Pages

Tuesday 1 November 2022

Al Risala | November۔December 2022 (الرسالہ،نومبر۔ دسمبر)

4

-علم سے آغاز

5

- دنیا ایک سفر

6

- کاؤنٹ ڈاؤن ہو رہا ہے

7

- اہل کتاب سے استفادہ

9

- مطالعۂ حدیث(شرح مشکاۃ المصابیح)

20

- دعا کی حقیقت

21

- مکمل اسلام ، ربانی اسلام

23

- اہل جنت

24

- عمل کی دعوت

25

- بڑھاپے کا تجربہ

26

- چیلنج کی صورتِ حال

28

- بائی ٹائم اسٹریٹجی

29

- بات کرنے کا طریقہ

30

- ڈائری 1986

42

- ایگو کو مینج کرنا

43

- گناہ خدا سے قربت کا ذریعہ

44

- مولانا کے بعد

47

- تعارفِ کتب

49

- خبرنامہ اسلامی مرکز


علم سے آغاز

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم 570 ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ 610 ء میں آپ پر خدا کی طرف سے پہلی وحی اتری۔ یہ ابتدائی کلام جو خدا کی طرف سے آپ کو ملاوہ یہ تھا:
ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّکَ ٱلَّذِی خَلَقَ ۔ خَلَقَ ٱلۡإِنسَٰنَ مِنۡ عَلَقٍ ۔ ٱقۡرَأۡ وَرَبُّکَ ٱلۡأَکۡرَمُ ۔ ٱلَّذِی عَلَّمَ بِٱلۡقَلَمِ ۔ عَلَّمَ ٱلۡإِنسَٰنَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ (96:1-5)۔ یعنی، ’’ پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا۔ پیداکیا انسان کو علق سے۔ پڑھ اور تیرارب بڑا کریم ہے جس نے علم سکھایا قلم سے ۔ا نسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ جانتا نہ تھا‘‘۔
قرآن میں اتراہوا یہ پہلا کلام الٰہی بتاتا ہے کہ کسی حقیقی عمل کا آغاز کیاہے۔ یہ آغاز علم ہے۔ یعنی انسان کو باشعور بنانا۔اس کے اندر ذہنی تبدیلی لاکر فکری انقلاب پیدا کرنا۔ یہی انسانوں کے درمیان کسی حقیقی تحریک کاآغاز ہے۔ اس دنیا میں وہی انسانی تحریک کامیاب ہو سکتی ہے جو شعور کی بیداری سے اپنے کام کاآغاز کرے۔ رسول اللہ نے علم کا پیغام دیا جوابدی اہمیت کا حامل تھا۔ جوحال سے لے کرمستقبل تک انسان کے کام آنے والا تھا۔ اور جو اپنے وسیع انطباق (universal application) کے اعتبار سے دوسرے تمام پہلوؤں کو بھی اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔
علم طاقت ہے ۔ علم اس دنیا میں سب سے بڑا ہتھیار ہے، ایک فرد کے لیے بھی اور پوری انسانیت کے لیے بھی ۔ علم کاآغاز مائنڈ سے ہوتا ہے مگر وہ پوری خارجی دنیا کو مسخر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
علم سے آدمی کی تکمیل ہے۔ علم کے بغیر ایک انسان ادھورا انسان ہے۔ علم کے بعد وہ مکمل انسان بن جاتا ہے۔ علم سے خالی انسان صرف اپنی ذات کو جانتا ہے۔ علم کے حصول کے بعد آدمی پوری کائنات کو اپنے اندر سمولیتا ہے۔ علم انسان کے ذہنی افق کو بلند کرتا ہے۔ علم انسان کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔ علم انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ معرفت حق کے اعلی درجات تک پہنچے۔علم کسی ناقص انسان کو ایک کامل انسا ن بنا دیتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دنیا ایک سفر

ملکہ ایلزبتھ دوم 8 ستمبر2022ء کو 96 سال کی عمر میں وفات پاگئیں۔ وہ 70 سال تک انگلینڈ کی ملکہ رہیں۔ پوری دنیا میں کئی دنوں تک ملکہ کے موت کی خبر برننگ نیوز کی حیثیت سے چلتی رہی۔اگر غور کیا جائے توگویا یہ خبر انسانوں کے لیے ایک فطری حقیقت کی یاد دہانی تھی۔ یعنی اس دنیا کے ہر انسان کو ایک دن اسی طرح اس دنیا سے چلے جانا ہے،جس طرح ملکہ گئیں۔ کسی کو موت سے چھٹکارا نہیں۔
ایک دن کا واقعہ ہے۔میں اپنے کمرہ میں لیٹی ہوئی تھی، اس وقت مجھے ہلکی سی نیند آئی۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں سی 29 نظام الدین ویسٹ کے جس کمرہ میں موجود ہوں، وہ ایک ٹرین کی شکل میں تبدیل ہو گیا ہے۔ٹرین کےاوپر جہاں سامان رکھنے کے لیے جگہ بنی ہوتی ہے، وہاں میں کوئی کپڑا رکھ رہی ہوں۔ ٹرین بالکل سادہ ہے۔ کپڑا بھی سفید چادر کی طرح ہے۔
یہ خواب دیکھ کر میرا مائنڈ ٹرگر ہوا۔ میں سوچنے لگی کہ ہم لوگ اِس دنیا کے گھر کوغیر شعوری طور پر اپنا مستقل ٹھکانا ( permanent abode) سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن یہ ایک غلط فہمی کا معاملہ ہے۔ یہ ایک سراب (mirage ) ہے۔ مرتے ہی حقیقت سامنے آ جائے گی کہ یہ دنیا ایک پلیٹ فارم کے سوا کچھ نہیں تھی۔ صاحب معرفت وہی لوگ ہیں جو مرنے سے پہلے اس حقیقت کا ادراک کر لیں۔ اس سلسلے میں ایک بامعنی حدیثِ رسول ا بن عمر رضی اللہ عنہما کے الفاظ میںاس طرح آئی ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دنیا میں اس طرح زندگی گزارو، جیسے تم اجنبی ہو یا سفر کرنے والے۔ا بن عمر فرمایا کرتے تھے کہ شام ہو جائے تو صبح کا انتظار نہ کرو اورصبح کے وقت شام کا انتظار نہ کرو۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کوموت سے پہلے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6416)۔
مولانا وحید الدین خاں صاحب نے لکھا ہے کہ" یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان آج اپنے آپ کو موجودہ دنیا میں پاتاہے۔ لیکن ایک دن آتا ہے جب کہ ہر عورت اور مرد اس دنیا سے نکال کر اگلی ابدی دنیا کی طرف منتقل (transfer) کردیاجاتا ہے۔ اس کے پیچھے وہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوٹ جاتی ہے، جس کو وہ غیر شعوری طور پر اپنا مستقل ٹھکانا سمجھتا تھا۔ دانش مند وہ ہے جو اُس آنے والی ابدی دنیا کو اپنا اصل ٹھکانا سمجھے اور اس کے لیے تیاری کرے" (ماخوذ الرسالہ، نومبر 2016)۔ ڈاکٹر فریدہ خانم
واپس اوپر جائیں

کائونٹ ڈائون ہورہا ہے

سورہ العصر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو حقیقی تعمیر کے لیے ٹائم مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ اس ٹائم مینجمنٹ کے بغیر کسی کے لیے حقیقی ترقی کو پاناممکن نہیں۔کیوں کہ اس دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے آدمی کو خود کوشش کرنا ہے، خواہ وہ دنیا کی کامیابی ہو یا آخرت کی۔ جب کہ ناکامی کے لیے کسی کوشش کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنے آپ انسان کی طرف بھاگی چلی آرہی ہے۔ سورہ العصرکا ترجمہ یہ ہے: زمانہ گواہ ہے ۔ بے شک انسان گھاٹے میں ہے۔ سواان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیا اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔( 103:1-3)
قرآن کی اس سورہ میں زندگی کی ایک اہم حقیقت کے بارے میں انسان کو آگاہ کیا گیا ہے۔ ایک بزرگ نے کہا کہ سورۃ العصر کا مطلب میں نے ایک برف بیچنے والے سے سمجھا جو بازار میں آواز لگا رہا تھا کہ لوگو، اس شخص پر رحم کرو جس کا اثاثہ گھل رہا ہے، لوگو، اس شخص پر رحم کرو، جس کا اثاثہ گھل رہا ہے (ارْحَمُوا مَنْ یَذُوبُ رَأْسُ مَالِہِ)۔ اس پکار کو سن کر میں نے اپنے دل میں کہا کہ جس طرح برف پگھل کر کم ہوتی رہتی ہے اسی طرح انسان کو ملی ہوئی عمر بھی تیزی سے گزر رہی ہے۔ آدمی اگر اپنی مہلتِ عمر کو استعمال نہ کرے تو آخر کار اس کے حصہ میں جوچیز آئے گی وہ صرف ہلاکت ہے (تفسیر کبیر امام رازی، جلد 32، ص278)۔
انسان ہر لمحہ زندگی سے موت کی طرف جارہا ہے۔ ہر لمحہ انسان کاکائونٹ ڈائون ہورہا ہے۔ یہ فطرت کا ایک لازمی قانون ہے۔ اس قانون کو دوبارہ الٹی طرف چلایا نہیں جا سکتا۔مثال کے طور پر ایک شخص کی مقرر عمراگر 80 سال ہے تو اس کامطلب یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی اس کا کائونٹ ڈائون شروع ہو گیا۔ ہر نیا دن، آنے والا سال اس کی عمر میں کمی کا اعلان ہے۔ گویا کہ اس کی عمر کا سفر اس طرح ہورہا ہے:
¢†80،79،78،77،76،75،74،73،72، 71،70.......
اسی کائونٹ ڈائون (الٹی گنتی)کو قرآن کی مذکورہ سورہ میں خسران کہا گیا ہے۔یعنی عمر برف کی طرح پگھلتی جارہی ہے۔ انسان اگر اپنی عمر کومذکورہ چار قسم کے عمل کے لیے استعمال نہ کرے تو وہ ابدی گھاٹے میں ہے۔
واپس اوپر جائیں

اہل کتاب سے استفادہ

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِی إِلَیْہِمْ فَاسْأَلُوا أَہْلَ الذِّکْرِ إِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (16:43)۔ یعنی اور ہم نے تم سے پہلے بھی آدمیوں ہی کو رسول بنا کر بھیجا، جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے، پس اہل علم سے پوچھ لو اگر تم نہیں جانتے۔
مفسرین نے اہل الذکر سے اہل کتاب مراد لیے ہیں،یا وہ لوگ جو پچھلی امتوں اور پچھلے پیغمبروں کے تاریخی حالات کا علم رکھنے والے ہیں۔ مگر توسیعی معنی کے اعتبار سے اس سے مراد موجودہ زمانے کے جدید تعلیم یافتہ یہودی اور مسیحی علما ہیں۔ اس آیت سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ایک زمانہ آئے گا، جب کہ اہل کتاب وہ باتیں جانیں گے، جن سے مسلم علما زیادہ باخبر نہ ہوں گے، اور ان کے لیے موقع ہوگا کہ وہ اہل کتاب کی جدید تحقیقات سے اپنے دینی علم میں اضافہ کریں۔
اصل یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں یہوداور مسیحی قوموں کے لیے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ اپنے قدیم وطن سے نکل کر ڈائسپورا (diaspora)میں چلے گئے۔پھر ان کو موقع ملا کہ وہ مغرب کے جدید علوم کو سیکھیں۔جدید علوم سے باخبر ہونے کی بنا پر انھوں نے سائنسی دریافتوں کو جانا،اور ان کو اپنی مذہبی کتابوں کی شرح کے لیے استعمال کیا۔مگر مسلم اہل علم اس سےبے خبر رہے ۔
مثلاًجدید سائنسی دریافت کے نتیجے میں بالواسطہ انداز میں خدائی حقیقتیں قابل فہم ہوگئیں۔ مگر یہ دریافتیں نیوٹرل انداز میں تھیں۔ چنانچہ یہودی علما اور عیسائی علما نے انطباقی انداز میںخدا کے وجود پر بڑی تعداد میں کتابیں اور مقالات لکھیں۔ان میں سے ایک کتاب یہ ہے
The Evidence of God in an Expanding Universe: Forty American Scientists Declare Their Affirmative Views on Religion (John Clover Monsma, G. P. Putnam's Sons, 1958, pp. 250)
خدا کی سائنسی شہادت پریہ کتاب یہودی اور عیسائی اہل علم کے مضامین پر مشتمل ہے۔
اسی طرح علم الانسان (Anthropology)اور علم الآثار (Archaeology)، وغیرہ جدید ڈسپلنز ہیں۔ ان کےذریعے جدید سائنسی اصول کی روشنی میں انسان کی قدیم تہذیب اور تاریخ، وغیرہ کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان ڈسپلنز کی روشنی میں یہودی اور عیسائی علما نےوہ تاریخی حقائق دریافت کیے ہیں، جو بائبل اور قرآن کے مشترک موضوعات تھے۔ مثلاً پیغمبر ابراہیم کا بیان، پیغمبر موسیٰ اور فرعون کاواقعہ، حضرت مسیح کی زندگی، یہاں تک کہ قرآن کے تاریخی استناد(historicity) پر بھی انھوں نے تحقیق کی، وغیرہ۔ ان تحقیقات کے ذریعے یہودی اور عیسائی علما نے مذہبی شخصیات اور واقعات کے تاریخی استناد کو ثابت کرنے کا کام کیا ہے۔ان یہودی اور مسیحی علما کی سائنسی تحقیقات کی بنا پر اب مذہبی تاریخ دیگر تاریخی حقیقتوں کی طرح ثابت شدہ حقیقتیں بن چکی ہیں۔
بائبل اور قرآن میں بنیادی موضوع مشترک ہیں، مثلا ًخدا کا وجود اور انبیاء کے حالات، وغیرہ۔اس بنا پر اہلِ کتاب کی یہ تحقیقات بالقوہ طور پر (potentially)اسلام کی تائید کا کام ہیں۔ یہ مسلم علما کی ذمہ داری ہےکہ وہ اس پوٹنشل کو ایکچول بنائیں تاکہ اسلام کی صداقت جدید علمی معیار پر ثابت شدہ حقیقت بن کر انسانوں کے سامنے آسکے۔ فرانس کےڈاکٹر موریس بکائی (وفات1998ء) کی کتاب ـ"بائبل، قرآن اور سائنس " اس قسم کی ایک کوشش ہے۔ اس کے انگریزی ترجمے کا ٹائٹل یہ ہے:
The Bible, The Qur'an and Science by Dr. Maurice Bucaille
چوں کہ جدید علوم سے بے خبری کی بنا پر مسلم اہل علم اس میدان میں پیچھے ہیں۔ اس لیےان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ یہودی اور کرشچن علما کی دریافتوں سے اسی طرح استفادہ کریں جس طرح وہ کوئی دوسرادینی علم حاصل کرتے ہیں۔تاکہ خدا کا دین وقت کے مسلّمہ علمی معیار پر مدلل ہوکر انسانوں کے مائنڈ کو ایڈریس (address) کرے۔
اعلان
سی پی ایس انٹرنیشنل، نئی دہلی کی جانب سے انڈیا کےمدارس اسلامیہ کو مولانا وحید الدین خاں صاحب کی کتابیں ہدیے میں بھیجی جارہی ہیں۔ اس مقصد کے تحت ادارہ کی جانب سے مسٹر آصف خان (9918578630) مدارس میں جاتے ہیں، اور وہاں کی انتظامیہ سےاجازت حاصل کرتے ہیں۔ پھر ان مدارس کو کتابیں بھیجی جاتی ہیں۔ قارئین الرسالہ اور دوسرے خواہش مند حضرات سے گزارش ہے کہ وہ آصف صاحب سے رابطہ قائم کرکے اس سلسلے میں ان کا تعاون فرمائیں۔ شکریہ
واپس اوپر جائیں

