Pages

Tuesday 16 October 2018

Al Risala | November 2018 (الرسالہ،نومبر)

4

- اسلام کا رول

5

- ایک تقابل

6

- بڑھاپے کا دور

8

- دین اور تاریخ

9

- خدا موجود ہے

10

- سائنسی تحقیقات

11

- اولاد ایک فتنہ

12

- کنڈیشننگ کا مسئلہ

14

- دورِ امن کی طرف

16

- دورِ زوال کی ایک علامت

17

- دعوت کا اصول

18

- تزکیہ اور دعوت

20

- درسِ قرآن

21

- کفالت کا انتظام

22

- دعا، شعور دعا

23

- فضیلت کا تصور

25

- حدیثِ جبریل کا پیغام

26

- دین کے تقاضے

28

- خدا کی پہچان

30

- عصری اسلوب، غیر عصری اسلوب

32

- ما کان و ما یکون

33

- مشرق سے مغرب کی طرف

34

- مذہبی انتہا پسندی

36

- ظالم اور مظلوم کا معاملہ

37

- باقی ماندہ پر پلاننگ

40

- دو قسم کے مسئلے

41

- صحیح طرزِ فکر

42

- سلیقہ ٔ حیات

43

- ہر انسان کا معاملہ

44

- منصوبہ بند کام

46

- چپ کا راز

47

- انٹلکچول پارٹنر

48

- ترقی کا سفر

49

- آزادی کا دور

50

- ایک نصیحت


اسلام کا رول

قدیم زمانے میں ہزاروں سال سے دنیا میں شرک کا غلبہ تھا۔ شرک کیا ہے۔ شرک دراصل فطرت کی پرستش (nature worship) کا دوسرا نام ہے۔ اس حقیقت کی طرف قرآن کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے: لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّہِ الَّذِی خَلَقَہُنَّ (41:37) ۔ خالق نے فطرت (nature) کے اندر عظیم ٹکنالوجی رکھی تھی۔ یہ ٹکنالوجی گویا سویلائزیشن کا انفراسٹرکچر تھا۔ مگر انسان لمبی مدت تک اس نعمت سے بے خبر رہا۔
اسلام کے ذریعے جو مبنی بر توحید انقلاب آیا۔ اس نے تاریخ میں پہلی بار یہ کیا کہ نیچر اور ورشپ دونوںکو ایک دوسرے سے الگ (delink) کردیا۔ اس کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس جاری ہوا۔ اب نیچر تحقیق کا موضوع (object of investigation) بن گئی، جو کہ اسلام سے پہلے پرستش کا موضوع (object of worship) بنی ہوئی تھی۔ اسی پراسس کے آخری مرحلے میں وہ چیز ظہور میں آئی جس کوماڈرن تہذیب کہا جاتا ہے۔ اس انقلاب سے پہلے اقتصادیات کا بنیادی ذریعہ زراعتی زمین (agricultural land) تھی۔ اسی زرعی زمین سے انسان کو سب کچھ ملتا تھا۔ قدیم زمانے میں جو لڑائیاں ہوتی رہیں، وہ اسی زرعی زمین پر قبضے کے لیے ہوا کرتی تھیں۔
جدید تہذیب کے نتیجے میں ایک نیا دور آیا۔ جس کو صنعتی دور (industrial age)کہا جاتا ہے۔ اب اقتصادیات کا سب سے بڑا ذریعہ انڈسٹری بن گئی، اور صنعت کے لیے زمین پر سیاسی قبضے کی ضرورت نہیں ۔ اس طرح جدید صنعتی دور نے عملی طور پر جنگ کو بےفائدہ بنا دیا، اور دنیا میں ایک نیا دور آیا، جس کو دورِ امن (age of peace) کہا جاتا ہے۔اس دورِ امن کو پیدا کرنے کا ذریعہ بظاہر صنعتی انقلاب تھا۔ مگر صنعتی انقلاب (industrial revolution) کو جس چیز نے پیدا کیا، وہ اسلام تھا۔ اسلام اس دورِ امن کا نظریاتی بانی ہے، اور جدید سویلائزیشن اس دور کو عملی طور پر وجود میں لانے والا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ایک تقابل

قرآن میں انسان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ غیب کی بات کو نہیں جانتا: قُلْ لَا أَمْلِکُ لِنَفْسِی نَفْعًا وَلَا ضَرًّا إِلَّا مَا شَاءَ اللَّہُ وَلَوْ کُنْتُ أَعْلَمُ الْغَیْبَ لَاسْتَکْثَرْتُ مِنَ الْخَیْرِ وَمَا مَسَّنِیَ السُّوءُ (7:188)۔ یعنی کہو، میں مالک نہیں اپنی جان کے بھلے کا اور نہ برے کا مگر جو اللہ چاہے۔ اور اگر میں غیب کو جانتا تو میں بہت سے فائدے اپنے حاصل کرلیتا اور مجھے کوئی نقصان نہ پہنچتا۔
یہ انسان کا معاملہ ہے۔ انسان خواہ وہ عام انسان ہو یا پیغمبر ،وہ غیب (unseen) کو نہیں جانتا۔ یعنی کل کیا ہوگا، اس سے انسان بے خبر ہوتا ہے۔ انسان آج کے علم کے تحت ایک کام کرتا ہے، لیکن کل کیا ہونے والا ہے، اس سے انسان مکمل طو رپر بے خبر ہوتا ہے۔ انسان کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ آئندہ آنے والے نقصان سے خود کو بچالے۔
اس کے مقابلے میں اللہ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ علام الغیوب ہے۔ انسان اور خدا کے درمیان اس فرق سے ایک تقابل کا اصول ملتا ہے۔انسان کا کوئی کام خالی از نقص (free from defect) نہیں ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، اللہ رب العالمین کی تخلیق کے جو نمونے ہمارے سامنے ہیں، وہ کامل معنوں میں نقص سے خالی ہیں۔ انسان کی کوئی بھی انڈسٹری نقص (defect) سے پاک نہیں ہوتی، لیکن اللہ رب العالمین کا بنایا ہوا، شمسی نظام (solar system) مکمل طو رپر زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ (zero defect management) کا نمونہ ہے۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
اس لیے بیسویں صدی میں ترقی یافتہ ملکوں نے بہت زیادہ کوشش کی کہ وہ اپنی انڈسٹری میں زیرو ڈیفکٹ مینجمنٹ کا نظام قائم کریں، جیسا کہ وہ فطرت (nature) کی دنیا میں عملاً قائم ہیں۔ مگر اس معاملے میں ان کو مکمل ناکامی ہوئی، اور آخر میں یہ مان لیا گیا کہ انسان کا بنایا ہوا کوئی نظام زیرو ڈیفکٹ نظام نہیں ہوسکتا۔ یہ فرق خالق کے وجود کا ایک یقینی ثبوت ہے۔
واپس اوپر جائیں

بڑھاپے کا دور

زندگی میں آدمی کے لیے بہت سے مسئلے آتے ہیں۔ مثلاً بیماری، حادثہ، نقصان، وغیرہ۔ لیکن بڑھاپا ایک بالکل مختلف قسم کا مسئلہ ہے۔ بڑھاپا گویا خاتمۂ حیات کا نام ہے۔ بڑھاپا ہمیشہ پائنٹ آف نو ریٹرن (point of no return) پر آتا ہے۔ بڑھاپا ہر اعتبار سے انسان کے لیے صرف ایک مسئلہ ہے۔
لیکن بڑھاپے کا ایک مثبت پہلو ہے، جو صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتا ہے، اور وہ عجز (helplessness)کی دریافت ہے۔ عجز کی دریافت دوسرے اسباب سے بھی جزئی طور پر ہوتی رہتی ہے، لیکن کامل معنوں میں عجز کی دریافت صرف بڑھاپے سے حاصل ہوتی ہے۔ کیوں کہ بڑھاپاکسی آدمی کو اس وقت آتا ہے، جب کہ اس کا جسم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے۔انسان کا جسم فطری طور پرایک بہترین ساخت پر قائم ہے۔ اس جسم کو تقریباً 80 آرگن (organs)نہایت اعلیٰ مینجمنٹ کے ساتھ چلارہے ہیں۔ عمر کے بڑھنے کے ساتھ یہ آرگن جزئی یا کلی طور پر اپنا فنکشن بند کردیتے ہیں۔اس فنکشن کو دوبارہ جاری نہیں کیاجا سکتا۔ کسی آرگن کے فیل ہونے کا آخری نتیجہ موت ہوتا ہے۔
عجز بلاشبہ حقیقت اعلیٰ کی دریافت ہے۔ حقیقت اعلیٰ کی دریافت کے بغیر انسان کی شخصیت ایک ناقص شخصیت ہوتی ہے۔ ناقص شخصیت کا مکمل ہونا، صرف اس وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جائے۔ بڑھاپے کا دور سب سے بڑی دریافت کا دور ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ بوڑھا انسان صرف ایک بات کو جان پاتاہے۔ وہ یہ ہے کہ اس کو نظر انداز (neglect)کیا جارہا ہے۔ بوڑھا انسان مسلسل طور پر صرف شکایت (complaint) میں جیتا ہے۔ کم از کم میں نے کسی بوڑھے انسان کو نہیں پایا، جو بڑھاپے کی عمر کو پہنچنے کے باوجود شکایت کی نفسیات سے بچا ہوا ہو۔
اگر غور سے دیکھا جائے تو اکثر حالت میں ایسا ہوتا ہے کہ مادی اعتبار سے انسان کا جسم اگرچہ بوڑھا ہوجاتا ہے، لیکن اس کا ذہن بدستور کام کرتا رہتا ہے۔ مزید یہ کہ اس کا ذہن پہلے سے بہتر ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ اس کے ذہن میں تجربات کا اضافہ ہوجا تاہے۔ انسا ن اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ گہرے انداز میں معاملات پر رائے قائم کرسکے۔ پہلے اگر وہ صرف جاننے والا تھا، اب وہ ایک دانش مند انسان بن جاتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ زیادہ بصیرت افروز انداز میں معاملات پر اپنی رائے دے سکے۔ وہ لوگوں کو زیادہ صائب (rational) انداز میں درست مشورہ دے سکے۔ بوڑھا انسان ایک پختہ (mature) انسان ہوتا ہے۔ وہ اپنے تجربات کی بنا پر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ نتیجہ خیز رہنمائی دے سکے۔
انسان کی سب سے بڑی دریافت یہ ہے کہ وہ اپنے خالق کو ڈسکور کرے۔ یہ دریافت ہر لمحے ہوسکتی ہے۔ لیکن عملاً یہ ہوتا ہے کہ آدمی بڑھاپے سے پہلے بُھلاوَہ کلچر میں جیتا ہے۔ وہ بھلاوہ کلچر سے صرف اُس وقت باہر نکلتا ہے، جب کہ وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے۔ جب اس کے آرگن کام کرنا بند کرنے لگیں۔ یہی اصلی عجز کی دریافت کا وقت ہوتا ہے، اور یہی وہ وقت ہوتا ہے، جب کہ انسان شعوری طور پر قادرِ مطلق خدا کو دریافت کرے، لیکن انسان اپنی بے خبری کی بنا پر یہ کرتاہے کہ اپنی زندگی کے پہلے دور میں وہ بے خبری (unawareness) میں جیتا ہے، اور دوسرے دور میں شکایت کی نفسیات میں۔ اس طرح انسان اپنی طاقت کے دور کو بھی کھودیتا ہے، اور اپنے ضعف کے دور کو بھی۔
بڑھاپے کی عمر پختگی (maturity) کی عمر ہوتی ہے۔ اس زمانے میں انسان کا تجربہ (experience) بڑھ جاتاہے۔ انسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ معلومات کی روشنی میں غور وفکر کرے۔ یہ چیزیں انسان کی عقل میں اضافہ کرتی ہیں۔ انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ لوگوں کو زیادہ دانش مندانہ رائے دے سکے۔ عمر رسیدہ آدمی سماج میں اس قابل ہوتا ہے کہ وہ زیادہ دینے والا (giver) بن کر رہ سکے۔ بوڑھا آدمی اگر صرف ایک کام کرے کہ وہ ایک ایسی کتاب لکھے، جس میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات بیان کیے ہوں، تو ہر آدمی اپنی سوسائٹی کا ایک عظیم دینے والا (great giver) بن کر دنیا سے رخصت ہوگا۔
واپس اوپر جائیں

دین اور تاریخ

قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے ایک بات آئی ہے۔ اس آیت کا ترجمہ یہ ہے: لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے (22:27)۔ قرآن کی اس آیت میں حج کے لیے پیدل یااونٹ یا اونٹنی کی سواری کا ذکر زمانی سبب سے ہے، یعنی یہ الفاظ قدیم زمانے کی نسبت سے ہیں، وہ علی الاطلاق طور پر حج کی عبادت کا حصہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جب ہوائی جہاز کا دور آیا، تو تمام علما نے ہوائی جہاز کے ذریعے حج کا سفر شروع کردیا، اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوا۔
قرآن میں اس طرح کے اور بھی احکام ہیں، جو زمانی سبب سے ہیں، نہ کہ نماز اور روزہ کی طرح عبادت کے طور پر۔ اسی فہرست میں جہاد بمعنی قتال بھی شامل ہے۔ پیغمبر اسلام کی آمد جس زمانے میں ہوئی، اس زمانے میں کسی بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مسلح جدو جہد کا عام رواج تھا۔ اس بنا پر صحابہ کو قتال کے عمل میں شریک ہونا پڑا۔ اس کے بعد دنیا میں بہت بڑے بڑے انقلابات ہوئے، یہاں تک کہ اب ساری دنیا میں امن کا دور آگیا۔ اب کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پرامن جدو جہد کی ضرورت ہوتی ہے، اب قتال اس معاملے میں غیرمتعلق لفظ بن چکا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ، دورِ جنگ کا خاتمہ تھا۔ 1945 میں اقوام متحدہ (UNO) قائم ہوئی، جو گویا جنگ کے خاتمےکا عالمی اعلان تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں جن قوموں نے عملا ً جنگی سرگرمیوں میں حصہ لیا تھا، ان سب نے دورِ جنگ کے خاتمے کے چارٹر پر اپنا دستخط ثبت کردیا۔ مثلا ً فرانس، برطانیہ، جرمنی، جاپان، وغیرہ۔ اب اگر دنیا میں کہیں جنگ ہوتی ہے، تو وہ صرف دفاع (defence) کے لیے ہوتی ہے۔ اب اقدامی جنگ (offensive war) عملاً مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے— اب مقابلے کا میدان سائنس اور ٹکنالوجی ہے۔ اب انڈسٹری، اور اقتصادیات جیسے میدانوں میں قوموں کے فیصلے ہوتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

خدا موجود ہے

نظام الدین ویسٹ میں ہمارے آفس کے قریب ایک پارک ہے۔ ایک عورت وہاں اپنے بچوں کے ساتھ آئی۔ کچھ دیر وہ پارک میں ٹھہری، پھر بچوں کو چھوڑ کر کسی کام سے باہر جانے لگی۔ اس وقت چھوٹی لڑکی اماں اماں کہہ کر رونے لگی۔ لڑکے نے کہا کہ کیوں روتی ہو۔ لڑکی نے جواب دیا کہ میری ماں چلی گئی۔ اس کے جواب میں لڑکے نے کہا : ماں کے جانے پر روتی کیوں ہو، میں جو ہوں۔
تمثیل کی زبان میں یہ واقعہ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو بتاتا ہے۔ مسلمان ساری دنیا میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر شکایت کی بولی بول رہے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو مظلوم بتاکر احتجاج کررہے ہیں۔ یہ حال دنیا کے تمام مسلمانوں کا ہے۔ مسلمان اس وقت ساری دنیا میں تقریباً ایک سو بیس کروڑ ہیں۔ مگر اس معاملے میں شاید کسی مسلمان کا کوئی استثناء نہیں۔
قرآن میں آیا ہے کہ اللہ تمھارے قریب ہے۔ تم اللہ کو پکارو وہ تمھاری پکار کا جواب دے گا (غافر ، 40:60)۔ قرآن کی یہ آیت گویا خاموش زبان میں کہہ رہی ہے کہ تم مظلومیت کی فریاد کیوں کر رہے ہو۔ اللہ موجود ہے، تم اللہ رب العالمین کو پکارو، وہ تمھاری پکار کا جواب دے گا۔قرآن کی اس طرح کی آیات کی موجودگی کے باوجود جو لوگ احساسِ مظلومیت یا احساس محرومی میں جی رہے ہوں، وہ بلاشبہ قرآن کی اس آیت کے مصداق ہیں: وَمَنْ کَانَ فِی ہَذِہِ أَعْمَى فَہُوَ فِی الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِیلًا (17:72)۔ یعنی جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا، وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا اور وہ بہت دور پڑا ہوگا راستے سے۔
مسلمانوں کا اس طرح اپنی مظلومیت کی داستان بیان کرنا، کوئی سادہ بات نہیں۔ وہ اللہ پر بے اعتمادی کا اظہار ہے۔ وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں نے اللہ کی معرفت حاصل نہیں کی، وہ اللہ کے بارے میں یقین سے محروم ہیں۔ ایسے لوگوں کو خود اپنی اصلاح کرنی چاہیے ، نہ کہ دوسروں کے خلاف احتجاج۔
واپس اوپر جائیں

