Pages

Sunday 1 June 2014

Al Risala | June 2014 (الرسالہ،جون)

2

-سیئات، حسنات

3

- لائف سپورٹ سسٹم

4

- توبۂ نصوح

6

- آزادی کا غلط استعمال

7

- انجامِ آخرت

8

- متشابہ جنت، حقیقی جنت

9

- زمین کی حفاظت

10

- نقل وحرکت

12

- انسان، ٹکنالوجی

13

- حقیقت پسندانہ مزاج

16

- سب کچھ خدا کا عطیہ

18

- قرآن کا پیغام

22

- کائنات کا سائنسی مطالعہ

23

- مسلم تاریخ کا احیا

24

- مردوزن کی مساوات

25

- تخلیق ِ انسانی کا مقصد

32

- دہشت گردی کا مسئلہ

35

- ردّ عمل کی سیاست

38

- پیغمبرانہ ماڈل

39

- شخصیت کی پہچان

40

- اپنی تاریخ سے کٹنا

43

- انتخابِ اول، انتخابِ ثانی

44

- ترقی کا زینہ

45

- فخر اور نفرت


سیئات، حسنات

قرآن کی سورہ الفرقان میں ایک قانونِ فطرت کو اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰۗىِٕکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَـیِّاٰتِہِمْ حَسَنٰتٍ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا (25:70) یعنی مگر جو شخص توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک کام کرے تو اللہ ایسے لوگوں کی برائیوں کو بھلائیوں سے بدل دے گا اور اللہ بخشنے والا، مہربان ہے-
God will change the evil deeds of such people into good ones.
قرآن کی اِس آیت میں جو بات کہی گئی ہے، وہ یہ نہیں ہے کہ اللہ اُن کے سیئات کو معاف کردے گا- اِس کے برعکس، یہ فرمایا کہ اللہ اُن کے سیئات کو بدل کر اُن کو حسنات میں تبدیل کردے گا- یہ ایک بے حد قابلِ غور بات ہے کہ ایسا کیوں کر ہوتا ہے کہ خود سیئات بدل کر حسنات بن جائیں-
قرآن کی اِس آیت میں دراصل ایک نفسیاتی قانون کو بتایا گیاہے- انسان جب ایک غلطی کرے اور اس کے بعد اس کے اندر شدت کے ساتھ یہ احساس جاگ اٹھے کہ میں نے ایک غلطی کردی، تویہ کوئی سادہ بات نہیں ہوتی- اِس کے بعد اس کے اندر فطری طورپر شرمندگی (repentance)کا احساس پیدا ہوجاتا ہے- یہ احساس اُس کے لیے ایک ذہنی بھونچال کا کام کرتاہے- اِس کے بعد شدت کے ساتھ اس کے اندر محاسبہ (introspection)کی سوچ پیدا ہوجاتی ہے- وہ شدید طورپر اپنی اصلاح کے لیے متحرک ہوجاتا ہے- اس کے اندر ایک نئے قسم کی ذہنی بیداری (intellectual awakening) پیدا ہوجاتی ہے- یہ ذہنی بیداری اس کی پوری شخصیت میں ایک مثبت انقلاب کا باعث بن جاتی ہے- وہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اپنی اصلاح کے کام میں مشغول ہوجاتا ہے، اِس طرح اس کے اندر ایک نئی شخصیت ایمرج (emerge) کرتی ہے- یہ فطرت کا ایک قانون ہے- جس آدمی کی فطرت زندہ ہو، اُس کا وہی حال ہوتا ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا- ایسے انسان کاحال یہ ہوتا ہے کہ غلطی کا احساس اُس کے اندر ایک نیا پراسس جاری کردتیا ہے- یہ اِسی فطری پراسس کی تکمیل ہے جس کو قرآن کی مذکورہ آیت میں بیان کیاگیاہے-
واپس اوپر جائیں

لائف سپورٹ سسٹم

قرآن کی سورہ الاعراف کی ایک آیت یہ ہے : وَلَقَدْ مَکَّنّٰکُمْ فِی الْاَرْضِ وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ ۭقَلِیْلًا مَّا تَشْکُرُوْنَ (7:10) یعنی ہم نے تم کو زمین میں جگہ دی اور ہم نے تمھارے لیے اس میں زندگی کا سامان فراہم کیا، مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو-
’معایش‘ کا لفظ ’معیشة‘ کی جمع ہے- قرآن کی اِس آیت میں معایش سے مراد اسبابِ معیشت ہیں، یعنی کھانا اور پینا اور دوسری وہ تمام چیزیں جن پر انسانی زندگی کا مدار ہو- مفسر القرطبی نے معایش کی وضاحت اِن الفاظ میں کی ہے: ما یُتعیَّش بہ من الطعم والمشرب وماتکون بہ الحیاة (تفسیر القرطبی: 7/167)
اسباب معیشت سے مراد وہی چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں لائف سپورٹ سسٹم (life support system) کہاجاتا ہے-ایسے اسباب جو انسان جیسی مخلوق کی بقا کے لیے ضروری ہیں، وہ صرف سیارہ زمین پر پائے جاتے ہیں- وسیع کائنات میں کسی دوسرے مقام پر یہ اسباب ِ حیات موجود نہیں-
لائف سپورٹ سسٹم انسان کے لیے ایک استثنائی عطیہ ہے، ایسا عطیہ جو ساری کائنات میں کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں- لائف سپورٹ سسٹم میں بے شمار آئٹم ہیں- ان میں سے کوئی بھی آئٹم انسان خود سے پیدا نہیں کرسکتا- یہ پورا نظام اللہ کی طرف سے انسان کے لیے یک طرفہ عطیہ کی حیثیت رکھتا ہے- یہ عطیہ اپنے آپ اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان سے اس کے بارے میں یقیناً سوال کیا جائےکہ اس نے اِس عطیے کا حق ادا کیا یا نہیں-
یہی مطلب ہے قرآن کی اِس آیت کا: ثُمَّ لَتُسْئَلُنَّ یَوْمَئِذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (102:8) یعنی پھر اُس دن تم سے نعمتوں کے بارے میں یقیناً پوچھا جائے گا:
Then on the Day you shall be questioned about the favours.
واپس اوپر جائیں

توبۂ نصوح

قرآن کی سورہ التحریم میں اہلِ ایمان کو خطاب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تم لوگ اللہ سے توبہ نصوح کرو اور توبہ نصوح تمھارے لیے جنت میں داخلے کا سبب بنے گی (66:8)- توبۂ نصوح سے مراد مخلصانہ توبہ (sincere repentance) ہے- توبہ نصوح کیا ہے، اس کو قرآن کی سورہ النساء کی دو آیتوں کے مطالعے سے سمجھا جاسکتا ہے- وہ آیتیں یہ ہیں: اِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْۗءَ بِجَہَالَةٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰۗىِٕکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ۭ وَکَانَ اللّٰہُ عَلِــیْمًا حَکِـیْمًا ؀ وَلَیْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّـیِّاٰتِ ۚ حَتّٰى اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّىْ تُبْتُ الْــٰٔنَ وَلَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَھُمْ کُفَّارٌ ۭاُولٰۗىِٕکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِـــیْمًا (4:17-18) ۔
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ توبہ کی دو قسمیں ہیں— ایک، مقبول توبہ اور دوسری، غیر مقبول توبہ- مقبول توبہ وہ ہے جو حقیقی احساسِ خطا کے بعد پیدا ہو اور جو ایک ایسے نئے اور پُر عزم فیصلے کے ہم معنی ہو جس کو آدمی نے اپنے دل ودماغ کی پوری طاقت کے ساتھ کیا ہو- اِس کے برعکس، غیر مقبول توبہ وہ ہے جو کسی حقیقی فیصلے کے ہم معنی نہ ہو، بلکہ اس کی حیثیت صرف لِپ سروس (lip service) کی ہو-
توبۂ نصوح کیا ہے، اس کی مزید وضاحت ایک حدیث سے ہوتی ہے- پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن اللہ یقبل توبة العبد ما لم یغرغر(سنن الترمذی، رقم الحدیث: 3537) یعنی اللہ غرغرہ پیش آنے تک بندے کی توبہ قبول کرتاہے-
جب موت کا وقت قریب آتا ہے اور انسان محسوس کرتاہے کہ اب اس کے لیے زندگی کی مزید مہلت باقی نہیں رہی، اُس وقت ایک صاحبِ فکر انسان کے اندر زبردست بھونچال آجاتا ہے- اس کی وہ حالت ہوجاتی ہے جس کو نفسیات کی اصطلاح میں برین اسٹارمنگ (brain storming) کہا جاتا ہے- اُس وقت اس کو شدید طورپر یہ احساس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر ضائع کردی- اس کو اپنا مستقبل بالکل تاریک دکھائی دینے لگتا ہے- کسی انسان پر اگر یہ زلزلہ خیز حالت طاری ہوجائے تو ایک لمحے کے اندر اس کو توبہ نصوح کی توفیق حاصل ہوجائے گی- اس کے گناہ اس کے اعمال نامے سے اچانک ڈلیٹ (delete) ہوجائیں گے-
یہی وہ حالت ہے جس کے بارے میں حدیث میں آیا ہے: التائب من الذنب کمن لا ذنب لہ (الجامع الصغیر للسیوطی، رقم الحدیث: 3387) یعنی گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا تھا- اِس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک مومن حقیقی توبہ کرے تو اللہ تعالی عین اُسی وقت اس کے گناہوں کو اس کے اعمال نامے سے حذف کردے گا- ایک گناہ گار شخصیت اچانک ایک بے خطا شخصیت کی صورت اختیار کرلے گی-
توبہ کا معاملہ سادہ معنوں میں صرف خطا اور عفوِ خطا کا معاملہ نہیں ہے، اس کی اہمیت اس سے زیادہ ہے- توبہ ایک نفسیاتی عمل (psychological process) ہے، جس کے ذریعے ایک انسان کو موقع ملتا ہے کہ وہ مسلسل اپنی شخصیت کی تعمیر جاری رکھے، یہاں تک کہ وہ پورے معنوں میں مزکی شخصیت (purified personality) بن جائے-
انسان کو سب سے زیادہ جو چیز جھنجھوڑتی ہے، وہ خطاکاری کا احساس ہے، نہ کہ معصومیت کا احساس- معصومیت کے احساس سے آدمی کے اندر ٹھہراؤ آتا ہے، جب کہ خطاری کا احساس آدمی کے اندر ایک ذہنی بھونچال پیدا کردیتا ہے- یہی وہ بھونچال ہے جو آدمی کے اندر چھپے ہوئے پوٹنشیل (potential)کو جگاتا ہے- وہ شدت کے ساتھ آدمی کے اندر اصلاح کا جذبہ پیدا کردیتا ہے- اِس لیے حدیث میں آیا ہے کہ اللہ کو ایسا انسان پسند ہے جو غلطی کرے اور معافی مانگے (خیر الخطائین التوابون)- کسی شخص کے اندر اِس نفسیاتی اصلاح کے جاری ہونے ہی کا شرعی نام توبہ نصوح ہے- توبہ نصوح اپنی حقیقت کے اعتبار سے محض کچھ الفاظ کی ادائیگی کا نام نہیں ہے، بلکہ وہ ایک نفسیاتی بھونچال کا نام ہے- ایک ایسا نفسیاتی بھونچال کہ جب وہ کسی انسان کے اندر آتا ہے تو اس کی پوری شخصیت کو بدل دیتاہے-
واپس اوپر جائیں

آزادی کا غلط استعمال

قرآن کی ایک آیت یہ ہے: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ لِیُذِیْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(30:41) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے، تاکہ اللہ اُن کو مزا چکھائے اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ باز آئیں-
دنیا میں جو فساد یا کرپشن (corruption) پایا جاتا ہے، وہ تخلیق کا حصہ نہیں ہے، بلکہ وہ انسان کی آزادی کے غلط استعمال (misuse of freedom)کا حصہ ہے- موجودہ زمانے میں فضائی آلودگی (air pollution) اور آبی آلودگی (water pollution)کا مسئلہ اپنی آخری حد تک بڑھ گیا ہے- یہ آلودگی تخلیق کے آغاز میں موجود نہ تھی، حتی کہ جدید صنعتی انقلاب سے پہلے وہ بہت کم پائی جاتی تھی- مگر جدید صنعتی انقلاب کے بعد آلودگی کا مسئلہ انتہائی خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے-
تاکہ اللہ ان کو مزا چکھائے اُن کے بعض اعمال کا، شاید کہ وہ بازآئیں — اِس کا مطلب یہ ہے کہ انسانی فساد کی صورت میں جو مسئلہ اِس دنیا میں پیش آتا ہے، اُس کی حیثیت ایک شاک ٹریٹمنٹ (shock treatment) کی ہے- وہ اِس لیے ہے تاکہ انسان سوچے، تاکہ انسان مصنوعاتِ خداوندی اور مصنوعاتِ انسانی کا تقابل کرکے یہ دریافت کرے کہ اللہ کی قدرت کتنی زیادہ ہے اور اس کے مقابلے میں انسان کا عجز کتنا زیادہ بڑھا ہوا ہے- اللہ کی مصنوعات میں کہیں کوئی نقص (67:3) نہیں، جب کہ انسان کی مصنوعات نقائص سے بھری ہوئی ہیں-
یہ دریافت ایمان باللہ کا دروازہ ہے- آدمی جتنا زیادہ اِس حقیقت کو دریافت کرے گا، اتنا ہی زیادہ وہ اللہ کی معرفت حاصل کرے گا- عجزِ انسانی کی دریافت معرفتِ الہی کی دریافت کا آغاز ہے- جو انسان عجز کی دریافت سے محروم رہے، وہ معرفتِ الہی کی دریافت سے بھی محروم رہے گا- عجز کے سوا کوئی دروازہ نہیں جس کے ذریعے آدمی معرفت کی دنیا میں داخل ہوسکے-
واپس اوپر جائیں