مطالعۂ حدیث

شرح مشکاۃ المصابیح
12
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ کو حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں، یہاں تک کہ وہ اس کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ نماز قائم کریں اور وہ زکاة ادا کریں۔ پھر جب وہ ایسا کریں تو وہ اپنے خون اور اپنے مال کو مجھ سے بچالیں گے، سوااسلامی حق کے، ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے۔ (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر25، صحیح مسلم، حدیث نمبر22)
اس حدیث میں وہی بات بتائی گئی ہے، جو سورہ التوبہ کی ابتدائی آیتوں میں بیان کی گئی ہے۔اس حدیث میں لوگوں (الناس) سے مراد قدیم عرب کے وہ مشرکین ہیں جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے معاصر تھے۔ ان کے اوپر براہِ راست پیغمبر کے ذریعہ اتمام حجت کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود وہ لوگ دشمنی پر اڑے ہوئے تھے۔ اس لیے قانونِ الٰہی کے مطابق، ان کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا — وہ یا تو اسلام قبول کریں یا قتال کے لیےتیار ہو جائیں۔ مگر ابتدائی مخالفت کے بعد انہوں نے اسلام قبول کرلیا، اس لیے ان پر مذکورہ قانونِ الٰہی کے نفاذ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔
پیغمبر اسلام کی معاصر قوم کے سوا دوسری قوموں کے لیے ایسا قانون نہیں۔ دوسری قوموں کے لیے صرف پر امن دعوت ہے اور بس۔ پیغمبر کے بعد اب کسی بھی قوم سے اس قسم کا معاملہ نہیں کیا جائے گا۔
13
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کو اپنا قبلہ بنائے۔ اور ہمارے ذبیحہ کو کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کا ذمہ ہے۔ تو تم اس کے ذمہ کو نہ توڑو (صحیح البخاری، حدیث نمبر391)۔
اس حدیث میں ذمہ سے مراد وہ امن یا امان ہے جو ایک مسلم معاشرہ میں کسی کو دیا جاتا ہے۔ ایک شخص اگر مسلمان ہونے کا دعوی کرے اور اسلام کے ظاہری احکام پر عمل کرے تو اس کو مسلم معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے قبول کرلیا جائے گا۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ اس کی مخفی نیت کی بنیاد پر اس کے خلاف کوئی حکم لگائے اور نہ کسی کو یہ حق ہوگا کہ وہ کسی شخص کو بطور مسلمان قبول کرنے کے لیے مذکورہ شرطوں کے سوا کسی اور عملی شرط کا مطالبہ کرے ۔
14
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اعرابی آیا۔ اس نے کہا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے کہ جب میں اس پر عمل کروں تو میں جنت میں چلا جاؤں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراؤ اور تم فرض نماز کو قائم کرو اور فرض زکاة ادا کرو۔ اور تم رمضان کے روزے رکھو۔ اعرابی نےکہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے میں ان پر نہ کسی چیز کو بڑھاؤں گا اور نہ کسی چیز کو گھٹاؤں گا۔ جب وہ واپس ہونے کو ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو آدمی ایک جنتی انسان کو دیکھنے کی خوشی حاصل کرنا چاہے وہ اس اعرابی کو دیکھ لے۔(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر1397، صحیح مسلم، حدیث نمبر14)
اس حدیث میں جو اعمال بتائے گئے ہیں وہ اسلام کے بنیادی اعمال ہیں۔ یہ اعمال جس آدمی کے وجود میں حقیقی طورپر شامل ہوجائیں وہ اس کی پوری زندگی میں سما جائیں گے، وہ اس کی پوری شخصیت کو اللہ کے رنگ میں رنگ دیں گے۔
15
سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ بتاتےہیں کہ میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول مجھے اسلام کے بارے میں ایسی بات بتائیے کہ پھرمیں اس کے بارے میں کسی اور سے نہ پوچھوں۔ آپ نے فرمایا کہ تم کہو کہ میں اللہ پر ایمان لایا، پھر تم اس پر جم جاؤ (صحیح مسلم، حدیث نمبر38)۔
اللہ پر ایمان لانا کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اس بات کا اقرار ہے کہ میں نے شعوری فیصلہ کے تحت اللہ کو اپنا رب ومعبود بنا لیا۔ اس قسم کا شعوری فیصلہ پورے معنوں میں آدمی کے فکر وعمل کے لیے ایک کامل رہنما بن جاتاہے۔ وہ زندگی کے ہر موڑ پر آدمی سے تقاضا کرتاہے کہ وہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ ایسے تمام مواقع پر اپنے فیصلہ کے اوپر پوری طرح قائم رہنا، اسی کا نام مذکورہ حدیث میں استقامت ہے۔ اور جنت انہیں لوگوں کے لیے ہے جو ایمان کے بعد عملی استقامت کا ثبوت دیں۔
16
طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نجد کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ (وہ دور تھا) اس لیےہم اس کی دھیمی آواز سن رہے تھے۔ مگر یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آگیا۔ تو وہ اسلام کے بارےمیں پوچھ رہا تھا۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ وقت کی نمازیں دن میں اور رات میں۔ اس نے کہا کہ کیا میرے اوپر ان کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں، الا یہ کہ تم نفل نماز پڑھو۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا۔ اس نے کہا کہ کیا میرےاوپر اس کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں، إلا یہ کہ تم نفل روزے رکھو۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے اس سے زکاة کے بارے میں کہا۔ اس نے کہا کہ کیامیرے اوپر اس کے سوا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں،إلا یہ کہ تم نفل صدقہ کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ آدمی لوٹا اور وہ یہ کہہ رہا تھا کہ خدا کی قسم میں اس پر نہ زیادہ کروں گا اور نہ اس پر کمی کرونگا۔ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ آدمی کامیاب ہوگا، اگر اس نے سچ کہا۔ (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر46،صحیح مسلم، حدیث نمبر11)
اسلام میں متعین کچھ عبادتی فرائض ہیں۔ آدمی اگر سچا عبادت گزاربن جائے تو وہ فرض کے سوا زائد عبادت بھی کرنے لگتا ہے جس کو شریعت میں نفل کہاگیا ہے۔ اسی طرح جب آدمی کی زندگی میں عبادت کی روح پوری طرح پیدا ہوجائے تو اس کے لازمی نتیجہ کے طورپر ایسا ہوتاہے کہ اخلاق ومعاملات میں بھی اس کا اثر ظاہر ہونے لگتا ہے۔ خدا کی نسبت سے وہ عابد بن جاتاہے، اور بندوں کی نسبت سے عادل۔
17
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عبد القیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم کون لوگ ہو۔ انہوں نے کہا کہ (ہم )ربیعہ( قبیلہ سے ہیں)۔ آپ نے فرمایا کہ تم لوگ اچھے آئے کہ نہ رسوا ہوئے اور نہ شرمندہ ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اے خدا کے رسول، ہم آپ کے پاس صرف حرام مہینے میں ہی آسکتے ہیں۔ ہمارے اور آپ کے درمیان (مخالف) قبیلہ مضر آباد ہے۔ پس آپ ہمیںکچھ بنیادی رہنمائی کردیں جس سے ہم ان لوگوں کو باخبر کردیں جو ہمارے  پیچھے ہیں۔ اور اس کے ذریعہ ہم جنت میں داخل ہوجائیں۔ انہوں نے آپ سے مشروبات کے بارے  میں پوچھا ۔ آپ نے ان کو چار چیزوں کا حکم دیا اور چار چیزوں سے منع فرمایا۔ آپ نے ان کو ایک اللہ پر ایمان رکھنے کا حکم دیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم جانتےہو کہ ایک اللہ پر ایمان رکھنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتےہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنا اور زکاة ادا کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا اور یہ کہ تم مال غنیمت میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔ اور آپ نے ان کو چار چیزوں سے منع فرمایا ٹھلیا (الحنتم) سے اور توبنی (الدباء) سے اور نقیر سے اور تارکول والے پیالے (المزفت) سے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ان باتوں کو یاد رکھو اورتمہارے پیچھے جو لوگ ہیں ان کو بتادو (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر53،صحیح مسلم، حدیث نمبر17)
مدینہ میں جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کو بااقتدار حیثیت حاصل ہوگئی تو آپ نے مختلف عرب قبائل کے پاس تبلیغی وفود بھیجنا شروع کیا۔ اس کے بعدیہ ہوا کہ عرب قبائل مدینہ آکر آپ کی اطاعت قبول کرنے لگے۔ یہاں تک کہ عرب کے تمام قبائل مدینہ کی ریاست کی ماتحتی میں آگئے۔ اس حدیث میں ایک اصول یہ ملتا ہے کہ ایسے حالات میں جب کہ آدمی کے سامنے دو میں سے ایک کا انتخاب ہو — وہ یا تو اپنی مرضی سے ماتحتی قبول کرلے ورنہ اُس کو رسوائی اور شرمندگی کے ساتھ ماتحتی کو قبول کرنا ہوگا۔ ایسی حالت میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ باعزت صلح کو اختیار کرلیا جائے اور بےنتیجہ جنگ کا طریقہ چھوڑ دیاجائے۔
نوٹ حدیث میںقدیم عرب کے چار برتنوں کا ذکر ہے جو شراب بنانے اور پینے کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ "حنتم "شراب کی ٹھلیا۔ "دُباء" اندر سے کھوکھلا کیا ہوا کدو جو جگ کی طرح استعمال کیا جاتا تھا۔" نقیر" درخت کی جڑ کواندر سے کھوکھلا کر کے اس میں شراب رکھتے تھے۔ "مزفت" تارکول سے بنا ہوا شراب کا برتن— رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے حرام پر روک لگانے کے ساتھ اسباب حرام پر بھی روک لگا دی۔
18
عبادة بن الصامت رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا— اس وقت صحابہ کی ایک جماعت آپ کے پاس تھی— مجھ سے اس پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو گے۔ اور تم چوری نہ کروگے اور تم زنا نہیں کروگے اور تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگے اور تم کسی پر جھوٹا بہتان نہ لگاؤگے اور تم معروف میں نافرمانی نہ کروگے۔ پھر تم میں سے جو شخص اس عہد کو پورا کرےتو اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے۔ تم میں سے کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ کا ارتکاب کرلے اور وہ دنیا میں سزا پالے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے۔اور کوئی شخص ان میں سے کسی گناہ میں مبتلا ہوجائے، پھر اللہ اس کی پردہ پوشی کرے تو اس کا معاملہ اللہ کے اوپر ہے، چاہے وہ اس کو معاف کرے یا وہ اس کو سزا دے۔ پھر ہم نے آپ سے اس پر بیعت کی۔(متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر18، صحیح مسلم، حدیث نمبر41)
اسلام میں جن چیزوں سے منع کیاگیا ہے ان سے اپنے آپ کو دور رکھنا لازمی طورپر ضروری ہے۔ اگر کبھی کوئی شخص نفس سے مغلوب ہوکر وقتی طورپر گناہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کو فوراً توبہ کرنا چاہیے۔ ایسے آدمی کو کبھی دنیا ہی میں کوئی تکلیف دے کر اس کے گناہ کو دھودیاجاتا ہےاور کبھی اس پر پردہ ڈال دیاجاتا ہے۔ ایسی حالت میں یہ اللہ کےاوپر ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندے سے آخرت میں کس طرح کا معاملہ فرمائے۔ یہ وقتی طورپر گناہ میں مبتلا ہونے کا معاملہ ہے۔ گناہ میں مستقل طورپر مبتلا رہنا اور توبہ کے بغیر مرجانا قابل معافی نہیں۔
19
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ انسان نے مجھے جھٹلایا حالانکہ یہ اسے سزاوار نہ تھا۔ اور اس نے مجھے گالی دی حالاں کہ یہ اس کے لیے سزاوار نہ تھا۔ پس اس کا مجھے جھٹلانا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ خدا مجھے دوبارہ نہ بنا سکے گا جس طرح اس نے مجھے پہلی بار بنایا۔ حالانکہ دوسری بار پیدا کرناپہلی بار پیداکرنے سے زیادہ آسان ہے۔ اور اس کا مجھے گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ نے اپنا بیٹا بنایا ہے۔ حالانکہ میں اکیلا اور بےنیاز ہوں جس نے نہ جنا ور نہ وہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر 4974)۔
جب کوئی شخص خدا کے وجود پر شبہ کرتا ہے یا وہ اس کی صفات کمال کا انکار کرتاہے تو اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک جھوٹ ہوتا ہے۔ خدا کے تخلیقی مظاہر خدا کے وجود کا یقینی ثبوت ہیں۔ اسی طرح کائنات کی معنویت خدا کی صفات کمال پر گواہی دیتی ہے۔ ایسی حالت میں جو آدمی خداکو نہ پائے، جو خدا کی تخلیق میں خدا کے جلووں کو نہ دیکھے وہ یا تو اندھا ہے یا وہ جان بوجھ کر سرکشی کررہا ہے۔
20
ایک اور روایت میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالى عنہ کہتے ہیں کہ (اللہ کا یہ ارشاد ہے کہ) انسان کا مجھ کو گالی دینا یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ کوئی میرا بیٹا ہے۔ حالانکہ میں اس سے پاک ہوں کہ میں کسی کو اپنی بیوی یا اپنا بیٹا بناؤں (صحیح البخاری، حدیث نمبر4482)۔
کسی انسان کے لیے یہ کہا جائے کہ اس کی ایک بیوی یا اس کا ایک بیٹا ہے تو یہ صرف ایک واقعہ کا اظہارہوگا۔ لیکن اس قسم کی بات خداوندِ عالم کے لیے سخت ترین بہتان ہے۔ خدا اس سے بہت بلند ہے کہ اس کی کوئی بیوی یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ انسان ایک نامکمل مخلوق ہے۔ اس کو اپنی تکمیل کے لیے بیوی اور بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے مگر خدا اپنی ذات میں آخری حد تک ایک مکمل وجود ہے۔ ایک کامل اور مکمل خدا ہی موجودہ عظیم کائنات کو پیدا کرسکتا ہے۔
ایسی حالت میں کسی کو خدا کا بیٹا بتانا خدا کے رتبہ کو گھٹانا (degradation)ہے۔ اور اس قسم کا قول بلاشبہ بدترین قسم کا سب ّوشتم ہے۔
21
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔ انسان مجھ کو تکلیف پہنچاتا ہے۔ وہ زمانہ کو گالی دیتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں، میرے ہاتھ میں ہے معاملہ، میں رات اور دن کو پلٹتا ہوں (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر4826،صحیح مسلم، حدیث نمبر2246)
انسان پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ اس کو زمانہ کا نتیجہ سمجھ کر زمانہ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ مگر اس قسم کے کلمات زمانہ پر نہیں بلکہ خدا پر پڑتے ہیں کیوں کہ زمانہ کوئی آزاد اور بااختیار چیز نہیں۔ وہ خدا کے حکم کے تابع ہے۔ یہ دراصل خدا ہے جو اپنے فیصلہ کو احوال زمانہ کی صورت میں ظاہر کرتاہے۔ ایسی حالت میں آدمی کو چاہئے کہ وہ ہر موقع پر خدا کی طرف رجوع کرے نہ کہ زمانہ کو ذمہ دار سمجھ کر شکایت کرے۔
22
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکلیف دہ بات کو سن کر اس پر صبر کرنے والا خدا سے زیادہ اور کوئی نہیں۔ لوگ خدا کی طرف بیٹے کی نسبت کرتے ہیں۔ مگر وہ انہیں معاف کرتا ہے اور انہیں رزق دیتا رہتا ہے(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر2099، صحیح مسلم، حدیث نمبر2804)
انسان اگر کسی تکلیف دہ بات پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کی مجبوری ہے۔ کیوں کہ انسان کا اختیار بہت محدود ہے۔ محدود اختیار کی بنا پر اس کے لیے یہ موقع نہیں کہ وہ کسی سے بھر پور انتقام لے  سکے۔ لیکن خدا کامل اور لا محدود اختیار کا مالک ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی مرضی کے خلاف باتوں کو دیکھتا ہے اور اس پر صبر کرتا ہے۔ اس کا سبب خود خدا کا قائم کردہ قانونی امتحان ہے۔ خدا ہر ایک کو آزادی دے کر اس کا امتحان لےرہاہے۔ جب تک امتحان کی مدت ختم نہ ہو، یہ آزادی بھی ختم ہونے والی نہیں۔
23
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ایک گدھے پر رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا۔ میرے اور آپ کے درمیان کجاوہ کے پچھلے حصہ کی سوا اور کوئی چیز حائل نہ تھی۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، کیا تم جانتےہو کہ اللہ کا حق اپنے بندوں کے اوپر کیا ہے۔ اور بندوں کا حق اللہ کے اوپر کیا ہے۔
میںنےکہا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔آپ نے فرمایا کہ اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریںاور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور بندوں کا حق اللہ کے اوپر یہ ہے کہ وہ اس شخص کو عذاب نہ دے جو اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہراتا ہو۔ پھر میں نے کہا کہ اے خدا کے رسول کیا میں لوگوں کو اس کی خوش خبری نہ دے دوں۔ آپ نے فرمایا کہ لوگوں کو خوش خبری نہ دو ورنہ لوگ اسی پر بھروسہ کرلیں گے۔(متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر 2856، صحیح مسلم، حدیث نمبر30)
نجات کا دارومدار ہر ایک کے لیے شرک کے انکار اور توحید کے اقرارپر ہے۔ مگر اس کا مطلب صرف زبان سے کچھ الفاظ کی تکرار نہیں ہے بلکہ اس سے مراد وہ فکری انقلاب ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کو بدل دیتا ہے۔ آدمی اندر سے لے کر باہر تک اور قول سے لے کر عمل تک ایک ربانی رنگ میں رنگ جاتاہے۔ یہ تبدیلی اتنی گہری ہوتی ہے کہ اگر اتفاقی سبب کے تحت وہ اپنے عقیدہ کے خلاف کوئی غلطی کر بیٹھے تو اس کی پوری شخصیت آخری حد تک تڑپ اٹھتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ غلطی اس کے لیے مزید اضافے کے ساتھ خدا کی طرف متوجہ ہونے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
اس حدیث میں بھروسہ کرنے (فَیَتَّکِلُوا) کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ باتوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سمجھتے وہ اس کو صرف رسمی عقیدہ کے معنی میں لے لیں گے، اور کچھ الفاظ کو اپنی زبان سے دہرا کر یہ سمجھیں گے کہ انھوں نے آخرت میں اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنا لیاہے۔ حالانکہ حدیث کا یہ مطلب ہر گز نہیں۔
24
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کجاوہ پر تھے اور معاذ بن جبل ان کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، انھوںنے کہا میں حاضر ہوں خدمت میں ۔ آپ نے فرمایا کہ اے معاذ، انھوں نے کہا میں حاضر ہوں خدمت میں۔ آپ نے تین بار اس طرح فرمایا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ ہر وہ شخص جو سچے دل سے گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں، اللہ ضرور آگ کو اس پر حرام کر دے گا۔ انھوں نے کہا اے خدا کے رسول، کیا میں لوگوں کو اس کی خبر نہ دے دوں کہ وہ خوش ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھر وہ بھروسہ کرلیں گے۔ پھر معاذ نے اپنی موت کے وقت اس کی خبر دی، گناہ سے بچنے کے لیے (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر128، صحیح مسلم، حدیث نمبر 32)۔
ایک سچائی جب کسی آدمی کے دل ودماغ میں آخری حد تک اتر جائے، وہ اس کے یقین واعتماد کا لازمی حصہ بن جائے، اس وقت جو کلمۂ اعتراف آدمی کی زبان سے نکلتا ہے اسی کا نام گواہی (شہادت) ہے۔ جو آدمی اس طرح کمال درجہ میں خدا اور رسول کی معرفت حاصل کرلے اور پھر اس کا سچا اعتراف کرے تو یہ اعتراف اس کی پوری شخصیت کا نمائندہ ہوتاہے۔ ایسا اعتراف اللہ کی نظر میں اتنا قیمتی ہوتا ہے کہ اس کے اوپر جہنم کی آگ حرام کردی جاتی ہے۔
جو آدمی شہات کےدرجہ میں پہنچ کر خدا کی خدائی کا اعتراف کرے، اس کا پورا وجود معرفت رب میں ڈھل جاتا ہے۔ وہ ایک ایسا مزکیّٰ شخصیت (purified soul) بن جاتا ہے جو جہنم کی دسترس سے باہر ہوچکا ہو۔
25
ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ اس وقت آپ کے اوپر ایک سفید کپڑا تھا اور آپ سو رہے تھے۔ پھر میں آپ کے پاس آیا تو آپ جاگ چکے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی بھی بندہ جو یہ کہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، پھر وہ اسی پر مر جائے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔ میں نے کہا، اگر چہ اس نے زناکیا اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ میں نے کہا،اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ میں نے کہا، اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی۔ آپ نے فرمایا اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی، ابوذر کی ناپسندیدگی کے باوجود۔ اور ابو ذر جب بھی اس حدیث کو بیان کرتے تو اس کے ساتھ یہ بھی کہتے کہ ابو ذر کی ناپسندیدگی کے باوجود۔ (متفق علیہ:صحیح البخاری، حدیث نمبر5827، صحیح مسلم، حدیث نمبر94)
کلمۂ توحید کےاقرار سے مراد وہ اقرار ہے جو آدمی کی پوری شخصیت کا نمائندہ بن کر ظاہر ہو، جس میں آدمی کا پورا وجود شامل ہو۔ ایسے اقرار کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آدمی کا فکری اور روحانی وجود مکمل طورپر توحید کی حقیقت میں ڈھل گیا ہے۔ یہی وہ ربانی انسان ہے جو آخرت میں جنت کا مستحق قرار پائے گا۔
حدیث میں وإن زنى وإن سرق (اگر چہ اس نے زناکیا ،اگر چہ اس نے چوری کی)کا لفظ ہے، نہ کہ وإن یزنی وإن یسرق (اگرچہ وہ زنا کرتا رہے، اگرچہ وہ چوری کرتا رہے)کا لفظ۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آدمی ایمان لانے کے بعد بھی مستقل طورپر زنا اور سرقہ میں مبتلا رہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتفاقی طور پر وقتی سبب سے کبھی اس قسم کا گناہ سرزد ہوجائے۔ اور پھر اس پر غلطی کا شدیداحساس طاری ہو اور پھر وہ توبہ اور گریۂ ندامت سے اپنے آپ کو پاک کرلے۔ اس حدیث میں خدا سے ڈرنے والے انسان کا ذکر ہے، اور جس انسان کے دل میں خدا کا ڈر سمایا ہو وہ اگر کبھی جذبات سے مغلوب ہو کر کوئی گناہ کرلے تو اس کے بعد اتنی شدت کے ساتھ اس کے اوپر گناہ کا احساس طاری ہوتا ہے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ پاک انسان بن جاتاہے۔
26
عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی الہ نہیں اور یہ کہ محمد اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔ اور یہ کہ عیسی اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور وہ اس کی بندی کے بیٹے ہیں اور وہ اس کا کلمہ ہے جو اس نے مریم کی طرف القاء کیا۔ اور وہ اس کی طرف سے روح ہیں اور یہ کہ جنت اور جہنم حق ہے۔ اللہ ایسے آدمی کو جنت میں داخل کرے گا، اس عمل کے مطابق جس پر وہ تھا (متفق علیہ: صحیح البخاری، حدیث نمبر 3435، صحیح مسلم، حدیث نمبر28)۔
ایمان دراصل معرفت کا نام ہے۔ یعنی آدمی کو خدائی حقیقتوں کی شعوری دریافت حاصل ہو۔ اور پھر وہ اس کو بھر پور طور پر اپنی زندگی میں شامل کرلے۔ ایسے ہی انسان کو آخرت کی ابدی جنتوں میں داخلہ ملے گا۔
27
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ۔ میں نے کہا کہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا۔ مگر میں نے اپنا ہاتھ سمیٹ لیا۔ آپ نے کہا کہ اے عمرو، یہ کیا ۔میں نے کہا کہ میں شرط لگانا چاہتا ہوں۔ آپ نے فرمایا : کیا شرط لگانا چاہتے ہو۔ میں نے کہا:یہ کہ مجھے بخش دیا جائے۔ آپ نے فرمایا کہ اے عمرو، کیاتم نہیں جانتے کہ اسلام پچھلے کیے کو ڈھا دیتا ہے۔اور ہجرت اپنے سے پہلے کیے کو ڈھا دیتی ہے۔ اورحج اس سے پہلے کے کیے کو ڈھادیتا ہے۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر121)
ایمان انسانی شخصیت میں مکمل تبدیلی کا نام ہے۔ حقیقی ایمان کے بعد کوئی آدمی اپنی شخصیت کے اعتبار سے وہ نہیں رہتا جو کہ وہ اس سے پہلے تھا۔ یہ تبدیلی اس کی پوری شخصیت میں ایک مثبت انقلاب کا باعث بن جاتی ہے۔ایمان کے بعد انسا ن کی سوچ، اس کا بولنا، اور اس کا کردار سب ایک نئے رنگ میں رنگ جاتا ہے، یعنی اللہ کا رنگ۔ اس کے بعد انسان کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے۔ انسان کے ذہنی ارتقا میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا ہے۔اب اس کے اندر ایک تخلیقی شخصیت جاگتی ہے۔ اب اس کا ذکر رب العالمین کا ذکر بن جاتا ہے۔ اب اس کا شکر اعلیٰ شکر بن جاتا ہے— خدا کے یہاں بعداز ایمان حالت کا اعتبار ہے، نہ کہ قبل از ایمان حالت کا۔
واپس اوپر جائیں

دعا کی حقیقت

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دعا کچھ مقرر الفاظ کی تکرار کا نام ہے۔یعنی پراسرار نوعیت کے کچھ الفاظ ہیں، ان کو اگر صحیح تلفظ کے ساتھ انسان دہرا لے تو ایسی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ مگر صحیح بات یہ ہے کہ دعا اسپرٹ کا نام ہے، جو دل کی گہرائیوں کے ساتھ بندے کی زبان سے نکلتی ہے۔ یہ دراصل اسپرٹ ہے، جو کسی دعاکو قابلِ قبول دعا بناتی ہے۔ دعا کے الفاظ داعی کی قلبی کیفیت کو بتاتے ہیں، وہ محض زبانی طور پر تلفظ کلمات کے ہم معنی نہیں ۔
دعا انسان کے داخلی احساس کالفظی اظہار ہے۔ دعا دراصل اس بات کا نام ہے کہخدا کی کائنات میں وہ بالکل بےبس ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان دریافت کرے کہ خدا قادر مطلق ہے، اور وہ عاجز مطلق۔خدا سب کچھ ہے، اور وہ بے کچھ ۔ اگر خدا نہ دے تو اس کو کوئی چیز ملنے والی نہیں۔ یعنی وہ خدا کے مقابلے میںاپنی حالتِ عجز کو دریافت کرے۔ اور یہ دریافت انسان کے لیے اس کے وجودکا حصہ بن جائے۔جب بندہ کو یہ بات دریافت کے درجے میں معلوم ہوجائے کہ اس کو وہی مل سکتا ہے، جس چیزکو اس کا خدا اسے دینے پر راضی ہوجائے۔ اس وقت بندہ کے اندر ایک بے پناہ تڑپ پیدا ہوتی ہے، اور وہ اپنی زبان سے اپنے رب کو پکارنے لگتا ہے۔ اس کیفیت کے ساتھ اس کی زبان سے جو الفاظ نکلتے ہیں، اسی کا نام دعا ہے۔
ایک روایت کے مطابق، وہ دعا، دعا نہیں جو غفلت والے دل (قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہٍ) سے مانگی جائے (سنن الترمذی، حدیث نمبر 3479)۔ جس آدمی کا حال یہ ہو کہ وہ بظاہر زبان سےدعا کے الفاظ تو دہرائے ۔ لیکن ا س کا دل کہیں اور اٹکا ہوا ہو۔ دعا وہ ہے، جو سچی اسپرٹ کے ساتھ مانگی جائے، جس میں آدمی کی شخصیت اور دعا دونوں ایک دوسرے کے ترجمان بن گئے ہوں۔ آدمی کی شخصیت زبان حال سے انسان کی ترجمانی کرے، اور دعا زبان قال سے انسان کی ترجمانی کرے۔ دعا اس کی شخصیت ہو، اور اس کی شخصیت اس کی دعا۔
واپس اوپر جائیں

مکمل اسلام، ربانی اسلام

اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ قرآن میں کُونُوا رَبَّانِیِّینَ (3:79)تو آیا ہے، یعنی اللہ والے بنو۔ مگر نفذوا شرائع الاسلام(اسلامی شریعت کو امپوز کرو) کہیں نہیں آیا ہے۔ اسلام کا یہ تصور بلاشبہ قرآن و سنت میں ایک اجنبی تصور ہے۔یعنی یہ کہ اسلام زندگی کا ایک مکمل نظام ہے، اور اہل اسلام کا فرض ہے کہ وہ اس کوزندگی کےہر شعبہ حیات میں پوری طرح نافذ کریں۔ کسی پیغمبر نے دین کا یہ تصور پیش نہیں کیا، اور نہ کسی پیغمبر نے یہ کہا کہ میرا کام خدا کے دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں کامل طور پر نافذ کرنا ہے۔ حالاں کہ تمام پیغمبروں کا اصل دین ایک تھا۔
آپ اس قسم کے کسی مسلم رہنما کی تحریر پڑھیے یا اس کی تقریر سنیے، تو لمبی تقریر اور لمبی تحریر کے باوجود ان کی باتوں میں اصل اسلام حذف ہوگا۔ اللہ سے محبت کی بات ، اللہ سے خوف کی بات، آخرت کے مواخذہ کی بات، جنت کے شوق کی بات، ذاتی تزکیہ کی بات ، دعوت الی اللہ کی بات، وغیرہ۔ اس قسم کی تمام باتیں ان کے طویل کلام میں حذف ہوں گی۔ البتہ ساری دھوم اس بات پر ہوگی کہ فلاں طاقت اسلام کی دشمن ہے، فلاں طاقت اسلام کے خلاف سازش کررہی ہے، فلاں قوم کے اندر اسلاموفوبیا کا مزاج پیدا ہوگیا ہے، فلاں حکومت اسلام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، و غیرہ۔
ایسا کیوں ہے کہ ان لوگوں کی باتوں میں مثبت اسلام غائب ہوجاتا ہے، اور دشمنان اسلام کے تذکرے کی دھوم ہوتی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انھوں نے اپنی تحریک کے لیے صحیح نقطۂ آغاز کو دریافت ہی نہیںکیا۔ وہ ہمیشہ ایک ایسے مقام سے اپنے عمل کا آغاز کرتے ہیں جو اس دنیا میں کبھی اپنی منزل تک پہنچنے والا ہی نہیں۔
جب وہ اس بات کو اپنا نشانہ بناتے ہیں کہ اسلام کو مکمل نظریۂ حیات کےطور پر نافذ کرنا ہے۔ تو ان کو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کوئی پولیٹکل اتھارٹی ہے جو ان کے کام میںمستقل رکاوٹ ہے۔ اس لیے وہ فوراً پولیٹکل اتھارٹی سے ٹکراؤ شروع کردیتے ہیں تاکہ خود پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کریں۔ کیوں کہ ان کے مفروضہ نظریے کے مطابق ان کو نظر آتا ہے کہ پولیٹکل سیٹ پر قبضہ کیے بغیر وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت کا دستورانھیں اجازت دے کہ تم نان پولیٹکل میدان میں اپنا کام جاری رکھو، تو ان کو دکھائی دے گا کہ یہ تو ناقص اسلام ہے۔ ہم اپنے نظریے کے خلاف ناقص اسلام پر کیسے راضی ہوسکتے ہیں۔ اس طرح ان کا حال یہ ہوتا ہے کہ ان کا مفروضہ مکمل اسلام ان کو کبھی حاصل نہیں ہوتا، اور جو اسلام ان کو حاصل ہوتا ہے، وہ نامکمل دکھائی دیتا ہے۔
اگر دین کا یہ تصور درست ہو کہ دین ایک جامع نظام حیات کا نام ہے، اور دین کو زندگی کے تمام شعبوں میں نافذ کرنا اہل دین کا مشن ہے تو یہ دین کا ایک ایسا تصور ہے جو سرے سے قابلِ عمل ہی نہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی اپنا مشن یہ بنائے کہ مجھے سورج کو مغرب سے نکالنا ہے، اور اس کو مشرق میں غروب کرنا ہے، تو ایسا مشن کبھی واقعہ نہیں بنے گا۔ یہی حال اس تصور دین کا ہے جس کو مکمل اسلامی نظام کہا جاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ حضرت آدم سے لے کر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تک انسانی تاریخ میں پیغمبروں کی رہنمائی میں دینی تحریک کاتسلسل جاری رہا۔ مگر اس پوری مدت میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں میں کامل نظام کی حیثیت سے نافذ اور قائم ہوجائے۔ حتی کہ خاتم النبیین کے زمانے میں بھی نہیں۔ انبیاء اور انبیاء کے متبعین کی پوری تاریخ میں کوئی نہیں بتاسکتا ہے کہ اس قسم کا مفروضہ کامل نظام کبھی عملاً جاری و نافذ رہا ہے۔
عمر بن الخطاب (وفات 23 ہجری)اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انھوں نے اپنے ایک خطاب میں کہاإِنَّ آخِرَ مَا نَزَلَتْ آیَةُ الرِّبَا، وَإِنَّ رَسُولَ اللہِ - صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ - قُبِضَ وَلَمْ یُفَسِّرْہَا لَنَا، فَدَعُوا الرِّبَا وَالرِّیبَةَ (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2276)۔یعنی سب سے آخر میں جو آیت نازل ہوئی، وہ آیتِ ربا تھی۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی، اور آپ نے ہمارے لیے اس کی تفسیر نہیں بیان کی۔ پس تم ربا بھی چھوڑ دو، اور جس میں ربا کا شبہ ہو، اس کو بھی چھوڑ دو۔
اس طرح کے دوسرے بہت سے احکام ہیں، جن میں ہم کو بنیادی اصول تو ملتا ہے، لیکن ہم کو ان کی تفصیل نہیں ملتی۔ مثلاً خلیفہ کے انتخاب کا کوئی ایک متعین قرآن و سنت میں موجود نہیں۔ ایسی حالت میں یہی کہا جاسکتاہے کہ دین اصلاً انفرادی پیروی کا موضوع ہے، نہ کہ اجتماعی نفاذ کاموضوع۔
واپس اوپر جائیں

اہل جنت

قرآن میں اہل جنت کے تین گروہوں کا ذکراس طرح آیا ہے فَمِنْہُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِہِ وَمِنْہُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْہُمْ سَابِقٌ بِالْخَیْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّہِ ذَلِکَ ہُوَ الْفَضْلُ الْکَبِیرُ (35:32)۔ یعنی پس ان میں سے کچھ اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے ہیں اور ان میں سے کچھ بیچ کی چال پر ہیں۔ اور ان میں سے کچھ اللہ کی توفیق سے بھلائیوں میں سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی سب سے بڑا فضل ہے۔
یہ تین درجات جنت کے لیے انسان کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے جنت کے دروازے ہر ایک کے لیے کھول دیے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جنت کے مختلف درجات ہیں ۔ کیوں کہ دنیا میں لوگوں کی کوششیں مختلف سطح پر ہوتی ہیں (اللیل، 92:4)۔یہ کوششیں وسیع تر تقسیم کے اعتبار سے تین درجات پر مشتمل ہیں۔یہ درجات دراصل عمل کے اعتبار سے ہیں۔یعنی جنت کے لیے عمل کی تین بنیادی سطحیں ہیں۔ اور یہ سطحیں اس اعتبار سے بنیں گی کہ کون کتنا زیادہ مواقع کو اویل (avail) کرے گا۔
قاضی ثناء اللہ پانی پتی (1730-1810ء) اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھتے ہیں کہ ظالم لنفسہ وہ لوگ ہیں، جو عمل میں کوتاہی کرتے ہیں (مقصر فى العمل)۔ اور مُقْتَصِدٌ سے مراد وہ لوگ ہیں، جو ظاہر قرآن پر عمل کرتے ہیں ، حقیقت تک ان کی رسائی نہیں ہوئی ( یعمل على ظاہر الکتاب ولا یفوز الى حقیقتہ)۔ اور سابق بالخیرات وہ ہیں، جن کی رسائی حقائق قرآن تک ہے،جو عمل بھی کرتے ہیں اور دوسروں کو تعلیم بھی دیتے اور ہدایت بھی کرتے ہیں(من ضم الى العمل التعلیم والإرشاد)تفسیر مظہری، جلد8، صفحہ56۔
حقیقت یہ ہے کہ جنت کا شوق جنت کے حصول کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی عملاً اس کی تیاری کرے۔چوں کہ انسان اپنی کوششوں کے اعتبار سے مختلف درجات میں بٹا ہوا ہوتاہے۔ وہ اسی اعتبار سے آخرت میں اپنا مقام پائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عمل کی دعوت

قرآن کی ایک آیت ہے، جس کو اکثر صلحائے امت نے سب سے زیادہ امید کی آیت بتایا ہے۔ اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گنا ہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بڑا بخشنے والا، مہربان ہے۔ قرآن کی اس آیت کا مطالعہ کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس آیت میں عدم قَنوط پر زور دیا گیا ہے، یعنی غلطی سے جو احساسِ خطا پیدا ہوتا ہے، اس کو عمل مزید کی طرف موڑ دو۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ یہ چاہتا ہے کہ انسان امید (hope)میں جئے، وہ ناامیدی سے دور رہے۔یعنی بندے کا مسئلہ یہ ہے کہ اس سے خطا سرزد ہوئی ہے۔ لیکن رب کا معاملہ یہ ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ بندہ مایوسی کا شکار نہ ہو ، ورنہ وہ بےعملی کا شکار ہوجائے گا۔اس کے برعکس،توبہ کا مطلب ہےنئے جذبہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عمل کی کوشش کرنا۔
اس آیت کا سب سے زیادہ اطلاق موجودہ زمانے پر ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے میں عمل کے مواقع بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں۔یعنی دورِ جدید میں پوری طرح عمل کی آزادی ہے۔ قدیم دور میںمذہبی جبر کی وجہ سے یہ موقع نہیں تھا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے احساسِ خطا کو اس طرح موڑ دے کہ وہ مواقع عمل کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرے۔ وہ توبۂ نصوح کی اسپرٹ کو عمل نصوح کے لیے استعمال کرے۔ وہ اپنے احساسِ خطا کو عمل کثیر کے لیے استعمال کرے۔
قدیم زمانے میں انسان کے لیے صرف احساسِ خطا میں جینے کا موقع تھا۔ آج مواقع کی فراوانی کی بنا پر اس کے لیے یہ موقع پیدا ہوگیا ہے کہ وہ کثرتِ مواقع کو کثرتِ عمل کے لیے استعمال کرے۔ یعنی جو موقع آپ سے کھویا گیا ، اس کو بھلا کر جو موقع ابھی باقی ہے، اس کو زیادہ سے زیادہ اویل کرو۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا تجربہ

عربی زبان میں ایک مقولہ ہے — بڑھاپا نوجوانی کا ختم ہوجانا نہیں ہے، بلکہ وہ ایک نئے مرحلے کی تیاری کے لیے موقع ہے(الشیخوخة لیست فقدان الشباب، وإنما مرحلة جدیدة للفرصة)۔ بڑھاپے کا تجربہ خالق نے انسان کے لیے کیوں مقدر کیا ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان سے یہ مطلوب تھا کہ وہ تواضع (modesty) کی اہمیت کو سمجھے۔ انسان کے لیے ہر قسم کی ترقی ماڈسٹی کے ساتھ رکھ دی گئی ہے۔ مگر تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ انسان تعلیم و تربیت کے ذریعہ ماڈسٹی کی اہمیت کو دریافت نہیں کرپاتا۔ اس لیے خالق نے انسان کے لیے یہ مقدر کیا کہ وہ بڑھاپے کے پُرمشقت تجربہ سے گزرے، اور غور و فکر کے ذریعے ماڈسٹی کی حکمت کو دریافت کرے۔
زمین کی کشش (gravitational pull) ایک عجیب نعمت ہے۔ کشش کے نظام کے بغیر زمین پر انسان کی زندگی کا فروغ ممکن ہی نہ ہوتا۔ اس لیے خدا نے نیوٹن (1642-1727ء) کے واسطے سے انسان کے لیے ایپل شاک (apple shock) کا تجربہ مقدر کیا۔ تاکہ انسان زمین کی قوت کشش کو دریافت کرے، اور اللہ کی رحمت سے باخبر ہو کر اللہ کا شکر گزار بندہ بنے۔ اسی مصلحت کے تحت خالق نے انسان کے لیے بڑھاپے کا دور مقدر کیا ۔ بڑھاپا انسان کے لیے گویا ایپل شاک ہے۔
انسان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ شاک کے بغیر گہری باتوں کو پکڑنہیں پاتا ۔ بڑھاپا انسان کے لیےزندگی کی حقیقت کو پکڑنے کا آخری دورہے۔ یعنی اللہ تعالی نے بڑھاپے کے طور پرانسان کو سچائی کی دریافت کا آخری موقع عطا کیا ہے ۔ تاکہ پُر مشقت تجربہ کے ذریعہ انسان کے اندر سوچ جاگے، اور انسان اپنی زندگی کو زیادہ درست انداز میں منظم کرے۔ بڑھاپا انسان کے لیے گویا توبہ اور اصلاح کا دور ہے۔ بڑھاپا اس لیے ہے کہ انسان اپنے آخری زمانے میں اس حکمت کو دریافت کرے، جس سے وہ اپنے ابتدائی دور میںبے خبر رہا ہے۔بڑھاپا سادہ معنی میں نوجوانی کا ختم ہوجانا نہیں ہے، بلکہ ایک نیا مرحلہ ہے۔ زندگی کا آخری موقع جس میں انسان خدا کی اسکیم آف تھنگ کو جانے اور اس کے مطابق عمل کرے۔
واپس اوپر جائیں

چیلنج کی صورتِ حال

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دو نعمتیں ہیں جن میں بہت سےلوگ دھوکےمیں رہتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔
اس حدیث میں ایک قانون فطرت کو بیان کیا گیا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ وہ انسان جس کو چیلنج کی صورتِ حال کا سامنا نہ ہو وہ غفلت کا شکار ہوجاتا ہے۔ انسان کی زندگی میں جب آرام و راحت کی صورتِ حال پیش آجائے تو ایسا انسان جمود (stagnation) کا شکار ہوجاتاہے۔ ایسا انسان فکری طور پر ڈل (dull) ہوجاتا ہے۔اس کے بر خلاف، جب انسان چیلنج کی صورتِ حال میں رہتا ہے تو اس کی سوئی ہوئی فطری صلاحیتیں بیداررہتی ہیں۔ چیلنج کی حالت انسان کی تخلیقیت (creativity) کو بڑھاتی ہے۔ اس کی وجہ سےایک عام انسان سپر انسان (superman)بن جاتاہے۔اس کےاندر ناموافق صورتِ حال کو مثبت طور پر مینج کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے ۔ ایسا انسان ہر عسر کے اندر یسر تلاش کرلیتا ہے۔
برٹش مورخ آرنلڈ ٹائن بی (1889-1975ء) نے12 جلدوں میں ایک ضخیم کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کا نام اسٹڈی آف ہسٹری (A Study of History)ہے۔ اس کتاب میں اس نے پوری دنیا کی 19 عظیم تہذیبوں کا جائزہ لیا ہے۔ ا س جائزے میں اس نے بتایا ہے کہ تاریخ میں فطرت کا ایک نظام قائم ہے۔ جس کو اس نے چیلنج- رسپانس میکینزم کانام دیا ہے۔ یعنی حالات کے تحت ایک چیلنج پیش آتا ہے۔ اس کے بعد قوم کے اندر ہلچل پیدا ہوتی ہے۔ یہ ہلچل اس قوم کو ترقی کی طرف لے جاتی ہے۔ یہاں تک کہ غیر ترقی یافتہ قوم ترقی یافتہ قوم بن جاتی ہے۔ یہ عمل پوری تاریخ میں جاری رہا ہے۔ یہ معاملہ قوم کا بھی ہے، اور فرد کا بھی۔
اس کوراقم الحروف کے ایک تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب نے مجھ سے ایک بار کہا کہ محمد کو اگر تاریخ سے نکال دیا جائے تو تاریخ میں کیا کمی رہ جائے گی۔ اس کو میں نے مثبت چیلنج کے طور پر لیا۔ اس طرح مجھےیہ موقع ملا کہ میں وہ کتاب لکھوں جس کا نام اسلام دورِ جدید کا خالق ہے۔
اسی طرح ایک مثال یہ بھی ہے کہ میرے پاس ایک نوجوان عالم دین رہتے تھے۔ ان کی ایک اہم صفت یہ تھی کہ وہ میرے اوپر خوب تنقیدیں کرتے تھے۔ یہاں تک کہ وہ کسی دوسرے جاب کے لیے یو اے ای (UAE)چلے گئے۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا: انا ناقد اکبر ناقدٍفی الہند (میں ہندستان کے سب سے بڑے ناقد پر نقد کرنے والا ہوں) ۔ان کی تنقید وں سےمیرے ذہن کے بند گوشے کھلتے تھے، نئی نئی باتیں ذہن میں آتی تھیں، وغیرہ۔
چیلنج کی صورتِ حال انسانی نیچرکے مطابق ہے۔ اس کے برعکس، آرام و راحت کا راستہ انسان کی نیچرکےمطابق نہیں ہے۔میں ایک مرتبہ احمد آباد کے سفر میں ایک فیکٹری دیکھنے گیا۔ نئی امپورٹڈ مشینیں اس فیکٹری میں لگی ہوئی تھیں۔ فیکٹری کے نوجوان مالک نے بات چیت کے دوران ایک جملہ بولا تھااپنی تو لیمیٹشن (limitation)آجاتی ہیں مینجمنٹ سائڈ پر۔ اس جملے نے میرےمائنڈ کو ٹریگر کیا۔ میں نے سوچا کہ اسی طرح ہر انسان کے لیے اس کی ترقی کی لیمیٹشن (limitation) آجاتی ہے ، جب اس کے لیے چیلنج کا ماحول باقی نہ رہے۔
کسی انسان کی زندگی میں چیلنج کا ماحول کیسے پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان دو صفتوںیعنی کامل سادگی اور مکمل قناعت کا حامل ہو، اس کی زندگی میں یہ انقلاب آتا ہے۔ مکمل سادگی کامل عزم کی علامت ہے۔یہ ایک بامقصد زندگی کی علامت ہے۔ عدم قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے اندر گہرائی کا فقدان ہے، اور قناعت اس بات کی علامت ہے کہ آدمی گہری غور وفکر کا مالک ہے۔ اس بنا پروہ مادی چیزوں کے بجائے معنوی چیزوں کو پسند کرتا ہے۔ اس کو پانے کا طریقہ ایک حدیث رسول میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے مِنْ حُسْنِ إِسْلَامِ المَرْءِ تَرْکُہُ مَا لَا یَعْنِیہِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 2317)۔یعنی یہ کسی آدمی کے اچھے اسلام میں سے ہے کہ وہ بے فائدہ چیز کو ترک کرے۔ دوسرے الفاظ میں ، وہ غیرمتعلق چیزوں کو ترک کردے تاکہ وہ سادہ زندگی ، اونچی سوچ کا طریقہ اختیار کرسکے۔
واپس اوپر جائیں

بائی ٹائم اسٹریٹجی

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ أَفْضَلَ الْعِبَادَةِ انْتِظَارُ الْفَرَجِ مِنَ اللہِ(مسند البزار، حدیث نمبر 6297)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا بے شک افضل عبادت اللہ کی جانب سے کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ ایک شارح نے اس حدیث کی وضاحت ان الفاظ میں کی ہے بترک الشِّکایة من البلاء النازل(شرح مصابیح السنةلابن الملک، حدیث نمبر1602)۔ یعنی نازل شدہ مصیبت کے موقع پر شکایت کو ترک کرنا۔
موجودہ زمانے میں ایک اسٹریٹجی وجود میں آئی ہے۔ اس کو بائنگ ٹائم (buying time) کہا جاتا ہے۔یعنی کسی کام کےلیے وقتی طور پر تاخیر کرنا تاکہ اپنی پوزیشن کو ٹھیک کیا جاسکے
to delay an event temporarily so as to have a longer time to improve one's own position.
اس کا مطلب ہے وہی کام کرنا، جو آپ کے لیے ممکن ہو۔ زندگی میں جذباتیت کو ترک کرکے حقیقت پسند بننا۔اگر انتظار کی ضرورت ہو تو جلد بازی کا طریقہ اختیار کرنے کے بجائےانتظار کرنا اور صبر سے کام لینا۔ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ نے قریش مکہ کے ساتھ یک طرفہ شرطوں پر صلح کرلیا تھا۔ یہ جدید اصطلاح کے مطابق بائی ٹائم اسٹرٹیجی تھی۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر بائی ٹائم اسٹرٹیجی کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں ملتا ہے فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا(48:27)۔ یعنی پس اللہ نے وہ بات جانی جو تم نے نہیں جانی۔ مفسر البیضاوی (وفات 1292ء)نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے من الحکمة فی تأخیر ذلک (تفسیر البیضاوی، جلد5، صفحہ131)۔ یعنی اس تاخیر میں جو حکمت ہے۔
اس صلح کے ذریعہ قریش سے دس سال کا ناجنگ معاہدہ طے پایا اور نتیجۃً دعوت الی اللہ کے لیے موافق فضا پیدا ہوئی۔ اس صلح کےذریعہ آپ نے اپنے لیے تیاری کا موقع حاصل کیا، اور اتنی زیادہ تیاری کرلی کہ کسی جنگ کے بغیر آپ کو فریق ثانی کے مقابلے میں کامیابی حاصل ہوگئی۔ اسی لیے اس صلح کو قرآن میں فتح مبین کہا گیا ہے۔یعنی ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کیے بغیر بائی ٹائم اسٹرٹیجی کے ذریعے مخالفین کے اوپر غلبہ حاصل کرنا۔
واپس اوپر جائیں

بات کرنے کا طریقہ

گفتگو کرنے کا ایک صحیح طریقہ ہے، اور ایک بے فائدہ طریقہ۔صحیح طریقہ یہ ہے کہ آپ کی بات سن کر سننے والے کو اس سے کوئی ٹیک اوے (takeaway)ملے، یعنی کوئی واضح بات جس کو لے کر وہ آپ کی مجلس سے اپنے گھر جائے۔ ایسی گفتگو صحیح گفتگو ہے۔یعنی جب سننے والے سے پوچھا جائے کہ تمھارے لیے اس کا ٹیک اوے کیا تھا۔اس کے جواب میں اگر سننےوالے نے آپ کی گفتگو سے کوئی نئی بات پائی ہو، اور وہ کوئی واضح اور متعین بات کہتا ہےتو آپ کی گفتگو کا طریقہ صحیح تھا۔ ٹیک اوے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں آپ کو ذہنی غذا (intellectual food) ملتی ہے۔
اس کے برعکس، اگر ایسا ہو کہ آپ نے لمبی بات کہی یا لمبی تقریر کی۔ لیکن جب سننے والے سے پوچھا جائے کہ تمھیں اس بات یا تقریر سے کیا ٹیک اوے ملا۔ اور وہ اس کا کوئی واضح جواب نہ دے سکے تو ایسی گفتگو کا نہ سننے والے کو کوئی فائدہ ، اور نہ بولنے والے کو۔
صحیح گفتگو وہ ہے، جس سے سننے والے کو ٹیک اوے ملے۔ جس کو سن کر آدمی کا ذہن کھلے ، جس کو سن کر آدمی کو کوئی واضح پوائنٹ حاصل ہو، جس کو سن کر آدمی جب لوٹے تو ایک متعین بات سمجھ میں آئی ہو۔ اس کوئی نئی بات دریافت ہوئی ہو۔ صحیح گفتگو وہ ہے جو کہنے والے کی طرف سے سوچ سمجھ کر کہنے کے ہم معنی ہو، اور سننے والے کے لیے وہ کسی نئی بات کی دریافت بن جائے۔ جس گفتگو میں یہ صفت نہ پائی جائے، وہ لَا خَیْرَ فِی کَثِیرٍ مِنْ نَجْوَاہُمْ (4:114) کا مصداق ہے۔ یعنی ان کی اکثر سرگوشیوں میں کوئی بھلائی نہیں۔
جن لوگوں کے اندر سنجیدگی نہ پائی جاتی ہو وہ الفاظ بولتےہیں، لیکن ان کے الفاظ گہری معنویت سے خالی ہوتے ہیں۔ ان کے کلام میں وضوح (clarity) نہیں ہوتا۔ ایسے کلام سے لوگوں کو کوئی ٹیک اوے (takeaway) نہیں ملتا۔سچا انسان وہ ہے، جو کسی سے گفتگو کے وقت یہ محسوس کرے کہ اس کی گفتگوزیادہ مؤثر گفتگو نہیں ہے، وہ بے فائدہ کلام ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ بے فائدہ بحث و مباحثہ سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ لایعنی باتوں سے پرہیز کرے،اور اپنے آپ کو غور وفکر میں لگائے۔
واپس اوپر جائیں

ڈائری 1986

27جنوری 1986
پروفیسر علی اشرف(جامعہ ملیہ اسلامیہ ،نئی دہلی) سے ملاقات ہوئی۔انہوں نے کہا: میں ہر مہینہ باقاعدہ الرسالہ پڑھتا ہوں۔اس سے پہلے 1980ءمیں آپ کی تمام کتابیں خرید کر پڑھ چکا ہوں۔ بعض کتابیں ایک سے زیادہ بار بھی پڑھی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے اپنی تحریروں میں جو فکر پیش کیا ہے اس سے مجھے صد فی صد اتفاق ہے۔اب تک کے مطالعے میں مجھے آپ کی صرف ایک بات کھٹکی ہے اور وہ آپ کا وہ مضمون ہے، جس کاعنوان ہے: حسنین: تاریخ کے دو علامتی کردار(ظہور اسلام، صفحہ 90)۔
اس مضمون کو پڑھ کر مجھے ایسا محسوس ہوا گویا آپ یہ تلقین کر رہے ہیں کہ انسان کو برائی (evil) کے مقابلے میں کچھ نہیں کرنا چاہیے۔اس کو برائی کے مقابلے میں اپنا سر جھکا کر بیٹھ جانا چاہیے۔
میں نے کہا کہ مجھے برائی کے خلاف اقدام کرنے پر اعتراض نہیں ہے بلکہ ایسے اقدام پراعتراض ہے جب کہ اقدام سے نقصان ہوجائے مگر برائی وہیں کی وہیں باقی رہے۔
میں نے کہا کہ میرا اختلاف برائی کے خلاف اقدام سے نہیں ہے بلکہ میرا اختلاف ایسا اقدام سے ہے جو نتیجہ خیز ہونے والا نہ ہو۔قبل از وقت اقدام یا تیاری کے بغیر اقدام ہمیشہ بے فائدہ ہوتا ہے۔اور اقدام کی یہی وہ قسم ہے جس سے مجھے اختلاف ہے۔برائی کے خلاف عملی اقدام صرف اس وقت کرنا چاہیے جب کہ اقدام کے ضروری اسباب فراہم ہوگئے ہوں۔بصورتِ دیگر برائی کے خلاف نصیحت اور تلقین کی سطح پرکام کیا جانا چاہیے، نہ کہ عملی اقدام کی سطح پر۔
پروفیسر علی اشرف صاحب نے میری اس وضاحت سے اتفاق کیا۔
28جنوری 1986
مسز شکیلہ خاں(پیدائش1940ء) 1980سے الرسالہ پڑھتی ہیں، اوراس کے ساتھ ان کے شوہر آ ر یو خان بھی۔انہوں نے کہا کہ میں الرسالہ کے کئی پرچے منگاتی ہوں اور ان کو دوسروں تک پہنچاتی ہوں۔میں جانتی ہوں کہ الرسالہ بہت اچھی چیز ہے ،مگر کبھی بہت اچھی چیز بھی لوگوں کو اچھی دکھائی نہیں دیتی۔
انہوں نے کہا کہ آپ کی یہ بات مجھے بہت پسند ہے کہ گنبد کھڑا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ کچھ اینٹیں اس کی نیومیں دفن ہونے پر راضی ہوں۔انہوں نے اپنے بارے میں تاثر کے ساتھ کہا کہ’’ میں وہ نیو(foundation) بننا چاہتی ہوں جس پر کوئی گنبد کھڑا ہو سکے‘‘۔
انہوں نے اپنے شوہر کے بارے میں بتایا کہ وہ بہت حقیقت پسند (realist)ہیں۔انہوں نے کہا کہ ہمارے گھر میں ایک مسئلہ پیدا ہوا ۔میں بہت جھنجھلائی۔میرے شوہر نے سمجھا یا کہ اس وقت ہم صرف صبر ہی کر سکتے ہیں۔جو کچھ ہو سکتا ہے وہ بعد کو ہو سکتا ہے۔ان کا یہ جملہ مجھے بہت پسند آیا کہ ’’بعد کو سب کچھ ہوگا مگر اس وقت کچھ نہیں ہو سکتا‘‘۔اسی طرح ایک بار وہ اپنے ایک رشتے دار کے یہاں گئیں۔وہاں انہیں کچھ دن ٹھہرنا تھا۔وہاں لوگوں کے رہنے سہنے کے طریقے انہیں غلط نظر آئے۔اس پر انہیں غصہ آیا۔وہ چاہتی تھیں کہ لوگوں سے لڑ جائیں۔ان کے شوہر نے کہا کہ یہ تمہارا گھر نہیں ہے،یہ دوسرے کا گھر ہے۔یہاں تم کو برداشت کرکے رہنا ہوگا۔اس گھر میںکچھ نہیں بدلے گا، اگر بدلوگی تو تم بدلوگی۔اسی طرح انہوں نے اپنے شوہر کی ایک بات ان الفاظ میں نقل کی:’’اگر اپنی غلطی کو درست ثابت (justify)کروگی تو کبھی ترقی نہیں کروگی۔ترقی کرنے کے لیے اپنی غلطی کو ماننا پڑتا ہے‘‘۔
29جنوری 1986
27جنوری 1986 کو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز(تغلق آباد) میں مسٹر اصغر علی انجینئر کی ایک تقریر تھی۔اس کا عنوان تھا:
Islam and Contemprorary Problems
مسٹر اصغر علی انجینئر ان لوگوں میں سے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانہ میں حالات بدل گئے ہیں،اس لیے اسلام کی از سرنو تعبیر(بالفاظ دیگر نظرثانی) ہونی چاہیے۔ان کا کہنا ہے کہ قرآن منزل (goal) کی بات نہیں کرتا بلکہ صراط کی بات کرتا ہے۔صراط کا مطلب ان کے نزدیک پراسس ہے۔گویا اسلام میں کوئی حکم آخری طور پر طے شدہ نہیں ہے۔مگر انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ صراط کے معنی پراسس کیسے ہیں۔انہوں نے اس کی کوئی لغوی دلیل نہیںدی۔حالانکہ دلیل کے بغیر مجرد بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔
ایک گھنٹے کی تقریر میںانہوں نے کوئی ایک بھی ایسی واضح مثال نہیں دی جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ حالات میں ایسا فرق ہو گیا ہے کہ اب اسلامی حکم میں تبدیلی کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرہ میں عورتوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ اسلام کے نکاح وطلاق کے قانون پر نظر ثانی کی جائے۔انہوں نے اس سلسلے میں اسلام میں فری انکوائری کے اصول کو رائج کرنے پر زور دیا۔یہ ایک بڑا عجیب تضاد ہے۔مقرر موصوف نے جو مثال پیش کی اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلم معاشرہ میں عمل(practice) غیراسلامی ہو گیا ہے۔مگر اس کی بنیاد پر وہ اسلام کے اصولوں کے بارے میں فری انکوائری کی وکالت کر رہے ہیں۔جب کہ امرواقعہ یہ ہے کہ موجودہ معاشرتی خرابی اصول پر عدم پابندی سے ہوئی ہے ۔تو فری انکوائری اس بات پرہونی چاہیے کہ اصول اور عمل میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے، نہ یہ کہ اصولوں پر فری انکوائری کا عمل کیا جائے۔
30جنوری 1986
آج اتفاقاً لال قلعہ (دہلی) کی طرف جانا ہوا۔اس عظیم قلعہ کوپانچویں مغل حکمراں شاہ جہاں (1592-1666ء)نے بنوایا تھا۔قلعہ کی وسیع عمارتیں اور 75 فٹ اونچی دیواریں سرخ پتھروں سے بنی ہوئی ہیں۔ان کو دیکھ کر عجیب تاثر قائم ہوتا ہے۔
تین سو سال پہلے یہ قلعہ دنیا کی ایک طاقتور سلطنت کا مرکز تھا۔’’سلطان دہلی کو اس وقت کتنی بڑی حیثیت حاصل ہوگی‘‘ لال قلعہ کو دیکھ کر میری زبان سے یہی جملہ نکلا۔مگر عجیب بات ہے کہ لال قلعہ بننے کے بعد ہی مغل سلطنت کا زوال شروع ہو گیا۔اس کی وجہ افراد کی کمی تھی۔مغل حکمرانوں کے پاس پتھر کافی مقدار میں تھے،جن سے وہ ایک عظیم قلعہ بنا سکیں،مگر ان کے پاس جاندار افراد نہ تھے جن سے وہ ایک عظیم سیاسی نظام بنا سکیں۔
اس کے بعد شاہی خاندان میں اقتدار کی لڑائیاں شروع ہو گئیں۔شاہی افراد ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے۔صوبائی حاکموں میں مرکز سے بغاوت کا رجحان پیدا ہوگیا۔اس صورت حال سے انگریزوں نے فائدہ اٹھایا۔وہ دھیرے دھیرے پورے ملک پر قابض ہو گئے۔
لال قلعہ کو دیکھ کر یہ سب باتیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔میں نے اپنے دل میں کہا:قوم کے افراد میں اگر جان نہ ہو تو پتھروں کی دیواریں قوم کو بچانے والی ثابت نہیں ہوتیں۔جس قلعہ کو مغل حکمرانوں نے اپنے ابدی اقتدار کی علامت سمجھا تھا وہ ان کے اقتدار کا قبرستان بن کر رہ گیا— طاقت کا اصل راز جاندار افراد ہیں اور یہی وہ متاع ہے جودنیا میں ہمیشہ سب سے کم پائی گئی ہے۔
31جنوری 1986
قرآن میں حکم دیا گیا ہےکہ قرآن کی آیتوں پر غور کرو۔اس سے واضح ہے کہ قرآن کا ایک حصہ سطور (lines) میں ہے اور اسی کا دوسرا حصہ بین السطور (between the lines)میں۔اس بین السطور والے قرآن کو صرف غور کرکے پایا جا سکتا ہے۔اگر قرآن کا ایک حصہ غیرملفوظ طور پر اس کے بین السطور میں نہ ہوتا تو قرآن پر غور کرنے کا حکم نہ دیا جاتا۔
مجھ پر ایک تجربہ گزرا۔یہ تجربہ ایک مثال ہے جو اس معاملے کو واضح کر رہا ہے۔قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے دو قسم کے پانی بنائے۔ایک میٹھا اور دوسرا کھاری(فاطر،35:12) ۔اسی طرح قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ زمین میں مختلف پھل پیدا ہوتے ہیں۔سب کو ایک پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔مگر سب برابر نہیں۔ایک کو دوسرے پر فوقیت حاصل ہے(الرعد،13:4)۔
ان آیتوں پر غور کرتے ہوئے اچانک مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ان میں ایک ایسا مفہوم پارہا ہوں جو لفظوں میں لکھا ہوا نہیں۔یعنی اللہ کی ایک نئی صفت۔میرے ذہن میں آیا کہ انسان کسی چیز کے مزے کو چکھ کر جانتا ہے۔آدمی اگر چیز کو زبان سے نہ چکھے تو وہ اس کے مزے کو نہ جان سکے۔
خدا کھانے پینے سے ماورا ہے۔خدا نے کبھی کسی چیز کو نہیں چکھا۔پھر اس کو چیزوں کا مزا کیسے معلوم ہوا۔یہ غور کرتے ہوئے اچانک مجھ پر خدا کی ایک نئی صفت منکشف ہوئی۔یہ صفت کہ وہ چکھے بغیر چیزوں کے مزے کو جانتا ہے۔خدا اس انوکھی طاقت کا مالک ہے کہ وہ چیزوں کو انسان کی طرح زبان سے نہ چکھے،اس کے باوجود وہ پوری طرح جانے کہ کس چیز کا مزہ کیا ہے اور کس چیز کا مزہ کیا۔
1فروری 1986
3ستمبر1984کو مسٹرمسعود احمد بنارسی سے میری ایک گفتگو ہوئی تھی۔گفتگو کا موضوع سکھوں کاآزاد صوبہ (پنجابی صوبہ) تھا۔میں نے کہا کہ آزاد پنجابی صوبہ کبھی نہیں بنے گا۔انہوں نے اس سے سخت اختلاف کیا۔انہوں نے کہا کہ تین سال میں سکھوں کا آزاد پنجابی صوبہ ضرور بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر میرا یہ اندازہ صحیح نہیں نکلا تو میں آپ کو ایک لاکھ روپے ادا کروں گا۔انہوں نے اپنے قلم سے میری ڈائری میں یہ الفاظ لکھے:
Within three years Punjab will have an independent Khalistan. Bet Rs. one lakh.
آج ہندوستان ٹائمس (1فروری 1986) میں،میں نے مسٹر خشونت سنگھ کا ایک مضمون پڑھا۔ اس مضمون کو پڑھ کر مجھے وہ واقعہ یاد آیا جو اوپر نقل کیا گیا ہے۔مسٹر خشونت سنگھ کے مضمون کا عنوان ہے:بیوقوفوں کی ایک قوم(A Nation of Fools) ۔اس مضمون میں مسٹر خشونت سنگھ نے اس پوری سیاست کو احمقانہ سیاست بتایا ہے۔انہوں نے پنجاب کی تازہ سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:
I disapprove of their actions. This is no kar seva but kursee-seva. (Gurcharan Singh) Tohra (d. 2004) wants to stick to his kursee, they want it for themselves.
انہوں نے پنجاب کی سیاست پر اردو کا حسب ذیل شعر چسپاں کیا ہے:
جنوں کا دور ہے کس کس کو جائیں سمجھانے ادھر بھی عقل کے دشمن ادھر بھی دیوانے
3فروری 1986
آج کانپورکے دو صاحبان ملنے کے لیے آئے۔ایک ندوی عالم تھے اور دوسرے تاجرتھے۔ وہ دونوں تبلیغی جماعت کے چلہ میں گجرات جا رہے ہیں۔
گفتگو کے دوران میں نے کہاکہ اس وقت امت میں دو قسم کے کام چل رہے ہیں۔ایک اصلاحی اور دوسرا مطالباتی۔پہلے کو داخلی انداز کار اور دوسرے کو خارجی انداز کار کہہ سکتے ہیں۔قرآن وسنت سے جہاں تک میں سمجھا ہوں،صرف داخلی انداز کار ہی صحیح انداز کار ہے۔خارجی انداز کار کی تصدیق قرآن نہیں کرتا۔
پھر میں نے کہا کہ داخلی انداز کار کا اصول اگر مسلمانوں کی کسی جماعت میں پایا جاتا ہے تووہ صرف تبلیغی جماعت ہے۔تبلیغی جماعت، احتجاج اور مقابلہ اور تجاویز کا طریقہ اختیار نہیں کرتی جو موجودہ زمانہ میں دوسری مسلم جماعتیں اختیار کیے ہوئے ہیں۔وہ تمام تر مسلمانوں کی داخلی اصلاح پر زور دیتی ہے۔اور داخلی اصلاح ہی بلا شبہ اصل قرآنی کام ہے۔
میں نے کہا کہ مستقبل میں اگر کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے تو صرف داخلی انداز کار سے نکل سکتا ہے۔ خارجی انداز کار سے قطعاً کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں۔خواہ اس قسم کی تحریکیں ایک ہزار سال تک چلتی رہیں۔
4فروری 1986
دومسلم نوجوان مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔انہوں نے اپنا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ ایس آئی ایم آئی(SIMI) سے تعلق رکھتےہیں۔پھر انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے مسلم مسائل کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ میں نے کہا کہ کون سے مسلم مسائل؟ انہوں نے کہا کہ مثلاً یہ کہ:
’’ہندوستان کی کورٹ ہمارے شرعی قانون کو چیلنج کرنا چاہتی ہے‘‘
میں نے کہا کہ آپ کے اس جملے میں دو غلطیاں ہیں۔آپ کورٹ کے بارےمیں فرما رہے ہیں کہ وہ شرعی قانون کو بدلنا چاہتی ہے۔حالانکہ کورٹ کا یہ کام ہی نہیں۔قانون کو بدلنا قانون ساز اسمبلی کا کام ہے، نہ کہ کورٹ کا۔کورٹ تو صرف اس لیے ہوتی ہے کہ وہ بنے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ دے۔وہ قانون کومنطبق کرنے کے لئےہوتی ہے، نہ کہ حقیقتاً قانون کو بنانے کے لیے۔
دوسری بات یہ کہ عدالت کا کوئی اقدامی رول نہیں ہوتا۔یعنی وہ خود سے آکر آپ کے اوپر کوئی قانون نافذ نہیں کرتی۔آپ جب اس کے یہاں جا کر کہتے ہیں کہ فلاں قانون کے مطابق میرے معاملے کا فیصلہ کرو تو وہ شہادتوں کو سننے کے بعد متعلقہ قانون کو آپ کے معاملے پرمنطبق کر دیتی ہے۔
مثال کے طور پر شاہ بانو کے کیس میں خود مذکورہ مسلم خاتون نے عدالت سے کہا کہ میرے معاملے میں کریمنل پروسیجر کوڈ کی دفعہ125 کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو اس نے فیصلہ دیا۔اس کے برعکس، اگر مسلم خاتون یہ دعوی کرتی کہ میرے معاملے میںمسلم شرعی قانون کے مطابق فیصلہ دیا جائے تو کورٹ مسلم پرسنل لا کے مطابق فیصلہ دیتی۔اس معاملے میں واضح طور پر مسئلہ کسی کورٹ کی طرف سے نہیں پیدا ہوا ہے بلکہ خود مسلمانوں کی طرف سے پیدا ہوا ہے جو اپنے معاملات کا فیصلہ ملکی قانون کے تحت کرانا چاہتے ہیں۔
5فروری 1986
نظام الدین(نئی دہلی) میںہمارے دفتر سے ملا ہوا ایک پارک ہے۔اس پارک میں ایک لمبا سیمل کا درخت (silk-cotton tree) ہے۔اس درخت کی شاخیں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھیں۔اس میںروزانہ رات کو گدھ آ کر بیٹھتے تھے۔لوگوںنے پٹاخہ چھوڑ کر ان کو بھگانے کی کوشش کی،مگر وہ نہیںبھاگے۔ آخرکار کارپوریشن نے اس کا حل یہ نکالا کہ درخت کی تمام شاخیں کاٹ دی گئیں۔
یہ واقعہ1985ء کے آغاز میں ہوا۔شاخیں کاٹنے کے بعد درخت کا منظر یہ تھا۔تاڑ کی مانند ایک لمبا خالی تنا فضا میں کھڑا ہوا دکھائی دیتا تھا۔البتہ کاٹنے والوںنے یہ کیاکہ بالکل اوپر ایک آخری شاخ چھوڑ دی۔یہ شاخ تقریباً دو میٹر لمبی تھی۔
اب اس درخت کے کٹنے پر ایک سال پورا ہو چکا ہے۔آج اس بظاہر خشک تنے کا منظر دوسرا ہے۔قدیم شاخوں کے کٹنے کے بعدنیچے سے اوپر تک تنے کے چاروں طرف نئی شاخیں اور پتیاں نکلیں،یہاں تک کہ وہ ان سے ڈھک گیا۔اب وہ خشک تنا نہیںبلکہ وہ ایک پورا درخت ہے جو سرسبزو شاداب حالت میں کھڑا ہوا ہے۔تاہم اس شادابی میں ایک استثنا ہے اور وہ اسی شاخ کا ہے جس کو کاٹنے والے نے چھوڑ دیا تھا۔یہ شاخ آج بھی ٹھیک ویسی ہی ہے جیسی ایک سال پہلے تھی۔ایک پتلی سی لکڑی اور اس کے اوپر چند سوکھی پتیاں۔درخت کی نئی شاخیں خوب سرسبزوشاداب نظر آتی ہیں،مگر یہ قدیم شاخ ایک مرجھائی ہوئی موٹی ٹہنی کا منظر پیش کرتی ہے۔
یہ قدرت کا ایک سبق ہے۔اس دنیا میں جس کو کاٹا جائے وہی دوبارہ ظہور کرتا ہے۔جس کی سرسبزی کو مٹایا جائے وہی زیادہ سرسبزو شاداب ہو کر زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔یہ دنیا ایک ایسی دنیا ہے جہاںنہیں میں ہے کا امکان ہے۔جہاں موت کے اندر زندگی کا راز چھپا ہوا ہے۔
6فروری 1986
ڈاکٹرشعیب احمد قاسمی(پرنسپل طیبہ کالج جے پور) ملاقات کے لیےتشریف لائے۔انہوں نے بتایا کہ جے پور میں ایک ادارہ قائم کیا گیا ہے۔اس کا ایک جلسہ ہوا اور اس کی صدارت کے لیے ہندوستان کے ایک مشہور ترین عالم کو بلایا گیا۔
اس جلسہ میں ادارہ کے ذمہ دار نے اپنی تقریر میں بتایا کہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ دوسرے کورسوں کے علاوہ ٹیکنیکل کورس بھی رکھیں اور اس کے ذریعے ٹیکنیشین(technicians) تیار کریں۔مذکورہ عالم تقریر کے لیے کھڑے ہوئےتو انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ یہاں ٹیکنیشین (technicians) کی نہیں بلکہ اکسپرٹ(experts)کی ضرورت ہے۔ڈاکٹر شعیب نے بتایا کہ مولانا کی یہ تقریر بہت پسند کی گئی۔
میں نے کہا کہ یہ محض ایک خطابت ہے۔یہ کوئی گہری بات نہیں۔حضرت عمر اور حضرت علی دونوں جلیل القدر صحابی تھے۔مگر حضرت عمر کی خلافت کے زمانہ میں معاملات درست تھے اور حضرت علی کی خلافت کے زمانے میں معاملات بگڑ گئے۔کسی نے حضرت علی سے پوچھا کہ ایسا کیوں ہے؟ حضرت علی نے جواب دیا:’’عمر کے ساتھی میرے جیسے لوگ تھے،میرے ساتھی تمہارے جیسے لوگ ہیں‘‘(تاریخ ابن خلدون، جلد1، صفحہ 264)۔باالفاظ دیگر عمر کے زمانہ میں’’اکسپرٹ‘‘ کے ساتھ’’ٹیکنیشین‘‘ بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ اب ’’اکسپرٹ‘‘ ہیں مگر’’ٹیکنیشین‘‘ موجود نہیں۔ایک اکسپرٹ کے تحت لاکھوں ٹیکنیشین درکار ہوتے ہیں تب ایک نظام چلتا ہے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی بربادی کا سب سے بڑا سبب مذکورہ بالا قسم کی پرجوش تقریریں ہیں۔اسی کا نتیجہ ہے کہ مسلمان یونیورسٹی بناتے ہیں، مگر وہ ابتدائی سطح پر جدید تعلیم کا انتظام نہیں کرتے۔ وہ خلافت اور حکومت قائم کرنے کے لیے دوڑتے ہیں،مگر معاشرہ تیار نہیں کرتے۔عالمی انقلاب کی باتیں ان کو بہت پسند آتی ہیں،مگر افراد کے اندر انقلاب لانے سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کا ہر آدمی’’گنبد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچتا ہے،مگر’’بنیاد‘‘ کی اصطلاحوں میں سوچنا انہیں کم تر درجہ کی بات معلوم ہوتی ہے۔اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ مسلمانوں کے ہوائی قلعے تو خوب بن رہے ہیں،مگر حقیقی قلعہ تعمیر کرنے میں وہ اب تک کامیاب نہ ہو سکے۔
7فروری 1986
ایک مضمون نظر سے گزرا۔اس کا عنوان تھا’’عمامہ اور اتباع سنت‘‘۔مضمون نگار نے محدث ابو بکر بیہقی (وفات 1066ء) کی شعب الایمان کے حوالے سے عمامہ کی فضیلت میں ایک روایت نقل کی ہے۔پھر اطاعت رسول اور اتباع سنت کی اہمیت ثابت کرتے ہوئے عمامہ باندھنے پر زور دیا ہے۔
عمامہ باندھنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عملاً ثابت ہے۔لیکن قولاً کوئی ایک بھی صحیح حدیث نہیں جس سے عمامہ پہننے کی اہمیت ثابت ہوتی ہو۔عمامہ کی فضیلت میں جو بھی روایتیں ذخیرۂ حدیث میں موجود ہیں، وہ سب کی سب غیر ثابت شدہ ہیں،ایک بھی صحیح حدیث نہیں۔سنن الترمذی کے شارح عبدالرحمن مبارکپورى لکھتے ہیں : لَمْ أَجِدْ فِی فَضْلِ الْعِمَامَةِ حَدِیثًا مَرْفُوعًا صَحِیحًا وَکُلُّ مَا جَاءَ فِیہِ فَہِیَ إِمَّا ضَعِیفَةٌ أَوْ مَوْضُوعَةٌ(تحفة الأحوذی للمبارکفورى، جلد 5، صفحہ 339)۔ یعنی، عمامہ کی فضیلت میں کوئی صحیح مرفوع حدیث مجھے نہیں ملی، اس تعلق سے جو حدیثیں بھی ہیں، وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔
مثلاً ایک روایت یہ ہے:عَلَیْکُمْ ‌بِالْعَمَائِمِ فَإِنَّہَا سِیمَاءُ الْمَلَائِکَةِ(المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 13418)۔ یعنی، تم پر پگڑیاں پہننا لازم ہے،کیوں کہ یہ فرشتوں کی پہچان ہے۔ اس حدیث کا ایک راوی مجہول ہے(الحاوی للفتاوی للسیوطی، جلد 1، صفحہ 359) اور علامہ ابن طاہر پٹنی (وفات 1578ء)نے اس حدیث کو موضوعات میں شمار کیا ہے (تذکرة الموضوعات، صفحہ 155)۔ ایک دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں: الْعَمَائِمُ ‌تِیجَانُ الْعَرَبِ (مسند الشہاب، حدیث نمبر 68)۔ یعنی، پگڑیاں عرب کا تاج ہیں۔یہ روایت بھی باعتبار اسناد ضعیف ہے (المقاصد الحسنہ للسخاوی، حدیث نمبر 717)۔
یہ بات بطور واقعہ صحیح ہے کہ قدیم عرب میں پگڑی پہننا شرافت اور عزت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔اُس دور میںپگڑی آدمی کی سنجیدگی اور وقار کا نشان تھی۔اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے بھی پگڑی کا استعمال کیا۔مگرمیرا خیال ہے کہ عمامہ باندھنا عادت عرب ہے ،نہ کہ سنتِ رسول، یہ تاج العرب ہے، نہ کہ تاج الاسلام ۔
8فروری 1986
شری ڈی این آول6فروری کو ہمارے دفتر میں آئے۔وہ اس وقت دہلی میں اپنے لڑکے کے پاس ٹھہرے ہوئے ہیں۔بات چیت کے دوران اندازہ ہوا کہ وہ اردو بخوبی جانتے ہیں۔چنانچہ میں نے ان کو اپنی نئی کتاب ’’اللہ اکبر‘‘ بطور تحفہ دی۔ تیسرے دن 8فروری کو کتاب واپس آ گئی۔میں نے سمجھا کہ شاید بغیر پڑھے ہوئے انہوں نے واپس بھیج دی ہے۔مگر اس کے ساتھ ان کا ایک خط بھی تھا۔اپنے اس خط میںانہوں نے کتاب کے بارے میں اپنے تاثرات بتاتے ہوئے نہایت بامعنیٰ خیالات کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا تھا:
’’آپ کی کتاب’’اللہ اکبر‘‘ مجھے پرسوں عطا ہوئی تھی۔میں اس کے مطالعہ میں اس قدر کھو گیا کہ آج صبح تک اس کو سارا پڑھ کر ہی دم لیا۔یہ بھی قادر مطلق کی شان ہے، ورنہ288 صفحات کی کتاب کو اتنی جلدی پڑھ لینا کوئی آسان کام نہ تھا‘‘۔
یہ کتاب میں نے انہیں واپسی کی شرط پر نہیں دی تھی،تاہم انہوں نے کتاب کو بہت ہی حفاظت کے ساتھ ورق کے اوپر کاغذ لگا کر پڑھا اور ویسے کا ویسا ہی واپس کر دیا۔
پچھلے برسوں میں،میں نے بہت سے مسلمانوں کو ہدیۃً یہ کتاب دی ہے۔اور ان سے یہ کہا ہے کہ آپ اس کو پڑھنے کے بعد ایک خط میں اپنے تاثرات لکھ کر بھیج دیں۔مگر جہاں تک یاد ہے غالباً کسی ایک مسلمان نے بھی اب تک ایسا خط نہیں بھیجا۔
اس طرح کے مختلف تجربات ہیں جس کی روشنی میں ،میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مسلمان بالکل بے جان قوم ہو چکے ہیں۔اس کے مقابلے میں ہندو ایک زندہ قوم ہیں۔کاش اسلام کے خلاف تعصب کی دیواریں ڈھ جائیں اور وہ موجودہ دور میں خدا کے دین کے علم بردار بن سکیں۔
9فروری 1986
آج تبلیغی جماعت کے کچھ لوگ ملنے کے لیے آ ئے۔وہ بکارو اسٹیل(بہار) میں کام کرتے ہیں۔ان میں ایک صاحب انجینئر تھے۔گفتگو کے دوران میں نے کہا کہ ہمارا مشن اور تبلیغ کا مشن اصلاً ایک ہے۔فرق یہ ہے کہ تبلیغ عوام(masses)کے لحاظ سے کام کرتی ہے اور ہم ذہین طبقہ (intellectual class) کے لحاظ سے کام کررہے ہیں۔
انجینئر صاحب نے کہا کہ تبلیغی جماعت دونوں طبقہ کے لیے کام کر رہی ہے۔مثلاً آپ دیکھیے کہ ہماری جماعت جو بکارو سے آئی ہے اس میں میرے سمیت چار انجینئرہیں۔
یہ ایک زبردست غلط فہمی ہے۔لوگ ڈگری ہولڈرس اور انٹیلکچولس کو ہم معنیٰ سمجھتے ہیں۔اس لیے وہ ایسی بات کہتے ہیں۔حالاں کہ یہ دونوں ہم معنیٰ الفاظ نہیں۔انٹیلکچول سے مراد وہ شخص ہے جو غیرمعمولی ذہین ہو اور مسائل پر زیادہ گہرائی کے ساتھ سوچتا ہو۔جب کہ ڈگری یافتہ ہر وہ شخص ہے جو کسی تعلیمی ادارہ سے ایک متعین کورس کو مکمل کرنے کے بعد ڈگری حاصل کر لے۔
انٹیلکچولس پڑھے لکھے لوگوں میںبھی ہوتے ہیںاوربے پڑھے لکھے لوگوں میںبھی۔یہ لوگ معاملات کو تفکری انداز میں سمجھنا چاہتے ہیں۔فکروفہم ان کی غذاہوتی ہے۔وہ کسی بات کو اسی وقت مانتے ہیں جبکہ اس کو ان کی فکری سطح پر قابل فہم بنا دیا گیا ہو۔
10فروری 1986
8-10 فروری 1986 کو غالب اکیڈمی(نئی دہلی) میں ایک سہ روزہ سیمینار ہوا۔اس کا موضوع اردو صحافت تھا اور اس کو اردو اکادمی نے منظم کیا تھا۔راقم الحروف نے بھی اس میں ایک مقالہ پڑھا۔
ایک ہندو صحافی دہلی سے ’’مستانہ جوگی‘‘ نام کا اردو اخبار نکالتے ہیں۔انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میری پرورش لاہور میں ہوئی۔میں صرف اردو زبان جانتا ہوں۔مگر میرےبچوں کا حال یہ ہے کہ صرف ہندی اور انگریزی جانتے ہیں۔وہ اردو بالکل نہیں پڑھ سکتے۔یہی حال اب نئے ہندوستان میں بہت سے مسلم خاندانوں کا ہو رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کے اردو پرچوں کا حال یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ہندی پرچے نکال رکھے ہیں۔مثلاً’’شمع‘‘ اردو کا ماہنامہ ہے۔مگر اسی کے ما تحت اس نے’’ششما‘‘ نام سے ہندی ماہنامہ نکال رکھا ہے۔اسی طرح اور بہت سے پرچے اردو کے ساتھ ہندی ایڈیشنز جاری کیے ہوئے ہیں۔تاکہ اگر اردو کی کشتی ڈوبے تو وہ ہندی کی کشتی پر سوار رہ سکیں۔مگر یہی بات آپ کسی ہندی پرچے میں نہیں پائیںگے۔یعنی کوئی ہندی پرچہ ایسا نہیں ہے جس نے ہندی کے ساتھ اردو کا پرچہ جاری کر رکھا ہے۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس ملک کا مستقبل ہندی کے ساتھ ہے۔
میرا خیال ہے کہ تاریخ کے بارے میں اس قسم کے اندازے اکثر صحیح نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر تقسیم کے بعد عام خیال یہ تھا کہ ملک میں اردو کا بالکل خاتمہ ہو جائے گا۔مگر چالیس سال بعد بھی اردو ختم نہیں ہوئی۔بلکہ آزادی کے وقت اور آج کی صورت حال کا موازنہ کیا جائے تو اردو کافی بڑھی ہے۔
دوسری بات ایک اور ہے جس کو اکثر لوگ بھول جاتے ہیں۔ہندوستان میںلکھنے والی اردو ضرور کم ہوئی ہے،مگر بولی جانے والی اردو میں کوئی کمی نہیں ہوئی۔ہندوستان کے ٹیلی وژن میں جو زبان استعمال ہوتی ہے،وہ واضح طور پر اردو ہوتی ہے ،نہ کہ ہندی۔حقیقت یہ ہے کہ زبانوں کا تسلسل ختم ہونا انتہائی مشکل ہوتا ہے اور اردو بلا شبہ کوئی استثنا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

ایگو کو مینج کرنا

میں نے آپ سےیہ سیکھا ہے کہ ماڈسٹی سے انسان کا ایگو ختم ہوجاتا ہے۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کا ایگو کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔ اس کو کیسے ختم کیا جائے۔ (ڈاکٹر سفینہ تبسم، سہارن پور، یوپی)
جواب
انا(ego) شیطان کی جانب سے انسان کے خلاف جدو جہد کا حصہ ہے۔ اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کو مینج کرنا ہے۔ایگو با ر بار آئے گا۔ انسان کو یہ کرنا ہے کہ وہ شیطان کی جانب سے آئے ہوئے ایگو کو پہچانے، اور اس سے بچاؤ کی کوشش کرے۔یہ سلسلہ موت تک جاری رہے گا۔ انسان کو بیدار (vigilant)رہنا ہے تاکہ وہ شیطان کے حملوں کو مینج کرنا سیکھے۔
انسان کے اندرانا (ego) کا جذبہ بہت زیادہ طاقت ور ہے۔ یہ جذبہ انسان کی ساری سرگرمیوں میں کام کرتا ہے۔ انسان کے لیے سب سے بڑی تباہ کن بات یہ ہے کہ وہ انا(ego) کا شکار ہوجائے۔ایگو کے فتنے کا سب سے زیادہ مہلک پہلو یہ ہے کہ انسان اپنے ہر عمل کا ایک جواز (justification) تلاش کرلیتا ہے۔ وہ غلط کام بھی کرتا ہے تو اس کا ایک مبرر (justified reason) اس کے پاس ہوتا ہے۔ وہ غلط کام کو اس یقین کے ساتھ کرتا ہےکہ وہ ایک درست کام ہے۔ یہ ایک خود فریبی کی بدترین صورت ہے۔
انا کا ایک نقصان یہ ہے کہ آدمی ذہنی جمود (intellectual stagnation) کا شکار ہوجاتا ہے۔ایسا انسان حقیقت کے اعتبار سے وہ بے اصل خوش فہمیوں میں جیتا ہے، لیکن بطور خود یہ سمجھتا ہے کہ میں ایک ثابت شدہ حقیقت پر جی رہا ہوں۔ اس سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈی کنڈیشنڈ مائنڈ بنائے۔ ڈی کنڈیشننگ کی بنا پر آدمی حالات سے اوپر اٹھ کر سوچتا ہے، اس بنیاد پر وہ سچائی کو اس کی درست شکل میں دیکھتا ہے، اور اس کو قبول کرلیتا ہے۔ہر آدمی کی یہ ایک اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنی ایگو کی کنڈیشننگ کو دریافت کرے، اور سیلف ہیمرنگ کے ذریعے اپنے ایگو کو مینج کرنا سیکھے۔
واپس اوپر جائیں

گناہ خدا سے قربت کا ذریعہ

گناہ کے حوالے سے ایک پرامید حدیثِ رسول یہ ہے:اللہ ایک بندہ کو اس کے گناہ سے بھی فائدہ پہنچاتا ہے، جس گناہ کا ارتکاب وہ کرگزرتا ہے(إِنَّ اللہَ لَیَنْفَعُ ‌الْعَبْدَ بِالذَّنْبِ یُذْنِبُہُ) مسند الشہاب ، حدیث نمبر 1095۔ گناہ سے انسا ن کیسے خدا سے قریب ہو سکتا ہے۔اصل یہ ہے کہ گناہ اپنے آپ میں غلط عمل ہے، مگر وہ آپ کو نیکی کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ یعنی غلطی کا ارتکاب ہونے پرآپ سرکشی کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ ندامت کا احساس کرکے خدا کے آگے جھک جائیں۔ یہی عمل توبہ کہلاتا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کبھی روٹین میں کیا جانے والا نیک عمل انسان کو خدا سے قریب نہیں کرپاتا ہے۔ لیکن ایک گناہ انسان کو خدا سے بہت زیادہ قریب کردیتا ہے۔ بشرطیکہ انسان کو اپنے گناہ پر شرمندگی کا احساس ہو، اور وہ سنجیدگی کے ساتھ توبہ و استغفار کا طریقہ اختیار کرے۔گویا گناہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ خدا سے قریب ہوجائیں۔ احساسِ گناہ کوئی معمولی عمل نہیں ہے۔ یہ آپ کی شخصیت میں تبدیلی کا دروازہ ہے۔ وہ خدا سے زیادہ سے زیادہ قریب ہونے کا ذریعہ ہے۔ آپ کی شخصیت جو گناہ سے پہلے عام شخصیت تھی، وہ گناہ کے بعد ایک ربانی شخصیت میں بدل سکتی ہے۔
احساسِ گناہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ احساسِ کمتری (inferiority complex) کا شکار ہو کریہ سمجھ لیں کہ میں کوئی نیک عمل نہیںکرسکتا۔ ہر وقت مجھ سے گناہ اور غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ پھر اس کے بعدآپ ناامیدی کا شکار ہو کر دھیرے دھیرے ڈپریشن کا شکار ہوجائیں۔یہ اسلام کی تعلیم نہیں۔ اسلام کی تعلیم ہے توبہ یعنی رپنٹنس (repentance) پھر نئی انرجی کے ساتھ نیک عمل۔
رسول اللہ اہل ایمان کو توبہ و استغفار پربہت زیادہ ابھارا کرتے تھے۔ایک صحابی حبیب بن حارث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: یا رسول اللہ!مجھ سے گناہ ہوتے رہتے ہیں۔ آپ نے کہا:توبہ کرلیا کرو۔اس نے کہا: اے اللہ کے رسول، میں توبہ کروں گا، لیکن دوبارہ میں گناہ کروں گا۔ آپ نے فرمایا، جب جب گناہ کرو توبہ کرلو۔ اس نے کہا: تب میرے گناہ بہت زیادہ ہوجائیں گے۔ رسول اللہ نے کہا: اللہ کی معافی تیرے گناہوں سے بہت وسیع ہے (عَفْوُ اللہِ أَکْثَرُ مِنْ ذُنُوبِک) المعجم الأوسط للطبرانی، حدیث نمبر 4854۔ (مولانا فرہاد احمد)
واپس اوپر جائیں

مولانا کے بعد

آج بتاریخ 4اکتوبر 2022ء کومولانا وحیدالدین خاں صاحب کی رہائش گاہ ( نظام الدین ویسٹ، نئی دہلی) پہنچا۔ گیٹ کھول کر اندر داخل ہوا تو مولانا کی صاحبزادی ڈاکٹر فریدہ خانم (آپا) نے آواز دی کہ اوپر آجائیں۔ میرے قدم لڑکھڑا رہے تھے ۔بالآخر کسی طرح سیڑھیاں چڑھ کر مولانا مرحوم کے کمرے میں داخل ہوگیا۔ میں جس شخصیت سے استفادے کے لیے ہمیشہ حاضر ہوا کرتا تھا، آج شدت سے مجھے اس کی غیر موجودگی کا احساس ستانے لگا۔ آنکھیں اشکبار تھیں۔ میرے کانوں میں مولانا کے چند سادہ اور محبوب کلمات گونج رہے تھے۔ مثلاً، ارے بھائی! دیکھو بھائی! سنو بھائی! وغیرہ۔ یہ گویا کسی درد مند دل کی پکار تھی۔ اِسی کے ساتھ یہ سوالات بھی سنائی دینے لگے: "اقبال صاحب! فیاض صاحب! کوئی نئی خبر، کوئی نیا تجربہ ہے آپ کے پاس۔۔۔؟" ایک مرتبہ ایک صاحب نے کہا تھا کہ کوئی خبر نہیں ہے۔ تو مولانا نے کہا کہ آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں۔ ہر دن نیا سورج نکلتا ہے، پوری کائنات اعلی بندوبست کے ساتھ چل رہی ہے— کیا یہ خبر(نیوز) نہیں ہے۔ گویا مولانا کے نزدیک اخباری نیوز کوئی نیوز نہیں تھی، بلکہ حقیقی نیوز وہ تھی، جس سے معرفت کا رزق حاصل ہو۔
مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ آج بظاہر سوال کرنے والا ہمارے سامنے موجود نہیں ہے، مگر سوال بدستور قائم ہے۔ تاکہ مولانا کے بعد بھی معرفت کا عمل رکے بغیر جاری رہے۔ مولانا کے کمرے میں خالی کرسی اور شیلف میں آویزاں اُن کے عبا کو پر نم آنکھوں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا ، ایک طرف خالی کرسی اور جبہ ، دوسری طرف مولانا کی ساری تصنیفات۔ گویا کرسی اوران کا جبہ زبان حال سے یہ کہہ رہے تھے کہ یہ شخصیت اب اِن کتابوں میں موجود ہے۔
پنچ پیراں قبرستان میں:اس کے بعد پہلی بار مولاناوحیدالدین خاں صاحب کی قبر پر حاضری کا موقع ملا۔ بستی حضرت نظام الدین کے قبرستان پنچ پیراں کے صدر دروازے سے داخل ہونے کے بعد سیدھے قبرستان کے آخری حصے میں ایک مزار کی مضبوط فصیل بنی ہوئی ہے۔ ٹھیک اس سے ذرا پہلے مولانا کی قبر موجود ہے۔ میری زبان گنگ تھی۔ ’’السلام علیکم یا أہل القبور‘‘(اے قبر کے ساکنو، تم پر سلامتی ہو) کے روایتی الفاظ زبان پر جاری تھے۔
قریب ہوا، اپنے ساتھی سے قبلہ معلوم کیا اور نماز جنازہ ادا کی۔ میرا دل مولانا کو مخاطب کرتے ہوئے یہ کہہ رہا تھا کہ مولانا! فی الوقت میں آپ کی قبر کے پاس ہوں۔ جس معرفت کی سطح پر آپ پہنچے ہیں اس کو لے کر مجھے اور میرے ساتھیوں کو آگے بڑھنا ہوگا۔اس وقت میں قبرستان میں اسی اضطراب کے عالم میں کبھی میں قبر کے کتبہ پر ہاتھ لگا تا، کبھی قبر کو دیکھتا ۔ گویا میں مولانا سے کچھ سننا چاہتا ہوں۔ مگر میرے شعور نے کہا کہ مولانا آپ نے خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتے ہوئے کسی کی پرواہ کیے بغیر واضح طور پرخدا کی ہر بات کھول کھول کر بتادی، آخری حد تک خیرخواہی کردی( قَد ‌بَلَّغْتَ، وَأَدَّیْتَ، وَنَصَحْتَ)۔ اب مولانا خدا کے فطری قانون کے تحت ہم سے جدا ہوکر آخرت کے سفر پر روانہ ہوچکے ہیں۔ پھر یہ ہم لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ہم نے مولانا کے ذریعہ جو عصری اسلوب میں اسلام پایا ہےاس کو آگے لے کر جائیں۔
بہرحال، اِنھیں کیفیات سے گزرتا ہوا سوچ رہا تھا کہ اچانک مجھے افطار کے وقت کی ایک دعا یاد آگئی:ذَہَبَ الظَّمَأُ وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، ‌وَثَبَتَ ‌الْأَجْرُ ‌إِنْ ‌شَاءَ ‌اللہُ (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر 2357)۔ یعنی، پیاس چلی گئی اوررگیں ترہوگئیں اوراللہ نے چاہاتواجروثواب قائم ہوگیا۔ اِس دعا کو میں اِس طرح پڑھنے لگا: ذھب روح مولانا ودفن الجسم وارجو من اللہ ان یثبت لہ الفردوس (مولانا کی روح پرواز کرگئی۔ جسم قبر کے حوالے ہوگیا اور اللہ سے امید ہے کہ وہ اپنے فضل سے مولانا کو جنت الفردوس میں ٹھکانہ عطا فرمائے گا)۔ اور یہ بھی سوچا کہ مولانا کی روح جب پرواز کررہی تھی تو اس وقت بھی وہ اسی قسم کے الفاظ دہرارہے ہو ں گے :ذھب نفسی، ودفن جسدی وأرجو من اللہ ان یثبت اجری( میری روح پرواز کر گئی میرا جسم سپرد خاک ہوگیا امید ہے کہ میرا رب میرے حق میں بہتر فیصلہ فرما ئے گا)۔ گویا مولانا کی سادہ زندگی معرفت کی راہ کا "روزہ" تھا، موت ان کے لیےرفیق اعلی سے ملاقات کا"افطار" بن گئی۔
حقیقت کی تلاش اور حقائق کی یافت کی خاطر ان کی ہڈیاں چٹخ گئیں اور رگوں کا خون خشک ہوگیا ، پوری امید ہےکہ برزخ کی زندگی میں خدا نےانھیں ضرور تروتازہ رکھا ہوگا، اوراجر عظیم کا فیصلہ کیا ہوگا جس کی رضا کی خاطرمولانا نے لوگوں کی ناراضگی کو برداشت کیا ۔حقیقت یہ ہے کہ معرفت والا دین غائب ہو جائے اور رسمی عبادت باقی رہ جائے تو از سر نو روحِ عبادت کو ڈسکور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں نے یہی کام سر انجام دیا ہے۔
داعی کا مشن: خدا امید کا سرچشمہ ہے۔ایک سچے مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی اضطراب میں گزرتی ہو، مگر اس کا خاتمہ پرامید ہوتا ہے۔ کیوں کہ وہ ایک ’معلوم مقام‘ کی طرف جارہا ہوتاہے، یعنی آخرت اور خدا کی بنائی ہوئی ابدی جنت کی طرف۔ معرفتِ رب ہو یا معرفت ِآخرت، اس کی تذکیر کے لیے عمر کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ مگر شیطان غفلت میں مبتلا کردیتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ یہ جوانوں کا موضوع نہیں، بوڑھے لوگوں کا موضوع ہے۔کیوں وہ لوگ زندگی سے فائدہ اٹھا چکے ہیں۔انسان کی یہی سب سے بڑی نادانی اور سرکشی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ موت کی یاد اور اس کے لیے تیا ری کا چرچا آج کل بہت کم ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی داعی یا مربی معرفت ِرب یا فکر ِآخرت کی یاددہانی کراتا ہے تو ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے ۔ آخرت کے علاوہ بقیہ سارے موضوعات سے ہردن روز نامچے یا اخبار ہمیں آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ مگر خدا کے منصوبۂ تخلیق کےمطابق، اصل تیاری آخرت کی ہے۔ جس کے لیےخالق نے اہتمام کے ساتھ انبیاء کرام کو منتخب کیا تھا۔ قرآن میں ہے:إِنَّآ ‌أَخۡلَصۡنَٰہُم بِخَالِصَةٖ ذِکۡرَى ٱلدَّارِ (38:46)۔ بے شک ہم نے ان کو ایک خاص بات کے ساتھ مخصوص کیا تھا کہ وہ آخرت کی یاد دہانی ہے ۔
چنانچہ آخرت داعی کاخاص موضوع ہوتا ہے۔ مسائلِ دنیا تو غیر داعی کا موضوع ہے، مگر مسائل آخرت صرف ایک نبی اور ان کے بعدان کے ماننے والےداعی کا موضوع ہواکرتا ہے۔یقیناً مولانا کی ہر بات آخرت رخی تھی۔ ان کی مجلسوں ، ٹیلفونک گفتگو اوران کی کتابوں سے میں نے یہی پایا ہے۔وہ معرفت اورآخرت کے داعی بن کر دنیا میں رہے اور اسی حالت میں وہ اس دنیا سے چلے گئے۔ انھوں نے اس مقصد کے لیے آخری حد تک اپنی صلاحیتوں کی قربانی دی ۔ انھوں نےاللہ کی عبادت کو مقصد اور اس کی طرف بلانے کو اپنا مشن بنایا، ان کی ساری تحریروں کو اسی نقطہ نظر کے تحت سمجھا جاسکتا ہے ۔ (مولانا سید اقبال احمد عمری، عمرآباد)
واپس اوپر جائیں

تعارفِ کتب

تربیت اولاد
ایک حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ "کسی باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو سب سے عمدہ وراثت اچھا ادب سکھانا ہے" (المعجم الاوسط، حدیث نمبر3658)۔کہتے ہیں کہ گھر بچہ کا پہلا مدرسہ (اسکول) ہوتا ہے۔ جہاں وہ سب سے پہلے اپنے والدین، گھر کے ماحول اور گھر کے باقی افراد سے غیر رسمی طور پر بہت کچھ سیکھتا ہے۔ اور بچہ کی پرورش، نمو اور تربیت کا یہی وہ اہم ترین دور ہوتا ہے جس میں ہر سکھائی یا سیکھی گئی بات (چاہے وہ صحیح ہو یا غلط) بچہ کے دل ودماغ میں نقش ہو جاتی ہے اور عملی طور پر زندگی بھر وہ اس کو یاد رکھتا ہے۔
یعنی اگر گھر کا ماحول بہتر ہوگا تو بچہ کی پرورش اور تربیت بھی بہت صحیح انداز میں ہوگی۔ ظاہر ہے گھر کا ماحول والدین کی بہتر سوچ اور عمل سے ہی بہتر ہو سکتا ہے۔ اگر والدین کو خود تربیت کی ضرورت ہو تو وہ اپنے بچوں کی تربیت کیسے کر پائیں گے۔ اس لیے کہ تربیت یافتہ ہی دوسروں کی بہترین تربیت کر سکتے ہیں۔ اور یہی ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ والدین کی اکثریت یہی سوچتی اور سمجھتی ہے کہ بچے کی تربیت اسکول، مدرسہ، کالج یا یونیورسٹی کرتی ہے۔ ان کی ساری امیدیں اور امنگیں ان رسمی تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوتی ہیں، وہ بچے کی پہلی درسگاہ (گھر) کوکوئی اہمیت نہیں دیتے ۔ ایسے لوگ پھر بچوں کے بگاڑ کے ذمہ دار بھی ان تعلیمی اداروں کو ٹھہراتے ہیں۔
تربیتِ اولاد کے موضوع پر بہت ساری کتابیں اور مضامین لکھے جا چکے ہیں ان کو بے شک پڑھیں لیکن 80 صفحات پر مشتمل زیرِ تبصرہ کتاب "تربیت اولاد" اس موضوع پر مختصر مگر ایک جامع اور شاندار کتاب ہے۔ اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس کے مصنف کی علمی و فکری شخصیت سے کیا جا سکتا ہے، جو کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کہ نہ صرف سنجیدہ والدین کو بلکہ علم و دانش سے تھوڑا بہت شغف رکھنے والے ہر فرد کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ یہ کتاب معاشرے کے ہر فرد کے لیے ایک نایاب تحفہ ہے۔ فرد بدلے گا تو خاندان بدلیں گے اور اس طرح معاشرہ بہتر سے بہترین کی طرف سفر کرے گا۔ یقیناً آپ احباب نے اس موضوع پراب تک کئی کتابیں پڑھی ہوں گی لیکن ایک موقع اس چھوٹی سی کتاب کو بھی دیجیے جو ہماری نسلوں کی بقا جیسے اہم مقصد کے تحت لکھی گئی ہے۔
کتاب کےصفحہ 11 کا ایک پیراگراف ملاحظہ کیجیے:"آج کل ہر باپ اپنی اولاد کی شکایت کرتا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر باپ کو خود اپنی شکایت کرنا چاہیے۔ عام طور پر والدین یہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کے ماحول کو سادہ نہیں بناتے۔ ان کی سب سے بڑی خواہش یہ رہتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کے ہر شوق کو پورا کر سکیں۔ وہ اپنے بچوں کو "ٹی وی کلچر" کا عادی بنا دیتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو گھروں کے بگاڑ کا اصل سبب ہے۔ اس بگاڑ کی تمام تر ذمے داری والدین پر ہے، نہ کہ اولاد پر" ۔ (طاہر حجازی، کراچی، پاکستان)۔
٭٭٭٭٭٭٭٭
مذہب اور جدید چیلنج
موجودہ دور میں الحاد (Atheism) کا نظریہ پھیل رہا ہے۔ موجودہ الحاد سائنس اور فلسفے کے جلو میں نمودار ہوا ہے جس نے پڑھے لکھے طبقے کو متاثر کیا ہے ۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ الحادی فکر سے متاثر ہو رہا ہے۔ یہ لوگ اگرچہ صراحتاً خدا کے وجود کے منکر نہیں بنے لیکن تشکیک (agnosticism) میں ضرور مبتلا ہوئے۔ موجودہ سائنسی علوم کا ارتقا جن شخصیات کے ہاتھوں ہوا وہ یا تو خدا کے وجود کے منکر تھے یا متشکک (agnostic)۔ لہٰذا وقت کی بڑی اہم ضرورت تھی کہ موجودہ الحادی فکر کو سائنس کی روشنی میں ردّ کیا جائے اور سائنس سے خدا کے وجود کا اثبات کیا جائے۔ مولانا وحید الدین خان صاحب نے اس کام کا بیڑا اٹھایا اور سائنسی مسلّمات کی روشنی میں الحادی فکر کا ردّ کیا۔ مولانا چونکہ انگریزی زبان سے گہری واقفیت رکھتے تھے، لہٰذا انہوں نے سائنسی اور الحادی مواد کا اصل سورس سے مطالعہ کیا۔ واقعہ یہ ہے کہ الحاد کا ایسا ردّ سائنس کی روشنی میں کسی اور شخصیت نے نہیں کیا جیسا انہوں نے کیا۔اس ضمن میں ان کی اہم کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔مذہب اور سائنس 2۔ مذہب اور جدید چیلنج،
3۔عقلیاتِ اسلام 4۔خدا کی دریافت: سائنسی حقائق کی روشنی میں۔
دینی مدارس کے طلبہ و علما کو ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ یہ کتابیں سی پی ایس انٹرنیشنل کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org/books)پر بھی موجود ہیں ۔( ڈاکٹر فرخ نوید ،پاکستان)
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز- 278

1۔ میں نے مولانا صاحب سے کیا سیکھا: مولانا وحیدالدین خاں صاحب سے میں نے وہ سب سیکھا جو کسی اور سے نہ سیکھا۔مولانا صاحب جیسی ہستی سےکاش بہت پہلے ہی تعارف ہوجاتا تو تعصبات اور فرقہ واریت اور مذہبی ظاہر پرستی میں اپنے قیمتی ایام ضائع نہ کرتا۔خیر اللہ تعالیٰ کااحسان ہے کہ اس نے مولانا وحیدالدین خاں کی شکل میں عظیم رہنما اور غیر معمولی شخصیت سے ملاقات کروا دی۔ مولانا صاحب کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ اصحاب رسول اور انبیاء کرام کا خشیت الٰہی اور معرفت کا کتنا عظیم لیول ہوگا۔مولانا صاحب کے بارے میں سب سے پہلے جناب ابویحییٰ صاحب (ادارہ انذار)نے بتایا تھا۔اس کے بعدمیںنے مولانا کی پہلی تقریر انٹرنیٹ پر سنی اور پہلی کتاب 2017 میں پڑھی۔ پھرمولانا کے ہی ہو کر رہ گئے۔اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مولانا کو میری زندگی میں شامل کر دیا۔
میں لفظوں میں کیسے بتاؤں کہ مولانا صاحب نے میری زندگی میںکیا تبدیلی پیدا کی ہے۔ مولانا کی بدولت— دین کی اصل روح اور حقیقت سے آشنائی ہوئی ثمثبت انداز فکر اور معرفت الٰہی کو سمجھنے میں مدد ملیثزندگی کی بے ثباتی اور موت کی حقیقت آشکار ہوئی ثعام مذہبی فکر سے اعراض اور اصل اسلام کی پہچان ہوئی ثقرآن سے تعلق اور اس کو بنیادی اور مرکزی حیثیت دینے میں مدد ملی ثاس حقیقت کا ادراک ہوا کہ ایمان و اخلاق اور تزکیہ نفس ہی نجات کا اصل ذریعہ ہے ثمالک کے تخلیقی منصوبہ کا فہم حاصل ہوا ثصبر و شکر کی اہمیت اور اصل روح سے آشنائی ہوئی ثانفس و آفاق کی نشانیوں اور کائنات میں تدبر اور تفکر کرنا پیدا ہوا ثمالک کائنات کی کبریائی اور عظمت کا ادراک ہوا۔خواہش تھی کہ آپ جب کبھی پاکستان آئے تو ضرور ملاقات کا شرف حاصل کروں گا لیکن اس فانی دنیا میں یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ان شاءاللہ رب العالمین جنت میں یہ موقع ضرور دے گا۔(طارق سلیم، گورنمنٹ ہائی سکول،ضلع پاک پٹن)
2۔ 3 مئی 2022 کو سی پی ایس سہارن پور نے اپنے سینٹر پیس ہال میں عید ملن پروگرام کا انعقاد کیا تھا، جس میں سماجی اور سیاسی اور بیوروکریسی سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔ ان تمام لوگوں کو سہارن پور ٹیم کی جانب سے بطور عید گفٹ دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ اسی طرح 25 مئی 2022 دہلی لیلا پیلیس میں ڈاکٹر اسلم کو امن و شانتی کے میدان میں کام کرنے لیے ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ایوارڈ دینے کے لیے مرکزی وزیر مسٹر انوراگ ٹھاکر آئے تھے۔ ان کو اور دوسرے مہمانوں کو دعوتی لٹریچر دیا گیا۔ تمام لوگوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا، اور کتابیں پڑھنے کا وعدہ کیا۔
3۔کتاب میلہ (Book Fair) حصولِ علم و معلومات کا وسیلہ ہے۔یہاں پر علم اور مطالعہ سےدلچسپی رکھنے والے لوگ آتے ہیں۔ اس لیے مولانا وحید الدین خاں صاحب ہمیشہ سی پی ایس ٹیم کوبک فئر میں شرکت پر ابھارا کرتے تھے۔اس کا نتیجہ ہے کہ سی پی ایس انٹرنیشنل ہمیشہ نیشنل اور انٹرنیشنل سطح پر منعقد ہونے والے بک فئر میں شریک ہوتا رہا ہے۔ مثلا 3-6 نومبر 2021 کو شارجہ میں انٹرنیشنل بک فئر لگا تو اس میں گڈورڈ بکس نے شرکت کی۔
چنئی بک فئر: مولانا اسرار الحسن عمری (چنئی)کے مطابق، چنئی بپاسی (BAPASI) کے زیرِ اہتمام منعقد 45 واں بک فئر 16فروری 2022 کو شروع ہوا اور 6 مارچ 2022 کو اختتام پذیر ہوا۔ اس بک فئر میں چنئی گڈورڈ تقریباً دس سالوں سے حصہ لے رہا ہے۔ اس بار گڈورڈ کو چنئی BAPASI کی ممبرشپ بھی حاصل ہو گئی ہے۔ اس سال بک فئر میں تقریباً آٹھ سوپبلشرز نے حصہ لیا۔ بک فئرآنے والی پبلک کی تعداد پندرہ لاکھ تک بتائی جارہی ہے۔ اس بک فئر سے پتا چلا کہ جہاں لوگوں میںڈیجیٹل کتابوں کا رجحان بڑھا ہے، وہیںلوگوں کی کثیر تعداد ہارڈ کاپی میں مطالعہ کرنا پسند کرتی ہے۔ اس مرتبہ سی پی ایس چنئی نے تمل زبان میں دو کتابیں ریلیز کیں: تمل ترجمۂ قرآن کا روائزڈ ایڈیشن اور گاڈ ارائزز کا تمل ترجمہ۔ پبلک نے دونوں کتابوں کو بہت پسند کیا۔ بہت سے لوگوں کو ہم نے یہ کتابیں بطور تحفہ بھی پیش کیں۔ اس سال ہمارے اسٹال پر جو لوگ آئے ان میں ایک معروف نام تامل اور ملیالم ٹی وی ایکٹریس مز شبانہ شاہجہاں ہیں۔ انھوں نے کچھ کتابیں خریدیں، مثلاً لیڈنگ اے اسپریچول لائف۔ اس کے علاوہ ان کو پرافٹ آف پیس بطور تحفہ دی گئی۔ اس کتاب میلے سے یہ احساس بڑھا کہ الرسالہ مشن کی تمام کتابوں کا تمل ترجمہ ہم کو جلداز جلد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم کو اس کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
لکھنؤ بک فئر:سی پی ایس ٹیم نے لکھنؤ بک فئر (23rd Sep to 2nd Oct 2022) میں شرکت کی۔ مولانا سید اقبال عمری (چنئی)، خطیب اسرار الحسن عمری (چنئی)اور مسٹر آصف خان (کانپور) اسٹال کا انتظام سنبھالا۔ یہاں بھی کافی تعداد میں پبلک نے اسٹال وزٹ کیا، اور قرآن و دیگر دعوتی لٹریچر لے کر گئے۔یہاں انگریزی کتابوں کی بہت ڈیمانڈ تھی۔اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر ہونے والے بک فئر میں سی پی ایس انٹرنیشنل کی مختلف ٹیموں نے حصہ لیا۔ مثلاً سی پی ایس پاکستان نے پاکستان کے اندر جن بک فئر میں حصہ لیا، وہ یہ ہیں:اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی بک فئر اسلام آباد (14-18 دسمبر 2021)، جی سی یونیورسٹی بک فئر (20-23 دسمبر 2021)، انٹرنیشنل بک فئر کراچی (30 Dec'21 to 3 Jan'22)، پریمیر بک فئر لاہور (11-13 مارچ 2022)، فیصل آباد اگریکلچر یونیورسٹی بک فئر (27-31 مارچ 2022)، لاہور بک فئر (12-15 مئی 2022)، بک فئر مجلس ترقی ادب، لاہور (11-14 اگست 2022)۔اس کے علاوہ ایریزونا (یو ایس) میں 11-13 مارچ 2022 کو ایک بک فئر لگا۔ اس میں سی پی ایس امریکا نے شرکت کی۔ ان تمام بک فئرمیں آنے والے لوگوں کو جن موضوعات پر کتابیں تقسیم کی گئیں ، وہ ہیں معرفت خدا، امن عالم اور دعوت الی اللہ، وغیرہ۔
4. I am, Muhammad Sohaib From England, and I am a Physiotherapist here. Every day I watch Maulana Wahiduddin khan's videos. I learned many things. Please upload the video at least once a week, and your Background Islamic tone is very effective and heart-touching. Please include this background tone in every Video. Thanks
5. I pray for you and send my best wishes regarding this magnificent deed of Tableegh e Deen. Undoubtedly the youngsters of today direly need to understand the Almighty's message, the Quran, through the books of Maulana Waheedudin Khan. (Muhammad Rafique [qrafi*****@yahoo.com])
واپس اوپر جائیں