سائنسی تحقیقات

الرسالہ کے ایک قاری لکھتے ہیں: قرآن کی ایک آیت ہے، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ ابتدائے تخلیق کیسے ہوئی، اس پر غور و فکر کریں: قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْق (29:20) ۔ یعنی کہو کہ زمین میں چلو پھرو، پھر دیکھو کہ اللہ نے کس طرح خلق کو شروع کیا۔اس پر علمی ڈیٹا تو دورِ جدید میں میسر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کے خطاب کو سمجھنے کے لیے سائنسی تحقیقات کی بھی اہمیت ہے۔ ایسا سمجھنا کہاں تک درست ہے۔ (حافظ سید اقبال احمد عمری، چنئی، تامل ناڈو)
اس معاملے میں آپ نے لفظ’’بھی‘‘ استعمال کیا ہے۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس معاملے میں سائنس پر مبنی جو تحقیقات ہوئی ہیں، وہ سب بلاشبہ اسلام کا حصہ ہیں۔ یہ تحقیقات جو تمام ترمیتھمیٹکس پر مبنی ہوتی ہیں، وہ بلاشبہ قرآن کے اس حکم کی تعمیل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں یہ روایت آئی ہےکہ غیر اہلِ ایمان دین کی تائید کریں گے (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر 14640)۔ مبنی بر میتھمیٹکس اہل سائنس کی تحقیقات اسی تائیدِ دین کا حصہ ہیں۔ سائنس کی ایک تحقیقات وہ ہیں، جوریاضیات (mathematics) پر مبنی ہیں، ان کو ایکزیکٹ سائنسز (exact sciences) کہا جاتا ہے۔ اس نوعیت کی تحقیقات بلاشبہ اسلامی تحقیقات کا حصہ ہیں۔ ان تحقیقات کو قرآن فہمی کا ذریعہ بنانا، اسی طرح درست ہے، جس طرح دوسرے فنون کو قرآن فہمی کے لیے بجا طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
میرے نزدیک ان سائنسی تحقیقات میں نظریۂ ارتقا شامل نہیں ۔ نظریۂ ارتقا ایکزیکٹ سائنسز کا حصہ نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ میتھ میٹکس پر مبنی کوئی علم نہیں۔ اس کی بنیاد کچھ ایسی چیزوں پر مبنی ہے، جو اپنی حقیقت کے اعتبار سے قیاس کا درجہ رکھتی ہیں۔ محققین نظریۂ ارتقا کو میتھمیٹیکل سائنس کا درجہ نہیں دیتے، بلکہ اس کو قیاسی علم کا درجہ دیتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

اولاد ایک فتنہ

قرآن کے مطابق مومن وہ ہے جس کے لیے اللہ رب العالمین اس کا واحد کنسرن بن جائے۔ کوئی بھی دوسری چیز جو انسان کو حبِّ شدید میں مبتلا کردے، وہ اس کے لیے فتنہ ہے، اور قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ انسان اس فتنہ کا شکار ہونے سے بچے۔ اس سلسلہ کی ایک متعلق آیت یہ ہے:یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ أَزْوَاجِکُمْ وَأَوْلَادِکُمْ عَدُوًّا لَکُمْ فَاحْذَرُوہُمْ (64:14)۔ یعنی اے ایمان والو، تمہاری بعض بیویاں اور بعض اولاد تمہارے دشمن ہیں، پس تم ان سے ہوشیار رہو۔
اولاد کیوں ایسی چیز ہے جس سے آدمی کو پر حذر (beware) رہنےکا حکم دیا گیا ہے۔ ایسا کیوں ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انسان سے سب سے زیادہ جو چیز مطلوب ہے۔ وہ یہ ہے کہ انسان اللہ رب العالمین کو اپنا سول کنسرن (sole concern) بنائے۔ اس کو حب شدید کا تعلق صرف اللہ رب العالمین سے ہو۔ کسی اور سے حب شدید کا تعلق ہونا، بلاشبہ شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔
کسی عورت یا مرد کے پاس دوسرے کو دینے کے لیے جو سب سے بڑی چیز ہے، وہ حب شدید (البقرۃ، 2:165) ہے۔ کسی انسان کے پاس اس کا سب سے بڑا تحفہ محبت ہے۔ اگر وہ اپنے دوست کو سب کچھ دے، لیکن قلبی محبت نہ دے تو اس نے اپنے دوست کو وہی چیز نہ دی، جو سب سے زیادہ دینے کے قابل چیز تھی۔
اس لیے کسی شخص کا اصل معبود وہی ہے جس کو اس نے اپنے حب شدید کا مرکز بنایا۔ جس نے کسی کو اپنے قلبی تعلق کا تحفہ دیا، وہی اس کا معبود ہے۔ ایسا آدمی اگر زبان سے اللہ کو اپنا معبود بتاتا ہے، لیکن اس کا قلبی تعلق کسی اور سے ہے تو وہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف، 61:2)کا مصداق ہے۔ قلبی تعلق کسی اور کو دینا، اور زبان سے اللہ کو اپنا معبود بتانا ایک ایسی چیز ہے ،جو اللہ کے یہاں قبولیت کا درجہ پانے والی نہیں۔ محبت کا معیار قلبی تعلق ہے، نہ کہ زبانی الفاظ ۔
واپس اوپر جائیں

کنڈیشننگ کا مسئلہ

ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے: کُلُّ مَوْلُودٍ یُولَدُ عَلَى الفِطْرَةِ، فَأَبَوَاہُ یُہَوِّدَانِہِ، أَوْ یُنَصِّرَانِہِ، أَوْ یُمَجِّسَانِہِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1385)۔ یعنی ہر پیدا ہونے والا، فطرت پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ اس حدیث رسول میں زندگی کی ایک حقیقت کو تمثیل کی زبان میں بتایا گیا ہے۔ اس اعتبار سے یہ حدیث ہر انسان کے لیے ہے، وہ صرف یہودی یا نصرانی یا مجوسی کے لیے نہیں ہے۔
علم نفسیات کے مطابق، ہرانسان کنڈیشننگ کا کیس ہوتا ہے۔ پیدا ہونے کے اعتبار سے وہ فطرت صحیح پر پیدا ہوتا ہے، لیکن پیدا ہوتے ہی وہ اپنے ماحول سے متاثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس اثرپذیری (conditioning) کا نتیجہ آخر کار یہ ہوتا ہے کہ ابتدا میں اگر وہ مسٹر نیچر (Mr. Nature) تھا تو جلد ہی بعد وہ مسٹر کنڈیشنڈ (Mr. Conditioned) کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ دھیرے دھیرے وہ ماحول سے متاثر ہو کر ماحول کا پروڈکٹ بن جاتا ہے۔
اس نفسیاتی حقیقت کا تقاضا ہے کہ ہر آدمی سب سے پہلے اپنے تاثر پذیری کو ختم کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کی حالت سے نکال کر مسٹر ڈی کنڈیشنڈ (Mr. Deconditioned) بنائے ۔ یہ عمل پہلے اس کے ماں باپ کو کرنا ہے، اور اس کے بعد خود ہر آدمی کا یہ کام ہے کہ وہ اس عمل کو اس کے تکمیلی مرحلے تک پہنچائے۔
کوئی انسان جب اپنی ماںکے پیٹ سے نکل کر باہر کی دنیا میں آتا ہے، تو وہ اپنی فطری حالت پر ہوتا ہے۔ پورے معنوں میں اس وقت وہ نیچر کا پروڈکٹ ہوتا ہے۔ لیکن پیدائش کے بعد اس کو جو دنیا ملتی ہے، وہ ایک بالکل مختلف دنیا ہوتی ہے۔ دنیا میں اس کوایک انسانی کلچر کے درمیان رہنا پڑتا ہے۔ وہ ہر لمحہ اس خارجی دنیا سے متاثر ہوتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ جسمانی اعتبار سے اگرچہ بظاہر فطری انسان ہوتا ہے، لیکن عادات اور اپنی سوچ کے اعتبار سے وہ ایک ایسا انسان بن جاتا ہے، جو پورے معنوں میں ماحول کی پیداوار (product) ہوتا ہے۔
انسان کا پہلا دور حیات وہ ہے، جب کہ وہ ماں کے پیٹ میں بن کر تیار ہوتا ہے۔ اس کا دوسرا دورِ حیات وہ ہے، جو ماں کے پیٹ کے باہر انسانوں کی تیار کی ہوئی دنیا میں بنتا ہے۔ اس دوسرے دورحیات میں ہر انسان کی پہلی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ اس حقیقت کو شعوری طور پر دریافت کرے۔ اس دریافت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ آدمی اپنے اندر مطلوب شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے آپ کو مسٹر کنڈیشنڈ کی حالت سے نکال کر مسٹر ڈی کنڈیشنڈ کی حالت میں پہنچائے۔
مسٹر ڈی کنڈیشنڈ بننا ایک سخت قسم کا تربیتی عمل ہے۔ اس تربیتی عمل کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے آدمی کو اپنا محاسب آپ بننا پڑتا ہے۔ اس عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ آدمی اپنے اندر اینٹی سیلف تھنکنگ (anti-self thinking) کی صلاحیت پیدا کرے، وہ اپنی ہیمرنگ (hammering)آپ کرنے کا فن جانے۔ وہ اپنا آئینہ خود اپنے آپ کو بنائے۔
اپنا محاسبہ آپ کے معاملے میں تربیت کا طریقہ یہ ہے کہ آدمی اپنے آپ کا بے رحم محاسب بن جائے۔ اپنی تربیت کا آغاز خودی اور اسرار خودی کا فلسفہ جاننے سے نہیں ہوتا ، بلکہ اپنی کمیوں کو جاننے سے ہوتا ہے۔ اپنی تعریف سننے سے نہیں ہوتا، بلکہ اپنے خلاف شدید تنقید سننے سے ہوتا ہے۔ اس عمل کو میں اپنے الفاظ میں سیلف ہیمرنگ (self hammering) سے تعبیر کروں گا۔ سیلف ہیمرنگ واحد عمل ہے، جو انسان کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے باہر لائے، وہ اپنے آپ کو کنڈیشننگ سے نکال کر ایک نیا انسان بنائے۔
ایک انسان وہ ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ لیکن یہی مکمل انسان نہیں۔ اس کے بعد انسان کا خود اپنا کام ہے کہ وہ اپنے کو فطرتِ خداوندی پر قائم کرے۔ یہ کام اسی وقت ہوسکتا ہے کہ جب انسان اپنا محاسب آپ بن جائے۔ اس کام کے بغیر ہر انسان ایک نامکمل انسان ہے، وہ مکمل انسان نہیں۔ یہ گویا اپنی تعمیر آپ کرنے کا کام ہے۔
واپس اوپر جائیں

دورِ امن کی طرف

قرآن میں اصحاب رسول کو ایک حکم اِن الفاظ میں دیاگیا تھا:وَقَاتِلُوہُمْ حَتَّى لَا تَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلَّہِ (8:39)۔ یعنی ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب اللہ کا ہو جائے۔ قرآن کی اس آیت کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصہ میں کہاگیا ہے کہ’’ جنگ کرو تاکہ فتنہ نہ رہے‘‘،اور دوسرے حصہ کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ دین سب اللہ کا ہو جائے‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ پہلے مطلوب کے لیے لڑنا ہوگا اور اس کے بعد دوسرا مطلوب اپنے آپ حاصل ہوجائے گا۔
غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ ابتدائی تخلیق کے مطابق انسانی دنیا میں حالت فطری قائم تھی، اور حالتِ فطری امن کی حالت ہے۔ بعد کو دنیامیں مطلق العنان بادشاہوں (despotic kings) کا زمانہ آیا۔ انھوں نے یہ کیا کہ حالتِ فطری کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر فطری حالت قائم کردی، یعنی مذہبی جبروتشدد کی حالت۔ یہ حالت اللہ کو منظور نہ تھی۔ اللہ نےاصحابِ رسول کو حکم دیا کہ جن لوگوں نے انسانی دنیا میں خود ساختہ طورپر جبر وتشدد کی حالت قائم کررکھی ہے، اس کو بزور ختم کردو تاکہ دوبارہ انسانی دنیا میں حالتِ فطری قائم ہوجائے۔
قدیم زمانے میں مذہبی تشدد (religious persecution) اِس بنا پر قائم تھا۔ اصحابِ رسول نے اپنے زمانے کے ارباب اقتدار سے جنگ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا میں ایک نیادور آگیا۔ یعنی جنگ کے دور کے بجائے امن کا دور۔ تاریخ میں کوئی بڑا واقعہ اچانک نہیں ہوتا بلکہ وہ تاریخی عمل (historical process) کی صورت میں ابتدائی حالت سے شروع ہو کر تکمیل کی حالت تک پہنچتا ہے۔ تاریخ میں اس دور امن کا آغاز اہل اسلام نے کیا تھا۔ بعد کے زمانہ میں آزادی اور جمہوریت (freedom and democracy) کا جو دور آیا وہ اسی آغاز کا منتہا (culmination) ہے۔
اکیسویں صدی میں اب ہم اسی دور امن میں جی رہے ہیں۔ اب قرآن کے الفاظ میں ’’دین سب کا سب اللہ کے لیے‘‘ ہوچکا ہے۔ یعنی یہ ممکن ہوگیا ہے کہ یہ امن کے طریقِ کار (peaceful method) کو استعمال کرتے ہوئے ہر مقصد کو نارمل کورس (normal course) میں حاصل کرلیا جائے۔اسلام ایک مشن ہے، توحید کا مشن ۔قدیم زمانہ میں اس مشن کو جاری کرنے کے لیے سخت رکاوٹیں پیش آتی تھیں۔ اب یہ ممکن ہوگیا ہے کہ رکاوٹوں کے بغیر اسلام کے مشن کو جاری کیا جائے۔ موجودہ زمانہ میں جو لوگ اسلام کا نام لیتے ہیں اور اسی کے ساتھ جنگ اور تشدد کا طریقہ اختیار کرتےہیں وہ اپنے اس عمل سے یہ ثبوت دے رہے ہیں کہ وہ دورِ جدید سے پوری طرح بے خبر (unaware) ہیں۔ ان کا کیس جہاد کا کیس نہیں ہے ،بلکہ بے خبری(unawareness)کا کیس ہے۔
قرآن کی مذکورہ آیت میں قتال کا لفظ مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے گھر سے تلوار لے کر نکلو اور سب کو مارنا شروع کردو۔ جنگ در اصل آخری چارۂ کار کانام ہے۔ چنانچہ عرب میں ایسا نہیں ہوا کہ قرآن اترتے ہی رسول اللہ نے فوراً تلوار سنبھالی اور جنگ شروع کردی۔بلکہ جو واقعہ پیش آیا، وہ یہ ہے کہ نبوت ملنے کے بعد آپ نے اس مشن کو ممکن دائرے میں شروع کیا، مثلاً پہلے خاموشی کے ساتھ ممکن دائرے میں لوگوں کو سمجھانا بجھانا۔ اس کے بعد ٹکراؤ سے اعراض (avoid) کرتے ہوئے لمبی مدت تک پرامن انداز میں تبلیغ و دعوت کا کام کرنا۔ اگر فریقِ ثانی جنگ چھیڑنا چاہتا ہے توخاموش منصوبہ بندی کے ذریعے ایسا طریقہ اختیار کرنا کہ جھڑپ (skirmishes) پر معاملہ ختم ہوجائے۔ خون بہانا، اور متشددانہ کارروائی کرنے سے آپ نے آخری حد تک پرہیز کیا۔ گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو آپ کی قربانی سب سے زیادہ صبر کرنے کی قربانی تھی، نہ کہ جنگ و قتال کرنا۔ آپ کے مشن میں قتال بطور اقدام نہیں تھا، بلکہ بطور دفاع تھا۔
* *** * *****
ایک مستشرق نے پیغمبر اسلام کے بارے میں کہا ہے کہ پیغمبر اسلام نے دشواریوں کا مقابلہ اِس عزم کے ساتھ کیا کہ آپ نے ناکامی سے کامیابی کو نچوڑلیا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے پرابلم کے درمیان موجود مواقع کو تلاش کیا، پھر مواقع کو استعمال کرکے پرابلم کو اپنے ترقیاتی سفر کا زینہ بنالیا۔
واپس اوپر جائیں

