی۔ اس کا موضوع الیکشن اور مسلمان تھا۔ صدر اسلامی مرکز نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہندستانی مسلمان عام طور پر الیکشن کے موقع پرنگیٹیو ووٹنگ کرتے رہے ہیں۔ وہ انڈیا کی سیاسی پارٹیوں کو پرومسلم اور اینٹی مسلم میں بانٹتے ہیں۔ یہ منفی سیاست مسلمانوں کے لیے تباہ کن ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر نظر ثانی کریں اور مثبت سیاست کا طریقہ اختیار کریں۔
ماہنامہ الرسالہ کاانگریزی ایڈیشن بمبئی سے شائع ہورہا ہے۔ایڈیشن کانام دی اسپریچول میسیج (The Spiritual Message) ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے:
دی اسپریچول میسیج، فی کاپی 15/- روپئے، سالانہ 165/- روپئے۔
۴۵۔ امید کہ مزاج بخیر ہوگا۔ ۹۹ ء میں آپ کو ایک خط لکھا تھاآپ نے جواب میں تحریر فرمایا تھا کہ فخر نہ ہو۔ خط پڑھ کر مجھے احساس ہوا کہ شاید میں نے کوئی ایسی بات لکھ دی تھی جس کی بنا پر آپ نے یہ نصیحت کی۔ ۱۹۹۸ء سے مسلسل آپ کی کتابوں کو پڑھتا ہوں مزید یہ کہ تذکیر القرآن ایک مرتبہ ختم کرچکا ہوں تقریباً تین سال لگے۔ اور دوسری مرتبہ میں اب تک ۲۲ پارہ ہوچکا ہے۔ سلسلہ وار پڑھنے کے علاوہ دن میں بھی کئی مرتبہ مختلف جگہوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوتا ہے۔ مسلسل پڑھنے کی وجہ سے اندازہ ہوا کہ ہمارا مرض در اصل فخر ہے اور یہ کوئی اتفاقی بات آپ نے تحریر نہیں کی تھی بلکہ حقیقت کی ترجمانی۔ ایسے امراض سے اپنے آپ کو بچانے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ میں یہاں وسئی (تھانہ مہاراشٹرا) میں امام ہوں(Tel. 0-9822196889)۔۰ ۱۹۹ میں دیوبند کی فراغت ہے۔مگر اپنے آپ کو اس سے کبھی مستثنی نہیں سمجھا کہ میں تو عالم ہوں اور مجھے اصلاح کی ضرورت نہیں۔ بلکہ عالم ہونے کے باوجود سچ پوچھئے تو صبر وشکر، در گذر، معافی، معاملہ فہمی وغیرہ جیسی اسلام کی بے شمار تعلیمات اور خوبیاں آپ کی تحریروں سے مجھے معلوم ہوئیں۔ داعیانہ جذبہ تھا اس لیے مجھے سمجھنے میں بہت آسانی ہوئی اور آپ کی تحریروں سے صحیح رہنمائی ملی۔ یہ اللہ کا مجھ پر بڑا فضل و احسان ہے۔ ان باتوں کی طرف لوگوں کی بھی رہنمائی کرتا ہوں۔ کافی لوگ بنیادی مقاصد سے آگاہ ہونے لگے۔ جس بنیادی تعلیمات سے مسلمان کوسوں دور ہوگئے تھے عامۃ الناس کے ساتھ خواص بھی، یہ آپ کی خصوصیت ہے کہ آپ نے اس کی طرف لوگوں کی رہنمائی بالکل بروقت اور ابتداء سے کی۔ آپ کی تحقیق، تجزیہ رہنمائی بالکل صحیح سمت میں ہے اور عین قرآن و سنت کی روشنی میں ہے۔ موجودہ طریقۂ کار آپ کی نایاب دریافت ہے چودہ سو سال پہلے کی اور میری دریافت آپ ہیں۔
آپ کی اس تحریک سے بہت لوگ نالاں ہیں جس کا اظہار اکثر اخباروں میں رکیک الزامات کے ذریعہ وہ کرتے ہیں۔ انہیں الزامات میں سے ایک الزام مضمون کی شکل میں یہاں اردو ٹائمز میں شائع ہوا تھا’’مولانا وحید الدین خاں صلح حدیبیہ سے پہلے بیعت رضوان بھی ہے‘‘ اس میں بے شمار الزامات لگائے گئے تھے۔ عبارت کی کتر و پیوند کے ساتھ۔ پڑھنے کے بعد طبیعت نہیں مانی اور خدا کے سامنے مسئولیت کے خوف نے اپنی حیثیت کے مطابق اس بات پر آمادہ کیا کہ اس کا جواب لکھا جائے۔ جواب لکھا اور اسی اخبار میں دیا۔ دومہینہ کی تاخیر سے انہوں نے اشاعت کی۔ لوگ بہت خوش ہوئے۔ کئی ایک فون آئے۔ اب تک کوئی تردیدی مضمون دو مہینے گذر گئے نہیں آیا اور نہ ہی کسی کا فون آیا۔ میں نے فون نمبر اسی غرض سے دیا تھا کہ اگر کسی کو کچھ سوال کرنا ہو تو کرسکے اور ذہن کی صفائی ہوجائے۔ اب لوگوں نے دوسرا رخ اختیار کرلیا ہے اور وہ ہے سیاسی میدان۔ یہاں سے لوگ شدومد کے ساتھ الزامات لگارہے ہیں اور اخبار والے اپنی دکان چمکا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ لوگوں کی غلط رہنمائی کررہے ہیں۔ اگر یہ درست کہ آپ نے
اٹل بہاری واجپئی کی حمایت کی ہے تو مجھے اس کی معقولیت میں ذرا بھی شک نہیں۔ ممکن ہے اس طرح مسلمانوں کا سیاسی استحصال بند ہوجائے اور ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان فاصلے کم ہوں اور سابقہ لوگوں کا قائم کیا نفرت کا ماحول ختم ہو اور ملک بھی گندی سیاست سے نجات پا جائے اور مدعو قوم کا اعتماد بحال ہو۔ ورنہ اس ملک کو سیاسی استحکام نہ ملنے کی بنا پر کوئی تباہی سے نہیں بچا سکتا اور خود مسلمانوں کی تباہی بھی یقینی ہے۔ اقتدار پاکر وہ اس ملک کو اسپین اور اسرائیل بنا دیں گے، ایسا خیال کرنا قرآن و سنت ، خدا اور پیغمبر کی نفی کرنا ہے۔ اور بقیہ حالات سب ٹھیک ہیں۔ میرے لیے دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے استقامت عطا فرمائے اور امت مسلمہ کو صحیح سمت میں آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (مولاناعبد السبحان خاں، تھانہ، مہاراشٹرا)
واپس اوپر جائیں