انجامِ آخرت

ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن الرجل لیعمل عمل أہل الجنة فیما یبدو للناس، وہو من أہل النار- وإن الرجل لیعمل عمل أہل النار فیما یبدوا للناس، وہو من أہل الجنة (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 4202) یعنی ایک آدمی لوگوں کے خیال کے مطابق، اہلِ جنت کا عمل کرتا ہے، حالاں کہ وہ جہنم والوں میں سے ہوتا ہے- اور ایک آدمی لوگوں کے خیال کے مطابق، اہلِ جہنم کا عمل کرتا ہے، حالاں کہ وہ جنت والوں میں سے ہوتا ہے-
اِس حدیث میں فیما یبدو للناس کا لفظ بہت اہم ہے- اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک شخص بظاہر (face vlue)پر کچھ اور ہوتا ہے، مگر حقیقت کے اعتبار سے، وہ کچھ اور ہوتا ہے- یہاں ’فیما یبدو للناس‘ کے مقابلے میں، ’فیما یبدو للہ‘ کا لفظ محذوف ہے- دنیا کی زندگی میں ’فیما یبدو للناس‘ کے اعتبار سے، آدمی بظاہر کچھ اور دکھائی دے سکتا ہے، لیکن آخرت میں اس کا معاملہ ’فیما یبدو للہ‘ کے اعتبار سے ہوگا- یہ بات صالح انسان کی نسبت سے بھی ہے اور غیر صالح انسان کی نسبت سے بھی-
تاہم یہ معاملہ دنیا کی زندگی میں بھی کسی نہ کسی موقع پر کھل جاتا ہے- د ونوں قسم کے انسانوں کی زندگی میں آخر کار کوئی ایسا شاکنگ واقعہ (shocking event) پیش آتا ہے جس کے بعد اندر کی شخصیت کھل کر باہر آجاتی ہے- یہ اللہ کے قانون کے تحت ہوتا ہے- مثلاً قدیم مکہ میں حمزہ بن عبدالمطلب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے، مگر ایک واقعے نے ان کو ہلا دیا اور انھوں نے اعلان کردیا کہ: دینی دین محمد (میرا دین وہی ہے جو محمد کا دین ہے)- اِسی طرح قدیم مدینہ میں ایک شخص عبد اللہ بن اُبی تھا- وہ بظاہر کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہوگیا تھا، لیکن مدینہ میں ایک واقعہ پیش آیا جس کے بعد اس کا داخلی نفاق نمایاں ہوگا اور وہ اسلام سے خارج قرار پایا- یہ واقعہ ہر انسان کے ساتھ پیش آتا ہے، کسی بھی انسان کا اِس معاملے میں کوئی استثنا (exception)نہیں-
واپس اوپر جائیں

متشابہ جنت، حقیقی جنت

قرآن کی سورہ محمد میں اہلِ جنت کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ آیت آئی ہے: وَیُدْخِلُہُمُ الْجَــنَّةَ عَرَّفَہَا لَہُمْ (47: 6) یعنی اللہ اہلِ ایمان کو جنت میں داخل کرے گا۔ اللہ نے اُن کو اِس جنت کی پہچان کرادی ہے۔
اِس آیت میں پہچان سے کیا مراد ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص آخرت اور جنت کے بارے میں بہت زیادہ سوچتا ہے، وہ جنت کے بارے میں کچھ ایسے سراغ (clues) پالیتاہے جس کے حوالے سے وہ جنت کے بارے میں خصوصی دعا کرے اور آخر کار وہ اللہ کے نزدیک جنت میں داخلے کا مستحق قرار پائے۔جنت کی اِس پہچان کا تعلق موجودہ دنیا سے ہے، نہ کہ آخرت کی دنیا سے۔
مثلاً اہلِ جنت جب جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت کی نعمتوں کا تجربہ کریں گے تو اُن کا جو حال ہوگا، اُس کو قرآن میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: کُلَّمَا رُزِقُوْا مِنْہَا مِنْ ثَمَـــرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوْا ھٰذَا الَّذِىْ رُزِقْنَا مِنْ قَبْلُ ۙ وَاُتُوْا بِہٖ مُتَشَابِہًا ( 2: 25) یعنی جب بھی اہل جنت کو جنت کے باغوں میں سے کوئی پھل کھانے کو ملے گا تو وہ کہیں گے کہ یہ وہی ہے جو اِس سے پہلے ہم کو دیاگیا تھا، اور ملے گا اُن کو ایک دوسرے سے ملتا جلتا۔
اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موجودہ دنیا کو جنت کے متشابہ (similar) بنایا ہے۔ جب ایک مومن غور وفکر کرتاہے تو وہ اِس حقیقت کو دریافت کر لیتا ہے کہ موجودہ دنیا، جہاں خدا نے اس کو رہنے کا موقع دیا ہے، وہ جنت کے مشابہ دنیا ہے۔
یہ دریافت بندۂ مومن کے اندر ایک قسم کا اہتزاز (thrill) پیدا کرتی ہے۔ وہ شکر کے احساس کے تحت کہہ اٹھتا ہے کہ — خدایا، تو نے موت سے پہلے کی زندگی میں مجھ کو متشابہ جنت عطا کردی ، اب تو موت کے بعد کی زندگی میں مجھ کو حقیقی جنت میں داخل فرمادے۔
واپس اوپر جائیں

زمین کی حفاظت

موجودہ زمانے میں جو آلات دریافت ہوئےہیں، ان کے ذریعے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ خلائی واقعات کا نہایت صحت کے ساتھ مشاہدہ کیا جاسکے- اُنھیں میں سے ایک واقعہ یہ ہے کہ 23 جولائی 2012 کو سورج کی سطح پر ایک مقناطیسی طوفان آیا تھا- یہ طوفان زمین کے اوپر بہت بڑی تباہی (havoc)برپا کرسکتا تھا، مگر ایسا نہیں ہوا- کیوں کہ یہ طوفان سورج کی ایک سمت میں آیا تھا، جب کہ زمین اپنی گردش کے اعتبار سے اُس وقت سورج کے دوسری سمت میں تھی-اس طرح کے واقعات ہماری دنیا میں روزانہ پیش آرہے ہیں- یہ واقعات قرآن کی اُس آیت کی تفسیر ہیں جس میں کہاگیا ہے: قُلْ مَنْ یَّـکْلَـؤُکُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّہَارِ مِنَ الرَّحْمٰنِ ۭ بَلْ ہُمْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہِمْ مُّعْرِضُوْنَ(21:42)-
کائنات میں انسان کی حفاظت کا یہ انتظام بتاتا ہے کہ اللہ کتنے زیادہ بڑے پیمانے پر انسان کے ساتھ رحمت کا معاملہ کررہاہے- انسان اپنی غفلت کی بنا پر اِس حقیقت سے بے خبر رہتا ہے- اگر انسان اِس حقیقت کو جانے تو بلا شبہہ اس کی زندگی میں ایک ربانی انقلاب آجائے-
Massive solar storm almost hit Earth in 2012
London: A massive magnetic storm with a speed of 3,000 km per second enough to circle Earth five times in one minute and the likes of which has not been seen in the past 150 years almost hit the world in 2012. But as it tore through Earth’s orbit, releasing energy equivalent to that of about a billion hydrogen bombs, good fortune prevailed on the Blue Planet, which was placed on the other side of the sun at the time. Had the eruption come nine days earlier, it would have hit Earth, potentially destroying our electrical grid, disabling satellites and GPS and disrupting our increasingly electronic lives, wreaking havoc and causing fireworks. Experts confirmed on Wednesday that a fierce solar eruption known as coronal mass ejections blasted away from the sun and sent a pulse of magnetized plasma barrelling into space and through Earth’s orbit. (The Times of India, New Delhi, March 20, 2014, p. 19)
واپس اوپر جائیں

نقل وحرکت

کسی تحریک(movement) کی کامیابی کے لیے صرف آئڈیالوجی کافی نہیں- اس کے لیے ایسی چیز بھی ضروری ہے جو عملی مظاہرے کی حیثیت رکھتی ہو- اِس کی ایک صورت نقل وحرکت ہے- اِس نقل وحرکت کو قرآن میں سیاحت (9:112)کہاگیا ہے- قدیم یونان میں ایک گروپ تھا جس کو مشّائین (travellers)کہاجاتا تھا- یہ لوگ مسلسل طور پر پیدل سفر کرتے تھے اور اِس طرح لوگوں کے درمیان اپنے افکار پھیلاتے تھے- حضرت مسیح کے بعد سینٹ پال نے اِس طریقے کو اختیار کرتے ہوئے مسیحیت کو مختلف ملکوں میں پھیلایا- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جو غزوات اور سرایا پیش آئے، وہ بھی ایک اعتبار سے اِسی زمرے میں آتے ہیں- مسلم صوفیا کا طریقہ بھی یہی تھا کہ وہ اپنے مریدوں کے ساتھ سفر کرتے تھے اور جگہ جگہ اپنا حلقہ (order) بناتے تھے- موجودہ زمانے میں تبلیغی جماعت نے بھی یہی طریقہ اختیار کیا ہے اور اسی بنا پر اس کو ’’مسجد وار تحریک‘‘ کہاجاتا ہے-
الرسالہ مشن کی توسیع کے لیے بھی نقل وحرکت کے طریقے کو بڑے پیمانے پر اختیار کرنا ضروری ہے- اب اللہ کے فضل سے ہر شہراور ہر بستی میں قارئین الرسالہ کے حلقے بن چکے ہیں- ضرورت ہے کہ الرسالہ مشن کے لوگ سفرکرکے ہرجگہ پہنچیں، وہ ہر مقام پر قارئین الرسالہ سے ملیں، اُن کو متحرک کریں، ان کو منظم کریں، ہرجگہ ہفتے وار اجتماعات کا نظم کریں، ہرجگہ لائبریری قائم کریں، وغیرہ- جدید کمیونکیشن نے اس کو ممکن بنا دیا ہے کہ اب نقل وحرکت کے کام کو مزید اضافے کے ساتھ کیا جائے، یعنی نہ صرف جسمانی نقل وحرکت، بلکہ الیکٹرانک نقل وحرکت بھی-
موجودہ زمانے میں کمیونکیشن کی ترقی نے نقل وحرکت کے کام کو بہت آسان بنا دیاہے- الرسالہ مشن سے وابستہ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اِس امکان کو بھر پور طورپر استعمال کریں- نقل وحرکت کے بغیر اگر الرسالہ مشن حسابی رفتار (arithmetic progression) سے آگے بڑھ رہا ہے تو نقل وحرکت کے بعد وہ ہندسی رفتار (geometric progression) سے آگے بڑھنے لگے گا-
دعوتی نقل وحرکت کا یہ کام ممبئی کے حلقہ الرسالہ نے عملاً شروع کردیا ہے- وہ منظم انداز میں اِس کام کو انجام دے رہے ہیں- وہ مہاراشٹریہ کے مختلف مقامات پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ جاتے ہیں- اِس دعوتی کام کے لیے وہ جدید ٹکنالوجی کا پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں- اُن کو اِس کام میں ہرجگہ لوگوں کا تعاون حاصل ہو رہا ہے- اِس طرح اِس علاقے میں یہ دعوتی مشن تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے- اِس معاملے میں جو لوگ ممبئی والوں کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، وہ حسب ذیل ٹیلی فون پر اُن سے ربط قائم کرسکتےہیں— محبوب بھائی09619163993:
دعوتی نقل وحرکت کا یہی وہ کام ہے جس کو قرآن میں سیاحت کہاگیا ہے- اس سلسلے میں قرآن میں ’السائحون والسائحات‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں- اِس سے معلوم ہوتاہے کہ سیاحت کا یہ کام اہلِ ایمان مردوں اور اہلِ ایمان عورتوں دونوں کو یکساں طورپر انجام دینا ہے- دونوں سے یہ مطلوب ہے کہ وہ دعوتی مشن کے کام میں دوسرے طریقوں کے علاوہ نقل وحرکت کے طریقوں کو استعمال کریں- وہ دعوت کے عمل کو ایک متحرک عمل بنادیں-
سیاحت کا مطلب ہے — سفر کرنا (to travel) - سفر ایک عام انسانی ضرورت ہے- سفر چھوٹا بھی ہوتا ہے اور بڑا بھی- سفر قریب کی منزل کے لیے بھی ہوتا ہے اور دور کی منزل کے لیے بھی- سفر کی نوعیت کا تعلق خود سفر سے نہیں ہے، بلکہ مسافر سے ہے- مسافر کا جو مقصد حیات ہو، اُسی سے اس کے سفر کا مقصد بھی متعین ہوتاہے- مثلاً تاجر کا سفر تجارت کے لیے ہوتا ہے- سیاح کا سفر تفریح کے لیے ہوتا ہے، وغیرہ-مومن اپنے عقیدے کے اعتبار سے، ایک صاحبِ مشن انسان ہوتا ہے - مومن کی زندگی کا مقصد یہ ہوتاہے کہ اُس نے جس سچائی کو دریافت کیا ہے، اس سچائی کو وہ تمام دنیا والوں تک پہنچائے- یہی وہ صفت ہے جو مومن کی سیاحت کو ایک دعوتی سیاحت بنادیتی ہے- وہ جہاں جاتا ہے، اس کا مشن بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے- سفر کے ہر مرحلے میں اس کا دعوتی مشن جاری رہتا ہے- اِس معاملے میں عورت اور مرد کا کوئی فرق نہیں- مومن ا ور مومنہ دونوں ہمیشہ دعوتی توسیع کے اِس کام میں سرگرم رہتے ہیں-(14 اپریل 2014)
واپس اوپر جائیں

انسان، ٹکنالوجی

امریکا کے ایک سفر میں مجھ کو ایک سنٹردیکھنے کا موقع ملا- یہ ایک روحانی مشن کا سنٹر تھا- اِس مشن کے بانی (founder) کا انتقال ہوچکا تھا- بانی جیسی کوئی زندہ شخصیت وہاں موجودہ نہ تھی- اِس کے باوجود سنٹرمیں مشن کی تمام سرگرمیاں بدستور جاری تھیں- میں نے غور کیا تو بانی کی غیرموجودگی کے باوجود مشن کی سرگرمیوںکے بدستور جاری رہنے کا سبب دو چیزیں تھیں — ٹیم اور ٹکنالوجی-
بانی کا انتقال ہوا تو اس نے اپنے بعد دو چیزیں چھوڑی تھیں: ڈیڈی کیٹڈ ٹیم (dedicated team) اور تحریر اور تقریر کی شکل میں اپنا پیغام- بانی نے اپنی سنجیدہ کوششوں کے ذریعے بہت سے افراد کو متاثر کیا،یہاں تک کہ اس کےمشن کی پشت پر ایک مضبوط ٹیم بن گئی-
اِس کے علاوہ بانی نے بہت سی کتابیں لکھیں اور بڑی تعداد میں اس کی تقریروں سے آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ تیار ہوگئے- سنٹر میں میں نے دیکھا کہ اس کی ٹیم نہایت سنجیدہ انداز میں اِن چیزوں کو استعمال کررہی ہے- اس نے وہاں لائبریری اور ریڈنگ روم بنایا- کتابوں کے ڈسٹری بیوشن کے لیے نظام قائم کیا- وہاں میں نے دیکھا کہ رات دن کے بڑے حصے میں مسلسل آڈیو کیسٹ اور ویڈیو کیسٹ چلتے تھے۔ اِس کے علاوہ نہایت منظم پیمانے پر اس کی ترسیل کی جارہی تھی، اُس کو جگہ جگہ ڈاک کے ذریعے بھیجا جارہا تھا- اِسی طرح کمپیوٹر ٹکنالوجی کا استعمال بھی وہاں بھر پور طورپر کیا جارہا تھا-
انسان کے وجود کے دو پہلو ہیں— اس کی آواز اور اس کی جسمانی شخصیت- پچھلے زمانے میں انسان کی وفات کے بعد یہ دونوں چیزیں باقی نہیں رہتی تھیں- اب ٹکنالوجی نے یہ ممکن کردیا ہے کہ انسان کی آواز اور اس کی شخصیت دونوں بظاہر اِس طرح باقی رہیں جیسے کہ وہ انسان اب بھی پوری طرح موجود ہے- موجود زمانے میں کسی مشن کے تسلسل کو قائم رکھنے کا یہ ایک نیا امکان ہے جو جدید ٹکنالوجی کے ذریعے پیدا ہوا ہے-
واپس اوپر جائیں

حقیقت پسندانہ مزاج

نئی دہلی میں انڈیا گیٹ کا علاقہ بہت خاص علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ شام کے وقت یہاں لوگ سیروتفریح کے لیے آتے ہیں۔ ایک بار میں نے دیکھا کہ ایک شخص وہاں آیا۔ اس کے ساتھ اس کی بیوی اور اس کا بچہ تھا۔ بچے نے اپنے باپ سے آئس کریم کی فرمائش کی۔ باپ نے فوراً اپنی جیب سے ایک نوٹ نکالا۔ اس نے آئس کریم کا ایک پیکٹ خریدا اور پھر تینوں کھڑے کھڑے آئس کریم کھانے لگے۔ میں نے اُس آدمی کے چہرے کو دیکھا تو اس کے چہرے پر فخر کی چمک تھی۔ گویا کہ خاموش انداز میں وہ یہ کہہ رہا تھا کہ میری جیب میں پیسہ ہے اور میں اپنے پیسے سے آئس کریم خرید کر اپنے بچے کی فرمائش پوری کرسکتا ہوں۔ یہ پورا واقعہ اُس کے نزدیک ’’میں‘‘ کاکارنامہ تھا۔ اِس کے لیے اُسے کسی اور کا احسان مند ہونے کی ضرورت نہیں۔
یہی تمام انسانوں کا حال ہے۔ تمام عورت اور مرد اِسی احساس میں جی رہے ہیں۔ اِس احساس نے لوگوں کے اندر سے تواضع(modesty) کا جذبہ چھین لیا ہے۔ ہر آدمی کا کیس کبر(arrogance) کا کیس بنا ہوا ہے۔ ہر عورت اور مرد کا صرف ایک مذہب ہے، اور وہ ایگوازم (egoism)ہے۔ اِس ایگوکلچر نے ہر ایک کو خود پسند اور سرکش اور متکبر بنا دیا ہے۔ لوگوں کا یہ مزاج صرف اُس وقت تک چھپا رہتا ہے، جب تک ان کی انا کو چھیڑا نہ جائے۔ اَنا کو چھیڑتے ہی ہر آدمی بتا دیتا ہے کہ وہ کبر کا کیس تھا، اگر چہ وہ بظاہر متواضع (modest) بنا ہوا تھا۔
یہ مزاج سرتاسر غیر حقیقت پسندانہ مزاج ہے۔ اگر آدمی حقیقتِ واقعہ پر غور کرے تو وہ کبھی بھی متکبرنہ بنے۔ کیوں کہ اِس دنیا میں کسی کے لیے متکبر بننا مضحکہ خیز حد تک بے معنیٰ ہے۔ چناںچہ کوئی سائنٹسٹ کبھی متکبر نہیں ہوتا۔ کیوں کہ اُس کا میدانِ مطالعہ علومِ قطعیہ(exact sciences) ہوتے ہیں۔ اِس بنا پر اس کے اندر اپنے آپ حقیقت پسندی کا مزاج آجاتا ہے۔
ہر سائنٹسٹ، شعوری یا غیرشعوری طورپر جانتا ہے کہ اس کو کامل طورپر حقیقتِ واقعہ کی پابندی کرنا ہے۔ اگر وہ حقیقت ِ واقعہ سے ذرا بھی ہٹے تو وہ مطلوب نتیجے تک پہنچنے سے محروم رہ جائے گا۔ گویا کہ اگزیکٹ سائنس، اس کے اندر اگزیکٹ تھنکنگ کا مزاج بناتی ہے۔ اور ایگزیکٹ تھنکنگ ہی کا دوسرا نام حقیقت پسندی ہے۔
اب انڈیا گیٹ کے مذکورہ واقعہ کو لیجیے۔ آدمی کے اندر فخر کا جذبہ کیوں آیا۔ صرف اس لیے کہ اس کے اندر سائنسی مزاج، بالفاظ دیگر، حقیقت پسندانہ مزاج موجود نہ تھا۔ اگر اس کے اندر صحیح مزاج موجود ہوتا تو آئس کریم کا پیکٹ اس کے تواضع میںاضافہ کرتا نہ کہ فخر اور گھمنڈ میں، جیسا کہ عملاً پیش آیا۔
آئس کریم کیا ہے۔ آئس کریم ایک عظیم تحفہ ہے۔ آئس کریم کو وجود میں لانے میں ایک طرف نیچر کا طویل کائناتی عمل شامل ہے، اور دوسری طرف انسان کی تہذیبی جدوجہد کا لمبا سفر اس کو وجود میں لانے میں سرگرم رہا ہے۔ اِس طرح ناقابلِ یقین حد تک ایک پُراز واقعات تاریخ کے نتیجے میں وہ وقت آیا کہ ایک شخص کو خوب صورت کیس میں پیک کی ہوئی آئس کریم حاصل ہوسکے۔
ایک سائنسی نظریے کے مطابق، تقریباً دس بلین سال پہلے وسیع کائنات گیسوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس کے بعد لمبے عمل کے نتیجے میں ہائڈروجن اور آکسیجن مخصوص تناسب میں ایک دوسرے کے ساتھ ملے۔ اِس کے نتیجے میں پانی وجود میںآیا۔ اس کے بعد لمبی مدت تک زمین پر پانی برستا رہا۔ اس کے نتیجے میں زمین پر پانی کے ذخیرے اکھٹا ہوگیے۔ اس کے بعد حیوانات وجود میں آئے۔ آخر میں انسان اِس زمیں پر آباد ہوا۔
اِس طرح لمبی مدت کے عمل کے نتیجے میں دودھ دینے والے جانور پیدا ہوئے۔ پھر انسانی تہذیب کا عمل شروع ہوا۔ انسانی تہذیب ہزاروں سال تک ایک ارتقائی سفر طے کرتی رہی۔ اس نے حیوانات سے دودھ حاصل کیا۔ پھر اِس د ودھ کے مختلف مرکبات بنائے۔ پھر جدید صنعت ظہور میں آئی۔ اس کے بعد یہ ممکن ہوا کہ دودھ کو آئس کریم کی شکل میں ڈھالا جاسکے۔ اور اس کو خوب صورت پیکٹ میں پیک کرکے بازار میں لایا جائے۔
عالمِ فطرت اور انسانی تہذیب دونوں کے اس لمبے مشترک عمل پر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ آج جب ایک آدمی چند روپیے دے کر بازار سے آئس کریم کا پیکٹ حاصل کرتا ہے تو اِس پورے عمل (process) کے مقابلے میں آدمی کا اپنا حصہ ایک فی بلین سے بھی بہت زیادہ کم ہوتا ہے۔ ایسی حالت میں حقیقت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں جب آئس کریم کا پیکٹ آئے تو وہ سرتاپا تواضع میں ڈھل جائے۔ دوطرفہ احسان مندی کے جذبے سے اُس کی گردن جھک جائے۔ فخر اور گھمنڈ کاکوئی ذرہ بھی اس کے دل میں باقی نہ رہے۔
یہ صرف آئس کریم کا معاملہ نہیں۔ اِس دنیا میں ہر چیز کا معاملہ یہی ہے۔ کوئی بھی چھوٹی یا بڑی چیز جس کو آدمی استعمال کرتاہے، وہ اِسی طرح انسان کے لیے ایک عالمی عطیہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک طرف فطری سپورٹ (natural support) اور دوسری طرف تہذیبی سپورٹ (civilizational support)، اِن دونوں قسم کے عظیم سپورٹ کے ذریعے یہ ممکن ہوتا ہے کہ کوئی مرد یاعورت اِس زمین پر آباد ہو اور اپنے لیے ایک کامیاب زندگی حاصل کرسکے۔
اِس واقعے کا اِدراک انسان کے لیے بے حد اہم ہے۔ اِسی ادراک کے نتیجے میں انسان کے اندر وہ اعلیٰ صفت پیداہوتی ہے جس کو تواضع کہاجاتا ہے۔ یہی تواضع انسان کی اصل پہچان ہے۔ جس آدمی کے اندر تواضع نہیں، وہ گویا کہ انسان بھی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

سب کچھ خدا کا عطیہ

عرب میںجب پٹرول کی دولت آئی تو وہاں اچانک زندگی کا نقشہ بدل گیا۔ ایک عرب شیخ پہلے معمولی خیمے میں رہتا تھا۔ اُس کی زندگی کاانحصار تمام تر اونٹ کے اوپر تھا، پھر اچانک اُس کے پاس پٹرول کی دولت آگئی۔ اس کے ایک دوست نے اس کے لیے سویزرلینڈ میں جدید طرز کا ایک شان دار مکان خریدا۔ عرب شیخ ہوائی جہاز سے سفر کرکے وہاں پہنچا اور اپنے خوب صورت مکان کو دیکھا تو اس کو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ اُسی کا مکان ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا جیسے کہ وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہے۔
وہ اپنے مکان کی دیوار اور اس کے فرنیچر کو ہاتھ سے چھو کر دیکھتا تھا کہ وہ سچ مچ اپنے مکان میں ہے، یا وہ خواب میں کوئی تصوراتی محل دیکھ رہا ہے۔ بہت دیر کے بعد جب اس کو یقین ہوا کہ یہ ایک حقیقی مکان ہے اور وہ اُسی کا اپنا مکان ہے تو وہ خوشی کے آنسوؤں کے ساتھ سجدے میں گر پڑا اور دیر تک اِسی حالت میں پڑا رہا۔
یہ کیفیت جو ایک عرب شیخ کے اوپر گزری، یہی کیفیت ہر انسان کے اوپر بہت زیادہ بڑے پیمانے پر گزرنا چاہیے۔ اس لیے کہ موجودہ دنیا کی صورت میںہر انسان کو وہی چیز ملی ہوئی ہے، جو عرب شیخ کو سویزر لینڈ کے مکان کی صورت میں ملی۔ سویزر لینڈ کا مکان عرب شیخ کے لیے جتنا عجیب تھا، اس سے بے شمار گُنا زیادہ عجیب موجودہ کائنات ہے جو کوئی قیمت ادا کیے بغیر ہر اِنسان کو ہر لمحہ ملی ہوئی ہے۔ ہر انسان کاکیس مزید اضافے کے ساتھ وہی ہے جو مذکورہ عرب شیخ کا کیس تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان، کامل طورپر عاجز اورمحروم انسان ہے۔ پھر اس کو موجودہ دنیا کی صورت میں سب کچھ دے دیا جاتا ہے۔ فطرت اپنے تمام خزانوں کے ساتھ تاحیات اس کی خدمت گزار بن جاتی ہے۔
انسان کا پیدا ہونا ایک حیرت ناک عجوبہ ہے۔ انسان اگر اپنے بارے میں سوچے تووہ ایک ایک چیز پر دہشت زدہ ہو کر رہ جائے گا۔ ایک ایسا انسان جوزندگی رکھتا ہے، جس کے اندر دیکھنے اور سننے کی صلاحیت ہے، جو سوچتا ہے اور چلتا ہے، جو منصوبہ بناتا ہے اور اس کو اپنے حسب منشا عمل میں لاتا ہے۔ یہ سب اتنی زیادہ انوکھی صفات ہیں جو انسان کو اپنے آپ بلا قیمت ملی ہوئی ہیں۔ انسان اگر اِس پر سوچے تو وہ شکر کے احساس میں ڈوب جائے۔
پھر یہ دنیا جس کے اندر انسان رہتا ہے، وہ حیرت ناک حد تک ایک موافقِ انسان دنیا ہے۔ زمین جیسا کُرہ ساری وسیع کائنات میںکوئی دوسرا نہیں۔ یہاں پانی ہے، یہاں سبزہ ہے، یہاںہواہے، یہاںدھوپ ہے، یہاں کھانے کا سامان ہے اور دوسری اَن گنت چیزیں خالق کے یک طرفہ عطیے کے طورپر موجود ہیں۔ یہ چیزیں زمین کے سوا کہیں اور موجود نہیں۔
اگر آدمی اِس حقیقت کو سوچے تو وہ مذکورہ عرب شیخ کی طرح شکر کے احساس سے سجدے میں گر پڑے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ انسان دنیا کی چیزوں کو فارگرانٹیڈ(for granted) طور پر لیے رہتاہے۔ وہ شعوری یا غیر شعوری طورپر یہ سمجھتا ہے کہ جوکچھ ہے، اُس کو ہونا ہی چاہیے۔ جوکچھ اُس کو ملا ہوا ہے، وہ اُس کو ملنا ہی چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں انسان کا امتحان ہے۔
انسان کو چاہیے کہ وہ اِس معاملے میں اپنے شعور کو زندہ کرے۔ وہ بار بار سوچ کر اِس حقیقت کو سمجھے کہ وہ سرتا پا ایک عاجز مخلوق ہے۔ اس کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ مکمل طورپر خدا کے دینے سے ملا ہے۔ خدا اگر نہ دے تو اُس کو کچھ بھی ملنے والا نہیں۔ جو چیزیں انسان کو بظاہر اپنے آپ مل رہی ہیں، اُن کو وہ اِس طرح لے، جیسے کہ وہ ہر وقت براہِ راست خدا کی طرف سے بھیجی جارہی ہیں۔ وہ ملی ہوئی چیزوں کو دی ہوئی چیزوں کے طور پر دریافت کرے۔
خدا کا مطلوب انسان وہ ہے جو اپنے ذہن کو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ وہ بظاہر اسباب کے تحت ملنے والے سامانِ حیات کو بلااسباب خدا کی طرف سے ملاہوا سمجھے، وہ معمول(usual) کو خلافِ معمول (unusual) کے طورپر دیکھ سکے، وہ غیب کو شُہود کے درجے میں دریافت کرے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آخرت میںخدا کا دیدار نصیب ہوگا اور یہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے پڑوس میںبنائی جانے والی ابدی جنت میں جگہ پائیں گے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا پیغام

