Pages

Wednesday 1 February 2017

Alrisala February 2017 (الرسالہ فروری)

1

-استقامت کیاہے

2

- ایک سنتِّ رسول

3

- پیغمبر کا نمونہ

4

- امت کا دورِ زوال

5

- والرُجز فاھجر

6

- تاریخ کا سفر

7

- قرآن فہمی

8

- قرآن و سنت کے عجائب

9

- تکرار کی حقیقت

10

- تخلیقی ایمان

11

- اتمام نور

12

- آدم سے مسیح تک

13

- قرآن، کتاب ہدایت

14

- قرآن کا اسلوب

15

- عافیت کی دعا

16

- سزائے قتل

17

- خدا سے ہم کلامی

18

- موقع ومحل کی اہمیت

19

- سکنڈری چوائس

20

- امیج کا مسئلہ

21

- ذہنی تربیت

22

- عدم اطمینان

23

- ایک اجتماعی مسئلہ

24

- غصہ کیوں آتاہے

25

- سوال و جواب

26

- خبر نامہ اسلامی مرکز


استقامت کیاہے

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:قل ربی اللہ ثم استقم (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2410)۔ یعنی کہو کہ اللہ میرا رب ہے اور اس پر جم جاؤ۔ استقامت کا مطلب ہے جم جانا (to stick) ۔ اس کا مطلب ہے ہر حال میں ربانی روش پر قائم رہنا کسی حال میں اپنے قول سے نہ ہٹنا۔ اللہ کو اس طرح رب بنانا کہ وہی انسان کا اصل کنسرن بن جائے۔اصل یہ ہے کہ اللہ کو رب بنانے کی دو صورتیں ہیں۔ایک یہ کہ زبان سے یہ کہہ دینا کہ میںنے اللہ کو اپنا رب بنایا۔ اس کے بعد اس طرح زندگی گزارنا کہ آدمی کا عمل الگ ہو اور اس کا زبانی اقرار الگ۔ ایسے آدمی کا ایمان اللہ کے یہاں معتبر نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اس طرح اپنا رب بنائے کہ وہی اس کی زندگی کا مشن بن جائے۔ وہ اس کے مطابق سوچے۔ اس کے صبح وشام اس کے مطابق گزریں۔ وہ اسی کے مطابق اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ اسی کا عامل اور اس کا داعی بن جائے۔ وہ اپنے آپ کو پوری طرح اس میں شامل (involve) کردے۔ یہی دوسری قسم کا انسان وہ ہے کہ جو اللہ کو اپنا رب بنانے کے بعد اس پر قائم ہوجائے۔
استقامت ایک فطری حقیقت ہے۔ ہر انسان اپنی دنیا کے معاملے میں استقامت کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ دنیا میں جو شخص اپنے معاملے میں استقامت کا طریقہ اختیار کرے، وہ کامیاب ہوتا ہے۔ اور جو شخص دنیا میں استقامت کا طریقہ اختیار نہ کرے، وہ ناکام ہوکر رہ جاتا ہے۔
استقامت کا یہی طریقہ آخرت کے معاملے میں بھی مومن کو اختیار کرنا ہے۔ مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے ایمانی شعور کو اتنا زیادہ بیدار کرےکہ اس کے ایمان کے ساتھ استقامت کا پہلو شامل ہوجائے۔ ایمان اگر شعوری اقرار ہے تو استقامت ایک شعوری عمل ہے۔ ایمان اور استقامت ، دونوں کے لیے شعوری بیداری لازمی طور پر ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک سنتِّ رسول

سن چھ ہجری میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم فریق مخالف سے امن کا معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ طویل گفت و شنید کے بعد جب معاہدے کی دفعات طے ہوگئیں، اور اس کو کاغذ پرلکھا جانےلگا تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کو لکھواتے ہوئے کہا: اکتب یا علی، ہذا ما صالح علیہ محمد رسول اللہ ۔
فریق ثانی کے لیڈر نے فوراً اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ہم آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے۔ آپ محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبد اللہ لکھیے، جو کہ ہمارے اور آپ کے درمیان مشترک ہے۔آپ نے بلابحث کہا: امح یا علی، اللہم إنک تعلم أنی رسولک،امح یا علی واکتب، ہذا ما صالح علیہ محمد بن عبد اللہ(مسند احمد، حدیث نمبر3187)۔یعنی اے علی، اس کو مٹادو۔ اے اللہ ، تو جانتا ہے کہ میں تیرا رسول ہوں۔ اے علی، مٹادو اور لکھو، یہ وہ (دفعات) ہیں جن پر محمد بن عبد اللہ نے صلح کیا۔ اس کے بعد صلح کا معاہدہ طے پاگیا۔ اور آپ اپنے اصحاب کے ہمراہ مدینہ واپس آگیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معاملہ بلاشبہ اللہ کی رہنمائی کے مطابق تھا۔ اللہ کی رہنمائی کے بغیر آپ ایسا نہیں کرسکتے تھے۔ سورہ الفتح میں اس کی بابت یہ الفاظ آئے ہیں: وَیَہْدِیَکَ صراطًا مُسْتَقِیمًا (48:2)۔ آپ کا یہ عمل بلاشبہ صراطِ مستقیم کا ایک جزء تھا۔ اس لحاظ سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک ابدی اصول ہے۔ جس طرح دور اول میں اس اصول کو اختیار کرنے کے نیتجے میں فتح مبین (الفتح1:) حاصل ہوئی۔ اسی طرح بعد کے زمانے میں بھی فتح مبین کو حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے۔ اس کے سوا کوئی دوسرا طریقہ مسلمانوں کو فتح مبین تک پہنچانے والا نہیں۔
منصوبہ بندی کایہ طریقہ ہمیشہ دنیا میں باقی رہتا ہے۔ مثلا موجودہ زمانے میں اہل ایمان یہ چاہتے ہیں کہ ان کو یہ آزادی ہو کہ وہ قرآن کا پیغام ساری دنیا میں کھلے طور پر پہنچائیں۔ لیکن بار بار ایک رکاوٹ پیش آتی ہے۔ وہ یہ کہ آج کا انسان ، اظہار رائے کی آزادی (freedom of expression) کو انسان کا ایک مطلق حق (absolute right)سمجھتا ہے، اور اس کو وہ استعمال کرنا چاہتا ہے۔ حق کے اس استعمال کا دائرہ کبھی پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جاتا ہے۔ وہ پیغمبر اسلام کے بارے میں آزادانہ اظہارِ خیال کرتا ہے، اور اس کو اپنا ناقابلِ تنسیخ حق سمجھتا ہے۔ مسلمان اس طرح کے واقعات پر مشتعل ہوجاتے ہیں۔ وہ اس کو شتمِ رسول (blasphemy) قرار دے کر چاہتے ہیں کہ شاتم کو قتل کردیں۔ آج کے لوگوں کے لیے مسلمانوں کی یہ روش قابل قبول نہیں۔ چناں چہ اس پر سخت نزاع شروع ہوجاتی ہے، اور دعوتِ اسلام کا کام جیو پرڈائز (jeopardize) ہوجاتا ہے۔
شتم رسول (blasphemy) پر ہنگامہ کرنا یا شاتم کو قتل کرنے کی کوشش کرنا، اصولاً اسلام کےخلاف ہے۔ قرآن کی کسی آیت یا رسول کے کسی قول میں یہ حکم موجود نہیں۔ تاہم بالفرض اگر کسی کا اصرار ہو کہ یہ اسلام کا ایک حکم ہے تب بھی ضروری ہے کہ مسلمان اس طرح کے واقعے پر مشتعل ہونا مکمل طور پر چھوڑدیں۔ تاکہ دعوتِ اسلام کا کام کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے۔
رسول کا رسول ہونا بلاشبہ اسلام کا ایک مسلمہ عقیدہ ہے۔ پھر بھی رسول اور اصحابِ رسول نے رسول اللہ کے لفظ کو کا غذ سے مٹادیا۔ اسی سنت پر مسلمانوں کو بھی عمل کرنا ہے۔ ان کو چاہیے کہ وہ اپنی روش کو بدل دیں تاکہ اسلام کا پر امن مشن کسی رکاوٹ کے بغیر مسلسل طور پر جاری رہے۔ اسی روش کا نام حکمت (wisdom) ہے۔ حکمت اسلام کا ایک لازمی اصول ہے۔ حکمت کے بغیراسلام کا مشن کامیابی کے ساتھ جاری نہیں رہ سکتا۔
واپس اوپر جائیں

پیغمبر کا نمونہ

قرآن کی سورہ نمبر 6 میں ایک ساتھ 18 نبیوں کا ذکر ہوا ہے۔ اس کے بعد ارشاد ہے: أُولَئِکَ الَّذِینَ ہَدَى اللَّہُ فَبِہُدَاہُمُ اقْتَدِہْ (الانعام90:)۔ یعنی یہی لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت بخشی، پس تم بھی ان کے طریقہ پر چلو۔
قرآن کی اس آیت میں ھدی سےمراد اصلاً عقیدہ نہیں ہے، بلکہ طریقہ کار (method) ہے۔ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر دنیا میں آئے، وہ سب یکساں طور پر عقیدہ توحید کے داعی تھے۔ مگر طریقہ کار کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ اس لیے طریقہ کا ر کے معاملے میں وہ مختلف تھے۔ آیت کا مطلب یہ ہے کہ کسی نبی سے جو طریقہ کا ر ثابت ہو، وہ یکساں طور پر خدائی طریقہ ہے۔ کسی پیغمبر نے اپنے زمانے میں حالات کے اعتبار سے جو طریقہ کار اختیار کیا۔ اگر اسی قسم کے حالات دوبارہ تاریخ میں پیدا ہوں تو دوبارہ وہی طریقہ قابل اختیار ہوجائے گا۔
مثال کے طور پر اسرائیلی پیغمبر حضرت موسیٰ کو لیجیے۔ ان کا زمانہ تیرھویں صدی قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ وہ قدیم مصر میں آئے۔ اس وقت وہاں فرعون (Pharaoh) کی حکومت تھی۔ حضرت موسیٰ اللہ کے حکم سے فرعون کے دربار میں گئے۔ وہاں انھوں نے بادشاہ کے سامنے توحید کی دعوت پیش کی۔ بادشاہ ان کی بات سن کر غصہ ہوگیا۔ اور کہا کہ میں تم کو قتل کردوں گا(غافر26:) ۔لیکن پھر فرعون اس پر راضی ہوگیا کہ فوجی میدان کے بجائے، وہ پر امن مقابلے کے میدان میں حضرت موسی کا جواب دے۔
حضرت موسی نے فوراً اس تجویز کو مان لیا۔ انھوں نے یہ نہیں کہا کہ میں تو تمھارا مقابلہ تلوار کے میدان (battlefield) میں کروں گا۔ چناں چہ دونوں فریق کے درمیان یہ مقابلہ پر امن میدان میں ہوا۔ حضرت موسی اس مقابلہ میں پوری طرح کامیاب رہے۔ موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے لیے پرامن میدان میں عمل کرنے کا موقع پوری طرح کھلا ہوا ہے۔ ایسی حالت میں اگر وہ پر امن میدان کو چھوڑ کر تشدد کے میدان میں اپنا عمل شروع کریں تو یہ پیغمبر کے نمونے کے سراسر خلاف ہوگا۔
حضرت موسی کے زمانے میں فرعو ن نے یہ کیا تھا کہ وہ پیغمبر کا مقابلہ فوجی میدان کے بجائے پیس فل میدان میں کرے۔اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس مقابلے میں حضرت موسی کو مکمل کامیابی حاصل ہوئی۔ اس کی تصویر قرآن میں ان الفاظ میں دی گئی ہے: فَإِذَا ہِیَ تَلْقَفُ مَا یَأْفِکُونَ ( 7:117) ۔
موجودہ زمانے میں اس نوعیت کا واقعہ زیادہ بڑے پیمانے پر پیش آیا ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، موجودہ زمانے میں اقوامِ متحدہ (UNO) نے تمام قوموں کے اتفاق رائے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ قومی تعلقات میں اب جنگ مکمل طور پر ایک متروک طریقہ (abandoned method) ہے۔ اب تمام قومی نزاعات کا فیصلہ صرف پرامن گفت وشنید (peaceful negotiation) کے ذریعے کیا جائے گا۔ معاملے کے کسی فریق کو یہ حق نہیں ہوگا کہ وہ جنگ کے ذریعے تصفیہ کرنے کی کوشش کرے۔
ایسی حالت میں موجودہ زمانے کے اہل ایمان پر فرض کے درجے میں ضروری ہوگیا ہے کہ وہ جنگ کا طریقہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیں۔ وہ ہرمعاملے کو پر امن گفت و شنید کے ذریعے طے کرنے کی کوشش کریں۔
موجودہ زمانے کے جو مسلمان جنگ کا طریقہ اختیار کیے ہوئے ہیں، وہ ایسا ہی ہےجیسے حضرت موسی کے سامنے امن کا طریقہ کھلا ہوا تھا۔ مگر اس کو چھوڑ کر وہ یہ کہتے کہ میں تو تلوار کے ذریعے فرعون اور اس کے گروہ کا مقابلہ کروں گا۔ اگر حضرت موسی ایسا کرتے تو ان کو اللہ کی مدد حاصل نہ ہوتی۔ کیوں کہ اللہ کی مدد اللہ کے طریقے کو اختیار کرنے پر آتی ہے، کسی اور طریقے پر نہیں۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کی کوششیں مسلسل طور پر ناکام ہورہی ہیں۔ اس کا سبب یہی ہے کہ انھوں نے اپنی کوشش کے لیے اللہ کا طریقہ اختیار نہیں کیا۔ اس لیے وہ اللہ کی مدد سے محروم ہوگیے۔ اگر مسلمان کامیابی چاہتے ہیں تو ان کو تشدد کا طریقہ چھوڑ کر امن کا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

امت کا دورِ زوال

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: یوشک أن یأتی على الناس زمان لا یبقى من الإسلام إلا اسمہ، ولا یبقى من القرآن إلا رسمہ، مساجدہم عامرة وہی خراب من الہدى، علماؤہم شر من تحت أدیم السماء من عندہم تخرج الفتنة وفیہم تعود۔ (شعب الایمان للبیہقی، حدیث نمبر1763)۔ یعنی قریب ہے کہ لوگوں پر ایسا زمانہ آئے جب کہ اسلام میں سے اس کا صرف نام باقی رہے ، اور قرآن میں سے صرف اس کا نشان باقی رہے ۔ ان کی مسجدیں آباد ہوں گی لیکن وہ ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے سب سے بری مخلوق ہوں گے، ان سے فتنہ نکلے گا، اور انھیں کی طرف فتنہ لوٹے گا۔
یہ حدیث رسول اپنے مفہوم میں بالکل واضح ہے۔ امت کے بعد کے دور کے بارے میں اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے، وہ اس وقت کی بات ہے جب کہ امت قانونِ فطرت کے مطابق زوال کا شکار ہوجائے گی۔ اس زمانے میں دین کا صرف فارم باقی رہے گا، اسپرٹ کے اعتبار سے امت کے افراد بالکل خالی ہو جائیں گے۔ اس زمانے کے علماء غلط فتوے دیں گے، اور غلط تقریریں کریں گے۔ اس کے نتیجے میں جو فساد برپا ہوگا ، اس کا شکار پہلے عوام ہوں گے اور اس کے بعد خود علماء اس کی زد میں آجائیں گے۔
علماء کے غلط فتووں اور غلط تقریروں سے جو چیزیں پیدا ہوں گی۔ ان میں سے ایک شدت پسندی (غلو) ہوگا۔ یہ غلو پہلے اعتقادی شدت کی شکل میں پیدا ہوگا۔ پھر بڑھتے بڑھتے امت کے افراد آپس میں لڑنے لگیں گے۔ یہ آپس کی لڑائی مزید بڑھے گی۔ یہاں تک کہ خود علماء اس کی زد میں آجائیں گے۔اس وقت علماء جاگیں گے۔ مگر برائی اتنی بڑھ چکی ہوگی کہ ان کا جاگنا ، نہ ان کے کچھ کام آئے گا، اور نہ دوسروں کو اس سے کچھ فائدہ حاصل ہوگا۔ یہ زوال ہر قوم پر آتا ہے۔ اس میں کسی قوم کا کوئی استثناء نہیں۔
واپس اوپر جائیں

والرُجز فاہجر

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا مشن توحید کا مشن تھا۔ آپ نے اپنا مشن 610 عیسوی میں قدیم مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت ابتدائی دور میں آپ کے لیے قرآن میں جو ہدایات نازل ہوئیں، ان میں سے ایک یہ تھی: وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ (74:5)۔ یعنی رُجز کو چھوڑ دو۔ رجز کا لفظی مطلب گندگی (dirt) ہے۔ یہ لفظ یہاں آپ کے ذاتی کردار کے اعتبار سے نہیں ہے، بلکہ دعوت کےطریقہ کار کے اعتبار سے ہے۔
قدیم مکہ میں رُجز کو چھوڑنے کا مطلب کیا تھا۔ اس کو پیغمبر اسلام کی عملی سیرت کی روشنی میں متعین کیا جائے تو وہ یہ ہوگا— مکہ میں اگر چہ تمھارے لیے ناموافق حالات ہیں، مگر تم اس معاملے میں حکیمانہ طریقہ اختیار کرو، اور چیزوں کو غلط زاویۂ نظر (wrong angle) سے دیکھنا چھوڑ دو۔
اس معاملے کی ایک مثال سورالانشراح میں ان الفاظ میں ملتی ہے: وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ (94:4)۔ یعنی تمھارے مشن کے خلاف لوگ پروپیگنڈہ کررہے ہیں،لیکن تم اس پروپیگنڈے کو پبلسٹی (publicity)کے معنی میں لو، اور اس کو اپنے دعوتی مشن کے لیے ایک موقع (opportunity) کے طور پر استعمال کرو۔
اس معاملے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ قدیم مکہ میںلوگوں نے مقدس کعبہ کے اندر تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھ دیے تھے۔ یہ بظاہر ایک اشتعال انگیز بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اس پر مشتعل نہیں ہوئے۔ آپ نے وقتی طور پر اس کو نظر انداز کیا۔ اس کے بجائے آپ نے یہ کیا کہ کعبہ میں بتوں کی موجودگی کی بنا پر وہاں ہر روز مشرکین کا جو اجتماع ہوتا تھا، اس کو اپنے لیے بطور آڈینس (audience)استعمال کیا۔ آپ خاموشی کے ساتھ وہاں جاتے اور لوگوں کو قرآن سناتے۔ روایات میں اس واقعے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وعرض علیہم الإسلام، وتلا علیہم القرآن(سیرت ابن ہشام، مصر 1955، 1/428)۔
واپس اوپر جائیں

تاریخ کا سفر

کائنات اور انسان کی صورت میں جو عظیم دنیا ہمارے سامنے ہے، وہ بلاشبہ ایک خدائی منصوبے کے تحت بنائی گئی ہے۔ اور خدائی منصوبے کے مطابق، اس کا ایک بامعنی انجام ہونا مقدر ہے۔ یہ بلاشبہ سنجیدہ مطالعے کا ایک موضوع ہے۔ اس کا تعلق ہر فرد سے بھی ہےاور پوری انسانی تاریخ سے بھی۔ اس معاملے میں متعلق لٹریچر (relevant literature)کے گہرے مطالعے سے جو تصویر بنتی ہے، اس کو یہاں درج کیا جاتا ہے۔
علمی مطالعہ کے مطابق، اللہ رب العالمین نے موجودہ کائنات کا آغاز تقریباً تیرہ بلین سال پہلے کیا۔ اس مدت میں منصوبہ بند اندازمیں تدریجی (gradually) طور پر پوری کائنات وجود میں آئی ۔ اس مدت کو توسیعی تقسیم (broad division)کے مطابق چھ بڑے ادوار (periods) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
1 - اس سلسلے میں معلوم طور پر، پہلا واقعہ جو اس کائنات میں پیش آیا، وہ یہ تھا کہ خالق نے تقریبا 13 بلین سال پہلے خلا (space) میں ایک عظیم دھماکہ مینج (manage) کیا۔ اس دھماکہ کو انگلش عالم فلکیات (astronomer) فریڈ ہائل (Fred Hoyle)نے 1949 میں بگ بینگ (Big Bang) نام دیا ۔یہ بگ بینگ اب سائنسی طور پر ایک ثابت شدہ واقعہ (established fact)بن چکا ہے۔ اس دھماکہ سے موجودہ کائنات کا آغاز ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے:أَوَلَمْ یَرَ الَّذِینَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاہُمَا (21:30) ۔یعنی کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں باہم ملے ہوئے تھے ، پھر ہم نے ان کو کھول دیا۔
اس کا مطلب سائنسی معلومات کی روشنی میں یہ ہے کہ ابتدا میں ایک عظیم گولا(super atom) تھا، جس کے اندر کائنات کے تمام پارٹیکل موجود تھے۔ اس دھماکے کے بعد بگ بینگ کے پارٹیکل (particles)وسیع خلا میں تیزی سے پھیل گیے۔ اور پھر ایک حکیمانہ منصوبہ کے تحت مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے ان ذرات(particles) کے مجموعے سےموجودہ کائنات وجود میں آئی۔
2 - مذکورہ تدریجی عمل کا دوسرا بڑا واقعہ وہ ہے جس کو سولر بینگ (Solar Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد لمبے عمل (process)کے تحت شمسی نظام اپنے تمام سیاروں (planets) کے ساتھ وجود میں آیا۔ اس کائناتی واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَہُوَ الَّذِی خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّہَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِی فَلَکٍ یَسْبَحُونَ (21:33)۔ یعنی اور وہی ہے جس نے رات اور دن اور سورج اور چاند بنائے۔ سب ایک ایک مدار (orbit)میں تیر رہے ہیں۔
یہ شمسی نظام ایک عظیم کہکشاں (galaxy) کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے، جس کو ملکی وے (Milky Way) کہا جاتا ہے۔ اس طرح شمسی نظام کو کائنات میں ایک محفوظ علاقہ (area) مل گیا۔اس حقیقت کا اشارہ قرآن کی اس آیت میں کیا گیاہے: فَلَا أُقْسِمُ بِمَوَاقِعِ النُّجُومِ، وَإِنَّہُ لَقَسَمٌ لَوْ تَعْلَمُونَ عَظِیمٌ (56:75-76) ۔یعنی میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے مواقع کی۔ اور اگر تم جانو تو بیشک یہ بہت بڑی قسم ہے ۔یہاں مواقع سے مراد محل وقوع ہے۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ شمسی نظام کو نہایت بامعنی طور پرعظیم ملکی وے کے ایک کنارے پر قائم کیا گیا ہے۔ اس محل وقوع کی بنا پر شمسی نظام کو ایک محفوظ علاقہ (safe area) مل گیا ، جو انسان جیسی مخلوق کی زندگی کے لیے بے حد ضروری ہے۔
3 - کائنات میں تیسرا واقعہ وہ ہے جس کو واٹر بینگ (water bang) کہا جاسکتا ہے۔ یعنی سیارۂ ارض کا ٹھنڈا ہونا اور پھر زمین کے اوپر پانی کے ذخائر کا وجود میں آنا، اور پھر پانی کی وجہ سے ہر قسم کی زندگیوں کا پیدا ہونا۔ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے:وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ (21:30)۔یعنی اور ہم نے پانی سے ہر جاندار چیز کو بنایا۔تمام زندہ چیزوں کے وجود کا بڑا حصہ پانی ہوتا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے ،انسان کا جسم تقریبا 60 پرسنٹ پانی پر مشتمل ہے۔
Water is of major importance to all living things, ; in some organisms, up to 90% of their body weight comes from water. Up to 60% of the human adult body is water.
4 - چوتھا بڑا واقعہ جو زمین پر پیش آیا وہ دنیائے نباتات کا وجود میں آنا تھا۔ اس کو پلانٹ بینگ کہا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد زمین جو پہلے خشک کرہ کی مانند تھی، اب سر سبز سیارہ (Green Planet) کی صورت اختیار کرگئی۔اس واقعہ کا اشارہ قرآن میں ان الفاظ میں کیا گیا ہے: وَأَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصراتِ مَاءً ثَجَّاجًا ، لِنُخْرِجَ بِہِ حَبًّا وَنَبَاتًا، وَجَنَّاتٍ أَلْفَافًا(78:14-16)یعنی اور ہم نے پانی بھرے بادلوں سے موسلا دھار پانی برسایا۔ تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے اگائیں غلہ اور سبزی۔ اور گھنے باغ۔
5 - اس سلسلہ کا پانچواں دور وہ ہے جب کہ زمین پر مختلف قسم کی جاندار چیزیں وجود میں آئیں، کیڑے مکوڑوں سے لے کر ہاتھی اور شیر تک۔ تخلیق کے اس پانچویں فیز (phase)کو انیمل بینگ (animal bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں مختلف قسم کے بیشمار جاندار اشیاء (species) پیدا ہوئیں، جن کی واقعی تعداد اب تک نامعلوم ہے:
Eight million seven hundred thousand is the latest estimated total number of species on Earth and the most precise calculation ever offered, according to a study co-authored by a researcher with the United Nations Environment Programme (UNEP). Around 6.5 million species are found on land and 2.2 million (about 25 percent of the total) dwell in the ocean depths. The report also shows that 86% of all species on land and 91% of those in the seas have yet to be discovered, described or catalogued.
6 - اس سلسلہ میں چھٹا بینگ وہ تھا جس کو ہیومن بینگ (Human Bang) کہا جاسکتا ہے۔ اس آخری دور میں انسان کو پیدا کیا گیا ، اور نسل درنسل پھیلتا ہوااس زمین (planet earth)پر آباد ہو گیا۔ بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تقریبا 13 بلین سال کے دوران تمام تخلیقی واقعات منصوبہ بند انداز میں پیش آئے۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ آخر کار انسان کو پیدا کرکے اس کو زمین پر آباد کیا جائے۔ اور پھر انسان کو یہ موقع دیا جائے کہ وہ اپنی آزادانہ کوشش سے اس چیز کو وجود میں لائے جس کو تہذیب (civilization) کہا جاتا ہے۔تہذیب گویا محدود معنی میںکلمات اللہ (31:27, 18:109) کی جزئی اَن فولڈنگ (unfolding)تھی۔ فطرت کے اس طریقِ عمل کا یہ نتیجہ تھا کہ انسان کو یہ موقع ملا کہ وہ اپنی عقل کو اعلیٰ ارتقائی درجہ (high level of development) تک پہنچا سکے۔
موجودہ کائنات کے دو حصے ہیں، انسانی دنیا (human world)اور دوسرے غیر انسانی دنیا(non-human world) ۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر انسانی دنیا خارجی طور پر مینج کی جانے والی دنیا (externally managed world) ہے۔ اس کے مقابلے میں انسانی دنیا خود مینج کی جانے والی دنیا (self-managed world) ہے۔ اب تاریخ ایک ایسےاعلی ترقی یافتہ دور (super developed world)کی طرف جارہی ہے جہاں ماضی کے ریکارڈ کے مطابق غیر مطلوب انسانوں کو چھانٹ دیا جائے، اور مطلوب انسانوں کو الگ کرکے یہ موقع دیا جائے کہ وہ آئیڈیل ورلڈ میں ابدی راحت کی زندگی گزاریں۔یہی وہ واقعہ ہے جس کا ذکر بائبل میں ان الفاظ میں آیاہے — صادقین زمین کے وارث ہوں، اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے:
The righteous will inherit the land, and dwell in it permanently. (Psalm: 37:29)
بائبل میں مذکور اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ أَنَّ الْأَرْضَ یَرِثُہَا عِبَادِیَ الصَّالِحُونَ (21:105)۔یعنی اور زبور میں ہم نصیحت کے بعد لکھ چکے ہیں کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے۔
یہ دنیا پوری تاریخ بشری کے منتخب انسانوں کا معاشرہ ہوگا۔ یہ منتخب افراد دراصل دورِ ماضی کے تربیت یافتہ افراد (trained individuals)ہوں گے۔ یہاںپوری تاریخ کے منتخب افراد (selected people of history) کو یہ موقع ہوگا کہ وہ اعلیٰ فکری سرگرمیوں (high level of intellectual activities) کے مطابق زندگی گزاریں گے۔ اس اعلی معاشرہ (high society)کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں آیا ہے: فَأُولَئِکَ مَعَ الَّذِینَ أَنْعَمَ اللَّہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِّینَ وَالصِّدِّیقِینَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِینَ وَحَسُنَ أُولَئِکَ رَفِیقًا (4:69)۔ یعنی یہ اہل جنت ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا، یعنی پیغمبر اور صدیق اور شہید اور صالح۔ کیسی اچھی ہے ان کی رفاقت۔ اس اگلے دورِ حیات کو قرآن میں جنت (Paradise)کا نام دیا گیا ہے۔
انسان کائنات کا ہیرو ہے۔ اپنی تخلیقی صلاحیت کے اعتبار سے انسان ایک ابدی مخلوق ہے۔ لیکن انسان موجودہ دنیا میں صرف محدود مدت کے لیے رہتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کی اوریج (average) عمر تقریبا 70 سال ہے۔ ابدیت کا طالب انسان عملا ابدیت کو پانے سے محروم رہتا ہے۔ مگر انسان کے لیے یہ محرومی کی بات نہیں۔ ایسا خالق کے تخلیقی پلان کی بنا پر ہوتا ہے، نہ کہ انسان کی اپنی خواہش کی بنا پر۔ خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق، انسان کو اس دنیا میں صرف محدود مدت تک کے لیے رہنا ہے۔ اس کے بعد انسا ن کو اس کے ہیبیٹاٹ (habitat)میں پہنچادیا جاتا ہے، جہاں اس کو یہ موقع ملے گا کہ وہ اپنی پسند کی دنیا میں ابدی طور پر رہے۔
یہاں انسان کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ خالق کے پلان کو جانے اور اپنے آپ کو اس کے لیے تیار کرے۔ انسان کو پیدا کرنے والا خدا ہے۔ لیکن اپنے ابدی مستقبل کا فیصلہ کرنا مکمل طور پر انسان کے اپنے اختیار میں ہے۔ آدمی کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اپنے اندر اس پرسنالٹی کو ڈیولپ کرے جس کی وجہ سےوہ اگلی دنیا میں بننے والی پیراڈائزکے لیےمستحق امیدوار(deserving candidate) قرار پائے۔
اس تخلیقی مقصد کی بنا پر ایسا ہوا کہ خالق نے پوری کائنات کو کسٹم میڈ کائنات (custom-made universe) بنایا۔ اس واقعہ کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَسَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ جَمِیعًا مِنْہُ (45:13)۔ یعنی خدا نے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزوں کو تمھارے لیے مسخر کردیا، سب کو اپنی طرف سے۔آیت میں جمیعا منہ کے لفظ کا مطلب یہ ہے کہ تسخیر کا یہ معاملہ اتفاقی طور پر نہیں ہوا، بلکہ وہ خالق کے باقاعدہ منصوبہ (well-considered plan) کے تحت ہوا ہے۔
انسان اس پوری کائنات میں ایک خصوصی تخلیق کی حیثیت رکھتا ہے۔انسان کو اس کے خالق نے دماغ (mind) دیا، جو کسی بھی دوسری مخلوق کو عطا نہیں ہوا۔ انسا ن کو اس کے خالق نے لامحدود صلاحیتیں دی ہیں۔ مزید یہ کہ انسان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو امانت الٰہی (الاحزاب 72:) سے سرفراز کیا گیا۔ انسان واحد مخلوق ہے جس کو کامل آزادی (total freedom) دی گئی ہے۔ انسان کے لیے یہ مقدر کیا گیا ہے کہ اگر وہ آزادی پاکر اس کا غلط استعمال (misuse) نہ کرے، بلکہ آزادی کو وسیع تر تخلیقی نقشہ (Creation plan of God)کےمطابق استعمال کرے تو اس کے لیے ابدی جنت (eternal Paradise) کا انعام (reward)ہے۔
مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے سوا جو دوسری مخلوقات ہیں، مادیات، نباتات، حیوانات، وہ سب کی سب فطرت کے قانون (law of nature) کے ماتحت ہیں۔ حتی کہ حیوانات بھی مکمل طور پر اپنی مقرر کردہ جبلت (instinct) کے تحت کام کرتے ہیں۔ یہ صرف انسان ہے جو اس معاملے میں استثناء (exception) کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان کو یہ موقع ہے کہ وہ اپنے ذاتی ارادے کے تحت سوچے اورکامل آزادی کے ساتھ اپنی زندگی کا نقشہ بنائے۔
اس میں شک نہیں کہ انسان مکمل طور پر ایک آزاد مخلوق ہے۔ لیکن یہ آزادی صرف ذاتی عمل کے اعتبار سے ہے۔ یعنی انسان آزاد ہے کہ وہ وسیع تر نقشۂ تخلیق کے مطابق عمل کرے یا اس کا باغی بن جائے۔ لیکن جہاں تک عمل کے نتیجہ کا تعلق ہے، اس پر انسان کو کوئی اختیار حاصل نہیں۔ یہاں خالق نے مقدرکیا ہے کہ انسان اگر خالق کے تخلیقی نقشہ کے مطابق عمل کرے تو اس کے لیے ابدی جنت ہے۔ اور اگر وہ خالق کے تخلیقی نقشہ کی خلاف ورزی کرے تو اس کے لیے ابدی جہنم ہے۔
رب العالمین کے اس تخلیقی نقشہ کو قرآن میں اشارات کی زبان میں بیان کیا گیا ہے۔ مثلا قرآن میں بتایا گیا ہے کہ مادی کائنات کی تخلیق کے بعد انسان کو پیدا کیا گیا ، اور اس کو زمین پر خلیفہ (البقرۃ30:) کی حیثیت سے آباد کیا گیا۔خلیفہ سے مراد وہی چیز ہے جس کو انسانی زبان میں انچارج کہا جاتا ہے۔فرشتے خدا کے حکم کے مطابق، کائنات کا نظام اس طرح چلا رہے ہیں کہ ہمیشہ انسان کے لیے وہ ایک موافق دنیا بنی رہے۔ اس کے بعد انسان نے جب نیچر کے خفیہ رازوں کو دریافت کرنا شروع کیا اور ٹکنالوجی پر مبنی تہذیب کی تشکیل کی تو اس معاملے میں بھی انسان کو مسلسل طور پر فرشتوں کی مدد حاصل رہی۔ اس کا اشارہ پیغمبر نوح کی کشتی سازی کے ذکر میں اس طرح کیا گیا ہے:وَاصْنَعِ الْفُلْکَ بِأَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا (11:37)۔اس سے مستنبط ہوتا ہے کہ یہی واقعہ جدیدتہذیب (modern civilization) کی تشکیل کے معاملہ میں پیش آرہا ہے۔ گویا خالق نے انسان سے یہ کہہ دیا کہ اصنع الحضارۃ باعیننا و وحینا۔ یعنی تہذیب بناؤ ہماری آنکھوں کے سامنے، اور ہماری وحی کے مطابق۔ کہا جاتا ہے کہ اکثر سائنسی دریافتیں کسی نہ کسی اتفاق (chance)کے ذریعہ وجود میں آئیں۔تفصیل کے لیے وکی پیڈیا پر یہ مضمون دیکھا جاسکتا ہے:
"Role of Chance in Scientific Discoveries".
یہ اتفاقات محض اتفاقات نہیں ہیں ، بلکہ وہ فرشتوں کے تعاون کی مثالیں ہیں، جو غیر مرئی مدد کے طور پر سائنسدانوں کو حاصل ہوتی ہیں۔ اس قسم کے اتفاق کے لیے ایک اصطلاح استعمال ہوتی ہے، جس کو سرنڈیپیٹی (Serendipity?) کہا جاتا ہے:
Serendipity is a happy and unexpected event that apparently occurs due to chance and often appears when we are searching for something else. Serendipity...happens in our daily lives and has been responsible for many innovations and important advances in science and technology.
تاریخ انسانی کے دوسرے دور میں ایک نئی دنیا بنائی جائے گی۔ یہ دنیا، اسی زمین و آسمان کے اندر ہوگی۔ لیکن اس وقت زمین و آسمان ایک بدلے ہوئے زمین و آسمان ہوں گے(ابراہیم48:)۔ اسی بدلی ہوئی کائنات میں جنت واقع ہوگی۔ اس جنت کا کیمپس اتنا بڑا ہوگا جتنے بڑے موجودہ زمین و آسمان (آل عمران 143:)ہیں۔ اس اعلی جنت کا انتظام دوبارہ فرشتے کریں گے۔ انسان کے لیے اس جنت میں ہر قسم کی مطلوب چیزیں موجود رہیں گی(فصلت31:) ۔ جنت کی یہی وہ معیاری دنیا ہے جو منتخب لوگوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بائبل میں ان کے لیے صادقین (righteous) کا لفظ آیا ہے، اور قرآن میں اسی کا ہم معنی صالحین کا لفظ استعمال ہواہے۔ یہاں وہ اعلی معرفت کے مطابق زندگی گزاریں گے۔
انسان کےساتھ تخلیق کا یہ معاملہ بیحد نازک معاملہ تھا۔ یہاں ضروری تھا کہ انسان کو صحیح رہنمائی (right guidance) ملے، جو انسان کو خالق کے تخلیقی نقشہ سے باخبر کرے۔ اور یہ بتائے کہ انسان کے لیے اپنی آزادی کو استعمال کرنے کا درست لائحہ عمل کیا ہے۔
انسان کی یہی ضرورت ہے جس کو پورا کرنے کے لیے اللہ نے انبیاء (prophets) بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ یہ انبیاء مکمل طور پر انسان تھے۔ البتہ ان کی خصوصیت یہ تھی کہ خالق نے تقریبا 40 سال کی عمر تک ان کا جائزہ لینےکے بعد یہ پایا کہ وہ کارِ نبوت کی انجام دہی کے لیے ذہنی اور اخلاقی اعتبار سے لائق (competent) فرد ہیں۔ اس طرح ہر نبی کی انفرادی خصوصیت کی بنا پر اس کا انتخاب کیا گیا۔ اور فرشتہ جبرئیل کے ذریعہ خالق نے ان کو اپنی رہنمائی، وحی (revelation) کے ذریعہ بھیجی، اور ان پر کتاب نازل کی تاکہ وہ خالق کے نمائندہ (representative) کی حیثیت سے انسان کو درست رہنمائی (right guidance) دیں۔ اور پھر انسان ان کی رہنمائی کے مقابلے میں جو رسپانس (response) دے ، اس کے ریکارڈ کو دیکھ کر ہر انسان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کیا جائے۔
اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: رُسُلًا مُبَشِّرِینَ وَمُنْذِرِینَ لِئَلَّا یَکُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّہِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (4:165)۔ یعنی اللہ نے رسولوں کو خوش خبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا، تاکہ رسولوں کے بعد لوگوں کے پاس اللہ کے مقابلہ میں کوئی حجت باقی نہ رہے۔
انذار و تبشیر کے الفاظ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ پیغمبروں کا مشن خالص اخروی مشن تھا۔ ان کے مشن کا فوکس ہمیشہ یہ ہوتا تھا کہ انسان کے لیے وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو ابدی جنت تک پہنچانے والا ہے، اور وہ کون سا رویہ ہے جو اس کو اس خطرے (risk) میں ڈالتا ہے کہ اگلے دورِ حیات میں اس کو ابدی طورپر جہنم والوں کے ساتھ شامل کیا جائے۔
پیغمبروں کے ذریعے انسان کو جو رہنمائی ملی، اصولی طور پر اس کا خلاصہ دو چیزیں تھیں:
(1) نظریۂ توحید (Ideology of Tawheed)
(2) طریقِ کار (Method)
پیغمبرانہ طریقِ کار ایک لفظ میں غیر نزاعی طریق کار (non-confrontational method)ہے۔نظریہ اور طریق کار کے اعتبار سے یہی دو چیزیں پیغمبروں کے ذریعے انسان کو دی گئیں۔
پہلے انسان (آدم) سے لے کر محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر انسان کی طرف آئے۔ انھوں نے انسا ن کو بتایا کہ یہ زمین تمھارے لیے ابدی قیام گاہ (eternal habitat) نہیں ہے، بلکہ یہ تمھارے لیے ایک عارضی قیام گاہ (temporary abode) ہے۔ یہاں تمھیں یہ موقع دیا گیا ہے کہ تم اپنی آزادی کا صحیح استعمال کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق (deserving candidate) بناؤ، اور تاریخِ انسانی کے خاتمہ پر جنت کی شکل میں اپنے مطلوب ابدی ہیبیٹاٹ (habitat) میں جگہ پاؤ۔ ساتویں صدی عیسوی میں محمد عربی کے ظہور کے بعد انبیاء کی آمد کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ مگر خالق کے تخلیقی نقشے کے مطابق، انسان پھر بھی پیدا ہوکر زمین پر آباد ہورہے تھے۔ اب یہ سوال تھا کہ بعد کو پیدا ہونے والے انسانوں تک خدائی رہنمائی کی نمائندگی کون کرے۔
ساتویں صدی عیسوی میں ختم نبوت سے پہلے خدا کی طرف سے اس رہنمائی کی ذمہ داری پیغمبروں نے ادا کی۔ اس اعتبار سے تمام پیغمبر امت وسط (middle ummah)کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کے ایک طرف اللہ رب العالمین تھا اور ان کے دوسری طرف تمام انسان۔ انھوں نے اس رہنمائی کو اللہ سے لیا اور پورے معنوں میں ناصح اور امین (الاعراف68:) بن کر اس کو انسانوں تک پہنچایا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات 632 عیسوی میں مدینہ میں ہوئی۔ آپ اللہ کے آخری رسول تھے۔ آپ نے اپنے بعد ہدایت کے دو مستند ذریعے (authentic sources) چھوڑے، ایک قرآن اور دوسرا سنت رسول۔ اب کوئی پیغمبر دنیا میں آنے والا نہیں ہے۔ لیکن جہاں تک پیغمبر کے مشن کی بات ہے، وہ بدستور جاری ہے۔پہلے انبیاء کی حیثیت امت وسط کی ہوتی تھی، اب پیغمبر آخرالزماں کے متبعین کی حیثیت امت وسط کی ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (2:143) ۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو امت وسط بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔
امت وسط کا مطلب بیچ کی امت (middle community) ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین سب کے سب امت محمدی ہیں۔ ان کی حیثیت دوبارہ امت وسط کی ہے۔ صرف اس فرق کے ساتھ کہ پیغمبر، خدا اور انسان کے درمیان امت وسط ہوتے تھے۔ اب پیغمبر آخرالزمان کے متبعین ، محمد بن عبد اللہ اور اقوام عالم کے درمیان امت وسط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیغمبر آخرالزمان کی رہنمائی کو جاننےکا ذریعہ قرآن اور سنت رسول ہے۔ امت کو یہ کرنا ہے کہ خالص موضوعی (objective) انداز میں وہ قرآن اور سنت رسول کا مطالعہ کرے، اوراس کی تعلیمات کو کسی آمیزش کے بغیر پر امن انداز میں ہر دور کے انسانوں تک پہنچاتی رہے۔ یہ کام اس کو تمام اقوام کی قابل فہم زبان میں کرنا ہے۔جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ (14:4)۔ اس کی پرکٹیکل صورت یہ ہے کہ قرآن کے تراجم تیار کرکے ان کو ساری دنیا میں پھیلایا جائے۔ یہاں تک کہ حدیث (مسند احمد، حدیث نمبر23814)کے مطابق، وہ ہر چھوٹے اور بڑے گھر میں پہنچ جائے۔ یہی امت محمدی کا ابدی مشن ہے۔
خلاصہ یہ کہ امت محمدی کی حیثیت سے مسلمانوں کا ایک ہی مشن ہے۔ اور وہ ہے دعوت الی اللہ۔دعوت کا یہ پر امن کام مکمل طور پر غیر سیاسی (non-political) اور غیر قومی (non-communal) انداز میں کرنا ہے۔مزید یہ کہ اس کام کو اس اصول کے تحت انجام دینا چاہیے جس کو قرآن میں تالیف قلب (التوبۃ60:) کہا گیا ہے۔ تالیف قلب ایک ابدی اصول ہے۔ وہ کبھی اور کسی حال میں منسوخ ہونے والا نہیں۔
واپس اوپر جائیں

قرآن فہمی

قرآن فہمی کےبارے میں قرآن کی ایک آیت ان الفاظ میں آئی ہے: کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یعنی یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں۔
قرآن کی اس آیت میں عقل والے سے مراد ڈگری والے(degree holders) نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قرآن کو صرف وہی لوگ سمجھیں گے جو معروف معنوں میں اسکالر ہوں یا جنھوں نے تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کی ہو۔ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ قرآن کو اس کے گہرے مفہوم کے اعتبار سے صرف وہ لوگ سمجھتے ہیں جو سنجیدہ ہوں، جو قرآن کی آیتوں پر غور کریں، اور جو اپنی خداداد عقل کو استعمال کرکے اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہی لوگ ہیں جو قرآن کے گہرے معانی تک پہنچیں گے، اور قرآن کے پیغام کو سمجھ کر اس سے نصیحت حاصل کریں گے۔
قرآن فطرت کی زبان میں ہے۔ اس حقیقت کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: بَلْ ہُوَ آیَاتٌ بَیِّنَاتٌ فِی صُدُورِ الَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ (29:49) ۔یعنی بلکہ یہ کھلی ہوئی آیتیں ہیں ان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم عطا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آدمی اگر سنجیدہ ہو، وہ اپنی عقلِ فطرت کو زندہ رکھے، وہ تعصب سے پاک ہو کر قرآن کی آیتوں پر غور کرے،اس کے اندر قبولیت (acceptance) کا مزاج ہو تو یقینا وہ قرآن کی روح تک پہنچ جائے گا، وہ قرآنی آیتوں کے گہرے معانی کو دریافت کرلے گا۔قرآن کی ایک اور آیت میں تقویٰ کو علم کا ذریعہ (البقرۃ 282:)بتایا گیا ہے۔ یہاں متقی سے مراد وہ انسان ہےجو حقیقی معنوں میں سچائی کا متلاشی (seeker) ہو۔ جس کے ایمان نے اس کو نفسیاتی پیچیدگی سے پاک روح (complex-free soul) بنادیا ہو۔ جس کے لیے سچائی، اس کا سب سے بڑا کنسرن (concern) بنا ہوا ہو۔
واپس اوپر جائیں

قرآن و سنت کے عجائب

حدیث کی کتابوں میں قرآن کے فضائل کے بارے میں ایک روایت نقل کی گئی ہے۔ اس کا ایک حصہ یہ ہے:لا تنقضی عجائبہ (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2906)۔ یعنی قرآن کے عجائب کبھی ختم نہ ہوں گے۔ اس حدیث میں عجائب کا لفظ کسی پر اسرار معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ اس معنی میں ہے کہ ہر صورتِ حال کے لیے قرآن میں ہمیشہ رہنمائی موجود رہے گی۔ یہی بات سنت ِرسول کے لیے بھی درست ہے۔ گویا اس حدیث کا پورا مفہوم یہ ہے : لاتنقضی عجائب القرآن و السنۃ ( قرآن و سنت کے عجائبات کبھی ختم نہ ہوں گے)۔
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق، دنیا کے حالات ہمیشہ بدلتے رہیں گے۔ لیکن اہل علم کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہے گا کہ قرآن و سنت کی نئی تطبیقات (new applications) دریافت کرکے ہر صورتِ حال پر قرآن و حدیث کی تعلیمات کو منطبق کریں۔ وہ ہر بدلے ہوئے حالات میں قرآن و سنت سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں۔
یہ مزید رہنمائی اجتہاد کے ذریعے حاصل ہوگی۔ یعنی امت کے اہل علم ہر بار اجتہادی ذہن کے ساتھ غور و فکر کریں گے اور ہر بدلے ہوئے حالات میں قرآن کا انطباق (application) دریافت کرلیں گے۔ اس طرح امت کبھی ربانی رہنمائی سے خالی نہیں ہوگی۔اجتہاد یقینی طور پر اس مسئلے کا حل ہے۔ لیکن اجتہاد کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے تقلیدی ذہن کے ساتھ اجتہاد کرنا، اور دوسرا ہےتخلیقی ذہن کے ساتھ اجتہاد کرنا۔ تقلیدی ذہن کے ساتھ اجتہاد کا فائدہ محدود رہےگا۔ اجتہاد کا پورا فائدہ امت کو صرف اس وقت ملے گا جب کہ تخلیقی ذہن کے ساتھ اجتہاد کیا جائے۔
تخلیقی ذہن کے ساتھ اجتہاد یہ ہے کہ مجتہد کو ایک طرف قرآن و سنت کا علم ہو اور دوسری طرف وہ، حدیث کے مطابق ، بصیرتِ زمانہ (صحیح ابن حبان، حدیث نمبر361) کی صلاحیت رکھتا ہو۔ وہ خالی الذہن ہو کر زمانے کے حالات سے واقفیت حاصل کرے۔
واپس اوپر جائیں

تکرار کی حقیقت

قرآن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس میں مضامین کی تکرار ہے۔ اس موضوع پر بہت زیادہ کتابیں اور مضامین لکھے گیے۔مثلا ایک مضمون یہ ہے: التکرار فی القرآن الکریم أنواعہ وفوائدہ۔ یہ مقالہ ایک عرب عالم محمد صالح المنجد کا لکھا ہواہے، اور وہ انٹر نیٹ پر موجود ہے۔
مکررات القرآن کے بارے میں ابن تیمیہ نے لکھاہے: ولیس فی القرآن تکرار محض ، بل لابد من فوائد فی کل خطاب ۔ ( مجموع الفتاوى، 1995، مدینہ منورہ،14/408 )۔یعنی قرآن میں جو مکررات ہیں وہ تکرار محض نہیں، بلکہ ہمیشہ ہر تکرار میں کوئی فائدہ مطلوب ہوتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ الفاظ اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محدود ہوتے ہیں، لیکن اپنی معنویت کے اعتبار سے کوئی لفظ محدود نہیں ہوتا۔ جب بھی کسی حقیقت کا بیان کیا جائے گا تو الفاظ میں اس کا بیان ہوگا، لیکن معنی کے اعتبار سے اس کے پہلو بہت زیادہ ہوسکتے ہیں۔ ظاہری الفاظ کے اعتبار سے خواہ کوئی بیان محدود نوعیت کا ہو۔ لیکن اپنے معنی کے اعتبار سے وہ متعدد پہلو کا حامل ہوگا۔ یہ متعدد پہلو ہمیشہ تدبر اور غور وفکر سے معلوم ہوتے ہیں۔اس معاملے کی وضاحت قرآن کی ایک آیت سے ہوتی ہے: وَکَذَلِکَ أَنْزَلْنَاہُ قُرْآنًا عَرَبِیًّا وَصَرَّفْنَا فِیہِ مِنَ الْوَعِیدِ لَعَلَّہُمْ یَتَّقُونَ أَوْ یُحْدِثُ لَہُمْ ذِکْرًا ۔(20:113) یعنی اور اسی طرح ہم نے عربی کا قرآن اتارا ہے اور اس میں ہم نے طرح طرح سے وعید بیان کی ہے تاکہ لوگ ڈریں یا وہ ان کے دل میں کوئی سوچ ڈال دے۔
قرآن کی اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب قرآن میں کوئی بات مکرر بیان کی جائے تو اس کا پہلا مقصد یاد دہانی ہوتا ہے۔ یعنی یہ کہ آدمی بھولی ہوئی بات کو دوبارہ یاد کرے، اور اس میں سبق کا جو پہلو ہے وہ اس کو اپنے ذہن میں تازہ کرے۔ تکرار کا دوسرا مقصد وہ ہے جس کو قرآن کی اس آٰیت میں احداثِ ذکر کہا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آدمی کے اندر سنجیدگی ہوگی تو وہ اس میں تدبر کرے گا، اس تدبر کے نتیجے میں یہ ہوگا کہ وہ اصل بات کے مزید پہلووں کو دریافت کرے گا۔ کیوں کہ الفاظ خواہ محدود ہوں لیکن باتیں اپنے معنی کے اعتبار سے کبھی محدود نہیں ہوتیں۔ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بات کے بہت سے پہلو ہوتے ہیں۔ آدمی جب اپنی عقل کو استعمال کرکے اس پر غور کرتا ہے تو بات کے دوسرے بہت سے پہلو اس پر کُھلتے ہیں، اور اس طرح اس کا ذہنی ارتقا ہوتا رہتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ جب بھی کسی بات کو مکرر بیان کیا جائے تو اس کے ایک حصے کی تکرار ضروری ہوتی ہے۔ کیوں کہ اس کے بغیر بیک گراؤنڈ سامنے نہیں آتا۔ مگر اس کا دوسرا حصہ غیر مکرر ہوتا ہے۔ اس غیر مکرر حصے میں کوئی نیا پہلو موجود ہوتا ہے جو تدبر یا غور و فکر کے ذریعے سمجھ میں آتا ہے۔
کسی بات کے نئے پہلو کی نشاندہی کرنا ہو تب بھی بیک گراؤنڈ کو بتانے کے لیے اس بات کے کچھ اجزا ء کو ہمیشہ دہرانا پڑتا ہے۔ قاری کو چاہیے کہ وہ دہرائی جانے والی بات کو بیک گراؤنڈ کے معنی میں لے، اور غور کرکے یہ دریافت کرے کہ تکرار کا اصل مقصد کیا ہے۔ یہ بامعنی کلام کا ضروری اسلوب ہے۔ جو لوگ اس اسلوب کو تکرار کہیں، وہ کلام کی حکمت کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے ذہن کو ارتقا یافتہ ذہن بنانے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ اس دنیا میں تکرار محض کوئی چیز نہیں۔ سارا معاملہ یہ ہے کہ قاری اپنے ذہن کو حرکت میں لائے، وہ ہمیشہ غور وفکر سے کام لے۔ غور و فکر کے ذریعے وہ کلام کے پوشیدہ پہلوؤں کو دریافت کرے گا۔ اور پھر وہ جانے گا کہ وہ جس چیز کو تکرار کہہ رہا تھا، وہ خود اس کے فہم کا قصور تھا۔
مثال کے طور پر اگر صبح کا وقت ہے اور کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ آج بھی دوبارہ اپنے وقت پر صبح کا سورج طلوع ہوگیا۔ تو بظاہر یہ ایک تکرار کی بات ہے۔ لیکن اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ مخاطب کو یہ دعوت دینا ہے کہ طلوعِ آفتاب کے ظاہرہ پر غور کرو۔ تم کو اس میں نئے نئے پہلو سامنے آئیں گے۔ تم نظامِ فطرت کے نئے نئے پہلو ؤںکو دریافت کروگے۔اس طرح تمہارا غور و فکر تمہارے لیے ذہنی ارتقا کا ذریعہ بن جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ کلام میں تکرار قاری کو اس پراز سر نو غور وفکر کی دعوت دیتی ہے۔ وہ صرف تکرار کا معاملہ نہیں۔مثلا قرآن میں ابلیس اور آدم کا قصہ سات بار بیان ہوا ہے، لیکن غور کیا جائے تو اس میں ستر سے بھی زیادہ پہلو سمجھ میں آئیں گے۔
واپس اوپر جائیں

تخلیقی ایمان

ایک روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ مسند احمد کے الفاظ یہ ہیں: کنا نصلی یوما وراء رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم، فلما رفع رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم رأسہ من الرکعة وقال: ’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ قال رجل وراءہ:ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ، فلما انصرف رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال:’’من المتکلم آنفا؟‘‘ قال الرجل:أنا یا رسول اللہ، فقال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:’’ لقد رأیت بضعة وثلاثین ملکا یبتدرونہا أیہم یکتبہا أولا ‘‘ (مسند احمد، حدیث نمبر18996) ۔یعنی رفاعہ بن رافع کہتے ہیں کہ ایک دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکوع کے بعد اپنا سر اٹھایا، اور یہ کہا : سمع اللہ لمن حمدہ۔ ایک آدمی جو آپ کے پیچھے کھڑا تھا، اس نے کہا:ربنا لک الحمد، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔ رسول اللہ نے جب (سلام کے بعد ) منھ پھیرا تو کہا، ابھی کس نے وہ بات کہی تھی، اس آدمی نے کہا : اے اللہ کے رسول، مَیںنے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، میں نےدیکھا کہ 30 سے زیادہ فرشتے دوڑے اس کی طرف ، تاکہ کون پہلے اس کو لکھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جو نماز سکھائی تھی، اس میں رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد مقتدی کو ربنا لک الحمد کہنے کی تعلیم دی تھی۔ لیکن مذکورہ صحابی نے اس کلمہ پر اضافہ کرکے اس طرح کہا: ربنا لک الحمد ، حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ۔فرشتوں کو یہ طریقہ اتنا زیادہ پسند آیا کہ وہ اس کو لکھنے کے لیے بڑی تعدا د میں دوڑ پڑے۔ فرشتوں کا یہ عمل اضافہ شدہ کلمات کی افضلیت کی بنا پر نہ تھا۔ بلکہ صحابی کے تخلیقی اضافہ (creative addition)کی بنا پر تھا۔
اس سے ایک سنت صحابہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر کوئی مومن دعا اور ذکر کے مسنون کلمات پر تخلیقی اضافہ کرسکے تو یہ اس کے لیے ایک عظیم عمل ہوگا۔ جس کو لکھنے کے لیے فرشتے بڑی تعداد میں دوڑ پڑیں۔اس قسم کا اضافہ کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کہنے والے کے اندر تخلیقی ایمان موجود ہے۔
اس قسم کے اضافے کی ایک مثال وہ ہے جو غزوۂ خندق( 5 ہجری) سے معلوم ہوتی ہے۔ اس وقت مدینہ کے حالات بہت سخت تھے۔ قرآن میں اس کے بارے میں یہ الفاظ آئے ہیں: وَبَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ(33:7)۔اس وقت کچھ صحابہ نے پریشانی کا اظہار کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صبر کی تلقین کی اور دعائیہ انداز میں فرمایا:اللہم لا عیشَ إلا عیشُ الآخرہ، فاغفر للأنصار والمہاجرہ (صحیح مسلم، حدیث نمبر1805)۔ یعنی اے اللہ، زندگی تو آخرت کی زندگی ہے، تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما۔
اس حدیث کو پڑھنے کی ایک صورت یہ ہے کہ آپ اس کو ایک کتابی روایت کے طور پر پڑھ لیں۔ اور اس سے ایک تاریخی واقعے کے بارے میں واقفیت حاصل کریں۔ اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس واقعے کو پڑھتے ہوئے آپ کا زندہ ایمان آپ کے اندر ایک فکری بھونچال پیدا کردے۔ آپ کا حال یہ ہو کہ اس حدیث کو پڑھتے ہوئے آپ کے دل میں ہیجان پیدا ہوجائے۔ اور پھر شدت تاثر کے تحت آپ کی زبان پر یہ الفاظ آجائیں:اللہم لا فوزَ الا فوزُ الآخرۃ... یعنی اے اللہ، کامیابی تو صرف آخرت کی کامیابی ہے۔ اگر آپ ایسا کریں تو یہ آپ کے لیے اسی قسم کا ایک عمل ہوگا جس کو لکھنے کےلیے فرشتے دوڑ پڑیں۔
دعا اور ذکر کے جو ماثور کلمات ہیں، ان کو دہرانے کا بلاشبہ ثواب ہے۔ لیکن اگر آدمی کے اندر زندہ ایمان ہو، اس کا ذہن بیدار ہو، اس کے صبح و شام یادِ خداوندی میں گزرتے ہوں تو اس کا حال یہ ہوگا کہ جب بھی اس قسم کا کوئی تجربہ پیش آئے تو وہ اس کے جذبات میں تموج پیدا کرنے کا ذریعہ بن جائے گا۔ اس کا تیار ذہن اس کے بارے میں مزید سوچنے لگے گا۔ اس کا تیار ذہن اس کے اندر مزید فکری اضافہ کرے گا۔ یہ اضافہ آدمی کی ایمانی زندگی کا ثبوت ہے۔ اور یہ ایمانی زندگی اتنی قیمتی ہے کہ جب وہ ظاہر ہوتی ہے تو فرشتے اس کو ریکارڈ کرنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ یہی وہ ایمان ہے جس کو یہاں تخلیقی ایمان کا نام دیا گیا ہے۔
واپس اوپر جائیں

اتمام نور

قرآن کی دو آیتوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نور کا اتمام ضرور کرے گا (التوبہ 32:، الصف 8:)۔یہاں نور سے مراد معرفت ہے۔ یعنی اللہ ایسے حالات پیدا کرے گا کہ اعلیٰ معرفت کا حصول انسان کے لیے ممکن ہوجائے گا۔
معرفت الٰہی بلاشبہ دین میں سب سے بڑا مقصود ہے۔معرفت کے لیے ہمیشہ فریم ورک درکار ہوتا ہے۔ جیسا فریم ورک، ویسی معرفت۔ مطالعہ بتاتا ہے کہ قدیم زمانے میں معرفت کے موضوع پر غور و فکر کے لیے صرف روایتی فریم ورک (traditional framework) دستیاب تھا۔ یہ فریم ورک بلاشبہ مفید تھا۔ لیکن وہ رب العالمین کی کامل معرفت کے لیے کارآمد نہ تھا۔ اللہ نے حالات میں تبدیلی کرکے انسان کو ایسے فریم ورک تک پہنچایا جو معرفت کے حصول میں تکمیل کا کام کرے۔ یہ تکمیلی فریم ورک وہی ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سائنٹفک فریم ورک کہا جاتا ہے۔
مثلاً پانی فطرت کا ایک ظاہرہ ہے۔ پانی پر غور و فکر کرکے انسان معرفت الٰہی تک پہنچتا ہے۔ قدیم زمانے میں روایتی فریم ورک کے تحت آدمی صرف پانی کے ظاہری پہلوؤں کو لے کر سوچ پاتا تھا۔ اس طرح انسان پانی کی نعمت کو جانتا تھا، لیکن پانی کے اندر جو عظیم حکمتیں پوشیدہ ہیں، ان سے وہ بے خبر تھا۔موجودہ زمانے میں پانی کے سائنسی مطالعے سے اس کے بارے میں سمندری معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ دو گیسوں کے ملنے سے پانی کا بننا۔ بارش کے بعد پانی کا سمندروں میں جمع ہونا۔ سمندری پانی میں پریزرویٹو (preservative)کے طور پر نمک کا شامل ہونا۔ پھر سورج کی گرمی سے پانی کا بھاپ میں تبدیل ہونا۔ پھر فضا میں جاکر اس کا بادل کی صورت اختیار کرنا۔پھر زمین کی کشش سے بادل کا بارش کی صورت میں زمین پر برسنا ،وغیرہ۔ ان معلومات نے پانی کے بارے میں ایک عظیم سانٹفک فریم ورک انسان کو دیا ہے، جس پر غور کرنے سے معرفت خداوندی میں بے پناہ حد تک اضافہ ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

آدم سے مسیح تک

دنیا میں جتنے بھی پیغمبر آئے ان سب کا مقصد اللہ تعالی کی وحدانیت کا پیغام دینا تھا۔ مگر لوگوں نے عام طور پران کے ساتھ برا سلوک کیا۔ حضرت عیسی کو کوئی ساتھی نہ ملا۔لوگ ان کے قتل کے درپےہوگئے۔ حضرت لوط نے اپنی بستی کو چھوڑا تو ان کے ساتھ ان کی صرف دو بیٹیاں تھیں۔ حضرت نوح کے ساتھ ان کی کشتی کا قافلہ توریت کے بیان کے مطابق صرف آٹھ افراد پر مشتمل تھا۔حضرت ابراہیم جب اپنے وطن عراق سے نکلے تو اُن کے ساتھ اُن کی بیوی سارہ تھیں اور ان کے بھتیجے لوط۔ بعد کو اس قافلہ میں ان کے دو بیٹے اسماعیل اور اسحاق شامل ہوئے۔ حضرت مسیح کو ساری کوششوں کے باوجود صرف 12 آدمی ملے۔ وہ بھی، بائبل کے بیان کے مطابق، آخر وقت میں آپ کو چھوڑ کر بھاگ گئے۔ بیشتر انبیاء کا حال یہی رہا، کوئی تنہا رہ گیا اور کسی کو چند ساتھ دینے والے ملے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 5705)۔ قرآن کی یہ آیت اس پوری تاریخ پر ایک تبصرہ ہے: افسوس ہے بندوں کے حال پر جب بھی ان کے پاس کوئی رسول آیا تو انھوں نے اس کی ہنسی اڑائی (یس30:)۔
لوگوں کے اس سلوک کی بنا پر ایسا ہوا کہ قدیم زمانے میں انبیاء کی کوئی تاریخ نہ بن سکی۔ ہر نبی نے عملاً اپنے پیغمبرانہ رول کو ادا کیا۔ لیکن مدون تاریخ (recorded history) میں ان نبیوں کا اندراج نہ ہوسکا۔آخر میں اللہ تعالی نے پیغمبر اسلام کو پیدا کیا۔ اللہ تعالی نے تاریخ میں ایسی تبدیلیاں کیں کہ پیغمبر اسلام کو یہ موقع ملا کہ وہ پیغمبرانہ مشن کو مدون تاریخ کا ایک حصہ بنا دیں۔ اسی حقیقت کو فرانسیسی مستشرق رینان (Ernest Renan)نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے — اسلام تاریخ کی مکمل روشنی میں وجود میں آیاIslam was born in the full light of history:
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حیثیت تاریخ میں اس طرح ثبت ہوئی کہ عمومی طور پر اہل علم نے اس کا اعتراف کیا۔ آپ کی تاریخی حیثیت پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ان میں سے ایک کتاب وہ ہے جو دی ہنڈریڈ(The 100) کے نام سےامریکا سے شائع ہوئی۔
واپس اوپر جائیں

قرآن، کتاب ہدایت

انسان اس دنیا میںپیداہوتا ہے، اور زندگی گزارکر ایک دن مرجاتاہے۔ سروے کے مطابق موجودہ دنیا میں انسان کی اوسط عمر تقریباً 70 سال ہے۔ انسان کی سب سے زیادہ اہم ضرورت یہ ہے کہ اس کو بتایا جائے کہ انسان کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ اس کا حال کیا ہے اور اس کا مستقبل کیاہے۔ موت سے پہلے کیا ہے اور موت کے بعد کیا۔ کس عمل پر انسان کی کامیابی کا انحصار ہے۔
قرآن اسی حقیقت کو بتانے کے لئے اترا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ خالق کا تخلیقی نقشہ انسان کے بارے میں کیا ہے۔ قرآن واحد کتاب ہے جس کا موضوع تخلیقی منصوبہ ہے۔ قرآن انسان کو وہ ضروری معلومات دیتا ہے جس کی روشنی میںانسان اپنی زندگی کا صحیح منصوبہ (right planning) بنا سکے۔ ایسی حالت میں حاملین قرآن کی یہ لازمی ڈیوٹی ہے کہ وہ قرآن کو دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں تک پہنچائیں۔ اور یہ پہنچانا لوگوں کی قابلِ فہم زبان (understandable language) میں ہو،تا کہ وہ اس کو سمجھیں اور قرآن کو ایک رہنما کتاب (guide book) بنا سکیں۔
قرآن کے نزول کو تقریباً ڈیڑھ ہزار سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں حاملین قرآن نے قرآن کے متن کی حفاظت کے لئے بہت زیادہ کام کیا ہے۔ مگر عجیب بات ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان جو مطلوب کام ہے وہ ابھی تک عملاًنہ ہوسکا۔قرآن کے متن کی حفاظت پر توبہت زیادہ کام ہواہے، لیکن قرآن کی معنوی اشاعت کا کام ابھی مستقبل کا انتظار کررہا ہے۔ اس معاملہ میں مسیحی لوگوں نے حاملین قرآن کے لئے راستہ دکھادیا۔ مسیحی لوگوں نے بائبل کے ترجمے دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں تیار کئے ہیں، اور ان کو عمومی طور پر پھیلادیا۔ یہی کام حاملین قرآن کو قرآن کے لئے کرنا ہے۔
اگر اس کام کو قرآن کی معنوی اشاعت کہا جائے تو بلاشبہ وہ پوری امت پر فرض ہے۔ فرض کفایہ نہیں ، بلکہ فرض عین ہے۔ موجودہ زمانے میں اس کام کے تمام ضروری وسائل پوری طرح موجود ہوچکے ہیں۔اب صرف یہ باقی ہے کہ ان وسائل کو قرآن کے پیغام کی اشاعت کے لیے استعمال کیا جائے۔
واپس اوپر جائیں

قرآن کا اسلوب

قرآن کا اسلوب تبیین کا اسلوب ہے، قرآن کا اسلوب تحقیق کا اسلوب نہیں ۔قرآن کا طریقہ حقیقت کو بیان کرنے (statement of fact) کا طریقہ ہے، قرآن میں عقلی تجزیہ (rational analysis) کا طریقہ اختیار نہیں کیا گیا ہے۔ قرآن کے اس اسلوب کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:کِتَابٌ أَنْزَلْنَاہُ إِلَیْکَ مُبَارَکٌ لِیَدَّبَّرُوا آیَاتِہِ وَلِیَتَذَکَّرَ أُولُو الْأَلْبَابِ (38:29)۔ یہ ایک بابرکت کتاب ہے جو ہم نے تمھاری طرف اتاری ہے، تاکہ لوگ اس کی آیتوں پر غور کریں اور تاکہ عقل والے اس سے نصیحت حاصل کریں ۔
عام کتاب کی طرح قرآن میں یہ اسلوب نہیں ہے کہ ہر بات لفظوں میں لکھ دی گئی ہو کہ اس کو پڑھ کر جان لیا جائے۔ بلکہ قرآن میں اساسیات (basics) کو بیان کردیا گیا ہے۔ اب یہ قاری کا کام ہے کہ وہ غور و فکر کرکے اس کی تفصیل (detail) معلوم کرے۔قرآن میں یہ طریقہ اس لیے اختیار کیا گیا کہ آدمی خود دریافت کردہ سچائی (self-discovered truth) پر کھڑا ہو۔ قرآن ایک رہنما کتاب ہے، نہ کہ معلومات کی کتاب۔ اس طرح جب کوئی شخص مطالعہ اور غور و فکر کے ذریعے سچائی کو دریافت کرتا ہے تو سچائی پر اس کو اتھاہ یقین حاصل ہوتا ہے۔ پھر یہ یقین اس کی زندگی میں عمل کی صورت اختیار کرتا ہے۔ وہ اس کی سوچ ، اس کی گفتگو، اس کی عملی سرگرمیوں پر چھا جاتا ہے۔
قرآن کا یہ اسلوب اس کے قاری کے اندر تخلیقی فکر (creative thinking) پیدا کرتا ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ذہنی ارتقا کا اعلی درجہ یہ ہے کہ آدمی کے اندر تخلیقی فکر پیدا ہوجائے۔ تخلیقی فکر آدمی کو ذہنی جمود (intellectual stagnation) سے بچانے والی ہے۔وہ آدمی کے لیے اس کے سفر حیات کو ایک زندہ سفر بنا دیتی ہے۔ ایسا آدمی ہر لمحہ اپنے لیے ذہنی غذا (intellectual food) حاصل کرتا رہتا ہے۔ اس طرح اس کی ذہنی زندگی کبھی اور کسی حال میں ختم نہیں ہوتی۔
واپس اوپر جائیں

عافیت کی دعا

عافیت سے متعلق کئی روایتیں حدیث کی کتابوں میں آئی ہیں۔ ان میں سے ایک روایت یہ ہے: عن ابن عمر، قال:قال رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم:من فُتِح لہ منکم باب الدعاء فُتِحت لہ أبواب الرحمة، وما سُئِل اللہُ شیئا یعنی أحب إلیہ من أن یسأل العافیة(سنن الترمذی، حدیث نمبر3548)۔ عبد اللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کےلیے دعا کے دروازے کھولے گئے اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس سے عافیت مانگنا ہر چیز مانگنے سے زیادہ محبوب ہے ۔
اس دنیا میں انسان کو اگرچہ اختیار دیا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ معاملات میں انسان کا دخل ایک فیصد سے بھی کم ہوتا ہے۔ جب کہ اللہ رب العالمین کا دخل ننانوے فیصد سے بھی زیادہ۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے لیے اللہ سے دعا کرنا بہت زیادہ اہم ہے۔ جس انسان کو یہ حقیقت دریافت ہوگئی، اور وہ اس پر قائم ہوگیا، وہ بلاشبہ اللہ کی رحمتوں کے سائے میں آجائے گا۔
اس دنیا میں انسان کے لیے پہلی رحمت کی چیز ایمان ہے۔ یعنی حقیقت حیات کی دریافت۔ اس کے بعد جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ عافیت ہے۔ عافیت سے مراد وہی چیز ہے جس کو عام طور پر اچھی صحت (good health) کہا جاتا ہے۔ انسان اپنی پیدائش کے اعتبار سے ایک کمزور مخلوق ہے۔ صحت و عافیت میں معمولی خلل انسان کے لیے ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ جس انسان کو صحت و عافیت حاصل نہ ہو وہ کوئی بھی کام صحیح شکل میں نہیں کرسکتا۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ سے بہت زیادہ دعا کرے تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو درست طور پر ادا کرنے کے قابل ہوجائے۔مگر یاد کیے ہوئے عربی الفاظ کو دہرانے کا نام دعا نہیں ہے، سچی دعا وہ ہے جو معرفت کی دعا ہو۔ جو دل کی گہرائیوں سے نکلے، نہ کہ لفظی تکرار کے طور پر۔ایسی دعا بلاشبہ اللہ تک پہنچتی ہے، اور وہ اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پاتی ہے۔
واپس اوپر جائیں

سزائے قتل

مسلم علماء اور فقہاء کا یہ ماننا ہے کہ شتم رسول کی سزا قتل ہے(یقتل حداً)۔ یہی معاملہ ان کے نزدیک ارتداد کا بھی ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ ارتداد یا شتم رسول کی سزا قتل ہے۔ اس سلسلہ میں جو حوالے دیے جاتے ہیں ، وہ بلاشبہ نہایت ضعیف ہیں۔(ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب شتم رسول کی سزا۔ نیز حکمت اسلام کا باب، مرتد اور ارتداد)۔
تاہم بالفرض اگر کسی کے نزدیک شتم رسول یا ارتدادکی سزا قتل ہو تب بھی کوئی جرم عدالتی کارروائی سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا۔ علماء اور فقہاء جب یہ لکھتے ہیں کہ یقتل حد اً تو اس کے ساتھ انھیں یہ اضافہ کرنا چاہیے کہ بعد المحاکمہ یعنی عدالتی کارروائی (judicial proceedings) کے بعد، نہ کہ اس کے بغیر۔ یہ حکم اتنا عام ہے کہ اس معاملے میں کوئی بھی جرم مستثنیٰ نہیں بن سکتا۔
انسان کو قتل کرنا، انسان کے لیے آخری سزا کے برابر ہے۔ اس کےبعد انسان کچھ کرنے کے لیے موجود نہیں رہتا۔ اس لیےقتل کےمعاملے میںاہل اسلام کو بے حد حساس ہونا چاہیے۔ کسی کو قتل صرف اس وقت کیا جاسکتا ہے، جب کہ اس کے لیے نص صریح موجود ہو، جس میں کسی تاویل کی گنجائش نہ ہو۔ مزید یہ کہ قتل کا فیصلہ ایک با اختیار جج کرسکتا ہے۔ کوئی اور شخص یا گروہ کسی کو قتل کرنےکا ہرگز مجاز نہیں۔قتل کا حکم لگانے سے پہلے لوگوں کو چاہیے کہ وہ قرآن کی اس آیت کو باربار پڑھیں:
مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِی الْأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیعًا وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیعًا (5:32) ۔ یعنی جو شخص کسی کو قتل کرے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کو قتل کیا ہو یا زمین میں فساد برپا کیا ہو تو گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک شخص کو بچایا تو گویا اس نے سارے انسانوں کو بچا لیا۔
واپس اوپر جائیں

خدا سے ہم کلامی

ایک حدیثِ رسول میں مومن کی صفت بتانے کے لئے یہ الفاظ آئےہیں: یناجی ربہ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 405)۔ یعنی مومن اللہ رب العالمین سے سرگوشی کرتا ہے ۔ اس کو ہمیشہ اللہ سے ہم کلامی کا تجربہ ہوتا رہتا ہے۔
A believer is always in contact with God
غیر مومن کے بارے میں یہ کہنا صحیح ہوگا کہ وہ اپنے دوست سے سرگوشی کرتا رہتاہے (یناجی صدیقہ)۔ لیکن مومن وہ ہے جو معرفت کےدرجہ میں اللہ کو دریافت کرے۔ اپنی ربانی سوچ کی بنا پر اس کو اللہ سے قربت کا تجربہ ہونے لگے۔ وہ محسوس کرنے لگے کہ میں اللہ کے پاس ہوں یا اللہ میرے پاس ہے۔ جب کسی شخص کو یہ ربانی تجربہ ہوتا ہے تو فطری طورپر ایسا ہوتاہے کہ وہ اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے۔ وہ سرگوشی (whisper) کی زبان میں اللہ سے ہم کلام ہوجاتا ہے۔ اس کو اللہ کی طرف سے انسپریشن (inspiration) ملنے لگتا ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہونے لگتاہے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں پہنچ گیا ہے۔ وہ انسانوں کے درمیان رہتےہوئے اللہ کا پڑوسی بن گیا ہے۔
اس حدیث میں بندہ اور رب کے درمیان جس مناجات کا ذکر ہے، اس کی تصدیق قرآن سے بھی ہوتی ہے۔قرآن میں یہ آیت آئی ہے: وَإِذَا سَأَلَکَ عِبَادِی عَنِّی فَإِنِّی قَرِیبٌ أُجِیبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ (2:186)۔
بندے کی پکار کا اللہ تک پہنچنا انھیں الفاظ میں ہوتا ہے جن الفاظ میں بندے نے اپنے رب کو پکارا ہے۔ بندہ جب پکارتا تو اس کا رب اس کو اسی وقت حقیقی طور پر سن لیتا ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اللہ کا جواب کس طرح انسان تک پہنچتا ہے۔یہ الفاظ کے اعتبار سے نہیں ہوتا بلکہ وجدان (intuition)کی سطح پر کیفیت (feeling)کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ اس کو محسوس تو کیا جا سکتا ہے لیکن لفظوں میں اس کو بیان نہیں کیا جا سکتا۔
واپس اوپر جائیں

موقع ومحل کی اہمیت

قرآن میں ایک طرف یہ کہا گیاہے کہ اشداء على الکفار (48:29) ۔ دوسری طرف قرآن میں آیا ہے :فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّہِ لِنْتَ لَہُمْ ( 3:159)۔اس سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام میں کبھی شدت مطلوب ہوتی ہے اور کبھی نرمی۔ یہ شدت اور نرمی کافر اور مسلم کے اعتبار سے نہیں بلکہ موقع ومحل کے اعتبار سےاختیار کی جاتی ہے۔ اس فرق کا سبب حکمت کلام ہے۔ اس کا تعلق اصلاً متکلم سے نہیں ہے، بلکہ سامع (audience) سے ہے۔
اصل یہ ہے کہ لوگوں میں علم وفہم کے اعتبار سے فرق ہوتاہے (یوسف 76:)۔ اسی بنا پر کلام میں بھی فرق مطلوب ہوجاتا ہے۔ کلام میں شدت بھی اتنا ہی مطلوب ہے جتنا کہ کلام میں نرمی۔ مگر اس کا انحصار سامع کی قبولیت (acceptance) سے ہے۔ اگر سامع کے اندر یہ صلاحیت ہو کہ وہ بات کو بات کے لحاظ سے دیکھے نہ کہ اسلوب کے لحاظ سے۔ ایسے شخص کے لئے ہیمرنگ کی زبان (language of hammering) زیادہ مفید ہوگی۔ اس کے برعکس جس آدمی کے اندر شدت کو برداشت کرنے کا مادہ نہ ہو اس سے نرمی کے انداز میں بات کہی جائے گی۔
یہ اصول اجتماعی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے بے حد اہم ہے۔ ایک شخص اگر اکیلا ہو تو اس قسم کا مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن اجتماعی زندگی کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ اجتماعی زندگی میں ہمیشہ طرح طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ہر ایک سے یکساں قسم کا برتاؤ نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ یہ دیکھنا پڑے گا کہ کوئی شخص کس چیز کا تحمل کرسکتاہے، اور کس چیز کا تحمل نہیں کرسکتا۔ یہ فرق حکمت پر مبنی ہوتا ہے، نہ کہ امتیاز پر۔ جو شخص صرف نرمی کا تحمل کرسکتا ہو، اس کے ساتھ سختی کرنا، اس پر ظلم کرنا ہے۔ اس کے برعکس، جو شخص نرمی اور سختی سے اوپر اٹھ کر بات کو حقیقتِ واقعہ کے اعتبار سے دیکھے ، اس کے ساتھ نرمی کا طریقہ اختیار کرنا ، اس کے اوپر ظلم کرنا ہے۔ اس کو ایک ایسے خیر سے محروم کرنا ہے، جس کا وہ پہلے سے انتظار کر رہا تھا۔ اسی کا نام حکمت ہے۔
واپس اوپر جائیں

سکنڈری چوائس

اسلام کی تاریخ بتاتی ہے کہ ابتدائی ربع صدی تک اسلام میں اصولی خلافت قائم رہی ۔اس کے بعد خاندانی خلافت (dynasty-based khilafat) قائم ہوگئی، جو آخر وقت تک چلتی رہی۔ یہ کوئی برائی (evil) کی بات نہیں ہے بلکہ وہ پریکٹکل وزڈم (practical wisdom) کی بات ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق زندگی کا ایک اصول یہ ہے کہ جب پہلا انتخاب (first choice) ممکن نہ ہو تو سکنڈری چوائس (secondary choice) پر راضی ہوجاؤ۔
خاندانی خلافت کا کم از کم یہ فائدہ حاصل ہوا کہ اسلام کی بعد کی تاریخ میں استحکام (stability)کا قیام ممکن ہوگیا۔ اس استحکام کی بناپر بعد کے زمانہ میں اسلام کا ڈھانچہ مسلسل طورپر باقی رہا۔ عبادت کانظام، اسلامی تعلیم کا نظام، اسلام پر مبنی معاشرہ کم از کم فارم کے درجہ میں قائم رہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ علماء اسلام، خاندانی خلافت کے نظام پر راضی ہوگئے۔ اگر وہ اصولی خلافت پر اصرار کرتے تو اسلام کی تاریخ میں استحکام (stability) موجود نہ رہتا۔
سکنڈری چوائس زندگی کا ایک اہم اصول ہے۔زندگی میں اکثر لوگ اپنے معاملات میں فرسٹ چوائس کو لینا چاہتے ہیں، مگر نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو نہ فرسٹ چائس ملتا ہے ، نہ سکنڈ چوائس۔ زیادہ بہتر پانے کی کوشش میں کم بہتر بھی ان کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔
سکنڈری چوائس لینا، اپنی حقیقت کے اعتبار سے کوئی کمی کی بات نہیں۔ یہ صرف آغاز (beginning) کی بات ہے۔ اس دنیا میں عقل مندی یہ ہے کہ آدمی ممکن حالت سے اپنے عمل کا آغاز کرے۔ اگر وہ دانش مند منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرے گا تو یقینا وہ اعلی کامیابی تک پہنچ جائے گا۔ فرسٹ چوائس اور سکنڈری چوائس صرف آغازِ کار کی بات ہے، وہ انجام کار کا معاملہ نہیں۔ اس راز کو جاننا بلاشبہ زندگی کا اہم ترین اصول ہے۔ جو لوگ اس راز کو نہ جانیں، وہ اپنے آپ کو غیر ضروری مسائل میں مبتلا کرلیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

امیج کا مسئلہ

ایک تعلیم یافتہ مسلمان نے ایک مضمون شائع کیا تھا: ٹاسک اہیڈ(Task Ahead) ۔ یہ مضمون زیادہ واضح نہ تھا۔ مگر آج کے لحاظ سے سوچا جائے تو آج کرنے کا سب سے بڑا کام اسلام کی امیج بلڈنگ (image building)ہے۔ موجودہ زمانہ میں مختلف اسباب سے اسلام کی امیج یہ بن گئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ آج سب سے بڑا کام یہ ہےکہ اس تصویر کو بدلا جائے اور عالمی سطح پر یہ اعلان کیا جائے کہ اسلام پورے معنوں میں ایک مذہبِ امن ہے، نہ کہ مذہب ِتشدد۔ تصویر(image) کا مسئلہ بہت سنگین مسئلہ ہے۔ اگر کسی کی امیج بگڑ جائے تو لوگ اس کے بارے میں منفی ہوجاتے ہیں۔ اور جب لوگ کسی کے بارے میں منفی ہوجائیں تو وہ اس کے بارے مثبت ذہن کے تحت نہیں سوچتے۔ وہ اس کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ معاملے کا سنجیدگی کے ساتھ مطالعہ کریں، اور پھر ذاتی مطالعے کی بنیاد پر اس کے بارے میں مبنی بر حقیقت رائے قائم کریں۔
اس عوامی نفسیات کی بنا پر اس مسئلے کو مدعو کے اوپر نہیں ڈالا جاسکتا۔ حقیقت پسندی کا تقاضا ہے کہ داعی اس معاملے کی ذمے داری خود قبول کرے۔اس طرح کے معاملے میں صرف تردید یا مذمت کافی نہیں۔ مثلا عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ اس معاملے کی ذمے داری میڈیا پر آتی ہے۔ مگر یہ کہنا کافی نہیں۔ ضرورت ہے کہ خالص غیر جانب دارانہ انداز میں اس مسئلے کا جائزہ لیا جائے، اور پھر مثبت ذہن کے تحت اس کی تلافی کی کوشش کی جائے۔
اس معاملے میں دوسروں کو ذمے دار قرار دینا ایک بے فائدہ کام ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دوسرے لوگ خود اپنی رائے نہیں بدلیں گے۔ داعی کو یک طرفہ طور پر یہ کوشش کرنا ہوگا کہ وہ درست منصوبہ بندی کے ذریعے امیج بلڈنگ (image building) کی مہم شروع کرے۔ وہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے ، خود اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائے۔یہی اس معاملے میں واحد نتیجہ خیز طریقہ ہے۔
واپس اوپر جائیں

ذہنی تربیت

ذہن سازی ایک اہم ترین کام ہے۔ لیکن ذہن سازی کبھییہ کرو، وہ نہ کرو(dos and don'ts) کی زبان میں نہیں ہوتی۔ ذہن سازی کا آغاز سب سے پہلے یہاں سے ہوتاہے کہ آدمی کے اندر فکری عمل (intellectual process)جاری کیا جائے۔
فکری عمل جاری کرنا مربی کا کام ہے اور فکری عمل کو آخری حد تک پہنچانا زیر تربیت فرد کا کام ہے۔یہی وہ حقیقت ہے جو قرآن کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ لِّکَیْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاکُمْ(57:23) ۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ انسان کی زندگی میں غم کے واقعات دراصل ذہنی صدمہ (intellectual shock) کے لئے ہوتےہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ آدمی کے ذہن میں ہلچل پیداکی جائے۔ اس کے ذہن میں سوچ کا عمل (process) جاری ہو۔ آدمی کی تخلیقیت میںاضافہ ہو یہاں تک کہ وہ خود اپنی سوچ کے تحت ایک حقیقت تک پہنچے۔ آدمی کا مزاج یہ ہے کہ وہ ذاتی تجربہ سے سیکھتا ہے نہ کہ صرف بتا دینے سے۔
ذہنی تربیت ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اس کے نصف حصے کا تعلق مربی سے ہے، اوربقیہ نصف حصے کا تعلق اس سے جس کی تربیت مقصود ہے۔دو طرفہ ارادہ اور دو طرفہ کوشش کے بغیر تربیت کا مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔
مربی کی ذمے داری یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے خود اپنے آپ کو تیار کرے، وہ زیر تربیت فرد یا افراد کے کیس کو گہرائی کے ساتھ سمجھے۔ ضروری مطالعے کے بعد وہ تربیت کی مبنی بر حقیقت منصوبہ بندی کرے۔ تربیت کے معاملے میں مربی کا صرف عالم ہونا کافی نہیں۔ اسی کے ساتھ لازمی طور پر ضروری ہے کہ مربی زیرتربیت افراد کا مکمل خیر خواہ ہو۔ تربیت نام ہے تین چیزوں کے مجموعے کا— علم، حکمت اور خیر خواہی۔
واپس اوپر جائیں

عدم اطمینان

ایک شخص نے ان بڑے بڑے اسکالرس پر ریسرچ کیا ہے، جو اپنی کسی بڑی دریافت کی بنا پر نوبل پرائز کے لیے منتخب ہوئے۔ اس نے لکھا ہے کہ میں نے یہ پایا کہ ان اسکالرس میں ایک چیز مشترک تھی۔ وہ تھی عدم قناعت (discontentment) ۔وہ علم کے بارے میں کسی حد پر نہیں رکتے تھے۔ اس لیے ان کی ترقی مسلسل جاری رہی۔
بڑے بڑے اہل علم کی جو عدم قناعت علم کے بارے میں ہوتی ہے، وہی عدم قناعت مومن کے اندرمعرفت کے بارے میں ہوتی ہے۔ مومن آخر دم تک معرفت خداوندی کے معاملے میں غیرقانع رہتا ہے۔ اس لیے اس کی معرفت برابر بڑھتی رہتی ہے، وہ کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اہل ایمان کے بارے میں یہی وہ حقیقت ہے، جو حدیث میں ان الفاظ میں بیان کی گئی ہے:عن أبی سعید الخدری، عن رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم قال: لن یشبع المؤمن من خیر یسمعہ حتى یکون منتہاہ الجنة(سنن الترمذی، حدیث نمبر2686)۔ یعنی ابوسعید خدری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مؤمن خیر کی باتیں سننے سے کبھی سیر نہیں ہوتا یہاں تک کہ اس کی انتہاء جنت پر ہوتی ہے۔ مسند شہاب القضاعی کی روایت (نمبر897) میں خیر اور مومن کے بجائے علم اورعالم کا لفظ آیا ہے۔؃
اصل یہ ہے کہ انسان کی نسبت سے دین کے دو پہلو ہیں۔ ایک ہے معرفت کا پہلو، اور دوسرا ہے دینداری کا فارم ۔ فارم ہمیشہ معلوم ہوتا ہے۔ کچھ افعال انجام دینے کے بعد اس کی حد آجاتی ہے، اور جب کسی چیز کی حد آجائے تو ایسے انسان کے اندر عدم اطمینان کی کیفیت پائی نہیں جائے گی، وہ جو کچھ کررہا ہے، وہ اس پر قانع ہوجائے گا۔
مگر معرفت لامتناہی چیز ہے۔ آدمی کتنا ہی زیادہ معرفت حاصل کرلے،اس کے اندر مزید حصول کا جذبہ کبھی ختم نہ ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

ایک اجتماعی مسئلہ

منفی ذہن (negative mind) ہر عورت اور مرد کے اندر اپنے آپ موجود رہتاہے۔ لیکن مثبت ذہن (positive mind) آدمی کو سوچ کر بنانا پڑتا ہے۔ عام طور پر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ سوچ کر اپنا ذہن نہیں بناتے۔ اس لئے ہر ایک منفی سوچ میں مبتلا رہتاہے۔ یہی وجہ ہےکہ عام طورپر لوگ دوسروں کے بارے میں بہت جلد مخالفانہ رائے قائم کرلیتے ہیں۔ وہ اکثر دوسرے شخص کے منفی پہلو کو لے کر اس کے بارےمیں رائے بناتے ہیں۔ وہ آدمی کے مثبت پہلو کو لے کر رائے نہیں بناتے۔ حالانکہ اگر وہ سوچیں تو وہ پائیں گے کہ ہر ایک کے اندر منفی پہلو کے ساتھ مثبت پہلو بھی موجود رہتاہے۔
اجتماعی زندگی (collective life)کو بہتر بنانے کے لئے سب سے زیادہ اہم اصول یہ ہے کہ آپ دوسرے شخص کے منفی پہلو کو نظر انداز کریں اور مثبت پہلو کو لے کر اس کے بارےمیں رائے بنائیں۔انسانوں کے درمیان حقیقی اتحاد کا یہی واحد اصول ہے۔ کسی سماج میں اتحاد اس لیے نہیں پیدا ہوسکتا کہ لوگ ایسے بن جائیں کہ کسی کو کسی سے شکایت نہ رہے۔ اس قسم کا اتحاد فطرت کے قانون کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ عملا بننے والا بھی نہیں۔
اتحاد کا واحد اصول اختلاف کے باوجود متحد ہونا ہے۔ اتحاد ہمیشہ اختلاف کو نظر انداز کرنے سے آتا ہے، نہ کہ اختلاف کو ختم کرنے سے۔ فطرت کے قانون کے مطابق، زندگی کا نظام تنوع (diversity) پر قائم ہے، نہ کہ یکسانیت (uniformity) پر۔ لوگوں میں یکسانیت پیدا کرکے ان کے درمیان اتحاد قائم کرنے کا فارمولا، ایک ناممکن فارمولا ہے۔ خواہ سیکولر دائرہ ہو یا مذہب کا دائرہ، ہر جگہ اختلاف کو برداشت کرنے سے اتحاد آئے گا، نہ کہ لوگوں میں یکسانیت لانے سے جو کہ کبھی وقوع میں آنے والا ہی نہیں۔
واپس اوپر جائیں

غصہ کیوں آتاہے

غصہ ایک عام برائی ہے۔ اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب ان کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوتی ہے تو وہ غصہ ہوجاتے ہیں۔ غصہ ہمیشہ شکایت سے شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ نفرت کی صورت اختیار کرتا ہے۔ یہ نفرت مزید بڑھ کر عناد (enmity) کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ یہ کرتاہے کہ جس آدمی پر اس کوغصہ آیا اس کو ہر اعتبار سے وہ نیچا دکھانے کی کوشش کرتاہے۔ شعوری یا غیر شعوری طورپر وہ یہ چاہنے لگتا ہے کہ کسی طرح یہ ثابت ہو کہ وہ غصہ کرنے میں درست تھا۔غصہ کی اصل جڑ انانیت (ego) ہے۔ اکثر ایساہوتا ہے کہ لوگ اپنی بے شعوری کی بنا پر اپنے اندر وہ صفت پیدا نہیں کرپاتے جس کو آرٹ آف ایگو مینجمنٹ(art of ego management) کہاجاتا ہے۔ جو آدمی اس آرٹ کو جانے وہ اپنی ذہنی بیداری (intellectual awakening) کی بنا پر اس قابل ہوگا کہ وہ اپنے ایگو کو اپنے عقل کے تابع رکھے نہ کہ خود ایگو (ego)کے تابع ہوجائے۔
غصہ فطرت کا ایک ظاہرہ ہے۔ ہر آدمی کے اندر فطری طور پر غصہ کے جذبات موجود ہوتے ہیں۔ لیکن غصہ کی ایک صورت محمود ہے، اور دوسری صورت غیر محمود۔آدمی کو چاہیے کہ وہ اس فرق کو سمجھے۔ کیوں کہ غصہ کی محمود صور ت جائز ہے، جب کہ غصہ کی غیر محمود صورت ایک گناہ ہے۔
غصہ کی غیر محمود صورت وہ ہے جو غرور (arrogance) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یعنی اپنے کو بڑا، اور دوسرے کو چھوٹا سمجھنا۔ اس بنا پر اپنے خلاف بات سن کر بھڑک اٹھنا۔ اس قسم کا غصہ کبر کی علامت ہے۔ اور کبر بلاشبہ ایک گناہ ہے۔محمود غصہ وہ ہے جو اصول پسندی کی بنا پر کسی کے اندر پیدا ہوتا ہے۔ جب ایک آدمی اصول پسند (man of principle) ہو تو وہ اصول کے معاملے میں حساس (sensitive)ہوجائے گا۔ اس بنا پر وہ خلاف اصول بات کو برداشت نہیں کرپاتا۔وہ شدید انداز میں اس کے خلاف نکیر کرنا چاہتا ہے۔ وہ بظاہر غصہ ہوتا ہے لیکن حقیقۃ وہ شدت اظہار ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

سوال و جواب

سوال
کیا غیرمسلموں میں دعوت کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح پیغمبر پر عائد تھی؟ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (عباد افضل، الہ آباد، یوپی)
جواب
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ بلاشبہ غیرمسلموں میں دعوت کی ذمہ داری ہر ہر مسلمان پر اُسی طرح عائد ہوتی ہے جس طرح پیغمبر پر عائد تھی۔ دعوت اپنی حقیقت کے اعتبار سے پیدا ہونے والے انسانوں کو یہ بتانا ہے کہ پیدا کرنے والے نے ان کو کس لیے پیدا کیا ، اور آخر کار ان کا خالق اس سے کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ اس عمل کو قرآن میں انذار و تبشیر کہا گیا ہے۔ پیدا ہونے والے انسان چوں کہ قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے، اس لیے انذار و تبشیر کا عمل بھی قیامت تک جاری رہے گا۔
اس معاملہ میں پیغمبر کی حیثیت نمونہ (model) کی ہے۔ پیغمبر نے اپنے زمانے میں انذار و تبشیر کا جو کام کیا، وہ ایک اعتبار سے اپنی ذمے داری کی ادائیگی کے طور پر تھا، اور دوسرے اعتبار سے وہ تمام اہل ایمان کےلیے نمونہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ حدیث میں آیا ہے: صلوا کما رأیتمونی أصلی(صحیح البخاری، حدیث نمبر631)۔ توسیعی معنی کے اعتبار سے حدیث میں یہ بات بھی شامل ہے کہ تم انذار و تبشیر کا کام اس طرح کرو جس طرح تم مجھ کو کرتے ہوئے دیکھتے ہو۔
قرآن حدیث میں یہ حکم بار بار آیا ہے ۔ مثلا قرآن میں ہے کہ امت محمدی کی حیثیت امت وسط (البقرۃ143:)کی ہے۔ یعنی بیچ کی امت۔ اُس کا کام یہ ہے کہ وہ سچائی کا علم پیغمبر سے حاصل کرے، اور پھر اس کو بعد کے زمانے میں تمام قوموں تک پہنچاتی رہے۔ اسی اعتبار سے اہل ایمان کے بارے میں یہ حدیث آئی ہے : المؤمنون شہداء اللہ فی الأرض (صحیح البخاری، حدیث نمبر2642)۔ یعنی مومن زمین پر اللہ کے گواہ ہیں۔ اس بات کو قرآن کی ایک آیت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے : تاکہ میں تم کو اس قرآن کے ذریعہ انذار کروں، اور جس کو پہنچے ( وہ بھی قیامت تک انذار کا کام کرتا رہے)۔الانعام: 19
سوال
میں ماہ نامہ الرسالہ پچھلے دس برسوں سے مطالعہ کر رہاہوں۔ مجھے اس مشن نے بہت اندر تک متاثر کیا ہے، اور مجھے بالکل بدل دیا۔ ایک مرتبہ میں نے آپ سے ملاقات اور انٹر ایکشن کیا تھا۔ اس وقت آپ نے مجھ سے الرسالہ کے متعلق فیڈ بیک مانگا تھا۔لیکن میں اس وقت کچھ بول نہ پایا تھا۔ اب اس خط کے ذریعہ میں اسے لکھ رہا ہوں کہ میرے اندر الرسالہ کی وجہ سےکیا کیا تبدیلیاںآئی ہیں۔ میری پیدائش 1989 میں ہوئی۔ نو سے پندرہ برس کی عمر تک میں نے گھر سے دور رہ کر مدرسہ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد کالج سے گریجویشن اور ایم اے کیا۔ الرسالہ مشن سے جو فائدہ ہوا، ان میں سے چند یہ ہیں۔(1)پہلا فائدہ جو الرسالہ نے دیا، وہ ہے اسلام کی روح سے متعارف کرانا۔ میں ایک تعلیم یافتہ گھر میں پیدا ہوا، دینی ماحول میں رہا، مدرسے میں وقت بِتایا، مگر دین کو دریافت نہ کرپایا تھا۔ دین کے نام پر جو چیز پایا تھا وہ ہے منفی ذہن، شکایتیں، مسلک پرستی، اور قوم پرستی، وغیرہ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ صبر و شکر جیسی فنڈا منٹل چیز بھی مَیں نہیں جان پایا تھا۔ یہ ماہ نامہ الرسالہ نے مجھے سکھایا۔ماہ نامہ الرسالہ کی بات کو تحقیق کرنے کے لیے میں نے پورے قرآن کو پڑھا، اور ہزاروں احادیث پڑھی، تب جاکر مجھے یقین کے درجے میں صحیح اسلام حاصل ہوا۔ (2)دوسرا زبردست فائدہ یہ ہوا کہ میں نے دین کی سیاسی تعبیر کے انحراف کو سمجھا، اور نام نہاد مجاہد بن کر اپنی زندگی کو ہلاکت میں نہ ڈالا۔ ورنہ بچپن ہی سے مجھےجہاد کو اس طرح بتایا گیا تھا کہ گویاوہی اسلام کا اصل مشن ہے، اور وہی مسلمانوں اور اسلام کے مسئلہ کا حل ہے۔ (3) تیسرا فائدہ یہ ہوا کہ آج آپ کی تعلیمات کی وجہ سے میں یقین (conviction) میں جیتا ہوں۔ جب میں مدرسہ سے نکلا تھا، نئے زمانے کی تبدیلیوں کو دیکھتا تھا، سمجھ نہیں پاتا تھا کہ سچائی کیا ہے۔ دل میں خدا، رسول اور آخرت کا یقین تو تھا، مگر ماڈرن ایج سے مَیں انھیں ریلیٹ (relate) نہیں کر پاتا تھا۔ اس کی وجہ سے میں کنفیوزن اور اسٹریس میں جیتا تھا۔ اس طرح میں نے پانچ برس تک گزارا۔ بڑی مشکل کا دور تھا یہ۔ کیوں کہ میں ہر تھاٹ اور ہر ڈسپلن کو پڑھتا ، مگر اس میں یقین نہیں پاتا تھا۔ لیکن خدا کے فضل سے میں نے ماہ نامہ الرسالہ کے ذریعہ ماڈرن ایج کو اسلام کے ریفرنس میں صحیح طور پر پالیا۔ مجھے اندھیرے سے اجالا ملا۔ مندرجہ بالا تبدیلیاں صرف علاماتی تبدیلیاں ہیں۔ ورنہ الرسالہ نے تو مجھے پوری طرح بدل دیا، سب کچھ بدل دیا۔ آئندہ ان شاء اللہ میں اپنا وقت اور پونجی دین کے کام میں صرف کروں گا۔ دعا کیجیے کہ میں دعوت کے کام کو اپنا مشن بناپاؤں، خدا مجھےمعاف کرے، میرا تزکیہ کرے، اور مجھے جنت نصیب کرے۔ آخر میںشہادت دیتا ہوں کہ آپ نے صحیح معنوں میں دین کا احیا کیا ہے۔ اللہ آپ کی اس عظیم ترین کوشش کو قبول کرے، اور آپ کو اس کا اعلیٰ ترین صلہ دے۔ آمین۔ (محمد اظہر مبارک، بھاگل پور)
جواب
میرا تجربہ ہے کہ صرف فارمل تعلیم ، علم کے حصول کے لیے کافی نہیں۔ خواہ وہ سیکولر تعلیم ہو یا دینی مدرسے کی تعلیم۔ فارمل تعلیم جو اداروں میں ہوتی ہے،اس میں آدمی کسی دوسرے کی بتائی ہوئی باتوں کا علم حاصل کرتا ہے۔ مگر علم کا خزانہ اس سے بہت زیادہ ہے، جتنا کہ کسی بتانے والے نے آپ کو بتایا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی فارمل ایجوکیشن کے بعد خود مطالعہ کرے۔ خود مطالعے سے آدمی ، خود دریافت کردہ علم کو حاصل کرے گا۔ اور خود دریافت کردہ علم ہی سے آدمی کو حقیقی معرفت حاصل ہوتی ہے۔
ایجوکیشن کی دو قسمیں ہیں، فارمل ایجوکیشن اورانفارمل ایجوکیشن۔ الرسالہ مشن کی حیثیت انفارمل ایجوکیشن کی ہے۔ ہماری کوشش یہ ہے کہ فارمل ایجوکیشن پائے ہوئے لوگوں کو انفارمل ایجوکیشن مہیا کی جائے، تاکہ ان کی علمی کمی پوری ہو۔ دونوں طریقوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ دونوں تعلیمی طریقے ایک دوسرے کے لیے تکمیلی حصہ (complementary part) کی حیثیت رکھتے ہیں۔دونوں طریقوں کو ایک دوسرے سے تقویت حاصل ہوتی ہے۔مثلا مدرسے کی تعلیم سے اگر دین کا روایتی علم حاصل ہوتا ہے تو انفارمل ایجوکیشن کے ذریعہ آدمی دور جدید سے واقفیت حاصل کرتا ہے، اور اس میں شک نہیں کہ کسی انسان کے لیے دونوں ہی ضروری ہے۔
سوال
الرسالہ کے ایک شمارہ میں ہے کہ آپ نے ا یک صاحب کونصیحت کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ایک آدمی آپ کی جاب لے سکتا ہے، مگر کوئی آپ کی تقدیر نہیں چھین سکتا۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔ (ڈاکٹر روشن کمار، گجرات)
جواب
جاب کا تعلق کسی کمپنی سے ہوتا ہے۔ کمپنی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ جب چاہے کسی کو جاب دے، اور جب چاہیے کسی کی جاب ختم کردے۔ کمپنی کا یہ حق معاشیات کی دنیا میں ایک مسلّم حق سمجھا جاتا ہے۔اس معاملے میں ہر کمپنی کو یہ حق ہوتا ہے کہ وہ خود اپنی صوابدید کے مطابق جو چاہے فیصلہ کرے، اور جو فیصلہ نہ چاہے نہ کرے۔
لیکن تقدیر کا تعلق وسیع تر دنیا سے ہے۔ تقدیر کی دنیا خالق کی پیدا کی ہوئی دنیا ہے۔ فطرت کے قانون کے مطابق تقدیر کی اس دنیا میں مواقع (opportunities) اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا ۔ فطرت کی دنیا میں ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص آپ سے ایک موقع چھین لے تب بھی وہاں دوسرے مواقع موجود رہتے ہیں ۔ کوئی ادارہ اپنے دیے ہوئے موقع کو واپس لے سکتا ہے۔ لیکن فطرت کی دنیامیں جو مواقع ہیں ، ان کو منسوخ کرنا کسی شخص یا ادارے کے لیے ممکن نہیں۔
لیکن یہ دوسرے مواقع اپنے آپ کسی کو نہیں ملتے۔ جس طرح کوئی آدمی جب ایک موقع حاصل کرتا ہے تو وہ اس کو اس وقت ملتا ہے ، جب کہ اس نے اپنے آپ کو اس کے حسب حال تیار کیا ہو۔ اس لیے آدمی کو چاہیے کہ اگر ایک موقع اس سے چھن جائے تو وہ کسی دوسرے موقع کو دریافت کرے، اور اس کے مطابق اپنے آپ کو دوبارہ تیار کرے۔ جو آدمی ایسا کرے گا، اس کو کبھی کسی کمپنی یا کسی ادارے سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
واپس اوپر جائیں

خبرنامہ اسلامی مرکز — 248

دعوتی سیاحت: سی پی ایس انٹرنیشنل کے چیرمین جناب ثانی اثنین خان نے اکتوبر 2016 میں فرانکفرٹ، جرمنی میں منعقد ہونے والے بک فیر میں شرکت کی اور مختلف لوگوں کے درمیان دعوتی لٹریچر تقسیم کیا۔ اس کے بعد فن لینڈ، سویڈن،ناروے،انگلینڈاور ترکی کا دورہ کیا۔ یہاں انھوں نے مختلف اسلامی آرگنائزیشن کے ذمہ داروں سے ملاقات کی، اور دعوتی کام کو آگے بڑھانے پر تبادلۂ خیال کیا۔ اسکنڈے نیوین ممالک میں ایک بڑی ضرورت محسوس کی کئی کہ مقامی زبان میں پاکٹ سائز ترجمہ قرآن موجود نہیں ہے۔ ان تمام لوگوں نے موجودہ انگریزی ترجمہ قرآن کو دیکھ کر یہ کہا کہ آپ ہمیں اس سائز کا ترجمہ قرآن مقامی زبان میں چھاپ کردیں، تو ہمارے لیے دعوت کا کام آسان ہوگا۔ اس کے علاوہ دوسرے دعوہ لٹریچر کو بھی بہت پسند کیا اور کہا کہ ہم لوگ ان کو دعوتی کام کے لیے ضرور استعمال کریں گے۔ انگلینڈ میں دیگر لوگوں کے علاوہ مشہور نومسلم داعی عبد الرحیم گرین کی آرگنائزیشن کےذمہ داران سے ملاقات کی۔ انھوں نے دعوتی کام میں تعاون کا یقین دلایا۔ نیز ترکی کا سفر بھی کافی امید افزا رہا۔
سیلف پروگرامر: 26اکتوبر تا 6 نومبر کو کولکاتا میں سی پی ایس کی ایک دعوہ میٹ ہوئی۔ اس میں کولکاتا ٹیم کے علاوہ تامل ناڈو سے حافظ سید اقبال احمد عمری، حیدر آباد سے حافظ فیاض الدین عمری ، جمشید پور سے ایاز احمد اور سلیم اختر وغیرہ شریک ہوئے۔ نیز آخری دو دنوں کے لیےسی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم بھی شریک ہوئیں۔ اس دعوہ میٹ کے تحت ایک اہم کام یہ ہوا کہ نارتھ ایسٹ میں دعوتی مواقع کا جائزہ لینے کے لیے ان لوگو ں نے آسام کا دورہ کیا اور مختلف لوگوں سے ملاقات کی۔ اس کے علاوہ مغربی بنگال کے مختلف مدارس ، اسلامی آرگنائزیشن اورنان مسلم تنظیم کے لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ نیز کولکاتا یونیورسٹی میں منعقدہ سمینار میں لوگوں کے درمیان دعوہ لٹریچر تقسیم کیا۔ اس سمینار کا ذکر آگے آرہا ہے۔
ایج آف دعوہ: کلکتہ یونیورسٹی (کولکاتا)نے 4 نومبر 2016 کو امن اور ہارمَنی کے موضوع ہر ایک سیمینار منعقد کیا تھا۔ اس میں سی پی ایس انٹرنیشنل، دہلی کی چیر پرسن ڈاکٹر فریدہ خانم نے اسلام کی نمائندگی کرتے ہوئے Intercultural Prospects for Global Harmony and Peace کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ اس کے علاوہ بشپ کالج، کولکاتا میں خدا کا منصوبہ تخلیق (The Creation Plan of God ) کے عنوان سے ایک لکچر دیا۔یہ دورہ بطور خاص کولکاتا ٹیم کی دعوت پر ہوا تھا۔ اس لیے اس دورے میں انھوں نے مقامی سی پی ایس ٹیم سے دعوتی مواقع اور مسائل پر تبادلۂ خیال کیا۔اس موقع پر انھوں نے بنگلہ زبان میں صدر اسلامی مرکز کےترجمہ شدہ لیف لیٹس کا اجراء بھی کیا۔
مدعو آپ کے دروازے پر 31: اکتوبر 2016 کو پتنجلی یوگاپیٹھ (بابا رام دیو،یونیورسٹی) کے ایک نمائندہ وفد نے پیس ہال (سہارن پور) کا دورہ کیا۔ انھوں نے اسپریچول سیشن میں شرکت کی، اوروفد کی ممبر کماری ارچنا موریا نے سامعین سے خطاب کیا۔ آخر میں تمام مہمان اورشرکاء کے درمیان ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچرتقسیم کیاگیا۔
سماجی مہم، دعوت کا باب 5: نومبر 2016 کو سی پی ایس دہلی کی ایک ٹیم نےتغلق آباد بایوڈائیورسٹی پارک میں منعقدہ شجرکاری مہم میں حصہ لیا۔ یہ مہم ٹائمس آف انڈیا گروپ کی جانب سے آرگنائز کی گئی تھی۔ آرگنائزر نے سی پی ایس ٹیم کا شکریہ ادا کیا، اور آئندہ بھی شرکت کی امید ظاہر کی۔ سی پی ایس ٹیم کی جانب سے جن لوگوں نے اس مہم میں حصہ لیا، وہ یہ ہیں: ڈاکٹر اقبال پردھان ، مسٹر دانیال، جناب وسیم، اور نور محمدصاحبان، وغیرہ۔
مشن اسپرٹ: ناگپور و کامٹی الرسالہ ٹیم کی ماہانہ میٹنگ بروز اتوار، مورخہ 6 نومبر 2016، محمد عرفان رشیدی صاحب کے مکان پر ہوئی ۔ میٹنگ میں شریک ممبران کو مطلع کیا گیا کہ بھوپال CPS ٹیم کے ایک رکن یونس لٹیانی صاحب 13 نومبر کو ایک نکاح کی تقریب میں شرکت کے لئے کامٹی آرہے ہیں ۔ اس موقع پر وہ شرکاء نکاح کے درمیان قرآن مجید اور دیگر دعوتی لٹریچر تقسیم کریں گے ۔ طے پایا کہ انشاء اللہ ناگپور و کامٹی ٹیم کے ممبران اس دعوتی کام میں موصوف کا بھرپور تعاون کریں گے ۔ مزید طے پایا کہ امراوتی کا دعوتی سفر کیا جائے اور اس سلسلے میں ممبئی ٹیم سے رابطہ قائم کر کے پروگرام طے کیا جائے –۔
مدعو انتظار میں 8: نومبر 2016 کو سی پی ایس کے ممبران نے ودیا جیوتی کالج آف تھیولوجی، دہلی کے طلباء کو خطاب کیا۔ انھوں نے قرآن کی تعلیمات، اور پیغمبر اسلام صلى اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور اسلام کے ساتھ دوسرے عالمی مذاہب پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ پروگرام کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوا۔ آخر میں تمام لوگوں کے درمیان قرآن اور دعوہ لٹریچر تقسیم کیے گیے۔سی پی ایس دہلی کے جن ممبران نے اس پروگرام میں بطور اسپیکر شرکت کی وہ یہ ہیں: مسٹر رجت ملہوترا، مس ماریہ خان، مس نغمہ صدیقی، مس صوفیہ خان اور مولانا فرہاد احمد ۔
جدید کتاب: صدر اسلامی مرکز نے 8 نومبر 2016 کو اپنی نئی کتاب ’لیڈنگ اے اسپریچول لائف‘ (انگلش) کا اجراء کیا۔ یہ کتاب صدر اسلامی مرکز کےان مضامین کا مجموعہ ہے جو انگریزی اخبارٹائمس آف انڈیا میں شائع ہوئے ہیں۔یہ کتاب گڈورڈ بکس سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
17نومبر 2016 کو صدر اسلامی مرکز نے اپنی انگریزی کتاب ’واٹ از اسلام‘ کے مراٹھی ایڈیشن کا اجراء کیا۔ اس کامراٹھی ایڈیشن سی پی ایس کی پونے (مہاراشٹرا) ٹیم نے تیار کیا ہے۔ اس کا ترجمہ عبد الحمید صاحب نے کیا ہے۔ اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے الرسالہ کسٹمر سروس سے رابطہ قائم کریں۔
خدائی پیغام گھر گھر: جزیرہ فجی سے موصول اطلاع کے مطابق فجی کےایک علاقہ میں صدر اسلامی مرکز کا انگریزی ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر تقسیم کیا گیا۔ لوگوں نے بڑے شوق سے اس کو حاصل کیا۔ بلکہ مزید ترجمہ قرآن اور دعوتی لٹریچر کا کا مطالبہ کیا۔ اس سلسلے میں وہاں سے ایک میسیج موصول ہوا ہے جو نیچے دیا جارہا ہے:
The pamphlets and the Quran copies were all finished, people want to know about Islam in Fiji. Please support us to convey the message of Islam in Fiji.
دعوہ بیداری: یروشلم میں بڑی تعداد میں سیاح آتے ہیں۔ ان کی زیارت کا ایک مقام مسجد اقصی بھی ہے۔ یہاں کچھ فلسطینی نوجوان پر امن انداز میں سیاحوں کے درمیان قرآن تقسیم کرتے ہیں۔ ان کے لیے ایک خوش آئند بات یہ ہوئی ہے کہ مسجد اقصى کی انتظامیہ نے دعوتی کام کی افادیت کو محسوس کیا، اور مسجد اقصی کےبیسمنٹ میں ایک بڑی جگہ ترجمہ قرآن کے لیے مختص کردی ہے، تا کہ قرآن کے اسٹاک میں آسانی ہو،اور دعوتی کام کرنے والےوہاں آنے والے سیاحوں کے درمیان ان کو آسانی سے تقسیم کرسکیں۔ یہاں صدر اسلامی مرکز کا ترجمہ قرآن اور دیگر دعوہ لٹریچر تقسیم کیا جاتا ہے۔ صدر اسلامی مرکز کی مشہور دعوتی کتاب واٹ از اسلام (انگریزی) بھی ہبرو زبان میں چھپ چکی ہے۔ اس کو ایک یہودی اسکالر نے ترجمہ کیا اور چھپوایاہے۔
آپ کے تاثرات : مس دِوّیا ارورہ نے صدر اسلامی مرکز کے مضمون Is Trump Islamophobic : کو اسپیکنگ ٹری ویب سائٹ (www.speakingtree.in)پر پڑھا، اور بہت پسند کیا۔یہ مضمون امریکا کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ پر لکھا گیا تھا۔ اس کو سی پی ایس ویب سائٹ پر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔ مس ودیا نےاپنا تاثر جن الفاظ میں لکھا ہے ، وہ یہ ہیں:
Amazing article! I really appreciate the factual information Maulana has given besides the Quran's preaching. Unfortunately people get influenced and have such negative thoughts. Hope things settle down.
■ One of the Israili tourists, who was roaming around in Chennai unexpectedly visited our showroom today. When I offered him a copy of 'The Quran' translation, he told that he had got a copy from Haifa (Jerusalem) by one of the 'Goodword Dayees'. The tourist was surprised to know that the same kind of 'Dayee' now addressed him very far away from his native town. So 'CPS mission' is succeeding to train all of its associated dayees to become well-wishers of mankind, irrespective of their nationality, colour, creed, religion, and race. (Kollu Nadeem Ahmed, Chennai)
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment