Pages

Sunday 1 December 2002

Al Risala | December 2002 (الرسالہ،دسمبر)

2

- فرقوں میں بٹ جانا

3

- مثبت فکر

4

- سوال و جواب (فرائیڈے اسپیشل کے لئے)

39

- ایک خط

43

- ایک خط


فرقوں میں بٹ جانا

اور تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے اور باہم اختلاف کیا جب کہ ان کے پاس واضح دلائل آچکے تھے۔ اور ان کے لئے بڑی سزا ہے۔ (آل عمران ۱۰۵)
جب کسی قوم کی توجہ خدا کی طرف سے ہٹتی ہے تو اس کی توجہ اپنے آپ کی طرف لگ جاتی ہے۔ اب اس کے افراد کے اندر خود پسندی اور مفاد پرستی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کا نتیجہ افتراق اور اختلاف ہے۔ جب لوگوں کی توجہ خدا کی طرف لگی ہوئی ہو تو آپس کا اختلاف قدرتی طورپر دب جاتا ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ باہمی اتحاد ہو تا ہے۔ اس کے برعکس جب لوگو ں کی توجہ اپنی ذات کی طرف لگ جائے تو ہر ایک کی رائے اور ہر ایک کا مفاد الگ الگ ہو جاتا ہے۔اس کے قدرتی نتیجہ کے طورپر باہمی اختلاف اور آپس کا ٹکراؤ پیدا ہو تا ہے۔
اتحاد خدا سے خوف کا لازمی نتیجہ ہے، اور اختلاف خدا سے بے خوفی کا لازمی نتیجہ۔کسی مذہبی گروہ میں اختلاف اس بات کی علامت ہے کہ اس کی زندگی تقویٰ کی پٹری سے اتر کر کسی اور پٹری پر چلنے لگی ہے۔اتحاد نام ہے اختلاف کے باوجود متحد ہونے کا۔ مختلف اسباب سے ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان طرح طرح کے اختلاف پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ اختلافات ناگزیر ہیں۔ کسی بھی تدبیر سے اختلافات کے وجود کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایسی حالت میںاصل چیز یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے درمیان سرے سے اختلاف موجود نہ ہو۔ اصل چیز یہ ہے کہ لوگوں کے اندر یہ مزاج پایا جائے کہ وہ اختلاف کے باوجود باہم مل کر کام کرسکیں۔
یہ مزاج لوگوں کے اندر کسی برتر مشن کے نتیجہ میں پیدا ہوتاہے۔ خدا کا سچا عقیدہ لوگوں کے اندر یہی مزاج پیدا کرتا ہے۔ خدا کی عظمت کا تصور لوگوں کی نظرمیں بقیہ تمام چیزوں کی اہمیت کو گھٹا دیتا ہے۔ مزاج کی یہ تبدیلی لوگوں کے اندر یہ حوصلہ پیدا کرتی ہے کہ وہ اختلاف کو نظر انداز کرکے باہم متحد ہو جائیں۔
واپس اوپر جائیں

مثبت فکر

دور اول کے مسلمانوں نے جو بے نظیر کامیابی حاصل کی اس کا سب سے بڑا راز یہ تھا کہ ان میں کا ہر فرد مکمل معنوں میں مثبت سوچ (Positive Thinking) کا مالک تھا۔ وہ ،قرآن کے مطابق عسر میں یسر کا پہلو تلاش کر لیتا تھا۔ وہ بظاہر شکست کے واقعہ میں فتح کا راز دریافت کر لیتا تھا۔ اس کے لئے پوری دنیا اپنی تمام وسعتوں کے ساتھ مثبت خوراک کا دستر خوان بن گئی تھی۔ مسلمانوں کا یہی مزاج تقریباً ہزار سال تک جاری رہا۔ انیسویں صدی میں جب مسلم سلطنتیں اہل مغرب کے ہاتھوں ٹوٹ گئیں تو اس کے بعد جو مسلم رہنما اٹھے وہ رد عمل کی نفسیات میں مبتلا ہو چکے تھے ۔انہوں نے دور جدید کی مسلم نسلوں کو احتجاجی ذہن میں مبتلا کر دیا۔ ساری دنیا کے مسلمان ، خواص اور عوام دونوں احساس محرومی (Persecution Complex) میں مبتلا ہوگئے۔ اس نازک تاریخی موقع پر مسلم رہنمائوں کی اس غلطی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان اس نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا گئے جس کو انگریزی میں پیرا نوئیا(Paranoia) کہاجاتاہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار کر لیںگے اور اگر وہ فلاح کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اختیار نہ کریں گے (الاعراف۔۱۴۶)
اس کو دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ لوگ منفی پکار کی طرف تیزی سے دوڑتے ہیں، مگر مثبت پکار کی طرف وہ اس طرح نہیں دوڑتے اس کا سبب یہ ہے کہ منفی کلام حال کی زبان میں ہوتا ہے اور مثبت کلام ہمیشہ مستقبل کی زبان میں ، اور تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ مستقبل کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت تھوڑے ہوتے ہیں اور حال کی زبان سمجھنے والے ہمیشہ بہت زیادہ۔
اس دنیا میں ہر قسم کی ناکامیوں کا راز منفی طرز فکر ہے اور ہر قسم کی کامیابی کا راز مثبت طرز فکر۔ منفی طرز فکر ہر قسم کی دینی اور اخلاقی برائیوں کا سر چشمہ ہے اور مثبت طرز فکر اس کے مقابلے میں ہر قسم کے دینی اور دنیوی خیر کا سر چشمہ ۔
واپس اوپر جائیں

سوال وجواب

(سہ ماہی السلام، نئی دہلی کے سوال نامے کا جواب)
سوالات
۱۔ اسلام اگر ایک مہذب اور مثقف مذہب ہے تو وہ دوسرے مذاہب کی توہین کیوں کرتا ہے۔ اگر اس کی روحانی اور عملی قدریں بہت بلند ہیں تو وہ دیگر اقوام کے لیے تحقیر آمیز الفاظ کیوں استعمال کرتا ہے، کیا یہ ایک مذہب کا دوسرے مذہب کے تئیں نفرت کا اظہار نہیںہے؟۔
الف۔ جب مشرک کو اسلام کی مذہبی کتابوں میں نجس کہا جاتا ہے اور ان کی بنائی ہوئی چیزوں کو چھونے سے روکا جاتا ہے اور اسلامی سلطنت میں برابر کے حقوق نہیں دیئے جاتے ہیںتو کیا اسلام کا ہندو دھرم یا دیگر مذاہب کے ساتھ برا سلوک نہیں ہے؟
ب۔ اسلام کی مذہبی کتابوں میں کافر اور مشرک کا لفظ کچھ اس طرح استعمال کیا گیا ہے کہ اس سے ہندو دھرم کے ماننے والوں کو مراد لے کر کم تر درجے کا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیا یہ مناسب بات ہے؟۔
ج۔ قرآن میں جگہ جگہ کافروں سے لڑنے اور مشرکین کا خون بہانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ یہ بات ایسی صورت حال میں اور بھی خطرناک ہو جاتی ہے جب کافر سے ہندو دھرم کے ماننے والے ہی مراد لئے جاتے ہیں، تو کیا خونریزی کی یہ تعلیم امن و امان کے خلاف ایک نظریاتی اور عملی کوشش نہیں ہے؟۔
۲۔ جہاد کے بہت سے معانی ہوتے ہیں لیکن اس کا اصل معنٰی اس قوم کے ساتھ جنگ کرنا ہے جو مسلمان نہ ہو۔ گویا مسلم قوم کی سیاسی بالادستی کے لئے لڑائی کرنا ۔ کیا اس خیال کی تشہیر منطقی اور معقول بات ہے؟۔
۳۔ اسلام پر ایک الزام ہے کہ وہ نوع انسانی کو دو حصوں، مسلم و کافر میں تقسیم کرتا ہے۔ مسلمان نہ ہونے کی صورت میں کافر قرار دیتا ہے۔ ہندو سماج کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ چکی ہے جس کی وجہ سے دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں، نفرت و عناد جنم لیتی ہے اور فرقہ وارانہ فسادات ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے۔
قرآن کریم کی وہ آیات جن پر اکثر و بیشتر اعتراضات کئے جاتے ہیں۔ ان میں سے چند حسب ذیل ہیں:
الف۔ انما المشرکون نجس (التوبہ ۲۸)
ب۔ فاقتلوا المشرکین حیث وجدتموہم وخذوہم واحصروہم واقعدوا لہم کل مرصد (التوبہ ۵)
ج۔ لایتخذ المؤمنون الکافرین اولیاء من دون المؤمنین و من یفعل ذالکفلیس من اللہ فی شئ الا ان تتقوا منھم تقٰۃ (آل عمران ۲۸)
د۔ یا ایہا الذین آمنوا لاتتخذوا عدوی وعدوکم اولیاء تلقون الیہم بالمودۃ وقد کفروا بما جاء کم من الحق ( الممتحنۃ ۱)
ہ۔ یاایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم و ماواہم جہنم وبئس المصیر (التوبۃ ۷۳)
و۔ ایہا الجاہلون (قل افغیر اللہ تأمرونی اعبد ایہا الجٰہلون) (الزمر ۶۴)
ز۔ یا ایہا الذین آمنوا قاتلوا الذین یلونکم من الکفار ولیجدوا فیکم غلظۃ (التوبۃ ۱۲۳)
ح۔ یا ایہا النبی حرض المؤمنین علی القتال، ان یکن منکم عشرون …الخ (الانفال ۶۵)
ط۔ قاتلوا الذین لایؤمنون باللہ والیوم الآخر ولا یحرمون ما حرم اللہ و رسولہ ولا یدینون دین الحق من الذین اُوتوا الکتب حتی یعطوا الجزیۃ عن یَد وہم صٰغرون (التوبہ ۹۲)
جوابات
۱۔ یہ بات سراسر خلاف واقعہ ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کی توہین کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات میں سے ایک تعلیم یہ ہے کہ دوسرے مذاہب کو بُرا نہ کہا جائے ۔ کیوں کہ اس سے مذاہب کے درمیان باہمی احترام کا ماحول ختم ہوتا ہے (الانعام ۱۰۸) اسی طرح یہ بات بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلام دوسری قوموں کی تحقیر کرتا ہے۔ اس کے برعکس، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے پیغمبروں نے اپنے غیر مسلم معاصرین کوہمیشہ ’’ائے میری قوم‘‘ کہہ کر خطاب کیا (الأعراف ۵۹)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے مطابق، دیگر اقوام کو نہ غیر قوم سمجھنا درست ہے اور نہ اُن کے ساتھ بُرا سلوک کرنا جائز ہے۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق، کھُلے دشمن کے ساتھ بھی نفرت کرنا جائز نہیں (فصلت ۳۴) ۔ ایسی حالت میں صرف مذہبی فرق کی بناپر نفرت کرنا کیسے جائز ہوسکتا ہے۔
الف۔ یہ کہنا درست نہیں کہ اسلام میںمشرک کو عمومی طورپر نجس قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کی آیت انما المشرکون نجس (التوبہ ۲۸) کا یہ مطلب نہیں۔ یہ آیت محدود زمانی مفہوم میں ہے۔ اس میں ’’المشرکون‘‘ سے مراد صرف عرب کے وہ قدیم مشرک ہیں جو پیغمبرﷺکے ہم عصر تھے۔ اُنہوں نے کسی حق کے بغیر یہ کیا تھا کہ حضرت ابراہیم کے تعمیر کیے ہوئے دار التوحید کو ظلماً دارالاصنام بنا دیا تھا۔ اس لیے رسول اللہ کے ان معاصر لوگوں کے بارے میں قرآن میں یہ حکم آیا کہ ـــیہ مشرکین نجس ہیں۔ اس لیے وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے نزدیک نہ آئیں (التوبہ ۲۸)۔
اسی طرح یہ بات بالکل غلط ہے کہ مشرکین کی بنائی ہوئی چیزوں کو چھونا اسلام میں ناجائز ہے۔ یہ سراسر بے بنیاد بات ہے۔ اس کی کوئی اصل اسلام کی تعلیمات میں نہیں۔ خود رسول اللہ ﷺنے مشرکین کی بنائی ہوئی چیزوں کو مَس کیا ہے۔ حال میں کچھ لوگوں نے یہ ’’فتویٰ‘‘ دیا کہ امریکہ کی مصنوعات کو مسلمان نہ خریدیں۔ یہ بلاشبہہ ایک خود ساختہ فتویٰ ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بھی سراسر بے بنیاد ہے کہ اسلامی سلطنت میں غیر مسلموں کو برابر کے حقوق حاصل نہیں۔ بین اقوامی امور میں اسلام کا وہی مسلک ہے جو دوسری قوموں کا مروّجہ مسلک ہے۔ اس لیے آج اگر اسلامی ریاست قائم ہوتو اُس میں غیر مسلموں کو وہی حقوق دیے جائیں گے جو اقوام متحدہ کے منشور کے مطابق عالمی حقوق سمجھے جاتے ہیں (سیرت ابن ہشام، الجزء ۴؍۲۷۲)۔
ب۔ اسلام انسانی برابری کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام میں کم تر انسان اور برتر انسان کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن کی مدنی سورتوں میں بعض مقامات پر کافر یا کفار کا لفظ آیا ہے۔ مگر یہ لفظ خدا کی طرف سے ہے، نہ کہ اہلِ اسلام کی طرف سے۔ مثلاً نبوت کے تیرہویں سال قرآن میں یہ آیت اُتری کہ: قل یا ایہا الکافرون (الکافرون ۱) ۔مگر رسول یا اصحاب رسول نے کبھی اپنے ہم عصر غیرمسلموں کوایہا الکافرون کہہ کر خطاب نہیں کیا۔ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد صحابہ و تابعین ایشیا اور افریقہ کے مختلف ملکوںمیں پھیل گئے جہاں کی آبادی اُس وقت غیر مسلموں پر مشتمل تھی۔مگر کسی بھی ملک میں اُنہوں نے یہ نہیں کیا کہ وہاں کے لوگوں کو ’’اے کافرو‘‘ کہہ کر خطاب کریں۔ اس کے برعکس اُنہوں نے یہ کیا کہ کوئی قوم اپنے آپ کو جو نام دیئے ہوئے تھی اُسی نام سے اُس کو پکارا۔ مثلاًشام میںنصاریٰ، فلسطین میں یہود، ایران میں مجوس، چین میں بوذا، ہندستان میں ہندو، مصر میں قبطی، وغیرہ۔
ج۔ یہ بات سراسر بے بنیادہے کہ قرآن میں کافروں اور مشرکوں سے لڑنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ کافروں اور مشرکوں کے مقابلہ میں قرآن کا حکم اصلاً صرف ایک ہے، اور وہ تبلیغ ما أنزل اللہ (المائدہ ۶۷) ہے۔ یعنی خدا کی دی ہوئی تعلیمات کو انتہائی پُر امن انداز میں لوگوں تک پہنچانا۔ اگر مخاطبین کی طرف سے اذیت رسانی ہو تب بھی پُر امن رویّہ پر قائم رہتے ہوئے پیغام رسانی کا کام جاری رکھنا۔ جہاں تک لڑائی یا جنگ کا تعلق ہے، اُس کی اجازت صرف اُس وقت ہے جب کہ اہل اسلام کے خلاف کھلی جارحیت کی جائے اور اُن کو مجبورانہ دفاع کے تحت لڑنا پڑے۔ (البقرہ ۱۹۰، الحج ۳۹)۔
ہندو دھرم کے ماننے والوں کو کافر کہنا سراسر غیر اسلامی ہے، بلکہ وہ ایک گناہ کا فعل ہے۔ کافر سے مراد کوئی نسل یا گروہ نہیں۔ کافر کا مطلب ہے انکار کرنے والا۔ انکار کا تحقق صرف اُس وقت ہوتا ہے جب کہ کسی گروہ پر دعوت کا پُر امن عمل کیا جائے اور اُس کو تمام ضروری شرائط کی ادائیگی کے ساتھ اتمام حجت تک پہنچا دیا جائے، اس کے باوجود وہ گروہ انکار کی روش پر قائم رہے۔ مزید یہ کہ اس انکار کا تعلق مکمل طورپر انسان کی نیت سے ہے اور نیت کا حال صرف اللہ کو معلوم ہے۔ اس لیے کسی فرد یا گروہ کو کافر (منکر) قرار دینا صرف اللہ عالم الغیب کا حق ہے۔ اس مفہوم کے اعتبار سے کوئی ایک نسل کافر (منکر) ہوسکتی ہے جس پر اتمام حجت کیا گیا ہو۔ اُس کی بعد کی نسلوں پر پھر بھی اس لفظ کا اطلاق نہیںہوگا۔
یہی وجہ ہے کہ ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمانوں نے کبھی کسی قوم کو کافر کا لقب نہیںدیا، وہ اُنہیں ان کے معروف نسبتی نام سے پکارتے رہے۔ یہ زبان پچھلے دو سو سال کے دوران استعمال ہوئی ہے جب کہ مسلمانوں کو غیر مسلم قوموں کے مقابلہ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ درحقیقت موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی طرف سے احساس نفرت کا اظہار تھا، نہ کہ احساس دینی کا اظہار۔ اس اعتبار سے یہ کہنا درست ہوگا کہ ظہور اسلام کے بعد ایک ہزار سال تک مسلمان اپنے دوردعوت میں تھے اور اب وہ اپنے دور نفرت میں ہیں۔ کافر اور دشمن کے الفاظ در اصل مذہبِ نفرت کی پیداوار ہیں، نہ کہ مذہبِ اسلام کی پیداوار۔
خونریزی اسلام کی تعلیم ہی نہیں۔ اسلام کی تمام تعلیمات امن اور انسانی خیر خواہی پر مبنی ہیں۔ اس مسئلہ پر اسلام کے نقطۂ نظر کو میں نے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جو ماہنامہ الرسالہ اکتوبر ۲۰۰۲ میں ’’امن کلچر‘‘ کے عنوان سے شائع ہوچکا ہے۔
۲۔ جہاد کا لفظی مفہوم کوشش یا جدوجہد ہے۔ اس سے مراد اسلام کے دعوتی مقصد کے لیے پُرامن جدوجہد کرناہے۔ جہاد کا کوئی بھی براہ راست تعلق جنگ سے نہیں۔
قرآن میں جنگ کے لیے قتال کا لفظ آیا ہے۔ مگر قرآن کے مطابق، قتال کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ غیر مسلموں پر مسلمانوں کا غلبہ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے۔ اس قسم کی جنگ قرآن کے مطابق، نہ جہاد ہے اور نہ قتال۔ بلکہ وہ ایک قومی سرکشی ہے جس کا اسلامی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں۔ اس قسم کی جنگ فساد ہے، نہ کہ جہاد۔ جو نظریہ سرے سے درست ہی نہ ہو اُس کی تشہیر کیو ں کر معقول ہوسکتی ہے۔
۳۔ یہ سراسر الزام ہے کہ اسلام میں نوع انسانی کو مسلم و کافر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ قرآن میں بار بار ایہا الانسان اور ایہا الناس کا لفظ استعمال ہوا ہے جن کی مجموعی تعداد قرآن میں ۳۱۵ ہے۔ اس سے اور دوسری قرآنی آیتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک زمین پر بسنے والے تمام لوگوں کی اصل حیثیت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ وہ انسان ہیں۔ تمام لوگ بنی آدم ہونے کی حیثیت سے یکساں طورپر بنی آدم کا حصہ ہیں۔ ان میں سے جن لوگوں کو خدائی حق کی معرفت ہوجائے اور وہ اُس کو قبول کرلیں تو وہ اللہ کے نزدیک مومن قرار پائیں گے۔ ہندو سماج کے ذہن میںاس سلسلہ میں جو غلط فہمی پیدا ہوئی ہے اُس کا سبب اسلام کی حقیقی تعلیمات نہیں ہیں بلکہ کچھ مسلمانوں کی غلط نمائندگی ہے۔ چنانچہ جو ہندو مسلمانوں کی روش سے قطع نظر کرکے براہ راست طورپر اسلام کا مطالعہ کرتے ہیں وہ کبھی اس غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتے۔ اس معاملہ کی ایک مثال ڈاکٹر نشی کانت چٹو پادھیا ہیں۔ ان کا پورا واقعہ خود اُنہی کے الفاظ میں، راقم الحروف کی کتاب اسلام ری ڈسکورڈ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
ہندستان میں جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے یا ہورہے ہیں، اُن کا کوئی بھی تعلق اسلام کی تعلیمات سے نہیں ہے۔ وہ براہ راست طورپر دو قومی سیاست اورتقسیم ملک کی غیر فطری تحریک کا نتیجہ ہیں۔ اس کا سادہ ثبوت یہ ہے کہ اس غیر فطری اور غیر دانش مندانہ تحریک سے پہلے تقریباً ہزار سال تک ہندو اور مسلمان بر صغیر ہند میں مل جل کر رہتے تھے۔ اُن کے درمیان کبھی وہ چیز مشاہدہ میں نہیں آئی جس کو آج کل فرقہ وارانہ فساد کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ وارانہ فساد یقینی طورپر تقسیم کے غیر فطری عمل کا نتیجہ ہے، نہ کہ اسلام کی تعلیم کا نتیجہ۔
سوال نامے میں قرآن کی ۹ آیتوں کا حوالہ دیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ اعتراض کرنے والے انہی آیتوں کو لے کر اعتراض کرتے ہیں۔ مگر یہ تمام اعتراضات صرف غلط فہمی پر مبنی ہیں۔ ان محوّلہ آیتوں کا جواب مختصر طورپر یہاں درج کیا جاتا ہے۔
(الف) قرآن میںنجس کا لفظ صرف رسول کے اُن معاصر لوگوں کے بارے میں آیا ہے جنہوں نے ناجائز طورپر بیت اللہ میں ۳۶۰ بُت رکھ دیئے تھے۔ اُن کے بارے میں کہا گیا کہ آئندہ وہ بیت اللہ کے قریب نہ آئیں (التوبہ ۲۸) یہ حکم خصوصی ہے، نہ کہ عمومی۔
(ب) قرآن کی جس آیت میں مشرکین کے قتل کا حکم ہے، اُس سے مراد رسول اللہ کے وہ معاصر لوگ ہیں جو مکہ میں تھے اور جنہوں نے اپنے مسلسل عمل سے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ ظالم اور جارح لوگ ہیں۔ اس حکم کا دوسری اقوام یا دوسری نسلوں سے کوئی تعلق نہیں۔
(ج) قرآن کی جس آیت میں یہ حکم آیا ہے کہ اہل ایمان اہل کفر کو اپنا اولیاء نہ بنائیں اُس سے مراد زمانۂ رسالت کے وہ مخصوص اہل کفر ہیں جنہوں نے یک طرفہ طورپر دشمنی اور جارحیت کی روش اختیار کر رکھی تھی۔ یہ حکم بھی یقینی طورپر وقتی اور خصوصی ہے، نہ کہ ابدی اورعمومی۔
(د) اسی طرح قرآن کی جس آیت میں اہل ایما ن کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے عدو سے مودت کا طریقہ اختیار نہ کریں، اُس کا تعلق صرف عرب کے ایک جارحگروہ سے ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک استثنائی حکم ہے۔ جہاں تک عداوت کے مقابلہ میں اسلام کے عمومی حکم کا تعلق ہے، وہ قرآن کی سورہ نمبر ۴۱، آیت نمبر ۳۴ میں بیان ہوا ہے۔ اس کے مطابق، اہل اسلام کو اپنے اعداء کے مقابلہ میں رد عمل کا طریقہ نہیں اختیار کرنا چاہئے بلکہ انہیں یک طرفہ حُسن سلوک کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔
(ہ) قرآن کی جس آیت میں کفار اور منافقین سے جہاد کا حکم دیا گیا ہے اُس سے مراد ہر گز جنگ نہیں ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی منافقین سے جنگ نہیں کی۔ یہ دراصل تشدیدی لحظہ کی ایک مثال ہے جس کو مُصلح بعض اوقات اصلاح کے لیے اختیار کرتا ہے۔
(و) قرآن کی جس آیت میں جاہلون کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اُس سے مراد ناواقف اور بے خبر ہونا ہے۔ یعنی بے خبر لوگوں کو ایسا نہیں کرنا چاہئے کہ وہ باخبر شخص سے بے دلیل تکرار کرنے لگیں۔
(ز) مذکورہ آیت میںکفارسے مراد جارح کفار ہیں۔ یہ آیت بھی قرآن کے ایک خصوصی اور زمانی حکم کو بتاتی ہے، نہ کہ عمومی اور ابدی حکم کو۔ اس میں مسئلۂ جارحیت کا حکم بتایا گیا ہے، نہ کہ مذہبی اختلاف کا حکم۔
(ح) اس نمبر کے ذیل میں قرآن کی جس آیت کا حوالہ دیاگیا ہے اُس کا تعلق اُن لوگوں سے ہے جنہوں نے یک طرفہ جارحیت کرکے اہلِ اسلام پر حملہ کردیا ہو اور اہلِ اسلام کو دفاع کے طور پر اُن سے لڑنا پڑے۔
(ط) اس آیت کا تعلق بھی حالت جارحیت سے ہے۔ اس آیت میں لا یدینون دین الحق کا لفظ صرف قید اتفاقی کے طورپر آیا ہے۔اس حکم کا انطباق صرف دور اوّل کے کچھ لوگوں پر کیا گیا۔ اس کے بعد اس حکم کی توسیع نہیں کی گئی، جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہے۔
آخر میںعرض ہے کہ قرآن کی مذکورہ آیتوں کا جو مفہوم راقم الحروف نے یہاں بیان کیا ہے وہ ان آیتوں کا کوئی نیامفہوم نہیں۔ قرون مشہود لہا بالخیر میں عام طورپر ان آیتوں کا یہی مفہوم سمجھا گیا ہے اور اسی کے مطابق، عمل کیا جاتا رہا ہے۔ میں نے اپنی تحریروں میں اسلام کے اس پہلو کو تفصیل کے ساتھ واضح کیا ہے۔ مثال کے طورپر ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب: دین انسانیت۔
تاہم موجودہ زمانہ میں کچھ مسلمانوں کو مذکورہ تشریحات اجنبی معلوم ہو سکتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں میں ایک نئی کمزوری پیدا ہوئی ہے جو اس سے پہلے کبھی مسلمانوں میں نہ تھی۔ اور وہ ہے غیر مسلموں کے خلاف نفرت۔ آج کل کے مسلمان عام طورپر غیر مسلموں کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں جیتے ہیں۔ اور جو لوگ نفرت کی نفسیات میں جیتے ہوں وہ منفی باتوں کو تو خوب سمجھیں گے مگر مثبت باتیں ان کے لیے اجنبی ہو جائیں گی۔ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کی یہ حالت اُس حدیث رسول کے عین مطابق ہے جس میں پیشگی طورپر یہ خبر دی گئی تھی کہ: بدأ الاسلام غریبا وسیعود کما بدأ (مسلم کتاب الایمان، الترمذی کتاب الایمان، ابن ماجہ کتاب الفتن، الدارمی کتاب الرقاق، مسند احمد)یعنی اسلام شروع ہوا تو وہ لوگوں کے لیے اجنبی تھا اور دوبارہ وہ لوگوں کے لیے اجنبی بن جائے گا جیسا کہ وہ پہلے اجنبی تھا۔ ۲۶؍ ستمبر ۲۰۰۲
سوال و جواب
(پندرہ روزہ فرائیڈے اسپیشل، نئی دہلی کے سوالنامے کا جواب)
سوالات
۱۔ جماعت اسلامی کی اب تک کی سب سے بڑی کامیابی کیا ہے؟
۲۔ ایک خیال یہ ہے کہ جماعت اسلامی اقامت دین کی جدو جہد کے ساتھ اقامت سیکولرزم کے لئے بھی کوششیں کر رہی ہے۔
۳۔ جماعت اسلامی میں ممتاز علمائے کرام نظر نہیں آتے جیسا کہ ماضی میں تھا۔ کیا علماء کا طبقہ ا س کی طرف نہیں آرہا ہے۔ آخر کیوں؟
۴۔ جماعت اسلامی میں مجموعی طور پر اشاعت دین کا وہ جذبہ نظر نہیں آتا جو قدیم کارکنوں کے یہاں تھا۔ کیا یہ قیادت کی کمزوری ہے یا ارکان کی تربیت میں کمی آگئی ہے؟
۵۔ کارکنوں کے باہمی تعلقات میں بھی دوریاں پیدا ہوگئی ہیں اور ’’بنیان مرصوص‘‘ والی کیفیت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی۔
۶۔ الیکشن کے معاملہ پر جماعت اسلامی میں اکثر و بیشتر شدید اختلافات پیدا ہوتے رہے ہیں۔ کیا مٹھی بھر افرادی قوت رکھنے والی پارٹی کو متنازع معاملات میں اپنی قوت صرف کرنی چاہئے۔ بعض حلقے اسے شمالی اور جنوبی ہند کی کشمکش سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوبی ہند کے لوگوں کو فرقہ وارانہ عصبیت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہے۔ ان میں مصالحت اور ہم آہنگی کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے جب کہ شمالی ہند کے حالات بالکل مختلف ہیں۔
۷۔ آپ کو نہیں لگتا کہ جماعت اسلامی ایک مقام پرآکر ٹھہر گئی ہے اور اس پر فکری جمود طاری ہے۔ تخلیقی لٹریچر میں جس طرح خود کو دہرایا جارہا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لکھنے والوں کی بھی کمی ہوگئی ہے۔
۸۔ ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ عصر حاضر کے مفکر اسلام مولانا مودودیؒ پر خصوصی نمبر شائع کرنے جارہا ہے جس میں مختلف پہلوؤں سے ان کی شخصیت پر مضامین شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ اس کے تحت مولانا مرحوم کی قائم کردہ جماعت اسلامی سے متعلق مذکورہ سوال نامہ آپ کی خدمت میں ارسال کیاجارہا ہے۔ہمیں امید ہے کہ آپ اس کا مفصل جواب عنایت فرمائیں گے ۔
جوابات
۱۔ جماعت اسلامی کے اپنے نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اُس کی سب سے بڑی کامیابی یہ کہی جاسکتی ہے کہ اس نے ۱۹۴۰ کے بعد ایک معمولی تنظیم کی حیثیت سے اپنا آغاز کیا اور اب جماعت اسلامی مادی اعتبار سے ایک مؤسسہ(stablishment) کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ مؤسسہ کے بیشتر ظاہری لوازم اُس نے اپنے گرد جمع کرلیے ہیں۔ لیکن اگر اسلام اور ملّتِ اسلام کے اعتبار سے دیکھا جائے تو شاید جماعت اسلامی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں ۔
اسلام کے اعتبار سے جماعتِ اسلامی کی سب سے بڑی فکری ناکامی یہ ہے کہ اُس نے اسلام کی غلط تعبیرپیش کی۔ اُس نے اسلام کو، وقت کے مروّجہ مزاج کے مطابق، سیاست کی اصطلاحوں میں بیان کیا۔ اس کا ثبوت جماعت اسلامی کا پورا لٹریچر ہے۔ اس لٹریچر نے جن لوگوں کو متاثر کیا اُن کا حال یہ ہوا کہ وہ اسلام کو ایک قسم کا سیاسی نظریہ سمجھنے لگے۔ نتیجۃً اسلام کا اصل پہلو، خشوع اور تقویٰ اور انابت اور اخبات اور ربانیت جیسی چیزیں اُن کے ذہن میں اپنا حقیقی مقام نہ پاسکیں۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی عملاً ایک قسم کی سیاسی پارٹی بن کر رہ گئی۔
۲۔ یہ خیال بجائے خود درست ہے۔ مگر یہ جماعت اسلامی کی مجبوری ہے، نہ کہ اُس کے نقطۂ نظر سے کوئی انحراف۔ اصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اقامت دین کا ایک خود ساختہ تصور پیش کیا۔ اس خود ساختہ تصور کے مطابق، اقامت دین کا مطلب یہ تھا کہ اسلام کو ایک مکمل قانونی اور سیاسی نظام کے طورپر قائم کیا جائے۔ میرے نزدیک یہ نظریہ غیر اسلامی بھی تھا اور غیر حقیقی بھی۔ چنانچہ جب واقعی حالات سے سابقہ پیش آیا تو معلوم ہوا کہ یہ رومانی تخیل حقائق کی دنیا میں قابل عمل ہی نہیں۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، تجربہ ثابت کرتا ہے کہ جماعت اسلامی کا مفروضہ اقامتِ دین وہاں بھی قابل عمل نہیں۔ مگر پاکستان کے مخصوص حالات کی بنا پر وہاں کم ازکم یہ ممکن ہے کہ سیکولرزم کے خلاف شور و غل کا ہنگامہ جاری رکھا جائے۔ چنانچہ جماعت اسلامی پاکستان میں یہی کام کررہی ہے۔ اگر چہ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ پاکستان میں جماعت اسلامی کی حیثیت ایک ایسی جماعت کی بن گئی جو صرف ازعاج کی صفت (nuisance value) رکھتی ہے۔ وہ مشکلات پیدا کرنے والی(trouble maker) تو ضرور ہے مگر وہ کوئی تعمیری رول ادا کرنے والی نہیں۔
جہاں تک ہندستان کا تعلق ہے، ۱۹۴۷ کے بعد یہاں کے افراد جماعت بھی، جماعت اسلامی کے بانی کی تقلید میں سیکولرزم کو باطل اور غیر اسلامی نظریہ بتاتے رہے۔ مگر ایک عرصہ کے بعد اُن پر کھلا کہ ہندستان جیسے ملک میں سیکولرزم کو باطل قرار دینے کے بعد اُن کے لیے دو میں سے ایک کا چوائس باقی رہتا ہے۔ یا تو وہ یہاں کے نظام کو طاغوتی نظام قرار دے کر اُس سے لڑیں اور اس راہ میں مرتے رہیں۔ یا پھر مصالحت کا طریقہ اختیار کرکے سیکولرزم کے زیر سایہ زندگی کا استحقاق حاصل کرلیں۔
سیکولرزم کے معاملہ میں جماعت اسلامی نے یہی مصالحانہ انداز اختیار کیا۔ میرے نزدیک سیکولرزم نہ تو طاغوتی نظریہ ہے اور نہ وہ غیر اسلامی ہے۔ سیکولرزم کے تحت ہم انتہائی جائز طورپر کسی ملک میں زندگی گذار سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی اگر کھلے طورپر اس قسم کا اعلان کرتی تو وہ موجودہ تضاد کا شکار نہ ہوتی۔ مگر ایسی صورت میں اُس کو یہ اعلان کرنا پڑتا کہ سیکولرزم کے بارے میں اُس کا پچھلا نظریہ غلط اور انتہا پسندانہ تھا۔ اُس نے اس معاملہ میں اپنی غلطی کا اعتراف نہیںکیا اور غلطی کا اعتراف نہ کرنے کی قیمت ہمیشہ یہ دینی پڑتی ہے کہ آدمی تضاد فکری اور تضاد عملی کا شکار ہوجائے۔
۳۔ یہ صحیح ہے کہ جماعت اسلامی کے ابتدائی دور میں کچھ ممتاز علماء وقتی طورپر اُس میںشریک ہوگئے تھے۔ ایک عرصہ کے بعد وہ اُس سے الگ ہوگئے۔ میرے نزدیک اس معاملہ میں اصل غلطی ممتاز علماء کی ہے، نہ کہ جماعت اسلامی کی۔ یہ علماء میرے نزدیک زیادہ غور وفکر کے تحت جماعت اسلامی میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ وہ زیادہ تر رومانی تخیل کے تحت اُس میں شریک ہوئے تھے۔ اور جب حالات نے رومانی تخیل کو توڑ دیا تو اس کے بعد اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اُس سے الگ ہو جائیں۔
اس سلسلہ میں ایک بات یہ ہے کہ جو علماء جماعت اسلامی میںشمولیت کے بعد اُس سے الگ ہوئے، اُن سب کے علیٰحدگی کا ایک ہی مشترک سبب تھا۔ اور وہ یہ کہ اُنہیں جماعت اسلامی کی عملی سیاست سے اختلاف تھا، نہ کہ فکری معنوں میں اس کے نظریہسے۔ اصولی طورپر اس قسم کی علیٰحدگی کے لیے کوئی مبرّر(justification) موجود نہیں۔
اس معاملہ میں صرف راقم الحروف کا استثناء ہے۔ جماعت اسلامی سے میری علیٰحدگی عملی اختلاف کی بنیاد پر نہ تھی بلکہ تمام تر فکری اور نظریاتی اختلاف کی بنا پر تھی جس کی تفصیل میری کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اس لیے جماعت اسلامی سے علیٰحدگی کے لیے میرے پاس تو مبرّر ہے مگردوسرے علماء کے پاس اس کا کوئی مبرّر نہیں۔
۴۔ جماعت اسلامی کے ماضی اور حال میں یہ فرق ضرور پایا جاتا ہے۔ مگر یہ فرق فطری ہے۔ جماعت اسلامی کے قدیم کارکن وہ لوگ تھے جو جماعت کی پہلی نسل کی حیثیت رکھتے تھے اور اُس کے موجودہ کارکن اُس کی دوسری نسل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اور کسی بھی جماعت یا تحریک کی ابتدائی نسل اور بعد کی نسل میں اس قسم کا فرق پیدا ہونا تقریباً لازمی ہے۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قدیم کارکن بھی اْس زمانہ میں جو کام کرتے تھے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے اشاعت دین کا کام نہ تھا بلکہ اشاعت سیاست کا کام تھا۔ یہ لوگ دین کے نام پر جماعت اسلامی کے بانی کا وہ لٹریچر پھیلاتے تھے جو حقیقی معنوں میں اسلام کی مطلوب تشریح نہیں ہے بلکہ وہ اسلام کی خودساختہ سیاسی تشریح ہے۔ میرے نزدیک ایسے کسی کام کو اشاعت دین کا عنوان نہیں دیا جا سکتا۔
۵۔ کارکنوں کے باہمی تعلقات کے بارے میں یہ شکایت بالکل درست ہے۔ مگر اس کا تعلق عروج و زوال کے فطری قانون سے ہے، نہ کہ خود جماعت اسلامی کے کسی داخلی سبب سے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ ہر جماعت یا تحریک کی بعد کی نسلوں میں وہی گراوٹ آجاتی ہے جس کا مشاہدہ جماعتِ اسلامی کے موجودہ افراد میں کیا جا رہا ہے۔
۶۔ الیکشن کے معاملہ میں جماعت اسلامی کے لو گوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جماعت کے بانی نے ’’ طاغوتی نظام‘‘ کے نام سے جو نظریہ پیش کیا، اُس کے مطابق،سیکولر جمہوری ریاست کے اندر الیکشن میںحصہ لینا حرام قرار پاتا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، تقسیم ملک کے بعد جماعتِ اسلامی کے بانی نے ایک دستوری نکتہ نکال کر یہ اعلان کر دیا کہ پاکستان کی ریاست نے کلمہ پڑھ لیا ہے اس لیے پاکستان میں الیکشن میں حصہ لینا جائز ہوگیا ہے۔
مگر ہندستان میں یہاں کی ریاست کے بارے میں اس قسم کی ’’کلمہ گوئی‘‘ کا بہانہ موجود نہ تھا۔ ایسی حالت میں جماعت اسلامی کے مبینہ نظریہ کے مطابق، ہندستان میں الیکشن میں حصہ لینا بدستور حرام تھا۔ مگر دھیرے دھیرے جماعت اسلامی والوں کو محسوس ہوا کہ اس قسم کا نظریہ سراسر ایک غیر عملی نظریہ ہے۔
اب جماعت اسلامی والوں کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ یہ اعلان کردیں کہ اُن کا طاغوتی نظام کا فلسفہ ایک انتہا پسندانہ نادانی تھی۔ وہ ایک سیاسی غلو تھا جس کا تعلق نہ اسلام سے ہے او رنہ عقل سے۔ اگر وہ اس طرح اپنی غلطی کا اعلان کردیتے تو وہ کھلے طورپر الیکشن میں حصہ لے سکتے تھے۔ مگر انہوں نے ایسا اعلان نہیں کیا۔ اس کے نتیجہ میں جماعت اسلامی دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک وہ لوگ ہیں جو اعترافِ خطا کے بغیر الیکشن میں حصہ لینا درست سمجھتے ہیں اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو بانی جماعت کی تقلید میں بدستور الیکشن کو حرام سمجھ رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کے لیے اس مسئلہ کا حل یہ ہے کہ وہ یہ اعلان کردے کہ اُس کا سابقہ طاغوتی نظریہ درست نہ تھا۔ اس اعلان کے بغیر یہی ہوگا کہ کچھ لوگ مصلحت پسندانہ طورپر الیکشن میں حصہ لیں گے اور کچھ لوگ تقلیدی طورپر اُس کو حرام سمجھتے رہیں گے۔
۷۔ جماعت اسلامی میں ٹھہراؤ اور جمود کی بات بلاشبہہ درست ہے۔ مگر اس کا سبب لکھنے والوں کی کمی نہیں ہے بلکہ جماعت اسلامی میں اعتراف کی کمی ہے۔اصل یہ ہے کہ جماعت اسلامی کا فکر ایک رومانی دور میں بنا۔ اس کے فطری نتیجہ کے طورپر جماعت اسلامی نے ایک ایسا فکری نظام بنایا جو عملی سے زیادہ تخیّلاتی تھا۔ اس قسم کی رومانیت (romanticism) کا نتیجہ ہمیشہ یہی ہوتا ہے جو جماعت اسلامی کے اندر پیش آیا۔ اس مسئلہ کا واحد حل یہ ہے کہ جماعتِ اسلامی میں وہ تحریک چلے جس کو عام طورپر تحریک نظر ثانی (revisionism) کہا جاتا ہے۔ یعنی جماعت اسلامی کے لوگ کھلے طور پریہ مانیں کہ اُن کی جماعت کے بانی نے فکری ناپختگی کی بنا پر غلط نظریات قائم کیے اور اسلام کی ایسی تشریح کی جس کا تعلق نہ دین سے تھا اور نہ عقل سے۔ اس حقیقت واقعہ کو مان کر جماعت اسلامی کے فکر پر نظر ثانی کی جائے اور اس کی تصحیح کرکے اُس کو شریعت اور حقائق کے مطابق بنایا جائے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی کی مذکورہ کمزوری اپنے آپ دور ہوجائے گی۔
جماعت اسلامی جس نظریہ پر اُٹھی وہ یہ تھا کہ انسانی اقتدار کا نام طاغوت ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، موجودہ دنیا میں ہر جگہ طاغوتی نظام قائم ہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس طاغوتی نظام کو توڑ کر خدائی اقتدار کا نظام قائم کرے۔ اس کوشش کے بغیر جو موت ہوگی وہ جاہلیت کی موت ہوگی۔
یہ نظریہ نہ صرف خود ساختہ تھا بلکہ وہ ناقابلِ عمل بھی تھا۔ اس لیے جماعت ِ اسلامی کے لوگ دھیرے دھیرے اس نظریہ سے ہٹنے لگے۔ یہاں تک کہ وہ دوسری مسلم جماعتوں کی طرح، صرف ایک ملّی جماعت بن کر رہ گئے۔ اس گراوٹ کے بعد اُن کے اندر وہ تمام خرابیاں آگئیں جو کسی جماعت کے اندر اُس وقت پیدا ہوتی ہیں جب کہ اُس نے اعلان کے بغیر اپنا موقف بدل لیا ہو۔ اس کے بعد جماعت اسلامی اُسی طرح ایک مسلم قومی جماعت بن گئی جس طرح آر۔ ایس۔ ایس ایک ہندو قومی جماعت ہے۔
اگر کوئی شخص ایسا کرے کہ وہ ایک طرف آر ایس ایس کے آرگن، پانچ جنیہ اور آرگنائزر کے ایک سال کے شمارے اکٹھا کرے اور دوسری طرف وہ جماعت اسلامی کے آرگن دعوت اور ریڈینس کے ایک سال کے شمارے اکٹھا کرے اور پھر دونوں کا تقابلی مطالعہ کرے تو وہ پائے گا کہ الفاظ کے فرق کے ساتھ دونوں میں حیرت انگیزمشابہت ہے۔ آر ایس ایس کے پرچے اگر اینٹی ہندو سازشوں اور اینٹی ہندو سرگرمیوں کے انکشاف کا دفتر ہیں تو جماعت اسلامی کے پرچے اینٹی مسلم سازشوں اور اینٹی مسلم سرگرمیوں کے انکشاف کا دفتر۔ یہ مشابہت اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پانچ جنیہ اور آرگنائزر ہندوؤں کے دعوت اور ریڈینس ہیں اور دعوت اور ریڈینس مسلمانوں کے پانچ جنیہ اور آرگنائزر۔
اس کانتیجہ یہ ہے کہ پانچ جنیہ اور آرگنائزر پڑھنے والے ہندو جس طرح مسلمانوں کے بارہ میں منفی سوچ کا شکار ہو جاتے ہیں، ٹھیک اسی طرح دعوت اور ریڈینس پڑھنے والے بھی اینٹی ہندو سوچ کا شکارہیں۔
اس منفی ذہن نے جماعت اسلامی کے افراد کو بیک وقت دو برے تحفے دیے ہیں۔ اس منفی ذہن کی بنا پرایک طرف وہ لوگ دعوت کے قابل نہیں رہے ہیں۔ دعوت مدعو کے حق میں گہری خیرخواہی کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اب جو لوگ اپنے مدعو کے خلاف منفی سوچ میں مبتلا ہوں وہ مدعو کے حق میں یک طرفہ خیر خواہ نہیں بن سکتے۔ اس طرح کی منفی سوچ آدمی کو دعوت کے عمل کے لیے بالکل نا اہل بنا دیتی ہے۔ آج کل جماعت اسلامی کے لوگ دعوت کے نام سے جو کچھ کررہے ہیں، وہ میرے نزدیک ایک قسم کا پروفیشن ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی سنجیدہ مشن۔ وہ صرف ایک ظاہری نوعیت کا جماعتی پروگرام ہے، نہ کہ لعلّک باخع نفسک (الشعراء ۳) کی نفسیات کے تحت ظاہر ہونے والا کوئی ربّانی عمل۔اس منفی سوچ کا دوسرا اس سے بڑا نقصان یہ ہے کہ آدمی کا سینہ مثبت نفسیات سے خالی ہو جائے گا۔ اور جس آدمی کا سینہ مثبت نفسیات سے خالی ہو وہ اعلیٰ ربّانی احساسات کا تجربہ نہیں کرسکتا۔ اُس کی زندگی میں بظاہر نماز روزہ دکھائی دے گا۔ مگر اس کا یہ نماز روزہ اُس کی زندگی کا صرف ایک رسمی حصہ ہوگا۔ وہ ربّانی نفسیات کا اظہار نہیں ہو سکتا۔
۸۔ مولاناابوالاعلیٰ مودودی کی قائم کردہ جماعت اسلامی کے بارے میں میں نے اوپر اپنے خیالات کا اظہار کردیا ہے۔ جہاں تک مولانا مودودی کی شخصیت کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں عرض ہے کہ میرے مطالعہ کے مطابق، وہ کوئی مفکر (thinker) نہ تھے۔ آج کل ایک عجیب ر واج یہ ہوگیا ہے کہ لوگ اپنی محبوب شخصیتوں کو خوش عقیدگی کے تحت مفکر لکھ دیا کرتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس لفظ کا یہ استعمال درست نہیں۔آج کل جن مسلم افراد کو مفکر کا نام دیا جاتا ہے، وہ سب یا تو شاعر تھے یا خطیب تھے یا ادیب۔ ذاتی طورپر میں مولانا مودودی کو ادیب اور انشا پرداز سمجھتا ہوں، نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی مفکر۔
مفکر یا تھنکر وہ ہے جو بصیرت (vision) کا حامل انسان ہو۔ جو اپنی بڑھی ہوئی تحلیلی قوت کے ذریعہ حال میں مستقبل کو دیکھے۔ جو متفرق حقائق کو ایک داخلی وحدت (inter-related whole) میں تبدیل کرسکے۔ جو ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان اُس فرق (difference) کو جانے جو صحت تفکیر کے لیے ضروری ہے۔ جو قریبی حالات سے اوپر اُٹھ کر سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ جس کی سوچ مکمل طورپر رد عمل سے خالی ہو۔ جو منفی سوچ سے پوری طرح پاک ہو اور خالص مثبت سوچ کے تحت رائے قائم کرسکے۔
میرے نزدیک موجودہ زمانہ کی مسلم شخصیتوں میں سے کوئی بھی شخصیت (بشمول مولانا مودودی) ان شرائط پر پوری نہیں اترتی۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی مفکر کہے جانے کی مستحق نہیں۔ ان لوگوں کی فکر ردعمل کے تحت بنی جب کہ مفکر وہ ہے جو ابدی حقائق کی روشنی میں سوچ سکے۔
میرے نزدیک جماعت اسلامی کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ اُس نے اپنے غیر فطری نظریہ کی بنا پر اپنے پیروؤں کو ایک دو طرفہ مشکل میں ڈال دیا۔ اب اُن کے لیے صرف دو میں سے ایک کا چوائس موجود ہے۔ یا تو وہ جماعت کے بانی کے نظریہ کے مطابق، طاغوتی نظام سے بے فائدہ لڑائی لڑ کر اپنے آپ کو تباہ کرلیں یا اپنے اور اپنے بچوں کی انٹرسٹ کی خاطر منافق بن کر زندگی گذاریں۔
جماعت اسلامی کے مبیّنہ نظریہ کے مطابق، آج کی پوری دنیا میں طاغوتی نظام قائم ہے اور طاغوتی نظام سے سمجھوتہ اُن کے نزدیک ہر حال میں حرام ہے۔ اس نظریہ کے مطابق، طاغوتی نظام کے تحت رہنے کی ایک ہی صورت ہے، وہ یہ کہ اس سے مقاطعہ کرکے اُس سے مسلسل جنگ کی جائے، یہاں تک کہ اسی راہ میں اپنی جان دے دی جائے۔
ظاہرہے کہ اس انتہا پسندانہ تصور سے آدمی کا اور اُس کے بچوں کا دنیوی مستقبل مکمل طورپر تباہ ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اب جماعت کے تمام لوگ موجودہ طاغوتی نظام سے سمجھوتہ کرکے اُس کے تحت دوسرے لوگوں کی طرح مادی تعمیر میں لگ گئے ہیں۔
میرے نزدیک موجودہ نظام کے تحت مادّی ترقی حاصل کرنا غلط نہیں۔ مگر جماعت اسلامی والوں کے لیے ، وہ ان کے عقیدہ کے مطابق، حرام ہے، الّا یہ کہ وہ اپنے سابقہ نظریہ کے باطل ہونے کا اعلان کریں۔ چونکہ جماعت والوں نے ایسا اعلان نہیں کیا، اس لیے اُن کی موجودہ سمجھوتہ کی زندگی صرف منافقت قرار پائے گی، نہ کہ حقیقی معنوں میں با اصول زندگی۔ (۱۱؍ستمبر ۲۰۰۲)
سوال
مسلم مصنفین کی کتابوں کو پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساری خدائی صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ خواہ وہ دنیا کے سب سے زیادہ محروم طبقہ ہوں۔ مگر وہ برابر یہ کہتے رہتے ہیں کہ ’’ساری کائنات بس ہمارے لئے تخلیق کی گئی ہے‘‘۔ اس کی ایک دلچسپ مثال یہ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی اپنی تفسیر میں وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمینکی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نیز حق تعالیٰ نے وعدہ فرمالیا ہے کہ پہلی امتوں کے برخلاف اس امت کے کافروں کو عام ومستأصل عذاب سے محفوظ رکھا جائے گا‘‘ (صفحہ ۴۲۸)۔ یہ کیا معاملہ ہے ،اس کی وضاحت کریں (محمد سلیم، دہلی)
جواب
۱۔ یہ بات بے بنیاد ہے کہ مسلم قوم خدا کے نزدیک کوئی افضل قوم ہے۔ شعب مختار (chosen people) کا عقیدہ خالص یہودی عقیدہ ہے، اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات قرآن و حدیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جو فیصلہ ہوگا وہ ہر فرد کے اپنے ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوگا، نہ کہ کسی قوم یا نسل یا گروہ سے وابستگی کی بنیاد پر۔
۲۔ تفسیر عثمانی کا جو اقتباس آپ نے نقل کیا ہے وہ بھی درست نہیں۔ یہ صحیح ہے کہ پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب عذاب مستأصل نہیں آئے گا۔ مگراس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا تعلق صرف بعد کے مسلمانوں سے ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون الٰہی کا تعلق اس بات سے ہے کہ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں۔ عذاب مستأصل صرف کسی ایسی قوم پر آتا ہے جس کے درمیان کوئی پیغمبر آئے اور وہ ان پر اتمام حجت کردے۔ اس کے باوجود وہ قوم انکار کی روش پر قائم رہے۔ ایسی ہی کسی قوم پر عذاب مستأصل آتا ہے، جیسے کہ قوم نوح، قوم عاد، قوم ثمود اور قوم فرعون پر آیا۔ اب ختم نبوت کے بعد چوںکہ دنیا میں کوئی پیغمبر آنے والا نہیں۔ اس لئے اب کسی کے اوپر عذاب مستأصل بھی نہیں آئے گا۔
سوال
ماحولیاتی پرابلم(Ecological Problem) کے بارے میںاسلام کیا رہنمائی دیتا ہے۔ آج کل کے زمانہ میں ساری دنیا میںاس مسئلہ کو سب سے بڑا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ اس مسئلہ پر بہت زیادہ سوچ بچار ہورہا ہے۔ اگر ممکن ہو تو بتائیں کہ اسلام میں اس مسئلہ کے بارے میں کیا روشنی ڈالی گئی ہے۔ (کرِس فلپاٹ (Chris Philpott) برمنگھم)
جواب
ماحولیات کا مسئلہ کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ فطرت کا قائم کیا ہوا نظام بگڑ جائے۔ ائرپولیوشن، واٹر پولیوشن، گلوبل وارمنگ، وغیرہ مسائل اس لئے پیدا ہوئے کہ جدید انڈسٹری یا جدید مشینی تہذیب کی وجہ سے فطرت کا بنایا ہوا نظام اپنی اصل حالت پر قائم نہ رہا، اس میں بگاڑ آگیا۔
اس معاملہ میں قرآن کی رہنمائی اس اصول پر قائم ہے کہ فطرت کے قائم شدہ نظام کو درہم برہم نہ کرو۔ قرآن میںارشاد ہوا ہے کہ خدا نے دنیا کی ہر چیز معین مقدار میں بنائی (الحجر ۱۹) اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ خدا نے دنیاکا نظام کس طرح کامل انداز میں بنایا کہ تم اس کے اندر کوئی نقص نہیں پاسکتے (الملک ۳) اسی حقیقت کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں انسان کو یہ حکم دیا گیا: لا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا (الاعراف ۵۶) یعنی زمین میں فساد نہ کرو اس کی اصلاح کے بعد۔اس طرح کی مختلف آیتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے ہماری دنیا کو انتہائی متوازن(balanced) صورت میں بنایا ہے۔ اس کی ہر چیز انتہائی صحیح تناسب (right proportion) میں ہے۔ خدا جو اس دنیا کا مالک ہے اس نے اس دنیا کو انسان کے حوالہ کرتے ہوئے یہ تاکید کی کہ تم کو یہ حق حاصل ہے کہ تم دنیا کو اپنے لئے استعمال کرو۔ مگر تم کو یہ حق حاصل نہیں کہ تم اس کو بگاڑو۔ انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی ترقی کا منصوبہ اس طرح بنائے کہ دنیامیں فطرت کا قائم کیا ہوا توازن ٹوٹنے نہ پائے۔ یہاں کی مختلف چیزوں میں جو تناسب رکھا گیا ہے، وہ جیسا ہے ویسا ہی باقی رہے۔
قرآن کے مطابق، انسان کو ایک اصلاح یافتہ دنیا دی گئی ہے، انسان کے اوپر لازم ہے کہ وہ اس اصلاحی حالت کو باقی رکھتے ہوئے اسے استعمال کرے۔ اگر انسان اس اصلاح میں خلل ڈالے اور وہ مسئلہ پیدا کرے جس کو ماحولیاتی مسئلہ کہا جاتا ہے تو خدا کے نزدیک وہ ایک مجرم قرار پائے گا۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ آپ نے چند دن کے لئے کسی شخص کو اپنے گھر میں مہمان رکھا۔ اب اگر وہ سمجھ لے کہ وہ اس گھر کا مالک ہے اور اس احساس کے ساتھ وہ گھر کی چیزوں کو بے قید طورپر استعمال کرنے لگے اور گھر کے اندر چیزوں کا جو نظم ہے اس کو بگاڑ ڈالے تو وہ مہمان نہ رہے گا بلکہ مجرم بن جائے گا۔
اسی طرح موجودہ دنیا گویا خدا کا ایک عالمی گسٹ ہاؤس ہے۔ انسان کو خدا نے اس گسٹ ہاؤس میں محدود مدت تک رہنے کی اجازت دی ہے۔ انسان اگر اصل مالک کی مرضی کے مطابق، یہاں رہے اور گیسٹ ہاؤس کے نظام میں خلل ڈالے بغیر اس کو استعمال کرے تو یہ اس کا جائز حق ہوگا، لیکن اگر وہ خود اپنے آپ کو اس عالمی گسٹ ہاؤس کا مالک سمجھنے لگے اور اس کے اند رقائم کئے ہوئے نظام کو درہم برہم کردے تو اس کی حیثیت ایک ایسے مجرم کی ہو جائے گی جس کو انعام دینے کے بجائے ذلّت کی سزا دی جائے۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جو ماحولیاتی مسئلہ موجودہ زمانہ میں پیدا ہوا ہے اس کو قرآن میں پیشگی طورپر بتا دیا گیا تھا۔ اس سلسلہ میں قرآن کی یہ آیت بے حد اہم ہے: ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت ایدی الناس لیذیقھم بعض الذی عملوا لعلھم یرجعون (الروم ۴۱) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے، تاکہ اللہ مزا چکھائے ان کو ان کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں۔
اس آیت میں عین انہی ماحولیاتی مسائل سے پیشگی طورپر خبردار کیا گیا ہے جو آج انسان کو درپیش ہیں۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، جو ماحولیاتی مسائل آج پیش آرہے ہیں، انسان کو چاہئے کہ وہ ان ماحولیاتی مسائل کو وارننگ کے طورپر لے اور اپنی روش میں اصلاح کرکے دنیا کو دوبارہ اس اصلاحی حالت کی طرف لے جائے جو کہ صنعتی دور سے پہلے تھی۔
سوال
آپ نے الرسالہ ماہ جون ۲۰۰۲ میں لکھا ہے کہ: اسی طرح گجرات میں جن لوگوں نے جگہ جگہ خونی فساد کیا وہ بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبا رسے غیر تعلیم یافتہ لوگ تھے، نہ کہ ہندو۔ یہ لوگ اگر تعلیم یافتہ ہوتے تو ایسا واقعہ کبھی پیش نہ آتا (صفحہ ۲۶) واقعہ یہ ہے کہ آج دنیا میں سارا فساد تعلیم یافتہ لوگوں ہی کہ وجہ سے ہے۔ اس لیے اس طالب علم کا قول ہے:
Education without ethics is an evil.
(ابن غوری ، نلگنڈا)
جواب
تعلیم یافتہ سے ہماری مراد ڈگری یافتہ نہیں ہے، بلکہ شعور کا مالک ہونا ہے۔ اصل یہ ہے کہ جس سماج میںلوگ پڑھنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں وہاں ایک بہت بڑا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے، یعنی مصلحین اور عام لوگوں کے درمیان فکری بُعد(intellectual gap) ۔ ہمیشہ اور ہردور میں مصلحین ہوتے ہیں لیکن اگر سماج میں تعلیم عام نہ ہو تو لوگ ان مصلحین کی باتوں سے فائدہ نہیں اٹھاپاتے۔ اس بنا پر سماج میںتربیتِ شعور کا عمل رُک جاتا ہے۔ یہی خاص حکمت ہے جس کی بنا پر تمام اعلیٰ دماغ لوگ عمومی تعلیم کو بے حد اہمیت دیتے ہیں۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تعلیم کا مقصد جاب(job) حاصل کرنا ہے۔ میرے نزدیک جاب کا مسئلہ ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ تعلیم یافتہ معاشرہ کی اصل اہمیت یہ ہے کہ وہاں مصلحین ایسے لوگ مل جاتے ہیں جو کسی بات کو اس کی گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔ جب کہ بے پڑھے لکھے سماج میںایسے افراد موجود نہیں۔
غیر تعلیم یافتہ سماج میں لوگ ایک چیز اور دوسری چیز کا فرق نہیں سمجھتے۔ وہ معاملات کا گہرا تجزیہ نہیں کرسکتے۔ مثلاً اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ ہندستانی مسلمانوں میں قیادت کافقدان ہے۔ حالاں کہ یہ ایک غیر واقعی بات ہے۔ ہندستانی مسلمانوں میںاصل مسئلہ فقدانِ قیادت نہیں ہے بلکہ فقدانِ قبولیت قیادت ہے۔ ہمارے یہاں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اُن افراد کے گرد لوگوں کی بھیڑ اکٹھا ہوجاتی ہے جو ہائی پروفائل میں بولتے ہوں، حالاں کہ دانش مند ہمیشہ لو پروفائل میں کلام کرتا ہے۔ اسی طرح باہمی نزاعات میں لوگ اکثر آئیڈیل سلوشن کی بات کرنے لگتے ہیں حالاں کہ اس طرح کے معاملات ہمیشہ پریکٹیکل سلوشن کے ذریعہ طے ہوتے ہیں۔
اسی طرح آپ دیکھیں گے کہ اکثر لوگ جب قومی معاملات میں بولتے یا لکھتے ہیں تو وہ غیرمفاہمانہ انداز میں کلام کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی لوگ خود اپنے ذاتی مسائل کو مفاہمت اور مصالحت کے ذریعہ حل کرتے ہیں۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ ذاتی معاملہ میں آدمی کی جبلّت (instinct) ہی رہنمائی کے لئے کافی ہے جو ہر ایک کو حاصل ہوتی ہے مگر ملّی اور قومی معاملات میں مفاہمت اور مصالحت کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اعلیٰ شعور درکار ہے جو ایک کم تعلیم یافتہ معاشرہ میںلوگوں کو حاصل نہیں ہوتا۔
سوال
میں ماہنامہ الرسالہ کا ریگولر قاری ہوں۔ مجھے آپ کی یہ بات بہت پسند ہے کہ آپ ہمیشہ ناامیدی کے حالات میں امید کا پہلو تلاش کرتے ہیں۔ مایوسی کے حالات میں ہمت اورعزم پیدا کرنے والی بات کرتے ہیں۔ مگر مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوتا ہے کہ بہت سے مسلمان آپ کی مخالفت کیوں کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ جو مسلمانوں کو یہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں اور دنیا بھر میں لوگ مسلمانوں کو مٹاڈالنا چاہتے ہیں ان کی باتیں مسلمان خوب شوق سے سنتے ہیں مگر آپ مسلمانوں کو خوش خبری دیتے ہیں تو مسلمانوں کو آپ کی بات اچھی نہیں لگتی۔ ایسا کیوں ہے۔ (محمد اصغر، نئی دہلی)
جواب
آپ کے اس سوال پر مجھے ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ ایک بار میں بی بی سی لندن (ہندی) سن رہا تھا۔ انہوں نے پروگرام کے مطابق، ماریشش میں مقیم ایک ہندو کا خط پڑھ کر سنایا۔ خط میں یہ شکایت کی گئی تھی کہ بی بی سی لندن اپنے ہندی پروگرام میں ہندی بولنے والے علاقہ کی خبریں دیتا ہے مگر اس کے ہندی پروگرام میں کبھی ماریشش کی کوئی خبر نہیں آتی۔ حالانکہ ماریشش میں ہندی بولنے والے بڑی تعداد میں رہتے ہیں۔ بی بی سی لندن کے اناؤنسر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا کا کام یہ ہے کہ وہ بیڈ نیوز (بری خبریں) نشر کرے جب کہ ماریشش میں سب اچھی خبریں ہوتی ہیں۔ پھر اس نے ہنستے ہوئے کہا:
And good news is no news.
یہی معاملہ موجودہ مسلمانوں کا ہے۔ آج کے مسلمان اپنے پریس اور اپنے اسٹیج سے اپنے بارے میں بری خبریں سنتے سنتے اس کے اتنے زیادہ عادی ہوچکے ہیں کہ اب اپنے بارے میں اچھی خبریں ان کواجنبی معلوم ہونے لگی ہیں۔ ان کو یقین نہیں آتا کہ ان کے بارے میں کوئی اچھی خبر بھی صحیح ہوسکتی ہے۔ موجودہ مسلمانوں کے اس مزاج کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا صحیح ہوگا کہ:
Good ne ws is no news for a Muslim.
کسی قوم کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ واقعہ پیش آنے کے وقت پہلے ہی مرحلہ میںاس کو ہوش مند لیڈر مل جائیں۔ جیسا کہ ۲۰۰ سال پہلے امریکہ کے ساتھ پیش آیا۔ مثلاً جیفرسن، واشنگٹن، لنکن، وغیرہ۔بدقسمتی سے انہی ۲۰۰ سالوں میں مسلمانوں کے ساتھ کئی ناخوش گوار واقعات پیش آئے۔ اس وقت کرنے کا کام یہ تھا کہ مسلمانوں کو قرآن کے الفاظ میں عُسر میں یُسر کا راز بتایا جائے۔ مگر ساری دنیا کے مسلم لیڈر صرف عُسر کی اصطلاحوں میں لکھتے اوربولتے رہے۔ میرے علم کے مطابق، کوئی بھی قابل ذکر مسلمان ایسا نہیں نکلا جو یسر کی اصطلاحوں میں بات کرے۔ اس مدت میں کچھ لوگوں نے فضائل کی زبان میں کچھ بشارتیں سنائیں مگر اس قسم کی بشارتیں افیون کی گولی ہیں، نہ کہ حقیقی معنوں میں مثبت رہنمائی۔ اس طرح لمبی مدت تک منفی ماحول میں جینے کی وجہ سے مسلمانوں کا حال وہ ہوگیاہے جس کی طرف آپ نے اشارہ کیا۔
اس معاملہ میں مسلمانوںکی مثال ساس اور بہو کے روایتی جھگڑے جیسی ہے۔ جو ساس اپنی بہو کے بارے میں منفی ذہنیت کا شکار ہوچکی ہو اس کے سامنے اگر بہو کی خوبیاں بیان کی جائیں تو ساس کو یقین نہیںآئے گا۔ عین ممکن ہے کہ اس بات کو سن کر وہ غصہ ہوجائے۔ البتہ اگر بہو کی برائی بیان کی جائے تو وہ خوب خوش ہوگی اور بلا ثبوت بہو کے خلاف باتوں کو مان لے گی۔ٹھیک یہی معاملہ برعکس طورپر بہو کے بارے میں بھی درست ہے۔
موجودہ مسلمانوں کی یہی کمزوری ہے جس کی بنا پر اُن کا حال وہ ہوگیا ہے جس کو قرآن میں اس طرح بیان کیا گیا ہے: اگر وہ ہدایت کا راستہ دیکھیں تو وہ اُس کو نہ اپنائیں گے اور اگر وہ گمراہی کا راستہ دیکھیں تو وہ اس کو اپنا لیں گے (الاعراف ۱۴۶)
سوال
میںنے عالمی تاریخ کی کچھ کتابیں پڑھیں اور کچھ مورخین کے تبصرے پڑھے۔ ان کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے پوری انسانی تاریخ شورش اور ہنگاموں کی تاریخ ہے۔ تاریخ میں بہت کم ایسے لمحات ملتے ہیں جب کہ پرسکون اور معتدل ماحول میں انسان کو جینے کا موقع ملا ہو۔ تاریخ کے اس منظر کو دیکھ کر کچھ لوگ خدا کی خدائی پر شک کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خدا اگر عادل ہے تو اس کی بنائی ہوئی دنیا میں اتنا زیادہ بگاڑ کیوں؟ براہ کرم اس سوال پر روشنی ڈالیں۔ (عبد الرحمن ، ناندیڑ)
جواب
دنیا کے بارے میں مذکورہ سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کہ اس کو انسان کی نظر سے دیکھا جائے۔ لیکن اگر دنیا کو خالق کی نظر سے دیکھا جائے تو نہایت آسانی سے اس کا جواب مل جاتا ہے۔ اور یہ یقین ہوجاتا ہے کہ جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہئے تھا۔
اس معاملہ کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا چاہئے کہ موجودہ دنیا کے بارے میں خدا کا تخلیقی نقشہ (creation plan) کیا ہے۔ قرآن کے مطابق، وہ تخلیقی نقشہ امتحان (test) کے اصول پر مبنی ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا نے انسان کو اس لئے نہیں بسایا کہ وہ یہاں عیش کرے۔ عیش کی زندگی انسان کو اُس کے عمل کے مطابق، آخرت میں ملے گی۔ موجودہ دنیا کا سارا نظام اس ڈھنگ پر بنا ہے کہ ہر انسان اور ہر گروہ امتحان کی کسوٹی پر آسکے۔
تجربہ بتاتا ہے کہ معتدل حالات میں کسی انسان کی اصل حقیقت کا پتہ نہیں چلتا۔ لوگ خوبصورت لفظوں اور خوشنما کپڑوں میں اپنے آپ کو چھپائے رہتے ہیں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو اکسپوز(expose) کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میںاضطراب (disturbance) لایا جائے۔ اس معاملہ میں انسان کی مثال انڈے جیسی ہے۔ اوپر سے دیکھنے میں ہر انڈا اچھا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جب انڈوں کو توڑا جائے اس وقت یہ معلوم ہوتا ہے کہ کون انڈا اچھا تھا اور کون انڈا خراب۔
اللہ تعالیٰ کو اس دنیا میں سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے وہ امتحان ہے۔ اور امتحان کے لئے غیر معمولی حالات کا پیش آنا لازمی ہے۔ اس لئے بار بار ہر فرد اور گروہ کی زندگی میں غیر معمولی حالات پیدا کئے جاتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہو کہ حقیقت کے اعتبار سے وہ کیسا تھا۔ وہ حقیقی معنوں میں حق پرست تھا یا اس نے صرف ظاہری طورپرحق کا نمائشی خول اپنے اوپر ڈال لیا تھا۔
سوال
کہا جاتا ہے کہ موجودہ زمانہ میں ساری دنیا ایک ہوگئی ہے۔ اس کا خوبصورت نام گلوبلائزیشن ہے۔ مگر جیسا کہ بہت سے علماء نے لکھا ہے کہ یہ ایک فتنہ ہے۔ مغرب کی مسلم دشمن طاقتیں گلوبلائزیشن کے نام پر اسلام کو اپنے جال میں پھنسا لینا چاہتی ہیں۔ اس نئے خطرہ کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔ (ایک قاری الرسالہ، نئی دہلی)
جواب
گلوبلائزیشن میرے نزدیک فتنہ نہیں ہے بلکہ وہ ایک عظیم نعمت ہے۔ گلوبلائزیشن سے مراد یہ ہے کہ موجودہ زمانہ میں کمیونیکیشن اور دوسرے ذرائع اتنا زیادہ وسیع ہوگئے ہیں کہ ساری دنیا ایک گاؤں (global village) کی مانند ہوگئی ہے۔ یہ صورت حال ایک عظیم موقع ہے۔ اس دنیا میں خدا نے ہر ایک کو آزادی دی ہے۔ اس لیے دوسرے لوگ اگر اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کریں توآپ کو اُن کے خلاف احتجاج کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے احتجاج سے یہ نہیں ہوسکتا کہ دوسرے لوگ ان مواقع سے فائدہ اٹھانا چھوڑ دیں۔
اصل ضرورت یہ ہے کہ ان جدید مواقع کو سمجھا جائے او ران کو استعمال کیا جائے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب کہ اللہ اسلام کے پیغام کو ساری دنیا کے ایک ایک گھر میں پہنچا دے گا۔ جدید مواصلاتی ذرائع نے پہلی بار اس کو ممکن بنایا ہے کہ حق کی اشاعت کے اس خدائی منصوبہ کو مکمل کیا جاسکے۔
عقبہ بن نافع تابعی افریقہ میںاسلام کا پیغام پہنچاتے ہوئے اٹلانٹک کے ساحل تک پہنچ گئے۔ وہاں اُنہوں نے اپنے گھوڑے پر بیٹھے ہوئے کہا کہ خدا کی قسم، اگر میں جانتا کہ اس سمندر کے اُس پار بھی کچھ لوگ آباد ہیں تو میں وہاں تک پہنچتا تاکہ کوئی بھی شخص اللہ کا پیغام پانے سے محروم نہ رہے۔
مگر آج اس گلوبلائزیشن کی بنا پر ہم دنیا کے ہر خطّے کے بارے میں تفصیل کے ساتھ جان چکے ہیں۔ اسی بنا پر یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم بآسانی ہر جگہ پہنچ سکیں۔ پھر اسی بنا پر یہ بھی ممکن ہوا ہے کہ جدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے لٹریچر اور دوسری صورتوں میں بہت کم مدت میں سچائی کا پیغام زمین کے ہر گوشہ میں پہنچایا جاسکے۔
سوال
مسلمانوں کے اندر پائی جانے والی تشدد پسندی کے موضوع پر کئی کتابیں اب تک شائع ہوئی ہیں۔ آپ بھی اس موضوع پر لکھتے ہیں اور اپنا نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں۔ میں نے آپ کی تحریروں میں پایا ہے کہ آپ مسلمانوں کے اس تشدد کو غلط بتاتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ درست ہے۔ کیوں کہ مسلمان اپنے جائز حق کے لیے کوشش کررہے ہیں۔ رائے میں یہ اختلاف کیوں۔ (ایک قاری الرسالہ، کشمیر)
جواب
اپنے جائز حق کے لیے کوشش کرنا اور تشدد کا استعمال دونوں دو مختلف چیزیں ہیں اور دونوں کا حکم ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک کی حیثیت نظری اوراصولی ہے اور دوسرے کی حیثیت عملی طریقِ کار کی۔ اگر سوال یہ ہو کہ کسی شخص یا گروہ کو اپنے جائز حق کو حاصل کرنے کے لیے کوشش کرنا درست ہے یا نہیں، تو ہر شخص یہ کہے گا کہ جائز حق کے لیے کوشش کرنا اصولاً بالکل درست ہے۔
مگر جہاں تک تشدد کا سوال ہے، وہ عملی طریق کار سے تعلق رکھتا ہے۔ اور طریق کار کے بارے میں متفقہ طورپر یہ حکم ہے کہ پُر امن طریقِ کار درست ہے۔ مگر پُر تشدد طریقِ کار درست نہیں۔ جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہو اور آدمی کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ پُر امن طریقِ کار اختیار کرے یا پر تشدد طریقِ کار، تو لازماً اُس کو پُر امن طریقِ کار اختیار کرنا چاہئے اور پُر تشدد طریقِ کار کو چھوڑ دینا چاہئے۔ اپنے حق کے لیے پُر امن طریقِ کار کے ذریعہ جدوجہد کرنا بالکل درست ہے مگر اپنے حق کے لیے پُرتشدد طریقِ کار اختیار کرنا ہر گز درست نہیں۔
یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے۔ اس طرح کے معاملات میں اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ فریقِ ثانی جب تشدد کررہا ہو تو ہم کیسے تشدد سے پرہیز کرسکتے ہیں، کیا ہم یک طرفہ طورپر مار کھاتے رہیں۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے دعوے کے مطابق، اُن پر تشدد ہو رہا ہے وہاں مسلمانوں نے خود ہی تشدد کا آغاز کیا۔ اس کے بعد فریقِ ثانی نے ان کے مقابلہ میں جوابی تشدد کیا۔ میرے علم کے مطابق، ہر جگہ ایساہی ہوا ہے۔ مسلمان اگر اپنی جدوجہد کو پُرامن طریقِ کار کے حدود میں رکھتے تو ہر گز ایسا نہیںہوسکتا تھا کہ فریقِ ثانی اُنہیں اپنی گولی اور اپنے بم کا نشانہ بنائے۔
اس معاملہ کے اصل ذمہ دار مسلم عوام نہیں ہیں بلکہ اُن کے خود ساختہ لیڈر ہیں جو جوش دلا کراُنہیں تشدد پر اُکساتے ہیں۔ یہ مسلم لیڈر دور جدید کی ایک اہم حقیقت سے بالکل بے خبر ہیں۔ اُن کو یہ معلوم نہیں کہ دور جدید کے مانے ہوئے اصول کے مطابق، پُرامن جدوجہد مکمل طورپر جائز ہے اور پُر تشدد جدوجہد مکمل طورپر ناجائز۔ یہ فرق آج عالمی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اگر اس حقیقت کو جانتے اور اُس کے مطابق، مسلمانوں کی رہنمائی کرتے تو مسلمان اُن تباہیوں سے بچ جاتے جو اس بین اقوامی اُصول کی خلاف ورزی کے نتیجہ میں اُنہیں پیش آرہی ہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۲ کے شمارے میں آپ نے صفحہ ۳۳ پر ’’بے بنیاد سوچ‘‘ کے عنوان کے تحت ایک مکالمہ تحریر فرمایا ہے جو ایک ہندو اور مسلم کے درمیان ہے۔’’ مسلمان کا یہ کہنا کہ اسلام سچا ہے، اس لئے میں بھی سچا ہوں‘‘ ۔جہاں تک جملہ کے پہلے حصہ کا تعلق ہے وہ ایک حقیقت ہے لیکن یہ کہنا کہ اسلام سچا ہے اس لئے میں بھی سچا ہوں آج تک کسی مسلمان نے ایسا کہنے کی جرأت نہیں کی اور نہ آئندہ کرے گا۔ دین کا سچا ہونا الگ بات ہے اور دین کے ماننے والوں کا سچا ہونا قطعی الگ۔ یہ ایک سراسر الزام ہے جو آپ نے ایک مسلمان پر عائد کیا ہے، ورنہ ہر مسلمان جانتا ہے اور اس کا اعتقاد بھی ہے کہ اس کے کسی بھی عمل کا سچ ہونا صرف روز محشر ہی میں ثابت ہوگا۔
آپ سے گذارش ہے کہ اپنی مثال کو اور واضح کریں تاکہ جو الزام آپ نے ایک مسلمان پر لگایا ہے اس کی وضاحت ہوجائے او ر تشویش دور ہو جائے۔ (محمد بشیر احمد، گلبرگہ)
جواب
آپ نے الرسالہ جولائی ۲۰۰۲ (صفحہ ۳۳) کے مضمون کو زیادہ غور کے ساتھ نہیں پڑھا، ورنہ یہ اشکال نہ ہوتا۔ آپ اس کو دوبارہ پڑھیں۔ اس کے بعد آپ کی غلط فہمی ختم ہوجائے گی۔ واضح ہو کہ اس مضمون میںہندو اور مسلمان کے ’’کیس‘‘ کو بتایا گیا ہے، اس میںاُن کے ’’قول‘‘ کو نہیں دہرایا گیا ہے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ کسی کے قول کو دہرانا ایک بات ہے اور اُس کے کیس کو بتانا اُس سے بالکل مختلف دوسری بات ہے۔کیس اور قول کے اس فرق کو قرآن و حدیث کے مطالعہ سے بھی جانا جاسکتا ہے اورروز مرّہ کے تجربہ سے بھی۔
اس غلط فہمی کی بنا پر آپ نے مذکورہ مضمون کو ’’مکالمہ‘‘ سمجھ لیا ہے اور اس کو الزام قرار دیا ہے۔ حالانکہ وہ مکالمہ نہیں ہے بلکہ وہ تجزیہ ہے۔ اگر آپ اُس کو مکالمہ کے بجائے تجزیہ سمجھتے تو آپ کو ہر گز یہ غلط فہمی نہ ہوتی۔
سوال
میںنے ایک کتاب لکھنی شروع کی ہے جس کا عنوان ہے ’’رسول اللہﷺ کی سنتیں، سائنسی وجوہات اوراُخروی فائدے‘‘ ۔میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں کو سائنسی نظریے کی روشنی میں لوگوں کے سامنے پیش کروں تاکہ کلمہ میں جو بات کہی گئی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے ہی میں کامیابی ہے، اوردوسروں کے طریقوں میں ناکامی ہے، لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں اور اس طرح میں ایک بہترین کتاب کی شکل میں اُسے لوگوں کے سامنے پیش کروں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تھوڑی مدد کریں۔ بتائیں کہ اس سلسلہ میںآپ کی کون سی کتابوں کا مطالعہ کروں اور کیسے اس مشن کو آگے بڑھاؤں۔ (ایک قاری الرسالہ ، ناگ پور)
جواب
کتاب پوچھ کر نہیں لکھی جاتی۔ کتاب خود اپنے طوفانی احساس کے تحت لکھی جاتی ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی سے کسی نے پوچھا کہ میں کب لکھوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ اتنا پڑھو، اتنا پڑھو کہ اُبلنـے لگے۔ اس کے بعد لکھو۔
اکثر لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں مصنف بننا چاہتا ہوں، اُس کی تدبیر بتائیے۔ میرا جواب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کوئی شخص مصنف نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ تحریر مشکل ترین آرٹ ہے۔ جو آدمی واقعی معنوں میں اس آرٹ کو جانتا ہو اُسی کو کتاب لکھنا چاہئے۔ بقیہ لوگوں کے لیے کتاب پڑھنا ہے، نہ کہ کتاب لکھنا۔
سوال
ایک فیکٹری میں مختلف مذاہب کے لوگ کام کرتے ہیں۔ وہاں میرے ماموں زاد بھائی بھی ایک ورکر کی حیثیت سے ہیں۔ جب میں اُن سے ملاقات کے لیے گیا تو وہاں پر موجود دوسرے لوگوں نے مجھ سے اسلام کے متعلق مختلف سوالات کیے۔ میں نے اپنے علم کے مطابق، اُن کے سوالات کے جواب دئے۔ ان سوالات میں سے ایک سوال یہ تھا کہ مسلمان بے رحم اور خونخوار قوم ہے اس لیے کہ اُن کی مذہبی کتاب قرآن نے خون بہانے یعنی جانوروں کو ذبح کرکے کھانے کا حکم دیا ہے جو کہ غلط ہے۔ مزید یہ انسانیت کے خلاف ہے اور بے رحمی کا ثبوت بھی۔ میں نے حتی الامکان اُن کے سوال کاجواب دینے کی کوشش کی مگر انہیں تسلی نہ ہوسکی۔ آپ اس سوال کا فکری جواب وضاحت کے ساتھ لکھیں۔ (جاوید انجم سہراب علی، نئی دہلی)
جواب
جانور کو ذبح کرنا صرف مسلمان کا اصول نہیں، وہ فطرت کا عام اصول ہے۔ موجودہ دنیا میںکوئی بھی شخص، حتیٰ کہ سوال کرنے والے لوگ بھی اس سے بری نہیں۔ دنیا میں بسنے والے انسانوں میں ، بشمول ہندستان، بیشتر لوگ حیوانی غذا کو استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ بظاہر حیوانی غذا نہیں لیتے وہ بھی بالواسطہ طورپر ایسا ہی کرتے ہیں۔ پانی، دودھ، سبزی، پھل یا کوئی بھی چیز جس کو انسان کھاتا ہے اُن سب میں خورد بینی زندگیاں ہوتی ہیں۔ ان زندگیوں کو قتل یا ذبح کیے بغیر کوئی شخص ویجیٹیرین غذا بھی نہیں لے سکتا۔ جس کو اس معاملہ میں شبہہ ہو اُس سے کہیے کہ وہ دودھ کو خوردبین کے شیشے کے نیچے رکھ کر دیکھ لے۔
اصل یہ ہے کہ ذبح حیوان ہمارے لیے انتخاب(choice) کا معاملہ نہیںہے بلکہ وہ ہمارے لیے مقدر (destiny) کا معاملہ ہے۔ موجودہ دنیا میں اس کے بغیر زندگی کا کوئی امکان ہی نہیں۔ موجودہ دنیا میں اگر کوئی شخص حقیقی معنوں میں ذبح حیوان کے بغیر جینا چاہے تو اُس کو خود اپنے آپ کو ذبح کرنا پڑے گا۔ کیوںکہ ایسے کسی انسان کے لیے یہاں صرف خود کشی کا امکان ہے، اُس کے لیے زندگی کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں۔
سوال
میں انگریزی زبان میں کمزور ہوں۔ فکر و نظر کو تقویت بخشنے میں عربی کے ساتھ انگریزی کا کردار آپ خود اچھی طرح جانتے ہیں۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ آپ نے انگریزی زبان جس اُصول و طریقہ کے مطابق سیکھی ہے اس سلسلہ میں کوئی نمونہ لکھ بھیجیں تاکہ میں اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوسکوں۔ (رضوان اللہ الریاضی، ریاض)
جواب
کسی کا قول ہے کہ پڑھنے سے پڑھنا آتا ہے اور لکھنے سے لکھنا آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی زبان کو سیکھناچاہتا ہے تو اُس کو چاہئے کہ وہ اُس کو فوراً شروع کردے۔ اور اُس کو مسلسل جاری رکھے۔ اس معاملہ میں آدمی کا شوق اور اُس کی محنت ہی اس کے سب سے بڑے معلّم ہیں۔ میں نے افریقہ میں ایک تاجر کو دیکھا کہ وہ مسلسل انگریزی بولنے کی کوشش کرتا تھا۔ اگر چہ اُس کی زبان میں گرامر کے لحاظ سے بہت سی غلطیاں ہوتی تھیں۔ کسی نے اُس سے کہا کہ جب تم انگریزی نہیں جانتے تو تم انگریزی کیوں بولتے ہو۔ اُس نے جواب دیا کہ میں غلط انگریزی بولتا ہوں تاکہ مجھے صحیح انگریزی بولنا آجائے:
I speak incorrect english, so that I may be able to speak correct English.
سوال
آپ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آپ نے یہ لکھا ہے کہ مسلمان ۲۰۰ سال سے ملٹنسی (militancy) کررہے ہیں۔ کیا آپ نے ایسالکھا ہے۔ اور اگر لکھا ہے تو کس دلیل کی بنیاد پر لکھا ہے۔ براہ کرم اس کی وضاحت فرمائیں (ایک قاری الرسالہ۔ ابوظہبی)
جواب
ایسا میں نے کبھی نہیں لکھا۔ یہ بلاشبہہ ایک لغو بات ہے۔ البتہ میں نے ایک اور بات لکھی ہے اور کچھ غیر ذمہ دار لوگ اس کو بگاڑ کر میرے خلاف اس قسم کا پروپیگنڈا کررہے ہیں۔ جو لوگ ایسی باتیں کہہ رہے ہیں وہ قرآن کی اس آیت کا مصداق بن رہے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ: یحرفون الکلم عن مواضعہ (المائدہ ۱۳ )
میںنے جو بات لکھی ہے وہ یہ ہے کہ عام طورپر مسلم مقررین اور محررین دور جدید میں اسلامی جدجہد کا آغاز ۱۷۹۹ سے کرتے ہیں جب کہ میسور کے سلطان ٹیپو انگریزی فوج سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اگر ۱۷۹۹ کو آغاز مانا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلمان ۲۰۰ سال سے اپنے مسائل کے حل کے لئے مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔ یہ مسلح جدوجہد ابھی تک مختلف مقامات پر جاری ہے۔
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ ۲۰۰ سال کی اس مسلح جدوجہد کا کوئی بھی مثبت نتیجہ اسلام کے لئے یا مسلمانوں کے لئے نہیں نکلا۔ اب بھی مسلمانوں کے تمام لکھنے اور بولنے والے شکایت اور احتجاج کی زبان بول رہے ہیں۔ اس طرح یہ تمام لوگ اعتراف کررہے ہیں کہ لمبی مدت تک اس مسلح جدوجہد کامطلوب نتیجہ نہیںنکلا۔
اب میں کہتا ہوں کہ عقل اور شریعت دونوں کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کے اندر اپنے طریقِ کار کے بارے میں نظر ثانی (revision) کا عمل کیا جائے۔ ہندستان میں ۱۸۵۷ میں آزادی کی تحریک مسلح انداز میں شروع کی گئی۔ جب وہ بے فائدہ ثابت ہوئی تو ۱۹۱۹ میں اس طریقِ کار کو بدل کر آزادی کی تحریک کو پرامن طریقِ کار کے اصول پر چلایا گیا۔
خود اسلام کی تاریخ بھی یہی بتاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کے ساتھ ۸ ہجری میںطائف کی طرف اقدام فرمایا۔ وہاں پہنچ کر محسوس ہوا کہ بروقت حالات موافق نہیں ہیں ۔ چنانچہ آپ نے طائف کا محاصرہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف واپسی کا فیصلہ فرمایا۔ اسی طرح غزوۂ موتہ کے موقع پر ابتدائی جنگ کے بعد اندازہ ہوا کہ جنگ کو جاری رکھنا اہل اسلام کے حق میں نہیں ہے تو حضرت خالد درمیان ہی میں واپس ہو کر مدینہ آگئے، وغیرہ۔
میں اسی نظر ثانی (revision) کی بات کرتا ہوں۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ۲۰۰ سال کی مسلح جدوجہد نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسلح طریقِ کار موجودہ حالات میں ہمارے لئے کار آمد نہیں ہے۔ اس لئے اب مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مسلح طریقِ کار کو مکمل طورپر چھوڑ دیں اور پر امن طریقِ کار کا تجربہ کریں۔ پرامن طریقِ کار سے مراد ہیــــــمسلمانوں کی داخلی اصلاح، مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم یافتہ بنانا، مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کرنا، مسلمانوں کو جدید اقتصادیات میں آگے بڑھانا، جدید وسائل کی مدد سے دعوت وتبلیغ کا کام کرنا، مسائل کو نظر انداز کرکے مواقع کو استعمال کرنا، وغیرہ۔
سوال
آپ کے تعمیری انداز اور پلس طریقِ تعلقات اور دنیاوی اور دینی انداز عمل سے غیر متفق ہونے کا سوال ہی نہیں۔ لیکن ہم تجربہ حاصل کررہے ہیں کہ پریکٹکل لائف میں خیالات کی صحت مندی کام دینے سے قاصر ہے۔ لوگ، بالخصوص دیگر اور الگ الگ مذاہب کے لوگ اب بالکل ہی بے حس ہوگئے ہیں، وہ دوسروں کی پرابلم کو یا اوروں کی مصیبتوں کو سمجھنے کی بھی کوشش نہیں کرتے ۔ انجام کیا ہوگا (عدنان کریمی، حیدر آباد)
جواب
موجودہ زمانہ کے مسلمان اور اُن کے رہنما ایک تضاد میں مبتلا ہیں۔ وہ نماز روزہ کے مسائل اور حج کے آداب جیسے معاملات میں تو اسلام سے رہنمائی لینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر جہاں تک اُن کے ملّی اور قومی مسائل کی بات ہے تو وہ ان معاملات میںاپنی خواہشوں پر چلنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک اس تضاد کی موجودگی میں ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں۔ جب تک وہ اس تضاد سے باہر نہ آئیں، اُن کا کوئی بھی دنیوی مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔
اس سے بھی زیادہ غیر اسلامی بات یہ ہے کہ الرسالہ میں جس ایڈجسٹمنٹ کی بات کہی جاتی ہے، ہر مسلمان، عوام اور خواص دونوں اپنے ذاتی معاملات میں عین اسی ایڈجسٹمنٹ کے فارمولا پر عمل کرتے ہیں۔ جہاں اُن کے ذاتی انٹرسٹ کا مسئلہ ہو وہاں وہ فوراً ایڈجسٹمنٹ کے اصول کو اختیار کرلیتے ہیں۔ البتہ جب اُنہیں ملی مسائل پر بولنا اور لکھنا ہو تو وہ ایڈ جسٹمنٹ کو بزدلی کہہ کر اُسے رد کردیتے ہیں۔ انفرادی اور قومی زندگی کا یہ تضاد بلا شبہہ ایک جرم ہے۔ اس جرم کی موجودگی میں یہ امر بھی سخت مشتبہ ہے کہ دینی مسائل کے معاملہ میں اُن کی مذکورہ روش اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول قرار پائے۔
آپ نے یہ شکایت کی ہے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ مسلمانوں کے مسائل کے حل میںاُن کی مدد نہیں کرتے۔ یہ ایک غیر ضروری شکایت ہے۔ موجودہ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا، حتیٰ کہ رشتہ داروں کے درمیان بھی نہیں۔ مسلمانوں کو یا تو اپنا مسئلہ خود حل کرنا ہوگا یا اُن کے مسائل ہمیشہ غیر حل شدہ حالت میں پڑے رہیں گے۔
سوال
سوال یہ ہے کہ کیااسلام میں ذہین لوگوں کے لئے گنجائش نہیں ہے ۔ یہ سوال اس لئے ذہن میں پیدا ہوا کہ میں دیکھتا ہوں کہ ماضی میں اور حال میں بھی ذہین یا منطقی لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا گیا۔ مثلاً ماضی میں سیّد شہاب سہروردی کو قتل کردیا گیا جب کہ وہ ابھی صرف ۳۷ سال کے تھے۔ مگر بہت ذہین انسان تھے۔ ابن رُشد کو جیل میں ڈالا گیا۔ رازی، فارابی اور بوعلی سینا پرکفر کا فتویٰ لگا کر اُن کو ذلیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے یہاں سرسیّد احمد خاں کی تکفیر کی گئی اور اُنہیں ذلیل کیا گیا۔ڈاکٹر اقبال پر بھی کفر کا الزام لگایا گیا۔ بو علی سینا نے بھی اپنے ایک فارسی قطعہ میں کہا ہے کہ یہاں اگر رہنا ہے تو گدھا بن کر رہو اگر عقلمند بنو گے تو پھر خیر نہیں۔
کیا اسلام میں ایسے ہی لوگوں کی گنجائش ہے جو منطقی نہ ہوں، استدلالی نہ ہوں، اپنی عقل و فہم کی روشنی میں حیات و کائنات کو سمجھنے کی کوشش نہ کرتے ہوں۔ (احساس آفاقی، کُرلا، ممبئی)
جواب
آپ نے چند مثالوں کو لے کر اُن کو جنرلائز کر دیا ہے۔ حالانکہ واقعہ ایسا نہیں ہے۔ اسلام میں فکری آزادی کو بہت بڑا درجہ دیا گیا ہے۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے آپ میری کتاب دین انسانیت کا باب ’’حریت فکر‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔ انشاء اللہ آپ کی غلط فہمی دور ہوجائے گی۔
قرآن میں بار بار اہل عقل کو خطاب کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ خود قرآن کے نزول کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ عقل والے اس پر غور کریں (ص ۲۹)۔ چنانچہ ہر دور میں عقلی غور وفکر کا سلسلہ جاری رہا ہے۔
آپ نہج البلاغہ کو پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ حضرت علی کتنا زیادہ عقلی غور وفکر کو پسند کرتے ـتھے۔ عباسی خلافت اور اسپین کی اموی خلافت کے دور میں عقلی غور وفکر کی زبردست حوصلہ افزائی ہوئی جس کی تفصیل آپ فلپ ہٹی کی کتاب ہسٹری آف دی عربس میں دیکھ سکتے ہیں۔ قدیم زمانہ میں فخر الدین رازی کی ضخیم تفسیر اور موجودہ زمانہ میں جوہری طنطاوی کی مفصل تفسیر قرآن کی عقلی تشریح کی مثالیں ہیں۔ شاہ ولی اللہ دہلوی نے اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ خاص اسی مقصد کے لیے لکھی۔خودراقم الحروف نے تقریباً چالیس سال سے اسلام کی عقلی اور سائنسی تشریح کو اپنا موضوع بنایا ہے اور اس پر سو سے زیادہ کتابیں شائع کی ہیںمگر ساری مسلم دنیا میں کسی بھی شخص نے اس پہلو سے میری مخالفت نہیں کی۔
تاہم بعد کے زمانہ میں ایک غلط مسئلہ مسلمانوں میں پھیل گیا۔ اور وہ یہ کہ جو شخص رسول کی اہانت کرے یا اسلام کی اہانت کرے اُس کو قتل کردیا جائے۔ ا س مسئلہ کی بنا پر کچھ لوگوں کا قتل بھی ہوا۔ مگر یہ مسئلہ بذاتِ خود غلط ہے۔ اس کی کوئی اصل قرآن یا حدیث میں نہیں۔ اس مسئلہ کی ذمہ داری بعد کے دور کے کچھ مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے، نہ کہ خود اسلام پر۔ اس معاملہ میں شرعی حکم کو سمجھنے کے لیے آپ راقم الحروف کی کتاب ’’شتم رسول کا مسئلہ‘‘ مطالعہ فرمائیں۔
سوال
آج ایک ایسے قائد کی اشد ضرورت ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی صحیح رہنمائی کرسکے۔ آپ کی کئی کتابیں اور الرسالہ کا مسلسل مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیادت کے لائق صرف آپ کی شخصیت ہی ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی احسن طور پر رہنمائی کر سکتی ہے۔ بشرطیکہ علماء کرام اور دانشوروں کا طبقہ ’’بغیاًبینہم ‘‘کے مرض سے دور ہو جائیں (نثار احمد خاں سلفی، امام و خطیب مسجد اہل حدیث ، مومن پورہ، ناگپور)
جواب
قیادت کا مسئلہ نامزدگی کا مسئلہ نہیںہے بلکہ وہ قبولیت کامسئلہ ہے۔ کوئی شخص قائد اُس وقت بنتا ہے جب کہ لوگوں کی اکثریت اُس کو اپنے قائد کے طورپر قبول کرلے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ابو الکلام آزاد اور محمد علی جناح دونوں ایک ہی زمانہ سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں نے مسلمانوں کے اندر کام کیا اوراُن کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ مسٹر محمد علی جناح مسلمانوں کے قائد بن گئے، لیکن ابوالکلام آزاد عملاً مسلمانوں کے قائد نہ بن سکے۔ اس کا سبب سادہ طورپر صرف یہ تھا کہ مسلمانوں نے اپنے مخصوص مزاج کی بنا پر محمد علی جناح کو قبول کرلیا اور ابوالکلام آزاد کو قبول کرنے کے لیے وہ تیار نہ ہوسکے۔ یہی معاملہ ساری مسلم دنیا کا ہے۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کا اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ شعوری اعتبار سے ایک پچھڑی ہوئی قوم بن گئے ہیں۔ اُن میں جب تک شعوری بیداری نہ لائی جائے، کسی صالح قیادت کا اُن کے اندر اُبھرنا ممکن نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبد السلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۲۳ ستمبر ۲۰۰۲ کو ٹیلی فون پر گفتگو کے بعد یہ خط لکھ رہا ہوں۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ کے حکم کے باوجود ابلیس نے آدم کو سجدہ نہیں کیا۔ اس کی وجہ ابلیس نے یہ بتائی کہ: أنا خیر منہ (الأعراف ۱۲) ۔ قرآن کی اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو أنا خیر منہ کی نفسیات میں جیتے ہوں ،اوردوسرے وہ جوالحق خیر منی کی نفسیات میںجئیں۔
مزید غور کیجئے تو معلوم ہوگا کہ ہدایت اور گمراہی کے معاملہ میں یہ تقسیم بے حد اہم ہے۔ قرآن سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہدایت ایک ارتقاء پذیر عمل ہے۔ اُس میں مسلسل اضافہ ہوتارہتا ہے (الکہف ۱۳)۔ اس قانون الٰہی کانتیجہ یہ ہے کہ جو لوگ الحق خیر منی کی نفسیات میں جئیں اُن کی ہدایت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہے اورجو لوگ أنا خیر منہ کی نفسیات میں جئیں اُن کے لیے ہدایت کا دروازہ بند ہوجائے۔
اصل یہ ہے کہ کوئی بھی انسان سب کچھ لے کر پیدا نہیںہوتا۔ سیکھنے کے عمل کے ذریعہ اُس کو بار بار اپنے علم میں اضافہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے حضرت عمر کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: کان یتعلم من کل احدٍ (وہ ہر ایک سے علم سیکھتے تھے)۔ یعنی اُن کا تجسس اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب بھی کسی کی طرف سے کوئی قابل اخذ چیز سامنے آتی تو وہ بلا تاخیر اُس کو لے لیتے تھے۔
بمبئی کے حالیہ سفر میںایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ میںآپ کی ڈائری شوق سے پڑھتا ہوں اور بار بار پڑھتا ہوں۔ اس میںطرح طرح کی معلومات ملتی ہیں۔ مگر میں آپ کی کتابیں نہیں پڑھتا ۔ میں نے پوچھا کہ کیوں۔ اُنہوں نے جواب دیا کہ کتاب کو پڑھنے کامطلب یہ ہے کہ ایک بولے اور دوسرا سنے۔ کتاب کا مطالعہ یک طرفہ عمل ہے، وہ دو طرفہ عمل نہیں۔ میں نے کہا کہ مطالعۂ کتاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔ مطالعہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک فکری حصہ داری (intellectual sharing) ہے۔ یہ مکمل طورپر ایک دو طرفہ عمل ہے۔ البتہ صاحبِ مطالعہ ذہنی بیداری کے جس درجہ پر ہوگا اُسی کے بقدر وہ مطالعہ کے عمل میں حصہ دار بن سکے گا۔
میں اپنی ساری زندگی میں کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا ہوں۔ مگر میرا مطالعہ ہمیشہ دو طرفہ عمل تھا، نہ کہ یک طرفہ عمل۔ مثلاً میں نے انگریز فلسفی برٹرینڈر سل کی کتابیں پڑھیں۔ یہ کتابیں مصنف نے تشکیک اورالحاد پر لکھی تھیں۔ مگر دو طرفہ ذہنی عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ برٹرینڈرسل کی کتابوں میں برعکس طورپر ایک نہایت اہم چیز دریافت ہوئی۔ اور وہ ہے اسلامی عقائد پر استدلال کا سائنسی انداز۔ اس معاملہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو میری کتاب: مذہب اور سائنس۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک باشعور انسان کے لیے اُس کی پوری زندگی ایک تعلّمی عمل (learning process) ہے۔ ایسا آدمی اپنے مشاہدہ اور تجربہ اور مطالعہ کے دوران ہر چیز سے کچھ نہ کچھ سیکھتا ہے۔ وہ ہر چیز سے کچھ نہ کچھ لیتا ہے۔ ہرچیز اُس کے لیے اُس کی معرفت میںاضافہ کا سبب بنتی رہتی ہے۔ اسی لیے حدیث میںآیا ہے کہ : الحکمۃ ضالۃ المومن حیث وجدھا فہو احق بہا۔ (حکمت مومن کا کھویا ہوا سرمایہ ہے، وہ جہاںاُس کو پائے تو وہی اُس کا زیادہ حق دار ہے)۔
تعلّم (learning) کے اس عمل کو کامیابی کے ساتھ جاری رکھنے کی دو لازمی شرطیں ہیں۔ اوّل یہ کہ آدمی کے اندر روح تجسس (spirit of inquiry) اتنی زیادہ پائی جائے کہ وہ کبھی اور کسی حال میںاُس سے سیر نہ ہوسکے۔
اس معاملہ میں دوسری لازمی شرط یہ ہے کہ آدمی عُجب اور خود پسندی کی نفسیات سے مکمل طورپر پاک ہو۔ جب بھی کوئی اچھی بات اُس کے سامنے آئے تو وہ اُس کو کسی تردّد کے بغیر فوراً اخذ کرلے۔ وہ قرآن کے الفاظ میں، اخذتہ العزۃ بالاثم (البقرہ ۲۰۶) کا مصداق نہ بنے۔
عام طورپر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ کوئی حقیقت اگر انسان کے سوا کسی اور ذریعہ سے آئے تو وہ اُس کو مان لیتے ہیں، اُس کو ماننے میںکوئی چیز اُن کے لیے رُکاوٹ نہیں بنتی۔ لیکن جب اپنے جیسے ایک انسان کے ذریعہ کوئی ایسی حقیقت اُن کے سامنے آئے جس کو وہ پہلے سے نہ جانتے ہوں تو اُس کو ماننا اُن کے لیے سخت دشوار ہو جاتا ہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر اس نفسیات کا شکار ہو جاتے ہیں کہ اگر میں نے اس کی بات مان لی تو میرا قد اُس کے مقابلہ میں چھوٹا ہو جائے گا۔ یہ نفسیات اُن کے لیے حق کو ماننے میں رکاوٹ بن جاتی ہے، خواہ اس حق کو کتنے ہی زیادہ دلائل کے ساتھ اُن کے سامنے بیان کیا گیا ہو۔
حقیقت یہ ہے کہ اعتراف علم کا دروازہ ہے۔ اعتراف آدمی کواس قابل بناتا ہے کہ اُس کے اخذ کا عمل کبھی نہ رُکے۔ اُس کاذہنی ارتقاء کسی روک کے بغیر مسلسل جاری رہے۔
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میری ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوتی ہے جس کو میں بیس سال یا چالیس سال پہلے جانتا تھا۔ اب لمبے وقفہ کے بعد اُس سے ملاقات ہوئی۔ میںنے ہمیشہ پایا کہ وہ آدمی آج بھی وہیں ہے جہاں وہ پہلے تھا۔ ان میں سے اکثر اس مدت میںمادّی اعتبار سے کافی ترقی کرچکے ہوتے ہیں مگر فکری اعتبار سے وہ اب بھی وہیں ہوتے ہیں جہاں وہ بیس سال یا چالیس سال پہلے تھے۔ اس فرق کا سبب یہ ہے کہ مادی کمائی کے میدان میں تو اُنہوں نے اپنے ذہن کو خوب لگایا مگر فکری ترقی کے میدان میںوہ اپنے ذہن کو استعمال کرنے سے عاجز رہے۔
قرآن میں پیغمبر کے چار خاص کام بتائے گئے ہیںـــــتلاوت آیات، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور تزکیہ (البقرہ ۱۲۹) تلاوت آیات کامطلب ہے ،نازل شدہ قرآن کو لوگوں تک پہنچانا۔ تعلیم کتاب سے مراد تفصیلی قوانین کی تعلیم ہے۔ تعلیمِ حکمت سے مراد ہے، قرآن کی تعلیمات میںچھپی ہوئی وزڈم (wisdom) کو کھولنا۔
تزکیہ کو عام طورپر پُر اسرار معنوں میں لیا جاتا ہے اور اُس کو تطہیر نفوس سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مگر اس تشریح سے تزکیہ کی پوری معنویت واضح نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک تزکیہ سے وہی چیز مراد ہے جس کو دوسرے لفظوں میں ذہنی ارتقاء کہا جاتا ہے۔ پیغمبر کی سنتوں میں سے ایک سنت یہ ہے کہ وہ ہر فرد کے ذہن کو بیدار کرے۔ وہ لوگوں کے اندر معرفت کا عمل جاری کرے۔ وہ لوگوں کو اس قابل بنائے کہ وہ اپنی فکری قوتوں کو بیدار کرکے اپنی شخصیت کو ارتقاء یافتہ شخصیت بنائیں۔
ایک بیدار ذہن یہ کرتا ہے کہ مطالعہ اور مشاہدہ اور تجربہ کے ذریعہ جو چیزیں اُس کے سامنے آتی ہیں اُن کو وہ تدبر اور توسّم کے ذریعہ معرفت حق میں ڈھالتا رہتا ہے۔ یہی تزکیۂ نفس ہے اور پیغمبرکی سنت کے مطابق، علماء کویہ کرنا ہے کہ وہ خود اس معرفت کے حامل بنیں اور دوسروں کو اسی مفہوم میں صاحبِ معرفت بننے کی مدد کریں۔
تزکیۂ نفس کا کوئی تعلق صوفیا کی ’’روحانی‘‘ مشقوں سے نہیں ہے۔ تزکیۂ نفس سے مراد تزکیۂ فکر ہے۔ یعنی آدمی کے ذہن کو کنفیوژن سے نکال کر اُس کے اندر سِداد فکر پیدا کرنا۔ تحلیل و تجزیہ کی صلاحیت پیدا کرکے اُس کو اس قابل بنانا کہ وہ معاملات میں صحیح رائے تک پہنچ سکے۔ اُس کے ذہن کو اس طرح کھولنا کہ وہ اعلیٰ حقائق کی گرفت کے قابل ہوجائے۔ اُس کے اندر اشیاء کی وہ معرفت پیدا کرنا کہ وہ حق کو ہر صورت میں اور ہر حال میں پہچان لے۔ اُس کے اندر وہ بلند فکری پیدا کرنا جو ہر بھٹکاؤ سے اوپر اُٹھ کر چیزوں کو گہرائی کے ساتھ سمجھ سکیں۔
آخر میں عرض ہے کہ علم یا معرفت کی ترقی کے لیے سب سے زیادہ ضروری شرط تواضع (modesty) ہے۔ کسی آدمی کے اندر ساری صلاحیت ہو مگر اُس کے اندر سچی تواضع نہ ہو تو وہ کبھی علم ومعرفت کا اعلیٰ درجہ نہیں پاسکتا۔ علم صرف اُس سینہ کے اندر جگہ پاتا ہے جو کبر اور انانیت اور خود پسندی جیسے جذبات سے پاک ہو۔ حقیقی علم دنیا میں خدا کا نمائندہ ہے۔ خدا کی معرفت کسی کو تواضع کے بغیرنہیں ہوسکتی۔ اسی طرح کسی شخص کو علم صرف اُس وقت ملتا ہے جب کہ وہ اپنے اندر حقیقی معنوں میں تواضع پیدا کرچکا ہو۔ کبر او ر علم دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
۲۴؍ستمبر ۲۰۰۲ وحید الدین
واپس اوپر جائیں