قرآن کی سورہ مریم میں قرآن کے بارے میں یہ آیت آئی ہے: لِتُبَشِّرَ بِہِ الْمُتَّقِیْنَ (19:97)یعنی قرآن اِس لیے اتارا گیا ہے کہ وہ اہلِ تقویٰ کے لیے بشارت ثابت ہو۔ ’بشارت‘ کا مطلب اچھی خبر (good news) ہے۔ قرآن، خدا کی ایک مستند کتاب ہے۔ قرآن تمام انسانوں کو ایک اچھی خبر دینے والا ہے۔ وہ اچھی خبر یہ ہے کہ انسان اگر دنیا کی محدود زندگی میں حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرے تو وہ موت کے بعد کی زندگی میں ابدی جنت میں جگہ پائے گا۔
قرآن کے مطابق، یہ اچھی خبر اُن افراد کے لیے ہے جو دنیا کی زندگی میں تقوی کی روش اختیار کریں- جنت عمومی طورپر ہر انسان کو نہیں ملے گی، وہ صرف اُس انسان کو ملے گی جو دنیا کی زندگی میں تقوی کا ثبوت دے (3:133)- جنت ایک معیاری دنیا ہے- اِس معیاری دنیا میں جگہ پانے کی شرط صرف ایک ہے، اور وہ تقوی ہے-قرآن کے مطابق، یہی وہ منصوبۂ تخلیق (creation plan) ہے جس کے لیے انسان کو پیدا کرکے اس کو محدود مدت کے لیے سیارۂ ارض (planet earth) پر بسایا گیا ہے۔ سیارۂ ارض انسان کے لیے کوئی عیش گاہ نہیں ہے، وہ مذکورہ مقصد کے لیے مقامِ انتخاب (selection ground) ہے۔ یہاں وہ افراد چُنے جارہے ہیں جو اپنی اعلیٰ صفات کی بنا پر جنت جیسی معیاری دنیا میں بسائے جانے کے قابل ہوں۔ یہی بات قرآن کی سورہ الملک میں اِن الفاظ میں کہی گئی ہے: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا )67:2)یعنی اللہ نے موت اور زندگی کو پیدا کیا، تاکہ وہ تم کو جانچے کہ تم میں سے کون اچھا کام کرتاہے:
He created death and life so that He might test you, and find out which of you is best in conduct.
اللہ تعالیٰ نے جو چیزیں پیدا کی ہیں، وہ وسیع تر تقسیم (division) میں دوہیں— مادی دنیا اور انسان۔ مادی دنیا سے مراد وہ پوری وسیع کائنات ہے جس کو نیچر (nature)کہاجاتاہے۔ مادی دنیا مکمل طورپر خدا کے مقرر کئے ہوئے قانون (divine laws) کے تحت کام کررہی ہے۔ وہ خدا کے قانون سے ادنی انحراف نہیں کرتی۔ مگر انسان کا معاملہ اِس سے مختلف ہے۔ انسان پوری کائنات میں ایک استثنا کی حیثیت رکھتا ہے، وہ یہ کہ انسان کو انتخاب کی آزادی (freedom of choice) عطا کی گئی ہے۔ انسان کو کامل اختیار حاصل ہے کہ وہ خود اپنی سوچ کے مطابق، اپنے قول وعمل کا فیصلہ کرے۔ یہ بات قرآن کی مختلف آیتوں میں بتائی گئی ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کا ترجمہ یہ ہے: ’’کیا یہ لوگ اللہ کے دین کے سوا کوئی اور دین چاہتے ہیں، حالاں کہ اُسی کے حکم میں ہے جو کوئی آسمان اور زمین میں ہے، خوشی سے یا ناخوشی سے، اور سب اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ (3: 83)۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک اور آیت کا ترجمہ یہ ہے:’’اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا، تو وہ دین اُس سے ہر گز قبول نہ کیاجائے گا اور وہ آخرت میں ناکام انسانوں میں سے ہوگا‘‘ (3: 85)
قرآن کی اِس آیت میں لفظ ’اسلام‘ (submission) استعمال کیا گیا ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ خالق کی جو اطاعت بقیہ کائنات سے جبری (compulsory) طورپر مطلوب ہے، انسان سے یہ مطلوب ہے کہ اِسی اطاعت کو وہ کامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی میں اختیار کرے۔
قرآن کی مذکورہ آیت کے مطابق، جنت کی بشارت متقی انسانوں کے لیے ہے۔ متقی کا لفظی مطلب ہے — ڈرنے والا یا بچنے والا۔ ڈرنا یا بچنا کیا ہے، یہ دراصل حساسیت (sensitivity) کا ایک ظاہرہ ہے۔ جب آدمی کسی چیز کے بارے میں بہت زیادہ باشعور ہوجائے تو فطری طور پر وہ اس کے بارے میں بہت زیادہ حساس (sensitive) ہوجاتاہے۔ انسان کی زندگی میں سب سے بڑا رول اِسی حساسیت کا ہے۔ آدمی جس چیز کے بارے میں حساس نہ ہو، وہ اس کو نظر انداز کرے گا، اور جس چیز کے بارے میں وہ حساس ہو، وہ چیز اس کا کنسرن (concern) بن جائے گی۔ عین اپنے مزاج کے مطابق، اُس کو وہ سب سے زیادہ قابلِ توجہ چیز سمجھنے لگے گا۔
قرآن کا پیغام یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو ڈسٹریکشن سے بچائے۔ وہ اپنے شعورکو اتنا زیادہ بیدار کرے کہ اپنی زندگی میں خدا کی اطاعت ہی اُس کا سب سے بڑا کنسرن (sole concern) بن جائے، کوئی دوسری چیز اس کی حساسیت کا مرکز نہ بنے۔
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
ایسے آدمی کا حال کیا ہوگا، اُس کو قرآن میں مختلف مقامات پر بتایا گیا ہے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت یہ ہے: وَلَا تَــقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰۗىِٕکَ کَانَ عَنْہُ مَسْــــُٔــوْلًا (17: 36)یعنی تم اُس چیز کے پیرو نہ بنو جس کا تمھیں علم نہیں۔ بے شک کان اور آنکھ اور دل سب کی، آدمی سے پوچھ ہوگی۔
قرآن کی اِس آیت میں د راصل اُس چیز کا حکم دیاگیا ہے جس کو ایک لفظ میں صحیح طرزِ فکر کہاگیا ہے۔ انسانی زندگی کی درستگی کا سارا مدار اِس پر ہے کہ اس کے اندر صحیح طرز فکر پیدا ہو جائے۔ وہ اپنے قول اور عمل کے معاملے میں اپنے آپ کوپوری طرح قانونِ خداوندی کے مطابق بنالے۔
انسان کو سننے کی طاقت، دیکھنے کی طاقت اور سوچنے کی طاقت اِس لیے دی گئی ہے، تاکہ انسان اُن کا استعمال کرکے اپنے لیے اُس صحیح روش کو جان سکے جس کو قرآن میں صراطِ مستقیم کہاگیاہے۔ صراطِ مستقیم سے ہٹنا، اِس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی نے اپنی ملی ہوئی صلاحیتوں کو درست طور پر استعمال نہیں کیا۔ ایساآدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں قابلِ مواخذہ (accountable) قرار پائے گا، کو ئی بھی عذر اُس سے قبول نہیں کیا جائے گا 30: 57) )۔اِسی طرح حیاتِ انسانی کا ایک اصول یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کو کبر (arrogance) کی نفسیات سے بچائے۔ اِس سلسلے میں قرآن کی ایک آیت کے الفاظ یہ ہیں: وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا ۭ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْـتَالٍ فَخُــوْرٍ(31: 18) یعنی تم زمین میں اکڑ کر نہ چلو۔ بے شک اللہ کسی اکڑنے والے اور فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔
قرآن کی اِس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کے لیے سب سے بُری اخلاقی صفت کیا ہے، وہ کبر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کبر تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے۔ اس کے برعکس، تواضع (modesty) تمام بھلائیوں کا سرچشمہ۔ قرآن کا مطلوب انسان وہ ہے جو متواضع ہو اور کبر کی نفسیات سے مکمل طورپر خالی ہو۔
قرآن کی سورہ الفجر میں بتایا گیا ہے کہ انسان کے ساتھ جو خوش گوار یا نا خوش گوار تجربات پیش آتے ہیں، وہ صرف ابتلا (test) کے لیے ہوتے ہیں، مگر انسان ایسے واقعات کو منفی معنی میں لے لیتا ہے۔ اگر اس کے ساتھ خوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أکرمن‘ کی نفسیات میںمبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ برتری (superiority complex) کی نفسیات میں۔ اِس کے برعکس، اگر اُس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے تو وہ ’أہانن‘ کی نفسیات میں مبتلا ہوجاتا ہے، یعنی احساسِ کم تری (inferiority complex) کی نفسیات میں (89:15-16)۔
قرآن کے مطابق، یہ دونوں چیزیں انسان کو ہلاک کرنے والی ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ انسان کے ساتھ کوئی خوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ اور اگر اس کے ساتھ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش آئے، تب بھی وہ اعتدال کی حالت پر قائم رہے۔ جو انسان اِس طرح معتدل شخصیت کا ثبوت دے، اس کو قرآن میں النفس المطمئنۃ (89:27)کہاگیا ہے، یعنی کامپلکس فری انسان (complex-free soul) ۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کسی انسان کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ اُس کو موت کے بعد کی ابدی زندگی میں جنت میں داخلہ مل جائے۔ اِس سلسلے میں قرآن میں ارشاد ہوا ہے: اِنَّ ھٰذَا لَہُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ؀ لِــمِثْلِ ھٰذَا فَلْیَعْمَلِ الْعٰمِلُوْنَ (37:60-61)یعنی یقینا یہی بڑی کامیابی ہے۔ ایسی ہی کامیابی کے لیے عمل کرنے والوں کو عمل کرنا چاہیے۔اِس سے معلوم ہواکہ قرآن کے مطابق، انسان کا گول (goal) کیا ہونا چاہئے، وہ گول صرف ایک ہے، اور وہ جنت ہے۔ جنت سادہ طور پر صرف ایک عیش گاہ نہیں ہے۔ جنت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رب العالمین کا پڑوس ہے، اور بلاشبہہ کسی انسان کے لیے اِس سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہوسکتی کہ اس کو ابدی زندگی میں اپنے رب کا پڑوس (neighbourhood) حاصل ہوجائے۔ جنت کی یہ خصوصیت قرآن کی اِس دعا سے معلوم ہوتی ہے: رَبِّ ابْنِ لِیْ عِنْدَکَ بَیْتًا فِی الْجَنَّةِ (66:11) یعنی اے میرے رب، میرے لیے تو اپنے پاس جنت میں ایک گھر بنا دے۔
واپس اوپر جائیں

کائنات کا سائنسی مطالعہ

کائنات کے سائنسی مطالعے کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے ایک مشہور عالم نے لکھا ہے — کائنات کے اسرار کی جستجو اور رموزِ فطرت کی عقدہ کشائی کا ذوق ایمان کے دروازے کی کلید ہے- لیکن جس جستجو کا مطلوب خدا نہ ہو اور جو عقدہ کشائی ایمان بالآخرت کی طرف رہبری کرنے والی نہ ہو، قرآن کے نزدیک یہ جستجو ہرزہ گردی اور یہ عقیدہ کشائی بادپیمائی ہے-
موجودہ سائنس کا موضوع کائنات (nature)کا مطالعہ ہے- مگر سائنس کا مقصد نہ فلسفیانہ مطالعہ ہے اور نہ مذہبی مطالعہ- فلسفیانہ مطالعہ ا ور مذہبی مطالعہ دونوں، علمی اصطلاح کے مطابق، سبجیکٹیو مطالعہ (subjective study) کے طریقے ہیں- اس کے برعکس، سائنس کا طریقِ مطالعہ وہ ہے جس کو آبجیکٹیو مطالعہ (objective study) کہاجاتا ہے، یعنی کائنات کے صرف اُس پہلو کا مطالعہ جو تجربے اور مشاہدے کی گرفت میں آتا ہو-
سائنسی تحقیق کی حیثیت کسی مذہبی کتاب جیسی نہیں ہے- اپنے موضوعِ مطالعہ کے اعتبار سے، سائنس کی حیثیت صرف یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے ڈیٹا(data) فراہم کردے- یہ ہمارا کام ہے کہ ہم سائنس کے فراہم کردہ ڈیٹا کو کس طرح استعمال کرتے ہیں- میںنے سائنس کا مطالعہ اِسی نقطہ نظر کے تحت کیا ہے- میں سمجھتا ہوں کہ مذکورہ اقتباس اِس معاملے میں صورتِ حال کی صحیح نمائندگی نہیں ہے- اِس معاملے میں زیادہ درست طورپر کہنے کی بات یہ ہے کہ — کائنات خداکی تخلیق ہے- کائنات کا مطالعہ براہِ راست طورپر تخلیق کی دریافت ہے اور بالواسطہ طورپر خدا کی دریافت-
سائنس کو صرف سائنس کے اعتبار سے دیکھنا چاہیے- سائنس نے گہرے مطالعے کے ذریعے فطرت کے بارے میں قابلِ قدر ڈیٹا (valuable data) فراہم کردئے ہیں- یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اِس ڈیٹا کو استعمال کرکے اسلام کا نیا علمِ کلام مرتب کریں- یہ ہمارے اپنے عمل کا معاملہ ہے، نہ کہ سائنس کے طریقِ مطالعہ کا معاملہ-
واپس اوپر جائیں

مسلم تاریخ کا احیا

1799 میں مسلم دنیا میں دو بڑے بڑے واقعات ہوئے۔ایک طرف، اِسی سال میسور (انڈیا) کے سلطان ٹیپو، انگریز فوج سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔ اس کے بعد انگریزی فوج کے جنرل نے خوش ہو کر کہا تھا:
Today, India is ours.
دوسری طرف، اِسی سال(1799) بحرِ روم (Mediteranean Sea) میں واقع عثمانی ترکوں کے طاقت ور بحری بیڑہ (naval fleet) پر یورپی قوموں نے حملہ کیا اور اس کو تباہ کردیا۔ اِس کے بعد یورپی فوج کے جنر ل نے خوش ہو کر کہا تھا:
This is the beginning of the end.
1799 مسلمانوں کے عروج کے خاتمے کی علامت ہے۔ دوسری طرف، یہی 1799 مسلمانوں کے زوال کے آغاز کی علامت ہے۔ اِس کے بعد پوری مسلم دنیا میں احیائِ ملت کے نام سے زبردست سرگرمیاں شروع ہوگئیں۔ مگر لمبی مدت کی غیر معمولی قربانیوں کے باوجود احیائِ ملت کی یہ دوسو سالہ جدوجہد اپنے مطلوب نتیجے کے اعتبار سے، سرتا سر ناکام رہی۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ اس کا نقطۂ آغاز ہی درست نہ تھا۔اُس وقت اٹھنے والے مسلم رہناؤں کے لیے جو فوری ریفرنس (immediate reference) تھا، وہ مسلمانوں کی سیاسی تاریخ تھی۔ چناں چہ مسلم احیا کی تحریک عملاً مسلمانوں کے سیاسی غلبہ کے احیا کی تحریک بن گئی۔ حالاں کہ احیا کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ مسلمان تاریخ سے گزر کر دورِ نبوت تک پہنچیں اور وہ سنتِ رسول کے احیا کو اپنا نشانہ بنائیں، نہ کہ مسلم تاریخ کے احیا کو۔
اِسی غلطی کا یہ نتیجہ ہے کہ اِس دور میں اٹھنے والی مسلم تحریکوں کا نشانہ فکر اسلامی کا احیا نہ رہا، بلکہ عملاً مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کا احیا اُن کا نشانہ بن کررہ گیا۔
واپس اوپر جائیں

