Pages

Sunday 2 March 2008

Al Risala | March 2008 (الرسالہ،مارچ)

2

- سب سے بڑا مسئلہ

3

- جہاد اسلامی تاریخ میں

15

- عظیم ترین شہادت

28

- گلوبل وارمنگ یا ڈِوائن وارننگ

31

- انسانی تاریخ کے دو دَور

35

- فرائض اور نوافل

38

- بریک اِن ہسٹری

40

- کامیابی کا فارمولا

41

- کثرت کے درمیان قلّت

42

- اِزد واجی زندگی

43

- حُسنِ تدبیر

44

- جھوٹ کی دو قسم

45

- غریبی اور امیری


سب سے بڑا مسئلہ

انسان کی زندگی ایک باشعور زندگی ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے اور اسی کے ساتھ وہ اپنے زندہ ہونے کا شعور بھی رکھتا ہے۔ اس کا یہ شعور حسّاسیت (sensitivity)کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ انسان کامل درجے میں باشعور ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل درجے میں حسّاس بھی ہے۔انسان کی اِس صفت کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس کو کوئی اچھا تجربہ ہو تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اور اگر اس کو کوئی بُرا تجربہ پیش آئے تو وہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ خوشی اورغم دونوں قسم کے جذبات انسان کے اندر آخری انتہائی درجے تک پائے جاتے ہیں۔
انسان کے اندر یہ دونوں صفتیں پیدائشی طورپر پائی جاتی ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی بہت زیادہ جنت کا طالب بنے اور وہ بہت زیادہ جہنم سے ڈرنے والا بن جائے۔ کیوں کہ موت کے بعد ہر آدمی کا آخری ٹھکانہ یا تو جنت میںہونے والا ہے، یا جہنم میں۔ جنت ابدی طورپر خوشیوں اور راحتوں کی جگہ ہے اور جہنم ابدی طورپر غم اورحسرت کی جگہ۔ آدمی اپنے عمل کے اعتبار سے دونوں میںسے کسی انجام تک لازماً پہنچنے والا ہے۔ اِس لیے ہر انسان کو اِس معاملے میںسب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان اِس سنگین ترین معاملے میں اُس حدیثِ رسول کی تصویر بنا ہوا ہے جو اِن الفاظ میں آئی ہے: ما رأیتُ مثلَ الجنّۃ نامَ طالبُِہَا، ومارأیتُ مثلَ النّارِ نامَ ہَارِبُہَا ( الترمذی، کتاب صفۃُ جہنّم)۔ یعنی کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جنت جیسی قیمتی چیز کے طالب نہیں بنتے، اور کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جہنم جیسی خوف ناک چیز سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
خدا کا خوف کوئی منفی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی معرفت جب اپنے آخری درجے میں پہنچتی ہے تو وہ خدا کا خوف بن جاتی ہے۔ ایسا آدمی بے پناہ حد تک جنت کا طالب بن جاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اُس کو ہر وقت یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر خدا نے اس کے لیے جنت کا فیصلہ نہ کیا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہ معرفت کا اعلیٰ درجہ ہے، اور اِسی اعلیٰ معرفت کا نام تقویٰ ہے۔
واپس اوپر جائیں

جہاد اسلامی تاریخ میں

جہاد کے لفظی معنیٰ کوشش یا جدّ وجہد کے ہیں۔ اِس سے مراد اصلاً پُرامن کوشش ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر پچیس میں ارشاد ہوا ہے— اُن سے جہاد کرو، قرآن کے ذریعے، بڑا جہاد (الفرقان: 52 ) قرآن کی اِس آیت میں جہاد یا ’جہادِ کبیر‘ سے مراد واضح طورپر پُرامن دعوتی جد و جہد ہے۔ اِسی طرح حدیث میں آیا ہے: المجاہد مَن جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 22) یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف خدا کی اطاعت کے لیے جہاد کرے۔ اِس حدیثِ رسول میں جس چیز کو جہاد کہاگیا ہے، وہ بھی واضح طورپر ایک پُرامن عمل ہے، اُس کا جنگ اور قتال سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم، توسیعی معنوں میں کبھی جہاد کا لفظ قتال کے لیے بھی بولا جاتا ہے، یعنی حربی جہاد کے لیے۔ موجودہ زمانے میں جہاد کا لفظ عام طورپر مسلّح جہاد کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ آج کل مختلف ملکوں میں مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلّح کارروائیوں میں مشغول ہیں اور اُن کو وہ جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں، مجھے اِس سے اتفاق نہیں۔ تاہم، زیر نظر مضمون میں ہم عمومی استعمال کے لحاظ سے جہاد کو مسلّح جہاد کے معنیٰ میں لیتے ہوئے اِس موضوع کا ایک تاریخی جائزہ لیں گے۔
1 - پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ پر مشرک لوگوں کا اقتدار قائم تھا۔ اُس وقت مکہ میںآپ کی حیثیت داعی کی تھی اور بقیہ لوگوں کی حیثیت مدعو کی۔ مکہ کے مشرک سردار آپ کے نظریۂ توحید کے دشمن بن گیے اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ اِسی حال میں تیرہ سال گزر گیے۔ اِس دوران مکہ اور اطرافِ مکہ اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام قبول کرکے آپ کے ساتھی بن گیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مکی دَور کے آخر میں آپ کے ساتھیوں نے آپ سے اِصرار کیا کہ ہم مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑیں گے۔ اُس وقت آپ کے ساتھیوں کی تعداد مجموعی طورپر تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ غزوۂ بدر کے موقع پر شریک ہونے والے صحابہ کی۔ لیکن اُس وقت آپ نے جنگ کا فیصلہ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو یہ جواب دیا کہ: اصبروا، فإنی لم أومر بالقتال یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھ کو جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب، اسلام کی ایک اہم تعلیم کو بتاتاہے۔ وہ تعلیم یہ کہ جنگ ایک قائم شدہ حکومت کاکام ہے، غیر حکومتی تنظیمیں، یا افراد جنگ نہیں کر سکتے۔ اُن کے لیے غیر سیاسی میدان میں پُرامن جدوجہد کرنا ہے، نہ کہ مسلّح ٹکراؤ کرنا۔ اِسی بات کو دورِ تابعین میں مسیّب ابن رافع تابعی نے اِس طرح بیان کیا کہ کچھ اجتماعی چیزیں وہ ہیں، جن کا تعلق صرف حُکّام سے ہوتا ہے۔ اِسی لیے اُن کو ’صَوافی الأُمراء‘ کہاجاتا ہے،یعنی حاکموں کا میدان (جامع بیان العلم، جلد 2، صفحہ 144)۔ علماء کے اتفاق کے مطابق، مسلّح جہاد کا تعلق، صوافی الامراء سے ہے، یعنی اُس کا فیصلہ صرف حکام کرسکتے ہیں، نہ کہ عوام (الرّحیل للإمام)۔
مکی دَور کے تیرہ سالوں میں اہلِ اسلام کا اقتدار قائم نہیں ہوا تھا، اِس لیے مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے باوجود جنگ اور قتال کا فیصلہ نہیں فرمایا۔ اِس کے بعد جب ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور مدینہ میں پیغمبر اسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپ نے دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی۔ اِسی زمانے میں غزوۂ بدر (2 ہجری)، غزوۂ اُحُد (3ہجری) اور غزوۂ حُنَین (8ہجری) کے واقعات پیش آئے، یہ سب دفاعی غزوات تھے۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جہاد کی ہرگز اجازت نہیں۔
اسلام میں اگر چہ دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے، لیکن اسی کے ساتھ شدت سے اِعراض کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دفاع کے حالات پیدا ہونے کے باوجود آخری حد تک جنگ سے اعراض کی کوشش کی جائے گی اور جب اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں، اُ س وقت آخری چارۂ کار کے طور پر دفاعی جنگ کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف تین بار باقاعدہ جنگ(fullfledged war) ہوئی، یعنی بدر اور احد اور حنین کی جنگ۔ اس کے سوا جن واقعات کو ’غزوہ‘ کہا جاتا ہے، وہ یا تو صرف پُرامن مہمیں (peaceful campaigns)تھیں،مثلاً غزوۂ تبوک (9 ہجری)، یا جنگ کی حالت پیدا ہونے کے باوجود جنگ سے اعراض، مثلاً غزوۂ خندق (5 ہجری) یا بعض واقعات کی صورت میں صرف جھڑپیں (skirmishes)۔ غزوۂ خیبر (7 ہجری) کی نوعیت اِسی قسم کی ہے۔
جنگ کے باقاعدہ واقعات بھی اِس طرح ہوئے کہ اُن میں عملاً صرف آدھے دن کی لڑائی ہوئی، یعنی دوپہر کے بعد جنگ کا آغاز اور شام تک جنگ کا خاتمہ، جیسا کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد اور عزوۂ حنین کے موقع پر پیش آیا۔ اِس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے 23 سالہ دورِ نبوت میں مجموعی طورپر صرف ڈیڑھ دن کے لیے جنگ کی۔
2 - حدیث کی کتابوں میں دوسرے ابواب کے ساتھ عام طور پر ’کتابُ الفتن‘ کا باب ہوتا ہے۔ اِس باب کے تحت، بہت سی ایسی حدیثیں آئی ہیں، جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ امت کو یہ حکم دیا کہ تم لوگ کسی بھی حال میں وقت کے حاکموں سے جنگ نہ کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ تمھارے نزدیک خواہ حکم رانوں میں کتنا ہی بگاڑ کیوں نہ آجائے ، لیکن تم اُن کے خلاف لڑائی نہ چھیڑنا۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر ایسے حالات میں ہم کیا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے اونٹوں اور اپنی بکریوں کو لے کر پہاڑیوں میں چلے جاؤ، یا کسی کے پاس زمین ہے تو وہ اپنی زمین میں جاکر کاشت کرنے لگے (مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 1482 )۔
اِسی بنا پر علما کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ حکم رانوں کے خلاف خروج کرنا، یا اُن سے جنگ کرنا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، شرح نووی، جلد 12 ، صفحہ 129 )۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن صریح احکام اور علمائِ اسلام کے اِس پر اتفاقِ عام کی بنا پر یہ ہوا کہ امت میںعوام اور حکم رانوں کے درمیان سیاسی ٹکراؤ کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔پیغمبر اسلام کے بعد تقریباً بارہ سوسال تک مسلم حکومتیں ساری دنیا میں قائم رہیں۔ اُن میں ہر طرح کے سیاسی بگاڑ بھی پیش آئے، لیکن وقت کے علما نے کبھی اُن کے خلاف سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی جنگ نہیں چھیڑی۔
مفسرین اور محدثین، فقہا اور علما ہمیشہ اپنے علمی دائرے میں مشغول رہے۔ اُنھوں نے کبھی سیاسی بگاڑ کے حوالے سے وقت کے حکم رانوں سے مسلّح ٹکراؤ نہیں کیا۔ عدم ٹکراؤ کے یہی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں اسلامی علوم کی تدوین ہوئی اور اسلام کا عظیم کتب خانہ وجود میں آیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کا کتب خانہ تو نہ بنتا، البتہ ہر جگہ شہیدوں کا قبرستان ضرور بن جاتا۔
3 - بارہ سو سال کی اِس طویل مدت میں ہم کو صرف ایک استثنائی واقعہ ملتاہے اور وہ حسین بن علی (وفات: 680 ء) کا واقعہ ہے، مگر میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جس حُسین کو لوگ جانتے ہیں، وہ ایک خود ساختہ شخصیت ہے، تاریخ میں ایسے کسی حُسین کا وجود نہیں۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ حُسین بن علی مکہ میں تھے۔ اُن کو خبر ملی کہ کوفہ (عراق) کے کئی لوگوں نے اُن پر غائبانہ بیعت کرلی ہے اور وہ اُنھیں کوفہ بلا رہے ہیں۔ اِس خبر کو سُن کر وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس دن حضرت حسین مکہ سے روانہ ہوئے، اُس دن کوفہ کے لوگ اپنی بیعت توڑ چکے تھے۔ اگر وہ ٹیلی فون کا زمانہ ہوتا تو حضرت حسین کو فوراً ہی نقضِ بیعت کی خبر مل جاتی اور یقینا وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ نہ ہوتے۔ اگر چہ اُس وقت بہت سے صحابہ موجود تھے اور انھوں نے حضرت حسین کو سفر سے روکا، لیکن وہ اپنے اہلِ خاندان کے تقریباً اَسّی افراد کو لے کر کوفہ کے لیے روانہ ہوگیے۔ اِس سفر میں کوئی صحابی اُن کے ساتھ موجود نہ تھا۔ گویا کہ یہ کوئی جنگی سفر نہ تھا، بلکہ وہ نجی نوعیت کا ایک سفر تھا۔
حضرت حسین اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ جب کوفہ کے قریب کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہاں یزید کے مقامی حاکم عبید اللہ بن زیاد (وفات: 686 ء)نے اُن کو آگے بڑھنے سے روکا۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق، اُس وقت حضرت حسین نے کہا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔ تم مجھ کو چھوڑ دو، تاکہ میں واپس لوٹ کر مکہ پہنچ جاؤں، یا پھر تم مجھ کو یزید کے پاس دمشق لے چلو اور میں یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا(إما أن أضع یدی فی ید یزید ، تاریخ الطَبری، جلد 4، صفحہ 313 )۔
اُس وقت کوفہ میں یزید کی حکومت کی طرف سے شَمِر بن ذی الجوشَن ایک فوجی دستے کے ساتھ موجود تھا۔ یزید کی کسی ہدایت کے بغیر اُس نے خود سے یہ فیصلہ کیا کہ حُسین کو واپس لوٹنے نہیں دینا ہے۔ اِس کے بعد اُس نے اپنے مسلّح فوجی دستے کے ساتھ حسین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اُس نے حضرت حسین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کو آج کل کی زبان میں فرضی مڈبھیڑ(fake encounter) کہاجاتا ہے۔ چناں چہ شمر ذی الجوشن نے حضرت حسین کی آمادگی کے بغیر اُن کو لڑنے پر مجبور کیا اور پھر انھیں قتل کرڈالا۔
حسین بن علی کے معاملے میں جو اصل واقعہ پیش آیا، اُس کو تاریخ طَبری یا البدایہ والنہایہ، وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید کی رضا مندی کے بغیر ایک سرکش آدمی نے حُسین کو گھیر کر اُنھیں قتل کردیا۔ موجودہ زمانے میں جس طرح حُسین کی شہادت کے عنوان سے اُس کوبیان کیا جاتا ہے اور شاعری اور انشاپردازی کی زبان میںاُس کو جس طرح گلوری فائی کیا جاتا ہے، وہ تمام تر حُسین کی خود ساختہ تصویر ہے، اُس کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل حقیقت بدستور یہی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ سوسال تک ایسا نہیں ہوا کہ علما سیاسی بگاڑ کے نام پر وقت کے حکم رانوں سے لڑائی کریں۔ اس کے بجائے، انھوں نے یہی کیا کہ حکّام سے عدم تعرض کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو علمی اور دینی اور دعوتی کاموں میں مشغول رکھا۔
4 - یہ تاریخ اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر میں بدلتی ہے۔ اِس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مسلم حکم راں تمام سیاسی اور فوجی معاملات سے نپٹتے رہے، لیکن اٹھارھویں صدی میں مغربی قوموں کے ظہور کے بعد علما نے محسوس کیا کہ اب مسلم حکم راں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہ ثابت ہورہے ہیں۔ مثلاً عثمانی تُرکوں کے بحری بیڑے کو اٹھارھویں صدی کے آخر میں مغربی قوموں نے تباہ کردیا۔1799 ء میں انگریزوں نے میسور کے سلطان ٹیپو کو ہلاک کردیا۔ ہندستان میں 1857ء میں برٹش فوج نے مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، وغیرہ۔
اِس طرح کے واقعات کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلم علما نے محسوس کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اِس معاملے میں کچھ کریں۔ جس کام کو مسلم حکم راں انجام نہ دے سکے، اُس کو وہ اپنی مسلّح مداخلت کے ذریعے انجام دیں۔ اِس طرح ، اسلامی تاریخ میں پہلی بار انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلم علما اور مسلم رہ نماؤں نے اپنے دائرے سے نکل کر مسلّح سیاست کے دائرے میں قدم رکھ دیا۔
میں ذاتی طورپر اِس کو مُبتدعانہ سیاست سمجھتا ہوں۔ یہ اسلام میںبلا شبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ اِس سیاسی بدعت کا آغاز غالباً سب سے پہلے انڈیا میںہوا۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی (وفات: 1831) اور اُن کے ساتھیوں نے مہاراجارنجیت سنگھ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ وہ اور اُن کا حلقہ واضح طور پرایک غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا، اِس اعتبار سے انھیں مسلّح جہاد کا کوئی حق نہ تھا۔ مگر ان کاخیال تھا کہ مغل حکومت اتنی زیادہ کم زور ہوچکی ہے کہ وہ پیدا شدہ مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ اُن کا یہ اقدام دینی اعتبار سے سیاسی بدعت اور عقلی اعتبار سے سیاسی نادانی کی حیثیت رکھتا تھا، کیو ں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج نہایت طاقت ور فوج تھی۔ مہاراجا نے فرانس کے رٹائرڈ جنرلوں کو بلا کر اپنی فوج کو ٹرینڈ کیا تھا۔ چناں چہ سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کا پورا قافلہ بالا کوٹ کے میدان میں ہلاکت کا شکار ہوکر رہ گیا۔
اِس کے بعد1857ء میں سہارن پور (دیوبند) کے علما نے برٹش گورنمنٹ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اِس موقع پر طاقت کا توازن انتہائی غیر متناسب طورپر برطانیہ کے حق میں تھا۔ چناں چہ دوبارہ یک طرفہ تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوا۔
انیسویں صدی عیسوی اور بیسویں صدی عیسوی میں اِس طرح کے کئی واقعات عالمِ اسلام میں ہوئے۔ مثلاً مَہدی سوڈانی (وفات:1885 ء) نے سوڈان (افریقہ) کے علاقے میں برٹش راج کے خلاف مسلّح جہاد کیا، حالاں کہ اُن کو حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی۔اِس اقدام میں اُنھیں ابتدائی طورپر کچھ کامیابی ہوئی، مگر بعد کو لارڈ کِچنر(Horatio Hebert Kitchner) نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرکے مہدی سوڈانی کی ’’بغاوت‘‘ کو کچل دیا۔ لارڈ کچنر کو 1898 ء میں برطانیہ کی طرف سے سوڈان کا گورنر جنرل بنایا گیا۔
اِسی طرح غیر حکومتی افراد کی طرف سے مسلّح جہاد کا ایک معاملہ وہ ہے جو لیبیامیں پیش آیا۔ 1911ء میں اٹلی نے سمندری راستے سے لیبیا پر حملہ کیا اور اُس پر اپنا قبضہ کرلیا۔میں نے فروری 1976ء کے سفر میں وہ وسیع مکان دیکھا، جس میں اٹلی کا گورنر رہتا تھا۔ اِس مکان کو اب قومی میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ اٹلی کا یہ قبضہ 1911ء سے 1943 ء تک باقی رہا۔
اٹلی کے قبضے کے دوران یہاں مجاہدین کا ایک گروہ پیداہوا۔ یہ بھی غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ انھوں نے اٹلی کے قبضے کے خلاف مسلح جہاد کیا۔ اِس گروہ کے لیڈر احمد الشریف السَّنوسی (وفات: 1933 ) تھے۔ اِس ٹکراؤ میں مذکورہ گروہ نے غیر معمولی قربانیوں کا ثبوت دیا، لیکن انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی۔ اس میوزیم میں ان مجاہدین کے کچھ آثار رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کَتبہ وہ ہے جس کے اوپر یہ نعرہ لکھا ہوا ہے: مُوتوا الیوم أعزاء، قبل أن تموتوا غداً أذلاّء (آج عزّت کے ساتھ مرجاؤ، قبل اِس کے کہ کل تمھیں ذلّت کے ساتھ مرنا پڑے)۔
یہ جملہ بتاتا ہے کہ اِن عرب مجاہدین کے نزدیک، اُن کے لیے لیبیا میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب(option) تھا، یعنی بے عزتی کی زندگی جینا، یا عزت کے ساتھ مرجانا۔ مگر یہ صرف ایک ثَنائی سوچ (dichotomous thinking) تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے لیے ایک تھرڈ آپشن (third option)بھی وہاںموجود تھا، جوبلاشہبہ اُن کے لیے زیادہ بہتر تھا، اور وہ تھا— سیاسی ٹکراؤ سے اعراض کرتے ہوئے غیرسیاسی میدان میں تعمیری کام کرنا۔ مثلاً تعلیم، دعوت، جدید ٹکنالوجی کو اقتصادی ترقی میں استعمال کرنا، وغیرہ۔
یہی معاملہ فلسطین میں پیش آیا۔ بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration)کے تحت، فلسطین کے ایک حصے میں اسرائیل کا قیام عمل میںآیا۔یہ1948 کا زمانہ تھا۔ اُس وقت حسن البنا (وفات:1949 ) اور الاخوان المسلمون نے قاہرہ کی سڑکوں پر بہت بڑا جلوس نکالا۔ اِس جلوس کا نعرہ تھا: لبّیک، یا فلسطین، لبّیک، یا فلسطین۔ حسن البنا، یا الاخوان المسلمون کو بلاشبہہ حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی، اِس کے باوجود انھوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد چھیڑ دیا۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ غیر حکومتی جہاد بھی ایک مبتدعانہ فعل تھا۔ چناں چہ وہ مکمل طورپرناکام ہوکر رہ گیا۔
اِسی طرح کا معاملہ جموں وکشمیر میں پیش آیا۔ یہاں مختلف ناموں کے ساتھ مجاہدین کی جماعتیں بنیں۔ اِن جماعتوں کو باہر کے مسلم ملکوں سے خفیہ امداد دی گئی۔چناں چہ انھوں نے زبردست جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعے کشمیر میں مسلح جہاد شروع کردیا۔ یہ کشمیری مجاہدین، حکومت کا حصہ نہ تھے۔ اِس بنا پر اُنھیں مسلح جہاد کا کوئی شرعی حق نہیں تھا۔ مگر انھوںنے نہایت دھوم کے ساتھ مسلح جہاد شروع کیا۔ اگرچہ خود کُش بم باری کی آخری حد تک پہنچنے کے باوجود وہ اپنے مسلح جہاد میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔وہ اپنے مطلوب نشانے تک پہنچنے میں پوری طرح ناکام ہوگیے۔
5 - غیر حکومتی گروہوں کے ذریعے مسلّح جہاد کا یہ عمل مکمل طورپر غیر شرعی تھا۔ اِس کے باوجود وہ کیوں جاری رہا۔ اِس کا واحد سبب یہ تھا کہ تمام دنیا کے علما نے یا تو اُس کی کھلی تائید کی، یا خاموش رہ کر اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ دو سو سال کی اِس پوری مدت میں پوری مسلم دنیا کے علما کا یہی رویّہ تھا اور تادمِ تحریر اُن کا یہی رویہ بدستور قائم ہے۔ اِس معاملے میں کچھ علما، خاص طورپر عرب علما، اِس حد تک گیے کہ انھوں نے خودکُش بم باری کو بھی ایک جائز فعل قرار دیا۔مثلاً دکتور یوسف القرضاوی نے فلسطینیوں کی خود کش بم باری (suicide bombing) کو استشہاد قر ار دیا ہے، یعنی طلبِ شہادت کا عمل(عملیّۃ استشہادیۃ، المجتمع، 18 جون 1996 ،صفحہ 34, 35)۔ مگر یہ سرتاسر ایک غیر اسلامی فتویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں، جن لوگوں نے خود کش بم باری کو استشہاد قرار دیا، انھوںنے بلا شبہہ ایک ایسا فعل کیا جس کا اسلامی شریعت میں کوئی جواز موجود نہیں۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِس مدت میں چند علما ایسے نکلے جنھوں نے مذکورہ قسم کے مسلح جہاد سے اتفاق نہیں کیا۔ مثلاً سید احمد بریلوی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف 1831ء میں پنجاب میں جو مسلح جہاد کیا، اُس کے خلاف خود اُن کے حلقے کے ایک عالم نے اُس سے سخت اختلاف کیا۔ اُن کا نام یہ تھا— مولانا میر محبوب علی دہلوی (وفات: 1864ء)۔ جب سید احمد بریلوی نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ اُن سے الگ ہوکر اپنے وطن (دہلی) واپس آگیے۔
اِسی طرح دیوبنداورسہارنپور کے علماء نے 1857 ء میں انگریزوں کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اُس وقت وہاں ایک بڑے عالم مولانا شیخ محمد تھانوی (وفات: 1865 ) موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے یہ مسلح جہاد جائز نہیں۔ اِس پر دیوبند کے علما سے اُن کی گفتگو ہوئی، لیکن علما اُن کی بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کے مُرشدِ عام حسَن الہُضیبی (وفات: 2004 ) ایک مصری عالم تھے۔ انھوں نے الاخوان المسلمون سے اختلاف کیا اور اس پر ایک کتاب بھی لکھی جو عربی میں ’دُعاۃ... لاقُضاۃ‘ کے نام سے قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ حسن الہضیبی اگر چہ الاخوان المسلمون کے مرشدِ عام تھے، لیکن اِس کتاب کا کوئی اثر الاخوان المسلمون کی تحریک پر نہیں پڑا۔
بعض علما کی یہ اصلاحی کوشش کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کاسبب یہ تھا کہ یہ لوگ زیادہ مدلّل انداز میں اپنی بات پیش نہ کرسکے۔ اُن کے ارشادات زیادہ تر اختلاف کی نوعیت کے تھے، وہ معاملے کی مدلل تردید کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اِس بنا پر اُن کے خیالات کا بے اثر ہوجانا ایک فطری امر تھا اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
6 - قرآن میں پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وقاتلوہم حتیٰ لاتکون فتنۃ، ویکون الدّینُ کلّہ للّٰہ (الأنفال:39 ) یعنی تم اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہوجائے۔اِس آیت میں ’قاتلوہم‘ سے مراد عوام سے جنگ نہیں، بلکہ سردارانِ وقت سے جنگ ہے۔ جنگ ہمیشہ اقتدار کے مالکوں سے کی جاتی ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: قاتلوا أئمۃَ الکفر (التوبۃ: 12)
اِس آیت میں ’فتنۃ‘ کالفظ استعمال ہوا ہے۔ مفسرینِ قرآن نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ فتنہ سے مراد کفر اور شرک ہے۔ مگر اس کا مطلب مجرد شرک یا اعتقادی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ شرک یا کفر، دوسرے امتحانی پرچوں کی طرح امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ امتحان کے تمام پرچے قیامت تک باقی رہیں گے۔ اُن میںسے کسی امتحانی پرچے کو قیامت سے پہلے منسوخ یا معدوم نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فتنہ سے مراد شرکِ جارح، یا کفرِ جارح ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
شرکِ جارح کیا چیز ہے، اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل کی اصطلاح میں مذہبی تعذیب کہاجاتا ہے۔اس کا ایک حوالہ قرآن کی سورہ نمبر 85 میں ملتا ہے۔ اس سورہ میں ارشاد ہوا ہے— ہلاک ہوئے خندق والے جس میں بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اُس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور جو کچھ وہ ایمان والوں کے ساتھ کررہے تھے، وہ اُس کو دیکھ رہے تھے۔ اور اُن سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ ایمان لائے اللہ پر، جو زبردست ہے، تعریف والا ہے (البروج:4-8 )۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب کو اسٹیٹ کے معاملات (state affairs) میں سے ایک معاملہ سمجھتا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ ریلیجن (state religion) کے سوا، کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، اسٹیٹ سے بغاوت کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ صورتِ حال، خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی۔ خدا کے تخلیقی نقشے کا تقاضا ہے کہ دنیا میں مذہبی جبر نہ ہو، بلکہ مذہبی آزادی ہو۔ تاکہ لوگوں کے بارے میں صحیح یا غلط کا حکم لگایا جاسکے۔اِس لیے خدا نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ وہ اِس سیاسی جارحیت کا خاتمہ کردیں، تاکہ اسٹیٹ کا معاملہ اور مذہبی عقیدے کا معاملہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔
اِس معاملے پرمزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اِس تعلیم کا مطلب انسانی تہذیب میں ایک نیے دور کا آغاز کرنا تھا۔ ایک ایسا دورجس میں اسٹیٹ کا حاکمانہ تعلق صرف انتظامِ مُلکی سے رہے اور بقیہ تمام معاملات حکومتی اقتدار سے باہر کی چیز بن جائیں۔ یہ گویا کہ مذہبی آزادی کی تکمیل ہے۔ اِس معاملے کو دوسرے لفظوں میں، ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور(de-centralization of power) کہا جاسکتا ہے۔
سیاسی اقتدار کی تحدید(demarcation) انسانی تاریخ میںایک انقلابی تبدیلی لانے کا معاملہ تھا۔ اِس قسم کا انقلاب تاریخ میں اچانک واقع نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ ایک لمبے عمل (process) کے ذریعے ظہور میں آتا ہے۔ اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں شرکِ جارح کو ختم کیا گیا۔ یہ واقعہ عرب میں مشرکانہ اقتدار کے خاتمے اور دوسری طرف بازنطینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کے خاتمے کے ذریعے پیش آیا۔
اس واقعے کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا۔ یہ ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور کا پراسس تھا۔ یہ پراسس مدینہ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ مسلسل جاری رہا۔ اٹھارھویں صدی کاآخر اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اِس کے بعد رفتہ رفتہ ساری دنیا میں یہ نظام قائم ہوگیا کہ حکومتی اقتدار کاتعلق صرف انتظام ِ ملکی(administration) تک محدود ہوگیا۔اِس کے سوا، زندگی کے تمام شعبے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوگیے۔ مثلاً تعلیم، مذہب، صحافت، نظریاتی اشاعت، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
اِس انقلاب کے بعد دنیا میںایک نیا دور آگیا، جس کو انسٹی ٹیوشن کا دور کہاجاتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ آزاد ادارہ بنا کر کسی بھی کام کو کیا جاسکتا ہے۔ پولٹکل پاور کو اب یہ حق نہیں رہا کہ وہ اداروں کے قیام کو روکے۔ موجودہ زمانے میں سیاسی ادارہ صرف ایڈمنسٹریشن تک محدود ہوگیا۔ اِس کے سوا تمام دوسرے کام، آزاد اداروں کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔
قتالِ فتنہ کی مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا تھا— ’’اور دین سب اللہ کا ہوجائے‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام کے سوا جو مذہبی معاملات ہیں، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر، وہ سب سیاسی حاکمیت سے آزاد ہوجائیں۔ انسان کو یہ موقع حاصل ہوجائے کہ وہ مذہب کے معاملے میں آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، کسی سیاسی اقتدار کو اُس پر پابندی عائد کرنے کا حق باقی نہ رہے۔
7 - وہ زمانہ جس کو موجودہ زمانہ کہاجاتاہے، وہ اِسی کامل مذہبی آزادی کا زمانہ تھا۔اِس زمانے میں اہلِ اسلام کو مکمل طورپر یہ موقع حاصل تھا کہ وہ سیاسی اقتدار کے محدود دائرے کے باہر اسلام کی تمام سرگرمیاں آزادانہ طورپر جاری کرسکیں۔ اسلامی تنظیم، اسلامی تعلیم، اسلامی دعوت، اسلامی اصلاح، اسلامی اقتصادیات، وغیرہ تمام معاملات میں انھیں پورا ختیار حاصل ہوچکا تھا، مگر زمانی تبدیلی سے بے خبری کی بنا پر اہلِ اسلام جدید مواقع کے استعمال کی منصوبہ بندی نہ کرسکے، بلکہ انتہائی نادانی کے ساتھ سیاست کی چٹان سے ٹکرانے لگے۔
جدید مواقع سے مراد مذہبی آزادی، جدید کمیونکیشن، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، ادارتی تنظیم کی جدید سہولتیں، اشاعتِ افکار کے عالمی مواقع، سائنٹفک دلائل کا ظہور، ذہنی کٹرپن کا خاتمہ، اسپرٹ آف انکوائری، انگریزی کی صورت میں عالمی زبان کا وجود میں آنا، اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے قیام کے امکانات، وغیرہ۔ اِن جدید مواقع کو استعمال کرنے کی صوت میں مسلمان تمام اسلامی مقاصد کو اعلیٰ ترین درجے میں حاصل کرسکتے تھے۔
آغازِ اسلام کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک علمائِ اسلام یہ کرتے رہے کہ حکم رانوں سے ٹکراؤ، یا مفروضہ ظالموں کے خلاف مسلّح جہاد سے وہ مکمل طورپر دور رہے۔ انھوںنے اپنی ساری توانائی قرآن اور حدیث اور دوسرے علومِ اسلامی کی خدمت میں لگا دی۔ وہ دعوتِ دین اور تعلیمِ اسلام جیسے کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے مسجد اور مدرسہ جیسے تعمیری اور ربّانی ادارے قائم کرکے غیر سیاسی انداز میںاسلام کی خدمات انجام دیں۔ اِسی پالیسی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام ایک اعلیٰ تہذیب اور ایک شان دار تاریخ کے روپ میں دنیا میں قائم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں اسلام کے تمام شان دار کارنامے علمائِ دین کی اِسی تعمیری پالیسی کا نتیجہ تھے۔
موجودہ زمانے میں علمائِ اسلام کو یہی موقع دوبارہ زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل ہوا۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ اہلِ اقتدار کے خلاف مسلّح جہاد کے ممنوعہ میدان میں نہ داخل ہوں، بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ علمی اور فکری اور تہذیبی اعتبار سے آج کی دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ قدیم سیاسی ایمپائر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر اسلام کا غیر سیاسی ایمپائر بنا سکتے تھے، مگر علمائِ اسلام کو زمانی بصیرت سے محرومی کی یہ قیمت دینی پڑی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق، قربانی کی یادگاریں تو ضرور قائم کیں، لیکن وہ اسلام کو دنیا کے سامنے اِس طرح پیش نہ کرسکے کہ دینا، اسلام کو اپنے لیے زندگی کا سرچشمہ سمجھے اور حال کا انسان بھی اُس کو اُسی طرح قبول کرے جس طرح ماضی کے انسان نے اس کو آگے بڑھ کر قبول کیا تھا۔
واپس اوپر جائیں

عظیم ترین شہادت

شہادت کے لفظی معنٰی گواہی(witness) کے ہیں۔ شہادت، قرآن کی ایک خاص اصطلاح ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو دوسرے لفظوں میں دعوت الی اللہ کہاگیا ہے۔ شہادت، واحد دینی عمل ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت کا کام (الصّف: 14) بتایا ہے۔
اللہ کو یہ مطلوب ہے کہ تمام پیدا ہونے والے انسانوں کو ان کی موت سے پہلے بتادیا جائے کہ ان کے بارے میں خالق کا تخلیقی پلان (creation plan)کیا ہے۔ قبل از موت زندگی کیا ہے اور بعد از موت زندگی کیا ہے۔ اسی لیے اس کام کو قرآن میں اِنذار و تبشیر(الأحزاب: 45 ) کا کام قرار دیا گیا ہے۔
یہی وہ خاص کام ہے جس کے لیے خدا نے ہر زمانے میں اپنے پیغمبر بھیجے اور اب ختم ِ نبوت کے بعد یہی کام آپ کے امتیوں کو انجام دینا ہے۔ جو شخص انذار و تبشیر کے اس کام کو انجام دے وہ داعی ہے، اور جس کے اوپر اس کا م کو انجام دیا جائے وہ مدعو ہے۔ داعی اور مدعو کے اس تعلق کو قرآن میں شاہد اور مشہود (البروج: 3 ) کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
دعوت یا شہادت کا یہ عمل انسان کی تخلیق کے آغاز ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ چناں چہ آدم پہلے انسان بھی تھے اور پہلے پیغمبر بھی ۔ اس مقصد کے لیے ہر مقام پر او رہر زمانے میں پیغمبر آتے رہے۔ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اس سلسلۂ نبوت کی آخری کڑی تھے۔ اب کوئی اور پیغمبر آنے والا نہیں، لیکن پیغمبر کا دعوتی کام پیغمبر کے متبعین کے ذریعے بدستور باقی ہے اور قیامت تک باقی رہے گا۔
تاہم تاریخی اعتبار سے اس دعوتی کام کے دو دور ہیں—قبل از سائنس دور اور بعد از سائنس دور۔ جدید سائنس کے ظہور سے پہلے دنیا میں توہمات (superstitions) کا غلبہ تھا۔ جدید سائنس نے پہلی بار اِس توہماتی دور کو ختم کیا۔ اس کے بعد دنیا میں عقلی طرزِ فکر کا دور آیا۔ اس اعتبار سے دعوتی عمل کے بھی دو مختلف ادوار ہیں۔ ایک، قدیم روایتی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام اور دوسرا، جدید سائنسی دور میں کیا جانے والا دعوتی کام۔ جدید دورِ سائنس میں کیا جانے والا یہی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میںعظیم ترین شہادت قرار دیا گیا ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن، باب ذکر الدّجال)
دعوت یا شہادت کے اِس عظیم ترین کام کا ذکر خود قرآن میں بھی موجود ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر 42 میں بتایا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے دلائل ظاہر ہوں گے جن کے ذریعے حق کی تبیینِ اعلیٰ ممکن ہوجائے گی۔ اِس قرآنی آیت کا ترجمہ یہ ہے: عن قر یب ہم اُن کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے، کائنات میں بھی اور خود انسانوں کے اندر بھی، یہاں تک کہ لوگوں پر ظاہر ہوجائے گا کہ یہ بلاشبہہ حق ہے (حمٓ السجدۃ: 53 ) ۔
اوّل الذکر حدیثِ رسول میں بتایاگیا ہے کہ آخری زمانے میں جب کہ دجّالی فتنہ ظاہر ہوگا، ایک شخص اس کے مقابلے میں ’حَجیج‘ بن کر اٹھے گا۔ وہ دجّالی فتنے کو حجت اور دلیل (rational argument) کے ذریعے ختم کرے گا اور امرِ حق کو اعلیٰ ترین سطح پر مُبرہن کردے گا، اور یہ دعوتی کام اللہ رب العالمین کے نزدیک لوگوں کے اوپر امرِ حق کی اعلیٰ ترین شہادت کے ہم معنی ہوگا (ہٰذا أعظم الناس شہادۃً عند ربّ العالمین)۔
بظاہر اِس حدیث رسول میں ایک فرد (حجیج) کا ذکر ہے، لیکن اِس دنیا میں کوئی بھی بڑا کام ایک فرد کا ذاتی کارنامہ نہیںہوتا۔ اصل یہ ہے کہ زمانے میں کچھ خصوصی مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مواقع ہمیشہ لمبے تاریخی عمل کے ذریعے ظہور میں آتے ہیں۔ اِس معاملے میں فرد کا حصہ یہ ہے کہ وہ اِن مواقع کو دریافت کرتا ہے اور منصوبہ بند انداز میں اُن کو استعمال کرتاہے۔ اِس طرح وہ چیز ظہور میں آتی ہے جس کو انقلاب کہاجاتا ہے۔ کوئی انقلاب کبھی بھی شخصی چمتکار کا نتیجہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ موجود مواقع کو دانش مندانہ انداز میں استعمال کرنے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے اور یہی معاملہ سیکولر انقلاب کا بھی۔
اِس معاملے کی ایک سیکولر مثال انڈیا کے قومی لیڈر مہاتما گاندھی کی ہے۔ 1947میںانڈیا کو برطانیہ کے مقابلے میںجو سیاسی آزادی ملی، عام طورپر اُس کو مہاتما گاندھی کا کارنامہ بتایا جاتا ہے۔ اِس معاملے میں ایک مقبول نظم میں ایک شاعر گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے کہتا ہے:
سابرمتی کے سنت، تونے کردیا کمال!
مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کی سیاسی آزادی، مہاتما گاندھی کا شخصی چمتکار نہ تھا، وہ دورِ جدید کے مواقع کو استعمال کرنے کا نتیجہ تھا۔ شہنشاہ اورنگ زیب (وفات: 1707 ) کے زمانے میں مرہٹہ لیڈر اورسکھ لیڈر اسی طرح کے سیاسی نشانے کو لے کر اٹھے، مگروہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے برعکس، مہاتما گاندھی برطانوی حکمرانوں کے مقابلے میں سیاسی مقصد کو لے کر اٹھے اور کامیاب ہوگئے۔ اِس فرق کا سبب زمانی فرق ہے۔ مہاتما گاندھی کو بیسویں صدی عیسوی کا زمانہ ملا، جب کہ دنیا میں ڈیماکریسی، سیکولرازم، قومی خودمختاری، صحافتی آزادی، حقوقِ انسانی(human rights) کا زمانہ آچکا تھا۔ اِس تبدیلی کے نتیجے میں مہاتما گاندھی کو وہ زمانی حمایت حاصل ہوچکی تھی جو اورنگ زیب کے زمانے میںاٹھنے والے لیڈروں کو حاصل نہ تھی۔ مہاتما گاندھی نے اِن جدید مواقع کو استعمال کیا۔ اِس طرح وہ اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہی معاملہ دینی انقلاب کا بھی ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عظیم انقلاب برپا کیا۔ تمام مورخین اِس کو بطور واقعہ تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہ بھی شخصی چمتکار کا معاملہ نہ تھا، بلکہ وہ زمانے کے موجود مواقع کو استعمال کرنے کا معاملہ تھا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے کے موجود مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا، اس کے نتیجے میں وہ انقلاب ظاہر ہوا جس کو ہم اسلامی انقلاب کہتے ہیں۔
یہ مواقع ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش (570 ء) سے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے حضرات ابراہیم مکہ آئے، جو اُس وقت صرف ایک بے آب و گیاہ صَحرا کی حیثیت رکھتا تھا۔ وہاں انھوں نے اپنی اہلیہ ہاجرہ اور اپنے بیٹے اسماعیل کو بسا دیا۔ یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ حدیث میںآیا ہے (صحیح البخاری، کتاب الأنبیاء)۔
اِس طرح متمدّن شہروں سے دور صحرا کے اِس فطری ماحول میں ایک نسل بننا شروع ہوئی۔ یہ نسل، انسانی تہذیب کی کنڈیشننگ سے پاک تھی۔ صحرا کے اس فطری ماحول میں تربیت پاکر ایک نئی قوم تیار ہوئی۔ ایک مستشرق نے بجا طور پر اس کو ہیروؤں کی قوم(a nation of heroes) کا نام دیا ہے۔ یہی انوکھی قوم پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا میدان بنی۔ پیغمبر کی تعلیم و تربیت کے ذریعے اِنھیں کے اندر سے صحابہ کا وہ استثنائی گروہ نکلا، جس کو قرآن میں خیرِ امت (آل عمران: 110)کہا گیا ہے۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے ساری دنیا پر مشرکانہ تہذیب کا غلبہ تھا۔ اِس ماحول میں پیدا ہونے والے ہر عورت اور مرد کا کیس کنڈیشننگ کا کیس بن چکا تھا۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ لوگ پیغمبر کے پیغام پر کھلے ذہن کے ساتھ سوچنے کے قابل نہ رہے۔ ڈھائی ہزار سال کی صحرائی ڈی کنڈیشننگ کے نتیجے میںایک نئی قوم پیدا ہوئی، جو آزادانہ طورپر سوچنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ قدیم اہلِ عرب کی یہی خصوصیت تھی جس کی بنا پر ایسا ہوا کہ انھوں نے پیغمبر اسلام کی دعوت کو سمجھا اور اس کو دل وجان کے ساتھ قبول کرلیا۔ اِس طرح وہ انقلابی ٹیم بنی جس کو اصحابِ رسول کہاجاتا ہے۔
یہی تاریخ موجودہ زمانے میں ایک نئی صورت میں دہرائی گئی ہے۔ موجودہ زمانے میں جو سائنسی انقلاب آیا، اُس کو مغربی مصنف جان فریڈرِک ویسٹ (John Fredrick West) نے اپنی کتاب میں عظیم ذہنی انقلاب (great intellectual revolution) کا ٹائٹل دیا ہے۔ زیر بحث موضوع کے اعتبار سے اِس انقلاب کو ڈی کنڈیشننگ کا ایک عظیم واقعہ(great event of de-conditioning) کہنا زیادہ صحیح ہوگا۔
جدید سائنسی انقلاب کا ایک پہلو، اس کا ٹکنکل پہلو ہے۔ اور اس کا دوسرا پہلو، اس کا فکری پہلو ہے۔ فکری پہلو کے اعتبار سے سائنس نے جو کارنامہ انجام دیا، وہ اپنی گہرائی اور وسعت کے اعتبار سے عالمی ڈی کنڈیشننگ (universal de-conditioning) کے ہم معنیٰ تھا۔ اِس کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مائتھا لوجی اور توہم پرستی(superstitions) کے زیر اثر سوچنے کا دور عملی طورپر ختم ہوگیا۔ اب لوگوں کے اندر بڑے پیمانے پر روحِ تجسس(spirit of inquiry) پیدا ہوئی۔ لوگ قومی اور سماجی تعصبات سے اوپر اٹھ کر خالص موضوعی (objective) انداز میں سوچنے لگے، چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted)لینے کا دور ختم ہوگیا اور ثابت شدہ حقائق کی بنیاد پر اُن کو ماننے کا زمانہ آگیا۔ قدیم زمانے میں مسلّمات پر مبنی سوچ کا طریقہ رائج تھا، اب یہ ذہن بن گیا کہ حقیقی وجود صرف اُس چیز کا ہے جو سائنسی جانچ (scientific scrutiny) پر پوری اُترے۔
تحقیق کا یہ ذہن ابتداء ً مخصوص سائنسی موضوعات کے ذیل میں پیدا ہوا، مگر دھیرے دھیرے وہ مذہب کے دائرے تک پہنچ گیا۔ چناں چہ ایک نیا علمی موضوع پیدا ہوا جس کو تنقید ِعالیہ (higher criticism) کہا جاتا ہے۔ اِس سائنسی تنقید کے نتیجے میں تمام مذاہب کا علمی اور تاریخی استناد مشتبہ ہوگیا۔ اِس عموم میں صرف ایک استثنا تھا، اور وہ ہے مذہبِ اسلام کا استثنا۔
جدید سائنسی تحقیقات نے ایک طرف، دوسرے مذاہب کے بارے میں بتایا کہ وہ علمی اور تاریخی اعتبار سے ثابت شدہ مذہب کی حیثیت نہیں رکھتے۔ دوسری طرف، اِنھیں سائنسی تحقیقات کے ذریعے یہ ثابت ہوگیا کہ اسلام استثنائی طورپر ایک ایسا مذہب ہے جس کو علمی اور تاریخی اعتبار سے کامل استناد(credibility) کا درجہ حاصل ہے۔
اِسی کے ساتھ جدید سائنس نے اور بہت سے اُن موافق دلائل کو واضح کیا جس کو قرآن میں آیات (signs) کہاگیا ہے۔ اِس طرح دورِ جدید، دینِ خداوندی کے حق میں ایک عظیم نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ اِس دور میںایک طرف یہ ہوا کہ بہت بڑے پیمانے پر لوگوں کی ڈی کنڈیشننگ عمل میں آئی، یعنی ایک ایسا گروہ وجود میں آیا جو ہر قسم کے پیشگی تعصبات (pre-occupations) سے آزاد ہو کر خالص جوہر (merit) کی بنیاد پر رائے قائم کرسکتا تھا۔
فیصلے کی یہ بنیاد جو موجودہ زمانے میں تاریخ کے طویل عمل کے بعد پیدا ہوئی، وہ عین دین ِخداوندی کے حق میں تھی، مگر اِس امکان کو حقیقی طورپر استعمال نہ کیا جاسکا۔ اِس کا سبب صرف ایک تھا، اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے کے تقریباً تمام مسلم رہ نما اور مفکرین مواقع بلائنڈ (opportunity blind) ہوگئے، وہ جدید مواقع کو دیکھنے سے مکمل طورپر محروم رہے۔ انھوں نے انتہائی نادانی کے ساتھ جدید حالات کو اپنا دشمن سمجھ لیا اور اُس کے خلاف ایک ایسی غیر دانش مندانہ لڑائی میں مصروف ہوگئے جس کا انجام کامل تباہی کے سوا اورکچھ نہ تھا۔
موجودہ زمانہ میں دنیا بھر کے مسلم رہ نما، مواقع بلائنڈ کیوں ہوگئے، اِس کا جواب ہم کو ایک حدیثِ رسول سے ملتا ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حُبّک الشیٔ یعمی ویصمّ (أبوداؤد، کتاب الأدب) یعنی کسی چیز کی محبت تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔ اِس قولِ رسول میںایک اور مفہوم بھی لازمی طورپر شامل ہے، وہ یہ کہ: بُغضُک الشیٔ یعمی ویصمّ، یعنی کسی چیز کے ساتھ دشمنی تم کو اندھا اور بہرا بنا دیتی ہے۔
یہی موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں کے ساتھ ہوا۔ موجودہ زمانے میں جو انقلاب آیا، وہ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے آیا تھا۔ بعض سیاسی اسباب کے تحت، موجودہ زمانے کے مسلم رہ نماؤں نے مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کو اپنا دشمن سمجھ لیا، وہ ان سے نفرت کرنے لگے۔ اِس منفی نفسیات کی بنا پر ایسا ہوا کہ وہ مغرب کی طرف سے آئی ہوئی ہر چیز کو سازش اور دشمنی کی نظر سے دیکھنے لگے۔ مغربی قوموں یا مغربی تہذیب کے ذریعے اسلامی دعوت کے عظیم مواقع کھُلے تھے، لیکن یہ رہ نما اپنے منفی ذہن کی بنا پر اِن جدید مواقع کو دیکھنے سے قاصر رہے۔
میرے علم کے مطابق، اِس معاملے میں کسی بھی مسلم رہ نما کا کوئی استثنا نہیں۔ افغانستان کے سیدجمال الدین افغانی، عرب ورلڈ کے سید قطب، ایران کے آیت اللہ خمینی، انڈیا کے ڈاکٹر محمد اقبال سب یکساں طورپر اِس منفی نفسیات کا شکار بن گئے، حتی کہ مولانا حمید الدین فراہی جیسا غیر سیاسی آدمی بھی اپنے آپ کو اِس منفی نفسیات سے محفوظ نہ رکھ سکا۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ہم اِس معاملے پر نظرِثانی کریں اور شخصیت پرستی کے دائرے سے باہر آکر جدید مواقع کو سمجھیں۔ اِس کے بغیر نہ جدید مواقع کی معرفت حاصل ہوگی اور نہ ان کو استعمال کرنا ممکن ہوسکے گا۔
جدید دور نے جو عظیم مواقع اسلامی دعوت کے حق میں پیدا کیے، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جدید دور میں پہلی بار حق کے داعیوں کو ایک عظیم استدلالی امکان حاصل ہوا، جس کو مشترک استدلالی بنیاد (mutually accepted ground) کہاجاسکتا ہے۔
قدیم زمانے میں جن داعیانِ حق نے دعوت الی اللہ کا کام کیا، اُن کے پاس اپنے پیغام کی صداقت کو ثابت کرنے کے لیے صرف روایتی دلیل ہوتی تھی۔ اُس زمانے کا ذہنی فریم ورک روایتی عقائد پر قائم تھا، اِس لیے اُس زمانے کے داعیوں نے اس فریم ورک کے مطابق کلام کیا اور روایتی دلائل کی زبان میں اپنا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ اِس میں استثنا صرف پیغمبروں کا ہے، جنھوں نے خدا کی خصوصی نصرت کے تحت کچھ معجزات پیش کیے، جن کو اُن کے معاصرین نے جادو کا کرشمہ کہا اور اس کو ماننے سے انکار کردیا۔
موجودہ زمانے میں سائنسی انقلاب کے بعد پہلی بار یہ امکان پیدا ہوا ہے کہ ایسی بنیاد پر اپنی بات کو ثابت کیا جائے جس کا دلیل ہونا، فریقِ ثانی کے نزدیک بھی تسلیم شدہ ہو۔ اِس قسم کی مشترک استدلالی بنیاد پہلے زمانے میں ممکن نہ تھی، مگر آج وہ پوری طرح ایک ممکن چیز بن گئی ہے۔ مگر موجودہ زمانے کے مسلم رہ نما اپنی منفی نفسیات کی بنا پر موجودہ زمانے کو صرف مسائل (problems) کی نظر سے دیکھتے رہے، وہ موجودہ زمانے کو مواقع(opportunities) کی نظر سے نہ دیکھ سکے۔ اِس بنا پر وہ اِن مواقع کو استعمال کرنے سے بھی قاصر رہے۔
مثلاً قدیم زمانے میں تمام فلاسفہ اور سیکولر مفکرین یہ سمجھتے تھے کہ دینی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے اوّل درجے کا استدلال (primary rationalism) موجود نہیں، دینی حقیقتوں کے لیے صرف ثانوی درجے کا استدلال (secondary rationalism) ممکن ہے۔مثال کے طورپر قدیم زمانے کے علمائِ الٰہیات، خدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے وہ دلیل استعمال کرتے تھے، جس کو ڈزائن سے استدلال (argument from design) کہاجاتا ہے، یعنی دنیا کی چیزوں میں ڈزائن ہے تو ضرور اُن کا ایک ڈزائنر ہے:
Where there is a de sign, there is also a designer, and when designer is proved, existence of God is also proved.
اِس استدلال کو قدیم سیکولر مفکرین یہ کہہ کر نظر انداز کردیتے ہیں کہ یہ ایک استنباطی استدلال (inferential argument) ہے، نہ کہ براہِ راست استدلال (direct argument) ۔ لیکن موجودہ زمانے کی سائنسی تحقیقات نے اس اعتراض کو بے بنیاد ثابت کردیا۔ اب یہ ثابت ہوگیا کہ استنباطی استدلال واحد استدلال ہے جو اِس دنیا میں ممکن ہے، سیکولر حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی اور مذہبی حقیقتوں کو ثابت کرنے کے لیے بھی۔
یہ حقیقت اُس وقت سامنے آئی، جب کہ بیسویں صدی میں سائنس کی تحقیقات عالمِ کبیر (macro world) سے گزر کر عالمِ صغیر (micro world)تک پہنچ گئیں۔جب تک انسان کا علم عالم کبیر تک محدود تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ چیزیں قابلِ مشاہدہ ہیں، صحیح استدلال وہی ہے جو مبنی بر مشاہدہ ہو، لیکن بیسویں صدی میں جب انسانی علم ترقی کرکے عالمِ صغیر تک پہنچ گیا تو معلوم ہوا کہ اس دنیا میں کوئی بھی چیز قابلِ مشاہدہ نہیں۔علم کی اس ترقی کا فکری نتیجہ تھا کہ استدلالی منطق میں تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ مان لیا گیا کہ استنباطی استدلال بھی اتنا ہی معقول (valid) ہے، جتنا کہ براہِ راست استدلال ۔
اصولِ استدلال میں اس تبدیلی سے الٰہیات یا علم کلام میں بنیادی تغیر واقع ہوگیا۔ اب یہ ممکن ہوگیا کہ مذہب کے تصورات کو ٹھیک اسی منطقی بنیاد پر ثابت کیا جاسکے، جس بنیاد پر اس سے پہلے غیر مذہبی تصورات کو ثابت کیا جاتا تھا۔ان مذہبی تصورات میں وہ تمام تصورات شامل ہیں جن کو مذہبی عقائد کہاجاتا ہے۔ مثلاً توحید، ملائکہ، نبوت، آخرت، جنت اور جہنم، وغیرہ۔ اس طرح منطقی اعتبار سے وہ فرق باقی نہ رہا جو روایتی طورپر مذہبی علم اور سیکولر علم کے درمیان سمجھا جاتا تھا۔ اب استدلالی بنیاد کے اعتبار سے دونوں کی سطح بالکل یکساں ہوگئی ہے۔ یہ بہت بڑا علمی انقلاب ہے جو جدید دور میں پیش آیا ہے۔
مہدی اور مسیح کی آمد
حدیث کی کتابوں میں کئی ایسے کردار کا ذکر ہے جو تاریخِ انسانی کے آخری د ور میں ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے دو کردار وہ ہیں جن کے لیے حدیث میں مہدی اور مسیح کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن روایتوںکو لے کر مسلمانوں کے اندر شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ ذہن بن گیا ہے جس کو ایک فارسی شاعر نے اِن الفاظ میں بیان کیا ہے:
مَردے از غیب بروں آید وکارے کند
یعنی وہ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ دینِ خداوندی کے سلسلے میں کوئی بڑا کام اُس وقت انجام پائے گا جب کہ کوئی ’’آنے والا‘‘ پُر اسر ار طورپر آئے گا اور معجزاتی طورپر بڑے بڑے کام کر ڈالے گا۔ اِس تصور نے مسلمانوں کے اندر ذہنی جمود (intellectual stagnation) کی حالت پیدا کردی ہے۔ ان کے اندر سے تخلیقی فکر(creative thinking) کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ دین کی دعوت کے لیے کسی بڑے کام کا حوصلہ ان کے اندر موجود نہیں ۔ عام انسانوں کے لیے ذمہ داری کا کوئی احساس وہ اپنے اندر نہیں پاتے۔ ان کا ذہن یہ بن گیا ہے کہ اپنے اور اپنے اہلِ خاندان کے معاملات کو درست کرنے میں لگے رہیں، اس کے علاوہ انسانیتِ عامہ کی نسبت سے جو وسیع تر ذمہ داریاں ہیں، ان کے سلسلے میں ان کو صرف یہ کرنا ہے کہ کسی آنے والے کا انتظار کرتے رہیں۔ ’’مَردے از غیب‘‘ کے اِس عقیدے کا انجام یہ ہوا ہے کہ ان میں سے تقریباًہر شخص کے اندر ایک کم زور شخصیت پیدا ہوگئی ہے۔
ہر ایک کا یہ حال ہے کہ اپنے ذاتی مفاد کے معاملے میں وہ آخری حد تک با عمل ہے، اور انسانیت عامہ کے مفاد کے معاملے میں آخری حد تک بے عمل ۔ وہ اکرامِ خویش کو جانتاہے لیکن وہ اکرامِ غیر کو نہیں جانتا۔ اس کے پاس اپنوں کے لیے دعائیں ہیں اور ’’اغیار‘‘ کے لیے صرف بد دعائیں۔ اپنے لیے تو انھوں نے جنت الفردوس میں رزرویشن کرارکھا ہے، لیکن دوسری قوموں کو جہنم سے بچانے کی ان کو کوئی فکر نہیں۔ وہ اپنے معاملات کے بارے میں آخری حد تک خوش فہم بنا ہوا ہے، وغیرہ۔ اس قسم کی کمزوریاں مسلمانوں کے اندر عام طورپر پیدا ہوگئی ہیں اور یہ صرف اس بات کا نتیجہ ہیں کہ موجودہ مسلمانوں نے یہ عقیدہ بنا لیا ہے کہ دینی دعوت کاکوئی بڑا کام صرف اس وقت انجام پائے گا جب کہ پُر اسرار طور پر ایک معجزاتی شخصیت، ہندو اصطلاح کے مطابق، اچانک پرکٹ ہوجائے گی اور پھر وہ خود ہی تمام مسلمانوں کے حصے کا کام کر ڈالے گی۔
اس قسم کے تمام خیالات بلا شبہہ بے بنیاد ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حدیث میں مہدی اور مسیح کے نام سے مستقبل کے جن کرداروں کا ذکر آیا ہے، وہ کردار کے حوالے سے مواقع کی پیشین گوئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد کے زمانے میں تاریخی عمل (process) کے نتیجے میں نئے قسم کے عظیم مواقع ظاہر ہوں گے۔ اُس وقت یہ ممکن ہوجائے گا کہ کوئی خدا کا بندہ ان مواقع کو استعمال کرکے بہت بڑا دعوتی کام انجام دے گا۔
اس قسم کی حدیثیں کسی کراماتی شخصیت کے ظہور کی پیشین گوئی نہیں ہیں، بلکہ وہ شخصیت کے حوالے سے کراماتی مواقع کے ظہور کی پیشین گوئی ہیں۔ موجودہ زمانے میں یہ عظیم مواقع مکمل طورپر ظہور میںآچکے ہیں۔ اب آخری وقت آگیا ہے کہ ان مواقع کو پہچانا جائے اور ان کا بھر پور استعمال کرکے دعوتِ حق یا عظیم ترین شہادت کا وہ کام انجام دے دیا جائے جو دورِ آخر کے لیے خدا نے مقدر کیا ہے۔
تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا
حالیہ برسوں میں دنیا بھر کے سائنس دانوں نے ایک نئے موضوع پر بہت بڑے پیمانے پر تحقیقات کی ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی (climatic change) کا موضوع ہے۔ یہ تحقیقات سب سے بڑے عالمی ادارہ، اقوامِ متحدہ (یو این او) کے تحت کی گئی ہیں۔ان تحقیقات کے ذریعے نہایت حتمی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ یہ معلومات سائنسی تیقّن (scientific certainty) کی حد تک درست سمجھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں نے متفقہ طورپر ان نتائجِ تحقیق کی تصدیق کی ہے۔
ان سائنسی تحقیقات کے نتیجے میں مسلّمہ طورپر یہ معلوم ہوا ہے کہ ہماری زمین کے اوپر جو لائف سپورٹ سسٹم قائم تھا، وہ تیزی سے تباہ ہورہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، برف کے ذخیروں کا پگھلنا، سمندروں میں پانی کی سطح کا خطرناک حد تک بڑھنا، ہوائی کثافت، وغیرہ کے نتیجے میں زمین کے حالات، زندگی کے لیے خطرناک حد تک بدلتے جارہے ہیں۔ زمین کے مختلف حصوں میں تیزی سے جانور ہلاک ہورہے ہیں، سمندروں کی مچھلیاں ختم ہورہی ہیں۔ غرض مختلف قسم کے تباہ کن حالات بتارہے ہیں کہ زمین پر انسانی تاریخ کا خاتمہ قریب آگیا۔ اور انسانی تاریخ کے خاتمے ہی کا دوسرا نام قیامت کا آنا ہے۔
حال میں ایک عالمی سائنسی رپورٹ کو چھاپتے ہوئے نئی دہلی کے انگریزی اخبار ’ہندستان ٹائمس، نے اس کا یہ عنوان قائم کیا تھا— اب قیامت زیادہ د ور نہیں:
Doomsday not far
ایسی حالت میں یہ کہنا بالکل درست ہوگا کہ انتظار کا وقت ختم ہوگیا۔ خدا کی طرف سے فائنل کال آگئی۔ اب نہ الون ٹافلر(Alvin Toffler) جیسے سیکولر مفکرین کے لیے سُپر سویلائزیشن کی آمد کا انتظار کرنے کا موقع ہے اور نہ امتِ محمدی کے لیے اس انتظار کا موقع کہ مہدی اور مسیح کی صورت میں پُراسرار طورپر کسی شخصیت کا ظہور ہوگا اور وہ خدا کا مطلوب دعوتی کام عالمی سطح پر انجام دے دے گا۔
اب انتظار کرنے والوں کے لیے جو چیز مقدر ہے، وہ کسی طلسماتی شخصیت کا ظہور نہیں، بلکہ صورِ اسرافیل کااعلان ہے۔ پیغمبر ِ خاتِم پر ایمان رکھنے والوں کے لیے فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ اپنی توانائی کا ہر حصہ دعوت الی اللہ کے کام میں لگا دیں۔ وہ اسرافیل کے فائنل اعلان سے پہلے اپنے حصے کا کام کردیں۔
دابّہ کادَور
دعوتی پیغام کو پھیلانے کے دو ذریعے ہیں— قول اور تحریر۔ قدیم زمانے میں اِن دونوں طریقوں کو دعوت کے لیے استعمال کیاگیا، لیکن سائنسی دور سے پہلے دونوں ذریعے صرف محدود دائرے میںاستعمال ہوسکتے تھے۔ داعی کا قول صرف وہ لوگ سن سکتے تھے جواس کے قریب موجود ہوں۔ یہی معاملہ تحریر کا تھا۔ قدیم زمانے میں کوئی داعی صرف ہاتھ سے کسی لَوح یا کاغذ پر اپنا پیغام لکھ سکتا تھا۔ ہاتھ سے لکھنے کے سوا کوئی اور ذریعہ اُس وقت موجود نہ تھا۔ اِس محدودیت کی بنا پر حق کا داعی صرف اپنے قریبی دائرے میں حق کا پیغام پہنچانے کی استطاعت رکھتا تھا۔ گویا کہ قدیم زمانے میں ہر داعی ایک مقامی داعی کی حیثیت رکھتا تھا، نہ کہ بین اقوامی داعی کی حیثیت۔
موجودہ سائنسی دور میں کمیونکیشن میں غیر معمولی انقلاب آیا ہے۔ تاریخ میں پہلی بار انسان کو وہ چیز حاصل ہوئی جس کو پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کہاجاتا ہے۔ اِس طرح جدید ذرائع ابلاغ نے قول اور تحریر دونوں کے اندر تیز رفتاری کی صفت پیدا کردی۔ اب انسان کو وہ چیز حاصل ہوگئی جس کو فاصلاتی پیغام رسانی (telecommunication) کہا جاتا ہے۔
غالباً یہی وہ متحرک ذریعہ ہے جس کو قرآن میں دابّہ (النّمل: 82) کہاگیا ہے۔ دابّہ کے لفظی معنٰی ہیں رینگنے والا (creeper) ، یعنی وہ چیز جو متحرک ہو کر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچے۔ قرآن کا یہ ارشاد کہ بعد کے زمانے میں ایک دابّہ ظاہر ہوگا، اِس سے مراد غالباً یہی تیز رفتار مشینی حرکت کا دور ہے جو سائنسی انقلاب کے بعد سامنے آیا ہے۔ تیز نشریاتی ذرائع کی اِس ٹیکنیک نے مختلف صورتیں پیدا کی ہیں، جن کے مجموعے کو موجودہ زمانے میں ملٹی میڈیا(multi media) کہاجاتا ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پیغمبر آخر الزماں کو سارے عالم کے لیے نذیر بنا کر بھیجا ہے (الفرقان:1 ) مگر ساتویں صدی کے رُبع اوّل میں جب کہ پیغمبر آخر الزماں کا ظہور ہوا، اُس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا ظہور عمل میں نہیں آیا تھا۔ حدیث میںآیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئندہ وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ خدا اسلام کے کلمہ کو ساری دنیا کے تمام گھروں میں پہنچا دے (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر، إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام )
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت، دعوت کی تاریخ میں ایک مسلسل عمل (process) کو ظہور میں لانے کے ہم معنٰی تھا۔ آپ کے ذریعے ایک ایسا دعوتی عمل ظہور میں آیا، جس کا آغاز عرب سے ہوا اور پھر ایک مسلسل عمل (process) کے روپ میں وہ بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ سارے عالم پر محیط ہوگیا۔
مگر اسباب کی اِس دنیا میں ہر دعوتی کام انسانوں کے ذریعے انجام پاتا ہے۔دورِ اول میںاسلام کا پھیلاؤ اصحابِ رسول کے ذریعے ہوا تھا،بعد کے زمانے میں بھی یہ دعوتی عمل ایک انسانی گروہ کے ذریعے انجام پائے گا۔ غالباً اسی لیے حدیث میں بعد کے زمانے میں ظاہر ہونے والے ایک گروہ کا ذکر ہے جس کو ’اخوانِ رسول‘ کہاگیا ہے۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ روایتی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اصحابِ رسول کے ذریعے انجام پائے گا، اور سائنسی کمیونکیشن کے دور میں یہ دعوتی کام اُن لوگوں کے ذریعے انجام پائے گا جن کو حدیث میں اخوانِ رسول کا نام دیا گیا ہے۔
اصحابِ رسول کے بارے میں حضرت عمر فار وق نے فرمایا تھا: مَن سرّہ أن یکون من ہذہ الأمۃ، فلیؤدّ شرط اللہ فیہا (ابن کثیر، جلد1، صفحہ 396) یعنی جو شخص اصحابِ رسول کی اِس امت میںشامل ہونا چاہے، وہ اس کے بارے میں خدا کی شرط کو پورا کرے۔ وہ شرط یہ تھی کہ پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی مہم میںاپنے وقت اور اپنے مال اور اپنی توانائی کو پوری طرح لگا دینا۔ پیغمبر اسلام کے معاصر اہلِ ایمان نے اِس شرط کو پورا کیا، اِس لیے وہ اصحابِ رسول قرار پائے۔
موجودہ زمانے میں دوبارہ دعوت الی اللہ کے نئے امکانات کھلے ہیں۔ اب دوبارہ وہی صورتِ حال پیداہوگئی ہے کہ کچھ لوگ اٹھیں اور جدید مواقع دعوت کو استعال کرکے دینِ خداوندی کے پیغام کو سارے عالم تک پہنچا دیں۔ یہی وہ عالمی دعوتی کام ہے جس کو حدیث میںعظیم ترین شہادت قرار دیاگیا ہے۔ اصحاب رسول کو یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوا تھا، اِسی طرح اخوانِ رسول کو بھی اخوانِ رسول کا یہ درجہ مطلوب عمل کے ذریعے حاصل ہوگا۔ عمل کے بغیر نہ اصحابِ رسول، اصحابِ رسول بنے تھے، اور نہ اب یہ ممکن ہے کہ کوئی گروہ مطلوب عمل کے بغیر اخوانِ رسول کادرجہ حاصل کرلے۔
اخوانِ رسول تاریخ کا آخری خدائی اعزاز ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اِس حقیقت کو سمجھیں اور اپنی توانائیوں کو نصرتِ خداوندی کے اِس مشن میں لگا کر خدا کے یہاں تاریخ کا عظیم انعام حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

گلوبل وارمنگ یا ڈِوائن وارننگ

ساری دنیا کے سائنس دانوں کی طرف سے آج کل مسلسل گلوبل وارمنگ کی خبریں آرہی ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور الکٹرانک میڈیا دونوں کے ذریعے روزانہ اِس خطرے کی بابت لوگوں کو آگاہ کیا جارہا ہے۔
20 دسمبر 2007 کو انڈیا ٹی وی (نئی دہلی) میںایک لمبا تفصیلی پروگرام تھا جس کاعنوان تھا— قیامت پانچ سال میں ۔ ان رپورٹوں میں سائنس دانوں کی زبان سے وارننگ کے طورپر آگاہ کیا گیا ہے کہ کلائمٹ چینج (climate change)اب کلائمٹ ڈزاسٹر (climate disaster)بنتا جارہا ہے۔ زمین پر گرمی بہت زیادہ بڑھ رہی ہے اور لائف سپورٹ سسٹم کا متوازن نظام ٹوٹ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں ساری دنیا کے مختلف حصوں میں بسنے والے انسانوں کے لیے وہ وقت تیزی سے آرہا ہے جب کہ ان کے لیے اس سیارہ زمین پر زندہ رہنا ہی ممکن نہ ہوگا۔
جیسا کہ معلوم ہے، قطب شمالی اور قطب جنوبی میں برف کی بہت بڑی بڑی کیپ (ice cap) تھی۔ اسی طرح پہاڑوں کے اوپر گلیشیر کی صورت میں برف کے بہت بڑے بڑے تودے موجود تھے۔ یہ گویا میٹھے پانی کے بڑے بڑے اسٹور ہاؤس (store house) تھے۔ گلوبل وارمنگ کے اثر سے یہ ذخیرے بہت زیادہ تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ ان کا پانی دریاؤں کے راستے بہہ کر سمندر میں چلا جارہا ہے۔ اِس طرح میٹھا پانی دوبارہ کھاری پانی بنتا چلا جارہا ہے۔
اِس کا نتیجہ دو ناقابلِ برداشت ہلاکتوں کی صورت میں ظاہر ہونے والا ہے۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف یہ ہوگا کہ بہت جلد سمندروں میں پانی کا لیول بہت اونچا ہوجائے گا۔ اِس بنا پر یہ ہوگا کہ ساحلی شہر ڈوب کر ختم ہوجائیں گے۔ مثلاً انڈیا میں کلکتہ اور بمبئی اور مدراس، وغیرہ۔ دوسری طرف، غیرساحلی مقامات خطرناک حد تک پانی کی کمی کا شکار ہوجائیں گے۔ پانی کی قلت اتنی زیادہ بڑھ جائے گی کہ عین ممکن ہے کہ پانی کے حصول کے لیے تیسری عالمی جنگ شروع ہوجائے۔
دریاؤں میں پانی مسلسل اس لئے رہتاہے کہ پہاڑوں کی برف پگھل کر دھیرے دھیرے چشموں کی صورت میں سال بھر اوپر سے نیچے آتی رہتی ہے اور دریاؤں میںشامل ہوتی رہتی ہے۔ لیکن جب پہاڑوں کی برف پگھل کر ختم ہوجائے گی توفطری طورپر دریاؤں کا پانی بھی خشک ہوجائے گا۔ دوسری طرف یہ سارا پانی سمندروں میں جاکر مل جائے گا اور تمام میٹھا پانی کھاری پانی بن جائے گا۔ اس کے بعد سمندروںمیں اگر چہ بہت پانی ہوگا لیکن سخت کھاری ہونے کی بنا پر یہ پانی نہ آب پاشی کے قابل ہوگا اور نہ پینے کے قابل۔ گویا کہ وہی صورتِ حال عالمی سطح پر پیدا ہو جائے گی جس کی تصویر اٹھارھویں صدی کے شاعر کولرج (Coleridge) نے اپنی ایک نظم میں ان الفاظ میں کھینچی تھی:
Water water everywhere
Nor a drop to drink
خدا کے پیغمبر برابر یہ بتاتے رہے تھے کہ موجودہ دنیا ابدی نہیں ہے۔ اس کا مسلسل کاؤنٹ ڈاؤن (countdown) ہو رہا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب کہ وہ اپنی عمر پوری کرکے ختم ہوجائے گی۔ تمام قرائن بتارہے ہیں کہ اب یہ کاؤنٹ ڈاؤن بہت جلد اپنے آخری نمبر پر پہنچنے والا ہے۔
بیسویں صدی کے سائنس دانوں نے ضابطۂ ناکارگی (Law of Entropy) کو دریافت کرکے بتایا تھا کہ دنیا کی انر جی مسلسل ختم ہورہی ہے۔ اس عمل کو واپسی کی طرف لوٹایا نہیں جاسکتا۔اس لئے یہ یقینی ہے کہ ایک مقرر مدت کے بعد موجودہ دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اب اکیسویں صدی کے سائنس داںاپنی تازہ تحقیقات کے مطابق، بتارہے ہیں کہ اب خاتمے کی یہ مدت بہت زیادہ قریب آچکی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مدت 10 سال یا 20 سال سے بھی کم ہو۔
یہ بات جو میڈیا میں گلوبل وارمنگ(global warming) کے عنوان سے آرہی ہے، وہ دراصل ڈوائن وارننگ (divine warning)ہے۔ یہ خالق کی طرف سے اِس بات کا اعلان ہے کہ خالق کے منصوبے کے مطابق ، اب دنیا کی مقرر مدت پوری ہوچکی ، دنیا کی مقرر مدت کا پہلا دور (first phase) ختم ہوچکا۔ اب بہت جلد یہ ہونے والا ہے کہ موجودہ دنیا کو ختم کرکے اس کی عمر کادوسرا دور (second phase) شروع کیا جائے۔ پہلا دور ٹسٹ کے لیے تھا اور ٹمپرری تھا۔ دوسرا دور انجام کے لیے ہے اور ابدی ہوگا۔
موجودہ دنیا میں انسان کو عمل کی آزادی دی گئی تھی۔ یہ آزادی کسی استحقاق کی بنا پر نہ تھی، بلکہ وقتی طورپر صرف امتحان کے لیے تھی۔ یہ اس لیے تھی تاکہ یہ دیکھا جائے کہ کون آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کون اس کا غلط استعمال کرتاہے۔ فطرت کے نظام کے تحت ہر عورت اور مرد کا ریکارڈ تیار کیا جارہا ہے۔ اگلے مرحلۂ حیات میں یہ ریکارڈ خالق کے سامنے پیش ہوگا۔ جس شخص کا ریکارڈیہ بتائے گا کہ اس نے اپنی آزادی کا صحیح استعمال کیا، اس کو اس کا خالق جنت میں جگہ دے گا، جہاں وہ ابدی طورپر راحت اور مسرت کی زندگی گزارے گا۔ قرآن کے الفاظ میں، ایسے لوگ جنت الفردوس میں جگہ پائیں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے(الکہف: 107-108)۔ اس کے برعکس، جن لوگوں کا ریکارڈ بتائے گا کہ انھوںنے اپنی آزادی کا غلط استعمال کیا، ان کو خالق کے فیصلے کے تحت جہنم میں داخل کردیا جائے گا، جہاں پیغمبر مسیح کے الفاظ میں وہ ابد تک غم اور حسرت کی زندگی گزاریں گے:
There will be wailing and weeping for all eternity (Matthew 13:42)
اب آخری وقت آگیا ہے کہ سارے مرد اور عورت جاگ اٹھیں۔ وہ اپنا محاسبہ (introspection) کریں۔ وہ اگلے مرحلۂ حیات میںکامیاب زندگی حاصل کرنے کو اپنا واحد کنسرن بنائیں۔ ہر عورت اور مرد کو جاننا چاہیے کہ موجودہ دنیا میں ان کو جو چانس ملا تھا، وہ پہلا اور آخری چانس تھا، اس کے بعد کوئی دوسرا چانس انھیں ملنے والا نہیں ۔ موجودہ گلوبل وارمنگ بتارہی ہے کہ — اب لوگوں کے لیے پائنٹ آف نورٹرن (point of no return) آچکا ہے۔ ملے ہوئے موقع کو استعمال کرلیجئے، اس سے پہلے کہ اس کو استعمال کرنے کا وقت ہی ختم ہوجائے اور پھر نہ موجودہ دنیا کی طرف واپسی کا امکان ہو اور نہ اگلی دنیا میں عمل کرنے کا امکان۔
واپس اوپر جائیں

انسانی تاریخ کے دو دَور

خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ پھر اس نے انسان کی تاریخ کو دو دور میں بانٹ دیا۔ پہلا مختصر دور پیدائش سے لے کر موت تک، اور دوسرا طویل تر دور موت کے بعد، جس میں انسان ابدی طورپر رہے گا۔ اِن میں سے پہلا امتحان (test) کا دور ہے۔ اور دوسرا دور پہلے دور کے ریکارڈ کے مطابق، ابدی انجام پانے کا دور۔
تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت ہمیشہ اِس حقیقت سے بے خبر رہی۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ غالباً وہ چیز ہے جس کو کنڈیشننگ (conditoning) کہاجاتا ہے۔ انسان جب اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو فوراً ہی اس کو ماں اور باپ اور رشتے دار مل جاتے ہیں۔ وہ کما کر پیسہ حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے لیے ایک گھر بناتا ہے اور اپنی کوششوں کے ذریعے دھیرے دھیرے زندگی کے تمام سامان حاصل کرلیتا ہے۔ بظاہر وہ دیکھتا ہے کہ ہر چیز جو اس کو مل رہی ہے، وہ خود اس کی اپنی کوشش کے ذریعے مل رہی ہے۔
اِس طرح شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے اندر وہ ذہن بنتا ہے جس کو ملکیت (ownership) کہاجاتا ہے۔ اس کے اندریہ ذہن بن جاتا ہے کہ اِس دنیا میںاُس کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ سب اس کی ملکیت ہیں اوروہ اس کو اپنی ذاتی کوشش کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں، یہ تمام چیزیں سامانِ ملکیت ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ سمجھ نہیں پاتا کہ اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے چیزوں کی اصل نوعیت کیا ہے۔ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے چیزیں سامانِ امتحان ہیں، مگر انسان کنڈیشننگ کی بنا پر اُن کو سامانِ ملکیت سمجھ لیتا ہے۔
یہی موجودہ دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان کی پوری زندگی زیر امتحان زندگی ہے۔یہاں انسان کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ اس کے لیے پرچۂ امتحان (test paper) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس اعتبار سے انسان کے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ہر لمحہ اِس احساس کے ساتھ رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے، بلکہ پابند ہے۔ وہ چیزوں کا مالک نہیں ہے، بلکہ تمام چیزیں وقتی طورپر اس کے تصرف میں دی گئی ہیں تاکہ اِن چیزوں میں جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ صحیح عمل کرنے والا ہے، یا غلط عمل کرنے والا۔
اِس دنیا میں آدمی ایک گھر بناتا ہے اور اُس کو وہ ’’اپنا گھر‘‘ کہتا ہے۔ وہ اپنے نام پر اس کا نام رکھتا ہے۔ یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر گھر ٹسٹ ہاؤس ہے۔ اِس دنیا میں ہر کارٹسٹ کار ہے۔ اِس دنیا میں ہر پراپرٹی ٹسٹ پراپرٹی ہے۔ اِس دنیا میں ہر اولاد ٹسٹ اولاد ہے۔ اِس دنیا کی تمام چیزیں ٹسٹ کا سامان ہیں۔
مگر آدمی اِس سب سے بڑی حقیقت کو بھولا ہوا رہتا ہے، یہاں تک کہ اچانک اس کی موت آتی ہے اور وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر بالکل تنہا اگلے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو میں اپنی چیزیں سمجھتا تھا، وہ تو خدا کی طرف سے امتحان کے لیے وقتی طورپر ملی ہوئی تھیں۔ پچھلا دورِ حیات ختم ہوتے ہی وہ سب کی سب مجھ سے چھین لی گئیں۔ اب مجھے ایک ایسی دنیا میں رہنا ہے جہاں مجھے مکمل طورپر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنا ہے۔ اِس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہوں گے جن کو اُن کے حسنِ عمل کے نتیجے میں دوبارہ تمام چیزیں بطور انعام دے دی جائیں گی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرّ البلاد الی اللہ أسواقہا(صحیح مسلم، کتاب المساجد) یعنی تمام جگہوں میں سب سے بُری جگہ بازار ہے۔ بازار کیا ہے۔ بازار، وہ مقام ہے جہاں سے آدمی چیزوں کو خرید کر حاصل کرتاہے۔ بازار خرید و فروخت کی علامت ہے۔ اس طرح بازار آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ چیزیں صرف خرید کر ملتی ہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ چیز کی قیمت ادا کرو اور تم کو وہ چیز مل جائے گی۔
موجودہ دنیا میں ملکیت (ownership) کا قانون رائج ہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ملکیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مکان، گاڑی، سازوسامان، استعمال کی چیزیں ، کنزیومر گُڈس، تمام چیزیں آدمی کو اِس طرح ملتی ہیں کہ وہ ان کی قیمت ادا کرتا ہے اور پھر وہ ان کا مالک بن جاتا ہے۔
اِس طرح یہ دنیا ایک فریب کی جگہ(deceptive world) بن گئی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے دنیا کی ہر چیز امتحان کا پرچہ (test paper) ہے۔ وہ خدا کی طرف سے انسان کو اس کی آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ لیکن خرید وفروخت کے موجودہ نظام کی بنا پر آدمی غلط طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ چیزیں اس کو قیمت ادا کرکے حاصل ہورہی ہیں۔
اِس صورت ِ حال کی بنا پر ہر آدمی ایک فریب میں جی رہا ہے۔ وہ امتحان کے ذریعے ملی ہوئی چیزوں کے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کو بطورملکیت حاصل ہوئی ہیں۔یہ صورت حال بلاشبہہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی احساسِ ملکیت کے تحت زندگی گزارتا ہے، حالاں کہ اس کو احساسِ ذمے داری کے تحت زندگی گزارنا چاہیے۔
موت اس صورتِ حال کا خاتمہ ہے۔ موت کے وقت اچانک یہ تمام چیزیں انسان سے چھن جاتی ہیں۔ اُس وقت اچانک انسان پر یہ کھلتا ہے کہ جن چیزوں کے درمیان وہ زندگی گزار رہا تھا، وہ چیزیں صرف امتحان کی مدت تک کے لیے تھیں، موت نے اِس مدت کا خاتمہ کردیا۔ موت سے پہلے آدمی اپنے کو ’’سب کچھ والا‘‘ سمجھ رہا تھا، مگر موت کے بعد اچانک وہ ’’بے کچھ والا‘‘ بن جاتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو موت سے پہلے، خود سے فریب کے اس پردے کو پھاڑ دے، ورنہ موت اس پردے کو پھاڑے گی، لیکن موت کی طرف سے پردے کا پھاڑا جانا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
ثانیہ مرزا (21 سال) ٹینس کی مشہور کھلاڑی ہیں۔ ان کا وطن حیدرآباد ہے۔ ان کی برتھ ڈے پر ان کی ماں نسیمہ نے حیدر آباد کے ایک لگزری ہوٹل میں شان دار پارٹی دی۔ اِس کی رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (16 نومبر2007) میں اِس عنوان سے چھپی ہے:
Surprise party brings in Sania’s 21st birthday.
رپورٹ کے مطابق، ثانیہ مرزا کی ماں نسیمہ نے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ— میں اپنی بیٹی کے اوپر ہر دن اور ہر لمحہ فخر کرتی ہوں:
I am proud of my daughter, every moment of the day. (p. 28)
یہی آج تقریباًتمام عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ آج تمام لوگ اِسی قسم کے جھوٹے فخر میں مبتلا ہیں۔ کسی کو اپنی اولاد پر فخر ہے، کسی کو اپنی جائداد اور اپنے سازوسامان پر فخر ہے، کسی کو اپنے عہدے اور مقبولیت پر فخر ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ تمام چیزیں اس کو کیسے ملیں۔ اگر آدمی گہرائی کے ساتھ سوچے تو وہ جان لے کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز جو اس کو ملی ہوئی ہے، وہ سب خدا کا عطیہ ہے۔ ہر چیز براہِ راست خدا کی دین ہے۔ اگر آدمی اِس حقیقت کو جان لے تو اس کا سینہ احساناتِ خدا وندی کے جذبے سے بھر جائے گا۔ وہ کہہ اٹھے گا کہ ہر دن اور ہر لمحہ میں خداوند برتر کا شکر گزار ہوں:
I am grateful to God Almighty, every moment of the day.
واپس اوپر جائیں

فرائض اور نوافل

اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر دینی عمل عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی عبادات میں کچھ عبادتیں فرض ہیں، اور کچھ عبادتیں نفل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً روزانہ پانچ وقت کی نماز اسلام میں فرض ہے۔ اِسی کے ساتھ ایک عبادت وہ ہے جس کو تہجد کہاجاتا ہے۔ تہجد ایک نفل عبادت ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: فتہجّد بہ نافلۃً لک (الإسراء:79 )۔ اِس طرح اشراق اور چاشت کی نمازیں اور دوسری غیر مفروض نمازیں نفل کا درجہ رکھتی ہیں۔
’نفل‘ یا ’نافلہ‘ کے معنیٰ زائد (زائدۃ علی الفریضۃ) کے ہیں۔ نفل عبادت کا مطلب ہے فرض کے علاوہ مزید عبادت (additonal prayers) ۔ نفل عبادت کے معاملے میں ایک مشہور روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ یہ حدیثِ قُدسی ہے۔ اس کے ایک حصے کا ترجمہ یہ ہے:
’’بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میںاُس سے محبت کرتا ہوںتو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میںاس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا قلب بن جاتا ہوں جس سے وہ باتوں کو سمجھتا ہے (وقلبہ الذی یعقل بہ)، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، با ب التواضع، جلد 11، صفحہ 348 )۔
نفلی عمل سے مراد زائد عمل ہے۔ زائد عمل کا تعلق صرف نفلی نمازوں سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق ہر اُس اسلامی عمل سے ہے جو فرائض سے زیادہ کی حیثیت رکھتا ہو۔ اِس زائد اسلامی عمل میں ذکر اور تلاوت اور روزہ اور حج اور صدقات جیسے اعمال سے لے کر وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کو توسّم اور تفکر اور تدبّر ، وغیرہ کہاجاتا ہے۔ یہ تمام نفلی اعمال تعلق باللہ میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ نفل کے لفظ کو روایتی مفہوم میں لینے کے بجائے اس کے لغوی معنیٰ میں لینا چاہیے۔ اِس طرح، نفل کے لفظ میں وہ تمام توسیعی مفہوم اپنے آپ شامل ہوجاتا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔
آدمی جب ایمان قبول کرتا ہے تو وہ کلمۂ شہادت ادا کرتا ہے۔ کلمۂ شہادت ، اسلام میں داخلے کا دروازہ ہے۔ یہ داخلہ اسلام کا آغاز ہے، اس کی منزل نہیں۔ اِس داخلے کے بعد بار بار ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے۔ اِس اضافے کو قرآن اور حدیث میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے۔ اضافے کا یہ عمل، ایمان کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔ اِس عمل کے بغیر آدمی کا ایمان جامد ایمان بن جائے گا، وہ زندہ ایمان کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا۔
میڈیکل اصطلاح میںایک لفظ ہے، جس کو بوسٹر ڈوز(booster doze) کہاجاتا ہے۔ ڈاکٹر جب مریض کو ایک دوا دیتا ہے تو صرف ایک خوراک دینا کافی نہیں ہوتا۔ ایک خوراک کے بعد دوا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بار بار مزید خوراکیں دینی پڑتی ہیں۔ دوا کی اِس مزید خوراک کو بوسٹر ڈوز کہاجاتاہے۔
یہی معاملہ صحت مند انسان کا بھی ہے۔ صحت مند انسان بھی بار بار غذائی خوراک لیتا ہے۔ صبح کے ناشتے کے بعد دوبارہ وہ دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ پھر رات کا کھانا کھاتا ہے۔ اِس طرح غذاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ بار بار کی غذا بھی بوسٹر فوڈ(booster food) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی آدمی ایک بار کھانا کھالے اور اس کے بعد وہ پھر کبھی نہ کھائے تو ایسا آدمی اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
ایمان کے لیے نفلی اعمال اِسی طرح اضافی (additional doze) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِن اضافی خوراکوں کے بغیر کسی آدمی کا ایمان، زندہ اور متحرک ایمان نہیں بن سکتا۔ اِن اضافی خوراکوں میں جس طرح معروف عبادتی اعمال شامل ہیں، اسی طرح اس میں توسّم ، تذکّر اور تدبّر جیسے ذہنی اعمال بھی لازمی طورپر شامل ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے مسلسل طورپر اپنے ذہنی ارتقا کا سامان کرتا رہے، ورنہ اس کا ایمان، جامد ایمان بن کر رہ جائے گا۔
جامد ایمان اور زندہ ایمان کے درمیان وہی فرق ہے جو ہری بھری شاخ اور سوکھی لکڑی کے درمیان ہوتا ہے۔ جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کا ایمان سوکھی لکڑی جیسا بن کر نہ رہ جائے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل طورپر فکری خوراک لیتا رہے، جن کی حیثیت ایمان کی ترقی کے لیے بوسٹرفوڈ (booster food) کی ہے۔ اِس طرح کے بوسٹر ڈوز کے بغیر زندہ ایمان کا حصول ممکن نہیں۔ اس کے بغیر آدمی کا ایمان صرف ایک قانونی ایمان بن کر رہ جائے گا، وہ ربّانی ایمان کا درجہ حاصل نہ کرسکے گا۔
کان اور آنکھ اور عقل کے حوالے سے حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے آدمی کا ذوق، خداوندی ذوق (divine taste) بن جاتا ہے۔ وہ حیوانی ذوق سے اوپر اٹھ کر ذوق کی اُس اعلیٰ سطح پر پہنچ جاتا ہے جس کو ربّانی ذوق سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
حیوان کی سوچ اس کی ابتدائی ضرورتوں تک محدود رہتی ہے۔ انسان کی سوچ اِس سے وسیع ہوتی ہے، لیکن وہ بھی اپنی ذات کے دائرے میں عمل کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، خدا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اِس قسم کی تمام محدودیتوں سے برتر ہوتا ہے۔ جب کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’نوافل‘ کی کثرت کرتا ہے تو بلا تشبیہہ اس کی ذات میں خدا سے ایک قسم کی مماثلت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے ہر معاملے میں فطرت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ اس کی سوچ آفاقی سوچ بن جاتی ہے۔ اس کی پوری شخصیت خدا کے تخلیقی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی وہ ربّانی شخصیت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں مخصوص تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

بریک اِن ہسٹری

Break in History
گورنمنٹ سروس کے قاعدوں میںسے ایک قاعدہ یہ ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم بغیر رخصت (without an approved leave) دفتر میں حاضر نہ ہو، تو گورنمنٹ کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اس کو شکستِ ملازمت (break in service) کا کیس قرار دے دے۔ شکستِ ملازمت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سینیرٹی (seniority) ختم ہوجائے گی۔ وہ حقوق ملازمت کے اعتبار سے واپس ہو کر اپنے پہلے دن کے حال پر پہنچ جائے گا، جب کہ اس کا تقرّر ہوا تھا، اس کے لیے ملازمت کے پچھلے ایام کے اعتبار سے پروموشن (promotion) کا حق باقی نہ رہے گا:
A break in service is any separation from employment status.
یہ اصول زیادہ بڑے پیمانے پر ہر عورت اور مرد پر منطبق ہوتا ہے۔ اِس دوسرے عمومی اصول کو شکستِ تاریخ(break in history) کہا جاسکتا ہے، یعنی تاریخ کا ختم ہوجانا۔ کسی آدمی نے اپنے عمل سے اپنی جو تاریخ بنائی ہے، اس کا اچانک مٹ جانا اور انسان کا اپنے بے تاریخ دَور کی طرف لوٹ جانا۔
اِس دنیا میں ہر آدمی اپنی بنائی ہوئی تاریخ کی بنا پر کھڑا ہوتا ہے۔ ایک انسان یہاں پیدا ہوتاہے۔ اس کے بعد وہ دھیرے دھیرے بڑا ہوتا ہے۔ اس کو مختلف قسم کے مواقع ملتے ہیں، جن کو استعمال کرکے وہ اپنی ایک تاریخ بناتا ہے۔ گھر اور جائداد اور خاندان اور حلقہ اور شہرت اور اقتدار اور مال اور اسباب، وغیرہ۔ اِس قسم کی چیزیں اس کے گِرد اکھٹا ہوجاتی ہیں۔
اِس طرح اس کی اپنی بنائی ہوئی ایک تاریخ ہوتی ہے جس کے ذریعے اس کا تشخّص قائم ہوتاہے، اس کے ذریعے وہ اپنے آپ کو جانتا ہے اور اس کے ذریعے دوسرے لوگ اس کو پہچانتے ہیں۔ یہ معاملہ ہر عورت اور مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ ہر ایک مسلسل جدوجہد کے ذریعے اپنی ایک تاریخ بناتا ہے جس کے اوپر وہ کھڑا ہوتا ہے۔
لیکن کوئی بھی شخص لمبی مدت تک اپنی تاریخ میں جینے کا موقع نہیںپاتا۔ سو سال کے اندرہی اچانک وہ لمحہ آجاتا ہے جس کو موت کہتے ہیں۔ موت ایک ناقابلِ واپسی فیصلے کے طورپر ہر شخص کے اوپر آتی ہے اور اچانک قبل از موت مرحلۂ حیات سے جدا کرکے اُس کو بعد از موت مرحلۂ حیات میں پہنچا دیتی ہے۔
موت کو اِس اعتبار سے شکستِ تاریخ (break in history) کا معاملہ کہاجاسکتا ہے۔ شکستِ تاریخ کا یہ واقعہ ہر عورت اور ہر مرد کے ساتھ پیش آتا ہے۔ہر عورت اور مرد کا یہ معاملہ ہے کہ وہ اپنی ساری طاقت خرچ کرکے اپنی امیدوں اور اپنی تمناؤں کی ایک دنیا بناتے ہیں۔ ہر انسان اپنی بنائی ہوئی اِس دنیا میں جی رہا ہوتا ہے کہ اچانک اس کے لیے موت کا وقت آجاتا ہے۔ وہ مجبور ہوتا ہے کہ وہ اپنی اِس بنائی ہوی دنیا کو چھوڑ کر اچانک ایک اور دنیا میں پہنچ جائے، جس کے لیے اُس نے کچھ نہیں کیا تھا۔ اُس کے پیچھے اس کی بنائی دنیا ہوتی ہے جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا، اور اس کے آگے ایک ابدی صحرا ہوتا ہے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا۔ یافت کے احساس میں جینے والا انسان اچانک کامل محرومی کے دور میں داخل ہوجاتا ہے۔
قبل ازموت کا مرحلۂ حیات ہر انسان کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے، اس کے بعد کسی کودوسرا موقع ملنے والا نہیں۔ اِس پہلے موقع کو جس شخص نے صرف دُنیوی سازوسامان کی فراہمی میں لگایا، وہ موت کے بعدکے مرحلۂ حیات میں کامل محرومی میں جینے پر مجبور ہوگا۔ کیوں کہ موت اس کی پچھلی تاریخ کواُس سے جدا کردے گی، اور موت کے بعد دوبارہ نئی تاریخ بنانے کا موقع اُس سے ہمیشہ کے لیے چھن چکا ہوگا۔ کیسا عجیب ہے آج کا وہ موقع جس کو انسان کھورہا ہے، اور کیسی بھیانک ہوگی کل کی وہ محرومی جس سے انسان دوچار ہوگا، اور جس سے اپنے آپ کو بچانا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

کامیابی کا فارمولا

ایک صاحب نے پوچھا کہ موجودہ دنیا میںکامیاب زندگی کی تعمیر کا فارمولا کیا ہے۔ میںنے کہا کہ کامیاب زندگی کا انحصار دو چیزوں پر ہے— آدھا عمل پر، اور آدھا بے عملی پر۔ اُن کو میرا یہ جواب بہت عجیب معلوم ہوا۔ انھوںنے دوبارہ پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔میںنے کہا کہ عمل یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔ بے عملی یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نہ ٹکرائیں۔ جب بھی دوسروں کے ساتھ کوئی شکایت کی بات پیش آئے تو اُس وقت آپ اُن کے مقابلے میں بے عمل بن جائیں، یعنی دوسروں سے الجھے بغیر اپنا سوچا سمجھا کام جاری رکھیں۔ موجودہ دنیا میںکامیابی کے لیے یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر ضروری ہیں۔اِس اصول کا تعلق، انفرادی کامیابی سے بھی ہے اور اجتماعی کامیابی سے بھی۔
انفرادی معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو لینے کے لیے لائن (قطار) میں کھڑے ہوئے ہیں۔ بعد کو ایک آدمی آتا ہے اور وہ لائن توڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور اپنا کام پہلے کرالیتا ہے۔ ایسے موقع پر آپ خاموش مشاہد بن جائیے۔ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ اپنا کام کیجئے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے جائیے۔ یہ انفرادی معاملے میں ’’بے عملی‘‘ کی مثال ہے۔ اِس طرح کے معاملے میں اگر آپ غصہ ہوجائیں اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کریں تو آپ کا ایسا کرنا ہمیشہ خود آپ کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔
اجتماعی معاملے کی ایک مثال پالٹکس آف اپوزیشن ہے۔ آج کل ہر لیڈر یہ کررہا ہے کہ وہ کوئی سماجی مسئلہ لے کر اتھارٹی کے خلاف احتجاج (protest) کی مہم چلادیتا ہے۔ اِس طریقِ کار کے نتیجے میں لیڈر کو تومقبولیت مل جاتی ہے، لیکن سماج کو اِس کا کوئی فائدہ نہیںملتا۔ یہاں بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کے بجائے تعمیر کے میدان میں کوئی مثبت کام کیاجائے۔ مثلاً تعلیم کا میدان — اِس دنیا میں کامیابی کے لیے عمل جتنا زیادہ ضروری ہے، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بے عمل ہونے کا فن بھی جانتے ہوں۔
واپس اوپر جائیں

کثرت کے درمیان قلّت

سموئل ٹیلر کولرج (Samuel Tailor Coleridge) مشہور انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1772 میں پیدا ہوا،اور 1834 میں اس کی وفات ہوئی۔
اس کی ایک مشہور نظم ہے جس کا نام ہے —قدیم ملّاح(The Ancient Mariner) ۔ اس نظم میں وہ دکھاتا ہے کہ ملاح اپنی کشتی لے کر سمندر میں سفر کر رہا ہے۔ اس کے بعد کشتی طوفان کی زد میں آجاتی ہے۔ کشتی تباہ ہوجاتی ہے۔ ملاح ایک تختے کو پکڑ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے۔ وہ تختہ سمندر میں موجوں کے سہارے تیرنے لگتا ہے۔
ملاح کو پیاس لگتی ہے۔ اس کے چاروں طرف اگرچہ پانی ہے، مگر سخت کھاری ہونے کی وجہ سے وہ پینے کے قابل نہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ملاح کہہ اٹھتا ہے— ہر طرف پانی ہی پانی ہے، مگر ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں:
Water, water everywhere,
Nor a drop to drink.
یہ بات جو مذکورہ ملاح نے سمندر کے پانی کے بارے میں کہی، وہ عمومی اعتبار سے بھی درست ہے۔ آج کی دنیا میں پوری انسانیت مذکورہ ملاح کے مانند ہے جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، مگر پینے کے لیے ایک قطرہ بھی نہیں۔
پریس کے دورنے ہر طرف چھپے ہوئے کاغذات کا انبار لگا دیا ہے، مگر ایسے صفحات بہت کم ہیں جو واقعۃً پڑھنے کے قابل ہوں۔ دنیا کے بازارپُررونق سامان سے بھرے ہوئے ہیں، مگر وہ سامان کہیں نظر نہیں آتا جو انسان کی روح کو سکون دینے والا ہو۔ زمین پر جہاں بھی دیکھئے، انسانی سرگرمی کا طوفان دکھائی دے گا، مگر وہ سرگرمی کہیںنظر نہیں آتی جو اُس کو حقیقی منزل کی طرف لے جانی والی ہو۔
دنیا انسانوں سے بھری ہوئے ہے مگر وہ انسان معدوم ہورہے ہیں جو اُن فطری اوصاف کے حامل ہوں جن پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اِزدواجی زندگی

8 اکتوبر 2007 کو میں آل انڈیا ریڈیو پر ایک خصوصی پروگرام سُن رہا تھا۔ یہ پروگرام شادی اور نکاح کے بارے میں تھا۔ ایک خاتون نے بولتے ہوئے کہا کہ نکاح تین قسم کے رِنگ (انگوٹھی) پر مشتمل ہوتا ہے— منگنی کی رِنگ، شادی کی رِنگ اور مصیبت کی رِنگ:
Marriage includes three rings— engagement ring, wedding ring, suffering.
شادی شدہ زندگی کا ناخوش گوار زندگی بن جانا، موجودہ زمانے کا ایک عام مسئلہ ہے۔ اِس کا سبب کیا ہے۔ میںنے بہت سے ماڈرن لڑکوں اور لڑکیوں سے بات کرنے کے بعد سمجھا ہے کہ اِس مسئلے کا بڑا سبب وہ جدید تصور ہے جس کو صنفی مساوات (gender equality) کہاجاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک غیر فطری نظریہ ہے۔ ہر اجتماعی نظام کے لیے ہمیشہ ایک ناظم درکار ہوتاہے۔ ناظم کے بغیر کسی اجتماعی ادارے کا قیام ممکن نہیں۔
ایک عورت اور ایک مرد جب نکاح کے رشتے میں بندھ کر ایک خاندان بناتے ہیں تو وہ ایک اجتماعی زندگی کی تشکیل کرتے ہیں۔ ہر خاندان ایک اجتماعی تنظیم ہے۔ اِس تنظیم کو درست طورپر چلانے کے لیے بھی ایک ناظم درکار ہے۔ مرد اپنی فطری ساخت کی بنا پر ناظم کی ذمے داری کو زیادہ بہتر طورپر سنبھال سکتا ہے۔ اِسی لیے مرد کو خاندانی زندگی کا قوّام (النساء: 34 ) بنایا گیا ہے۔
قوّام سے مراد عین وہی چیز ہے، جس کو موجودہ زمانے میں باس (boss) کہاجاتا ہے۔ باس ازم(bossism) ہر تنظیم یا اجتماعی ادارے کی ایک فطری ضرورت ہے، اور خاندان بلا شبہہ اِس سے مستثنیٰ نہیں۔ شادی شدہ خواتین اگر اپنے شوہر کو گھر کے اندر اُسی طرح باس مان لیں، جس طرح وہ دفتر میں کسی کو اپنا باس مان کر اپنا کام معتدل طورپر کرتی ہیں، تو اِس کے بعد شادی شدہ زندگی کا تیسرا پہلو(suffering) اپنے آپ ختم ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

حسن ِتدبیر

ایک صاحب میرے پاس تحفے کے طورپر مٹھائی کا پیکٹ لے آئے۔ میں نے کہا کہ میں اِس قسم کے تحفے کو پسند نہیں کرتا۔ آپ کبھی میرے لیے کوئی تحفہ نہ لائیں۔ انھوں نے کہا یہ مٹھائی ہمارے علاقے کی مشہور مٹھائی ہے۔ میں جب بھی کسی عالم یا بزرگ سے ملنے جاتا ہوں تو ہمیشہ اُس کے لیے یہ تحفہ لے کر جاتاہوں۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑی رقم کے قرض دار ہیں۔ انھوںنے بتایا کہ میری ماں بیمار ہوگئی تھیں۔ میںنے اُن کے علاج کے لیے کچھ لوگوں سے قرض لیا جو اب تک ادا نہ ہوسکا۔ میںنے کہا کہ جب آپ کے اوپرقرض ہے تو آپ تحفے تحائف پر رقم کیوں خرچ کرتے ہیں۔ میںنے کہا کہ خرچ کو گھٹانا بھی آمدنی کو بڑھانا ہے۔آپ آج ہی یہ عہد کریں کہ آپ اپنے خرچ کو گھٹائیں گے۔ اِس طرح پیسہ بچا کر آپ اپنے قرض کو ادا کریں۔ عید کا زمانہ تھا۔ میںنے کہا کہ آپ عید میں کسی بھی قسم کاکوئی نیا سامان نہ خریدیں۔ بچوں کے لیے نیے کپڑے نہ بنوائیں۔ یہ سب آپ اُس وقت تک کرتے رہیں، جب تک آپ کا قرض ادا نہ ہوجائے۔
دو سال کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بہت خوشی کے ساتھ بتایا کہ میں نے آپ کی نصیحت پر سختی کے ساتھ عمل کیا۔ اور اب اللہ کے فضل سے میرا قرض ادا ہو چکا ہے ۔ اب میںرات کو سکون کی نیند سوتا ہوں، جب کہ اِس سے پہلے سکون کے ساتھ سونا میرے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔
ان کی اِس روش کا ان کے بچوں پر نہایت مثبت اثر ہوا۔ ان کے بڑے لڑکے نے ٹیلی فون کال کی ایک دکان کھول لی۔ یہ دکان جلد ہی کامیابی کے ساتھ چلنے لگی۔ اِس طرح گھر کی آمدنی میں ایک مستقل اضافہ ہوگیا۔ ان کی بیوی اور ان کے بچوں میں بھی تعمیری ذہن آگیا۔ ہر ایک کچھ نہ کچھ کام کرنے لگا۔ اب وہ صاحب خوشی کے ساتھ اپنے مقام پر رہ رہے ہیں۔ ان کے تمام مسائل آہستہ آہستہ حل ہوگیے۔ بچوں کی تعلیم بھی جاری ہوگئی— حسنِ تدبیر سے مسئلہ حل ہوتا ہے اور بدتدبیری سے مسئلہ اور زیادہ بگڑ جاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

جھوٹ کی دو قسم

جھوٹ کی ایک قسم وہ ہے جس کو برہنہ جھوٹ، یا کذبِ صریح کہاجاتا ہے، یعنی جان بوجھ کر ایک سراسر خلافِ واقعہ بات کہنا۔ مثلاً ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک لیڈر صاحب کے پاس ایک شخص اپنے کسی کام کے لیے آیا۔اِس کام کا تعلق ایک منسٹر سے تھا۔ انھوںنے فوراً ٹیلی فون پر کچھ نمبر ڈائل کیے۔ اِس کے بعد انھوںنے رسیور اٹھایا اور ہلو کرکے اِس طرح بات کرنے لگے، جیسے کہ وہ متعلق منسٹر سے بات کررہے ہیں۔بعد کو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ایک جھوٹا ڈراما تھا۔ اِس جھوٹے ڈرامے کے ذریعے انھوںنے آنے والے کو یہ تاثّر دیا کہ اُن کا قریبی تعلق منسٹر صاحب سے ہے، اور وہ اُن سے براہِ راست بات کرسکتے ہیں۔ یہ برہنہ جھوٹ کی ایک مثال ہے۔
جھوٹ کی دوسری قسم وہ ہے جس کو بالواسطہ جھوٹ، یا کذبِ خفی کہاجاسکتا ہے۔کذبِ صریح کا ارتکاب تو بہت کم لوگ کرتے ہیں، لیکن جہاں تک کذبِ خفی کا تعلق ہے، غالباً ننّانوے فیصد سے بھی زیادہ لوگ اِس بُرائی میں مبتلا ہیں۔ کذبِ خفی کی بُرائی موجودہ سماج میں اتنا زیادہ عام ہوچکی ہے کہ لوگ اِس میں مبتلا ہوتے ہیں، مگر شعوری طورپر وہ نہیں جانتے کہ وہ ایک ایسی عادت کا شکار ہیں جو حقیقتاً ایک مہلک جھوٹ کی حیثیت رکھتی ہے۔
کذبِ خفی کیا ہے، وہ یہ ہے کہ کسی بات کو ٹھیک ٹھیک بیان نہ کیا جائے، بلکہ اُس کو بدلی ہوئی صورت میں بیان کیا جائے۔ ایسا کب ہوتا ہے، اِس کی مختلف صورتیں ہیں۔ مثلاً اپنی صفائی پیش کرنا، اپنے کو سماج میں اچھا بنائے رکھنا، اپنے آپ کو بدنامی سے بچانا، اپنے لوگوں کو دوسروں کی نظر میں اونچا دِکھانا، اپنی کمزوریوں کو چھپانے کی کوشش کرنا، غیر ضروری طورپر کسی چیز کا کریڈٹ لینا، اپنی غلطی کو نہ ماننے کے لیے اصل بات کو بدل کر پیش کرنا، وغیرہ۔ اِس قسم کی تمام صورتوں میں آدمی بات کو صاف طورپر بیان نہیں کرتا، مگر یہ سب بلا شبہہ جھوٹ کی صورتیں ہیں۔ اِس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ آدمی کے اندر کمز ور شخصیت (weak personality) پرورش پاتی ہے، اور کمزور شخصیت ہی کا دوسرا نام منافقانہ شخصیت ہے۔
واپس اوپر جائیں

غریبی اور امیری

ایک تعلیم یافتہ آدمی نے ایک بار کہا—برسات کے موسم میں چھتری والا اور بے چھتری والا، دونوں پانی میں بھیگتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ بے چھتری والے آدمی کے مقابلے میں چھتری والا آدمی شرمندگی سے بچ جاتا ہے۔ یہی معاملہ غریبی اور امیری کا ہے۔ غریبی بھی ایک مسئلہ ہے، اور امیری بھی ایک مسئلہ۔ فرق صرف یہ ہے کہ غریب آدمی کا مسئلہ ظاہر ہوجاتا ہے اور امیر آدمی کا مسئلہ لوگوں کے لیے چھپا رہتاہے۔
اصل یہ ہے کہ مسائل کا تعلق غریبی اور امیری سے نہیں ہے، وہ انسانی زندگی کا ایک فطری حصہ ہے۔ ہر انسان لازمی طورپر مسائل سے دوچار ہوتا ہے— جان ومال کا نقصان، دوسروں کی طرف سے لائی ہوئی ناخوش گواری، ذہنی تناؤ، مستقبل کے اندیشے، بچوں کی بے راہ روی، حادثہ، بڑھاپا اور آخر میں موت۔
آدمی کے لیے سب سے بڑی پریشانی غالباً یہ ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ یہ سوچتا رہتا ہے کہ اگر میں نے ایسا کیا ہوتا تو میرے لیے زیادہ اچھا ہوتا، حالاں کہ یہ صرف ایک فرضی سوچ ہوتی ہے۔ اِسی طرح ہر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے کم والوں سے نہیں کرتا، بلکہ وہ اپنا مقابلہ اپنے سے زیادہ والوں سے کرتا ہے۔ اِس طرح کی چیزیں آدمی کو مسلسل طور پر پریشان رکھتی ہیں۔ وہ خود ساختہ سوچ کے تحت، بے اطمینانی کی زندگی گزارتا رہتا ہے، یہاں تک کہ اِسی بے اطمینانی کی حالت میں وہ اِس دنیا سے چلا جاتا ہے۔
جب اس حقیقت کو دیکھا جائے کہ غریب آدمی جس طرح اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے اسی طرح امیر آدمی بھی اپنی زندگی کی طرف سے غیر مطمئن ہے توغریبی کی حالت اور امیری کی حالت، دونوں اضافی (relative) معلوم ہونے لگتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف یہ ہے کہ آدمی یہ سمجھ لے کہ جس چیز کو وہ سکون سمجھتا ہے، وہ کبھی اِس دنیا میں ملنے والا نہیں۔ اِس دنیا میں سکون کا راز صرف ایک ہے اور وہ قناعت ہے، یعنی حالتِ موجودہ پر راضی ہو کر زندگی گزارنا۔
واپس اوپر جائیں