دورِ زوال کی ایک علامت

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث ان الفاظ میں آئی ہے:یَخْرُجُ فِیکُمْ قَوْمٌ تَحْقِرُونَ صَلاَتَکُمْ مَعَ صَلاَتِہِمْ، وَصِیَامَکُمْ مَعَ صِیَامِہِمْ، وَعَمَلَکُمْ مَعَ عَمَلِہِمْ، وَیَقْرَءُونَ القُرْآنَ لاَ یُجَاوِزُ حَنَاجِرَہُمْ، یَمْرُقُونَ مِنَ الدِّینِ کَمَا یَمْرُقُ السَّہْمُ مِنَ الرَّمِیَّةِ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 5058)۔ یعنی ابو سعید الخدری سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے کہا تمھارے درمیان ایسے لوگ ظاہر ہوںگے، جن کی نمازوں کے آگے تم اپنی نمازوں کو،اور اپنے روزوں کو ان کے روزوں کے آگے، اور اپنے اعمال کو ان کے اعمال کےآگے کمتر سمجھوگے۔ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ لوگ دین سے نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکلتا ہے۔
یہ حدیث رسول ایک قسم کی پیشین گوئی ہے۔ یہ ظاہرہ ہے، جو اس وقت پیدا ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد میں اسپرٹ کا خاتمہ ہوجائے، اور فارم کی دھوم دھام اپنی آخری حد تک بڑھ جائے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب کہ امت کے افراد داخلی اسپرٹ کی کمی کی تلافی خارجی ظواہر کے اضافے سے کرنے لگیں۔جب معانی کی کمی الفاظ میں اضافہ کی صورت اختیار کرلے، جب لوگ خاموشی کی اہمیت سے بے خبر ہوجائیں، اور کلام کی اہمیتِ کثرت کو اس کا بدل سمجھ لیں۔ جب لوگوں کے اندر داخلی محاسبہ (internal introspection) کا شعور باقی نہ رہے، البتہ خارجی اظہار کی نمائش میں خوب اضافہ ہوجائے، جب انسان چپ رہنے کو کم سمجھے، اور بولنے کو بڑی چیز سمجھنے لگے۔
حدیث میں آیا ہے کہ تم (اصحاب رسول)اپنے اعمال کو ان کے اعمال کے سامنے کمتر سمجھوگے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صاحب ِمعرفت ایسا سمجھنے لگیں گے۔ بلکہ یہ بات در اصل ان لوگوں کی نسبت سے کہی گئی ہے، جو اپنے شعور کی کمی کی بنا پر ظاہر اور باطن میں فرق نہ کر سکیں گے۔ وہ ظواہر کی کثرت کو دیکھ کر یہ گمان کرلیں گے کہ ان کے اندر داخلی حقیقت بھی موجود ہے۔
واپس اوپر جائیں

دعوت کا اصول

دعوت کے ابتدائی دور میں سورہ المدثر نازل ہوئی۔ اس میں رسول اللہ کو حکم دیتے ہوئے یہ الفاظ آئے ہیں:وَالرُّجْزَ فَاہْجُر(74:5)۔ یعنی اور گندگی کو چھوڑ دو۔رُجز کا لفظی مطلب گندگی ہے۔ یہاں رجز اپنے لفظی معنی میں نہیں ہے۔ بلکہ اس معنی میں ہے کہ ایسے فعل سے اعراض کرو، جو باعتبارِ نتیجہ رجز تک پہنچنے والا ہو۔ امام رازی نے اس آیت کی تفسیران الفاظ میںکی ہے:کُلَّ مَا یُؤَدِّی إِلَى الرُّجْزِ فَاہْجُرْہُ (تفسیر الرازی، 30/699)۔ یعنی ہر وہ چیز جو رجز تک پہنچانے والی ہو، اس کو چھوڑ دو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں رجز کا لفظ باعتبار نتیجہ ( in terms of result) ہے۔ یعنی جو چیز بظاہر غلط نہ ہو، لیکن نتیجہ کے اعتبار سے وہ غلط انجام تک پہنچانے والی ہو، ا س کو چھوڑ دو۔
مثلاً جب پیغمبر اسلام نے توحید کا مشن مکہ میں شروع کیا۔ اس وقت کعبہ میں تقریباً تین سو ساٹھ بت رکھے ہوئے تھے۔ یہ پیغمبرِ توحید کے لیے بظاہر ایک ناقابل قبول بات تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام اگر ان بتوں کے خلاف کوئی سخت طریقہ اختیار کرتے تو یقیناً اس سے لوگوں کے جذبات بھڑک اٹھتے۔ وہ اس کے ری ایکشن میں تشدد کا طریقہ اختیار کرتے۔ اس طرح مکہ میں امن کا ماحول ختم ہوجاتا، اور دعوت کے بجائے ٹکراؤ کا ماحول شروع ہوجاتا۔ اس کے نتیجے میں ایک رجز وجود میں آتا، یعنی مکہ میں ٹکراؤ کا ماحول قائم ہوجانا ۔ اس کے بعد یہ ہوتا کہ بتوں کی زیارت کے نام سے جو مکہ میں پورے عرب سے آمدو رفت ہوا کرتی تھی، بند ہوجاتی۔ اس طرح پیغمبر اسلام کو سارے عرب کے آڈینس (audience)مکہ میں نہیں مل پاتے، اور عملاً پرامن دعوت کا خاتمہ ہوجاتا۔
کسی عمل کی صحت کا معیار یہ ہے کہ وہ الٹا نتیجہ والا (counter-productive) ثابت نہ ہو۔ وہ مطلوب نتیجہ تک پہنچے، نہ کہ غیر مطلوب نتیجہ تک۔ وہ پرابلم کو ختم کرے، نہ کہ پرابلم میںاور اضافہ کرے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر اقدام سے پہلے، اس کی بہت سوچی سمجھی منصوبہ بندی کی جائے۔ بغیر سوچے سمجھے اقدام کرنا، اسلام میں جائز نہیں ۔
واپس اوپر جائیں

تزکیہ اور دعوت

مولانا محمود حسن دیوبندی کا واقعہ ہے۔ وہ 1920 ءمیں مالٹا کی جلاوطنی سے واپس آئے۔ اس کے بعد دیوبند میں ان کی ایک مجلس ہوئی۔ اس مجلس میں انھوں نے درسِ قرآن کی بات کہی ۔ان کے شاگرد رشید مفتی محمد شفیع صاحب اُس مجلس کی روداد اِن الفاظ میںبیان کرتے ہیں:
مالٹا کی قید سے واپس آنے کے بعدایک رات بعدِ عشاء (حضرت) دارالعلوم (دیوبند) میں تشریف فرما تھے۔ علما کا بڑا مجمع سامنے تھا، اس وقت فرمایا کہ’’ہم نے مالٹا کی زندگی میں دو سبق سیکھے ہیں ...میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے۔ ایک، ان کا قرآن کو چھوڑدینا، اوردوسرا، آپس کے اختلاف اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کروں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیا جائے، بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب ہر بستی میں قائم کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معنی سے روشناس کرایا جائے، اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے ۔ٗٗ(جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی، ڈاکٹر اسرار احمد، صفحہ 346)۔
شیخ الہند کے ان الفاظ پر اب تقریباً سو سال گزر چکے ہیں۔ اس مدت میں شیخ الہند کی مذکورہ رہنمائی کو بے شمار لوگوں نے اختیار کیا، اور سارے ملک میں قرآن پر مبنی تحریکیں چلائی گئیں۔ لیکن اگر بے لاگ انداز میں نتیجے کا جائزہ لیا جائے تو نتیجے کے اعتبار سے یہ تحریکیں صفر (zero) ثابت ہوئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ نظریے کے اعتبار سے غالباً کسی بھی قابلِ ذکر واقعے کی نشاندہی نہیںکی جاسکتی۔
اس کا سبب کیا ہے۔ اس کا سبب خود تشخیص کی غلطی ہے۔ یعنی قرآن کی اشاعت کے جس پیٹرن کو اختیار کیا گیا، وہ یہ تھا کہ قدیم کتب میں تفسیرِ قرآن کے لیے جو انداز اختیار کیا گیا ہے،ا س کو ایز اٹ از (as it is) عوام میں پھیلانا۔ قدیم کتابوں میں تفسیر قرآن کا جو پیٹرن پایا جاتا ہے، وہ درس و تدریس کے لیے موزوں ہے، لیکن اصلاح و تربیت کے لیے یہ پیٹرن موزوں نہیں۔
اصلاح و تربیت کے لیے جو پیٹرن مفید ہے، وہ صرف ایک ہے، اور وہ ہے تطبیقی انداز (applied pattern)۔ اب ہم ایک نئے زمانے میں جی رہے ہیں، نئے زمانے کے لحاظ سے مفید پیٹرن صرف وہ ہے، جو نئے حالات میں پیدا ہونے والے اذہان کو ایڈریس کرنے والا ہو۔ بعض حضرات، جنہوں نے قدیم پیٹرن کو بدلا، وہ صرف یہ تھا کہ انھوں نے فنی انداز کے بجائے سیاسی انداز (political pattern) اختیار کرلیا۔ اس قسم کی تبدیلی منفی نتائج تو پیدا کرسکتی تھی، لیکن مثبت نتائج کبھی بھی سیاسی پیٹرن سے حاصل نہیں کئے جاسکتے۔
مثلاً جن لوگوں نے تفسیرِ قرآن کا سیاسی پیٹرن اختیار کیا، انھوں نے یہ کیا کہ جہاد و قتال سے متعلق قرآن کی آیتوں کو برٹش ایمپائر اور مغربی تہذیب پر منطبق کرکے پر زور تحریکیں چلائیں، اور سیاسی جدو جہد کو قرآ ن کا مطلوب کام قرار دیا۔ یہ اسلوب بلاشبہ آخری حد تک غیر متعلق (irrelevant) تھا۔ اس لیے اس کا مثبت نتیجہ نہ نکلنے والا تھا، اور نہ نکلا۔اس کے برعکس، اگر یہ حضرات دعوت کا اسلوب اختیار کرتے تو یقیناً ان کی کوششوں کے مثبت نتائج بر آمد ہوتے۔
مسلم رہنماؤ ں نے قرآن کے درس کا دعوتی انداز اختیار نہیں کیا۔ البتہ میرے علم کے مطابق ایک برطانی مستشرق پروفیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ نے 388صفحات پر مشتمل ایک جامع کتاب تیار کی، جو دی پریچنگ آف اسلام (The Preaching of Islam) کے نام سے 1896 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مقصد یہ تھا کہ اس زمانے کے مسلمانوں کو راغب کیا جائے کہ وہ اسلام کی اشاعت کے لیے پرامن دعوتی اسلوب کو اختیار کریں۔مگر عجیب بات ہے کہ اس درست مشورے کو کسی قابل ذکر آدمی نے اختیار نہیں کیا، بلکہ ا س کو برطانی سازش کا حصہ سمجھ کر ردکردیا۔
قرآن کی روشنی میں اسلام کا مقصد اصلاً صرف یہ ہے— اپنے لیے تزکیہ اور دوسروں کے لیے دعوت الی اللہ۔
واپس اوپر جائیں

درسِ قرآن

قرآن میں ایک حکم ان الفاظ میں آیا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِینَ یَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّہِ فَیَسُبُّوا اللَّہَ عَدْوًا بِغَیْرِ عِلْمٍ(6:108)۔ یعنی اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، ان کو گالی نہ دو ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو گالیاں دینے لگیں گے۔
اس آیت میں سبّ نہ کرنے کا یہ حکم اصحاب رسول کو دیا گیا تھا۔ یہ بات واضح ہے کہ اصحاب رسول مشرکین کے الٰہ کے خلاف سب و شتم کی زبان استعمال نہیں کرسکتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرکین کے الٰہ کے خلاف ایسی باتیں کہنےسے بچا جائے،جو ان کے نزدیک شتم کے ہم معنی ہو، جس کو سن کر وہ اشتعال انگیزی کرنے لگیں۔ جب ایسا ہوگا تو اس کےجواب میں تم بھی کچھ کہو گے۔ اس طرح چین ری ایکشن (chain reaction) شروع ہوجائے گا۔ اور پھریہ ہوگا کہ دعوت الی اللہ کا کام ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے خلاف ضد، اور نفرت، اور تشدد شروع ہوجائے گا۔ اس طرح دعوت کا پرامن ماحول ختم ہوجائے گا۔ اس لیے اس غیر مطلوب انجام سے بچو تاکہ دعوت کا کام معتدل انداز میں جاری رہے۔
قرآن کے اس طریقۂ درس کو اپلائڈ (applied)درس قرآن کہا جاسکتا ہے۔ عام طور پر ایسا ہوتا کہ درس قرآن کےحلقوںمیں یہ انداز اختیارنہیں کیا جاتا ۔ اس لیے درس قرآن کو سن کر عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر غیر مطلوب مزاج پیدا ہوجاتا ہے،یا عدم وضوح کی بنا پر سرے سے کوئی مزاج ہی نہیں بنتا۔ درس قرآن ایک خالص مثبت کام ہے۔اس کو وضوح (clarity)کی زبان میں ہونا چاہیے۔ یہ کام موثر انداز میں صرف اس وقت ہوسکتا ہے، جب کہ لوگوں کے اندر تیار ذہن موجود ہو۔ ورنہ لوگ درس کو خود اپنے ذہن کے ساتھ سنیں گے، اور ہر درس ان کے لیے خود اپنے کنڈیشنڈ ذہن کی تقویت کا ذریعہ بن جائے گا۔درس قرآن کا مقصد برکت کا حصول نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو واضح ہدایت ملے۔ لوگ اپنے ر وزمرہ کے مسائل میں روشنی حاصل کریں۔
واپس اوپر جائیں

کفالت کا انتظام

حضرت مریم بنت عمران کا ذکر قرآن میں تفصیل سے آیا ہے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت مریم کے ساتھ خصوصی نصرت کا معاملہ کیا۔ اسی میں سے ایک نصرت وہ ہے جس کے لیے قرآن میں یہ الفاظ آئے ہیں:وَکَفَّلَہَا زَکَرِیَّا (3:37)۔ یعنی زکریا پیغمبر نے حضرت مریم کی کفالت (معاشی ضروریات کا انتظام)کیا۔ قدیم زمانہ زراعت کا زمانہ تھا۔ قدیم زمانے میں وسائل اس کے پاس ہوتے تھے، جس کے پاس زراعت ہو۔ جو شخص اپنی کفالت آپ کرنا چاہتا تھا، وہ بھیڑ بکری پالنے جیسا کام کرتا تھا۔ جیسا کہ حضرت موسی کے قصے میں مدین کے شیخ کبیر (القصص،28:23)کا واقعہ بیان ہوا ہے۔
موجودہ زمانہ اس اعتبار سے ایک نیا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی انفجار (industrial explosion) کی وجہ سے ایک نیا وسیع تر معاشی نظام وجود میں آیا ہے۔ اس نئے نظام کے تحت ہر شخص کے لیے یہ موقع پیدا ہو گیا ہے کہ وہ کچھ نہ کچھ کام کرکے اپنے لیے معاشیات کا انتظام کرے۔ مثلاً بزنس ، کمپنی کی ملازمت، آفس کی ملازمت، مختلف قسم کے اداروں کی ملازمت، وغیرہ۔ اسی طرح فری لانسنگ کےذریعے کمانے کے بہت سے طریقے وجود میں آئے ہیں۔ آج کل تقریباً ہر شخص اپنے لیے کوئی نہ کوئی روزگار پارہا ہے، جس میںکام کرکے وہ اپنی ضروریات فراہم کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے اندر کسی نوعیت کی پروفیشنل صلاحیت موجود ہو۔
یہ آج کے انسان کے لیے شکر کا ایک آئٹم ہے۔ قدیم زمانے میں یہ آئٹم موجود نہ تھا، یا اگر موجود تھا تو بہت زیادہ محدود اعتبار سے۔ موجودہ زمانے میں کامل وسعت کے ساتھ یہ مواقع کھل گئے ہیں۔ اس طرح انسان کی کوششوں کے ذریعہ آج کی دنیا میں شکر خداوندی کا ایک نیا آئٹم پیدا ہوا ہے۔ یہ مختلف قسم کے تاریخی انقلابات کا نتیجہ ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ وہ اس اعتبار سے اللہ رب العالمین کا شکر کرنا سیکھیں، اور اس طرح اپنے آپ کو مثبت سوچ والا انسان بنائیں۔
واپس اوپر جائیں

دعا، شعور دعا

دعا اسلام میں ایک عظیم عمل ہے۔ دعا کے بارے میں حدیث میں مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً بے شک دعا ہی عبادت ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 3828)۔ایک روایت کا ترجمہ یہ ہے: دعا عبادت کا مغز (مُخّ)ہے(سنن الترمذی، حدیث نمبر 3371) ۔ایک روایت میں یہ ہے:لَا یَرُدُّ الْقَدَرَ إِلَّا الدُّعَاءُ (مسند احمد، حدیث نمبر 22044)۔ یعنی تقدیر کو دعا ٹال دیتی ہے۔ایک حدیث کا ترجمہ یہ ہے: دعا مومن کا ہتھیار(الدُّعَاءُ سِلَاحُ الْمُؤْمِنِ)ہے، دین کا ستون ہے، اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے (مستدرک الحاکم، حدیث نمبر1812)۔ ایک حدیث کےالفاظ یہ ہیں:الدُّعَاءَ یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ وَمِمَّا لَمْ یَنْزِلْ، فَعَلَیْکُمْ بِالدُّعَاءِ عِبَادَ اللہ (مسند احمد، حدیث نمبر 22044)۔یعنی دعا فائدہ دیتی ہے، ان چیزوں میں جو نازل ہوئی ہے، اور ان میں بھی جو نہیں ہوئی، تو اللہ کے بندو، تم ضرور دعا کرو۔
مگر دعا صرف الفاظِ دعا کی تکرار کا نام نہیں ہے۔ بلکہ دعا کے ساتھ دعا کرنے والے کے اندر ایک پراسس شروع ہوجاتا ہے۔ مثلاً بندے اور خدا کے درمیان مناجات، بندے کے اندر رب کی یاد، بندے کی روحانیت میں اضافہ، بندے کے اندر ایمانی ارتقا،اپنے رب سے قربت، وغیرہ۔ اس پورے عمل کو ایک لفظ میں حرکیات دعا (dynamics of dua) کہا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ کبھی اللہ جبریل سے کہہ دیتا ہے کہ اے جبریل میرے بندے کی دعا قبول کرنے میں جلدی نہ کر۔ کیوں کہ مجھے اس کی آواز پسند ہے۔ یعنی بندے کے اندر دعا کا عمل اضافہ پذیر حالت میں جاری ہے۔
قرآن و حدیث کے حوالے سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا صرف مانگنے اور پانے کا نام نہیں ، بلکہ دعا روحانی ارتقا کا ایک عمل ہے۔ کامیاب دعا وہ ہے، جس کے اندر دعا کا شعور شامل ہو۔ کامل دعا وہ ہے، جو اعلی ذہنی ارتقا کے نتیجہ میں ظہور میں آئے۔ کامل دعا وہ ہے، جس میں بندہ صرف اپنی حاجت کو نہ جانے، بلکہ وہ اپنے رب کی معرفت حاصل کرے۔حقیقی دعا وہی دعا ہے، جب کہ دعابندۂ عارف کے لیے ایک اعلی تجربہ کی حیثیت اختیار کرلے،جب کہ بندے کا وجود خود بھی دعا میں ڈھل گیا ہو۔
واپس اوپر جائیں

فضیلت کا تصور
کسی عمل کے افضل عمل ہونے کا تصور قرآن میں موجود نہیں ہے۔ قرآن کے مطابق، کوئی عمل اپنی داخلی اسپرٹ کے اعتبار سے بڑا عمل ہوسکتا ہے، محض فارم کے اعتبار سے کوئی عمل بڑا عمل نہیں۔ عمل پر فضیلت کا ذکر حدیث میں آیا ہے، لیکن وہ زیادہ مستند نہیں۔ خود محدثین کے اعتراف کے مطابق فضلیت کی روایتوں کو زیادہ قابل اعتماد نہیں سمجھا جاسکتا۔
جیسا کہ معلوم ہے محدثین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی روایت کو لینے کے بارے میں بہت زیادہ سخت ہیں۔ مثلاً امام بخاری نے 600,000 حدیثیں جمع کی ، لیکن اپنی مشہور کتاب صحیح البخاری میں انھوں نے ان میں سے صرف کچھ ہزار احادیث کو لیا،جن کی تعداد ابن الصلاح اور النوی کے مطابق 7275ہے۔ مگر فضیلت کی روایتوں کے بارے میں محدثین نے ایسا رویہ اختیار نہیں کیا۔
تیسری صدی ہجری کے مشہور محدث عبد الرحمن ابن مہدی (وفات 198:ھ)نے محدثین کے مسلک کو بیان کرتے ہوئے کہا:إِذَا رَوِینَا، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی الْحَلَالِ، وَالْحَرَامِ، وَالْأَحْکَامِ، شَدَّدْنَا فِی الْأَسَانِیدِ، وَانْتَقَدْنَا الرِّجَالَ، وَإِذَا رَوِینَا فِی فَضَائِلِ الْأَعْمَالِ وَالثَّوَابِ، وَالْعِقَابِ، وَالْمُبَاحَاتِ، وَالدَّعَوَاتِ تَسَاہَلْنَا فِی الْأَسَانِیدِ(مستدرک الحاکم، حدیث نمبر 1801)۔ یعنی جب ہم نے نبی صلى اللہ علیہ وسلم سے حلال و حرام اور احکام کی روایتیں لیں، تو ہم نےاسانید کے معاملے میں سختی سے کام لیا، رجال پر نقد کیا، اور جب ہم نے فضائل اعمال، ثواب و عقاب، مباحات و دعا کی روایتیں بیان کی تو اس کی اسناد میں تساہل سے کام لیا۔
دو قسم کی حدیثوں کے معاملے میں محدثین کا یہ مسلک علمی اعتبار سے ناقابل تسلیم ہے۔ اس لیے کہ جب کسی قول کو حدیث رسول بتایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ قول امت کے لیے یکساں طور پر رسول اللہ کا قول بن جاتا ہے۔ خواہ وہ ایک حکم کے بارے میں ہو یا دوسرے حکم کے بارے میں۔ ایسی حالت میں کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ حدیث کے معاملے میں اس قسم کی تفریق کو درست قرار دے۔ ایک قسم کی حدیث کے معاملے میں شدت، اور دوسری قسم کی حدیث کے معاملے میں تساہل ۔ جہاں تک میں جانتا ہوں اس تفریق کو درست قرار دینے کے لیے قرآن یا حدیث میں کوئی حوالہ موجود نہیں۔ اصولی طور پر یہ بات بلااختلاف درست ہے کہ رسول اللہ کی تمام حدیثوں کو یکساں معیار پر جانچنا چاہیے۔
حدیث کے معاملے میں اس قسم کا تساہل اختیارکیا گیا تاکہ اس سے لوگوں کو عمل کے لیے ترغیب ملےگی۔ مگر یہ قیاس درست نہیں۔ اس لیے کہ انسانی نفسیات کے اعتبار سے دیکھا جائے تو اس سے ان کے اندر الٹا مزاج پیدا ہوگیا۔ ان کے اندر سہل پسندی (easygoing attitude) کا مزاج پیدا ہوگیا۔ یعنی وہ چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے انعام کی امید قائم کرنے لگے، جس کو قرآن میں امانی کہا گیا ہے۔
مزید غور کیجیے، فضائل کی روایتوں میں تساہل کا معاملہ عملاً کس قسم کی روایتوں کے بارے میں آتا ہے۔ وہ اعمال کی داخلی روح کے بارے میں نہیں آتا، بلکہ اعمال کے ظواہر کے بارے میں آتا ہے۔ مثلاً اس طرح کی کتابوں میں جو ابواب ہوتے ہیں، وہ محبتِ خدا کی فضیلت یا رسول کی فضیلت یا دعوت کے لیے باخع (الشعراء، 26:3)بن جانے کی فضیلت کے بارے میں نہیں ہیں۔
اس کے برعکس ، فضائل اعمال کی روایتیں معمولی قسم کے اعمال کے بارے میں آتی ہیں۔ مثلاً فلاں وقت نماز پڑھنے کی فضیلت، فلاں دن روزے رکھنے کی فضلیت، فلاں کلمہ اتنی بار پڑھ لینے سے جنت مل جائے گی،وغیرہ ۔
٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭ ٭
اگر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا چبھ جائے تو اس کے بعد وہ ہر لمحہ اس کے درد کو محسوس کرتا رہے گا۔ اِسی طرح انسان کو ہر لمحہ خدا کی کسی نہ کسی رحمت کا تجربہ ہوتا ہے۔ صبح وشام کا کوئی لمحہ بھی اِن تجربوں سے خالی نہیں ہوتا۔ جس آدمی کو خدا کی شعوری معرفت حاصل ہوجائے، وہ ہر لمحہ اِن ربانی تجربات کو محسوس کرتا رہے گا۔ یہ تجربہ ہر لمحہ خدا کی یاد میں ڈھلنے لگے گا۔خدا کی اسی دوامی یاد کا نام ذکر کثیر ہے۔
واپس اوپر جائیں

حدیث ِ جبریل کا پیغام

حدیث کی کتابوں میں ایک حدیث، حدیث جبریل کے نام سے مشہور ہے۔ ،معروف سعودی عالم ابن عثیمین نے تحقیق کر کے بتایا ہے کہ حدیث جبریل کا واقعہ مدینہ میں پیش آیا تھا۔ واقعات بتاتے ہیں کہ وہ زمانہ اہل اسلام کے لیے ہر اعتبار سے مظلومیت کا زمانہ تھا۔ جن چیزوں کو آج مظلومیت کا نام دیا جاتا ہے، وہ سب وہاں پورے معنوں میں موجود تھے، مگر آپ حدیث رسول کےمطابق دیکھیے تو اس میں مظلومیت کا کوئی ادنیٰ اشارہ آپ کو نہیں ملے گا۔
اس حدیث میں اسلام، ایمان، احسان، اور علامات قیامت کا ذکر ہے، لیکن مظلومیت کا اشارے کے درجے میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ حالاں کہ حدیث میں رسول اللہ کی زبان سےیہ الفاظ ہیں : ذَاکَ جِبْرِیلُ أَتَاکُمْ یُعَلِّمُکُمْ أَمْرَ دِینِکُمْ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2610)۔ یعنی وہ جبریل تھے، جوآئےتاکہ تم کو تمھارے دین کی تعلیم دیں ۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مظلومیت کی بات امر ِدین میں سے نہیں ہے۔ اس کا تعلق قومی شکایت سے ہوسکتا ہے، لیکن خدا اور رسول کے دین سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ موجودہ زمانے میں مفروضہ مظلومیت کے حوالے سے مسلمان اپنے مفروضہ ظالموں کے خلاف جو بددعائیں کرتے ہیں، ان کا بھی دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
اسی طرح موجودہ زمانے کے مسلمانوں کا حال دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ براہ راست طور پر جبریل کی شرکت سے جو اجتماع مدینہ میں ہوا تھا، اس میں سب سے زیادہ اہمیت کے ساتھ خلافت کے موضوع پر تذکرہ ہونا چاہیے تھا۔ لیکن آپ حدیث جبریل کو بار بار پڑھیے، آپ حیرت انگیز طور پر یہ دیکھیں گے کہ اس حدیث میں اشارہ اور کنایہ کے انداز میں بھی خلافت کے مسئلے کا کوئی ذکر نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کا معاملہ مسلمانوں کی اپنی ایجاد ہے، نہ کہ دینِ اسلام کا کوئی حکم یا تقاضا۔
واپس اوپر جائیں

دین کے تقاضے

قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو ایک مسلم کے لیے متعین طور پر دین کے تین تقاضے معلوم ہوتے ہیں۔ وہ تین تقاضے یہ ہیں— (1) معرفت، (2) اقامت، (3) شہادت۔ یہ تینوں تقاضے قرآن اور حدیث میں واضح طور پر موجود ہیں۔ اس سلسلے میں یہاں قرآن کی کچھ آیتیں نقل کی جاتی ہیں۔
(1)معرفت کے سلسلے میں قرآن کی متعلق آیات یہ ہیں:وَإِذَا سَمِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَى الرَّسُولِ تَرَى أَعْیُنَہُمْ تَفِیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاہِدِینَ ۔ وَمَا لَنَا لَانُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَمَا جَاءَنَا مِنَ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ أَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ (5:83-84)۔ یعنی اور جب وہ اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول پر اتارا گیا ہے تو تم دیکھو گے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں، اس سبب سے کہ انھوں نے حق کو پہچان لیا۔ وہ پکار اٹھتے ہیں کہ اے ہمارے، رب ہم ایمان لائے۔ پس تو ہم کو گواہی دینے والوں میں لکھ لے۔ اور ہم کیوں نہ ایمان لائیں اللہ پر اور اس حق پر جو ہمیں پہنچا ہے جب کہ ہم یہ آرزو رکھتے ہیں کہ ہمارا رب ہم کو صالح لوگوں کے ساتھ شامل کرے۔
ایک شخص کے لیے ایمان کا آغاز یہ ہے کہ و ہ پوری سنجیدگی کے ساتھ قرآن کا مطالعہ کرے۔ اس مطالعے کے ذریعہ اس کو اسلام کی معرفت(دریافت) حاصل ہو۔ یہ معرفت اتنی گہری ہو کہ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑیں۔ اس کا ذہن اس طرح ایڈریس ہو کہ اس کو محسوس ہو کہ میں نے اپنی تلاش کا جواب پا لیا ہے۔ یہ دریافت اتنی گہری ہو کہ وہ اس کی سچائی کا گواہ بن جائے۔
(2) اقامت دین کےسلسلے میں قابلِ مطالعہ آیت یہ ہے: شَرَعَ لَکُمْ مِنَ الدِّینِ مَا وَصَّى بِہِ نُوحًا وَالَّذِی أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہِ إِبْرَاہِیمَ وَمُوسَى وَعِیسَى أَنْ أَقِیمُوا الدِّینَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِیہِ (42:13)۔ یعنی اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی وحی ہم نے تمہاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم کو اور موسیٰ کو اور عیسیٰ کو دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں اختلاف نہ ڈالو۔
یہاں اقامت کا مطلب پیروی ہے۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ دین جو مشترک طور پر تمام پیغمبروں کو دیا گیا، وہ ایک ہی دین ہے۔ وہ توحید پر مبنی ہے۔ ہر فرد مسلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مشترک دین کو مانے، اور بھرپور طور پر اس کی پیروی کرے۔
(3)مومن کی تیسری ذمہ داری قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتی ہے:وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُہَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَہِیدًا (2:143)۔ یعنی اور اس طرح ہم نے تم کو بیچ کی امت بنا دیا تاکہ تم ہو بتانے والے لوگوں پر، اور رسول ہو تم پر بتانے والا۔ قرآن کی اس آیت کے مطابق، امت محمدی بیچ کی امت ہے۔ یعنی امت محمدی کو یہ کرنا ہے کہ وہ خدا کی ہدایت کو پیغمبر اسلام سے لے کر تمام انسانوں تک اس کی قابلِ فہم زبان میں پہنچائے۔
ان پہلوؤں میں دعوت کا پہلو ایک ایسا پہلو ہے، جو جتنا دوسروں سے تعلق رکھتا ہے، اتنا ہی وہ اپنے آپ سے تعلق رکھتا ہے۔ دعوت کے کام میں انٹریکشن کا عمل بھی بار بار پیش آتا ہے۔ یہ انٹرایکشن آدمی کو موقع دیتا ہے کہ وہ اپنا مطالعہ کرے۔ وہ اپنی شخصیت کی تعمیر کرے۔ وہ سیکھنے اور سکھانے (mutual learning) کے عمل کو لامتناہی طور پر بڑھاتا رہے۔ دعوت کا کام صرف اناؤنسمنٹ (announcement) کا کام نہیں ہے، وہ ایک ہمہ جہتی عمل ہے۔ اس میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر زندگی کا ہر پہلو شامل ہوجاتا ہے۔ دعوت ایک ایسا کام ہے، جو آدمی کو ایک زندہ درس گاہ کا رکن بنا دیتا ہے۔
یہ تین پہلو تین نکاتی معیار ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ان تین پہلوؤں سے اپنے آپ کو جانچتا رہے۔ وہ ان تین پہلوؤں کے اعتبار سے اپنا محاسبہ (introspection)کرتا رہے۔ بلکہ زیادہ اچھا یہ ہے کہ ہر عورت اور مرد اپنے پاس ایک ڈائری رکھے۔ اس ڈائری میں وہ اپنا جائزہ لکھتا رہے۔ یہ ڈائری اس کے لیے ایک آئینہ ہوگی، جو اس کو بتائے گی کہ اس نے ہر دن کیا کھویا اور کیا پایا۔اس نے ہر دن کیا سیکھا ،اور کیا سیکھنے سے وہ محروم رہا۔
واپس اوپر جائیں

خدا کی پہچان

حضرت موسی بنی اسرائیل کے ایک پیغمبر تھے۔ ان کو طور پہاڑپر خدا سے کلام کا تجربہ ہوا۔ قرآن کے مطابق، اس وقت انھوں نے کہا : رَبِّ أَرِنِی أَنْظُرْ إِلَیْکَ(7:143)۔ یعنی اے میرے رب مجھے اپنے آپ کو دکھا کہ میں تجھ کو دیکھوں:
My Lord, show Yourself to me so that I may look at You.
تاریخ کا تجربہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والا انسان شعوری یا غیر شعوری طو رپر ایک طلب لے کر پیدا ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ انسان اپنے خالق (creator) کو دیکھے۔ حتٰی کہ پیغمبر بھی اس معاملے میں مستثنیٰ نہیں۔ مگر انسان کی آنکھ اپنے جیسی مخلوق کو دیکھ سکتی ہے، لیکن خالق کو براہ راست دیکھنا،اس کے لیے ممکن نہیں۔ خالق کو موجودہ دنیا میں براہ راست دیکھنے کے لیے انسان کو دوسرا خدا بننا پڑے گا، اور دوسرا خدا بننا کسی انسان کے لیےممکن نہیں۔ حتی کہ پیغمبر کے لیے بھی نہیں۔
اس سلسلے میں ایک روایت ان الفاظ میں آئی ہے:عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ:قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا: یَا أُمَّتَاہْ ہَلْ رَأَى مُحَمَّدٌ صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَبَّہُ؟ فَقَالَتْ:لَقَدْ قَفَّ شَعَرِی مِمَّا قُلْتَ، أَیْنَ أَنْتَ مِنْ ثَلاَثٍ، مَنْ حَدَّثَکَہُنَّ فَقَدْ کَذَبَ ، مَنْ حَدَّثَکَ أَنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَأَى رَبَّہُ فَقَدْ کَذَبَ، ثُمَّ قَرَأَتْ:لاَ تُدْرِکُہُ الأَبْصَارُ وَہُوَ یُدْرِکُ الأَبْصَارَ وَہُوَ اللَّطِیفُ الخَبِیرُ [6:103]، وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ أَنْ یُکَلِّمَہُ اللَّہُ إِلَّا وَحْیًا أَوْ مِنْ وَرَاءِ حِجَابٍ [42:51](صحیح البخاری، حدیث نمبر 4855)۔ یعنی مسروق (تابعی)کہتے ہیں کہ میں نے عائشہ سے کہا کہ اے ماں ، کیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب کو دیکھا ہے۔عائشہ نےکہا: تم نے جو کہا اس سے میرے بال کھڑے ہوگئے۔ تین باتوں کے بارے میں تم کہاں ہو، جس نے تم سے یہ تین باتیں کہیں، اس نے جھوٹ کہا۔ (ان میں سے ایک یہ کہ ) جو تم سے یہ کہے کہ رسول اللہ نے اپنے رب کو دیکھا ہے ، اس نے جھوٹ کہا۔ پھر یہ آیت پڑھی: نگاہیں اس کا ادراک نہیں کرتیں، مگر وہ نگاہوں کا ادراک کر تا ہے۔ وہ بڑا باریک بیں اور بڑا باخبر ہے۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی: اور کسی آدمی کی یہ طاقت نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے، مگر وحی کے ذریعہ سے یا پردے کے پیچھے سے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے خالق کو براہ راست طو رپر دیکھ نہیں سکتا۔ مگر انسان یقینی طور پر دیکھنے جیسے تجربہ کے ذریعہ خالق کے وجود پر تیقن حاصل کرسکتا ہے۔ اس کے لیے خالق نے ایک ماڈل پیدا کیا ہے۔ یہ ماڈل تیقن بغیر رویت (conviction without observation) کا ماڈل ہے۔ یہ ماڈل وہی ہے، جس کو ہم ماں (mother) کہتے ہیں۔ ہر انسان کامل تیقن کے ساتھ اپنی ماں کو ماں سمجھتا ہے، حالاں کہ کسی نے بھی یہ نہیں دیکھا کہ وہ اپنے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر بچہ پیدا ہونے کے وقت بظاہر آنکھ لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن پیدا ئش کے وقت وہ اپنی آنکھ سے کسی چیز کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوتا۔
ماں کا تجربہ ہر انسان کے لیے ایک معلوم ماڈل ہے۔ کوئی بھی انسان اس ماڈل سے بے خبر نہیں۔ اس ماڈل کی صورت میں ہر پیدا ہونے والاانسان، عورت ہو یا مرد، یہ جانتا ہے کہ فلاں عورت میری ماں ہے۔ یہ یقین ایک ایسے ماڈل کے ذریعہ ہوتا ہے، جو ہرمشاہدے سے بلند ہے۔ یہ ماڈل ہے یقین بغیر رویت (conviction without observation) کا ماڈل ۔ یہ ماڈل اتنا زیادہ یقینی ہے کہ کوئی شخص اپنی فطرت پر قائم رہتے ہوئے، اس سے انکار نہیں کرسکتا۔ اسی لیے حضرت عائشہ نے وہ بات کہی، جو مذکورہ روایت کی صورت میں حدیث کی کتابوں میںموجود ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ماڈل اتنا زیادہ مبنی بر حق ماڈل ہے کہ ایک سچا مومن اس کو سنے تو اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔ اس ماڈل کے باوجود جو عورت یا مرد یہ مطالبہ کرے کہ خدا اگر ہے تو اس کو مجھے براہ راست دکھاؤ۔ یہ مطالبہ اتنا زیادہ بے بنیاد اوراتنا زیادہ غیر منطقی (illogical) ہے کہ اس کو سن کر ایک سچے انسان کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں۔اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوجائے، وہ کھڑا ہے تو گر پڑے، وہ بول رہا ہے تو خاموش ہوجائے، اس کی زبان بولنے سے عاجز ہوجائے۔
واپس اوپر جائیں

عصری اسلوب، غیر عصری اسلوب

ایک صاحب نے یہ سوال کیا ہے کہ اسلام کا عصری اسلوب کیا ہے، اور غیر عصری اسلوب کیا ہے۔ اس کی وضاحت فرمائیں۔(حافظ سید اقبال احمد عمری، عمر آباد، تامل ناڈو)
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عصری اسلوب کسی نئے اسلوب کا نام نہیں ہے۔ یہ درحقیقت قدیم مسئلے کو جدید الفاظ میں بیان کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے، جس کو سابق مہتمم دار العلوم دیوبند، مولانا قاری محمد طیب صاحب (1897-1983ء) نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا: مسائل قدیم ہوں، اور دلائل جدید ہوں۔ قاری محمد طیب صاحب کا یہ جواب بالکل صحیح جواب تھا۔ کیوں کہ ہمیشہ ایسا ہوتا ہے کہ بیان کرنے کا اسلوب بدلتا ہے، جہاں تک اصل بات کا تعلق ہے، وہ بدستور اپنی اصل حالت پر باقی رہتی ہے۔
مثال کے طور پر گرہن (eclipse) کا واقعہ لیجیے۔ زمین پر سورج گرہن اس وقت لگتا ہے جب چاند دورانِ گردش زمین اور سورج کے درمیان آ جاتا ہے، جس کی وجہ سے سورج کا مکمل یا کچھ حصہ دکھائی دینا بند ہو جاتا ہے۔اسی طرح زمین کا وہ سایہ جو زمین کی گردش کے باعث کرہ زمین کے چاند اور سورج کے درمیان آ جانے سے چاند کی سطح پر پڑتا ہے اور چاند تاریک نظر آنے لگتا ہے۔ یہی چاند گرہن کہلاتا ہے۔
اصل یہ ہے کہ زمین اور چاند تاریک کرے ہیں۔ اور یہ دونوں سورج سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔ زمین سورج کے گرد اپنے مدار پر گھومتی ہے اور چاند زمین کے گرد اپنے مدار پر گھومتا ہے۔ یہ سال میں دو مرتبہ ایک دوسرے کے سامنے آ جاتے ہیں جس سے ایک کا سایہ دوسرے پر پڑتا ہے۔ چاند پر سایہ پڑتا ہے تو چاند گرہن اور سورج پر پڑتا ہے تو سورج گرہن کہلاتا ہے۔
رسول کے زمانے میں ایک بار گرہن کا واقعہ پیش آیا، اتفاق سے اسی دن رسول اللہ کے صاحبزادے ابراہیم کی وفات ہوئی تھی۔ اس وقت لوگوں نے قدیم ذہن کے تحت کہا کہ یہ گرہن پیغمبر کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے لگا ہے۔ رسول اللہ کو معلوم ہوا تو آپ نے لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کیا، اور کہا:إِنَّ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ آیَتَانِ مِنْ آیَاتِ اللَّہِ، لاَ یَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلاَ لِحَیَاتِہِ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ ذَلِکَ فَاذْکُرُوا اللَّہَ (صحیح البخاری،حدیث نمبر 5197)۔ یعنی سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، یہ دونوں گرہن زدہ نہیں ہوتے ہیں کسی کی موت یا زندگی پر۔ جب تم اس کو دیکھو تو اللہ (کی قدرت )کو یاد کرو۔
رسول اللہ نے جس بات کو آیت کی زبان میں بیان کیا تھا،اسی کو آج معنی خیز الائنمنٹ (alignment) کی زبان میں بیان کیا جائے گا۔یعنی گرہن کا واقعہ تین متحرک باڈی(سورج، زمین، چاند) کے ایک سیدھ میں آجانے کی بنا پر پیش آتا ہے۔ بیک وقت تین متحرک غیر مساوی کروں کا معنی خیز انداز میں ایک سیدھ میں آجانا، بلاشبہ خالقِ کائنات کا ایک انوکھا معجزہ ہے، اور اس اعتبار سے وہ ایک عظیم نشانی ہے۔
٭ ٭ ٭٭٭٭٭
موجودہ دنیا اِس ڈھنگ پر بنی ہے کہ یہاں ہمیشہ مسائل موجود رہتے ہیں۔ مسائل، زندگی کا ایک ایسا حصہ ہیں جن کوکسی بھی حال میں زندگی سے جُدا نہیںکیا جاسکتا۔ ایس حالت میں صحیح طریقہ یہ نہیں ہے کہ مسائل سے بے فائدہ طورپر لڑائی جاری رکھی جائے، بلکہ صحیح طریقہ یہ ہے کہ حُسنِ تدبیر سے مسائل کو مواقع میں تبدیل کردیا جائے۔ پیغمبر اسلام کی پوری زندگی حُسن تدبیر کی مثال ہے۔ اِس معاملے کی تفصیل جاننے کے لیے ملاحظہ ہو راقم الحروف کی کتاب— مطالعۂ سیرت:
The Prophet Muhammad: A Simple Guide to His Life
واپس اوپر جائیں

ما کان و ما یکون

ایک روایت الفاظ کے فرق کے ساتھ مختلف کتب حدیث میں آئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللہِ الْفَجْرَ، وَصَعِدَ الْمِنْبَرَ فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الظُّہْرُ، فَنَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى حَضَرَتِ الْعَصْرُ، ثُمَّ نَزَلَ فَصَلَّى، ثُمَّ صَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَخَطَبَنَا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَخْبَرَنَا بِمَا کَانَ وَبِمَا ہُوَ کَائِنٌ(صحیح مسلم، حدیث نمبر 2892)۔ یعنی رسول اللہ نے ہم کو فجر کی نماز پڑھائی، اور منبر پر چڑھے اور ہمیں خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ ظہر کا وقت آگیا۔ آپ اترے۔ نماز پڑھی پھر منبر پر چڑھے، پھر ہم کو خطبہ دیا، یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا۔ پھر اترے، نماز پڑھی، پھر منبر پر چڑھے، اور ہم کو خطبہ دیا۔ یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ (اس میں) آپ نے ہمیں ماکان و مایکون (جو ہو چکا ہے، اور جو کچھ ہونے والا ہے) کی خبر دی۔
یہ حدیث رسول پوری انسانی تاریخ یا کائنات کی پوری تاریخ کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ دراصل امت مسلمہ کے لیے بطورِ نصیحت ہے۔ وہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ کی وفات کے بعد امت مسلمہ میں جو حالات پیش آئیں گے، اس میں مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ مزید یہ کہ یہ حالات دوسری روایتوں میںکتب حدیث کے مختلف ابواب میںمتفرق طور پر بیان ہوچکے ہیں۔ غالباً اس روایت کے مطابق ایسا ہوا کہ آپ نے ان واقعات کو ایک دن اجمالی طور پر بیان کردیا۔
پیغمبر اسلام نے امت کے بعد کے حالات کو کیوں اتنا زیادہ بیان کیا ۔ اس کی وجہ غالباً یہ تھی کہ آپ کے بعد کوئی اورنبی آنے والا نہ تھا، جو پیغمبرانہ سطح پر حالات کے بارے میں بر وقت رہنمائی دے۔ اس لیے آپ نے ماکان و ما یکون کو اپنے اصحاب کے واسطے سے پوری امت کو پیشگی طور پر بتا دیا تاکہ امت متنبہ ہوجائے، اور ہر صورتِ حال میں غور وفکر کرکے اپنے لیے رہنمائی دریافت کرلے۔تاہم ان روایتوں میں کچھ باتیں تمثیلی اسلوب میں ہیں، اور کچھ باتیں غیر تمثیلی اسلوب میں۔ ان روایتوں کوسمجھنے کےلیے اس حقیقت کو جاننا بہت زیادہ ضروری ہے۔
واپس اوپر جائیں

مشرق سے مغرب کی طرف

آخری زمانے میں پیدا ہونے والے واقعے کا ذکر ایک حدیث آیا ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے: ایک آگ مشرق سے نکلے گی، اور لوگوں کو جمع کرکے لے جائے گی مغرب کی طرف(مسند احمد، حدیث نمبر12057)۔یہ حدیث ایک بڑے واقعے کا حصہ ہے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ شیطان کے اس چیلنج کا ایک حصہ ہے، جو اس نے آغازِ حیات میں کیا تھا۔ آیت کا ترجمہ یہ ہے: اس نے کہا، ذرا دیکھ، یہ شخص جس کو تو نے مجھ پر عزت دی ہے اگر تو مجھ کو قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں تھوڑے لوگوں کے سوا اس کی تمام اولاد کو کھا جاؤں گا (17:62)۔
قرآن کی اس آیت کی روشنی میں انسانی تاریخ پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ شیطان نے انسان کو بہکانے کے لیے تاریخ میں دو بڑے فتنے کھڑے کیے ہیں۔ ایک وہ جس کا ذکر قرآن میں میں آیا ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے: میرے رب، انھوں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے (14:36)۔ قرآن کی اس آیت میں گمراہی کے پہلے دور کا ذکر ہے، جب کہ شیطان نے لوگوں کو نیچر ورشپ (nature-worship) کے فتنے میں ڈالا، یعنی لوگوں کو یہ یقین دلایا کہ نیچر میں خدائیت (divinity) ہے۔ دورِ اول میں رسول اور اصحاب رسول نے یہ کیا کہ ایک ایسا انقلاب برپا کیا جس نے نیچر اور ڈیونیٹی (nature and divinity) کو ایک دوسرے سے ڈی لنک کردیا۔ اس طرح نیچر ورشپ کا دور نظری طور پر ہمیشہ کے لیے دنیا سے ختم ہوگیا۔
اس ضمن میں دوسرا فتنہ یہ ہے کہ اللہ نے سائنس کو پیدا کیا دین کی معرفت کے طور پر۔ لیکن ابلیس نے سائنس کے دو پہلو کردیے۔ ایک، نظری سائنس (basic science) ، جس سے خدا کی معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسراہے اپلائڈ سائنس۔ تمام مادی فائدے اپلائڈ سائنس سے حاصل ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے سارے لوگ اپلائڈ سائنس کی طرف جارہے ہیں، اب بہت کم لوگ نظری سائنس کی طرف جاتے ہیں ۔ کیوں کہ اس میں مادی فائدہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

مذہبی انتہا پسندی

مذہبی انتہاپسندی (religious extremism) کیا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی در اصل نتیجہ ہے شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis) کا ۔ مذہب کی ایک اسپرٹ ہے۔ مثلاً نماز کی اسپرٹ خشوع ہے۔ خشوع پر خواہ جتنا زیادہ زور دیا جائے، اس سے مسائل نہیں پیدا ہوں  گے۔اسی کے ساتھ مذہب کا ایک فارم ہے۔مثلاً رفع یدین اور ترک رفع یدین، یہ مسئلہ فارم کا مسئلہ ہے۔ اس پر اگر زور دیا جائے تو لوگوں میں شدید اختلاف پیدا ہوجائے گا۔یعنی مذہب کی اسپرٹ پر اگر زور دیا جائے تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ لیکن اگر مذہب کے فارم پر زور دیا جانے لگے تو اس سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوگی، جو بڑھ کر تشدد کی صورت اختیار کر لے گی۔
اسلام کی تاریخ میں اس کی مثال یہ ہے کہ فقہ میں عبادت کے فارم پر زور دیا گیا تو اس سے مختلف فقہی مسالک بن گیے۔ جو بڑھتے بڑھتے متشددانہ فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ دوسر ی مثال ، اس کے مقابلے میں یہ ہے کہ صوفیا نے عبادت کی اسپرٹ پر زور دیا ۔ مگر تصوف کے حلقوں میں انتہا پسندی نہیں آئی۔ حالاں کہ یہاں بھی تصوف کے مختلف حلقے اور گروہ موجود تھے۔
قرآن کو آپ پڑھیں تو قرآن میں سارا زور اسپرٹ پر دکھائی دے گا، فارم پر نہیں۔ بلکہ قرآن میں فارم کا ذکر اتنا کم ہے ، گویا کہ نہیں ہے۔ اس لیے قرآن کی بنیاد پر فرقے نہ بن سکے، جب کہ فقہ کی بنیاد پر کثرت سے فرقے بن گیے۔
اس مذہبی انتہاپسندی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ عقیدہ کے معاملہ میں تکفیر اور تفسیق کا طریقہ رائج ہو جائے۔ ایک عقیدہ والے کو کافر بتایا جائے، اور دوسرے عقیدہ والے کو مسلم کہا جائے۔ یہ بھی شفٹ آف ایمفیسس (shift of emphasis)کی ایک صورت ہے۔ چنانچہ جن لوگوں نے ایسا کیا، انھوں نے مسلم ملت میں کوئی تعمیری اضافہ تو نہیں کیا۔ البتہ ایک گروہ کو کافر بتانا اور دوسرے گروہ کو مشرک بتانے کے طریقہ نے ملت واحدہ کو امت متفرقہ بنا دیا۔
مذہب کے دائرہ میں اختلافات اسی طرح پیدا ہوتے ہیں، جس طرح زندگی کے دوسرے دائروں میں۔ لیکن صحیح یہ ہے کہ اختلاف کو ڈسکشن اور ڈائیلاگ کا موضوع بنایا جائے، نہ کہ ردّو قبول کا موضوع۔ اختلاف کے معاملے میں صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو آزادیٔ رائے (freedom of expression) کا ظاہرہ سمجھا جائے، نہ کہ حق و باطل کا ظاہرہ۔
حقیقت یہ ہے مذہب کا ایک فارم ہے اور ایک اس کی اسپرٹ ہے۔ جب مذہب کے فارم پر زور دیا جائے تو اس سے مذہبی انتہا پسندی(religious extremism) پیدا ہوتی ہے۔ اب کچھ لوگ ایک فارم پر زور دیتے ہیں، اور کچھ لوگ دوسرے فارم پر۔ اسی سے مذہبی انتہا پسندی پیدا ہوتی ہے، جو بڑھ کر تشدد تک پہنچ جاتی ہے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ مذہب میں سارا زور اسپرٹ پر دیا جائے۔ اسپرٹ اصل ہو، اور فارم کی حیثیت اضافی ہو۔ جب ایسا ہو تو مذہب میں رواداری (tolerance) آئے گی۔ لوگ فارم کےاختلاف کے بارے میں توسع پسند بن جائیں گے۔ ان کا ذہن یہ ہوگا کہ یہ بھی ٹھیک ہے، وہ بھی ٹھیک ہے۔ مثلاً نماز میں آمین بالسر بھی ٹھیک ہے، اور آمین بالجہر بھی ٹھیک ہے۔ اس توسع پسندی سے لوگوں میں روادار ی آئے گی، اور انتہاپسندانہ مزاج کا خاتمہ ہوگا۔
پہلے زمانے میں مذہبی انتہا پسندی کا مزاج زیادہ تر فقہی مسائل کے بارے میں ہوتا تھا۔ موجودہ زمانے میں یہ مسئلہ سیاست تک پھیل گیا ہے۔ سیاست میں اگر یہ مزاج ہو کہ ایک سیاسی ڈھانچہ بھی ٹھیک ہے، اور دوسرا سیاسی ڈھانچہ بھی ٹھیک ہے۔ مثلاًسیاسی نظام میں انتخابی ڈھانچہ بھی درست ہے، اور غیر انتخابی ڈھانچہ بھی درست۔ تو لوگوں کے اندر سیاسی رواداری پیدا ہوگی۔ اور اگر لوگوں کے اندر یہ مزاج بنادیا جائے کہ ایک سیاسی ڈھانچہ صحیح ہے، اور دوسرا سیاسی ڈھانچہ غلط ۔ اس کے نتیجے میں سیاسی عدم رواداری پیدا ہوگی، جو آخر کار تشدد تک پہنچ جائے گی۔
*************
یہ فطرت کا قانون ہے کہ منفی عمل سے کبھی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔
واپس اوپر جائیں

ظالم اور مظلوم کا معاملہ

قرآن کی ایک آیت میں مظلوم کا معاملہ بیان کیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:لَا یُحِبُّ اللَّہُ الْجَہْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَکَانَ اللَّہُ سَمِیعًا عَلِیمًا (4:148)۔ یعنی اللہ پسند نہیں کرتا ظاہر کرنا بری بات، مگر جس پر ظلم ہوا ہو ، اور اللہ سننے والا، جاننے والا ہے۔قرآن کی اس آیت کے مطابق مظلوم کے لیے جائز ہے کہ وہ ظالم کے خلاف بولے۔ مگر یہ جواز رخصت کے درجے میں ہے، عزیمت کے درجے میں نہیں۔ اگر کوئی شخص ظلم پر بدلہ لینا چاہے تو اس کے لیے لازم ہوگا کہ وہ ٹھیک اتنا ہی بدلہ لے جتنا کہ اس پر ظلم کیا گیا ہے۔اگر وہ ظلم سے زیادہ کرے گا تو خدا کی نظر میں وہ خود ظالم بن جائے گا۔
اسی لیے رسول اور اصحابِ رسول نے کبھی ظلم پر بدلہ نہیں لیا، بلکہ ان کا رویہ قرآن کے اس حکم کے تحت تھا : وَإِذَا مَا غَضِبُوا ہُمْ یَغْفِرُونَ (42:37)۔ یعنی اور جب ان کو غصہ آتا ہے تو وہ معاف کردیتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ایمان کا اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کردے۔یہی اعلیٰ اخلاق ہے۔ اعلیٰ اخلاق کا فائدہ یہ ہے کہ آدمی ظالم کو معاف کرکے اس کو اپنے لیے نیکی میں کنورٹ کردیتا ہے۔ اعلیٰ اخلاق کی نسبت سے دیکھا جائے تو مظلومیت نیکی کمانے کا ایک موقع ہے۔ ظلم کے باوجود ظالم کو معاف کردینا، بلاشبہ ایک عظیم نیکی ہے۔
دعوت اور داعی کی نسبت سے دیکھا جائے تو یہ اورزیادہ اہم بات ہے۔ داعی اگر ظالم کو معاف کردے تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم اور ظالم کے درمیان معتدل ماحول قائم ہوجاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے اگر دونوں کے درمیان ظالم اور مظلوم کا تعلق تھا، تو اب دونوں کے درمیان داعی اور مدعو کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ ظالم کو معاف کرنا، عملاً دعوت کے مواقع کھول دیتا ہے۔ظلم پر فریاد کرنا صرف ایک رخصت کا معاملہ ہے۔ جب کہ ظلم کو معاف کردینا، داعی کا اخلاق ہے، یعنی با اصول انسان کا اخلاق۔
واپس اوپر جائیں

باقی ماندہ پر پلاننگ

قرآن میں بتایا گیا ہے کہ انسان کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی نقصان (loss) پیش آتا ہے۔اسی میں سے ایک ہے مال و جائداد کا نقصان (البقرۃ ، 2:155)۔عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی صورت حال پیش آنے پر لوگ صرف ایک ہی بات جانتے ہیں، اور وہ ہے کھوئے ہوئے کو دوبارہ حاصل کرنا۔ اس طریقے کو اختیار کرنے میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی کو اپنے عمل کا آغاز ہمیشہ ٹکراؤ (confrontation) سے کرنا پڑتا ہے۔ یعنی قابض سے لڑکر کھوئے ہوئے کو دوبارہ حاصل کرنا، اور پھر اپنی تعمیر کا کام کرنا۔ اس طریقۂ کار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے وقت اور توانائی کا ایک بڑا حصہ منفی سرگرمیوں میں گزرجاتا ہے، اور مثبت تعمیر کے لیے اس کے پاس کم وقت بچتا ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ اس مسئلے کا حل اسلام میں یہ بتایا گیا ہے کہ باقی ماندہ حصہ پر پلاننگ (planning on the basis of the remaining part) کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ یہ مسئلہ اللہ کی نظر میں اتنا زیادہ اہم ہے کہ اس کو ایک ابدی اصول کی صورت میں مکہ میں کعبہ کی تاریخ کے ساتھ قائم کردیا گیا۔ قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ لوگ حج کے لیے مکہ آئیں، اور یہاں اپنے نفع کا مشاہدہ کریں۔ قرآن میں حج کا حکم دیتے ہوئے یہ بیان آیا ہے: وَأَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَأْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَى کُلِّ ضَامِرٍ یَأْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیق۔ لِیَشْہَدُوا مَنَافِعَ لَہُمْ (22:27-28)۔ یعنی اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، وہ تمہارے پاس آئیں گے۔ پیروں پر چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر جو کہ دور دراز راستوں سے آئیں گے۔ تاکہ وہ ان فوائد کو دیکھیں۔
قرآن کی اس آیت کو جب کعبہ کی تاریخ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جائے، تومعلوم ہوتا ہے کہ یہ منافع (benefits) کیا ہیں، جن کا مشاہدہ حاجی کو مکہ میں کرنا ہے۔جیسا کہ معلوم ہے کعبہ کو عالمی عبادت کے مرکز کے طور پر پیغمبر ابراہیم نے چار ہزار سال پہلے مکہ میں بنایا تھا۔ بعد کو جب رسول اللہ کی عمر 35 سال تھی، اس وقت قدرتی آفات اور حادثات کی وجہ سے کعبہ کی عمارت بہت بوسیدہ ہوچکی تھی۔ اس وقت قریشِ مکہ نے کعبہ کو دوبارہ تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا۔لیکن جب قریش نے کعبہ کی تعمیر کا کام کیا تو انھوں نے کعبہ کی ابراہیمی عمارت میں سے دو تہائی حصے پر ہی کعبہ کی عمارت بنائی، اوربقیہ ایک تہائی (1/3) حصہ خالی چھوڑ دیا ۔ اسی خالی حصے کو حطیم کہا جاتا ہے۔موجودہ کعبہ کی عمارت قریش ِمکہ کےتعمیر کے مطابق ہے۔
پیغمبر اسلام کو 8 ہجری میں مکہ پر فتح حاصل ہوئی، تو آپ نے کعبہ کی اس تعمیر کو بدستور باقی رکھا، جو قریش ِ مکہ نے کی تھی( صحیح البخاری، حدیث نمبر 1584؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 1333)۔اب ساری دنیا کے حاجی جس کعبہ کا طوا ف کرتے ہیں، وہ پیغمبر ابراہیم اور پیغمبر اسماعیل کا تعمیر کردہ ابتدائی کعبہ نہیں ہے، بلکہ اصل کعبہ کا باقی ماندہ پارٹ ہے، جس کو قریشِ مکہ نے حالتِ شرک میں تعمیر کیا تھا۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پورے مشن میں اسی اصول کی پیروی کی۔ پیغمبر اسلام کو جب مکہ سے ہجرت کرنا پڑا ، اور مدینہ کو آپ نے اپنا مرکز بنایا تو یہ گویا ارض مقدس کے باقی ماندہ حصہ (remaining part) کی بنیاد پر اپنے مشن کو جاری رکھنا تھا۔ یہ طریقہ نتیجہ کے اعتبار سے نہایت کامیاب رہا۔پیغمبر اسلام کو جب حالات کے تحت مکہ کو چھوڑ کرمدینہ جانا پڑا، اس وقت آپ نے شکایت کی کوئی بات نہیں کہی، بلکہ آپ نے برعکس طور پر یہ کہا: أُمِرْتُ بِقَرْیَةٍ تَأْکُلُ القُرَى، یَقُولُونَ یَثْرِبُ، وَہِیَ المَدِینَةُ(صحیح البخاری، حدیث نمبر 1871)۔ یعنی مجھے ایک بستی کا حکم دیا گیا، جو بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اس کو یثرب کہتے ہیں، اور وہ مدینہ ہے۔
اس حدیث میں مدینہ کا حوالہ شہرِ مدینہ کی فضیلت کے طور پر نہیں ہے، بلکہ وہ باقی ماندہ پر پلاننگ کی اہمیت کے طور پر ہے۔ یعنی مکہ سے ہجرت کے بعد جو کچھ ملے گا، وہی ساری دنیا میں خدائی مشن کے پھیلنے کا ذریعے بنے گا۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ بتاتی ہے کہ مدینہ آکر یہاں کے آزادانہ ماحول میں آپ نے اپنے مشن کی ری پلاننگ (replanning) کی۔ یعنی باقی ماندہ حصہ (remaining part) کی بنیاد پر پلاننگ ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ یہ طریقہ نہایت کامیاب رہا۔
باقی ماندہ پر پلاننگ (planning on the remaining part) کے اصول کی یہ ایک مذہبی مثال تھی۔ اگر گہرائی کے ساتھ دیکھا جائے تو سیکولر تاریخ میں فطرت کے اس اصول کی مثالیں موجود ہیں۔ حالیہ تاریخ میں اس کی ایک کامیاب مثال جرمنی کی ہے۔
جیسا کہ معلوم ہے، دوسری عالمی جنگ (1939-1945) ہوئی تو جرمنی اس جنگ کا سب سے زیادہ سرگرم ممبر تھا۔ مگر جنگ ختم ہوئی تو جرمنی ایک شکست خوردہ ملک تھا۔ حتی کے جرمنی نے اپنے ملک کا ایک تہائی حصہ کھودیا تھا، جو اب ایسٹ جرمنی کے نام پر اس کے دشمنوں کے قبضے میں جاچکا تھا۔ مگرجنگ کے بعد جرمنی نے ایسا نہیں کیا کہ جرمنی کے کھوئے ہوئے حصہ کو پانے کے لیے نفرت اور تشدد کا ایک نیا سلسلہ شروع کردے۔ اس کے برعکس، یہ ہوا کہ جرمنی نے اپنے باقی ماندہ حصہ (remaining part of Germany) کو اپنی توجہ کا مرکز بنالیا۔ اس نے پوری یکسوئی کے ساتھ ویسٹ جرمنی کی تعمیر نو شروع کردی۔ یہاں تک کہ بہت جلد یہ انقلابی واقعہ پیش آیا کہ جرمنی ایک نئی صنعتی طاقت بن کر ابھرا۔ یہاں تک کہ یوروپ کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن گیا۔
موجودہ زمانے کے مسلم رہنما تقریباً سب کے سب شکایت اور احتجاج کی بولی بولنے میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ یہ اعلان کررہے ہیں کہ وہ دوسری قوموں کے ظلم کا شکار ہیں۔ ان کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں، اور اس بنا پر وہ آج کی دنیا میں اپنا جائز مقام پانے سے محروم ہوگئے ہیں۔ مظلومیت پر فریاد کا یہ ذہن اتنا عام ہے کہ شاید پوری مسلم دنیا میں اس میں کوئی استثنا نہیں ہے۔ مگر اصل واقعہ اس کے برعکس ہے ۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے نہ کعبہ کے پیغام کو اپنایا، اور نہ قوموں کی سیکولر تاریخ سے سبق سیکھا۔
مسلمان موجودہ زمانے میں جس محرومی کی شکایت کررہے ہیں، اس کا سبب صرف ایک ہے، اور وہ ہے خود اپنی غفلت کی قیمت ادا کرنا۔ یعنی مسلمانوں نے یہ نہیں کیا کہ وہ حاصل شدہ حصہ کو لے کر اپنی قومی تعمیر کی پلاننگ کریں۔ بلکہ جو کچھ ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے، ان کو لے کر وہ پلاننگ کررہے ہیں۔موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ پیش آرہا ہے، وہ صرف اسی غلطی کا نتیجہ ہے۔ وہ ہرگز کسی کی دشمنی یا سازش کا نتیجہ نہیں۔
واپس اوپر جائیں