ایک خط

برادر محترم عبدالسلام اکبانی صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ
۳جولائی ۲۰۰۲ ء کو ٹیلی فون پر آپ سے گفتگو ہوئی۔ اس کے بعد آپ کو یہ خط لکھ رہا ہوں۔ حدیث میںآیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وإنی لا أخاف علی امتی الا الائمۃ المضلین (الترمذی، کتاب الفتن، ابو داؤد، کتاب الفتن، الدارمی، مقدمہ، مسند احمد ۴؍۱۲۳) یعنی میں اپنی امت کے بارے میں صرف گمراہ کرنے والے لیڈروں سے ڈرتا ہوں۔
میںنے اس حدیث پر غور کیا تو میری سمجھ میں آیا کہ اس سے مراد غالباً صنعتی دور کے مسلم لیڈر ہیں۔ صنعتی دور میں ایسے قیادتی مواقع کھلے ہیں جو اس سے پہلے کبھی موجود نہ تھے۔ان عظیم قیادتی مواقع کا یہ نتیجہ ہوگا کہ لیڈر بننے میں ایسے فائدے ملنے لگیں گے جو پہلے راجاؤں اور نوابوں کو بھی حاصل نہ تھے۔ اس مادی کشش کے نتیجہ میں استحصالی لیڈروں کی ایک نئی قسم وجودمیں آئے گی۔ غالباً یہی وہ لوگ ہیں جن کو حدیث میں الأئمۃ المضلون کہاگیا ہے۔لیڈروں کا یہ گروہ سستی مقبولیت حاصل کرنے کی خاطر یہ کرے گا کہ وہ مسلم عوام کو جذباتی خوراک دے گا۔ وہ دل پسند الفاظ بول کر عوام کی بھیڑ اپنے گرد اکٹھا کرے گا اور پھرمادی فائدوں کی صورت میں اُس کی شاندار قیمت وصول کرے گا۔
گمراہ کرنے والے ان لیڈروں کی ایک صفت جو موجودہ زمانہ میں تجربہ میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو منفی سوچ میں ڈال کر اُن کی اصلاح کو تقریباً ناممکن بنادیا ۔ موجودہ زمانہ کے مسلمان طول امد (الحدید ۱۶) کے نتیجہ میں زوال کا شکار ہوئے۔ اُن میں طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہوگئیں۔ اب اللہ کی سنت کے مطابق، مسلمانوں کے اوپرتنبیہات نازل ہوئیں۔ یہ تنبیہات اس لیے تھیں کہ مسلمانوں کے اندر احتساب خویش کا مادہ ابھرے اور وہ اپنی اصلاح کرکے دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق بن جائیں۔
مگر عین وقت پر ساری دنیا میں گمراہ کرنے والے لیڈروں کی فوج ظاہر ہوئی۔ انہوں نے یہ کیا کہ جو واقعات خدائی تنبیہہ کا درجہ رکھتے تھے، اُن کو اس حیثیت سے پیش کرنا شروع کیا کہ وہ تمہارے دشمنوں کی سازش کی بنا پر پیش آئے ہیں۔ اس غلط رہنمائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو واقعات اس لیے تھے کہ اُن سے مسلمانوں کے اندر اپنی اصلاح کا جذبہ پیدا ہو، اُن سے مسلمانوں کے اندر مفروضہ دشمنوں کے خلاف نفرت اور انتقام کاجذبہ اُبھر آیا۔ مسلمانوں کی جو طاقت ذاتی اصلاح میں صرف ہوتی وہ مفروضہ دشمنوںسے لڑائی بھڑائی میں ضائع ہونے لگی۔ نام نہاد مسلم لیڈروں کا یہ فعل اللہ کے منصوبہ میں خلل اندازی کے ہم معنٰی تھا۔ اور بلاشبہہ اس سے زیادہ کوئی گمراہی کی بات نہیں کہ کوئی شخص اللہ کے منصوبہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کرے۔ایک اور پہلو سے دیکھا جائے تو یہ گمراہ لیڈر، حدیث کے الفاظ میں امانت (honesty) سے محروم نظر آئیں گے۔ ایک روایت کے مطابق، رسول اللہ ﷺنے فرمایا کہ بعد کے زمانہ میںامانت اٹھالی جائے گی (صحیح البخاری، کتاب الفتن)۔ یہاں امانت سے مراد دیانت داری (honesty) ہے۔
موجودہ زمانہ کے نام نہاد مسلم لیڈر واضح طور پر اس کا مصداق ہیں۔ اُن میں سے تقریباً ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اگر آپ یہ دیکھیں کہ ۱۹۴۷ میںاُن کا اور اُن کی فیملی کا اسٹیٹس کیا تھا تو آپ پائیں گے کہ اس مدت میں اُن کا اسٹیٹس سوگنا بڑھ چکا ہے۔ ہر ایک ایسی زندگی گذار رہا ہے جس کا پچاس برس پہلے اُس نے خواب بھی نہیں دیکھا تھا۔ ایسی حالت میں ان خود ساختہ لیڈروں کو چاہئے کہ وہ مسلمانوں کو یہ بتائیں کہ اُن کے پاس وہ کون سا نسخہ ہے جس سے اُن کو یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اُن کے بقول، مسلمانوں کی تباہی کے باوجود ٹھیک اسی مدت میں وہ خود اور اُن کی فیملی نے زبردست ترقی حاصل کرلی۔
اُن کی یہ دو عملی بلاشبہہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اُن کے اندر امانت (honesty) نہیں۔ اگر اُن کے اندر امانت و دیانت ہوتی تو یقینا وہ لوگوں کو اپنی ذاتی کامیابی کے راز سے آگاہ کرتے، نہ کہ اُس کو چھپا کر مسلمانوں کو ظلم اور سازش کی خبر دیں۔ اوراس طرح مسلم ملّت کایہ حال کردیں کہ اُس کے لیڈر تو شاندار ترقی کررہے ہوں اور ملت محرومی کا شکاربنی رہے۔
۴ جولائی ۲۰۰۲ دعا گو وحید الدین
واپس اوپر جائیں