مردوزن کی مساوات

مردوزن کی مساوات (gender equality)کا لفظ پہلی بار یورپ میں استعمال کیا گیا - ابتداء ً اِس کا مطلب تھا عورت اور مرد دونوں کو ووٹ کا یکساں حق دینا-اس کے بعدیہ اصطلاح بہت مقبول ہوئی اور ہر اعتبار سے مردوزن کی مساوات کو بتانے کے لیے اس کو ایک معیاری اصطلاح کا درجہ حاصل ہوگیا- بیسویں صدی کے نصف آخر میں مزید تحقیقات کے بعد مساواتِ مردوزن کا نظریہ تنقید کا شکار ہوگیا-
اِس سلسلے میں رسرچ کے متعدد نتائج شائع ہوچکے ہیں- اِس سلسلے کی تازہ ترین تحقیق وہ ہے جو امریکا کی پنسلوینیا یونی ورسٹی میں ہوئی ہے اور وہ امریکا کے ایک جرنل (Proceedings of the National Academy of Science) کے شمارہ 3 دسمبر 2013 میں چھپی ہے- اِس رسرچ کا خلاصہ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (4 دسمبر 2013) میں شائع ہوا ہے-
اِس رسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ عورت اور مرد کے درمیان شدید فرق (stark difference) پایا جاتا ہے- اِس میں بتایا گیا ہے کہ عورتوں کی ذہنی ساخت اور مردوں کی ذہنی ساخت میں فرق ہوتا ہے:
Women's brains are designed for social skills and memory, while men's are for perception and coordination. (The Times of India, New Delhi, December 4, 2013, page 23)
عورت اور مرد کی فطری ساخت میں فرق ایک عظیم حکمت پر مبنی ہے، وہ یہ کہ دونوں زندگی کی گاڑی چلانے میں دو پہیے کا رول ادا کریں- دونوں اپنے اپنے اعتبار سے ایک دوسرے کے مددگار بنیں- عورت اور مرد کے درمیان مساوات بہ اعتبار رتبہ ہے، نہ کہ بہ اعتبار رول:
Equal in status, but different in role.
واپس اوپر جائیں

تخلیق ِ انسانی کا مقصد

ہر زمانے کے اہلِ فکر ہمیشہ یہ سوچتے رہے ہیں کہ انسان کی تخلیق کا مقصد (purpose of creation) کیا ہے- معلوم تاریخ کےمطابق، تقریباً 5 ہزار سال سے انسان اِس سوال کا جواب معلوم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے- مگر اکیسویں صدی عیسوی کے ربع اول تک اِس کا کوئی متفق علیہ جواب انسان دریافت نہ کرسکا-
مشہور برٹش سائنس داں سر جیمز جینز (وفات: 1946) نے اپنی کتاب پراسرار کائنات (The Mysterious Universe) میں لکھاہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان بھٹک کر ایک ایسی دنیا میں آگیا ہے جو اس کے لیے بنائی نہیں گئی تھی:
It seems that man has strayed in a world that was not made for him.
اِس موضوع پر سوچنے والے لوگوں نے عام طورپر مایوسی کی باتیں کی ہیں- ایک روسی مصنف نے لکھا ہے کہ اِس دنیا میں ہر چیز حسین (beautiful) ہے، صرف ایک چیز ہے جو حسین نہیں، اور وہ انسان ہے-
ڈاکٹر الکسس کیرل نے اِس موضوع پر ایک کتاب لکھی ہے- اِس موضوع کی پیچیدگیوں کی بناپر انھوں نے اِس کا نام انسانِ نامعلوم (Man the Unknown)رکھ دیا ہے- برطانی مصنف ایڈورڈ گبن نے لکھا ہے کہ انسانی تاریخ جرائم کے رجسٹر سے کچھ ہی زیادہ ہے-
فرانس کے مشہور فلسفی ڈیکارٹ نے انسان کی ہستی پر غور کیا- اس نے کہا کہ میں سوچتا ہوں، اِس لیے میں ہوں(I think, therefore, I exist)- ڈیکارٹ کے اِس قول سے صرف انسان کے وجود کی تصدیق ہوتی ہے، لیکن یہ سوال پھر بھی باقی رہتا ہے کہ انسان کے وجود کا مقصد (purpose of existence) کیا ہے-
مشہور یونانی فلسفی ارسطو (وفات: 322 ق م) نے اِس مسئلے پر غور کیا- انھوں نے اپنی کتاب میں لکھا کہ — صرف قانونی نظام یہ کرسکتاہے کہ وہ لوگوں کو اُن کے وحشیانہ سلوک سے بچائے:
The legal system alone saves people from their own savagery.
ارسطو کو معلمِ اول کہاجاتا ہے- چناںچہ یہی سوچ بعد کی تاریخ میں رائج ہوگئی- ارسطو کی سوچ کا مطلب یہ تھا کہ انسان کو اعلی اوصاف کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، لیکن یہ اوصاف ابتدائی طورپر بالقوہ حالت میں ہوتے ہیں- اِس بالقوہ کو بالفعل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک موافق سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system) موجود ہو- اُس وقت کا یونانی بادشاہ سکندر اعظم (وفات: 323 ق م) ارسطو کا شاگرد تھا- ارسطو نے چاہا کہ بادشاہ کے تعاون سے وہ یونان میں مطلوب سیاسی اور سماجی نظام بنا سکے، مگر ایسا ممکن نہ ہوسکا- چناں چہ ارسطو مایوسی(despair) کی حالت میں صرف 62 سال کی عمر میں مرگیا-
ارسطو کے نزدیک انسانی فلاح صرف صالح اجتماعی نظام کے ذریعے ممکن ہوسکتی تھی- ارسطو نے اپنے اس تصور کو فلسفہ کی زبان میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ اس نے اپنے اِس تصور کو فلاسفائز (philosophise)کیا- اِس کے ایک عرصہ بعد جرمنی میں کارل مارکس(وفات: 1883) کا دور آیا- کارل مارکس نے اِس تصور کو اقتصادی اصطلاحوں میں بیان کیا- دوسرے لفظوں میں یہ کہ مارکس نے اِس تصور کو سیکولر ائز (secularise)کیا- مگر کارل مارکس، عالمی کمیونسٹ پارٹی اور اِس تصور پر بننے والی سوویت ریاست (USSR) سب کی سب، اپنے اجتماعی نشانے کے حصول میں مکمل طورپر ناکام ہوگئے-
اِس کے بعد یہ فکری منہج مسلمانوں کے درمیان رائج ہوا- عرب دنیا میں سید قطب (وفات: 1966) اور برصغیر ہند میں سید ابو الاعلی مودودی(وفات: 1979) پیدا ہوئے- اِن لوگوں نے شعوری یا غیرشعوری طور پر اِس فکری منہج کو اسلام میں داخل کردیا- انھوں نے اسلام کی سیاسی تفسیر بیان کی- انھوں نے اسلامی زندگی کے لیے اس کے مطابق، سماجی اور سیاسی نظام (socio-political system)کے  قیام کو ضروری قرار دیا — ارسطو نے اِس تصور (concept) کا فلسفیانہ ایڈیشن تیار کیا تھا- کارل مارکس نے اِس تصور کا سیکولر ایڈیشن بنایا اور سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی نے اِس تصور کا اسلامی ایڈیشن تیار کردیا-
تاریخ بتاتی ہے کہ پچھلے ڈھائی ہزار سال کے دوران یہ نظریہ کبھی بھی واقعہ نہ بن سکا- کبھی کسی ملک میں ایسا نہیں ہوا کہ مصلح کے بیان کردہ نشانے کے مطابق، کوئی اجتماعی نظام یاکوئی سماجی نظام قائم ہوا- تاریخ بتاتی ہے کہ اِس نظریے کے تمام علم بردار آخر کار مایوسی کی حالت میں مرے، وہ دنیا کواپنے تصور کے مطابق، مطلوب نظام نہ دے سکے-
اِس سے بھی زیادہ تلخ بات یہ ہے کہ اِس قسم کے تمام نام نہاد مصلحین کا انجام یہ ہوا کہ وہ تعمیر کے نام پر اٹھے اور دنیا کو عملاً تخریب کا تحفہ دے کر چلے گئے- ارسطو کے شاگرد سکندر اعظم نے ساری دنیا کے خلاف جنگ چھیڑ دی- کارل مارکس کے ماننے والوں نے اپنا مفروضہ نظام قائم کرنے کے نام پر روس میں 25 ملین انسانوں کو ہلاک کردیا- سید قطب اور سید ابو الاعلی مودودی کی تحریک کے نتیجے میں مختلف ملکوں میں اپنے مطلوب نظام کے قیام کے لیے مسلح جدوجہد (armed struggle) شروع ہوئی جس کے نتیجے میں مسلمانوں کو مزید تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ملا-
اجتماعی اصلاح کی اِن تحریکوں کا یہ منفی انجام کیوں ہوا- اِس کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی نظام کا تعلق براہِ راست سیاسی اقتدار سے ہے- جب بھی آپ کسی ملک میں اپنی پسند کا اجتماعی نظام قائم کرنے کے لیے اٹھیں گے تو وہاں لازماً اُن لوگوں سے آپ کا ٹکراؤپیش آئے گا جو بروقت سیاسی اقتدار پر قابض ہیں- اِس طرح اجتماعی نظام کا نظریہ اول دن سے ٹکراؤ کے ہم معنی بن جاتاہے-
سیاسی ٹکراؤ کوئی سادہ بات نہیں- سیاسی ٹکراؤ کا طریقہ عین اپنے نتیجے کے طور پر انسان کو دو طبقوں میں تقسیم کردیتاہے- اسلام کے پولٹکل مفسرین کے الفاظ میں، ایک، ’’طاغوت‘‘ اور دوسرے، مخالفِ طاغوت- مخالفِ طاغوت گروہ اپنی تحریک کو پہلے قائم شدہ حکومت کے مقابلے میں اپوزیشن کے طورپر شروع کرتا ہے-آغاز میں یہ کام بظاہر پُرامن طورپر شروع ہوتا ہے، لیکن جب پُرامن ذریعہ ناکام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد دھیرے دھیرے قائم شدہ حکومت کے خلاف تشدد شروع ہوجاتا ہے، پھر جب تشدد سے بھی مطلوب کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو اس کے بعد آخری چارۂ کار کے طورپر خود کش بم باری شروع کردی جاتی ہے- اجتماعی انقلاب کا نتیجہ اپنے آخری انجام کو پہنچ کر صرف اجتماعی ہلاکت بن کر رہ جاتا ہے-اِس معاملے میں تباہ کن ناکامی کا سبب یہ ہے کہ اجتماعی انقلاب کا نظریہ اپنے آپ میں ایک غیرفطری نظریہ ہے- وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں کوئی ایسا نظریہ کبھی مثبت نتیجہ پیدا نہیں کرسکتا جو خالق کے تخلیقی نقشہ کے خلاف ہو-
خالق کا نقشۂ تخلیق
خالق کا نقشہ تخلیق(creation plan) کیا ہے- اس کو جاننے کا واحد مستند ذریعہ صرف قرآن ہے- قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ خالق نے انسان کو جس نقشے کے مطابق، پیدا کیا ہے، وہ کسی مفروضہ اجتماعی نظام پر مبنی نہیں ہے، وہ تمام تر انفرادی اصلاح کے تصور پر مبنی ہے- خالق نے دنیا میں اپنی اسکیم کو برروئے کار لانے کے لیے ہر دور میں پیغمبر بھیجے- اِن تمام پیغمبروں کا نشانۂ دعوت ہمیشہ فرد (individual) ہوا کرتا تھا، نہ کہ کسی قسم کا سوشیو پولٹکل سسٹم (socio-political system) خالق کا اپنے تخلیقی نقشے کے مطابق، اصل کنسرن (concern) یہ نہیں ہے کہ دنیا میں اجتماعی سطح پر کوئی آئڈیل نظام بنایا جائے- خالق کا نشانہ فرد سازی ہے، مجتمع سازی نہیں، کیوں کہ تخلیقی نقشے کے مطابق، مجتمع سازی آئڈیل معنوں میں ممکن ہی نہیں- آئڈیل نظام یا آئڈیل سماج صرف جنت میں قائم ہوسکتا ہے- موجودہ دنیا کی حیثیت انتخابی میدان (selection ground) کی ہے- خالق کی منشا یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں ایسے اعلی افراد چنے جائیں جو آخرت کی ابدی جنت میں بسائے جانے کے مستحق ہوں-اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے قرآن کی سورہ البقرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے- اِس سلسلے میں قرآن کی متعلق آیتوں کا ترجمہ حسب ذیل ہے:
’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں ایک جانشین بنانے والا ہوں۔ فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں ایسے لوگوں کو بسائے گا جو اس میں فساد کریں اور خون بہائیں۔ اور ہم تیری حمد کرتے ہیں اور تیری پاکی بیان کرتے ہیں۔ اللہ نے کہا میں جانتا ہوں جو تم نہیںجانتے۔ اور اللہ نے سکھادئے آدم کو سارے نام، پھر ان کو فرشتوں کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان لوگوں کے نام بتائو‘‘۔ (2:30-31)
اللہ تعالی نے جب انسان کو ایک آزاد مخلوق کی حیثیت سے پیدا کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ زمین کو اِس آزاد مخلوق کے چارج میں دے دے، اُس وقت فرشتوں نے یہ شبہہ ظاہر کیا کہ آزادی پاکر انسان زمین پر فساد کرے گا اور خون بہائے گا- فرشتوں کا یہ شبہہ بے بنیاد نہ تھا- خود قرآن کے بیان سے ثابت ہے کہ فی الواقع ایسا ہی ہوا- ساتویں صدی کے ربع او ل میں جب قرآن اترا تو اللہ تعالی نے اس میں یہ آیت شامل فرمائی: ظَہَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ (30:41) یعنی خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا، لوگوں کے اپنے ہاتھوں کی کمائی کے سبب سے-
یہاںیہ سوال ہے کہ جب بطور واقعہ وہی ہوا جس کا شبہہ فرشتوں نے ظاہر کیا تھا، تو پھر اللہ نے اولادِ آدم کو کیوں پیدا کیا اور کیوں اُن کو زمین پر بسنے کا موقع دیا-
جیسا کہ معلوم ہے، آدم کی پیدائش سے لے کر ساتویں صدی عیسوی کے ربع اول تک جب کہ قرآن نازل ہوا، ہر قوم اور ہر بستی میں مسلسل طورپر اللہ کی طرف سے نذیر (بتانے والے) آتے رہے، اس کے باوجود آدم کی بعد کی نسلوں میں پیدا ہونے والے لوگوں کی اکثریت مفسد ثابت ہوئی، حتی کہ پوری تاریخ فساد سے بھری ہوئی تاریخ بن گئی- ایسی حالت میں یہ سوال ہےکہ اللہ تعالی نے انسان کو کیوں پیدا کیا- اِس سوال کا جواب قرآن کی مذکورہ آیتوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے-
قرآن کی اِن آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ نے آدم کو اُن کی اولاد کے نام (أسماء) بتائے- یہاں علمِ اسماء سے مراد علمِ مسمَّیات ہے- یہاں اسم سے مراد افراد کے نام (names)نہیں، بلکہ یہاں اسم سے مراد مُسمّیٰ (named) ہے، یعنی نام سے موسوم افراد-دوسری بات یہ کہ اُس وقت آدم کے سامنے اللہ نے اُن کی اولاد کے جن لوگوں کو پیش کیا، وہ پوری ذریتِ آدم یا پورا مجموعۂ انسانی نہ تھا- کیوں کہ اگر تمام پیدا ہونے والے انسان اُن کے سامنے پیش کیے جاتے تو فرشتوں کا شبہہ رفع نہیں ہوسکتا تھا، بلکہ اِس قسم کے مظاہرے سے فرشتوں کے شبہہ کی تصدیق ہوجاتی- کیوں کہ خود قرآن کی تصدیق کے مطابق، پیدا ہونے والے انسانوں کی عظیم اکثریت عملاً مفسدثابت ہوئی-
اِس پہلو پر غور کرنے سے سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالی نےاُس وقت پوری اولادِ آدم کو نہیں بلکہ صرف اولادِ آدم کے منتخب افراد کو پیش کیا تھا- یہ منتخب افراد وہی تھے جن کو قرآن میں دوسرے مقام پر نبی اور صدیق اور شہید اور صالح کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے (4:69)- یہ مظاہرہ اللہ تعالی نے صرف فرشتوں کے لیے نہیں کیاتھا، بلکہ بالواسطہ طورپر اُس کا مخاطب وہ انسان بھی تھے جو اللہ کے مقصد تخلیق کو سمجھنا چاہتے ہوں-
اِس معاملے کی مزید وضاحت قرآن کی سورہ الملک کی ایک آیت سے معلوم ہوتی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا (67:2)- اِس آیت سے اور قرآن کی دوسری آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ تخلیق سے اللہ تعالی کا مقصود احسن العمل افراد ہیں، پورے مجموعۂ انسانی میں عدل اور فلاح کا نظام قائم کرنا منصوبہ الہی کا نشانہ نہیں-
اِس کا سبب یہ ہے کہ خالق نے جس نقشے کے تحت انسان کو پیدا کیا، اس میں ایسا ہونا ممکن ہی نہ تھا- کیوں کہ اِس منصوبۂ تخلیق کے مطابق، ہر انسان کو کامل آزادی دی گئی تھی- ہر انسان کے لیے کامل معنوں میں آزادانہ انتخاب (freedom of choice) کا موقع کھلا ہوا تھا- ایسی حالت میں یہ بالکل فطری بات تھی کہ لوگ اپنی آزادی کا غلط استعمال کریں اور اِس طرح اکثر لوگ عملاً مفسد بن جائیں-اِس بنا پر اللہ تعالی نے ایک قابلِ عمل نشانے کا انتخاب کیا، یعنی اپنے منصوبہ تخلیق کو مبنی بر فرد کے اصول پر قائم کرنا، نہ کہ مبنی بر مجموعہ کے اصول پر-
اللہ تعالی کے مقرر کردہ نقشہ تخلیق کے مطابق، اب جو ہورہاہے، وہ یہ کہ زمین پر کامل معنوں میں آزادی کا ماحول ہے- لوگ ایک کے بعد ایک پیدا ہورہے ہیں- اُن میں سے کوئی فرد اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرتا ہے اور کوئی غلط استعمال- عین اُسی وقت ایک غیبی نظام کے تحت فرشتے ہرایک کا پورا ریکارڈ تیار کررہے ہیں- یہ ریکارڈ قیامت کے دن اللہ کے سامنے پیش ہوگا- اُس وقت جو ہوگا، اس کو قرآن میں پیشگی طورپر مختلف الفاظ میں بیان کردیا گیاہے- مثلاً کہاگیا ہے: فَرِیْقٌ فِی الْجَنَّةِ وَفَرِیْقٌ فِی السَّعِیْرِ (42:7) یعنی ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں-
تخلیق کے اِس تصور کے مطابق، آخرت میں یہ ہوگا کہ پوری نسلِ انسانی سے صالح افراد چنے جائیں گے، یعنی وہ لوگ جنھوں نے یہ ثبوت دیا تھا کہ آزادی کے باوجود انھوں نے اپنی آزادی کا غلط استعمال نہیں کیا- آزادی کے باوجود وہ کامل معنوں میں با اصول زندگی کے پابند رہے، آزادی کے باوجود انھوںنے اپنے آپ کو پوری طرح بے راہ روی سے بچایا- اِس طرح انھوں نے ثابت کیا کہ وہ جنت کے آئڈیل معاشرے میں بسائے جانے کا استحقاق رکھتے ہیں- آخرت میں پوری تاریخ بشری کے اِن منتخب افراد کو جنت کے معیاری معاشرے میں بسادیا جائے گا، اور بقیہ لوگ جو اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہے، اُن کو دوسرے انسانوں سے الگ کرکے کائناتی کوڑا خانہ (universal litterbin) میں ڈال دیا جائےگا، جس کا دوسرا نام جہنم ہے- (2013)
واپس اوپر جائیں

دہشت گردی کا مسئلہ

دہشت گردی (terrorism) کیا ہے۔ دہشت گردی اور جنگ (war) کے درمیان بہت مشابہت ہے۔ اِس لیے دہشت گردی کی ایسی تعریف کرنا ضروری ہے جس میں دہشت گردی کو جنگ سے الگ کیا جاسکے۔ دونوں کے درمیان فرق یہ ہے کہ جنگ باقاعدہ طور پرقائم شدہ حکومت کی طرف سے کی جانے والی کارروائی کا نام ہے، اور دہشت گردی اُس مسلّح کارروائی کو کہا جاتا ہے جو غیر ریاستی افراد (non-state actors) کے ذریعے انجام دی گئی ہو۔ ریاست کی طرف سے کیا جانے والا تشدد اپنے حق کا غلط استعمال ہے، اور غیر ریاستی تنظیم کی طرف سے کیا جانے والا تشدد ایک ایسا کام ہے جس کا سرے سے ان کو حق ہی نہیں۔
اِس تعریف (definition)کے مطابق، دہشت گردی اسلام میں سراسر ناجائز ہے۔ کیوں کہ اسلام کا اصول یہ ہے کہ: الرحیل للإمام (جنگ کا اعلان صرف حاکمِ وقت کا ایک خصوصی حق ہے)۔ غیر ریاستی افراد کو اگر کسی فرد یا کسی ادارے سے شکایت ہے تو اُن کے لیے صرف ایک ہی آپشن (option) ہے، یہ کہ وہ پُرامن انداز کے پابند رہتے ہوئے اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کریں۔ غیر ریاستی افراد کو کسی بھی عذر (excuse) کی بنا پر مسلح کارروائی کی اجازت نہیں۔ غیر ریاستی افراد یا ادارہ اگر کسی معاملے میں مسلح کارروائی کا طریقہ اختیار کریں تو اِسی کا نام دہشت گردی ہے۔
غیر ریاستی افراد اگر اپنی مسلح کارروائی کو جہاد کا نام دیں تو جہاد کا نام دینے سے اُن کا عمل جہاد نہیں بن جائے گا، اِس کے باوجود وہ فساد قرار پائے گا۔ اللہ کی نظر میں ایسے لوگ مفسد قرار پائیں گے، نہ کہ مصلح۔ایک قائم شدہ حکومت اسلام کے مطابق، نیز عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول کے مطابق، جنگ کرنے کا حق رکھتی ہے۔ لیکن یہ حق ایک لازمی شرط کے ساتھ مشروط ہے، وہ یہ کہ یہ جنگ صرف دفاع (defence) کے لیے ہونا چاہئے، یعنی اُس وقت جب کہ ایک ملک دوسرے ملک کے اوپر جارحیت کرے۔ اِس قسم کی جارحیت کے خلاف جنگ کرنا ہر حکومت کا حق ہے، بشرطیکہ یہ ثابت ہوجائے کہ جارح ملک نے بالقصد جارحانہ کارروائی کا معاملہ کیا ہے۔
اسلام کے مطابق، ظلم یا دشمنی کے حوالے سے ایک قائم شدہ حکومت بھی کسی کے خلاف جنگ نہیں چھیڑ سکتی۔ اگر کسی حکومت کو یہ شکایت ہو کہ اس کے خلاف کسی کی طرف سے دشمنی کا عمل کیاجارہا ہے، تب بھی اس کو پرامن حدود میں رہ کر اپنی جوابی تدبیر کرنا چاہیے۔ ظلم یا دشمنی کا حوالہ کسی حکومت کو یہ جواز فراہم نہیںکرتا کہ وہ ا س کے خلاف مسلح کارروائی شروع کردے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ۭ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَةٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ (41: 34 (یعنی بھلائی اور برائی دونوں یکساں نہیں ہیں۔ تم برائی کو اُس چیز سے دفع کرو جو زیادہ بہتر ہے، تو تم دیکھو گے کہ وہی شخص جس کے اور تمھارے دمیان عداوت ہے، گویا وہ ایک سرگرم دوست بن گیا ہے۔
قرآن کی اِس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمنی اور دوستی دونوں اضافی الفاظ ہیں۔ خالق نے ہر انسان کو فطرتِ سلیم پر پیدا کیا ہے۔ بظاہر اگر کوئی شخض ظلم یا دشمنی کرتا ہوا نظر آئے تو اس کو بھی بالقوۃ دوست (potential friend) کے روپ میں دیکھنا چاہیے۔ اپنی طرف مثبت روش کے ذریعے یہ کوشش کرنا چاہیے کہ بالقوۃ دوست آپ کا بالفعل دوست (actual friend) بن جائے۔
قرآن کی ایک آیت اِن الفاظ میں آئی ہے: الصلح خیر (4:128 (یعنی مصالحت کا طریقہ بہترین طریقہ ہے۔ اِسی طرح حدیثِ رسول میں آیا ہے کہ: إن اللہ یعطی علی الرفق، ما لا یعطی علی العُنف (صحیح مسلم، رقم الحدیث:2593 ) یعنی اللہ نرمی پر وہ دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔
’صلح‘ اور ’رفق‘ کو ایک لفظ میں امن (peace) کہہ سکتے ہیں۔ اسلام میں امن پر بہت زور دیاگیا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر حال میں امن کا طریقہ اختیار کرو، خواہ امن قائم کرنے کے لیے تم کو یک طرفہ صبر کا طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں صلح حدیبیہ اِسی قسم کی تدبیرِ امن کی ایک واضح مثال کی حیثیت رکھتی ہے۔اسلام میں امن کو اتنی زیادہ اہمیت کیوں دی گئی ہے۔ یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اسلام میں امن کی حیثیت سماجی اعتبار سے، خیرِ اعلیٰ (summom bonum) کی ہے۔
اِس کا سبب یہ ہے کہ موجودہ دنیا میں کسی کام کو انجام دینے کے لیے امن کی ضرورت ہوتی ہے، حتی کہ پر امن حالات کے بغیر نماز اور روزہ جیسی چیزیں بھی حسن وخوبی کے ساتھ انجام نہیں دی جاسکتیں۔ دعوت اور اصلاح، اسلام کا اہم فریضہ ہے، مگر دعوت اور اصلاح کا کام موثر طورپر صرف اُس وقت انجام پاسکتاہے، جب کہ حالات معتدل ہوں اور فریقین کے درمیان پُرامن فضا پائی جاتی ہو۔
اِس سے معلوم ہوا کہ قانونِ فطرت کے مطابق، جنگ سرے سے کوئی آپشن نہیں۔ جنگ کے ذریعے کوئی مثبت نتیجہ حاصل کرنا سرے سے ممکن ہی نہیں۔ پہلی عالمی جنگ (world war) اور دوسری عالمی جنگ، دونوں تاریخ کی عظیم ترین جنگیں تھیں، مگردونوں جنگیں صرف عالمی تباہی پر ختم ہوئیں۔ اِن جنگوں سے کسی بھی فریق کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلح تصادم (armed conflict) ہر حال میں بربادی کا ذریعہ ہے۔ خواہ یہ مسلح تصادم ریاست کے ذریعے انجام پایا ہو یا کسی غیر ریاستی تنظیم (NGO) کے ذریعے۔
واپس اوپر جائیں

