Pages

Tuesday 1 June 2021

Al Risala | June 2021 (الرسالہ،جون)

4

-دعا کی قبولیت

5

- کسٹم میڈ یونیورس

6

- دین پر عمل

7

- دجال کا دور

8

- عورت اور مرد کا فرق

11

- ڈی لنکنگ— ایک سنتِ رسول

13

- دشمن سے سیکھنا

14

- کریٹیو عمل

15

- ڈر، پست ہمتی

18

- پیغمبر ِ امن

43

- سوال و جواب

48

- اعلان


دعا کی قبولیت

قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے قُلْ یَاعِبَادِیَ الَّذِینَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ یَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِیعًا إِنَّہُ ہُوَ الْغَفُورُ الرَّحِیمُ (39:53)۔ یعنی کہو کہ اے میرے بندو! جنھوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ بیشک اللہ تمام گناہوں کو معاف کردیتا ہے، وہ بخشنے والا، مہربان ہے۔
قرآن کی اِس آیت میں ایک بندۂ مومن کے لیے عظیم تسکین (solace) کا سامان موجود ہے۔اس میں ایک مومن بندے کے لیےدعاکا ایک اہم پوائنٹ آف ریفرنس ہے۔ بندہ اللہ رب العالمین سے ایک چیز کا طالب ہے۔ مثلاً یہ کہ وہ چاہتا ہے کہ خدا اس کے معاملہ کو سنبھالنے والا بن جائے۔ اِس آیت کو لے کر ایک بندۂ مومن کہہ سکتا ہے— خدایا، میں آخری حد تک ایک عاجز انسان ہوں، لیکن قرآن کی یہ آیت بتاتی ہے کہ تیری رحمت بہت وسیع ہے۔ خدایا، تو نے میرے گناہوں کے بارے میں یہ فرمادیا ہے کہ تو خود اس کو معاف فرمائے گا۔ اب میں جو دعا کررہا ہوں تو کیا تو میری دعا کو ریجکٹ کردے گا۔ یعنی جب تو بندوں کے معاملے میں اتنا فیاض ہے کہ بغیر مانگے ہوئے تو اعلان کررہا ہے کہ تو ان کے گناہوں کو معاف فرمائے گا تو جب میں خود سے سوال کررہا ہوں تو کیا تو اس کو پورا نہیں فرمائے گا۔
سب سے بڑی دعا وہ ہے جو حقیقی پوائنٹ آف ریفرنس (point of reference)کے حوالے سے کی جائے۔جس انسان کو شعوری طورپر اِس حقیقت کی دریافت ہوجائے، وہ پکار اٹھے گا کہ خدایا، میں کامل طورپرعاجز انسان ہوں، لیکن تونے اپنی رحمت سے بلا استحقاق مجھے یک طرفہ طورپر تمام چیزیں عطا کی ہے، موت کے بعد بھی دوبارہ میں اپنے آپ کو کامل طور پر عجز کی حالت میں پاؤں گا۔ خدایا، جس طرح تونے موت سے پہلے کی زندگی میں میرے عجز کی کامل بھرپائی کی، اسی طرح تو موت کے بعد کی زندگی میں بھی میرے عجز کا مکمل بدل عطا فرما، میرے تمام گناہوں کو اپنی رحمت سے معاف کردے۔
واپس اوپر جائیں

کسٹم میڈ یونیورس

حدیث کی مختلف کتابوں میں ایک روایت آئی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں: مَنْ أَصْبَحَ مُعَافًى فِی بَدَنِہِ، آمِنًا فِی سِرْبِہِ، عِنْدَہُ قُوتُ یَوْمِہِ، فَکَأَنَّمَا حِیزَتْ لَہُ الدُّنْیَا بِحَذَافِیرِہَا(حلیۃ الاولیاء، جلد5، صفحہ249)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا جس نے اس حالت میں صبح کی کہ وہ جسمانی طور پر صحت والا ہو، اپنے مسکن میں مامون ہو، اور اس کے پاس اس دن کی روزی ہو، تو گویا اس کے لیے پوری دنیا جمع کردی گئی۔
میں روزانہ صبح کو جب اپنے آفس سے نکل کر باہر بیٹھتا ہوں، تو سچ مچ واقعۃً محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا میرے لیے پیدا کی گئی ہے۔ ہر چیز میری خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ غذا ، پانی، آکسیجن، وغیرہ تمام چیزیں مکمل طور پر میری خدمت میں لگی ہوئی ہیں۔گویا یہ یونیورس انسان کے لیےایک کسٹم میڈ یونیورس ہے۔ وہ انسان کی ضرورت کے عین مطابق ہے۔اس حقیقت پر اگر انسان غور کرے تو وہ کبھی نیگیٹیو تھنکنگ کا شکار نہ ہو۔ وہ ہمیشہ نعمتوں کے احساس میں جینے لگے۔ اس کی زبان پر ہمیشہ شکر کا کلمہ جاری رہے۔حتی کہ انسان ایک گلاس پانی پیتا ہے، اور وہ جسمانی نظام کے تحت ہضم ہوکر باہر نکل جاتا ہے تو اس پراس کو شکر ادا کرنا چاہیے۔ اسی طرح ہر چیز جو اس دنیا میں انسان کو ملتی ہے اس پر شکر کا جذبہ پیدا ہونا بالکل نیچرل بات ہے۔ مثلا غذا، ہوا کے ذریعے آکسیجن کا ملنا، پانی کی مسلسل سپلائی کا جاری رہنا، وغیرہ۔ اگر انسان سوچے تویہ تمام چیزیں ہر وقت اللہ رب العالمین کی نعمت کو یاد دلاتی ہیں۔
اسی طرح مذکورہ حدیث میں ہے کہ وہ اپنے سِرب (گھر) میں مامون ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرامن سوچ یا مثبت سوچ کے ساتھ اپنے دن کی ابتدا کرے۔ اس دنیا کا تجربہ بتاتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کے لیے جو چائس ہے،وہ دوسروں سے ایڈجسٹ کرتے ہوئےاپنے معاملات کو مینج (manage) کرنا ہے۔ اس کو یہ کرنا ہے کہ وہ پرامن انداز میں پیش آنے والے چیلنج کا مقابلہ کرے۔ اسی حقیقت کو مذکورہ حدیث میں" مسکن میں مامون ہونا" کہا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

دین پر عمل

ایک حدیثِ رسول ان الفاظ میں آئی ہے:لَیَحْمِلَنَّ شِرَارُ ہَذِہِ الْأُمَّةِ عَلَى سَنَنِ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِہِمْ أَہْلِ الْکِتَابِ حَذْوَ الْقُذَّةِ بِالْقُذَّةِ(مسند احمد، حدیث نمبر 17135)۔ یعنی اس امت کے شرارت پسند لوگ پچھلے اہل کتاب کے طریقے کو اپنائیں گے ، جیسےایک تیر دوسرے تیر کی طرح ہوتا ہے۔اس حدیث کے مطابق، مسلمان اپنے بگاڑ کے زمانے میں وہی کریں گے، جو یہود و نصاری نے اپنے بگاڑ کے زمانے میں کیا تھا۔البتہ یہاں ایک فرق ہے۔ وہ یہ کہ پچھلے پیغمبروں کا لایا ہوا خدائی پیغام محفوظ نہیں۔ اس کے برعکس، پیغمبر اسلام کا لایا ہوا قرآن پوری طرح محفوظ ہے، آپ کی سنت بھی پوری طرح محفوظ ہے۔ اس طرح یہ امکان ہمیشہ باقی رہے گا کہ قرآن وسنت کے مطالعہ سے دین محمدی کو دوبارہ دریافت کیاجائے، اور اس کو اصل صورت میں اختیار کیا جائے۔ قرآن وسنت کا محفوظ ہونا، اس بات کی گارنٹی ہے کہ مجموعے کی سطح پر خواہ بگاڑ آجائے، لیکن افراد کی سطح پر ہمیشہ امت میں ایسے افراد موجود رہیں گے، جو اصل دین کو دوبارہ دریافت کرکے مکمل طور پراس کی پیروی کریں۔
موجودہ دور میں زندگی گزارنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ میڈیامیں اپنا وقت گزاریں۔ بے خوف دل کے ساتھ لوگوں سے بحثیں کریں۔ آپ کا سارا کنسرن میڈیا کی خبریں ہو، نہ کہ قرآن و حدیث میں بیان کردہ باتیں۔ اس قسم کے لوگوں کا ذہنی شاکلہ (mindset) میڈیا کی خبروں کی بنیاد پر بنے گا، نہ کہ قرآن اور سنت کی بنیاد پر ۔ یہی وہ لوگ ہیں، جو پچھلی قوموں کی پیروی کرتے ہیں۔
دوسری شکل یہ ہے کہ تعاہدبالقرآن (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5033) آپ کی مصروفیت ہو،یعنی قرآن و حدیث میں غور و فکر آپ کے دن رات کاعمل بنا ہوا ہو۔ آپ قرآن کے معانی کو سمجھنے میں اپنے صبح و شام گزارتے ہوں۔ آپ قرآن و حدیث میں گہرا غور و فکر کرنے والے بنے ہوئے ہوں۔ اس طرح مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں آپ پر قرآن کے اور حدیث کے نئے نئے معانی کھلیں، اور پھر آپ ان کو اپنی زندگی میں اپنا رہنما بنا لیں۔ یہی لوگ حقیقی معنوں میں ربانی انسان ہیں۔
واپس اوپر جائیں

دجال کا دور

صعب بن جثامة بن قیس لیثی (وفات 25 ھـ)ایک صحابی ہیں۔ انھوں نے رسول اللہ کا ایک قول ان الفاظ میں نقل کیا ہے سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: لَا یَخْرُجُ الدَّجَّالُ حَتَّى یَذْہَلَ النَّاسُ عَنْ ذِکْرِ اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ(معجم الصحابہ، جلد2، صفحہ8)۔یعنی صعب بن جثامہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ سے سنا، آپ نے کہا دجال نہیں نکلے گا، یہاں تک کہ لوگ اللہ عز و جل کے ذکر سے غافل ہوجائیں گے۔
مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال کسی شخصیت کا نام نہیں ہے، بلکہ ایک دور کا نام ہے، جب کہ گمراہی بہت پھیل جائے گی۔ وہ گمراہی یہ ہوگی کہ لوگوں کے ذہن سے خدا کی معرفت ختم ہوجائے گی۔ اس غفلت کا سبب ایسے خیالات یا نظریات ہوں گے، جس پر بظاہر اسلام کا لیبل لگا ہوگا، مگر وہ اسلام سے دور کرنے والے ہوں گے۔
دجالیت کا دور وہ ہے، جب کہ دنیا میں پروفیشنل ایجوکیشن کا دور دورہ ہوگا۔ یعنی وہ ایجوکیشن جس کے ذریعے افراد کو ہنر مند بنایا جائے ۔مثلاً تجارت ،نرسنگ، انجنیئرنگ اور قانون ، وغیرہ۔ لیکن وہ علم جس سے معرفت میں اضافہ ہو، وہ کم یاب ہوجائے گا۔ لوگ پیسہ کمائیں گے، لیکن سچے علم سے بے خبر ہوں گے۔ لوگوں کی جیبیں بھری ہوںگی، اس بنا پر وہ بہت بولیں گے، بہت زیادہ بحثیں کریں گے۔ بظاہر علم کا چرچا ہوگا، لیکن یہ چرچا مادی انٹرسٹ کے لیے ہوگا، نہ کہ اللہ کی معرفت میں اضافہ کے لیے۔
یہ وہ زمانہ ہوگا، جب کہ مال کی کثرت کی وجہ سے لوگ نفس پرستی میں مبتلاہوجائیں گے۔ جھوٹ کی کثرت ہوگی۔ سچائی کو ماننے کا مزاج کم ہوجائے گا۔ اس کے برعکس، اپنی بات منوانے والوں کی کثرت ہوجائے گی۔ سنانے والے بہت ہوجائیں گے، لیکن سننے والے موجود نہ ہوں گے۔ پیسے کی افراط کی بنا پر لوگ اِن سنسیرٹی (insincerity)میں مبتلا ہوجائیں گے۔ ہر آدمی اپنے ہی کو سب کچھ سمجھے گا۔ دوسرے کی بات سننا، اور اس پر غور کرنا، یہ مزاج دنیا سے ختم ہوجائے گا۔
واپس اوپر جائیں

عورت اور مرد کا فرق

انگریز مستشرق ایڈورڈ ولیم لین(Edward William Lane, 1801-1876) ایک برطانوی مستشرق، مترجم اور لغت نگار(lexicographer) تھا ۔وہ انگریزی کے علاوہ عربی زبان میں مہارت رکھتا تھا۔ عربی زبان کے ڈیٹا کے لیے اس نے مصر میں کئی برس قیام کیا۔ اس نے ایک کتاب منتخب ترجمۂ قرآن(Selections from the Kuran) تیار کی۔ جو پہلی بار لندن سے1843 میں چھپی۔ اِس کتاب کے دیباچے میں لین نے لکھا تھا —اسلام کا تباہ کُن پہلو عورت کو حقیر درجہ دینا ہے:
The fatal point in Islam is the degradation of woman. (p. 90)
مستشرق لین نے 1843 میں جوبات کہی تھی۔ اُس سے اس کی خاص مراد یہ تھی کہ اسلام کے قانونِ شہادت (evidence) میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کی گواہی کے برابر ماناگیا ہے۔ یہ دونوں صنفوں کے درمیان کُھلی ہوئی نابرابری ہے۔ اِس کے بعد بطور مسلّمہ یہ بات مان لی گئی کہ اسلام عہدِ جاہلیت کا مذہب ہے، وہ سائنسی دَور کا مذہب نہیں بن سکتا۔
اسلام کے خلاف یہ نظریہ ڈیڑھ سو سال تک چلتا رہا۔ اس کے بعد مختلف اسباب سے سائنسی حلقوں میں یہ ضرورت محسوس کی گئی کہ عورت اور مرد کے دماغ کے بارے میں دوبارہ ریسرچ کی جائے، اور یہ معلوم کیا جائے کہ کیا دونوں کی دماغی بناوٹ میں کوئی فرق ہے۔ اِس ریسرچ کا ایک ریزن یہ سوال تھا کہ ایک عورت اور ایک مرد کے درمیان لَو میریج (love marriage) ہوتی ہے اور پھر بیش تر واقعات میں ایسا ہوتا ہے کہ دونوں لڑ بھڑ کر ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔
اِس سلسلے میں بڑی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں کے تحت، سائنسی انداز میںبہت سی ریسرچز کی گئیں۔ یہاں تک کہ خالص سائنسی ریسرچ کے بعد یہ معلوم ہوا کہ عورت اور مرد کے دماغ میں فطری بناوٹ کے اعتبار سے ایسا فرق پایا جاتا ہے، جس کو بدلنا ممکن نہیں۔ وہ فرق یہ ہے کہ مرد پیدائشی طور پر سنگل ٹریک مائنڈ (single-track mind) کاحامل ہوتا ہے اور اس کے مقابلے میں عورت فطری طورپر ملٹی ٹریک مائنڈ(multi-track mind) رکھتی ہے۔بی بی سی انگریزی ویب سائٹ پر چھپی رپورٹ 24 اکتوبر 2013 کے مطابق —
Women 'better at multitasking' than men, study finds
It is not a myth - women really are better than men at multitasking, at least in certain cases, a study says... says co-author Dr Gijsbert Stoet, of the University of Glasgow, "Multitasking is getting more and more important in the office, but it's very distracting, all these gadgets interrupting our workflow."
www.bbc.com/news/science-environment-24645100 (accessed on 07.04.2021)
یعنی ریسرچ کے مطابق، عورتیں ایک وقت میں کئی ذمے داریوں کی انجام دہی میں مردوں سے بہتر ہیں۔ یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے۔ عورتیں ملٹی ٹاسک کے ، کم از کم، کچھ معاملوں میں مردوں سے بہتر ہیں... گلاسگو یونیورسٹی کے ڈاکٹر گزبرٹ اسٹائٹ کہتے ہیں کہ آفس میں ملٹی ٹاسک زیادہ سے زیادہ بہتر ہے، لیکن یہ ڈسٹریکٹ کرتا ہے، یہ طریقہ کام کی رفتار میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔
مرد وعورت کے درمیان یہ فرق اتنا عام ہے کہ اس کوہر گھر میں دیکھا جاسکتا ہے۔ کوئی بھی گھر جہاں پر عورت اور مرد دونوں اکٹھے رہتے ہوںوہاں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ مرد کا ذہن کسی ایک پوائنٹ پَر متوجہ رہے گا۔ جب کہ عورت کا یہ حال ہو گا کہ اس کا ذہن ایک ہی وقت میں کئی چیزوں کی طرف متوجہ رہے گا۔ مثلاً مرد اگر ایک کتاب پڑھ رہا ہے تو اس کا سارا دھیان کتاب میں لگا رہے گا۔ حتی کہ پاس کے کمرے میں اگر ٹیلی فون کی گھنٹی بجے تو وہ اس کو سننے سے قاصر رہے گا۔ حالاں کہ اسی کمرے میں بیٹھی ہوئی عورت دوسرے کمرے میں بجنے والی ٹیلی فون کی گھنٹی کو بخوبی طورپر سن لے گی۔
عورت کے ذہن اور مرد کے ذہن کا یہ فطری فرق بتاتا ہے کہ گواہی کے قانون میں دونوں کے درمیان فرق رکھنے کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ایک واقعہ جس کو عورت اور مرد دونوں دیکھ رہے ہوں اس کو مرد جب دیکھے گا تو وہ اس کو یکسوئی (concentration) کے تحت دیکھے گا۔ اِس بنا پر وہ اس قابل ہوگا کہ واقعے کے تمام اَجزاء اس کے حافظے میں محفوظ ہوسکیں۔ اس کے مقابلے میں عورت اپنے ذہن کی فطری بناوٹ کی بنا پرچیزوں کو سرسری انداز میں دیکھے گی۔ اس کے ذہن کا ایک حصہ واقعے کی طرف متوجہ ہوگا اور اس کے ذہن کا دوسرا حصہ کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ اِس بنا پر ایک گواہ عورت کے ساتھ دوسری گواہ عورت رکھی گئی تاکہ دونوں مل کر واقعے کی پوری تصویر بنا سکیں۔
مذکورہ سائنسی تحقیق کی روشنی میں قرآن کی متعلقہ آیت زیادہ قابلِ فہم بن جاتی ہے۔ یہ آیت قرآن میں اِس طرح آئی ہے: وَاسْتَشْہِدُوا شَہِیدَیْنِ مِنْ رِجَالِکُمْ فَإِنْ لَمْ یَکُونَا رَجُلَیْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّہَدَاءِ أَنْ تَضِلَّ إِحْدَاہُمَا فَتُذَکِّرَ إِحْدَاہُمَا الْأُخْرَى (2:282)۔یعنی تم اپنے مردوں میں سے دومَردوں کوگواہ بنالو، اور اگر دو مرد نہ ہوں تو پھر ایک مرد اور دو عورتیں، اُن لوگوں میں سے جن کو تم پسند کرتے ہو۔ تاکہ اگر ایک عورت (گواہی دینے میں بھول) چوک جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دہانی کرادے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں ضَلَّ کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ ضَلّ کے معنی عربی زبان میں اِدھراُدھر بھٹکنے (go astray) کے ہوتے ہیں۔ یہ لفظ اِس معاملے میں عَین سائنسی ہے۔ اِس حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے اگر مذکورہ آیت کا مفہوم متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا —اگر ذہنی بناوٹ کی بنا پر ایک عورت کی توجہ اصل واقعے سے کچھ ہٹ جائے تو دوسری عورت اس کو یاد دلا کر پہلی عورت کی کمی پوری کردے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن عالم الغیب کی طرف سے اتاری ہوئی کتاب ہے۔ خدائے عالم الغیب نے اپنے علم کلّی کی بنا پر دونوں صنفوں کے درمیان فطری فرق کو اُس وقت جانا جب کہ عام انسان اِس فرق سے بالکل ناواقف تھا۔ اِس علم کی بنا پر خدا نے گواہی کا مذکورہ اُصول مقرر کیا۔ مذکورہ آیت اِس بات کا ایک علمی ثبوت ہے کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو ابدی صداقت کی حامل ہے۔ قرآن خدائے برتر کی کتاب ہے، نہ کہ عام معنوں میں کوئی انسانی کتاب۔
واپس اوپر جائیں

ڈی لنکنگ— ایک سنتِ رسول

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت وہ ہے، جس کو پالیسی آف ڈی لنکنگ (policy of delinking) کہا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر مکہ میں آپ نے اپنا مشن شروع کیا۔ اس وقت مکہ اہل شرک کے قبضے میں تھا۔ انھوں نے کعبہ کو 360بتوںکا مرکز بنا دیا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ کعبہ میں آنے والے زائرین اور اس میں موجود بتوں کو ایک دوسرے سے الگ کرکے دیکھا۔یعنی بت پرستی اور کعبہ کے قریب بت پرستوں کے اجتماع میں فرق کرنا۔ اس طرح ڈی لنکنگ پالیسی اختیار کرنے کی بنا پر آپ کے لیے یہ ممکن ہوا کہ آپ مکمل طور پر مثبت ذہن کے ساتھ اپنا مشن ، دعوت الی اللہ کا عمل انجام دےسکیں۔ اگر آپ ڈی لنکنگ پالیسی اختیار نہ کرتے تو یہ فائدہ کبھی حاصل نہ ہوتا۔
ایسا کیوں ہے۔ اس کو صحابی رسول عمر و بن العاص (وفات 43ھ)کے قول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ان کا قول یہ ہے:لَیْسَ الْعَاقِلُ الَّذِی یَعْرِفُ الْخَیْرَ مِنَ الشَّرِّ، وَلَکِنِ الْعَاقِلُ الَّذِی یَعْرِفُ خَیْرَ الشَّرَّیْنِ( المجالسۃوجواہر العلم، اثر نمبر670)۔ یعنی عقل مند وہ نہیں ہے، جو خیر کے مقابلے میں شر کو پہچانے۔ بلکہ عقل مند وہ ہے، جو یہ جانے کہ دو شر کے درمیان خیرکیا ہے ۔
اس کا مطلب یہی ہے کہ شر کے مختلف پہلوؤں کو ڈی لنک کرکے دیکھا جائے تو شر کے اندر بھی خیر کا پہلو مل جائے گا۔ آپ نے کعبہ میں بت اور بت پرستوں کے معاملے میں جو طریقہ اختیار کیا، وہ کیا تھا۔ ان بتوں کا ظاہری پہلو یہ تھا کہ وہ شرک کا ذریعہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انھی بتوں کی وجہ سے وہاں لوگ جمع ہوتے تھے، اور اس کی وجہ سے وہاں ایک آڈینس بنتا تھا۔ رسول اللہ نے یہ کیا کہ بتوں کے مشرکانہ پہلو کو الگ کردیا، اور بتوں کی وجہ سے وہاں آنے والے لوگوں کو اپنے لیے بطورِ آڈینس استعمال کیا۔ اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں ہر عسر کے ساتھ یسر کا پہلو موجود ہوتا ہے۔انسان اگرمثبت ذہن کے ساتھ معاملے میں غور کرےتو ہرعسر میں اس کو یسرکا پہلو مل جائے گا۔
انیسویں صدی میںانگریز جب انڈیا میں آئے تو انھوں نے مسلمانوں کو بہت سی چیزیں دیں۔ مثلاً انگریزی ایجوکیشن، جس کی وجہ سے مسلمان اس قابل ہوئے کہ وہ انڈیا کے باہر کی دنیا کو دیکھ سکیں۔ لیکن سارے مسلمانوںنے انڈیا میں اینٹی برٹش تحریک چلادی۔اسی طرح آزادی کے بعد جو حکومت آئی اس نے بھی مسلمانوں کو بہت کچھ دیا۔ لیکن دوبارہ مسلمانوں کو حکومت سے شکایت پیدا ہوگئی، وغیرہ۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم لیڈران زندگی کے ایک اصول کو نہیں جانتے ہیں۔ مسلم قائدین اس فطری قانون کو نہیں جانتے کہ ہر عسر کے ساتھ یسرموجود ہوتاہے (الانشراح، 94:5-6)۔عسرکا مطلب ہے پرابلم،اور یسر کا مطلب موقع (opportunity)۔ یعنی پرابلم کے درمیان موجود مواقع کو جاننا، اور منصوبہ بند انداز میں ان کو اویل (avail) کرنا، یہی زندگی کا اصول ہے۔ لیکن مسلم لیڈروں نے اس اصول کو نہ پہلے جانا، اور نہ وہ اب اس کو جانتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ایک کام کیا ہے۔وہ ہے اویلیبل مواقع کو نظر انداز کرنا، اور جو چیز اویلیبل نہیں ہے، اس کے اوپر تحریک چلانا۔ یہی غیر حقیقی طریقِ کار ہر دور میں مسلمانوں پر غالب رہا ہے۔ اس لیے مسلمانوں نے ہر دور میں صرف کھویا، کسی بھی دور میں وہ پانے والی چیز کو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
قرآن کی سورہ البقرہ میں زندگی کی ایک حقیقت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: اور ہم ضرور تم کو آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے، اور ثابت قدم رہنے والوں کو خوش خبری دے دو (2:155)۔ توسیعی اعتبار سے حکومت کا ملنا، اور اس کا ہاتھ سے نکلنا ، وغیرہ بھی اس میں شامل ہے۔ اور صبر کا مطلب ہے پرابلم کو اگنور کرنا، مواقع کو اویل (avail)کرنا۔
انسان پر زندگی کے جو مختلف مرحلے پیش آتے ہیں، وہ ایک موقع کے طور پر پیش آتے ہیں۔ زندگی کو جاننے والا شخص وہ ہے، جو زندگی کو ایک موقع کی صورت میں دریافت کرے، اور پھر منصوبہ بند انداز میں اس موقع کو استعمال کرے۔مشکل حالات منفی چیز نہیں۔مشکل حالات یا چیلنج کسی انسانی گروہ کو تخلیقی گروہ بناتا ہے۔جب کسی گروہ کے اندر ایسی حالت پیدا ہو، تو انسان اس کو فطرت کا تحفہ سمجھے،اور ڈی لنکنگ کا طریقہ اختیار کرکے وہ اس کو بطور موقع اویل کرے۔ اس طرح نان کریٹو گروہ کریٹیو (creative) گروہ بن جائے گا۔
واپس اوپر جائیں

دشمن سے سیکھنا

1949ء میں جاپانیوں نے اپنے یہاں ایک صنعتی سیمینار کیا۔ اس سیمینارمیں انہوں نے امریکا کے ڈاکٹر ایڈورڈ ڈیمنگ (Dr Edward Deming) کو خصوصی دعوت نامہ بھیج کر بلایا۔ ڈاکٹر ڈیمنگ نے اپنے لیکچر میںاعلیٰ صنعتی پیداوار کا ایک نیا نظریہ پیش کیا۔ یہ کوالٹی کنٹرول (quality control) کا نظریہ تھا۔ (ہندوستان ٹائمس 28 دسمبر 1986ء)
جاپان کے لیے امریکہ کے لوگ دشمن قوم کی حیثیت رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں امریکا نے جاپان کو بدترین شکست اور ذلت سے دوچار کیا تھا۔ اس اعتبار سے ہونا یہ چاہیے تھا کہ جاپانیوں کے دل میں امریکا کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکے۔ مگر جاپانیوں نے اپنے آپ کو اس قسم کے منفی جذبات سے اوپر اٹھا لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لیے یہ ممکن ہواکہ وہ امریکی پروفیسر کو اپنے سیمینار میں بلائیں اور اس کے بتائے ہوئے فارمولاپر ٹھنڈے دل سے غور کر کے اس کو دل و جان سے قبول کر لیں۔
جاپانیوں نے امریکی پروفیسر کی بات کو پوری طرح پکڑ لیا۔ انہوںنے اپنے پورےانڈسٹری کو کوالٹی کنٹرول کے رخ پر چلانا شروع کیا۔ انہوں نے اپنے صنعت کاروں (industrialist)کے سامنے بے نقص (zero-defect) کا نشانہ رکھا۔ یعنی ایسی پیداوار مارکیٹ میں لانا جس میں کسی بھی قسم کا کوئی نقص نہ پایا جائے۔ جاپانیوں کی سنجیدگی اور ان کا ڈیڈیکیشن (dedication) اس بات کا ضامن بن گیا کہ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہو۔ جلد ہی ایسا ہوا کہ جاپانیوںکے کارخانے بے نقص سامان تیارکرنے لگے۔ یہاںتک کہ یہ حال ہوا کہ برطانیہ کے ایک دکاندار نے کہا کہ جاپان سے اگر میں ایک ملین کی تعداد میںکوئی سامان منگائوں تو مجھ کو یقین ہوتا ہے کہ ان میں کوئی ایک چیز بھی نقص والی نہیں ہو گی۔ چنانچہ تمام دنیا میں جاپان کی پیداوار پر صد فیصد بھروسہ کیاجانے لگا۔
اب جاپان کی تجارت بہت زیادہ بڑھ گئی۔ حتی کہ وہ امریکا کے بازار پر چھا گیا، جس کے ایک ماہر کی تحقیق سے اس نے کوالٹی کنٹرول کا فارمولا حاصل کیا تھا— اس دنیامیں بڑی کامیابی وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو ہر ایک سے سبق سیکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ ان کا دوست ہو یا ان کا دشمن۔
واپس اوپر جائیں

کریٹیو عمل

اہل ایمان کے عمل کی ایک صورت یہ ہے کہ وہ قرآن و حدیث کو پڑھیں، پھر اس پر عمل کریں۔ مثلاً یہ کہ پانچ وقت نمازیں پڑھنا، اور رمضان کے مہینے میں روزے رکھنا، وغیرہ۔ ایک اور خاص عمل یہ ہے کہ ایک شخص غور وفکر کرکے کوئی مطلوب عمل دریافت کرے، اور اس کو روبعمل لانے کی پلاننگ کرے۔ اس دوسرے عمل کو کریٹیو عمل کہہ سکتے ہیں۔ اجتہادی عمل اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک کریٹیو عمل ہے۔ ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہےإِذَا اجْتَہَدَ الْحَاکِمُ فَأَخْطَأَ، کَانَ لَہُ أَجْرٌ، وَإِذَا اجْتَہَدَ فَأَصَابَ، کَانَ لَہُ أَجْرَانِ (مسند ابو یعلیٰ، حدیث نمبر 228)۔ یعنی جب حاکم اجتہاد کرے اور اس کا وہ حکم درست نہ ہو تو اس کو ایک اجر ملے گااور اگر اس نے اجتہاد کیا اور اس میں وہ درستگی کو پہنچ گیا، تو اس کے لیے دہرا اجر ہے۔
اجتہادی عمل یا کریٹیو عمل کی اتنی زیادہ اہمیت ہے کہ کرنے والا اس میں غلطی کرے تب بھی اس کو ایک ثواب ہے، اور اگر اجتہاد درست ہو تو دہرا ثواب ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ لوگوں کے اندر تخلیقی عمل کے لیے زیادہ سے زیادہ شوق (incentive)پیدا ہو۔کریٹیو عمل میں آدمی کو بہت زیادہ جد و جہد کرنی پڑتی ہے، اس لیے اس کا ثواب بہت زیادہ ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص نے قرآن و حدیث اور موجودہ حالات پر غور کیا، اس کے بعد اس کو یہ دریافت ہوئی کہ موجودہ زمانے میں ایک انٹرنیشنل زبان وجود میں آئی ، جس کے ذریعے انٹرنیشنل تبلیغ کے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔اس کےبعد وہ یہ کرے کہ انٹرنیشنل زبان میں قرآن کا معیاری ترجمہ تیار کرے، اور اس کو ساری دنیا میں پھیلائے تو یہ کریٹیو عمل ہوگا۔ عام عمل کا بھی ثواب ہے، لیکن کریٹیو عمل کا ثواب بہت زیادہ ہے۔ تخلیقی عمل کا خاص تعلق دعوتی عمل سے ہے۔ دعوت میں تخلیقی عمل کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ مثلاً اگر آپ قرآن کی دعوت کو عالمی سطح پر پھیلانا چاہیں تو اس کےلیے بہت زیادہ تخلیقی فکر کو کام میں لانا پڑے گا۔ تخلیقی عمل کے بغیر کوئی بڑا دعوتی کام انجام نہیں دیا جاسکتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ڈر، پست ہمتی

ایک قاری الرسالہ لکھتے ہیں: میرےایک ساتھی ہیں جو جنوبی ہند میں دعوتی کام کرتے ہیں۔ آج کل وہ بیمار ہیں، میں ان کی عیادت کے لیے گیا تھا۔دورانِ گفتگو انھوں نے اپنا تاثر بتایا کہ جب ہم ٹیم کی شکل میں 1998 میں شمالی ہند کے دعوتی دورے پر گئے۔ تواس وقت مختلف شخصیات اور اداروں میں جانے کا موقعہ ملا تاکہ دعوتی کام کا تعارف ہو ،اور ہمیں اچھا مشورہ اور حوصلہ ملے۔انھوں نے بتایا کہ اس سفر میں تقریباً سارے ہی افراد نے ہمیں ڈر ایا، اور پست ہمت کیا، اور کہا کہ دعوتی کام کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔ اس میں صرف ایک شخصیت کا استثنا تھا، وہ مولانا وحیدالدین خاں صاحب ہیں۔ انھوں نے ہماری ہمت افزائی کی ،اور ہمیں مفید مشورے سے نوازا ۔ مولانا ہمارے یہ ساتھی بہت ہی ایکٹیو داعی ہیں، انھوں نے کہا کہ میں آج کل بیماری کے ایام میں خوداحتسابی (self-introspection) کی زندگی گزاررہاہوں ۔انھوں نے مزید کہا کہ میں کنفیوزن کا شکار ہوں، اور اس کی وجہ کیا ہے، اب تک مجھے اس کا جواب نہیں ملا۔
جب میں ان سے مل کر واپس آگیا تو انھوں نے یہ پیغام بھیجا:" آپ میری عیادت کے لیے آئے ،اور مجھے دعاؤں کے ساتھ بہت کچھ دے کر گئے۔ جب سے میں بیمار ہوا ہوں، اپنے اور اپنی دعوتی ٹیم کے سلسلے میں بہت سوچتا رہتا ہوں کہ ہم نے بیس سال کا عرصہ لگا کر کیا حاصل کیا؟ ہمارا رخ کدھر ہے ۔کیا ہم دعوت اورینٹڈ زندگی گزار رہے ہیں، دعوت کے نام پر ہم کیا کیا کام کر رہے ہیں،وغیرہ، وغیرہ۔ اس طرح کے سوالات ذہن میں آتے ہیں ۔ میں ان کے جوابات کی تلاش میں ہوں ،کسی سوال کا کچھ جواب ملتا ہے، کسی کانہیں، خیر ساری چیزیں اپنی ڈائری میں لکھ رہا ہوں ،کیا پتہ میرے رب کی طرف سے دوبارہ موقع ملے تومیں اپنی اصلاح کروں۔" مولاناجب انھوں نے آپ کی شخصیت کا اعتراف بطور داعی کے کیا ،پھر بھی اپنے مقصد اور مشن کو لے کر کنفیوزن کا شکار ہیں،اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ میرا خیال یہ ہے کہ کچھ علما اعتدالِ فکری کے نام پرکنفیوزن کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے وہ "دعوت بھی کرے گا اور عدوات (دشمنی) بھی کرے گا "کہتے ہیں ۔ اس کے برعکس، متعین رہنمائی پر اگر کوئی چلے تو اس کو شخصیت پرستی کا نام دیتے ہیں، یہی ا ن کا ذہنی انتشار ہے۔ اس پر کچھ رہنمائی فرمائیں ۔
جواب
پچھلے سو سال سے زیادہ مدت کے اندر مسلمانوں میں بہت سی تحریکیں اٹھی ہیں۔ بظاہر ان کے نام مختلف ہیں، مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے سب کا محرک ایک تھا، اور وہ تھا رد عمل۔یہ تمام تحریکیں ردعمل (reaction) کی تحریکیں تھیں۔ دورِ جدید کی مختلف تحریکوں کو انھوں نے اسلام کے لیے اور مسلمانوں کے لیے خطرہ سمجھا، اور وہ اس کےخلاف بطورِ دفاع اٹھ کھڑے ہوئے۔میرے علم کے مطابق ان میں سے کوئی تحریک حقیقی معنوں میں اللہ اور آخرت اور جنت کے لیے نہیں اٹھی۔ یہی وجہ ہے کہ ان میں کہیں نہ کہیں منفی نفسیات موجود تھی۔ اسی منفی نفسیات کا سبب ہے کہ بظاہر وہ کوئی بھی نام لیں، مثلاً دعوت یا تبلیغ۔ مگر اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ ردعمل کی تحریکیں تھیں، اور جو تحریک بطور ردعمل کے اٹھے، اس کے اندر وہی کمی پائی جائے گی، جس کی نشاندہی آپ کے ساتھی نے کی ہے۔
قرآن کی تعلیمات کے مطابق،مسلمان کی حیثیت شاہد کی ہے، اور دوسرے اقوام کی حیثیت مشہود کی(85:3)۔ یعنی دوسرے الفاظ میں مسلمان اور دوسری قوموں کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق ہے۔ داعی اور مدعو کا تعلق ہو، تو لوگوں کے اندر دوسری قوموں کے لیے خیرخواہی کا جذبہ پروان چڑھے گا۔ اس کے برعکس، اگر حریف اور رقیب کا تعلق ہو، تو مسلمان منفی ذہنیت کا شکار ہوجائیں گے، دوسری قوموں کے بارے میں وہ خیرخواہی کے انداز میں نہیں سوچ پائیں گے۔ جب کہ پیغمبر اپنی مدعو قوم سے کہتے تھے:وَأَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ أَمِینٌ (7:68)۔ یعنی میں تمھارا مانت دار خیرخواہ ہوں۔ پیغمبر شعیب نے کہا تھا:وَنَصَحْتُ لَکُمْ وَلَکِنْ لَا تُحِبُّونَ النَّاصِحِینَ (7:79)۔ یعنی میں نے تمہاری خیر خواہی کی مگر تم خیرخواہوں کو پسند نہیں کرتے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ تم اپنی بھلائی چاہنے والوں کو پسند نہیں کرتے ہو، اس کے باوجود میں نے یک طرفہ طور پر تمھارے ساتھ خیرخواہی کی۔
اس منفی مزاج کی بنا پر مسلمانوں میں مختلف قسم کی بے راہ روی پیدا ہوئی۔ اسی بنا پر یہ تحریکیں مسلمانوں کے اندر صحت مند مزاج بنانے میں بری طرح فیل ثابت ہوئی ہیں ۔ حتی کہ تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ بظاہر خواہ مختلف قسم کے داعیانہ الفاظ بولیں، لیکن ان کے اندر سے داعیانہ جذبہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ اس لیے ان تحریکوں سے وابستہ افراد سے ملیے تو بہت جلد وہ ظلم اور سازش کے الفاظ بولنے لگتے ہیں، جس کو مذکورہ ملاقات میں ڈر اور پست ہمتی کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اس صورتِ حال سے محفوظ رہنے کا راستہ صرف ایک ہے۔ وہ یہ ہے کہ پچھلی غلطیوںکا اعتراف کیا جائے، اور دوبارہ مثبت انداز میں دعوت الی اللہ کی منصوبہ بندی کی جائے۔ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ ان کو احساس ہوتا ہے کہ ماضی میں غلطی ہوئی، تب بھی وہ کھل کر اس کا اعتراف کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ بلکہ یہ چاہتے ہیں کہ غلطی کا اعتراف کیے بغیر کچھ نیا کام کیا جائے۔ مگر اس قسم کا کام کبھی نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ غلط سرگرمیوں کے زمانے میں جو ذہن بنا ہے، اس کو اعلان کے ساتھ ترک کرنا ضروری ہے۔ اگر اعلان کے ساتھ ترک نہ کیا جائے، تو ممکن ہے کہ اس کے اثرات ہمیشہ باقی رہیں ۔
نیز یہ کہ آپ کے دوست نے کچھ افراد کے حوالے سے جو یہ بات کہی ہے کہ انھوں نے ہمیں ڈر ایا، اور پست ہمت کیا، اور کہا کہ دعوتی کام کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔ ایسے لوگوں پر حضرت عائشہ کا یہ قول ثابت آتا ہے کہ انھوں نے قرآن و حدیث پڑھا، مگر انھوں نے قرآن و حدیث نہیں پڑھا(أُولَئِکَ قَرَءُوا، وَلَمْ یَقْرَءُوا)مسند احمد، حدیث نمبر24609۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث سے عام طور پر صرف کچھ چھوٹے چھوٹے مسئلے نکالے جا تے ہیں، جن کو جزئی (فروعی) مسائل کہاجاتا ہے۔ اس کے برعکس، حدیث میں ابدی رہنمائی کا جو پہلو تھا وہ امت کی نگاہوں سے اوجھل ہو کر رہ گیا۔ یہ حدیث کی تصغیر (underestimation) ہے۔ حدیث یا سنتِ رسول سے سب سے بڑی چیز دریافت کرنے کی یہ ہے کہ رسول اللہ نے مسائل کو مواقع میں کنورٹ کیا۔ حدیث کو پڑھنے والے حدیث سے سب کچھ نکالتے ہیں، مگر اس قسم کی ابدی حکمت ابھی تک نہیں نکال پائے۔ ان کے موجودہ منفی ذہن کا یہی اصل سبب ہے۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر ِ امن

The Prophet of Peace
پیغمبر اسلام، محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب (وفات 632ء)کے متعلق ہسٹورین نے عام طور پر اعتراف کیا ہے کہ اُنہوں نے اپنی زندگی میں اعلیٰ ترین کامیابی حاصل کی۔ مثال کے طورپر برٹش مؤرخ ایڈورڈ گبن (Edward Gibbon, 1737-1794) نے اپنی کتاب ’’ر وما کا عروج وزوال‘‘ (The History of the Decline and Fall of the Roman Empire) میں پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے لائے ہوئے انقلاب کو تاریخ کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر واقعہ بتایا ہے:
The rise and expansion of Islam was one of the most memorable revolutions which has impressed a new and lasting character on the nations of the globe.
ایم۔ این۔ رائے(M.N. Roy) ایک انڈین لیڈر تھے۔ وہ بنگال میں 1887 میں پیدا ہوئے اور 1954 میں ان کی وفات ہوئی۔ ان کی کتاب ’’ہسٹاریکل رول آف اسلام ‘‘ (Historical Role of Islam) پہلی بار دہلی سے 1939 میں چھپی۔ اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : محمد کو تمام پیغمبروں میں سب سے بڑا پیغمبر ماننا چاہیے۔اسلام کی توسیع تمام معجزوں سے زیادہ بڑا معجزہ ہے:
Mohammad must be recognised as by far the greatest of all prophets. The expansion of Islam is the most miraculous of all miracles. (p. 4)
امریکا کے ڈاکٹر مائیکل ہارٹ (Michael H. Hart) کی کتاب ’’دی ہنڈریڈ‘‘ (The 100) نیویارک سے 1978 میں چھپی۔ اس کتاب میں انہوں نے پوری انسانی تاریخ سے ایک سو ایسے افراد کی فہرست بنائی ہے جنہوں نے اُن کے مطابق، اعلیٰ کامیابیاں حاصل کیں۔ اِس فہرست میں انہوں نے ٹاپ پر پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام رکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’وہ تاریخ کے تنہا شخص ہیں جو انتہائی حد تک کامیاب رہے۔ مذہبی سطح پر بھی اور دنیوی سطح پر بھی‘‘:
He was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels.
یہاں یہ سوال ہے کہ پیغمبر اسلام محمد بن عبداللہ کی اس عظیم کامیابی کا راز کیا تھا۔ اس کا راز ایک لفظ میں امن تھا۔ یہ کہنا غالباً صحیح ہوگا کہ پیغمبر اسلام تاریخ کے سب سے بڑے پیسیفسٹ (pacifist) تھے۔ اُنہوں نے پُر امن طریقہ (peaceful method) کو ایک کامیاب ترین ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ اس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے:الصُّلْحُ خَیْرٌ (4:128)۔یعنی اختلافی معاملات میں پُرامن طریقہ زیادہ نتیجہ خیز طریقہ ہے:
Peaceful method is a far more effective method.
اسی طرح خود پیغمبر اسلام نے فرمایا: یُعْطِی عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا یُعْطِی عَلَى الْعُنْفِ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2593)۔یعنی خدا نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا:
God grants to peace what He does not grant to violence.
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے امن کو ایک مکمل آئیڈیالوجی کے طورپر دریافت کیا۔ آپ نے امن کو ایک ایسے طریقۂ کار کے طورپر دریافت کیا جو ہر صورتِ حال کے لیے سب سے موثّر(effective) تدبیر کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک مفکّر نے لکھا ہے کہ ’’تاریخ کے تمام انقلابا ت صرف حکمرانوں کی تبدیلی (coup) کے واقعات تھے، وہ حقیقی معنوں میں انقلاب نہ تھے‘‘۔ یہ بات اگر صحیح ہو تو پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ کا نام اس معاملے میں ایک استثنا مانا جائے گا۔ کیوں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آپ کے لائے ہوئے انقلاب کے ذریعے وہ تمام انفرادی(individual)، سماجی اور سیاسی تبدیلیاں وقوع میں آئیں، جن کے مجموعے کو انقلاب (revolution) کہا جاتا ہے۔
اپنے مطالعے کی بنیاد پر میرااحساس یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کا انسانی تاریخ میں جو کنٹری بیوشن (contribution) ہے۔ اُس کے لحاظ سے اُن کا سب سے زیادہ مناسب نام یہی ہوسکتا ہے کہ اُن کو امن کا پیغمبر (Prophet of Peace) کہا جائے۔
تاریخ ایک ایسا ڈسپلن ہے جس میں یہ امکان رہتا ہے کہ مطالعہ کرنے والا ایک سے زیادہ رایوں تک پہنچ جائے ۔ تاہم مصنف کا یہ خیال ہے کہ ایسا زیادہ تر محدود مطالعے کی بنا پر ہوتا ہے۔ اگر مطالعہ زیادہ وسیع اور جامع ہوتو تعدّد آراء کا امکان بہت کم ہوجاتا ہے۔
ایک مثال سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں کچھ دفاعی لڑائیاں پیش آئیں۔ ان میں سے ایک دفاعی لڑائی وہ تھی جس کو جنگِ بدر کہاجاتا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جس وقت جنگ کا واقعہ ہوا، پیغمبر اسلام میدانِ جنگ سے باہر ایک عَریش میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اپنے ہاتھ یا لکڑی سے آپ ریت پر کچھ لکیریں کھینچتے نظر آئے۔ اس واقعے کو لے کر ایک مستشرق نے بطور خود اس کو جنگ سے منسوب کیا، اور لکھا کہ ’’قائدِ اسلام اُس وقت اپنی اگلی جنگ کا منصوبہ بنا رہے تھے‘‘:
The leader of Islam was making his next war plan.
مستشرق (Orientalist)نے یہ بات کسی حوالے کے بغیر صرف اپنے قیاس کی بنیاد پر لکھ دی۔ حالاں کہ دوسری روایات کو دیکھا جائے تو خود روایت کی بنیادپر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام اُس وقت کیا کررہے تھے۔ وہ دراصل یہ نقشہ بنارہے تھے کہ آئندہ کس طرح امن قائم کیا جائے:
چنانچہ دوسری روایت میںبتایا گیا ہے کہ جس وقت بدر کی یہ دفاعی جنگ ہورہی تھی، عَین اُسی وقت خدا کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور کہا کہ خدا نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:ہُوَ السَّلَامُ وَمِنْہُ السَّلَامُ وَإِلَیْہِ السَّلَامُ(البدایۃ والنہایۃ، جلد 3، صفحہ 267)۔یعنی خدا سلامتی ہے اور اُسی سے سلامتی ہے، اور اسی کی طرف سلامتی ہے۔
اس دوسری روایت کے مطابق درست طورپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنگِ بدر کے موقع پر پیغمبراسلام اپنا اگلا منصوبۂ امن بنا رہے تھے:
The leader of Islam was making his next peace plan.
پیغمبر اسلام کو قرآن( 21:107)میں پیغمبرِ رحمت کہا گیا ہے ( وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِینَ ) یعنی پرافٹ آف مرسی۔ پرافٹ آف مرسی ہی کا دوسرا نام پرافٹ آف پیس ہے۔ دونوں ایک ہی حقیقت کو بیان کرنے کے لیے دو مختلف انداز کی حیثیت رکھتے ہیں۔
پیغمبر اسلام کا مشن کوئی پولیٹیکل مشن نہیں تھا۔ آپ کے مشن کو دوسرے الفاظ میں اسپریچول مشن کہا جاسکتا ہے۔ قرآن (2:129)میں اس کو تزکیۂ نفس (purification of the soul) بتایا گیا ہے۔ یعنی انسان کو کامل انسان بنانا۔ دوسری جگہ قرآن (89:27)میں اس کے لیے النّفس المطمئنّہ (complex-free soul) کے الفاظ آئے ہیں۔
اس قسم کا مقصد صرف نصیحت اور تذکیر (persuasion) کے ذریعہ حاصل ہوسکتا ہے۔ یہ مقصد ذہن کی تشکیلِ نَو (re-engineering of the mind) کا طالب ہے ۔ یہ مقصد صرف انسان کی تھنکنگ قوت کو بیدار کرکے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس کے حصول کا ذریعہ سیاسی انقلاب نہیں ہے، بلکہ ذہنی انقلاب ہے۔یہی وجہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی تعلیمات تمام تر امن کے تصور پر مبنی ہیں۔
پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی کتاب قرآن میں تقریباً 6236 آیتیں ہیں۔ اِن آیتوں میں بمشکل چالیس آیتیں ایسی ہیں جن میں قتال یا جنگ کا ذکر ہے۔ یعنی کُل آیتوں کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ۔ قرآن کی99 فیصد سے زیادہ آیتیں وہ ہیں جن میں انسان کی قوتِ فکر کو بیدار کیا گیا ہے۔اس لیے قرآن میں بار بار تدبر و تفکر پر ابھارا گیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن گویا آرٹ آف تھنکنگ کے موضوع پر ایک کتاب ہے، وہ کسی بھی درجے میں آرٹ آف فائٹنگ کی کتاب نہیں۔
پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آپ کی زندگی کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے نہ صرف نظریۂ امن پیش کیا بلکہ آپ نے نہایت کامیابی کے ساتھ پُر امن زندگی کے لیے ایک مکمل طریقِ کار وضع کیا:
He was able to develop a complete methodology of peaceful activism.
اسلام کے بعد کی سیاسی تاریخ نے پیغمبر اسلام کے اس پہلو پر ایک پردہ ڈال دیا تھا۔ اب ضرورت ہے کہ اس پردے کو ہٹایا جائے۔ یہ ہٹانا گویا پیغمبر اسلام کی دریافتِ نو (re-discovery of the Prophet of Islam) ہے۔پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ نے نہ صرف امن کی ایک آئیڈیالوجی پیش کی، بلکہ امن کو عمل میں لانے کے لیے وہ ایک مکمل میتھاڈولوجی آف پیس ڈیویلپ کرنے میں کامیاب ہوئے۔ گویا کہ آپ نظریۂ امن کے آئیڈیا لاگ بھی تھے، اور نظریۂ امن کو عملی انقلاب کی صورت دینے والے بھی۔
ابتدائی حالات
عرب ایک جزیرۂ نما ہے۔ وہ ایشیا کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔ یہ ایک صحرائی ملک ہے، اور انتہائی قدیم زمانے سے آباد ہے۔ قدیم زمانے سے یہاں مختلف قبائل اپنے اپنے علاقوں میں رہتے تھے۔ ہر قبیلے کا سردار اُن کے اوپر حاکم ہوا کرتا تھا۔
چار ہزار سال پہلے پیغمبر ابراہیم نے اپنے خاندان کو مکّہ کے علاقے میں آباد کیا۔ یہ لوگ ایک خدا کو مانتے تھے اور ایک خدا کی پرستش کرتے تھے۔ لیکن رفتہ رفتہ باہر کے اثرات سے یہ لوگ بتوں کو پوجنے والے بن گئے۔ اب بھی وہ سماجی روایت کے طورپر ایک خدا کو مانتے تھے مگر اسی کے ساتھ عملی طور پر وہ بہت سے بتوں کو پوجتے تھے۔ چھٹی صدی عیسوی میں پورا عرب ایک بت پرست ملک بن چکا تھا۔ عرب کے یہی حالات تھے جب کہ پیغمبر اسلام وہاں پیدا ہوئے۔
پیغمبر اسلام محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب عرب کے شہر مکّہ میں 570 عیسوی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 610 عیسوی میں مکّے میں اپنی پیغمبری کا اعلان کیا ۔ 622 عیسوی میں وہ عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے گئے۔ 632 عیسوی میں مدینہ میں ان کی وفات ہوئی۔ اس طرح آپ کی کُل عمر 63 سال تھی، اور آپ کی پیغمبرانہ عمر 23 سال ۔
آپ پیدا ہوئے تو آپ کے والد عبد اللہ بن عبد المطلب کا انتقال ہوچکا تھا۔ آپ کی عمر چھ سال تھی تو آپ کی والدہ آمنہ بنت وہب بھی انتقال کر گئیں۔ اس کے بعد آپ اپنے دادا عبد المطلب اور اپنے چچا ابو طالب کی سر پرستی میں رہے۔ قرآن میں خدا نے پیغمبر اسلام کی ابتدائی زندگی کے بارے میں فرمایا:أَلَمْ یَجِدْکَ یَتِیمًا فَآوَى ۔ وَوَجَدَکَ ضَالًّا فَہَدَى (93:6-7)۔یعنی کیا اللہ نے تم کو یتیم نہیں پایا، پھر اس نے تم کو ٹھکانا دیا۔ اور تم کو متلاشی پایا تو اس نے تم کو راہ دکھائی۔
قرآن کی اس آیت میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام کو اپنی ابتدائی زندگی میں جب یتیمی کا تجربہ ہوا تو اس تجربے نے آپ کے اندر یہ احساس پیدا کیا کہ کوئی چیز آپ سے کھوئی گئی ہے۔ یہ احساس آخر کار حق کی تلاش کی صورت میں اُبھرا۔ آپ حق کی تلاش میں اتنا زیادہ سرگرداں ہوئے کہ اکثر آپ مکے کے باہر چلے جاتے اور قریبی پہاڑ حِرا کے ایک کھوہ میں تنہائی کی حالت میں زندگی کی حقیقت کے بارے میں سوچتے رہتے اور دعا کرتے رہتے۔ اس طرح آپ حق کی تلاش میںسرگرداں تھے کہ خدا نے 610عیسوی کی ایک رات کو آپ کے پاس فرشتہ بھیجا۔ فرشتے نے آپ کو بتایا کہ خدا نے آپ کو اپنے پیغمبر کی حیثیت سے چن لیا ہے۔ اس کے بعد آپ پر قرآن وقفے وقفے سے اُترتا رہا۔23 سال کی مدت میں وہ مکمّل ہوا۔
پیغمبر اسلام کو خدا کی طرف سے یہ مشن دیاگیا کہ وہ لوگوں کو توحید کا پیغام پہنچائیں۔ یعنی یہ کہ خدا صرف ایک ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ ہر اعتبار سے خدا رُخی زندگی (God-oriented life) گذارے۔ یہی انسان کی نجات کا راستہ ہے۔پیغمبر اسلام اپنی ابتدائی زندگی میںایک تاجر تھے۔ تاجر کی حیثیت سے ان کی تصویر ایسی بنی کہ لوگ اُن کو الامین(honest person) کہنے لگے۔ اس طرح آپ مکّے میںایک باعزت شخص بن گئے۔ اسی کا یہ نتیجہ تھا کہ پیغمبری ملنے کے بعد جب آپ نے مکّہ کے ایک ٹیلے ’’صَفا‘‘ پر چڑھ کر لوگوں کو پکارا تو لوگ آپ کی بات سننے کے لیے وہاں جمع ہوگئے۔
یہ نبوت کی حیثیت سے آپ کا پہلا خطاب تھا۔ اس خطاب میں آپ نے لوگوں کو بتایا کہ موت کے بعد ہر ایک کو یا تو جنت ملے گی یا جہنم۔ اس لیے تم لوگ موت سے پہلے کے زمانے میں موت کے بعد کے زمانے کی تیاری کرو۔
مکّہ میں اُس وقت بت پرستی کا رواج تھا۔ لوگ بت پرستی میں کنڈیشنڈ ہوچکے تھے۔ اس لیے ابتدائی زمانے کی اس تقریر کا لوگوں کے اوپر کوئی اثر نہیں ہوا۔لوگ اثر لیے بغیر واپس چلے گئے۔ آپ کے چچا عبد العزّی (ابو لہب) نے منفی ردِّ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا:
’’تمہارا بُرا ہو، کیا تم نے یہی کہنے کے لیے ہم کو بلایا تھا ( تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ أَمَا جَمَعْتَنَا إِلَّا لِہَذَا)۔ مستخرج ابی عوانہ، حدیث نمبر 262
مکّہ عرب کا مرکزی شہر تھا۔ یہاں قبیلۂ قریش کے لوگ رہتے تھے۔ قریش کو کعبہ کی تولیت حاصل تھی، جو کہ پورے عرب کا مذہبی مرکز تھا۔ اس بنا پر قریش کو پورے ملک میںسرداری کا مقام حاصل ہوگیا تھا۔ قریش نے مکّہ میں دار الندوہ قائم کررکھا تھا۔ دار الندوہ گویا قبائلی پارلیمنٹ تھی۔ قریش کے سینئر افراد دارالندوہ کے ممبر ہوتے تھے۔ یہاں تمام اہم اُمور کے فیصلے کیے جاتے تھے۔ پیغمبر اسلام کے دادا عبدالمطلب دارالندوہ کے ممتاز ممبروں میں سے ایک تھے۔
عام رواج کے مطابق، ایک حوصلہ مند لیڈر کے لیے پہلا ٹارگیٹ یہ تھا کہ وہ دار الندوہ کا رُکن بننے کی کوشش کرے۔ جو گویا اُس وقت کے عرب میں سیاسی طاقت کے مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ بظاہر اس کے بغیر عرب یا مکّہ میں کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا تھا۔ لیکن پیغمبر اسلام نے دار الندوہ میں داخلے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ حتی کہ اُنہوں نے یہ مطالبہ بھی نہیں کیا کہ اپنے دادا عبد المطلب کی خالی سیٹ اُنہیں دی جائے۔
دار الندوہ کے معاملے میں پیغمبر اسلام نے وہ پُر امن طریقہ اختیار کیا جس کو اسٹیٹس کوازم (status quoism) کہا جاتا ہے۔ یعنی صورتِ موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرنا، بلکہ جو صورتِ موجودہ ہے اس کو علی حالہٖ قبول کرلینا۔ مگر پیغمبر اسلام کا اسٹیٹس کوازم سادہ طورپر صرف اسٹیٹس کوازم نہ تھا، بلکہ وہ مثبت اسٹیٹس کوازم (positive-status quoism) تھا۔ مثبت اسٹیٹس کوازم یہ ہے کہ آدمی وقت کے نظام سے ٹکراؤ نہ کرے، بلکہ وہ یہ کرے کہ وقت کے نظام میں موجودہ مواقع کو دریافت کرکے اُسے استعمال کرے۔ اس طریقِ کار کو فارمولا کی زبان میں اس طرح کہاجاسکتا ہے:
Ignore the problem, avail the opportunities.
پازیٹیو اسٹیٹس کوازم کا یہ طریقہ ایک انتہائی حکیمانہ طریقہ تھا۔ اس کی طرف رہنمائی پیغمبر اسلام کو خود قرآن کی ابتدائی آیتوں میں ان الفاظ میں دی گئی:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا ۔ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:5-6)۔ یعنی ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے، ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔ اس طرح پیغمبر اسلام کو بتایا گیا کہ اس دنیا میں کوئی مسئلہ کبھی کُلّی معنوں میں مسئلہ نہیں ہوتا، بلکہ ہر مسئلہ کے ساتھ ہمیشہ مواقع موجود رہتے ہیں۔ اس لیے آدمی کو یہ حکمت اختیار کرنا چاہیے کہ وہ مسائل کو نظر انداز کرے اور مواقع کو استعمال کرے۔ پیغمبر اسلام کے لیے یہ طریقہ ایک حکیمانہ آغاز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ آج جو ممکن ہے، اُس سے اپنے عمل کا آغاز کرو۔ اس طرح کَل وہ چیز ممکن ہوجائے گی جو بظاہر آج ممکن نظر نہیں آتی۔
پیغمبر اسلام کا مشن توحید (oneness of God) کا قیام تھا۔ اس لحاظ سے آپ کے لیے اُس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ مکّہ کے مقدس عبادتی مرکز کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ عرب کے مختلف قبائل کے بُت تھے۔ اور مکّہ کے سرداروں نے ان بتوں کو کعبے میں اس لیے رکھا تھا تاکہ وہ مکہ کو مرکزی مقام کا درجہ دے سکیں۔ کعبہ میں تین سو ساٹھ بُت کا ہونا ایک پرابلم تھا، مگر اسی کے ساتھ اُس میںایک موقع (opportunity) بھی چھپی ہوئی تھی۔ ان بتوں کی وجہ سے ایسا ہوتا تھا کہ مکّہ کے لوگ اور مکّہ کے باہر کے لوگ وہاں ہر روز جمع ہوتے تھے۔ اس طرح کعبہ لوگوں کے لیے اجتماع کا ایک فطری مقام بن گیا تھا۔ پیغمبر اسلام نے کعبہ میں بتوں کی موجودگی کو نظر انداز کیا، اوران بتوں کی وجہ سے وہاں لوگوں کے اجتماع کو ایک موقع کے طورپر استعمال کیا۔ اب آپ نے یہ کیا کہ آپ روزانہ وہاں جاتے اور لوگوں سے ملاقات کرتے اور ان کو قرآن کی آیتیں سناتے۔
قدیم مکّہ میں پیغمبر اسلام نے دعوت کا جو مذکورہ طریقہ اختیار کیا، وہ پرابلم سے خالی نہ تھا۔ مثال کے طورپر قرآن کی سورہ النجم اُتری تو حسب معمول آپ نے یہ کیا کہ کعبہ کے اجتماع میں جاکر لوگوں کو اُسے پڑھ کر سنایا۔ اس سورہ میں عرب کے بڑے بڑے بتوں کو بے حقیقت بتاتے ہوئے یہ الفاظ تھے:
أَفَرَأَیْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى ۔ وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (53:19-20) ۔ یعنی بھلا تم نے لات اور ُ ّعزیٰ پر غور کیا ہے۔ اور تیسرے ایک اور منات پر۔
اس آیت میں لات، عزّیٰ اور مَنات کے نام آئے ہیں۔ یہ تینوں بُت قدیم عرب کے بڑے بڑے بُت تھے۔ قدیم عربوں کا یہ طریقہ تھا کہ جب کسی مجلس میں اِن بتوں کا نام آتا تو وہ اُن کے اعتراف کے لیے کچھ تعظیمی الفاظ بولتے۔ چنانچہ ایسا ہوا کہ جب پیغمبر اسلام نے قرآن پڑھتے ہوئے لات وعزّیٰ اور منات کے نام لیے تو وہاںکے مشرک حاضرین نے اپنے رواج کے مطابق، بلند آواز سے کہا :
تِلْکَ الْغَرَانِیقُ الْعُلَى. وَإِنَّ شَفَاعَتَہُنَّ لَتُرْتَجَى
پیغمبر اسلام کی آواز میں حاضرین کی مذکورہ آواز مل گئی۔ انہوں نے سمجھا کہ خود رسول اللہ نے یہ الفاظ کہے ہیں۔ یہ خبر نہایت تیزی سے پھیل گئی، یہاں تک کہ یہ خبر حبش تک پھیل گئی۔ بہت سے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ پیغمبر اسلام نے مشرک عربوں کے اس مطالبے کو مان لیا ہے کہ اُن کے جو بُت ہیں وہ بھی خدا کی خدائی میں شریک ہیں۔ حالاں کہ یہ صرف ایک غلط فہمی تھی، نہ کہ کوئی حقیقی واقعہ۔
اس طرح مکّہ میں پیغمبر اسلام لوگوں کو مسلسل عقیدۂ توحید کی طرف بلاتے رہے۔ اِس مقصد کے لیے وہ لوگوں کو خطاب بھی کرتے اور انفرادی طورپر ان سے مل کر اُنہیں اپنا پیغام پہنچاتے رہے۔ اس طرح ایک ایک کرکے لوگ پیغمبر اسلام کے دین میں داخل ہوتے رہے۔ مثلاً حضرت خدیجہ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، وغیرہ۔تجربہ بتاتا ہے کہ لوگ اپنے مذہبی عقیدے کے بارے میں بہت زیادہ حسّاس ہوتے ہیں۔ چنانچہ مکّہ میں پیغمبر اسلام کی مخالفت شروع ہوگئی۔ قریش ہر تدبیر سے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا توحید کا مشن ختم ہوجائے۔ اس مخالفت کا سبب کسی بھی درجے میں سیاسی نہ تھا، وہ صرف اعتقادی حسّاسیت کی بنا پر تھا۔ اس مخالفت کا سبب صرف اعتقادی اختلاف تھا، نہ کہ کوئی سیاسی خطرہ۔
پیغمبر اسلام کے اس ابتدائی دَور میںآپ کی بیوی خدیجہ اور آپ کے چچا ابو طالب آپ کے لیے گویا سَپورٹ سسٹم بنے ہوئے تھے۔ اعلانِ نبوت کے دسویں سال اِن دونوں کا انتقال ہوگیا۔ قدیم قبائلی رواج کے مطابق، اب آپ کو ضرورت تھی کہ آپ کسی اور کو تلاش کریں، جو آپ کو اپنی پناہ میں لے لے۔ تاکہ آپ اپنا مشن بدستور جاری رکھ سکیں۔
پناہ کے حصول کے لیے پہلے آپ نے مکّہ میںکوشش کی ۔ کعبہ کی زیارت کے لیے جو قبائلی سردار مکّہ آتے تھے، اُن سے اس مقصد کے لیے ملاقاتیں کیں۔ مگر اُن میں سے کوئی شخص تیّار نہیں ہوا۔ آخر کار آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ مکّہ سے 75 کلومیٹر دور واقع شہر طائف جائیں۔ اور وہاں کے سرداروں سے پناہ طلب کریں۔ عرب رواج کے مطابق یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ مگر طائف کے سردار جو خود بھی بتوں کے پرستار تھے، وہ توحید کے پیغمبر کو پناہ دینے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ بلکہ انہوں نے اپنے شہر کے لڑکوں کو اکُسایا کہ وہ آپ کو پتھر مار کر شہر کے باہر کردیں۔
آپ طائف سے باہر ایک باغ میں رات گذارنے کے لیے پناہ لیے ہوئے تھے۔ روایت کے مطابق، اُس وقت، خدا نے پہاڑوں کا فرشتہ (مَلک الجبال) کو آپ کے پاس بھیجا۔ ملک الجبال نے آپ سے کہا کہ طائف والوں نے آپ کے ساتھ جو سلوک کیا، اس کو خدا نے دیکھا۔ اب اگر آپ اجازت دیں تو میں طائف کے اَطراف میں واقع پہاڑوں کو ایک دوسرے میں ملا دوں۔ تاکہ طائف کے لوگ اُس میں دب کر ختم ہوجائیں۔ مگر پیغمبر اسلام نے کہا کہ نہیں۔ طائف کی موجودہ نسل نے اگر چہ میری بات کو ماننے سے انکار کردیا ہے لیکن مجھے امید ہے کہ طائف کی اگلی نسلیں میری بات کو مانیں گی اور خدا کے راستے پر چلیں گی (بَلْ أَرْجُو أَنْ یُخْرِجَ اللَّہُ مِنْ أَصْلاَبِہِمْ مَنْ یَعْبُدُ اللَّہَ وَحْدَہُ، لاَ یُشْرِکُ بِہِ شَیْئًا) صحیح البخاری، حدیث نمبر 3231۔
پیغمبر اسلام طائف سے واپس ہوکر دوبارہ مکّہ پہنچے تو قریش کا ظلم اور زیادہ بڑھ گیا۔ انہوں نے دار الندوہ میں مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو قتل کردیں۔ اس فیصلے میں مکہ کے تمام قبائل شریک ہوگئے۔اُس وقت مکّہ اور اطرافِ مکہ میں تقریباً دو سو آدمی پیغمبر اسلام کے پیغام کو مان کر اُن کے ساتھی بن چکے تھے، مگر یہ تعداد قریش کے مقابلے میں آپ کی حمایت کے لیے ناکافی تھی۔ چنانچہ آپ نے یہ فیصلہ کیا کہ آپ مکہ چھوڑ کر عرب کے دوسرے شہر مدینہ چلے جائیں، جو مکہ سے تقریباً تین سو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔
مدینہ میں اسلام کا داخلہ
پیغمبر اسلام ابھی مکّہ میں تھے کہ آپ نے اپنے دو ساتھیوں کو مکّہ سے مدینہ کے لیے روانہ کیا۔ یہ لوگ وہاں اس لیے گئے تھے تاکہ آپ کا پیغام مدینہ والوں کو پہنچائیں۔ مدینہ والوں کی زبان عربی تھی، جس طرح مکہ والوں کی زبان عربی ۔ چنانچہ اِن لوگوں نے یہ کیا کہ قرآن کے مختلف حصوں کو پڑھ کر اُنہیںسنانے لگے۔ اسی لیے ان کا نام مُقری پڑ گیا (وَکَانَ یُدْعَى الْمُقْرِئَ) معرفۃ الصحابہ لابی نعیم الاصفہانی، جلد5، صفحہ2556۔ عربی زبان میں مقری کے معنی ہیں: پڑھ کر سنانے والا۔
واقعات بتاتے ہیں کہ مکہ کے برعکس مدینہ میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیلنے لگا۔ مدینہ کے تقریباً ہر گھر میں ایسے افراد پیدا ہوگئے جنہوں نے بتوںکی پرستش چھوڑ دی اور پیغمبر اسلام کے دین کو اختیار کرلیا۔مکّہ میںمخالفت اور مدینہ میں موافقت کا یہ دو مختلف تجربہ کیوں ہوا۔ اس کا ایک معلوم سبب تھا۔ وہ یہ کہ مکّہ عرب کے صحرائی علاقے میں واقع تھا۔ یہاں زراعت وغیرہ موجود نہیں تھی۔ مکّہ والوں کی معیشت بڑی حد تک بت پرستی کے کلچر سے وابستہ تھی۔ کعبہ اُس زمانے میں پورے عرب میں بت پرستی کا مرکز بنا ہوا تھا۔ اس بنا پر ایسا ہوا تھا کہ عرب کے تمام قبائل کے لوگ سال بھر یہاں آتے۔ اس طرح بت پرستی میں مکّہ والوں کے لیے ایک اقتصادی قدْر (commercial value) پیدا ہوگئی تھی۔ گویا کہ قدیم مکّہ میں بتوں کو وہی حیثیت حاصل ہوگئی تھی جس کو موجودہ زمانے میں ٹورسٹ انڈسٹری کہا جاتا ہے۔ اس بنا پر مکّہ کے لوگ ڈرتے تھے کہ اگر عرب سے بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو ان کی ’’ٹورسٹ انڈسٹری‘‘ ختم ہوجائے گی۔
اہل مدینہ کا معاملہ اس سے مختلف تھا۔ مدینہ عرب کے ایک ایسے علاقے میں واقع تھا جہاں پانی کی کمی نہیں تھی۔ اس بنا پر وہاں زراعت اور باغبانی کا کافی رواج تھا۔ یہاں کے لوگوں کے لیے یہ ڈر نہ تھا کہ اگر بت پرستی کا خاتمہ ہوجائے تو اُن کی معاش کا ذریعہ ختم ہوجائے گا۔ کیوں کہ بت پرستی ان کی معاش کا ذریعہ ہی نہ تھی۔
اس بنا پر ایسا ہوا کہ توحید کا مذہب اہلِ مکّہ کے لیے ابتدائی زمانے میں قابلِ قبول نہ ہوسکا۔ مگر اہلِ مدینہ اس قسم کی نفسیات سے خالی تھے۔ بت پرستی کا خاتمہ ان کے نزدیک صرف ایک مذہبی کلچر کا خاتمہ تھا، نہ کہ ان کےمعاشی ذریعے کا خاتمہ۔ چنانچہ مدینے میں پیغمبر اسلام کا پیغام تیزی سے پھیل گیا۔
پیغمبر اسلام کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کوئی سادہ واقعہ نہ تھا۔یہ دراصل ٹکراؤ کے طریقے کو چھوڑ کر امن کے طریقے کو اختیار کرنا تھا۔ پیغمبر اسلام کےاس اصول کو آپ کی اہلیہ حضرت عائشہ نے اِن الفاظ میں بیان کیا:مَا خُیِّرَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بَیْنَ أَمْرَیْنِ إِلَّا اخْتَارَ أَیْسَرَہُمَا(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6786)۔یعنی پیغمبر اسلام کو جب بھی دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوتا تو آپ ہمیشہ یہ کرتے کہ مشکل کے مقابلے میں آسان طریقے کا انتخاب فرماتے۔
اس معاملے کی ایک واضح مثال مکّہ کے تیرہ سالہ قیام کے آخری دنوں میں آپ کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ یا تو قریش سے جنگی ٹکراؤ کریں، یاخاموشی کے ساتھ پُر امن طورپر مکّہ سے نکل کر مدینہ چلے جائیں۔ اُس وقت کے حالات میں پہلا انتخاب مشکل انتخاب (harder option) تھا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا انتخاب، یعنی خاموشی سے مدینہ چلے جاناایک آسان انتخاب (easier option) تھا۔ چنانچہ پیغمبر اسلام نے اپنے اصول کے مطابق اُس کو لے لیا جو آسان تھا، اور اس کو چھوڑ دیا جو مشکل تھا۔
مکّہ سے مدینہ کا یہ سفر تقریباً پانچ سو کلو میٹر کا سفر تھا۔ یہ پورا سفراونٹ پر گذرا۔ مگر چوں کہ آپ کو معلوم تھا کہ مکّہ کے لوگ آپ کو پکڑنے کے لیے آپ کا پیچھا کررہے ہیں، اس لیے آپ نے ان سے بچاؤ کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ مثلاً مکہ سے رات کے وقت خاموشی سے روانگی۔ سیدھے مدینہ سفر کرنے کے بجائے مخالف سمت کےایک غیر آباد کھوہ میں تین دن چھپے رہنا۔ عام راستے کے بجائے نئے راستے سے سفر کرنا، وغیرہ۔
ہجرت کے اس سفر میں کئی ایسے واقعات پیش آئے جو بتاتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کا مزاج کیا تھا۔ مثلاً ایک مقام پر آپ کو دو شخص ملے۔ وہ دونوں آپس میں بھائی تھے۔ آپ نے اُن سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمارے قبیلے نے ہم دونوں کا ایک ہی نام رکھا ہے۔ وہ ہے الْمُہَانَانِ(دو بے عزّت آدمی)، آپ نے فرمایا کہ نہیں، تم دونوں باعزت آدمی ہو (بَلْ أَنْتُمَا الْمُکْرَمَانِ) مسند احمد، حدیث نمبر 16691 ۔
یہ طریقہ آپ کے اصولِ تربیت کا ایک حصہ تھا۔ آپ جانتے تھے کہ انسان کی شخصیت کی تعمیر مثبت انداز میں کی جائے۔ اس لیے آپ نے اُن کا نام بدل دیا۔ اس طرح انہیں یہ نفسیاتی ترغیب دی کہ وہ اپنے آپ کو اعلیٰ انسانیت کے رُخ پر ترقی دیں۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ کا نکاح حضرت علی بن ابی طالب سے ہُوا۔ ان کے یہاں پہلا لڑکا پیدا ہوا تو پیغمبر اسلام نے علی سے پوچھا کہ تم نے بیٹے کا نام کیا رکھا۔ اُنہوں نے کہا کہ حَرب (جنگ) پیغمبر اسلام نے کہا کہ یہ نام درست نہیں۔ اس کےبعد آپ نے اس کا نام حَسن رکھا (فَسَمَّاہُ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الْحَسَنَ) المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 2777۔
مدنی زندگی
622 عیسوی سے پیغمبر اسلام کی مدنی زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔ آپ کا ہجرت کرکے مدینہ پہنچنا کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس سے پہلے مکّہ کی تیرہ سالہ پیغمبرانہ زندگی میںآپ کو نہایت تلخ تجربے پیش آئے تھے۔ آپ کو مسلسل ستایا گیا، آپ کے ساتھیوں کو مارا پیٹا گیا، آپ کا اور آپ کے خاندان کا بائیکاٹ کیا گیا، آپ کو اتنی شدید مصیبتوں میں مبتلا کیاگیا کہ آپ اور آپ کے ایک سو سے زیادہ ساتھی اپنے وطن اور اپنی جائداد کو چھوڑ کر مکّہ سے مدینہ آگئے۔ یہاں انہیں اپنے گھر اور اپنے عزیزوں سے محروم ہوکر از سرِ نو اپنی زندگی کی تعمیر کا مشکل کام کرنا تھا۔
ایسی حالت میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ پیغمبر اسلام کا دل شکایت اور احتجاج سے بھرا ہوا ہو اور وہ مدینہ پہنچتے ہی مکّہ والوں کے خلاف منفی باتیں کہنا شروع کردیں۔ مگر معاملہ اس کے برعکس ہوا۔ پیغمبر اسلام نے مدینہ پہنچ کر مدینہ والوں کے سامنے جو پہلی تقریر کی،وہ اب بھی سیرت کی کتابوں میںموجود ہے۔ سیرت ابن ہشام میںاس کو" مدینہ کا پہلا خطبہ" کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے —وَکَانَتْ أَوَّلُ خُطْبَةٍ خَطَبَہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ۔ آپ کے اس خطبے کا خلاصہ یہ ہے— فَمَنْ اسْتَطَاعَ أَنْ یَقِیَ وَجْہَہُ مِنْ النَّارِ وَلَوْ بِشِقٍّ مِنْ تَمْرَةٍ فَلْیَفْعَلْ (سیرت ابن ہشام، جلد1، صفحہ501) ۔ یعنی تم میں سے جو اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچانےکی طاقت رکھتا ہو، خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کے ذریعے کیوں نہ ہو، وہ ضرور کرے۔
یہ کوئی سادہ بات نہ تھی۔ یہ دراصل پیس فل ایکٹوزم کی قیمت تھی۔ اُس وقت کے حالات میں بلاشبہ یہ ایک مشکل کام تھا۔ یہ اپنے منفی جذبات کو مثبت جذبات میںکنورٹ کرنا تھا۔ مگر یہی پیس فل ایکٹوزم کی قیمت ہے۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔انسانی نفسیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ امن اور تشدد دونوں ہی داخلی احساسات کا اظہار ہوتے ہیں۔ اگر آدمی کے ذہن میںنفرت ہو تو اس کا اظہار متشددانہ(violent) عمل کی صورت میں ہوگا، اور اگر اس کے ذہن میں محبت ہو تو اس کا اظہار ہمیشہ پُر امن طریقِ عمل کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ ایسی حالت میں پیس فل ایکٹوزم کا نام لینا، کوئی سادہ بات نہیں، وہ ایک قربانی کا تقاضا کرتا ہے۔ وہ قربانی یہ کہ آدمی نفرت کے اسباب کے باوجود فریقِ ثانی سے نفرت نہ کرے، وہ اپنے دماغ کو نفرت والی باتوں سے پوری طرح خالی رکھے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی پُر امن طریقِ کار پر عمل کرنا چاہتا ہو اُس کو سب سے پہلے خود اپنے ذہن کومیانہ روی پر قائم رکھنا ہوگا۔ اُس کو یک طرفہ طورپر یہ کرنا ہوگا کہ فریقِ ثانی اس کوغصہ دلائے، مگر وہ ہر گز غصہ نہ ہو۔ اس قیمت کو ادا کیے بغیر کوئی شخص پُر امن طریقِ کار کے اصول کواختیار نہیں کرسکتا۔
پیغمبر اسلام نے معلوم تاریخ میں پہلی بار پُر امن ایکٹوزم کا مکمل نمونہ پیش کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ آپ نے یک طرفہ اعتدال پسندی کی مذکورہ قیمت ادا کی۔ آپ کے ساتھ فریقِ ثانی کی طرف سے ہر قسم کی زیادتی کی گئی مگر آپ ان زیادتیوں سے اوپر اُٹھ کر سوچتے رہے۔ ان کی زیادتیوں کو نظر انداز کرکے آپ نے مثبت انداز میںاپنے عمل کا نقشہ بنایا۔
پیغمبر اسلام کی یہ تقریر بتاتی ہے کہ آپ مکمل معنوں میں ایک امن پسند انسان تھے۔ کوئی بڑے سے بڑا ناخوش گوار واقعہ آپ کے ذہنی سکون (peace of mind) کو درہم برہم نہیں کرسکتا تھا۔ آپ نے اپنے ذہن کی سطح پر ایک ایسی بلند چیز پالی تھی کہ اس کے بعد ہر دوسری چیز آپ کو غیراہم معلوم ہوتی تھی۔ آپ کامل معنوں میں ایک مثبت ذہن کے انسان تھے۔ آپ کا دماغ گویا ایک ایسا کارخانہ تھا جس میں داخل ہو کر ایک نیگیٹیو آئٹم بھی پازیٹیو آئٹم بن جاتا تھا۔ آپ کو اپنی زندگی میں جب بھی کوئی ناخوشگوار تجربہ پیش آتا تو آپ کا ذہن فوری طور پر ڈفیوز کرکے اس کو ایک مثبت احساس میں تبدیل کرلیتا۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کے حافظے تک جب کوئی منفی احساس پہنچتا تو وہ بدل کر مثبت احساس بن چکا ہوتا تھا۔ آپ کی شخصیت کامل معنوں میں ایک مثبت شخصیت تھی۔ آپ منفی حالات میں بھی مثبت ذہن کے ساتھ رہنے کی اعلیٰ صلاحیت رکھتے تھے۔ آپ تشدد کے واقعات کو بدل کر امن کا واقعہ بنانے کی غیر معمولی استعداد رکھتے تھے۔
622 عیسوی میںجب آپ مدینہ پہنچے اس وقت مدینہ میں مسلمانوں کے ساتھ مشرکین اور یہود بھی موجود تھے۔ گویا کہ اس وقت کا مدینہ ایک ملٹی ریلیجس سوسائٹی کی حیثیت رکھتا تھا۔ ایسے ماحول میں لوگ کس طرح پُر امن طورپر رہیں، آپ نے اس کا ایک کامیاب فارمولا دریافت کیا۔ یہ فارمولا اس اصول پر مبنی تھا — ایک کی پیروی کرو، اور سب کا احترام کرو:
Follow one and respect all.
اس وقت کے مدینہ میں تعداد کے اعتبار سے مسلمانوں کو اکثریت حاصل ہوچکی تھی۔ اس لیے اُس وقت کے مدینہ میں جو ابتدائی ریاست بنی، اُس کے صدر خود پیغمبر اسلام تھے۔ آپ نے صدرِ ریاست کی حیثیت سے ایک ڈیکلیریشن (declaration) جاری کیا، جو تاریخ میں صحیفۂ مدینہ یا میثاقِ مدینہ کے نام سے مشہور ہے۔ اس ڈیکلیریشن میں بتایا گیا تھا کہ مسلم، مشرک اور یہود، تینوں کو یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے ذاتی معاملات کو خود اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق طَے کریں۔ البتہ جہاں تک اجتماعی نزاعات کی بات ہے، اُن کو اللہ اور اس کے رسول کے طریقے کے مطابق طَے کیا جائے گا(وَإِنَّکُمْ مَہْمَا اخْتَلَفْتُمْ فِیہِ مِنْ شَیْءٍ، فَإِنَّ مَرَدَّہُ إلَى اللَّہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى مُحَمَّدٍ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ) سیرت بن ہشام، جلد1، صفحہ503۔
یہ کثیر مذہبی یا کثیر کلچر والے سماج میںامن قائم کرنے کا واحد عملی اصول ہے۔ اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک اپنے طریقے کی پیر وی کرنے میں آزاد ہو۔ جہاں تک اجتماعی معاملات کا تعلق ہے، یعنی وہ معاملات جن میں رائیں ایک دوسرے سے مختلف ہو جاتی ہیں، وہاں مرکزی انتظامیہ کی اتّباع کرنا۔ اس طریقے کو دوسرے الفاظ میں پُر امن ڈفرینس مینجمنٹ (peaceful difference management) کہا جاسکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر سماج میں ہمیشہ فرق اور اختلاف پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ سماج واحد مذہبی سماج ہو یا کثیر مذہبی سماج۔ اس فرق کو تسلیم کیا جاسکتا ہے، مگر اس کو مٹایا نہیں جاسکتا۔ ایسے حالات میں کسی سماج میں امن قائم کرنا صرف بقائے باہم (co-existence) کے اصول پر مبنی ہے۔ اس معاملے میں دوسرا کوئی انتخاب ممکن نہیں۔
مدینہ پہنچ کر آپ نے جو سب سے پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے وہاں ایک مسجد بنائی۔ اور اس مسجد میںپانچ وقت کی نماز کا نظام قائم کیا۔ اس نماز کا ایک پہلو یہ تھا کہ وہ خدا کی عبادت کا منظّم طریقہ تھا۔ اس کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ انسان کے اندر وہ صلاحیتیںپیدا ہوں جن کے ذریعے وہ سماج کے اندر پُر امن طورپر رہ سکے۔ چنانچہ آپ نے نماز کا جو طریقہ مقرر کیا اس کے خاتمے پر تمام نمازیوں کو اپنا چہرا دائیں اور بائیں پھیر کر یہ کہنا ہوتا تھا: السلام علیکم ورحمۃ اللہ، السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ اس طرح گویا نمازی ساری دنیا کے انسانوں کو مخاطب کرکے یہ کہتا ہے کہ اے لوگو، تمہارے اوپر سلامتی (peace) ہو۔
اس طرح نمازِ باجماعت گویا لوگوں کی اس انداز میں تربیت کا ذریعہ تھی کہ وہ اپنے سماج میں پُر امن شہری بن کر رہیں۔ سماج کے لوگوں کے لیے ان کے دل میں ہر حال میں مثبت جذبات ہوں، وہ دوسروں کے لیے کبھی مسئلہ نہ بنیں۔ اُن کا رویّہ دوسروں کے ساتھ انسان دوستی (human friendly) والا رویّہ ہو۔
پیغمبر اسلام جب ہجرت کرکے مکّہ سے مدینہ آگئے تو یہ ٹکراؤ کا خاتمہ نہ تھا بلکہ یہ ٹکراؤ کے نئے دَور کا آغاز بن گیا۔ پیغمبر اسلام نے خود تو یہ قربانی دی کہ جنگ سے بچنے کے لیے اپنے وطن مکّہ کو چھوڑ دیا اور مدینہ جاکر آباد ہوگئے۔ مگر عملاً یہ ہوا کہ مدینہ آپ کے مشن کے لیے ایک زرخیز علاقہ ثابت ہوا۔ یہاں کے لوگ تیزی سے آپ کے دین میں داخل ہوگئے۔ یہاں تک کہ اہلِ مدینہ کی اکثریت آپ کی ساتھی بن گئی۔
پیغمبر اسلام کی ہجرت کے بعد یہ ہوا کہ مکّہ اورمکہ کے آس پاس دوسرے مسلمان بھی اپنے مقامات کو چھوڑ کر مدینہ آگئے۔ اس طرح مدینہ، پیغمبر اسلام کے مشن کا ایک مضبوط مرکز بن گیا۔ یہاں مدینہ کے اندر اور مدینہ کے باہر، دونوں علاقوں کے لوگ جمع ہوگئے۔ یہ مکّہ والوں کے لیے گویا ایک وارننگ تھی۔ وہ اپنے طور پر یہ سوچنے لگے کہ پیغمبر اسلام مدینہ میں اپنے افراد کو اکٹھاکرکے ایک بڑی قوت بنائیں گے اور مکّہ کو واپس لینے کے لیے مکّہ پر حملہ کردیں گے۔ اس لیے مکّہ والوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ مدینہ میں پیغمبر اسلام کی طاقت کو توڑ کر اس کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا جائے۔
اس مقصد کے لیے مکّہ والوں نے عوامی عطیات سے پچاس ہزار دینار اکھٹا کیے ، اور تیاری شروع کردی۔ یہاں تک کہ انہوں نے مدینہ پر باقاعدہ حملے کا منصوبہ بنالیا۔ حتی کہ ایک ہزار کی تعداد میں مسلّح فوج لے کر روانہ ہوئے تاکہ مدینہ کی جدید مسلم ریاست کا خاتمہ کردیں۔
اس طرح مدنی دَور میںغزوات (لڑائیوں) کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ سیرت کی کتابوں میں تقریباً 85 غزوات شمار کیے گئے ہیں۔ مگر یہ غزوات فریقِ ثانی کی طرف سے غزوات تھے اور پیغمبر اسلام کی طرف سے اعراض۔ پیغمبر اسلام کی پالیسی یہ تھی کہ فریقِ ثانی کے جنگی اقدام کا مقابلہ پُر امن تدبیروں سے کریں۔ اس پُر امن تدبیر کے لیے امن پسند انسانوں کی ایک تربیت یافتہ ٹیم درکار تھی۔ اصحاب ِ رسول نے یہی کام کیا۔ چنانچہ تشدد کا مقابلہ امن کے ذریعہ کرنے کی تدبیر اس طرح کامیاب ہوئی کہ بیس سال کی مختصر مدت میں پورا عرب اسلام کے کنٹرول میں آگیا۔
اس پُر امن تدبیری مہم کا ایک خاص جُزء یہ تھا کہ پیغمبر اسلام نے عرب کے تمام قبائل سے معاہدے کرلیے، اور تمام قبائل کو امن کا پابند بنا لیا۔ یہ ایک نیا طریقہ تھا جس کو معاہدہ ڈپلومیسی کہا جاسکتا ہے۔ انہیں تدبیروں کا نتیجہ یہ تھا کہ عرب جیسے جنگ جُو ملک میں مختصر مدت کے اندر ایک ایسا انقلاب آگیا جس کو بلاشبہ ایک غیر خونی انقلاب (bloodless revolution) کہا جاسکتا ہے۔
صبر کا فلسفہ
پیغمبر اسلام کی تعلیمات میں صبر (patience) کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں تقریباً ایک سو دس آیتیں ہیں جن میں صبر کے الفاظ کو استعمال کیا گیاہے۔ یہاںتک کہ صبر ہی پر کامیابی کا مدار رکھا گیا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا ہے کہ اے لوگو! صبر کرو تاکہ تم فلاح پاؤ (آلِ عمران، 3:200) ۔اسی طرح فرمایا کہ امامت یا لیڈر شپ میں کامیابی کا راز صبر ہے (السجدہ،32:24)۔
اسی حقیقت کو پیغمبر اسلام نے اپنی ایک لمبی حدیث میں ان الفاظ میں بیان کیا:وَأَنَّ النَّصْرَ مَعَ الصَّبْرِ (مسند احمد،حدیث نمبر 2803)۔ یعنی جان لو کہ کامیابی صبر کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے۔ صبر نہیں تو کامیابی بھی نہیں۔ کامیابی کا درخت ہمیشہ صبر کی زمین پر اُگتا ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ دنیا کے تمام پیسیفسٹ (pacifist) یا پیس فل ایکٹوسٹ (peaceful activist) اپنے نشانے کو حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ اس کا مشترک سبب یہ ہے کہ انہوں نے امن کو دریافت کیا مگر وہ صبر کو دریافت نہ کرسکے۔ حالاں کہ صابرانہ روش کے بغیر پُر امن تحریک کو چلانا ممکن نہیں۔
عام طورپر یہ ہوتا ہے کہ لوگ کسی کو اپنا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے بعد پیس فُل ایکٹوزم کے اصول پر اس کے خلاف تحریک چلاتے ہیں۔ جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے ساؤتھ افریقہ میں کیا۔ انہوں نے ساؤتھ افریقہ کے سفید فام مکینوں کے خلاف نفرت پھیلائی اور پھر کہا کہ ہم ان کو ساؤتھ افریقہ سے نکالنے کے لیے پیس فُل تحریک چلائیں گے۔حالاں کہ دونوں ایک دوسرے کی نفی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نیلسن منڈیلا کی تحریک کامیاب نہ ہوسکی۔ کسی گروہ کے مقابلے میں پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر تحریک چلانے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے دل میں اس کے خلاف منفی جذبات نہ ہوں۔ اس کے مقابلے میں آپ مکمل طورپر مثبت نفسیات کے حامل ہوں۔ یہی واحد بنیاد ہے جس کے اوپر پیس فل ایکٹوزم کی سرگرمیاں جاری ہوسکتی ہیں۔ مدّ مقابل گروہ کے لیے آپ کے دل میں اگر مثبت جذبات نہ ہوں تو آپ کبھی اپنے پُر امن مشن میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔
عملاً یہ ہوتا ہے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ کے مقابلے میں پُر امن طریقِ کار کی بنیاد پر ایک تحریک اُٹھاتا ہے، لیکن فریقِ ثانی کی مفروضہ یا غیر مفروضہ زیادتیوں کا احساس فریقِ اوّل کے خلاف اس کے دل میں نفرت ڈال دیتا ہے۔ یہ نفرت دھیرے دھیرے تشدّد کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور اگر تشدد کے ذ ریعہ مطلوب کامیابی نہ مل رہی ہو تو فریقِ اوّل کے دل میں فریقِ ثانی کے خلاف نفرت کا طوفان اس کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ وہ اس کے خلاف ہر ممکن تخریبی کارروائی شروع کردے۔ یہاں تک کہ اس کو مٹانے کے لیے اُس قسم کی بھیانک کارروائی کرنے لگے جس کو موجودہ زمانے میں خودکُش بمباری (suicide bombing) کہتے ہیں۔
پیس فل ایکٹوزم کے سلسلے میں یہ بات غالباً پوری تاریخ میں صرف پیغمبر اسلام کی زندگی میںملتی ہے۔ دوسرے مصلحین کی طرح ان کو بھی فریقِ ثانی کی طرف سے سخت قسم کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آپ نے کبھی اُن کے خلاف نفرت کی زبان استعمال نہیںکی۔ اپنے ساتھیوں کو بھی آپ ہمیشہ نفرت کےاحساس سے بچانے کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کی زندگی میںاس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں۔
مثال کے طورپر مکہ میں پیغمبر اسلام کے ساتھیوں کا ایک خاندان تھا، جس کو آلِ یاسر کہاجاتا تھا۔ یہ ایک کمزور خاندان تھا۔ چنانچہ آپ کے طاقت ور مخالفین نے اُنہیں مارنا پیٹنا شروع کیا اور کہا کہ پیغمبر کا ساتھ چھوڑ دو۔ پیغمبر اسلام نے اس منظر کو دیکھا تو آپ نے زیادتی کرنے والوں کے خلاف نفرت کا کوئی کلمہ نہیں کہا، بلکہ یہ کہا:صَبْرًا یَا آلَ یَاسِرٍ، فَإِنَّ مَوْعِدَکُمُ الْجَنَّةُ (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 5646)۔ یعنی اے آل یاسر صبر کرو، کیوں کہ تمہارے لیے جنت کا وعدہ ہے۔جنت کو صبر کا انعام بتا کر آپ نے اپنے ساتھیوں کو اس کے لیے آمادہ کیا کہ وہ کسی بھی زیادتی پر مشتعل نہ ہوں۔ وہ کسی بھی حال میں فریقِ ثانی کے خلاف اپنے دل میں منفی جذبات کی پرورش نہ کریں۔
یہ پیغمبر اسلام کی پالیسی کا نہایت اہم پہلو تھا جو آپ نے خدا کی رہنمائی کے مطابق اختیار کی۔ یعنی مخالفوں کی ہر زیادتی پر صبر کرنا۔ قرآن میں اس سلسلے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں۔ مثلاًنبیوں کی زبانی یہ کہا گیا ہے : وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا آذَیْتُمُونَا (14:12)۔ یعنی ہم تمہاری ایذاؤں پر صرف صبر ہی کریں گے۔
یہ صبر کوئی سادہ بات نہ تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ فریقِ ثانی کی ظالمانہ کارروائی کے باوجود مثبت سوچ پر قائم رہنا، اپنے آپ کو اس سے بچانا کہ اپنے ذہن میں فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے۔ کیوں کہ فریقِ اوّل کے دل میں اگر فریقِ ثانی کی منفی تصویر بن جائے تو فریقِ اوّل کبھی فریقِ ثانی کے ساتھ پُر امن طریقِ کار کے اصول پر قائم نہیں رہ سکتا۔ صبر کا اصول فریقِ اوّل کو اس سے بچاتا ہے کہ اس کا ذہن فریقِ ثانی کے بارے میں غیر معتدل ہوجائے۔ پر امن طریقِ کار (peaceful activism) در اصل معتدل ذہن کا اظہار ہے۔ غیر معتدل یا منفی ذہن کبھی پُر امن طریقِ کار کو کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رکھ سکتا۔ صبر کا یہ اصول دراصل اسی اعتدال یا مثبت مزاج کی برقراری کی ایک یقینی گارنٹی ہے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ آپ کے ساتھ مخاطب گروہ کی طرف سے مسلسل زیادتیاں کی گئیں، لیکن آپ ہمیشہ پابندی کے ساتھ صبر کے اصول پر قائم رہے، اور اپنے ساتھیوں کو اسی کی تلقین کی۔ آپ کی مجلسوں میں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ مخالفین کے ظلم کا چرچا کیاجائے۔ آپ نے کبھی ایسا نہیں کیا کہ مخالفین کے ظلم کے حوالے سے ان کے خلاف بددعائیں کریں۔ اس کے برعکس، آپ ہمیشہ ظلم کرنے والوں کے خلاف اچھی دعا کرتے تھے۔ آپ نے مخالفوں کو کبھی کافریا دشمن نہیں کہا، بلکہ ہمیشہ ان کے بارے میں انسان کا لفظ بولتے رہے۔ اس معاملے کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ ایک بار آپ کے مخالفوں نے پتھر مارکر آپ کو زخمی کردیا، اُس وقت آپ کی زبان سے یہ الفاظ نکلے:اللہُمَّ اہْدِ قَوْمِی فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر 1375)۔ خدایا! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ وہ جانتے نہیں۔
یک طرفہ صبر اور خیر خواہی کا طریقہ جو آپ نے عرب میںاختیار فرمایا، وہ اسی لیے تھا کہ فریقِ ثانی کے بارے میں آپ، یا آپ کے ساتھیوں کے دل میں شکایت اور نفرت کی نفسیات پیدا نہ ہونے پائے۔ کیوں کہ جو ذہن شکایت اور نفرت لیے ہوئے ہو، وہ اصلاح کا کام درست طورپر نہیں کرسکتا۔
خاموش تبلیغ
ایسی حالت میں پیغمبر اسلام کے لیے دو میں سے ایک کا انتخاب تھا۔ ایک یہ کہ لوگوں کو کھُلے طورپر توحید کی طرف بلائیں اور کھلے طور پر شرک کو غلط قرار دیں۔ آپ کے لیے دوسرا انتخاب یہ تھا کہ آپ خاموشی کے ساتھ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے اپنا مشن شروع کریں اور حالات کااندازہ کرتے ہوئے تدریجی طورپر آگے بڑھیں۔پہلے طریقے میں متشددانہ ٹکراؤ کا اندیشہ تھا، اس لیے آپ نے اس کو چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے آپ نے دوسرے طریقے کو اختیار کیا، جو واضح طور پر امن کا طریقہ تھا۔ جس میں یہ ممکن تھا کہ لوگوں سے ٹکراؤ کی صورتِ حال پیدا کیے بغیر اپنا کام جاری رکھا جاسکے۔
پیغمبر اسلام کی زندگی میں یہ پیس فل ایکٹوزم کی پہلی مثال تھی۔ اسی طرح آپ نے اپنی پوری تحریک امن کے اصول پر چلائی۔ اسی حقیقت کو ایک حدیث میں آپ نے اس طرح فرمایا: لاَ تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ العَدُوِّ، وَسَلُوا اللَّہَ العَافِیَةَ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 2965)۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم کو کسی دشمن کا سامنا پیش آئے تو ایسا نہ کرو کہ ردّعمل کی نفسیات میں مبتلا ہو کر اس سے لڑ جاؤ، بلکہ امن کے اصولوں کواختیار کرتے ہوئے دشمنی کے مسئلے کو حل کرو:
Solve the problem of enmity by following the peaceful method.
اس طرح آپ پُر امن انداز میں کام کرتے رہے یہاںتک کہ دھیرے دھیرے 83 آدمی آپ کے مشن میں شامل ہوگئے۔ اُس وقت آپ کے ایک سینئر ساتھی ابوبکر صدیق بن ابی قحافہ نے کہا کہ اب ہم کو اعلان کے ساتھ کھُلے عام اپنا کام کرنا چاہیے۔ پیغمبر اسلام نے کہا : اے ابوبکر! ابھی ہم تھوڑے ہیں ( یَا أَبَا بَکْرٍ إِنَّا قَلِیلٌ)۔ لیکن ابوبکر صدیق نے اس کے باوجود ایسا کیا کہ وہ کعبہ میں گئے اور وہاں بلند آواز سے اعلان کرکے لوگوں کو بتایا کہ میں پوری طرح محمد کا ساتھی بن گیا ہوں۔ یہ سُن کر مخالفین کی ایک جماعت دَوڑ کر آئی۔ وہ آپ کو مارنے پیٹنے لگی۔ انہوںنے آپ کو اتنا زیادہ مارا کہ آپ زخمی ہوکر گِر پڑے۔ مارنے والوں نے ابوبکر صدیق کو صرف اُس وقت چھوڑا جب کہ انہوںنے سمجھا کہ اب ان کا خاتمہ ہوچکا ہے( سیرت ابنِ کثیر، جلد 1، صفحہ 439)۔
عمر بن الخطّاب آپ کے ساتھیوں میں نہایت طاقتور شخص تھے۔ انہوں نے بھی پیغمبر اسلام سے کہا کہ ہم حق پر ہیں، پھر ہم کیوں خاموش رہیں۔ ہم اعلان کے ساتھ کھُلے طورپر اپنا کام کریں گے۔ یہ سُن کر پیغمبر اسلام نے فرمایا:یَا عُمَرُ إِنَّا قَلِیلٌ قَدْ رَأَیْتَ مَا لَقِینَا (سیرت ابن کثیر، جلد 1، صفحہ 441) ۔یعنی اے عمر! ہم تھوڑے ہیں، ابوبکر کے ساتھ جو کچھ پیش آیا وہ تم نے دیکھ لیا۔
دھیرے دھیرے پیغمبر اسلام کا مشن پھیلنے لگا۔ آپ کے ساتھیوں کی تعداد بڑھتی رہی۔ پھر وہ وقت آیا جب کہ مدینہ سے 73 آدمی آکر آپ سے ملے، اور بتایا کہ ہم آپ کے مشن میںآپ کے ساتھ ہو چکے ہیں۔ انہوںنے کہا کہ اب آپ مکّہ والوںکی زیادتی کو اور زیادہ برداشت نہ کیجیے۔ ہم کو اجازت دیجیے کہ ہم مکّہ والوں کے خلاف جہاد کریں۔ پیغمبر اسلام نے فرمایا:اصْبِرُوا فَإِنِّی لَمْ أُومَرْ بِالْقِتَال (المواھب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ، جلد1، صفحہ199) ۔یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھے لڑائی کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام کی یہ روش بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ عملی نتیجے کو سامنے رکھتے تھے۔ اُن کا یہ ماننا تھا کہ اقدام کو مثبت نتیجے کا حامل ہونا چاہیے، ایسا اقدام جو کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter-productive) ثابت ہو ،وہ کوئی اقدام نہیں۔ وہ نتیجہ خیز اقدام(result-oriented action) کے حامی تھے۔
پیغمبر اسلام کی لائف بتاتی ہے کہ ان کی اسکیم میں اُس قسم کی چیز کے لیے کوئی جگہ نہ تھی، جس کو موجودہ زمانے میں خود کُش بمباری (suicide bombing) کہا جاتا ہے۔ خود کُش بمباری کیا ہے۔ وہ در اصل مایوسی کا آخری درجہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے مخالف پر غلبہ حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ فریقِ ثانی کو پریشان کرنے کی خاطر خود اپنے آپ کو ہلاک کرے اور پھر اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کرلے کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ میں شہید ہوجاؤں۔
دشمن کے مقابلے میں خود کش بمباری دراصل یہ ہے کہ آدمی کے سامنے پیس فل ایکشن کا انتخاب کھُلا ہوا ہو مگر نفرت اور انتقام کے جذبات میں مبتلا ہو کر وہ اس کو نقصان پہنچانے کے لیے اندھا ہوجائے اور اس اندھے پن میں وہ خود اپنے ہی کو ہلاک کرڈالے۔ کوئی بھی صورتِ حال جہاں کوئی شخص خودکُش بمباری کا چائس لیتا ہے، وہاں یقینی طور پر اس کے لیے پُر امن طریقِ کار کا راستہ کھلا ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو دیکھ نہیں پاتا۔
اصل یہ ہے کہ پُر امن طریقِ کار کا انتخاب کرنے کے لیے پہلی ضروری شرط یہ ہے کہ آدمی کا ذہن نفرت اور انتقام کے جذبات سے خالی ہو۔ وہ غیر متاثر انداز میں واقعات کا تجزیہ کرے۔ پیغمبر اسلام کے الفاظ میں، وہ چیزوں کوویسا ہی دیکھ سکے جیسا کہ وہ ہیں (أَرِنَا الْأَشْیَاءَ کَمَا ہِیَ) تفسیر الرازی، جلد1، صفحہ119۔پُر امن عمل ایک مثبت عمل ہے اور مثبت عمل کی اہمیت کو ایک مثبت ذہن ہی سمجھ سکتا ہے، اور اس کے مطابق اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرسکتا ہے۔
امن پسندانہ سوچ
پیس فل ایکٹوزم بظاہر ایک خارجی عمل ہے، مگر وہ مکمل طورپر ایک داخلی شعور کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ صرف پیس فل مائنڈ ہے جو پیس فل ایکٹوزم کی بات سوچ سکتا ہے اور اس کو درست طورپر عمل میں لاسکتا ہے۔ پیغمبر اسلام نے اس حقیقت کو جانا۔ انہوں نے اس سلسلے میں یہ کیا کہ سب سے پہلے پیس فل مائنڈ بنایا۔ اس کے بعد ہی وہ اس قابل ہوسکے کہ پیس فل ایکٹوزم کے اصول پر اپنی تحریک چلا سکیں۔ اسی حقیقت کو آپ نے مذہبی زبان میں اس طرح بیان کیا ہے : جب آدمی کا دل درست ہوتا ہے تو اس کے تمام اعمال درست ہوجاتے ہیں (صحیح البخاری، حدیث نمبر 52)۔
ذہن سازی کے اس عمل کو قرآن میں تزکیہ کہاگیا ہے۔ قرآن کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اہم کام یہ تھا کہ وہ لوگوں کا تزکیہ کرے (البقرہ،2:129) ۔یعنی روح کی تطہیر (purification of the soul)۔اس تزکیہ کا طریقہ کیا تھا۔ یہ پیغمبر اسلام کی ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَاءُ فِی قَلْبِہِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُہُ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ، حَتَّى یَعْلُوَ قَلْبَہُ (مسند احمد، حدیث نمبر 7952) ۔ یعنی مؤمن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک کالا دھبّہ پڑ جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ کرے اور اس کو مٹا دے اور استغفار کرے تو اس کا دل دھبّے سے پاک ہوجاتا ہے۔ اور اگر دھبّے میں مزید اضافہ ہو تو وہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اس کے پورے دل پر چھا جاتا ہے۔
اس حدیث میں پیغمبر اسلام نے ایک اہم نفسیاتی حقیقت بتائی ہے۔ نفسیاتی مطالعہ بتاتا ہے کہ انسان کے ذہن میں جب کوئی بات آتی ہے تو وہ ہمیشہ کے لیے اس کے حافظے میںاس طرح محفوظ ہوجاتی ہے کہ پھر وہ کبھی نہیں نکلتی۔ نفسیات کا مطالعہ مزید بتاتا ہے کہ انسانی ذہن کے دو بڑے خانے ہیں۔ ایک، شعور، اور دوسرا، لاشعور۔ جب کوئی بات انسانی ذہن میں آتی ہے تووہ پہلے اس کے زندہ شعور کے خانے میں آتی ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے وہ لاشعور کے خانے میں چلی جاتی ہے۔
ایک خانے سے دوسرے خانے میں جانے کا یہ عمل خاص طورپر رات کے وقت ہوتا ہے۔ اس طرح اگرچہ ایساہوتا ہے کہ کوئی بات جو آج زندہ حافظہ (active memory) میں ہے، بعد کو وہ دماغ کے پچھلے خانے میں جاکر بظاہر ایک بھولی ہوئی بات بن جاتی ہے۔ مگر جہاں تک شخصیتِ انسانی کاتعلق ہے، وہ لازمی طورپر اس کا جُزء بنتی رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شخصیتِ انسانی کا براہِ راست تعلق انسانی تھنکنگ سے ہے۔ جیسی سوچ ویسی شخصیت۔
پیغمبر اسلام کے مذکورہ قول کا مطالعہ جدید نفسیاتی تحقیق کی روشنی میں کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قولِ رسول میں پیس فل تھنکنگ اور پیس فل ایکٹوزم کا اصل راز بتادیا گیا ہے۔ صحیح معنوں میں وہی شخص پیس فل ایکٹوسٹ بن سکتا ہے جو مذکورہ قولِ رسول پر عمل کرے۔ اس عمل کو آج کل کی زبان میں ڈی کنڈیشننگ کہاجاسکتا ہے۔
ہر انسان اور ہر انسانی گروہ ایسے ماحول میں رہتا ہے جہاں ہر وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں جو اس کے لیے ناخوش گوار ہوں، جو اس کے اندرفریقِ ثانی کے خلاف منفی احساسات پیدا کریں۔ اس طرح گویا ہر آدمی کے ذہن میں بار بار منفی نوعیت کے احساسات آتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی اس منفی احساس کو فوری طورپر بدل کر مثبت احساس نہ بنائے تو وہ آگے بڑھ کر اس کے لاشعور میں ایک منفی آئٹم کے طورپر محفوظ ہوجائے گا۔ یہ عمل اگر بلا روک ٹوک جاری رہے تو آخر کار یہ ہوگا کہ اس کا لاشعور یا اس کا حافظہ منفی آئٹم سے بھر جائے گا۔ اور اس کے نتیجے میں اس کی پوری شخصیت، منفی شخصیت بن جائے گی۔ یہی وہ منفی شخصیت ہے جس کے حامل افراد دوسروں کے خلاف تشدد اور جنگ میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ تشدد دراصل منفی شخصیت کے خارجی اظہار کا دوسرا نام ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ جب آدمی کے ذہن میں کوئی منفی احساس آئے تو اسی وقت وہ اس کو بدل کر مثبت احساس بنا لے۔ جو آدمی اپنے اندر کنورزن کا یہ عمل جاری کرے اس کا یہ حال ہوگا کہ اس کا پورا لاشعور یا حافظہ مثبت آئٹم کا اسٹور بن جائے گا۔ اس کا فائدہ اس کو یہ ملے گا کہ اس کی شخصیت ایسی شخصیت بنے گی جو ہر قسم کے نیگیٹیو احساس سے خالی ہوگی۔ ایسا آدمی مکمل طورپر ایک پازیٹیو شخصیت کا حامل ہوگا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو پر امن ذہن میں جیتے ہیں، اور یہی وہ لوگ ہیں جو پیس فل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق کوئی تحریک چلا سکتے ہیں۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نفسیاتی (psychological)حقیقت کو سمجھا، اور تزکیہ، بالفاظ دیگر ایک ایک شخص پر ڈی کنڈیشننگ کا عمل جاری کرکے ایک سو ہزار سے زائد افراد کی ایک ٹیم بنائی۔ یہ وہ لوگ تھے جو پورے معنوں میں امن پسندی کا مزاج رکھتے تھے۔ اپنے اس مزاج کی بنا پر ان کے لیے یہ ممکن ہوا کہ پیس فُل ایکٹوزم کے اصول کے مطابق عمل کرسکیں، اور امن کے دائرے میں رہتے ہوئے ایک انقلاب لائیں۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
آپ کو لفظ"جہاد" کی تعریف میںکچھ لیف لیٹس روانہ کیے جارہے ہیں ۔ غور اور صبر کے ساتھ پڑھ کر اس کا جواب دیں۔ ان کو پڑھ کر یہی سمجھ میںآتا ہے کہ قرآن کو خدائی کتاب کہنے والا انسانیت کا دشمن ہے اور سرودھرم سمبھاؤ کا بھی دشمن ہے۔ (شیواگوڑ، سنگاریڈی)
جواب
شیواگوڑصاحب نے اپنے اس خط کے ساتھ ہمیں انگریزی میں41صفحہ کی فوٹوکاپیاں بھیجی ہیں ۔ اس کا جواب یہاں تحریر کیا جاتا ہے ۔ آپ نے اپنے خط میں قرآن کی 24 آیتیں نقل کی ہیں جن میں اس طرح کی باتیں ہیں —ان سے لڑو ، ان سے دوستی نہ کرو ، ان کے ساتھ نرمی سے نہ پیش آؤ۔ ان کے خلاف جہاد کرو ، وغیرہ۔
واضح رہےکہ قرآن کی یہ آیتیں جو آپ نے نقل کی ہیں وہ غیر مسلم کے ساتھ مسلمان کےتعلق کو نہیں بتاتیں۔ بلکہ وہ جنگ کرنے والوں کے ساتھ مسلمان کے تعلق کو بتاتی ہیں ، اور جنگ کے معاملہ میں یہی ساری دنیا کا مسلمہ اصول ہے ۔ان آیتوں کی بنیاد پر آپ نے اسلام کے بارے میں جو شدید رائے قائم کی ہے ، وہ سرا سر غلط فہمی پر مبنی ہے ۔ آپ نے قرآن کی مذکورہ آیتوں کو عمومی معنوں میں لے لیا ہے ۔ حالانکہ یہ آیتیں ہنگامی حالات کے لیے ہیں ۔ یہ اس وقت کے لیے ہیں جب کہ مسلمانوں اور دوسری قوم کے درمیان حالت جنگ (state of war)قائم ہوگئی ہو، اور یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ حالت جنگ میں ہمیشہ ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ جہاں تک نارمل حالات میں لوگوں کے ساتھ مسلمان کے سلوک کا تعلق ہے وہ دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے جو قرآن میں کثرت سے موجود ہیں ۔
ان دوسری آیتوں میں مسلمانوں کوتمام انسانوں کے ساتھ ہمدردی اور غم خواری کا سلوک کرنے کاحکم دیا گیا ہے (سورہ البلد،90:17) ۔اسی طرح حکم ہے کہ در گزر (tolerance)کا طریقہ اختیار کرو(سورہ الاعراف، 7:199)۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا : وَالَّذِی نَفْسِی بِیَدِہِ، لَا یَضَعُ اللَّہُ رَحْمَتَہُ إِلَّا عَلَى رَحِیمٍ، قَالُوا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، کُلُّنَا یَرْحَمُ، قَالَ: لَیْسَ بِرَحْمَةِ أَحَدِکُمْ صَاحِبَہُ یُرْحَمُ النَّاسُ کَافَّةً (مسند ابو یعلیٰ الموصلی، حدیث نمبر 4258)۔ یعنی اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ اپنی رحمت صرف رحم کرنے والے پر کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم سب رحم کرتے ہیں، آپ نے کہا: تمھارا اپنے ساتھی پر رحم کرنا مراد نہیں ہے، تمام انسانوں کے ساتھ رحم کا معاملہ کیا جائے،وغیرہ وغیرہ۔
جہاں تک غیرمسلموں سے تعلق کا معاملہ ہے ، قرآن میں اس کی بابت ایک بنیادی اصول مقرر کردیا گیا ہے ۔وہ یہ ہے: لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ۔ إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَى إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (60:8-9)۔ یعنی اللہ تم کو ان لوگوں سے نہیں روکتا جنھوں نے دین کے معاملہ میں تم سے جنگ نہیں کی۔ اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کہ تم ان سے بھلائی کرو اور تم ان کے ساتھ انصاف کرو۔ بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اللہ بس ان لوگوں سے تم کو منع کرتا ہے جو دین کے معاملہ میں تم سے لڑے اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا۔ اور تمہارے نکالنے میں مدد کی کہ تم ان سے دوستی کرو، اور جو ان سے دوستی کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
قرآن کی ان دونوں آیات کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے تم سے جنگ نہیں کیا ان سے تم کو بھلائی کا معاملہ کرنا چاہیے۔مگر جو لوگ تمھارے خلاف جنگی کارروائی کررہے ہیں، ان کے ساتھ بطور ڈیفنس جنگ کرو۔ قرآن کے مطابق، عام انسانوں کو تکلیف دینا سخت منع ہے، بلکہ عدو(enemy) اور مُقاتل (combatant) کے درمیان بھی فرق کرنا چاہیے۔ قرآن کا حکم یہ ہے کہ بظاہر اگر کوئی شخص یا گروہ تمہارا دشمن ہو تب بھی تم کواس کے ساتھ اچھا تعلق قائم رکھنا چاہیے۔
جیسا کہ قرآن میں دوسرے مقام پر یہ حکم دیا گیا ہے کہ ایک شخص اگر بظاہر تمہارا دشمن ہو تب بھی تم اس کے ساتھ احسن طریقے پر معاملہ کرو، عین ممکن ہے کہ وہ کسی دن تمہارا دوست بن جائے۔ قرآن کے الفاظ یہ ہیں:وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِی ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِی بَیْنَکَ وَبَیْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیمٌ (41:34)۔ یعنی بھلائی اور برائی دونوں برابر نہیں، تم جواب میں وہ کہو جو اس سے بہتر ہو پھر تم دیکھو گے کہ تم میں اور جس میں دشمنی تھی، وہ ایسا ہوگیا جیسے کوئی دوست قرابت والا ۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو جنگ کی اجازت صرف اس وقت ہے جب کہ فریق مخالف کی طرف سے حملہ کا آغاز ہوچکا ہو۔ لیکن جو اس جنگ میں شامل نہیں ہیں، ان کو بالکل بھی تکلیف نہیں دی جائے گی، خواہ وہ دل میں دشمنی رکھتا ہو۔ بین اقوامی معاملات میں یہی مساویانہ سلوک ساری دنیا کا مسلمہ اصول ہے اور اسلامی شریعت میں بھی مساویانہ سلوک کے اسی اصول کو اختیار کیا گیا ہے ۔
واضح رہےکہ قرآن بیک وقت ایک واحد کتاب کی صورت میں نہیں اترا ۔ بلکہ وہ حالات کے اعتبار سے 23 سال کے دوران اترا ۔ 23سال کی اس مدت کو عمومی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک 20 سال ، دوسرے 3سال ۔23سالہ مدت نزول میں 20 سال گویا امن کے سال تھے اور تقریباً 3 سال جنگی حالات کے سال ۔ آپ نے جن 24آیتوں کا حوالہ دیا ہے وہ مذکورہ تقسیم کے مطابق 3 سال والے ایمرجنسی کے حالات میں اتریں ۔ قرآن کی دوسری آیتیں20 سال والی مدت میں اتریں اور وہ سب کی سب امن اور انصاف اور انسانیت جیسی مثبت تعلیمات پر مشتمل ہیں۔
سوال
قرآن میں کئی آیتیں ایسی ہیں جو مسلمانوں سے کہتی ہیں کہ کافروں کو قتل کرو۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان جہادی ہوگئے ہیںاور غیر مسلموں کو قتل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں ۔مثلاً قرآن میں یہ آیت ہے: وَاقْتُلُوہُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوہُمْ وَأَخْرِجُوہُمْ مِنْ حَیْثُ أَخْرَجُوکُمْ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقَاتِلُوہُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى یُقَاتِلُوکُمْ فِیہِ فَإِنْ قَاتَلُوکُمْ فَاقْتُلُوہُمْ کَذَلِکَ جَزَاءُ الْکَافِرِینَ (2:191)۔ یعنی اور قتل کرو ان کو جس جگہ پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انھوں نے تم کو نکالا ہے۔ اور فتنہ سخت تر ہے قتل سے۔ اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس میں جنگ نہ چھیڑیں۔ پس اگر وہ تم سے جنگ چھیڑیں تو ان کو قتل کرو۔ یہی سزا ہے کافروں کی۔
سوال یہ ہے کہ قرآن میں جب تک اس طرح کی آیتیں موجود ہیں تو مسلمانوں کا غیر مسلموں کے ساتھ شانتی سے رہنا کیسے ممکن ہے۔(اشوک سنگھل ، نئی دہلی)
جواب
یہ آیت خود ہی یہ بتارہی ہے کہ جنگ کا حکم کافر کے خلاف نہیں ہے بلکہ مقاتل (حملہ آور) کے خلاف ہے۔ جیسا کہ خود اسی آیت میں کہا گیا ہے :فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ (پس اگر وہ جنگ چھیڑ دیں تو تم بھی دفاع میں اُن سے جنگ کرو)۔ اسی طرح مذکورہ آیت سے پہلے یہ آیت ہے : وَقَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَلَا تَعْتَدُوْا( 2:190)۔ یعنی جو لوگ تم سے جنگ کرتے ہیں اُن سے تم (دفا ع میں) جنگ کرو ، اور تم خود جارحیت (aggression)نہ کرو۔
چنانچہقرآن اور پیغمبر اسلام کی سنت کا مطالعہ کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جد جہد (armed struggle)کی ہرگز اجازت نہیں۔ اسی طرح اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں قتال (جنگ) کا حکم ایک عارضی(temporary) سبب کے لیے ہے، وہ اسلام کا کوئی ایسا حکم نہیں ہے، جو ہر لمحہ جاری ر ہے۔ جب دفاع کا سبب ختم ہوجائے تو جنگ کا حکم بھی عملاً موقوف (suspend) ہوجائے گا، یعنی جب امن کا زمانہ ہو تو جنگ نہیں کی جائے گی۔ یہی اسلام کی ابتدائی تاریخ میں پیش آیا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں ، ماضی کے تسلسل (continuation) کے تحت جنگ کی صورت پیش آئی ۔یعنی انھوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف ناحق جنگ چھیڑ دی اور اس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفاعی قدم اٹھانے پر مجبور کردیا۔ مگر جنگ کا یہ حکم عارضی تھا۔ قرآن کے الفاظ میں، جب فریقِ مخالف نےاپنا اوزار (ہتھیار)رکھ دیا تو جنگ کا خاتمہ ہوگیا(محمد، 47:4)۔
اس سلسلہ میں دوسری بات یہ ہے کہ قرآن میں جن چند مقامات پر کافر کا لفظ آیا ہے ،اُس سے پیغمبر اسلام کے زمانے کےانکار کرنے والے مراد ہیں ۔ قرآنی اصطلاح کے مطابق،ایسا نہیں ہے کہ لفظ کافر ابد تک کے لیے ہر غیر مسلم گروہ کے لیے بولا جائے گا، یعنی کافر کسی قوم کا یانسل کا دائمی لقب نہیں ہے۔ چنانچہ اہل اسلام نے بعد کے زمانہ کے لوگوں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے وہ کافر یا کفارنہ تھے بلکہ یہ وہی الفاظ تھے جو کہ قومیں خود اپنے لیے استعمال کر رہی تھیں ۔ مثلاً ہنو د ، یہود، نصاریٰ، مجوس ، بودھ(بوذا) وغیرہ۔ اسلامی اصول کے مطابق ، کسی قوم کو اسی لفظ سے پکارا جائے گا جو لفظ اُس نے خود اپنے لیے اختیار کیا ہو۔
قرآن کے مطابق، پیغمبر وں نے جب اپنے زمانہ کے غیر مومن لوگوں کو پکارا تو اُنہوں نے یہ نہیں کہا کہ اے کافرو، بلکہ یہ کہا کہ اے میری قوم کے لوگو ۔ چنانچہ قرآن میں پیغمبر کی زبان سے پچاس بار یہ الفاظ آئے ہیں :یَاقَوْمِ (اے میری قوم ) ۔ اسی طرح قرآن میں پیغمبر وں کے ہم زمانہ غیر مومنین کو اُن کی قوم کا نام دیا گیا ہے۔ مثلاً : قوم لوط ، قوم صالح ، قوم ہود، قوم نوح، وغیرہ۔ حدیث میں آیا ہے کہ ایک پیغمبر کو اُس کے مخالفین نے پتھر مارا اور ان کی پیشانی سے خون بہنے لگا، اُس وقت پیغمبر کی زبان سے یہ الفاظ نکلے :رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِی، فَإِنَّہُمْ لَا یَعْلَمُونَ (مسند احمد، حدیث نمبر 4057)۔اے میرے رب ، میری قوم کو معاف کردے کیوں کہ وہ لوگ نہیں جانتے۔
اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر وں کا نظریہ دوقومی نظریہ نہ تھا ، بلکہ وہ ایک قومی نظریہ تھا۔ یعنی جو قومیت پیغمبر کی تھی وہی قومیت پیغمبر کے مخاطبین کی تھی۔ پیغمبر اور اُس کے مخاطبین کے درمیان جو فرق تھا، وہ قومیت کا فرق نہ تھا بلکہ عقیدہ اور مذہب کا فرق تھا ۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْن(109:6)۔ یعنی تمہارے لیے تمہارا دین، اور میرے لیے میرا دین۔
قرآن میں الا نسان (واحد ) کا لفظ65 بار آیا ہے، اور الناس (جمع ) 240 بار آیا ہے۔ اس کے مقابلہ میں کافر کا لفظ صرف پانچ بار قرآن میں آیا ہے اور اُس کی جمع الکفار ، الکافرون اور الکافرین کے الفاظ 150بار آئے ہیں ۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس معاملہ میں قرآن کا تصور کیا ہے۔ قرآن کی نظر میں یہ زمین دارالانسان ہے ، نہ کہ دارالحرب (جنگ کا میدان)۔
واپس اوپر جائیں

اعلان

انسانیت کی تعمیر میں خواتین کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں ان کو انڈر یوٹیلائز (underutilize)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میںخواتین کے رول کو دریافت کیا، مثلاً حضرت ہاجرہ اور حضرت خدیجہ، وغیرہ۔اور اس کو ایکسپلین کرکے موجودہ دور کی خواتین کوبتایا کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے اس تاریخ کو دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا ہےجس کا نام ہے:
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہ گروپ 29 اکتوبر 2020 کو شروع ہوا، اور اتنے کم وقت میں خواتین نے جو فیڈ بیک دیا، وہ بہت ہی حیرت انگیز (amazing) ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ انھوں نے اس گروپ کو جوائن کرکے حقیقی اسلام کو سمجھا ہے ۔ اس سے پہلے ان کے نزدیک اسلام کا مطلب کچھ سماجی رسوم تھا، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعےبھیجا ہے۔
اس وقت ہماری دوہفتہ وار آن لائن قرآن کلاسیںجاری ہیں:
Urdu Quran Class - Every Sunday at 2 pm (IST)
English Quran class - Every Wednesday at 2 pm (IST)
@ www.facebook.com/cpsinternational
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تونیچے دیے گئے ای میل وغیرہ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
fahmidakhan245@gmail.com
واٹس ایپ 09453215285
Telegram channel: https://t.me/joinchat/_6an7cUFeOU1MjA1
CPS Ladies FB group link: www.facebook.com/groups/cpsladies
س
واپس اوپر جائیں

Saturday 1 May 2021

Al Risala | May 2021 (الرسالہ،مئی)

1

-ڈائری سے انتخاب

48

- اعلان


ڈائری سے انتخاب

17 ستمبر 1985
ہر آدمی کے اندر ایک انسان ہے، اور اسی کے ساتھ اس کے اندر ایک شیطان بھی چھپا ہوا ہے۔ اکثر لوگ اپنی نادانی سے انسان کو کھو دیتے ہیں۔ یہ صرف شیطان ہے جو ان کے حصہ میں آتا ہے۔
28اکتوبر 1985
رمضان کے بارے میںمختلف روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سےایک روایت یہ ہے:وَصُفِّدَتِ الشَّیَاطِینُ(صحیح مسلم، حدیث نمبر1079)۔ یعنی اور اس ماہ میں شیاطین قید کردیے جاتے ہیں۔
حدیث کے الفاظ کو اس کے ظاہری مفہوم میں لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ رمضان کے مہینے میں تمام دنیا کے شیاطین علی الاطلاق (absolute sense) قید کردیے جاتے ہیں۔ حالاں کہ یہ بات بداہۃً (prima facie) خلاف واقعہ ہے۔کیوں کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ رمضان کے مہینہ میں وہ تمام گناہ بدستور ہوتے رہتے ہیں جو سال کے دوسرے مہینوں میں ہوتے ہیں۔
اس لیے حدیث کا مفہوم قید کے ساتھ لینا ہوگا۔ یعنی یہ کہ سنسیرٹی (sincerity) کے ساتھ روزہ رکھنے والوں کےلیے اللہ کی مدد آتی ہے، اور شیاطین کاان پر غلبہ نہیں ہوپاتاہے۔ یعنی جو لوگ سچی اسپرٹ کے ساتھ روزہ رکھتے ہوں ان کے اندر رمضان میں گناہوں کی تحریک نہیں ہوتی یا بہت کم ہوجاتی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی حالت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: إِنَّ عِبَادِی لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغَاوِینَ (15:42)۔ یعنی بیشک جو میرے بندے ہیں، ان پر تیرا زور نہیں چلے گا۔ سوا ان کے جو گمراہوں میں سے تیری پیروی کریں۔
حدیث ایک دعوتی اور تربیتی کلام ہے، اور دعوتی اور تربیتی کلام میں یہی انداز زیادہ مؤثر ہے۔ منطقی اسلوب دعوت و تربیت کے لیے مؤثر نہیں۔ اگر یہ کہا جاتا کہ ’’جو روزہ دار پورے شرائط و آداب کے ساتھ روزہ رکھے اس کے شیاطین قید کردئے جائیں گے“ تو کلام کی تاثیر نسبتاً کم ہوجاتی۔
20 نومبر 1985
عبد الرحمٰن بن عبدالقاری تابعی (وفات 80ھ) کہتے ہیں کہ میں رمضان کی ایک رات خلیفہ ثانی عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد گیا۔ اس وقت لوگ مختلف حالتوں میں (نماز اداکررہے) تھے۔ کوئی تنہا نماز پڑھ رہا تھا، اور کوئی چند آدمیوں کے ساتھ ۔ حضرت عمر نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ اگر میں ان سب کو ایک امام پر جمع کردوں تو یہ بہت اچھی بات ہوگی۔ پھرمشورہ کرکے آپ نے ابی بن کعب کو ان کا امام بنا دیا۔ دوسری رات کو دوبارہ جب میں حضرت عمر کے ساتھ (مسجد کی طرف) نکلا تو لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ حضرت عمر نے (یہ دیکھ کر) کہا: کیسی اچھی ہے یہ بدعت (نِعْمَ البِدْعَةُ ہَذِہ) ۔ صحیح البخاری،حدیث نمبر 2010۔
بدعت اسلام میں بری چیز ہے، جب کہ حضرت عمر نے یہاں اس کو اچھا بتایا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بدعت کے لفظ سے اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے۔ یہاں یہ اپنے لفظی معنی میں ہے، نہ کہ شرعی اصطلاح کے معنی میں۔
یہ ایک سادہ سی مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بات کو سمجھنے کے لیے تفصیلی اور جامع علم بہت ضروری ہوتا ہے۔ جس شخص نے صرف مساجد کے وعظ میں ’’بدعت“ کا لفظ سنا ہو وہ اس حدیث کو صحیح طور پرسمجھ نہیں سکتا۔ اس حدیث میں ’’بدعت“ کا مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اس کے اصطلاحی مفہوم کے ساتھ اس کے لفظی مفہوم کو بھی جانتا ہو۔ صرف ایک مفہوم کو جاننا حدیث کو سمجھنے کے لیے کافی نہیں۔ یہی اصول زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی چسپاں ہوتا ہے۔
2 اکتوبر 1985
بعض حدیثیں نقد داخلی ہی کے معیار پر غیر معتبر ثابت ہوجاتی ہیں ۔ مثلاً ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے: وَفَضْلُ شَہْرِ شَعْبَانَ عَلَى الشُّہُورِ کَفَضْلِی عَلَى سَائِرِ الأَنْبِیَاءِ (المقاصد الحسنہ، حدیث نمبر 740)۔ یعنی شعبان کے مہینہ کو دوسرے مہینوں پر ویسی ہی فضیلت ہے جیسی فضیلت مجھ کو دوسرے انبیا پر۔
مہینوں میں سے کوئی مہینہ اگرافضل ہو تو یہ افضلیت سب سے پہلے رمضان کے مہینہ کو حاصل ہوگی۔ کیوں کہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن رمضان کے مہینہ میں اترا، اور جس مہینہ میں قرآن اترا اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے۔ ایسی حالت میں کیسے یقین کیا جاسکتاہے کہ کوئی مہینہ رمضان سے بھی زیادہ افضل ہوگا۔
29اکتوبر 1985
ایک حدیث ِ رسول ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:وَلاَ یَزَالُ أَحَدُکُمْ فِی صَلاَةٍ مَا انْتَظَرَ الصَّلاَةَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 647)۔یعنی ایک شخص اس وقت تک برابر نماز میں رہتا ہے جب تک وہ (مسجد میں) نماز کا منتظر رہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ صرف مسجد میں موجود رہنا ہی ثواب کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص نفسیات نماز کے ساتھ نماز کے انتظار میں ہو اس کا یہ وقت بھی نماز میں شمار ہوجاتا ہے اور اس کو وہی ثواب ملتا ہے جو نماز پڑھنے والے کو ملتا ہے۔
اس طرح کی حدیثوں کو سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کسی پتھر کے مجسمہ یا روبوٹ کے بارے میں نہیں ہیں، بلکہ زندہ انسان کے بارے میں ہیں۔ انسان سوچتا ہے۔ وہ صاحبِ نفسیات مخلوق ہے۔ ایسا انسان جب نماز کے انتظار میں بیٹھا ہو تو اس کا بیٹھنا سادہ قسم کا بیٹھنا نہیں ہوتا۔ وہ اگر سچا نمازی ہے تونماز کے انتظار کے وقت بھی نماز کے بارے میں سوچے گا۔ اس وقت بھی اس کا دل خدا میں لگا رہے گا۔ یہی وہ کیفیت ہے، جو اس کے انتظار نماز کے لمحات کو بھی ادائیگیٔ نماز کے لمحات میں شامل کردیتی ہے۔
30 اکتوبر 1985
عکرمہ نے روایت کیا کہ عبداللہ بن عباس نےقرآن کی سورہ الحدید آیت 23 کے تحت کہا: لَیْسَ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَہُوَ یَحْزَنُ وَیَفْرَحُ، وَلَکِنَّ الْمُؤْمِنَ یَجْعَلُ مُصِیبَتَہُ صَبْرًا، وَغَنِیمَتَہُ شُکْرًا(تفسیر القرطبی، جلد17، صفحہ258)۔ یعنی کوئی ایسا شخص نہیں جو غم گین نہ ہوتا ہو اور خوش نہ ہوتا ہو۔ مگر مومن اپنی مصیبت کو صبر بنا لیتا ہے، اور اپنے فائدہ کو شکر بنا لیتا ہے۔
گائے کے اندر گھاس داخل ہوتی ہے تو اس کا اندرونی نظام اس کو دودھ میں تبدیل کردیتا ہے اور گھاس اس کے اندر سے دودھ بن کر نکلتی ہے۔ اسی طرح مومن کے اندر ایک خصوصی نفسیاتی نظام ہوتاہے۔ یہ نظام مصیبت کو خدا کے لیے صبر میں بدل دیتا ہے اور راحت کو خدا کے لیے شکر میں۔ اس طرح دونوں حالتیں اس کے حق میں نعمت بن جاتی ہیں۔ اس روایت میں ـیَجْعَلُ‘‘ کا لفظ بہت بامعنیٰ ہے، یعنی وہ اپنے غم کو منفی راستے پر لگانےکے بجائے صبر میں کنورٹ کرتا ہے۔
31اکتوبر 1985
قرآن میں آیا ہے:فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَى اللَّہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ إِذْ جَاءَہُ أَلَیْسَ فِی جَہَنَّمَ مَثْوًى لِلْکَافِرِینَ ۔ وَالَّذِی جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہِ أُولَئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ ۔ لَہُمْ مَا یَشَاءُونَ عِنْدَ رَبِّہِمْ ذَلِکَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِینَ (39:32-34)۔ یعنی پھر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ بولا اور اس نے سچی بات کو جھٹلایا جب کہ وہ اس کے پاس آئی۔ کیامنکروں کا ٹھکانا دوزخ میں نہیں۔ اور جو سچی بات لے کر آیا اور جس نے اس کو سچ مانا وہی لوگ ڈرنے والے ہیں۔ ان کے لیے وہ ہے جو وہ چاہیں۔ یہ بدلا ہے نیکی کرنے والوںکا۔
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سچائی کا اعتراف کرنا سب سے بڑی نیکی ہے، اور سچائی کاانکارکرنا سب سے بڑاجرم۔ سچائی کا ظہور گویا خود خدا کا ظہور ہے۔ اس لیے سچائی کو نظر انداز کرنا خدا کو نظر انداز کرنا ہے۔ایسے لوگ قیامت کے دن بالکل ذلیل و خوار ہو کر رہ جائیںگے۔
جن لوگوں کے دلوں میں تقویٰ (کھٹک) ہو، ان کے سامنے جب سچائی آتی ہے تو وہ سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کرتے ہیں۔ ان کا سنجیدہ غور وفکر انھیں یہاں تک پہنچاتا ہے کہ وہ سچائی کو پالیں اور اس کا اعتراف کرکے اس کے ساتھی بن جائیں۔
7 اگست 1985
آدمی اپنے بیٹے کی کامیابی پر حسد نہیں کرتا۔ مگر دوسرا کوئی شخص کامیاب ہو تو اس کو دیکھ کر وہ حسد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بیٹے کی کامیابی کو وہ اپنی کامیابی سمجھتا ہے، اور دوسرے شخص کی کامیابی کو غیر کی کامیابی۔
8 اگست 1985
اولیور وینڈل ہومز (Oliver Wendell Holmes, 1809-1894)نے کہا ہے کہ نوجوان شخص عموم کو دیکھتا ہے، اور عمر رسیدہ شخص استثنا کو:
The young man knows the rules, but the old man knows the exceptions.
زندگی کا سفر ہمیشہ ہموار نہیں ہوتا۔ زندگی میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی اتفاقی رکاوٹ سامنے آکر ہمارے سوچے ہوئے نقشہ کو بگاڑ دیتی ہے۔ اس لیے عقل مند وہ ہے جو صرف عام حالات پر بھروسہ نہ کرے، بلکہ غیر متوقع امکانات کو ذہن میں رکھ کر اپنا منصوبہ بنائے۔
9 اگست 1985
آئرش شاعرآسکر وائلڈ (Oscar Wilde, 1854-1900) نے کہا ہے کہ انسان ایک عقل مند جانور ہے جو ہمیشہ اس وقت برہم ہوجاتا ہے جب کہ اس کو عقل کے مطابق عمل کرنے کے لیے کہا جائے:
Man is a rational animal who always loses his temper when he is called upon to act in accordance with dictates of reason.
کیسا عجیب ہے یہ تضاد جو انسان کی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ ہر انسان کا یہ حال ہے کہ دوسروں کے خلاف عقل کو استعمال کرنے میں وہ نہایت ہوشیار ہے، لیکن اگر خود اپنے خلاف عقل کو استعمال کرنا ہو تو وہ ایسا بن جائے گا، جیسے کہ اس کے پاس عقل ہی نہیں، جو کسی بات کو سمجھے، اور کسی معاملہ کی گہرائی تک اتر سکے۔
10 اگست 1985
آدمی دوسروں کے بیٹے کے بارے میں حسد کے ذہن سے سوچتاہے، اور خود اپنے بیٹے کے بارے میں خیر خواہی کے ذہن سے۔ایک شخص کی زندگی برباد ہوگئی ہو تو دوسروں کے بارے میں وہ چاہتا ہے کہ جس طرح میں برباد ہوا ہوں وہ بھی برباد ہوجائیں۔ مگر خود اپنی اولاد کے بارے میں اس کا ذہن اس کے برعکس ہوتا ہے۔ اپنی اولاد کے بارے میں وہ سوچتا ہے — اگر چہ میری زندگی برباد ہوگئی مگر میری اولاد کی زندگی برباد نہ ہونے پائے ۔
12 اگست 1985
بے آمیز حق اس دنیا میں سب سے زیادہ اجنبی چیز ہے۔ ہر دوسری چیز کے گرد انسانوں کی بھیڑ جمع ہوسکتی ہے۔ مگر بے آمیز حق کے گرد چند انسانوں کو اکھٹا کرنا بھی انتہائی حد تک دشوار ہے۔ پیغمبروں کی تاریخ اس کا زندہ ثبوت ہے۔پیغمبر آخر الزماں کو چھوڑ کر تمام معلوم پیغمبروں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کو صرف ایسے ہی کچھ افراد مل سکے جو خونی رشتہ کی بنا پر ان سے نفسیاتی تعلق رکھتے تھے۔ خونی رشتہ سے باہر کوئی شخص انھیں نہیںملا جو حقیقی معنوں میں ان کا ساتھی بن سکے۔
حضرت ابراہیم کا ساتھ دینے والے صرف ان کے بھتیجےحضرت لوط اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل تھے۔ حضرت لوط کا ساتھ آخر وقت میں صرف ان کی بیٹیوں نے دیا۔ حضرت موسی کے سچے ساتھی صرف حضرت ہارون ثابت ہوئے جو ان کے بھائی تھے۔ حضرت مسیح کو ان کی ماں کے سوا کوئی دوسرا نہ مل سکا۔ دوسرے لوگ جو ملے تھے وہ سب آخر وقت میں انھیں چھوڑ کر بھاگ گئے، وغیرہ۔
پیغمبروں کی تاریخ میں اس اعتبار سے صرف پیغمبر آخر الزماں کا استثنا(exception) ہے۔ ان کو غیر رشتہ داروںمیں بھی ایسے ساتھی ملے ،جو واقعی ساتھی تھے۔ جو ساتھ چھوڑنے کے تمام ممکن واقعات پیش آنے کے باوجود آخر وقت تک ان کے ساتھی بنے رہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ براہِ راست خدا کے تصرف کے تحت ہوا۔
ہمارے سیرت نگار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ بیان کرتے ہیں کہ درخت اور پتھر ان کے ساتھ چلنے لگے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا سب سے بڑا معجزہ یہ ہے کہ انسان آپ کے ساتھ چلنے لگے تھے، اور یہ معجزہ براہِ راست خدائی نصرت کے تحت پیش آیا جیسا کہ قرآن میںآیا ہے:وَلَکِنَّ اللَّہَ حَبَّبَ إِلَیْکُمُ الْإِیمَانَ وَزَیَّنَہُ فِی قُلُوبِکُمْ وَکَرَّہَ إِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوقَ وَالْعِصْیَانَ (49:7)۔ یعنی اورلیکن اللہ نے تم کو ایمان کی محبت دی اور اس کو تمہارے دلوں میں مرغوب بنا دیا، اور کفر اور فسق اور نافرمانی سے تم کو متنفر کردیا۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبرانہ سچائی ہمیشہ مجرد سچائی ہوتی ہے۔ تاریخ سے کٹ کر اور ماحول سے اٹھ کر ہی آدمی پیغمبرانہ سچائی کو پہچان سکتا ہے، اور بدقسمتی سے ایسے لوگ معلوم انسانی تاریخ کے مطابق شاید پیدا ہی نہیںہوئے۔
13 اگست 1985
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے جسم کے اندر گوشت کا ایک ٹکڑا ہے۔ اگر وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے۔ اور اگر اس میں بگاڑ آجائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ اور یہ قلب ہے (أَلاَ وَإِنَّ فِی الجَسَدِ مُضْغَةً:إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الجَسَدُ کُلُّہُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الجَسَدُ کُلُّہُ، أَلاَ وَہِیَ القَلْبُ)۔ صحیح البخاری، حدیث نمبر 52۔
ا س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی اصلاح کا دارومدار ’’قلب ‘‘ کی اصلاح پر ہے۔ یہاںقلب کا لفظ عقل کے معنی میں ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہر قسم کی تبدیلیوں کا رازاندرونی تبدیلی میں ہے، یعنی سوچ و فکر کی تبدیلی، نہ کہ بیرونی تبدیلی۔
اس حدیث کی روشنی میں موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کی تمام بڑی بڑی تحریکیں غیر فطری قرار پاتی ہیں۔ کیوں کہ ان تحریکوں کا نشانہ دوسری دوسری چیزوں کی تبدیلیاں تھی، نہ اندرونی تبدیلی۔ کسی کا نشانہ تبدیلی حکومت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلی جغرافیہ، کسی کا نشانہ تبدیلی قیادت تھا، اور کسی کا نشانہ تبدیلیٔ قانون۔ موجودہ زمانہ کی وہ تمام ہنگامہ خیز تحریکیں جن پر مسلمان فخر کرتے ہیں، وہ سب اسی قسم کی خارجی تبدیلیوں کا نعرہ لے کر اٹھیں۔ ان میںسے کوئی تحریک ایسی نہیں جو تبدیلیٔ قلب (یا تبدیلیٔ انسان) کے منصوبہ کے تحت اٹھائی گئی ہو۔
خارجی تبدیلی کو نشانہ بنا کر جو انقلاب لایا جائے اس کا انجام ہمیشہ صرف ایک ہوتاہے— ایک برائی کو ہٹا کر دوسری شدید تر برائی لے آنا۔ کسی شخص نے نہایت صحیح کہا ہے:
A revolution is a successful effort to replace a bad government with a worse one.
انقلاب اس بات کی ایک کامیاب کوشش ہے کہ ایک بری حکومت سے چھٹکارا پاکر اس سے زیادہ بری حکومت قائم کی جائے۔
14 اگست 1985
شاہ ولی اللہ اور ان کے پیروؤں نے کہا کہ سکھ اور مرہٹہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ سکھ اور مرہٹہ راستہ سے ہٹا دئے گئے۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں باقی رہا۔شاہ عبد العزیزاور ان کے پیروؤں نے کہا کہ انگریز سے اسلام کو خطرہ ہے۔ انگریز کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا جو مسئلہ تھا وہ حل نہ ہوا۔
محمد علی جناح اور دوسرے مسلم لیڈروں نے کہا کہ ہندو فرقہ سے اسلام کوخطرہ ہے۔ ہندو سے کٹ کر مسلمانوں کی علیحدہ ریاست قائم ہوگئی۔ مگر اس کے باوجود اسلام مسائل سے گھرا رہا۔
مولانا ابو الاعلیٰ مودودی اور ان کے ہم خیال لوگوں نے کہا کہ ایوب اور بھٹو سے اسلام کو خطرہ ہے۔ ایوب اور بھٹو کا اقتدار ختم ہوگیا مگر اسلام کا خطرہ ختم نہیں ہوا۔ مولانا علی میاں اوران کے ماننے والوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کےشاہ بانو کیس کے فیصلہ سے اسلام کو خطرہ ہے۔ پارلیمنٹ نے مسلمانوں کو سپریم کورٹ کے فیصلہ سے آزاد کردیا۔ مگر اسلام بدستور خطرہ میں گھرا رہا۔
یہ مسلمانان ہند کی تقریباً چار سو سال کی تاریخ کا خلاصہ ہے۔ ہر وہ طاقت جس کو مسلمانوں نے اسلام کا دشمن قرار دیا وہ راستے سے ہٹائی جاتی رہی۔ مگر اسلام اور مسلمان بدستور خطرات میں گھرے رہے۔ ہندستان میں بھی، پاکستان میں بھی اور بنگلہ دیش میں بھی۔ یہ طویل تجربہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ مسلم قائدین کی نشان دہی غلط تھی۔ مگر مسلمانوں کی بے شعوری کا یہ حال ہے کہ ہر اگلا قائد پچھلے قائدین کا صرف مقلد بنا ہوا ہے۔ ماضی کی نادانیوں نے مسلمانوں کو کوئی سبق نہیں دیا۔
15 اگست 1985
کہاجاتا ہے کہ خلیفہ ہارون رشید نے ایک بار امام شافعی سے پوچھا —خدا کی کتاب کے بارے میں آپ کا علم کیا ہے (ما علمک بکتاب اللہ)۔امام شافعی نے جواب دیا کہ علوم قرآن کی بہت سی قسمیں ہیں۔ آپ کی مراد کس علم سے ہے۔ کیا امثال و اخبار سے، محکمات سے، متشابہات سے، تقدیم و تاخیر سے، ناسخ ومنسوخ سے، باعتبار مکان مکی و مدنی سے یا باعتبار زمان لیلی و نہاری (رات یا دن) سے، صیفی وشتائی (گرمی یا سردی )سے، باعتبار قیام اور سفر و حضر سے، اس کے اعراب اور حروف و الفاظ سے۔ اس طرح امام شافعی نے قرآن کے 73 علوم گنا دیے۔
ہارون رشید نے یہ سن کر کہا کہ آپ نے قرآن کے بہت کافی علوم کو جمع کرلیا ہے (لقد أوعیت من القرآن علماً عظیماً)۔ مرآة الجنان وعبرة الیقظان للیافعی، جلد2، صفحہ17
بظاہر یہ بڑے کمال کی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جب اس اعتبار سے دیکھا جائے کہ صحابہ کرام قرآن کے ان ’’73 علوم“ سے واقف نہ تھے تو یہ مہارت اسلام کے بجائے محض ایک فن نظر آنے لگتی ہے۔ کیوں کہ اسلام اگر ان علوم کا نام ہوتا تو صحابہ کرام ضروران علوم کے ماہر ہوتے۔
16 اگست 1985
امریکن رائٹر رالف والڈو ایمرسن(Ralph Waldo Emerson, 1803-1882) نے لکھا ہے کہ تم ایک اچھا چوہے دان بناؤ اور دنیا خود ہی چل کر تمھارے دروازے پر آجائے گی:
Build a better mousetrap and the world would beat a path to your door.
لوگوں کے نزدیک سب سے زیادہ اہم چیز معیار (quality) ہے۔ ہر آدمی یہ چاہتا ہے کہ جو چیز وہ بازار سے خریدے وہ اعلیٰ معیار کی ہو۔ استعمال کے وقت ہر اعتبار سے وہ بہترین ثابت ہو۔
لوگوں کا یہ مزاج ہی کسی آدمی کے لیے موجودہ دنیا میں ترقی کا سب سے بڑا زینہ ہے۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو دنیا میں عزت اور ترقی کا مقام حاصل ہو اس کو صرف ایک کام کرنا چاہیے۔ وہ جو کام بھی کرے اعلیٰ معیار پر کرے اس کے بعد دنیا خود اسے اس کا مطلوبہ مقام دینے پر مجبور ہوجائے گی۔
دہلی میںاس اصول کی ایک زندہ مثال خلیق احمد ٹونکی (پیدائش 1932) ہیں۔ انھوںنے کتابت کے کام میںایک طویل عمر صرف کردی۔ یہاں تک کہ وہ دہلی کے سب سے اچھے کاتب بن گئے۔ اب یہ حال ہے کہ انھیں کام تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ دوسرے کاتبوں کے مقابلہ میں وہ چوگنا اجرت لیتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حال ہے کہ ان کے یہاں کام کرانے والوںکی بھیڑ لگی رہتی ہے۔ انھیں کام کی تلاش میں کہیں جانا نہیں پڑتا۔ کام خود ان کو تلاش کرکے ان کے گھر پہنچ جاتا ہے۔
میں نے اپنے تجربہ میںیہ پایا ہے کہ خلیق ٹونکی صاحب انتہائی معیار پسند آدمی ہیں۔ وہ جو بھی لکھتے ہیں اس کو آخری حد تک بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ خواہ کوئی بڑا کام ہو یا چھوٹا کام۔ کم پیسہ والا ہو یا زیادہ پیسے والا۔ اپنے اس ذوق کی وجہ سے ماضی میں انھوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے مگر انھیں نقصانات کی وجہ سے انھیں یہ موقع ملا کہ وہ ہندستان کے نمبر ایک کاتب بن گئے۔
17 اگست 1985
کتابیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو فخر کی نفسیات کو تسکین دیں۔ دوسری وہ جو نصیحت کے جذبات کو ابھاریں۔ موجودہ زمانہ میں مسلمانوں نے بے شمار کتابیں لکھی اور چھاپی ہیں۔ مگر یہ کتابیں زیادہ تر پہلے خانہ میں جاتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی اعتبار سے مسلمانوں کے فخر کے جذبات کو تسکین دیتی ہیں۔ ان سے یہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا کہ آدمی کے اندر نصیحت کی فکر ابھرے، اس کے دل میں خوداحتسابی کا جذبہ بیدار ہو۔
موجودہ زمانہ میں لکھی جانے والی کتابوں کوجب ایک مسلمان پڑھتا ہے تو کوئی کتاب اس کے ذہن میں سیاسی قصیدہ بن جاتی ہے اور کوئی کتاب فضائلی قصیدہ۔ اس قسم کی باتیں آدمی کے اندر پر فخر اہتزاز تو ضرور پیدا کرتی ہیں اور بعض اوقات ان کے زیر اثر وہ بعض ظاہری عمل بھی کرنے لگتا ہے مگر اس کی کوئی گہری بنیاد نہیںہوتی۔ ایسے قصائد اس کے دل کو نہیں تڑپاتے، وہ اس کے طرز فکر کو نہیں بدلتے، وہ اس کی زندگی میںانقلاب پیدا نہیں کرتے۔
19 اگست 1985
کچھ عباسی خلفا، معتزلی متکلمین کے اثر سے، قرآن کو مخلوق کہتے تھے۔ چنانچہ جولوگ قرآن کو غیرمخلوق کہتے ان کو انھوں نے سخت سزائیں دیں۔ مثلا ًامام احمد بن حنبل (164-241ھ) وغیرہ۔
اس فتنہ کو ختم کرنے میںجن اسباب کا دخل ہے، ان میں بعض لطائف بھی شمار کیے جاسکتے ہیں۔ یہ فتنہ خلیفہ واثق کے زمانہ میں ختم ہوا۔ کہاجاتا ہے کہ خلیفہ واثق عباسی کے زمانہ میں ایک ظریف شخص تھا۔ وہ دربار میں لوگوں کو ہنسایا کرتا تھا۔ ایک روز مذکورہ ظریف دربار میں آیا اور سلام کے بعد سنجیدگی کے ساتھ کہا — اے امیر المومنین، قرآن کی موت پر اللہ آپ کو بڑا اجر دے ( یا أمیر المؤمنین، أعظم اللہ أجرک فی القرآن)۔
خلیفہ نے حیران ہو کر کہا کہ تمھارا برا ہو، قرآن پر بھی کہیں موت آتی ہے (ویلک،القرآن یموت)۔ ظریف نے دوبارہ سادگی کے ساتھ جواب دیا کہ اے امیر المؤمنین ہر مخلوق مرے گی ( یا أمیر المؤمنین، کل مخلوق یموت)۔
اس کے بعد ظریف نے مزید کہا کہ مجھے بڑی فکر اس بات کی ہے کہ قرآن کی موت پر مسلمانوں کی تراویح کا کیا ہوگا۔ خلیفہ واثق اس کو سن کر بے اختیار ہنس پڑا۔ اس نے کہا کہ ٹھہر، خدا تجھے ہلاک کرے ( قاتلک اللہ، أمسک) الطبقات السنیة فی تراجم الحنفیة،صفحہ 90۔
تا ہم یہ لطیفہ خلیفہ واثق پر بہت اثر انداز ہوا۔ وہ سابق خلفا کی طرح اس معاملہ میں زیادہ شدید نہ تھا۔ اب اس کا باقی ماندہ جوش بھی ختم ہوگیا اور خلیفہ کے ٹھنڈا پڑنے سے سارے ملک میں یہ مسئلہ ختم ہوگیا۔ کبھی ایک لطیفہ سے وہ کام ہوجاتا ہے، جو دلائل سے نہ ہوسکا تھا۔
20 اگست 1985
دنیا میں جو چیز سب سے زیادہ ہے، وہ ہے دوسرے کے خلاف سوچنا، اور دنیا میں جو چیز سب سے کم ہے، وہ ہے اپنے خلاف سوچنا۔ دوسرے کے خلاف رائے زنی کرنے کے لیے ہر آدمی ذہانت کی چوٹی پر نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس الفاظ کا اتنا بڑا بھنڈار ہے جو کبھی ختم نہ ہو۔
مگر جب معاملہ اپنے خلاف سوچنے کا ہو تو وہی آدمی ایسا بن جاتاہے جیسے کہ اس کے اندر کسی بات کو سمجھنے کی صلاحیت ہی نہیں۔ جوبات اپنے خلاف ہو، جس میں خود اپنی شخصیت زد میں آرہی ہو، اس کو خواہ کتنا ہی طاقت ور دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے آدمی اس کو سمجھ نہیں پاتا، اور نہ اس کو ماننے کے لیے تیار ہوتاہے۔
21 اگست1985
چند آدمیوں سے اس موضوع پر گفتگو ہورہی تھی کہ دین کی حقیقت کیا ہے۔ میںنے کہا کہ دین کی اصل حقیقت اپنے آپ کو خدا کے آگے سرنڈر کرنا ہے۔ یہی دین کا اول بھی ہے اور یہی دین کا آخر بھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا ہے جس کا سب سے زیادہ طاقت ور جذبہ انا (ego) کا جذبہ ہے۔ انسان کی انا اپنی نوعیت کے اعتبار سے خدائی انا کی ہم سطح ہے۔ مگر دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں۔ انسان، بلا تشبیہہ، ایک خدا ہے۔ مگر وہ ایک ایسا خدا ہے، جو ذاتی اختیار سے مکمل طورپر محروم ہو۔ اس کے تمام اختیارات خدا کی طرف سے عطیہ ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں آدمی کا امتحان ہو رہا ہے۔ گویا کہ مجازی خدا کو حقیقی خدا کا اعتراف کرنا ہے۔ یہ بلا شبہ مشکل ترین کام ہے مگر اسی مشکل ترین کام میںانسان کی نجات کا راز چھپا ہوا ہے۔ موجودہ دنیا میں خدا خود سامنے نہیں آتا۔ اس لیے مذکورہ اعتراف براہِ راست خدا کے سامنے نہیں ہوتا، یہ اعتراف عملاً ایک انسان کے سامنے ہوتا ہے۔ جب بھی کوئی انسان دلیلِ حق کے ساتھ کھڑا ہو تو انسان (یا اس دلیل حق) کی حیثیت مخاطبین کے لیے خدا کے نمائندہ کی حیثیت ہوجاتی ہے۔ اس وقت جو شخص جھک گیا، وہ خدا کے سامنے جھکا۔ اس وقت جو شخص نہیں جھکا، اس نے خدا کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔
22 اگست 1985
عربی کا ایک مقولہ ہے:إِذَا تَکَلَّمْتُ بِالکَلِمَةِ مَلَکَتْنِی وإذَا لَمْ أتَکَلَّمُ بِہَا مَلَکْتُہَا (الدر الفرید وبیت القصید للمستعصمی،جلد 6، صفحہ 65)۔ یعنی جب میںنےایک بات کہہ دی تو وہ میرے اوپر اختیار حاصل کرلیتی ہے اور اگر میں بات نہ کہوں تو میں اس کے اوپراختیار رکھتا ہوں۔
شیخ سعدی نے یہی بات کسی قدر مختلف انداز میں اس طرح کہی ہے:
تامرد سخن نہ گفتہ باشد ،عیب و ہنرش نہفتہ باشد
آدمی جب تک بات نہ کہے تو اس کا عیب و ہنر چھپا رہتا ہے
اسی بات کو انگریزی میں کسی نے اس طرح کہا ہےکہ ہم اپنے نہ کہے ہوئے الفاظ کے آقا ہیں، اور ہم ان الفاظ کے غلام ہیں جو ہم اپنی زبان سے کہہ دیں:
We are masters of our unsaid words. And slaves to those we let slip out.
مختلف زبانوں میں اس طرح کے مشابہ اقوال اس بات کا ایک مظاہرہ ہیں کہ تمام انسان حقیقۃً ایک ڈھنگ پر سوچتے ہیں۔ تمام حقیقتیں آفاقی حقیقتیں ہیں۔ فطرت کی سطح پر سب کا انداز فکر ایک ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی شخص اس کو ایک زبان میں بیان کرتا ہے اور کوئی شخص دوسری زبان میں۔
23 اگست 1985
حضرت عمر بن عبدالعزیز کی ایک دعا عربی ماہ نامہ العربی میں پڑھی۔ وہ دعا یہ ہے:اللَّہُمَّ إِنِّی أَطَعْتُکَ فِی أَحَبِّ الأَشْیَاءِ إِلَیْکَ، وَہُوَ التَّوْحِیدُ، وَلَمْ أَعْصِکَ فِی أَبْغَضِ الأَشْیَاءِ إِلَیْکَ وَہُوَ الْکُفْرُ، فَاغْفِرْ لِی مَا بَیْنَہُمَا(الأخبار الموفقیات للزبیر بن بکار، صفحہ 198)۔ یعنی خدایا، میںنے تیری سب سے زیادہ محبوب چیز میں تیری اطاعت کی ہے، اور وہ توحید ہے۔ اور تیری سب سے زیادہ ناپسندیدہ چیز میں تیری نافرمانی نہیں کی اور وہ کفر ہے۔ پس ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے اس میں تومجھ کو بخش دے۔
24 اگست 1985
’’اقبال کی نظری و عملی شعریت“ ایک مختصر کتاب ہے جس کے مصنف پروفیسر مسعود حسین خاں (پیدائش 1919) ہیں۔ انھوںنے یہ کتاب سری نگر (کشمیر) میں اپنے قیام کے دوران مرتب کی ہے، اور مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے اس کو شائع کیا ہے۔کتاب کے آغاز میں ایک دیباچہ ’’حرفے چند“ کے عنوان سے ہے۔ اس میں پروفیسر موصوف لکھتے ہیں:
’’ڈل جھیل کے کنارے نسیم باغ کے چناروں کے سایہ تلے مجھے خدا نہیں تو کم از کم اقبال کو بے نقاب دیکھنے کا موقع ملا‘‘۔
یہ بات جو ایک ادیب نے بے تکلف لکھ دی، یہی ہمارے علما تک کا حال ہے۔ قدرت کی نشانیاں چاروں طرف پھیلی ہوئی ہیں، جو اس لیے ہیں تاکہ ان کو دیکھ کر خدا کے بندے خدا کو پائیں۔ مگر نشانیوں کے ہجوم میں بھی کسی کو خدا دکھائی نہیں دیتا۔ البتہ ’’اقبال“ کو ہر شخص دیکھ لیتا ہے۔ خدا کی ذات کسی کو نظر نہیں آتی۔ مگر انسانی شخصیتیں لوگوں کو خوب نظر آتی ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج ہر مجلس اور ہر اجتماع میں انسانی شخصیتوں کے چرچے ہیں۔ مگر اُس مجلس اور اس اجتماع سے خدا کی زمین خالی ہے، جہاں واقعی معنوں میں خدا کی یاد کی جائے۔ جہاں لوگ اسی طرح خدا کے کمالات سے سرشار ہو کر خداکا تذکرہ کریں، جس طرح وہ انسانوں کے کمالات سے سرشار ہو کر ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
26 اگست 1985
بہت سے لوگوں سے میں نے پوچھاکہ آپ کی زندگی کی خاص دریافت کیا ہے۔ یہ سوال میںنے زیادہ تر ان لوگوں سے پوچھے جو صاحب علم تھے اور جنھوں نے زندگی کا لمبا تجربہ اٹھایا تھا۔مگر عجیب بات ہے کہ اکثر لوگوں نے میرے سوال کا جواب اس انداز میں دیا جیسے کہ ان کی کوئی دریافت ہی نہ ہو، جیسے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کوئی نئی چیز پائی ہی نہ ہو۔
اس کا سبب کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بیشتر لوگ روایتی طریقے میں جیتے ہیں۔ جو کچھ دوسرے لوگ کررہے ہیں، وہی وہ بھی کرنے لگتے ہیں، اور اگر کوئی شخص دوسرے کے مقابلہ میں اپنا راستہ بدلتا ہے تو محض ظاہری اور جزئی معنوں میں۔ ایسی حالت میں لوگوں کو کوئی نئی دریافت کیوں کر ہوسکتی ہے۔
27 اگست 1985
اسلامی اصطلاح میں ہجرت کی دوقسمیں ہیں۔ ایک، داخلی ہجرت (الہجرۃ الداخلیۃ) دوسری، خارجی ہجرت (الہجرۃ الخارجیۃ)۔ داخلی ہجرت بڑی ہجرت (الہجرۃ الکبریٰ) ہے، اور خا رجی ہجرت چھوٹی ہجرت (الہجرۃ الصغریٰ) ہے۔
داخلی ہجرت کو مختلف احادیثِ رسول سے سمجھا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: المُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَى اللَّہُ عَنْہُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 6484)۔ یعنی مہاجر وہ ہے، جو اس کو چھوڑ دے جس سے خدا نے منع کیا ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ آپ سے ایک بار پوچھا گیا : أَیُّ الْہِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:أَنْ تَہْجُرَ مَا کَرِہَ رَبُّکَ عَزَّ وَجَلَّ. (مسند احمد، حدیث نمبر 19435)۔ یعنی سب سے افضل ہجرت کون سی ہے؟ آپ نے جواب دیا: یہ کہ تم اس چیز کو چھوڑ دو جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے۔
یہی معاملہ جہاد کا بھی ہے۔داخلی ہجرت اور داخلی جہاد کو ایک حدیثِ رسول میںان الفاظ بیان کیا گیا ہے:وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ الْخَطَایَا وَالذَّنُوبَ، وَالْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ فِی طَاعَةِ اللَّہِ(مسند احمد، حدیث نمبر 23967)۔ یعنی مہاجر وہ ہےجو غلطیوں اور گناہوںکو ترک کردے، اور مجاہد وہ ہے جو اللہ کی فرماں برداری میں اپنے نفس سے لڑے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مواقع پر داخلی جہاد کی ترغیب دیتے رہتے تھے۔ ان میں سےبعض روایات درج ذیل ہیں:
المُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ (جامع الترمذی، حدیث نمبر1621)۔ یعنی مجاہد وہ ہے، جو اپنے نفس سے جہاد کرے۔
الْمُجَاہِدُ مَنْ جَاہَدَ نَفْسَہُ لِلَّہِ (مسند احمد، حدیث نمبر 23951)۔ یعنی مجاہد وہ ہے، جو اللہ کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس آئے۔ یہ ایک مہم تھی جس میں کوئی جنگ پیش نہیں آئی۔ واپسی کے بعد آپ نے فرمایا کہ ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:قَدِمْتُمْ مِنَ الْجِہَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِہَادِ الأَکْبَرِ . قَالُوا:وَمَا الْجِہَادُ الأَکْبَرُ یَا رَسُولَ اللَّہِ؟ قَالَ:مُجَاہَدَةُ الْعَبْدِ ہَوَاہُ (تاریخ بغداد ، خطیب بغدادی، جلد 13، صفحہ 498۔ البیہقی، الزہد الکبیر، حدیث نمبر 373)۔ تم لوگ چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہو۔لوگوں نے کہا: جہاد اکبر کیا ہے، اے خدا کے رسول، آپ نے کہا: بندے کا اپنے نفس سے جہاد کرنا— موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ ہر آدمی ’’چھوٹی ہجرت“ اور ’’چھوٹے جہاد“ کو جاننے کاماہر بنا ہوا ہے۔ مگر بڑی ہجرت اور بڑے جہاد کی کسی کو خبر نہیں۔
28 اگست 1985
سائنس کی تاریخ میں اکثر بڑی دریافتیں اتفاق (chance) کے ذریعہ پیش آئی ہیں۔ چنانچہ سائنس دانوں نے اس کے لیے ایک خاص لفظ وضع کیا ہے، جس کو سرینڈیپٹی (serendipity) کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ سرندیپ کی ایک کہانی سے لیاگیا ہے۔ بہت سے لوگ سائنسی دریافتوں کو خوش گوار واقعات (happy accidents) کہتے ہیں۔ مثال کے طور پر اکسرے (X-rays) کی دریافت اتفاقی طورپر ہوئی۔
تاہم یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اتفاق بذات خود دریافت تک پہنچاتا ہے۔ ہندستانی سائنس داں سی وی رمن (Chandrasekhara Venkata Raman, 1888-1970)نے صحیح کہا — ایسا اتفاق صرف سائنس داں کو پیش آتا ہے۔ یعنی ایک شخص جو باتوں کو جانتا ہو اور وہ تحقیق میں لگا ہوا ہو، وہی بوقت اتفاق کسی بات کو پکڑ سکتا ہے۔ اسی بات کو پاسچر (Louis Pasteur, 1822-1895) نے ان الفاظ میں کہا تھا—مشاہدات کے میدان میں اتفاق صرف تیار ذہن کے لیے کار آمد ہوتا ہے:
In the field of observation, chance favours only the prepared mind.
اکسرے کا موجد رانٹجن (Wilhelm Conrad Röntgen, 1845-1923) قرار پایا۔ حالاں کہ اس سے پہلے یہ کروکس (William Crookes, 1823-1919) کے مشاہدہ میں آئی تھی۔ مگر اس نے اس کو بے معنی (nonsense) قرار دے کر نظر انداز کردیا، وغیرہ۔
نئی چیز دریافت کرنے کے لیے سب سے اہم چیزیں دو ہیں۔ ایک، تجسس (curiosity)، دوسرے یہ کہ آدمی وہ ضروری معلومات رکھتا ہو جس کے بعد وہ ایک چیز کو دوسری چیز سے وابستہ (link) کرسکے۔
29 اگست1985
انگریزشاعر اور ڈراما نگار ٹامس شیڈول (Thomas Shadwell, 1642-1692)کا قول ہے کہ بے وقوف کی جلد بازی دنیا میں سب سے زیادہ سست رفتار چیز ہے:
The haste of a fool is the slowest thing in the world.
31 اگست 1985
آج کل کے لوگوں کے حالات کو دیکھیے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہیں جو یہ سوچ کر لکھے یا بولے کہ رضائے خداوندی کیا ہے۔ ہر ایک بس یہ سوچ کر لکھتاہے اور بولتا ہے کہ رضائے قوم کیا ہے، رضائے مفاد کیا ہے، رضائے مصلحت کیا ہے، وغیرہ۔
31 اگست 1985
ایک مفکر کا قول نظر سے گزرا کہ ’’جہاں تلوار چلتی ہے وہاں سے ہل غائب ہوجاتے ہیں‘‘۔ یہ نہایت درست بات ہے۔ اور پوری تاریخ اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے۔ جنگ اور تعمیر دونوں کام ساتھ ساتھ نہیں ہوسکتا۔ سچے قائد کی پہچان یہ ہے کہ وہ جنگ اور ٹکراؤ سے آخری حد تک اعراض کرے۔ تاکہ اس کا ’’لوہا“ تلوار بننے میں ضائع نہ ہو، بلکہ وہ ہل بنانے کے کام میںآ سکے۔
2 ستمبر 1985
ایک صاحب ایک مسلم قائد کی عظمت کے بہت زیادہ قائل تھے۔ انھوں نے قائد موصوف کے بارے میں تقریر کرتے ہوئے پر جوش طور پر کہا: وہ سوبار غلطی کرسکتے تھے مگر وہ ایک بار بھی کسی کے ہاتھ بک نہیں سکتے تھے‘‘۔میں نے کہا کہ ’’سو بار“ غلطی کرنا خود بھی بکنے ہی کی ایک صورت ہے۔ یہ خود اپنے ہاتھ بکنا ہے، یہ اپنے نفس کے ہاتھ فروخت ہونا ہے۔
جب بھی آدمی کوئی غلط بات کہتا ہے یا کوئی غلط اقدام کرتا ہے تو بہت جلد مختلف طریقوں سے اس کی غلطی اس پر واضح ہوجاتی ہے۔ اگر آدمی اپنے نفس کے ہاتھ بکا ہوا نہ ہو تو وہ اپنی غلطی کا علی الاعلان اعتراف کرے گا۔ حتی کہ اگروہ قائد ہوتے ہوئے بار بار غلطی کیے چلا جارہا ہے تو وہ اعلان کردے گا کہ میں قیادت کرنے کے قابل نہیںہوں۔ میری فہم وبصیرت اس سے کم ہے کہ میں قوم کی قیادت کرسکوں۔ اس لیے میں قیادت کے کام سے مستعفی ہو رہا ہوں۔
کوئی شخص غلطی پر غلطی کرے اور پھر بھی قیادت کے میدان سے واپس نہ ہو تو یہ واضح طورپر اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے اوپر اس کا نفس چھایا ہوا ہے۔ ساکھ اور عزت نفس کا سوال اس کو علی الاعلان اپنی قیادتی نا اہلی کا اعتراف کرنے سے روکے ہوئے ہے— اس سے زیادہ بکا ہوا انسان اور کون ہوسکتا ہے، جو پر جوش الفاظ اور حقیقتِ واقعہ میں فرق نہ کرسکے۔
3 ستمبر 1985
غزوۂ طائف (8ھ ) کی روایات میں سے ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے: ثُمَّ سَلَکَ فِی طَرِیقٍ یُقَالُ لَہَا الضَّیْقَةُ، فَلَمَّا تَوَجَّہَ فِیہَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَلَ عَنْ اسْمِہَا، فَقَالَ:مَا اسْمُ ہَذِہِ الطَّرِیقِ؟ فَقِیلَ لَہُ الضَّیْقَةُ، فَقَالَ:بَلْ ہِیَ الْیُسْرَى (سیرت ابن ہشام، جلد2، صفحہ482)۔یعنی پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے پر چلے جس کو ’’تنگ“ کہاجاتا تھا۔ جب آپ اس راستہ پر آئے تو آپ نے اس کے نام کے بارے میں پوچھا۔ آپ نے کہا کہ اس راستہ کا نام کیا ہے۔ کہاگیا کہ ’’تنگ“ آپ نے فرمایا نہیں، بلکہ یہ ’’آسان“ ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ مومن کا مزاج مثبت مزاج ہونا چاہیے۔ مومن تاریکی میں روشنی کو دیکھتا ہے، وہ ڈس ایڈوانٹج میںایڈوانٹج کو دریافت کرتا ہے۔ وہ مشکل کو آسانی کے روپ میں ڈھال دیتا ہے۔ جس چیز کو عام لوگ الضَّیْقَةُ کہتے ہیں وہ مومن کے ذہن میں آکر الْیُسْرَىبن جاتی ہے۔ غالباً یہی وہ چیز ہے، جس کو ٹائن بی نے برتر حل (superior solution)کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔
4 ستمبر 1985
ابو سعید خدری ؓ نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: مَنْ لَمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللَّہ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 1955)۔ یعنی جو شخص انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا شکر بھی ادا نہیں کرسکتا۔
احسان کیے جانے پر احسان مند ہونا اور محسن کا شکر ادا کرنا ایک مزاج اور قلبی کیفیت کی بات ہے۔ ایک شخص کے اندر یہ مزاج حقیقی معنوں میںپیدا ہوجائے تو وہ دونوں معاملات میں شکر ادا کرنے لگے گا۔ جو شخص بندوں کے سلوک پر ان کا شکر گزار ہو وہ خدا کی نعمتوں پر بھی ضرور اس کا شکر گزار ہوگا۔ اسی طرح جب ایک شخص خدا کی نعمتوں کا حقیقی معنوں میں شکر گزار ہوجائے تو بندوں کے سلوک پر بھی وہ ان کا شکر ادا کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
5 ستمبر 1985
ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکہا: مَنْ صَنَعَ إِلَیْکُمْ مَعْرُوفًا فَکَافِئُوہُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا مَا تُکَافِئُونَہُ، فَادْعُوا لَہُ حَتَّى تَرَوْا أَنَّکُمْ قَدْ کَافَأْتُمُوہُ(سنن ابو اداؤد، حدیث نمبر 1672)۔ یعنی کوئی شخص تمہارے اوپر احسان کرے تو اس کا بدلہ دو۔ اور اگر تمھارے پاس بدلہ پورا کرنے والی کوئی چیز نہ ہو تو محسن کے لیے دعا کرو۔ اور اس وقت تک دعا کرتے رہو جب تک تم کو خیال ہو کہ تم نے بدلہ پورا کردیا ۔
بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کو دے۔ اگر اس کے پاس کوئی مادی چیز دینے کے لیے نہیں ہے تو وہ اس کے حق میں دعائے خیر کا ہدیہ پیش کرے۔ اسلام یہ چاہتا ہے کہ سماج میں لوگ ایک دوسرے کے خیرخواہ ہوں۔ اور اگر لوگوں کے اندر ایک دوسرے کے لیے دعا کرنے کا مزاج پیدا ہوجائے تو ایسے سماج میں یقیناً خیر خواہی کا جذبہ پرورش پائے گا۔ کیوںکہ کسی کے حق میں سچی دعا اس کے بغیر نہیں نکل سکتی کہ اس کے لیے دعا گو کے دل میں سچی خیر خواہی کی کیفیت موجود ہو۔
6 ستمبر 1985
ڈان پیاٹ(Donn Piatt, 1819-1891) کا قول ہے کہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنے کام کی انجام دہی کے لیے دوسروں کا دماغ استعمال کرسکے:
That man is great who can use the brain of others to carry out his work.
خود کرناآسانی ہے مگر دوسروں سے کروانابہت مشکل ہے۔ مگر صرف اپنے بل پر آدمی کوئی بڑا کام نہیں کرسکتا۔ بڑا کام کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ بہت سے دماغوں کو اس میں مصروف کیا جائے۔ مگر بہت سے دماغوں کو کسی ایک کام میں مصروف کرنے کے لیے زبردست حکمت اور ذہانت درکار ہے۔ جو آدمی اس حکمت اور ذہانت کا ثبوت دے سکے یقینا وہ اس قابل ہے کہ اس کو بڑا آدمی کہا جائے۔
7 ستمبر 1985
مینڈک اگر ہاتھی کو نگلنا چاہے تو ہاتھی کا کچھ نہیں بگڑے گا، البتہ مینڈک کا پیٹ پھٹ جائے گا۔
9 ستمبر 1985
رچرڈ کشنگ (Richard James Cushing, 1895-1970) کا قول ہے کہ مذہبی شخصیتوں کے ساتھ جنت میں رہنا بہت عظیم ہے، مگر ان کے ساتھ زمین پر رہنا ایک مصیبت ہے:
It is great to live with saints in heaven, but it is hell to live with them on earth.
یہ در اصل مذہبی شخصیتوں پر طنز ہے۔ مذہبی لوگ وعظ کہتے ہیں کہ ہمارے بتائے ہوئے راستے پر چلو تو تم کو موت کے بعد کی زندگی میں جنت ملے گی۔ مگر خود ان مذہبی شخصیتوں کا کردار اکثر نہایت برا ہوتا ہے۔ گویا کہ دنیا میں ان کے ساتھ رہنا جہنم میں رہناہے۔ جب کہ ان کے قول کے مطابق ان کے طریقے پر چلنا اگلی زندگی میں جنت میں داخل ہونا ہے— مذہبی شخصیتوں کے قول و عمل کا یہ تضاد اکثر مذاہب میں پایا جاتا ہے۔
10 ستمبر 1985
انگریزی رائٹربرنارڈ شا (George Bernard Shaw, 1856-1950) نے کہا کہ ایک بےصلاحیت آدمی کے لیے مشہور ہونے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ شہید ہوجائے:
Martyrdom is the only way in which a man can become famous without ability.
یہ قول، خاص طورپر موجودہ پریس کے دور میں نہایت درست ہے۔ آج کوئی شخص قوم یا مذہب کے نام پر ایک احمقانہ اقدام کرتا ہے۔ اس کے بعد فوراً اس کا نام چھپنا شروع ہوجاتا ہے۔ وہ تیزی سے شہرت حاصل کرلیتا ہے۔ احمقانہ اقدام کرکے شہید ہونا قوم کو تو کچھ نہیں دیتا، البتہ وہ شخص فوراً شہرت کا مقام پالیتا ہے۔
موجودہ زمانہ میں اس قسم کی شہرت حاصل کرنے والوں کی تعداد شاید سب سے زیادہ مسلمانوں میں ہے۔ موجودہ زمانہ میں لاکھوں مسلمان ہیں جنھوں نے قوم یا مذہب کے نام پر شہید ہو کر غیر معمولی شہرت پائی۔ حالاں کہ ان کی شہادت سے نہ مذہب کو کچھ ملا اور نہ قوم کو۔
دانش مند کی شہادت قوم کے لیے ترقی کا زینہ ہے۔ نادان کی شہادت صرف شہید کے لیے ذاتی شہرت کا ذریعہ۔
11 ستمبر 1985
انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم چیزدریافت ہے۔ دریافت ہی سے دنیا کی ترقیاں بھی ملتی ہیں اور دریافت ہی سے آخرت کی ترقیاں بھی۔
قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو غیب پر ایمان لائے ۔ اس سلسلے میں قرآن کے متعلق الفاظ یہ ہیں:الَّذِینَ یُؤْمِنُونَ بِالْغَیْبِ(2:3)۔ یعنی وہ لوگ جو غیب پر ایمان لاتے ہیں۔ غیب پر ایمان لانا کیا ہے۔ یہ دوسرے لفظوں میں نا معلوم کو معلوم بنانا ہے۔ یعنی وہی چیز جس کو موجودہ زمانہ میں دریافت (discovery) کہا جاتا ہے۔
دنیوی ترقی کے رازوں کو خدا نے زمین وآسمان کے اندر چھپا دیا ہے۔ انھیں رازوں کو قوانینِ فطرت (laws of nature) کہا جاتا ہے۔ سائنس میں انھیں رازوں (یا قوانین فطرت) کو دریافت کیا جاتا ہے۔ جوقوم ان رازوں کو دریافت کرے وہ دوسروں سے آگے بڑھ جاتی ہے۔ جب کہ موجودہ زمانہ میں ہم مغربی اقوام کو یا ایشیا میں جاپان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ ترقی یافتہ قوموں (developed countries) کو تمام ترقیاں ان کی انھیں دریافتوں کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہیں۔
اسی طرح عالم آخرت کو اللہ تعالیٰ نے انسان کی نظروں سے پوشیدہ کردیا ہے۔ اب انسان کو اسے دریافت کرنا ہے۔ جوچیز غیب میں ہے اس کو شہود میں لانا ہے۔ اسی دریافت یا اکتشاف کا نام ایمان ہے۔ جو شخص اس ایمان میں جتنا زیادہ آگے ہوگا وہ آخرت میں اتنا ہی زیادہ ترقی اور کامیابی حاصل کرے گا۔
12 ستمبر 1985
ایک مسنون دعا ان الفاظ میں آئی ہے:مَنْ أَکَلَ طَعَامًا فَقَالَ:الحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی أَطْعَمَنِی ہَذَا وَرَزَقَنِیہِ مِنْ غَیْرِ حَوْلٍ مِنِّی وَلَا قُوَّةٍ، غُفِرَ لَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ (جامع الترمذی، حدیث نمبر 3458)۔یعنی جوشخص کوئی چیز کھائے اور کہے کہ شکر اور تعریف اس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھےیہ کھلایا اور میری کسی کوشش یا طاقت کے بغیر مجھ کو روزی عطا کی تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جائیں گے۔
یہ دعا محض کھانے والے کے الفاظ کو نہیں بتاتی بلکہ دراصل اس احساس کو بتاتی ہے جس کے تحت ایک مومن خدا کے رزق کو کھاتا ہے۔ وہ چیز جس کو ’’کھانا“ کہاجاتا ہے وہ ایک عظیم خدائی تخلیق ہے۔ وہ براہِ راست خدا کی قدرت سے وجود میں آتا ہے۔ جو شخص اس حقیقت کو پالے اس کا احساس انھیں الفاظ میں ڈھل جائے گا جومذکورہ حدیث میں بیان ہوتے ہیں۔ اور جس کا احساس ان الفاظ میں ڈھل جائے وہ یقینا اتنا بڑا عمل کرتا ہے کہ عجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کے تمام پچھلے گناہوں کو معاف کردے۔
13 ستمبر 1985
میں نے اپنے تجربے میں پایا ہے کہ بیش تر لوگ مایوسی کا شکار رہتے ہیں۔ وہ مایوسی کے احساس میں جیتے ہیں اور مایوسی میں مرجاتے ہیں۔ اِس المیہ کا بنیادی سبب کیا ہے۔ وہ سبب یہی ہے کہ بیش تر لوگ اپنی زندگی کے لیے صحیح نقطۂ آغاز نہیں پاتے، اور جب آپ صحیح نقطۂ آغاز کو نہ پائیں تو آپ کی تمام سرگرمیاں آپ کے مطلوب کے اعتبار سے بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی۔
اس دنیا میں قانونِ فطرت کے مطابق، کسی انسان کے لیے جو چیز قابلِ عمل ہے، وہ صرف یہ ہے کہ وہ ممکن اور ناممکن کے درمیان فرق کرے، اور پھر اپنا منصوبہ بنائے، یعنی آئڈیل کو چھوڑ کر پریکٹکل وزڈم کو اختیار کرنا۔ آدمی کے لیے یہی درست نقطۂ آغاز ہے۔
14 ستمبر 1985
اپنے بس میں صرف برداشت ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے صرف دوسروں کے بس میں ہے۔ ایسی حالت میںآدمی کے لیے ایک ہی ممکن طریق کار ہے۔ وہ اپنے بس والے مقام سے آغاز کرے۔ اگر اس نے وہاں سے آغاز کرنا چاہا جو دوسرے کے بس میں ہے تو وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ اس نے حقیقۃً آغاز ہی نہیں کیا، اور جو شخص آغاز نہ کرے، وہ اختتام کو کس طرح پہنچ سکتا ہے۔
15 ستمبر 1985
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (15 ستمبر 1985) نے ہندستان کے معاشی اور سیاسی حالات پر ایک مضمون شائع کیا ہے۔ اس کا عنوان ہے:
Ours is a Story of Missed Opportunities
ہماری کہانی کھوئے ہوئے مواقع کی کہانی ہے۔
یہ بات ملک سے زیادہ مسلمانوں پر صادق آتی ہے۔ مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں سب سے بڑی نادانی یہ کی ہے کہ انھوںنے مواقع اور امکانات کو نہیں پہچانا۔ وہ انتہائی قیمتی مواقع کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ضائع کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ ان کی وہ ناکامی ہے جس سے آج وہ دوچار ہیں۔
16 ستمبر 1985
اس دنیا کا قانون یہ ہے کہ یہاں دینے والا پاتا ہے۔ اگر آپ کے پاس دوسروں کو دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو آپ بھی دوسروں سے کچھ نہیں پاسکتے۔
دوسروں کے لیے نفع بخش بنئے، اور اگر آپ نفع بخش نہیں بن سکتے تو دوسروں کو اپنے ضرر سے بچائیے۔ دوسروں کو اپنے ضرر سے بچانا بھی انھیں کچھ دینا ہے۔ اگر آپ دوسروں کو نہیں دے سکتے تو دوسروں سے چھیننے کی بھی کوشش نہ کیجیے۔
18 ستمبر 1985
جولائی 1402 ء میں انگورہ (Angora) کے میدان میں دو مسلم بادشاہوں کی لڑائی ہوئی۔ ایک طرف تیموری سلطنت کا بانی سلطان تیمور (1336-1405ء) تھا، دوسری طرف عثمانی سلطان بایزید اول (1360-1403ء)۔ یہ ایک نہایت خوف ناک جنگ تھی۔اس میں تیمور کی فوج کے ایک لاکھ آدمی قتل ہوئے اور بایزید کی فوج کے صرف پچاس ہزار آدمی مارے گئے۔ اس کے باوجود شکست سلطان با یزید کے حصہ میں آ ئی۔
اس کی وجہ کیا تھی۔ اس کی سادہ وجہ یہ تھی کہ سلطان تیمور کی فوج میں پانچ لاکھ سپاہی تھے۔ جب کہ سلطان بایزید کی فوج میں کل ایک لاکھ سپاہی تھے۔ اس طرح سلطان تیمور کی فوج کے ایک لاکھ آدمی قتل ہونے کے بعد بھی اس میں چار لاکھ آدمی باقی تھے، اور سلطان با یزید کی فوج میں کل ایک لاکھ آدمی تھے۔ چنانچہ پچاس ہزار آدمیوں کے قتل ہوجانے کے بعد اس میں صرف پچاس ہزار آدمی باقی رہ گئے۔
سلطان با یزید بے حد بہادر آدمی تھا۔ مگر کیفیت (quality)کی زیادتی کمیت (quantity) کی کمی کو ایک حد تک ہی پورا کرسکتی ہے۔ اگر فریقَین کے درمیان کمیت کے تناسب میں غیر معمولی فرق واقع ہوجائے تو کیفیت کی زیادتی کمیت کی کمی کی تلافی کے لیے کافی نہیں ہوسکتی۔
19 ستمبر 1985
موجودہ زمانے کے ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ انسان کے دماغ (brain) میں جو پارٹیکل ہیں، وہ پوری کائنات کے مجموعی پارٹیکل سے بھی زیادہ ہیں۔ انسانی دماغ کی استعداد بے پناہ ہے، مگر کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اب تک اپنے دماغ کو دس فی صد سے زیادہ ا ستعمال نہ کرسکا۔
حقیقت یہ ہے کہ آدمی ایک امکان ہے۔ مگر موجودہ دنیا اپنی محدودیتوں کے ساتھ اس امکان کے ظہور کے لیے ناکافی ہے۔ انسانی امکان کے ظہور میں آنے کے لیے ایک لامحدود اور وسیع تر دنیا درکار ہے— جنت کی دنیا، ایک اعتبار سے، اسی لیے بنائی گئی ہے کہ وہاں آدمی کے امکانات پوری طرح ظہور میں آسکیں۔
20 ستمبر 1985
اناتول فرانس(Anatole France, 1844-1924) کا قول ہے کہ یہ آدمی کی فطرت ہے کہ وہ دانش مندانہ طورپر سوچتا ہے، مگر بیوقوفی کے ساتھ عمل کرتا ہے:
It is human nature to think wisely and act foolishly.
یہ بات بذاتِ خود صحیح ہے۔ مگر اس کی وجہ انسانی فطرت نہیں، بلکہ انسانی عادت ہے۔ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ معاملات میں دانش مندانہ طورپر سوچ سکے۔ مگر عمل کرتے وقت وہ بے وقوف بن جاتا ہے۔ کیوں کہ وہ سوچ کے وقت تو غیر جانب دار رہتا ہے۔ مگر عمل کے وقت اپنی غیر جانب داری کو باقی نہیں رکھ پاتا— صحیح عمل اکثر اپنی ذات کی نفی پر ہوتا ہے۔ آدمی اپنی ذات کی نفی پر راضی نہیںہوتا، اس لیے وہ صحیح عمل بھی نہیں کرپاتا۔
21 ستمبر 1985
اجتماعی زندگی میں وہ انسان بہت قیمتی ہوتا ہے جو بلاشرط کسی مشن کا ساتھ دے۔ جو ساتھ دینے کے بعد مسائل کا جنگل نہ کھڑا کرے۔صحابہ کرام نے تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کیا۔ ان کی تحریکی صفات کو اگر ایک لفظ میں بتانا ہو تو کہا جاسکتا ہے — وہ بے مسئلہ لوگ (no-problem person) تھے۔ وہ اختلاف کو بھول کر مشن سے وابستہ رہتے تھے۔ وہ ذاتی شکایت کو نظرانداز کرکے قیادت کے حکم کی پابندی کرتے تھے۔ وہ انفرادی احساسات کو کچل کر اجتماعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ بے مسئلہ انسان ہوں، وہی دنیا کا مسئلہ حل کرتے ہیں۔ جولوگ خود مسائل میں مبتلا ہوجائیں، وہ صرف دنیا کے مسائل میں اضافہ کرتے ہیں، وہ کسی بھی درجے میں دنیا کے مسائل کو کم نہیں کرتے۔
23 ستمبر 1985
شہر کی تعمیرات اور اس کے تمدنی مظاہر کو دیکھ کر میری زبان سے نکلا:’’انسان کے بغیر یہ تمدن نہیں، اسی طرح خدا کے بغیر یہ کائنات نہیں“ ۔
24 ستمبر 1985
نادر شاہ افشار(1688-1747)ایران کا بادشاہ تھا۔ وہ 1736 سے 1747تک ایران کا بادشاہ رہا ۔ ایک مرتبہ اس کو یہ شبہ ہوا کہ اس کا لڑکا یہ سازش کررہا ہے کہ وہ باپ کو ہٹا کر خود تخت پر بیٹھ جائے۔ نادر شاہ نے اپنےجوان لڑکے کو گرفتار کیا اور اس کی آنکھیں نکال کر اس کو اندھا کردیا۔مگر نادرشاہ کی یہ بے رحمی اس کو اقتدار پر باقی رکھنے میں معاون نہ ہوسکی۔ جلد ہی اس کی فوج میں اس کے مخالفین پیداہوگئے، اور نادر شاہ خوداپنے فوجیوں کے ہاتھوں قتل کردیاگیا۔
اِس طرح کے بے شمار واقعات تاریخ میں موجود ہیں۔ مگر کوئی ان سے سبق نہیں لیتا۔ ہر آدمی اپنے دائرے میں دوبارہ وہی کرتا ہے، جو نادر شاہ نے اپنے دائرے میں کیا تھا۔
25 ستمبر 1985
ایک صاحب نے الرسالہ کے مشن سے پورا اتفاق کیا۔ میں نے کہا کہ جب آپ کو الرسالہ سے اتفاق ہے تو اس کی ایجنسی لے کر اس کو پھیلائیے۔ انھوں نے کہا کہ ابھی تو میں صرف خود پڑھتا ہوں۔ آئندہ ایسا بھی کروں گا کہ ایجنسی لے کر اس کو دوسروں تک پہنچاؤں۔
میںنے کہا کہ کرنے کا کام آج کیا جاتا ہے، کل نہیں کیاجاتا۔ جس شخص نے معاملے کو کل (tomorrow) کے خانہ میں ڈالا، اس نے معاملہ کو نہیں کے خانے میں ڈال دیا۔
26 ستمبر 1985
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا، قَالَ:قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِیہِمَا کَثِیرٌ مِنَ النَّاسِ:الصِّحَّةُ وَالفَرَاغُ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 6412)۔ یعنی عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: دو نعمتیں ہیں جن میں انسانوں میں سے بہت سے لوگ دھوکا کھاتے ہیں— تندرستی اور فرصت ۔
یعنی آدمی ایک کام کو کرنے کا کام سمجھتا ہے۔ مگر وہ سوچتا رہتا ہے کہ جب تندرستی ہوگی تو کرلوں گا یا جب فرصت ہوگی کر لوں گا۔ حالاں کہ یہ زبردست بھول ہے۔ جو آدمی عذر کے فریب میں رہے وہ کبھی کوئی کام نہیں کرسکتا۔ صحیح طریقہ یہ ہے کہ عذر کو نظر انداز کرکے کام کیاجائے۔
ایک انگریزی مقولہ اس حدیث کی بہترین تشریح ہے۔ وہ مقولہ یہ ہے کہ اگر تمھارے پاس ایک اچھا عذر ہے تب بھی اس کو استعمال نہ کرو:
If you have a good excuse, don't use it.
27 ستمبر 1985
مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی کے زمانے میں بنی اسرائیل کا جو حال تھا، وہی حال اس وقت مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان اب ایک مردہ قوم بن چکے ہیں، وہ کسی گہرے تعمیری کام کا حامل بننے کی طاقت نہیں رکھتے۔
بنی اسرائیل کا یہی حال ہوگیا تھا۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ان کو صحرا ئے سینا میں لے گئے۔جب ان کی ابتدائی نسل ختم ہوگئی اور نئی نسل صحراکے ماحول میں پرورش پاکر تیار ہوئی تو اسی نے دوبارہ کام کیا۔مجھے ایسا محسوس ہوتاہے کہ موجودہ زمانہ میں ہندستان مسلمانوں کا ’’صحرائے سینا‘‘ ہے۔ ہندستان وہ مقام ہے جہاں وہ عمل جاری ہے، جو بنی اسرائیل کے ساتھ صحرائے سینا میں انجام پایا تھا۔ اس بنا پر مجھے صرف ہندستان سے یہ امید معلوم ہوتی ہے کہ آئندہ کسی وقت یہاں کے مسلمان کسی زندہ اسلامی دعوت کے علم بردار بن سکیں۔ ہندستان میں بہت بڑے پیمانہ پر یہ عمل جاری ہے کہ یہاں کے لوگوں کو تربیت کے سخت کورس سے گزارا جارہا ہے۔ یہ کورس جب مکمل ہوگاتو یہاں کے مسلم افراد میں، ان شاء اللہ، وہ سنجیدگی اور حقیقت پسندی آچکی ہوگی، جو اسلام کی دعوت کا حامل بننے کے لیے ضروری ہے۔
28 ستمبر 1985
پیسہ خرچ کرنے کے سلسلے میں قرآن میں اعتدال کا حکم دیاگیا ہے:وَلَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِکَ وَلَا تَبْسُطْہَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا (17:29)۔یعنی اور نہ تو اپنا ہاتھ گردن سے باندھ لو اور نہ اس کو بالکل کھلا چھوڑ دو کہ تم ملامت زدہ اور عاجز بن کر رہ جاؤ۔ حدیث میں آیا ہے:مَا عَالَ مَنِ اقْتَصَد (مسند احمد، حدیث نمبر 4269)۔ یعنی جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوا۔
اکثر پریشانیوں کا سبب یہ ہوتا ہے کہ آدمی اخراجات میںاعتدال کی حد پر قائم نہیں رہتا۔ شادی کرنا، گھر بنانا، اور اس طرح کے دوسرے اخراجات کا مسئلہ سامنے آتا ہے تو وہ اپنی طاقت سے زیادہ خرچ کر ڈالتاہے۔ اگر ایسے مواقع پر اپنی وسعت کو دیکھا جائے، نہ کہ کسی مفروضہ معیار کو، تو کبھی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
30 ستمبر 1985
اینڈریو کارنیگی (1835-1919)نے اسٹیل کی صنعت میں کافی ترقی کی۔ 1889 میں اس نے ایک مقالہ شائع کیا جس کا نام تھا دولت کی بائبل (The Gospel of Wealth) ۔ اس مقالہ میں اس نے بتایا کہ دولت مند آدمی جب دولت حاصل کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو رفاہ عام کے کام میں لگائے:
A rich man should, after acquiring his wealth, distribute the surplus for the general welfare. (Andrew Carnegie)
یہ ایک نہایت اہم اصول ہے۔ اینڈریو کارنیگی نے جو بات سماجی اصطلاح میں کہی وہی بات پیغمبر اسلام نے مذہبی اصطلاح میں اس طرح کہی ہے کہ خدا تمھیں دولت دے تو تم دائیں بائیں اور آگے پیچھے خرچ کرو (صحیح مسلم، حدیث نمبر 990)۔
یہ اصول نہ صرف آخرت کی فلاح کا ضامن ہے بلکہ دنیا کی ترقی بھی اسی سے ملتی ہے۔ موجودہ زمانے میں کئی ملکوں میں بیرونی افراد کے خلاف سخت ناراضگی پیداہوئی۔ مثلاً افریقن ملک یوگنڈا میںایشیائی لوگوں کے خلاف، سری لنکا میں تامل والوں کے خلاف، پاکستان میں مہاجرین کے خلاف، وغیرہ۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے اپنی کمائی ہوئی دولت کو صرف اپنی ذات پر خرچ کیا، مقامی آبادی پر خرچ نہیں کیا۔
جو تجارتی قومیں اس راز سے واقف ہیں وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ مستقل طور پر مقامی آبادی کی فلاح پرخرچ کرتی ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت کامیاب ہیں۔ مثال کے طورپر ہندستان میں جینی فرقہ اور پارسی فرقہ۔ یہ لوگ بہت چھوٹی اقلیت ہیں۔ اس کے باوجود ملک کی دولت کا بڑا حصہ ان کے قبضہ میں ہے۔ مگر آج تک ان کے خلاف کوئی رد عمل نہیں ہوا۔ اس کی خاص وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی کمائی کاایک حصہ ہر سال دوسروں کے اوپر خرچ کرتے ہیں۔ مثلاً اسکول، اسپتال، تعلیمی وظائف وغیرہ وغیرہ۔
1 اکتوبر 1985
علمائے تفسیر کا کہنا ہے کہ قرآن کی تفسیر کا مصدرِ اول خود قرآن ہے۔ اور قرآن کی تفسیر کا مصدرِدوم وہ حدیث کو قرار دیتے ہیں۔
مثلاً سورہ فاتحہ میں ہے:غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ (1:7) ۔ یعنی ان کا راستہ نہیں جن پر تیرا غضب ہوا، اور نہ ان لوگوں کا راستہ جو راستے سے بھٹک گئے۔ یہاں سوال ہے کہ اس سے مراد کون لوگ ہیں۔ حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مغضوب علیہم سے مراد یہود ہیں اور ضالین سے مراد نصاریٰ(مسند احمد، حدیث نمبر 19381)۔
اسی طرح قرآن میں ہے :وَأَعِدُّوا لَہُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة (8:60)۔ یعنی اور ان کے لیے جس قدر تم سے ہو سکے تیار رکھو قوت۔ یہاں قوت سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلہ میں حدیث میں آیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ، أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْیُ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1917)۔جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے، جان لو کہ قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔
تاہم ان مصادر (sources)کے ساتھ ایک اور چیز انتہائی ضروری ہے، اوروہ ہے تفقہ (حکمت و بصیرت)۔ اگر تفقہ نہ ہو تو آدمی فرسٹ مصدر اور سیکنڈ مصدر کا ماہر ہونے کے باوجود قرآن کی د رست تفسیر نہ کرسکے گا۔ مثلاً پہلی آیت (الفاتحہ، 1:7) کی تفسیر میں مذکور حدیث میں صرف آدھی بات ہے۔ مکمل بات ایک دوسری حدیث کو ملانے سےسمجھ میں آتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں امتِ مسلمہ کے بارے میں آیا ہے:لَتَتْبَعُنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ، شِبْرًا شِبْرًا وَذِرَاعًا بِذِرَاعٍ، حَتَّى لَوْ دَخَلُوا جُحْرَ ضَبٍّ تَبِعْتُمُوہُمْ، قُلْنَا: یَا رَسُولَ اللَّہِ، الیَہُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ: فَمَنْ (صحیح البخاری، حدیث نمبر7320)۔ یعنی تم ضرور پچھلی امتوں کی پیروی کروگے، قدم بہ قدم، یہاں تک کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں داخل ہوئے ہیں تو تم بھی ضرور اس میں داخل ہوجاؤ گے، ہم نے کہا: اے خدا کے رسول، یہود ونصاری، آپ نے کہا: اور کون۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری نے بگاڑ پیدا ہونے کے بعد جو کچھ کیا وہی سب مسلمان بھی بعد کے زمانے میں کریں گے۔ ان دونوں حدیثوں کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آیت میں مغضوب اور ضالین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے زوال یافتہ ذہنیت کی وجہ سے خدا کی ناراضگی کا شکار ہوجاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں یہود و نصاری نے ایسا کیا تھا، بعد کے زمانے میں امت محمدی پر ایسا وقت آسکتا ہے۔
اسی طرح دوسری آیت (الانفال،8:60) کی تفسیر میں مذکور حدیث کو بھی بالکل لفظی معنی میں لے لیا جائے تو اسلام ایسی سائیکل کی مانند بن جائے گا، جس کا ہینڈل کَس دیا گیا ہو، اور وہ سائیکل دائیں بائیں گھوم نہیں سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری آیت کی یہ تفسیر ایک زمانی تفسیر ہے، نہ کہ ابدی تفسیر۔ اگر اس تفسیر کو ابدی تفسیر قرار دیا جائے تو بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے فوجی قوت کے لیے جو نئے نئے اضافے کیے، وہ سب غیر اسلامی قرار پائیں گے۔ یا کم ازکم یہ کہ بدلتے ہوئے زمانہ کے لحاظ سے دفاعی قوت کی فراہمی کے لیے قرآن سے انحراف ضروری ہوگا۔ ورنہ ہم اپنے دور کے لحاظ سے اپنے کو طاقت ور نہیں بنا سکتے۔
3 اکتوبر 1985
مسز انیس جنگ کی ایک انگریزی کتاب 1985میں پنگوئن بکس کے تحت چھپی ہے، جس کا نام ہے ’’ہندستان بے نقاب“ (Unveiling India) ۔ مصنفہ نے ہندستان میں عورتوں کے حالات کی تحقیق کے لیے ملک کے مختلف حصوںکے سفر کیے۔ بیدر میں ان کی ملاقات جلال الدین چنگیزی سے ہوئی۔ مصنفہ کے بیان کے مطابق، جلال الدین چنگیزی نے کہا کہ قرآن میںعورت کو فتنہ بتایا گیا ہے، وہ جو مرد کو بہکائے اور اس کو مصیبت میں مبتلا کرے:
In the Koran she is described as a fitna, one who tempts man and brings trouble (p. 30)
یہ حوالہ صحیح نہیں۔ کیوں کہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں جس میں عورت کو فتنہ کہا گیا ہو۔ البتہ ایک حدیث ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں:مَا تَرَکْتُ بَعْدِی فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5096)۔ یعنی اپنے بعد میں نے سب سے زیادہ مضر فتنہ جو مردوں کے اوپر چھوڑا ہے وہ عورتیں ہیں۔
حدیث کے الفاظ بتاتے ہیں کہ اس میں مستقبل کے بارے میں ایک پیشین گوئی کی گئی ہے۔ اور وہ یہ کہ آئندہ آنے والے دور میں انسانی سماج میں سب سے زیادہ ضرر کا سبب عورتیں بنیں گی۔ اس دور میں عورتیں مردوں کے لیے سب سے بڑی آزمائش بن جائیں گی۔
جس زمانے میں محترمہ انیس جنگ نے اپنی کتاب لکھی ہے، اس زمانے میں یہ پیشین گوئی اپنی کامل صورت میں سامنے آچکی ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جدید دنیا کے معاشرتی بگاڑ کا سب سے بڑا سبب ’’جدید عورت“ ہے۔ آج آزادیٔ نسواں کے نام پر عورت کا جوحال کیاگیا ہے اس نے جدید معاشرہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اس حدیث میں یہ نہیں ہے کہ عورت باعتبار تخلیق کوئی بری چیز ہے۔ اس میں صرف عورت کے اس غلط استعمال کا ذکر ہے جس کے نتیجہ میں عورت سماج کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔
4 اکتوبر 1985
مولانا امیراللہ خاں قاسمی ایک عربی مدرسہ چلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنا ایک دلچسپ واقعہ بتایا۔ ایک سفر میں ان کی ملاقات ایک عرب سے ہوئی۔ عرب نے گفتگو کے دوران کہا:
چَنْسُکَ جَیِّدٌ
مولانا امیر اللہ صاحب اس جملہ کو سمجھ نہ سکے۔ انھوں نے عرب سے دوبارہ پوچھا کہ ’’چنسک“ کا مطلب کیا ہے۔ اس نے کاغذ پر لکھ کر بتایا تو معلوم ہوا کہ وہ کہہ رہا ہے: تمھارا چانس (chance) بہت اچھا ہے— عربوں میں انگریزی الفاظ کتنے زیادہ عام ہوگئے ہیں، اس کی یہ ایک دلچسپ مثال ہے۔
5اکتوبر 1985
قرآن کے سلسلہ میںایک مسئلہ اختلافِ قرأت کا ہے۔مگر اختلافِ قرأت کا مطلب اختلافِ متن نہیں ہے۔قرآن میں جو اختلافِ قرأت ہے وہ دو قسم کا ہے۔ ایک وہ اختلاف جو لہجہ (accent) کے فرق کا نتیجہ ہے۔ چوں کہ عرب کے مختلف قبائل میںالفاظ کی ادائیگی میں بعض فرق پایا جاتاتھا، اسی بناپر قرآن کی قرأت میں بھی بعض مقامات پر فرق ہوگیا۔ مثلاً مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ (1:4) کے بجائے مَلِکِ یَوْمِ الدِّینِ (میم کے بعد الف کے بغیر)یا قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (114:1) کی جگہ قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاتِ ، وغیرہ۔ اس قسم کا فرق صرف پڑھنے کا فرق ہے، ان میں کتابت کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
اختلافِ قرأت کی دوسری صورت وہ ہے جس میں لفظ کا فرق پایا جاتا ہے۔ مثلاً قرآن میں ہے:أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتٌ مِنْ زُخْرُفٍ(17:93)۔ یعنی یا تمہارے پاس سونے کا کوئی گھر ہوجائے۔ اس آیت کو حضرت عبد اللہ بن مسعود نے پڑھا:أَوْ یَکُونَ لَکَ بَیْتٌ مِنْ ذَہَبٍ(تفسیر ابن کثیر، جلد5 ، صفحہ120)۔یا مثلاً سورہ الجمعہ میں ہے: فَاسْعَوْا إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ (62:9) ۔یعنی اللہ کی یاد کی طرف چل پڑو۔ اس کو بعض صحابہ نے اس طرح پڑھا: فَامْضُوا إِلَى ذِکْرِ اللَّہِ(تفسیر ابن کثیر، جلد8، صفحہ 120)۔ یا مثلاًسور البقرۃ میں ہے: لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ (2:198)۔ یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔اس کو ا بن عباس نے اس طرح پڑھا ہے: لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّکُمْ فِی مَوَاسِمِ الْحَجِّ(فضائل القرآن للقاسم بن سلام، صفحہ 325)۔یعنی تم پر اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کرو حج کے زمانے میں۔
اختلاف قرأت کی یہ دوسری مثالیں قرآن کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ تفسیر کی قبیل سے ہیں۔ یعنی صحابی نے آیت کی تشریح کرتے ہوئے ایک نیا لفظ استعمال کیا تاکہ مخاطب اس کو سمجھ سکے۔ ورنہ دنیامیں ایسا کوئی قرآن موجود نہیں جس میں متن کی کتابت اس دوسرے طریقے سے کی گئی ہو۔
کسی عبارت کے مفہوم کو کھولنے کے لیے اس کے لفظ کو بدلنا پڑتا ہے۔ اختلاف قرأت کی دوسری قسم کا مطلب یہی ہے، صحابہ نے تفہیم کے مقصد سے لفظ بدل کر پڑھا۔
7 اکتوبر 1985
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کے حکم سے کئی مؤذنوں کی تقرریاں ہوئی تھیں۔ کہاجاتا ہے کہ حضرت بلال ان مؤذنوں کے صدر تھے۔ جب کوئی حکم ہوتا تو حضرت بلال کے واسطے سے تمام دوسرے لوگوں کو اس سے آگاہ کردیا جاتا۔ مثلاً ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: أَمَرَ بِلَالًا أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ، وَأَنْ یُوتِرَ الْإِقَامَةَ (سنن النسائی، حدیث نمبر 627) ۔ یعنی آپ نے بلال کو حکم دیا کہ وہ اذا ن میں تشفیع کرے اور اقامت میں ایتا ر کرے۔
اس قسم کی روایتوں کا مطلب احناف اس طرح بتاتے ہیں :أن یکون المراد من أن یشفع الأذان:بالصوت، فیأتی بصوتین صوتین، ویوتر الإقامة فی الصوت (تجرید القدوری، جلد1، صفحہ419)۔ یعنی اس سے مراد یہ ہے کہ وہ اذان میں شفع کرے، اس کو دو دو (اونچی) آواز میں ادا کرے، اور اقامت کو اکہرے (نیچی) آواز میں ادا کرے۔ فمحمول على إیتار صوتہا بأن یحدر فیہا ...لا إیتار ألفاظہا(البحر الرائق، جلد1، صفحہ447)۔ یعنی اس کا مطلب ہے کہ اس کی آواز میں ایتار ہو، یعنی وہ اقامت میں جلدی جلدی پڑھے، نہ کہ الفاظ میں ایتار (ایک ایک مرتبہ)۔اس کے برعکس شوافع وغیرہ کا کہنا ہے کہ یہاں تشفیع اور ایتار کا مطلب یہ ہے کہ اذان کے کلمات دوبار ادا کیے جائیں اور اقامت کے کلمات ایک بار— حدیث میں تعمق اورتدقیق (hair-splitting) نے کیسے عجیب عجیب اختلافات پیدا کردیے ہیں۔
8 اکتوبر 1985
جناب فرید الوحیدی صاحب جدہ میں رہتے ہیں۔ ان کا قدیم وطن دیوبند تھا۔ اب وہ سعودی شہری ہوچکے ہیں اور وہاں کے ایک کامیاب تاجر ہیں۔ انھوںنے اپنی زندگی کا تجربہ ان الفاظ میں بیان کیا:
جوچیونٹی بن کر رہتاہے وہ شکر کھاتا ہے جوشیر بن کر رہتا ہے وہ گولی کھاتا ہے
9 اکتوبر 1985
ایک عرب سے ملاقات ہوئی۔ ان کو میںنے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول سنایا: إِنَّ لِلَّہِ عِبَادًا یُمِیتُونَ الْبَاطِلَ بِہَجْرِہ(حلیۃ الاولیاء، جلد1، صفحہ 55)۔ یعنی بے شک اللہ کے کچھ بندے ہیں، جو باطل کو مٹاتے ہیں، اس کو ترک کرکے۔
انھوںنے اس کو پسند کرتے ہوئے کہاکہ اسی مفہوم کا ایک مقولہ عربوں میں رائج ہے جو کہ اس طرح ہے:لَوْ أَنَّ الْکَلَامَ مِنْ فِضَّةٍ لَکَانَ السُّکُوتُ مِنْ ذَہَبٍ(الزھد لابن ابی عاصم، اثر نمبر 33)۔ یعنی بولنا اگر چاندی ہو تو چپ رہنا سونا (gold) ہے۔
10 اکتوبر 1985
سترھویں صدی کے فرنچ رائٹر اور مفکر جین دی لا بروییر(Jean de La Bruyère, 1645-1696)کا قول ہے کہ اس دنیامیں صرف دو طریقے ہیں جن کے ذریعے آدمی اپنے آپ کو اوپر اٹھا سکتا ہے۔ یا تو اپنی ذاتی محنت سے یا دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر:
In the world there are only two ways of raising one self, either by one's own industry or by the weakness of others.
اس کی ایک مثال ہندستان ہے، اور دوسری مثال جاپان کی جدید تاریخ ہے۔ ہندستان نے 1947 میں جو آزادی حاصل کی، وہ دراصل دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی کمزوری سے فائدہ اٹھانا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان نے زبردست ترقی حاصل کی۔ اس کا راز جاپانی قوم کی وہ محنت تھی جو اس نے جنگ میں شکست کے بعد مسلسل انجام دی۔
11 اکتوبر 1985
میرا خیال یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کے پاس قومی حیثیت سے مثبت احساس موجود نہیں ہے۔ واحد چیز جو ان کے پاس ہے وہ مخالف ہندو احساس (anti-Hindu feeling) ہے۔ اسی پر موجودہ زمانہ کے مسلمان کھڑے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مسلمانوں کے اندر کوئی ایسی تحریک اٹھتی ہے جس میں ہندو کے خلاف جذبات کے لیے اپیل ہو تو فوراً مسلمانوں کی بھیڑ کی بھیڑ اکھٹا ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ کسی اور دعوت پر ان کی بھیڑ جمع نہیں ہوتی۔
موجودہ زمانے کے قائدین نے مسلمانوں کے اس احساس کو بھر پور طورپر استعمال کیا ہے۔ ہر وہ مسلم قائد جس نے موجودہ زمانے میں بڑی مقبولیت حاصل کی ہے، ا س نے یہ مقبولیت اسی مخالفانہ احساس کو استعمال کرکے حاصل کی ہے۔ مگر میں اس قسم کی قیادت کو سراسر باطل سمجھتا ہوں۔ کسی قوم کو مثبت نفسیات پر اٹھانا قیادت ہے، اور کسی قوم کو منفی نفسیات پر اٹھانا ہلاکت۔
12 اکتوبر 1985
مسلم رہنماؤں نے ملک کی تقسیم (1947) اس لیے کرائی تھی کہ اس سے ہندو مسلم مسئلہ ختم ہوجائے گا۔ مگر نتیجہ ان کے اندازے کے بالکل برعکس نکلا۔ تقسیم نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے اختلافات کو اور بڑھادیا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) نے بالکل درست لکھا ہے:
After Partition of the Subcontinent into India and Pakistan, the political controversies between India and Pakistan constituted a complication (EB. 8/907)
یعنی انڈیا اور پاکستان کی صورت میں برصغیر کی تقسیم کے بعد دونوں ملکوں میں سیاسی اختلافات پہلے سے بھی زیادہ ہوگئے۔
اس نتیجہ کو بطورِ واقعہ خود مسلم قائدین بھی تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ اس کی ذمہ داری وہ یک طرفہ طورپر ہندو اکثریت پر ڈالتے ہیں۔ ان کی یہ روش بھی کس قدر عجیب ہے۔ جو نتیجہ ان کی اپنی سیاسی فکر کو غلط ثابت کررہا تھا، اس کو انھوں نے دوبارہ دوسروں کو ملزم ٹھہرانے کا ذریعہ بنالیا۔ سوال یہ ہے کہ تقسیم کے آپریشن کے باوجود اگر حالات کی باگ ڈور بدستور ’’ہندو“ کے ہاتھ میں ہے تو اس ہولناک آپریشن کی کیا ضرورت۔
14 اکتوبر 1985
جنت کے بارے میں قرآن میں ’’عِنْدَکَ‘‘ اور ’’عِنْدَ رَبِّہِمْ‘‘ کے الفاظ آئے ہیں۔ اس سے میں یہ سمجھا ہوں کہ جنت مجلسِ خداوندی میں جگہ پانے کا دوسرا نام ہے۔ خدا کی صفت خاص یہ ہے کہ وہ پرفکٹ (perfect) ہے۔ خدا کے قریب جو دنیا ہوگی وہاں ہر چیز پرفکٹ ہوگی۔ وہاں پرفکٹ باتیں ہوں گی۔ پرفکٹ سلوک ہوگا۔ پرفکٹ سامان ہوںگے۔یہ ایک پرفکٹ ماحول ہوگا، اور پرفکٹ ماحول میں جینے ہی کا نام جنت ہے۔
یہ پرفکٹ دنیا (perfect world) اتنی زیادہ قیمتی ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل، خواہ وہ کتنی ہی مقدار میں ہو، اس کی قیمت نہیں بن سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اپنے عمل کی قیمت پر جنت میں جگہ نہیں مل سکتی۔ صرف ایک چیز ہے جو جنت کی قیمت ہے۔ اوروہ ہے پرفکٹ تھنکنگ۔ آدمی عمل کی سطح پر پرفکٹ نہیں بن سکتا۔ مگر سوچ (thinking) کی سطح پر وہ پرفکٹ بن سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو موجودہ دنیا میں آدمی کو حاصل کرنا ہے، اور یہی وہ چیز ہے جو کسی آدمی کو جنت میں داخلےکا مستحق بنائے گی۔
15 اکتوبر 1985
عربی زبان میں غیر معمولی طورپر یہ صلاحیت ہے کہ وسیع مضامین کو مختصر لفظوں میں ادا کرسکے۔ غالباً کسی اور زبان میں یہ صلاحیت اتنی زیادہ نہیں۔
ماہنامہ العربی (کویت) کی اشاعت اکتوبر 1985میں صفحہ 32 پر ایک تصویرہے۔ اس تصویر میں ایک عرب شیخ اپنے مخصوص حلیہ میں چھڑی لیے ہوئے کھڑا ہے۔ اس کے پیچھے ایک ہرے بھرے فارم کی تصویر ہے جس میں کھیت اور باغ دکھائی دے رہے ہیں۔ اس تصویر کے اوپر (فارمر کی زبان سے) لکھا ہوا ہے—انھوں نے بویا تو ہم نے کھایا، ہم بوتے ہیں تاکہ وہ کھائیں:
زرعوا فأکلنا، ونزرع لیأکلوا
یعنی ہماری پچھلی نسلوں نے درخت لگائے جن کا پھل ہم کو ملا۔ اب ہم درخت لگا رہے ہیں تاکہ ہمارے بعد کی نسلیں اس کا پھل پاسکیں۔ جو لوگ عربی زبان اوراس کے ساتھ دوسری زبانیں جانتے ہیں وہ سمجھ سکتے ہیں کہ اس تصور کو اتنے کم الفاظ میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ اداکرنا کسی اور زبان میں شاید ممکن نہیں۔
16 اکتوبر 1985
ایمان ایک دریافت ہے، اور دعوت اس دریافت کا ایک خارجی اظہار۔ شرعی اعتبار سے دعوت ایک خدائی حکم کی تعمیل ہے۔ اور نفسیاتی اعتبار سے ایک اندرونی تپش کا بے قرارانہ اظہار۔ دعوت کے ایک خدائی حکم ہونے کا شعور نہ ہو توآدمی استقلال کے ساتھ اس پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اور اگر دعوت کے پیچھے نفسیاتی انقلاب کی زمین موجود نہ ہو تو اس کے اندر وہ کیفیت اور وہ زور پیدا نہیں ہوسکتا جو سننے والے کو ہلائے اور اس کو اپنی سوچ بدلنے پر مجبور کردے۔
17 اکتوبر 1985
حدیث میں آیا ہے :الدُّنْیَا سِجْنُ المُؤْمِنِ وَجَنَّةُ الکَافِرِ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 2956)۔ یعنی دنیا مومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خدا کے پڑوس میں رہناچاہتا ہے اور دنیامیں اس کو انسانوں کے پڑوس میں رہنا پڑتا ہے۔ اس کی نظروں میں ’’پرفکٹ“ سمایا ہوا ہوتاہے اور دنیا میں اس کو ’’امپرفکٹ“ سے نباہ کرناپڑتا ہے۔وہ کامل سچائی کا طلب گار ہوتا ہے اور دنیا میں وہ دیکھتا ہے کہ جھوٹ اور ناانصافی اور دھاندلی کی حکمرانی ہے۔ وہ اصول پسند ہوتا ہے جب کہ دنیا میں اس کو ہر طرف بے اصولی کا راج دکھائی دیتا ہے۔
غیر مومن با اصول یا آئیڈیلسٹ نہیں ہوتا۔ اس کے سامنے صرف اپنا ذاتی مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ جس طرح بھی ملے۔ وہ ہر صورتِ حال میں ڈھل کر اپنا مفاد محفوظ کرلیتا ہے۔ وہ صحیح اور غلط کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا اسی لیے اسے کوئی پریشانی بھی لاحق نہیں ہوتی۔
18 اکتوبر 1985
خواجہ غلام الثقلین نے بیرونی ملکوں میں مسلمانوں کا تبلیغی مشن بھیجنے کی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا تھا:
فرض کیجیے کہ کچھ حضرات یہ مشن لے کر جاتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے پیروؤں کے سامنے اسلامی تعلیمات کو پیش کرتے ہیں کہ اسلام ہمیں سچائی، انصاف، کاروبار میں دیانت داری، روز مرہ زندگی میں باہمی تعاون، غریبوں کی مدد کرنا، شراب نوشی اور سود خواری سے دور رہنا سکھاتا ہے۔ تب ممکن ہے کہ وہ لوگ یہ دریافت کریں کہ کیوں صاحب، ہندستان کے مسلمان تو عام طورپر دیانت دار ہوں گے۔ آپ کے معاشرہ میں اقتصادی مساوات ہوں گی۔ اور وہاں نہ کوئی مسلمان شراب پیتا ہوگا اور نہ سود کھاتا ہوگا۔ اگر ہمارے مبلغین نے راست گوئی سے کام لیا تو انھیں کہنا پڑے گاکہ نہیں بھائی، ہمارے یہاں بھی یہ انفرادی واجتماعی خرابیاں موجود ہیں۔ تو پھر وہ ضرور یہ کہیں گے کہ آپ اپنے ملک واپس جاکر مسلمانوں میں اسلام کی تبلیغ کریں۔ اور جب وہ صحیح معنی میں مسلمان بن جائیں تو پھر آپ ہمارے پاس آکر تلقین کریں۔ چنانچہ مسلمان کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے آپ کو سچا مسلمان بنانے کی کوشش کرے۔
خواجہ صاحب کی یہ تنقید صحیح نہیں۔ کیوںکہ تبلیغ کا مقصد لوگوں کو ’’مسلم معاشرہ“ کی طرف بلانا نہیں ہے، بلکہ خدا کی طرف بلانا ہے۔ تبلیغ کا مقصد لوگوں کو حقیقت آخرت سے باخبر کرنا ہے، نہ کہ کسی دنیوی سماج سے باخبر کرنا۔
19 اکتوبر 1985
جنت صبر کے اُس پار ہے، مگر اکثر لوگ جنت کو صبر کے اِس پار تلاش کرنے لگتے ہیں۔
21 اکتوبر 1985
ایک صاحب تھے۔ وہ کسی سابق نواب کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نوابی تو ختم ہوچکی تھی، مگر ’’پدرم سلطان بود“ (میں بھی بادشاہ تھا) کی نفسیات ان کے اندر پوری طرح باقی تھیں۔ ان کی ایک لڑکی تھی۔ اس کا رشتہ کئی جگہ سے آیا مگر انھوںنے انکار کردیا۔ کیوں کہ یہ رشتے ان کے خیال سے ان کے شایان شان نہ تھے، اور جس رشتہ کو وہ اپنے شایان شان سمجھتے تھے، وہ انھیں مل نہ سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی لڑکی کی شادی نہ ہوسکی۔
یہی کیس زیادہ بڑی شکل میں موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا ہے۔ مسلمانوں کی گزری ہوئی تاریخ نے ان کوایک قسم کے احساس فخر میں مبتلا کردیا ہے۔ اس احساس فخر کا یہ نتیجہ ہے کہ کوئی چھوٹا کام انھیں اپنے شایانِ شان نظر نہیں آتا۔ ہمیشہ بڑے کام کی طرف دوڑتے ہیں، کیوں کہ وہی کام ان کو اپنے شایانِ شان نظر آتاہے جس کو بڑے بڑے لفظوں میں بیان کیا جاسکتا ہو۔
اسی احساسِ فخر کی نفسیات نے موجودہ زمانے کے تمام مسلم رہنماؤں کی کوششوں کو بے نتیجہ بنادیا۔ موجودہ زمانے میں جو بھی مسلم رہنما اٹھا، اس نے ہمیشہ کسی بڑے کام کا نعرہ لگایا— ہر آدمی نے مینار پر کھڑا ہونا چاہا، کوئی بھی زمین پر کھڑا ہونے کے لیے تیار نہ ہوا۔ یہی سب سے بڑی وجہ ہے کہ بے شمار ہنگامہ خیز تحریکوں کے باوجود موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی ملی تعمیر واقعہ نہ بن سکی۔ کیوں کہ حقیقی تعمیر کے لیے ہمیشہ چھوٹی سطح سے آغاز کرنا پڑتا ہے، مسلم رہنماؤں نے اپنی پر فخر نفسیات کی بنا پر چھوٹی سطح کے کام کواپنے شایان شان نہ سمجھا، اس لیے وہ کوئی حقیقی تعمیری کام بھی انجام نہ دے سکے۔
22 اکتوبر 1985
زندگی دو متضاد پہلوؤں کے درمیان نباہ کرنے کا نام ہے۔ زندگی کا سفر ایک اعتبار سے تنی ہوئی رسی پر چلنے (tight-rope walking) کی مانند ہے۔ آدمی کو بیک وقت دو سمتوں کی رعایت کرتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ اس دو طرفہ توازن میں اگر فرق آجائے تو زندگی کا سارا معاملہ بگڑ کر رہ جائے گا۔
23 اکتوبر 1985
قدیم زمانے میں اپنی محبوب شخصیت کو بڑھانے اور اپنی ناپسندیدہ شخصیت کو گھٹانے کے لیے بہت سے قصے گھڑے گئے۔ ایک مثال یہ ہے:
کہاجاتا ہے کہ امام ابو حنیفہ (80-150ھ) تحصیلِ علم کے لیے مدینہ گئے۔ وہاں ان کی ملاقات امام باقر (57-114ھ) سے ہوئی۔ تعارف کے بعد امام باقر نے کہا۔ کیا تم ہی قیاس کی بنا پر ہمارے دادا کی حدیثوں کی مخالفت کرتے ہو۔ ابو حنیفہ نے کہا عیاذ باللہ، حدیث کی کون مخالفت کرسکتا ہے۔ پھر مختصر گفتگو کے بعد دونوں میں حسب ذیل مکالمہ ہوا:
ابو حنیفہ : مرد ضعیف ہے یا عورت
امام باقر: عورت
ابو حنفیہ : وراثت میں مرد کا حصہ زیادہ ہے یا عورت کا۔
امام باقر: مرد کا
ابو حنیفہ: اگر میں قیاس لگاتا تو کہتا کہ عورت کو زیادہ حصہ دیا جائے۔ کیوں کہ ظاہر قیاس کی بناپر ضعیف کو زیادہ ملنا چاہیے۔
امام باقر اس گفتگو کو سن کر بہت خوش ہوئے اور اٹھ کر ان کی پیشانی چومی۔
نقدِ داخلی بتا رہا ہے کہ یہ ایک بناوٹی قصہ ہے۔ امام باقر نے امام ابوحنیفہ پر جو الزام لگایا وہ حدیث کو رد کرنے کا تھا، نہ کہ قرآن کو رد کرنے کا۔ جب کہ مذکورہ گفتگو کے مطابق امام ابو حنیفہ نے جو مسئلہ بیان کیا، وہ قرآن سے ثابت ہے۔ اس کا انحصار حدیث پر نہیں۔ امام ابو حنیفہ جیسا ذہین آدمی یہ نہیں کرسکتا کہ سوال حدیث کے بارے میں کیا جائے اور وہ جواب قرآن کے بارے میں دینے لگے۔
اس قسم کے جھوٹے قصے کہانیوں نے ہمارے بیشتر لٹریچر کو غیر سائنٹفک بنا دیا ہے۔ ان سے عقیدت مندی کا مزاج رکھنے والا آدمی تو فائدہ اٹھا سکتا ہے مگرعلمی ذوق رکھنے والے آدمی کے لیے اس کی افادیت بہت کم ہے۔
24 اکتوبر 1985
خوارج کا یہ کہنا تھاکہ خلافت کسی قوم یا قبیلے کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ ہر وہ شخص خلیفہ بن سکتا ہے جس کے اندر خلافت کی شرطیں پائی جائیں۔بظاہر یہ ایک صحیح بات معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ صحابی رسول علی ابن ابی طالب کے الفاظ میں کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِیدَ بِہَا بَاطِلٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر 1066) کی مثال ہے، یعنی ایک حق بات جس سے باطل مطلوب ہے۔
اصل یہ ہے کہ عرب دو بڑے قبائلی گروہوں میں منقسم تھے —مُضَر اور ربیعہ۔ قریش کا تعلق مضر سے تھا ، اورخوارج زیادہ تر قبیلہ ربیعہ سے تعلق رکھتے تھے۔ قبیلہ مضر اور قبیلہ ربیعہ میں جاہلیت کے زمانے سے عداوت چلی آرہی تھی۔ صحابہ کرام نے جب عرب کے حالات کی رعایت کرتے ہوئے قریش میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا تو قبیلہ ربیعہ کے لوگ بگڑ گئے۔ کیوں کہ قریش کا تعلق قبیلہ مضر سے تھا۔ ایسی حالت میں خوارج جو اصول پیش کرتے تھے، اس کا مقصد اپنے قبیلے کے حق میں خلافت کا استحقاق ثابت کرنا تھا، نہ کہ اہل تر شخص کے حق میں اس کا استحقاق ثابت کرنا۔
25 اکتوبر 1985
عہدِ وسطیٰ میں شہنشاہ اور پوپ کے درمیان جو جھگڑے ہوئے، ان میں ساری بحث اس پر تھی کہ حضرت عیسیٰ (یا خدا) نے دنیا کی حکومت پوپ کے سپرد کی ہے یا شہنشاہ کے، او راگر ان دونوں میںاختلاف ہو تو قوم کو کس کے حکم پر چلنا چاہیے۔
آج یہ بحث بڑی عجیب معلوم ہوتی ہے۔ کیوںکہ آج حکومت و سیاست کے معاملات میں نہ ’’مسیح“ کا دخل ہے اور نہ ’’پوپ‘‘کا۔ آج ان معاملات میں ساری حیثیت عوام کی مانی جاتی ہے یا عوام کے منتخب نمائندوں کی۔
یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمانی حالات کتنا زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ کسی فکر کی عمومی کامیابی کا انحصار تمام تر اسی پر ہوتا ہے کہ زمانی حالات اس کے موافق ہیں یا اس کے خلاف۔ آدمی اگر حکومت کے نظام میںتبدیلی لانا چاہتا ہے تو اس سے پہلے اس کو لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا ہوگا۔ اس کے بعد ہی وہ حکومت کے نظام میں کوئی حقیقی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتا ہے۔
26 اکتوبر 1985
ٹکراؤ کے میدان سے ہٹنا آدمی کو تعمیر کا وقفہ عطا کرتا ہے۔ اور اس دنیا میں وقفۂ تعمیر کو پانا ہی کسی آدمی کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ایک پچھڑے ہوئے گروہ کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے لیے وقفہ تعمیر کو پالے۔ اس وقفہ تعمیرکو حاصل کرنے کی واحد لازمی قیمت یہ ہے کہ پچھڑا ہوا گروہ نزاع کے مقام سے اپنے آپ کو ہٹائے۔
اِس دنیا میں آدمی ہمیشہ دو چیزوں کے درمیان ہوتا ہے— مسائل اور مواقع۔ عقلمند وہ ہے جو مسائل کو مستقبل کے خانے میں ڈال دے اور اپنی ساری طاقت مواقع کو استعمال کرنے میں لگائے۔ مسائل میں الجھ کر وہ دونوں کو کھوئے گا ،جب کہ مواقع کواستعمال کرکے وہ بالآخر دونوں کو پالے گا۔ یہی بات ہے جس کو ایک مفکر نے ان الفاظ میں اداکیا ہے—مسائل کو بھوکا رکھو، مواقع کو کھلاؤ:
Starve the Problems, Feed the Opportunities.
1 نومبر 1985
انسانوں میں کچھ کم صلاحیت کے لوگ ہوتے ہیں اور کچھ اعلیٰ صلاحیت کے لوگ۔اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَرَفَعْنَا بَعْضَہُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجَاتٍ لِیَتَّخِذَ بَعْضُہُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّا (43:32)۔ یعنی اور ہم نے ایک کو دوسرے پر فوقیت دی ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں۔
کم تر صلاحیت کے لوگ اس لیے ہوتے ہیں کہ وہ کسی کے پیچھے چلیں ۔ یہ صرف اعلیٰ صلاحیت کے افراد ہیں جو تاریخ بناتے ہیں۔اونچی صلاحیت کے افراد کوئی بڑا کام صرف اس وقت کر پاتے ہیں جب کہ وہ ’’صبر ‘‘ کی سطح پر کام کرنے کے لیے راضی ہوں۔ اس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: وَجَعَلْنَا مِنْہُمْ أَئِمَّةً یَہْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا (32:24)۔ یعنی اور ہم نے ان میں پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے، جب کہ انھوں نے صبر کیا۔
بڑا کام کرنے کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی چھوٹا کام کرنے پر اپنے آپ کو راضی کرسکے۔ زندگی کی تعمیر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی کو گم نامی میں جانا پڑتاہے۔ اس کو کبھی آگے بڑھنے کے بجائے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ اس کو ایسا کام کرنا پڑتا ہے جس میں اس پر بز دلی اور مصالحت کا الزام لگایا جائے۔
موجودہ زمانے میں بہت سے اعلیٰ صلاحیت کے افراد پیدا ہوئے۔ مگر ان میں سے ہر شخص کا یہ حال ہوا کہ اس کا اپنا شخصی گنبد تو کھڑا ہوگیا مگر اس کے ذریعہ سے ملت کا محل تعمیر نہ ہوسکا۔ اس کی واحد سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی حوصلہ مندی ان کے لیے ’’چھوٹا کام“ کرنے میں مانع ہوگئی۔ ان میں سے ہر شخص ایسے کاموں کے پیچھے دوڑتا رہا جن کو بڑے بڑے الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہو— ایسا عمل صرف شخصیتیں بناتا ہے، وہ قوموں کی تعمیر نہیں کرتا۔
2 نومبر 1985
میںاکثر سوچتا تھا کہ درخت اتنے زیادہ حسین کیوں معلوم ہوتے ہیں۔ آخر اس کی وجہ یہ سمجھ میں آئی کہ درخت دوسروں کی زندگی میں دخل نہیں دیتے۔ ہر درخت اپنے آپ میں جیتا ہے۔ ہر درخت اپنا رزق خود حاصل کرتا ہے۔ مزید یہ کہ وہ دنیا سے جتنا لیتا ہے اس سے زیادہ وہ دنیا کو لوٹاتا ہے۔ وہ دنیا سے ’’مٹی اور پانی“ جیسی چیزیں لیتا ہے مگر وہ اس کو ہریالی اور پھول اور پھل کی صورت میں واپس کرتا ہے۔
انسان کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ انسان دوسروں کی زندگی میں مداخلت کرکے انھیں مشتعل کرتا ہے۔ وہ دوسروں کا استحصال کرتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسروں کو کچھ نہ دے اور دوسروں سے ان کا سب کچھ لے لے۔یہی فرق ہے جس نے درخت کو ہر ایک کے لیے پرکشش بنا دیا ہے۔ اور انسان کو ایسا بنا دیا ہے جس میں دوسروں کے لیے کوئی کشش نہیں۔
4 نومبر 1985
ہندستانی مسلمانوں کی تقریریں اور تحریریں پڑھیے تو ایسا معلوم ہوگا گویا کہ وہی ہیں جنھوںنے ہندستان کو آزادی دلائی۔ وہی ہیں جنھوں نے سردھڑ کی بازی لگا کر ہندستان کو بیرونی سیاسی قبضہ سے آزاد کیا۔ مگر آزادی کے بعد لکھنے والوں نے ہندستان کی جو تاریخ لکھی ہے اس میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ تاریخ آزادی ٔ ہند میںمسلمان صرف تاریخ کے فوٹ نوٹ (footnote of history) بن کر رہ گئے ہیں۔
بڑا کام وہ ہے جس کا اعتراف کرنے پر دوسرے لوگ مجبور ہوجائیں۔ جو کام ہمارے اپنے ذہنی سانچہ میں بڑاہو، اور اس سے باہر جاتے ہی وہ چھوٹا ہوجائے وہ دراصل بڑا کام تھا ہی نہیں۔
5 نومبر1985
ہر انسان کے اوپر فطرت کا ایک چوکی دار مقرر ہے، جو اس کو برائی سے روکتا ہے۔ یہ حیا اور شرم کا جذبہ ہے ۔ جس آدمی کے اندر حیا نہ رہے، اس کے اندر گویا برائی کا آخری روک باقی نہ رہا۔ حیا کے سلسلے میں دو روایتیں یہ ہیں:
قَالَ النَّبِیُّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ:إِنَّ مِمَّا أَدْرَکَ النَّاسُ مِنْ کَلاَمِ النُّبُوَّةِ، إِذَا لَمْ تَسْتَحْیِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 3483)۔یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: نبوت کے ذریعہ لوگوں کو جو بات ملی، ان میں سے ایک بات یہ ہے: جب تمھارے اندر شرم نہ رہے تو جو چاہے کرو۔
علقمہ بن عُلاثہ نے سے کہا :یَا رَسُولَ اللَّہِ عِظْنِی. فَقَالَ النَّبِیُّ - صَلَّى اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ- اسْتَحِ مِنْ اللَّہِ تَعَالَى اسْتِحْیَاءَک مِنْ ذَوِی الْہَیْبَةِ مِنْ قَوْمِک (ادب الدنیا والدین للماوردی، صفحہ249)۔ یعنی اے خدا کے رسول! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے اس طرح حیا کرو جس طرح تم اپنی قوم کی پر ہیبت شخصیتوں سے حیا کرتے ہو۔
واپس اوپر جائیں

اعلان

انسانیت کی تعمیر میں عورت کا ایک اہم رول ہے۔ مگر پوری تاریخ میں عورتوں کو انڈر یوٹیلائز ڈ (underutilized)کیا گیا ہے۔ مولاناوحید الدین خاں صاحب نےاسلامی تاریخ میں حضرت ہاجرہ اور دوسری خواتین کے رول کو دریافت کیا، اور اس کو ایکسپلین کرکے عورتوں کو ترغیب دی کہ وہ ان کے نقش قدم پر چلیں، اور اپنے potential کو ایکچولائز (actualize)کرکے وہ تاریخ دہرائیں، جو تاریخ اُن خواتین نے بنائی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے قرآن و سنت اور تاریخ کے حوالے سے کئی کتابیں لکھی ہیں، جیسے ’’عورت معمارِ انسانیت‘‘ ، ’’خاتون اسلام‘‘ ۔ اب ان کی رہنمائی میں سی پی ایس لیڈیز نے ایک دعوتی گروپ شروع کیا جس کا نام ہے:
CPS Ladies International
اس گروپ میں انڈیا اور انڈیا کے باہر کی خواتین شامل ہیں۔ یہاں وہ اسلام کے مختلف پہلوؤں پراپنی ضرورت کے اعتبار سے ڈسکشن کرتی ہیں، جس سے ان کو دین کی گہری معرفت (deeper realization)حاصل ہوتی ہے، اور ان کا انٹلکچول ڈولپمنٹ ہوتا ہے۔یہ گروپ 29 اکتوبر 2020 کو شروع ہوا، اور اتنے کم وقت میں خواتین نے جو فیڈ بیک دیا، وہ بہت ہی حیرت انگیز (amazing) ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ انھوں نے اس گروپ کو جوائن کرکے حقیقی اسلام کو سمجھا ہے ۔ اس سے پہلے ان کے نزدیک اسلام کا مطلب کچھ سماجی رسوم تھا، نہ کہ وہ اسلام جو اللہ نے اپنے پیغمبر کے ذریعےبھیجا ہے۔
اب ہم لوگوں نے آن لائن قرآن کلاس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت ہماری ہفتہ وار آن لائن قرآن کلاس شروع ہوچکی ہے۔اس سے ہمیں قرآن کے پیغام کو تذکیری اعتبار سےسمجھنے اور عملی زندگی میں اپنانے کا موقع ملتا ہے۔ اللہ نے چاہا تو یہ گروپ جدید سائنسی دور میں ہاجرہ کلچر کے اِحیا (revive) کا ذریعہ بنے گا، یعنی بےمثال جدوجہدکے ذریعے خدائی دین کو جدید معیار پر ثابت شدہ بنانا۔
سی پی ایس لیڈیز انٹرنیشنل سےاگر کوئی خاتون جڑنا چاہتی ہیں تواس ای میل یا واٹس ایپ پر اپنا نام اور نمبر بھیجیں:
fahmidakhan245@gmail.com
واٹس ایپ 09453215285
واپس اوپر جائیں