دو قسم کے مسئلے

اجتماعی زندگی میں جو مسئلے پیش آتے ہیں، وہ عام طور پر دو قسم کے ہوتے ہیں— مبنی بر غصہ، مبنی بر انٹرسٹ۔ ایک قسم کامسئلہ وہ ہے، جو اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ آپس کے تعلقات میں کبھی کوئی بات ایک شخص کو بری لگتی ہے، اور وہ افنڈ (offend) ہوجاتا ہے۔ ایسا غصہ ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ آپ صرف یہ کیجیے کہ اعراض (avoidance)کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے وقت گزرنے دیجیے۔ وقت کے گزرنے پر وہ اپنے آپ ختم ہوجائے گا۔ وہ ایسا ہوجائے گا، جیسے کہ وہ تھا ہی نہیں۔ ایسے مسئلے کے لیے صرف یہ کافی ہے کہ آدمی وقتی طور پر چپ ہوجائے۔ جو مسئلہ صرف چپ ہوجانے سے ختم ہوجانے والا ہو، اس میں الجھ کر انسان کیوں اس کو سنجیدہ انداز میں لے، اور اس کو لمبا بنائے۔
دوسرا مسئلہ وہ ہے جو مبنی بر انٹرسٹ ہوتا ہے۔ یعنی ایک آدمی آپ سے اس لیے غصہ ہوتا ہے کہ آپ اس کو وہ چیز نہیں دے رہے ہیں، جو چیز وہ چاہتا ہے کہ اس کو ملے۔ ایسا غصہ بہت دیر پا ہوتا ہے۔ وہ صرف اس وقت ختم ہوتا ہے، جب کہ فریقِ ثانی کو ا س کی مطلوب چیز مل جائے۔ اس طرح کے مسئلے میں دانش مندی کی بات یہ ہے کہ آدمی اصولی طور پر پریکٹکل وزڈم (practical wisdom)کا طریقہ اختیار کرے۔یعنی وہ فوراً یک طرفہ (unilateral)بنیاد پر معاملے کو ختم کردے۔ وہ اس کو اپنے حق(right) کامسئلہ نہ سمجھے۔ بلکہ اس معاملے میں غیر ضروری ٹکراؤ سے بچ کر اپنے آپ کو مزید نقصان سے بچالے۔
ایسے معاملے میں دیکھنے کی چیز صرف یہ ہوتی ہے کہ کیا قابل عمل ہے، اور کیا قابل عمل نہیں۔ جو قابل عمل ہو، اس کو اختیار کیجیے، خواہ بظاہر وہ آپ کے موافق ہو یا آپ کے خلاف۔ ایسے معاملے میں صرف یہ دیکھنا چاہیے کہ نتیجہ کے اعتبار سے کیا طریقہ ممکن ہے، اور کیا طریقہ ممکن نہیں۔ ایسے معاملے میں آپ صرف یہ کیجیے کہ ممکن کو اپنا لیجیے، اور جو عملاً ناممکن ہے، اس کو چھوڑ دیجیے۔ کیوں کہ ناممکن پر اصرار کرنے سے صرف نزاع میں اضافہ ہوتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

صحیح طرزِ فکر

صحیح طرز فکر (right thinking) حکیمانہ طرز فکر کی ایک اعلیٰ قسم ہے۔ اصل یہ ہے کہ ہم جس دنیا میں جیتے ہیں، یا صبح و شام گزارتے ہیں، اس میں چیزیں الگ الگ نہیں ہیں، بلکہ مخلوط (mixed) حالت میں ہیں۔ اس بنا پر بظاہر چیزوں کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چیزوں کے بارے میں صحیح رائے اس وقت قائم ہوتی ہے، جب کہ آپ چیزوں کو الگ الگ کرکے دیکھ سکیں۔ اس تجزیاتی مطالعے کے بغیر آدمی کے اندر صحتِ فکر پیدا نہیں ہوسکتی، وہ مبنی بر واقعہ سوچ کا حامل نہیں بن سکتا۔
مثلاً ایک شخص اپنے بارے میں یا اپنی کمیونٹی کے بارے میں یہی کہے گا کہ ہمارے اوپر ظلم ہورہا ہے۔ اگر اس سے یہ کہا جائے کہ تمھارے باپ دادا کا جو اسٹینڈرڈ تھا، کیا تمھارا اسٹینڈرڈ اس سے کم ہے۔ وہ جواب دے گا کہ نہیں اس سے تو بہت اچھا ہے۔ مثلاً میرے باپ دادا بائیسکل پر سفر کرتے تھے، آج میں کار پر سفر کرتا ہوں۔ میرے دادا کے زمانے میں بچے معمولی مدرسے میں پڑھتے تھے، آج وہ شہر کے ایک اچھے انگریزی اسکول میں پڑھ رہے ہیں۔ میرے دادا کچے گھر میں رہتے تھے، آج میں اور میرے بچے پکے گھر میں رہ رہے ہیں، وغیرہ۔ اب اگر آپ اس سے پوچھیں کہ جب تمھاری فیملی کا اسٹینڈرڈ پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بہتر ہے، تو ظلم کہاں ہورہا ہے۔ اب وہ حیران ہوجائے گا، اور کہے گاکہ میں نے اس اعتبار سے کبھی نہیں سوچا۔
اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اصل مسئلہ کہاں ہے۔ اصل مسئلہ خارج میں نہیں ہے، بلکہ داخل میں ہے۔ لوگوں کے اندر صحیح طرز فکر نہیں ہے۔ اس لیے لوگ شکایت میں جی رہے ہیں، حالاں کہ انھیں شکر میں جینا چاہیے۔ صحیح طرزِ فکر تجزیاتی فکر کا نام ہے۔ اگر آپ کے اندر ڈی ٹیچڈ تھنکنگ (detached thinking)ہو، اگر آپ تجزیاتی انداز میں سوچنا جانتے ہوں، تو آپ درست طرزِ فکرکے حامل بن سکتے ہیں۔
واپس اوپر جائیں

سلیقہ ٔ حیات

مسلم رہنماؤں کی شاید سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ انھوں نے امت کو حرام و حلال کا مسئلہ تو بتایا، لیکن یہ بتانے میں ناکام ہوگئے کہ جینے کا سلیقہ کیا ہے۔ جس طریقہ کو سیکولرزم کہہ کر مسلمان اس سے نفرت کرتے ہیں، وہ کوئی حرام و حلال کی چیز نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ لوگوں کو جینے کا پرامن سلیقہ بتایا جائے۔ زندگی میں یہی کافی نہیں ہے کہ آپ حرام و حلال کو جانیں، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ جینے کا سلیقہ جانیں۔
مثلاً ایک شخص آپ کے رسول کے خلاف کوئی ایسی بات کہے، جو آپ کو پسند نہ ہو تو آپ یہ مت کہیے کہ وہ شاتم ہے، بلکہ یہ کہیے کہ اس کی رائے میری رائے سے مختلف ہے۔ کوئی شخص آپ کی رائے سے الگ اپنی رائے بنائے تو آپ اس کے قتل کا فتویٰ مت دیجیے، بلکہ اس کو صرف اختلاف رائے کے درجے میں رکھیے، اور اس کو پرامن انداز میں سمجھانے کی کوشش کیجیے۔
یہ عجیب بات ہے کہ یہ غلطی ان لوگوں نے کی جو امت میں ٹرینڈ سیٹر (trendsetter)کی حیثیت رکھتے تھے۔ مثلاً ایک بڑے عالم نے ایک کتاب لکھی۔ اس کا ٹائٹل یہ مقرر کیا: الصارم المسلول علی شاتم الرسول۔ اس کتاب نے امت کو یہ اصول دیا کہ جہاں تم دیکھو کہ کوئی شخص تمھارے رسول کے خلاف شتم کر رہا ہے تو اس کے خلاف تلوار لے کر کھڑے ہوجاؤ۔ یہ اصول بلاشبہ اسلام کے دعوتی تصور کے خلاف ہے۔
دعوت وتبلیغ کے اصول کا یہ تقاضا ہےکہ اگر کوئی شخص آپ کو ایسا ملے جو آپ کے پیغمبر کے خلاف کلام کررہا ہو تو آپ اس سے مل کر اس کے نقطۂ نظر کو معلوم کریں۔ اس کو دلیل سے اپنی بات سمجھائیں۔ اس کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کریں، نہ کہ اس کی گردن کو اس کے جسم سے جدا کردیں۔ پر امن طریقہ (peaceful method) درست طریقۂ حیات ہے۔ اس کے برعکس، زور و جبر اور نفرت کا طریقہ سلیقہ مندی کے خلاف ہے۔
واپس اوپر جائیں

ہر انسان کا معاملہ

ہر انسان پر وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ وہ موجودہ دنیا میں نہ رہے۔ ہر آدمی پر وہ وقت آئے گا، جب کہ وہ اپنے آپ کو ایسے حال میں پائے، جہاں ایک طرف اس کی ماضی کی یادیں ہوں، جو اس کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئیں، اور دوسری طرف آگے کی وہ دنیا ہو، جو اس کے سامنے انفولڈ (unfold) ہورہی ہو۔ آج انسان ماضی اور حال کے درمیان جی رہا ہے۔ پھر وہ وقت آنے والا ہے، جب کہ ماضی اور حال دونوں اس کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ وہ ایک بھولی ہوئی کہانی بن کر رہ جائے گا۔ اردو کے ایک شاعر تھے میر تقی میر(1723-1810) ،انھوں نے ایک شعر کہا تھا:
صبحِ پیری شام ہونے آئی میر تو نہ چیتایاں بہت دن کم رہا
یہ شعر انھوں نے اپنے بارے میں کہا تھا، جب کہ وہ عمر کا بڑا حصہ گزار کر اپنے آخری دور میں پہنچ چکے تھے۔ تمثیل کی زبان میں ہر آدمی کے بارے میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پیدا ہوکر وہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچا، اور پھر اس پر موت کا فیصلہ آیا، اور وہ اپنی زندگی کے دورِ اول کو چھوڑ کر اپنی زندگی کے دوسرے دور میں پہنچ گیا۔
زندگی کا یہ سفر کیا ہے۔ انسان کہاں سے آتا ہے، اور وہ کہاں چلا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان ایک آغاز اور ایک انجام کے درمیان ہے۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ یہ آغاز کیا ہے، اور اس کا انجام کیا ہوگا۔ہر انسان کا پہلا کام یہ ہے کہ وہ زندگی کے اِس سفر کے بارے میں سوچے۔ وہ زندگی کی کہانی پڑھ کر اس کی حقیقت کو دریافت کرے۔ وہ جانے کہ زندگی کے سفر میں آج وہ کہاں کھڑا ہوا ہے، اور کل اپنے آپ کو وہ کس مقام پر پائے گا۔
اس دریافت کے بعد ہر آدمی کے لیے دوسرا کام یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کی نتیجہ خیز پلاننگ کرے۔ وہ اپنے آج کو اپنے کل کے لیے استعمال کرے۔ آدمی اپنی زندگی کا ایسا منصوبہ بنائے کہ اس کا حال اس کے مستقبل کے لیے مفید ثابت ہو۔
واپس اوپر جائیں

منصوبہ بند کام

انجینیرٔ س انڈیا لیمیٹیڈ (Engineers India Limited) ایک پبلک سیکٹر کمپنی ہے۔ اس کا قیام 1965 میں عمل میں آیا۔ یہ ایک انٹرنیشنل ادارہ ہے، اس کا ہیڈ آفس دہلی میں ہے۔ یہ ادارہ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات وغیرہ کے میدان میں انجینیرٔ نگ اور ٹکنیکل سروس مہیا کرتا ہے۔ غالباً 1970 ء کی بات ہے، میری ملاقات اس ادارے کے ایک سینئر افسر سے ہوئی۔ وہ گرین پارک (نئی دہلی) میں رہتے تھے۔ بات چیت کے دوران میں نے کہا کہ ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز ہارڈ ورک (hard work) ہے۔ انھوں نے جواب دیا:نہیں، یہ پرانے زمانے کا تصور (concept) ہے۔ آج کے زمانے میں ترقی کے لیے سب سے زیادہ اہم چیز پلاننگ ہے۔ اب ترقی کا راز منصوبہ بندی ہے، نہ کہ صرف ہارڈ ورک۔
یہ نہایت درست بات ہے۔ پہلے زندگی سادہ تھی۔ کام کا دائرہ محدود ہوتا تھا۔ آدمی اپنے قریبی دائرے میں محنت کرکے کمائی کرسکتا تھا۔ مگر آج زندگی کا دائرہ بہت وسیع ہوچکا ہے۔ آج کی سوسائٹی ایک کامپلکس سوسائٹی ہے۔ آج انسان کو مسابقت میں جینا پڑتا ہے۔ آج بہت سے نئے تقاضے وجود میں آئے ہیں، جن کو پورا کیے بغیر کوئی شخص بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکتا۔
مثلاً انڈیا کو لیجیے۔ انڈیا کو 1947 میں آزادی ملی۔ اس کے بعد عام تصور کے مطابق، مسلمانوں کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسے ماحول میں مسلمانوں کے جو رہنما اٹھے، وہ سب کے سب ری ایکشن کی بولی بولنے لگے۔ ہر ایک یہ کہنے لگا کہ مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے، مسلمان امتیاز (discrimination) کا شکار ہورہے ہیں، مسلمان ایک مظلوم کمیونٹی کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔ اس سوچ کے ساتھ آزادی کے بعد پچاس برس تک بہت کام کیا گیا۔ مگر سب کا سب بے فائدہ رہا۔ بظاہر’’ہارڈ ورک‘‘ کے باوجود مسلمانوںکو کوئی فائدہ نہ مل سکا۔
اس کا سبب یہ ہے کہ مسلم رہنما ؤں نے بظاہر ہارڈ ورک تو بہت کیا، لیکن ان کے ہارڈ ورک میں منصوبہ بندی شامل نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف قربانیاں دیتے رہے، لیکن ان کے حصے میں کچھ نہ آیا۔ ا س کا راز یہ ہے کہ مسلم رہنماؤں نے مسلمانوں کو منصوبہ بندی کا طریقہ نہیں بتایا۔ منصوبہ بند کام کا طریقہ یہ تھا کہ مسلم رہنما حالات کا گہرا مطالعہ کرتے۔ وہ یہ دریافت کرتے کہ انڈیا میں قانون فطرت کے مطابق، مسائل (problems)کے ساتھ کیا کیا مواقع پائے جاتے ہیں۔ فطرت کے اس قانون کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا (94:6)۔ یعنی بیشک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔
مثال کے طور پر انڈیا میں مسلمانوں کے لیے بظاہر کچھ مشکلات تھیں، لیکن اسی کے ساتھ انڈیا میں کچھ ایسے میدان تھے، جو پوری طرح مسلمانوں کے لیے کھلے ہوئے تھے۔جیسے ایجوکیشن کا میدان۔ یہ میدان مسلمانوں کے لیے اسی طرح مکمل طور پر کھلا ہوا تھا، جس طرح دوسرے گروہوں کے لیے۔ مگر مسلم رہنماؤں نے انتہائی بے خبری کے ساتھ یہ کیا کہ وہ ریزرویشن کا جھنڈا لے کر کھڑے ہوگئے۔ ان کا نعرہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ریزرویشن دو، کیوں کہ مسلمان اس ملک میں ریزرویشن کے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔ یہ نعرہ فطرت کے قانون کے خلاف تھا۔ کیوں کہ اس دنیا میں کوئی گروہ فیور (favour) کے ذریعے ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ صرف کامپٹیشن میں اپنے آپ کو اہل ثابت کرکے کامیاب ہوسکتا ہے۔
دنیا کے بنانے والے نے اس دنیا کو چیلنج (challenge) کے اصول پر بنایا ہے۔ اس کے سوا ہر دوسرا اصول انسان کا خود ساختہ اصول ہوگا، جو کبھی عمل میں آنے والا نہیں۔ مسلمانوں کے لکھنے اور بولنے والے طبقے کو صرف یہ کرنا تھا کہ وہ مسلمانوں کو چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ منصوبہ بند طریقے سے اپنے آپ کو اتنا زیادہ تیار کریں کہ وہ ہر چیلنج کا مقابلہ مثبت انداز میں کرسکیں۔ یہ طریقِ کار اس وقت کامیاب ہوسکتا ہے، جب کہ مسلمان ری ایکشن اور شکایت کا طریقہ مکمل طو رپر چھوڑ دیں۔وہ اپنی حالت کی ذمے داری خود قبول کریں، نہ کہ اس کو دوسرے کے اوپر ڈالیں۔
واپس اوپر جائیں

چپ کا راز

ایک بار ایک سفر کے دوران میں کسی ایر پورٹ پر تھا۔ وہاں ایک جاپانی مسافر سے ملاقات ہوئی، وہ ایک نوجوان تھا، اور کسی یونیورسٹی میں ریسرچ کر رہا تھا۔ گفتگو کے دوران اس نے کہا کہ میرے ریسرچ کا موضوع خاموشی (silence) ہے۔ پھر اس نے کہا کہ کیا آپ اسلام سے خاموشی کے موضوع پر کوئی ریفرینس بتا سکتے ہیں۔میں نے کہا ، ہاں۔ میں نے کہا کہ اس موضوع پر میں پیغمبر اسلام کا ایک قول آپ کو سناتا ہوں، پھر میں نے یہ حدیث اس کو سنائی: مَنْ صَمَتَ نَجَا (سنن الترمذی، حدیث نمبر 2501)۔ یعنی جس نے خاموشی اختیار کی، وہ نجات پاگیا۔جاپانی نوجوان اس بات کو سن کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اس حدیث کو فوراً اپنی ڈائری میں نوٹ کیا، اور کہا کہ اس حوالے کو میں اپنے تھیسِس میں شامل کروں گا۔
چپ رہنا کوئی سادہ بات نہیں ۔ چپ رہنا دو آپشن میں سے ایک آپشن کو چھوڑنا،ا ور دوسرے آپشن کو اختیار کرنا ہے۔ یعنی بولنے کا آپشن نہ لینا، اورخاموشی کا طریقہ اختیار کرنا۔جب کوئی آدمی ایسا کرتا ہے تو وہ در اصل بولنے کے بجائےسوچنے کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی بات سن کر ان کے تجربے سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ اپنی عقل میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ رد عمل کے طریقے کو چھوڑ کر مثبت عمل کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ جب آپ نہیں بولتے ہیں، تو آپ سوچتے ہیں، اور جب آپ سوچتے ہیں تو آپ اپنے ذہنی ارتقا (intellectual development) میں اضافہ کرتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بولنا آسان ہے، مگر نہ بولنا ایک مشکل کام ہے۔ بولنے کے لیے سوچنے کی ضرورت نہیں۔ جو بھی آپ کے حافظے میں الفاظ ہیں، ان کو دہرانا شروع کردیجیے، اور پھر نطق وجود میں آجائے گا۔ لیکن جب آپ نہ بولیں، تو آپ کا ذہن فوراً سوچنا شروع کردیتا ہے، وہ مختلف باتوں کا موازنہ کرتا ہے۔ وہ حال کے ساتھ مستقبل کو اپنی سوچ میں شامل کرتا ہے۔ وہ اقدام کے ساتھ انجام پر غور کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

انٹلکچول پارٹنر

خاموشی کی صفت کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ کسی عورت اور مرد کے لیے ایک دریافت کا ذریعہ ہے۔ جب آپ نہ بولیں،تو فطری طور پر آپ اپنا انٹلکچول پارٹنر تلاش کرنے لگتے ہیں۔ اس وقت آپ دریافت کرتے ہیں کہ آپ کے قریب آپ کا ایک انٹلکچول پارٹنر ہر وقت موجود ہے۔ یہ آپ کی زندگی کا ساتھی (آپ کی رفیقۂ حیات) ہے۔ اس طرح خاموشی آپ کو ایک نئی دریافت تک پہنچا دیتی ہے۔ حالات کے تقاضے کے تحت مرد اپنی رفیقۂ حیات کو، اور عورت اپنے رفیقِ حیات کو از سرِ نو دریافت (rediscover) کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں اپنا ایک نیا ساتھی دریافت کرتے ہیں، جو اگر چہ ان کے پاس موجود تھا، لیکن وہ اس کو دریافت کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ یہ دریافت بلاشبہ تمام دریافتوں سے بڑی دریافت ہے۔
تبادلۂ خیال (discussion) ایک نہایت قیمتی چیز ہے۔ اس سے آدمی اپنے علم اور تجربے میں اضافہ کرتا ہے۔ اس سے آدمی اپنی شخصیت کو زیادہ بامعنی بناتا ہے۔ اس ڈسکشن کے لیے آپ کے پاس ہر وقت ایک معاون موجود ہے۔ خاموشی کے لمحات آپ کو بتاتے ہیں کہ وہ قیمتی ساتھی آپ کے پاس ہر وقت موجود ہے ۔ آپ اس موقع کو بھر پور طور پر اویل (avail) کیجیے۔
ہر عورت اور مرد کے پاس اس کے رفیقِ حیات کی صورت میں زندگی کا ایک سب سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہے، مگر عجیب بات ہے کہ اسی سرمائے سے تمام لوگ بے خبر رہتے ہیں۔ نکاح کا نظام ایک فطری نظام ہے۔ جو ہر آدمی کو ایک فطری نظام کے تحت یہ موقع دیتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا ایک ساتھی پالے۔ ایک ایسا ساتھی جو اس کا سب سے زیادہ قریبی ساتھی ہو، اور زندگی کے آخری لمحہ تک اس کا ساتھی بنا رہے۔ انسان کو فطری نظام کے تحت ایک ایسا ساتھی درکار ہے، جو اس کے لیے سب سے بڑا راز دارِ حیات ہو، جو اس کے لیے خوشی او ر غم میں شریک ہو، جو ہر صور تِ حال میں اس کا قریبی مدد گار ہو۔ نکاح کا نظام ہر عورت اور مرد کو یہی ساتھی عطا کرتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

ترقی کا سفر

اسلام چھٹی صدی عیسوی کے نصف اول میں عرب میں آیا۔ اس وقت مذہبی جبر (religious persecution)کا زمانہ تھا۔ اس کے برعکس، موجودہ زمانے میں کامل مذہبی آزادی کا دور ہے۔ابتدائی زمانہ میں موجود سبب (age factor) کی بنا پر اسلام کی تاریخ میں کچھ ایسی باتیں شامل ہوگئیں، جو صرف وقتی تھیں، ابدی نہ تھیں۔ آج جو شخص اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کرے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس فرق کو سمجھے، اوراس فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کی منصوبہ بندی کرے۔
مثلاً آج کسی شخص یا جماعت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی کے اوپر تشدد کرے۔ خواہ وہ شخص اس کے مخالف بول رہا ہویا اس کے موافق۔ آج ہر شخص کو کامل آزادی ہے کہ وہ اپنے نقطۂ نظر کا اظہار کرے۔ آزادیٔ اظہار رائے (freedom of expression) آج کا ایک ناقابل تنسیخ حق ہے۔ یہ حق ہر شخص کو کسی پیشگی معاہدے کے بغیر حاصل ہے۔ یہ حق بلاشبہ دور جدید کی بہت بڑی نعمت ہے۔ کسی صاحب مشن کے لیے یہ ایک ایسی نعمت ہے، جو تاریخ میں پہلی بار حاصل ہوئی ہے۔ البتہ اس کی ایک شرط (condition) ہے۔ وہ یہ کہ آپ کامل طور پر پرامن انداز میں اپنا کام کریں۔ کسی دوسرے کے اوپر ہرگز کسی بھی قسم کا تشد د نہ کریں، نہ لفظی اور نہ عملی۔
اس سے بحث نہیں کہ دوسرا شخص اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کون سی زبان استعمال کرتا ہے۔ زبان یا الفاظ کے استعمال کے لیے ہر شخص کو کامل آزادی حاصل ہے۔ مشہور امریکن مقولے کے مطابق،اس کی یہ آزادی صرف اس وقت ختم ہوتی ہے، جب کہ وہ آپ کی’’ناکـ ‘‘کو ٹچ کرے:
Your freedom ends where my nose begins
یہ آزادی اہل مشن کے لیے بلاشبہ ایک عظیم نعمت ہے۔بشرطیکہ وہ ا س کی شرط کو پورا کرتے ہوئے اس کا استعمال کرے۔
واپس اوپر جائیں

آزادی کا دور

ایک مرتبہ مغرب کے ایک سفر کے دوران میری ملاقات ایک مغربی اسکالر سے ہوئی۔ میں نے ان سے پوچھا کہ دنیا میں تہذیب کا دور جو آیا ہے، وہ کیسے آیا ۔ اس نے کہا کہ فرانس میں جمہوریت کا دور آنے کے بعد اس انقلاب کے بعد پہلی بار یہ ہوا کہ اختلاف رائے (dissent) کو ایک ناقابل تنسیخ حق کا درجہ مل گیا۔ جب ایسا ہوا تو دنیا میں آزادیٔ فکر کا دور آگیا۔ اس آزادیٔ فکر سے تمام ترقیاں وجود میں آئیں۔ اس آزادیٔ فکر سے لوگوں کو موقع ملا کہ وہ ہر شعبے میں آزادانہ طور پر تلاش و جستجو کریں، اس طرح علم کے بند دروازے کھل گئے، اور ہر قسم کی ترقیاں بلاروک ٹوک ہونے لگیں۔
ترقی ایک فکری عمل ہے۔ فکری عمل کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کو آزادانہ طور پر اپنا عمل کرنے کا موقع ملے۔ آزادیٔ فکر کے بغیر علم کے تمام دروازے بند رہتے ہیں، جب کہ آزادیٔ فکر کے ماحول میں علم کے تمام دروازے کھل جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں لمبی مدت تک علم کو ترقی نہیں ہوئی۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اہل علم کے لیے آزادانہ جستجو کے مواقع حاصل نہ تھے۔ جدید دور میں جب آزادانہ فکر کے مواقع کھلے تو ہر شخص مسابقت کی دوڑ میں مشغول ہوگیا۔ اس طرح تدریجی پراسس کے تحت علم کی دنیا میں ترقیاں ممکن ہوگئیں۔
علمی ترقی دراصل انسان کے پوٹنشل (potential)کو بروئے کار لانے کا نام ہے، اور پوٹنشل کو بروئے کار لانے کا یہ معاملہ صرف آزادانہ ماحول میں ممکن ہوتا ہے۔ جہاں آزادی نہ ہو، وہاں علمی اور فکری ترقی بھی رک جائے گی۔اس معاملے میں کسی کے خلاف جارحیت ایک ایسی چیز ہے، جس پر پابندی لگائی جائے ۔ اس معاملے میں صحیح اصول یہ ہے کہ جب تک آپ پرامن انداز میں اپنا کام کررہے ہیں،تو آپ کو کامل آزادی حاصل رہے گی، آپ کی آزادی پر باپندی صرف اس وقت لگ سکتی ہے، جب کہ آپ کسی دوسرے شخص کے خلاف جارحیت کا انداز اختیار کریں۔ مثلا ًمارنا، پیٹنا، یا تشدد کرنا، وغیرہ۔
واپس اوپر جائیں

ایک نصیحت

29جولائی 2018 کو ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی۔ ان کو نصیحت کرتے ہوئے میں نے کہا: میری پہلی نصیحت آپ کو یہ ہے کہ اگر آپ کے پاس کوئی اچھا عذر ہو تب بھی آپ اس کو استعمال نہ کیجیے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ فرض کیجیے کہ آپ سے ایک غلطی ہوگئی، اور آپ کا احساس یہ ہے کہ اس کی ایک معقول وجہ تھی۔ ایسے موقعے پر عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ لوگ فوراً عذر پیش کرنے لگتے ہیں کہ فلاں وجہ سے ایسا ہوا، اور فلاں وجہ سے ایسا ہوا— ہوئی تقصیر تو کچھ باعث تقصیر بھی تھا۔
یہ طریقہ مکمل طور پر تر ک کرنا ہے۔ آپ صرف یہ دیکھیے کہ کیا دوسرے لوگ اس کو غلطی بتا رہے ہیں۔ اگر آپ کے نزدیک وہ غلطی نہ ہو، تب بھی فوراً اس کو مان لیجیے۔ کوئی عذر پیش کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرنے کی کوشش نہ کیجیے۔ جب بھی کسی شخص کو آپ سے شکایت ہوجائے تو ہمیشہ اپنی غلطی کو آپ دریافت کیجیے۔ دوسرے کی غلطی بتانے کے بجائے، خود اپنی غلطی کو دریافت کرنے کا طریقہ اختیار کیجیے۔ایسے موقعے پر اگر کچھ اور آپ کی سمجھ میں نہ آئے تو آپ دوسرے شخص کے لیے دعا کرنا شروع کردیجیے۔ یہ بھی نہ ہوسکے تو اپنے آپ سے یہ بتائیے کہ دوسرے شخص نے آپ کے ساتھ جو قابل شکایت بات کی ہے، وہ جان بوجھ کر نہیں کی ہے، بلکہ بے خبری کی بنا پر کی ہے۔
یہ سمجھ لیجیے کہ دوسرے کی غلطی بتانے سے کبھی شکایت کا ماحول ختم نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس، اگر اعتراف کا طریقہ اختیار کریں، تو اس کا فوری فائدہ آپ کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ آپ اور دوسرے شخص کے درمیان چین ری ایکشن (chain reaction) کی صورت حال بننے نہیں پاتی۔ بلکہ بات وہیں کہ وہیں ختم ہوجاتی ہے۔یاد رکھیے، زندگی جینے کے لیے ہے، اور اعتراف کا طریقہ آپ کو یہ موقع دیتا ہے کہ آپ کسی رکاوٹ کے بغیر زندگی کے مواقع کو آخری حد تک اَویل (avail)کرسکیں۔ زندگی ایک چانس ہے۔ کوئی اس کو افورڈ نہیں کرسکتا کہ وہ اس چانس کو کھودے۔ یہ چانس آپ کے دروازے کو صرف ایک بار کھٹکھٹاتا ہے۔
واپس اوپر جائیں

No comments:

Post a Comment