ردِ ّ عمل کی سیاست

بیسویں صدی عیسوی میں تمام دنیا کے مسلمانوں کے اندر ایسی تحریکیں اٹھیں جن کا مقصد یہ تھا کہ اسلام کے سیاسی اور قانونی نظام کو قائم کیا جائے۔ عرب دنیا میں سید قطب (وفات: 1966 )، برصغیر ہند میں سید ابو الاعلی مودودی (وفات: 1979 ) انڈونیشیا میں عبد القہار مذکر (وفات: 1965 )، سوڈان میں حسن تُرابی (پیدائش: 1932 )اِس کی مثالیں ہیں۔ اِن لوگوں نے تقریر اور تحریر کے ذریعے مسلمانوں میں سیاسی احیا(political revival) کی کوشش کی۔
اِس قسم کی سیاسی تحریکیں، سب کی سب، رد عمل (reaction)کی تحریکیں تھیں۔ وہ نو آبادیاتی دور (colonial age) کے خلاف رد عمل کے طور پر پیدا ہوئیں۔ وہ اصلاً قومی سیاسی تحریکیں تھیں، لیکن اُن کو مسلمانوں کے درمیان اِس لیے مقبولیت حاصل ہوگئی، کیوں کہ اُن کے رہنماؤں نے انھیں اسلام کی اصطلاحوں میں بیان کیاتھا۔
جس زمانے میں نو آبادیاتی طاقتوں کا ظہور ہوا، اُس زمانے میں دنیا کے بڑے حصے میں مسلم سلطنتیں قائم تھیں۔ بر صغیر ہند میں مغل سلطنت، ترکی اور عرب ممالک میں عثمانی سلطنت، وغیرہ۔ اِسی طرح ایشیا اور افریقہ کے بیش تر علاقے، مسلم سلطنت کے تابع تھے۔نوآبادیاتی طاقتیں جب مسلم دنیا میں داخل ہوئیں تو اُس وقت کی مسلم سلطنتوں نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن فوجی اور اقتصادی اعتبار سے نو آبادیاتی طاقتوں (colonial powers)کو برتری حاصل تھی، اِس لیے ہر میدان میں وہ غالب آتی چلی گئیں۔ یہ صورتِ حال، مسلم رہ نماؤں کے لیے ناقابلِ برداشت تھی، چناں چہ وہ ان کے خلاف لڑنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔یہ جدوجہد ابتدا ء ًغیر مسلّح انداز میں شروع ہوئی۔ مثلاً سید ابوالاعلیٰ مودودی نے لٹریچر تیار کرکے اس کو پھیلانا شروع کردیا۔ اِس لٹریچر میں اسلام کو اِس حیثیت سے پیش کیاگیا تھا کہ اسلام کے وجود وبقا کے لیے سیاسی غلبہ لازمی طورپر ضروری ہے۔ اِس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم دوبارہ اسلام کو سیاسی اعتبار سے غالب کرنے کی کوشش کریں۔
اِسی درمیان 1948 میں فلسطین میں اسرائیل کا قیام عمل میںآیا۔ یہ مسلمانوں کے لیے بے حد ناقابلِ برداشت تھا۔ بال فور ڈکلریشن کے مطابق، یہودیوں کو محدود کوٹا سسٹم (limited quota system) کے تحت ، فلسطین کے ایک علاقے میں واپسی کی اجازت دی گئی۔ اصولاً یہ کوئی غلط فیصلہ نہ تھا۔ کیوں کہ یہ یہودی دراصل ڈائس پورا (diaspora)سے تعلق رکھنے والے تھے۔ اور ڈائس پورا سے تعلق رکھنے والے یہودیوں کی فلسطین واپسی خود قرآن (5:21)کے مطابق، اصولاً درست تھی، لیکن مسلمان جو پہلے سے نو آبادیاتی مسئلے کی بنا پر مغربی قوموں سے برہم تھے، وہ مزید شدت کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوگئے۔
سیاسی جہاد کی یہ تحریکیں ابتداء ً پُرامن انداز میں شروع کی گئیں، لیکن پرامن انداز جب پیشِ نظر مقصد کے لیے مفید ثابت نہیں ہوا، تو جہاد کے نام پر مسلّح تحریک شروع کردی گئی۔ مگر رہنماؤں نے دوبارہ یہ دیکھا کہ مسلّح جہاد سے بھی وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں، تو اس کے بعد انھوں نے خود کش بم باری (suicide bombing) کا طریقہ اختیار کرلیا۔ خوکش بم باری بلاشبہہ اسلام میں حرام تھی، لیکن مسلم رہنماؤں نے اُسے استشہاد (طلب شہادت) کا نام دے کر اپنے لیے اس کو بطور خود جائز قرار دے دیا۔
اکیسویں صدی کے آغاز میں جوصورتِ حال ہے، وہ یہ کہ مسلح جہاد اور خود کُش بم باری کے باوجود، مسلم رہنما اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مسلح جہاد عملاً کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) ثابت ہوا ہے۔ اِس نام نہاد جہاد کے ذریعے مسلمان کچھ حاصل تو نہ کرسکے، البتہ جو کچھ انھیں حاصل تھا، اس کو بھی انھوں نے کھو دیا۔اِس معاملے کو خالص اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دیکھا جائے، تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ مسلم رہنماؤں کا رد عمل، خواہ وہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف ہو، یا اسرائیل کے خلاف، وہ اسلام سے انحراف کا نتیجہ تھا، نہ کہ اسلام کی پیروی کا نتیجہ۔ اِس معاملے میں مسلم رہنماؤں کی تحریکیں صحیح ڈائرکشن سے ہٹی ہوئی تھیں، وہ فطرت کے قانون کی خلاف ورزی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار جانی اور مالی قربانیوں کے باوجود اُنھیں اپنے مطلوب مقصد میں کوئی کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔
اِس معاملے کو قرآن کی روشنی میں دیکھا جائے، تو قرآن میں ایک واضح آیت موجود ہے، جو اِس معاملے میں رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔ قرآن کی سورہ آل عمران میںاِسی قسم کی صورتِ حال کا حوالہ دیتے ہوئے، فطرت کا یہ اصول بتایا گیا تھا: تلک الأیّام نداولہا بین الناس(2:140) یعنی سیاسی اقتدار کسی ایک گروہ کی اجارہ داری (monopoly)نہیں، سیاسی اقتدار کبھی ایک گروہ کے پاس رہے گا اور کبھی دوسرے گروہ کے پاس۔ دوسرے لفظوں میں، یہ کہ جب سیاسی اقتدار میں تبدیلی ہو، تو اس کے خلاف رد عمل کرنا کوئی صحیح پالیسی نہیں۔
قرآن کی اِس تعلیم کا مقصد خود سپردگی اور پسپائی نہیں ہے، وہ دراصل ایک اعلیٰ حکمت ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ منفی رد عمل کے بجائے، مثبت منصوبہ بندی کے ذریعے صورتِ حال کا مقابلہ کیا جائے۔جب بھی سیاسی اقتدار میں تبدیلی ہوتی ہے، تو وہ صرف تبدیلی کے ہم معنیٰ نہیںہوتی، بلکہ اِسی کے ساتھ وہ نئے مواقع کے ظہور کے ہم معنیٰ ہوتی ہے۔ یہ فطرت کا نظام ہے، جو خدا نے قائم کیا ہے۔ جب بھی کوئی قوم دیر تک اقتدار کی حالت میں رہے، تو اس کے اندر جمود پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی تخلیقی صلاحیت (creativity) ختم ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں سیاسی تبدیلی در اصل اِس لیے ہوتی ہے کہ اُس قوم کے جمود(stagnation) کو توڑا جائے۔ چیلنج کی صورت حال پیدا کرکے اُس کے اندر نئی بیداری لائی جائے۔ ہر گروہ لمبے اقتدار کے بعد ایک غیر تخلیقی گروہ (uncreative group) بن جاتا ہے۔ سیاسی اقتدارمیں تبدیلی دراصل اِس لیے ہوتی ہے کہ اس کو دوبارہ ایک تخلیقی گروہ (creative group) بنایا جائے۔
مسلم رہنما اگر فطرت کے اِس قانون (law of nature)کو سمجھتے، تو ان کے لیے صحیح طریقہ یہ تھا کہ وہ رد عمل کا طریقہ اختیار نہ کریں، بلکہ اُس کو وہ اپنے لیے ایک چیلنج سمجھیں اور مثبت ذہن کے تحت، پُرامن طورپر وہ اس کا سامنا کریں، جیسا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعدجاپان نے امریکا کے مقابلے میں کیا اور کامیابی حاصل کی۔ مگر مسلم رہنمااِس راز کو نہ سمجھ سکے۔ وہ منفی رد عمل کا شکار ہوگئے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اِس دنیا میں مثبت رد عمل کا نتیجہ مثبت صورت میں نکلتا ہے، اور منفی رد عمل کا نتیجہ منفی صورت میں۔ یہ فطرت کا ایک ابدی قانون ہے، اِس میں کسی بھی گروہ کا کوئی استثنا نہیں۔(2009)
واپس اوپر جائیں

پیغمبرانہ ماڈل

انڈیا کی ایک مسلم تنظیم کے اجتماع میں ایک مشہور مسلم اسکالر کی تقریر ہوئی۔ تقریر کے بعد حاضرین میں سے ایک مسلمان نے پوچھا کہ انڈیا میں مسلمان اقلیت میں ہیں، غیر مسلم لوگ یہاں اکثریت میں ہیں۔ ایسی حالت میں، ہندستانی مسلمانوں کے لیے اسلام میں کیا رہنمائی دی گئی ہے۔کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مقرر نے جواب دیا: یہ ایک مشکل سوال ہے۔ کیوں کہ اسلام میں پوزیشن آف اسٹرینتھ (position of strength) کا ماڈل موجود ہے، مگر اسلام میں پوزیشن آف ماڈسٹی (position of modesty) کا ماڈل موجود نہیں۔
یہ جواب بتاتا ہے کہ موجودہ زمانے کے مسلم اسکالر اور مسلم رہنما اسلام کے نام سے صرف بعد کو بننے والی مسلم تاریخ کو جانتے ہیں، وہ دورِ اول میں بننے والے پیغمبرانہ ماڈل کو نہیں جانتے، حالاں کہ دورِ اول کا ماڈل تمام تر پوزیشن آف ماڈسٹی ہی پر مبنی ہے۔ یہ بعد کو قائم ہونے والے مسلم ایمپائر کی بات ہے، جب کہ وہ ماڈل بنا جس کو پوزیشن آف اسٹرینتھ کا ماڈل کہاجاتا ہے۔
دورِ اول میں اسلام کا ماڈل کیا ہے، وہ واضح طورپر قرآن میں موجود ہے۔ پیغمبر کو قرآن کی ابتدائی دور کی سورہ المدثر میں مخاطب کرتے ہوئے کہاگیا ہے: یٰٓاَیُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝ قُمْ فَاَنْذِرْ ۝ وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۝ (74: 1-3)یعنی اے پیغمبر، تم پرامن انداز میں دعوت الی اللہ کا فکری کام کرو اور پولٹکل سسٹم کے معاملے میں تم مکمل طورپر عدم تعرض کا طریقہ (non-confrontational method) اختیار کرو۔ قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ دورِ اول کا پیغمبرانہ ماڈل دو بنیادی اصولوں پر مبنی تھا — دعوہ ایکٹوزم (dawah activism) ، اور پولٹکل اسٹیٹس کوازم (political statusquoism)، یعنی پرامن ذرائع سے دعوت کا عمل کرنا اور سیاسی معاملات میں کامل طورپر عدم ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کرنا۔ یہی پیغمبرانہ ماڈل اسلام کا اصل ماڈل ہے اور مسلمانوں کو اِسی پیغمبرانہ ماڈل کو اختیار کرنا ہے، مسلم اقلیت کے علاقے میں بھی، اور مسلم اکثریت کے علاقے میں بھی۔
واپس اوپر جائیں

شخصیت کی پہچان

امام مالک نے اپنی کتاب الموطا میں ایک باب کے تحت یہ روایت نقل کی ہے- باب کا عنوان ہے: باب ماجاء فی التُّقى-
قال مالک: وبلغنی أن القاسم بن محمد کان یقول: أدرکتُ الناس ما یعجبون بالقول- قال مالک: یرید بذلک العمل- إنما یُنظر إلى عملہ، ولا ینظر إلى قولہ- یعنی مالک نے کہا کہ مجھ کو قاسم بن محمد تابعی کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے ایسے لوگ (صحابہ) پائے ہیں جن کا حال یہ تھا کہ وہ قول پر خوش یا متعجب نہیں ہوتے تھے- مالک نے کہا کہ اِس سے ان کی مراد عمل تھا- بے شک کسی انسان کا عمل دیکھا جائے گا، اس کا قول نہیں دیکھا جائے گا-
اِس روایت میں ایک اہم حقیقت کو بتایا گیا ہے، وہ یہ کہ انسان کا قول اس کی پہچان نہیں ہے- کسی انسان کی حقیقی پہچان وہ ہے جو عملی تجربے کے بعد سامنے آئے- کسی شخص کے قول میںاس کی حقیقی شخصیت ظاہر نہیں ہوتی- لوگوں کا عام مزاج یہ ہے کہ وہ جب کسی بات کو کہتے ہیں تو وہ اس کو کہتے ہوئے اپنے موافق بات کو مبالغے کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور جوبات ان کے لیے غیر موافق ہے، اس کو وہ یا تو بیان نہیں کرتے یا گھٹا کر بیان کرتے ہیں- کسی بات کے ایک پہلو کو بڑھاکر بتانا اورا س کے دوسرے پہلو کو کم کرکے بتانا، یہ ایک ایسی عادت ہے جو تقریباً ہر انسان میں ہوتی ہے- اِسی عادت کے ذریعے وہ اپنی حقیقی شخصیت کو چھپائے رہتا ہے-
کسی انسان کی حقیقی شخصیت صرف اُس وقت سامنے آتی ہے جب کہ وہ ٹسٹ (test)پر آجائے- آدمی قول میں اپنی شخصیت کو چھپا سکتا ہے، لیکن عملی تجربے میں اپنی حقیقی شخصیت کو چھپانااس کے لیے ممکن نہیں ہوتا — دانش مند وہ ہے جو کسی شخص کے بارے میں اس کے حقیقی عمل کو دیکھ کر رائے بنائے، نہ کہ اس کی خوش نما تحریر و تقریرکو سن کر-
واپس اوپر جائیں

اپنی تاریخ سے کٹنا

مولانا شبلی نعمانی نے 1913 میں اعظم گڑھ (یوپی) میں دارالمصنفین کا ادارہ قائم کیا- اس کے چند دنوں کے بعد 18 نومبر 1914کو 57 سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوگیا- مولانا شبلی نعمانی نے اپنے آخری دنوں میں اپنے شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی کو بلایا اور اُن کو دار المصنفین کا پورا چارج دے دیا-
مولانا سید سلیمان ندوی نے پوری سنجیدگی اور انہماک کے ساتھ دارالمصنفین کا کام کیا اور دارالمصنفین کے بارے میں مولانا شبلی کے خواب کو واقعہ بنایا- بعد کو اپنے بعض ساتھیوںسے اُن کا اختلاف ہوا، یہاں تک کہ دل برداشتہ ہو کر 1946 میں انھوں نے دار المصنفین کو چھوڑ دیا- وہ پہلے بھوپال اور پھر پاکستان چلے گئے- دار المصنفین چھوڑنے کے 7 سال بعد 23 نومبر 1953 کو 69 سال کی عمر میں پاکستان (کراچی) میں ان کا انتقال ہوگیا- یہ 7 سال جو مولاناسید سلیمان ندوی نے  دارالمصنفین سے باہر گزارے، وہ بلاشبہہ ان کی زندگی کے سب سے زیادہ قیمتی سال تھے-مگر یہ قیمتی سال اپنی تاریخ چھوڑنے کی وجہ سے ضائع ہوگئے، وہ حقیقی طور پراستعمال نہ ہوسکے-
مولانا سید سلیمان ندوی جب دار المصنفین کو چھوڑنے کا ارادہ کررہے تھے، اُس وقت دار المصنفین میں اُن کے ایک ساتھی شاہ معین الدین احمد ندوی (وفات: 1974)موجود تھے- وہ اِس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ: ’’سید صاحب مہینوں اس کے بارے میں کش مکش میں مبتلا رہے- راقم سے بھی انھوں نے رائے پوچھی- میں نے عر ض کیا کہ کسی ادارے کے بانی کو اُسے چھوڑ کر دوسری جگہ جانے کی یہ پہلی مثال ہوگی- فرمایا: یہ تو صحیح ہے، مگر دارالمصنفین میں سکون کے ساتھ رہنےکی شکل کیا ہے- اِس کا کسی کے پاس کوئی جواب نہ تھا‘‘- (حیاتِ سلیمان، از: شاہ معین الدین احمد ندوی، صفحہ 515)
شاہ معین الدین احمد ندوی نے دار المصنفین نہ چھوڑنے کا جو مشورہ دیا، وہ بلاشبہہ اپنے آپ میں ایک درست مشورہ تھا، لیکن مشورہ دینے کا جو انداز تھا، وہ موثر نہیں ہوسکتا تھا- مولانا سید سلیمان ندوی دار المصنفین کے بانی (founder)نہیں تھے- مزید یہ کہ اِس مشورے میں یہ بات واضح نہ تھی کہ دار المصنفین چھوڑنے کا نقصان کیا ہے- ایسی حالت میں یہ ایک فطری بات تھی کہ یہ مشورہ مولانا سیدسلیمان ندوی کے مائنڈ کو ایڈریس نہ کرے اور وہ ان کے لیے قابلِ قبول نہ ہوسکے-
اصل یہ ہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی کا دار المصنفین چھوڑنا کوئی سادہ بات نہ تھی- یہ خود اپنی بنائی ہوئی تاریخ کو چھوڑنے کے ہم معنی تھا، اور کوئی بھی شخص اپنی بنائی ہوئی تاریخ کو چھوڑنے کا تحمل نہیں کرسکتا- لوگوں کی نظر میں انسان کی حیثیت اس کی تاریخ سے متعین ہوتی ہے اور تاریخ ہمیشہ کسی ماحول میں بنتی ہے- جو آدمی اپنے ماحول کو چھوڑدے، اس نے اپنی بنائی ہوئی تاریخ کوچھوڑدیا- کوئی بھی دوسری چیز اِس غلطی کی تلافی نہیں کرسکتی-
مولانا سید سلیمان ندوی 33 سال دار المصنفین میں رہے- اِس 33 سال میں انھوں نے اپنی علمی تاریخ بنائی، لیکن اگر توسیعی اعتبار سے دیکھئے تو یہ مدت اور زیادہ لمبی ہے- مولانا سید سلیمان ندوی وابستگانِ شبلی کی حیثیت سے 1907 میں نمایاں ہوئے- یہ وہ سال ہے جب کہ مولانا شبلی ندوة العلما (لکھنؤ) میں تھے اور مولانا سید سلیمان ندوی ان کے شاگرد تھے-اُس وقت ندوہ میں ایک سالانہ جلسہ ہوا- اِس موقع پر مولانا سید سلیمان ندوی نے عربی میں ایک برجستہ تقریر کی- اِس تقریر سے مولانا شبلی نعمانی اتنا زیادہ خوش ہوئے کہ انھوںنے عین جلسہ گاہ میں اپنے سر کی پگڑی اتار کر مولانا سید سلیمان ندوی کے سر پر رکھ دی- (ملاحظہ ہو: حیاتِ سلیمان، صفحہ 28-27)-
اِس اعتبار سے دیکھئے تو مولانا سید سلیمان ندوی کی علمی تاریخ 1907 سے شروع ہوتی ہے- گویا کہ 1946میں جب سید صاحب نے دار المصنفین کو چھوڑا تو اُن کی علمی تاریخ کی مدت تقریباً 40 سال ہوچکی تھی- یہ چالیس سالہ تاریخ مولانا سید سلیمان ندوی کا سب سے بڑا سرمایہ تھی- وہ اگر دار المصنفین میں رہتے تو وہ اپنی اِس 40 سالہ تاریخ کے درمیان رہتے- اُن کی ہر تقریر اور تحریر میں اِس 40 سالہ تاریخ کا وزن شامل رہتا، مگر انھوں نے اِس حقیقت کو نہیں سمجھا اور خود اپنی تاریخ سے اپنے آپ کو کاٹ لیا- اِس طرح یہ ہوا کہ اُن کے لیے جو رول مقدر تھا، اُس کو ادا کیے بغیر وہ اِس دنیا سے چلے گئے-
دار المصنفین کو چھوڑنے کا جواز مولانا سید سلیمان ندوی نے یہ بتایا تھاکہ دار المصنفین میں سکون کے ساتھ رہنےکی شکل نہیں- مولانا سید سلیمان ندوی کے اِس جملے کی حیثیت عذر کی نہیں، بلکہ بے خبری کی ہے- مولانا سید سلیمان ندوی، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت نگار تھے- یہ بلاشبہہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ پیغمبر اسلام نے اُس سے بہت زیادہ بے سکونی کے حالات میں کام کیا جو مولانا سید سلیمان ندوی کو دارالمصنفین میں پیش آئے- اِس کا اندازہ پیغمبر اسلام کی اہلیہ حضرت عائشہ کے اِس قول سےہوتاہے کہ: حطمہ الناس (صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1215 ) یعنی لوگوں نے آپ کو روند ڈالا تھا-
مولانا سید سلیمان ندوی نے پیغمبر اسلام کی سیرت لکھی، مگر اِس معاملے میں انھوں نے پیغمبراسلام کی زندگی سے سبق حاصل نہیں کیا- اگر وہ سبق حاصل کرتے تو وہ کبھی ایسی غلطی نہ کرتے کہ بے سکونی کو اپنے لیے عذر بنا لیتے، حالاں کہ بے سکونی سرے سے کوئی عذ ر ہی نہیں- اِس دنیا میں بے سکونی کو مینیج (manage) کرنا ہے، نہ کہ اُس کو عذر بنانا- یہی وہ حقیقت ہے جس کو ایک حدیثِ رسول میں اِن الفاظ میں بیان کیا گیاہے: نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس: الصحة والفراغ (صحیح البخاری، رقم الحدیث: 5962)
کوئی ادارہ اپنے آپ میں مقدس نہیں ہوتا- کسی ادارے کو چھوڑنا کوئی گناہ کی بات نہیں- لیکن ادارے کو چھوڑنے کی دو صورتیں ہیں— ایک ہے ذاتی شکایت (personal grievance) کی بنا پر چھوڑنا، اور دوسرا ہے اصول (principle) کی بنا پر چھوڑنا- ذاتی شکایت کی بنا پر ادارے کا چھوڑنا ہرگز درست نہیں، کیوں کہ ذاتی شکایت حقیقتاً فطرت کے نظام کا حصہ ہے، نہ کہ کسی کے ناروا سلوک کا حصہ- البتہ اصول کی بنا پر کسی ادارے کو چھوڑنا بلا شبہہ جائز ہے، کیوں کہ اصول کا تعلق دینِ حق سے ہوتا ہے، نہ کہ کسی کی اپنی ذات سے-
واپس اوپر جائیں

انتخابِ اول، انتخابِ ثانی

ذاتی زندگی کا معاملہ ہو تو ایک شخص معیار (ideal)کا انتخاب کرسکتا ہے، لیکن اجتماعی زندگی کے معاملے میں کبھی معیار کا انتخاب ممکن نہیں ہوتا-اِس لیے اجتماعی زندگی کے بارے میں صحیح اصول یہ ہےکہ جب انتخابِ اول (first choice) ممکن نہ ہو تو انتخابِ ثانی (second choice) کو اختیار کرلیا جائے-
اِس اصول کی حکمت یہ ہے کہ انتخابِ اول کو اختیار کرنے کی صورت میں اگر معیار حاصل ہوتا تھا، تو انتخابِ ثانی کی صورت میں امن اور استحکام (stability) حاصل ہوجاتا ہے- اجتماعی زندگی کے لیے یہی واحد عملی طریقہ ہے، اِس کے سوا کوئی اور طریقہ عملاً ممکن ہی نہیں-
یہی فطری اصول پیغمبر کی سنت بھی ہے- مثلاً ہجرتِ مدینہ کے وقت فرسٹ چوائس یہ تھا کہ مکہ میں تیرہ سال کی جدوجہد سے جو جزئی کامیابی ہوئی تھی، وہ مزید جدوجہد کے ذریعے مکمل کامیابی تک پہنچے- اور سکنڈ چوائس یہ تھا کہ مکہ چھوڑ دیا جائے، تاکہ ٹکراؤ سے بچ کر پُرامن ماحول میں اپنا مشن جاری رکھا جائے- اُس وقت پیغمبر نے اپنے لیے سکنڈ چوائس کو اختیار کرلیا-اِسی طرح حدیبیہ کے موقع پر فرسٹ چوائس یہ تھا کہ سفر کو جاری رکھتے ہوئے آپ مکہ پہنچیں اور عمرہ کریں- اور سکنڈ چوائس یہ تھا کہ وہ درمیان میں اپنےسفر کو ختم کرکے مدینہ واپس چلے جائیں- پیغمبر نے اُس وقت بھی سکنڈ چوائس کو لینے کا فیصلہ کیا-
یہی فطرت کا اصول ہے اور یہی پیغمبر کی سنت بھی- اِس دنیا میں کسی بھی میدان میں کامیابی اِسی اصول کو اختیار کرکے حاصل ہوسکتی ہے- یہی قدیم زمانے میں بھی ممکن تھا او ر یہی موجودہ زمانے میں بھی ممکن ہے- فرسٹ چوائس ہمیشہ آدمی کی ذاتی خواہش کے مطابق ہوتا ہے، اِس لیے وہ ہمیشہ فرسٹ چوائس پر اصرا ر کرتا ہے، لیکن یہ طریقہ یقینی طورپر غیر عملی ہے- نتیجہ خیز طریقہ صرف یہ ہے کہ حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے آدمی سکنڈ چوائس پر راضی ہوجائے-
واپس اوپر جائیں

ترقی کا زینہ

زندگی ہم وار راستے پر سفر کرنے کا نام نہیں۔ زندگی میں ہمیشہ وہ ناموافق صورتِ حال پیش آتی ہے جس کو بحران (crisis) کہا جاتا ہے۔ زندگی میں بحران سے بچنا ممکن نہیں۔ اِس مسئلے کا حل صرف ایک ہے، اور وہ ہے کرائسس مینج مینٹ (crisis management) کے آرٹ کو جاننا۔ انسان کو عقل اِسی لیے دی گئی ہے کہ وہ اِس آرٹ کو جانے اور اس کو استعمال کرے۔
زیادہ گہرائی کے ساتھ دیکھئے تو بحران کوئی برائی نہیں، بحران ہر آدمی کے لیے ایک مفید تجربہ ہے۔ ہر بحران آدمی کے لیے کامیابی کا نیا موقع کھولتا ہے۔ اِس معاملے میں صحیح فارمولا صرف ایک ہے— بحران کو ایک نئے موقع میں تبدیل کردو:
Turn the crisis into an opportunity.
انسان کو جو عقل دی گئی ہے، اس کے اندر بے پناہ امکانات چھپے ہوئے ہیں۔ عام حالات میں یہ امکانات سوئے ہوئے رہتے ہیں، معتدل حالات میں یہ امکانات کبھی نہیں جاگتے۔ یہ فطرت کا نظام ہے کہ انسان کی زندگی میں بحران پیدا ہو، تاکہ اس کا ذہن جاگے، تاکہ اُس کی عقلی صلاحیتیں بیدار ہو کر زیادہ بڑے بڑے کام کرسکیں۔ زندگی ایک چیلنج ہے اور چیلنج کا مقابلہ کرنا ہی وہ چیز ہے جو کسی انسان کے لیے ترقی کے دروازے کھولتاہے۔
بحران ہمیشہ فطرت کے نظام کے تحت پیش آتا ہے۔ اِس لیے کسی مفروضہ دشمن کے خلاف شکایت اور احتجاج کرنا ایک غیر متعلق بات ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ جب اس کی زندگی میںکوئی بحران پیش آئے تو وہ شکایت اور احتجاج میں وقت ضائع نہ کرے، بلکہ وہ اپنی عقلی صلاحیتوں کو متحرک کرنے کی کوشش کرے۔ اِس کے بعدوہ دیکھے گا کہ بحران اس کے لیے ترقی کا نیا زینہ بن گیا ہے۔
یہ اصول فرد کے لیے بھی ہے اور قوم کے لیے بھی، ذاتی زندگی میں بھی کامیابی کا یہی راز ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی کامیابی کا یہی راز۔
واپس اوپر جائیں

فخر اور نفرت

انسان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ہر عورت اور ہر مرد کے اندر ایک نفسیات مشترک طور موجود رہتی ہے — فخر اور نفرت۔ فخر کا جذبہ اپنے لیے، اورنفرت کا جذبہ دوسروں کے لیے۔ ہرآدمی اِنھیں دو احساسات کے درمیان جیتاہے اور اِنھیں دو احساسات کے درمیان مرجاتاہے۔
یہ دونوں جذبات اتنے قوی ہیں کہ فخر کا اگر صرف ایک ذرہ اسے مل جائے تواس کو لے کروہ اپنے فخر کا گنبد کھڑا کردیتا ہے۔ اِس طرح اگر اُس کو نفرت کا ایک ذرہ مل جائے تو اُس کو لے کر وہ دوسروں کو نفرت کا موضوع بنا لیتاہے۔ یہ دونوں جذبے اتنا زیادہ عام ہیں کہ اُس کو انسان کا عالمی مزاج کہاجاسکتاہے۔
اِس مزاج کا یہ نتیجہ ہے کہ ہر آدمی اپنے بارے میں فخر کی نفسیات میں جیتا ہے، اور دوسرے کے بارے میں نفرت کی نفسیات میں۔ یہ دونوں جذبات دھیرے دھیرے انسان کے لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں، یہاں تک کہ انسان کا یہ حال ہوجاتا ہے کہ اُس کو اِس معاملے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ہر صورتِ حال میں یہ چیزیں اپنے آپ اس کے اندر پیدا ہوتی رہتی ہیں۔ ہر صورتِ حال اپنے آپ اُ س کو اپنے لیے فخر کی غذا دینے والی بن جاتی ہے۔
اِس طرح ہر صورتِ حال اپنے آپ اُس کو دوسروں کے بارے میں نفرت کی غذا دیتی رہتی ہے۔ یہ دو طرفہ نفسیاتی عمل آدمی کے اندر اِس طرح مسلسل طورپر جاری رہتا ہے کہ اِس میں اس کی کنڈیشننگ ہوجاتی ہے۔
یہ برائی آدمی کے اندر سوچے بغیر اپنے آپ پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب اُس کو ختم کرنا ہو تو آدمی کو سوچ کر اسے ختم کرنا ہوتا ہے۔ یہ اِس معاملے کا سب سے زیادہ نازک پہلو ہے۔ اِس معاملے میں کوئی شخص اپنی اصلاح اُسی وقت کرسکتا ہے، جب کہ وہ شعوری طورپر اس کو دریافت کرلے، وہ شعوری طورپر اپنے اوپر اصلاح کا عمل کرنے لگے۔
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment